اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 16%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23321 / ڈاؤنلوڈ: 4013
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اسلام اور سیاست جلد(۲)

حضرت آیۃ اللہ مصباح یزدی مد ظلہ العالی

چو بیسواں جلسہ

حکومت کی عظیم منصوبہ بندی ۱

۱۔ حکومت کی ضرورت

ہم نے اسلامی سیاسی فلسفہ کے شروع ہی میں یہ بات عرض کی تھی کہ دوسری حکومتوں کی طرح اسلامی حکومت کے بھی دو بنیادی محور ہوتے ہیں :

۱۔ قانون اور قانونگذاری ۔

۲۔ مدیرت اور قوانین کو نافذ کرنا۔

ہماری گذشتہ بحث پہلے محور پر ہوئی ہے مثلاً قانون کی اہمیت، مطلوبہ قانون کے خصوصیات، اسلام کی نظر میں قانون گذاری، اور اس کے شرائط کے سلسلہ میں بحث ہوئی ، نیز اسی بحث کے ضمن میں مذکورہ سلسلہ میں ہونے والے بعض اعتراضات وشبھات کا بھی جواب دیا گیا۔

لیکن اب ہم دوسرے محور (یعنی مدیریت اور نفوذ قوانین) کے سلسلہ میں بحث کریں گے، اس بحث کے نقشہ کو روشن کرنے کے لئے اس مقدمہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ کسی موسسہ یا سازمان کا ہدف جس قدر واضح اور صاف وشفاف ہوگا اسی مقدار میں اس سازمان کا نقشہ یا اس میں کام کرنے کی شرائط، اسی طرح اس کے منتخب ہونے والے اعضاء کی خصوصیات واضح اور روشن ہوگی اس بنا پر اگر ہم اسلامی حکومت یا حکومت بمعنی خاص یعنی حکومت اسلامی کی مدیریت کے بارے میں بحث کرنا چاہیں اور اس بات کا پتہ لگانا چاہیں کہ اس طاقت کا ڈھانچہ کیسا ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں کون افراد فعالیت اور کارکردگی کرسکتے ہیں اور ان کی خصوصیات اور ان کے اختیارات کیا کیا ہیں ؟

تو سب سے پہلے اسلامی حکومت کی تشکیل کے اہداف اور ان میں بھی اسلامی حکومت کی مدیریت کے ہدف اور مقصد سے آگاہ ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر حکومت کی تشکیل کا ہدف معین اور مشخص نہ ہو تو پھر مدیریت کا ڈھانچہ، اس کے ذمہ دارافراد کی خصوصیات اور ان کے اختیارات واضح نہیں ہوپائیں گے لھٰذا مناسب ہے کہ پہلے حکومت (خاص شکل میں یعنی قوہ مجریہ)کی تشکیل کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں بحث کریں ۔

ان لوگوں کے نظریہ کو نظرانداز کرتے ہوئے جو حکومت کو ضروری نہیں مانتے اکثر فلسفہ سیاسی دانشمند افراد حکومت کو ضروری مانتے ہیں یعنی ان کا ماننا یہ ہے کہ معاشرہ میں ایسی انجمن یا مجموعوں کا ہونا ضروری ہے جو احکامات صادر کریں اور دوسرے افراد ان کی اطاعت کریں ، یا وہ قوانین جن کو معاشرہ قبول کرتا ہے ان کو معاشرہ میں نافذ کریں اور ان قوانین کی مخالفت کرنے والوں کو مخالفت سے روکیں ، یا ان کو مخالفت پر سزا دیں چنانچہ اس بات پر تقریباً سبھی دانشمنداتفاق رکھتے ہیں تجربہ کی بنیاد پر کم و بیش سبھی لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ معاشرہ کو حکومت کی ضرورت ہے اسی طرح اسلام بھی اس نظریہ کو قبول کرتا ہے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے (نھج البلاغہ میں ) فرمایا ہے:یھاں تک کہ اگر معاشرہ میں نیک لوگوں کی حکومت نہ ہو تو ایسے حالات میں ایک فاجر اور برے فرد کی حکومت (حکومت نہ ہونے سے) بہتر ہے

وَإنَّه لٰا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ امیرٍ بَرٍّ اوْ فَاجِرٍ یَعْمَلُ فِی إمْرَتِه الْمُومِنُ وَیَسْتَمْتِعُ فِیْها الکٰافِرُ ۔(۱) “ یعنی لوگوں کے ایک حاکم کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا، تاکہ اس کی حکومت میں مومنین اپنا کام کرسکیں اور کافر اپنا فائدہ حاصل کرسکیں

کیونکہ اگر حکومت یا قوانین کو جاری کرنے والا ضامن موجود نہ ہو تو پھر معاشرہ کا نظام درہم وبرہم ہوجائے گا، جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے حقوق پامال اور معاشرہ کے مصالح وفوائد نابود ہوجائیں گے لھٰذا اسلامی نقطہ نظر سے ”بے حکومتی“ قابل قبول نہیں ہے، بلکہ مومنین کے اہم و واجب وظائف میں سے ایک یہ ہے کہ نیک افراد کی حکومت بنائیں تاکہ معاشرہ کے مصالح اور فوائد تامین اور پورے ہوں ۔

۲۔قوہ مجریہ کے اہداف کے سلسلہ میں مختلف نظریات

اب جب کہ حکومت اور قوہ مجریہ کی ضرورت ثابت ہوگئی تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حکومت اور قوہ مجریہ کے اہداف ومقاصد کیا کیا ہیں ؟جبکہ اس بات کو تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ قوہ مجریہ کا کام قوانین کو نافذ کرنا ہے، پس یہ طے ہوگیا کہ اس کا کام قوانین کو جاری کرناہے، لیکن اب یہ دیکہنا ہوگا کہ وہ قوانین جن کو حکومت نافذ کرنا چاہتی ہے وہ کس طرح کے اور کس ماہیت کے ہونے چاہئیں ؟ چنانچہ اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال پر متوقف ہے اور وہ یہ ہے کہ قانون کا ہدف اور مقصد کیا ہے؟ معاشرہ کو قانون کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ قانون لوگوں کے لئے کس چیز کو مد نظر رکھے؟ اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ قانون کے اہداف و مقاصدکی دو قسمیں ہوتی ہیں :

پہلی قسم: مادی ااغراض و مقاصد۔

دوسری قسم: معنوی اغراض و مقاصد۔

کلی طور پر سیاسی فلسفہ کے بارے میں بحث کرنے والے دانشوروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے مادی مصالح ومنافع کو تامین کرے، لیکن معنوی مصالح کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ آیا قانون کو لوگوں کے معنوی مصالح کو بھی پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ کیا معنوی مصالح کا بھی قانون میں لحاظ کرنا ضروری ہے، اور اس طرح حکومت کو ایسے قوانین کا نافذ کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟

قدیم زمانہ سے بعض فلسفی مکاتب اس نظریہ کو مورد توجہ قرار دیتے تھے کہ حکومت کو لوگوں کے معنوی مصالح کو بھی تامین کرنا چاہئے،اور وہ قانون جس کی حکومت ذمہ دارہوتی ہے اس قانون کو ایسا ہونا چاہئے جو انسانی فضائل کو مد نظر رکھے غیر دینی فلسفی مکاتبمیں بھی یونانی قدیم فلاسفہ مثل ”افلاطون“ (انسانی) فضیلت پر توجہ دیتے تھے، اور حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ انسانی فضائل کے رشد و نموکے لئے راستہ ہموار کرے، چنانچہ اسی لئے کھتے تھے : ”حکومت کرنے کا حق صرف انہیں افراد کو ہے جو حکیم (عالم وعاقل) ہوں ، جو انسانی فضائل کے اعتبار سے دوسرے لوگوں سے بہتر ہوں ، جیسا کہ افلاطون کاکہنا ہے: ”حکیمان باید حاکم بشوند“ (حکماء کو حاکم ہونا چاہئے) لھٰذا غیر مسلمان اور غیر الہی فلاسفہ (وہ لوگ جو آسمان ادیان کے کو نہیں مانتے تھے) کے نزدیک بھی انسانی فضائل اور اخلاق کی اہمیت تھی یہاں تک کہ وہ فلاسفہ جو کسی دین اور مذہب کو نہیں مانتے تھے وہ بھی یہی نظریہ رکھتے تھے کہ معاشرہ میں اخلاقی فضائل اورلوگوں کی اخلاقی رشد ونموہونا چاہئے۔

جس وقت یورپ میں عیسائیت پھیلی اور ”کنسٹانٹین“ روم کا بادشاہ ایک عیسائی ہوا ، اس نے یو رپ میں عیسائیت کو رائج کیا، عیسائیت یورپین ممالک کے تمدن کا قانونی مذہب بن گئی ،دین اور حکومت ایک ساتھ مل گئے اور حکومت کے اہداف میں دینی اغراض و مقاصد کو بھی مد نظر رکھا گیا یعنی جو کچھ عیسائیت نے کھا اس کے قوانین کو جاری بھی کیا گیا۔

لیکن ”رنسانس“ کے بعد مغربی نظریات میں تبدیلی آئی ، جس کی بنا پر انھوں نے اخلاقی مسائل کو حکومت کے دائرہ سے نکال دیا کیونکہ رنسانس اور نوزائی کے بعد یورپ میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں مغربی جدید تمدن کا آغاز ہوا، جس کی سب سے بڑی خصوصیت دین کا حکومت سے جدا کرنا تھا اس دور میں فلاسفہ نے اس سلسلہ میں گفتگو کی، کتابیں لکھیں جس کی بنا پر مختلف فکری مکاتب وجود میں آئے، اور اخلاقی اور معنوی فضائل کو بالائے طاق رکہ دیا گیا۔

انہیں فلاسفہ میں سے ”ہابز“ نامی فلسفی بھی گذرا ہے جس کا نظریہ یہ تھا کہ حکومت کی ذمہ داری صرف ہرج ومرج (بد امنی) پھیلنے سے روکنا نہیں ہے کیونکہ اس کے نظریہ کے مطابق بعض بھیڑیا صفت لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی جان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو نابود کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان بھیڑیا صفت انسان پر کنٹرول کرے اور ان کی درندگی اور ظلم وستم کو روکے، لھٰذا حکومت کا صرف یہی مقصد ہوتا ہے۔

اس کے بعد ”جان لوک“(۲) نے حکومت کے اہداف کوبیان کرتے ہوئے کھا کہ حکومت کی ذمہ داری لوگوں کی ؟اور ان کی حفاظت کرنا ہے، اس کی نظر میں انسانوں کے پاس صرف ایک حکومت کی کمی ہوتی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو پھر معاشرہ کا نظام وجود میں نہیں آسکتا، افرا تفری پھیل جائے گی، امن وامان ختم ہوجائے گا، انسان کی جان ومال خطرہ میں پڑجائے گی جیسا کہ وہ کھتا ہے : ”ھمیں اپنی ضرورت تحت حکومت چاہتے ہیں ، ورنہ تو دوسری چیزوں کا حکومت سے کوئی مطلب وواسطہ نہیں ہے۔“

البتہ دین وحکومت اور اجتماعی مسائل کی جدائی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والے اخلاقی فضائل اور معنوی اقدارکی اہمیت کے قائل نہیں ہیں ، بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ان چیزوں کا حکومت سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ خود عوام الناس کو ان اخلاقی ومعنوی فضائل کی طرف قدم بڑھانا چاہئے: جو لوگ خدا کو مانتے ہیں ان کو چاہئے کہ خود مسجد یا گرجا گھر میں جائیں یا کسی دوسری جگہ پر جاکر خدا کی عبادت کریں ، لیکن اس سلسلہ میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اسی طریقہ سے اخلاقی فضائل جیسے سچ بولنا، نیک کردار، دوسروں کا احترام واکرام کرنا،فقیر وفقراء کی مدد کرنا وغیرہ یہ فضائل قابل قدر ہیں لیکن یہ فردی (ذاتی) مسائل میں شمار ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں خود افراد کو تلاش وکوشش کرنا چاہئے تاکہ اپنے کو ان اخلاقی فضائل سے آراستہ کرلیں ، لیکن ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پس اجتماعی قوانین ، یعنی وہ قوانین جو حکومت کے ذریعہ جاری ہوتے ہیں ان کا ہدف اور مقصد معاشرہ کے امن وامان کو تامین اور ان کی حفاظت کرنا ہے تاکہ لوگوں کی جان ومال؛ ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رہے پس حکومت کی ذمہ داری لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ہے،اور یہ بات کہ حکومت کا مقصد امن وامان قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے مختلف تحریروں میں بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ ”لاک“ کی تحریروں میں جان ومال کی حفاظت کے علاوہ فردی آزادی کو بھی امنیت کا ایک حصہ شمار کیا ہے، یعنی اس نے امنیت میں جان ومال اور آزادی کو بھی داخل کیا ہے، لیکن اخلاقی اور معنوی مصالح کے بارے میں صرف اس بات کو قبول کرتا ہے کہ اجتماعی قانون کو اخلاق کے مخالف نہیں ہونا چاہئے، یا خدا پرستی سے نہ ٹکراتا ہو، لیکن اجتماعی اور حکومتی قوانین پر؛ اخلاقی اقدار ، دینی اقدار کو حفظ کرنے اور معنوی رشد کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ یہ تمام چیزیں حکومت سے متعلق نہیں ہیں ۔

آج کل دنیا کے تقریباً سبھی فلسفی مکاتب میں اسی ”لاک“ کا نظریہ انجیل کا حکم اور بنیادی قانون ہوتا ہے اس کا اصلی نعرہ یہ ہے کہ حکومت کو امن وامان اور آزادی کو برقرار کرنے کے علاوہ دینی مسائل یا اخلاقی فضائل کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

قارئین کرام! مغربی نقطہ نظر اور اسلامی نقطہ نظر میں سب سے بڑا نقطہ اختلاف یہی ہے۔

۳۔ انبیاء (ع) کی حکومت کے اغراض ومقاصد

انبیاء علیہم السلام اور ہمارے نبی اکرم (ص) کا نظریہ خاص طور پر یہ ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ،مادی مصالح اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ معنوی مصالح کوپورا کرنا بھی ہے یہاں تک کہ معنوی مصالح کا پورا کرنا مادی مصالح پر فوقیت رکھتا ہے اور ان پر مقدم ہے یعنی حکومت کو ایسے قوانین جاری کرنا چاہئے جن کا آخری ہدف معنوی ، روحی، اخلاقی اور انسانی مصالح کو تامین (حفاظت) کرنا ہے وہی ‎ مسائل جن کو دین انسان کا آخری ہدف شمار کرتا ہے اور انسانی کمال کو ان سے متعلق گردانتا ہے ، اس دنیا میں انسان کی خلقت اور اس کے لئے انتخاب اور آزادی کی طاقت کا ہونا؛ یہ تمام کی تمام چیزیں اسی وجہ سے ہیں کہ انسان اپنے نھائی اور آخری ہدف کو پہنچان لے اور اسی پر قدم بڑھائے ان تمام مسائل کا محور” قربت خدا “ھے جیسا کہ الحمد لله آج ہمارے اسلامی معاشرہ میں سب پر واضح ہے بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات رائج تھی یہاں تک کہ جو لوگ اس کے صحیح معنی بھی نہیں جانتے لیکن پھر بھی اس لفظ سے مانوس ہیں کیونکہ جاہل اور کم پڑھے لکھے افراد بھی جملہ ”قربة الی الله“ کو زبان پر جاری کرتے ہیں ۔

اب جبکہ یہ بات معلوم ہوگئی کہ انسان کا آخری ہدف خلقت، قربت خدا ہے تو پھر معاشرہ میں ایسے قوانین کا نافذ ہونا ضروری ہے جو اس ہدف تک پہنچانے میں مدد کریں اور انسان کی زندگی بھی اسی سمت آگے بڑھے، اور انسان کے دوسرے حیوانی پہلو کے دوسرے مسائل اسی صورت میں مہم ہوسکتے ہیں جب وہ مسائل انسان کو معنویات اور قربت خدا کی طرف رشد وترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں مددگار ثابت ہوں ۔

اور جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ اجتماعی قوانین کو بنانے کا ہدف مادی مصالح کو تامین کرنے کے علاوہ معنوی مصالح کوتامین کرنا بھی ہے تو پھر ظاہراً حکومت کا مقصد بھی مشخص اور معین ہوجاتا ہے اور حکومت کو بھی صرف لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ہی کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھنا چاہئے؛ بلکہ ان کے علاوہ معنویات کے رشد کے لئے بھی راہ ہموار کرنا نیز اس راہ میں جو چیز مانع اور ضدیت رکھتی ہوں ان کو راستہ سے ہٹانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، حکومت کو صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے تو تمھاری روٹی کے اسباب فراہم کردئے ہیں اور تمھاری جان کی امنیت برقرار کردی ہے،اور بس البتہ یہ ذمہ داری تو سبھی حکومتوں کی ہوتی ہے اور سبھی اس سلسلہ میں متفق بھی ہیں کہ ہر ایک معاشرہ میں ؛ چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی، لائیک ہو یا غیر لائیک اس میں جو بھی حکومت تشکیل پائے تو اس کے لئے امنیت برقرار کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کی جان ومال محفوظ رہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے حکومت اپنی ذمہ دار ی کو صرف اسی چیز میں محدود نہیں کرسکتی بلکہ اس کو اپناسب سے پہلا وظیفہ یہ سمجھنا چاہئے کہ فضائل انسانی ، معنوی والہی رشد کے لئے راستہ ہموار کرے، طبیعی طور پر اس مقصد تک پھونچنے کے لئے امن وامان اور لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے سلسلہ میں امنیت برقرار کرنا ضروری ہوتا ہے، البتہ اس امنیت کا برقرار کرنا ایک مقدمہ ہے نہ کہ اصل مقصد نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ جانی مالی امنیت برقرار کرنا متوسط اہداف میں ہیں نہ نہائی او ر اصلی ہدف، ایک دوسرے طریقہ سے یوں عرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ امنیت بلند وعالی ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اور وہ بلند ہدف معنویات کا رشد ہے پس معاشرہ میں وہ قوانین نافذ ہوں جو نہ فقط دین سے ضدیت نہ رکھتے ہوں اور دین کے مخالف نہ ہوں بلکہ ان کو مکمل طریقہ سے دینی اصول ومبانی سے ہم اہنگ اور موافق ہونا چاہئے، اورانسان کے معنوی اور الہی رشد میں معاون ومددگار ، ان کا دین کے مخالف نہ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ دین کے اہداف میں مددگار ہونا ضروری ہے، یعنی اسلامی حکومت کا کردار نہ صرف یہ کہ ضد دین نہ ہو بلکہ بے دینی اور دینی ضدیت سے مقابلہ کرے اور دینی اہداف ومقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔

لھٰذا اسلامی نقطہ نظر سےحکومت یا قوہ مجریہ کا ہدف، صرف جان ومال کی حفاظت کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مہم تر معنوی مسائل پرتوجہ دینا نھایت ہی ضروری ہے، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر مادی ضرورتیں تامین نہ ہوں ، اور اگر اسلامی احکام جاری ہوں تو پھر آئندہ میں لوگوں کی مادی ضرورتیں دیگر حکومتوں سے بہتر طریقہ پر پوری ہوں گی، لیکن اگر فرض کریں کچھ مدت تک لوگوں کی تمام مادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے دین کے ضعیف ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسے موقع پر ضروری ہے کہ لوگوں کی ان ضرورتوں کو پورا کیا جائے جن سے دین ضعیف نہ ہو، کیونکہ معنوی مصالح مقدم او راہم ہیں لیکن اس سلسلہ میں مغربی ممالک کا نقطہ نظر ہمارے نظریہ سے الگ ہے کیونکہ وہ لوگ فقط مادی مسائل اور مادی اہداف پر توجہ کرتے ہیں اور ان کی حکومت معنوی مصالح کو تامین کرنے کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔

۴۔ لیبرل " Liberal "(آزادی خواہ)نظام میں اجتماعی مشکلات کا اثر

کبھی کبھی بعض لوگ تحریری یا شفاہی طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بھی دینی مسائل پر توجہ دی جاتی ہے کہ وہ لوگ بھی ایثار وفداکاری کرتے ہیں اور اجتماعی مسائل پر توجہ کرتے ہیں ، اگر چہ یہ مطلب صحیح ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مغربی لوگ خود پسندنہیں ہیں اور لیبرل نظریہ کے رائج ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام مغربی لوگ اس نظریہ سے متاثر ہوں ، بلکہ ہماری مراد یہ ہے کہ لیبرل نظریہ اکثر معاشروں پر غالب ہے اور وہ لوگ پیش آنے والے بعض مسائل کی بنا پر ایسے کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے فلسفہ کے خلاف عمل کرتے ہیں یعنی وہ تمام لوگ جو لیبرل نظریہ کو قبول رکھتے ہیں اور خود پسند ہوتے ہیں وہ بھی ضرورتوں کے تحت مجبور ہوتے ہیں تاکہ اجتماعی مسائل پر توجہ کریں اور شورش اور بلوے کے ڈر سے کہ کھیں اکثر لوگ قیام نہ کرلیں ، لھٰذا محرومین کے حقوق کی رعایت کرتے ہیں عملی طور پر بھت سی سوسیالیسٹ " Socialiste " ڈیموکریٹک " Democratic " حکومتیں لوگوں سے حاصل کئے گئے ٹیکس وغیرہ کے کافی حصہ اجتماعی خدمات پر خرچ کرتے ہیں ، جبکہ ان کا مادی فلسفہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کام کو اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ عوام الناس اعتراض نہ کرے، اور امنیت محفوظ رہے اور لوگ قیام وشورش نہ کریں ، ایک دوسرے کی جان کے پیچھے نہ پڑیں ،پس یہ لوگ اپنی مجبوری کی بنا پر اس طرح کی سھولیات فراہم کرتے ہیں ۔

لیبرل نظریہ کیا چاہتا ہے؟ اور اس کے طرفدار کیا کرتے ہیں ؟ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں ، اتفاقاً یہ اعتراض تو خود ان پر(بھی) ہوا ہے کہ تمھارے لیبرالی نظریہ کے تحت تم کو ان مسائل کی رعایت نہیں کرنا چاہئے، پس تم لوگ ایسے کام کیوں کرتے ہو جس سے محروم طبقے کا فائدہ ہوتا ہوجیسے عام لوگوں کے لئے بیمہ اسکیم، یا دوسری سھیولیا ت کا فراہم کرنا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اس لئے ہیں تاکہ سرمایہ داروں اور مالدار لوگوں کا سرمایہ اور پراپرٹی خطرہ میں نہ پڑجائیں ، اور کمیونسٹی اور مارکسسٹی انقلاب رونما نہ ہوجائیں ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مارکسسٹی ممالک میں مارکسسٹی نظریہ آنے سے پہلے یہ نظریہ مغربی ممالک میں رائج ہوچکا تھا اور اپنا اثر دکھا چکا تھا ”مارکس“ نامی دانشمند جرمن کا تھا اور انگلینڈ میں رہتا تھا شروع میں اس کے نظریات اور اس کی کتابیں انگلینڈ میں نشر ہوئیں ،چنانچہ انگلینڈ کے سیاست مداروں نے اس کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد مارکس کے بیان شدہ خطرات پر توجہ کی اور پہلے ہی سے ان کی روک تھام کا بندو بست کیا۔

حزب کارگر اور سوسیالسٹی طرز تفکر جو انگلینڈ میں وجود میں آئے اور انھوں نے جو محروم اورکم درآمد لوگوں کے لئے کچھ پر وگرام رکھے ان سب کا مقصد مارکسسٹی طرز تفکر سے روک تھام تھا؛کیونکہ پہلے ہی سے یہ پیشن گوئی کردی گئی تھی کہ سرمایہ داری کی پیشرفت اور ترقی، لوگوں کی اکثریت کو انقلاب اور شورش کرنے پر مجبور کرسکتی ہے لھٰذا انگلینڈ میں مارکسسٹی انقلاب کو روکنے کے لئے فقیر اور غریب لوگوں پر توجہ کی جانے لگی، اور ان کو اطمینان دلایا جانے لگا اگرچہ ان کا یہ رویہ ”کاپیتالسٹی“ طرز تفکر سے سازگار اور ہم اہنگ نہ تھا، لیکن سرمایہ داروں اور مالداروں کے منافع کے حق میں تھا بھرحال لیبرل نظریہ کا ماحصل یہ ہے کہ حکومت کی معنوی امور کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

ممکن ہے کوئی شخص ہم پر یہ اعتراض کرے کہ مغربی ممالک میں حکومت گرجاگھروں کے لئے ٹیکس لیتی ہے ، تو پھر ان پر دین اور معنویات سے بے توجھی کا الزام کیونکر لگایا جاسکتا ہے ؟!

تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی لیبرالیزم کا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ کام اس لئے کرتے ہیں تاکہ دیندار لوگوں کا دل جیت لیں ، اور حکومت بناتے وقت گرجا گھر کی طاقت سے استفادہ کریں ہماری بحث تو صرف اس میں ہے کہ لیبرل طرز تفکر کا مقصد او رمطلب کیا ہے؟

چنانچہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ان کے نظریہ کے مطابق ؛ دینی مصالح کی تامین اور ترویج کرنا حکومت کی ذمہ داری کے ذمہ نہیں ہے، اور اگروہ حکومتیں بعض مذہبی مصالح پر توجہ کرتی ہیں تو وہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے ہوتا ہے، یہ صرف الکشن میں کامیاب ہونے کے لئے ہوتا ہے اور وہ لوگ دینداروں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دینداروں کے دلوں کو جیت لیں تاکہ ان کو ووٹ مل جائیں ، کبھی کبھی امریکہ میں ووٹنگ کے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض ممبران گرجا گھروں میں جاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اپنے سے مانوس کرلیں ، البتہ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ وہ دین کے طرفدار ہوتے ہیں ۔

۵۔ لیبرل نظام سے لوگوں کی انسیت کی دلیل

اسلامی نقطہ نظر سے معنوی مسائل کا تحفظ ہی ، جو دین کے زیر سایہ امکان پذیر ہوتا ہے وہی ‎ اصل اور اولی اہداف میں سے ہیں اور یہی اسلامی اور دنیا میں رائج دوسرے نظریات میں مہم ترین نقطہ اختلاف ہے، اور ہم حکومت کے سلسلہ میں مغربی ممالک کے تابع نہیں ہوسکتے؛ کیونکہ ان کے اور ہمارے درمیان حکومت کے اہدف کے سلسلہ میں بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے اور اگر ہم (حکومت کے) ہدف ہی کو بھول جائیں تو حکومت کا ڈھانچہ، شرائط ، ذمہ داریاں اور اختیارات عوض ہوجائیں گے۔

در حقیقت بعض لوگوں کے نظریات میں انحراف اور شک وشکوک کا ایجاد ہونا یہاں تک کہ جو لوگ خود غرضی کے بھی شکار نہ ہوں ، جیسا کہ بعض انحرافات اور اعتراضات جو کتابوں اور اخباروں میں بیان ہوتے ہیں ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ انھوں نے اسلامی نظریہ کے تحت حکومت کے قوانین کے اہداف پر توجہ نہیں کی ہے اور نہ ہی اسلامی نظریہ اور دوسرے نظریات کے اختلاف پر توجہ کی ہے انھوں نے اصلِ اسلام کو تو قبول کرلیا ہے واقعاً ایسے لوگ خدا کو مانتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں اور دین کے منکر اور کافر نہیں ہیں ؛ لیکن اجتماعی اور سیاسی عملی میدان میں سو فی صد مغربی ممالک کے تابع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کو یہ کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان کا یہ طریقہ کار اسلامی نظریہ سے ہم اہنگ بھی ہے یا نہیں ؟ اور کھتے ہیں کہ آج کل دنیا میں یہی رویہ رائج ہے لھٰذا ہم بھی اسی رویہ کو اختیار کریں اور اس کی مخالفت (بھی) نہیں کرسکتے آج کی دنیا کا تمدن ، مغربی تمدن ہے، اور لیبرل کلچر حاکم ہے ، لھٰذا ہم اس کی مخالفت نہیں کرسکتے۔!!

لیکن سب سے پہلے ہمیں تھیوری اور نظری لحاظ سے یہ سمجھنا چاہئے کہ اسلام کیا کھتا ہے ، کیا وہ سب کچھ جو مغربی ممالک میں ہوتا ہے، اسلام کی نظر میں آیا وہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ ہم مقام عمل میں دیکھیں کہ اسلام کے دستور العمل کو رائج کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اور اگر بالفرض مقام عمل میں اسلامی قوانین کو عملی جامہ نہیں پھناسکتے تو کم سے کم ہمیں یہ تو پتہ ہونا چاہئے کہ اسلام ؛ لیبرل نظریہ کو قبول نہیں کرتا، لھٰذا ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ غیر اسلامی طریقہ کار کو اسلام کا نام نہ دیں ہم شاہ کے زمانہ میں بھی بعض اسلامی طریقہ کار پر عمل نہیں کرسکتے تھے لیکن یہ جانتے تھے کہ شاہ کی حکومت اسلامی نہیں ہے، اور اس کے بعض کام دین کے مخالف تھے پس اسلام کے احکام کا جاری نہ ہوسکنا اس بات کا سبب قرار نہیں پاسکتا کہ ہم یہ کہنے لگیں کہ اسلام بدل گیا ہے، ہم آج بھی بعض موارد میں اسلام کے قوانین کو جاری کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہی اسلام ہے جو ہم کرتے ہیں ، اسلام کو تو اسی طرح پہنچانیں جیسا وہ ہے اور اگر کسی مقام پر اسلام پر عمل نہیں کرسکتے تو خداوندعالم سے عذر خواہی کریں کہ ہم سے فلاں مورد میں اسلام کے احکام پر عمل نہیں ہوا، اور اگر خدا نخواستہ ہماری غلطی ہے تو ہمیں ملت اسلامی سے عذر خواہی کرنا چاہئے کہ اسلامی قوانین کے نافذ کرنے میں ہم سے غلطی ہوئی پس ہمیں اسلام میں ردّ وبدل اور تغییر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے نیز ہمیں توجہ رکہنا چاہئے کہ اسلام وہی ‎ دین ہے جو ۱۴۰۰ سال پہلے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔

۶۔ اسلامی حکومت کے ڈھانچہ کے سلسلہ میں ایک طریقہ

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کا ہدف؛ معاشرہ میں اسلامی اور معنوی اقدار کو رواج دینا ہے اور اسی کے زیر سایہ مادی مصالح کو پورا کرنا ہے، نہ کہ بالعکس(مثلاً معنوی اقدار کے زیر سایہ مادی مصالح کو پورا کرنا)، تو اب ہم کو یہ دیکہنا ضروری کہ اسلامی حکومت کا ڈھانچہ کیسا ہونا چاہئے اور جو افراد حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں ان کے شرائط کیا کیا ہیں ؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی حکومت میں قوہ مجریہ کی اصلی ذمہ داری قوانین کو نافذ کرنا ہے، اس مطلب پر سبھی اتفاق رکھتے ہیں ؛ اور اسلامی حکومت یعنی وہ سسٹم جو اسلامی قوانین نافذ کرنے کا ضامن اور اسی قانون کے اہداف کو پورا کرناہے تو اب یہ دیکہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو ، چاہے مشرقی اور مارکسسٹی حکومت ہو یا مغربی اور لیبرل حکومت یا دیگر حکومتیں ، ان کے ذمہ دار افراد میں کیا کیا خصوصیات ہونا ضروری ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ کسی بھی حکومت کے ذمہ دار افراد میں کم سے کم دو صفات کا ہونا ضروری ہے:

۱۔قانون کی شناخت:

جو شخص نفوذ قوانین کا ضامن ہونا چاہتا ہے اگر اس کو قانون کا صحیح علم نہ ہو تو پھر وہ کس طرح قانون کو جاری کرسکتا ہے؟ قوانین سے آگاہ او رآشنا ہونا حکومتی افراد کی پہلی خصوصیت ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طورسے نبھاسکے، کیونکہ حکومت قوانین کو جاری کرنے کی ضامن ہوتی ہے تو اگر اس کو قوانین اور دیگر پہلووں کا صحیح علم نہ ہو تو پھر عملی میدان میں غلطی کرسکتی ہے اس سلسلہ میں سب سے بہتر ین طریقہ کار یہی ہے کہ جو شخص حکومت میں سب سے بڑے درجہ پر فائز ہو وہ قوانین پر سب سے زیادہ علم رکھتا ہو اور ان کو اچھے طریقہ سے جانتا ہو، تاکہ اس کی غلطی کا احتمال سب سے کم ہو۔

۲۔قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت:

وہ حکومت جو قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اس کے پاس اتنی طاقت ہو جس کے ذریعہ مورد نظر قوانین کو نافذ کرسکے، اگر کوئی حکومت ۶ ۰/ ملین لوگوں پر بلکہ ایک ارب لوگوں پر (مثلاًچین اور ھندوستان) حکومت کرے اور ان پر احکام اور مقررات کو جاری کرنا چاہے تو اس کے لئے کافی مقدار میں قدرت وطاقت کا ہونا ضروری ہے چنانچہ یہ مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ آج کی دنیا کے بھت سے فلسفی نظریات میں حکومت کو قدرت کے برابر جانتے ہیں اور اسی ”قدرت وطاقت“ کو فلسفہ سیاست کے مہم ترین مفاہیم میں سے ایک مفھوم سمجھتے ہیں بھرحال اس بات پر توجہ رہے کہ حکومت کو صاحب قدرت وطاقت ہونا ضروری ہے۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”طاقت و قدرت “ کیا ہے؟تو مختصر طور پر یہ سمجھئے کہ قدیم زمانہ سے انسانی معاشرہ میں تحویل وتحول کے ساتھ ساتھ قدرت وطاقت کے مختلف معنی کئے جاتے رہے ہیں ، چنانچہ ابتدائی اور سادہ حکومت(۳)

میں عام طور پرحاکم یا قبیلہ کے سردار میں جسمانی قدرت شامل ہوتی تھی، کیونکہ اس زمانہ میں جو شخص حاکم ہوتا تھا اس کی جسمانی قدرت دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہوا کرتی تھی کیونکہ اگر کوئی شخص ایک ھزار افراد پر مشتمل خاندان ہے اوراس پر حکومت کرتا تھا، اور کوئی شخص حاکم کے قوانین کی مخالف کرتا تھا تو اس کو سزا دینے کے لئے حاکم اپنی جسمانی طاقت سے استفادہ کرتا تھا لھٰذا طے یہ ہوا کہ اس زمانہ میں طاقت سے مراد صرف ظاہری اور جسمانی طاقت مراد ہوتی تھی۔

لیکن جب سے انسانی معاشرہ کے مسائل پیچیدہ تر ہوتے گئے اور معاشرہ نے ترقی کی تو اس وقت ایک شخص کی طاقت نے ایک کمیٹی کی صورت اختیار کرلی ؛ یعنی اگر خود حاکم میں جسمانی طاقت کافی مقدار میں موجود نہ ہو تو اس کے پاس ایسے افراد ہونا چاہئے جو جسمانی اعتبار سے بھت زیادہ طاقتور اور قوی ہوں اس حاکم کے پاس طاقتور لشکر ہونا ضروری تھا ، لیکن اس کے بعد جب علم و دانش نے ترقی کی تو پھر قدرت اپنے ظاہری اور فیزیکی شکل سے نکل کر علمی اور ٹیکنالوجی شکل میں تبدیل ہوگئی یعنی گویا حاکم کے پاس ایسے اسلحے وآلات ہوں جن کے ذریعہ بدنی طاقت کا کام لیا جاسکے۔

اگرچہ ایک موقع پر حاکم کو معاشرہ کا ادارہ کرنے کے لئے اس کی جسمانی طاقت ہی کافی تھی لیکن جیسے جیسے معاشرہ نے علم وفن میں ترقی کی اور بھت سے فوجی اسلحہ بنائے تو پھر حکومت کے لئے بھی ضروری ہوگیا کہ وہ بھی فیزیکی ، صنعتی اور ٹکنالوجی خصوصاً فوجی اسلحہ جات کافی مقدار میں رکھتی ہو، تاکہ خلاف ورزی کا سد باب کیا جا سکے، اور اگر کچھ لوگ شورش اور بغاوت کرنا چاہیں تو آسانی سے ان کا سر کچل دیا جائے، یا اگر کچھ لوگ دوسروں کی جان ومال کے لئے خطرہ بن رہے ہوں تو اپنی طاقت کے ذریعہ ان کو روک سکے۔

۷۔ عوام الناس میں حکومت کی مقبولیت ضروری ہے۔

جس طاقت وقدرت کے بارے میں ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیاوہ جسمانی اور فیزیکی طاقت میں منحصر تھی،جو ابتدائی حکومتوں میں ہوتی تھی، اس کے بعد پیشرفتہ حکومتوں میں مورد توجہ ہوتی تھی یہاں تک کہ آج کل اسی معنی میں استعمال ہوتی ہے ، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتیں اپنی طاقتوں کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں ، ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے اسلحہ خانہ کو جدید اور اہم اسلحوں سے بھرلیں تاکہ موقع پڑنے پر ان سے کام لیا جاسکے لیکن یہ توجہ رہے کہ حکومت کی طاقت اور اس کا اقتدار صرف اسی چیز میں منحصر نہیں ہے؛ بلکہ پیشرفتہ معاشرہ میں حکومت کی طاقت کو معاشرہ میں نفوذ اور لوگوں کی مقبولیت کو پہلا درجہ دیا جاتا ہے کیونکہ حکومت اپنے تمام پروگراموں اور اپنی خواہشات کو قوت بازو کے زور پر معاشرہ میں نافذ نہیں کرسکتی؛ اصل یہ ہے کہ عوام الناس اپنی خوشی اور رغبت کے ساتھ مقررات اور قوانین کو قبول کریں اور قوانین کے سامنے گردن جھکائیں لھٰذا طے یہ ہوا کہ جو شخص بھی قوانین کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ٹھھرے یا سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو تو عوام الناس میں اس کی مقبولیت ضروری ہے، اور ظاہری طاقت اور قوتِ بازو کی بنا پر کبھی بھی ایک طولانی مدت کے لئے حکومت باقی نہیں رہ سکتی۔

پس طے یہ ہوا کہ قوانین کا جاری ونافذ کرنے والا طاقتور اور معاشرہ میں مقبولیت رکھتا ہو، یہی وجہ ہے کہ مدیریت میں بد نظمی سے روک تھام اور معاشرہ کے فوائد کو نابودی سے بچانے کے لئے حکومت کے ذمہ دار افراد میں خاص صفات کا ہونا ضروری ہے تاکہ حکومت اور قانون کے اہداف ومقاصد کو پورا کرسکیں ؛ یعنی حقیقت میں حکومت کے ذمہ دار افراد اور قانون کے نافذ کرنے والے ضامن افراد کے لئے ایک خاص صلاحیت کا ہونا ضروری ہے چنانچہ اس بات کو سیاست کے فلسفہ میں مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے جس کو معمولاً اجتماعی مشروعیت اور عام مقبولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی حکومت عقلائی طریقہ کار کو اپنا ئے اور قوانین کو نافذ کرنے میں صحیح طریقہ بروئے کار لائے، اور عوام الناس بھی اس کے لئے قانونی اعتبار کے قائل ہوں قوانین کو نافذ کرنے والے ذمہ دار افراد کے لئے صاحب اقتدار ہونے کے ساتھ ساتھ (تاکہ قوانین کی مخالفت سے روک تھام ہوسکے) عوام الناس بھی ان کے اعتبار کے قائل ہوں اور حکومت کو انہیں کا حق سمجھے۔

قارئین کرام ! خلاصہ یہ ہوا کہ اقتدار کی تین قسمیں ہیں پہلی اور دوسری قسم دوسرے تمام ہی معاشروں میں جانی پہنچانی ہیں ، اگرچہ ان کو جاری کرنے کے سلسلہ میں مختلف قسم کے نظریات اور طریقہ کار پائے جاتے ہیں ، لیکن ہماری نظر میں جس چیز کی زیادہ اہمیت ہے وہی ‎ تیسری قسم کا اقتدار(مقبولیت عام) ہے۔

حوالے:

۱ نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۴۰

(۲) اسی شخص نے مغربی لیبرل " Liberal ")آزادی خواہ)نظریہ کی بنیاد رکھی جو آج کل کی سیاسی گفتگو اور یونیورسٹی وغیرہ میں بیان ہوتی ہے اور کم وبیش سبھی لوگ اس کو قبول کرتے ہیں

(۳)مثلاً ھزاروں سال قبل تقریباً دنیا بھر میں قبائلی حکومتیں ہوا کرتی تھیں

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18