اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 22%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23322 / ڈاؤنلوڈ: 4013
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اسلام اور سیاست جلد(۲)

حضرت آیۃ اللہ مصباح یزدی مد ظلہ العالی

چو بیسواں جلسہ

حکومت کی عظیم منصوبہ بندی ۱

۱۔ حکومت کی ضرورت

ہم نے اسلامی سیاسی فلسفہ کے شروع ہی میں یہ بات عرض کی تھی کہ دوسری حکومتوں کی طرح اسلامی حکومت کے بھی دو بنیادی محور ہوتے ہیں :

۱۔ قانون اور قانونگذاری ۔

۲۔ مدیرت اور قوانین کو نافذ کرنا۔

ہماری گذشتہ بحث پہلے محور پر ہوئی ہے مثلاً قانون کی اہمیت، مطلوبہ قانون کے خصوصیات، اسلام کی نظر میں قانون گذاری، اور اس کے شرائط کے سلسلہ میں بحث ہوئی ، نیز اسی بحث کے ضمن میں مذکورہ سلسلہ میں ہونے والے بعض اعتراضات وشبھات کا بھی جواب دیا گیا۔

لیکن اب ہم دوسرے محور (یعنی مدیریت اور نفوذ قوانین) کے سلسلہ میں بحث کریں گے، اس بحث کے نقشہ کو روشن کرنے کے لئے اس مقدمہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ کسی موسسہ یا سازمان کا ہدف جس قدر واضح اور صاف وشفاف ہوگا اسی مقدار میں اس سازمان کا نقشہ یا اس میں کام کرنے کی شرائط، اسی طرح اس کے منتخب ہونے والے اعضاء کی خصوصیات واضح اور روشن ہوگی اس بنا پر اگر ہم اسلامی حکومت یا حکومت بمعنی خاص یعنی حکومت اسلامی کی مدیریت کے بارے میں بحث کرنا چاہیں اور اس بات کا پتہ لگانا چاہیں کہ اس طاقت کا ڈھانچہ کیسا ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں کون افراد فعالیت اور کارکردگی کرسکتے ہیں اور ان کی خصوصیات اور ان کے اختیارات کیا کیا ہیں ؟

تو سب سے پہلے اسلامی حکومت کی تشکیل کے اہداف اور ان میں بھی اسلامی حکومت کی مدیریت کے ہدف اور مقصد سے آگاہ ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر حکومت کی تشکیل کا ہدف معین اور مشخص نہ ہو تو پھر مدیریت کا ڈھانچہ، اس کے ذمہ دارافراد کی خصوصیات اور ان کے اختیارات واضح نہیں ہوپائیں گے لھٰذا مناسب ہے کہ پہلے حکومت (خاص شکل میں یعنی قوہ مجریہ)کی تشکیل کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں بحث کریں ۔

ان لوگوں کے نظریہ کو نظرانداز کرتے ہوئے جو حکومت کو ضروری نہیں مانتے اکثر فلسفہ سیاسی دانشمند افراد حکومت کو ضروری مانتے ہیں یعنی ان کا ماننا یہ ہے کہ معاشرہ میں ایسی انجمن یا مجموعوں کا ہونا ضروری ہے جو احکامات صادر کریں اور دوسرے افراد ان کی اطاعت کریں ، یا وہ قوانین جن کو معاشرہ قبول کرتا ہے ان کو معاشرہ میں نافذ کریں اور ان قوانین کی مخالفت کرنے والوں کو مخالفت سے روکیں ، یا ان کو مخالفت پر سزا دیں چنانچہ اس بات پر تقریباً سبھی دانشمنداتفاق رکھتے ہیں تجربہ کی بنیاد پر کم و بیش سبھی لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ معاشرہ کو حکومت کی ضرورت ہے اسی طرح اسلام بھی اس نظریہ کو قبول کرتا ہے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے (نھج البلاغہ میں ) فرمایا ہے:یھاں تک کہ اگر معاشرہ میں نیک لوگوں کی حکومت نہ ہو تو ایسے حالات میں ایک فاجر اور برے فرد کی حکومت (حکومت نہ ہونے سے) بہتر ہے

وَإنَّه لٰا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ امیرٍ بَرٍّ اوْ فَاجِرٍ یَعْمَلُ فِی إمْرَتِه الْمُومِنُ وَیَسْتَمْتِعُ فِیْها الکٰافِرُ ۔(۱) “ یعنی لوگوں کے ایک حاکم کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا، تاکہ اس کی حکومت میں مومنین اپنا کام کرسکیں اور کافر اپنا فائدہ حاصل کرسکیں

کیونکہ اگر حکومت یا قوانین کو جاری کرنے والا ضامن موجود نہ ہو تو پھر معاشرہ کا نظام درہم وبرہم ہوجائے گا، جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے حقوق پامال اور معاشرہ کے مصالح وفوائد نابود ہوجائیں گے لھٰذا اسلامی نقطہ نظر سے ”بے حکومتی“ قابل قبول نہیں ہے، بلکہ مومنین کے اہم و واجب وظائف میں سے ایک یہ ہے کہ نیک افراد کی حکومت بنائیں تاکہ معاشرہ کے مصالح اور فوائد تامین اور پورے ہوں ۔

۲۔قوہ مجریہ کے اہداف کے سلسلہ میں مختلف نظریات

اب جب کہ حکومت اور قوہ مجریہ کی ضرورت ثابت ہوگئی تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حکومت اور قوہ مجریہ کے اہداف ومقاصد کیا کیا ہیں ؟جبکہ اس بات کو تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ قوہ مجریہ کا کام قوانین کو نافذ کرنا ہے، پس یہ طے ہوگیا کہ اس کا کام قوانین کو جاری کرناہے، لیکن اب یہ دیکہنا ہوگا کہ وہ قوانین جن کو حکومت نافذ کرنا چاہتی ہے وہ کس طرح کے اور کس ماہیت کے ہونے چاہئیں ؟ چنانچہ اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال پر متوقف ہے اور وہ یہ ہے کہ قانون کا ہدف اور مقصد کیا ہے؟ معاشرہ کو قانون کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ قانون لوگوں کے لئے کس چیز کو مد نظر رکھے؟ اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ قانون کے اہداف و مقاصدکی دو قسمیں ہوتی ہیں :

پہلی قسم: مادی ااغراض و مقاصد۔

دوسری قسم: معنوی اغراض و مقاصد۔

کلی طور پر سیاسی فلسفہ کے بارے میں بحث کرنے والے دانشوروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے مادی مصالح ومنافع کو تامین کرے، لیکن معنوی مصالح کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ آیا قانون کو لوگوں کے معنوی مصالح کو بھی پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ کیا معنوی مصالح کا بھی قانون میں لحاظ کرنا ضروری ہے، اور اس طرح حکومت کو ایسے قوانین کا نافذ کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟

قدیم زمانہ سے بعض فلسفی مکاتب اس نظریہ کو مورد توجہ قرار دیتے تھے کہ حکومت کو لوگوں کے معنوی مصالح کو بھی تامین کرنا چاہئے،اور وہ قانون جس کی حکومت ذمہ دارہوتی ہے اس قانون کو ایسا ہونا چاہئے جو انسانی فضائل کو مد نظر رکھے غیر دینی فلسفی مکاتبمیں بھی یونانی قدیم فلاسفہ مثل ”افلاطون“ (انسانی) فضیلت پر توجہ دیتے تھے، اور حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ انسانی فضائل کے رشد و نموکے لئے راستہ ہموار کرے، چنانچہ اسی لئے کھتے تھے : ”حکومت کرنے کا حق صرف انہیں افراد کو ہے جو حکیم (عالم وعاقل) ہوں ، جو انسانی فضائل کے اعتبار سے دوسرے لوگوں سے بہتر ہوں ، جیسا کہ افلاطون کاکہنا ہے: ”حکیمان باید حاکم بشوند“ (حکماء کو حاکم ہونا چاہئے) لھٰذا غیر مسلمان اور غیر الہی فلاسفہ (وہ لوگ جو آسمان ادیان کے کو نہیں مانتے تھے) کے نزدیک بھی انسانی فضائل اور اخلاق کی اہمیت تھی یہاں تک کہ وہ فلاسفہ جو کسی دین اور مذہب کو نہیں مانتے تھے وہ بھی یہی نظریہ رکھتے تھے کہ معاشرہ میں اخلاقی فضائل اورلوگوں کی اخلاقی رشد ونموہونا چاہئے۔

جس وقت یورپ میں عیسائیت پھیلی اور ”کنسٹانٹین“ روم کا بادشاہ ایک عیسائی ہوا ، اس نے یو رپ میں عیسائیت کو رائج کیا، عیسائیت یورپین ممالک کے تمدن کا قانونی مذہب بن گئی ،دین اور حکومت ایک ساتھ مل گئے اور حکومت کے اہداف میں دینی اغراض و مقاصد کو بھی مد نظر رکھا گیا یعنی جو کچھ عیسائیت نے کھا اس کے قوانین کو جاری بھی کیا گیا۔

لیکن ”رنسانس“ کے بعد مغربی نظریات میں تبدیلی آئی ، جس کی بنا پر انھوں نے اخلاقی مسائل کو حکومت کے دائرہ سے نکال دیا کیونکہ رنسانس اور نوزائی کے بعد یورپ میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں مغربی جدید تمدن کا آغاز ہوا، جس کی سب سے بڑی خصوصیت دین کا حکومت سے جدا کرنا تھا اس دور میں فلاسفہ نے اس سلسلہ میں گفتگو کی، کتابیں لکھیں جس کی بنا پر مختلف فکری مکاتب وجود میں آئے، اور اخلاقی اور معنوی فضائل کو بالائے طاق رکہ دیا گیا۔

انہیں فلاسفہ میں سے ”ہابز“ نامی فلسفی بھی گذرا ہے جس کا نظریہ یہ تھا کہ حکومت کی ذمہ داری صرف ہرج ومرج (بد امنی) پھیلنے سے روکنا نہیں ہے کیونکہ اس کے نظریہ کے مطابق بعض بھیڑیا صفت لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی جان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو نابود کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان بھیڑیا صفت انسان پر کنٹرول کرے اور ان کی درندگی اور ظلم وستم کو روکے، لھٰذا حکومت کا صرف یہی مقصد ہوتا ہے۔

اس کے بعد ”جان لوک“(۲) نے حکومت کے اہداف کوبیان کرتے ہوئے کھا کہ حکومت کی ذمہ داری لوگوں کی ؟اور ان کی حفاظت کرنا ہے، اس کی نظر میں انسانوں کے پاس صرف ایک حکومت کی کمی ہوتی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو پھر معاشرہ کا نظام وجود میں نہیں آسکتا، افرا تفری پھیل جائے گی، امن وامان ختم ہوجائے گا، انسان کی جان ومال خطرہ میں پڑجائے گی جیسا کہ وہ کھتا ہے : ”ھمیں اپنی ضرورت تحت حکومت چاہتے ہیں ، ورنہ تو دوسری چیزوں کا حکومت سے کوئی مطلب وواسطہ نہیں ہے۔“

البتہ دین وحکومت اور اجتماعی مسائل کی جدائی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والے اخلاقی فضائل اور معنوی اقدارکی اہمیت کے قائل نہیں ہیں ، بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ان چیزوں کا حکومت سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ خود عوام الناس کو ان اخلاقی ومعنوی فضائل کی طرف قدم بڑھانا چاہئے: جو لوگ خدا کو مانتے ہیں ان کو چاہئے کہ خود مسجد یا گرجا گھر میں جائیں یا کسی دوسری جگہ پر جاکر خدا کی عبادت کریں ، لیکن اس سلسلہ میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اسی طریقہ سے اخلاقی فضائل جیسے سچ بولنا، نیک کردار، دوسروں کا احترام واکرام کرنا،فقیر وفقراء کی مدد کرنا وغیرہ یہ فضائل قابل قدر ہیں لیکن یہ فردی (ذاتی) مسائل میں شمار ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں خود افراد کو تلاش وکوشش کرنا چاہئے تاکہ اپنے کو ان اخلاقی فضائل سے آراستہ کرلیں ، لیکن ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پس اجتماعی قوانین ، یعنی وہ قوانین جو حکومت کے ذریعہ جاری ہوتے ہیں ان کا ہدف اور مقصد معاشرہ کے امن وامان کو تامین اور ان کی حفاظت کرنا ہے تاکہ لوگوں کی جان ومال؛ ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رہے پس حکومت کی ذمہ داری لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ہے،اور یہ بات کہ حکومت کا مقصد امن وامان قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے مختلف تحریروں میں بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ ”لاک“ کی تحریروں میں جان ومال کی حفاظت کے علاوہ فردی آزادی کو بھی امنیت کا ایک حصہ شمار کیا ہے، یعنی اس نے امنیت میں جان ومال اور آزادی کو بھی داخل کیا ہے، لیکن اخلاقی اور معنوی مصالح کے بارے میں صرف اس بات کو قبول کرتا ہے کہ اجتماعی قانون کو اخلاق کے مخالف نہیں ہونا چاہئے، یا خدا پرستی سے نہ ٹکراتا ہو، لیکن اجتماعی اور حکومتی قوانین پر؛ اخلاقی اقدار ، دینی اقدار کو حفظ کرنے اور معنوی رشد کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ یہ تمام چیزیں حکومت سے متعلق نہیں ہیں ۔

آج کل دنیا کے تقریباً سبھی فلسفی مکاتب میں اسی ”لاک“ کا نظریہ انجیل کا حکم اور بنیادی قانون ہوتا ہے اس کا اصلی نعرہ یہ ہے کہ حکومت کو امن وامان اور آزادی کو برقرار کرنے کے علاوہ دینی مسائل یا اخلاقی فضائل کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

قارئین کرام! مغربی نقطہ نظر اور اسلامی نقطہ نظر میں سب سے بڑا نقطہ اختلاف یہی ہے۔

۳۔ انبیاء (ع) کی حکومت کے اغراض ومقاصد

انبیاء علیہم السلام اور ہمارے نبی اکرم (ص) کا نظریہ خاص طور پر یہ ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ،مادی مصالح اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ معنوی مصالح کوپورا کرنا بھی ہے یہاں تک کہ معنوی مصالح کا پورا کرنا مادی مصالح پر فوقیت رکھتا ہے اور ان پر مقدم ہے یعنی حکومت کو ایسے قوانین جاری کرنا چاہئے جن کا آخری ہدف معنوی ، روحی، اخلاقی اور انسانی مصالح کو تامین (حفاظت) کرنا ہے وہی ‎ مسائل جن کو دین انسان کا آخری ہدف شمار کرتا ہے اور انسانی کمال کو ان سے متعلق گردانتا ہے ، اس دنیا میں انسان کی خلقت اور اس کے لئے انتخاب اور آزادی کی طاقت کا ہونا؛ یہ تمام کی تمام چیزیں اسی وجہ سے ہیں کہ انسان اپنے نھائی اور آخری ہدف کو پہنچان لے اور اسی پر قدم بڑھائے ان تمام مسائل کا محور” قربت خدا “ھے جیسا کہ الحمد لله آج ہمارے اسلامی معاشرہ میں سب پر واضح ہے بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات رائج تھی یہاں تک کہ جو لوگ اس کے صحیح معنی بھی نہیں جانتے لیکن پھر بھی اس لفظ سے مانوس ہیں کیونکہ جاہل اور کم پڑھے لکھے افراد بھی جملہ ”قربة الی الله“ کو زبان پر جاری کرتے ہیں ۔

اب جبکہ یہ بات معلوم ہوگئی کہ انسان کا آخری ہدف خلقت، قربت خدا ہے تو پھر معاشرہ میں ایسے قوانین کا نافذ ہونا ضروری ہے جو اس ہدف تک پہنچانے میں مدد کریں اور انسان کی زندگی بھی اسی سمت آگے بڑھے، اور انسان کے دوسرے حیوانی پہلو کے دوسرے مسائل اسی صورت میں مہم ہوسکتے ہیں جب وہ مسائل انسان کو معنویات اور قربت خدا کی طرف رشد وترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں مددگار ثابت ہوں ۔

اور جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ اجتماعی قوانین کو بنانے کا ہدف مادی مصالح کو تامین کرنے کے علاوہ معنوی مصالح کوتامین کرنا بھی ہے تو پھر ظاہراً حکومت کا مقصد بھی مشخص اور معین ہوجاتا ہے اور حکومت کو بھی صرف لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ہی کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھنا چاہئے؛ بلکہ ان کے علاوہ معنویات کے رشد کے لئے بھی راہ ہموار کرنا نیز اس راہ میں جو چیز مانع اور ضدیت رکھتی ہوں ان کو راستہ سے ہٹانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، حکومت کو صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے تو تمھاری روٹی کے اسباب فراہم کردئے ہیں اور تمھاری جان کی امنیت برقرار کردی ہے،اور بس البتہ یہ ذمہ داری تو سبھی حکومتوں کی ہوتی ہے اور سبھی اس سلسلہ میں متفق بھی ہیں کہ ہر ایک معاشرہ میں ؛ چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی، لائیک ہو یا غیر لائیک اس میں جو بھی حکومت تشکیل پائے تو اس کے لئے امنیت برقرار کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کی جان ومال محفوظ رہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے حکومت اپنی ذمہ دار ی کو صرف اسی چیز میں محدود نہیں کرسکتی بلکہ اس کو اپناسب سے پہلا وظیفہ یہ سمجھنا چاہئے کہ فضائل انسانی ، معنوی والہی رشد کے لئے راستہ ہموار کرے، طبیعی طور پر اس مقصد تک پھونچنے کے لئے امن وامان اور لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے سلسلہ میں امنیت برقرار کرنا ضروری ہوتا ہے، البتہ اس امنیت کا برقرار کرنا ایک مقدمہ ہے نہ کہ اصل مقصد نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ جانی مالی امنیت برقرار کرنا متوسط اہداف میں ہیں نہ نہائی او ر اصلی ہدف، ایک دوسرے طریقہ سے یوں عرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ امنیت بلند وعالی ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اور وہ بلند ہدف معنویات کا رشد ہے پس معاشرہ میں وہ قوانین نافذ ہوں جو نہ فقط دین سے ضدیت نہ رکھتے ہوں اور دین کے مخالف نہ ہوں بلکہ ان کو مکمل طریقہ سے دینی اصول ومبانی سے ہم اہنگ اور موافق ہونا چاہئے، اورانسان کے معنوی اور الہی رشد میں معاون ومددگار ، ان کا دین کے مخالف نہ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ دین کے اہداف میں مددگار ہونا ضروری ہے، یعنی اسلامی حکومت کا کردار نہ صرف یہ کہ ضد دین نہ ہو بلکہ بے دینی اور دینی ضدیت سے مقابلہ کرے اور دینی اہداف ومقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔

لھٰذا اسلامی نقطہ نظر سےحکومت یا قوہ مجریہ کا ہدف، صرف جان ومال کی حفاظت کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مہم تر معنوی مسائل پرتوجہ دینا نھایت ہی ضروری ہے، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر مادی ضرورتیں تامین نہ ہوں ، اور اگر اسلامی احکام جاری ہوں تو پھر آئندہ میں لوگوں کی مادی ضرورتیں دیگر حکومتوں سے بہتر طریقہ پر پوری ہوں گی، لیکن اگر فرض کریں کچھ مدت تک لوگوں کی تمام مادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے دین کے ضعیف ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسے موقع پر ضروری ہے کہ لوگوں کی ان ضرورتوں کو پورا کیا جائے جن سے دین ضعیف نہ ہو، کیونکہ معنوی مصالح مقدم او راہم ہیں لیکن اس سلسلہ میں مغربی ممالک کا نقطہ نظر ہمارے نظریہ سے الگ ہے کیونکہ وہ لوگ فقط مادی مسائل اور مادی اہداف پر توجہ کرتے ہیں اور ان کی حکومت معنوی مصالح کو تامین کرنے کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔

۴۔ لیبرل " Liberal "(آزادی خواہ)نظام میں اجتماعی مشکلات کا اثر

کبھی کبھی بعض لوگ تحریری یا شفاہی طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بھی دینی مسائل پر توجہ دی جاتی ہے کہ وہ لوگ بھی ایثار وفداکاری کرتے ہیں اور اجتماعی مسائل پر توجہ کرتے ہیں ، اگر چہ یہ مطلب صحیح ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مغربی لوگ خود پسندنہیں ہیں اور لیبرل نظریہ کے رائج ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام مغربی لوگ اس نظریہ سے متاثر ہوں ، بلکہ ہماری مراد یہ ہے کہ لیبرل نظریہ اکثر معاشروں پر غالب ہے اور وہ لوگ پیش آنے والے بعض مسائل کی بنا پر ایسے کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے فلسفہ کے خلاف عمل کرتے ہیں یعنی وہ تمام لوگ جو لیبرل نظریہ کو قبول رکھتے ہیں اور خود پسند ہوتے ہیں وہ بھی ضرورتوں کے تحت مجبور ہوتے ہیں تاکہ اجتماعی مسائل پر توجہ کریں اور شورش اور بلوے کے ڈر سے کہ کھیں اکثر لوگ قیام نہ کرلیں ، لھٰذا محرومین کے حقوق کی رعایت کرتے ہیں عملی طور پر بھت سی سوسیالیسٹ " Socialiste " ڈیموکریٹک " Democratic " حکومتیں لوگوں سے حاصل کئے گئے ٹیکس وغیرہ کے کافی حصہ اجتماعی خدمات پر خرچ کرتے ہیں ، جبکہ ان کا مادی فلسفہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کام کو اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ عوام الناس اعتراض نہ کرے، اور امنیت محفوظ رہے اور لوگ قیام وشورش نہ کریں ، ایک دوسرے کی جان کے پیچھے نہ پڑیں ،پس یہ لوگ اپنی مجبوری کی بنا پر اس طرح کی سھولیات فراہم کرتے ہیں ۔

لیبرل نظریہ کیا چاہتا ہے؟ اور اس کے طرفدار کیا کرتے ہیں ؟ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں ، اتفاقاً یہ اعتراض تو خود ان پر(بھی) ہوا ہے کہ تمھارے لیبرالی نظریہ کے تحت تم کو ان مسائل کی رعایت نہیں کرنا چاہئے، پس تم لوگ ایسے کام کیوں کرتے ہو جس سے محروم طبقے کا فائدہ ہوتا ہوجیسے عام لوگوں کے لئے بیمہ اسکیم، یا دوسری سھیولیا ت کا فراہم کرنا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اس لئے ہیں تاکہ سرمایہ داروں اور مالدار لوگوں کا سرمایہ اور پراپرٹی خطرہ میں نہ پڑجائیں ، اور کمیونسٹی اور مارکسسٹی انقلاب رونما نہ ہوجائیں ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مارکسسٹی ممالک میں مارکسسٹی نظریہ آنے سے پہلے یہ نظریہ مغربی ممالک میں رائج ہوچکا تھا اور اپنا اثر دکھا چکا تھا ”مارکس“ نامی دانشمند جرمن کا تھا اور انگلینڈ میں رہتا تھا شروع میں اس کے نظریات اور اس کی کتابیں انگلینڈ میں نشر ہوئیں ،چنانچہ انگلینڈ کے سیاست مداروں نے اس کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد مارکس کے بیان شدہ خطرات پر توجہ کی اور پہلے ہی سے ان کی روک تھام کا بندو بست کیا۔

حزب کارگر اور سوسیالسٹی طرز تفکر جو انگلینڈ میں وجود میں آئے اور انھوں نے جو محروم اورکم درآمد لوگوں کے لئے کچھ پر وگرام رکھے ان سب کا مقصد مارکسسٹی طرز تفکر سے روک تھام تھا؛کیونکہ پہلے ہی سے یہ پیشن گوئی کردی گئی تھی کہ سرمایہ داری کی پیشرفت اور ترقی، لوگوں کی اکثریت کو انقلاب اور شورش کرنے پر مجبور کرسکتی ہے لھٰذا انگلینڈ میں مارکسسٹی انقلاب کو روکنے کے لئے فقیر اور غریب لوگوں پر توجہ کی جانے لگی، اور ان کو اطمینان دلایا جانے لگا اگرچہ ان کا یہ رویہ ”کاپیتالسٹی“ طرز تفکر سے سازگار اور ہم اہنگ نہ تھا، لیکن سرمایہ داروں اور مالداروں کے منافع کے حق میں تھا بھرحال لیبرل نظریہ کا ماحصل یہ ہے کہ حکومت کی معنوی امور کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

ممکن ہے کوئی شخص ہم پر یہ اعتراض کرے کہ مغربی ممالک میں حکومت گرجاگھروں کے لئے ٹیکس لیتی ہے ، تو پھر ان پر دین اور معنویات سے بے توجھی کا الزام کیونکر لگایا جاسکتا ہے ؟!

تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی لیبرالیزم کا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ کام اس لئے کرتے ہیں تاکہ دیندار لوگوں کا دل جیت لیں ، اور حکومت بناتے وقت گرجا گھر کی طاقت سے استفادہ کریں ہماری بحث تو صرف اس میں ہے کہ لیبرل طرز تفکر کا مقصد او رمطلب کیا ہے؟

چنانچہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ان کے نظریہ کے مطابق ؛ دینی مصالح کی تامین اور ترویج کرنا حکومت کی ذمہ داری کے ذمہ نہیں ہے، اور اگروہ حکومتیں بعض مذہبی مصالح پر توجہ کرتی ہیں تو وہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے ہوتا ہے، یہ صرف الکشن میں کامیاب ہونے کے لئے ہوتا ہے اور وہ لوگ دینداروں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دینداروں کے دلوں کو جیت لیں تاکہ ان کو ووٹ مل جائیں ، کبھی کبھی امریکہ میں ووٹنگ کے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض ممبران گرجا گھروں میں جاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اپنے سے مانوس کرلیں ، البتہ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ وہ دین کے طرفدار ہوتے ہیں ۔

۵۔ لیبرل نظام سے لوگوں کی انسیت کی دلیل

اسلامی نقطہ نظر سے معنوی مسائل کا تحفظ ہی ، جو دین کے زیر سایہ امکان پذیر ہوتا ہے وہی ‎ اصل اور اولی اہداف میں سے ہیں اور یہی اسلامی اور دنیا میں رائج دوسرے نظریات میں مہم ترین نقطہ اختلاف ہے، اور ہم حکومت کے سلسلہ میں مغربی ممالک کے تابع نہیں ہوسکتے؛ کیونکہ ان کے اور ہمارے درمیان حکومت کے اہدف کے سلسلہ میں بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے اور اگر ہم (حکومت کے) ہدف ہی کو بھول جائیں تو حکومت کا ڈھانچہ، شرائط ، ذمہ داریاں اور اختیارات عوض ہوجائیں گے۔

در حقیقت بعض لوگوں کے نظریات میں انحراف اور شک وشکوک کا ایجاد ہونا یہاں تک کہ جو لوگ خود غرضی کے بھی شکار نہ ہوں ، جیسا کہ بعض انحرافات اور اعتراضات جو کتابوں اور اخباروں میں بیان ہوتے ہیں ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ انھوں نے اسلامی نظریہ کے تحت حکومت کے قوانین کے اہداف پر توجہ نہیں کی ہے اور نہ ہی اسلامی نظریہ اور دوسرے نظریات کے اختلاف پر توجہ کی ہے انھوں نے اصلِ اسلام کو تو قبول کرلیا ہے واقعاً ایسے لوگ خدا کو مانتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں اور دین کے منکر اور کافر نہیں ہیں ؛ لیکن اجتماعی اور سیاسی عملی میدان میں سو فی صد مغربی ممالک کے تابع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کو یہ کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان کا یہ طریقہ کار اسلامی نظریہ سے ہم اہنگ بھی ہے یا نہیں ؟ اور کھتے ہیں کہ آج کل دنیا میں یہی رویہ رائج ہے لھٰذا ہم بھی اسی رویہ کو اختیار کریں اور اس کی مخالفت (بھی) نہیں کرسکتے آج کی دنیا کا تمدن ، مغربی تمدن ہے، اور لیبرل کلچر حاکم ہے ، لھٰذا ہم اس کی مخالفت نہیں کرسکتے۔!!

لیکن سب سے پہلے ہمیں تھیوری اور نظری لحاظ سے یہ سمجھنا چاہئے کہ اسلام کیا کھتا ہے ، کیا وہ سب کچھ جو مغربی ممالک میں ہوتا ہے، اسلام کی نظر میں آیا وہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ ہم مقام عمل میں دیکھیں کہ اسلام کے دستور العمل کو رائج کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اور اگر بالفرض مقام عمل میں اسلامی قوانین کو عملی جامہ نہیں پھناسکتے تو کم سے کم ہمیں یہ تو پتہ ہونا چاہئے کہ اسلام ؛ لیبرل نظریہ کو قبول نہیں کرتا، لھٰذا ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ غیر اسلامی طریقہ کار کو اسلام کا نام نہ دیں ہم شاہ کے زمانہ میں بھی بعض اسلامی طریقہ کار پر عمل نہیں کرسکتے تھے لیکن یہ جانتے تھے کہ شاہ کی حکومت اسلامی نہیں ہے، اور اس کے بعض کام دین کے مخالف تھے پس اسلام کے احکام کا جاری نہ ہوسکنا اس بات کا سبب قرار نہیں پاسکتا کہ ہم یہ کہنے لگیں کہ اسلام بدل گیا ہے، ہم آج بھی بعض موارد میں اسلام کے قوانین کو جاری کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہی اسلام ہے جو ہم کرتے ہیں ، اسلام کو تو اسی طرح پہنچانیں جیسا وہ ہے اور اگر کسی مقام پر اسلام پر عمل نہیں کرسکتے تو خداوندعالم سے عذر خواہی کریں کہ ہم سے فلاں مورد میں اسلام کے احکام پر عمل نہیں ہوا، اور اگر خدا نخواستہ ہماری غلطی ہے تو ہمیں ملت اسلامی سے عذر خواہی کرنا چاہئے کہ اسلامی قوانین کے نافذ کرنے میں ہم سے غلطی ہوئی پس ہمیں اسلام میں ردّ وبدل اور تغییر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے نیز ہمیں توجہ رکہنا چاہئے کہ اسلام وہی ‎ دین ہے جو ۱۴۰۰ سال پہلے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔

۶۔ اسلامی حکومت کے ڈھانچہ کے سلسلہ میں ایک طریقہ

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کا ہدف؛ معاشرہ میں اسلامی اور معنوی اقدار کو رواج دینا ہے اور اسی کے زیر سایہ مادی مصالح کو پورا کرنا ہے، نہ کہ بالعکس(مثلاً معنوی اقدار کے زیر سایہ مادی مصالح کو پورا کرنا)، تو اب ہم کو یہ دیکہنا ضروری کہ اسلامی حکومت کا ڈھانچہ کیسا ہونا چاہئے اور جو افراد حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں ان کے شرائط کیا کیا ہیں ؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی حکومت میں قوہ مجریہ کی اصلی ذمہ داری قوانین کو نافذ کرنا ہے، اس مطلب پر سبھی اتفاق رکھتے ہیں ؛ اور اسلامی حکومت یعنی وہ سسٹم جو اسلامی قوانین نافذ کرنے کا ضامن اور اسی قانون کے اہداف کو پورا کرناہے تو اب یہ دیکہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو ، چاہے مشرقی اور مارکسسٹی حکومت ہو یا مغربی اور لیبرل حکومت یا دیگر حکومتیں ، ان کے ذمہ دار افراد میں کیا کیا خصوصیات ہونا ضروری ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ کسی بھی حکومت کے ذمہ دار افراد میں کم سے کم دو صفات کا ہونا ضروری ہے:

۱۔قانون کی شناخت:

جو شخص نفوذ قوانین کا ضامن ہونا چاہتا ہے اگر اس کو قانون کا صحیح علم نہ ہو تو پھر وہ کس طرح قانون کو جاری کرسکتا ہے؟ قوانین سے آگاہ او رآشنا ہونا حکومتی افراد کی پہلی خصوصیت ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طورسے نبھاسکے، کیونکہ حکومت قوانین کو جاری کرنے کی ضامن ہوتی ہے تو اگر اس کو قوانین اور دیگر پہلووں کا صحیح علم نہ ہو تو پھر عملی میدان میں غلطی کرسکتی ہے اس سلسلہ میں سب سے بہتر ین طریقہ کار یہی ہے کہ جو شخص حکومت میں سب سے بڑے درجہ پر فائز ہو وہ قوانین پر سب سے زیادہ علم رکھتا ہو اور ان کو اچھے طریقہ سے جانتا ہو، تاکہ اس کی غلطی کا احتمال سب سے کم ہو۔

۲۔قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت:

وہ حکومت جو قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اس کے پاس اتنی طاقت ہو جس کے ذریعہ مورد نظر قوانین کو نافذ کرسکے، اگر کوئی حکومت ۶ ۰/ ملین لوگوں پر بلکہ ایک ارب لوگوں پر (مثلاًچین اور ھندوستان) حکومت کرے اور ان پر احکام اور مقررات کو جاری کرنا چاہے تو اس کے لئے کافی مقدار میں قدرت وطاقت کا ہونا ضروری ہے چنانچہ یہ مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ آج کی دنیا کے بھت سے فلسفی نظریات میں حکومت کو قدرت کے برابر جانتے ہیں اور اسی ”قدرت وطاقت“ کو فلسفہ سیاست کے مہم ترین مفاہیم میں سے ایک مفھوم سمجھتے ہیں بھرحال اس بات پر توجہ رہے کہ حکومت کو صاحب قدرت وطاقت ہونا ضروری ہے۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”طاقت و قدرت “ کیا ہے؟تو مختصر طور پر یہ سمجھئے کہ قدیم زمانہ سے انسانی معاشرہ میں تحویل وتحول کے ساتھ ساتھ قدرت وطاقت کے مختلف معنی کئے جاتے رہے ہیں ، چنانچہ ابتدائی اور سادہ حکومت(۳)

میں عام طور پرحاکم یا قبیلہ کے سردار میں جسمانی قدرت شامل ہوتی تھی، کیونکہ اس زمانہ میں جو شخص حاکم ہوتا تھا اس کی جسمانی قدرت دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہوا کرتی تھی کیونکہ اگر کوئی شخص ایک ھزار افراد پر مشتمل خاندان ہے اوراس پر حکومت کرتا تھا، اور کوئی شخص حاکم کے قوانین کی مخالف کرتا تھا تو اس کو سزا دینے کے لئے حاکم اپنی جسمانی طاقت سے استفادہ کرتا تھا لھٰذا طے یہ ہوا کہ اس زمانہ میں طاقت سے مراد صرف ظاہری اور جسمانی طاقت مراد ہوتی تھی۔

لیکن جب سے انسانی معاشرہ کے مسائل پیچیدہ تر ہوتے گئے اور معاشرہ نے ترقی کی تو اس وقت ایک شخص کی طاقت نے ایک کمیٹی کی صورت اختیار کرلی ؛ یعنی اگر خود حاکم میں جسمانی طاقت کافی مقدار میں موجود نہ ہو تو اس کے پاس ایسے افراد ہونا چاہئے جو جسمانی اعتبار سے بھت زیادہ طاقتور اور قوی ہوں اس حاکم کے پاس طاقتور لشکر ہونا ضروری تھا ، لیکن اس کے بعد جب علم و دانش نے ترقی کی تو پھر قدرت اپنے ظاہری اور فیزیکی شکل سے نکل کر علمی اور ٹیکنالوجی شکل میں تبدیل ہوگئی یعنی گویا حاکم کے پاس ایسے اسلحے وآلات ہوں جن کے ذریعہ بدنی طاقت کا کام لیا جاسکے۔

اگرچہ ایک موقع پر حاکم کو معاشرہ کا ادارہ کرنے کے لئے اس کی جسمانی طاقت ہی کافی تھی لیکن جیسے جیسے معاشرہ نے علم وفن میں ترقی کی اور بھت سے فوجی اسلحہ بنائے تو پھر حکومت کے لئے بھی ضروری ہوگیا کہ وہ بھی فیزیکی ، صنعتی اور ٹکنالوجی خصوصاً فوجی اسلحہ جات کافی مقدار میں رکھتی ہو، تاکہ خلاف ورزی کا سد باب کیا جا سکے، اور اگر کچھ لوگ شورش اور بغاوت کرنا چاہیں تو آسانی سے ان کا سر کچل دیا جائے، یا اگر کچھ لوگ دوسروں کی جان ومال کے لئے خطرہ بن رہے ہوں تو اپنی طاقت کے ذریعہ ان کو روک سکے۔

۷۔ عوام الناس میں حکومت کی مقبولیت ضروری ہے۔

جس طاقت وقدرت کے بارے میں ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیاوہ جسمانی اور فیزیکی طاقت میں منحصر تھی،جو ابتدائی حکومتوں میں ہوتی تھی، اس کے بعد پیشرفتہ حکومتوں میں مورد توجہ ہوتی تھی یہاں تک کہ آج کل اسی معنی میں استعمال ہوتی ہے ، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتیں اپنی طاقتوں کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں ، ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے اسلحہ خانہ کو جدید اور اہم اسلحوں سے بھرلیں تاکہ موقع پڑنے پر ان سے کام لیا جاسکے لیکن یہ توجہ رہے کہ حکومت کی طاقت اور اس کا اقتدار صرف اسی چیز میں منحصر نہیں ہے؛ بلکہ پیشرفتہ معاشرہ میں حکومت کی طاقت کو معاشرہ میں نفوذ اور لوگوں کی مقبولیت کو پہلا درجہ دیا جاتا ہے کیونکہ حکومت اپنے تمام پروگراموں اور اپنی خواہشات کو قوت بازو کے زور پر معاشرہ میں نافذ نہیں کرسکتی؛ اصل یہ ہے کہ عوام الناس اپنی خوشی اور رغبت کے ساتھ مقررات اور قوانین کو قبول کریں اور قوانین کے سامنے گردن جھکائیں لھٰذا طے یہ ہوا کہ جو شخص بھی قوانین کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ٹھھرے یا سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو تو عوام الناس میں اس کی مقبولیت ضروری ہے، اور ظاہری طاقت اور قوتِ بازو کی بنا پر کبھی بھی ایک طولانی مدت کے لئے حکومت باقی نہیں رہ سکتی۔

پس طے یہ ہوا کہ قوانین کا جاری ونافذ کرنے والا طاقتور اور معاشرہ میں مقبولیت رکھتا ہو، یہی وجہ ہے کہ مدیریت میں بد نظمی سے روک تھام اور معاشرہ کے فوائد کو نابودی سے بچانے کے لئے حکومت کے ذمہ دار افراد میں خاص صفات کا ہونا ضروری ہے تاکہ حکومت اور قانون کے اہداف ومقاصد کو پورا کرسکیں ؛ یعنی حقیقت میں حکومت کے ذمہ دار افراد اور قانون کے نافذ کرنے والے ضامن افراد کے لئے ایک خاص صلاحیت کا ہونا ضروری ہے چنانچہ اس بات کو سیاست کے فلسفہ میں مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے جس کو معمولاً اجتماعی مشروعیت اور عام مقبولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی حکومت عقلائی طریقہ کار کو اپنا ئے اور قوانین کو نافذ کرنے میں صحیح طریقہ بروئے کار لائے، اور عوام الناس بھی اس کے لئے قانونی اعتبار کے قائل ہوں قوانین کو نافذ کرنے والے ذمہ دار افراد کے لئے صاحب اقتدار ہونے کے ساتھ ساتھ (تاکہ قوانین کی مخالفت سے روک تھام ہوسکے) عوام الناس بھی ان کے اعتبار کے قائل ہوں اور حکومت کو انہیں کا حق سمجھے۔

قارئین کرام ! خلاصہ یہ ہوا کہ اقتدار کی تین قسمیں ہیں پہلی اور دوسری قسم دوسرے تمام ہی معاشروں میں جانی پہنچانی ہیں ، اگرچہ ان کو جاری کرنے کے سلسلہ میں مختلف قسم کے نظریات اور طریقہ کار پائے جاتے ہیں ، لیکن ہماری نظر میں جس چیز کی زیادہ اہمیت ہے وہی ‎ تیسری قسم کا اقتدار(مقبولیت عام) ہے۔

حوالے:

۱ نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۴۰

(۲) اسی شخص نے مغربی لیبرل " Liberal ")آزادی خواہ)نظریہ کی بنیاد رکھی جو آج کل کی سیاسی گفتگو اور یونیورسٹی وغیرہ میں بیان ہوتی ہے اور کم وبیش سبھی لوگ اس کو قبول کرتے ہیں

(۳)مثلاً ھزاروں سال قبل تقریباً دنیا بھر میں قبائلی حکومتیں ہوا کرتی تھیں

نماز کے بارے میں گفتگو

نماز کے مسائل

ہاں۔ ہم اپنی گفتگو کا آغاز نماز سے کریں گے،میرے والد نے فرمایا: نماز (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے : ”عمود دین“ ہے۔)

ان قبلت قبل ما سواها، و ان ردت رد ماسواها “۔

”اگر نماز قبول ہوگئی تو ہر چیزقبول ہوجائیگی اوراگر وہ ردکردی گئی تو تمام چیزیں رد کردی جائیں گی“میرے والد نے مزیدفرمایا کہ نماز خالق ومخلوق کے درمیان ایک معین وثابت ملاقاتوں کی جگہ ہے اللہ تعالی نے اس کے اوقات ‘اس کے طریقہ‘اس کی صورتوں،اس کی کیفیات کواپنے بندوں کیلئے مقرر کیاہے تم نمازکے دوران اس کے سامنے اپنی عقل وقلب اور اعضاء وجوارح کواس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کھڑے ہوجاؤ اس سے بات اور مناجات کرو پس تم پر لازم ہے کہ مناجات کے دوران صفائے قلب وذہن کے ساتھ اشک ریزی کرو(آنسوبہاؤ) اور شفاف روح کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

اس طرح کہ جیسے اس کے سامنے کھڑے ہو اور اسی کے ساتھ اس کی ملاقات اور اس کے وصال کی لذت وسعادت کی نعمت سے لطف اندوزہوتے ہو اور یہ فطری بات ہے کہ اس کی محبت تم پر خوف کے ساتھ طاری ہوگی کیونکہ تم اپنے ایسے خالق کے سامنے کھڑے ہوگے کہ جوعظیم اور تم پر رحیم ہے اور تمہارے حال پر مہربان ہے‘ اور سمیع وبصیر ہے۔

آپ کے مولا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے رب کی عبادت میں پوری طرح مستغرق رہتے اور ہر وقت اس کی طرف اس طرح متوجہ رہتے کہ جنگ صفین میں آپ کے جسم سے تیر نکالا گیا تو اس کا دردو الم آپ کو اپنے رب کی مناجات سے نہ روک سکا۔

امام حضرت زین العابدین علیہ السلام جب وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد پڑجاتا آپ کے گھروالوں میں سے کسی نے پوچھاآپ کا وضو کے وقت یہ کیا حال ہوجاتا ہے؟تو آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے جارہا ہوں اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کے جسم میں لرزہ پڑجاتا کسی نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :

”میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا چاہتاہوں اور اس سے مناجات کرنا چاہتاہوں تو میرے جسم میں لرزہ پڑجاتاہے “۔

اور جب تمہارے امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام گوشہ تنہائی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو روتے اور آپ کے جسم کے اعضاء میں اضطراب پیدا ہوجاتا اور آپ کے قلب(مبارک) میں خوف خدا سے حزن واندوہ پیدا ہو جاتاتھا۔

اور جب آپ کو ہارون رشید کے تاریک اور وحشتناک قید خانہ میں لے جایا گیا تو وہاں آپ خدا کی اطاعت وعبادت میں مشغول ہوگئے اور اس بہترین وپسندیدہ فرصت کے مہیا ہونے پر اپنے پروردگار کا شکر بجالائے اور اپنے پروردگارکومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں”میں نے تجھ سے عرض کیا تھا کہ مجھے اپنی عبادت کا موقعہ عنایت فرماتو نے میری اس دعا کو قبول کیا لہٰذا میں تیری اس چیزپر حمدوثنا بجالاتاہوں۔

اور میرے والد نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا نماز نفس کی اندرونی خواہش وکیفیت کی ظاہری حالت اور ایسے خدا سے لگاؤ اور ربط کانام ہے جوکائنات کا خالق‘غالب‘ مالک اور سب کا نگہبان ہے۔جس وقت تم اپنی نماز کو شروع کرتے ہوئے (اللہ اکبر ) کہتے ہو تو مادیات اور اس کی راہ وروش اور اسی کی زیب وزینت تمام کی تمام تمہارے نفس میں سے دور ہوجاتی ہے اور تم اکثر مضمحل ہوجاتے ہو کیونکہ تم اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہو کہ جو خالق کائنات اور اس پر غالب ہے جس نے اس دنیا کو اپنی مشئیت کے مطابق مسخر کیا ہے پس وہ ہر چیز سے بڑا عظیم ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اور جس وقت تم سورة الحمد کی قرائت کرتے ہو ایاک نعبدوایاک نستعین تو تم اپنے نفس اور جسم کو اللہ قادرو حکیم کی استعانت کے علاوہ کسی دوسری استعانت کے اثر سے پاک وصاف کرلیتے ہو۔(یعنی صرف اللہ سے استعانت چاہتے ہو کسی اور سے نہیں )اور یہ خشوع کی پسندیدہ عادت ہر روز پانچ مرتبہ حتمی ہوجاتی ہے صبح ظہر،عصر،مغرب،اور عشاء،اور اگر تم چاہو اس میں مستحب نمازوں کا اضافہ کر سکتے ہو۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ نمازیں واجب اور مستحب دونوں ہیں؟

جواب: ہاں کچھ نمازیں واجب اورکچھ دوسری نمازیں مستحب ہیں؟

سوال: واجب نمازیں کو تو میں جان گیا کہ جوہرروزادا کی جاتی ہیں وہ صبح‘ظہر‘عصر،مغرب اور عشاء،ہیں؟

جواب: نہیں فقط یہی نمازیںواجب نہیں ہیں بلکہ کچھ دوسری نمازیں بھی واجب ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ نماز آیات (دوسری نمازکی بحث میں دیکھیے)

۲ نماز طواف حج اور عمرہ کے وقت (حج کی بحث میں دیکھیئے)

۳ نماز میت (میت کے بیان میں دیکھیے)

۴ باپ کی وہ قضا نمازیں جو اس نے پڑھی نہیں ہیں (اس حیثیت سے کہ اس کے بڑے بیٹے پر اس کی موت کے بعد اس کی نمازکی قضا واجب ہے۔)

۵ وہ نماز جو اجارہ یا نذریا قسم یا ان دونوں کے علاوہ واجب ہو جاتی ہے اور وہ نماز مختلف حالات کی بناپر بدلتی رہتی ہے۔

اس کے علاوہ مقدمات نماز پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں

۱ وقت نماز

۲ قبلہ

۳ نماز کی جگہ

۴ نمازی کا لباس

۵ نماز کی حالت میں طہارت

میرے والد نے فرمایا کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ یہ مقدمات نماز یومیہ کے علاوہ دوسری نمازوں میں واجب نہیں ہیں چاہے وہ واجب ہوں یا مستحب، شرط اول (وقت) کے علاوہ تمام شرائط دوسری نمازوں میں واجب ہیں جن کی تفصیل انشاء اللہ بیان کی جاءے گے اور اب تفصیل کے ساتھ اس مقدمات میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ بیان کرتاہوں

سوال: وقت نماز سے شروع کیجئے؟

جواب: ہاں ان مقدمات میں وقت سب سے زیادہ بہتر ہے ۔

۱ ۔ نمازکا وقت

نماز یومیہ کا وقت معین ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی جائز نہیں ہے پس نماز صبح کا وقت صبح (صادق) سے سورج کے نکلنے تک ہے اور نماز ظہرین (ظہروعصر)کا وقت زوال شمس سے غروب تک ہے اور اول وقت ظہر سے مخصوص ہے اور آخروقت عصرسے مخصوص ہے ان دونوں کی ادا کے مقدار کے مطابق ۔

سوال: میں زوال کو کس طرح پہچانوں کہ یہی وہ وقت ہے کہ جس میں نماز ظہرین پڑھی جاتی ہے؟

جواب: زوال کا وقت طلوع شمس اور غروب شمس کا درمیانی وقت ہے لیکن نماز مغربین (مغرب وعشاء کا وقت اول مغرب سے آدھی رات تک ہے پہلا مخصوص وقت نماز مغرب سے ہے اور آخر وقت نماز عشاء سےمخصوص ہے ان دونوں کے ادا کرنے کے مطابق تم نماز مغرب کومشرق کی سرخی زائل ہوجانے کے بعد پڑھ سکتے ہو۔

سوال: یہ حمرہ مشرقیہ کیا ہے(مشرق کی سرخی)؟

جواب: وہ آسمان میں مشرق کی طرف ایک سرخی ہے جوکہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے مقابل ہوتی ہے جب سورج بالکل غروب ہو جاتاہے تو وہ زائل ہوجاتی ہے ۔

سوال: میں کیسے آدھی رات کو معین کروں کہ یہ وقت نماز عشاء کا آخری وقت ہے؟

جواب: سورج کے ڈوبنے اور صبح (صادق) کے نکلنے کا درمیانی وقت نصف لیل یعنی آدھی رات ہے ۔

سوال: اگر رات آدھی یا زیادہ گزرگئی اور میں نے نماز مغربین جان کر نہیں پڑھی تو کیا حکم ہے۔

جواب: تم پر واجب ہے کہ جلدی سے صبح کے نکلنے سے پہلے دونوں نمازوں کو بقصد قربت مطلقہ پڑھو یعنی نماز کی ادا اور قضاء کاذکر نہ کرو۔

سوال: نماز میں جو چیز اہم ہے اس کا لحاظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر نماز کو شروع کرنے سے پہلے اس کے وقت کے داخل ہوجانے کا یقین ہو جانا چاہیے وہ نماز صبح ہویا ظہر یا عصر یا مغرب یا عشاء کی ہو۔

( ۲) قبلہ

نماز کی حالت میں تم پر قبلہ رخ ہونا واجب ہے اور قبلہ وہ جگہ ہے جیسا کہ تم جانتے ہو۔ جہاں مکہ میں کعبہ محترم واقع ہے ،

سوال: اور جب بہت جدوجہد اور ان تمام حجتوں کے بعد بھی جن پر بھروسہ رکھ کرقبلہ کی سمت تعین کیا جاسکتا ہے قبلہ کی سمت کو معلوم کرنے پر قادر نہ ہوسکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھتو۔

سوال: اور اگر ایک سمت کو دوسری سمت پر ترجیح نہ دے سکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھ لو۔

سوال: اور جب میں کسی ایک سمت کے متعلق عقیدہ پیدا کرلوں کہ یہ قبلہ کی سمت ہے اور نماز پڑھ لوں پھر نماز کے بعد معلوں ہوجائے کہ میں نے خطا کی ہے؟

جواب: جب تمہارا انحراف قبلہ سے صرف دائیں یا بائیں جانب کے درمیان ہوتو تمہاری نمازصحیح ہے ،اور اگر تمہارا قبلہ سے انحراف اس قدر زیادہ ہو یا تمہاری نماز قبلہ کی سمت سے برعکس ہو اور ابھی نماز کا وقت بھی نہیں گزرا تو نماز کا اعادہ کرو اور اگر نماز کا وقت گزر گیا ہو تو نماز کی قضا واجب نہیں ہے

( ۳) نمازی کا مکان

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ تمہاری نماز کی جگہ مباح ہو کیونکہ نماز غصبی جگہ پر صحیح نہیں ہے اور غصی جگہ میں وہ چیز شمار ہوگی کہ جس کا خمس واجب ہو اور نہ دیا گیا ہو ،چاہے گھر ہو یا ان دونوں کے علاوہ کوئی اور چیز اور تفصیل کے ساتھ تم کو اس کی شرح (خمس کی بحث میں دی جائیگی) یہاں صرف ضرورت کے تحت اشارہ کردیا ورنہ غفلت، چشم پوشی،لاپرواہی جہنم میں جانے سے نہیں روک سکتی، بہت سے ایسے ہیں کہ جنھوں نے اپنے اموال میں سے حق خدا کو نہ نکالا اور وہ جہنم میں چلے گئے‘

سوال: فرض کیجئے زمین غصبی نہیں ہے لیکن اس پر جو فرش بچھا ہے وہ غصبی ہے تو کیا یہی حکم رہے گا؟

جواب: یہی حکم ہے ،کہ تمھاری نماز اس فرش پر صحیح نہیں ہے میرے والد نے مزید فرمایا کہ تمھارے سجدے کی جگہ پاک ہونی چاہئے ۔

سوال: آپ کامقصد سجدہ کی جگہ سے پیشانی کی جگہ ہے؟

جواب: ہاں صرف سجدے کی جگہ کی طہارت یعنی سجدہ گاہ یا جس پر تم سجدہ کررہے ہو (وہ پاک ہو)۔

سوال: اور نماز کی باقی جگہ مثلاً دونوں پاؤں کی جگہ یاوہ جگہ کہ جس کو نماز میں پورا جسم گھیرے ہوئے ہے؟

جواب: اس میں طہارت شرط نہیں ہے پس اگر سجدے کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ نجس ہو اور اس جگہ کی تری جسم اور لباس تک سرایت نہ کرے تو اس جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے یہاں پھر چندموضوعات باقی رہ گئے ہیں جو نمازپڑھنے والے کی جگہ سے مخصوص ہیں میں ان کو تمہارے لئے چند صورتوں میں بیان کرتاہوں۔

( ۱) نماز میں اور نماز کے علاوہ کسی صورت میں معصومین کی قبورکی طرف پشت کرنا جب کہ پشت کرنے سے بے ادبی ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔

(ب) مرد اور عورت کی نماز صحیح نہیں ہے جب وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے کھڑی ہو مگریہ کہ دونوں کے کھڑے ہونے کے درمیان دس ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہویا، ان دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو مثلاً دیوار۔

جواب: نماز کا پڑھنا مسجدوں میں مستحب ہے مساجد میں سب سے زیادہ افضل نماز کا پڑھنا مسجد الحرام‘مسجد نبوی مسجد کوفہ اور مسجد اقصی میں ہے اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس روضوں میں نماز کا پڑھنا مستحب ہے ۔

(د) عورت کے لئے افضل ہے کہ وہ اپنی نماز پڑھنے کے لئے زیادہ تر ایسی جگہ کا انتخاب کرے کہ جہاں بالکل تنہائی ہواور کوئی نامحرم اس کو نہ دیکھے حتی کہ اپنے گھرمیں بھی ایسی ہی جگہ کا انتخاب کرے۔

۴ ۔نمازپڑھنے والے کالباس اور اس میں چندشرطیں ہیں

لباس پاک ہو اور غصبی نہ ہو لباس کے مباح ہونے کی شرط یہ ہے کہ صرف شرمگاہ کو چھپانے والا لباس مباح ہو اور یہ چیزمردو عورت کے درمیان مختلف ہے مردکے لئے کچھ اندرونی لباس کا مباح ہوناکافی ہے مثلاٌ جانگیہ (کم از کم اتنا لباس مرد کا مباح ہوجب کہ عورت کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کیونکہ نماز میں عورت کے لباس کا دائرہ وسیع ہے اور وہ تمام بدن کا چھپانا ہے،سوائے ان اعضاء کے کہ جو چھپانے سے مستثنی رکھے گئے ہیں (یعنی چہرہ ہاتھ گٹوں تک اور پاؤں کا ظاہری حصہ)۔

ب لباس مردار کے ان اجزاء کا نہ ہو کہ جن میں جان ہوتی ہے جیسے اس حیوان کی کھال کہ جو شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو (اگرچہ وہ لباس اس کی شرمگاہ کو بھی نہ چھپاتا ہو،یعنی نمازی کے ہمراہ ان اجزاء میں سے کوئی چیز نہ ہو)

سوال: کیا اس کھال کی بلٹ میں نماز پڑھنا صحیح ہے کہ جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے خریدی ہوئی ہو یا اسلامی ممالک میں بنائی گئی ہو جب کہ اس کا تذکیہ معلوم نہ ہو؟

جواب: ہاں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

سوال: اور کھال کی وہ بلٹ جو کافر سے لی گئی ہو یا کافروں کے ممالک میں بنائی گئی ہو؟

جواب: ہاں اسمیں بھی نماز پڑھنا صحیح ہے( مگریہ کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ غیر مذ کی حیوان کی کھال سے بنی ہے تو پھر نماز صحیح نہیں ہے)

سوال: جب کہ اس کھال کی بلٹ کے بارے میں یقین نہ ہو مثلا معلوم نہ ہوکہ اصلی کھال کی ہے یا نقلی؟ توکیا حکم ہے؟

جواب: مذکورہ تمام حالات میں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے ۔

الف نمازی کا لباس درندوں کے اجزاء کا بنا ہوا نہ اور اس مقدار میں نہ ہوکہ جس میں شرمگاہ چھپائی جاسکتی ہو اور نہ درندوں کے علاوہ ان جانوروں کا ہو کہ جن کا گو شت نہ کھایا جاتا ہو

ب مردوں کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو،لیکن عورتوں کے لئے خالص ریشم کے لباس میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔

ج مردوں کےلئے خالص سونے کے تاروں کا بنا ہوا لباس نہ ہو یا سونے کے تار اس میں اتنے مخلوط نہ ہوں کہ جس پر سونے کانام صادق آئے ہاں اگر بہت کم سونے کے تارہوں تو کوئی حرج نہیں۔

سوال: اور اگر (سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہوتو مردکا اس کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے اسی طرح مردکے لئے ہمیشہ سونے کا لبا س پہنا حرام ہے۔

سوال : کیا نماز کے علاوہ بھی مرد کو سونا پہننا حرام ہے ؟

جواب : جی ہاں۔

سوال: سونے کے وہ دانت جو بعض مرد بنواتے ہیں اور سونے کی وہ گھڑی جو بعض لوگ جیب میں رکھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ چیزیں جائز ہیں اور ان کے ساتھ ان لوگوں کا نماز پڑھنا جائز ہے

سوال: کسی مرد کو معلوم نہیں کہ اس کی انگوٹھی سونے کی ہے اور وہ اس میں نماز پڑھ لے معلوم ہو لیکن بھول کر نماز پڑھ لے،اور پھر نماز کے بعد اس کو معلوم ہوجا ئے، یا اس کو بتایا جائے،تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس کی نماز صحیح ہے۔

سوال: اور عورتوں کیلئے کیا حکم ہے؟

جواب: ان کے لئے ہمیشہ سونے کا لباس پہننا اور اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

اب نمازی کے لباس میں جواہم چیزہے وہ یہ کہ نماز میں مرد پر شرمگاہ کا کتنا چھپانا واجب ہے تو اس کی مقدار صرف عضوتناسل ،دونوں بیضہ، اور پاخانے کا مقام چھپانا واجب ہے،عورت پر نماز کی حالت میں پورے جسم کا چھپانا واجب ہے یہاں تک کہ بالوں کا بھی چھپانا واجب ہے اگر چہ وہ تنہاہی کیوں نہ ہو،اور اس کو کوئی دیکھ بھی نہ رہا ہو،سوائے اس چہرہ کے کہ جس کو عموماً اوڑھنی نہیں چھپاتی کہ اس کا پلو کاندھے پر ڈالا جائے،اور دونوں ہاتھ کلائیوں تک اور دونوں پیر انگلیوں کے سرے سے گٹوں تک ۔

یہ تمام کے تمام مقدمات نماز تھے میرے والد نے فرمایا نماز خود چند واجب اجزاء کا ایک مرکب عمل ہے اور وہ اجزاء یہ ہیں نیت،تکبیرة الاحرام‘قیام،قرائت،ذکر،رکوع،سجدے،تشھد،اور،سلام ،ان اجزاء میں ترتیب اور موالات کا لحاظ رکھا جائیگا جیسا کہ آپ کو آئندہ معلوم ہوگا۔

سوال: آپ نے نماز کے بیان کو اذان واقامت سے شروع کیوں نہ کیا ؟

جواب: اس سے پہلے کہ آپ کو میں اس سوال کا جواب دوں ضروری ہے کہ آپ کو ان اجزاء کے بارے میں بتاؤں کہ ان میں سے کچھ کا نام ارکان ہے اور وہ نیت، تکبیرة الاحرام‘قیام،رکوع اور سجدے ہیں ۔

میں نے تمام اجزاء میں صرف ان کو خصوصیا ت کے ساتھ اس لئے بیان کیا کہ یہ نماز کے باطل ہونے میں ایک خاصیت رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ان میں سے کوئی عمداً یاسہواًً کم یا زیادہ ہوجائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے لہٰذا یہ اپنے اس نام میں امتیاز رکھتے ہیں۔

اب آپ کے سوال کا جواب دیتاہوں ۔

اذان واقامت نماز پنجگانہ میں مستحب موکدہ ہیں (سنت موکدہ) بہتر ہے کہ نمازی ان کو بجالائے لیکن اگر ترک بھی کردے تو نماز صحیح ہے۔

اس کے بعد میرے والد نے فوراً نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

میں آپ سے تمنا کرتاہوں کہ آپ اپنی پنجگانہ نماز میں اذان واقامت کو ترک نہ کریں ورنہ ان دونوں کا ثواب کم ہوجائے گا۔

سوال: جب میں چاہوں کہ اذان دوں تو کس طرح اذان دوں؟

جواب: تو فرمایا : تم کہو۔

اَللّٰهُ اکبَرُ چار مرتبہ

اشهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اَشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه دو مرتبہ

سوال: اقامت کس طرح کہیں؟

جواب: قامت میں کہیں:

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دو مرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنْ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه ایک مرتبہ

سوال: اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی شہادت؟

جواب: آپؑ کی ولایت کی شہادت رسالت کی شہادت کی تکمیل ہے اور مستحب ہے۔ لیکن اذان واقامت کا جزء نہیں ہے۔

نیت

سوال: اس بناپر کیا اجزاء نماز میں پہلا جزء وہی ہے جوآپ نے بتایا یعنی نیت ؟

جواب: ہاں۔

سو ال : نماز کی نیت کیسے کی جائے گی؟

جواب: نماز میں تمہارا قصد فرمان الٰہی کو بجالانے کے لئے ہو یعنی نماز کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو اور یہ نسبت تذلیلی ہو،چاہتا ہوں تم کو اضافہ تذلیلیہ کے بارے میں واضح طور پرسمجھا ؤں۔

اضافہ تذلیلیہ ( نسبت تذلیلی) ایک ایسا عمل ہے جو افعال عبادی سے قریب ہے‘اس کے ذریعہ انسان میں ایک شعوری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کہ وہ مولائےجلیل سجانہ وتعالی کے سامنے ایک عید ذلیل ہے۔

سوال: کیا نیت کے لئے کوئی لفظ مخصوص ہے؟

جواب: ہرگز نہیں نیت ایک عمل قلبی ہے زبانی عمل نہیں،لہٰذا اس کے لئے کوئی لفظ معین نہیں،اس کا محل قلب ہے اگر تمہارا مقصد نماز میں تقرب الی اللہ نہیں ہے، کہ جس کی تائید تمہارے حرکات کریں گے۔ تو تمہاری نماز باطل ہے۔

دوسرے۔ تکبیرة الاحرام

س یہ تکبیرة الاحرام کیا ہے؟

جواب: تمہارااللہ اکبر کہنا اس حالت میں کہ تم اپنے قدموں پر کھڑے اور اپنی جگہ ساکت ہوکر قبلہ کی طرف رخ کرکے عربی زبان میں اس کو ادا کرو‘کلمہ( اکبر) کی ہمزہ کی آواز کو واضح طور پر اور اسی طرح تمام حروف اپنی زبان پر جاری کرو،اور افضل یہ ہے کہ تکبیرة الاحرام اور سورالحمد کے درمیان تم تھوڑا ساخاموش رہ کر فاصلہ پیدا کرو تاکہ تکبیر کی آخری (راء) سورالحمد سے مل نہ جائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا: حالت قیام میں تم پر تکبیرۃ الاحرام کہنا واجب ہے،اگر میں مریض ہوجاؤں اور اپنے قدموں پر کھڑانہ ہو سکوں،اگرچہ عصا یا دیوار کایا ان دونوں کے علاوہ کسی اورچیز کا سہارا بھی نہ لے سکوں تو میں پھر نمازکس طرح پڑھوں؟

جواب تم بیٹھ کر نماز پڑھو،اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھرلیٹ کر،بائیں کروٹ یا داہنی کروٹ چہرہ کو قبلہ رخ کرکے نماز پڑھوں اور واجب ہے کہ امکان کی صورت میں داہنی کروٹ کو بائیں کروٹ پر مقدم کرو)

سوال: اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟

جواب: تو تم چت لیٹ کر اس طرح کہ تمہارے پاؤں قبلہ کی طرف ہوں نماز پڑھو۔

سوال: جب کہ میں تکبیرة الاحرام کو قیام کی حالت میں کہہ سکتا ہوں مگر اس قیام کو جاری نہیں رکھ سکتا تو کیا کروں؟

جواب: قیام کی حالت میں تکبیر کہو اور باقی نماز کو بیٹھ کریا لیٹ کر جیسا بھی آپ کے لئے مناسب ہوپڑھو۔

تیسرے۔ قرائت

تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورۂ حمد کی قرائت کرو( اور اس کے بعد کسی دوسرے سورة کی کامل قرائت کرو)صحیح قرائت ،اس میں کسی قسم کی بھول چوک نہیں ہونی چاہیے اور سورة توبہ کے علاوہ ہر سورة کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے جیساکہ قرآن مجید میں حکم ہے۔

سوال: اگر سورہ حمد کے بعد دوسرا سورہ پڑھنے کے لئے وقت میں گنجائش نہ ہوتو؟

جواب: دوسرے سورہ کو نہ پڑھو، اور صرف سورہ الحمد کی قرائت کرو، اسی طرح اگر تم مریض ہو اور دوسرے سورہ کو پڑھنے کی قوت نہیں رکھتے یا کسی چیز کا خوف ہویا جلدی ہو تو دوسرے سورہ کو ترک کرسکتے ہو۔

جواب: دونوں سوروّں کو کس طرح پڑھوں ؟

سوال: مرد پر نماز صبح اور مغرب وعشاء میں دو کا با آواز بلند پڑھنا واجب ہے اور نماز ظہرو عصر میں دونوں کا آہستہ پڑھنا واجب ہے۔

سوال: اور عورتوں کے لئے؟

جواب: عورت بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتی،نماز ظہرین میں اس پر واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔

سوال: جب کہ میں نماز میں حکم جہر واخفات (بلند آواز اور آہستہ ) سے جاہل ہوں یا بھول کردونوں سورتوں کو یا ان میں سے کچھ کو بلند آوازمیں پڑھ لیا جبکہ میری نماز ظہرو عصر ہے یعنی میں نے حکم کے خلاف کیا تو کیا حکم ہے؟

جواب: تمہاری نماز صحیح ہے ۔

سوال: یہ پہلی اور دوسری رکعت کے بارے میں تھا، تیسری اور چوتھی رکعت میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کو تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ حمد اور تسبیحات اربعہ پڑھنے کے درمیان اختیار ہے،چاہے جو پڑھو،دونوں حالتوں میں آواز آہستہ ہو یعنی سورہ الحمد یا تسبیحات اربعہ کو آہستہ پڑھو سوائے بسم اللہ کے،کہ تم کو بلند آوازسے پڑھنے کا حق ہے۔ چاہے تم امام جماعت ہویا فردا پڑھ رہے ہو۔

سوال: اگر میں نے تسبیحات اربعہ کو اختیار کیا تو میں کیا پڑھوں؟

جواب: آہستہ آواز میں ایک مرتبہسُبۡحَانَ اللهِ وَالۡحَمۡدُللهِ وَلاَاِلٰهَ اِلاَّاللهُ وَاللهُ اَکۡبَرُ کہنا تمہارے لئے کافی ہے اور تین مرتبہ پڑھنا افضل ہے۔

سوال: کیا یہاں قرائت میں کوئی اور چیز بھی رہ گئی ہے؟

جواب: ہاں قرائت کرتے وقت زیادہ فصیح یہ ہے کہ تم کلمات کو حرکت دو یا آخر کلمات میں جو حرکت ہے اس کو اسی کے اعتبار سے اداکرو پس اگر کلمات کے آخری حروف ساکن ہیں تو حرکت مت لگاؤ اور جب تم کو کسی کلمہ پر وقف کرنا ہو تو زیادہ فصیح یہ ہے کہ اس کے آخری حروف کو ساکن کردو۔

پھر تم پر واجب ہے کہ حرف الف کو ذرا سا کھینچ کر پڑھو اور جب کلمہ ((ولاالضالین )) کو سورہ الحمد کے آخر میں پڑھو تو اس کے الف اور تشدید کو بصورت صحیح ادا کرو۔

سوال اور اسکے بعد؟

جواب: ہمزہ وصل کو اپنی قرائت میں اس وقت حذب کروجب درمیان کلام میں آئے اور کلام کے شروع میں (اس کو پڑھو) حذف مت کرو اور ہمزہ قطع کو اپنی زبان پر اس طرح جاری کرو کہ اچھی طرح آشکار اور واضح ہوجائے۔

سوال: ہمزہ وصل اور ہمزہ قطع کو مثال سے بیان کیجئے؟

جواب: مثلاًہمزہ ”اللہ الرحمن۔الرحیم اھدنا“ میں ہمزہ وصل ہے۔ پڑھنے کے دوران اس کو زبان پر ظاہر مت کرو اور مثلاً” انعمت ایاک“ میں ہمزہ قطع ہے اس کو پڑھنے کے دوران زبان پرواضح طور پر جاری کرو

سوال: پھرکیا؟

جواب: اگر تم چاہو تو سورہ حمد کے بعد سورہ توحید پڑھویا دوسرے سورہ میں سے جو بھی تمہارے لئے آسان ہو اس کو اختیار کرو کلمہ” احد“ کو وقف کرکے اس کو ساکن کرو جب تم آیہ کریمہ((قل هوالله احد )) کو پڑھو یعنی ذرا سا احد پر ٹھہر کر اس کے بعد والی آیہ ((الله الصمد )) میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

نماز میں تمہاری قرائت زیادہ صحیح اور صاف ہونی چاہئے اس کے لئے تم کسی ایسے شخص کے سامنے نماز پڑھو جس کی نماز صحیح اور بہتر ہو،تاکہ وہ تمہاری قرائت اور نمازکو درست اور صحیح کردے،اگر تم پر یہ چیز مشکل ہوتو کم از کم دونوں(سورتوں سورہ الحمد اور اس کے بعد والے سورہ کی قرائت) میں دقت نظر سے کام لیتے ہوئے مشہور قاریوں میں سے کسی ایک کی روشنی میں قرائت کرو‘تاکہ تمہاری غلطی معلوم ہوجائے اگر غلطی معلوم ہوجائے تو اس کو صحیح کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اس چیز سے کہ تم اپنے بچپنے کی جو غلط قرائت ہے اس کو جاری رکھو اور جس وقت تم پر تمہاری غلطی منکشف ہو جا ئےتو اتنا عرصہ گزرجائے کہ چند سال جو نماز تم نے پڑھی ہے وہ ایسی نماز ہوکہ جس کی قرائت صحیح نہ ہو۔

چوتھے قیام

اس کے معنی واضع ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ ذرا سا اشارہ اس کی طرف بھی کروں کہ قیا م نماز کے اجزاء میں سے ایک ایسا منفرد جز ہے کہ جس میں دو صفتیں موجود ہیں اور وہ یہ کہ وہ کبھی رکن نماز ہے جیسے تکبیرة الاحرام کی حالت میں قیام اور رکوع سے پہلے قیام کہ جس کو قیام متصل بہ رکوع سے تعبیر کیا جاتاہے ۔پس ان دونوں قیام پر رکن کے احکام اور خصوصیات مترتب ہوتے ہیں اور کبھی وہ واجبات نماز سے ہے لیکن رکن نہیں ہے جیسے قرائت اور تسبیحات اربعہ کی حالت میں قیام اور رکوع کے بعد والا قیام پس اس صورت میں اس پر واجبات نماز کے احکام جاری ہوتے ہیں جو غیر رکن ہیں ۔

پانچویں رکوع

پھردونوں سوروں کی قرائت کے بعد رکوع واجب ہے۔

سوال: میں کس طرح رکوع کروں؟

جواب: اتنا جھکو کہ تمہارے ہاتھوں کی ہتھیلیاں تمہارے گھٹنوں تک پہونچ جائیں اور جس وقت تم پورے طریقہ سے رکوع میں خم ہوجاؤ تو (سبحان ربی العظیم وبحمد) ایک مرتبہ کہو یا تین بار (سبحان اللہ) کہو یا تین مرتبہ (اللہ اکبر) یا تین مرتبہ ( الحمد للہ) کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر ممکن ہو مثلاً تین مرتبہ تہلیل (لا الہ الا اللہ) کو پھر رکوع سے سیدھے کھڑے ہوکر سجدوں کے لئے خم ہو ۔

چھٹے سجود (دونوں سجدے)

ہر رکعت میں دو سجدے واجب ہیں۔

سوال: میں کس طرح سجدے کروں؟

جواب: اپنی پیشانی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھلیاں اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھو اور سجدہ کرنے میں شرط ہے کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھو جو زمین سے ہو یا زمین سے اُ گتی ہو اور کھانے پہننے کے کام میں نہ آ تی ہو ۔

سوال: ذرا مثال سے سمجھائیے کہ کھانے اور پہننے والی چیزوں پر کیوں سجدہ جائز نہیں؟

جواب: پھل اور ترکاریاں ان پر سجدہ اس لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کھائی جاتی ہیں‘اور روئی اور کتان پر اس لئے سجدہ جائز نہیں کہ وہ پہنی جاتی ہیں ۔

سوال: مثلاً میں کس چیز پر سجدہ کروں؟

جواب: تم مٹی،ریت،کنکری اور لکڑی یا ان (درختوں کے) پتے کہ جو کھائے نہیں جاتے ان پر سجدہ کرو،تم اس کاغذ پر بھی سجدہ کرسکتے ہو کہ جو لکڑی یا روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو سوکھی گھانس اور ان کے علاوہ بہت سی چیزوں پر بھی سجدہ کرسکتے ہو۔

گیہوں،جو،روٹی،تار کول،شیشہ پرسجدہ نہ کرو اور مٹی پر سجدہ کرنا افضل ہے،اور اس سے افضل (تربت حسین خاک شفاء) پر سجدہ کرناہے اس پر سجدہ کرنے سے نماز کی فضیلت وشرف بڑھ جاتاہے۔

سوال: اور اگر میں ان چیز وں کے(جس پر سجدہ صحیح ہے) نہ ہونے کی بناءپر یا خوف کی بناء پران کے علاوہ چیزوں پر سجدہ کروں تو کیا حکم ہے؟

جواب: اگر تم اس چیز کے نہ ہونے کی بناپر کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یاوہ چیز تمہارے لئے فراہم نہیں ہے تو پھرتارکول پر سجدہ کرو،اگر یہ نہ ملے تو پھر جس پر چاہو مثلاً گپڑا، ہتھیلی یا اگر تم تقیہ کی حالت میں ہو،تو پھر تقیہ جس بات کا متقاضی ہو اس پر سجدے کرو۔

میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

یہ بات بھولنا نہ چا ہئے کہ تمھارے سجدہ کی جگہ تمہارے گھٹنوں اور انگوٹھوں کی جگہ کے برابر ہونا چاہئے پس ایک دوسرے کو چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند نہ ہونا چاہئے(اسی طرح تمہارے سجدہ کی جگہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند نہ ہونی چا ہئے)۔

سوال: میں پیشانی دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں پاؤں کے انگوٹھے اور دونوں گھٹنے زمین پر رکھ کر کیا کہوں؟

جواب: تم سجدے میں جانے کے بعد (سبحان ربی الاعلی وبحمدہ) ایک مرتبہ کہو یا سبحان اللہ تین مرتبہ کہو یا اللہ اکبر یا الحمدللہ تین تین مرتبہ کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر اس مقدار کے مطابق کہو پھر اپنے سرکو بلند کرکے اطمینان کے ساتھ بیٹھو،جب تم مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤ تو پھر دوسرا سجدہ کرو اور ذکر سجدے میں سے جو تم کو اوپر معلوم ہو اہو ،اس کو اختیار کرکے پڑھو۔

سوال: اور اگر میں سجدہ میں پورا نہ جھک سکوں کسی مرض کی بناپر مثلاً؟

جواب: جتنا تم جھک سکتے ہو اتنا جھکو اور وہ چیز کہ جس پر سجدہ صحیح ہے اس کو بلند رکھ کرپیشانی اس پررکھواور تمام اعضاء سجدہ کو انکی جگہ پر رکھو۔

سوال: اگر میں اس پر بھی قادر نہ ہوں تو؟

جواب: اپنے سرسے سجدے کی جگہ اشارہ کرو اگر یہ بھی نہ کرسکو تو اپنی آنکھوں سے اس طرح شارہ کرو کہ سجدہ میں جانے کے لئے آنکھیں بند کرو اور اٹھنے کے لئے آنکھوں کو کھول لو۔

ساتویں تشہد

اور ہر نماز کی دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد اور نماز مغرب اور نماز ظہرو عصرو عشاء کی آخری رکعت میں تشہد کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں اس میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کہو:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

تم اطمینان سے بیٹھ کرصحیح صورت میں اس کو پڑھو۔

آٹھویں۔سلام

ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر سلام کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں سلام میں کیا کہوں ؟

جواب: اگر تم اس میں (السلام علیکم) ہی پڑھو تو کافی ہے اور اس میں اگر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضاضہ کردو تو افضل ہے، اور اس سے افضل یہ ہے کہ اس سے پہلے:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّببِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ کهو ۔

نماز کے یہی اجزا ہیں کہ جو مسلسل (ایک کے بعد ایک ادا کئےجائیں گے جس طرح میں نے ان کو تمہارے سامنے گنوایا اور بیان کیا ہے ایک کے بعد ایک ان میں بعض جزءکا تمسک بعض جزء سےہے اس کے اجزاء میں اتنا فاصلہ نہ ڈالا جائے کہ اس سے نماز کی وحدت اور ہیت میں خلل پڑجائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے قنوت کے بارے میں بیان نہیں کیا حالانکہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے نماز میں قنوت پڑھتے ہیں؟

جواب: قنوت نماز پنجگانہ اور دوسری نمازوں میں ایک مرتبہ مستحب ہے،سوائے نماز شفع کے، دوسری رکعت میں دونوں سوروں کے بعد اور رکوع سےپہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو قنوت کے لئے بلند کرو اگر تمہارا ارادہ اس مستحب کام کو کرنے کا ہوتو۔

سوال: کیا کوئی ایسا ذکر معین ہے کہ جس کو میں قنوت میں پڑھوں؟

جواب: نہیں‘تم قنوت میں قرآن کی آیتیں پڑھ سکتے ہوکہ جن میں خداوند عالم سے ایسی دعا کی گئی ہو کہ جس کو تم چاہتےہو،اوراپنے رب سے مناجات اور جو بھی دعاچاہو اس سے کرو ۔

سوال آپ سے مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھے کس طرح نماز پڑھنا چاہئے اور کیا پڑھوں یا نماز کے ہر جزء کو کس طرح انجام دوں اب چاہتا ہوں کہ آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کروں کہ جن سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

سوال: اگر وہ چیز یں مجھ سے سرزد ہوجائیں تو کیا مجھ پر دوبارہ نماز واجب ہے؟

جواب : ہاں میں ان کے بارے میں تم کو بتاتا ہوں ۔

۱ نماز کے ارکان میں سے عمداً نیت یا تکبیرة الاحرام یا رکوع یا سجود وغیرہ کا چھوٹ جانا۔

۲ درمیان نماز نمازی سے حدث صادر ہونا ( اور اگرچہ آخری سجدہ کے بعد سہواً یا اضطراراً بھی حدث صادر ہوجائے)

۳ نمازی کا قبلہ سے عمداً تمام چہرہ یا تمام جسم منحرف ہوجائے۔

سوال : اگر قبلہ سے انحراف اتنا کم ہوکہ جو استقبال قبلہ میں کوئی حرج پیدا نہ کرسکے تو؟

جواب: اس سے نماز میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ مکروہ ہے ۔

۴ جان بوجھ کر نمازی کا بلندآوازسے ایسا ہنسنا کہ جس میں آتارچڑھاؤ ہو(یعنی قہقہہ لگانا)۔

۵ جان بوجھ کر نمازی کا نماز میں امور دنیا کے لئے رونا،چاہے اس میں آواز ہو یا نہ ہو،لیکن امور آخرت کے لئے رونا ہوتو اس میں کو ئی) حرج نہیں ہے۔

۶ نماز کے دوران مصلی کاعمداً کلام کرنا چاہے ایک حرف ہی کیوں نہ ہو‘جب کہ وہ حرف مفہوم رکھتا ہو،چاہے اس سے معنی کے مفہوم کا ارادہ کیا گیا ہو جیسے کہ کہا جائے (قِ) کہ یہ وقی کا فعل امر ہے،یا معنی کے مفہوم کے علاوہ ارادہ کیا گیا ہو،جیسے اگر نماز کے دوران سوال کیاجائے کہ (حروف) ابجد کا دوسرا (حرف) کیا ہے تو تم کہو (ب) اور نماز کے باطل کرنے سےمستثنی ہے، نماز میں سلام کا سلام سے جواب دینا واجب ہے۔

۷ نمازی کا اثنائے نماز میں کھانا پینا(اگرچہ نماز کی شکل وصورت کو ختم نہ بھی کرے)

۸ نماز میں ایسا کام کرنا جو نماز کی شکل وصورت کو بگاڑدے جیسے کپڑے کا سلنایا بننا۔

۹ نمازی عمداً بغیر تقیہ خدا کے سامنے ادب اور خضوع کے قصد سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے، اس کا نام تکفیرہے۔

۱۰ امام کے سورہ فاتحہ ختم کرنے کے بعد (یا فرادا نماز پڑھتے وقت ختم سورہ کے بعد( کلمہ (آمین) عمداً کہنا۔

پھر اس کے بعد ہمارے پاس جو بہتر ین موضوع ہے کہ جس کی طرف میں اشارہ کروں گا وہ نماز میں شک ہے۔

سوال: کیا نماز میں شک کرنا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

جواب: نماز میں شک کرنا تمام حالات میں اورہمیشہ نماز کو باطل نہیں کرتا‘ہاں،بعض شکوک نماز کو باطل کرتے ہیں،اور بعض شکوک قابل علاج ہیں بعض شکوک کی پرواہ نہ کرنی چاہئے وہ مہمل ہیں۔

میں عام طریقہ سے تم کو کچھ عام قاعدہ جو شک کے کچھ حالات کوشامل ہیں بتائے دیتاہوں۔

پہلا قاعدہ

جو بھی نماز کے بعد نماز کے صحیح ہونے میں شک کرے اس کی نماز کو صحیح سمجھاجائے گا۔

سوال: مثلاً؟

جواب: جیسے تم نے نماز صبح پڑھنے کے بعد شک کیا کہ دورکعتیں پڑھی ہیں یا زیادہ یا دوسے کم پڑھی ہے تو ایسی صورت میں تم کہو کہ میری نماز صحیح ہے۔

دوسرا قاعدہ

جو کوئی نماز کے کسی ایسے جزءکے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرےکہ اس کو بجالایا ہے، تو وہ جزء صحیح سمجھا جائے گا،اور نماز بھی صحیح ہوگی ۔

سوال: مثلاً؟

جواب: تم نے اپنی قرائت کی صحت کے بارے میں شک کیا،یا رکوع کے بارے میں یا سجدہ کی صحت کے بارے میں شک کیا قرأت تمام ہونے کے بعد،رکوع یا سجدہ انجام دینے کے بعد، تو تم کہو کہ میری قرائت صحیح ہے میرارکوع میرا سجدہ صحیح ہے پھر میری نماز اس کے بعد صحیح ہے۔

تیسرا قاعدہ

کسی نے نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کے بارے میں بعد والے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک کیا تو بنا اس پر رکھی جائیگی کہ وہ مشکوک جزء بجالایاگیا ہے اور اس کی نماز بھی صحیح ہے بلکہ اگر وہ شرعی طور پر اگلے جز ء میں داخل نہیں ہوا ہے اور بالفرض اگلے جزء میں پوری طرح داخل ہونے سے عمداً خلل انداز ہوا ہے تو بھی صحت پر بنا رکھنا کافی ہے( یعنی اگلے جزء میں ابھی پورے طورسے عمداً داخل ہونے میں دیر کی تو بھی جزء مشکوک کے بجالائے جانے پر بنا رکھی جائیگی)

سوال: مثال سے سمجھائیے؟

جواب: مثلاً تم نے سورہ الحمد کے بارے میں شک کیا کہ پڑھایا نہیں،حالانکہ تم دوسرے سورہ کے پڑھنے میں مشغول ہوتو کہو میں نے اس کو پڑھا ہے اور پھر اپنی نماز کو جاری رکھو اور اسی طرح تم خم ہونے کی حالت میں ہو رکوع کے لئے اور تم کو شک ہوا کہ میں نے سورہ پڑھایا نہیں تو تم کہو کہ میں نے سورہ کو پڑھا ہے،اور اپنی نماز کو جاری رکھو، پس تمہاری نماز صحیح ہے۔

چوتھا قاعدہ

جو زیادہ شک کرے اور شک میں فطری حالت سے زیادہ تجاوز کرجائے تو اس کا شک مہمل ہے وہ اپنے شک کی طرف اعتناء نہ کرے اور نہ اس کی طرف متوجہ ہو پس اس کی وہ نماز کہ جس میں اس نے شک کیا ہے صحیح ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلا تم نماز صبح کی رکعتوں کی تعداد میں زیادہ شک کرتے ہو تو تمہارا یہ شک مہمل ہے تم کہو میری نماز صحیح ہے،اور جب تمہارا یہ شک سجدوں کے بارے میں ہو کہ میں نے ایک سجدہ کیا یا دو، تو کہو میں نے دونوں سجدے کئےہیں،پس اپنے شک کی طرف توجہ نہ دو اور نہ اس کو کوئی اہمیت دو،بلکہ تم اپنی نماز کے صحیح ہونے کا اعتبار کرو اور اسی طرح وہ کثیر الشک کہ جو ہمیشہ نماز میں شک کرتا ہے اس کا شک بھی مہمل ہے اور اس کی نماز کو صحیح اعتبار کیا جائیگا۔۔ہمیشہ ۔۔ہمیشہ

سوال: میں کس طرح پہچانوں کہ میں زیادہ شک کرنے والا ہوں ۔

جواب: کثیر الشک(زیادہ شک کرنے والا) اپنے کو آسانی سے پہچان لیتا ہے اس کے لئے عام لوگوں کے سامنے اس کا کثیرا الشک ہونا ہے(اور وہ تین نمازوں میں شک نہ کرے) اگر وہ تین نمازوں میں پے درپے شک کرے تو اس کے کشیر الشک ہونے کے لئے کافی ہے۔

پانچواں قاعدہ

ہروہ شخص جو نماز صبح کی رکعتوں یا نماز مغرب کی رکعتوں،یا چار رکعتی نمازوں میں سے پہلی اور دوسری رکعتوں میں شک کرے اور اس کا ذہن ان دواحتمالوں میں سے کسی ایک کی طرف ترجیح نہ دے اور نہ اس کا ذہن رکعتوں کے عدد کو معین کرے بلکہ وہ اسی طرح متحیر اور مشکوک رہے،اور رکعتوں کو نہ جانے کہ کتنی ہوئیں تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلاً وہ نماز صبح پڑھ رہا ہے اور اس حالت میں اس کو شک ہوا کہ اس کی پہلی رکعت ہے یا دوسری تھوڑا سوچا اور فکر کیا مگر اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسرے تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: اگر دونوں احتمالوں میں سے اس کے ذہن میں ایک احتمال کو ترجیح حاصل ہوگئی ،تو کیاوہ اپنےذہن کے احتمال کو ترجیح دے کہ وہ پہلی رکعت ہے؟

جواب: اگر اس کے ذہن میں کسی معین رکعت کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اس غالب احتمال کے تقاضہ کے مطابق عمل کرےگا(اس لئے کہ تمہارے سوال میں پہلی رکعت کے رجحان کا احتمال تھا)اس بنا پر وہ دوسری رکعت بجالائے اور نماز کو تمام کرے،اس کی نماز صحیح ہے اور اسی طرح نماز مغرب میں اور چار رکعتی نمازوں کی پہلی اوردوسری کعتوں میں یہی حکم ہے۔

سوال: اب مجھے نماز صبح اور مغرب اور ظہر وعشاء کی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں شک کرنے والے کا حکم معلوم ہوگیا لیکن چاررکعتی نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں شک کرنے والے کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب شک کرنے والے کے ذہن میں کچھ رکعتوں کی تعداد کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اسی ظن کے مطابق عمل کرے گا کہ جس کا ذہن میں رحجان حاصل ہوا ہے۔

سوال: اور اگر وہ اپنے تحیر اور شک پر باقی رہے تو؟

جواب: اس وقت زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں پرہر ایک جگہ کا مخصوص حکم ہے میں یہاں مختصر طور پر کچھ کو بیان کرتا ہوں۔

( ۱) جس شخص نے تیسری اور چوتھی رکعت میں شک کیا اس وقت وہ چار رکعت پر بنا رکھے اور اپنی نماز تمام کرے پھر نماز کے بعد دو رکعت نماز بیٹھ کریا ایک رکعت نماز کھڑے ہو کر پڑھے اس نماز کونماز احتیاط کہتے ہیں۔

( ۲) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت میں اگر کوئی شک کرے (یعنی اپنی پیشانی سجدہ کرنے والی چیز پر رکھے چاہے ابھی ذکر شروع نہ بھی کیا ہو) تو جار پر بنا رکھے اور نماز کو تمام کرنے کے بعد دو سجدہ سہو بجالائے۔

( ۳) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی دوسری اور تیسری رکعت میں شک کرے تو تین پر بنا رکھے اور اس کے بعد چوتھی بجالائے،اس کے بعد نماز کو ختم کرکے (ایک رکعت کھڑے ہو کر) نماز احتیاط پڑھے ۔

سوال: نماز احتیاط کس طرح پڑھی جائیگی؟

جواب: اپنی نماز کو تمام کرنے کے بعد داہنے اور بائیں توجہ کئے بغیر اور مبطلات نماز میں سے کسی مبطل کو انجام دیئے بغیر نماز احتیاط کو شروع کرے تکبیر کہے پھر سورہ الحمد پڑھے (آہستہ) اور اس میں دوسرا سورہ واجب نہیں ہے،پھر رکوع کرے،پھر سجدہ کرے،اگر نماز احتیاط ایک رکعت پڑھ رہا ہے تو تشہد وسلام پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور اگر دورکعت نماز احتیاط واجب تھی تو دوسری رکعت کو،پہلی رکعت کی طرح بجالا ئے۔

سوال: سجدہ سہو جس کو آپ نے ذکر کیا( وہ کس طرح ادا کیا جائیگا؟

جواب: اپنی نماز کے بعد نیت کرو اور سجدہ میں جاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجد ہ میں جانے سے پہلے تکبیر کہو اور سجدہ میںبسم الله بالله السلام علیک ایها النبی ورحمة الله وبرکاتہ پڑھو پھر سجدے سے سراٹھا کر بیٹھو پھر دوبارہ سجدے میں جاؤ پھر سر اٹھاؤ اور تشہدو سلام پڑھ کر سجدۂ سہو کو تمام کرو۔

میرے والد نے مزید فرمایا۔

لیکن سجدہ سہو کے بارے میں فقط یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں سجدۂ سہو چوتھی اور پانجویں رکعت میں شک کرنے کی بناپر واجب ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ دوسری جگہیں بھی ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ لف جب تم نماز میں سہواًیا بھول کر کلام کرو۔

ب جب تم ایسی جگہ سلام بھول کر کہو جہاں سلام کہنے کی جگہ نہیں تھی اور کہو(السلام علیک ایها النبی ورحمة الله ربرکاته یا کهو السلام علینا وعلی عباد الله الصالحین السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته )

ج اگر تم نے بھول کر نماز میں تشہد کو نہ پڑھا تو نماز کے بعد دوسجدۂ سہوبجالاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجدۂ سہو کے ساتھ تشہد کی قضا بھی کرو۔

د (تم کو نماز کے بعد اجمالاً معلوم ہو کہ تمہاری نماز میں کچھ کمی یا زیادتی ہوگئی ہے ساتھ ہی یہ کہ تمہاری نماز محکوم بصحت ہے) تو ایسی صور ت میں دوسجدہ سہو تم پر لازم ہے اور افضل تمہارے لئے یہ ہے کہ اگر تم نماز میں ایک سجدہ بھول گئے ہو تو دو سجدہ سہو بجالاؤ ،اس کے ساتھ ہی بعد نماز اس کی قضا بھی بجالاؤاور ایسے ہی ہے اگرتم بیٹھنے کی جگہ کھڑے یا کھڑے ہونے کی جگہ بھول کر بیٹھ گئے، بلکہ افضل یہ ہے کہ تم اپنی نماز میں ہر کمی وزیادتی کی لئے سجدہ سہو کرو۔

جتنی مرتبہ سجدہ واجب ہوا ہے اتنی ہی مرتبہ اس کو بجالایا جائے یعنی دو مرتبہ یا اس سے زیادہ واجب ہوا ہے تو تم اتنی مرتبہ سجدہ کرو ہماری نماز کی گفتگو جب ختم ہوگئی تو میں نے اپنے والد سے تقاضہ کیا کہ وہ میرے سامنےبطور درس اور تطبیق کے طور پر چار رکعتی نماز کہ جو نماز پنجگانہ میں سے سب سے زیادہ طولانی ہے پڑھیں،تاکہ میں نزدیک سے ملاحظہ کروں کہ میرے والد کس طرح تکبیر کہتے ہیں‘کس طرح قرائت ورکوع وسجود وتشہد اور سلام کو انجام دیتے ہیں،میری اس یاد دہانی کے بعد میرے والد ہر روز مجھ کو سیکھانے کے لئےمیرے سامنے نماز عشاء پڑھتے ہیں اور یہ نماز چاررکعت بلند آواز والی ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب میں خود دیکھوں گا کہ وہ کس طرح نماز پڑھتے ہیں اور جس وقت میرے والد اس بلند آواز والی چاررکعتی نماز کو شروع کرتے تو میں اپنے تمام حواس کو سمیٹ کر نہایت ہوشیاری کے ساتھ ان کی نماز کے تمام حرکات کو دیکھتا اور اب آپ سے بیان کرتا ہوں کہ میرے والد کس طرح نماز پڑھتے ہیں۔

پہلے ا نھوں نے وضوء کیا پھر وہ اپنے مصلے پر روبقبلہ کھڑے ہوگئے وہ خاشع تھے پس انہوں نے نماز کے لئے اذان واقامت کہی پھر نماز کو شروع کیا‘پس انہوں نے اللہ اکبر کہی پھر سورہ الحمد کوپڑھنے کے بعد سورہ قدر کو پڑھا جب وہ سورہ تمام ہوگیا کھڑے ہوئے تھے اور رکوع میں خم ہونے والے تھے اور ‘جب پوری طرح رکوع میں پہنچ گئے تو سبحان ربی العظیم وبحمدہ کہتے ہوئے ذکر کیا اور رکوع کی حالت میں ہی جب انہوں نے ذکر کے آخری حرف کو تمام کیا تو وہ سیدھے اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے اور جب وہ قیام کی حالت میں تھے تو سجدہ کے لئے جھکے اور جب سجدے میں پہنچے توسبحان ربی الا علی وبحمده کہہ کر ذکر سجدہ کیا اور سجدہ ہی کی حالت میں ذکر کے آخری حرف کو تمام کرکے سجدہ سے سراٹھاکر سیدھے بیٹھ گئے پھر دوسرے سجدے کے لئے جھکے پس اس میں بھی وہی ذکر کیا جو پہلے سجدہ میں کیا تھاسبحان ربی الاعلی وبحمده پھر سر کو سجدہ سے بلند کرکے بیٹھے،تاکہ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں،اور جس وقت قیام میں پہونچے تو سورہ حمد اور اس کے بعد اس مرتبہ سورہ توحید کوپڑھا،جب اس کی قرائت سے فارغ ہوئے تو قنوت کے لئے ہاتھوں کو بلند کیا اور قنوت میں قرآن کی اس آیت کریمہ کو پڑھارب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین والمومنات ولاتزد الظا لمین الاتباراً ۔

پھر قنوت سے ہاتھ گراکر رکوع کے لئے خم ہوئے اور جس وقت رکوع میں پہونچ گئے سبحان ربی العظیم وبحمدہ کو پڑھا،پھر سیدے کھڑے ہوئے تاکہ سجدہ کے لئے خم ہوں اور جس وقت سجدہ میں پہونچے تو سبحان ربی الاعلی وبحمدہ کو پڑھا اور جب سجدے سے اٹھ کر بیٹھ گئے تو تشہد کو پڑھا”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد سے فارغ ہوئے تو سیدھے کھڑے ہوگئےتیسری رکعت کے لئے قیام میں پہونچنے کے بعد انھوں نے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کی تسبیح کو تین مرتبہ پڑھا،مگر آہستہ آواز میں‘پھر رکوع سے کھڑے ہوئے اور سجدے کے لئے جھکے اور اس میں وہی پڑھا جو پچھلے سجدوں میں پڑھا تھا سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پھر بیٹھ کر دوسرے سجدے میں چلے گئے پس اس میں بھی وہی پڑھا تھا،پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوئے جو آخری رکعت تھی پس اس رکعت میں وہی تسبیح پڑھی جو پچھلی رکعت میں پڑھی تھی سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کو تین مرتبہ پڑھا ۔

پھر اطمینان سے بیٹھ کر تشہد میں وہی پڑا کہ جو پہلے تشہد میں پڑھا تھا:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد کو ختم کیا تو نبیؐ پر سلام پڑھا:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ“،”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه “

اس طرح میرے والد نے نماز عشاء کو پڑھا‘اسی نماز کے مثل نماز ظہرو عصر ہے کیونکہ وہ دونوں بھی چار رکعت ہیں سوائے اس کے کہ ان دونوں کی پہلی دو رکعتوں میں دونوں سورہ کی قرائت آہستہ آواز میں ہوتی ہے۔

کبھی میں نے اپنے والد کو نماز مغرب کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ان کو نماز عشاء ہی کی طرح نماز مغرب کو پڑھتے ہو ئے پایا ہے مگر یہ کہ تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر وہ تشہد پڑھتے اور سلام کہہ کر اپنی نماز کو ختم کردیتے تھے(چونکہ نمازمغرب کی تین رکعت ہے)

اسی طرح میں نے ان کو نماز صبح بھی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح نماز عشاء پڑھتے ہیں مگر یہ کہ دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد تشہد اور سلام پڑھنے کے بعد نماز تمام کردیتے تھے، کیونکہ نماز صبح دورکعت ہے۔

اسی طرح میرے والد نماز پنجگانہ کو پڑھتے تھے مگر میرے سامنے (نماز عشاء کے علاوہ) اور نمازیں نہ پڑھتے کہ جن کو دیکھ کر محفوظ کرتا،اور ان کے بارے میں کچھ سوچتا اب میں آپ کے سامنے اپنے والد کی نمازوں کی بعض خصوصیات کو بیان کروں گا،وہ نیچے دی ہوئی خصوصیات کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔

۱ نماز کو اول وقت پڑھنے کے زیادہ حریص ہیں (اور پابندی وقت کا خاص خیال رکھتے ہیں) پس وہ نماز ظہر کو مثلاً جب ظہر کا وقت (زوال) ہوتا ہے پڑھتے ہیں اسی طرح نماز مغرب کو اول وقت پڑھتے ہیں اورایسےہی تمام نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر پڑھتے ہیں اور جس وقت میں نے نماز کو اول وقت پڑھنے کی جلدی کا سبب پوچھا تو انھوں نے جواب میں امام صادق علیہ السلام کی حدیث کو بیان فرمایا کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایاہے۔

اول وقت کی فضیلت آخر وقت پر ایسی ہی ہے جیسے آخرت کو دنیا پر فضیلت ہے فضل الوقت الاول علی الاخیر کفضل الا خرة علی الدنیا ۔

۲ اورجس وقت اپنے پروردگار کے سامنے نماز پڑھنے کے لئےکھڑے ہوتے تو آپؑ پر خضوع وخشوع وتذلل کے آثار ظاہر ہوجاتے اور کبھی کبھی اپنے نفس سے سوال وجواب کرتے،لیکن ذرا بلند آواز سے( قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔)

گویا نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتے ہیں اسی طرح اپنے قلب کو نماز میں اللہ کے لئے خشوع کی اہمیت کو بتاتے ہیں۔

۳ اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہیں تو اس سے پہلے دورکعت نماز پڑھتے،اور ظہر کی نماز سے پہلے آٹھ رکعت، دودورکعت کرکے مشل نمازصبح کے پڑھتے،اور اسی طرح عصر کی نماز سے پہلے اتنی ہی مقدار میں نماز پڑھتے اور نماز مغرب کے بعد دو دورکعت کرکے مثل نمازصبح کے چار رکعت نماز پڑھتے اور عشاء کے بعد دورکعت نماز بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ میں نے ان نمازوں کے بارے میں معلوم کیا تو فرمایا(وہ نوافل)ہیں کہ جن کے متعلق امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:نوافل کا پڑھنا مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

۴ جملہ (اللہ اکبر) کے کلمہ (اکبر) میں جو ہمزہ ہے وہ ھمزہ قطع ہے پس جس وقت بھی تم تکبیر کہو تو تمہارے اوپراس ھمزہ کا واضح اور آشکار کرنا واجب ہے جس وقت میرے والد نے یہ فرمایا:تو میں نے ڈرتے ہو ئےان سے ایک مرتبہ کہا بعض لوگ اس ہمزہ کو واؤ کے مشابہ ادا کرتے ہیں جیسے کہ یہ جملہ اللہ اکبرہو۔)

تو فرمایا: کہ ان کی طرح ادا کرنے سے تم بچو کیونکہ وہ غلطی پر ہیں اور میرے والد نے مزید فرمایا: سورہ فاتحہ کی آیت (صراط الذین انعمت علیہم) میں (انعمت) کے ہمزہ کو ادا کرنا تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت اپنی زبان پر صاف واضح اور آشکار ادا کرو،اور اس جیسے تمام ہمزہ جیسے الاعلی کا ہمزہ کہ جو سجدہ میں سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پڑھتے ہیں ہمزہ قطع ہے،تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت زبان پر واضح وروشن ظاہر کرو۔

۵ میرے والد نے فرمایا جب تم سورہ توحید کی آیہ کریمہ (قل ھواللہ) کی تلاوت کرو تو کلمہ(احد) کی دال پر وقف کرو‘پھر اس کے بعد والی آیت (اللہ الصمد) کی تلاوت سے پہلے تھوڑا ٹھہرو ،یہ تمہارے لئے سہل اور آسان ہے۔

۶ میرے والد اپنی نماز میں کلموں کے آخر کو حرکت دیتے تھے جب کہ وہ اپنے کلام اور ذکر کو آگے بڑھاتے اور جاری رکھتے اور اسی کے ساتھ جب کہیں روکنا چاہتے تو کلمہ کے آخری حرف کو ساکن کردیتے تھے۔

۷ میں نے اپنے والد سے ایک مرتبہ سوال کیا جب آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے ہیں تو میں نے آپ کو (رحمٰن) کے نون کو زیرکے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے،اوراسی طرح (الرحیم) کی (میم) کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے اور آپ الرحمٰن الرحیم،مالک یوم الدین سورہ حمد کی بھی اسی طرح تلاوت کرتے ہیں حالانکہ اکثر لوگوں کو میں نے پیش کے ساتھ پڑھتے ہو ئےسنا ہے۔اسی طرح جب آپ سورہ حمد میں خداوند عالم کے اس قول ایاک نعبد کی قرائت کرتے ہیں تو کلمہ(نعبد)کی (ب)کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جب کہ اکثر لوگ نماز کی حالت میں اس کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔

انھوں نے کہا تم نے نحو اور اس کے قواعدکو نہیں پڑھی ہے؟

میں نے کہا :میں نے نحو پڑھی ہے مگر اتنی مشکل نہیں۔

انھوں نے فرمایا: نحو کے علماء (الرحمن الرحیم)کے دونوں کلموں کی حرکت میں کیا کہتے ہیں؟

میں نے کہا وہی زیر جیسا کہ آپ نے فرمایا ۔

تو انھوں نے کہا: قرآن کریم کا ایک نسخہ میرے پاس لاؤ پس میں نے کتاب اللہ کا ایک نسخہ جومیرے قریب تھا اٹھا کر ان کو دیا۔

انھوں نے فرمایا: سورہ حمد نکالو اور اس کو دیکھو،پس میں نے سورہ حمد کو نکالا تو (الرحمن الرحیم) کے دونوں کلموں کے آخر میں زیر تھا اور (ایاک نعبد) کے کلمہ کی (باء) پر زیر نہیں ہے میں نے کہا جس طرح آپ نے پڑھا ہے ویساہی ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح کتاب خدا میں (حرف)پر حرکت ہے اسی طرح پڑھو اور جو غلط قرائت مشہور ہے اس سے محفوظ رہو۔

۸ اور میرے والد رکوع اور سجودمیں ذکر اس وقت تک نہیں پڑھتے جب تک ان میں جاکر ٹھہرنہ جائیں اور اپنے سر کو بلند نہیں کرتے مگر ذکر کے تمام کرنے کے بعد۔

۹ اور جب اپنے سر کو پہلے سجدہ سے اٹھاتے ہیں تو تھوڑی دیر بالکل ٹھیک سے بیٹھ کر دوسرے سجدے میں جاتے ہیں اور اسی طرح وہ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کرتے ہیں،یعنی بیٹھتے ہیں پھر بعد والی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

۱۰ میں نے ان سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ میں آپ کو دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں کہ آپ اپنےلئے اپنے والدین اور تمام برادران مومنین کے لئے نماز کے بعد دعا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے۔

”من دعا لاخوانہ امن المومنین و المومنات و المسلمین و المسلمات و کل اللہ بہ عن کل مومن ملکا یدعو لہ“

جو شخص اپنے مومن،مومنہ اور مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرے خداوندعالم ہر مومن کے بدلے اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کے لئے دعا کرتارہتاہے ۔

۱۱ میں نے سوال کیا کہ میں آپ کو ہر فریضہ کے بعد تسبیح پڑھتے دیکھتا ہوں،آپ نے فرمایا:ہاں وہ تسبیح زہرا علیہا السلام ہے اور یہ تسبیح جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہ زہرا(س) کو تعلیم کی تھی اور وہ (اللہ اکبر ) ۳۴/ مرتبہ (الحمدللہ) ۳۳/ مرتبہ (سبحان اللہ) ۳۳ / مرتبہ ہے پس ان سب کی تعداد سوہوگی ۔

سوال: کیا تسبیح زہراء(س) کی فضیلت ہے؟

جواب: ہاں، امام صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے ابی ہاورن مکفوف سے فرمایا اے ابا !ہاورن ہم اپنے بچوں کو تسبیح زہراء پڑھنے کا اس طرح حکم دیتےہیں جس طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں پس اس کا پڑھنا لازم ہے پس جس بندہ نے اس کو لازمی طور پر نہیں پڑھا اس نے(ہم سے) شقاوت کی۔

۱۲ کبھی کبھی میرے والد نماز ظہر کے بعد عصر پڑھتے یا نماز مغرب کے بعد فوراً عشاء پڑھتے اور کبھی دو نمازوں کے درمیان فاصلہ ڈال دیتے نماز ظہر کے بعد اپنے ضروریات کو انجام دیتے اور جب نماز عصر کا وقت آتاتو نماز عصر پڑھتے اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی فاصلہ سے پڑھتے ۔

اور جس وقت میں ان سے اس بارے میں معلوم کرتا تو فرماتے تم کو اختیار ہے چاہے ان دونوں کے درمیان فاصلہ ڈالو یا بغیر فاصلہ کے پڑھو۔

۱۳ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ جب آپ سورہ قدر پڑھتے ہیں تو میں سنتا ہوں کہ آپ (انانزلناہ فی لیلة القدر) کو پڑھتے وقت حرف لام کو ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کو اصلاً ظاہر نہیں کرتے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ حرف لام موجود ہی نہیں ہے،وہ (انزلناہ) پڑھتے ہیں اورسبحان ربی العظیم وبحمده کو جب آپ پڑھتے ہیں تو سبحان کی سین کو پیش اور (ر)کو زبر پڑھتے ہیں حالانکہ میں بہت لوگوں سے سنا ہے جو آپ کی طرح نہیں پڑھتے؟

آپ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ تم اپنی قرائت کی طرف متوجہ رہو۔

دوسری نمازوں کے بارے میں گفتگو

دوسری نمازوں کی گفتگو کا وقت آنے سے پہلے میں ان چیزوں کے بارے میں نظر ثانی کرنے لگا کہ جو پہلی نماز کی گفتگو میں زیر بحث آئی تھیں تاکہ اپنے حافظہ کا امتحان لوں کہ کتنا مجھے یاد ہے تاکہ اس چیز کے بارے میں اپنے والد سے معلوم کروں کہ جس کو میرے ذہن نے یاد نہیں رکھایا جس کو سمجھا نہیں ہے اور ابھی ہماری نماز کی بحث بھی جاری ہے۔

میرے والد جب تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے ایک ایسا سوال کرنے سے پہل کی کہ میں اس کا جواب نہ دے سکا میں نے ان سے عرض کیا کہ:

سوال: کیا نماز عشاء کو میں دورکعت پڑھ سکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ وہ چار رکعتی نماز ہے لیکن میں نے آپ کو دورکعت پڑھتے دیکھا ہے؟

والد کیا ہم سفر میں تھے؟۔

جی ہاں۔

والدیہ صحیح ہے پس چار رکعتی نمازنماز ظہر عصر عشاء سفر میں دو رکعت ہوجاتی ہیں جب کہ نیچے بیان کی ہوئیں ان میں قصر کی شرطیں پائی جائیں۔

۱ جب کسی شخص کے سفر کا قصد اپنے رہنے کی جگہ تقریباً(کلو میڑ) یا زیادہ ہو،چاہے یہ دوری فقط جانے کے لئے ہو یا آنے جانے کے لئے ہو۔

سوال: مجھے وضاحت کے ساتھ بتائیے؟

جواب: جب مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے جو تمہارے وطن سے( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ دور ہوتو اس پر اپنی نماز میں قصر واجب ہے،اس طرح کہ وہ چار رکعت والی نماز کو فقط دورکعت پڑھے اور اسی طرح کوئی مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے کہ جس کی مسافت اس کے وطن کی جگہ سے ( ۲۲ کلو میڑ) ہو اور اسی روز اس کی واپسی کا بھی ارادہ ہو تو اپنی نماز کو قصر کرے گا۔

سوال: کس جگہ سے سفر کی ابتداء کا حساب کیا جائیگا؟

جواب: سفر کی ابتداء کا حساب شہر کے آخری مکان سے کیا جاتاہے۔

۲ مسافر اپنے سفر کے ارادہ پر باقی رہے،اگر درمیان سفر اپنی رائے بدل دے تو پھر نماز پوری پڑھے گا مگریہ کہ اس کا ارادہ اپنے وطن کی طرف لوٹنے کا ہو اور اس کا یہ طے کیا ہوا راستہ آنے جانے کو ملا کر قصر کی مسافت کی مقدار تک پہنچ گیا ہو تو پھر اس پر نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے۔

۳ مسافر کا سفر جائز ہو پس اگر اس کا سفر حرام (کام کے لئے) ہو جیسا کہ بعض حالات میں زوجہ کا بغیر شوہر کی اجازت کے سفر کرنا یا اپنے سفر میں حرام کام کا ارادہ ہو مثلاًچوری کا،تو ایسی حالت میں وہ پوری نماز پڑھے اور اسی سے ملحق اگر کوئی تفریح کے قصد سے شکار کو جائے تو بھی نماز پوری پڑھے۔

۴ مسافر اپنے وطن سے نہ گزرے یا وہاں اثنائے سفر قیام نہ کرے یا جس شہر کی طرف سفر ہے اس میں دس ( ۱۰) روز رہنے کی نیت نہ کی ہو،یا کسی شہر میں ایسا متردد نہ ہو کہ یہاں سے کب جائیگا اور اس طرح اس کو تیس( ۳۰) روز تردد میں گزر گئے ہوں تو ایسی صورت میں اول سفر سے تیس ( ۳۰) دن تک نماز قصر پڑھے گا،پوری نہیں۔

سوال: اور جب اپنے وطن یا اپنے ٹھہرنے کی جگہ سے اثنائے سفر گزرے اور وہاں اترے یا جس شہر کی طرف سفر کیا ہے وہاں دس دن یا زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو یا ایسی جگہ گیا ہو جہاں سے وہ واپس لوٹنے میں متردد ہو اور اس طرح اس کو وہاں تیس ( ۳۰) دن گزر گئے ہوں تووہ ان جگہوں پر کون سی نماز پڑھے گا؟

جواب: ان جگہوں پر وہ پوری نماز پڑھے گا مگر جو شخص سفر سے واپسی میں متردد ہو (تووہ تیس( ۳۰) دن تک قصر نماز پڑھے گا )تیس ( ۳۰) دن بعد پوری نماز پڑھے گا ۔

۵ کسی کا سفرکرنا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور۔ملاح۔ چرواہ یا وہ بار بار کسی دوسرے کام کے لئے سفر کرے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈرائیور اثنائے سفر پوری نماز پڑھے گا؟

جواب: ہاں جس کا پیشہ ڈرائیوری ہوتو اگر وہ ( ۴۴ کلومیڑیا زیادہ) مسافت طے کرے تو وہ اپنے کام(ڈرائیوری )کے دوران پوری نماز پڑھے گا۔

سوال: تاجر،طالب علم،ملازم جب کسی شہر میں مقیم ہوں اور کسی دوسرے شہر میں ‘یونیور سٹی۔دفتر یا مرکز تجارت ہو اور وہ ان کے رہنے کی جگہ سے ۲۲ کلومیڑدور ہو اور وہ وہاں پہنچنے کے لئے ہر روزیا ہر دوسرے روز سفر کرتے ہوں (تو کیا حکم ہے)؟

جواب: تو وہ نماز کو پوری پڑھیں گے قصر نہیں پڑھیں گے۔

۶ جن کا کوئی رہنے کا ٹھکانہ نہ ہو،بلکہ ان کا گھران کے ساتھ ہو اور ان کا کوئی وطن نہ ہو،جیسے سیاح کہ جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے ہیں اور کہیں بھی ان کے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہوتا تو وہ نماز پوری پڑھے گا۔

سوال: مسافر قصر کی ابتداء کہاں سے کرے گا؟

جواب: جب شہر والوں کی نظروں سے وہ پوشیدہ اور ان سے دور ہوجائے تو اس پر (اپنی نماز کا) قصر کرنا واجب ہے۔اور اس کی اکثر علامت یہ ہے کہ وہ مسافر شہر کے رہنے والوں میں سے کسی کو نہ دیکھے اس وقت اپنی نماز کی قصر کرے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مسافر جب اپنے وطن سے گزرے یا وہاں ٹھہرے تو وہ نماز کو پوری پڑھے گا آپ کا اس کے وطن سے کیا مقصد ہے؟

جواب: میرا یہاں وطن سے مقصدیہ ہے۔

الف۔ وہ اصلی ٹھکانہ جس کی طرف اس کو منسوب کیا جاتاہے اور اس کے والدین کے رہنے کی جگہ ہو اورعموماًاس کی زندگی کا مرکز ہے۔

ب۔ وہ جگہ کہ جس کو انسان اپنا ٹھکانہ اور مسکن بنا لیتا ہے اس طرح کہ اپنی بقیہ عمر کو وہیں گزارے۔

ج۔ ایسی جگہ جہاں اتنی طویل مدت تک رہے کہ جب تک وہ وہاں ہے اس کو مسافر نہ کہا جاسکے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے؟

۱ جب مسافر اپنے وطن سے گزرے اور وہاں ٹھہرے۔

۲ جہاں کا انسان نے سفر کیا ہے وہاں وہ دس روز یا زیادہ برابر ٹھہرے۔

۳ اور جب کسی ایسے شہر کا سفر جہاں تیس( ۳۰) روز تک ایسا متردد رہے کہ نہ جانے کہ کب وہ اپنے وطن کو واپس ہوگا تو ایسے مسافر(جو اوپر بیان ہوئے ہیں) اپنی نماز پوری پڑھیں گے اور قصر نہیں کریں گے؟

جواب: جی ہاں ۔

سوال: اور جب کسی مسافر کو اوپر تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئے تو؟

جواب: تو وہ نماز قصر پرھے گا پس ہر وہ مسافر کہ جو( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ کا سفر کرے تو وہ نماز قصر پڑھے گا مگریہ کہ اپنے وطن سے گزرے اور اس میں ٹھہرے یا کہیں دس روز کی نیت کرلی ہوتو،والد ہاں ۔۔ہاں۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی مسافر ہوتو اگر وہ اثنائے سفر نماز نہ پڑھے بلکہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے تو (کیا حکم ہے؟)

جواب: وہ نماز پوری پڑھے گا‘کیونکہ وہ نماز اپنے وطن میں پڑھ رہاہے۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی اپنے وطن میں ہو اور نماز نہ پڑھے پھر وہ ۴۴ کلو میڑ یا زیادہ کا سفر کرے؟

جواب: تووہ نماز کو قصر پڑھے کیونکہ وہ نماز کو سفر کی حالت میں پڑھ رہا ہے۔

سوال: میں بعض دفعہ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اکھٹی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ایک ساتھ رکوع،ایک ساتھ سجدے اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟

جواب: وہ لوگ نماز یومیہ کو جماعت سے پڑھتے ہیں فرادی نہیں ۔

سوال: ہم نماز جماعت کو کس طرح پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: جب دو یا دو سے زیادہ اشخاص جمع ہوجائیں تو ان میں سے ایک جو امام جماعت کے شرائط رکھتا ہے اس کو جائز ہے کہ وہ سب کے آگے کھڑے ہو کر باقی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ان لوگوں کو اس عمل سے زیادہ اجر ملتا ہے۔

سوال: کیا نماز جماعت مستحب ہے؟

ج ہاں اس کا عظیم ثواب ہے،خاص کر کسی عالم کے پیچھے اور جتنے لوگ نماز جماعت میں زیادہ ہوں گے اتنی ہی اس کی فضیلت بھی بڑھے گی۔

سوال: امام جماعت کے کیا شرائط ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی گفتگو میں اشارةبیان کیا؟

جواب: امام جماعت کے شرائط میں ہے کہ وہ ،بالغ ہو ،عاقل ہو، مجنون نہ ہو،مومن ہو،عادل ہو،اپنے خدا کی معصیت (گناہ) نہ کرتا ہو قرائت صحیح ہو،حلال ہو،جب مامون مرد ہوں تو امام بھی مرد ہو(عورت نہ ہو)

سوال: ہم کس طرح پہچانیں کہ یہ مرد مومن ہے،عادل ہے تاکہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ سکیں؟

جواب: اس کے ظاہری حال کا بہتر ہونا کافی ہے۔

سوال: کیا جماعت میں امام جماعت کے دوسرے شرائط بھی ہیں۔؟

جواب: ہاں (امام جماعت کے بارے میں اعتبار کیا گیا ہے کہ وہ ایسا نہ ہوکہ جس پر شرعی حد جاری کی گئی ہو) اور اگر ماموم کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہےہیں تو امام کی نماز بھی قیام کی حالت میں ہونی چاہیے امام وماموم کے قبلہ میں احتلاف نہ ہو ایسا نہ ہوکہ امام کا اعتقاد قبلہ کےمتعلق کسی طرف ہو اور ماموم کا اعتقاد دوسری طرف ہو، ماموم کی نظر میں امام کی نماز صحیح ہو،پس اگر امام پانی کی نجاست کو نہ جانتے ہوئے نجس پانی سے وضو کرے اور ماموم کو پانی کی نجاست کا علم ہو تو پھر ایسی صورت میں ماموم کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔

سوال: میں جماعت کے ساتھ کس طرح نماز پڑھو؟

جواب: پہلے کسی ایسے شخص کو کہ جس میں امام جماعت کے شرائط جمع ہوں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،شخص معین کرو اگر تم تنہا ہو تو امام کے داہنی طرف ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو یا اگر تم دویا دو سے زیادہ ہوتو پھر امام کے پیچھے کھڑے ہو تمہارے اورامام کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جیسے دیوار وغیرہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ زیادہ بلند نہ ہونی چاہیے تمہارے اور امام کے درمیان یا جو مصلی تمہارے پہلو میں کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے آگے کھڑا ہے کہ جس کا رابطہ امام سے ہے اس کے او ر تمہارے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہئے ۔

سوال: پس اس بناپر نمازیوں کے درمیان ایک میڑسے زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہیے؟

جواب: (ہاں! تقریبا) اور نمازی کا اپنے برابر والے نمازی سےمتصل ہونا چاہیے ایک سمت ہی سے کافی ہے اور یہ اتصال چاہے آگے سے ہو یا داہنی طرف سے ہویا بائیں طرف سے ہو کافی ہے۔

سوال: اس کے بعد کیا ہونا چا ہئے؟

جواب: جب امام جماعت تکبیر کہے تو اس کے بعد اس کے پیچھے کھڑے ہونے والے تکبیر کہیں جب امام سورہ الحمد اور اس کے بعد سورہ پڑھے تو مامومین کو ان (سوروں) کی تلاوت نہ کرنی چاہیے کیونکہ امام کی تلاوت ان کی طرف سے کفایت کرے گی پس جب وہ رکوع کرے تو وہ بھی رکوع کریں اور جب و ہ سجدہ میں جائے تو اس کے بعد وہ سجدہ میں جائیں اور جب وہ تشھد پڑھے تو یہ تشھد پڑھیں اور اس کے سلام کے بعد یہ سلام کہیں۔

سوال: اور کیا میں رکوع و سجدہ اور تشہد میں ذکر پڑھوں اور کیا تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ پڑھوں یا خاموش رہوں اور کچھ نہ پڑھوں؟

جواب: بلکہ تم اسی طرح (ان کو) پڑھو کہ جس طرح تم فرادی نماز پڑھتے وقت پڑھتے ہو،لہٰذا تم رکوع ،سجود اور تشہد میں (اس کا مخصوص) ذکر پڑھو اور تیسری اور چوتھی میں جیسا کہ میں نے بتایا تسبیحات اربعہ کی تکرار کرو فقط سور تین(الحمدو سورہ) پڑھنا تم پر (واجب) نہیں ہے،پھر(ان کے علاوہ سب کی متابعت تم پر (ضروری ) ہے۔

سوال: آپ کا کیا مقصد ہے؟

جواب: تم پر امام جماعت کی اتباع ہر ہر قدم پر ضروری ہے یعنی جب وہ رکوع کرے تو تم بھی اس کے ساتھ رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی اس کے ساتھ سجدہ کرو اور جب وہ سجدے سے سر اٹھائے تو تم اپنے سر کو اٹھاؤ اور اسی طرح (ہر فعل کو انجام دو)افعال نماز میں اس سے پہل نہ کرو۔

سوال: اور امام جماعت سے کب ملحق ہونا چاہیے؟

جواب: امام جماعت کے حالت قیام میں تکبیر کہنے کے بعد یا جب وہ حالت رکوع میں ہو تو اس سے ملحق ہونا چاہیے۔

سوال: میں امام جماعت کے ساتھ اس وقت ملحق ہوں کہ جب وہ دونوں سورتوں کی تلاوت کررہا ہو تو مجھ پر دونوں سوروں کا پڑھنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا‘مگر جب وہ رکوع میں ہوتو میں کس طرح اس سے ملحق ہوں؟

جواب: تم تکبیر کہہ کرفوراً رکوع میں چلے جاؤ یہاں تک کہ امام جماعت اپنے رکوع کو ختم کرکے کھڑا ہوجائے تو تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔

سوال: اور ان دونوں سوروں کے پڑھنے کا کیا ہوگا( وہ تو میں نے پڑھا ہی نہیں ؟

جواب: جب تم رکوع میں اس سے ملحق ہوگئے تو ان دونوں سوروں کی قرائت تم سے ساقط ہے۔

سوال: اور جب وہ تیسری یاچوتھی رکعت میں ہو تو تسبیحات اربعہ پڑھ رہا ہو اس وقت اس سے ملحق ہوں تو؟

جواب : تم تکبیر کہو پھردونوں سوروں کی آہستہ تلاوت کرو ۔

سوال: اور جب دونوں سوروں کے پڑھنے کا وقت وسیع نہ ہو؟

جواب: تو تم فقط سورہ حمد کو پڑھو۔

سوال: مجھے نماز ظہر پڑھنا ہے اور میں امام جماعت سے ملحق ہوجاؤں حالانکہ امام جماعت عصر کی نماز پڑھ رہاہے( تو میرے لئے کیا حکم ہے۔؟

جواب: ہاں تم ملحق ہوسکتے ہو،تمہاری نماز اور امام جماعت کی نماز میں جہرو اخفات یا قصر وتمام یا قضاو اداء کی حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے۔

سوال: کیا عورتوں کے لئے مردوں کی طرح جماعت ہے؟

جواب: ہاں عورت ایسے مرد کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے جس میں امام جماعت کے شرائط پائے جاتے ہوں جیسا کہ اس کے لئے عورت کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائزہے،لیکن اگر عورت امام ہو(تواس پر واجب ہے وہ عورتوں کی صف میں کھڑی ہو ان سے آگے کھڑی نہ ہو) اور پھر اسی طرح نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھائے جیسا کہ مردامام جماعت پڑھاتا ہے،لیکن اگر عورتیں مردوں کے ساتھ نمازپڑھ رہی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ مردوں کے پیچھے نماز پڑھیں،یا ان کے ساتھ ایک صف میں اگر نماز پڑھیں تو بیچ میں کوئی چیزحا ئل ہونی چاہیے اگر چہ دیوار ہی کیوں نہ ہو۔

سوال: یہ نماز جماعت تھی اس کے علاوہ میں نے ایک نماز کا نام سنا کہ اس کا نام نماز جمعہ ہے پس کیا یہ نماز اس کے علاوہ ہے۔؟

جواب: ہاں وہ دورکعت نماز صبح کی طرح ہے مگر یہ کہ نماز صبح سے ان دو خطبوں کی بناپرممتاز ہوجاتی ہے کہ جو نماز جمعہ سے پہلے پڑھے جاتے ہیں اس طرح کہ امام کھڑا ہو اور ان دونوں خطبوں میں ایسی چیز بیان کرے جس میں خدا کی رضایت اور لوگوں کا نفع ہو۔

اور کم سے کم پہلے خطبہ میں واجب ہے کہ اللہ تعالی کی حمد وثنا کرے( عربی زبان میں) اور لوگوں کو تقوے کی نصیحت کرے،اورقرآن کریم کا ایک چھوٹا سا سورہ پڑھے پھر تھوڑا بیٹھ کر دوسری مرتبہ دوسرے خطبے کے لئے کھڑا ہو پس اللہ کی حمدوثنا اور محمد و آل محمد پر اور مسلمانوں کے ائمہ علیہم السلام پر صلوات بھیجے اور سب سے زیادہ بہتر وافضل مومنین ومومنات کے لئے استغفار کرنا ہے۔

سوال: کیا یہاں اس کے واجب ہونے میں کچھ شرائط بھی ہیں؟

جواب: ہاں اس کے واجب ہونے کے چندشرائط ہیں کہ نماز ظہر کا وقت داخل ہوجائے،پانچ لوگوں کا جمع ہونا،کہ ان میں ایک امام جمعہ ہو،اور امام جمعہ میں وہ تمام شرائط پائی جائیں کہ جو امام جماعت کے بارے میں بیان کی گئی ہیں اور جب کسی شہر میں نماز جمعہ قائم ہواپنے تمام شرائط کے ساتھ پس اگر امام معصوم یا جس کو اس نے مقرر کیا ہے نماز جمعہ کا اقامہ کرے تو اس شہر کے تمام رہنے والوں پر نماز جمعہ میں شرکت کرنا واجب ہے،سوائے ان لوگوں کے جن کو بارش نے یاشدید موسم سرمایا ان دونوں کے علاوہ کسی اور چیز نے شرکت کرنے سے مجبور کردیا ہو،جو مرض وبینائی سے سالم ہوں سوائے بوڑھے اور مسافر کے اورنماز جمعہ میں تقریبا ( ۱۱ کلو میڑ) کے فاصلہ تک شرکت کرنا( ضروری ہے)

سوال: اور اگر امام یا جس کو امام نے مقرر کیا ہو اس کے علاوہ کوئی نماز جمعہ کو قائم کرے تو پھر اس میں شرکت کرنا واجب نہیں ہے اور نماز ظہر کا بجالانا جائزہے،اور اگر کوئی مصلی نماز جمعہ کو جو اس کے تمام شرائط کے ساتھ قائم ہوئی ہے پڑھ لے تو وہ نماز ظہر سے کفایت کرے گی اور وہ نماز ظہر کو ساقط کردے گی۔

اب دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔

۱ نماز جمعہ کا پڑھنا واجب تخییری ہے پس مکلف نماز جمعہ اور نماز ظہر کے پڑھنے میں مخیر ہے( چاہے نماز جمعہ پڑھے یا نماز طہر) مگر نماز جمعہ کا پڑھناافضل ہے ۔

۲: نماز جمعہ کے درمیان تقریباً ساڑھے پانچ کلومیڑ کا فاصلہ معتبر ہے۔

سوال: چاہتا ہوں آپ سے ایک سوال کروں مگر کیا کروں حیامانع ہے ۔

جواب: جو کچھ چاہو تم سوال کرو دین میں کسی چیز کی شرم نہیں ۔

سوال: اگر میں نے نماز پنجگانہ میں کسی نماز کو نیند کی بناپر کبھی غفلت کی بنا پر چشم پوشی اور لاپرواہی اور کبھی جہالت کے سبب نہ پڑھی ہویا اگر پڑھی ہے تو نماز باطل اور فاسد پڑھی اور نماز کا وقت بھی نکل چکا (تو اب کیا کروں ؟)

جواب: ان کی قضا تم پر واجب ہے اگر وہ مثل صبح ومغرب اور عشاء کے جہری ہے تو ان کی قضا بھی جہری ہے اور اگر وہ مثل ظہر و عصر کے اخفاتی ہوں تو ان کی قضا بھی آہستہ آواز سے ہوگی اور اگر وہ قصر ہیں تو ان کی قضا بھی قصراور اگروہ تمام ہیں تو ان کی قضا بھی تمام ہوگی ۔

سوال: اور کیا میں نماز ظہر کی قضا زوال کے وقت پڑھ سکتا ہوں اور نماز عشاء کے وقت میں اس طرح نماز عشاء کی قضا ادا کرسکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ تم جس وقت چاہو اپنی کسی بھی نماز کی قضا ادا کرسکتے ہو چاہے رات ہو یا دن اور تم صبح نماز کی قضا شام کے وقت بھی ادا کرسکتے ہو،اسی طرح دوسری نمازوں کی بھی قضاء ادا کرسکتے ہو۔

سوال: اور جب مجھے معلوم نہ ہوکہ میری کون سی نماز قضا ہے تو میں کس نماز کی قضا ادا کرو؟

جواب: جس نماز کے قضا ہونے کا یقین ہو ،اور جس کو تم نے اس کے وقت میں نہ پڑھی ہو، اس کی قضا کرو لیکن جس نماز کے قضا ہونے کے بارے میں تم کو شک ہے تو اس کی قضاتم پر واجب نہیں ہے۔

سوال: ذرامجھے مثال سے واضح کیجئے؟

جواب: مثلاً تم کو یقین ہے کہ تم نے ایک مہینہ تک نماز صبح نہیں پڑھی تو ایک مہینہ کی نماز صبح کی قضا تم پر واجب ہے لیکن جس کے بارے میں شک ہے کہ وہ قضا ہوئی یا نہیں تو اس کی قضا تم پر واجب نہیں ہے۔

دوسری مثال جب تم کو معلوم ہوکہ ایک زمانہ تک تم نے نماز صبح نہیں پڑھی،اب تمہارے دل میں دواحتمال پیدا ہوتے ہیں کہ تم نے آیا ایک مہینہ نماز قضا کی ہے یا ایک مہینہ دس دن کی قضا ہوئی ہے ایسی صورت میں ایک مہینہ کی نماز کی قضا تمہارے لئے ضروری ہے اس سے زیادہ نہیں ۔

سوال: کیا جو ہماری نماز قضا ہوئی ہے اس کا ادا کرنافوراً بغیر تاخیر کے واجب ہے؟

جواب: بغیر تساہلی اور تسامح کے تاخیر جائز ہے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تمہاری نماز جس دن فوت ہوئی ہے اسی دن اس کی قضا ادا کرو مثلا تمہاری کسی دن صبح کو آنکھ نہ کھلے اور نماز صبح قضا ہوجائے تو اسی دن نماز صبح کی قضا ادا کرلو تاکہ وہ زیادہ نہ ہوجائیں تو تم پر ان کی قضا کا ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔

میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں قضا کے سلسلہ میں تساہلی اور تسامح سے خدا تم کو توفیق عنایت کرے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کے معین وقت میں ادا کرو۔

سوال: ذرا ٹھہرئیے نماز کی پہلی والی گفتگو میں آپ نے مجھے نماز واجب کی تعداد میں بتایا تھا کہ نماز مرنے والے کے بڑے بیٹے پر ادا کرنا واجب ہے جب کہ باپ نے ان کی قضا ادا نہ کی ہواور وہ مرجائے؟

جواب: ہاں( نماز واجب کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے ، جب کہ والد کی نماز کسی عذر کی بنا پر قضا ہوگئی ہو اور اس نے اس قضا کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہوئے بھی قضا کو ادا نہ کیا ہو اور وہ مر جائے اور اس کا بڑا بیٹا اس کی موت کے وقت قاصر نہ ہو اور وہ ممنوع الارث بھی نہ ہو تو اس کو چا ہئے کہ وہ کسی کو اپنی نیابت میں اپنے والد کی قضا نماز ادا کرنے پر بحیثیت اجارہ معین کرے ۔

سوال: آپ نے مجھ سے نماز آیات کے بارے میں ذکر کیا تھا؟

جواب: نماز آیات سوائے حیض ونفاس والی عورتوں کے تمام مکلفین پر چاند گہن سورج گہن چاہے ذرا سا ہی کیوں نہ ہو(زلزلہ کے وقت) واجب ہے اور ہروحشت ناک آسمانی حادثہ کے وقت جیسے بجلی کی کڑک وگرج،سرخ وسیاہ آندھی وغیرہ کے وقت اور اسی طرح وحشت ناک زمینی حادثات کے وقت جیسے زمین کا ایسا پھٹ جانا اور دھنس جانا کہ جس میں عام لوگ خوف زدہ ہوجائیں نماز آیات کو فرادا پڑھا جاتا ہے اور چاند گہن اور سورج گہن میں جماعت سے بھی پڑھا جاتاہے۔

سوال: نماز آیات کب ادا کی جاتی ہے۔؟

جواب: سورج گہن اور چاند گہن میں شروع گہن سے ختم گہن تک۔

سوال: زلزلوں میں وبجلی کی کڑک وگرج میں اور ہر آسمانی یا زمینی وحشت ناک حادثات کے وقت(کلاصۃاً)نماز آیا ت کب پڑھی جائے؟

جواب: ان میں نماز کا وقت کوئی معین نہیں بلکہ جیسے ہی حادثات رونما ہوں ویسے ہی نماز کو بجالایا جائے مگر یہ کہ حادثہ کا وقت وسیع ہوتو اس کی نماز کو اتنے وقت میں بجالایا جائے کہ اس حادثہ کا زمانہ ختم نہ ہواہو۔

سوال: نماز آیات کو کس طرح پڑھوں؟

وہ دورکعت ہے اورہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں ۔

سوال: وہ کس طرح؟

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت کرو اس کے بعد کسی دوسرے سورہ کو کامل پڑھو، پھر رکوع کرو جب تم اپنا سررکوع سے اٹھاؤ تو پھر سورہ الحمد اور ایک کامل سورہ پڑھو پھر رکوع کرو اسی طرح پانچ رکوع کرو۔

جب تم اپنا سر رکوع سے بلند کرو تو سجدے کے لئے جھک جاؤ اور دوسجدوں کو اسی طرح کرو کہ جس طرح تم ہمیشہ نماز میں سجدے کرتے ہو۔

پھر تم دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور اس رکعت میں بھی اسی طرح انجام دو جو اس سے پہلے والی رکعت میں انجام دیا ہے (یعنی پانچ رکوع اور پانچ مرتبہ دونوں سوروں کا پڑھنا) پھر تشہدو سلام کے بعد نماز کو تمام کرو،یہ ہے وضاحت اس نماز کی کہ جس میں دس رکوع ہیں،لیکن وہ دورکعت پر مشتمل نماز ہے اور اس کے علاوہ اس نماز کی دوسری بھی صورت ہے مگر اختصار کی بنا پر اس کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: جب سورج گہن یا چاند گہن لگ جائے اور اس کا علم نہ ہو یہاں تک کہ وہ بالکل ختم ہوجائے تو اس کاکیا حکم ہے؟

جواب: جب سورج گہن یا چاند گہن پورا ہو اس طرح کہ وہ گہن تمام سورج اور چاند کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تم پراس کی قضا واجب ہے اور اگرپورانہ ہو صرف تھوڑا سا گہن ہو تو تم پر قضا واجب نہیں ہے۔

سوال: اور کیا نماز آیات زلزلہ وبجلی کی کڑک وچمک میں ہے؟

جواب: جب ان دونوں کے حادثہ کا تھوڑا زمانہ گزرجائے اور تم نے کسی بھی سبب نماز نہیں پڑھی تو پھر ان کی قضا ساقط ہے ۔

سوال: اگر زمین کے کسی بھی حصہ میں سورج یا چاند گہن ہو تو کیا مجھ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ اس چاند یا سورج گرہن کی نماز تم پر واجب ہے جو تمہارے شہر میں ہوا ہو یا جو تمہارے شہر سے کوئی ایساشہر ملا ہوا ہو کہ جس کے حادثات اور واقعات مشترک ہوں اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں سورج گہن یا چاند گہن لگا ہو اور وہ تم سے دور ہوتو اس وقت تمہارے اوپرنماز آیات واجب نہیں ہے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ نمازیں واجب ہیں اور مستحب؟لیکن آپ نے مستحب نمازوں کے بارے میں کچھ نہ فرمایا؟

جواب: وہ بہت ہیں ان کو بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں ہے ۔اس لئےان میں سے کچھ کو میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

۱ نماز شب (اور اس کا آخری حصہ تہائی رات میں ادا کرنا افضل ہے،اور جتنا نماز صبح سے وقت قریب ہوگا اتنا ہی افضل ہے) آٹھ رکعتیں ہیں ہر دورکعت کے بعد نمازپڑھنے والا سلام پھیرے ، نماز صبح کی طرح،جب یہ آٹھ رکعت ختم ہوجائیں تو پھر دورکعت نماز شفع پڑھے پھرنماز وتر پڑھے جو ایک رکعت ہے پس یہ تمام کی تمام گیارہ رکعت ہیں ۔

سوال: مجھے بتائیے کہ نماز وتر کس طرح پڑھی جاتی ہے جب کہ وہ ایک رکعت ہے؟۔

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر الحمد پڑھو اور مستحب ہے کہ اس کے بعد سورہ توحید پڑھو تین مرتبہ،اور سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھو پھر ہاتھوں کو بلند کرکے جو چاہو دعا پڑھو۔

تم پر مستحب ہے کہ اللہ کے خوف سے گریہ کرو اور چالیس مومنین کا نام لے کر ان کے واسطے مغفرت طلب کرو اور ستر مرتبہ پڑھو۔

(استغفرالله واتوب الیه ) اور سات مرتبہ (هذا مقام العاذ بک من النار ) پڑھو اور تین سو مرتیہ(العفوء )کہو اور جب تم اس سے فارغ ہوجاؤتو رکوع کرو اور پھر تشہد وسلام کے بعد نماز تمام کرو۔

اور تم نماز شفع اور وتر پر ہی صرف اکتفاء کرسکتے ہو بلکہ تنہا اور خاص طورسے وتر پر بھی اکتفاء کرسکتے ہو جب کہ وقت تنگ ہو۔

سوال: نماز شب کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: نماز شب کی بہت بڑی فضیلت ہے امام صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی وصیت میں جو علی علیہ السلام سے کی ہے (تین مرتبہ فرمایا)علیک بصلواة اللیل (علیک بصلواة اللیل ) (علیک بصلواة اللیل

یعنی تم نماز شب پڑھا کرو۔

اور اسی طرح نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ ”صلاة رکعتین فی جوف اللیل الی من الدنیا وما فیها “۔رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنا مجھے دنیا اور جو اس میں ہے اس سے زیادہ پسند ہے، اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا او راس نے کسی حاجت کے بارے میں آپ سے شکایت کی او راپنی شکایت میں اپنی بھوک کا بھی اضافہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: (اے شخص تو نماز شب پڑھتا ہے) تو اس نے کہا ہاں، تو آپ نے اس کے دوست کی طرف متوجہ ہوکر اور فرمایا وہ شخص جھوٹا ہےجو کہتا ہے کہ رات کو نمازشب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رہے خداوند عالم نے اس شخص کےروزی کی ضمانت لی ہے جو رات کو نماز شب پڑھتا ہے)۔

۲ نماز وحشت یا دفن کی رات کی نماز او راس کے ادا کرنے کا وقت دفن کی پہلی رات ہے، رات کے کسی بھی حصہ میں اس کو پڑھئے اور وہ دو رکعت ہے، رکعت اول الحمد کے بعد آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ انا انزلناہ اور تشہد و سلام کے بعد کہو۔

اللهم صل علی محمد و آل محمد و ابعث ثوابها الی قبر فلان ۔

اور فلاں کی جگہ میت کا نام لو، اور ایک دوسری صورت بھی اس نماز کی ہے، فقہ کی کتابوں میں دیکھو اگر مزید جاننا چاہتے ہو تو۔

۳ ۔ نماز غفیلہ او ر وہ دو رکعت ہے مغرب و عشاء کے درمیان پہلی رکعت میں الحمد کے بعد یہ آیہ کریمہ پڑھو۔

( و ذالنون اذذهب مغاضبافظن ان لن نقدر علیه فنادی فی الظلمات ان لا لااله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین، فاستجبنا له و نجیناه من الغم و کذالک ننجی المومنین )

اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد اس آیہ کریمہ کی تلاوت کرو۔

( و عنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو و یعلم ما فی البر والبحر و ما تسقط من ورقة الا یعلمها ولا حبة فی ظلمات الارض و لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین )

پھر دعا کے لئے ہاتھوں کو بلند کرو اور کہو۔

اللهم انت ولی نعمتی والقادر علی طلبتی تعلم حاجتی فاسالک بحق محمد وآله علیه وعلیهم السلام لما قضیتهالی ۔

اپنی حاجب طلب کرو انشاء اللہ پوری ہوگی۔

۴ ۔ ہر مہینہ کے پہلے دن کی نماز اور وہ دو رکعت ہے۔ پہل رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ توحید تین مرتبہ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ قدر تین مرتبہ، پھر تم صدقہ دو جو بھی تم کو میسر ہو او راس مہینہ کی سلامتی کو خرید لو اور اس کے بعد قرآن کی کچھ مخصوص آیتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔

۵ ۔حضرت علی علیہ السلام کی نماز،اور وہ چار رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی طرح پڑھو، ہر رکعت میں سورۂ الحمد کے بعدپچاس ( ۵۰) مرتبہ( قل هو الله احد ) پڑھو،توپھر اس کے اور خدا کے درمیان کوئی گناہ نہ رہے گا۔

۶ ۔ امرمشکل کی آسانی کے لئے نماز، اور وہ دو رکعت ہے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب کوئی کام مشکل ہوجائے تو دو رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( انا فتحنا ) کو( ولینصرک الله نصرا عزیرا ) تک اور دوسری رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( الم نشرح لک صدرک ) پڑھو۔

نماز کے بارے میں گفتگو

نماز کے مسائل

ہاں۔ ہم اپنی گفتگو کا آغاز نماز سے کریں گے،میرے والد نے فرمایا: نماز (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے : ”عمود دین“ ہے۔)

ان قبلت قبل ما سواها، و ان ردت رد ماسواها “۔

”اگر نماز قبول ہوگئی تو ہر چیزقبول ہوجائیگی اوراگر وہ ردکردی گئی تو تمام چیزیں رد کردی جائیں گی“میرے والد نے مزیدفرمایا کہ نماز خالق ومخلوق کے درمیان ایک معین وثابت ملاقاتوں کی جگہ ہے اللہ تعالی نے اس کے اوقات ‘اس کے طریقہ‘اس کی صورتوں،اس کی کیفیات کواپنے بندوں کیلئے مقرر کیاہے تم نمازکے دوران اس کے سامنے اپنی عقل وقلب اور اعضاء وجوارح کواس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کھڑے ہوجاؤ اس سے بات اور مناجات کرو پس تم پر لازم ہے کہ مناجات کے دوران صفائے قلب وذہن کے ساتھ اشک ریزی کرو(آنسوبہاؤ) اور شفاف روح کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

اس طرح کہ جیسے اس کے سامنے کھڑے ہو اور اسی کے ساتھ اس کی ملاقات اور اس کے وصال کی لذت وسعادت کی نعمت سے لطف اندوزہوتے ہو اور یہ فطری بات ہے کہ اس کی محبت تم پر خوف کے ساتھ طاری ہوگی کیونکہ تم اپنے ایسے خالق کے سامنے کھڑے ہوگے کہ جوعظیم اور تم پر رحیم ہے اور تمہارے حال پر مہربان ہے‘ اور سمیع وبصیر ہے۔

آپ کے مولا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے رب کی عبادت میں پوری طرح مستغرق رہتے اور ہر وقت اس کی طرف اس طرح متوجہ رہتے کہ جنگ صفین میں آپ کے جسم سے تیر نکالا گیا تو اس کا دردو الم آپ کو اپنے رب کی مناجات سے نہ روک سکا۔

امام حضرت زین العابدین علیہ السلام جب وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد پڑجاتا آپ کے گھروالوں میں سے کسی نے پوچھاآپ کا وضو کے وقت یہ کیا حال ہوجاتا ہے؟تو آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے جارہا ہوں اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کے جسم میں لرزہ پڑجاتا کسی نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :

”میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا چاہتاہوں اور اس سے مناجات کرنا چاہتاہوں تو میرے جسم میں لرزہ پڑجاتاہے “۔

اور جب تمہارے امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام گوشہ تنہائی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو روتے اور آپ کے جسم کے اعضاء میں اضطراب پیدا ہوجاتا اور آپ کے قلب(مبارک) میں خوف خدا سے حزن واندوہ پیدا ہو جاتاتھا۔

اور جب آپ کو ہارون رشید کے تاریک اور وحشتناک قید خانہ میں لے جایا گیا تو وہاں آپ خدا کی اطاعت وعبادت میں مشغول ہوگئے اور اس بہترین وپسندیدہ فرصت کے مہیا ہونے پر اپنے پروردگار کا شکر بجالائے اور اپنے پروردگارکومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں”میں نے تجھ سے عرض کیا تھا کہ مجھے اپنی عبادت کا موقعہ عنایت فرماتو نے میری اس دعا کو قبول کیا لہٰذا میں تیری اس چیزپر حمدوثنا بجالاتاہوں۔

اور میرے والد نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا نماز نفس کی اندرونی خواہش وکیفیت کی ظاہری حالت اور ایسے خدا سے لگاؤ اور ربط کانام ہے جوکائنات کا خالق‘غالب‘ مالک اور سب کا نگہبان ہے۔جس وقت تم اپنی نماز کو شروع کرتے ہوئے (اللہ اکبر ) کہتے ہو تو مادیات اور اس کی راہ وروش اور اسی کی زیب وزینت تمام کی تمام تمہارے نفس میں سے دور ہوجاتی ہے اور تم اکثر مضمحل ہوجاتے ہو کیونکہ تم اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہو کہ جو خالق کائنات اور اس پر غالب ہے جس نے اس دنیا کو اپنی مشئیت کے مطابق مسخر کیا ہے پس وہ ہر چیز سے بڑا عظیم ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اور جس وقت تم سورة الحمد کی قرائت کرتے ہو ایاک نعبدوایاک نستعین تو تم اپنے نفس اور جسم کو اللہ قادرو حکیم کی استعانت کے علاوہ کسی دوسری استعانت کے اثر سے پاک وصاف کرلیتے ہو۔(یعنی صرف اللہ سے استعانت چاہتے ہو کسی اور سے نہیں )اور یہ خشوع کی پسندیدہ عادت ہر روز پانچ مرتبہ حتمی ہوجاتی ہے صبح ظہر،عصر،مغرب،اور عشاء،اور اگر تم چاہو اس میں مستحب نمازوں کا اضافہ کر سکتے ہو۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ نمازیں واجب اور مستحب دونوں ہیں؟

جواب: ہاں کچھ نمازیں واجب اورکچھ دوسری نمازیں مستحب ہیں؟

سوال: واجب نمازیں کو تو میں جان گیا کہ جوہرروزادا کی جاتی ہیں وہ صبح‘ظہر‘عصر،مغرب اور عشاء،ہیں؟

جواب: نہیں فقط یہی نمازیںواجب نہیں ہیں بلکہ کچھ دوسری نمازیں بھی واجب ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ نماز آیات (دوسری نمازکی بحث میں دیکھیے)

۲ نماز طواف حج اور عمرہ کے وقت (حج کی بحث میں دیکھیئے)

۳ نماز میت (میت کے بیان میں دیکھیے)

۴ باپ کی وہ قضا نمازیں جو اس نے پڑھی نہیں ہیں (اس حیثیت سے کہ اس کے بڑے بیٹے پر اس کی موت کے بعد اس کی نمازکی قضا واجب ہے۔)

۵ وہ نماز جو اجارہ یا نذریا قسم یا ان دونوں کے علاوہ واجب ہو جاتی ہے اور وہ نماز مختلف حالات کی بناپر بدلتی رہتی ہے۔

اس کے علاوہ مقدمات نماز پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں

۱ وقت نماز

۲ قبلہ

۳ نماز کی جگہ

۴ نمازی کا لباس

۵ نماز کی حالت میں طہارت

میرے والد نے فرمایا کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ یہ مقدمات نماز یومیہ کے علاوہ دوسری نمازوں میں واجب نہیں ہیں چاہے وہ واجب ہوں یا مستحب، شرط اول (وقت) کے علاوہ تمام شرائط دوسری نمازوں میں واجب ہیں جن کی تفصیل انشاء اللہ بیان کی جاءے گے اور اب تفصیل کے ساتھ اس مقدمات میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ بیان کرتاہوں

سوال: وقت نماز سے شروع کیجئے؟

جواب: ہاں ان مقدمات میں وقت سب سے زیادہ بہتر ہے ۔

۱ ۔ نمازکا وقت

نماز یومیہ کا وقت معین ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی جائز نہیں ہے پس نماز صبح کا وقت صبح (صادق) سے سورج کے نکلنے تک ہے اور نماز ظہرین (ظہروعصر)کا وقت زوال شمس سے غروب تک ہے اور اول وقت ظہر سے مخصوص ہے اور آخروقت عصرسے مخصوص ہے ان دونوں کی ادا کے مقدار کے مطابق ۔

سوال: میں زوال کو کس طرح پہچانوں کہ یہی وہ وقت ہے کہ جس میں نماز ظہرین پڑھی جاتی ہے؟

جواب: زوال کا وقت طلوع شمس اور غروب شمس کا درمیانی وقت ہے لیکن نماز مغربین (مغرب وعشاء کا وقت اول مغرب سے آدھی رات تک ہے پہلا مخصوص وقت نماز مغرب سے ہے اور آخر وقت نماز عشاء سےمخصوص ہے ان دونوں کے ادا کرنے کے مطابق تم نماز مغرب کومشرق کی سرخی زائل ہوجانے کے بعد پڑھ سکتے ہو۔

سوال: یہ حمرہ مشرقیہ کیا ہے(مشرق کی سرخی)؟

جواب: وہ آسمان میں مشرق کی طرف ایک سرخی ہے جوکہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے مقابل ہوتی ہے جب سورج بالکل غروب ہو جاتاہے تو وہ زائل ہوجاتی ہے ۔

سوال: میں کیسے آدھی رات کو معین کروں کہ یہ وقت نماز عشاء کا آخری وقت ہے؟

جواب: سورج کے ڈوبنے اور صبح (صادق) کے نکلنے کا درمیانی وقت نصف لیل یعنی آدھی رات ہے ۔

سوال: اگر رات آدھی یا زیادہ گزرگئی اور میں نے نماز مغربین جان کر نہیں پڑھی تو کیا حکم ہے۔

جواب: تم پر واجب ہے کہ جلدی سے صبح کے نکلنے سے پہلے دونوں نمازوں کو بقصد قربت مطلقہ پڑھو یعنی نماز کی ادا اور قضاء کاذکر نہ کرو۔

سوال: نماز میں جو چیز اہم ہے اس کا لحاظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر نماز کو شروع کرنے سے پہلے اس کے وقت کے داخل ہوجانے کا یقین ہو جانا چاہیے وہ نماز صبح ہویا ظہر یا عصر یا مغرب یا عشاء کی ہو۔

( ۲) قبلہ

نماز کی حالت میں تم پر قبلہ رخ ہونا واجب ہے اور قبلہ وہ جگہ ہے جیسا کہ تم جانتے ہو۔ جہاں مکہ میں کعبہ محترم واقع ہے ،

سوال: اور جب بہت جدوجہد اور ان تمام حجتوں کے بعد بھی جن پر بھروسہ رکھ کرقبلہ کی سمت تعین کیا جاسکتا ہے قبلہ کی سمت کو معلوم کرنے پر قادر نہ ہوسکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھتو۔

سوال: اور اگر ایک سمت کو دوسری سمت پر ترجیح نہ دے سکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھ لو۔

سوال: اور جب میں کسی ایک سمت کے متعلق عقیدہ پیدا کرلوں کہ یہ قبلہ کی سمت ہے اور نماز پڑھ لوں پھر نماز کے بعد معلوں ہوجائے کہ میں نے خطا کی ہے؟

جواب: جب تمہارا انحراف قبلہ سے صرف دائیں یا بائیں جانب کے درمیان ہوتو تمہاری نمازصحیح ہے ،اور اگر تمہارا قبلہ سے انحراف اس قدر زیادہ ہو یا تمہاری نماز قبلہ کی سمت سے برعکس ہو اور ابھی نماز کا وقت بھی نہیں گزرا تو نماز کا اعادہ کرو اور اگر نماز کا وقت گزر گیا ہو تو نماز کی قضا واجب نہیں ہے

( ۳) نمازی کا مکان

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ تمہاری نماز کی جگہ مباح ہو کیونکہ نماز غصبی جگہ پر صحیح نہیں ہے اور غصی جگہ میں وہ چیز شمار ہوگی کہ جس کا خمس واجب ہو اور نہ دیا گیا ہو ،چاہے گھر ہو یا ان دونوں کے علاوہ کوئی اور چیز اور تفصیل کے ساتھ تم کو اس کی شرح (خمس کی بحث میں دی جائیگی) یہاں صرف ضرورت کے تحت اشارہ کردیا ورنہ غفلت، چشم پوشی،لاپرواہی جہنم میں جانے سے نہیں روک سکتی، بہت سے ایسے ہیں کہ جنھوں نے اپنے اموال میں سے حق خدا کو نہ نکالا اور وہ جہنم میں چلے گئے‘

سوال: فرض کیجئے زمین غصبی نہیں ہے لیکن اس پر جو فرش بچھا ہے وہ غصبی ہے تو کیا یہی حکم رہے گا؟

جواب: یہی حکم ہے ،کہ تمھاری نماز اس فرش پر صحیح نہیں ہے میرے والد نے مزید فرمایا کہ تمھارے سجدے کی جگہ پاک ہونی چاہئے ۔

سوال: آپ کامقصد سجدہ کی جگہ سے پیشانی کی جگہ ہے؟

جواب: ہاں صرف سجدے کی جگہ کی طہارت یعنی سجدہ گاہ یا جس پر تم سجدہ کررہے ہو (وہ پاک ہو)۔

سوال: اور نماز کی باقی جگہ مثلاً دونوں پاؤں کی جگہ یاوہ جگہ کہ جس کو نماز میں پورا جسم گھیرے ہوئے ہے؟

جواب: اس میں طہارت شرط نہیں ہے پس اگر سجدے کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ نجس ہو اور اس جگہ کی تری جسم اور لباس تک سرایت نہ کرے تو اس جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے یہاں پھر چندموضوعات باقی رہ گئے ہیں جو نمازپڑھنے والے کی جگہ سے مخصوص ہیں میں ان کو تمہارے لئے چند صورتوں میں بیان کرتاہوں۔

( ۱) نماز میں اور نماز کے علاوہ کسی صورت میں معصومین کی قبورکی طرف پشت کرنا جب کہ پشت کرنے سے بے ادبی ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔

(ب) مرد اور عورت کی نماز صحیح نہیں ہے جب وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے کھڑی ہو مگریہ کہ دونوں کے کھڑے ہونے کے درمیان دس ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہویا، ان دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو مثلاً دیوار۔

جواب: نماز کا پڑھنا مسجدوں میں مستحب ہے مساجد میں سب سے زیادہ افضل نماز کا پڑھنا مسجد الحرام‘مسجد نبوی مسجد کوفہ اور مسجد اقصی میں ہے اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس روضوں میں نماز کا پڑھنا مستحب ہے ۔

(د) عورت کے لئے افضل ہے کہ وہ اپنی نماز پڑھنے کے لئے زیادہ تر ایسی جگہ کا انتخاب کرے کہ جہاں بالکل تنہائی ہواور کوئی نامحرم اس کو نہ دیکھے حتی کہ اپنے گھرمیں بھی ایسی ہی جگہ کا انتخاب کرے۔

۴ ۔نمازپڑھنے والے کالباس اور اس میں چندشرطیں ہیں

لباس پاک ہو اور غصبی نہ ہو لباس کے مباح ہونے کی شرط یہ ہے کہ صرف شرمگاہ کو چھپانے والا لباس مباح ہو اور یہ چیزمردو عورت کے درمیان مختلف ہے مردکے لئے کچھ اندرونی لباس کا مباح ہوناکافی ہے مثلاٌ جانگیہ (کم از کم اتنا لباس مرد کا مباح ہوجب کہ عورت کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کیونکہ نماز میں عورت کے لباس کا دائرہ وسیع ہے اور وہ تمام بدن کا چھپانا ہے،سوائے ان اعضاء کے کہ جو چھپانے سے مستثنی رکھے گئے ہیں (یعنی چہرہ ہاتھ گٹوں تک اور پاؤں کا ظاہری حصہ)۔

ب لباس مردار کے ان اجزاء کا نہ ہو کہ جن میں جان ہوتی ہے جیسے اس حیوان کی کھال کہ جو شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو (اگرچہ وہ لباس اس کی شرمگاہ کو بھی نہ چھپاتا ہو،یعنی نمازی کے ہمراہ ان اجزاء میں سے کوئی چیز نہ ہو)

سوال: کیا اس کھال کی بلٹ میں نماز پڑھنا صحیح ہے کہ جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے خریدی ہوئی ہو یا اسلامی ممالک میں بنائی گئی ہو جب کہ اس کا تذکیہ معلوم نہ ہو؟

جواب: ہاں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

سوال: اور کھال کی وہ بلٹ جو کافر سے لی گئی ہو یا کافروں کے ممالک میں بنائی گئی ہو؟

جواب: ہاں اسمیں بھی نماز پڑھنا صحیح ہے( مگریہ کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ غیر مذ کی حیوان کی کھال سے بنی ہے تو پھر نماز صحیح نہیں ہے)

سوال: جب کہ اس کھال کی بلٹ کے بارے میں یقین نہ ہو مثلا معلوم نہ ہوکہ اصلی کھال کی ہے یا نقلی؟ توکیا حکم ہے؟

جواب: مذکورہ تمام حالات میں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے ۔

الف نمازی کا لباس درندوں کے اجزاء کا بنا ہوا نہ اور اس مقدار میں نہ ہوکہ جس میں شرمگاہ چھپائی جاسکتی ہو اور نہ درندوں کے علاوہ ان جانوروں کا ہو کہ جن کا گو شت نہ کھایا جاتا ہو

ب مردوں کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو،لیکن عورتوں کے لئے خالص ریشم کے لباس میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔

ج مردوں کےلئے خالص سونے کے تاروں کا بنا ہوا لباس نہ ہو یا سونے کے تار اس میں اتنے مخلوط نہ ہوں کہ جس پر سونے کانام صادق آئے ہاں اگر بہت کم سونے کے تارہوں تو کوئی حرج نہیں۔

سوال: اور اگر (سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہوتو مردکا اس کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے اسی طرح مردکے لئے ہمیشہ سونے کا لبا س پہنا حرام ہے۔

سوال : کیا نماز کے علاوہ بھی مرد کو سونا پہننا حرام ہے ؟

جواب : جی ہاں۔

سوال: سونے کے وہ دانت جو بعض مرد بنواتے ہیں اور سونے کی وہ گھڑی جو بعض لوگ جیب میں رکھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ چیزیں جائز ہیں اور ان کے ساتھ ان لوگوں کا نماز پڑھنا جائز ہے

سوال: کسی مرد کو معلوم نہیں کہ اس کی انگوٹھی سونے کی ہے اور وہ اس میں نماز پڑھ لے معلوم ہو لیکن بھول کر نماز پڑھ لے،اور پھر نماز کے بعد اس کو معلوم ہوجا ئے، یا اس کو بتایا جائے،تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس کی نماز صحیح ہے۔

سوال: اور عورتوں کیلئے کیا حکم ہے؟

جواب: ان کے لئے ہمیشہ سونے کا لباس پہننا اور اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

اب نمازی کے لباس میں جواہم چیزہے وہ یہ کہ نماز میں مرد پر شرمگاہ کا کتنا چھپانا واجب ہے تو اس کی مقدار صرف عضوتناسل ،دونوں بیضہ، اور پاخانے کا مقام چھپانا واجب ہے،عورت پر نماز کی حالت میں پورے جسم کا چھپانا واجب ہے یہاں تک کہ بالوں کا بھی چھپانا واجب ہے اگر چہ وہ تنہاہی کیوں نہ ہو،اور اس کو کوئی دیکھ بھی نہ رہا ہو،سوائے اس چہرہ کے کہ جس کو عموماً اوڑھنی نہیں چھپاتی کہ اس کا پلو کاندھے پر ڈالا جائے،اور دونوں ہاتھ کلائیوں تک اور دونوں پیر انگلیوں کے سرے سے گٹوں تک ۔

یہ تمام کے تمام مقدمات نماز تھے میرے والد نے فرمایا نماز خود چند واجب اجزاء کا ایک مرکب عمل ہے اور وہ اجزاء یہ ہیں نیت،تکبیرة الاحرام‘قیام،قرائت،ذکر،رکوع،سجدے،تشھد،اور،سلام ،ان اجزاء میں ترتیب اور موالات کا لحاظ رکھا جائیگا جیسا کہ آپ کو آئندہ معلوم ہوگا۔

سوال: آپ نے نماز کے بیان کو اذان واقامت سے شروع کیوں نہ کیا ؟

جواب: اس سے پہلے کہ آپ کو میں اس سوال کا جواب دوں ضروری ہے کہ آپ کو ان اجزاء کے بارے میں بتاؤں کہ ان میں سے کچھ کا نام ارکان ہے اور وہ نیت، تکبیرة الاحرام‘قیام،رکوع اور سجدے ہیں ۔

میں نے تمام اجزاء میں صرف ان کو خصوصیا ت کے ساتھ اس لئے بیان کیا کہ یہ نماز کے باطل ہونے میں ایک خاصیت رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ان میں سے کوئی عمداً یاسہواًً کم یا زیادہ ہوجائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے لہٰذا یہ اپنے اس نام میں امتیاز رکھتے ہیں۔

اب آپ کے سوال کا جواب دیتاہوں ۔

اذان واقامت نماز پنجگانہ میں مستحب موکدہ ہیں (سنت موکدہ) بہتر ہے کہ نمازی ان کو بجالائے لیکن اگر ترک بھی کردے تو نماز صحیح ہے۔

اس کے بعد میرے والد نے فوراً نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

میں آپ سے تمنا کرتاہوں کہ آپ اپنی پنجگانہ نماز میں اذان واقامت کو ترک نہ کریں ورنہ ان دونوں کا ثواب کم ہوجائے گا۔

سوال: جب میں چاہوں کہ اذان دوں تو کس طرح اذان دوں؟

جواب: تو فرمایا : تم کہو۔

اَللّٰهُ اکبَرُ چار مرتبہ

اشهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اَشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه دو مرتبہ

سوال: اقامت کس طرح کہیں؟

جواب: قامت میں کہیں:

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دو مرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنْ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه ایک مرتبہ

سوال: اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی شہادت؟

جواب: آپؑ کی ولایت کی شہادت رسالت کی شہادت کی تکمیل ہے اور مستحب ہے۔ لیکن اذان واقامت کا جزء نہیں ہے۔

نیت

سوال: اس بناپر کیا اجزاء نماز میں پہلا جزء وہی ہے جوآپ نے بتایا یعنی نیت ؟

جواب: ہاں۔

سو ال : نماز کی نیت کیسے کی جائے گی؟

جواب: نماز میں تمہارا قصد فرمان الٰہی کو بجالانے کے لئے ہو یعنی نماز کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو اور یہ نسبت تذلیلی ہو،چاہتا ہوں تم کو اضافہ تذلیلیہ کے بارے میں واضح طور پرسمجھا ؤں۔

اضافہ تذلیلیہ ( نسبت تذلیلی) ایک ایسا عمل ہے جو افعال عبادی سے قریب ہے‘اس کے ذریعہ انسان میں ایک شعوری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کہ وہ مولائےجلیل سجانہ وتعالی کے سامنے ایک عید ذلیل ہے۔

سوال: کیا نیت کے لئے کوئی لفظ مخصوص ہے؟

جواب: ہرگز نہیں نیت ایک عمل قلبی ہے زبانی عمل نہیں،لہٰذا اس کے لئے کوئی لفظ معین نہیں،اس کا محل قلب ہے اگر تمہارا مقصد نماز میں تقرب الی اللہ نہیں ہے، کہ جس کی تائید تمہارے حرکات کریں گے۔ تو تمہاری نماز باطل ہے۔

دوسرے۔ تکبیرة الاحرام

س یہ تکبیرة الاحرام کیا ہے؟

جواب: تمہارااللہ اکبر کہنا اس حالت میں کہ تم اپنے قدموں پر کھڑے اور اپنی جگہ ساکت ہوکر قبلہ کی طرف رخ کرکے عربی زبان میں اس کو ادا کرو‘کلمہ( اکبر) کی ہمزہ کی آواز کو واضح طور پر اور اسی طرح تمام حروف اپنی زبان پر جاری کرو،اور افضل یہ ہے کہ تکبیرة الاحرام اور سورالحمد کے درمیان تم تھوڑا ساخاموش رہ کر فاصلہ پیدا کرو تاکہ تکبیر کی آخری (راء) سورالحمد سے مل نہ جائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا: حالت قیام میں تم پر تکبیرۃ الاحرام کہنا واجب ہے،اگر میں مریض ہوجاؤں اور اپنے قدموں پر کھڑانہ ہو سکوں،اگرچہ عصا یا دیوار کایا ان دونوں کے علاوہ کسی اورچیز کا سہارا بھی نہ لے سکوں تو میں پھر نمازکس طرح پڑھوں؟

جواب تم بیٹھ کر نماز پڑھو،اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھرلیٹ کر،بائیں کروٹ یا داہنی کروٹ چہرہ کو قبلہ رخ کرکے نماز پڑھوں اور واجب ہے کہ امکان کی صورت میں داہنی کروٹ کو بائیں کروٹ پر مقدم کرو)

سوال: اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟

جواب: تو تم چت لیٹ کر اس طرح کہ تمہارے پاؤں قبلہ کی طرف ہوں نماز پڑھو۔

سوال: جب کہ میں تکبیرة الاحرام کو قیام کی حالت میں کہہ سکتا ہوں مگر اس قیام کو جاری نہیں رکھ سکتا تو کیا کروں؟

جواب: قیام کی حالت میں تکبیر کہو اور باقی نماز کو بیٹھ کریا لیٹ کر جیسا بھی آپ کے لئے مناسب ہوپڑھو۔

تیسرے۔ قرائت

تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورۂ حمد کی قرائت کرو( اور اس کے بعد کسی دوسرے سورة کی کامل قرائت کرو)صحیح قرائت ،اس میں کسی قسم کی بھول چوک نہیں ہونی چاہیے اور سورة توبہ کے علاوہ ہر سورة کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے جیساکہ قرآن مجید میں حکم ہے۔

سوال: اگر سورہ حمد کے بعد دوسرا سورہ پڑھنے کے لئے وقت میں گنجائش نہ ہوتو؟

جواب: دوسرے سورہ کو نہ پڑھو، اور صرف سورہ الحمد کی قرائت کرو، اسی طرح اگر تم مریض ہو اور دوسرے سورہ کو پڑھنے کی قوت نہیں رکھتے یا کسی چیز کا خوف ہویا جلدی ہو تو دوسرے سورہ کو ترک کرسکتے ہو۔

جواب: دونوں سوروّں کو کس طرح پڑھوں ؟

سوال: مرد پر نماز صبح اور مغرب وعشاء میں دو کا با آواز بلند پڑھنا واجب ہے اور نماز ظہرو عصر میں دونوں کا آہستہ پڑھنا واجب ہے۔

سوال: اور عورتوں کے لئے؟

جواب: عورت بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتی،نماز ظہرین میں اس پر واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔

سوال: جب کہ میں نماز میں حکم جہر واخفات (بلند آواز اور آہستہ ) سے جاہل ہوں یا بھول کردونوں سورتوں کو یا ان میں سے کچھ کو بلند آوازمیں پڑھ لیا جبکہ میری نماز ظہرو عصر ہے یعنی میں نے حکم کے خلاف کیا تو کیا حکم ہے؟

جواب: تمہاری نماز صحیح ہے ۔

سوال: یہ پہلی اور دوسری رکعت کے بارے میں تھا، تیسری اور چوتھی رکعت میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کو تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ حمد اور تسبیحات اربعہ پڑھنے کے درمیان اختیار ہے،چاہے جو پڑھو،دونوں حالتوں میں آواز آہستہ ہو یعنی سورہ الحمد یا تسبیحات اربعہ کو آہستہ پڑھو سوائے بسم اللہ کے،کہ تم کو بلند آوازسے پڑھنے کا حق ہے۔ چاہے تم امام جماعت ہویا فردا پڑھ رہے ہو۔

سوال: اگر میں نے تسبیحات اربعہ کو اختیار کیا تو میں کیا پڑھوں؟

جواب: آہستہ آواز میں ایک مرتبہسُبۡحَانَ اللهِ وَالۡحَمۡدُللهِ وَلاَاِلٰهَ اِلاَّاللهُ وَاللهُ اَکۡبَرُ کہنا تمہارے لئے کافی ہے اور تین مرتبہ پڑھنا افضل ہے۔

سوال: کیا یہاں قرائت میں کوئی اور چیز بھی رہ گئی ہے؟

جواب: ہاں قرائت کرتے وقت زیادہ فصیح یہ ہے کہ تم کلمات کو حرکت دو یا آخر کلمات میں جو حرکت ہے اس کو اسی کے اعتبار سے اداکرو پس اگر کلمات کے آخری حروف ساکن ہیں تو حرکت مت لگاؤ اور جب تم کو کسی کلمہ پر وقف کرنا ہو تو زیادہ فصیح یہ ہے کہ اس کے آخری حروف کو ساکن کردو۔

پھر تم پر واجب ہے کہ حرف الف کو ذرا سا کھینچ کر پڑھو اور جب کلمہ ((ولاالضالین )) کو سورہ الحمد کے آخر میں پڑھو تو اس کے الف اور تشدید کو بصورت صحیح ادا کرو۔

سوال اور اسکے بعد؟

جواب: ہمزہ وصل کو اپنی قرائت میں اس وقت حذب کروجب درمیان کلام میں آئے اور کلام کے شروع میں (اس کو پڑھو) حذف مت کرو اور ہمزہ قطع کو اپنی زبان پر اس طرح جاری کرو کہ اچھی طرح آشکار اور واضح ہوجائے۔

سوال: ہمزہ وصل اور ہمزہ قطع کو مثال سے بیان کیجئے؟

جواب: مثلاًہمزہ ”اللہ الرحمن۔الرحیم اھدنا“ میں ہمزہ وصل ہے۔ پڑھنے کے دوران اس کو زبان پر ظاہر مت کرو اور مثلاً” انعمت ایاک“ میں ہمزہ قطع ہے اس کو پڑھنے کے دوران زبان پرواضح طور پر جاری کرو

سوال: پھرکیا؟

جواب: اگر تم چاہو تو سورہ حمد کے بعد سورہ توحید پڑھویا دوسرے سورہ میں سے جو بھی تمہارے لئے آسان ہو اس کو اختیار کرو کلمہ” احد“ کو وقف کرکے اس کو ساکن کرو جب تم آیہ کریمہ((قل هوالله احد )) کو پڑھو یعنی ذرا سا احد پر ٹھہر کر اس کے بعد والی آیہ ((الله الصمد )) میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

نماز میں تمہاری قرائت زیادہ صحیح اور صاف ہونی چاہئے اس کے لئے تم کسی ایسے شخص کے سامنے نماز پڑھو جس کی نماز صحیح اور بہتر ہو،تاکہ وہ تمہاری قرائت اور نمازکو درست اور صحیح کردے،اگر تم پر یہ چیز مشکل ہوتو کم از کم دونوں(سورتوں سورہ الحمد اور اس کے بعد والے سورہ کی قرائت) میں دقت نظر سے کام لیتے ہوئے مشہور قاریوں میں سے کسی ایک کی روشنی میں قرائت کرو‘تاکہ تمہاری غلطی معلوم ہوجائے اگر غلطی معلوم ہوجائے تو اس کو صحیح کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اس چیز سے کہ تم اپنے بچپنے کی جو غلط قرائت ہے اس کو جاری رکھو اور جس وقت تم پر تمہاری غلطی منکشف ہو جا ئےتو اتنا عرصہ گزرجائے کہ چند سال جو نماز تم نے پڑھی ہے وہ ایسی نماز ہوکہ جس کی قرائت صحیح نہ ہو۔

چوتھے قیام

اس کے معنی واضع ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ ذرا سا اشارہ اس کی طرف بھی کروں کہ قیا م نماز کے اجزاء میں سے ایک ایسا منفرد جز ہے کہ جس میں دو صفتیں موجود ہیں اور وہ یہ کہ وہ کبھی رکن نماز ہے جیسے تکبیرة الاحرام کی حالت میں قیام اور رکوع سے پہلے قیام کہ جس کو قیام متصل بہ رکوع سے تعبیر کیا جاتاہے ۔پس ان دونوں قیام پر رکن کے احکام اور خصوصیات مترتب ہوتے ہیں اور کبھی وہ واجبات نماز سے ہے لیکن رکن نہیں ہے جیسے قرائت اور تسبیحات اربعہ کی حالت میں قیام اور رکوع کے بعد والا قیام پس اس صورت میں اس پر واجبات نماز کے احکام جاری ہوتے ہیں جو غیر رکن ہیں ۔

پانچویں رکوع

پھردونوں سوروں کی قرائت کے بعد رکوع واجب ہے۔

سوال: میں کس طرح رکوع کروں؟

جواب: اتنا جھکو کہ تمہارے ہاتھوں کی ہتھیلیاں تمہارے گھٹنوں تک پہونچ جائیں اور جس وقت تم پورے طریقہ سے رکوع میں خم ہوجاؤ تو (سبحان ربی العظیم وبحمد) ایک مرتبہ کہو یا تین بار (سبحان اللہ) کہو یا تین مرتبہ (اللہ اکبر) یا تین مرتبہ ( الحمد للہ) کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر ممکن ہو مثلاً تین مرتبہ تہلیل (لا الہ الا اللہ) کو پھر رکوع سے سیدھے کھڑے ہوکر سجدوں کے لئے خم ہو ۔

چھٹے سجود (دونوں سجدے)

ہر رکعت میں دو سجدے واجب ہیں۔

سوال: میں کس طرح سجدے کروں؟

جواب: اپنی پیشانی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھلیاں اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھو اور سجدہ کرنے میں شرط ہے کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھو جو زمین سے ہو یا زمین سے اُ گتی ہو اور کھانے پہننے کے کام میں نہ آ تی ہو ۔

سوال: ذرا مثال سے سمجھائیے کہ کھانے اور پہننے والی چیزوں پر کیوں سجدہ جائز نہیں؟

جواب: پھل اور ترکاریاں ان پر سجدہ اس لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کھائی جاتی ہیں‘اور روئی اور کتان پر اس لئے سجدہ جائز نہیں کہ وہ پہنی جاتی ہیں ۔

سوال: مثلاً میں کس چیز پر سجدہ کروں؟

جواب: تم مٹی،ریت،کنکری اور لکڑی یا ان (درختوں کے) پتے کہ جو کھائے نہیں جاتے ان پر سجدہ کرو،تم اس کاغذ پر بھی سجدہ کرسکتے ہو کہ جو لکڑی یا روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو سوکھی گھانس اور ان کے علاوہ بہت سی چیزوں پر بھی سجدہ کرسکتے ہو۔

گیہوں،جو،روٹی،تار کول،شیشہ پرسجدہ نہ کرو اور مٹی پر سجدہ کرنا افضل ہے،اور اس سے افضل (تربت حسین خاک شفاء) پر سجدہ کرناہے اس پر سجدہ کرنے سے نماز کی فضیلت وشرف بڑھ جاتاہے۔

سوال: اور اگر میں ان چیز وں کے(جس پر سجدہ صحیح ہے) نہ ہونے کی بناءپر یا خوف کی بناء پران کے علاوہ چیزوں پر سجدہ کروں تو کیا حکم ہے؟

جواب: اگر تم اس چیز کے نہ ہونے کی بناپر کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یاوہ چیز تمہارے لئے فراہم نہیں ہے تو پھرتارکول پر سجدہ کرو،اگر یہ نہ ملے تو پھر جس پر چاہو مثلاً گپڑا، ہتھیلی یا اگر تم تقیہ کی حالت میں ہو،تو پھر تقیہ جس بات کا متقاضی ہو اس پر سجدے کرو۔

میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

یہ بات بھولنا نہ چا ہئے کہ تمھارے سجدہ کی جگہ تمہارے گھٹنوں اور انگوٹھوں کی جگہ کے برابر ہونا چاہئے پس ایک دوسرے کو چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند نہ ہونا چاہئے(اسی طرح تمہارے سجدہ کی جگہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند نہ ہونی چا ہئے)۔

سوال: میں پیشانی دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں پاؤں کے انگوٹھے اور دونوں گھٹنے زمین پر رکھ کر کیا کہوں؟

جواب: تم سجدے میں جانے کے بعد (سبحان ربی الاعلی وبحمدہ) ایک مرتبہ کہو یا سبحان اللہ تین مرتبہ کہو یا اللہ اکبر یا الحمدللہ تین تین مرتبہ کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر اس مقدار کے مطابق کہو پھر اپنے سرکو بلند کرکے اطمینان کے ساتھ بیٹھو،جب تم مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤ تو پھر دوسرا سجدہ کرو اور ذکر سجدے میں سے جو تم کو اوپر معلوم ہو اہو ،اس کو اختیار کرکے پڑھو۔

سوال: اور اگر میں سجدہ میں پورا نہ جھک سکوں کسی مرض کی بناپر مثلاً؟

جواب: جتنا تم جھک سکتے ہو اتنا جھکو اور وہ چیز کہ جس پر سجدہ صحیح ہے اس کو بلند رکھ کرپیشانی اس پررکھواور تمام اعضاء سجدہ کو انکی جگہ پر رکھو۔

سوال: اگر میں اس پر بھی قادر نہ ہوں تو؟

جواب: اپنے سرسے سجدے کی جگہ اشارہ کرو اگر یہ بھی نہ کرسکو تو اپنی آنکھوں سے اس طرح شارہ کرو کہ سجدہ میں جانے کے لئے آنکھیں بند کرو اور اٹھنے کے لئے آنکھوں کو کھول لو۔

ساتویں تشہد

اور ہر نماز کی دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد اور نماز مغرب اور نماز ظہرو عصرو عشاء کی آخری رکعت میں تشہد کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں اس میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کہو:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

تم اطمینان سے بیٹھ کرصحیح صورت میں اس کو پڑھو۔

آٹھویں۔سلام

ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر سلام کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں سلام میں کیا کہوں ؟

جواب: اگر تم اس میں (السلام علیکم) ہی پڑھو تو کافی ہے اور اس میں اگر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضاضہ کردو تو افضل ہے، اور اس سے افضل یہ ہے کہ اس سے پہلے:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّببِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ کهو ۔

نماز کے یہی اجزا ہیں کہ جو مسلسل (ایک کے بعد ایک ادا کئےجائیں گے جس طرح میں نے ان کو تمہارے سامنے گنوایا اور بیان کیا ہے ایک کے بعد ایک ان میں بعض جزءکا تمسک بعض جزء سےہے اس کے اجزاء میں اتنا فاصلہ نہ ڈالا جائے کہ اس سے نماز کی وحدت اور ہیت میں خلل پڑجائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے قنوت کے بارے میں بیان نہیں کیا حالانکہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے نماز میں قنوت پڑھتے ہیں؟

جواب: قنوت نماز پنجگانہ اور دوسری نمازوں میں ایک مرتبہ مستحب ہے،سوائے نماز شفع کے، دوسری رکعت میں دونوں سوروں کے بعد اور رکوع سےپہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو قنوت کے لئے بلند کرو اگر تمہارا ارادہ اس مستحب کام کو کرنے کا ہوتو۔

سوال: کیا کوئی ایسا ذکر معین ہے کہ جس کو میں قنوت میں پڑھوں؟

جواب: نہیں‘تم قنوت میں قرآن کی آیتیں پڑھ سکتے ہوکہ جن میں خداوند عالم سے ایسی دعا کی گئی ہو کہ جس کو تم چاہتےہو،اوراپنے رب سے مناجات اور جو بھی دعاچاہو اس سے کرو ۔

سوال آپ سے مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھے کس طرح نماز پڑھنا چاہئے اور کیا پڑھوں یا نماز کے ہر جزء کو کس طرح انجام دوں اب چاہتا ہوں کہ آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کروں کہ جن سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

سوال: اگر وہ چیز یں مجھ سے سرزد ہوجائیں تو کیا مجھ پر دوبارہ نماز واجب ہے؟

جواب : ہاں میں ان کے بارے میں تم کو بتاتا ہوں ۔

۱ نماز کے ارکان میں سے عمداً نیت یا تکبیرة الاحرام یا رکوع یا سجود وغیرہ کا چھوٹ جانا۔

۲ درمیان نماز نمازی سے حدث صادر ہونا ( اور اگرچہ آخری سجدہ کے بعد سہواً یا اضطراراً بھی حدث صادر ہوجائے)

۳ نمازی کا قبلہ سے عمداً تمام چہرہ یا تمام جسم منحرف ہوجائے۔

سوال : اگر قبلہ سے انحراف اتنا کم ہوکہ جو استقبال قبلہ میں کوئی حرج پیدا نہ کرسکے تو؟

جواب: اس سے نماز میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ مکروہ ہے ۔

۴ جان بوجھ کر نمازی کا بلندآوازسے ایسا ہنسنا کہ جس میں آتارچڑھاؤ ہو(یعنی قہقہہ لگانا)۔

۵ جان بوجھ کر نمازی کا نماز میں امور دنیا کے لئے رونا،چاہے اس میں آواز ہو یا نہ ہو،لیکن امور آخرت کے لئے رونا ہوتو اس میں کو ئی) حرج نہیں ہے۔

۶ نماز کے دوران مصلی کاعمداً کلام کرنا چاہے ایک حرف ہی کیوں نہ ہو‘جب کہ وہ حرف مفہوم رکھتا ہو،چاہے اس سے معنی کے مفہوم کا ارادہ کیا گیا ہو جیسے کہ کہا جائے (قِ) کہ یہ وقی کا فعل امر ہے،یا معنی کے مفہوم کے علاوہ ارادہ کیا گیا ہو،جیسے اگر نماز کے دوران سوال کیاجائے کہ (حروف) ابجد کا دوسرا (حرف) کیا ہے تو تم کہو (ب) اور نماز کے باطل کرنے سےمستثنی ہے، نماز میں سلام کا سلام سے جواب دینا واجب ہے۔

۷ نمازی کا اثنائے نماز میں کھانا پینا(اگرچہ نماز کی شکل وصورت کو ختم نہ بھی کرے)

۸ نماز میں ایسا کام کرنا جو نماز کی شکل وصورت کو بگاڑدے جیسے کپڑے کا سلنایا بننا۔

۹ نمازی عمداً بغیر تقیہ خدا کے سامنے ادب اور خضوع کے قصد سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے، اس کا نام تکفیرہے۔

۱۰ امام کے سورہ فاتحہ ختم کرنے کے بعد (یا فرادا نماز پڑھتے وقت ختم سورہ کے بعد( کلمہ (آمین) عمداً کہنا۔

پھر اس کے بعد ہمارے پاس جو بہتر ین موضوع ہے کہ جس کی طرف میں اشارہ کروں گا وہ نماز میں شک ہے۔

سوال: کیا نماز میں شک کرنا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

جواب: نماز میں شک کرنا تمام حالات میں اورہمیشہ نماز کو باطل نہیں کرتا‘ہاں،بعض شکوک نماز کو باطل کرتے ہیں،اور بعض شکوک قابل علاج ہیں بعض شکوک کی پرواہ نہ کرنی چاہئے وہ مہمل ہیں۔

میں عام طریقہ سے تم کو کچھ عام قاعدہ جو شک کے کچھ حالات کوشامل ہیں بتائے دیتاہوں۔

پہلا قاعدہ

جو بھی نماز کے بعد نماز کے صحیح ہونے میں شک کرے اس کی نماز کو صحیح سمجھاجائے گا۔

سوال: مثلاً؟

جواب: جیسے تم نے نماز صبح پڑھنے کے بعد شک کیا کہ دورکعتیں پڑھی ہیں یا زیادہ یا دوسے کم پڑھی ہے تو ایسی صورت میں تم کہو کہ میری نماز صحیح ہے۔

دوسرا قاعدہ

جو کوئی نماز کے کسی ایسے جزءکے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرےکہ اس کو بجالایا ہے، تو وہ جزء صحیح سمجھا جائے گا،اور نماز بھی صحیح ہوگی ۔

سوال: مثلاً؟

جواب: تم نے اپنی قرائت کی صحت کے بارے میں شک کیا،یا رکوع کے بارے میں یا سجدہ کی صحت کے بارے میں شک کیا قرأت تمام ہونے کے بعد،رکوع یا سجدہ انجام دینے کے بعد، تو تم کہو کہ میری قرائت صحیح ہے میرارکوع میرا سجدہ صحیح ہے پھر میری نماز اس کے بعد صحیح ہے۔

تیسرا قاعدہ

کسی نے نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کے بارے میں بعد والے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک کیا تو بنا اس پر رکھی جائیگی کہ وہ مشکوک جزء بجالایاگیا ہے اور اس کی نماز بھی صحیح ہے بلکہ اگر وہ شرعی طور پر اگلے جز ء میں داخل نہیں ہوا ہے اور بالفرض اگلے جزء میں پوری طرح داخل ہونے سے عمداً خلل انداز ہوا ہے تو بھی صحت پر بنا رکھنا کافی ہے( یعنی اگلے جزء میں ابھی پورے طورسے عمداً داخل ہونے میں دیر کی تو بھی جزء مشکوک کے بجالائے جانے پر بنا رکھی جائیگی)

سوال: مثال سے سمجھائیے؟

جواب: مثلاً تم نے سورہ الحمد کے بارے میں شک کیا کہ پڑھایا نہیں،حالانکہ تم دوسرے سورہ کے پڑھنے میں مشغول ہوتو کہو میں نے اس کو پڑھا ہے اور پھر اپنی نماز کو جاری رکھو اور اسی طرح تم خم ہونے کی حالت میں ہو رکوع کے لئے اور تم کو شک ہوا کہ میں نے سورہ پڑھایا نہیں تو تم کہو کہ میں نے سورہ کو پڑھا ہے،اور اپنی نماز کو جاری رکھو، پس تمہاری نماز صحیح ہے۔

چوتھا قاعدہ

جو زیادہ شک کرے اور شک میں فطری حالت سے زیادہ تجاوز کرجائے تو اس کا شک مہمل ہے وہ اپنے شک کی طرف اعتناء نہ کرے اور نہ اس کی طرف متوجہ ہو پس اس کی وہ نماز کہ جس میں اس نے شک کیا ہے صحیح ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلا تم نماز صبح کی رکعتوں کی تعداد میں زیادہ شک کرتے ہو تو تمہارا یہ شک مہمل ہے تم کہو میری نماز صحیح ہے،اور جب تمہارا یہ شک سجدوں کے بارے میں ہو کہ میں نے ایک سجدہ کیا یا دو، تو کہو میں نے دونوں سجدے کئےہیں،پس اپنے شک کی طرف توجہ نہ دو اور نہ اس کو کوئی اہمیت دو،بلکہ تم اپنی نماز کے صحیح ہونے کا اعتبار کرو اور اسی طرح وہ کثیر الشک کہ جو ہمیشہ نماز میں شک کرتا ہے اس کا شک بھی مہمل ہے اور اس کی نماز کو صحیح اعتبار کیا جائیگا۔۔ہمیشہ ۔۔ہمیشہ

سوال: میں کس طرح پہچانوں کہ میں زیادہ شک کرنے والا ہوں ۔

جواب: کثیر الشک(زیادہ شک کرنے والا) اپنے کو آسانی سے پہچان لیتا ہے اس کے لئے عام لوگوں کے سامنے اس کا کثیرا الشک ہونا ہے(اور وہ تین نمازوں میں شک نہ کرے) اگر وہ تین نمازوں میں پے درپے شک کرے تو اس کے کشیر الشک ہونے کے لئے کافی ہے۔

پانچواں قاعدہ

ہروہ شخص جو نماز صبح کی رکعتوں یا نماز مغرب کی رکعتوں،یا چار رکعتی نمازوں میں سے پہلی اور دوسری رکعتوں میں شک کرے اور اس کا ذہن ان دواحتمالوں میں سے کسی ایک کی طرف ترجیح نہ دے اور نہ اس کا ذہن رکعتوں کے عدد کو معین کرے بلکہ وہ اسی طرح متحیر اور مشکوک رہے،اور رکعتوں کو نہ جانے کہ کتنی ہوئیں تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلاً وہ نماز صبح پڑھ رہا ہے اور اس حالت میں اس کو شک ہوا کہ اس کی پہلی رکعت ہے یا دوسری تھوڑا سوچا اور فکر کیا مگر اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسرے تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: اگر دونوں احتمالوں میں سے اس کے ذہن میں ایک احتمال کو ترجیح حاصل ہوگئی ،تو کیاوہ اپنےذہن کے احتمال کو ترجیح دے کہ وہ پہلی رکعت ہے؟

جواب: اگر اس کے ذہن میں کسی معین رکعت کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اس غالب احتمال کے تقاضہ کے مطابق عمل کرےگا(اس لئے کہ تمہارے سوال میں پہلی رکعت کے رجحان کا احتمال تھا)اس بنا پر وہ دوسری رکعت بجالائے اور نماز کو تمام کرے،اس کی نماز صحیح ہے اور اسی طرح نماز مغرب میں اور چار رکعتی نمازوں کی پہلی اوردوسری کعتوں میں یہی حکم ہے۔

سوال: اب مجھے نماز صبح اور مغرب اور ظہر وعشاء کی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں شک کرنے والے کا حکم معلوم ہوگیا لیکن چاررکعتی نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں شک کرنے والے کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب شک کرنے والے کے ذہن میں کچھ رکعتوں کی تعداد کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اسی ظن کے مطابق عمل کرے گا کہ جس کا ذہن میں رحجان حاصل ہوا ہے۔

سوال: اور اگر وہ اپنے تحیر اور شک پر باقی رہے تو؟

جواب: اس وقت زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں پرہر ایک جگہ کا مخصوص حکم ہے میں یہاں مختصر طور پر کچھ کو بیان کرتا ہوں۔

( ۱) جس شخص نے تیسری اور چوتھی رکعت میں شک کیا اس وقت وہ چار رکعت پر بنا رکھے اور اپنی نماز تمام کرے پھر نماز کے بعد دو رکعت نماز بیٹھ کریا ایک رکعت نماز کھڑے ہو کر پڑھے اس نماز کونماز احتیاط کہتے ہیں۔

( ۲) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت میں اگر کوئی شک کرے (یعنی اپنی پیشانی سجدہ کرنے والی چیز پر رکھے چاہے ابھی ذکر شروع نہ بھی کیا ہو) تو جار پر بنا رکھے اور نماز کو تمام کرنے کے بعد دو سجدہ سہو بجالائے۔

( ۳) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی دوسری اور تیسری رکعت میں شک کرے تو تین پر بنا رکھے اور اس کے بعد چوتھی بجالائے،اس کے بعد نماز کو ختم کرکے (ایک رکعت کھڑے ہو کر) نماز احتیاط پڑھے ۔

سوال: نماز احتیاط کس طرح پڑھی جائیگی؟

جواب: اپنی نماز کو تمام کرنے کے بعد داہنے اور بائیں توجہ کئے بغیر اور مبطلات نماز میں سے کسی مبطل کو انجام دیئے بغیر نماز احتیاط کو شروع کرے تکبیر کہے پھر سورہ الحمد پڑھے (آہستہ) اور اس میں دوسرا سورہ واجب نہیں ہے،پھر رکوع کرے،پھر سجدہ کرے،اگر نماز احتیاط ایک رکعت پڑھ رہا ہے تو تشہد وسلام پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور اگر دورکعت نماز احتیاط واجب تھی تو دوسری رکعت کو،پہلی رکعت کی طرح بجالا ئے۔

سوال: سجدہ سہو جس کو آپ نے ذکر کیا( وہ کس طرح ادا کیا جائیگا؟

جواب: اپنی نماز کے بعد نیت کرو اور سجدہ میں جاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجد ہ میں جانے سے پہلے تکبیر کہو اور سجدہ میںبسم الله بالله السلام علیک ایها النبی ورحمة الله وبرکاتہ پڑھو پھر سجدے سے سراٹھا کر بیٹھو پھر دوبارہ سجدے میں جاؤ پھر سر اٹھاؤ اور تشہدو سلام پڑھ کر سجدۂ سہو کو تمام کرو۔

میرے والد نے مزید فرمایا۔

لیکن سجدہ سہو کے بارے میں فقط یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں سجدۂ سہو چوتھی اور پانجویں رکعت میں شک کرنے کی بناپر واجب ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ دوسری جگہیں بھی ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ لف جب تم نماز میں سہواًیا بھول کر کلام کرو۔

ب جب تم ایسی جگہ سلام بھول کر کہو جہاں سلام کہنے کی جگہ نہیں تھی اور کہو(السلام علیک ایها النبی ورحمة الله ربرکاته یا کهو السلام علینا وعلی عباد الله الصالحین السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته )

ج اگر تم نے بھول کر نماز میں تشہد کو نہ پڑھا تو نماز کے بعد دوسجدۂ سہوبجالاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجدۂ سہو کے ساتھ تشہد کی قضا بھی کرو۔

د (تم کو نماز کے بعد اجمالاً معلوم ہو کہ تمہاری نماز میں کچھ کمی یا زیادتی ہوگئی ہے ساتھ ہی یہ کہ تمہاری نماز محکوم بصحت ہے) تو ایسی صور ت میں دوسجدہ سہو تم پر لازم ہے اور افضل تمہارے لئے یہ ہے کہ اگر تم نماز میں ایک سجدہ بھول گئے ہو تو دو سجدہ سہو بجالاؤ ،اس کے ساتھ ہی بعد نماز اس کی قضا بھی بجالاؤاور ایسے ہی ہے اگرتم بیٹھنے کی جگہ کھڑے یا کھڑے ہونے کی جگہ بھول کر بیٹھ گئے، بلکہ افضل یہ ہے کہ تم اپنی نماز میں ہر کمی وزیادتی کی لئے سجدہ سہو کرو۔

جتنی مرتبہ سجدہ واجب ہوا ہے اتنی ہی مرتبہ اس کو بجالایا جائے یعنی دو مرتبہ یا اس سے زیادہ واجب ہوا ہے تو تم اتنی مرتبہ سجدہ کرو ہماری نماز کی گفتگو جب ختم ہوگئی تو میں نے اپنے والد سے تقاضہ کیا کہ وہ میرے سامنےبطور درس اور تطبیق کے طور پر چار رکعتی نماز کہ جو نماز پنجگانہ میں سے سب سے زیادہ طولانی ہے پڑھیں،تاکہ میں نزدیک سے ملاحظہ کروں کہ میرے والد کس طرح تکبیر کہتے ہیں‘کس طرح قرائت ورکوع وسجود وتشہد اور سلام کو انجام دیتے ہیں،میری اس یاد دہانی کے بعد میرے والد ہر روز مجھ کو سیکھانے کے لئےمیرے سامنے نماز عشاء پڑھتے ہیں اور یہ نماز چاررکعت بلند آواز والی ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب میں خود دیکھوں گا کہ وہ کس طرح نماز پڑھتے ہیں اور جس وقت میرے والد اس بلند آواز والی چاررکعتی نماز کو شروع کرتے تو میں اپنے تمام حواس کو سمیٹ کر نہایت ہوشیاری کے ساتھ ان کی نماز کے تمام حرکات کو دیکھتا اور اب آپ سے بیان کرتا ہوں کہ میرے والد کس طرح نماز پڑھتے ہیں۔

پہلے ا نھوں نے وضوء کیا پھر وہ اپنے مصلے پر روبقبلہ کھڑے ہوگئے وہ خاشع تھے پس انہوں نے نماز کے لئے اذان واقامت کہی پھر نماز کو شروع کیا‘پس انہوں نے اللہ اکبر کہی پھر سورہ الحمد کوپڑھنے کے بعد سورہ قدر کو پڑھا جب وہ سورہ تمام ہوگیا کھڑے ہوئے تھے اور رکوع میں خم ہونے والے تھے اور ‘جب پوری طرح رکوع میں پہنچ گئے تو سبحان ربی العظیم وبحمدہ کہتے ہوئے ذکر کیا اور رکوع کی حالت میں ہی جب انہوں نے ذکر کے آخری حرف کو تمام کیا تو وہ سیدھے اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے اور جب وہ قیام کی حالت میں تھے تو سجدہ کے لئے جھکے اور جب سجدے میں پہنچے توسبحان ربی الا علی وبحمده کہہ کر ذکر سجدہ کیا اور سجدہ ہی کی حالت میں ذکر کے آخری حرف کو تمام کرکے سجدہ سے سراٹھاکر سیدھے بیٹھ گئے پھر دوسرے سجدے کے لئے جھکے پس اس میں بھی وہی ذکر کیا جو پہلے سجدہ میں کیا تھاسبحان ربی الاعلی وبحمده پھر سر کو سجدہ سے بلند کرکے بیٹھے،تاکہ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں،اور جس وقت قیام میں پہونچے تو سورہ حمد اور اس کے بعد اس مرتبہ سورہ توحید کوپڑھا،جب اس کی قرائت سے فارغ ہوئے تو قنوت کے لئے ہاتھوں کو بلند کیا اور قنوت میں قرآن کی اس آیت کریمہ کو پڑھارب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین والمومنات ولاتزد الظا لمین الاتباراً ۔

پھر قنوت سے ہاتھ گراکر رکوع کے لئے خم ہوئے اور جس وقت رکوع میں پہونچ گئے سبحان ربی العظیم وبحمدہ کو پڑھا،پھر سیدے کھڑے ہوئے تاکہ سجدہ کے لئے خم ہوں اور جس وقت سجدہ میں پہونچے تو سبحان ربی الاعلی وبحمدہ کو پڑھا اور جب سجدے سے اٹھ کر بیٹھ گئے تو تشہد کو پڑھا”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد سے فارغ ہوئے تو سیدھے کھڑے ہوگئےتیسری رکعت کے لئے قیام میں پہونچنے کے بعد انھوں نے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کی تسبیح کو تین مرتبہ پڑھا،مگر آہستہ آواز میں‘پھر رکوع سے کھڑے ہوئے اور سجدے کے لئے جھکے اور اس میں وہی پڑھا جو پچھلے سجدوں میں پڑھا تھا سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پھر بیٹھ کر دوسرے سجدے میں چلے گئے پس اس میں بھی وہی پڑھا تھا،پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوئے جو آخری رکعت تھی پس اس رکعت میں وہی تسبیح پڑھی جو پچھلی رکعت میں پڑھی تھی سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کو تین مرتبہ پڑھا ۔

پھر اطمینان سے بیٹھ کر تشہد میں وہی پڑا کہ جو پہلے تشہد میں پڑھا تھا:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد کو ختم کیا تو نبیؐ پر سلام پڑھا:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ“،”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه “

اس طرح میرے والد نے نماز عشاء کو پڑھا‘اسی نماز کے مثل نماز ظہرو عصر ہے کیونکہ وہ دونوں بھی چار رکعت ہیں سوائے اس کے کہ ان دونوں کی پہلی دو رکعتوں میں دونوں سورہ کی قرائت آہستہ آواز میں ہوتی ہے۔

کبھی میں نے اپنے والد کو نماز مغرب کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ان کو نماز عشاء ہی کی طرح نماز مغرب کو پڑھتے ہو ئے پایا ہے مگر یہ کہ تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر وہ تشہد پڑھتے اور سلام کہہ کر اپنی نماز کو ختم کردیتے تھے(چونکہ نمازمغرب کی تین رکعت ہے)

اسی طرح میں نے ان کو نماز صبح بھی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح نماز عشاء پڑھتے ہیں مگر یہ کہ دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد تشہد اور سلام پڑھنے کے بعد نماز تمام کردیتے تھے، کیونکہ نماز صبح دورکعت ہے۔

اسی طرح میرے والد نماز پنجگانہ کو پڑھتے تھے مگر میرے سامنے (نماز عشاء کے علاوہ) اور نمازیں نہ پڑھتے کہ جن کو دیکھ کر محفوظ کرتا،اور ان کے بارے میں کچھ سوچتا اب میں آپ کے سامنے اپنے والد کی نمازوں کی بعض خصوصیات کو بیان کروں گا،وہ نیچے دی ہوئی خصوصیات کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔

۱ نماز کو اول وقت پڑھنے کے زیادہ حریص ہیں (اور پابندی وقت کا خاص خیال رکھتے ہیں) پس وہ نماز ظہر کو مثلاً جب ظہر کا وقت (زوال) ہوتا ہے پڑھتے ہیں اسی طرح نماز مغرب کو اول وقت پڑھتے ہیں اورایسےہی تمام نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر پڑھتے ہیں اور جس وقت میں نے نماز کو اول وقت پڑھنے کی جلدی کا سبب پوچھا تو انھوں نے جواب میں امام صادق علیہ السلام کی حدیث کو بیان فرمایا کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایاہے۔

اول وقت کی فضیلت آخر وقت پر ایسی ہی ہے جیسے آخرت کو دنیا پر فضیلت ہے فضل الوقت الاول علی الاخیر کفضل الا خرة علی الدنیا ۔

۲ اورجس وقت اپنے پروردگار کے سامنے نماز پڑھنے کے لئےکھڑے ہوتے تو آپؑ پر خضوع وخشوع وتذلل کے آثار ظاہر ہوجاتے اور کبھی کبھی اپنے نفس سے سوال وجواب کرتے،لیکن ذرا بلند آواز سے( قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔)

گویا نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتے ہیں اسی طرح اپنے قلب کو نماز میں اللہ کے لئے خشوع کی اہمیت کو بتاتے ہیں۔

۳ اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہیں تو اس سے پہلے دورکعت نماز پڑھتے،اور ظہر کی نماز سے پہلے آٹھ رکعت، دودورکعت کرکے مشل نمازصبح کے پڑھتے،اور اسی طرح عصر کی نماز سے پہلے اتنی ہی مقدار میں نماز پڑھتے اور نماز مغرب کے بعد دو دورکعت کرکے مثل نمازصبح کے چار رکعت نماز پڑھتے اور عشاء کے بعد دورکعت نماز بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ میں نے ان نمازوں کے بارے میں معلوم کیا تو فرمایا(وہ نوافل)ہیں کہ جن کے متعلق امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:نوافل کا پڑھنا مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

۴ جملہ (اللہ اکبر) کے کلمہ (اکبر) میں جو ہمزہ ہے وہ ھمزہ قطع ہے پس جس وقت بھی تم تکبیر کہو تو تمہارے اوپراس ھمزہ کا واضح اور آشکار کرنا واجب ہے جس وقت میرے والد نے یہ فرمایا:تو میں نے ڈرتے ہو ئےان سے ایک مرتبہ کہا بعض لوگ اس ہمزہ کو واؤ کے مشابہ ادا کرتے ہیں جیسے کہ یہ جملہ اللہ اکبرہو۔)

تو فرمایا: کہ ان کی طرح ادا کرنے سے تم بچو کیونکہ وہ غلطی پر ہیں اور میرے والد نے مزید فرمایا: سورہ فاتحہ کی آیت (صراط الذین انعمت علیہم) میں (انعمت) کے ہمزہ کو ادا کرنا تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت اپنی زبان پر صاف واضح اور آشکار ادا کرو،اور اس جیسے تمام ہمزہ جیسے الاعلی کا ہمزہ کہ جو سجدہ میں سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پڑھتے ہیں ہمزہ قطع ہے،تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت زبان پر واضح وروشن ظاہر کرو۔

۵ میرے والد نے فرمایا جب تم سورہ توحید کی آیہ کریمہ (قل ھواللہ) کی تلاوت کرو تو کلمہ(احد) کی دال پر وقف کرو‘پھر اس کے بعد والی آیت (اللہ الصمد) کی تلاوت سے پہلے تھوڑا ٹھہرو ،یہ تمہارے لئے سہل اور آسان ہے۔

۶ میرے والد اپنی نماز میں کلموں کے آخر کو حرکت دیتے تھے جب کہ وہ اپنے کلام اور ذکر کو آگے بڑھاتے اور جاری رکھتے اور اسی کے ساتھ جب کہیں روکنا چاہتے تو کلمہ کے آخری حرف کو ساکن کردیتے تھے۔

۷ میں نے اپنے والد سے ایک مرتبہ سوال کیا جب آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے ہیں تو میں نے آپ کو (رحمٰن) کے نون کو زیرکے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے،اوراسی طرح (الرحیم) کی (میم) کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے اور آپ الرحمٰن الرحیم،مالک یوم الدین سورہ حمد کی بھی اسی طرح تلاوت کرتے ہیں حالانکہ اکثر لوگوں کو میں نے پیش کے ساتھ پڑھتے ہو ئےسنا ہے۔اسی طرح جب آپ سورہ حمد میں خداوند عالم کے اس قول ایاک نعبد کی قرائت کرتے ہیں تو کلمہ(نعبد)کی (ب)کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جب کہ اکثر لوگ نماز کی حالت میں اس کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔

انھوں نے کہا تم نے نحو اور اس کے قواعدکو نہیں پڑھی ہے؟

میں نے کہا :میں نے نحو پڑھی ہے مگر اتنی مشکل نہیں۔

انھوں نے فرمایا: نحو کے علماء (الرحمن الرحیم)کے دونوں کلموں کی حرکت میں کیا کہتے ہیں؟

میں نے کہا وہی زیر جیسا کہ آپ نے فرمایا ۔

تو انھوں نے کہا: قرآن کریم کا ایک نسخہ میرے پاس لاؤ پس میں نے کتاب اللہ کا ایک نسخہ جومیرے قریب تھا اٹھا کر ان کو دیا۔

انھوں نے فرمایا: سورہ حمد نکالو اور اس کو دیکھو،پس میں نے سورہ حمد کو نکالا تو (الرحمن الرحیم) کے دونوں کلموں کے آخر میں زیر تھا اور (ایاک نعبد) کے کلمہ کی (باء) پر زیر نہیں ہے میں نے کہا جس طرح آپ نے پڑھا ہے ویساہی ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح کتاب خدا میں (حرف)پر حرکت ہے اسی طرح پڑھو اور جو غلط قرائت مشہور ہے اس سے محفوظ رہو۔

۸ اور میرے والد رکوع اور سجودمیں ذکر اس وقت تک نہیں پڑھتے جب تک ان میں جاکر ٹھہرنہ جائیں اور اپنے سر کو بلند نہیں کرتے مگر ذکر کے تمام کرنے کے بعد۔

۹ اور جب اپنے سر کو پہلے سجدہ سے اٹھاتے ہیں تو تھوڑی دیر بالکل ٹھیک سے بیٹھ کر دوسرے سجدے میں جاتے ہیں اور اسی طرح وہ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کرتے ہیں،یعنی بیٹھتے ہیں پھر بعد والی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

۱۰ میں نے ان سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ میں آپ کو دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں کہ آپ اپنےلئے اپنے والدین اور تمام برادران مومنین کے لئے نماز کے بعد دعا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے۔

”من دعا لاخوانہ امن المومنین و المومنات و المسلمین و المسلمات و کل اللہ بہ عن کل مومن ملکا یدعو لہ“

جو شخص اپنے مومن،مومنہ اور مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرے خداوندعالم ہر مومن کے بدلے اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کے لئے دعا کرتارہتاہے ۔

۱۱ میں نے سوال کیا کہ میں آپ کو ہر فریضہ کے بعد تسبیح پڑھتے دیکھتا ہوں،آپ نے فرمایا:ہاں وہ تسبیح زہرا علیہا السلام ہے اور یہ تسبیح جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہ زہرا(س) کو تعلیم کی تھی اور وہ (اللہ اکبر ) ۳۴/ مرتبہ (الحمدللہ) ۳۳/ مرتبہ (سبحان اللہ) ۳۳ / مرتبہ ہے پس ان سب کی تعداد سوہوگی ۔

سوال: کیا تسبیح زہراء(س) کی فضیلت ہے؟

جواب: ہاں، امام صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے ابی ہاورن مکفوف سے فرمایا اے ابا !ہاورن ہم اپنے بچوں کو تسبیح زہراء پڑھنے کا اس طرح حکم دیتےہیں جس طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں پس اس کا پڑھنا لازم ہے پس جس بندہ نے اس کو لازمی طور پر نہیں پڑھا اس نے(ہم سے) شقاوت کی۔

۱۲ کبھی کبھی میرے والد نماز ظہر کے بعد عصر پڑھتے یا نماز مغرب کے بعد فوراً عشاء پڑھتے اور کبھی دو نمازوں کے درمیان فاصلہ ڈال دیتے نماز ظہر کے بعد اپنے ضروریات کو انجام دیتے اور جب نماز عصر کا وقت آتاتو نماز عصر پڑھتے اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی فاصلہ سے پڑھتے ۔

اور جس وقت میں ان سے اس بارے میں معلوم کرتا تو فرماتے تم کو اختیار ہے چاہے ان دونوں کے درمیان فاصلہ ڈالو یا بغیر فاصلہ کے پڑھو۔

۱۳ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ جب آپ سورہ قدر پڑھتے ہیں تو میں سنتا ہوں کہ آپ (انانزلناہ فی لیلة القدر) کو پڑھتے وقت حرف لام کو ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کو اصلاً ظاہر نہیں کرتے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ حرف لام موجود ہی نہیں ہے،وہ (انزلناہ) پڑھتے ہیں اورسبحان ربی العظیم وبحمده کو جب آپ پڑھتے ہیں تو سبحان کی سین کو پیش اور (ر)کو زبر پڑھتے ہیں حالانکہ میں بہت لوگوں سے سنا ہے جو آپ کی طرح نہیں پڑھتے؟

آپ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ تم اپنی قرائت کی طرف متوجہ رہو۔

دوسری نمازوں کے بارے میں گفتگو

دوسری نمازوں کی گفتگو کا وقت آنے سے پہلے میں ان چیزوں کے بارے میں نظر ثانی کرنے لگا کہ جو پہلی نماز کی گفتگو میں زیر بحث آئی تھیں تاکہ اپنے حافظہ کا امتحان لوں کہ کتنا مجھے یاد ہے تاکہ اس چیز کے بارے میں اپنے والد سے معلوم کروں کہ جس کو میرے ذہن نے یاد نہیں رکھایا جس کو سمجھا نہیں ہے اور ابھی ہماری نماز کی بحث بھی جاری ہے۔

میرے والد جب تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے ایک ایسا سوال کرنے سے پہل کی کہ میں اس کا جواب نہ دے سکا میں نے ان سے عرض کیا کہ:

سوال: کیا نماز عشاء کو میں دورکعت پڑھ سکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ وہ چار رکعتی نماز ہے لیکن میں نے آپ کو دورکعت پڑھتے دیکھا ہے؟

والد کیا ہم سفر میں تھے؟۔

جی ہاں۔

والدیہ صحیح ہے پس چار رکعتی نمازنماز ظہر عصر عشاء سفر میں دو رکعت ہوجاتی ہیں جب کہ نیچے بیان کی ہوئیں ان میں قصر کی شرطیں پائی جائیں۔

۱ جب کسی شخص کے سفر کا قصد اپنے رہنے کی جگہ تقریباً(کلو میڑ) یا زیادہ ہو،چاہے یہ دوری فقط جانے کے لئے ہو یا آنے جانے کے لئے ہو۔

سوال: مجھے وضاحت کے ساتھ بتائیے؟

جواب: جب مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے جو تمہارے وطن سے( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ دور ہوتو اس پر اپنی نماز میں قصر واجب ہے،اس طرح کہ وہ چار رکعت والی نماز کو فقط دورکعت پڑھے اور اسی طرح کوئی مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے کہ جس کی مسافت اس کے وطن کی جگہ سے ( ۲۲ کلو میڑ) ہو اور اسی روز اس کی واپسی کا بھی ارادہ ہو تو اپنی نماز کو قصر کرے گا۔

سوال: کس جگہ سے سفر کی ابتداء کا حساب کیا جائیگا؟

جواب: سفر کی ابتداء کا حساب شہر کے آخری مکان سے کیا جاتاہے۔

۲ مسافر اپنے سفر کے ارادہ پر باقی رہے،اگر درمیان سفر اپنی رائے بدل دے تو پھر نماز پوری پڑھے گا مگریہ کہ اس کا ارادہ اپنے وطن کی طرف لوٹنے کا ہو اور اس کا یہ طے کیا ہوا راستہ آنے جانے کو ملا کر قصر کی مسافت کی مقدار تک پہنچ گیا ہو تو پھر اس پر نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے۔

۳ مسافر کا سفر جائز ہو پس اگر اس کا سفر حرام (کام کے لئے) ہو جیسا کہ بعض حالات میں زوجہ کا بغیر شوہر کی اجازت کے سفر کرنا یا اپنے سفر میں حرام کام کا ارادہ ہو مثلاًچوری کا،تو ایسی حالت میں وہ پوری نماز پڑھے اور اسی سے ملحق اگر کوئی تفریح کے قصد سے شکار کو جائے تو بھی نماز پوری پڑھے۔

۴ مسافر اپنے وطن سے نہ گزرے یا وہاں اثنائے سفر قیام نہ کرے یا جس شہر کی طرف سفر ہے اس میں دس ( ۱۰) روز رہنے کی نیت نہ کی ہو،یا کسی شہر میں ایسا متردد نہ ہو کہ یہاں سے کب جائیگا اور اس طرح اس کو تیس( ۳۰) روز تردد میں گزر گئے ہوں تو ایسی صورت میں اول سفر سے تیس ( ۳۰) دن تک نماز قصر پڑھے گا،پوری نہیں۔

سوال: اور جب اپنے وطن یا اپنے ٹھہرنے کی جگہ سے اثنائے سفر گزرے اور وہاں اترے یا جس شہر کی طرف سفر کیا ہے وہاں دس دن یا زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو یا ایسی جگہ گیا ہو جہاں سے وہ واپس لوٹنے میں متردد ہو اور اس طرح اس کو وہاں تیس ( ۳۰) دن گزر گئے ہوں تووہ ان جگہوں پر کون سی نماز پڑھے گا؟

جواب: ان جگہوں پر وہ پوری نماز پڑھے گا مگر جو شخص سفر سے واپسی میں متردد ہو (تووہ تیس( ۳۰) دن تک قصر نماز پڑھے گا )تیس ( ۳۰) دن بعد پوری نماز پڑھے گا ۔

۵ کسی کا سفرکرنا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور۔ملاح۔ چرواہ یا وہ بار بار کسی دوسرے کام کے لئے سفر کرے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈرائیور اثنائے سفر پوری نماز پڑھے گا؟

جواب: ہاں جس کا پیشہ ڈرائیوری ہوتو اگر وہ ( ۴۴ کلومیڑیا زیادہ) مسافت طے کرے تو وہ اپنے کام(ڈرائیوری )کے دوران پوری نماز پڑھے گا۔

سوال: تاجر،طالب علم،ملازم جب کسی شہر میں مقیم ہوں اور کسی دوسرے شہر میں ‘یونیور سٹی۔دفتر یا مرکز تجارت ہو اور وہ ان کے رہنے کی جگہ سے ۲۲ کلومیڑدور ہو اور وہ وہاں پہنچنے کے لئے ہر روزیا ہر دوسرے روز سفر کرتے ہوں (تو کیا حکم ہے)؟

جواب: تو وہ نماز کو پوری پڑھیں گے قصر نہیں پڑھیں گے۔

۶ جن کا کوئی رہنے کا ٹھکانہ نہ ہو،بلکہ ان کا گھران کے ساتھ ہو اور ان کا کوئی وطن نہ ہو،جیسے سیاح کہ جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے ہیں اور کہیں بھی ان کے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہوتا تو وہ نماز پوری پڑھے گا۔

سوال: مسافر قصر کی ابتداء کہاں سے کرے گا؟

جواب: جب شہر والوں کی نظروں سے وہ پوشیدہ اور ان سے دور ہوجائے تو اس پر (اپنی نماز کا) قصر کرنا واجب ہے۔اور اس کی اکثر علامت یہ ہے کہ وہ مسافر شہر کے رہنے والوں میں سے کسی کو نہ دیکھے اس وقت اپنی نماز کی قصر کرے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مسافر جب اپنے وطن سے گزرے یا وہاں ٹھہرے تو وہ نماز کو پوری پڑھے گا آپ کا اس کے وطن سے کیا مقصد ہے؟

جواب: میرا یہاں وطن سے مقصدیہ ہے۔

الف۔ وہ اصلی ٹھکانہ جس کی طرف اس کو منسوب کیا جاتاہے اور اس کے والدین کے رہنے کی جگہ ہو اورعموماًاس کی زندگی کا مرکز ہے۔

ب۔ وہ جگہ کہ جس کو انسان اپنا ٹھکانہ اور مسکن بنا لیتا ہے اس طرح کہ اپنی بقیہ عمر کو وہیں گزارے۔

ج۔ ایسی جگہ جہاں اتنی طویل مدت تک رہے کہ جب تک وہ وہاں ہے اس کو مسافر نہ کہا جاسکے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے؟

۱ جب مسافر اپنے وطن سے گزرے اور وہاں ٹھہرے۔

۲ جہاں کا انسان نے سفر کیا ہے وہاں وہ دس روز یا زیادہ برابر ٹھہرے۔

۳ اور جب کسی ایسے شہر کا سفر جہاں تیس( ۳۰) روز تک ایسا متردد رہے کہ نہ جانے کہ کب وہ اپنے وطن کو واپس ہوگا تو ایسے مسافر(جو اوپر بیان ہوئے ہیں) اپنی نماز پوری پڑھیں گے اور قصر نہیں کریں گے؟

جواب: جی ہاں ۔

سوال: اور جب کسی مسافر کو اوپر تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئے تو؟

جواب: تو وہ نماز قصر پرھے گا پس ہر وہ مسافر کہ جو( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ کا سفر کرے تو وہ نماز قصر پڑھے گا مگریہ کہ اپنے وطن سے گزرے اور اس میں ٹھہرے یا کہیں دس روز کی نیت کرلی ہوتو،والد ہاں ۔۔ہاں۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی مسافر ہوتو اگر وہ اثنائے سفر نماز نہ پڑھے بلکہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے تو (کیا حکم ہے؟)

جواب: وہ نماز پوری پڑھے گا‘کیونکہ وہ نماز اپنے وطن میں پڑھ رہاہے۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی اپنے وطن میں ہو اور نماز نہ پڑھے پھر وہ ۴۴ کلو میڑ یا زیادہ کا سفر کرے؟

جواب: تووہ نماز کو قصر پڑھے کیونکہ وہ نماز کو سفر کی حالت میں پڑھ رہا ہے۔

سوال: میں بعض دفعہ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اکھٹی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ایک ساتھ رکوع،ایک ساتھ سجدے اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟

جواب: وہ لوگ نماز یومیہ کو جماعت سے پڑھتے ہیں فرادی نہیں ۔

سوال: ہم نماز جماعت کو کس طرح پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: جب دو یا دو سے زیادہ اشخاص جمع ہوجائیں تو ان میں سے ایک جو امام جماعت کے شرائط رکھتا ہے اس کو جائز ہے کہ وہ سب کے آگے کھڑے ہو کر باقی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ان لوگوں کو اس عمل سے زیادہ اجر ملتا ہے۔

سوال: کیا نماز جماعت مستحب ہے؟

ج ہاں اس کا عظیم ثواب ہے،خاص کر کسی عالم کے پیچھے اور جتنے لوگ نماز جماعت میں زیادہ ہوں گے اتنی ہی اس کی فضیلت بھی بڑھے گی۔

سوال: امام جماعت کے کیا شرائط ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی گفتگو میں اشارةبیان کیا؟

جواب: امام جماعت کے شرائط میں ہے کہ وہ ،بالغ ہو ،عاقل ہو، مجنون نہ ہو،مومن ہو،عادل ہو،اپنے خدا کی معصیت (گناہ) نہ کرتا ہو قرائت صحیح ہو،حلال ہو،جب مامون مرد ہوں تو امام بھی مرد ہو(عورت نہ ہو)

سوال: ہم کس طرح پہچانیں کہ یہ مرد مومن ہے،عادل ہے تاکہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ سکیں؟

جواب: اس کے ظاہری حال کا بہتر ہونا کافی ہے۔

سوال: کیا جماعت میں امام جماعت کے دوسرے شرائط بھی ہیں۔؟

جواب: ہاں (امام جماعت کے بارے میں اعتبار کیا گیا ہے کہ وہ ایسا نہ ہوکہ جس پر شرعی حد جاری کی گئی ہو) اور اگر ماموم کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہےہیں تو امام کی نماز بھی قیام کی حالت میں ہونی چاہیے امام وماموم کے قبلہ میں احتلاف نہ ہو ایسا نہ ہوکہ امام کا اعتقاد قبلہ کےمتعلق کسی طرف ہو اور ماموم کا اعتقاد دوسری طرف ہو، ماموم کی نظر میں امام کی نماز صحیح ہو،پس اگر امام پانی کی نجاست کو نہ جانتے ہوئے نجس پانی سے وضو کرے اور ماموم کو پانی کی نجاست کا علم ہو تو پھر ایسی صورت میں ماموم کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔

سوال: میں جماعت کے ساتھ کس طرح نماز پڑھو؟

جواب: پہلے کسی ایسے شخص کو کہ جس میں امام جماعت کے شرائط جمع ہوں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،شخص معین کرو اگر تم تنہا ہو تو امام کے داہنی طرف ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو یا اگر تم دویا دو سے زیادہ ہوتو پھر امام کے پیچھے کھڑے ہو تمہارے اورامام کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جیسے دیوار وغیرہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ زیادہ بلند نہ ہونی چاہیے تمہارے اور امام کے درمیان یا جو مصلی تمہارے پہلو میں کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے آگے کھڑا ہے کہ جس کا رابطہ امام سے ہے اس کے او ر تمہارے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہئے ۔

سوال: پس اس بناپر نمازیوں کے درمیان ایک میڑسے زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہیے؟

جواب: (ہاں! تقریبا) اور نمازی کا اپنے برابر والے نمازی سےمتصل ہونا چاہیے ایک سمت ہی سے کافی ہے اور یہ اتصال چاہے آگے سے ہو یا داہنی طرف سے ہویا بائیں طرف سے ہو کافی ہے۔

سوال: اس کے بعد کیا ہونا چا ہئے؟

جواب: جب امام جماعت تکبیر کہے تو اس کے بعد اس کے پیچھے کھڑے ہونے والے تکبیر کہیں جب امام سورہ الحمد اور اس کے بعد سورہ پڑھے تو مامومین کو ان (سوروں) کی تلاوت نہ کرنی چاہیے کیونکہ امام کی تلاوت ان کی طرف سے کفایت کرے گی پس جب وہ رکوع کرے تو وہ بھی رکوع کریں اور جب و ہ سجدہ میں جائے تو اس کے بعد وہ سجدہ میں جائیں اور جب وہ تشھد پڑھے تو یہ تشھد پڑھیں اور اس کے سلام کے بعد یہ سلام کہیں۔

سوال: اور کیا میں رکوع و سجدہ اور تشہد میں ذکر پڑھوں اور کیا تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ پڑھوں یا خاموش رہوں اور کچھ نہ پڑھوں؟

جواب: بلکہ تم اسی طرح (ان کو) پڑھو کہ جس طرح تم فرادی نماز پڑھتے وقت پڑھتے ہو،لہٰذا تم رکوع ،سجود اور تشہد میں (اس کا مخصوص) ذکر پڑھو اور تیسری اور چوتھی میں جیسا کہ میں نے بتایا تسبیحات اربعہ کی تکرار کرو فقط سور تین(الحمدو سورہ) پڑھنا تم پر (واجب) نہیں ہے،پھر(ان کے علاوہ سب کی متابعت تم پر (ضروری ) ہے۔

سوال: آپ کا کیا مقصد ہے؟

جواب: تم پر امام جماعت کی اتباع ہر ہر قدم پر ضروری ہے یعنی جب وہ رکوع کرے تو تم بھی اس کے ساتھ رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی اس کے ساتھ سجدہ کرو اور جب وہ سجدے سے سر اٹھائے تو تم اپنے سر کو اٹھاؤ اور اسی طرح (ہر فعل کو انجام دو)افعال نماز میں اس سے پہل نہ کرو۔

سوال: اور امام جماعت سے کب ملحق ہونا چاہیے؟

جواب: امام جماعت کے حالت قیام میں تکبیر کہنے کے بعد یا جب وہ حالت رکوع میں ہو تو اس سے ملحق ہونا چاہیے۔

سوال: میں امام جماعت کے ساتھ اس وقت ملحق ہوں کہ جب وہ دونوں سورتوں کی تلاوت کررہا ہو تو مجھ پر دونوں سوروں کا پڑھنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا‘مگر جب وہ رکوع میں ہوتو میں کس طرح اس سے ملحق ہوں؟

جواب: تم تکبیر کہہ کرفوراً رکوع میں چلے جاؤ یہاں تک کہ امام جماعت اپنے رکوع کو ختم کرکے کھڑا ہوجائے تو تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔

سوال: اور ان دونوں سوروں کے پڑھنے کا کیا ہوگا( وہ تو میں نے پڑھا ہی نہیں ؟

جواب: جب تم رکوع میں اس سے ملحق ہوگئے تو ان دونوں سوروں کی قرائت تم سے ساقط ہے۔

سوال: اور جب وہ تیسری یاچوتھی رکعت میں ہو تو تسبیحات اربعہ پڑھ رہا ہو اس وقت اس سے ملحق ہوں تو؟

جواب : تم تکبیر کہو پھردونوں سوروں کی آہستہ تلاوت کرو ۔

سوال: اور جب دونوں سوروں کے پڑھنے کا وقت وسیع نہ ہو؟

جواب: تو تم فقط سورہ حمد کو پڑھو۔

سوال: مجھے نماز ظہر پڑھنا ہے اور میں امام جماعت سے ملحق ہوجاؤں حالانکہ امام جماعت عصر کی نماز پڑھ رہاہے( تو میرے لئے کیا حکم ہے۔؟

جواب: ہاں تم ملحق ہوسکتے ہو،تمہاری نماز اور امام جماعت کی نماز میں جہرو اخفات یا قصر وتمام یا قضاو اداء کی حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے۔

سوال: کیا عورتوں کے لئے مردوں کی طرح جماعت ہے؟

جواب: ہاں عورت ایسے مرد کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے جس میں امام جماعت کے شرائط پائے جاتے ہوں جیسا کہ اس کے لئے عورت کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائزہے،لیکن اگر عورت امام ہو(تواس پر واجب ہے وہ عورتوں کی صف میں کھڑی ہو ان سے آگے کھڑی نہ ہو) اور پھر اسی طرح نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھائے جیسا کہ مردامام جماعت پڑھاتا ہے،لیکن اگر عورتیں مردوں کے ساتھ نمازپڑھ رہی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ مردوں کے پیچھے نماز پڑھیں،یا ان کے ساتھ ایک صف میں اگر نماز پڑھیں تو بیچ میں کوئی چیزحا ئل ہونی چاہیے اگر چہ دیوار ہی کیوں نہ ہو۔

سوال: یہ نماز جماعت تھی اس کے علاوہ میں نے ایک نماز کا نام سنا کہ اس کا نام نماز جمعہ ہے پس کیا یہ نماز اس کے علاوہ ہے۔؟

جواب: ہاں وہ دورکعت نماز صبح کی طرح ہے مگر یہ کہ نماز صبح سے ان دو خطبوں کی بناپرممتاز ہوجاتی ہے کہ جو نماز جمعہ سے پہلے پڑھے جاتے ہیں اس طرح کہ امام کھڑا ہو اور ان دونوں خطبوں میں ایسی چیز بیان کرے جس میں خدا کی رضایت اور لوگوں کا نفع ہو۔

اور کم سے کم پہلے خطبہ میں واجب ہے کہ اللہ تعالی کی حمد وثنا کرے( عربی زبان میں) اور لوگوں کو تقوے کی نصیحت کرے،اورقرآن کریم کا ایک چھوٹا سا سورہ پڑھے پھر تھوڑا بیٹھ کر دوسری مرتبہ دوسرے خطبے کے لئے کھڑا ہو پس اللہ کی حمدوثنا اور محمد و آل محمد پر اور مسلمانوں کے ائمہ علیہم السلام پر صلوات بھیجے اور سب سے زیادہ بہتر وافضل مومنین ومومنات کے لئے استغفار کرنا ہے۔

سوال: کیا یہاں اس کے واجب ہونے میں کچھ شرائط بھی ہیں؟

جواب: ہاں اس کے واجب ہونے کے چندشرائط ہیں کہ نماز ظہر کا وقت داخل ہوجائے،پانچ لوگوں کا جمع ہونا،کہ ان میں ایک امام جمعہ ہو،اور امام جمعہ میں وہ تمام شرائط پائی جائیں کہ جو امام جماعت کے بارے میں بیان کی گئی ہیں اور جب کسی شہر میں نماز جمعہ قائم ہواپنے تمام شرائط کے ساتھ پس اگر امام معصوم یا جس کو اس نے مقرر کیا ہے نماز جمعہ کا اقامہ کرے تو اس شہر کے تمام رہنے والوں پر نماز جمعہ میں شرکت کرنا واجب ہے،سوائے ان لوگوں کے جن کو بارش نے یاشدید موسم سرمایا ان دونوں کے علاوہ کسی اور چیز نے شرکت کرنے سے مجبور کردیا ہو،جو مرض وبینائی سے سالم ہوں سوائے بوڑھے اور مسافر کے اورنماز جمعہ میں تقریبا ( ۱۱ کلو میڑ) کے فاصلہ تک شرکت کرنا( ضروری ہے)

سوال: اور اگر امام یا جس کو امام نے مقرر کیا ہو اس کے علاوہ کوئی نماز جمعہ کو قائم کرے تو پھر اس میں شرکت کرنا واجب نہیں ہے اور نماز ظہر کا بجالانا جائزہے،اور اگر کوئی مصلی نماز جمعہ کو جو اس کے تمام شرائط کے ساتھ قائم ہوئی ہے پڑھ لے تو وہ نماز ظہر سے کفایت کرے گی اور وہ نماز ظہر کو ساقط کردے گی۔

اب دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔

۱ نماز جمعہ کا پڑھنا واجب تخییری ہے پس مکلف نماز جمعہ اور نماز ظہر کے پڑھنے میں مخیر ہے( چاہے نماز جمعہ پڑھے یا نماز طہر) مگر نماز جمعہ کا پڑھناافضل ہے ۔

۲: نماز جمعہ کے درمیان تقریباً ساڑھے پانچ کلومیڑ کا فاصلہ معتبر ہے۔

سوال: چاہتا ہوں آپ سے ایک سوال کروں مگر کیا کروں حیامانع ہے ۔

جواب: جو کچھ چاہو تم سوال کرو دین میں کسی چیز کی شرم نہیں ۔

سوال: اگر میں نے نماز پنجگانہ میں کسی نماز کو نیند کی بناپر کبھی غفلت کی بنا پر چشم پوشی اور لاپرواہی اور کبھی جہالت کے سبب نہ پڑھی ہویا اگر پڑھی ہے تو نماز باطل اور فاسد پڑھی اور نماز کا وقت بھی نکل چکا (تو اب کیا کروں ؟)

جواب: ان کی قضا تم پر واجب ہے اگر وہ مثل صبح ومغرب اور عشاء کے جہری ہے تو ان کی قضا بھی جہری ہے اور اگر وہ مثل ظہر و عصر کے اخفاتی ہوں تو ان کی قضا بھی آہستہ آواز سے ہوگی اور اگر وہ قصر ہیں تو ان کی قضا بھی قصراور اگروہ تمام ہیں تو ان کی قضا بھی تمام ہوگی ۔

سوال: اور کیا میں نماز ظہر کی قضا زوال کے وقت پڑھ سکتا ہوں اور نماز عشاء کے وقت میں اس طرح نماز عشاء کی قضا ادا کرسکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ تم جس وقت چاہو اپنی کسی بھی نماز کی قضا ادا کرسکتے ہو چاہے رات ہو یا دن اور تم صبح نماز کی قضا شام کے وقت بھی ادا کرسکتے ہو،اسی طرح دوسری نمازوں کی بھی قضاء ادا کرسکتے ہو۔

سوال: اور جب مجھے معلوم نہ ہوکہ میری کون سی نماز قضا ہے تو میں کس نماز کی قضا ادا کرو؟

جواب: جس نماز کے قضا ہونے کا یقین ہو ،اور جس کو تم نے اس کے وقت میں نہ پڑھی ہو، اس کی قضا کرو لیکن جس نماز کے قضا ہونے کے بارے میں تم کو شک ہے تو اس کی قضاتم پر واجب نہیں ہے۔

سوال: ذرامجھے مثال سے واضح کیجئے؟

جواب: مثلاً تم کو یقین ہے کہ تم نے ایک مہینہ تک نماز صبح نہیں پڑھی تو ایک مہینہ کی نماز صبح کی قضا تم پر واجب ہے لیکن جس کے بارے میں شک ہے کہ وہ قضا ہوئی یا نہیں تو اس کی قضا تم پر واجب نہیں ہے۔

دوسری مثال جب تم کو معلوم ہوکہ ایک زمانہ تک تم نے نماز صبح نہیں پڑھی،اب تمہارے دل میں دواحتمال پیدا ہوتے ہیں کہ تم نے آیا ایک مہینہ نماز قضا کی ہے یا ایک مہینہ دس دن کی قضا ہوئی ہے ایسی صورت میں ایک مہینہ کی نماز کی قضا تمہارے لئے ضروری ہے اس سے زیادہ نہیں ۔

سوال: کیا جو ہماری نماز قضا ہوئی ہے اس کا ادا کرنافوراً بغیر تاخیر کے واجب ہے؟

جواب: بغیر تساہلی اور تسامح کے تاخیر جائز ہے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تمہاری نماز جس دن فوت ہوئی ہے اسی دن اس کی قضا ادا کرو مثلا تمہاری کسی دن صبح کو آنکھ نہ کھلے اور نماز صبح قضا ہوجائے تو اسی دن نماز صبح کی قضا ادا کرلو تاکہ وہ زیادہ نہ ہوجائیں تو تم پر ان کی قضا کا ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔

میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں قضا کے سلسلہ میں تساہلی اور تسامح سے خدا تم کو توفیق عنایت کرے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کے معین وقت میں ادا کرو۔

سوال: ذرا ٹھہرئیے نماز کی پہلی والی گفتگو میں آپ نے مجھے نماز واجب کی تعداد میں بتایا تھا کہ نماز مرنے والے کے بڑے بیٹے پر ادا کرنا واجب ہے جب کہ باپ نے ان کی قضا ادا نہ کی ہواور وہ مرجائے؟

جواب: ہاں( نماز واجب کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے ، جب کہ والد کی نماز کسی عذر کی بنا پر قضا ہوگئی ہو اور اس نے اس قضا کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہوئے بھی قضا کو ادا نہ کیا ہو اور وہ مر جائے اور اس کا بڑا بیٹا اس کی موت کے وقت قاصر نہ ہو اور وہ ممنوع الارث بھی نہ ہو تو اس کو چا ہئے کہ وہ کسی کو اپنی نیابت میں اپنے والد کی قضا نماز ادا کرنے پر بحیثیت اجارہ معین کرے ۔

سوال: آپ نے مجھ سے نماز آیات کے بارے میں ذکر کیا تھا؟

جواب: نماز آیات سوائے حیض ونفاس والی عورتوں کے تمام مکلفین پر چاند گہن سورج گہن چاہے ذرا سا ہی کیوں نہ ہو(زلزلہ کے وقت) واجب ہے اور ہروحشت ناک آسمانی حادثہ کے وقت جیسے بجلی کی کڑک وگرج،سرخ وسیاہ آندھی وغیرہ کے وقت اور اسی طرح وحشت ناک زمینی حادثات کے وقت جیسے زمین کا ایسا پھٹ جانا اور دھنس جانا کہ جس میں عام لوگ خوف زدہ ہوجائیں نماز آیات کو فرادا پڑھا جاتا ہے اور چاند گہن اور سورج گہن میں جماعت سے بھی پڑھا جاتاہے۔

سوال: نماز آیات کب ادا کی جاتی ہے۔؟

جواب: سورج گہن اور چاند گہن میں شروع گہن سے ختم گہن تک۔

سوال: زلزلوں میں وبجلی کی کڑک وگرج میں اور ہر آسمانی یا زمینی وحشت ناک حادثات کے وقت(کلاصۃاً)نماز آیا ت کب پڑھی جائے؟

جواب: ان میں نماز کا وقت کوئی معین نہیں بلکہ جیسے ہی حادثات رونما ہوں ویسے ہی نماز کو بجالایا جائے مگر یہ کہ حادثہ کا وقت وسیع ہوتو اس کی نماز کو اتنے وقت میں بجالایا جائے کہ اس حادثہ کا زمانہ ختم نہ ہواہو۔

سوال: نماز آیات کو کس طرح پڑھوں؟

وہ دورکعت ہے اورہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں ۔

سوال: وہ کس طرح؟

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت کرو اس کے بعد کسی دوسرے سورہ کو کامل پڑھو، پھر رکوع کرو جب تم اپنا سررکوع سے اٹھاؤ تو پھر سورہ الحمد اور ایک کامل سورہ پڑھو پھر رکوع کرو اسی طرح پانچ رکوع کرو۔

جب تم اپنا سر رکوع سے بلند کرو تو سجدے کے لئے جھک جاؤ اور دوسجدوں کو اسی طرح کرو کہ جس طرح تم ہمیشہ نماز میں سجدے کرتے ہو۔

پھر تم دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور اس رکعت میں بھی اسی طرح انجام دو جو اس سے پہلے والی رکعت میں انجام دیا ہے (یعنی پانچ رکوع اور پانچ مرتبہ دونوں سوروں کا پڑھنا) پھر تشہدو سلام کے بعد نماز کو تمام کرو،یہ ہے وضاحت اس نماز کی کہ جس میں دس رکوع ہیں،لیکن وہ دورکعت پر مشتمل نماز ہے اور اس کے علاوہ اس نماز کی دوسری بھی صورت ہے مگر اختصار کی بنا پر اس کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: جب سورج گہن یا چاند گہن لگ جائے اور اس کا علم نہ ہو یہاں تک کہ وہ بالکل ختم ہوجائے تو اس کاکیا حکم ہے؟

جواب: جب سورج گہن یا چاند گہن پورا ہو اس طرح کہ وہ گہن تمام سورج اور چاند کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تم پراس کی قضا واجب ہے اور اگرپورانہ ہو صرف تھوڑا سا گہن ہو تو تم پر قضا واجب نہیں ہے۔

سوال: اور کیا نماز آیات زلزلہ وبجلی کی کڑک وچمک میں ہے؟

جواب: جب ان دونوں کے حادثہ کا تھوڑا زمانہ گزرجائے اور تم نے کسی بھی سبب نماز نہیں پڑھی تو پھر ان کی قضا ساقط ہے ۔

سوال: اگر زمین کے کسی بھی حصہ میں سورج یا چاند گہن ہو تو کیا مجھ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ اس چاند یا سورج گرہن کی نماز تم پر واجب ہے جو تمہارے شہر میں ہوا ہو یا جو تمہارے شہر سے کوئی ایساشہر ملا ہوا ہو کہ جس کے حادثات اور واقعات مشترک ہوں اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں سورج گہن یا چاند گہن لگا ہو اور وہ تم سے دور ہوتو اس وقت تمہارے اوپرنماز آیات واجب نہیں ہے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ نمازیں واجب ہیں اور مستحب؟لیکن آپ نے مستحب نمازوں کے بارے میں کچھ نہ فرمایا؟

جواب: وہ بہت ہیں ان کو بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں ہے ۔اس لئےان میں سے کچھ کو میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

۱ نماز شب (اور اس کا آخری حصہ تہائی رات میں ادا کرنا افضل ہے،اور جتنا نماز صبح سے وقت قریب ہوگا اتنا ہی افضل ہے) آٹھ رکعتیں ہیں ہر دورکعت کے بعد نمازپڑھنے والا سلام پھیرے ، نماز صبح کی طرح،جب یہ آٹھ رکعت ختم ہوجائیں تو پھر دورکعت نماز شفع پڑھے پھرنماز وتر پڑھے جو ایک رکعت ہے پس یہ تمام کی تمام گیارہ رکعت ہیں ۔

سوال: مجھے بتائیے کہ نماز وتر کس طرح پڑھی جاتی ہے جب کہ وہ ایک رکعت ہے؟۔

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر الحمد پڑھو اور مستحب ہے کہ اس کے بعد سورہ توحید پڑھو تین مرتبہ،اور سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھو پھر ہاتھوں کو بلند کرکے جو چاہو دعا پڑھو۔

تم پر مستحب ہے کہ اللہ کے خوف سے گریہ کرو اور چالیس مومنین کا نام لے کر ان کے واسطے مغفرت طلب کرو اور ستر مرتبہ پڑھو۔

(استغفرالله واتوب الیه ) اور سات مرتبہ (هذا مقام العاذ بک من النار ) پڑھو اور تین سو مرتیہ(العفوء )کہو اور جب تم اس سے فارغ ہوجاؤتو رکوع کرو اور پھر تشہد وسلام کے بعد نماز تمام کرو۔

اور تم نماز شفع اور وتر پر ہی صرف اکتفاء کرسکتے ہو بلکہ تنہا اور خاص طورسے وتر پر بھی اکتفاء کرسکتے ہو جب کہ وقت تنگ ہو۔

سوال: نماز شب کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: نماز شب کی بہت بڑی فضیلت ہے امام صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی وصیت میں جو علی علیہ السلام سے کی ہے (تین مرتبہ فرمایا)علیک بصلواة اللیل (علیک بصلواة اللیل ) (علیک بصلواة اللیل

یعنی تم نماز شب پڑھا کرو۔

اور اسی طرح نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ ”صلاة رکعتین فی جوف اللیل الی من الدنیا وما فیها “۔رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنا مجھے دنیا اور جو اس میں ہے اس سے زیادہ پسند ہے، اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا او راس نے کسی حاجت کے بارے میں آپ سے شکایت کی او راپنی شکایت میں اپنی بھوک کا بھی اضافہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: (اے شخص تو نماز شب پڑھتا ہے) تو اس نے کہا ہاں، تو آپ نے اس کے دوست کی طرف متوجہ ہوکر اور فرمایا وہ شخص جھوٹا ہےجو کہتا ہے کہ رات کو نمازشب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رہے خداوند عالم نے اس شخص کےروزی کی ضمانت لی ہے جو رات کو نماز شب پڑھتا ہے)۔

۲ نماز وحشت یا دفن کی رات کی نماز او راس کے ادا کرنے کا وقت دفن کی پہلی رات ہے، رات کے کسی بھی حصہ میں اس کو پڑھئے اور وہ دو رکعت ہے، رکعت اول الحمد کے بعد آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ انا انزلناہ اور تشہد و سلام کے بعد کہو۔

اللهم صل علی محمد و آل محمد و ابعث ثوابها الی قبر فلان ۔

اور فلاں کی جگہ میت کا نام لو، اور ایک دوسری صورت بھی اس نماز کی ہے، فقہ کی کتابوں میں دیکھو اگر مزید جاننا چاہتے ہو تو۔

۳ ۔ نماز غفیلہ او ر وہ دو رکعت ہے مغرب و عشاء کے درمیان پہلی رکعت میں الحمد کے بعد یہ آیہ کریمہ پڑھو۔

( و ذالنون اذذهب مغاضبافظن ان لن نقدر علیه فنادی فی الظلمات ان لا لااله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین، فاستجبنا له و نجیناه من الغم و کذالک ننجی المومنین )

اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد اس آیہ کریمہ کی تلاوت کرو۔

( و عنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو و یعلم ما فی البر والبحر و ما تسقط من ورقة الا یعلمها ولا حبة فی ظلمات الارض و لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین )

پھر دعا کے لئے ہاتھوں کو بلند کرو اور کہو۔

اللهم انت ولی نعمتی والقادر علی طلبتی تعلم حاجتی فاسالک بحق محمد وآله علیه وعلیهم السلام لما قضیتهالی ۔

اپنی حاجب طلب کرو انشاء اللہ پوری ہوگی۔

۴ ۔ ہر مہینہ کے پہلے دن کی نماز اور وہ دو رکعت ہے۔ پہل رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ توحید تین مرتبہ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ قدر تین مرتبہ، پھر تم صدقہ دو جو بھی تم کو میسر ہو او راس مہینہ کی سلامتی کو خرید لو اور اس کے بعد قرآن کی کچھ مخصوص آیتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔

۵ ۔حضرت علی علیہ السلام کی نماز،اور وہ چار رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی طرح پڑھو، ہر رکعت میں سورۂ الحمد کے بعدپچاس ( ۵۰) مرتبہ( قل هو الله احد ) پڑھو،توپھر اس کے اور خدا کے درمیان کوئی گناہ نہ رہے گا۔

۶ ۔ امرمشکل کی آسانی کے لئے نماز، اور وہ دو رکعت ہے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب کوئی کام مشکل ہوجائے تو دو رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( انا فتحنا ) کو( ولینصرک الله نصرا عزیرا ) تک اور دوسری رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( الم نشرح لک صدرک ) پڑھو۔

نماز کے بارے میں گفتگو

نماز کے مسائل

ہاں۔ ہم اپنی گفتگو کا آغاز نماز سے کریں گے،میرے والد نے فرمایا: نماز (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے : ”عمود دین“ ہے۔)

ان قبلت قبل ما سواها، و ان ردت رد ماسواها “۔

”اگر نماز قبول ہوگئی تو ہر چیزقبول ہوجائیگی اوراگر وہ ردکردی گئی تو تمام چیزیں رد کردی جائیں گی“میرے والد نے مزیدفرمایا کہ نماز خالق ومخلوق کے درمیان ایک معین وثابت ملاقاتوں کی جگہ ہے اللہ تعالی نے اس کے اوقات ‘اس کے طریقہ‘اس کی صورتوں،اس کی کیفیات کواپنے بندوں کیلئے مقرر کیاہے تم نمازکے دوران اس کے سامنے اپنی عقل وقلب اور اعضاء وجوارح کواس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کھڑے ہوجاؤ اس سے بات اور مناجات کرو پس تم پر لازم ہے کہ مناجات کے دوران صفائے قلب وذہن کے ساتھ اشک ریزی کرو(آنسوبہاؤ) اور شفاف روح کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

اس طرح کہ جیسے اس کے سامنے کھڑے ہو اور اسی کے ساتھ اس کی ملاقات اور اس کے وصال کی لذت وسعادت کی نعمت سے لطف اندوزہوتے ہو اور یہ فطری بات ہے کہ اس کی محبت تم پر خوف کے ساتھ طاری ہوگی کیونکہ تم اپنے ایسے خالق کے سامنے کھڑے ہوگے کہ جوعظیم اور تم پر رحیم ہے اور تمہارے حال پر مہربان ہے‘ اور سمیع وبصیر ہے۔

آپ کے مولا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے رب کی عبادت میں پوری طرح مستغرق رہتے اور ہر وقت اس کی طرف اس طرح متوجہ رہتے کہ جنگ صفین میں آپ کے جسم سے تیر نکالا گیا تو اس کا دردو الم آپ کو اپنے رب کی مناجات سے نہ روک سکا۔

امام حضرت زین العابدین علیہ السلام جب وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد پڑجاتا آپ کے گھروالوں میں سے کسی نے پوچھاآپ کا وضو کے وقت یہ کیا حال ہوجاتا ہے؟تو آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے جارہا ہوں اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کے جسم میں لرزہ پڑجاتا کسی نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :

”میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا چاہتاہوں اور اس سے مناجات کرنا چاہتاہوں تو میرے جسم میں لرزہ پڑجاتاہے “۔

اور جب تمہارے امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام گوشہ تنہائی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو روتے اور آپ کے جسم کے اعضاء میں اضطراب پیدا ہوجاتا اور آپ کے قلب(مبارک) میں خوف خدا سے حزن واندوہ پیدا ہو جاتاتھا۔

اور جب آپ کو ہارون رشید کے تاریک اور وحشتناک قید خانہ میں لے جایا گیا تو وہاں آپ خدا کی اطاعت وعبادت میں مشغول ہوگئے اور اس بہترین وپسندیدہ فرصت کے مہیا ہونے پر اپنے پروردگار کا شکر بجالائے اور اپنے پروردگارکومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں”میں نے تجھ سے عرض کیا تھا کہ مجھے اپنی عبادت کا موقعہ عنایت فرماتو نے میری اس دعا کو قبول کیا لہٰذا میں تیری اس چیزپر حمدوثنا بجالاتاہوں۔

اور میرے والد نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا نماز نفس کی اندرونی خواہش وکیفیت کی ظاہری حالت اور ایسے خدا سے لگاؤ اور ربط کانام ہے جوکائنات کا خالق‘غالب‘ مالک اور سب کا نگہبان ہے۔جس وقت تم اپنی نماز کو شروع کرتے ہوئے (اللہ اکبر ) کہتے ہو تو مادیات اور اس کی راہ وروش اور اسی کی زیب وزینت تمام کی تمام تمہارے نفس میں سے دور ہوجاتی ہے اور تم اکثر مضمحل ہوجاتے ہو کیونکہ تم اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہو کہ جو خالق کائنات اور اس پر غالب ہے جس نے اس دنیا کو اپنی مشئیت کے مطابق مسخر کیا ہے پس وہ ہر چیز سے بڑا عظیم ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اور جس وقت تم سورة الحمد کی قرائت کرتے ہو ایاک نعبدوایاک نستعین تو تم اپنے نفس اور جسم کو اللہ قادرو حکیم کی استعانت کے علاوہ کسی دوسری استعانت کے اثر سے پاک وصاف کرلیتے ہو۔(یعنی صرف اللہ سے استعانت چاہتے ہو کسی اور سے نہیں )اور یہ خشوع کی پسندیدہ عادت ہر روز پانچ مرتبہ حتمی ہوجاتی ہے صبح ظہر،عصر،مغرب،اور عشاء،اور اگر تم چاہو اس میں مستحب نمازوں کا اضافہ کر سکتے ہو۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ نمازیں واجب اور مستحب دونوں ہیں؟

جواب: ہاں کچھ نمازیں واجب اورکچھ دوسری نمازیں مستحب ہیں؟

سوال: واجب نمازیں کو تو میں جان گیا کہ جوہرروزادا کی جاتی ہیں وہ صبح‘ظہر‘عصر،مغرب اور عشاء،ہیں؟

جواب: نہیں فقط یہی نمازیںواجب نہیں ہیں بلکہ کچھ دوسری نمازیں بھی واجب ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ نماز آیات (دوسری نمازکی بحث میں دیکھیے)

۲ نماز طواف حج اور عمرہ کے وقت (حج کی بحث میں دیکھیئے)

۳ نماز میت (میت کے بیان میں دیکھیے)

۴ باپ کی وہ قضا نمازیں جو اس نے پڑھی نہیں ہیں (اس حیثیت سے کہ اس کے بڑے بیٹے پر اس کی موت کے بعد اس کی نمازکی قضا واجب ہے۔)

۵ وہ نماز جو اجارہ یا نذریا قسم یا ان دونوں کے علاوہ واجب ہو جاتی ہے اور وہ نماز مختلف حالات کی بناپر بدلتی رہتی ہے۔

اس کے علاوہ مقدمات نماز پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں

۱ وقت نماز

۲ قبلہ

۳ نماز کی جگہ

۴ نمازی کا لباس

۵ نماز کی حالت میں طہارت

میرے والد نے فرمایا کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ یہ مقدمات نماز یومیہ کے علاوہ دوسری نمازوں میں واجب نہیں ہیں چاہے وہ واجب ہوں یا مستحب، شرط اول (وقت) کے علاوہ تمام شرائط دوسری نمازوں میں واجب ہیں جن کی تفصیل انشاء اللہ بیان کی جاءے گے اور اب تفصیل کے ساتھ اس مقدمات میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ بیان کرتاہوں

سوال: وقت نماز سے شروع کیجئے؟

جواب: ہاں ان مقدمات میں وقت سب سے زیادہ بہتر ہے ۔

۱ ۔ نمازکا وقت

نماز یومیہ کا وقت معین ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی جائز نہیں ہے پس نماز صبح کا وقت صبح (صادق) سے سورج کے نکلنے تک ہے اور نماز ظہرین (ظہروعصر)کا وقت زوال شمس سے غروب تک ہے اور اول وقت ظہر سے مخصوص ہے اور آخروقت عصرسے مخصوص ہے ان دونوں کی ادا کے مقدار کے مطابق ۔

سوال: میں زوال کو کس طرح پہچانوں کہ یہی وہ وقت ہے کہ جس میں نماز ظہرین پڑھی جاتی ہے؟

جواب: زوال کا وقت طلوع شمس اور غروب شمس کا درمیانی وقت ہے لیکن نماز مغربین (مغرب وعشاء کا وقت اول مغرب سے آدھی رات تک ہے پہلا مخصوص وقت نماز مغرب سے ہے اور آخر وقت نماز عشاء سےمخصوص ہے ان دونوں کے ادا کرنے کے مطابق تم نماز مغرب کومشرق کی سرخی زائل ہوجانے کے بعد پڑھ سکتے ہو۔

سوال: یہ حمرہ مشرقیہ کیا ہے(مشرق کی سرخی)؟

جواب: وہ آسمان میں مشرق کی طرف ایک سرخی ہے جوکہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے مقابل ہوتی ہے جب سورج بالکل غروب ہو جاتاہے تو وہ زائل ہوجاتی ہے ۔

سوال: میں کیسے آدھی رات کو معین کروں کہ یہ وقت نماز عشاء کا آخری وقت ہے؟

جواب: سورج کے ڈوبنے اور صبح (صادق) کے نکلنے کا درمیانی وقت نصف لیل یعنی آدھی رات ہے ۔

سوال: اگر رات آدھی یا زیادہ گزرگئی اور میں نے نماز مغربین جان کر نہیں پڑھی تو کیا حکم ہے۔

جواب: تم پر واجب ہے کہ جلدی سے صبح کے نکلنے سے پہلے دونوں نمازوں کو بقصد قربت مطلقہ پڑھو یعنی نماز کی ادا اور قضاء کاذکر نہ کرو۔

سوال: نماز میں جو چیز اہم ہے اس کا لحاظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر نماز کو شروع کرنے سے پہلے اس کے وقت کے داخل ہوجانے کا یقین ہو جانا چاہیے وہ نماز صبح ہویا ظہر یا عصر یا مغرب یا عشاء کی ہو۔

( ۲) قبلہ

نماز کی حالت میں تم پر قبلہ رخ ہونا واجب ہے اور قبلہ وہ جگہ ہے جیسا کہ تم جانتے ہو۔ جہاں مکہ میں کعبہ محترم واقع ہے ،

سوال: اور جب بہت جدوجہد اور ان تمام حجتوں کے بعد بھی جن پر بھروسہ رکھ کرقبلہ کی سمت تعین کیا جاسکتا ہے قبلہ کی سمت کو معلوم کرنے پر قادر نہ ہوسکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھتو۔

سوال: اور اگر ایک سمت کو دوسری سمت پر ترجیح نہ دے سکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھ لو۔

سوال: اور جب میں کسی ایک سمت کے متعلق عقیدہ پیدا کرلوں کہ یہ قبلہ کی سمت ہے اور نماز پڑھ لوں پھر نماز کے بعد معلوں ہوجائے کہ میں نے خطا کی ہے؟

جواب: جب تمہارا انحراف قبلہ سے صرف دائیں یا بائیں جانب کے درمیان ہوتو تمہاری نمازصحیح ہے ،اور اگر تمہارا قبلہ سے انحراف اس قدر زیادہ ہو یا تمہاری نماز قبلہ کی سمت سے برعکس ہو اور ابھی نماز کا وقت بھی نہیں گزرا تو نماز کا اعادہ کرو اور اگر نماز کا وقت گزر گیا ہو تو نماز کی قضا واجب نہیں ہے

( ۳) نمازی کا مکان

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ تمہاری نماز کی جگہ مباح ہو کیونکہ نماز غصبی جگہ پر صحیح نہیں ہے اور غصی جگہ میں وہ چیز شمار ہوگی کہ جس کا خمس واجب ہو اور نہ دیا گیا ہو ،چاہے گھر ہو یا ان دونوں کے علاوہ کوئی اور چیز اور تفصیل کے ساتھ تم کو اس کی شرح (خمس کی بحث میں دی جائیگی) یہاں صرف ضرورت کے تحت اشارہ کردیا ورنہ غفلت، چشم پوشی،لاپرواہی جہنم میں جانے سے نہیں روک سکتی، بہت سے ایسے ہیں کہ جنھوں نے اپنے اموال میں سے حق خدا کو نہ نکالا اور وہ جہنم میں چلے گئے‘

سوال: فرض کیجئے زمین غصبی نہیں ہے لیکن اس پر جو فرش بچھا ہے وہ غصبی ہے تو کیا یہی حکم رہے گا؟

جواب: یہی حکم ہے ،کہ تمھاری نماز اس فرش پر صحیح نہیں ہے میرے والد نے مزید فرمایا کہ تمھارے سجدے کی جگہ پاک ہونی چاہئے ۔

سوال: آپ کامقصد سجدہ کی جگہ سے پیشانی کی جگہ ہے؟

جواب: ہاں صرف سجدے کی جگہ کی طہارت یعنی سجدہ گاہ یا جس پر تم سجدہ کررہے ہو (وہ پاک ہو)۔

سوال: اور نماز کی باقی جگہ مثلاً دونوں پاؤں کی جگہ یاوہ جگہ کہ جس کو نماز میں پورا جسم گھیرے ہوئے ہے؟

جواب: اس میں طہارت شرط نہیں ہے پس اگر سجدے کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ نجس ہو اور اس جگہ کی تری جسم اور لباس تک سرایت نہ کرے تو اس جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے یہاں پھر چندموضوعات باقی رہ گئے ہیں جو نمازپڑھنے والے کی جگہ سے مخصوص ہیں میں ان کو تمہارے لئے چند صورتوں میں بیان کرتاہوں۔

( ۱) نماز میں اور نماز کے علاوہ کسی صورت میں معصومین کی قبورکی طرف پشت کرنا جب کہ پشت کرنے سے بے ادبی ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔

(ب) مرد اور عورت کی نماز صحیح نہیں ہے جب وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے کھڑی ہو مگریہ کہ دونوں کے کھڑے ہونے کے درمیان دس ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہویا، ان دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو مثلاً دیوار۔

جواب: نماز کا پڑھنا مسجدوں میں مستحب ہے مساجد میں سب سے زیادہ افضل نماز کا پڑھنا مسجد الحرام‘مسجد نبوی مسجد کوفہ اور مسجد اقصی میں ہے اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس روضوں میں نماز کا پڑھنا مستحب ہے ۔

(د) عورت کے لئے افضل ہے کہ وہ اپنی نماز پڑھنے کے لئے زیادہ تر ایسی جگہ کا انتخاب کرے کہ جہاں بالکل تنہائی ہواور کوئی نامحرم اس کو نہ دیکھے حتی کہ اپنے گھرمیں بھی ایسی ہی جگہ کا انتخاب کرے۔

۴ ۔نمازپڑھنے والے کالباس اور اس میں چندشرطیں ہیں

لباس پاک ہو اور غصبی نہ ہو لباس کے مباح ہونے کی شرط یہ ہے کہ صرف شرمگاہ کو چھپانے والا لباس مباح ہو اور یہ چیزمردو عورت کے درمیان مختلف ہے مردکے لئے کچھ اندرونی لباس کا مباح ہوناکافی ہے مثلاٌ جانگیہ (کم از کم اتنا لباس مرد کا مباح ہوجب کہ عورت کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کیونکہ نماز میں عورت کے لباس کا دائرہ وسیع ہے اور وہ تمام بدن کا چھپانا ہے،سوائے ان اعضاء کے کہ جو چھپانے سے مستثنی رکھے گئے ہیں (یعنی چہرہ ہاتھ گٹوں تک اور پاؤں کا ظاہری حصہ)۔

ب لباس مردار کے ان اجزاء کا نہ ہو کہ جن میں جان ہوتی ہے جیسے اس حیوان کی کھال کہ جو شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو (اگرچہ وہ لباس اس کی شرمگاہ کو بھی نہ چھپاتا ہو،یعنی نمازی کے ہمراہ ان اجزاء میں سے کوئی چیز نہ ہو)

سوال: کیا اس کھال کی بلٹ میں نماز پڑھنا صحیح ہے کہ جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے خریدی ہوئی ہو یا اسلامی ممالک میں بنائی گئی ہو جب کہ اس کا تذکیہ معلوم نہ ہو؟

جواب: ہاں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

سوال: اور کھال کی وہ بلٹ جو کافر سے لی گئی ہو یا کافروں کے ممالک میں بنائی گئی ہو؟

جواب: ہاں اسمیں بھی نماز پڑھنا صحیح ہے( مگریہ کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ غیر مذ کی حیوان کی کھال سے بنی ہے تو پھر نماز صحیح نہیں ہے)

سوال: جب کہ اس کھال کی بلٹ کے بارے میں یقین نہ ہو مثلا معلوم نہ ہوکہ اصلی کھال کی ہے یا نقلی؟ توکیا حکم ہے؟

جواب: مذکورہ تمام حالات میں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے ۔

الف نمازی کا لباس درندوں کے اجزاء کا بنا ہوا نہ اور اس مقدار میں نہ ہوکہ جس میں شرمگاہ چھپائی جاسکتی ہو اور نہ درندوں کے علاوہ ان جانوروں کا ہو کہ جن کا گو شت نہ کھایا جاتا ہو

ب مردوں کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو،لیکن عورتوں کے لئے خالص ریشم کے لباس میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔

ج مردوں کےلئے خالص سونے کے تاروں کا بنا ہوا لباس نہ ہو یا سونے کے تار اس میں اتنے مخلوط نہ ہوں کہ جس پر سونے کانام صادق آئے ہاں اگر بہت کم سونے کے تارہوں تو کوئی حرج نہیں۔

سوال: اور اگر (سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہوتو مردکا اس کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے اسی طرح مردکے لئے ہمیشہ سونے کا لبا س پہنا حرام ہے۔

سوال : کیا نماز کے علاوہ بھی مرد کو سونا پہننا حرام ہے ؟

جواب : جی ہاں۔

سوال: سونے کے وہ دانت جو بعض مرد بنواتے ہیں اور سونے کی وہ گھڑی جو بعض لوگ جیب میں رکھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ چیزیں جائز ہیں اور ان کے ساتھ ان لوگوں کا نماز پڑھنا جائز ہے

سوال: کسی مرد کو معلوم نہیں کہ اس کی انگوٹھی سونے کی ہے اور وہ اس میں نماز پڑھ لے معلوم ہو لیکن بھول کر نماز پڑھ لے،اور پھر نماز کے بعد اس کو معلوم ہوجا ئے، یا اس کو بتایا جائے،تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس کی نماز صحیح ہے۔

سوال: اور عورتوں کیلئے کیا حکم ہے؟

جواب: ان کے لئے ہمیشہ سونے کا لباس پہننا اور اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

اب نمازی کے لباس میں جواہم چیزہے وہ یہ کہ نماز میں مرد پر شرمگاہ کا کتنا چھپانا واجب ہے تو اس کی مقدار صرف عضوتناسل ،دونوں بیضہ، اور پاخانے کا مقام چھپانا واجب ہے،عورت پر نماز کی حالت میں پورے جسم کا چھپانا واجب ہے یہاں تک کہ بالوں کا بھی چھپانا واجب ہے اگر چہ وہ تنہاہی کیوں نہ ہو،اور اس کو کوئی دیکھ بھی نہ رہا ہو،سوائے اس چہرہ کے کہ جس کو عموماً اوڑھنی نہیں چھپاتی کہ اس کا پلو کاندھے پر ڈالا جائے،اور دونوں ہاتھ کلائیوں تک اور دونوں پیر انگلیوں کے سرے سے گٹوں تک ۔

یہ تمام کے تمام مقدمات نماز تھے میرے والد نے فرمایا نماز خود چند واجب اجزاء کا ایک مرکب عمل ہے اور وہ اجزاء یہ ہیں نیت،تکبیرة الاحرام‘قیام،قرائت،ذکر،رکوع،سجدے،تشھد،اور،سلام ،ان اجزاء میں ترتیب اور موالات کا لحاظ رکھا جائیگا جیسا کہ آپ کو آئندہ معلوم ہوگا۔

سوال: آپ نے نماز کے بیان کو اذان واقامت سے شروع کیوں نہ کیا ؟

جواب: اس سے پہلے کہ آپ کو میں اس سوال کا جواب دوں ضروری ہے کہ آپ کو ان اجزاء کے بارے میں بتاؤں کہ ان میں سے کچھ کا نام ارکان ہے اور وہ نیت، تکبیرة الاحرام‘قیام،رکوع اور سجدے ہیں ۔

میں نے تمام اجزاء میں صرف ان کو خصوصیا ت کے ساتھ اس لئے بیان کیا کہ یہ نماز کے باطل ہونے میں ایک خاصیت رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ان میں سے کوئی عمداً یاسہواًً کم یا زیادہ ہوجائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے لہٰذا یہ اپنے اس نام میں امتیاز رکھتے ہیں۔

اب آپ کے سوال کا جواب دیتاہوں ۔

اذان واقامت نماز پنجگانہ میں مستحب موکدہ ہیں (سنت موکدہ) بہتر ہے کہ نمازی ان کو بجالائے لیکن اگر ترک بھی کردے تو نماز صحیح ہے۔

اس کے بعد میرے والد نے فوراً نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

میں آپ سے تمنا کرتاہوں کہ آپ اپنی پنجگانہ نماز میں اذان واقامت کو ترک نہ کریں ورنہ ان دونوں کا ثواب کم ہوجائے گا۔

سوال: جب میں چاہوں کہ اذان دوں تو کس طرح اذان دوں؟

جواب: تو فرمایا : تم کہو۔

اَللّٰهُ اکبَرُ چار مرتبہ

اشهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اَشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه دو مرتبہ

سوال: اقامت کس طرح کہیں؟

جواب: قامت میں کہیں:

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دو مرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنْ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه ایک مرتبہ

سوال: اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی شہادت؟

جواب: آپؑ کی ولایت کی شہادت رسالت کی شہادت کی تکمیل ہے اور مستحب ہے۔ لیکن اذان واقامت کا جزء نہیں ہے۔

نیت

سوال: اس بناپر کیا اجزاء نماز میں پہلا جزء وہی ہے جوآپ نے بتایا یعنی نیت ؟

جواب: ہاں۔

سو ال : نماز کی نیت کیسے کی جائے گی؟

جواب: نماز میں تمہارا قصد فرمان الٰہی کو بجالانے کے لئے ہو یعنی نماز کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو اور یہ نسبت تذلیلی ہو،چاہتا ہوں تم کو اضافہ تذلیلیہ کے بارے میں واضح طور پرسمجھا ؤں۔

اضافہ تذلیلیہ ( نسبت تذلیلی) ایک ایسا عمل ہے جو افعال عبادی سے قریب ہے‘اس کے ذریعہ انسان میں ایک شعوری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کہ وہ مولائےجلیل سجانہ وتعالی کے سامنے ایک عید ذلیل ہے۔

سوال: کیا نیت کے لئے کوئی لفظ مخصوص ہے؟

جواب: ہرگز نہیں نیت ایک عمل قلبی ہے زبانی عمل نہیں،لہٰذا اس کے لئے کوئی لفظ معین نہیں،اس کا محل قلب ہے اگر تمہارا مقصد نماز میں تقرب الی اللہ نہیں ہے، کہ جس کی تائید تمہارے حرکات کریں گے۔ تو تمہاری نماز باطل ہے۔

دوسرے۔ تکبیرة الاحرام

س یہ تکبیرة الاحرام کیا ہے؟

جواب: تمہارااللہ اکبر کہنا اس حالت میں کہ تم اپنے قدموں پر کھڑے اور اپنی جگہ ساکت ہوکر قبلہ کی طرف رخ کرکے عربی زبان میں اس کو ادا کرو‘کلمہ( اکبر) کی ہمزہ کی آواز کو واضح طور پر اور اسی طرح تمام حروف اپنی زبان پر جاری کرو،اور افضل یہ ہے کہ تکبیرة الاحرام اور سورالحمد کے درمیان تم تھوڑا ساخاموش رہ کر فاصلہ پیدا کرو تاکہ تکبیر کی آخری (راء) سورالحمد سے مل نہ جائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا: حالت قیام میں تم پر تکبیرۃ الاحرام کہنا واجب ہے،اگر میں مریض ہوجاؤں اور اپنے قدموں پر کھڑانہ ہو سکوں،اگرچہ عصا یا دیوار کایا ان دونوں کے علاوہ کسی اورچیز کا سہارا بھی نہ لے سکوں تو میں پھر نمازکس طرح پڑھوں؟

جواب تم بیٹھ کر نماز پڑھو،اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھرلیٹ کر،بائیں کروٹ یا داہنی کروٹ چہرہ کو قبلہ رخ کرکے نماز پڑھوں اور واجب ہے کہ امکان کی صورت میں داہنی کروٹ کو بائیں کروٹ پر مقدم کرو)

سوال: اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟

جواب: تو تم چت لیٹ کر اس طرح کہ تمہارے پاؤں قبلہ کی طرف ہوں نماز پڑھو۔

سوال: جب کہ میں تکبیرة الاحرام کو قیام کی حالت میں کہہ سکتا ہوں مگر اس قیام کو جاری نہیں رکھ سکتا تو کیا کروں؟

جواب: قیام کی حالت میں تکبیر کہو اور باقی نماز کو بیٹھ کریا لیٹ کر جیسا بھی آپ کے لئے مناسب ہوپڑھو۔

تیسرے۔ قرائت

تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورۂ حمد کی قرائت کرو( اور اس کے بعد کسی دوسرے سورة کی کامل قرائت کرو)صحیح قرائت ،اس میں کسی قسم کی بھول چوک نہیں ہونی چاہیے اور سورة توبہ کے علاوہ ہر سورة کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے جیساکہ قرآن مجید میں حکم ہے۔

سوال: اگر سورہ حمد کے بعد دوسرا سورہ پڑھنے کے لئے وقت میں گنجائش نہ ہوتو؟

جواب: دوسرے سورہ کو نہ پڑھو، اور صرف سورہ الحمد کی قرائت کرو، اسی طرح اگر تم مریض ہو اور دوسرے سورہ کو پڑھنے کی قوت نہیں رکھتے یا کسی چیز کا خوف ہویا جلدی ہو تو دوسرے سورہ کو ترک کرسکتے ہو۔

جواب: دونوں سوروّں کو کس طرح پڑھوں ؟

سوال: مرد پر نماز صبح اور مغرب وعشاء میں دو کا با آواز بلند پڑھنا واجب ہے اور نماز ظہرو عصر میں دونوں کا آہستہ پڑھنا واجب ہے۔

سوال: اور عورتوں کے لئے؟

جواب: عورت بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتی،نماز ظہرین میں اس پر واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔

سوال: جب کہ میں نماز میں حکم جہر واخفات (بلند آواز اور آہستہ ) سے جاہل ہوں یا بھول کردونوں سورتوں کو یا ان میں سے کچھ کو بلند آوازمیں پڑھ لیا جبکہ میری نماز ظہرو عصر ہے یعنی میں نے حکم کے خلاف کیا تو کیا حکم ہے؟

جواب: تمہاری نماز صحیح ہے ۔

سوال: یہ پہلی اور دوسری رکعت کے بارے میں تھا، تیسری اور چوتھی رکعت میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کو تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ حمد اور تسبیحات اربعہ پڑھنے کے درمیان اختیار ہے،چاہے جو پڑھو،دونوں حالتوں میں آواز آہستہ ہو یعنی سورہ الحمد یا تسبیحات اربعہ کو آہستہ پڑھو سوائے بسم اللہ کے،کہ تم کو بلند آوازسے پڑھنے کا حق ہے۔ چاہے تم امام جماعت ہویا فردا پڑھ رہے ہو۔

سوال: اگر میں نے تسبیحات اربعہ کو اختیار کیا تو میں کیا پڑھوں؟

جواب: آہستہ آواز میں ایک مرتبہسُبۡحَانَ اللهِ وَالۡحَمۡدُللهِ وَلاَاِلٰهَ اِلاَّاللهُ وَاللهُ اَکۡبَرُ کہنا تمہارے لئے کافی ہے اور تین مرتبہ پڑھنا افضل ہے۔

سوال: کیا یہاں قرائت میں کوئی اور چیز بھی رہ گئی ہے؟

جواب: ہاں قرائت کرتے وقت زیادہ فصیح یہ ہے کہ تم کلمات کو حرکت دو یا آخر کلمات میں جو حرکت ہے اس کو اسی کے اعتبار سے اداکرو پس اگر کلمات کے آخری حروف ساکن ہیں تو حرکت مت لگاؤ اور جب تم کو کسی کلمہ پر وقف کرنا ہو تو زیادہ فصیح یہ ہے کہ اس کے آخری حروف کو ساکن کردو۔

پھر تم پر واجب ہے کہ حرف الف کو ذرا سا کھینچ کر پڑھو اور جب کلمہ ((ولاالضالین )) کو سورہ الحمد کے آخر میں پڑھو تو اس کے الف اور تشدید کو بصورت صحیح ادا کرو۔

سوال اور اسکے بعد؟

جواب: ہمزہ وصل کو اپنی قرائت میں اس وقت حذب کروجب درمیان کلام میں آئے اور کلام کے شروع میں (اس کو پڑھو) حذف مت کرو اور ہمزہ قطع کو اپنی زبان پر اس طرح جاری کرو کہ اچھی طرح آشکار اور واضح ہوجائے۔

سوال: ہمزہ وصل اور ہمزہ قطع کو مثال سے بیان کیجئے؟

جواب: مثلاًہمزہ ”اللہ الرحمن۔الرحیم اھدنا“ میں ہمزہ وصل ہے۔ پڑھنے کے دوران اس کو زبان پر ظاہر مت کرو اور مثلاً” انعمت ایاک“ میں ہمزہ قطع ہے اس کو پڑھنے کے دوران زبان پرواضح طور پر جاری کرو

سوال: پھرکیا؟

جواب: اگر تم چاہو تو سورہ حمد کے بعد سورہ توحید پڑھویا دوسرے سورہ میں سے جو بھی تمہارے لئے آسان ہو اس کو اختیار کرو کلمہ” احد“ کو وقف کرکے اس کو ساکن کرو جب تم آیہ کریمہ((قل هوالله احد )) کو پڑھو یعنی ذرا سا احد پر ٹھہر کر اس کے بعد والی آیہ ((الله الصمد )) میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

نماز میں تمہاری قرائت زیادہ صحیح اور صاف ہونی چاہئے اس کے لئے تم کسی ایسے شخص کے سامنے نماز پڑھو جس کی نماز صحیح اور بہتر ہو،تاکہ وہ تمہاری قرائت اور نمازکو درست اور صحیح کردے،اگر تم پر یہ چیز مشکل ہوتو کم از کم دونوں(سورتوں سورہ الحمد اور اس کے بعد والے سورہ کی قرائت) میں دقت نظر سے کام لیتے ہوئے مشہور قاریوں میں سے کسی ایک کی روشنی میں قرائت کرو‘تاکہ تمہاری غلطی معلوم ہوجائے اگر غلطی معلوم ہوجائے تو اس کو صحیح کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اس چیز سے کہ تم اپنے بچپنے کی جو غلط قرائت ہے اس کو جاری رکھو اور جس وقت تم پر تمہاری غلطی منکشف ہو جا ئےتو اتنا عرصہ گزرجائے کہ چند سال جو نماز تم نے پڑھی ہے وہ ایسی نماز ہوکہ جس کی قرائت صحیح نہ ہو۔

چوتھے قیام

اس کے معنی واضع ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ ذرا سا اشارہ اس کی طرف بھی کروں کہ قیا م نماز کے اجزاء میں سے ایک ایسا منفرد جز ہے کہ جس میں دو صفتیں موجود ہیں اور وہ یہ کہ وہ کبھی رکن نماز ہے جیسے تکبیرة الاحرام کی حالت میں قیام اور رکوع سے پہلے قیام کہ جس کو قیام متصل بہ رکوع سے تعبیر کیا جاتاہے ۔پس ان دونوں قیام پر رکن کے احکام اور خصوصیات مترتب ہوتے ہیں اور کبھی وہ واجبات نماز سے ہے لیکن رکن نہیں ہے جیسے قرائت اور تسبیحات اربعہ کی حالت میں قیام اور رکوع کے بعد والا قیام پس اس صورت میں اس پر واجبات نماز کے احکام جاری ہوتے ہیں جو غیر رکن ہیں ۔

پانچویں رکوع

پھردونوں سوروں کی قرائت کے بعد رکوع واجب ہے۔

سوال: میں کس طرح رکوع کروں؟

جواب: اتنا جھکو کہ تمہارے ہاتھوں کی ہتھیلیاں تمہارے گھٹنوں تک پہونچ جائیں اور جس وقت تم پورے طریقہ سے رکوع میں خم ہوجاؤ تو (سبحان ربی العظیم وبحمد) ایک مرتبہ کہو یا تین بار (سبحان اللہ) کہو یا تین مرتبہ (اللہ اکبر) یا تین مرتبہ ( الحمد للہ) کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر ممکن ہو مثلاً تین مرتبہ تہلیل (لا الہ الا اللہ) کو پھر رکوع سے سیدھے کھڑے ہوکر سجدوں کے لئے خم ہو ۔

چھٹے سجود (دونوں سجدے)

ہر رکعت میں دو سجدے واجب ہیں۔

سوال: میں کس طرح سجدے کروں؟

جواب: اپنی پیشانی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھلیاں اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھو اور سجدہ کرنے میں شرط ہے کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھو جو زمین سے ہو یا زمین سے اُ گتی ہو اور کھانے پہننے کے کام میں نہ آ تی ہو ۔

سوال: ذرا مثال سے سمجھائیے کہ کھانے اور پہننے والی چیزوں پر کیوں سجدہ جائز نہیں؟

جواب: پھل اور ترکاریاں ان پر سجدہ اس لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کھائی جاتی ہیں‘اور روئی اور کتان پر اس لئے سجدہ جائز نہیں کہ وہ پہنی جاتی ہیں ۔

سوال: مثلاً میں کس چیز پر سجدہ کروں؟

جواب: تم مٹی،ریت،کنکری اور لکڑی یا ان (درختوں کے) پتے کہ جو کھائے نہیں جاتے ان پر سجدہ کرو،تم اس کاغذ پر بھی سجدہ کرسکتے ہو کہ جو لکڑی یا روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو سوکھی گھانس اور ان کے علاوہ بہت سی چیزوں پر بھی سجدہ کرسکتے ہو۔

گیہوں،جو،روٹی،تار کول،شیشہ پرسجدہ نہ کرو اور مٹی پر سجدہ کرنا افضل ہے،اور اس سے افضل (تربت حسین خاک شفاء) پر سجدہ کرناہے اس پر سجدہ کرنے سے نماز کی فضیلت وشرف بڑھ جاتاہے۔

سوال: اور اگر میں ان چیز وں کے(جس پر سجدہ صحیح ہے) نہ ہونے کی بناءپر یا خوف کی بناء پران کے علاوہ چیزوں پر سجدہ کروں تو کیا حکم ہے؟

جواب: اگر تم اس چیز کے نہ ہونے کی بناپر کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یاوہ چیز تمہارے لئے فراہم نہیں ہے تو پھرتارکول پر سجدہ کرو،اگر یہ نہ ملے تو پھر جس پر چاہو مثلاً گپڑا، ہتھیلی یا اگر تم تقیہ کی حالت میں ہو،تو پھر تقیہ جس بات کا متقاضی ہو اس پر سجدے کرو۔

میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

یہ بات بھولنا نہ چا ہئے کہ تمھارے سجدہ کی جگہ تمہارے گھٹنوں اور انگوٹھوں کی جگہ کے برابر ہونا چاہئے پس ایک دوسرے کو چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند نہ ہونا چاہئے(اسی طرح تمہارے سجدہ کی جگہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند نہ ہونی چا ہئے)۔

سوال: میں پیشانی دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں پاؤں کے انگوٹھے اور دونوں گھٹنے زمین پر رکھ کر کیا کہوں؟

جواب: تم سجدے میں جانے کے بعد (سبحان ربی الاعلی وبحمدہ) ایک مرتبہ کہو یا سبحان اللہ تین مرتبہ کہو یا اللہ اکبر یا الحمدللہ تین تین مرتبہ کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر اس مقدار کے مطابق کہو پھر اپنے سرکو بلند کرکے اطمینان کے ساتھ بیٹھو،جب تم مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤ تو پھر دوسرا سجدہ کرو اور ذکر سجدے میں سے جو تم کو اوپر معلوم ہو اہو ،اس کو اختیار کرکے پڑھو۔

سوال: اور اگر میں سجدہ میں پورا نہ جھک سکوں کسی مرض کی بناپر مثلاً؟

جواب: جتنا تم جھک سکتے ہو اتنا جھکو اور وہ چیز کہ جس پر سجدہ صحیح ہے اس کو بلند رکھ کرپیشانی اس پررکھواور تمام اعضاء سجدہ کو انکی جگہ پر رکھو۔

سوال: اگر میں اس پر بھی قادر نہ ہوں تو؟

جواب: اپنے سرسے سجدے کی جگہ اشارہ کرو اگر یہ بھی نہ کرسکو تو اپنی آنکھوں سے اس طرح شارہ کرو کہ سجدہ میں جانے کے لئے آنکھیں بند کرو اور اٹھنے کے لئے آنکھوں کو کھول لو۔

ساتویں تشہد

اور ہر نماز کی دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد اور نماز مغرب اور نماز ظہرو عصرو عشاء کی آخری رکعت میں تشہد کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں اس میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کہو:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

تم اطمینان سے بیٹھ کرصحیح صورت میں اس کو پڑھو۔

آٹھویں۔سلام

ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر سلام کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں سلام میں کیا کہوں ؟

جواب: اگر تم اس میں (السلام علیکم) ہی پڑھو تو کافی ہے اور اس میں اگر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضاضہ کردو تو افضل ہے، اور اس سے افضل یہ ہے کہ اس سے پہلے:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّببِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ کهو ۔

نماز کے یہی اجزا ہیں کہ جو مسلسل (ایک کے بعد ایک ادا کئےجائیں گے جس طرح میں نے ان کو تمہارے سامنے گنوایا اور بیان کیا ہے ایک کے بعد ایک ان میں بعض جزءکا تمسک بعض جزء سےہے اس کے اجزاء میں اتنا فاصلہ نہ ڈالا جائے کہ اس سے نماز کی وحدت اور ہیت میں خلل پڑجائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے قنوت کے بارے میں بیان نہیں کیا حالانکہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے نماز میں قنوت پڑھتے ہیں؟

جواب: قنوت نماز پنجگانہ اور دوسری نمازوں میں ایک مرتبہ مستحب ہے،سوائے نماز شفع کے، دوسری رکعت میں دونوں سوروں کے بعد اور رکوع سےپہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو قنوت کے لئے بلند کرو اگر تمہارا ارادہ اس مستحب کام کو کرنے کا ہوتو۔

سوال: کیا کوئی ایسا ذکر معین ہے کہ جس کو میں قنوت میں پڑھوں؟

جواب: نہیں‘تم قنوت میں قرآن کی آیتیں پڑھ سکتے ہوکہ جن میں خداوند عالم سے ایسی دعا کی گئی ہو کہ جس کو تم چاہتےہو،اوراپنے رب سے مناجات اور جو بھی دعاچاہو اس سے کرو ۔

سوال آپ سے مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھے کس طرح نماز پڑھنا چاہئے اور کیا پڑھوں یا نماز کے ہر جزء کو کس طرح انجام دوں اب چاہتا ہوں کہ آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کروں کہ جن سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

سوال: اگر وہ چیز یں مجھ سے سرزد ہوجائیں تو کیا مجھ پر دوبارہ نماز واجب ہے؟

جواب : ہاں میں ان کے بارے میں تم کو بتاتا ہوں ۔

۱ نماز کے ارکان میں سے عمداً نیت یا تکبیرة الاحرام یا رکوع یا سجود وغیرہ کا چھوٹ جانا۔

۲ درمیان نماز نمازی سے حدث صادر ہونا ( اور اگرچہ آخری سجدہ کے بعد سہواً یا اضطراراً بھی حدث صادر ہوجائے)

۳ نمازی کا قبلہ سے عمداً تمام چہرہ یا تمام جسم منحرف ہوجائے۔

سوال : اگر قبلہ سے انحراف اتنا کم ہوکہ جو استقبال قبلہ میں کوئی حرج پیدا نہ کرسکے تو؟

جواب: اس سے نماز میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ مکروہ ہے ۔

۴ جان بوجھ کر نمازی کا بلندآوازسے ایسا ہنسنا کہ جس میں آتارچڑھاؤ ہو(یعنی قہقہہ لگانا)۔

۵ جان بوجھ کر نمازی کا نماز میں امور دنیا کے لئے رونا،چاہے اس میں آواز ہو یا نہ ہو،لیکن امور آخرت کے لئے رونا ہوتو اس میں کو ئی) حرج نہیں ہے۔

۶ نماز کے دوران مصلی کاعمداً کلام کرنا چاہے ایک حرف ہی کیوں نہ ہو‘جب کہ وہ حرف مفہوم رکھتا ہو،چاہے اس سے معنی کے مفہوم کا ارادہ کیا گیا ہو جیسے کہ کہا جائے (قِ) کہ یہ وقی کا فعل امر ہے،یا معنی کے مفہوم کے علاوہ ارادہ کیا گیا ہو،جیسے اگر نماز کے دوران سوال کیاجائے کہ (حروف) ابجد کا دوسرا (حرف) کیا ہے تو تم کہو (ب) اور نماز کے باطل کرنے سےمستثنی ہے، نماز میں سلام کا سلام سے جواب دینا واجب ہے۔

۷ نمازی کا اثنائے نماز میں کھانا پینا(اگرچہ نماز کی شکل وصورت کو ختم نہ بھی کرے)

۸ نماز میں ایسا کام کرنا جو نماز کی شکل وصورت کو بگاڑدے جیسے کپڑے کا سلنایا بننا۔

۹ نمازی عمداً بغیر تقیہ خدا کے سامنے ادب اور خضوع کے قصد سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے، اس کا نام تکفیرہے۔

۱۰ امام کے سورہ فاتحہ ختم کرنے کے بعد (یا فرادا نماز پڑھتے وقت ختم سورہ کے بعد( کلمہ (آمین) عمداً کہنا۔

پھر اس کے بعد ہمارے پاس جو بہتر ین موضوع ہے کہ جس کی طرف میں اشارہ کروں گا وہ نماز میں شک ہے۔

سوال: کیا نماز میں شک کرنا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

جواب: نماز میں شک کرنا تمام حالات میں اورہمیشہ نماز کو باطل نہیں کرتا‘ہاں،بعض شکوک نماز کو باطل کرتے ہیں،اور بعض شکوک قابل علاج ہیں بعض شکوک کی پرواہ نہ کرنی چاہئے وہ مہمل ہیں۔

میں عام طریقہ سے تم کو کچھ عام قاعدہ جو شک کے کچھ حالات کوشامل ہیں بتائے دیتاہوں۔

پہلا قاعدہ

جو بھی نماز کے بعد نماز کے صحیح ہونے میں شک کرے اس کی نماز کو صحیح سمجھاجائے گا۔

سوال: مثلاً؟

جواب: جیسے تم نے نماز صبح پڑھنے کے بعد شک کیا کہ دورکعتیں پڑھی ہیں یا زیادہ یا دوسے کم پڑھی ہے تو ایسی صورت میں تم کہو کہ میری نماز صحیح ہے۔

دوسرا قاعدہ

جو کوئی نماز کے کسی ایسے جزءکے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرےکہ اس کو بجالایا ہے، تو وہ جزء صحیح سمجھا جائے گا،اور نماز بھی صحیح ہوگی ۔

سوال: مثلاً؟

جواب: تم نے اپنی قرائت کی صحت کے بارے میں شک کیا،یا رکوع کے بارے میں یا سجدہ کی صحت کے بارے میں شک کیا قرأت تمام ہونے کے بعد،رکوع یا سجدہ انجام دینے کے بعد، تو تم کہو کہ میری قرائت صحیح ہے میرارکوع میرا سجدہ صحیح ہے پھر میری نماز اس کے بعد صحیح ہے۔

تیسرا قاعدہ

کسی نے نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کے بارے میں بعد والے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک کیا تو بنا اس پر رکھی جائیگی کہ وہ مشکوک جزء بجالایاگیا ہے اور اس کی نماز بھی صحیح ہے بلکہ اگر وہ شرعی طور پر اگلے جز ء میں داخل نہیں ہوا ہے اور بالفرض اگلے جزء میں پوری طرح داخل ہونے سے عمداً خلل انداز ہوا ہے تو بھی صحت پر بنا رکھنا کافی ہے( یعنی اگلے جزء میں ابھی پورے طورسے عمداً داخل ہونے میں دیر کی تو بھی جزء مشکوک کے بجالائے جانے پر بنا رکھی جائیگی)

سوال: مثال سے سمجھائیے؟

جواب: مثلاً تم نے سورہ الحمد کے بارے میں شک کیا کہ پڑھایا نہیں،حالانکہ تم دوسرے سورہ کے پڑھنے میں مشغول ہوتو کہو میں نے اس کو پڑھا ہے اور پھر اپنی نماز کو جاری رکھو اور اسی طرح تم خم ہونے کی حالت میں ہو رکوع کے لئے اور تم کو شک ہوا کہ میں نے سورہ پڑھایا نہیں تو تم کہو کہ میں نے سورہ کو پڑھا ہے،اور اپنی نماز کو جاری رکھو، پس تمہاری نماز صحیح ہے۔

چوتھا قاعدہ

جو زیادہ شک کرے اور شک میں فطری حالت سے زیادہ تجاوز کرجائے تو اس کا شک مہمل ہے وہ اپنے شک کی طرف اعتناء نہ کرے اور نہ اس کی طرف متوجہ ہو پس اس کی وہ نماز کہ جس میں اس نے شک کیا ہے صحیح ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلا تم نماز صبح کی رکعتوں کی تعداد میں زیادہ شک کرتے ہو تو تمہارا یہ شک مہمل ہے تم کہو میری نماز صحیح ہے،اور جب تمہارا یہ شک سجدوں کے بارے میں ہو کہ میں نے ایک سجدہ کیا یا دو، تو کہو میں نے دونوں سجدے کئےہیں،پس اپنے شک کی طرف توجہ نہ دو اور نہ اس کو کوئی اہمیت دو،بلکہ تم اپنی نماز کے صحیح ہونے کا اعتبار کرو اور اسی طرح وہ کثیر الشک کہ جو ہمیشہ نماز میں شک کرتا ہے اس کا شک بھی مہمل ہے اور اس کی نماز کو صحیح اعتبار کیا جائیگا۔۔ہمیشہ ۔۔ہمیشہ

سوال: میں کس طرح پہچانوں کہ میں زیادہ شک کرنے والا ہوں ۔

جواب: کثیر الشک(زیادہ شک کرنے والا) اپنے کو آسانی سے پہچان لیتا ہے اس کے لئے عام لوگوں کے سامنے اس کا کثیرا الشک ہونا ہے(اور وہ تین نمازوں میں شک نہ کرے) اگر وہ تین نمازوں میں پے درپے شک کرے تو اس کے کشیر الشک ہونے کے لئے کافی ہے۔

پانچواں قاعدہ

ہروہ شخص جو نماز صبح کی رکعتوں یا نماز مغرب کی رکعتوں،یا چار رکعتی نمازوں میں سے پہلی اور دوسری رکعتوں میں شک کرے اور اس کا ذہن ان دواحتمالوں میں سے کسی ایک کی طرف ترجیح نہ دے اور نہ اس کا ذہن رکعتوں کے عدد کو معین کرے بلکہ وہ اسی طرح متحیر اور مشکوک رہے،اور رکعتوں کو نہ جانے کہ کتنی ہوئیں تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلاً وہ نماز صبح پڑھ رہا ہے اور اس حالت میں اس کو شک ہوا کہ اس کی پہلی رکعت ہے یا دوسری تھوڑا سوچا اور فکر کیا مگر اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسرے تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: اگر دونوں احتمالوں میں سے اس کے ذہن میں ایک احتمال کو ترجیح حاصل ہوگئی ،تو کیاوہ اپنےذہن کے احتمال کو ترجیح دے کہ وہ پہلی رکعت ہے؟

جواب: اگر اس کے ذہن میں کسی معین رکعت کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اس غالب احتمال کے تقاضہ کے مطابق عمل کرےگا(اس لئے کہ تمہارے سوال میں پہلی رکعت کے رجحان کا احتمال تھا)اس بنا پر وہ دوسری رکعت بجالائے اور نماز کو تمام کرے،اس کی نماز صحیح ہے اور اسی طرح نماز مغرب میں اور چار رکعتی نمازوں کی پہلی اوردوسری کعتوں میں یہی حکم ہے۔

سوال: اب مجھے نماز صبح اور مغرب اور ظہر وعشاء کی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں شک کرنے والے کا حکم معلوم ہوگیا لیکن چاررکعتی نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں شک کرنے والے کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب شک کرنے والے کے ذہن میں کچھ رکعتوں کی تعداد کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اسی ظن کے مطابق عمل کرے گا کہ جس کا ذہن میں رحجان حاصل ہوا ہے۔

سوال: اور اگر وہ اپنے تحیر اور شک پر باقی رہے تو؟

جواب: اس وقت زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں پرہر ایک جگہ کا مخصوص حکم ہے میں یہاں مختصر طور پر کچھ کو بیان کرتا ہوں۔

( ۱) جس شخص نے تیسری اور چوتھی رکعت میں شک کیا اس وقت وہ چار رکعت پر بنا رکھے اور اپنی نماز تمام کرے پھر نماز کے بعد دو رکعت نماز بیٹھ کریا ایک رکعت نماز کھڑے ہو کر پڑھے اس نماز کونماز احتیاط کہتے ہیں۔

( ۲) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت میں اگر کوئی شک کرے (یعنی اپنی پیشانی سجدہ کرنے والی چیز پر رکھے چاہے ابھی ذکر شروع نہ بھی کیا ہو) تو جار پر بنا رکھے اور نماز کو تمام کرنے کے بعد دو سجدہ سہو بجالائے۔

( ۳) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی دوسری اور تیسری رکعت میں شک کرے تو تین پر بنا رکھے اور اس کے بعد چوتھی بجالائے،اس کے بعد نماز کو ختم کرکے (ایک رکعت کھڑے ہو کر) نماز احتیاط پڑھے ۔

سوال: نماز احتیاط کس طرح پڑھی جائیگی؟

جواب: اپنی نماز کو تمام کرنے کے بعد داہنے اور بائیں توجہ کئے بغیر اور مبطلات نماز میں سے کسی مبطل کو انجام دیئے بغیر نماز احتیاط کو شروع کرے تکبیر کہے پھر سورہ الحمد پڑھے (آہستہ) اور اس میں دوسرا سورہ واجب نہیں ہے،پھر رکوع کرے،پھر سجدہ کرے،اگر نماز احتیاط ایک رکعت پڑھ رہا ہے تو تشہد وسلام پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور اگر دورکعت نماز احتیاط واجب تھی تو دوسری رکعت کو،پہلی رکعت کی طرح بجالا ئے۔

سوال: سجدہ سہو جس کو آپ نے ذکر کیا( وہ کس طرح ادا کیا جائیگا؟

جواب: اپنی نماز کے بعد نیت کرو اور سجدہ میں جاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجد ہ میں جانے سے پہلے تکبیر کہو اور سجدہ میںبسم الله بالله السلام علیک ایها النبی ورحمة الله وبرکاتہ پڑھو پھر سجدے سے سراٹھا کر بیٹھو پھر دوبارہ سجدے میں جاؤ پھر سر اٹھاؤ اور تشہدو سلام پڑھ کر سجدۂ سہو کو تمام کرو۔

میرے والد نے مزید فرمایا۔

لیکن سجدہ سہو کے بارے میں فقط یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں سجدۂ سہو چوتھی اور پانجویں رکعت میں شک کرنے کی بناپر واجب ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ دوسری جگہیں بھی ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ لف جب تم نماز میں سہواًیا بھول کر کلام کرو۔

ب جب تم ایسی جگہ سلام بھول کر کہو جہاں سلام کہنے کی جگہ نہیں تھی اور کہو(السلام علیک ایها النبی ورحمة الله ربرکاته یا کهو السلام علینا وعلی عباد الله الصالحین السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته )

ج اگر تم نے بھول کر نماز میں تشہد کو نہ پڑھا تو نماز کے بعد دوسجدۂ سہوبجالاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجدۂ سہو کے ساتھ تشہد کی قضا بھی کرو۔

د (تم کو نماز کے بعد اجمالاً معلوم ہو کہ تمہاری نماز میں کچھ کمی یا زیادتی ہوگئی ہے ساتھ ہی یہ کہ تمہاری نماز محکوم بصحت ہے) تو ایسی صور ت میں دوسجدہ سہو تم پر لازم ہے اور افضل تمہارے لئے یہ ہے کہ اگر تم نماز میں ایک سجدہ بھول گئے ہو تو دو سجدہ سہو بجالاؤ ،اس کے ساتھ ہی بعد نماز اس کی قضا بھی بجالاؤاور ایسے ہی ہے اگرتم بیٹھنے کی جگہ کھڑے یا کھڑے ہونے کی جگہ بھول کر بیٹھ گئے، بلکہ افضل یہ ہے کہ تم اپنی نماز میں ہر کمی وزیادتی کی لئے سجدہ سہو کرو۔

جتنی مرتبہ سجدہ واجب ہوا ہے اتنی ہی مرتبہ اس کو بجالایا جائے یعنی دو مرتبہ یا اس سے زیادہ واجب ہوا ہے تو تم اتنی مرتبہ سجدہ کرو ہماری نماز کی گفتگو جب ختم ہوگئی تو میں نے اپنے والد سے تقاضہ کیا کہ وہ میرے سامنےبطور درس اور تطبیق کے طور پر چار رکعتی نماز کہ جو نماز پنجگانہ میں سے سب سے زیادہ طولانی ہے پڑھیں،تاکہ میں نزدیک سے ملاحظہ کروں کہ میرے والد کس طرح تکبیر کہتے ہیں‘کس طرح قرائت ورکوع وسجود وتشہد اور سلام کو انجام دیتے ہیں،میری اس یاد دہانی کے بعد میرے والد ہر روز مجھ کو سیکھانے کے لئےمیرے سامنے نماز عشاء پڑھتے ہیں اور یہ نماز چاررکعت بلند آواز والی ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب میں خود دیکھوں گا کہ وہ کس طرح نماز پڑھتے ہیں اور جس وقت میرے والد اس بلند آواز والی چاررکعتی نماز کو شروع کرتے تو میں اپنے تمام حواس کو سمیٹ کر نہایت ہوشیاری کے ساتھ ان کی نماز کے تمام حرکات کو دیکھتا اور اب آپ سے بیان کرتا ہوں کہ میرے والد کس طرح نماز پڑھتے ہیں۔

پہلے ا نھوں نے وضوء کیا پھر وہ اپنے مصلے پر روبقبلہ کھڑے ہوگئے وہ خاشع تھے پس انہوں نے نماز کے لئے اذان واقامت کہی پھر نماز کو شروع کیا‘پس انہوں نے اللہ اکبر کہی پھر سورہ الحمد کوپڑھنے کے بعد سورہ قدر کو پڑھا جب وہ سورہ تمام ہوگیا کھڑے ہوئے تھے اور رکوع میں خم ہونے والے تھے اور ‘جب پوری طرح رکوع میں پہنچ گئے تو سبحان ربی العظیم وبحمدہ کہتے ہوئے ذکر کیا اور رکوع کی حالت میں ہی جب انہوں نے ذکر کے آخری حرف کو تمام کیا تو وہ سیدھے اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے اور جب وہ قیام کی حالت میں تھے تو سجدہ کے لئے جھکے اور جب سجدے میں پہنچے توسبحان ربی الا علی وبحمده کہہ کر ذکر سجدہ کیا اور سجدہ ہی کی حالت میں ذکر کے آخری حرف کو تمام کرکے سجدہ سے سراٹھاکر سیدھے بیٹھ گئے پھر دوسرے سجدے کے لئے جھکے پس اس میں بھی وہی ذکر کیا جو پہلے سجدہ میں کیا تھاسبحان ربی الاعلی وبحمده پھر سر کو سجدہ سے بلند کرکے بیٹھے،تاکہ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں،اور جس وقت قیام میں پہونچے تو سورہ حمد اور اس کے بعد اس مرتبہ سورہ توحید کوپڑھا،جب اس کی قرائت سے فارغ ہوئے تو قنوت کے لئے ہاتھوں کو بلند کیا اور قنوت میں قرآن کی اس آیت کریمہ کو پڑھارب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین والمومنات ولاتزد الظا لمین الاتباراً ۔

پھر قنوت سے ہاتھ گراکر رکوع کے لئے خم ہوئے اور جس وقت رکوع میں پہونچ گئے سبحان ربی العظیم وبحمدہ کو پڑھا،پھر سیدے کھڑے ہوئے تاکہ سجدہ کے لئے خم ہوں اور جس وقت سجدہ میں پہونچے تو سبحان ربی الاعلی وبحمدہ کو پڑھا اور جب سجدے سے اٹھ کر بیٹھ گئے تو تشہد کو پڑھا”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد سے فارغ ہوئے تو سیدھے کھڑے ہوگئےتیسری رکعت کے لئے قیام میں پہونچنے کے بعد انھوں نے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کی تسبیح کو تین مرتبہ پڑھا،مگر آہستہ آواز میں‘پھر رکوع سے کھڑے ہوئے اور سجدے کے لئے جھکے اور اس میں وہی پڑھا جو پچھلے سجدوں میں پڑھا تھا سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پھر بیٹھ کر دوسرے سجدے میں چلے گئے پس اس میں بھی وہی پڑھا تھا،پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوئے جو آخری رکعت تھی پس اس رکعت میں وہی تسبیح پڑھی جو پچھلی رکعت میں پڑھی تھی سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کو تین مرتبہ پڑھا ۔

پھر اطمینان سے بیٹھ کر تشہد میں وہی پڑا کہ جو پہلے تشہد میں پڑھا تھا:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد کو ختم کیا تو نبیؐ پر سلام پڑھا:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ“،”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه “

اس طرح میرے والد نے نماز عشاء کو پڑھا‘اسی نماز کے مثل نماز ظہرو عصر ہے کیونکہ وہ دونوں بھی چار رکعت ہیں سوائے اس کے کہ ان دونوں کی پہلی دو رکعتوں میں دونوں سورہ کی قرائت آہستہ آواز میں ہوتی ہے۔

کبھی میں نے اپنے والد کو نماز مغرب کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ان کو نماز عشاء ہی کی طرح نماز مغرب کو پڑھتے ہو ئے پایا ہے مگر یہ کہ تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر وہ تشہد پڑھتے اور سلام کہہ کر اپنی نماز کو ختم کردیتے تھے(چونکہ نمازمغرب کی تین رکعت ہے)

اسی طرح میں نے ان کو نماز صبح بھی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح نماز عشاء پڑھتے ہیں مگر یہ کہ دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد تشہد اور سلام پڑھنے کے بعد نماز تمام کردیتے تھے، کیونکہ نماز صبح دورکعت ہے۔

اسی طرح میرے والد نماز پنجگانہ کو پڑھتے تھے مگر میرے سامنے (نماز عشاء کے علاوہ) اور نمازیں نہ پڑھتے کہ جن کو دیکھ کر محفوظ کرتا،اور ان کے بارے میں کچھ سوچتا اب میں آپ کے سامنے اپنے والد کی نمازوں کی بعض خصوصیات کو بیان کروں گا،وہ نیچے دی ہوئی خصوصیات کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔

۱ نماز کو اول وقت پڑھنے کے زیادہ حریص ہیں (اور پابندی وقت کا خاص خیال رکھتے ہیں) پس وہ نماز ظہر کو مثلاً جب ظہر کا وقت (زوال) ہوتا ہے پڑھتے ہیں اسی طرح نماز مغرب کو اول وقت پڑھتے ہیں اورایسےہی تمام نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر پڑھتے ہیں اور جس وقت میں نے نماز کو اول وقت پڑھنے کی جلدی کا سبب پوچھا تو انھوں نے جواب میں امام صادق علیہ السلام کی حدیث کو بیان فرمایا کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایاہے۔

اول وقت کی فضیلت آخر وقت پر ایسی ہی ہے جیسے آخرت کو دنیا پر فضیلت ہے فضل الوقت الاول علی الاخیر کفضل الا خرة علی الدنیا ۔

۲ اورجس وقت اپنے پروردگار کے سامنے نماز پڑھنے کے لئےکھڑے ہوتے تو آپؑ پر خضوع وخشوع وتذلل کے آثار ظاہر ہوجاتے اور کبھی کبھی اپنے نفس سے سوال وجواب کرتے،لیکن ذرا بلند آواز سے( قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔)

گویا نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتے ہیں اسی طرح اپنے قلب کو نماز میں اللہ کے لئے خشوع کی اہمیت کو بتاتے ہیں۔

۳ اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہیں تو اس سے پہلے دورکعت نماز پڑھتے،اور ظہر کی نماز سے پہلے آٹھ رکعت، دودورکعت کرکے مشل نمازصبح کے پڑھتے،اور اسی طرح عصر کی نماز سے پہلے اتنی ہی مقدار میں نماز پڑھتے اور نماز مغرب کے بعد دو دورکعت کرکے مثل نمازصبح کے چار رکعت نماز پڑھتے اور عشاء کے بعد دورکعت نماز بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ میں نے ان نمازوں کے بارے میں معلوم کیا تو فرمایا(وہ نوافل)ہیں کہ جن کے متعلق امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:نوافل کا پڑھنا مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

۴ جملہ (اللہ اکبر) کے کلمہ (اکبر) میں جو ہمزہ ہے وہ ھمزہ قطع ہے پس جس وقت بھی تم تکبیر کہو تو تمہارے اوپراس ھمزہ کا واضح اور آشکار کرنا واجب ہے جس وقت میرے والد نے یہ فرمایا:تو میں نے ڈرتے ہو ئےان سے ایک مرتبہ کہا بعض لوگ اس ہمزہ کو واؤ کے مشابہ ادا کرتے ہیں جیسے کہ یہ جملہ اللہ اکبرہو۔)

تو فرمایا: کہ ان کی طرح ادا کرنے سے تم بچو کیونکہ وہ غلطی پر ہیں اور میرے والد نے مزید فرمایا: سورہ فاتحہ کی آیت (صراط الذین انعمت علیہم) میں (انعمت) کے ہمزہ کو ادا کرنا تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت اپنی زبان پر صاف واضح اور آشکار ادا کرو،اور اس جیسے تمام ہمزہ جیسے الاعلی کا ہمزہ کہ جو سجدہ میں سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پڑھتے ہیں ہمزہ قطع ہے،تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت زبان پر واضح وروشن ظاہر کرو۔

۵ میرے والد نے فرمایا جب تم سورہ توحید کی آیہ کریمہ (قل ھواللہ) کی تلاوت کرو تو کلمہ(احد) کی دال پر وقف کرو‘پھر اس کے بعد والی آیت (اللہ الصمد) کی تلاوت سے پہلے تھوڑا ٹھہرو ،یہ تمہارے لئے سہل اور آسان ہے۔

۶ میرے والد اپنی نماز میں کلموں کے آخر کو حرکت دیتے تھے جب کہ وہ اپنے کلام اور ذکر کو آگے بڑھاتے اور جاری رکھتے اور اسی کے ساتھ جب کہیں روکنا چاہتے تو کلمہ کے آخری حرف کو ساکن کردیتے تھے۔

۷ میں نے اپنے والد سے ایک مرتبہ سوال کیا جب آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے ہیں تو میں نے آپ کو (رحمٰن) کے نون کو زیرکے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے،اوراسی طرح (الرحیم) کی (میم) کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے اور آپ الرحمٰن الرحیم،مالک یوم الدین سورہ حمد کی بھی اسی طرح تلاوت کرتے ہیں حالانکہ اکثر لوگوں کو میں نے پیش کے ساتھ پڑھتے ہو ئےسنا ہے۔اسی طرح جب آپ سورہ حمد میں خداوند عالم کے اس قول ایاک نعبد کی قرائت کرتے ہیں تو کلمہ(نعبد)کی (ب)کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جب کہ اکثر لوگ نماز کی حالت میں اس کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔

انھوں نے کہا تم نے نحو اور اس کے قواعدکو نہیں پڑھی ہے؟

میں نے کہا :میں نے نحو پڑھی ہے مگر اتنی مشکل نہیں۔

انھوں نے فرمایا: نحو کے علماء (الرحمن الرحیم)کے دونوں کلموں کی حرکت میں کیا کہتے ہیں؟

میں نے کہا وہی زیر جیسا کہ آپ نے فرمایا ۔

تو انھوں نے کہا: قرآن کریم کا ایک نسخہ میرے پاس لاؤ پس میں نے کتاب اللہ کا ایک نسخہ جومیرے قریب تھا اٹھا کر ان کو دیا۔

انھوں نے فرمایا: سورہ حمد نکالو اور اس کو دیکھو،پس میں نے سورہ حمد کو نکالا تو (الرحمن الرحیم) کے دونوں کلموں کے آخر میں زیر تھا اور (ایاک نعبد) کے کلمہ کی (باء) پر زیر نہیں ہے میں نے کہا جس طرح آپ نے پڑھا ہے ویساہی ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح کتاب خدا میں (حرف)پر حرکت ہے اسی طرح پڑھو اور جو غلط قرائت مشہور ہے اس سے محفوظ رہو۔

۸ اور میرے والد رکوع اور سجودمیں ذکر اس وقت تک نہیں پڑھتے جب تک ان میں جاکر ٹھہرنہ جائیں اور اپنے سر کو بلند نہیں کرتے مگر ذکر کے تمام کرنے کے بعد۔

۹ اور جب اپنے سر کو پہلے سجدہ سے اٹھاتے ہیں تو تھوڑی دیر بالکل ٹھیک سے بیٹھ کر دوسرے سجدے میں جاتے ہیں اور اسی طرح وہ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کرتے ہیں،یعنی بیٹھتے ہیں پھر بعد والی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

۱۰ میں نے ان سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ میں آپ کو دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں کہ آپ اپنےلئے اپنے والدین اور تمام برادران مومنین کے لئے نماز کے بعد دعا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے۔

”من دعا لاخوانہ امن المومنین و المومنات و المسلمین و المسلمات و کل اللہ بہ عن کل مومن ملکا یدعو لہ“

جو شخص اپنے مومن،مومنہ اور مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرے خداوندعالم ہر مومن کے بدلے اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کے لئے دعا کرتارہتاہے ۔

۱۱ میں نے سوال کیا کہ میں آپ کو ہر فریضہ کے بعد تسبیح پڑھتے دیکھتا ہوں،آپ نے فرمایا:ہاں وہ تسبیح زہرا علیہا السلام ہے اور یہ تسبیح جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہ زہرا(س) کو تعلیم کی تھی اور وہ (اللہ اکبر ) ۳۴/ مرتبہ (الحمدللہ) ۳۳/ مرتبہ (سبحان اللہ) ۳۳ / مرتبہ ہے پس ان سب کی تعداد سوہوگی ۔

سوال: کیا تسبیح زہراء(س) کی فضیلت ہے؟

جواب: ہاں، امام صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے ابی ہاورن مکفوف سے فرمایا اے ابا !ہاورن ہم اپنے بچوں کو تسبیح زہراء پڑھنے کا اس طرح حکم دیتےہیں جس طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں پس اس کا پڑھنا لازم ہے پس جس بندہ نے اس کو لازمی طور پر نہیں پڑھا اس نے(ہم سے) شقاوت کی۔

۱۲ کبھی کبھی میرے والد نماز ظہر کے بعد عصر پڑھتے یا نماز مغرب کے بعد فوراً عشاء پڑھتے اور کبھی دو نمازوں کے درمیان فاصلہ ڈال دیتے نماز ظہر کے بعد اپنے ضروریات کو انجام دیتے اور جب نماز عصر کا وقت آتاتو نماز عصر پڑھتے اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی فاصلہ سے پڑھتے ۔

اور جس وقت میں ان سے اس بارے میں معلوم کرتا تو فرماتے تم کو اختیار ہے چاہے ان دونوں کے درمیان فاصلہ ڈالو یا بغیر فاصلہ کے پڑھو۔

۱۳ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ جب آپ سورہ قدر پڑھتے ہیں تو میں سنتا ہوں کہ آپ (انانزلناہ فی لیلة القدر) کو پڑھتے وقت حرف لام کو ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کو اصلاً ظاہر نہیں کرتے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ حرف لام موجود ہی نہیں ہے،وہ (انزلناہ) پڑھتے ہیں اورسبحان ربی العظیم وبحمده کو جب آپ پڑھتے ہیں تو سبحان کی سین کو پیش اور (ر)کو زبر پڑھتے ہیں حالانکہ میں بہت لوگوں سے سنا ہے جو آپ کی طرح نہیں پڑھتے؟

آپ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ تم اپنی قرائت کی طرف متوجہ رہو۔

دوسری نمازوں کے بارے میں گفتگو

دوسری نمازوں کی گفتگو کا وقت آنے سے پہلے میں ان چیزوں کے بارے میں نظر ثانی کرنے لگا کہ جو پہلی نماز کی گفتگو میں زیر بحث آئی تھیں تاکہ اپنے حافظہ کا امتحان لوں کہ کتنا مجھے یاد ہے تاکہ اس چیز کے بارے میں اپنے والد سے معلوم کروں کہ جس کو میرے ذہن نے یاد نہیں رکھایا جس کو سمجھا نہیں ہے اور ابھی ہماری نماز کی بحث بھی جاری ہے۔

میرے والد جب تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے ایک ایسا سوال کرنے سے پہل کی کہ میں اس کا جواب نہ دے سکا میں نے ان سے عرض کیا کہ:

سوال: کیا نماز عشاء کو میں دورکعت پڑھ سکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ وہ چار رکعتی نماز ہے لیکن میں نے آپ کو دورکعت پڑھتے دیکھا ہے؟

والد کیا ہم سفر میں تھے؟۔

جی ہاں۔

والدیہ صحیح ہے پس چار رکعتی نمازنماز ظہر عصر عشاء سفر میں دو رکعت ہوجاتی ہیں جب کہ نیچے بیان کی ہوئیں ان میں قصر کی شرطیں پائی جائیں۔

۱ جب کسی شخص کے سفر کا قصد اپنے رہنے کی جگہ تقریباً(کلو میڑ) یا زیادہ ہو،چاہے یہ دوری فقط جانے کے لئے ہو یا آنے جانے کے لئے ہو۔

سوال: مجھے وضاحت کے ساتھ بتائیے؟

جواب: جب مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے جو تمہارے وطن سے( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ دور ہوتو اس پر اپنی نماز میں قصر واجب ہے،اس طرح کہ وہ چار رکعت والی نماز کو فقط دورکعت پڑھے اور اسی طرح کوئی مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے کہ جس کی مسافت اس کے وطن کی جگہ سے ( ۲۲ کلو میڑ) ہو اور اسی روز اس کی واپسی کا بھی ارادہ ہو تو اپنی نماز کو قصر کرے گا۔

سوال: کس جگہ سے سفر کی ابتداء کا حساب کیا جائیگا؟

جواب: سفر کی ابتداء کا حساب شہر کے آخری مکان سے کیا جاتاہے۔

۲ مسافر اپنے سفر کے ارادہ پر باقی رہے،اگر درمیان سفر اپنی رائے بدل دے تو پھر نماز پوری پڑھے گا مگریہ کہ اس کا ارادہ اپنے وطن کی طرف لوٹنے کا ہو اور اس کا یہ طے کیا ہوا راستہ آنے جانے کو ملا کر قصر کی مسافت کی مقدار تک پہنچ گیا ہو تو پھر اس پر نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے۔

۳ مسافر کا سفر جائز ہو پس اگر اس کا سفر حرام (کام کے لئے) ہو جیسا کہ بعض حالات میں زوجہ کا بغیر شوہر کی اجازت کے سفر کرنا یا اپنے سفر میں حرام کام کا ارادہ ہو مثلاًچوری کا،تو ایسی حالت میں وہ پوری نماز پڑھے اور اسی سے ملحق اگر کوئی تفریح کے قصد سے شکار کو جائے تو بھی نماز پوری پڑھے۔

۴ مسافر اپنے وطن سے نہ گزرے یا وہاں اثنائے سفر قیام نہ کرے یا جس شہر کی طرف سفر ہے اس میں دس ( ۱۰) روز رہنے کی نیت نہ کی ہو،یا کسی شہر میں ایسا متردد نہ ہو کہ یہاں سے کب جائیگا اور اس طرح اس کو تیس( ۳۰) روز تردد میں گزر گئے ہوں تو ایسی صورت میں اول سفر سے تیس ( ۳۰) دن تک نماز قصر پڑھے گا،پوری نہیں۔

سوال: اور جب اپنے وطن یا اپنے ٹھہرنے کی جگہ سے اثنائے سفر گزرے اور وہاں اترے یا جس شہر کی طرف سفر کیا ہے وہاں دس دن یا زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو یا ایسی جگہ گیا ہو جہاں سے وہ واپس لوٹنے میں متردد ہو اور اس طرح اس کو وہاں تیس ( ۳۰) دن گزر گئے ہوں تووہ ان جگہوں پر کون سی نماز پڑھے گا؟

جواب: ان جگہوں پر وہ پوری نماز پڑھے گا مگر جو شخص سفر سے واپسی میں متردد ہو (تووہ تیس( ۳۰) دن تک قصر نماز پڑھے گا )تیس ( ۳۰) دن بعد پوری نماز پڑھے گا ۔

۵ کسی کا سفرکرنا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور۔ملاح۔ چرواہ یا وہ بار بار کسی دوسرے کام کے لئے سفر کرے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈرائیور اثنائے سفر پوری نماز پڑھے گا؟

جواب: ہاں جس کا پیشہ ڈرائیوری ہوتو اگر وہ ( ۴۴ کلومیڑیا زیادہ) مسافت طے کرے تو وہ اپنے کام(ڈرائیوری )کے دوران پوری نماز پڑھے گا۔

سوال: تاجر،طالب علم،ملازم جب کسی شہر میں مقیم ہوں اور کسی دوسرے شہر میں ‘یونیور سٹی۔دفتر یا مرکز تجارت ہو اور وہ ان کے رہنے کی جگہ سے ۲۲ کلومیڑدور ہو اور وہ وہاں پہنچنے کے لئے ہر روزیا ہر دوسرے روز سفر کرتے ہوں (تو کیا حکم ہے)؟

جواب: تو وہ نماز کو پوری پڑھیں گے قصر نہیں پڑھیں گے۔

۶ جن کا کوئی رہنے کا ٹھکانہ نہ ہو،بلکہ ان کا گھران کے ساتھ ہو اور ان کا کوئی وطن نہ ہو،جیسے سیاح کہ جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے ہیں اور کہیں بھی ان کے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہوتا تو وہ نماز پوری پڑھے گا۔

سوال: مسافر قصر کی ابتداء کہاں سے کرے گا؟

جواب: جب شہر والوں کی نظروں سے وہ پوشیدہ اور ان سے دور ہوجائے تو اس پر (اپنی نماز کا) قصر کرنا واجب ہے۔اور اس کی اکثر علامت یہ ہے کہ وہ مسافر شہر کے رہنے والوں میں سے کسی کو نہ دیکھے اس وقت اپنی نماز کی قصر کرے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مسافر جب اپنے وطن سے گزرے یا وہاں ٹھہرے تو وہ نماز کو پوری پڑھے گا آپ کا اس کے وطن سے کیا مقصد ہے؟

جواب: میرا یہاں وطن سے مقصدیہ ہے۔

الف۔ وہ اصلی ٹھکانہ جس کی طرف اس کو منسوب کیا جاتاہے اور اس کے والدین کے رہنے کی جگہ ہو اورعموماًاس کی زندگی کا مرکز ہے۔

ب۔ وہ جگہ کہ جس کو انسان اپنا ٹھکانہ اور مسکن بنا لیتا ہے اس طرح کہ اپنی بقیہ عمر کو وہیں گزارے۔

ج۔ ایسی جگہ جہاں اتنی طویل مدت تک رہے کہ جب تک وہ وہاں ہے اس کو مسافر نہ کہا جاسکے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے؟

۱ جب مسافر اپنے وطن سے گزرے اور وہاں ٹھہرے۔

۲ جہاں کا انسان نے سفر کیا ہے وہاں وہ دس روز یا زیادہ برابر ٹھہرے۔

۳ اور جب کسی ایسے شہر کا سفر جہاں تیس( ۳۰) روز تک ایسا متردد رہے کہ نہ جانے کہ کب وہ اپنے وطن کو واپس ہوگا تو ایسے مسافر(جو اوپر بیان ہوئے ہیں) اپنی نماز پوری پڑھیں گے اور قصر نہیں کریں گے؟

جواب: جی ہاں ۔

سوال: اور جب کسی مسافر کو اوپر تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئے تو؟

جواب: تو وہ نماز قصر پرھے گا پس ہر وہ مسافر کہ جو( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ کا سفر کرے تو وہ نماز قصر پڑھے گا مگریہ کہ اپنے وطن سے گزرے اور اس میں ٹھہرے یا کہیں دس روز کی نیت کرلی ہوتو،والد ہاں ۔۔ہاں۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی مسافر ہوتو اگر وہ اثنائے سفر نماز نہ پڑھے بلکہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے تو (کیا حکم ہے؟)

جواب: وہ نماز پوری پڑھے گا‘کیونکہ وہ نماز اپنے وطن میں پڑھ رہاہے۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی اپنے وطن میں ہو اور نماز نہ پڑھے پھر وہ ۴۴ کلو میڑ یا زیادہ کا سفر کرے؟

جواب: تووہ نماز کو قصر پڑھے کیونکہ وہ نماز کو سفر کی حالت میں پڑھ رہا ہے۔

سوال: میں بعض دفعہ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اکھٹی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ایک ساتھ رکوع،ایک ساتھ سجدے اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟

جواب: وہ لوگ نماز یومیہ کو جماعت سے پڑھتے ہیں فرادی نہیں ۔

سوال: ہم نماز جماعت کو کس طرح پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: جب دو یا دو سے زیادہ اشخاص جمع ہوجائیں تو ان میں سے ایک جو امام جماعت کے شرائط رکھتا ہے اس کو جائز ہے کہ وہ سب کے آگے کھڑے ہو کر باقی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ان لوگوں کو اس عمل سے زیادہ اجر ملتا ہے۔

سوال: کیا نماز جماعت مستحب ہے؟

ج ہاں اس کا عظیم ثواب ہے،خاص کر کسی عالم کے پیچھے اور جتنے لوگ نماز جماعت میں زیادہ ہوں گے اتنی ہی اس کی فضیلت بھی بڑھے گی۔

سوال: امام جماعت کے کیا شرائط ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی گفتگو میں اشارةبیان کیا؟

جواب: امام جماعت کے شرائط میں ہے کہ وہ ،بالغ ہو ،عاقل ہو، مجنون نہ ہو،مومن ہو،عادل ہو،اپنے خدا کی معصیت (گناہ) نہ کرتا ہو قرائت صحیح ہو،حلال ہو،جب مامون مرد ہوں تو امام بھی مرد ہو(عورت نہ ہو)

سوال: ہم کس طرح پہچانیں کہ یہ مرد مومن ہے،عادل ہے تاکہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ سکیں؟

جواب: اس کے ظاہری حال کا بہتر ہونا کافی ہے۔

سوال: کیا جماعت میں امام جماعت کے دوسرے شرائط بھی ہیں۔؟

جواب: ہاں (امام جماعت کے بارے میں اعتبار کیا گیا ہے کہ وہ ایسا نہ ہوکہ جس پر شرعی حد جاری کی گئی ہو) اور اگر ماموم کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہےہیں تو امام کی نماز بھی قیام کی حالت میں ہونی چاہیے امام وماموم کے قبلہ میں احتلاف نہ ہو ایسا نہ ہوکہ امام کا اعتقاد قبلہ کےمتعلق کسی طرف ہو اور ماموم کا اعتقاد دوسری طرف ہو، ماموم کی نظر میں امام کی نماز صحیح ہو،پس اگر امام پانی کی نجاست کو نہ جانتے ہوئے نجس پانی سے وضو کرے اور ماموم کو پانی کی نجاست کا علم ہو تو پھر ایسی صورت میں ماموم کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔

سوال: میں جماعت کے ساتھ کس طرح نماز پڑھو؟

جواب: پہلے کسی ایسے شخص کو کہ جس میں امام جماعت کے شرائط جمع ہوں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،شخص معین کرو اگر تم تنہا ہو تو امام کے داہنی طرف ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو یا اگر تم دویا دو سے زیادہ ہوتو پھر امام کے پیچھے کھڑے ہو تمہارے اورامام کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جیسے دیوار وغیرہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ زیادہ بلند نہ ہونی چاہیے تمہارے اور امام کے درمیان یا جو مصلی تمہارے پہلو میں کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے آگے کھڑا ہے کہ جس کا رابطہ امام سے ہے اس کے او ر تمہارے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہئے ۔

سوال: پس اس بناپر نمازیوں کے درمیان ایک میڑسے زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہیے؟

جواب: (ہاں! تقریبا) اور نمازی کا اپنے برابر والے نمازی سےمتصل ہونا چاہیے ایک سمت ہی سے کافی ہے اور یہ اتصال چاہے آگے سے ہو یا داہنی طرف سے ہویا بائیں طرف سے ہو کافی ہے۔

سوال: اس کے بعد کیا ہونا چا ہئے؟

جواب: جب امام جماعت تکبیر کہے تو اس کے بعد اس کے پیچھے کھڑے ہونے والے تکبیر کہیں جب امام سورہ الحمد اور اس کے بعد سورہ پڑھے تو مامومین کو ان (سوروں) کی تلاوت نہ کرنی چاہیے کیونکہ امام کی تلاوت ان کی طرف سے کفایت کرے گی پس جب وہ رکوع کرے تو وہ بھی رکوع کریں اور جب و ہ سجدہ میں جائے تو اس کے بعد وہ سجدہ میں جائیں اور جب وہ تشھد پڑھے تو یہ تشھد پڑھیں اور اس کے سلام کے بعد یہ سلام کہیں۔

سوال: اور کیا میں رکوع و سجدہ اور تشہد میں ذکر پڑھوں اور کیا تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ پڑھوں یا خاموش رہوں اور کچھ نہ پڑھوں؟

جواب: بلکہ تم اسی طرح (ان کو) پڑھو کہ جس طرح تم فرادی نماز پڑھتے وقت پڑھتے ہو،لہٰذا تم رکوع ،سجود اور تشہد میں (اس کا مخصوص) ذکر پڑھو اور تیسری اور چوتھی میں جیسا کہ میں نے بتایا تسبیحات اربعہ کی تکرار کرو فقط سور تین(الحمدو سورہ) پڑھنا تم پر (واجب) نہیں ہے،پھر(ان کے علاوہ سب کی متابعت تم پر (ضروری ) ہے۔

سوال: آپ کا کیا مقصد ہے؟

جواب: تم پر امام جماعت کی اتباع ہر ہر قدم پر ضروری ہے یعنی جب وہ رکوع کرے تو تم بھی اس کے ساتھ رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی اس کے ساتھ سجدہ کرو اور جب وہ سجدے سے سر اٹھائے تو تم اپنے سر کو اٹھاؤ اور اسی طرح (ہر فعل کو انجام دو)افعال نماز میں اس سے پہل نہ کرو۔

سوال: اور امام جماعت سے کب ملحق ہونا چاہیے؟

جواب: امام جماعت کے حالت قیام میں تکبیر کہنے کے بعد یا جب وہ حالت رکوع میں ہو تو اس سے ملحق ہونا چاہیے۔

سوال: میں امام جماعت کے ساتھ اس وقت ملحق ہوں کہ جب وہ دونوں سورتوں کی تلاوت کررہا ہو تو مجھ پر دونوں سوروں کا پڑھنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا‘مگر جب وہ رکوع میں ہوتو میں کس طرح اس سے ملحق ہوں؟

جواب: تم تکبیر کہہ کرفوراً رکوع میں چلے جاؤ یہاں تک کہ امام جماعت اپنے رکوع کو ختم کرکے کھڑا ہوجائے تو تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔

سوال: اور ان دونوں سوروں کے پڑھنے کا کیا ہوگا( وہ تو میں نے پڑھا ہی نہیں ؟

جواب: جب تم رکوع میں اس سے ملحق ہوگئے تو ان دونوں سوروں کی قرائت تم سے ساقط ہے۔

سوال: اور جب وہ تیسری یاچوتھی رکعت میں ہو تو تسبیحات اربعہ پڑھ رہا ہو اس وقت اس سے ملحق ہوں تو؟

جواب : تم تکبیر کہو پھردونوں سوروں کی آہستہ تلاوت کرو ۔

سوال: اور جب دونوں سوروں کے پڑھنے کا وقت وسیع نہ ہو؟

جواب: تو تم فقط سورہ حمد کو پڑھو۔

سوال: مجھے نماز ظہر پڑھنا ہے اور میں امام جماعت سے ملحق ہوجاؤں حالانکہ امام جماعت عصر کی نماز پڑھ رہاہے( تو میرے لئے کیا حکم ہے۔؟

جواب: ہاں تم ملحق ہوسکتے ہو،تمہاری نماز اور امام جماعت کی نماز میں جہرو اخفات یا قصر وتمام یا قضاو اداء کی حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے۔

سوال: کیا عورتوں کے لئے مردوں کی طرح جماعت ہے؟

جواب: ہاں عورت ایسے مرد کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے جس میں امام جماعت کے شرائط پائے جاتے ہوں جیسا کہ اس کے لئے عورت کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائزہے،لیکن اگر عورت امام ہو(تواس پر واجب ہے وہ عورتوں کی صف میں کھڑی ہو ان سے آگے کھڑی نہ ہو) اور پھر اسی طرح نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھائے جیسا کہ مردامام جماعت پڑھاتا ہے،لیکن اگر عورتیں مردوں کے ساتھ نمازپڑھ رہی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ مردوں کے پیچھے نماز پڑھیں،یا ان کے ساتھ ایک صف میں اگر نماز پڑھیں تو بیچ میں کوئی چیزحا ئل ہونی چاہیے اگر چہ دیوار ہی کیوں نہ ہو۔

سوال: یہ نماز جماعت تھی اس کے علاوہ میں نے ایک نماز کا نام سنا کہ اس کا نام نماز جمعہ ہے پس کیا یہ نماز اس کے علاوہ ہے۔؟

جواب: ہاں وہ دورکعت نماز صبح کی طرح ہے مگر یہ کہ نماز صبح سے ان دو خطبوں کی بناپرممتاز ہوجاتی ہے کہ جو نماز جمعہ سے پہلے پڑھے جاتے ہیں اس طرح کہ امام کھڑا ہو اور ان دونوں خطبوں میں ایسی چیز بیان کرے جس میں خدا کی رضایت اور لوگوں کا نفع ہو۔

اور کم سے کم پہلے خطبہ میں واجب ہے کہ اللہ تعالی کی حمد وثنا کرے( عربی زبان میں) اور لوگوں کو تقوے کی نصیحت کرے،اورقرآن کریم کا ایک چھوٹا سا سورہ پڑھے پھر تھوڑا بیٹھ کر دوسری مرتبہ دوسرے خطبے کے لئے کھڑا ہو پس اللہ کی حمدوثنا اور محمد و آل محمد پر اور مسلمانوں کے ائمہ علیہم السلام پر صلوات بھیجے اور سب سے زیادہ بہتر وافضل مومنین ومومنات کے لئے استغفار کرنا ہے۔

سوال: کیا یہاں اس کے واجب ہونے میں کچھ شرائط بھی ہیں؟

جواب: ہاں اس کے واجب ہونے کے چندشرائط ہیں کہ نماز ظہر کا وقت داخل ہوجائے،پانچ لوگوں کا جمع ہونا،کہ ان میں ایک امام جمعہ ہو،اور امام جمعہ میں وہ تمام شرائط پائی جائیں کہ جو امام جماعت کے بارے میں بیان کی گئی ہیں اور جب کسی شہر میں نماز جمعہ قائم ہواپنے تمام شرائط کے ساتھ پس اگر امام معصوم یا جس کو اس نے مقرر کیا ہے نماز جمعہ کا اقامہ کرے تو اس شہر کے تمام رہنے والوں پر نماز جمعہ میں شرکت کرنا واجب ہے،سوائے ان لوگوں کے جن کو بارش نے یاشدید موسم سرمایا ان دونوں کے علاوہ کسی اور چیز نے شرکت کرنے سے مجبور کردیا ہو،جو مرض وبینائی سے سالم ہوں سوائے بوڑھے اور مسافر کے اورنماز جمعہ میں تقریبا ( ۱۱ کلو میڑ) کے فاصلہ تک شرکت کرنا( ضروری ہے)

سوال: اور اگر امام یا جس کو امام نے مقرر کیا ہو اس کے علاوہ کوئی نماز جمعہ کو قائم کرے تو پھر اس میں شرکت کرنا واجب نہیں ہے اور نماز ظہر کا بجالانا جائزہے،اور اگر کوئی مصلی نماز جمعہ کو جو اس کے تمام شرائط کے ساتھ قائم ہوئی ہے پڑھ لے تو وہ نماز ظہر سے کفایت کرے گی اور وہ نماز ظہر کو ساقط کردے گی۔

اب دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔

۱ نماز جمعہ کا پڑھنا واجب تخییری ہے پس مکلف نماز جمعہ اور نماز ظہر کے پڑھنے میں مخیر ہے( چاہے نماز جمعہ پڑھے یا نماز طہر) مگر نماز جمعہ کا پڑھناافضل ہے ۔

۲: نماز جمعہ کے درمیان تقریباً ساڑھے پانچ کلومیڑ کا فاصلہ معتبر ہے۔

سوال: چاہتا ہوں آپ سے ایک سوال کروں مگر کیا کروں حیامانع ہے ۔

جواب: جو کچھ چاہو تم سوال کرو دین میں کسی چیز کی شرم نہیں ۔

سوال: اگر میں نے نماز پنجگانہ میں کسی نماز کو نیند کی بناپر کبھی غفلت کی بنا پر چشم پوشی اور لاپرواہی اور کبھی جہالت کے سبب نہ پڑھی ہویا اگر پڑھی ہے تو نماز باطل اور فاسد پڑھی اور نماز کا وقت بھی نکل چکا (تو اب کیا کروں ؟)

جواب: ان کی قضا تم پر واجب ہے اگر وہ مثل صبح ومغرب اور عشاء کے جہری ہے تو ان کی قضا بھی جہری ہے اور اگر وہ مثل ظہر و عصر کے اخفاتی ہوں تو ان کی قضا بھی آہستہ آواز سے ہوگی اور اگر وہ قصر ہیں تو ان کی قضا بھی قصراور اگروہ تمام ہیں تو ان کی قضا بھی تمام ہوگی ۔

سوال: اور کیا میں نماز ظہر کی قضا زوال کے وقت پڑھ سکتا ہوں اور نماز عشاء کے وقت میں اس طرح نماز عشاء کی قضا ادا کرسکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ تم جس وقت چاہو اپنی کسی بھی نماز کی قضا ادا کرسکتے ہو چاہے رات ہو یا دن اور تم صبح نماز کی قضا شام کے وقت بھی ادا کرسکتے ہو،اسی طرح دوسری نمازوں کی بھی قضاء ادا کرسکتے ہو۔

سوال: اور جب مجھے معلوم نہ ہوکہ میری کون سی نماز قضا ہے تو میں کس نماز کی قضا ادا کرو؟

جواب: جس نماز کے قضا ہونے کا یقین ہو ،اور جس کو تم نے اس کے وقت میں نہ پڑھی ہو، اس کی قضا کرو لیکن جس نماز کے قضا ہونے کے بارے میں تم کو شک ہے تو اس کی قضاتم پر واجب نہیں ہے۔

سوال: ذرامجھے مثال سے واضح کیجئے؟

جواب: مثلاً تم کو یقین ہے کہ تم نے ایک مہینہ تک نماز صبح نہیں پڑھی تو ایک مہینہ کی نماز صبح کی قضا تم پر واجب ہے لیکن جس کے بارے میں شک ہے کہ وہ قضا ہوئی یا نہیں تو اس کی قضا تم پر واجب نہیں ہے۔

دوسری مثال جب تم کو معلوم ہوکہ ایک زمانہ تک تم نے نماز صبح نہیں پڑھی،اب تمہارے دل میں دواحتمال پیدا ہوتے ہیں کہ تم نے آیا ایک مہینہ نماز قضا کی ہے یا ایک مہینہ دس دن کی قضا ہوئی ہے ایسی صورت میں ایک مہینہ کی نماز کی قضا تمہارے لئے ضروری ہے اس سے زیادہ نہیں ۔

سوال: کیا جو ہماری نماز قضا ہوئی ہے اس کا ادا کرنافوراً بغیر تاخیر کے واجب ہے؟

جواب: بغیر تساہلی اور تسامح کے تاخیر جائز ہے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تمہاری نماز جس دن فوت ہوئی ہے اسی دن اس کی قضا ادا کرو مثلا تمہاری کسی دن صبح کو آنکھ نہ کھلے اور نماز صبح قضا ہوجائے تو اسی دن نماز صبح کی قضا ادا کرلو تاکہ وہ زیادہ نہ ہوجائیں تو تم پر ان کی قضا کا ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔

میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں قضا کے سلسلہ میں تساہلی اور تسامح سے خدا تم کو توفیق عنایت کرے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کے معین وقت میں ادا کرو۔

سوال: ذرا ٹھہرئیے نماز کی پہلی والی گفتگو میں آپ نے مجھے نماز واجب کی تعداد میں بتایا تھا کہ نماز مرنے والے کے بڑے بیٹے پر ادا کرنا واجب ہے جب کہ باپ نے ان کی قضا ادا نہ کی ہواور وہ مرجائے؟

جواب: ہاں( نماز واجب کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے ، جب کہ والد کی نماز کسی عذر کی بنا پر قضا ہوگئی ہو اور اس نے اس قضا کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہوئے بھی قضا کو ادا نہ کیا ہو اور وہ مر جائے اور اس کا بڑا بیٹا اس کی موت کے وقت قاصر نہ ہو اور وہ ممنوع الارث بھی نہ ہو تو اس کو چا ہئے کہ وہ کسی کو اپنی نیابت میں اپنے والد کی قضا نماز ادا کرنے پر بحیثیت اجارہ معین کرے ۔

سوال: آپ نے مجھ سے نماز آیات کے بارے میں ذکر کیا تھا؟

جواب: نماز آیات سوائے حیض ونفاس والی عورتوں کے تمام مکلفین پر چاند گہن سورج گہن چاہے ذرا سا ہی کیوں نہ ہو(زلزلہ کے وقت) واجب ہے اور ہروحشت ناک آسمانی حادثہ کے وقت جیسے بجلی کی کڑک وگرج،سرخ وسیاہ آندھی وغیرہ کے وقت اور اسی طرح وحشت ناک زمینی حادثات کے وقت جیسے زمین کا ایسا پھٹ جانا اور دھنس جانا کہ جس میں عام لوگ خوف زدہ ہوجائیں نماز آیات کو فرادا پڑھا جاتا ہے اور چاند گہن اور سورج گہن میں جماعت سے بھی پڑھا جاتاہے۔

سوال: نماز آیات کب ادا کی جاتی ہے۔؟

جواب: سورج گہن اور چاند گہن میں شروع گہن سے ختم گہن تک۔

سوال: زلزلوں میں وبجلی کی کڑک وگرج میں اور ہر آسمانی یا زمینی وحشت ناک حادثات کے وقت(کلاصۃاً)نماز آیا ت کب پڑھی جائے؟

جواب: ان میں نماز کا وقت کوئی معین نہیں بلکہ جیسے ہی حادثات رونما ہوں ویسے ہی نماز کو بجالایا جائے مگر یہ کہ حادثہ کا وقت وسیع ہوتو اس کی نماز کو اتنے وقت میں بجالایا جائے کہ اس حادثہ کا زمانہ ختم نہ ہواہو۔

سوال: نماز آیات کو کس طرح پڑھوں؟

وہ دورکعت ہے اورہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں ۔

سوال: وہ کس طرح؟

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت کرو اس کے بعد کسی دوسرے سورہ کو کامل پڑھو، پھر رکوع کرو جب تم اپنا سررکوع سے اٹھاؤ تو پھر سورہ الحمد اور ایک کامل سورہ پڑھو پھر رکوع کرو اسی طرح پانچ رکوع کرو۔

جب تم اپنا سر رکوع سے بلند کرو تو سجدے کے لئے جھک جاؤ اور دوسجدوں کو اسی طرح کرو کہ جس طرح تم ہمیشہ نماز میں سجدے کرتے ہو۔

پھر تم دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور اس رکعت میں بھی اسی طرح انجام دو جو اس سے پہلے والی رکعت میں انجام دیا ہے (یعنی پانچ رکوع اور پانچ مرتبہ دونوں سوروں کا پڑھنا) پھر تشہدو سلام کے بعد نماز کو تمام کرو،یہ ہے وضاحت اس نماز کی کہ جس میں دس رکوع ہیں،لیکن وہ دورکعت پر مشتمل نماز ہے اور اس کے علاوہ اس نماز کی دوسری بھی صورت ہے مگر اختصار کی بنا پر اس کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: جب سورج گہن یا چاند گہن لگ جائے اور اس کا علم نہ ہو یہاں تک کہ وہ بالکل ختم ہوجائے تو اس کاکیا حکم ہے؟

جواب: جب سورج گہن یا چاند گہن پورا ہو اس طرح کہ وہ گہن تمام سورج اور چاند کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تم پراس کی قضا واجب ہے اور اگرپورانہ ہو صرف تھوڑا سا گہن ہو تو تم پر قضا واجب نہیں ہے۔

سوال: اور کیا نماز آیات زلزلہ وبجلی کی کڑک وچمک میں ہے؟

جواب: جب ان دونوں کے حادثہ کا تھوڑا زمانہ گزرجائے اور تم نے کسی بھی سبب نماز نہیں پڑھی تو پھر ان کی قضا ساقط ہے ۔

سوال: اگر زمین کے کسی بھی حصہ میں سورج یا چاند گہن ہو تو کیا مجھ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ اس چاند یا سورج گرہن کی نماز تم پر واجب ہے جو تمہارے شہر میں ہوا ہو یا جو تمہارے شہر سے کوئی ایساشہر ملا ہوا ہو کہ جس کے حادثات اور واقعات مشترک ہوں اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں سورج گہن یا چاند گہن لگا ہو اور وہ تم سے دور ہوتو اس وقت تمہارے اوپرنماز آیات واجب نہیں ہے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ نمازیں واجب ہیں اور مستحب؟لیکن آپ نے مستحب نمازوں کے بارے میں کچھ نہ فرمایا؟

جواب: وہ بہت ہیں ان کو بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں ہے ۔اس لئےان میں سے کچھ کو میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

۱ نماز شب (اور اس کا آخری حصہ تہائی رات میں ادا کرنا افضل ہے،اور جتنا نماز صبح سے وقت قریب ہوگا اتنا ہی افضل ہے) آٹھ رکعتیں ہیں ہر دورکعت کے بعد نمازپڑھنے والا سلام پھیرے ، نماز صبح کی طرح،جب یہ آٹھ رکعت ختم ہوجائیں تو پھر دورکعت نماز شفع پڑھے پھرنماز وتر پڑھے جو ایک رکعت ہے پس یہ تمام کی تمام گیارہ رکعت ہیں ۔

سوال: مجھے بتائیے کہ نماز وتر کس طرح پڑھی جاتی ہے جب کہ وہ ایک رکعت ہے؟۔

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر الحمد پڑھو اور مستحب ہے کہ اس کے بعد سورہ توحید پڑھو تین مرتبہ،اور سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھو پھر ہاتھوں کو بلند کرکے جو چاہو دعا پڑھو۔

تم پر مستحب ہے کہ اللہ کے خوف سے گریہ کرو اور چالیس مومنین کا نام لے کر ان کے واسطے مغفرت طلب کرو اور ستر مرتبہ پڑھو۔

(استغفرالله واتوب الیه ) اور سات مرتبہ (هذا مقام العاذ بک من النار ) پڑھو اور تین سو مرتیہ(العفوء )کہو اور جب تم اس سے فارغ ہوجاؤتو رکوع کرو اور پھر تشہد وسلام کے بعد نماز تمام کرو۔

اور تم نماز شفع اور وتر پر ہی صرف اکتفاء کرسکتے ہو بلکہ تنہا اور خاص طورسے وتر پر بھی اکتفاء کرسکتے ہو جب کہ وقت تنگ ہو۔

سوال: نماز شب کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: نماز شب کی بہت بڑی فضیلت ہے امام صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی وصیت میں جو علی علیہ السلام سے کی ہے (تین مرتبہ فرمایا)علیک بصلواة اللیل (علیک بصلواة اللیل ) (علیک بصلواة اللیل

یعنی تم نماز شب پڑھا کرو۔

اور اسی طرح نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ ”صلاة رکعتین فی جوف اللیل الی من الدنیا وما فیها “۔رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنا مجھے دنیا اور جو اس میں ہے اس سے زیادہ پسند ہے، اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا او راس نے کسی حاجت کے بارے میں آپ سے شکایت کی او راپنی شکایت میں اپنی بھوک کا بھی اضافہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: (اے شخص تو نماز شب پڑھتا ہے) تو اس نے کہا ہاں، تو آپ نے اس کے دوست کی طرف متوجہ ہوکر اور فرمایا وہ شخص جھوٹا ہےجو کہتا ہے کہ رات کو نمازشب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رہے خداوند عالم نے اس شخص کےروزی کی ضمانت لی ہے جو رات کو نماز شب پڑھتا ہے)۔

۲ نماز وحشت یا دفن کی رات کی نماز او راس کے ادا کرنے کا وقت دفن کی پہلی رات ہے، رات کے کسی بھی حصہ میں اس کو پڑھئے اور وہ دو رکعت ہے، رکعت اول الحمد کے بعد آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ انا انزلناہ اور تشہد و سلام کے بعد کہو۔

اللهم صل علی محمد و آل محمد و ابعث ثوابها الی قبر فلان ۔

اور فلاں کی جگہ میت کا نام لو، اور ایک دوسری صورت بھی اس نماز کی ہے، فقہ کی کتابوں میں دیکھو اگر مزید جاننا چاہتے ہو تو۔

۳ ۔ نماز غفیلہ او ر وہ دو رکعت ہے مغرب و عشاء کے درمیان پہلی رکعت میں الحمد کے بعد یہ آیہ کریمہ پڑھو۔

( و ذالنون اذذهب مغاضبافظن ان لن نقدر علیه فنادی فی الظلمات ان لا لااله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین، فاستجبنا له و نجیناه من الغم و کذالک ننجی المومنین )

اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد اس آیہ کریمہ کی تلاوت کرو۔

( و عنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو و یعلم ما فی البر والبحر و ما تسقط من ورقة الا یعلمها ولا حبة فی ظلمات الارض و لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین )

پھر دعا کے لئے ہاتھوں کو بلند کرو اور کہو۔

اللهم انت ولی نعمتی والقادر علی طلبتی تعلم حاجتی فاسالک بحق محمد وآله علیه وعلیهم السلام لما قضیتهالی ۔

اپنی حاجب طلب کرو انشاء اللہ پوری ہوگی۔

۴ ۔ ہر مہینہ کے پہلے دن کی نماز اور وہ دو رکعت ہے۔ پہل رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ توحید تین مرتبہ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ قدر تین مرتبہ، پھر تم صدقہ دو جو بھی تم کو میسر ہو او راس مہینہ کی سلامتی کو خرید لو اور اس کے بعد قرآن کی کچھ مخصوص آیتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔

۵ ۔حضرت علی علیہ السلام کی نماز،اور وہ چار رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی طرح پڑھو، ہر رکعت میں سورۂ الحمد کے بعدپچاس ( ۵۰) مرتبہ( قل هو الله احد ) پڑھو،توپھر اس کے اور خدا کے درمیان کوئی گناہ نہ رہے گا۔

۶ ۔ امرمشکل کی آسانی کے لئے نماز، اور وہ دو رکعت ہے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب کوئی کام مشکل ہوجائے تو دو رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( انا فتحنا ) کو( ولینصرک الله نصرا عزیرا ) تک اور دوسری رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( الم نشرح لک صدرک ) پڑھو۔


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18