اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 20603
ڈاؤنلوڈ: 2343


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20603 / ڈاؤنلوڈ: 2343
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

چونتیسواں جلسہ

اسلامی احکام کی عظمت اوراس کی دوسرے نظام پر برتری

۱۔حکومت اورمتغیر احکام سے اسلامی ثابت احکام کی نسبت

جیسا کہ ہم گذشتہ جلسہ میں عرض کرچکے ہیں بعض دوسری فکر رکہنے والے لوگ اخباروں اور اپنی تقریروں میں یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ احکام اور قوانین جن کو معاشرہ کی ضرورت ہوتی ہے ان کو پارلیمنٹ میں طے ہونا چاہئے، اور اگر ہم صرف قرآن و سنت میں بیان شدہ قوانین پر اکتفاء کرنا چاہیں تو کسی بھی صورت میں معاشرہ کی ضرورت پوری نہیں ہوگی حالانکہ ہمارے جمھوری اسلامی نظام میں (جیسا کہ دوسرے ڈیموکریٹک ممالک میں ہوتا ہے) ممبر آف پارلیمنٹ کے ذریعہ قوانین بنائے جاتے ہیں ،تو پھر ہمیں اپنی اس حکومت کو ”اسلامی حکومت“ کا نام دینے ، اور پارلیمنٹ میں مصوب قوانین کو ”اسلامی قوانین“ کہنے کی کیا پڑی ہے ؟ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر ملک میں عوام الناس کے ذریعہ منتخب ممبر آف پارلیمنٹ اسی ملک کی ثقافت کے لحاظ سے قوانین بناتے ہیں اور قوانین کو طے کرنے میں ہی اس معاشرہ کے اقدار کا احترام کرتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے ملک کے عوام الناس مسلمان ہیں اور اس میں خاص ثقافت کا رواج ہے ، ممبر آف پارلیمنٹ اسلامی اور دینی ثقافت کا کم وبیش لحاظ کرتے ہیں لیکن بھر حال ہمارے ملک میں قانون گذاری کا وہی ‎ طریقہ ہے جو ڈیموکریٹک ممالک میں موجود ہے لھٰذا ہم کو اپنی حکومت کو اسلامی حکومت کہنے اور اسلامی قوانین نافذ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اسلامی احکام کی دو قسمیں ہیں :

۱۔ ثابت احکام۔ ۲۔متغیر احکام، جو حالات کے متغیر ہونے سے بدل جاتے ہیں ۔

لیکن انسانی معاشرہ کے حالات بدلنے سے اسلامی ثابت احکام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور ان کی شکل صورت میں کسی بھی وقت کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ ثابت رہتے ہیں ، اور ہر زمانہ اور ہر حال میں ان پر عمل کرنا ضروری ہے اب اگر ملکی قوانین کو مصوب کرتے وقت اسلام ثابت احکام کی رعایت نہ کی جائے اور قوانین اسلام کے خلاف قوانین بنائے جائیں تو وہ قوانین غیر اسلامی ہوں گے؛ چاہے تمام ہی ممبر آف پارلیمنٹ متفق طور پر ان قوانین کو طے کریں ، اور اسلام کے مخالف قوانین کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ، بلکہ اس کو قانون ہی نہیں کھا جاسکتا جیسا کہ ہمارے ملکی بنیادی قانون میں موجود ہے کہ اسلامی ملک کے تمام قوانین؛ اسلامی اصول کے عین مطابق ہونا ضروری ہے یہاں تک کہ اگر کوئی قانون؛ شرعی ادلہ کے عموم اور اطلاق کے خلاف ہوگا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی

اس بنا پر، وہ اسلامی ثابت احکام جو قرآن کریم اور روایات متواتر اورمعتبر روایات میں ثابت احکام کے عنوان سے بیان کئے گئے ہیں ان کی رعایت کرنا ضروری ہے اور ان میں کسی بھی طرح کا کوئی نسخ اور تبدیلی نہ ہو اس کے مقابل میں بعض وہ متغیر احکام ہیں جو حالات اور علاقہ کے لحاظ سے قابل تبدیل ہیں البتہ ان کو معین کرنا علماء اور مجتھدین کا کام ہے۔

اگرچہ متغیر احکام کو آج کل کے زمانہ میں ”قوانین موضوعہ“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے جو قانون گذاری اداروں میں تصویب ہوتے ہیں ،لیکن اسلامی ثقافت میں اور فقھی اصطلاحات میں متغیر احکام وہی ‎ سلطنتی احکام ہیں جن کو معین کرنا ولی فقیہ کے دائرہ اختیار میں ہے اور ولی فقیہ ہی معاشرہ کے مختلف حالات کے لحاظ سے ان کو معین کرے اور ان کو نافذ کرے ، اور کم سے کم مصوب شدہ قوانین کو جاری کرنے کے لئے ولی فقیہ کی تائید ضروری ہے البتہ کبھی ولی فقیہ بطور مستقیم قوانین اور مقررات کو معین اور مصوب کرتا ہے، اور کبھی اپنے ان مشاورین کے ذریعہ جو مد نظر مسائل میں کافی مھارت اور تجربہ رکھتے ہیں ان کے ذریعہ قوانین مصوب کرتا ہے، اور ضروری بحث وگفتگو کے بعد قوانین طے پاتے ہیں بھر حال موضوعہ قوانین ومقررات کا اعتبار ولی امر مسلمین کی اجازت اور اس کی موافقت پر ہوتا ہے ، ورنہ تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رہے کہ ولی امر مسلمین اور دوسرے قانون گذار اداروں کو اس بات کا ذرہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ اسلامی اصول قواعد اور اسلامی اقدار کو مد نظر رکھے بغیر اپنی مرضی سے کوئی متغیر قانون بنائیں دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ قوانین موضوعہ اور متغیر قوانین کو بھی اسلامی اصول اور اسلامی ثابت اور کلی احکام کے تحت ولی فقیہ اور فقھی مسائل کے ماہرین(جو اس سلسلہ میں کافی مھارت رکھتے ہوں اور ان قوانین کے مصداق کو بخوبی مشخص اور معین کرسکتے ہوں )؛ کے ذریعہ طے ہونا چاہئیں ؛ نیز ان کو مصوب کرنے میں اسلامی اقدار کی رعایت کرنا بھی ضروری ہے اسی وجہ سے قوانین کلی کے حدود کو معین کرنا اور ان کے مصادیق اور موضوعہ قوانین پر منطبق کرنا اسی طرح اسلامی اقدار کا موضوعہ قوانین پر تطبیق کرنا ایک مشکل کام ہے جس میں بھت زیادہ دقت اور فقھی مھارت کی ضرورت ہوتی ہے، جمھوی اسلامی ایران کے بنیادی قوانین میں موجود ہے کہ اسلامی پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے ہوئے قوانین کو ”شوریٰ نگھبان“ (جو برجستہ مجتھدین اور حقوق داں حضرات سے مل کر بنتی ہے)؛ کے ذریعہ تائید ہوں تاکہ یہ دیکہ لیا جائے کہ خدا نخواستہ یہ قوانین اسلامی اصول کے مخالف تو نہیں ہیں ؟

۲۔ احکام اولیہ اور احکام ثانویہ۔

احکام ثانویہ اسلام سے ٹکراتے ہیں (ایک اعتراض( بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ وہ احکام سلطنتی ، وقتی اور وہ قوانین جو زمانہ اور حالات کے لحاظ سے وضع کئے جاتے ہیں بعض موارد میں اسلامی احکام کے مخالف ہوتے ہیں ؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس صرف اسلام کے احکام اولیہ کو اسلامی احکام جانتے ہیں اور وہ اس چیز سے غافل ہیں کہ اسلام نے مجبوری اور ضرورت کے وقت احکام ثانویہ بھی وضع کئے ہیں اور وہ بھی احکام شرعی شمار ہوتے ہیں ۔

وضاحت: اسلام کے اولیہ احکام جو عام حالات کے لئے وضع کئے گئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے احکام بھی اسلام نے وضع کئے ہیں جو مجبوری اور ضرورت کے وقت کے لئے ہوتے ہیں جن کواحکام ثانوی کھا جاتا ہے اور یہ احکام ثانوی کچھ تو قرآن مجید اور سنت نبوی میں ذکر ہوئے ہیں لیکن ان میں سے بعض دینی کتابوں میں ذکر نہیں ہوئے ہیں ، ان کو وضع کرنا ولی امر مسلمین کے اختیار میں ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنا واجب ہے یا اگر ہم پر غسل واجب ہے تو نماز کے لئے غسل کرنا واجب ہے وضو اور غسل کا وجوب احکام اولیہ اور عام حالات سے متعلق ہیں کہ جب مثلاً ہمارا بدن سالم ہو اور پانی ہمارے لئے نقصان دہ نہ ہو اور پانی موجود بھی ہو لیکن اگر کوئی مجبور ی پیش آجاتی ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے وضو یا غسل کرنا ممکن نہ ہو، مثلاً پانی موجود نہ ہو یا اگر پانی موجود ہے تو وہ نقصان دہ ہے،تو اس صورت میں وضو یا غسل واجب ہونے کی جگہ وجوب تیمم جو حکم ثانوی ہے؛ اس کی جگہ آجاتا ہے اسی وجہ سے کھا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس پانی نہ ہو یا پانی بدن کے لئے نقصان دہ ہو تو وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروی ہے ۔

جب احکام اولی اور احکام ثانوی جن کو احکام اضطراری بھی کھا جاتا ہے؛ قرآن مجید اور روایات میں ذکر ہوئے ہیں تو ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں پاتے چونکہ حکم اولیہ (جیسے وضو یا غسل) کا موضوع اس وقت ہے جس وقت پانی ہمارے پاس موجود ہو اور وہ نقصان دہ بھی نہ ہو، اور احکام ثانوی یعنی تیمم اس شخص کے لئے ہے جب کسی شخص کے پاس پانی نہ ہو یا پانی اس کے بدن کے لئے نقصان دہ ہو؛ اسی وجہ سے بعض لوگوں کووضو کر نے کا حکم ہے اور بعض لوگوں کوتیمم کرنے کا حکم ہے لیکن بعض مقامات پر احکام اولی کے مقابلہ میں جو مجبوری اور اضطراری وقت کے لئے ہوں خاص احکام شریعت میں ذکر نہیں ہوئے ہیں تو یہیں پر اسلام کے احکام اولی جاری کر نے کو کھا جاتا ہے، مگر یہ کہ باعث عسر و حرج ہوں ؛ کیونکہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ بندگانِ خدااپنے وظیفہ پر عمل کرنے میں غیر قابل تحمل مشقت اور حرج میں گرفتار ہوں ، جیسا کہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

( وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ )(۱)

” اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے۔“

( یُرِیدُ اللهُ بِکُمْ الْیُسْرَ وَلاٰیُرِیدُ بِکُمْ الْعُسْرَ ) (۲(

” خدا تمھارے بارے میں آسانی چاہتا ہے، زحمت نہیں ۔“

قارئین کرام ! ہمارے گذشتہ مطالب کے پیش نظر فقھاء کھتے ہیں کہ اگر انسان اپنے وظیفہ اور حکم شرعی پر عمل کرنے سے عسر وحرج میں مبتلا ہو تو خدا وندعالم اس وظیفہ کو اٹھا لیتا ہے قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ بعض مقامات پر احکام اولی کا بدل احکام ثانوی شریعت میں بیان ہوا ہے لیکن بعض موارد میں احکام ثانوی اور اضطراری شریعت میں بیان نہیں ہوئے ہیں ، لیکن ولی فقیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر احکام اولیہ پر عمل کرنا ممکن نہ ہو اور عوام الناس کے لئے باعث عسر و حرج ہو تو اس صورت میں عوام الناس کا وظیفہ معین کرے لھٰذا جو کچھ بھی ولی فقیہ اسلامی اصول وقوانین کے تحت حکم بیان کرے تو وہ احکام ثانوی اور اسلامی حکم ہوگا؛ کیونکہ اس نے اس (ولی فقیه) کو جب عسر و حرج کی صورت میں تکلیف اولی اٹھالی جائے تو عوام الناس کے وظیفہ اور عمل کو معین کرنے کا حکم دیا ہے۔

لھٰذا چونکہ بعض لوگ صرف اسلام کے احکام اولی سے آشنائی رکھتے ہیں اسی وجہ سے یہ تصور کرتے ہیں کہ اسلامی احکام صرف یہی ہیں ، اور اگر ولی امر مسلمین یااسلامی حکومت کے دوسرے قانون گذار اداروں سے اسلام کے احکام اولی کے خلاف قانون بنتا دیکھتے ہیں تو کھتے ہیں کہ یہ قانون اسلام کے مخالف ہے جبکہ وہ قانو احکام شرع اور اسلام کے مخالف نہیں ہے بلکہ اسلام کے اولیہ احکام کے مخالف احکام کو احکام ثانوی میں شمار کیا جاتا ہے اور بے شک احکام ثانوی (بھی) اسلامی احکام مانے جاتے ہیں جس طرح اسلام نے حکم دیا ہے کہ مسافر کو روزہ نہیں رکہنا چاہئے اور جو مسافر نہیں ہے (اگر دوسرے شرائط موجود ہیں ) تو اس کو روزہ رکہنا چاہئے اور کوئی مسافر کے روزہ نہ رکہنے کو اسلامی احکام کا مخالف شمار نہیں کرتا، کیونکہ خود اسلام نے صاف طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ جو شخص مسافر یا مریض ہے اس پر روزہ واجب نہیں ہے(فَمَنْ شَھدَ مِنْکُمْ الشَّھرَ فَلْیَصُمْہ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا اوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ ایَّامٍ اخَرَ یُرِیدُ اللهُ بِکُمْ الْیُسْرَوَلاٰیُرِیدُ بِکُمْ الْعُسْر )(۳) اسی طرح احکام اجتماعی، مدنی، جزائی، تجاری اور دوسرے معاملات میں اگر احکام اولی کے مطابق عمل کرنا ممکن نہ ہو اور موجب عسر و حرج ہو تو وہ حکم ثابت نہیں رہے گا اور خاص قواعد اور مقررات کے تحت ولی امرمسلمین زمان ومکان کی حالات کی بنا پر نئے قوانین کو وضع کرتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ وہ قوانین اسلامی احکام کے مخالف نہیں ہوں گے، بلکہ (اگر ہوں گے بھی تو) اسلامی اولی احکام کے مخالف ہوں گے اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اسلام کے احکام ”احکام اولی“ اور” احکام ثانوی“ دونوں کو شامل ہوتے ہیں ۔

اسلامی معاشرہ میں در پیش جدید تقاضوں کے تحت جو ہمیشہ اجتماعی حالات کے بنا پر رونما ہوتے ہیں (مثلاً ٹریفک کی سھولت کے لئے اور گاڑیوں کی بھیڑ سے بچنے کے لئے سڑکوں کو چوڑاکرنایا مِیونسپلٹی " Municpality "کو صفائی یا شھر کو خوبصورت بنانے کے لئے پیش آنے والی ضرورتیں ، یا محکمہ آب اور بجلی کی دیگر ضرورتیں جو قدیم زمانہ میں نہیں تھیں ) یا آج کل کی ترقی کے پیش نظر معاشرہ کی وہ ضرورتیں جن کو خود عوام الناس پورا نہیں کرسکتے اور گذشتہ زمانہ کی ضرورتوں کی طرح نہیں ہیں کہ جن کو خود عوام الناس انجام دیا کرتے تھے،تو ان تمام صورتوں میں متعلقہ محکمہ جات کاضروری قوانین بنانا ضروری ہے ہماری گفتگو یہ ہے کہ یہ قوانین بغیر کسی اصل کے نہیں ہیں اور بے حساب و کتاب لوگوں کی اپنی مرضی سے نہیں بن جاتے؛ بلکہ یہ قوانین اور احکام ثانوی اسلامی عام قوانین کے تحت ہونے چاہئیں اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ احکام ثانوی اہم کو مہم پر ترجیح دینے کی طرح ہوں ، یا ان قوانین کو زمان و مکان کے حالات کے پیش نظر بنایا جائے جیسا کہ ہمارے ملک میں یہ احکام ثانوی ”مجلس شوریٰ اسلامی“ میں اور ولی فقیہ کی اجازت سے بنائے جاتے ہیں اس صورت میں یہ احکام؛ اسلامی احکام سے باہر نہیں ہوتے (یعنی ان کو اسلامی احکام میں شمار کیا جاتا ہے) کیونکہ یہ تمام قوانین ولی امر مسلمین کے حکم سے بنائے جاتے ہیں ، یا دوسرے خاص قوانین جیسے قاعدہ ” عسر وحرج“ یا قاعدہ ”لاضرر“ یا ان دوسرے قواعد کے تحت جو فقھی کتابوں میں وارد ہوئے ہیں ؛ کے تحت یہ احکام ثانوی بنائے جاتے ہیں ۔

قارئین کرام ! یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسلامی حکومت میں قوانین کو یا اسلامی منابع؛ جیسے قرآن کریم اور سنت نبوی سے لئے جاتے ہیں (اورجیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ عقل بھی اسلامی منابع میں شمار ہوتی ہے اور ”مستقلات عقلیھ“ اور احکام قطعی عقل معتبر ہوتے ہیں اور فقھی اصطلاح میں حکم قطعی عقل کے ذریعہ خداوندعالم کے ارادہ تشریعی کو کشف کیا جاسکتا ہے کہ یہ حکم عقل بھی خداوندعالم کے ارادہ اور اس کی مرضی سے متعلق ہے اسی وجہ سے یہ حکم ”اسلامی حکم“ ہوگا) یا کسی بھی طریقہ سے قرآن وسنت میں بیان شدہ عام احکام کے تحت واقع ہونے چاہئیں اسی وجہ سے یہ بھانہ کرتے ہوئے کہ اسلامی حکومت کے بعض قوانین اور مقررات ناپائیدار اور تغیر پذیر؛ قرآن مجید اور سنت نبوی میں ذکر نہیں ہوئے ہیں ،لھٰذا قرآن مجید اور سنت نبوی (ص) کو بالائے طاق رکہ دیا جائے،اور عوام الناس کی مرضی کے مطابق قوانین بنائے جائیں اسلام کے ثابت احکام پر ہمیشہ عمل ہونا چاہئے اور احکام متغیر ہمیشہ اسلامی اصول، احکام ثابت اور عام قوانین کے تحت ولی فقیہ یا اس کی طرف اذن یافتہ لوگوں کے ذریعہ بنائے جائیں ۔

۳۔ ڈیموکریٹک حکومتوں کے نقائص

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ حکومت کی مشکل ایک ”مثلث القاعده“ زاویہ کی طرح ہے جس کے تین پہلو ہوتے ہیں : ۱۔ قوہ مقننہ (پارلیمنٹ)، ۲۔ قوہ قضائیہ (عدلی) اور قوہ مجریہ (حکومت) اور حکومت کی یہ شکل ”منٹسکیو“سے شروع ہوئی اور رائج ہوتی چلی گئی۔

بھر حال اگرچہ اس (ہماری) حکومت بھی تین قدرتوں سے تشکیل پائی ہے لیکن اس بات کی کوئی گارانٹی نہیں ہے کہ آئندہ بھی اسی طریقہ سے باقی رہے کیونکہ آئندہ زمانہ کی ترقی کے پیش نظر یا اجتماعی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے حکومت کی شکل بدل سکتی ہے مثال کے طور پر حکومت کی قدرتوں میں اضافہ ہوجیسا کہ ”مربع القاعدھ“ ہوجائے یا ”مخمس القاعدھ“ ہو جائے لیکن توجہ رہے کہ اصل اور بنیادی قاعدہ یہ کہ حکومت کو تشکیل دینے والی تمام قدرتیں مرکز کی طرف منتھی ہوتی ہوں یعنی جب حکومتی صورت کو جو مختلف قدرتوں سے تشکیل پاتی ہے تو مثلث القاعدہ ہرم سے تشبیہ کرتے ہیں تو اگر اس ہرم کے اوپر سے نیچے کی طرف آئیں تو اس کا دائرہ زیادہ ہوجائے گا یہاں تک کہ اس قاعدہ ہرم اور اس کے نیچے حکومتی بھت سے ادارے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہرم کے نیچے سے اہستہ اہستہ اوپر کی طرف جائیں تو پھر حکومتی قدرت اور حکومتی ادارے متمرکز اور جمع ہوتے ہوئی دکھائی دیں گی، یہاں تک کہ تمام قدرتیں اس ہرم کے سرے تک پہنچ جائیں گی،اور سب ایک نقطہ میں سماجائیں گی، اور وہ وسیع اور متفرق قدرت بسیط اور وحدت کی شکل میں دکھائی دے گی۔

ھرم قدرت میں اس کے علاوہ کے مثلث القاعدہ قدرتیں اس نقطہ کی طرف منتھی ہوتی ہیں جو اس کے مرکز میں ہوتا ہے اور وہی ‎ نقطہ تمام قدرتوں کا مرکز ہوتا ہے اور حکومتی تمام تر قدرت اور اختیارات بسیط ہوکر وھاں جمع ہوجاتے ہیں ، اور چونکہ حکومتی قدرت اور اختیارات وھاں سے تقسیم ہوکر مختلف شکلوں : قانون گذاری، عدلیہ اور اجرائی شعبوں میں پھیل جاتی ہے اور ان میں سے ہر قدرت اپنے خاص مراتب سے سروکار رکھتی ہے۔

اس وقت دنیا بھر کے ممالک میں حکومت کی اسی شکل وصورت کو قبول کیا گیا ہے جس میں تین قدرتیں ہوتی ہیں : قانون گذاری، عدلیہ اور اجرائی پاور، لیکن ان تینوں قدرتوں کا ایک نقطہ میں جمع ہونا واضح طور پر نہیں دکھائی دیتا؛ یعنی ان حکومتوں میں اصل یہ ہے کہ حکومت مستقل تین حصوں میں بٹ جاتی ہے اور ایک قدرت کا ایک حصہ قوہ مجریہ (حکومت) میں چلا جاتا ہے اور ایک حصہ قانون گذاری میں اور تیسرا حصہ عدلیہ کا ہوتا ہے؛ اور ان میں نہ قوہ مجریہ دوسری قدرتوں میں دخالت کرتی ہے اور نہ دوسری قدرتیں قوہ مجریہ میں دخالت کرتی ہیں اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا ان قدرتوں میں عملی طور پر استقلال دکھائی نہیں دیتا، اور بھت سے وہ موارد جو اجرائی اور نفاذ کا حکم رکھتے ہیں جن کی وجہ سے ان کو قوہ مجریہ کے تحت ہونا چاہئے لیکن ان کی اہمیت کے پیش نظر قانون گذار پاور کی دخالت کو معتبر سمجھا جاتا ہے مثال کے طور پر بین الاقوامی سطح نیز دو ملکوں کے درمیان ہونے والے مہم معاہدات، حالانکہ یہ چیزیں اجرائی پہلو رکھتی ہیں لیکن ان کے بارے میں پہلے پارلیمنٹ پاس کرے تب وہ معاہدات انجام پاتے ہیں ،اور یہیں پر قوہ مجریہ میں پارلیمنٹ کی دخالت دکھائی دیتی ہے۔

دوسری طرف حکومتی کابینٹ " Cabinet " بعض قوانین اور مقررات کو تصویب کرتی ہے، اور ان کو نافذ کرتی ہے اگرچہ ان پر قانون کے عنوان کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن قانونی ماہیت رکھتے ہیں اور ان کا طے کرنا پارلیمنٹ کے مخصوص کام میں سے ہے لیکن بنیادی قوانین میں موجود بعض وجوھات کی بنا پر اس کو طے کرنا حکومت کے عھدہ پر ہوتا ہے اسی وجہ سے قانون گذاری کا ایک حصہ حکومت کے سپرد کیا جاتاہے لھٰذا معلوم یہ ہوا کہ حکومت پارلیمنٹ میں دخالت کرتی ہے بھر حال مختلف ممالک میں کم و بیش قدرتیں ایک دوسرے میں دخالت کرتی ہیں ، اور یہ محدود دخالت اس وجہ سے بھی ہے کہ چونکہ حکومتیں ایک دوسرے سے مل کر ایک حکومت کو تشکیل دیتے ہیں ، اور اگر یہ بالکل ایک دوسرے سے الگ الگ ہوجائیں توگویا اس کا اتحاد ختم ہوجائے گا۔

۴۔ قدرتوں میں ہم اہنگ کرنے کے اسباب کا ہونا ضروری ہے

اگر چہ حکومت تین قدرتوں (قوہ مجریہ، قوہ عدلیہ اور قوہ مقننھ) سے تشکیل پاتی ہے لیکن ان تینوں قدرتوں میں ایک دوسرے سے رابطہ ضروری ہے، اور چونکہ انہیں ان تینوں قدرتوں سے مل کر ہی حکومت بنتی ہے تو ان قدرتوں کے لئے کچھ ایسے اسباب ہونا ضروری ہیں جن کے درمیان اتحاد اور وحدت قائم رہے لیکن دنیا بھر کے ممالک میں ان قدرتوں میں ہم اہنگ کرنے والی قدرت نہ ہونے کی بنا پر ان کے درمیان میں نا ہماہنگی دکھائی دیتی ہے جس کی بنا پر ملک میں بحرانی حالات پیدا ہوجاتے ہیں اس طرح کے بحران سے بچنے کے لئے بعض حکومتوں میں بھت سی راہ حل پیش کی گئی ہیں جن میں سے صدر مملکت کے لئے ”حق وٹو“ " Veto " رکھا جاتا ہے: مثال کے طور پر اگرچہ پارلیمنٹ کو قوانین بنانے اور ان کو طے کرنے کا حق ہوتا ہے ، اور پارلیمنٹ اسی ذمہ داری کے تحت ممبر آف پارلیمنٹ (کسی بھی قانون بنانے کے لئے) بھت بحث وگفتگو کے بعد قوانین بناتے ہیں ، اس کے بعد وہ قوانین ”مجلس سنا“ " S'enat " کے ذریعہ تائید ہوتے ہیں لیکن چونکہ صدر مملکت کے لئے حق وٹو ہوتا ہے(تو اگر وہ قوانین ناقص ہوتے ہیں تو) صدر مملکت ان کوروک دیتا ہے چاہے کچھ ہی مدت کے لئے ہی کیوں نہ ہو اور ان کو نافذ نہیں ہونے دیتا اگر قوانین بنانا پارلیمنٹ کا حق ہے اور قوہ مجریہ (صدر مملکت) کو پارلیمنٹ میں دخالت کرنے کا حق نہیں ہے، تو پھر پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو قوہ مجریہ کسی طرح روک دیتا ہے اور ان کو نافذ نہیں ہونے دیتا؟ پس معلوم یہ ہوا کہ قدرتوں کا استقلال مکمل طور پر عملی نہیں ہوتا اور عملی طور پر پارلیمنٹ اور حکومت کے وظائف میں ہم اہنگی پائی جاتی ہے۔

اسی طرح ان قدرتوں میں ہم اہنگ کرنے والے اسباب کے نہ ہونے کی وجہ سے بھت سے ممالک میں سیاسی، پارٹی اور گروہی ‎ اختلاف پیدا ہوجاتا ہے جس کی بنا پر قدرتوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور ممکن ہے کہ بعض مواقع پر حالات اس قدر بگڑ جائیں کہ ملک میں کوئی حکومت ہی نہ ہو اور عملی طور پر حکومت ختم ہوجائے مثال کے طور پراگر کوئی حکومت بنے اور قدرت اپنے ھاتہ میں لے لے، لیکن ایک مدت کے بعد پارلیمنٹ میں اس کے لئے اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور حکومت ٹوٹ جاتی ہے اور اس کے بعد (جلد) کوئی حکومت نہ بن سکے، کیونکہ جو شخص بھی وزیر اعظم بننا چاہتا ہے اور اس کے لئے وزراء کابینٹ " Cabinet " بنانا چاہے تو اگر ممبر آف پارلیمنٹ کا اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرسکے؛ کیونکہ پارلیمنٹی حکومتوں میں صرف وہی ‎ پارٹی حکومت بناسکتی ہے جس کے پارلیمنٹ میں ممبروں کی اکثریت ہو یا دوسری پارٹی کے ممبروں کو شامل کرکے اپنی اکثریت ثابت کردے۔

اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ انہیں آخری چند سالوں میں ہمارے پڑوسی ملک میں کافی مدت تک حکومت نہ تھی؛ کیونکہ جو شخص بھی وزیر اعظم بننا چاہتا تھا اس کو اعتماد کا ووٹ ہی نہیں ملتا تھا البتہ کسی نہ کسی طریقہ بھت سے حکومتی امور انجام پاتے ہیں لیکن چونکہ جب وزیر یا معاون وقتی (عبوری) ہوں تو ان کو کاموں میں زیادہ دل چسپی نہیں ہوتی ؛ اور مثال کے طور پر اگر کسی ملک میں چہ ماہ تک بغیر دل چسپی کے کام کیا جائے تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس ملک کا کتنا نقصان ہوگا۔

بعض ملکوں میں صدر مملکت کو یہ حق ہوتا ہے کہ چاہے وقتی طور پر ہی صحیح پارلیمنٹ کو منحل کردے، اور یہیں حکومت کا پارلیمنٹ میں دخالت کرنا ظاہر ہوتا ہے یہاں تک بعض مواقع پر تو پارلیمنٹ کو منحل کردیا جاتا ہے ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کی دخالتیں اختلاف ، جھگڑوں اور بعض حالات میں شدید بحرانی حالات پیدا ہونے کا باعث ہوجاتا ہے، اس کی علت یہ ہے کہ یا تو ان حکومتوں میں ان بحرانی حالات سے نپٹنے کے لئے کوئی راہ حل پیش نہیں ہوتا یا اگر وہ راہ حل پیش بھی کیا گیا ہے تو وہ اتنا زیادہ کار آمد نہیں ہوتا: مثلاً بعض حکومت میں صدر مملکت کے ھاتھوں میں حکومتی نظام نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک تشریفاتی عھدہ ہوتا ہے (جیسا کہ خود ھندوستان میں ہوتا ہے) لیکن اگر ملک میں بحرانی حالات پیدا ہوجائیں تو پھر صدر ہی حکومتی امور کو اپنے ھاتھوں میں لے لیتا ہے اور اس بحرانی کیفیت کو ختم کرتا ہے در حقیقت اپنا کردار بحرانی حالات میں نمایا کرتا ہے۔

۵۔ ولایت فقیہ حکومت کو ہم اہنگ کرنے والی طاقت

قارئین کرام ! یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ اس وقت جبکہ بھت سے ممالک میں بحرانی حالات سے نپٹنے کے لئے بعض راہ حل پیش کئے گئے ہیں لیکن کوئی بھی ضروری طور پر کار آمد نہیں ہے ، اور ان قدرتوں کے درمیان ایک دوسرے میں دخالت کرنے والی جیسی برائی باقی ہے لیکن نظام ولایت فقیہ میں (کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض خود غرض مولفین اور بے انصاف زر خرید اہل قلم (اس ولایت فقیہ کو بھی) ارتجاعی(قدیم زمانہ کی طرف لوٹانا) کے نام سے پہنچنواتے ہیں ) اس طرح کے اسباب فراہم ہیں تاکہ ملک میں بحرانی حالات سے نجات دے، اور نظام کو ہر ممکن پریشانی سے نجات مل جائے اور ملک کو کوئی نقصان نہ پہنچے ہمارے ملک میں بھی دوسرے ملکوں کی طرح قوہ مجریہ ہے جس میں صدر مملکت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اسی طرح پارلیمنٹ اورعدلیہ بھی ہے جو ایک دوسرے سے الگ اور مستقل ہے،لیکن یہ تمام (قدرتیں ) اس ایک نظام کی قدرتیں ہیں ، اور ایک دوسرے سے ربط رکھتے ہیں جو ایک مرکزی نقطہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جو شخص اس نظام میں نقطہ مرکزی اور اصلی ہوتا ہے وہ قدرت کے بلند ترین مقام پر ہوتا ہے وہ ولی فقیہ ہوتا ہے جو تمام قدرتوں میں اتحاد اور وحدت ایجاد کرتا ہے۔

برخلاف دوسری حکومتوں میں کوئی ایسا محور نہیں پایا جاتا جو ان قدرتوں میں ہم اہنگی اور وحدت ایجاد کرے اور اگر ان حکومتوں میں کوئی ایسا راہ حل بھی پیش کیا گیا ہے تو وہ بھت ضعیف اور کمزور ہے، نظام ولایت فقیہ میں مذکورہ تینوں قدرتیں ایک مرکزی نقطہ (ولی فقیھ) کے زیر سرپرستی ہوتی ہیں در حالیکہ وہ بنیادی قانون کا بھی حافظ ہوتا ہے اور اسلامی احکام، اقدار اور انقلابی اہداف کا بھی محافظ اور نگھبان ہوتا ہے؛ اسی طرح مذکورہ تینوں قدرتوں کو متحد اور ہم اہنگ رکھتا ہے اور سبھی کو وحدت، دوستی اور ہمدلی کی دعوت دیتا ہے اور اختلافات سے محافظت کرتا ہے اگر اتفاقی طور پر ملک میں کوئی بحرانی صورت حال پیدا ہوگئی ہے تو یہی اختلافات کو دور کرکے ملک کو بحرانی صورت حال سے نجات عطا کرتا ہے۔

انقلاب اسلامی کے بعد سے بیس سال کے عرصہ میں چاہے حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا زمانہ ہو یا مقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کا زمانہ ہو؛ خواستہ یا نخواستہ معاشرہ میں اختلافات کی وجہ سے ملک میں متعدد بار بحرانی صورت حال پیدا ہونے والی تھی لیکن اگر (ولی فقیہ کی) حکیمانہ تدبیریں نہ ہوتیں تو واقعاً ملک کبھی کا بحران کی نذر ہوجاتا جیسا کہ آج کل ترکی، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان میں بحرانی صورت حال ہے الحمد لله اس عظیم اور خدا داد نعمت کی برکت سے اور اس لطف ومھربانی اور اس محبت کی وجہ سے جو ان کے اور عوام الناس کے درمیان موجود ہے اس طرح کے بحرانی صورت حال سے نجات ملتی رہتی ہے۔

۶۔ دوسری حکومتوں پر ولایت فقیہ نظام کے امتیازات

قارئین کرام ! یہاں پر ہمارا اپنی اس اسلامی حکومت کا دوسری ان ڈیموکریٹک حکومتوں سے مقائسہ (مقابلھ) کرنا مناسب ہے جو آج کل کی پیشرفتہ حکومتیں جانی جاتی ہیں ؛ اس اسلامی حکومت کے دوسری حکومت کے مقابلہ میں امتیازات اور خصوصیات بیان کریں :

الف۔ اندورنی انسجام و یگا نگت

ہماری حکومت کا سب سے پہلا امتیاز اور خصوصیت اندورنی انسجام ووحدت ہے جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ تمام ڈیموکریٹک حکومتوں میں ڈیموکریسی کی سب سے بڑی پہنچان قدرتوں میں استقلال اور ایک دوسرے میں دخالت نہ کرنا مانا جاتا ہے ہم نے ان حکومتوں کے کچھ اندرونی تعارض اور ٹکراؤ کو بیان کیا اور کھا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ مذکورہ قدرتوں کو ایک دوسرے میں دخالت نہیں کرنا چاہئے لیکن عملی میدان میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جس میں مذکورہ قدرتیں ایک دوسرے سے مکمل طور پر مستقل ہوں اور ایک دوسرے میں دخالت نہ کرتی ہوں ، اور قانونی طور پر قدرتوں کے لئے ایک دوسرے میں دخالت کا ذرا بھی اختیار نہ ہو ، غیر قانونی دخالت ، خلاف ورزیوں اور تحت فشار قرار دینے کے علاوھ؛ ہم عملی طور پر دیکھتے ہیں کہ (جب) قدرت ایک طاقت کے ھاتہ میں ہوتی ہے اور اپنی تمام تر طاقت کے بل بوتہ پر دوسری طاقت کو تحت فشار قرار دیتی ہے جب پولیس اور فوجی طاقت؛ اسی مالی ،اقتصادی امکانات ،پورے ملک کا خرچ حکومت کے ھاتہ میں ہوتا ہے تو پھر دوسری قدرتیں اس سے متاثر ہوں گی اور صدر یا وزیر اعظم اگر اپنی قدرت سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ دنیا بھر کی تمام ڈیموکریسی حکومتوں میں ایک قسم کی تفرقہ اور نا ہماہنگی پائی جاتی ہے، لیکن ہماری حکومت میں در حالانکہ تینوں قدرتوں میں اتحاد اور ہم اہنگی پائی جاتی ہے اور اپنے اپنے اختیارات میں مستقل ہیں اور ان کے درمیان ناہماہنگی اور تفرقہ بھی نہیں پایا جاتا؛ کیونکہ ہماری حکومت میں ایک ایسا وحدت بخش سبب (ولایت فقیھ) پایا جاتا ہے جو تینوں قدرتوں کی سرپرستی کرتا ہے، ان میں انسجام اور وحدت برقرار رکھتا ہے، اور اس نظام اور حکومت کا اصلی محور ہونے کی وجہ سے بحرانی صورت حال پیدا ہونے سے روکے رکھتا ہے یہاں تک کہ ہم نے متعدد بار دیکھا کہ کس طرح مقام معظم رہبری حضرت آیت العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ العالی نے کس طریقہ سے مختلف عھدہ داروں کے درمیان ہونے والے اختلافات کا خاتمہ کیا ہے اور اگر کبھی بحرانی صورت حال پیدا ہونے کی راہ ہموار ہوبھی گئی ہے تو قانونی طور پر صدر جمھوری نے مقام معظم رہبری سے درخواست کی کہ اپنی قدرت کے ذریعہ اس بحران سے روک تھام فرمائیں ، اور موصوف نے بہتر ین طریقہ سے بحرانی صورت حال پرکنٹرول فرمایا ہے ولی فقیہ اگرچہ براہ راست کسی بھی ایک قدرت کا عھدہ دار نہیں ہے لیکن تینوں قدرتوں کے عھدہ دار یا براہ راست اس کے ذریعہ نصب ہوتے ہیں یا بنیادی قانون کے مطابق یہی عوام الناس کی رائے کو نافذ کرتا ہے اور اسی کے نصب اورنافذ کرنے سے تینوں قدرتوں کے عھدہ داران مشروعیت پیدا کرتے ہیں ۔

ب۔ روحی اور اندرونی نفاذ کی ضمانت

دوسری حکومتوں پرہماری حکومت کا ایک امتیاز یہ ہے کہ عوام الناس کے درمیان روحی اور اندرونی نفاذ کی ضمانت ہے اور یہ چیز اسلامی حکومت کے قوانین اور مقررات کی اطاعت کرنے کی ذمہ داری کے احساس سے حاصل ہوتی ہے اس طرح کی ضمانت اور کنٹرول دوسری حکومتوں میں موجود نہیں ہے اور تقریباً تمام ہی حکومتوں میں طاقت کے زور پر قوانین کو نافذ کیا جاتا ہے اور جھاں پر عوام الناس میں آزادی کا احساس ہوجائے یا وہ کنٹرول وغیرہ کم ہوجائے تو پھر اس پر عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔

آپ حضرات نے مکرر سنا ہوگا کہ یورپی ممالک میں قوانین کی رعایت بھت زیادہ کی جاتی ہے، مغربی اور یورپی ممالک میں عوام الناس آٹومیٹک طریقہ سے قوانین اور مقررات کی رعایت کرتے ہیں اور ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ہیں اور اس طرح کا یہ ظاہری نظم وانضباط اس ترقی یافتہ حکومت کے کنٹرول کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جس کی بنا پر عوام الناس قوانین کی رعایت کرتے ہیں اور مالیات اور ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ہیں اور بھت ہی کم لوگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وھاں پر ٹیکس وغیرہ حاصل کرنے کا سسٹم چند صدیوں سے چلا آرہا ہے خصوصاً اس نصف صدی میں خاصا تجربہ ہوا ہے اور کمپیوٹر وغیرہ کے ذریعہ بہتر ین سسٹم بنایا گیا ہے اور اسی بنا پر مختلف طریقوں سے ٹیکس وغیرہ حاصل کیا جاتا ہے اورعام طور پر عوام الناس آسانی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن بڑی بڑی کمپنیاں جو حکومتی ملازمین سے ساز باز کئے رہتے ہیں وہ ٹیکس نہ ادا کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں ۔

قارئین کرام ! ہم یہاں پر، جو لوگ مغربی کلچر کے عاشق ہیں اور وھاں کے نظم ومدنیت کا شور مچاتے ہیں ، ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں : مغربی ممالک کی بھت سی مدح اور تعریفیں صرف ایک نعرہ سے ہوتی ہیں جن میں حقیقت اور واقعیت نہیں ہوا کرتی مثال کے طور پر یہ کھا جاتا ہے کہ مغربی ممالک میں ڈرائیور قوانین کی بھر پور رعایت کرتے ہیں اور بہتر ین طور پر نظم وانضباط کا مظاہرہ کرتے ہیں ؛ جبکہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے ، ہم یہاں پر مذکورہ دعویٰ کو باطل کرنے کے لئے ایک نمونہ پیش کرتے ہیں : ہم امریکہ کی ”فیلڈفیا یونیورسٹی“ کی طرف سے ایک تقریر کے لئے مدعو ہوئے اور جب ہم ”نیویورک“ سے ”فیلڈفیا “ کی طرف چلے تو راستہ میں مختلف شھروں کا دیدار کیا اسی راستے میں ہم نے دیکھا کہ گاڑی کا ڈرائیور اپنی گاڑی کے آگے کوئی چھوٹی سی مشین رکھتا ہے اور کچھ دیر بعد اس کو گاڑی کے داش بورڈ " Dash board " میں رکہ دیتا ہے اور کچھ دیر بعد پھر اسی طرح کرتاہے، ہمارے ذھن میں سوال پیدا ہوا کہ اس سے معلوم کریں کہ یہ کس لئے ہے؟

تو اس نے بتایا کہ امریکہ میں ۹۰ میل فی ساعت کی رفتار سے زیادہ گاڑی چلانا ممنوع ہے اور پولیس نے خلاف ورزی سے روک تھام کے لئے سڑک پر ”راڈار“ لگا دئے ہیں جن کے ذریعہ سے جو لوگ غیر مجازرفتار سے زیادہ گاڑی چلاتے ہیں ان کو پکڑکر جرمانہ لگائے اس کے علاوہ خود بھی سڑک کے کنارے کمین لگائے بیٹھے رہتے ہیں تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں پر جریمہ لگاسکے اورچونکہ گاڑیوں کی رفتار پولیس کے ذریعہ نصب شدہ راڈار کے ذریعہ کنٹرول ہوتی ہیں اسی وجہ سے بعض ماہرین نے ایسی مشین بنائی ہے جو اس راڈار کو اندھا کردیتی ہیں اور اس وقت یہ مشین بازار میں آسانی کے ساتھ خرید و فروخت ہوتی ہے اسی وجہ سے راستہ میں پولیس لگی ہوئی ہوتی ہے تاکہ جو اس مشین کے ذریعہ ان کے راڈار کو اندھا کرکے بھت زیادہ رفتار سے گاڑی چلاتے ہیں ان کو روک کر جرمانہ لگاسکے ، لھٰذا اس مشین کے لگانے کے بعد کسی بھی رفتار سے گاڑی چلاسکتے ہیں اورجب پولیس کے چک پوسٹ سے نزدیک ہوتے ہیں اس کو اتار کر چھپا دیتے ہیں اور پھر دوبارہ اس کو لگادیتے ہیں !

قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ لوگ قوانین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اور قوانین کے محافظ پولیس کے کنٹرول کو بے اثر کرنے کے لئے ایک مشین ایجاد کرتے ہیں تاکہ پولیس کے راڈار کو اندھا کردیں اور اس مشین کو امریکی بازاوں میں کافی مقدار میں خرید و فروخت کرتے ہیں اس وقت ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ امریکہ میں ایسا ترقی یافتہ کلچر ہے جس کی بنا پر عوام الناس اپنی مرضی اور رغبت سے قوانین پر عمل کرتے ہیں اور وھاں بہتر ین نظم و انضباط برقرار ہے وارداتیں وھاں پر جو مختلف ہوتی رہتی ہیں اس کی خبر ہم تک پہنچتی رہتی ہیں جو خود ایک بڑا تفصیلی پہلو رکھتی ہے ہمارے ایک دوست جو چند سال امریکہ میں رہ کر ایران واپس آئے ، انھوں نے ہم سے بیان کیا کہ امریکہ کا کوئی بھی کالج ایسا نہیں ہے جس میں پولیس نہ ہو اس کے بعد بھی ہر روز وھاں پر قتل وغارت ہوتا رہتا ہے، مثلاً ایک اسٹوڈینٹ اسلحہ کے ذریعہ اپنے استاد یا ہم کلاسیوں کی طرف گولی چلاتا ہے اور ان کو قتل کردیتا ہے!! یہ ہے وھاں کا نظم اور انضباط!!

جی ھاں ! مغربی ممالک میں قوانین پر اگرعمل ہوتا ہے تو وہ جرمانہ اور قید کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر ان کو اس چیز کا خوف نہ ہو اور اس سے کسی بھی طریقہ سے محافظین کے کنٹرول کو بے اثر کرسکتے ہوں تو پھر قوانین کی خلاف ورزی کرنے میں ذرا بھی جھجھک نہیں ہوتی۔

لیکن ہماری اس اسلامی حکومت میں بیرونی کنٹرول کرنے والے اسباب جیسے جرمانہ اور جیل؛ کے علاوہ اندرونی مہم سبب بھی موجود ہے کہ اگر اس کو اور مزید تقویت پہنچائی جائے تو پھر معاشرہ کی بھت سی اجتماعی مشکلات حل ہوجائیں گی اور وہ سبب خود ان کے اندر قوانین پر عمل کرنے کا رجحان موجود ہے، اور اس کی وجہ ان کا اسلامی حکومت کے قوانین پرعمل کرنے کے ایمان کی وجہ سے ہے، درحققت عوام الناس حکومتی قوانین پر عمل کرنا اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہمارے ملک میں اسلامی حکومت نہ ہوتی اور حضرت امام خمینی (رہ) جیسے رہبر اور مرجع تقلید نے نہ فرمایا ہوتا کہ اسلامی حکومت کے قوانین پر عمل کرنا شرعاً واجب ہے، تو پھر عوام الناس جرمانہ اور دوسری سزاؤں سے بچنے کے لئے قوانین پر عمل کیا کرتے۔

آج اسلامی انقلاب کے طرفدار اور متدین افراد ولی امر مسلمین کی اطاعت کی وجہ سے اسلامی حکومت کے قوانین پر عمل کرتے ہیں ؛ اگرچہ بعض موارد میں وہ جانتے ہیں کہ یہ قوانین ہمارے نقصان میں ہیں لھٰذا یہ اندرونی اور معنوی سبب جو ان کے ایمان کی وجہ سے ہے؛ ایک بڑا سبب ہے تاکہ خود عوام الناس قوانین کے پابند رہیں ، لھٰذا ایسا بہتر ین اور مہم سبب ہمارے معاشرہ میں موجود ہے لیکن ہم اس کی قدر نہیں کرتے اسی طرح عوام الناس کو حکومتی قوانین کا پابند بنانے میں دوسرا سبب یہ ہے کہ عوام الناس اسلامی حکومت کے قوانین کو خدا کی خوشنودی کا سبب جانے جس کی بنا پر وہ شرعی وظیفہ سمجھتے ہوئے ان پر عمل کریں اور ان سے خلاف ورزی کو خدائی عذاب سبب شمار کریں اگرچہ ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے کہ ہمارے معاشرہ میں قوانین کی خلاف ورزی ہوتی، لیکن یہ خلاف ورزی؛ قوانین پر عمل کرنے کے مقابلہ میں بھت کم ہیں ؛ اور اگر قانون پر عمل ہونے کی نسبت؛ خلاف وزیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو ہمارا یہ نظام کبھی کا ختم ہوگیا ہوتا۔

ج۔ مقام رہبری میں شائستگی اور تقویٰ کے عالی ترین درجات کا ہونا

دوسری حکومتوں پر ہماری حکومت کا تیسرا امتیاز یہ ہے کہ مقام معظم رہبری کو تقویٰ ، اخلاقی شائستگی اور عظمت کے بلند ترین درجات پر فائز ہونا ضروری ہے؛ کیونکہ یہ ذات پیغمبر اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا جانشین ہوتا ہے اور عوام الناس اس کو امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی تجلی اور ان کا ایک پرتو سمجھتے ہیں ، اسی وجہ سے وہ محبت اور لگاؤ جو پیغمبر اکرم (ص) اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے رکھتے ہیں اسی کے مشابہ (مقام معظم رہبری) سے بھی محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں اگرچہ مقام معظم رہبری سب سے عظیم عھدہ پر فائز ہیں اور سب سے زیادہ قدرت بھی رکھتے ہیں ، لیکن اگر (خدا نخواستھ) ان سے کوئی خلاف وزی یا ایسا گناہ جو باعث فسق اور عدالت کے خاتمہ کا باعث ہوجائے تو خود بخود ولایت مسلمین کے عھدہ سے معزول ہوجائیں گے اور کسی عدالت میں جانے یا جرم کو ثابت کرنے اور اس کو معزول کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، العیاذ باللہ جرم کے مرتکب ہوتے ہی عدالت ساقط ہوجائے گی اور خود بخود اس عھدہ سے معزول ہوجائیں گے، اور ”مجلس خبرگان“ان کی رہبری کی صلاحیت نہ ہونے کا اعلان کرے گی، ان کو معزول نہیں کرے گی؛ کیونکہ عدالت ختم ہوتے ہی عزل حاصل ہوجائے گا!۔

دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں بڑے عھدوں پر فائز افراد اتنی اخلاقی صلاحیت اور شائستگی نہیں رکھتے جس قدر ہمارے مالک میں مقام معظم رہبری ہے، یہاں تک کہ بعض ممالک کے رہبروں کا حال یہ ہے کہ وہ سر سے پیر تک اخلاقی فساد میں آلودہ ہوتے ہیں : وہ امریکہ جس کو تمدن کا ترقی یافتہ نمونہ کھا جاتا ہے اس کے صدر پر اخلاقی اور جنسی تعلقات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس کے خلاف بھت سے گواہ بھی مل جاتے ہیں اور وہ خود بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے لیکن جب اس کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا مسئلہ پیش آتا ہے تو اکثر ممبر آف پارلیمنٹ نے اس عدم اعتماد پر ووٹ نہیں دئے اور وہ کمافی السابق صدرات کے عھدہ پر باقی رہ جاتا ہے اور اس کے لئے کوئی بھی مشکل پیش نہیں آتی تمام لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ فاسد ہے لیکن سیاسی ھتہ کنڈوں کی وجہ سے عدم اعتماد کے ایک یا دو ووٹ کم رہ گئے اور وہ فاسد صدر اپنے عھدہ پر باقی رہا!! چنانچہ اسی طرح کی بھت سی دوسری مثالیں موجود ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے افراد یہاں تک کہ ان کو عدلیہ نے محکوم بھی کیا ہے لیکن سیاسی حربوں کی بنا پر وہ اپنے عھدہ پر باقی رہتے ہیں اوران کا دوسرے انتخابات میں کامیاب ہوجانے کا امکان ہوتا ہے۔

لھٰذا اسلامی نظریہ کے مطابق اگر مقام معظم رہبری میں بھی کوئی ایک ضروری شرط موجود نہ رہے یا کوئی جرم سرزد ہوجائے تو اپنے عھدہ سے خود بخود معزول ہوجائیں گے، کیونکہ صرف ایک گناہ کے مرتکب ہونے سے عدالت ختم ہوجاتی ہے اور وہ فاسق ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی رہبری کرنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے؛ اس کے بعد اس کے جرم کو ثابت کرنے یا عدالت میں جانے یا خبرگان کی رائے کی ضرورت نہیں ہوتی پس معلوم یہ ہوا کہ دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں ملکی عھدہ داروں خصوصاً بڑے عھدہ دار یعنی رہبری کے لئے اتنی سختی نہیں ہے۔

د۔ انسانی معنوی اور واقعی مصالح کی رعایت

آخر میں دوسری حکومتوں پر ہماری حکومت کا مہم امتیاز انسانیت کے معنوی مصالح کی رعایت کرنا ہے: ہم ایک مسلمان ہونے کے لحاظ سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خداوندعالم دوسروں سے زیادہ انسان کے مصالح اور منافع کو جانتا ہے اور ہم انہیں مصالح کو انسانی معاشرہ میں رائج کرنا چاہتے ہیں جن کو خداوندعالم نے بیان کیا ہے، اور یہ مقصد خداندعالم کے بنائے دینی قوانین پر عمل کرنے کے علاوہ پورا نہیں ہوسکتا روئے زمین پر صرف ایک جمھوری اسلامی ایران ایک ایسا ملک ہے جس کے بنیادی قانون کے چوتھے بند میں یہ بیان ہے کہ ملک کے تمام قوانین اور مقررات کو اسلامی اصول وقواعد کے تحت طے کرکے نافذ کیا جانا چاہئے یہاں تک کہ اگر کوئی قانون دلیل شرعی کے عموم واطلاق کے برخلاف ہوگا تو اس کو معتبر نہیں سمجھا جائے گا اس بنا پر وہ ملک جس میں انسان کے واقعی مصالح ومنافع پورے ہوتے ہیں وہ ہمارا ہی ملک ہے۔

سب لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ ہمارا نظام اور اس کے تمام نتائج؛ صرف عوام الناس کی قربانیوں اور شھداء کے خون کی برکتوں (منجملھ” شھداء ھفت تیر“ ) سے وجود میں آئے ہیں اور انھوں نے اس انقلاب کی خاطر اپنی جان اور خون کی قربانی پیش کرکے ہمارے لئے عزت، سربلندی اور بلند ترین اقدار کا سامان فراہم کیا ہے لھٰذا ہمیں (ھر وقت) بیدار رہنا چاہئے کھیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان عظیم اقدار کو مفت میں بیچ ڈالیں آج کل بھت سی سازشیں چل رہی ہیں جن کی بنا پر اصل اسلام، ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کے قوانین پر اعتراضات کئے جاتے ہیں چونکہ یہ ارزشیں اور اقدار ان کی آنکھوں کاکانٹا بنا ہوا ہے جس کو صاف کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اپنی تمام خراب کاری کوششوں کو انہیں چند اصلی نقطوں پر صرف کردیتے ہیں تاکہ مختلف طریقوں اور مکاریوں سے ان پر حملہ کریں اور نقصان پہنچائیں ۔

کبھی کبھی تقریروں ، مقالوں اوربعض کثیر الاانتشار اخباروں میں اصل اسلام اور اسلامی احکام پر اعتراض کیا جاتا ہے، اور کھا جاتا ہے کہ آج وہ زمانہ گذر چکا ہے جب لوگوں کو حلال اور حرام کی باتیں بتائی جائیں لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ خود تصمیم گیری کریں اور اپنی مرضی سے انتخاب کریں !! یا متعدد بار دیکہنے میں آیا ہے کہ ولایت فقیہ کی شان میں گستاخی، جسارت اور توہی ‎ ن کرتے ہیں کہ اگر ہمارے عھدہ داروں کے سینہ میں ثقافتی کشادہ دلی نہ ہو تو قانونی طور پر ان کو سزا ملنا چاہئے لیکن یہ حضرات اپنی بزرگی کا احساس نہیں کرتے اور ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا لیکن ہماری ایک انقلابی اور امام خمینی (رہ)اور مقام معظم رہبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ العالیٰ) کے پیرو کار ہونے کے لحاظ سے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس طرح کی جسارت کرنے والوں کو اس طرح کی گستاخیوں کا مزہ چکھادیں اور شریعت مقدس اسلام اور تشیع، اور اسلامی اقدار جن کی وجہ سے دنیا وآخرت کی کامیابی ہے جو آسانی سے حاصل نہیں ہوتیں ان کو سیاسی مکاروں کے چور باز ار میں کم سے کم قیمت میں بیچ ڈالیں جن کی بنا پر ذلت، خدا ورسول اور فرشتوں ، مومنین اور آئندہ آنے والی نسلوں کی لعنت کے مستحق قرار پائیں ، خدا کرے کہ وہ وقت نہ آئے۔

حوالے:

(۱) سورہ حج آیت ۷۸

(۲) سورہ بقرہ آیت ۱۸۵

(۳) (سورہ بقرہ آیت ۱۸۵) ترجمہ: (”لھٰذا جو شخص اس ماہ میں حاضر رہے اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے (لیکن) جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں روزہ رکھے خدا تمھارے لئے آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا “ (اضافہ، مترجم)