اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 11%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24254 / ڈاؤنلوڈ: 4456
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد ۲

مؤلف:
اردو

ستّائیسواں جلسہ

اسلامی حکومت کی خاص پہنچان

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے گذشتہ جلسوں میں عرض کیا کہ ہماری بحث ” اسلام کے سیاسی نظریات“ کا یہ حصہ مخصوص ہے حکومت کی ذمہ داریاں اور اس کے اختیارات کی تحقیق وبررسی سے اورجو مباحث اس موضوع سے مربوط ہیں بے شک حکومت کی ذمہ داریوں کی صحیح شناخت تب ہی ہوسکتی ہے جب ہم حکومت کے فلسفہ کو سمجھ لیں ، اور کوئی بھی مجموعہ، کوئی بھی عضو یا کوئی بھی حصہ ایک خاص ضرورت اور ایک خاص ہدف کے لئے بنایا جاتا ہے؛ کیونکہ اگر وہ اس کے ما تحت نہ ہوں تو اس میں نقص اور خلل واقع ہوجائے گا، اور پھر معاشرہ کی ضرورتیں اور مصالح مکمل طور پر محقق نہیں ہوپائیں گی پس ہر عضو یا ہر مجموعہ کے وظائف او رذمہ داریاں ان کی ضرورت کے تحت؛ ان کے وجود کا تقاضا کرتی ہے۔

حکومت کے سلسلہ میں قانون گذار طاقت کی ضرورت واضح ہوگئی، کیونکہ کوئی ایسی ہی ئت یا کمیٹی ہو جو معاشرہ کے لئے ضروری قوانین بنائے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوہ مجریہ (حکومت) کی کیا ضرورت ہے؟ وجود حکومت کا فلسفہ کیا ہے ،اور اگر حکومت نہ ہوتی تو پھر کیا حالات پیدا ہوتے؟ اور اگر عوام الناس کی اس طرح سے اخلاقی اور معنوی تربیت ہوجاتی کہ وہ کسی بھی حال میں قانون کی خلاف ورزی نہ کرتے تو کیا پھر حکومت کی ضرورت نہ تھی؟ اس صورت میں حکومت کی اصلی علت معاشرہ میں قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت ہوگی ، اس بنیاد پر بعض لوگوں کا یہ تصور ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جاسکتی ہے کہ خود اپنی مرضی سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور پھر کسی ضامن یعنی حکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن مسلم طور پر یہ نظریہ حقیقت سے کوسوں دور ہے ، اور جیسا کہ ہم نے حکومت کی ضرورت پر دلائل کے سلسلہ میں پہلے بھی عرض کیا کہ حکومت کی ضرورت پر ضمانت اجرائی کے علاوہ دوسرے دلائل بھی موجود ہیں ؛ منجملہ معاشرہ کی عظیم اور اہم ضرورتوں کا ہونا جومعاشرہ کے تمام افراد سے متعلق ہوتی ہیں ، اور کوئی خاص شخص یا کوئی خاص گروہ ان کا عھدہ دار نہیں ہوسکتا، اور ان میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ایک ایسی ہم اہنگ کمیٹی ہو جو اپنی منصوبہ بندی کے تحت معاشرہ کی ان ضرورتوں کوپورا کرسکے ہم نے یہ (بھی) عرض کیا کہ معاشرہ کی عام ضرورتوں میں سے ملک پر حملہ کرنے والوں کے مقابلہ میں جنگ اور دفاع کا مسئلہ بھی ہے بے شک جب جنگ زوروں پر ہوتی ہے تو کوئی خاص فرد یا خاص گروہ دشمن کے حملہ کو روکنے پر قادر نہیں ہوسکتا اور تنھا جنگ کو ادارہ نہیں کرسکتا، بلکہ معاشرہ میں ایک ہمہ گیراور سسٹامیٹک قدرت کا ہونا ضروری ہے تاکہ جنگ میں کامیابی مل سکے اور اپنی منصوبہ بندی کے ذریعہ عوام الناس کو جنگ میں شرکت کی دعوت دے اور ان کو ٹرینڈ کرکے جنگی فنون میں ماہر بنا کر آمادہ جنگ کرے۔

ان کے علاوہ معاشرہ کی دوسری ضروریات بھی ہوتی ہیں کہ جن کو پورا کرنا حکومت کے زیر سایہ ہی ممکن ہے؛ مثلاً معاشرہ میں حفظ الصحت، تعلیم وتربیت اور ضروری دانش کو پورا کرنا؛ اسی طرح دوسری ضروریات بھی ہوتی ہیں جن کے لئے مخصوص وزارت خانے ہونے ضروری ہوتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ معاشرہ کے حالات بدلنے اور نئی نئی قسم کی ضرورتوں کا ایجاد ہونا؛ جن کے لئے الگ الگ وزارت خانے ہونے ضروری ہیں : مثلاً معاشرہ کی ضرورت کے لئے بعض حالات میں اگر صرف پانچ وزارت خانے کافی ہوں لیکن نئی نئی ضرورتوں کے پیش نظر ان وزارت خانوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، اور یہ مناسب نہیں ہے کہ قانون میں مخصوص تعداد میں وزارت خانے معین کئے جائیں بلکہ ان کی تعداد زمان و مکان کے شرائط کے لحاظ سے ہونا چاہئے لھٰذا اسلامی سیاسی نظریہ کے لحاظ سے بھی یہ معین نہیں ہے کہ اسلامی ملک کا صدر کتنے وزیر رکہ سکتا ہے، بلکہ اس مسئلہ کو آزاد رکھا گیا ہے تاکہ زمانہ کے پیش نظر اور مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے وزارت خانے تعین کئے جائیں ۔

۲۔ نظام اسلامی اور لائیک نظام میں حکو مت کے سلسلہ میں بنیادی فرق

قارئین کرام ! یہ بات طے ہوچکی ہے کہ حکومت کی ضرورت کا فلسفہ معاشرہ کی مختلف ضرورتیں ہیں جن کو صرف حکومت ہی انجام دے سکتی ہے خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داری؛ معاشرہ کی مختلف ضرورتوں کو پورا کرنا اور قوانین کا نافذ کرنا ہے۔

ہم نے قانون گذاری کی بحث میں یہ عرض کیا کہ وسعت کے لحاظ سے اسلامی معاشرہ کے قوانین لائیک حکومتوں سے مختلف ہیں : کیونکہ لائیک حکومتوں میں قوانین کو صرف عوام الناس کی مادی ضرورتوں کوپورا کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے،اور ان کی حکومت کی بنیاد ہی عوام الناس کی صرف مادّی اور دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض حکومتوں میں اس بات کی شرط کی جاتی ہے کہ دین کے بارے میں کوئی حمایت نہ ہو، اور کسی بھی حکومتی ادارہ میں دین کی کوئی طرفداری یا اس کی حمایت دکھائی نہ دے۔

لیکن اسلامی حکومت میں قوانین کو صرف مادی ضرورتوں کے لحاظ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ معنوی ضرورتوں کو بھی مدّ نظر رکھا جاتاہے ، بلکہ معنوی مصالح کو مقدم رکھا جاتا ہے یہ مسئلہ بالکل قوہ مجریہ (حکومت) میں بھی بیان ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں حکومت ان قوانین کو جاری کرنے کی ضامن ہے جو دنیاوی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اور معنوی ( اور اخروی) زندگی سے بھی متعلق ہوتے ہیں جس دلیل کے تحت ہم نے قانون گذاری کے سلسلہ میں عرض کیا کہ قوانین کو ایسا ہونا ضروری ہیں جن سے معنوی ضروریات بھی پوری ہوں بلکہ ان کو مقدم رکھا جائے، اسی دلیل کے تحت اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ معنوی مصالح، حقوق الہی اور اسلامی شعار ( رسومات) سے متعلق قوانین کو بھی نافذ کرے ، اور اس سلسلہ میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا سدّ باب کرے اور اگر کوئی اسلامی مقدسات کی اہانت کرنا چاہے تو اس کو بھی روکے؛ بےشک یہ مسئلہ حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔

۳۔ مغربی کلچر کے عاشق افراد کی طرف سے سیکولر حکومت کی پیش کش

بعض اخباروں اور تقریروں میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری، عوام الناس کی مادی ضرورتوں کا پوری کرنے، ملک میں امن وامان کو برقرار رکہنے اور ہر ج ومرج (افرا تفری) سے روک تھام کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور معنوی اور دینی مصالح کو پورا کرنا علماء اور دینی مدارس کی ذمہ داری ہے ! یہ نظریہ مغربی کلچر اور سیکولر طرز تفکر سے متاثر ہونے کانتیجہ ہے، جیسا کھہم نے اس سے قبل بھی عرض کیا کہ مغربی ممالک کے کلچر کا سب سے واضح امتیاز ”سیکولرازم“ ہے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنا لائیک اور بے دین حکومتوں میں دنیاوی امور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں لیکن معنوی امور حکومت سے متعلق نہیں ہوتے اگر کچھ لوگ دین اور معنوی امور میں مشغول ہونا چاہتے ہیں تو اپنے اس ہدف کے تحت ذاتی امکانات کو خرچ کریں اور اس سلسلہ میں سرکاری امکانات سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دین کے سلسلہ میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، اسلامی ثقافت کے بالکل برعکس جس کے اہم ترین وظائف میں سے : اسلام کو حفظ کرنا، معاشرہ میں اسلامی شعارکو رائج کرنا اور ان کو بھلادئے جانے سے روک تھام کرنا نیز بے توجھی اور خدا نخواستہ اسلامی شعار اور مقدسات کی توہی ‎ ن کرنا؛ وغیرہ ہے۔

جو لوگ اسلامی ثقافت کو قبول نہیں کرتے بلکہ مغربی کلچر کے تابع ہیں ؛ ان کی طرف سے اس نظریہ کا پیش ہونا کہ ”حکومت کو دینی امور میں دخالت نہیں کرنا چاہئے۔“ بعید نہیں ہے اور ہمارا ان سے یہ اختلاف مبنائی ہے اور ہماری ان سے یہ بحث ہے کہ اسلام حق ہے یا نہیں ؟ لیکن یہ نظریہ ان لوگوں کی طرف سے جو خود کو مسلمان اور اسلامی اصول کا معتقد سمجھتے ہیں ان کے لئے مناسب نہیں ہے، اور اس طرح کی گفتگو کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ انھوں نے اسلامی ثقافت کو نہیں سمجھا ہے۔

۴۔ اسلامی شعار کا حفظ اور رائج کرنا ، حکومت کی ایک ذمہ داری

پس جو ذمہ داری مشترک طور پر لائیک اور دینی حکومت کی ہوتی ہے؛ اس کے علاوہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلامی شعار کو قائم کرے البتہ عوام الناس اپنی مرضی سے بعض اسلامی رسومات کو انجام دے سکتے ہیں ؛ مثلاً نماز جماعت کا برقرار کرنا، محفل اور عزاداری کرنا، دینی مدارس قائم کرنا، اسلامی پروگراموں کے منعقد کرنے کے لئے ملّی اور مذہبی مرکز قائم کرنا ان میں سے حوزات علمیہ دینی اہم مرکزوں میں شمار ہوتے ہیں جو عوام الناس کی دی ہوئی رقوم شرعی سےچلتے ہیں اور اسلامی شعار کے حفظ ، ان کی ترویج اور اسلامی ثقافت کی تبلیغ میں مشغول رہتے ہیں ، ان کے لئے حکومت کوئی فنڈ معین نہیں کرتی لیکن عوام الناس کا ان شعار کو انجام دینا حکومت کی ذمہ داری کوسلب کرنے کے معنی میں نہیں ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ پھر ان امور میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں رہ جاتی کیونکہ اگر عوام الناس کا رضا کارانہ طور پر کام کرنا کافی نہ ہوا تو پھران امور کو انجام دینا حکومت کی ذمہ داری ہے مثال کے طور پر: حج ایک عبادی وظیفہ ہے اور جو شخص مستطیع ہوجائے تو اس کے لئے حج کرنا واجب ہوجاتاہے ، مجتھدین کرام؛ فقھی کتابوں اور روایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں کہ اگر ایک ایسا موقع آجائے کہ اسلامی ملک کے پورے معاشرہ میں کسی پر حج واجب نہ ہو یا اگر کسی پر واجب تو ہوگیا ہے لیکن وہ حج پر جانے کے لئے تیار نہ ہو ، بلکہ نافرمانی کرے اور اپنی مرضی سے کوئی حج پر نہ جائے اور خانہ کعبہ کے خالی رہ جانے کا اندیشہ ہو، تو اس موقع پراسلامی حکومتوں پر مسلمانوں کے بیت المال سے ایک گروہ کو حج کے لئے بھیجنا واجب ہے ؛ کیونکہ وہ اسلامی شعار جو تمام ہی مسلمانوں کے لئے حفظ مصالح کے باعث ہیں وہ تعطیل نہیں ہونے چاہئیں ۔

پس جبکہ حج ایک عبادی مسئلہ ہے اور دنیاوی اور سیاسی امور میں شمار نہیں ہوتا اور خود عوام الناس انجام دیتے ہیں اور اپنے پاس سے خرچ کرتے ہیں ، لیکن اگر عوام الناس نے نافرمانی کی یا حج بجالانے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو پھر اسلامی حکومت پر اسلامی شعار کو قائم کرنے اور قوانین کو جاری کرنے کے ضامن کے عنوان سے ؛ یہ ذمہ داری ہے کہ حج کو انجام دینے کے مقدمات فراہم کرے۔

اس بنا پر اسلامی اور لائیک حکومت کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلامی حکومت ہر چیز سے پہلے اسلامی شعار اور اسلام کے اجتماعی احکام وقوانین کو جاری کرنے کی فکر میں رہے اور ان کو مقدم رکھے البتہ عملی میدان میں معنوی اور مادّی امور میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا لیکن بالفرض اگر ان میں ٹکراؤ ہو بھی جائے تو پھر معنوی امور کو مقدم کرے۔

لھٰذا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں کی سر فھرست درج ذیل چیزیں ہونا چاہئے: اسلامی شعار کو قائم کرنا، قوانین اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کرنا اور ایسی چیزوں کی روک تھام کرنا جومعاشرہ میں اسلامی ثقافت کے کمزور ہونے کا باعث بنے نیز کفر کے رسومات سے روک تھام کرنا۔

۵۔ حکومت اور اس کے کردار ی پہلو

قارئین کرام ! ہم نے اس سے پہلے بھی عرض کیا کہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ معاشرہ کی بعض ضرورتوں کوپورا کرنے کی خود ذمہ داری قبول کرے، مثلاً دفاع اور جنگ کا مسئلہ ، جس میں منصوبہ بندی، سیاست گذاری اور اس کے اجرائی امور تمام مسائل حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں لیکن حکومت کے مخصوص کاموں کے علاوہ یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :

۱۔ حکومت صرف منصوبہ بندی، سیاست گذاری اور ان کے اجراء پر نظارت رکھے اور براہ راست ان امور میں دخالت نہ کرے۔

۲۔ منصوبہ بندی ، سیاست گذاری اور نظارت کے علاوہ ان امور کو خود اپنے ذریعہ انجام دے۔

مزید وضاحت کے لئے عرض کرتے ہیں کہ معاشرہ کے کسی ایک پروجکٹ کو کامیاب بنانے کے لئے پہلے اس کے مقاصد کا روشن ہونا ضرروی ہے تاکہ اسی بنا پر منصوبہ بندی کی جاسکے، اس کے بعداس کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو منظم کیا جاتا ہے کیونکہ کسی ایک پروجکٹ کے لئے مدت معلوم ہونی چاہئے شروع اور ختم ہونے کی مدت معلوم ہو اور اس کا خرچ بھی موجود ہو اس مرحلہ کے بعد جو کمپنی اس کام کو کرنا چاہے اس کو طے کیا جاتا ہے؛ یعنی یہ معین کیا جاتا ہے کہ کون لوگ اور کس شکل میں اس پروجکٹ کو انجام دیں گے ، اس کا مدیر ، اس میں کام کرنے والے اور ان کے وظائف معین کئے جاتے ہیں مثلاً امام خمینی انٹر نیشنل ایر پورٹ پروجکٹ کو لے لیجئے : پہلے یہ طے ہوتا ہے کہ کیا اس ایرپورٹ کی ضرورت ہے یا نہیں (اگرچہ یہ بات ملک کی اہم سیاست گذاری سے متعلق ہے) جس کی بنا پر یہ طے ہوتا ہے کہ اس پروجکٹ پر کام ہونا چاہئے یا نھ؟ اور جب پروجکٹ کو قبول کرلیا جاتا ہے تو پھر اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ پروجکٹ کتنی زمین میں اور کس طرح کے امکانات کے ساتھ انجام دیا جائے اور کس نقشہ کے تحت ہو اس کے بعد اس کا مدیر اور اس کے شروع ہونے کی تاریخ معین کی جاتی ہے، آخر میں اس پروجکٹ کی بولی لگائی جاتی ہے تاکہ جو کمپنی کم خرچ میں اس پروجکٹ کو مکمل کرنے پر آمادہ ہو تو اس کام کو اس کے حوالے کردیا جائے اس صورت میں ایک وقت حکومت سیاست گذاری اور منصوبہ بندی کے بعد اس پروجکٹ کو بھی اپنے ھاتھوں میں لے لیتی ہے اور کوئی سرکاری شعبہ یا کوئی وزارتخانہ اس پروجکٹ پر کام کرتا ہے اور اس پروجکٹ کا خرچ سرکاری خزانہ سے اور سرکاری افراد کے ذریعہ تکمیل ہوتا ہے یا کسی پروجکٹ کو معین کرنے کے بعد کسی کمپنی کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ اس پروجکٹ کو عملی جامہ پھنائے، بھر حال دونوں صورتوں میں حکومت اس پروجکٹ کو عملی بنانے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ممکن ہے کہ حکومت کسی پروجکٹ کے لئے ؛سیاست گذاری اور منصوبہ بندی کے بعد اس کام کو خود اپنے ذمہ نہ لے ، اور اس کے خرچ اور اس پر کام کرنے کے لئے دوسروں کے حوالہ کردے اور خود صرف نظارت کرتی رہے ؛ یعنی حکومت اپنی طرف سے کچھ معائنہ کار افراد کو معین کرتی ہے تاکہ قوانین اور مقررات کی خلاف ورزی کی روک تھام کی جاسکے اور نقشہ کے مطابق عمل نہ کرنے سے روکا جاسکے نیز عوام الناس کے مال کو تلف اور برباد ہونے سے روک تھام کی جاسکے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ پروجکٹ اسی اصل نقشہ کے تحت عمومی مصالح کے قوانین کے مطابق عملی جامہ پھنایا جاسکے۔

۶۔ ”ٹوٹالیٹر“(۱) ( Totalitair ) اور ”لیبرل“حکومت کا مڈل

ان پروجکٹ کے مقابلہ میں معاشرہ کی ضرورتیں مثلاً جنگ اور دفاع، تعلیم وتربیت، علاج معالجہ اور شھر کی صفائی وغیرہ کا انتظام قاعدتاً حکومت کے ذمہ ہوتا ہے، لیکن یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی ذمہ داری صرف ان ضرورتوں میں منصوبہ بندی اور حد اکثر نظارت ہوتی ہے؟ یا منصوبہ بندی اور نظارت کے علاوہ ان کو جاری کرنے کی بھی ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے، اور بنیادی طور پر اسلام کی نظر میں کونسا طریقہ صحیح ہے؟ کیا اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے بنانے کا خرچ حکومت کے ذمہ ہے؟ یا اس کا کچھ حصہ حکومت کے ذمہ ہوتا ہے اور کچھ حصہ عوام الناس کے ذمہ ہوتا ہے؛ جیسا کہ اکثر ممالک میں منجملہ ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی تعلیم سب کے لئے ضروری ہے اور اس کا خرچ بھی حکومت کے ذمہ ہے، لیکن یونیورسٹی کی تعلیم کا خرچ حکومت کے ذمہ نہیں ہے بلکہ حکومت یونیورسٹی میں فیس لے کراعلیٰ تعلیم دیتی ہے، اگرچہ بعض ملکوں میں یونیورسٹی کی تعلیم بھی مفت ہوتی ہے۔

بعض حکومتوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرہ کے زیادہ سے زیادہ امور حکومت کے ذریعہ انجام پائیں ، اور یہ طریقہ کار بڑے بڑے مالداروں کی ظالمانہ رفتاراور اپنے ذاتی مفاد کے لئے معاشرہ کے فوائد کو خطرہ میں ڈالنے والے افراد کے مقابلہ میں ایک عکس العمل ہے کیونکہ یہ جامعہ گرا )معاشرہ کی فکر رکہنے والا ) نظریہ اور سوسیالیسٹ " Socialiste "، کمیونسٹ " communiste " ملکوں کا وجود میں آنا؛ مالدار ملکوں میں عوام الناس پر ہونے والے ظلم وستم کا نتیجہ تھا کیونکہ مغربی ممالک میں غریبوں کے حق میں مالداروں نے اس قدر ظلم کیا جس کے نتیجہ میں یہ شدت پسند نظریہ وجود میں آیا کہ تمام کام حکومت کے ذمہ ہو،اور حکومت کو ہونے والے عام فائدوں کو تمام لوگوں کے درمیان برابر سے تقسیم کیا جائے تاکہ تمام لوگ اجتماعی زندگی کے امکانات سے بھرہ مند ہو سکیں ، در حقیقت عام زندگی کے امکانات سے تمام لوگوں کا برابر ہونا اور عوام الناس سے ظلم کو دور کرنا؛ معاشرتی ، سیاسی اور معاشی مسائل میں یہ نظریہ سوسیالیسٹ کا ہے جو دس بیس سال پہلے سے کافی رنگ لایا ہے اور میٹریالیزم(۲) " Materialism " نظریہ کے ساتھ نیز فقر وغربت کو دور کرنے اور تمام لوگوں میں مساوات ایجاد کرنے جیسے نعروں کے ذریعہ بڑے بڑے ملکوں میں (قدیم) روس اور چین وغیرہ میں حکومت کرنے لگا اور اس کے بعد سے مالدار ممالک بلوک " Bloc"(۳) کا سخت رقیب مانا جانے لگا۔

چنانچہ اس نظریہ کی جذابیت اور اس کے نعرے ہمارے ملک میں بھی بعض لوگوں کوبھت اچھے لگے اور ایک مدت تک اس نظریہ کی حمایت ہونی لگی، نیز بھت سے افراد اس کے طرفدار بن گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گذشتہ زمانہ میں (انقلاب اسلامی سے پہلے) ہمارے ملک میں بھی سوسیالیسٹی اور کمیونسٹی پارٹیاں تشکیل پائیں لیکن انقلاب اسلامی کی وجہ سے اس کی جڑیں ھل گئیں ، اور اس کا بوریا بستر لپٹ گیا، تاریخی تجربہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومت (جو مالداروں اور صاحب قدرت لوگوں کو سوء استفادہ کرنے سے روک تھام کے نعرہ سے برسر پیکار آتی ہے ) اس کا سیاسی، اجتماعی اور معاشی معاملات میں تمام کاموں میں ذمہ داری لینا صحیح اور کار آمد نہیں ہے، اور جلد ہی ان کے خاتمہ کا باعث اور کمیونسٹی بلوک کے ممالک کا شیرازہ بکھرنے کا سبب ہے مخصوصاً ہمارے شمالی پڑوسی ملک کا حال سب نے دیکھاکہ کمیونسٹی نظریہ کی اجتماعی اور سیاسی بنیادیں کس طرح ھلیں اور روس جیسی عظیم طاقت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور اس ملک کی شھنشاہیت کا جنازہ نکل گیا۔

قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ بھی فلسفہ سیاست میں ایک نظریہ ہے جس کی بنا پر حکومت معاشرہ کے مختلف امور میں زیادہ سے زیادہ دخالت رکھتی ہے ، تاکہ مالداروں اور صاحب قدرت لوگوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکا جاسکے (لیکن ہم اس وقت مذکورہ نظریہ کی کمزرویاں نہیں بیان کرنا چاہتے ) اس کے مقابلہ میں کمیونسٹ " communiste "، سوسیالیسٹ " Socialiste " اورلیبرل نظریات ہیں جن کی بنا پر معاشرہ کے تمام امور خود عوام الناس کے ذمہ ہوتے ہیں ، اور اپنے کام میں آزاد ہوتے ہیں کہ جس طرح چاہیں عمل کریں اس نظریہ میں حکومت معاشرہ کے کاموں میں کم سے کم دخالت کرتی ہے نیز اس کی دخالت ضروری حد تک اور معاشرہ میں بد نظمی کو روکنے کے لئے ہوتی ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ لیبرل نظریہ میں چونکہ عوام الناس اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی امور سے مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں اور جو افراد زیادہ امکانات اور قابلیت رکھتے ہیں تو وہ لوگ تمام ہی چیزوں سے خصوصاً معاشی امور میں بھت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں سے مقابلہ جیت جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اقتصادی کاروبار ان کو بھت زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے، جبکہ ان کے مقابلہ میں کمزور اور غریب لوگ جن کے پاس کم امکانات ہوتے ہیں وہ مزید غریب اورکمزور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

لوگوں کے درمیان یہ اختلاف اورمعاشرہ کے بھت کم مالدارافراد کا عمومی اور ملی سرمایہ کا مالک بن جانا، نیز معاشرہ کے دوسرے طبقات میں فقر وغربت کا بڑھنا ؛ یہ سب سبب بنتے ہیں کہ عوام الناس اعتراض کرے اور حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگیں اور پھر ان کو سیاست میں آنے نہیں دیا جاتا، اس کے بعد کیمونسٹ نظام کا تشکیل پانا جس میں معاشرہ کے غریب لوگوں کا زیادہ دھیان رکھا جاتا ہے لیکن لیبرل ملکوں میں بھی حکومت کے خلاف مظاہروں اور انقلاب سے روکنے کے لئے کم در آمد لوگوں کو کچھ سھولتیں دی جاتی ہیں ۔

اس وقت یورپی ممالک جن کے بھت سے ملکوں میں لیبرل نظام کی حکومت ہوتی ہے ان میں بھی سوسیالیسٹ " Socialiste " پارٹیاں اپنی کارکردگی دکھاتی ہیں ، یہاں تک کہ بعض حکومتوں میں سوسیالیسٹ یاسوسیال ڈیموکریٹک پارٹیاں کامیاب ہوتی ہیں مثلاً انگلینڈ کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں ”کارگر پارٹی“کبھی کبھی اکثریت سے کامیاب ہوجاتی ہے صرف اسی وجہ سے کہ اس کا نظریہ سوسیالیسٹ ہے اور اس نظریہ میں غریب اور کم درآمد لوگوں کو خیال رکھا جاتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کھیں معاشرہ کا غریب اور کم در آمد طبقہ حکومت کے خلاف انقلاب برپا نہ کردے؛ کیونکہ جب معاشرہ کے تقریباً سبھی طبقات کے لئے عام سھولتیں مھیا ہوں گی تو پھر غریب عوام الناس حکومت کے خلاف قدم نہیں اٹھائیں گے عوام الناس کی سھولیات میں جن چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ان میں سے کچھ در ج ذیل ہیں :

۱۔ اپاہج اور بے کار لوگوں کے لئے بیمھ۔

۲۔میڈیکل بیمہ۔

۳۔ سرکار کی طرف سے کم در آمد لوگوں کے لئے مکان بنوانا اور ان کو کم سے کم کرایہ پر دینا۔

حکومتی سیاسی فلسفہ میں ایک دوسرے کے مخالف نظریات پائے جاتے ہیں :

پھلا نظریہ سوسیالیسٹی ہے جس میں معاشرہ کو اصل مانا جاتا ہے اور معاشرہ کے مفاد کو ذاتی مفادپر مقدم کیا جاتا ہے، کیونکہ اس نظریہ میں معاشرہ پر توجہ کی جاتی ہے چنانچہ اس نظریہ کو عملی بنانے کے لئے حکومت کی ذمہ داریوں اور دخالت میں اضافہ ہوجاتا ہے ،اور معاشرہ کے اجتماعی امور میں حکومت کی ذمہ درایوں کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے تاکہ عمومی سرمایہ کو غارت ہونے اور غریب و مستضعف لوگوں پر ظلم وستم ہونے سے روک تھام کرسکے۔

دوسرا نظریہ لیبرل ہے جس میں خاص دلیلوں کے تحت اس چیز پر اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ حکومت کو معاشرہ کے امور میں کم سے کم دخالت کرنی چاہئے۔

قارئین کرام ! آج کل تقریروں ، اخباروں ، مقالوں اور کتابوں میں جو لکھا جاتا ہے کہ حکومت کو کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ دخالت کرنی چاہئے انہیں دو نظریات کی بنا پر ہے اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یورپی اور مغربی ممالک میں اکثر لیبرل نظریہ پایا جاتا ہے اور ایسی حکومتوں میں (وہ ادارے بھی جو ہمارے ملک میں سرکاری ہوتے ہیں ) اکثر ادارے پرائیویٹ ہوتے ہیں ، مثلاً مذکورہ ممالک میں محکمہ ڈاک یا محکمہ ٹیلی فون سرکاری نہیں ہوتے بلکہ پرائیویٹ ہوتے ہیں ، اور ڈاک کا سارا کام، نیز مختلف شھروں میں فون وغیرہ کی خدمات پیش کرنا پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں ، وھاں پر حکومت صرف منصوبہ بندی اور نظارت کرتی ہے اسی طرح بجلی،پانی اور معاشرہ کے دیگر ضروریات کو پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ چیزیں حکومت کے ذمہ ہوتی ہیں ۔

۷۔ اسلامی نظریہ کے تحت حکومت کیسی ہونا چاہئے

قارئین کرام ! یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ نظریات میں سے اسلام کس نظریہ کو مناسب سمجھتا ہے؟ کیا حکومت کی وسیع پیمانے پر دخالت کو پسند کرتا ہے یا حکومت کی کم سے کم دخالت اور معاشرہ کے امور کو عوام لناس کے سپرد کرنے کو پسند کرتا ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے جلسے میں عرض کیا کہ عوام الناس کا وسیع پیمانے پر مختلف میدان میں شرکت کرنا حقیقت میں ”جامعہ مدنی“ کے ایک معنی میں سے ہے، اور اس معنی کے لحاظ سے اجتماعی کاموں کو خود عوام الناس پر چھوڑ دیا جانا چاہئے کیونکہ جب ہم اسلامی اصول کی بنیاد پر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ کو دریافت کرنا چاہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام کا رویہ درمیانی ہے؛جو آرزوں اور حقیقت دونوں میں شامل ہوتا ہے۔

وضاحت:

بھت سی وہ تھیوری جو یونیورسٹیوں ، حوزات علمیہ یا دیگر جلسوں میں بیان ہوتی ہیں ؛بھت اچھی اور دلربا ہوتی ہیں ، لیکن ایک لحاظ سے یہ فقط خیالی اور آرمانی ہوتی ہیں جن کا عملی

میدان میں کوئی وجود نہیں ہوتا مثلاً یہ مفروضہ کہ عوام الناس کا کرداراتنا بلندکرنے کے لئے کوشش کی جائے تاکہ پھر وہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے اور پھر ان کو کسی روکنے والے قانون یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے اس فرضیہ کا تصوربھت اچھا ہے؛ لیکن عملی میدان میں کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس کو مجری قانون (حکومت) کی کوئی ضرورت نہ ہو دوسری طرف اس وجہ سے کہ معاشرہ میں ہمیشہ قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے کہ حکومت کی طرف سے اتنی سختی کی جائے کہ پھر کوئی قانون شکنی کی ہمت نہ کرسکے جیسا کہ بعض مارکسسٹ " Marxist " ، فاشیسٹ(۴) " Fasciste " اور پولیس کی حکومتوں میں ہوتا ہے کہ سرکاری قوانین پر شدت کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، اور پولیس اور فوج اس طرح سے مجرموں کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے کہ (اس کو دیکہ کر) پھر کوئی قانون شکنی کی ہمت نہیں کرتا جس کا نمونہ ہمارا پڑوسی ملک عراق ہے جس نے ہم کو ۸ سال تک جنگ کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس ملک میں فوجی حکومت ہے جو ہر قسم کی مخالفت اور اعتراض کا گلا گھونٹ دیتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی سے کوئی چھوٹی سی بھی حرکت خلاف قانون دیکھی گئی تو اس کو عدالت کے فیصلہ کے بغیر ہی گولی ماردی جاتی ہے یا کسی دوسرے طریقہ سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

معاشرہ کے غریب اور کم در آمد لوگ جس وقت رشوت اورمھنگائی کا بازار گرم دیکھتے ہیں اور ان کے سامنے مشکلیں آتی ہیں تو یہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش ان رشوت خور اور گران فروش لوگوں سے شدت کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور ان میں سے چند لوگوں کو سزائے موت دیدی جائے تاکہ پھر کوئی رشوت خوری اور گرا نفروشی کی جرات نہ کرے!! اس طرح کے واقعیات سوسیالسٹی ممالک میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔

لیکن ہمیں اس سلسلہ میں اسلامی نظریہ دیکہنا چاہئے کہ اسلام مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں سے شدت کے ساتھ برتاؤ کو کیسا سمجھتا ہے؟ کیا اسلامی نظریہ کے تحت مجرموں سے اس قدر شدت کے ساتھ پیش آنا صحیح ہے کہ اس کے بعد کوئی بھی خلاف ورزی کی جرات نہ کرے؟ یا مجرموں کے ساتھ اس قدر شدت نہ کی جائے بلکہ ان کو حتی الامکان آزادی دی جائے حکومت کی دخالت اور قوانین کا لاگو کرنا صرف معاشرہ میں آشوب اور ظلم وستم سے روک تھام کے لئے ہو۔

قارئین کرام ! قرآن کریم اور احادیث شریف سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اسلامی حکومت ایک درمیانی اور معتدل راستہ اختیار کرے۔

اسلام کے فوجداری قوانین؛ بعض جرائم ، اور بعض عفت کے منافی اعمال پر بھت سخت سزا ئیں معین ہیں ، لیکن اسلام ان جرائم کو ثابت کرنے کے لئے خاص شرائط اور بعض محدویت کا قائل ہے جن کی وجہ سے صرف کم ہی جرائم عملی میدان میں ثابت ہوسکیں ، اور ان قوانین کے نتیجہ میں سخت سزائیں بھت کم ہی موارد (مثلاً سال میں ایک یا دو مورد) میں دی جاتی ہیں ۔

مثلاً قرآن مجید میں چور کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا ایْدِیَهمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا ) (۵)

”چور مرد اور چور عورت دونوں کے ھاتہ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے بدلہ ہے “

( الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْهمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتَاخُذْکُمْ بِهمَا رَافَةٌ فِی دِینِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَائِفَةٌ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) (۶)

” زنا کار عورت او رزنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائیں اور خبردار ! دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا اگر تمھارا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے۔“

لیکن اس طرف سے اسلام نے زنا کے ثابت ہونے کے شرائط بھت سخت قرار دئے ہیں کیونکہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ زنا کرنے والے کو یہ سزا اس وقت دی جاسکتی ہے جبکہ چارشاہد (گواہ) عادل اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھیں اور گواہی دیں ،اور سب کے سب گواہی دینے کے لئے عدالت میں حاضر ہوں ، اور اگر چاروں عادل گواہی دینے کے لئے عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو نہ صرف جرم ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر ”حدّقذف “(۷) جاری ہوگی، کیونکہ ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے اور خود ان کو ایک مومن پر تھمت لگانے کے جرم میں کوڑے لگائے جائیں گے۔

اسی طرح اسلام اجتماعی مسائل میں ، حکومت کو معاشرہ کی تمام ہی ضرورتوں کو پورا کرنے یہاں تک کہ غیر ضروری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار نہیں ٹھھراتا اور نہ ہی حکومت کو مکمل طریقہ پر دخالت سے روکتا ہے؛ بلکہ حکومت کی دخالت زمان ومکان کے لحاظ سے ہوتی ہے اور معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار ٹھھراتا ہے۔

کبھی کبھی اس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ”جامعہ مدنی“ کی شکل ”مدینة النبی“ کی شکل پر ہو جس کی بنیاد یہ ہے کہ جو کام عوام الناس خود انجام دے سکتے ہوں ، تو اس میں خود اپنی مرضی سے شرکت کریں مثلاً تعلیم وتربیت، بجلی، پانی وغیرہ جیسی ضرورتوں کا خود انتظام کریں ؛ مگر بعض خود غرض اور فرصت طلب افراد ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اور ان کا لالچ اوردوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کی وجہ سے معاشرہ کے غریب طبقہ کو ان کے حقوق سے محرومی کا سبب ہوتا ہو تو اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ خود غرض اور مالدار لوگوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی میدان میں اترے، اور کمزور لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے، یا دوسرے طریقوں سے اپنا کردار نبھائے:

مثلاً اگر پرائیویٹ کمپنی ٹیلیفون خدمات بھت مھنگی کردے تو پھر حکومت کواپنی طرف سے جو سستے داموں میں ٹیلیفون خدمات پیش کرے یا خدمات کرنے والے محکموں کو کلی طور پر اپنے ذمہ لے لے۔

۸۔ متحد حکومتوں کے نقائص

قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ کی بنا پر اسلامی نظریہ کی اصل یہ ہے کہ معاشرہ کی ضرورتیں خود عوام الناس کے ذریعہ پوری ہوں ، لیکن اگر خود غرض، فائدہ پرست اور مال ودولت کے لالچی افراد یا اس طرح کے گروہ کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ضائع ہورہے ہوں تو پھر حکومت کو عملی میدان میں اترنا چاہئے، اور مناسب طریقہ کار، زمان ومکان کے لحاظ سے مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے؛ خلاف ورزیوں سے روک تھام کے لئے ضروری قدم اٹھائے کیونکہ یہی راستہ درمیانی اور معتدل ہے، کیونکہ عملی طریقہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معاشرہ کی تمام فعالیتوں کو حکومت کے ذمہ قرار دینا؛ بھت سی دلیلوں کی بنا پر صحیح اور مفید نہیں ہے مثلاً اگر حکومت ؛معاشرہ کی تمام ہی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہے تو پھر اس کو بھت بڑے سسٹم کی ضرورت ہے اور تقریبا (بیس فی صد ) لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینی پڑینگی اور اس طرح کے طریقہ کار پر تین اشکال ہوتے ہیں :

پھلا اشکال:

اگر تمام ہی کام سرکاری طریقہ سے انجام دئے جائیں تو پھر حکومت کو ایک بھت بڑے خرچ کی ضرورت ہے نیز معاشرہ کے لئے بھی بھت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔

دوسرا اشکال:

(یہ اہم اشکال ہے) جس وقت اس طرح کا بھت بڑا سسٹم بنے تو اس کے درمیان خلاف ورزی بھی زیادہ ہوگی، جس وقت کم، محدود اور بہتر ین افراد پر یہ سسٹم مشتمل ہو تو اس میں خلاف ورزی بھی کم اور بھت معمولی ہوگی، لیکن اگر ایک عظیم سسٹم بنایا گیا اور تمام امور میں دخالت کرنے کا حق اس کو ہوگیا تو پھر اس میں خلاف ورزی اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے امکانات بھی زیادہ ہوجائیں گے مثال کے طور پر اگر حکومت مھنگائی روکنے کے لئے کوئی ادارہ بنائے جو دکانوں پر جاکر اس سلسلہ میں رپورٹ تیار کرکے حکومت تک پہنچائے لیکن اگر ہر دکان کے لئے ایک معائنہ کرنے والا معین کرے تو پھر آپ اندازہ لگائیں کہ کتنے لوگوں کو نوکری دینی ہوگی، اس کے علاوہ ان کے درمیان بھی خلاف ورزی زیادہ ہوں گی، اور ان میں سے بھت سے لوگ دکانداروں سے رشوت لیں گے تاکہ ان کے خلاف رپورٹ نہ بھیجیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکومت کو ان معائنہ کاروں پر ایک اور ادارہ بنانے کی ضرورت ہوگی۔

جبکہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس طرح کی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا ہے بلکہ خلاف ورزیوں اور رشوت خوری میں اضافہ ہوا ہے۔

تیسرا اشکال:

یہ اشکال(بھی) اسلام کی نظر سے اہم ہے ، کیونکہ اسلام اس لئے آیا ہے کہ عوام الناس اپنی مرضی اور اختیار سے خود سازی اور نیک کام میں رغبت حاصل کریں ، طاقت کے بل بوتے پر نہیں کیونکہ انسان کا کام اس وقت با اہمیت ہوتا ہے جب وہ اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے، لیکن اگر کسی کام کو مجبوری میں انجام دیا ہے تو پھر اس کام پر وہ معنوی اثر نہیں ہوگا جو اسلام چاہتا ہے اور اصلی مقصد پورا نہیں ہوگا۔

حوالے

(۱)ٹوٹالیٹر اس حکومت کو کھتے ہیں جو ایک گروہ کے نفع می ں قوانین بنائے اور اپنے مخالفین کو مخفی پولیس وغیرہ کے ذریعہ نابود کرنے کی درپے ہو، (مترجم)

(۲) وہ مادی فلسفہ جو معنویات کا منکر ہے اور صرف مادہ کو پہنچانتے ہیں نیز خلقت کائنات کو مادہ کے اجزاء کی حرکت سے جانتے ہیں ،(مترجم)

(۳ ) وہ چند متحد ملک جن کی سیاسی روش ایک ہو ( مترجم)

(۴)(ظالمانہ طریقہ حکومت، جو پہلی عالمی جنگ کے بعد اٹلی می ں رائج تھا لیکن آج کل ڈکٹیٹر شب " Dictaorship " کے معنی می ں استعمال ہوتا ہے، (مترجم )

(۵)سورہ مائدہ آیت ۳۸

(۶)یسورہ نور آیت ۲

(۷) ” حدّ قذف “ زنا کی تھمت لگانے والے پر ۸۰ کوڑے لگائے جاتے ہیں ،جس کی صراحت سورہ نور کی آیت نمبر ۴ می ں وارد ہوئی ہے (مترجم)

پچیسواں جلسہ

حکومت کی عظیم منصوبہ بندی ۲

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

ہم نے اس سے قبل بھی یہ بات عرض کی تھی کہ مغربی ممالک کے منحرف اور الحادی نظریات کا ذھن اور اسلامی اعتقادات پر اثر انداز ہونا، اسی طرح مغربی ممالک کے پٹھووں ، غلاموں وغیرہ کی اسلامی معاشرہ اور دینی اعتقادات میں شک وتردید ایجاد کرنے کے لئے بھر پور اور حساب شدہ کوششیں کرنا، نیز اسلام کی اصل ثقافت اور کلچر میں سیاسی اور ثقافتی مشکلات کا ایجاد کرنا، یہ تمام چیزیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسلام کے مفکرین اور اسلام کے محافظ افراد جو کہ اسلام کی گھری معلومات اور وسیع ثقافت سے واقف بھی ہوں ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور اس سلسلہ میں اساسی ، بنیادی اور مفید گفتگو کا آغاز کریں منجملھ” اسلامی سیاسی نظریھ“ وغیرہ کو سادہ اور روان الفاظ میں اسلامی معاشرہ کے سامنے پیش کریں ، جو علی القاعدہ تخصصی، فنی اور اکیڈمیک طریقہ پر یونیورسٹیوں میں بیان ہوتی ہے۔

اس وقت ہمارے معاشرہ کو اسلام کی ہمیشگی ثقافت ، کلچراور عظیم میراث کا پاس ولحاظ رکہنا ضروری ہے تاکہ دشمنان اسلام کےثقافتی حملوں کا مقابلہ کیا جاسکے، اور ان چیزوں کو اپنی آئندہ نسل میں صحیح وسالم چھوڑ کر جائے، جواسلامی اور انقلابی اہداف کے لئے بھت ہی زیادہ ضرورت مند ہیں لھٰذا اس ہدف تک پہنچنے کے لئے علمی اور باریک مسائل کو آسان زبان میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اکثر عوام الناس اس کو سمجھ کر ھضم بھی کرسکے، اور ان کو علمی اور مشکل اصطلاحات میں پھنسنے سے نجات بھی مل جائے۔

چنانچہ ہم نے مذکورہ ہدف کے پیش نظر یہ طے کیا کہ اس طرح کے مسائل ”اسلامی سیاسی نظریھ“ کے تحت دو حصوں میں بحث کریں جس کا پہلا حصہ مکمل ہو چکا ہے ، جس میں یہ بیان کیا گیا کہ انسانی معاشرہ کے لئے قانون کی ضرورت ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے قانون کا بنانے والا صرف خدا یا وہ افراد جو خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ اور قانون گذاری کی کافی ووافی صلاحیت رکھتے ہوں چنانچہ اس سلسلہ میں بحث ہوچکی ہے ، ضمناً اس سلسلہ میں ہوئے اعتراضات کے بھی جلسوں کے لحاظ سے جوابات دئے گئے۔

اور ہماری بحث کا دوسرا حصہ حکومت بمعنی خاص کے سلسلہ میں ہے ، در حقیقت پہلے حصے میں حکومت بمعنی عام (جس میں قوہ مقننہ (پارلیمنٹ ) بھی شامل تھی) کے بارے میں گفتگو ہوئی جس کے تحت قانون اور قانون گذاری کے سلسلہ میں بحث ہوئی لیکن اس وقت ہماری بحث حکومت بمعنی خاص؛ یعنی قوہ مجریہ کے بارے میں ہے۔

۲۔ حکومت، انسانی معاشرہ کی دائمی اور ہمیشگی ضرورت ہے۔

حکومت کی مختلف شکل وصورت اور ڈھانچوں کو چھوڑتے ہوئے (کیونکہ اس کی بحث اپنی جگہ ہوگی) جیسا کہ ہم نے پہلے جلسہ میں بھی اشارہ کیا ؛ تمام سیاسی صاحب نظر افراد، معاشرہ کے لئے حکومت پر اتفاق رائے رکھتے ہوئے اس کو ضروری مانتے ہیں صرف ”آنارشیسٹ“ " Anarchiste " (مفسدہ جویان) معاشرہ کے لئے حکومت کے قائل نہیں ہیں ، یونانی قدیم فلسفہ کے زمانہ میں اس گروہ کے طرفدار پائے جاتے تھے، جن کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر عوام الناس قوانین کو پہنچانے اور اخلاقی عھد پر عمل کریں تو پھر ان کوحکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تھیوری کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ عملی نہیں ہوئی جبکہ اس کے مقابلہ میں عملی طور پر تمام معاشروں میں حکومت کی ضرورت کا احساس ہوا ، اور یہ احساس اسی طرح سے آج تک باقی ہے۔

ہم اپنے بھائیوں کے لئے حکومت کی ضرورت کے نظریہ کو مزید روشن کرنے اور ان کو بعض مغالطوں کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لئے عرض کرتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پر سب کا اتفاق ہے اور انسانی معاشرہ کی واقعیات کی شناخت پر مبنی ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مخلوقات ، روحیات، معاشرہ کے نشیب وفراز اور واقعیت سے آنکھیں بند کرکے ایک بند کمرہ میں اس چیز پر تجزیہ وتحلیل کرے اور انسانوں کو بالکل فرشتوں جیسا تصور کرے جو خیر خواہی اور فضائل کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اور پاک وپاکیزہ خصلت وعادت کے مالک ہیں اس کی نظر میں اگر تعلیم کا نظام اور صحیح تربیت عام ہوجائے اور عوام الناس تربیتی لحاظ سے مودب ہوجائیں کہ اپنے اخلاقی خواہشکے تحت قانون کے سلسلے میں عھد کریں اور اس پر عمل کریں اور( کبھی بھی ) مخالفت نہ کریں ، اسی طرح اگر صحیح قوانین اور معاشرہ یا شخص کے فوائد ، نیز قانون شکنی کے مفاسد ونقصانات عوام الناس کے لئے بیان ہوجائیں ، اور پھر صحیح راستہ کا انتخاب ان کے اوپر چھوڑدیا جائے تو پھر کوئی بھی شخص قانون کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ قوانین کے مطابق عمل کرے گا بالکل اسی شخص کی طرح جس کو یہ معلوم ہو کہ اس کھانے میں زھر ملا ہوا ہے تو وہ اس کھانے کو نہیں کھائے گا، اسی طرح عوام الناس بھی ایسے کام کریں گے جو ان کے مفاد میں ہوں اور وہ کام جو ان کے یا معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہوں گے ان کو انجام نہیں دیں گے لھٰذا حکومت اور قوانین کو تحمیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔!!

قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ ایک خیالی پلاؤ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ جو لوگ انسانی زندگی اور معاشرتی زندگی کی واقعیات سے با خبر ہیں یا وہ افراد جو تاریخ بشریت اور گذشتہ معاشروں کی تاریخ سے مطلع ہیں ، ہر گز یہ احتمال نہیں دے سکتے کہ کم سے کم آئندہ نزدیک میں اس طرح کا ماحول پیدا ہوجائے گا کہ لوگوں کے درمیان اخلاقی اقدار کے رائج اورپھیلنے کے بعد تمام لوگ آٹومیٹک طریقہ پر نیک کام کرتے ہوئے نظر آنے لگیں ، اور ان کو برے کاموں کی ہوا تک نہ لگے، کوئی بھی جھوٹ نہ بولے، خیانت نہ کرے، لوگوں کے مال اور ناموس (عورتوں ) کی طرف بری نظر نہ اٹھائے، لوگوں کے حقوق پر تجاوز اور ظلم نہ کرے اسی طرح بین الاقوامی مسائل کے سلسلہ میں کوئی ملک اپنے پڑوسی ملک پر ظلم نہ کرے!!

۳۔ حکومت کی ضرورت پر اسلام اور قرآن کا نظریہ

اسلام نے بھی بغیر حکومت کے معاشرہ کو( کہ اس کی صحیح تربیت ہوجائے نیز مصالح ومفاسد اور قوانین کے آشنائی ہونا کافی ہے) ایک خیال خام اور حقیقت سے دور بیان کیا ہے، اسی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے متعلق آیات میں ، خلقت انسان کو اس طرح بیان کیا ہے کہ انسان کے نقاط ضعف اور اس میں خطا ولغزش کا امکان ظاہر ہوتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْارْضِ خَلِیفَةً قَالُوا اتَجْعَلُ فِیها مَنْ یُفْسِدُ فِیها وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی اعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) (۱)

”اے رسول! اس وقت کو یاد کروجب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انھوں نے کھا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین پر فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔“ جس وقت فرشتوں نے انسان کے بارے میں اجتماعی فساد اور خونریزی کے بارے میں خبر دی تو خداوندعالم نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ ان کے جواب میں انسانی خلقت کی حکمت کی طرف اشارہ کیا جس سے فرشتہ باخبر نہیں تھے۔

اسی طرح دوسری آیات میں انسان کی بعض کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے، منجملہ یہ آیات:

۱۔( إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هلُوعًا إِذَا مَسَّه الشَّرُّ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّه الْخَیْرُ مَنُوعًا ) (۲)

”بیشک انسان بڑ ا لالچی پیدا ہواہے جب اسے تکلیف چھو بھی گئی تو گھبراگیا اور جب اسے ذرا فراخی حاصل ہوئی تو بخیل بن بیٹھا“

۲۔( اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ ) (۳)

”بے شک انسان بڑا ظالم اور انکار کرنے والا ہے۔ “

واقعاً یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ مذکورہ آیت میں خداوندعالم نے انسان کو ”ظلوم“ کے نام سے پہنچنوایا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے اور بھت ظلم کرنے والے کے معنی میں ہے اور انسان کو اس نام سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر ظلم، سرکشی اور ناشکری اس قدر ہے کہ اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ہمیشہ انسانی معاشرہ ظلم اور ناشکری سے بھرا ہوا ملے گا، تو پھر یہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے کہ تعلیم وتربیت اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں تمام افراد کا اچھا اور پسندیدہ کردارہو، اور کوئی ایک انسان بھی قوانین اور اخلاقی اقدار سے سرپیچی نہیں کرے گا، اور اس صورت میں حکومت اور طاقت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید بھی اس نظریہ کا مخالف ہے، جبکہ موجودہ حقائق نے بھی یہ بات واضح کردی کہ انسانی معاشرہ میں مختلف وجوھات کی بنا پر ہمیشہ جرائم اور مخالفت رہی ہے البتہ بعض افراد نے جرائم کے اسباب اور جرائم کی وجوھات کے بارے میں پتہ لگایا ہے اور جھل ونادانی اور وراثتی عوامل وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ہے ، لیکن اس وقت ہم اس کو بیان نہیں کرنا چاہتے ، ہم تو یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان قانون کی مخالفت اور جرائم اور گناہ کا ارتکاب ہمیشہ رہا ہے جس کے پیش نظر آسانی کے ساتھ یہ پیشن گوئی بھی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خداوندعالم کے لطف وکرم سے ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ھاتھوں ایک اسلامی نمونہ معاشرہ تشکیل پائے گا لیکن پھر بھی اس بات پر توجہ رہے کہ اس زمانہ میں بھی قوانین کی مخالفت اور گناہ انجام دئے جائیں گے، اس کے علاوہ وہ معاشرہ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا یہاں تک کہ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت ولی عصر امام زمانہ (ع) کی مخالفت میں قیام کیا جائے گا اور آپ (ع) کو شھید کردیا جائے گا۔

پس ہمیں اس چیز کی توقع نہیں رکہنا چاہئے کہ حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے زمانہ حکومت میں ایک نمونہ اور مطلوب معاشرہ تشکیل پائے گا جو گناہ اور نافرمانی سے بالکل پاک وپاکیزہ ہوگا البتہ امام علیہ السلام کی حکومت اور طاقت کا استعمال اس طریقہ سے ہوگا کہ اس میں کسی طرح کے ظلم و جور کو بغیر جواب دئے نہیں چھوڑا جائے گا نیز اس زمانہ میں عدالت عام ہوجائے گی، اسی بنا پر معاشرہ میں جرائم وگناہ کم ہوجائیں گے، لیکن بالکل ہی ان کا خاتمہ نہیں ہوگا؛ کیونکہ انسان فرشتوں کی طرح نہیں بن سکتا، اور اس کی فطرت انسانی رہے گی، اس میں گناہ و عصیان اور جرائم کے امکانات پائے جائیں گے۔

لھٰذا طے یہ ہوگیا کہ ان تمام حقائق کے پیش نظر حکومت کا ہونا ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص گھر کے ایک کونے میں بیٹہ کر اپنے محدود ذھن میں اس طرح کے معاشرہ کا تصور کرے کہ اخلاقی اور تربیتی ترقی کے بعد ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوجائے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی ظلم وفساد نہ ہو تو یہ بات حقیقت جامعہ سے بھت دور ہے واقعاً عوام الناس کے درمیان جائے اور ان کے کاموں کا مشاہدہ کرے کہ کس طریقہ سے نیکیوں اور اچھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی گناہ وانحراف کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ جو لوگ اخلاقی مسائل کو اہمیت نہیں دیتے ان کی بات تو الگ ہے جو افراد نیک اور اچھے ہوتے ہیں ان سے بھی کبھی کبھی گناہ اور مخالفت ہوجاتی ہے تو پھر یہ بات ظاہر ہے کہ جرائم اور تخلفات کی روک تھام کے لئے معاشرہ میں مناسب اور شائستہ قوانین(۴) کا نفوذ ضروری ہے، کیونکہ جب معاشرہ میں قوانین نافذ ہونے کے لئے بنائے گئے ہیں تو پھر ان کو نافذ کرنے والے ضامن کی ضرورت ہے حکومت کے وجود کے لئے سب سے عمدہ اور بہتر ین دلیل ؛ معاشرہ میں مختلف طریقوں سے قوانین کو نفوذ کرنے کی ضمانت ہے، اور اسی چیز کو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں ، انشاء اللہ ہم اپنی آئندہ بحث میں حکومت یا حکومتی شعبہ جات وغیرہ کی ذمہ داریوں اور اس کے اختیارات کی بحث کریں گے

۴طاقت و قدرت کی ضرورت

قارئین کرام ! قانون بغیر متولی کے نہ رہے اور ان کی تعطیل نہ ہوجائے اور جرائم وخلاف کاریوں کی روک تھام کی جاسکے ، اسی طرح معاشرہ کے امن وامان کو خطرہ میں ڈالنے کی سازشوں کا سد باب کیا جاسکے اور اسی طرح ملک اور اسلامی معاشرہ پرخارجی دشمنوں کے ھجوم کوروکا جاسکے تو ان تمام چیزوں کے لئے ایک طاقتور حکومت کا ہونا ضروری ہے ، تاکہ قوانین کو جاری کرنے ، دیگر امور کی تشریح، عقائد اوراقدارکی حفاظت کرنے اسی طرح معاشرہ کی اندورنی اور بیرونی امنیت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کو نبھا سکے اسی وجہ سے سیاسی فلسفہ میں ”مفھومِ قدرت“ کو ایک بنیادی مفھوم قرار دیا گیا ہے یہاں تک ان لوگوں کے نزدیک بھی جنھوں نے ”سیاست“ کو ”علم قدرت“ سے تعبیر کیا ہے۔ اب جبکہ حکومت اور قوہ مجریہ کا وجود ثابت ہوگیا اور یہ بھی بیان ہوگیا کہ حکومت کا صاحب اقتدار اور صاحب طاقت ہونا ضروری ہے، یہ سوال پیش آتا ہے کہ قدرت کا سرچشمہ کیا ہے؟ اور کس بنیاد پر حکومت کے عھدہ دار قدرت اور اقتدار رکھتے ہوں تاکہ جرائم سے روک تھام اور قوانین کو نافذ کرنے کے ذمہ داری کو پورا کرسکیں ؟ چنانچہ فلسفہ سیاست کے بارے میں بھت زیادہ فنّی اور خاص بحثیں ہوئی ہیں لیکن ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو روان اور سادہ زبان میں عرض کرتے ہیں ۔

انسانی معاشرہ میں ہمیشہ سے بعض افراد بعض وجوھات کی بنا پر مثل کم عقلی،(ادواری) جنون، بری تربیت یا اسی طرح کی دوسری چیزوں کی بنا پر جرائم کے مرتکب ہوتے رہے ہیں ،مثلاً کسی جگہ آگ لگادےتے ہیں ، چاقو یا روالور کے ذریعہ کسی بے گناہ انسان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اسی طرح دوسرے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ الحمد للہ ہمارے ملک میں جرائم کی تعداد کم ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ ممالک (یورپ اور امریکہ وغیرہ) میں جرائم کی تعداد کھیں زیادہ ہے؛ جیسا کہ بعض معتبر اخباروں کے ذریعہ یہ خبر ملی تھی کہ کسی ایک ملک کے پائے تخت میں ہر ایک منٹ میں کئی قتل ہوتے ہیں یا ایک دوسرے ملک کی پائے تخت میں ہر آدھے منٹ میں ایک قتل ہوتا ہے(۵) اور یہ رپورٹ ان ملکوں کے سرکاری اخباروں کے ذریعہ نشر ہوتی ہے، در اگر ہمارے ۶۰/ ملین افراد والے ملک میں کبھی کوئی قتل ہوجاتا ہے تو ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے اسلامی ملک میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا!!

خلاصہ یہ کہ اس طرح کے جرائم اور خلاف ورزیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت ظاہری اور مادی طاقت رکھتی ہو جس وقت کسی بے گناہ انسان پر ظلم وستم ہو، یا کسی پرشدت سے تجاوز ہوتا ہے یا کسی جگہ پر چوری ہوتی ہے یا ڈاکاپڑتا ہے، تو ایسے مقامات پر حکومت کے بعض افراد (پولیس) اپنی بھر پور طاقت کے ذریعہ ان جرائم کا مقابلہ کریں تاکہ قوانین کے نفاذ کی ضمانت ہوسکے۔

قارئین کرام ! قوانین کو جاری کرنے اور ان کی ضمانت کے امکان کے لئے نیز مجرموں سے مقابلہ کرنے کے لئے پہلی شرط ظاہری ، مادّی اور جسمانی طاقت کا ہونا ضروری ہے اگرچہ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اسلحہ وغیرہ میں بھی ترقی ہوئی ہے جن کی وجہ سے مجرموں کے ھاتھوں میں نئے نئے قسم کے اسلحے ہوتے ہیں ، اسی طرح ادھر حکومت نے بھی مجرموں کو سزا دینے کے لئے الکٹرانک مشینیں ایجاد کرلی ہیں ، لیکن پھربھی ان قوانین کو جاری کرنے والے کے لئے جسمانی طاقت سے بھرہ مند ہونا ضروری ہے چنانچہ اسی ضرورت کے تحت تمام حکومتوں کے پاس چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی، ترقی یافتہ ہوں یا غیر ترقی یافتھ؛ تمام کی تمام ان جرائم اور ظلم وستم سے مقابلہ نیز اندرونی امنیت کی برقراری کے لئے پولیس کا انتظام کرتی ہے اور ان کو اپنے حساب وکتاب سے اسلحہ وغیرہ دیتی ہے اور حکومت جتنی چھوٹی ہوگی اس کے پاس اسلحہ وغیرہ سادہ اور کمتر ہوگا اور اگر حکومت بڑی، ترقی یافتہ اور پیچیدہ تر ہوگی اسی حساب سے اس کی پولیس بھی جدید طریقہ اور ترقی یافتہ اسلحوں سے لیس ہوگی۔

اس بنا پر ہر ملک کی پولیس کا مختلف قسم کے تمام تر اسلحوں سے لیس ہونا ضروری ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت بغیر قدرت کے عملی طور پر قوانین کو نافذ نہیں کرسکتی لھٰذا طے یہ ہوا کہ ہر معاشرہ میں قوہ قھریہ ( پولیس ) کا ہونا ضروری ہے تاکہ جرائم پیشہ لوگ اس سے ڈریں اور جرائم کے قریب نہ جائیں اور اگر جرائم کے مرتکب ہوگئے ہیں تو ان کو سزا مل سکے۔

۵۔ مدیروں میں تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت ہونا ضروری ہے

قارئین کرام ! اب تک کی باتوں سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ قوانین کو نافذ کرنے، امن وامان کو باقی رکہنے،جرائم اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز سے روک تھام کے لئے حکومت کے پاس سبھی طرح کی طاقت کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ بھی توجہ رکہنا ضروری ہے کہ اس عھدہ کی حفاظت اور قوانین کو نافذ کرنے اور اس کی ضمانت کے لئے صرف جسمانی اور اسلحہ کی طاقت اور مادّی مھارتیں کافی نہیں ہیں بلکہ وہ شخص جو قوانین جاری کرنے کے لئے منتخب ہو اوراس ہدف کی خاطر ضروری امکانات اور اسلحہ جات اس کے اختیار میں دئے جائیں تو اس کو صاحب تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت کا مالک ہونا چاہئے، کیونکہ اگر کوئی صاحب تقویٰ نہ ہو تو جو طاقت اس کے اختیار میں دی گئی ہے نہ صرف یہ کہ فائدہ نہیں دے گی بلکہ اس سے معاشرہ کا نقصان ہوگااور معاشرہ کے لئے بھت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ، کیونکہ وہ اس طاقت اور قدرت سے سوء استفادہ کرے گا اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور ملت ایران کے شاہ سے مقابلہ کے دوران حضرت امام خمینی ( رحمةاللہ علیھ) نے ایک بیان میں فرمایاجس کا مضمون یہ ہے کہ اسلحہ نیک اور شائستہ افراد کے ھاتھوں میں دیا جائے، تاکہ شاہ سے مقابلہ کے دوران ، ان کا ہدف عوام الناس کے حقوق دلانا اور اسلام کی حاکمیت کو برقرار رکہنا ہو، نہ یہ کہ وہ صرف قدرت پر قبضہ کرنا چاہیں ؛ لیکن اگر اسلحہ غیر شائستہ لوگوں کے ھاتھوں میں چلا گیا، تو در حقیقت یہ قدرت ؛ طاقتور شیطان کے ھاتھوں میں چلی گئی ہے کہ جس کا نتیجہ معاشرہ میں فتنہ وفساد اور تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ صرف ظاہری قدرت معاشرہ کے منافع ومصالح کی ضامن نہیں ہوسکتی ، بلکہ جو شخص قوانین کو جاری کرے اور قدرت کو اپنے ھاتھوں میں لے تو اس میں مادّی اور ظاہری مھارت کے علاوہ تقویٰ اور اخلاقی شائستگی کا ہونا ضروری ہے پس اس صورت میں حکومت اپنے تمام تر امکانات اور طاقت وقدرت کے ساتھ ، نیز ان امکانات سے صحیح طریقہ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کے لئے صحیح رجحان کے تحت اپنی پوری طاقت صرف کردے، اور میدان عمل میں ہویٰ وھوس اور ذاتی مفاد کا شکار نہ ہو لیکن اگر کوئی شخص تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت سے بھرہ مند نہ ہو ،اور اس کے ھاتہ طاقت اور مادّی امکانات آجائیں تو اس کو غرور ہوجاتا ہے اور ہویٰ وھوس، شیطانی خواہشات اور جاہ طلبی وغیرہ کے لئے اس قدرت کو استعمال کرنے لگتا ہے ، جس کے نتیجہ میں صحیح راستے سے منحرف ہوجاتا ہے اور معاشرہ میں تباہی وبربادی کے علاوہ کچھ اور نہیں کرپاتا اس صورت میں معاشرہ میں اس کا نقصان اور ضرر عام تباہ کار سے زیادہ ہوتا ہے؛ جیسا کہ فاسد بادشاہ جس ظلم وبربریت کے مرتکب ہوتے ہیں اس کا دوسرے جرائم سے مقائسہ اور مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ قانون کا جاری کرنے والا ، قانون اور اس کے مختلف پہلووں کی بحد کافی شناخت رکھتا ہو؛ کیونکہ حکومت قانون کو جاری کرنے کے لئے ہوتی ہے اور حکومتی افراد جس عھدہ پر بھی ہوں ؛ قانون کے مجری ہونے کے ناطے قانون سے بحد کافی آگاہی رکھتے ہوں ورنہ تو اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہے اور قانون پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو، لیکن چونکہ قانون سے صحیح طریقہ سے آشنا نہیں ہے مقام عمل میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے، اسی طرح قانون کو اس کے مصداق پر تطبیق کرنے پر بھی قادر نہیں ہوسکتا، درحالیکہ ایسا شخص بری نیت بھی نہیں رکھتا اور اخلاقی صلاحیت سے بھی بھرہ مند ہوتا ہے لیکن چونکہ قانون کے بارے میں علم نہیں رکھتا اور قانون سے صحیح نتیجہ بھی نہیں نکال سکتا جس کے نتیجہ میں منحرف ہوجائے گااور غلط راستہ پر چل پڑے گا اور عملی میدان میں معاشرہ کے منافع کو پامال کردے گا۔

بنا برین مجری قانون کو قانون سے آشنا ہونا چاہئے ،وہ قانون جاری کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو اور تقویٰ و اخلاقی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔البتہ متون دینی میں فقیہ کے لئے یہ تین شرطیں قانون جاری کرنے کی قدرت اور مدیریت بیان کی گئی ہیں ،لیکن ان تینوں کلی شرطوں کے بھت سے اجزاء ہیں کہ ہم اس وقت ان کوبیان نہیں کر رہے ہیں چونکہ ہم کلیات بیان کر رہے ہیں جزئیات نہیں ۔

۶۔ فلسفہ سیاست میں حکومت کی مشروعیت

قارئین کرام ! اس سلسلہ میں ایک بحث کا بیان کرنا مقصود ہے جیسا کہ گذشتہ جلسہ میں بھی اس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حکومت کی مشروعیت (حق حکومت)اور اس کے قانونی ہونے کا معیار وملاک کیا ہے؟ لھٰذا اس چیز کی تحقیق اورجائزہ لینا ضروری ہے کہ کن معیار کے تحت ایک ملت کی حکومت کو کسی شخص یا کسی پارٹی کے سپرد کی جاسکتی ہے تاکہ وہ قدرت سے استفادہ کرسکے واقعاً یہ بحث فلسفہ سیاست کی ایک اصل اور بنیادی بحث ہے اور اس کو مختلف نظریات کی بنا پر مختلف طریقہ سے مورد بررسی وتحقیق قرار دیا گیا ہے اور اس کو بیان کرنے کے لئے بھی مختلف تعبیریں پیش کی گئی ہیں ان میں سے ایک تعبیر ”قدرت اجتماعی“ کے نام سے موجود ہے جسے عوام الناس تسلیم نہیں کرتی،یعنی حکومتی افراد کے اندر مادّی وجسمانی اور مدیریت کی قدرت کے علاوہ ایک دوسری قدرت بھی ہو جس کو ”قدرت اجتماعی“ کھا جاتا ہے اب سوال یہ ہوتا ہے کہ حکومت قدرت اجتماعی کی مشروعیت اور قانون کو جاری کرنے کا حق کھاں سے حاصل کرتی ہے؟ ایک چہ کروڑافراد کی آبادی میں بھت اہم شخصیات ، ماہر افراد اور شائستہ افراد ہوتے ہیں ، ان میں سے کس طرح ایک شخص حکومت کی لگام کو ھاتہ میں لے سکتا ہے؟ کون اس قدرت کو اس کے حوالہ کرتا ہے؟ بنیادی طور پر حکومت اور اس کے ذمہ دار افراد کی مشروعیت(اور جواز حکومت) کھاں سے آتی ہے؟

اس سلسلہ میں مختلف صاحب نظروں نے مختلف جوابات دئے ہیں ، لیکن آج کی دنیا میں رائج اور متفق علیہ جواب یہ ہے کہ حکومت یا رئیس حکومت کو یہ طاقت عوام الناس دیتی ہے گویا یہ قدرت عوام الناس کے ارادہ ومرضی سے کسی کو دی جاتی ہے، اور اگر کوئی شخص اس قدرت پر کسی دوسرے راستہ سے قابض ہوجاتا ہے وہ قدرت مشروعیت نہیں رکھتی اس قدرت کو کسی شخص کے لئے اپنے آباء واجداد سے ارث میں لینا ممکن نہیں ہے؛ جیسا کھ(انقلاب سے پہلے) شاہ کی حکومت کا یہ نظریہ تھا کہ قدرت اور حکومت میراثی ہے مثلاً جب کوئی سلطان اس دنیا سے جائے تو اس کا بیٹا میراث کے عنوان سے اس پر قابض ہوجائے اور اس میں عوام الناس کا کوئی کردار نہ ہو اگرچہ حکومت کا یہ طریقہ آج بھی بعض ملکوں میں رائج ہے، لیکن آج کی دنیا میں موجود کلچر اس سسٹم کو قبول نہیں کرتااور یہ تھیوری عام لوگوں کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص عوام الناس پر حکومت کی بہتر ین صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا بیٹا بھی وہی ‎ صلاحیت اور شائستگی رکھتا ہو اس کے علاوہ عوام الناس اس طریقہ کار کو اچھا نہیں سمجھتی، بلکہ اس کے خلاف دیکہنے میں آیا ہے اور بھت سے ایسے مورد دیکھے گئے ہیں جن میں میراثی حاکم سے بہتر اور مناسب افراد موجود ہو جاتے ہیں ۔

قارئین کرام !

چونکہ بادشاہت اور سلطنت کا سسٹم آج کے زمانہ میں قابل قبول نہیں ہے اور اس کی مخالفت بھی ہوتی رہی ہے، کیونکہ بعض بادشاہی نظام میں اس طرح کی کوشش کی گئی ہے کہ بادشاہت برائے نام باقی رہ گئی، اور بادشاہ سے قدرت چھن گئی ہے اور جو شخص عوام الناس کا منتخب شدہ ہوتا ہے مثلاً وزیر اعظم ؛ یہ طاقت اس کے حوالہ ہوجاتی ہے در حقیقت ان ممالک میں صرف بادشاہت کا نام باقی ہے جب کہ واقعی قدرت اس سے چھن چکی ہے۔

پس عام عقیدہ اور آج کل کے زمانہ میں رائج ڈیموکریٹک" Democratic " نظام کے تحت جو شخص حکومت کرنے کی صلاحیت اور قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت اپنے ھاتہ میں لیتا ہے وہ عوام الناس کا منتخب شدہ ہو ،اور صرف عوام الناس کے ارادہ ومرضی کے ذریعہ حکومت مشروعیت پیدا کرتی ہے البتہ عوام الناس کا طریقہ انتخاب اور ان کے نظریات مختلف ہوتے ہیں ، اور اس سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، مثلاً بعض ممالک میں صدر حکومت کو عوام الناس اپنی اکثریت سے براہ راست انتخاب کرتی ہے ، جبکہ بعض ملکوں میں حکومت کے رئیس کو پارٹیاں اور پارلیمنٹ کے ممبران انتخاب کرتے ہیں ، در حقیقت ممبر آف پارلیمنٹ عوام الناس اور رئیس حکومت کے درمیان واسطہ کے کام کرتے ہیں بھر حال جو شخص براہ راست یا بالواسطہ عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ہوتا ہے اس کو حکومت اور قدرت مل جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اجرائے قانون کی سب اہم شخصیت اور معاشرہ کی رہبری اور ہدایت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لیتا ہے۔

البتہ عوام الناس کی طرف حاکم کو حکومت دینا ایک ظاہری اور فیزیکی چیزوں میں سے نہیں ہے کہ مثلاً عوام الناس اپنے پاس سے کوئی چیز نکال کر اس حاکم کو دیں یا اس کے جسم میں کوئی خارق العادہ طاقت ایجاد کریں بلکہ یہ حکومت غیر مادّی ہے جو عوام الناس کی موافقت سے حاکم کے لئے وجود میں آتی ہے لھٰذا اسی قرار داد کے تحت یہ عھد کیا جاتا ہے کہ مثلاً دو سال، چار سال، سات سال یہاں تک کہ زندگی بھر کے لئے (ان قوانین کے تحت جو آج کے زمانہ میں مختلف ممالک میں رائج ہیں ) ان کا حاکم مقرر ہو ، اور عوام الناس اپنے منتخب شدہ حاکم کے فرمان کے تحت باقی رہیں ۔

اس فرضیہ کے مطابق حکومت اور قوانین کا مجری، عوام الناس سے اپنی قدرت حاصل کرتا ہے ،اور اگر عوام الناس کے موافق نہ ہو تو پھر وہ (صحیح ) کام نہیں کرسکتا اس نظریہ اور تھیوری کے لئے مختلف دلائل پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض فلسفی ہیں ، بعض انسانی معرفت کے پہلو رکھتے ہیں اور بعض صرف اعتباری ہوتے ہیں یا عینی اور خارجی تجربوں کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ؛ یعنی تجربہ اور مختلف حکومتوں کی شکلوں کے مشاہدہ کے بعد اس قسم کی حکومت کو بہتر ین اور مفید ترین طریقہ قرار دیا گیا ہے۔

قارئین کرام ! یہ بات قابل توجہ ہے کہ عوام الناس کی طرف منتخب شدہ شخص کو قدرت دینے کے طریقہ کار اور اس کی تحقیق وبررسی کے لئے ایک طولانی گفتگو درکار ہے کہ اگر خداوندعالم نے توفیق دی تو اس سلسلہ میں بعد میں بیان کریں گے (انشاء اللہ ) لیکن یہاں پر صرف مختصر طور پر عرض کرتے ہیں کہ مشروع حکومت تشکیل ہونے کے بعد عوام الناس کا حکومت کے قوانین کو قبول کرنا ضروری ہے اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت پر موافقت کریں اس مطلب پر قبل اس کے دوسرے مکاتب اور مذاہب بیان کریں اسلام نے بیان کرتے ہوئے قبول کیا ہے عوام الناس کی شرکت اوران کی طرف سے عھدہ داران کا انتخاب کرنا اور اس موضوع پر عام موافقت ،قدیم زمانہ سے اسلامی معاشرہ میں یہ تھیوری نہ صرف بیان ہوئی ہے بلکہ اس پر عمل بھی ہوا ہے کیونکہ اگر کوئی میراثی یا طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر حاکم بن جائے تو نہ صرف یہ کہ عملی میدان میں اس کی شکست ہے بلکہ اسلام کی نظر میں بھی یہ طریقہ کار محکوم(غیر مقبول) ہے لھٰذا دین اور اسلام نے اس پر صحیح کا نشان لگایا ہے کہ تمام لوگوں کی موافقت اور عام مقبولیت ہونے ضروری ہے اس میں کوئی بحث نہیں ہے ، لیکن یہاں پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا اسلام کی نظر صرف عوام الناس کا اس حکومت کو مشروعیت دینے میں قبول کرلینا کافی ہے ، اور قانونی نقطہ نظر سے اسلامی حکومت میں جیسا کچھ ہوا ہے یا ہوگا صرف عوام الناس کی موافقت کا نتیجہ ہے؟

بعض اخباروں ، کتابوں اور مقالات میں لکھا جاتا ہے کہ آج کی دنیا میں ”مقبولیت“ اور ”مشروعیت“ ایک ساتھ ہوتی ہیں ، یعنی کسی حکومت کی مشروعیت کے لئے عوام الناس کی اکثریت کا ووٹ کافی ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ مشروعیت ؛ مقبولیت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جب عوام الناس نے کسی کو قبول کرلیا اور اس کو ووٹ دیدیا تو اب منتخب شدہ شخص کی حکومت مشروع اور قانونی ہوجاتی ہے۔

قارئین کرام ! یہ وہی ‎ ڈیموکریٹک" Democratic " نظریہ ہے جو آج کل کی دنیا میں عام مقبولیت رکھتا ہے تو اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام بھی بالکل اسی نظریہ کو قبول کرتا ہے۔؟

۷۔ حکومت کی مشروعیت کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ کا لیبرل معاشرہ سے فرق

اب جبکہ ہم نے یہ قبول کرلیا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے حاکم کے لئے ضروری ہے کہ عوام الناس اس کو قبول کرتی ہو اور عوام الناس کی شرکت اور تعاون کے بغیر اسلامی حکومت قوانین کو جاری کرنے پر قادر نہیں ہوسکتی، اور اسلامی احکام کو بھی جاری نہیں کرسکتی، تو سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت کے مشروع ہونے میں صرف عوام الناس کا ووٹ کافی ہے، اور قانون کے جاری کرنے والے افراد کی مشروعیت عوام الناس کے ووٹوں کے ذریعہ مشروع ہوجاتی ہے، یا کوئی دوسری چیز بھی اس میں ضمیمہ ہونی چاہئے؟ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ عوام الناس کا قبول کرنا حکومت کے قانونی اور مشر وع ہونے کے لئے شرط لازم وکافی ہے ،یا اس کے عینی طور پر محقق ہونے کے لئے یہ شرط لازمی ہے۔

جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ ”ولایت فقیہ “ کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے اور اسی وجہ سے یہ حکومت، دوسری مختلف ڈیموکریٹک حکومت سے صاحب امتیاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ہونا اسلام کی نظر میں صرف عوام الناس کی رائے نہیں ہے بلکہ عوام الناس کی رائے گویا ایک بدن کی طرح ہے اور اس مشروعیت کی روح ”اذن الٰھی“ ہے ، اور یہ مطلب ایک مسلمان کے عقیدہ میں راسخ ہے۔

وضاحت :

ایک مسلمان شخص عالم ھستی کو خدا کی ملکیت جانتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ تمام افراد؛ خداوندعالم کے بندہ اور غلام ہیں ، نیز اس سلسلہ میں افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، خدا کی بندگی میں سب برابر ہیں ؛ جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَلْمُومِنُوْنَ کَاسْنَانِ الْمَشْطِ یَتَسَاوُوْنَ فِی الْحُقُوْقِ بَیْنَهمْ(۶)

(مومنین آپس میں گنگھے کے دانتوں کی طرح ہیں اور سب کے حقوق مساوی اور برابر ہیں ۔)

پس معلوم یہ ہوا کہ سب انسان خدا کے بندے ہیں اور سب برابر ہیں نیز اس سلسلہ میں کوئی صاحب امتیاز نہیں ہے ، اسی طرح سب انسانیت میں مساوی ہیں اور کسی ایک کو دوسرے پر کوئی امتیاز نہیں ہے عورت مرد ، کالے سفید اصل انسانیت میں مساوی ہیں توپھر کس معیار اور کس بنیاد کی بنا پر ایک شخص دوسروں پر حکومت کرنے کا حق رکھتا ہے؟ ہم نے یہ بھی قبول کیا کہ قانون کو جاری کرنے والا ایک عظیم طاقت کامالک ہو جس کو ضرورت کے موقع پر استعمال کیا جاسکے، اور ہم نے یہ عرض کیا کہ حکومت بغیر قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) کے بغیر اپنے اہداف تک نہیں پھونچ سکتی اور حکومت کا فلسفہ وجودی وہی ‎ قوہ قھریہ ہے جو عوام الناس کو قانون کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ہے اب اگر قوہ قھریہ نہ ہو اور حکومت فقط وعظ ونصیحت کے ذریعہ عوام الناس کو قانون پر عمل کرانے پر قادر ہوتی تو پھر قوہ قھریہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی، اور اس کام کے لئے علماء اور اخلاقی معلمین کافی ہوتے پس ثابت یہ ہوا کہ قوہ مجریہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ وقت ضرورت اپنی طاقت سے فائدہ اٹھائے اور بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کرے مثلاً اگر کوئی شخص لوگوں کے مال وناموس پر دست درازی کرے تو حکومت اس کو پکڑ کر زندان میں ڈال دے یا اس کوکسی دوسرے طریقہ سے سزا دے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل دنیا بھر میں سزا دینے کے مختلف طریقے پائے جاتے ہیں ، اسی طرح اسلام نے مجرموں کو سزا دینے کے لئے طریقہ معین کئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ رائج مجرم کوجیل میں ڈال دینا ہے جس سے اس کی آزادی کا ایک حصہ سلب ہوجاتا ہے جس وقت کسی شخص کوئی طاقت ایک بند کمرہ میں مقید کردیتی ہے اور اس پر دروازہ بند کردیا جاتا ہے، اور اس کی معمولی اور ابتدائی آزادی سلب کردی جاتی ہے تو سوال یہ ہوتا ہے کہ کسی مجرم کی آزادی کو سلب کرنے کا کسی کو کیا حق ہے؟ بے شک مجریان قانون کی طرف سے کسی شخص کی آزادی کا سلب کرنا یا مجرموں کے حقوق کو سلب کرنا جائز اور حق ہو، یہ ٹھیک ہے کہ مجرم کو سزا ملنی چاہئے ، لیکن کوئی خاص شخص ہی سزا دینے کا حق رکھتا ہے ، دوسرا نہیں ؟ (یہ کھاں سے؟) ایسے افراد کو معین کرنے کے لئے کوئی قاعدہ قانون اور خاص ملاک اور دلیل ہونی چاہئے کیونکہ ان کا کام گویا اس شخص میں مالک جیسا تصرف کرنا ہے،جو شخص کسی مجرم کو جیل میں ڈالتا ہے گویا وہ اس کے وجود میں تصرف کررہا ہے نیز اس سے اختیار اور آزادی کو سلب کررہا ہے، اور اس کو ایک بند کمرے میں مقید کررہا ہے ، اس کو اجازت نہیں دیتا کہ جھاں چاہے چلا جائے، جیسے ایک مالک اپنے غلام کی تنبیہ وتادیب کررہا ہے۔

پس چونکہ مجرموں اور خطاکاروں سے اس طرح کا برتاؤ ان کی آزادی اور حقوق کا سلب کرنا ہے اور انسان میں مالک جیسا تصرف حساب ہوتا ہے اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی مشروعیت کا معیار وملاک اکثریت کی رائے کے علاوہ خداوندعالم کی اجازت ہے، کیونکہ تمام انسان خدا کے بندے ہیں لھٰذا خدا اپنے بندوں پراگرچہ مجرم بندے ہی کیوں نہ ہوں ؛ تصرف کا حق عنایت فرمائے؟ ہر ایک شخص (یھاں تک کہ مجرم بھی) آزادی رکھتے ہیں اور یہ آزادی خدا داد نعمت ہے جو اس نے تمام انسانوں کو عطا کی ہے اور کسی کو اس کے بندوں کی آزادی سلب کرے کا حق نہیں ہے کیونکہ وہی ‎ انسان کی آزادی یہاں تک کے مجرم انسان کی آزادی کا حق رکھتا ہے جو ان کا مالک ہے اور تمام انسانوں کا مالک خداوندقدوس ہے ۔

اس لحاظ سے اسلامی نقطہ نظر سے ان تمام چیزوں کے علاوہ جو دوسری حکومتوں میں حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ، ایک دوسرا معیار اور ملاک بھی ضروری ہے اور وہ اعتقادات اور معارف اسلامی میں سر چشمہ رکھتا ہے ہمارے عقیدہ کی بنیاد پر خداوندعالم، انسان اور تمام مخلوقات کا ربّ ہے اور ہمارا یہ عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا کی مخلوقات میں ذرا سا بھی دخل وتصرف؛ خدا کی اجازت اور مرضی سے ہونا چاہئے دوسری طرف وہ قوانین جوشھریوں کی رفتار، چال چلن اور کردارکو معین کرتا ہے اور ان کی آزادی کو محدود کرتا ہے، نیز وہ قوانین خود بخود جاری نہیں ہوتے بلکہ ان کو جاری کرنے کے لئے ایک سسٹم کی ضرورت ہے جو ان کو جاری کرسکے،اسی وجہ سے حکومت کے پاس ایک طاقت (پولیس) کی ضرورت ہے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور قوہ مجریہ،خدا کی مخلوقات میں تصرف کرنے کے بغیر اور ان کی آزادی کو محدود کئے بغیر آگے نہیں بڑہ سکتی، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ خدا کی مخلوقات میں تصرف کرنا یہاں تک مجرموں اورغنڈوں سے آزادی کا سلب کرنا، صرف اسی شخص کے لئے جائز ہے جس کو خداوندعالم نے اختیار دیا ہے، اور یہ اختیار صرف خداوندعالم کی طرف سے دوسروں کو عطا ہوتا ہے؛ کیونکہ وہی ‎ تمام انسانوں کا مالک اور ربّ ہے، اور حکومت کو اپنی مخلوقات میں تصرف کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

حکومت کے سلسلہ میں فلسفہ سیاست میں نظریہ ”ولایت فقیھ“ کا دوسرے نظریات پر یہ امتیاز ہے کہ یہ نظریہ توحید اور اسلامی عقیدہ میں سرچشمہ رکھتا ہے اس نظریہ حکومت اور انسانوں میں تصرف کرنے کی نسبت خداوندعالم کی اجازت کی طرف ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں دوسرا نظریہ جو کہ قوانین کو جاری کرنے اور انسانوں کی آزادی میں تصرف کرنے میں خدا کی اجازت کو ضروری نہیں سمجھتا، یہ نظریہ ایک قسم کا”ربوبیت میں شرک“ ہے یعنی اگر قوانین کو جاری کرنے والا فرد یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خدا کے بندوں میں اس کی اجازت بغیرکے دخل وتصرف کا حق رکھتا ہے، حقیقت میں ایسا عقیدہ رکہنا اس ادّعا کے برابر ہے کہ جس طرح خداوندعالم اپنے بندوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے میں بھی اسی طرح مستقل طور پر انسانوں میں دخل وتصرف کا حق رکھتا ہوں ، اور یہ ایک قسم کا شرک ہے اگرچہ ایسا شرک نہیں جو مرتد ہونے کا سبب بنتا ہو بلکہ کمتر درجہ کا شرک ہے جو غلط فکر اور کج فکری کی وجہ سے وجود میں آتا ہے، جس کے نتیجہ میں عصیان اور لغزش وجود میں آتے ہیں اور یہ کوئی کم گناہ نہیں ہے کیسے کوئی شخص اپنے کو خدا کا ہم پلہ قرار دیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ جس طرح خدا اپنے بندوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے میں بھی ان کی رائے اور انتخاب پر تکیہ کرتے ہوئے؛ ان پر تصرف کا حق رکھتا ہوں ؟!! کیا عوام الناس اپنا اختیار رکھتی ہے جو دوسروں کے حوالہ کرسکتی ہے؟ تمام انسان خدا کے بندے ہیں ان کا اختیار بھی خدا کے ھاتہ میں ہے۔

قارئین کرام ! ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی تحقیق وبررسی کریں تو اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس نظریہ میں دوسرے ممالک کے حکومتی معیار کے علاوہ ایک دوسری چیز کا بھی لحاظ کرنا ضروری ہے ، اور وہ ہے خدا کے بندوں میں تصرف کرنے کے لئے خدا کی اجازت لھٰذا اسی نظریہ کی بنیاد پر حکومت کی مشروعیت خداوندعالم کی طرف سے ہے اور عوام الناس کی رائے اور ووٹس نیز عوام الناس میں اس کی مقبولیت؛ حکومت کے تحقق کے لئے ایک شرط ہے۔

حوالے:

(۱) سورہ بقرہ آیت ۳۰

(۲)سورہ معارج آیات ۱۹ تا ۲۱

)۳(سورہ ابراہیم آیت ۳۴

(۴) جیسا کہ ہم پہلے قوانین کی ضرورت پر گفتگو کر چکے ہیں

)۵(اگرہر آدھے منٹ میں ایک قتل ہوتا ہے تو تقریباً ایک دن میں ۲۸۸۰/(۶۰ * ۲ = ۱۲۰ * ۲۴ =۲۸۸۰) قتل ہوتے ہیں (مترجم(

(۶) بحار الانوار ج۹ ص ۴۹


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18