اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 20604
ڈاؤنلوڈ: 2345


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20604 / ڈاؤنلوڈ: 2345
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

اٹھائیسواں جلسہ

اسلامی حکومت اور جائز آزادی اوراقدار کی رعایت کرنا

۱۔ حکومت کی ضرورت پر ایک اشارہ

گذشتہ جلسوں میں قوہ مجریہ (حکومت) کے فلسفہ پر گفتگو ہوئی،تاکہ اس کے سمجھنے کے بعد یہ معلوم ہوجائے کہ حکومت کے وظائف اور کیا کیا شرائط ہیں ،اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے کیا شرائط ہونے ضروری ہیں ؟ اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا حکومت کے فرائض میں سے ایک فریضہ قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت ہے، جو دنیا بھر کی تمام حکومتوں میں مقبول ہے، اسی طرح اسلامی حکومت میں بھی جس میں قوانین یا تو براہ راست شریعت مقدسہ سے لئے جاتے ہیں یا وہ قوانین ان افراد کے ذریعہ مرتب ہوتے ہیں جن کو شریعت کی طرف سے اجازت حاصل ہوتی ہے، لھٰذا قوانین کو جاری ہونا چاہئے پہلے درجہ میں خود عوام الناس کو قوانین پر عمل کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنے وظائف پر عمل کرنا چاہئے، نیز معاشرتی، گھریلو اور بین الاقوامی روابط؛ اسلامی قوانین کے تحت ہونے چاہئیں ۔

اپنے وظائف کو انجام دینے اور اجتماعی قوانین پر عمل پیرا ہونے کے لئے ایک مصمم ارادہ ہونا چاہئے ، کیونکہ عوام الناس پہلے اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں اور اجتماعی امور کے بارے میں کم ہی فکر کرتے ہیں ، خصوصاً اس وقت جبکہ اجتماعی امور انجام دینے میں ان کا کوئی خرچ یا نقصان ہو،اس صورت میں ان کے درمیان بھت کم رجحان پایا جاتا ہے، مگر وہ افراد جو بہتر ین تربیت یافتہ ہوں اور معاشرہ کے فوائد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیتے ہوں اس بنا پر اجتماعی امور میں اکثر خلاف ورزی اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ عوام الناس میں اجتماعی ذمہ داریوں کا زیادہ احساس نہیں پایا جاتا، اسی وجہ سے کچھ لوگوں کا ان قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت اپنے ذمہ لینا ضروری ہے تاکہ عوام الناس کو اجتماعی قوانین پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کریں ،اور مخالفت کرنے کی صورت میں ان کو سزا بھی دلائیں ۔

لھٰذا ایسی حکومت کا ہونا ضروری ہے جو(ضرورت کے وقت) اپنی طاقت کے ذریعہ ان قوانین پر عمل کرائے، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہر معاشرہ میں شروع ہی سے اس کی ضرورت کے تحت قوانین بنائے جاتے ہیں ، مثلاً اگر کوئی شخص کسی کے مال کو غصب کرنا چاہے تو اس کی سزا معین کی جاتی ہے تو اگر کسی نے اس قانون پر عمل نہ کیا اور دوسرے کے مال پر ھاتہ بڑھایا تو قانون کے رکھوالے اس کو سزا دیتے ہیں بعض حالات میں بات واضح نہیں ہوپاتی جس کے نتیجہ میں اختلاف اور کشمکش پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض موقع پر ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ طرفین میں سے کوئی ایک بھی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا لیکن چونکہ حق (بات) ظاہر نہیں ہے لھٰذا اپنے وظیفہ کو معین کرنے میں غلطی کرجاتے ہیں ، ایسے ہی حالات کے لئے ”قوہ قضائیھ“ (عدالت) کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تاکہ وہ قوانین کو ان کے مصداق پر منطبق (ٹیلی) کرے اور یہ طے کرے کہ کون حق پر ہے؟ اور اگر عدالت کی طرف سے فیصلہ ہونے کے بعد طرفین میں پھر بھی اختلاف باقی رہا اور اس فیصلہ کو نہ مانا تو اس موقع پر پولیس کے ذریعہ اس فیصلہ کو منوایا جاتا ہے لھٰذا یہ (بھی) طے ہوگیا کہ عدالت کا ہونا بھی ضروری ہے، البتہ ہمارے بیان کے مطابق عدالت کو قوہ مجریہ کے تحت ہونا چاہئے، لیکن بھت سے سیاسی فلاسفہ کے نزدیک قوہ قضائیہ کوحکومت اور پارلیمنٹ سے مستقل ہونا چاہئے۔

اس تقسیم کے تحت پارلیمنٹ کا کام قوانین بنانا، افراد کے حقوق کو معین کرنا اور خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا معین کرنا ہے، مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون معین کیا جاتا ہے کہ فلاں خرید وفروخت صحیح ہے یا باطل ہے، اس کے بعد مقرر شدہ قوانین کے تحت معاملہ ہوتا ہے لیکن اگر اس قانون کے منطبق کرنے میں شک ہو جائے اور معلوم نہ ہوسکے کہ معاملہ صحیح ہے تاکہ لین دین ہوسکے، یا باطل ہے؛ المختصر یہ کہ طرفین کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اس صورت میں عدالت جانا ہوگا اور چونکہ عدالت کی ذمہ داری کلی قوانین کو ان کے مصادیق پرمنطبق کرناہے اور قاضی کے فیصلہ کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ مثلاً زید ، خالد کو فلاں مقدار میں مال دے ، تو اگر طرفین نے یہ فیصلہ مان لیا ہے اور قانون کے مطابق عمل کیا تو ان کے درمیان معاملہ ختم ہوجائے گا ، ورنہ حکومت کو درمیان میں آنا ہوگا اور پویس کے ذریعہ زید سے مال لے کر صاحب حق (خالد) کو دینا ہوگا۔

ہم نے عرض کیا کہ حکومت کے اصل وظائف میں سے ایک وظیفہ اجتماعی قوانین اور احکام کو جاری کرنے کی ضمانت ہے، لیکن اس بات پر بھی توجہ رہے کہ قوانین جاری کر نا فقط حکومت میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسروں (عوام الناس) کو بھی قوانین جاری کرنے چاہئیں ،جس طرح سے حکومت کی ذمہ داری صرف قوانین کو جاری کرنا نہیں ہے بلکہ وہ بعض مواقع پر قوانین بھی بنا سکتی ہے جیسا کہ ”تفکیک قواہ“ (تینوں قدرتوں کا مستقل ہونا) کی بحث میں بیان کریں گے، کیونکہ قانون گذاری اور قوانین کو جاری کرنے میں جدائی ممکن نہیں ہے اور ان کے درمیان رابطہ دنیا کی تمام ہی حکومتوں میں مقبول ہے، یعنی درحالیکہ حکومت کا کام قوانین کا جاری کرنا ہے لیکن بعض مواقع پر قوانین اور مقرارات بھی بنانے ہوتے ہیں دوسری طرف پارلیمنٹ بھی بعض اجرائی کاموں میں دخالت کرتا ہے اور بعض موارد میں بعض اجرائی امور پارلیمنٹ میں طے پاتے ہیں ؛ مثال کے طور پر تیل وغیرہ کے سلسلے میں دوسری حکومتوں اور بیرونی کمپنیوں سے معاملہ کرنا جبکہ معاملہ کرنا ایک اجرائی کام ہے، لیکن بغیر پارلیمنٹ کے طے کر نا ممکن ہے لھٰذا ان قدرتوں کے درمیان کوئی سرخ خط (لائن) نہیں ہے،جس سے ایک دوسرے کے کاموں میں بالکل دخالت نہ کرسکے، نہ حکومت قوانین بنانے کی قدرت رکھتی ہو اور نہ پارلیمنٹ اجرائی امور میں دخالت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، بھر حال یہ قدرتیں اپنے مخصوص مختلف کام رکھتی ہیں ۔

اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ مذکورہ تکونی تقسیم (قوہ مجریہ، قوہ قضائیہ اور پارلیمنٹ )دنیا کی تمام ہی حکومتوں میں مقبول ہے، لیکن اسلامی حکومت قانون گذاری کے سلسلہ میں دوسری حکومتوں سے مختلف ہے: لائیک حکومتوں میں قانون گذاری کا معیارلوگوں کے دنیاوی اور اجتماعی امور ہوتے ہیں ، لھٰذا قانون کو طے کرنے کے علاوہ ان کو جاری کرنے کا سلیقہ بھی اسی لحاظ سے ہوتا ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے قانون گذاری میں دنیاوی امور کے علاوہ اُخروی اور معنوی مصالح کو بھی نظر میں رکھا جاتا ہے، بلکہ قوانین مرتب کرتے وقت معنوی مصالح کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اسلامی حکومت اور سیکولر اور لائیک حکومتوں میں یہی بنیادی اور اصل فرق ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسی (اسلامی) حکومت کی ذمہ داری بھی دوسری حکومتوں کے نسبت زیادہ ہوتی ہے؛ یعنی (اسلامی) حکومت لوگوں کو اجتماعی امور کی رعایت کرنے اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنے سے روکنے نیز ہرج ومرج (بد امنی)سے روک تھام کے علاوہ اسلامی اقدار کی بھی رعایت کرے اور ان کو جامہ عمل پھنائے۔

۲۔ انسانی کردار میں اصل اوّلی

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ انسان کی مہم اور برجستہ صفات میں سے انتخاب اور اختیار کی قوت ہے، اسی وجہ سے انسان؛ حیوانات اور فرشتوں سے فرق رکھتا ہے: کیونکہ حیوانات کے کام ان کی شھوت کے تحت ہوتے ہیں جن میں انتخاب کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اور اگر اتفاقی طور پر انتخاب ہوتا بھی ہے تو وہ بھی شھوت کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی ان کا انتخاب عقل وفکر کی بنیاد پر نہیں ہوتا اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کسی حیوان کی تربیت کے ذریعہ اس کو بعض چیزیں سکھادی جاتی ہیں اور وہ اپنے مالک (مربی) کے اشارہ کے مطابق کام کرتا ہے یا کسی گھوڑے کی ایسی تربیت کی جاتی ہے جس سے وہ مالک کے بتائے ہوئے راستہ پر ہی چلتا ہے ؛ تو اگرچہ یہاں پر (حیوان کی طرف سے) انتخاب ہوتا ہے لیکن یہ انتخاب بھی غرائز اور شھوات کی بنا پر ہوتا ہے۔

لیکن فرشتوں میں ملکوتی اور آسمانی صفات ہوتے ہیں ، ان میں گناہ ومعصیت اور حق کی خلاف ورزی کا مادہ نہیں پایا جاتا ان کا شمار مقدسین اور مقربین میں ہوتا ہے ان کا مقام؛ عالی اور پاک وپاکیزہ ہوتا ہے، لیکن ان میں بھی انتخاب کا مادہ نہیں ہوتا، حقیقت میں ان کے اندر عبادت اور خداوندعالم کی بے چون وچرا اطاعت کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن یہ انسان ، خلیفہ خدا اور امانت الہی کا حامل ایک الگ ہی مخلوق ہے اس کے سامنے ہمیشہ دو راستے اور دو جاذبے سامنے رہتے ہیں ایک خدا کی طرف اور دوسرا شیطان کی طرف ان میں سے ایک راستہ کو انتخاب کرنے کی صلاحیت اس میں ہونا چاہئے، ورنہ اگر اس سے انتخاب کی قدرت سلب کرلی جائے اور مجبوراً کسی ایک راستہ پر لگا دیا جائے تو اس میں انسانی خصوصیات اور امتیازات ختم ہوجائیں گے۔

لھٰذا انسانی کردار اور اس کی تربیت میں چاہے وہ انفرادی مسائل میں ہو یا گھریلو مسائل میں اور چاہے اجتماعی اور بین الاقوامی مسائل ہوں سبھی میں اس کے لئے انتخاب کی راہ ہموار ہونا چاہئے تاکہ اپنے انتخاب کے ذریعہ صحیح راستہ کو اپنائے؛ نہ یہ کہ اس پر کوئی راستہ تھونپ دیا جائے لیکن کبھی کبھی اجتماعی مسائل انسان پر سختی کا تقاضا کرتے ہیں در حقیقت قوہ مجریہ اور حکومت ایک ثانوی مصالح کی بنا پر ہے نہ اصل اولی کی بنا پر،یعنی اگر ہم یہ کھتے ہیں کہ معاشرہ کے لئے ایک حکومت کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ قوانین کو نافذ کرے یہاں تک کہ بعض حالات میں حکومت اپنی قدرت کے بل بوتے پر مجرموں کو بھی قوانین کی رعایت کرنے پر مجبور کرے، یہ اصل اولی کے برخلاف ہے کیونکہ اصلی اولی یہ ہے کہ قانون عوام الناس کے اختیار میں ہو وہ اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اس پر عمل کریں اور کوئی (بھی) اس کی مخالفت نہ کرے، کوئی شخص بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے، رشوت نہ لے، چوری نہ کرے اور لوگوں کی جان و مال پر ھاتہ نہ بڑھائے لیکن اگر دیکہنے میں یہ آیئے کہ ہمیشہ معاشرہ میں اس طرح کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہیں ، تو اس صورت میں پولیس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قانون کی خلاف ورزی ہونے سے روک تھام کرے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر پوری دنیا میں تباہی اور فساد پھیل جائے گا اور جو افراد صحیح راستہ پر چلنا (بھی) چاہتے ہیں ان کے لئے راستہ بند ہوجائے گا۔

لھٰذا معاشرہ کی اکثریت کے لئے صحیح راستہ کے انتخاب کی راہ ہموار رہنے کے لئے جرائم پیشہ اور خلاف ورزی کرنے والوں کی روک تھام ضروری ہے اور ضرورت کے تحت ان کو سزا بھی دینا ہوگی تاکہ ترقی او رپیشرفت کا موقع فراہم رہے، ورنہ بعض جسمانی یا علمی قدرت اپنی شیطانی چالوں کی بنا پر معاشرہ کے مصالح کو خطرہ میں ڈال دیں گے جس سے انسان کو پیدا کرنے کا الہی مقصد پامال ہوجائے گا۔

یہ بات بجا ہے کہ انسان کو آزادی اور اختیار کی بنا پر صحیح راستہ کا انتخاب کرنا چاہئے لیکن یہ آزادی نامحدود نہیں ہے اور دوسروں کو اتنا اختیار نہیں دینا چاہئے تاکہ وہ دوسروں کے انتخاب کا راستہ ہی بند کردیں ، اور قرآنی اصطلاح کے مطابق دوسروں کو خدائی راستہ پر چلنے سے روک دیں ۔(۱)

لھٰذا طے یہ ہوا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کا سد باب کیا جائے تاکہ وہ مومنین کو خدا کے راستہ پر چلنے سے نہ روکیں ، لیکن اس بات پر بھی توجہ رہے کہ خلاف ورزی کی روک تھا م اورقوانین کو جاری کرنے کے لئے حکومت کے زور اور طاقت کا استعمال بھی خاص قوانین کے تحت اور بھت ہی ظرافت اورباریکی کے ساتھ ہونا چاہئے جن مواقع پر اسلام معاشرہ کے فوائد کے پیش نظر طاقت اور زور کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا دھیان بھی رکھتا ہے کہ اس وقت بھی انتخاب کی راہ مسدود نہ ہونے پائے، خلاف ورزی کرنے والے کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رہے مگر جرم اتنا خطرناک ہو کہ معاشرہ کے مصالح وفوائد کی حفاظت کرنے اور معاشرہ میں فساد وتباہی سے روک تھام کی غرض سے مجرم کو سزائے موت دینا پڑے۔

۳۔ سزا دینے کے سلسلہ میں اسلام کا تربیتی پہلو

اسلام نے بعض جرائم کے لئے بھت سخت سزا معین کی ہیں ، لیکن ان کو ثابت کرنے کے بھی سخت طریقہ پیش کئے ہیں جن سے جرم کا ثابت کرنا بھت مشکل ہوتا ہے دوسری طرف اگر کوئی خطرناک جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے لئے سزابھی ایسی ہی سخت معین کی ہے تاکہ دوسروں کے لئے بھی عبرت ہو اور وہ اس کو دیکہ کر اس طرح کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں کیونکہ سزا کے فلسفہ میں ایک حکمت یہ ہے کہ لوگ اس سزا کو دیکہ کر عبرت حاصل کریں جس کے نتیجہ میں جرائم کم سے کم ہوں لھٰذا اس مقصد تک پہنچنے کے لئے جرم کے لحاظ سے سزا بھی ہونا چاہئے اور خطرناک جرائم کے لئے سزا بھی سخت سے سخت ہونا چاہئے، مثال کے طور پر چوری کے لئے کم سزا معین کی جائے مثلاً ایک مقدار جرمانہ یا کم مدت کے لئے قید، اس طرح جو لوگ چوری کرتے ہیں ان کے لئے وہ سزا (ایک حد تک) آسان ہو ، تو اس صورت میں معاشرہ میں ہونے والی چوریوں کو نہیں روکا جاسکتا، جس کے نتیجہ میں خداوندعالم نے سزا کی جو حکمت رکھی ہے وہ پوری نہیں ہوگی۔

لیکن اگر جرائم ثابت کرنا آسان ہوجائے اور لوگوں کو آسانی سے سزا ہوجایا کرے تو پھر معاشرہ میں سزا زیادہ ہوجائے گی کیونکہ بھت سے لوگ جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں بھت سے خاندان کی حیثیت اورآبرو خاک میں مل جائے گی، اسی وجہ سے اسلام نے جرم کو ثابت کرنے کے طریقوں کو سخت قرار دیا ہے مثلاً زنا کے سلسلہ میں اسلامی سزا سخت ہے یہاں تک کہ اسلام نے حکم دیا ہے کہ زنا کار مرد اور عورت کو عوام الناس کے سامنے سزا دی جائے اور انسانی احساسات اور ہمدردی ”حدود الٰھی“ (اسلامی سزا) کے آڑے نہ آئیں معاشرہ سے اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کے لئے زنا کی سزا عوام الناس کے سامنے دی جائے، ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کی عزت وآبرو کے خیال سے اس کو چھوڑ دیا جائے لیکن دوسری طرف سے جرم کو ثابت کرنے طریقے ایسے سخت قرار دئے ہیں تاکہ کم ہی لوگوں کے جرم ثابت ہوں ، اور کم ہی افراد سزائے اعمال تک پہنچ پائیں ۔

زنا کے سلسلہ میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ چار عادل افراد گواہی دیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کو زنا کرتے دیکھا ہے، یہاں تک کہ اگر تین افراد گواہی دیں اور چوتھا آدمی گواہی کے لئے نہ ہو تو ملزم کو بری کردیا جائے گا اور قاضی ان تینوں کو سزا دے گا اور ان پر ”حد قذف“(۲) جاری ہوگی۔

اسلامی احکام میں اس طرح کی ظرافت ، باریکی اور دقت خصوصاً سزا کے سلسلہ میں اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اسلام کامقصد بلند وعالی اہداف کو جامہ عمل پھنانا اور عالی ترین اقدر کی رعایت کرنا ہے نیز معاشرہ کی حقیقتوں کی رعایت کرنا بھی ہے، اور صرف خیالی اور تصوراتی چیزوں پر اکتفاء نہیں کرتا در حقیقت معاشرہ کی ترقی کے لئے اسلامی طریقہ کار وہی ‎ ہے جس کو اسلام نے معین کیا ہے اور وہ ”آرمان گرائی“ (خیالی اور تصوراتی دنیا) اور ”واقع گرائی“ (حقیقت) کا درمیان راستہ ہے جس میں دونوں چیز شامل ہیں اسلام بلند اقدار کی رعایت ضروری مانتا ہے اور اس معاشرے کے اقدار کوخطرہ میں پڑ جانے کی اجازت نہیں دیتا؛ جیسا غیر اسلامی معاشرہ میں کیا کیا فسادات نظر نہیں آتے جس سے بھت زیادہ فساد اور بھت سی رسوائی سامنے آتی ہیں لھٰذا اسلامی معاشرہ کو ان برائیوں سے دور رکہنے کے لئے مجرموں کے لئے سخت سزا مقرر کی گئیں ہیں ،دوسری طرف اسلام واقع گرا ہے اور یہ جانتا ہے کہ معاشرہ میں بعض لوگوں سے جرائم ہوں گے اسی وجہ سے حتی الامکان ان جرائم کو ثابت نہ ہونے کے لئے سخت طریقہ کار مقرر کئے ہیں الغرض قانون جاری ہونا چاہئے اور ان کو جاری کرنے والا ضامن ہونا چاہئے تاکہ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو طاقت کے ذریعہ اس کو جاری کیا جاسکے، اس کے علاوہ انسانی خلقت کے اغراض ومقاصد کی بھی رعایت ہونا چاہئے اور وہ یہ ہیں کہ انسان کا کردار اختیاری اور اپنی مرضی سے ہو، دوسری طرف معاشرہ کے امور پر توجہ ہونا چاہئے تاکہ بے لگام آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرہ کے مصالح کو خطرہ میں نہ ڈال دیا جائے۔

۴۔ حکومت کے مخصوص ثابت او رمتغیر کام

جس وقت ہم قوانین کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھت سے قوانین عوام الناس سے متعلق ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان میں حکومت کا کام صرف کنٹرول کرنا، لوگوں کے قوانین کا لحاظ رکہنے کے سلسلہ میں منصوبہ بندی تیار کرنا اور خلاف ورزی سے روک تھام کرنا ہوتا ہے لیکن بعض قوانین خود حکومت سے متعلق ہوتے ہیں ، اور خود حکومت کو ان پر عمل کرنا ہوتا ہے بلکہ عوام الناس ان پر عمل کرتی ہے کیونکہ قوانین کا یہ حصہ شھریوں کی ضرورتوں اور اقتصادی، سرمایہ گذاری اور خدمات سے متعلق ہوتا ہے جس کو عوام الناس انجام نہیں دے سکتی، اور عوام الناس ان کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے یا اگر قدرت رکھتے ہیں لیکن پھر بھی رضا کارانہ طور پر کوئی ان کو انجام نہیں دیتا، جن کے انجام نہ پانے سے معاشرہ کو نقصان کا سامنا کرنا ہوتا ہے؛ لھٰذا اس بات ایک منظم تنظیم اور ہم اہنگ کمیٹی بنام حکومت کو اس کام کی ذمہ دارہ سنبھالنے کی ضرورت ہے مثال کے طور پربیرونی دشمن کے مقابلہ میں ملک کا دفاع کرنا ، جنگ کرنا اور اس سلسلہ میں اسلحہ وغیرہ فراہم کرنا، یاپھیلنے والی خطرناک بیماریوں جیسے فلج اطفال (بچوں کا فالج)کے لئے ”واکسیناسین“ " vaccinatin " لگاناجو پورے ملک میں ایک معین دن صرف حکومتی پیمانہ پر ہی ممکن ہوسکتا ہے، اسی طرح عام صفائی یا بیماروں کے لئے ھاسپٹل وغیرہ کا انتظام کرنا، یا افیون وغیرہ جیسی نشہ آور چیزوں سے مقابلہ اور ان کے آنے جانے کے راستوں کو بند کرنا، اگرچہ عوام الناس بھی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے ذریعہ تا حد امکان لوگوں کو اس کام سے روک سکتے ہے لیکن وسیع پیمانہ پر اس عظیم برائی کی روک تھام کرنا عوام الناس کے بس کی بات نہیں ہے ، اسی طرح ان برائیوں کا مقابلہ جو معاشرہ میں کافی پھیل چکی ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب کام حکومت ہی کرسکتی ہے۔

قوانین کی تیسری قسم (عوام الناس)کی ضرورتیں ہیں جن کو خود عوام الناس بھی اور حکومت بھی انجام دے سکتی ہے لیکن زمانہ کے لحاظ سے ان اجتماعی امور کو انجام دینے کا طریقہ کار مختلف ہوجاتا ہے کیونکہ معاشرہ کے بھت سے امور مختلف زمانوں میں محدود طریقہ پر خود عوام الناس کے ذریعہ انجام پاتے رہے ہیں ، لیکن آج کل کے لحاظ سے ان کو انجام دینے کی قدرت عوام الناس میں نہیں ہے اور اگر یہ ذمہ داریاں عوام الناس کے سپرد کردی جائیں تو پھر وہ پوری نہیں ہوپائیں گی،جس کے نتیجہ میں معاشرہ کے مصالح پورے نہیں ہونگے؛ اسی وجہ سے حکومت کو اس سلسلہ میں قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے جیسے بچوں کا تعلیمی سلسلہ ، اگر چہ بچوں کی تعلیم خود والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن آج کل کے حالات اس طرح کے ہیں کہ اگر ملک میں تعلیمی ادارے نہ ہوں تعلیم سے متعلق قوانین الزامی اور ضروری نہ ہوں اور مذکورہ ادارے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری نہ نبھائیں تو پھر تعلیمی ترقی رک جائے گی اور جھل ونادانی کا رواج بڑھتا چلا جائے گا۔

اسی طرح آج کل کے ترقی یافتہ دور میں عام صفائی اور عام روشنی کا مسئلہ ہے اور یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، جب کہ گذشتہ زمانے میں حکومتوں کی یہ ذمہ داری نہیں ہوتی تھی اور بھت سی چیزوں کا تو بالکل وجود ہی نہیں تھا جیسے محکمہ ٹیلویزن، لھٰذا یہ بات مسلم ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں حکومت کی بعض نئی ذمہ داریاں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ ذمہ داریاں جن کو خود عوام الناس بھی انجام دی سکتی ہے لیکن چونکہ کوئی رضاکارانہ طور پر تیار نہیں ہوتا اور اگر حکومت بھی ان ذمہ داریوں کو انجام نہ دے تو پھر معاشرہ کا برا حال ہوجائے گا، جس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ علم ، ٹکنالوجی اورصنعت میں پیچھے رہ جائے گا،اور اس کے علمی اور معنوی مصالح پورے نہیں ہوپائیں گے، کیونکہ معنوی ترقی اور کمال؛ علم ہی کے زیر سایہ ہوتا ہے ،معاشرہ میں علم ہی نہ ہوتو اس میں معنوی ترقی نہیں ہوسکتی۔

قارئین کرام ! ہماری بیان شدہ باتوں کے ذریعہ حکومت کی اہمیت، اس کا ثابت ڈھانچہ اور اس کے ارکان واضح ہوجاتے ہیں ،حکومت کے مقومات اور اس کے عناصر کے نہ ہونے پر حکومت کھوکھلی ہوجاتی ہے، اور وہ عناصر درج ذیل ہیں :

۱۔ قوانین مدنی (شھری قوانین) اور معاشرہ کے حقوقی قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت، تاکہ اگر کوئی مخالفت کرے تو حکومت اپنی طاقت کے ذریعہ عوام الناس کو ان پر عمل کرنے پر مجبور کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے۔

۲۔ معاشرہ میں ہمیشہ ضروری ثابت مصالح کو پورا کرنا، جن مصالح میں زمان ومکان کے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی، اور ان کو وسیع پیمانے پر صرف حکومت ہی انجام دے سکتی ہے مثلاً معاشرہ میں امن وامان کا برقرار کرنا حکومت کی ہمیشگی ذمہ داری ہوتی ہے، چاہے اس ملک کے عوام کی تعداد لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں ہی کیوں نہ ہو؟۔

لیکن وہ متغیر مصالح جو ہمیشہ حکومت کے ذمہ نہیں ہوتے اور اگر حکومت ان کاموں کو انجام نہ دے تو خود عوام الناس ان کو انجام دے سکتے ہیں لیکن آج کل کے نئے حالات ان ذمہ داریوں کو حکومت کے کاندھے پر رکہ دیتے ہیں ، نیز نئی پیش آنے والی ضرورتیں حکومت کے مقومات میں قرار نہیں پاتیں ۔

۵۔ قوانین جاری کرنے کے طریقہ کار میں اسلامی اور غیر اسلامی حکومتوں میں فرق

اب جبکہ حکومت کی اہمیت اور اس کے وظائف معلوم ہوگئے ہیں ، تواسلامی حکومت اور دوسری حکومتوں کا فرق مختصر طور پر بیان کرنا مناسب ہے: اسلامی حکومت قوانین کے سلسلہ میں سیکولر اور لائیک حکومت سے بھت زیادہ فرق رکھتی ہے اور اسلامی حکومت کا دائرہ دوسری حکومتوں سے وسیع تر ہے؛ کیونکہ اسلامی حکومت میں معنوی اور روحانی مصالح کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، اسی طرح قوانین جاری کرنے کا طریقہ کار بھی دوسری حکومتوں سے مختلف ہوتا ہے مثال کے طور پر دنیا کی تمام حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں در آمد کی محتاج ہوتی ہے جس کا ایک حصہ ٹیکس وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے اسلامی حکومت بھی ولی فقیہ کی اجازت سے لوگوں سے ٹیکس حاصل کرنے کے لئے قوانین مرتب کرتی ہے اور ان کو نافذ کرتی ہے چنانچہ ٹیکس کے سلسلہ میں بھی اسلامی حکومت دوسری حکومتوں سے فرق رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام؛ مالیات اورٹیکس وغیرہ کے سلسلہ میں بھی انسانی وجود کے فلسفہ کو پیش نظر رکھتا ہے۔

یعنی اسلام اس بات پر زیا دہ زور دیتاہے کہ انسانی کام اور اس کی کارکردگی اپنے انتخاب اور مرضی سے ہوں جن کے سبب اس کی معنویات میں اضافہ ہو مالیات وصول کرنے میں حکومت اپنی قدرت بھی استعمال کرسکتی ہے اور لوگوں کو ٹیکس دینے پر مجبور کرسکتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں تاکہ لوگوں کے ذھن پر ٹیکس وغیرہ گراں نہ گذرے اس لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات وغیرہ کم ہوجاتے ہیں جن میں ایک طریقہ یہ ہے کہ روزانہ کا وہ سامان جو عوام الناس ہر روز خریدتی ہے اسی میں ٹیکس رکھا جاتا ہے، اور عوام الناس اشیاء کی قیمت کے علاوہ ایک مقدار ٹیکس بھی حکومت کو ادا کرتی ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ (مذکورہ طریقہ پر) ٹیکس ادا کرنے سے کسی کو کوئی ثواب اور جزا نہیں ملتی؛ لیکن اسلام اس موقع پر بھی انسان کے معنوی کمال کو مد نظر رکھتا ہے اسی وجہ سے لوگوں کو مالیات دینے پر مجبور نہیں کیا ہے اور خمس جیسے اسلامی ٹیکس کو جمع کرنے کے لئے کسی نمائندہ کو نہیں بھیجتا (جیسا کہ شیعہ فقہ میں ذکر ہوا ہے کہ اسلامی حکومت خمس کو زبردستی نہیں لیتی خصوصاً ” ارباح مکاسب “ (تجارت وغیرہ کی آمدنی) کا، ان چیزوں میں اگرچہ خمس واجب ہوچکا ہے لیکن خود مومنین اپنی مرضی اور رغبت سے اپنے سال کا حساب کرکے خمس نکالیں )اسی طرح زکوٰة میں اگرچہ اسلامی حکومت زکوٰة کو جمع کرنے کے لئے اپنا نمائندہ بھیجتی ہے،لیکن اس میں بھی لوگوں کی آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے اسی وجہ سے جب زکوٰة جمع کرنے والے افراد مومنین کے پاس پہنچتے ہیں تو زکوٰة کی مقدار کو خود معین نہیں کرتے بلکہ خود مومنین حاصل شدہ جنس کی مقدار بیان کرتے ہیں تاکہ اس کی زکوٰة کا حساب کرکے، اور اس کو جمع کیا جاسکے یہاں پر (بھی) حقیقت حال جاننے کے لئے زکوٰة دینے والے کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ زکوٰة دینے والا سچ کھہ رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے، مگر جبکہ اس کا جھوٹ واضح ہورہا ہو اور اسلامی حکومت کا نقصان ہورہا ہو، یا ان افراد کے لئے جو علی الاعلان کھتے ہیں کہ ہم زکوٰة نہیں دیں گے، چنانچہ ان مواقع پر اسلامی حکومت اپنے طریقوں سے زکوٰة ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

قارئین کرام ! معلوم یہ ہوا کہ اسلامی حکومت کا دوسری حکومتوں پر ایک امتیاز یہ ہے کہ قوانین کو جاری کرنے کے طریقہ کار میں اسلامی اقدار کا لحاظ رکھا جائے، اور اس موقع پر عوام الناس کی آزادی، ان کے انتخاب اور انسانی اقدار وشرافت کے طرفدار افراد اس نکتہ پر توجہ کریں کہ اسلام نے عوام الناس کی معقول آزادی کو مکمل طور پر نظر میں رکھا ہے، اور اس بات کی کوشش ہے کہ مومنین اپنی مرضی سے اپنے وظائف پر عمل کریں ، جس کی بنا پرمعنوی ترقی اورکمال کے درجات پر فائز ہوں اور اگر بعض موارد میں اسلام شدت سے پیش آتا ہے اور بعض لوگوں کے مطابق تشدد (شدت پسندی) سے کام لیتا ہے، تو وہ اس وجہ سے ہے کہ دوسرے افراد کے معنوی کمالات حاصل کرنے کی راہ مسدود نہ ہوجائے اور اگر بعض لوگوں کو سخت سزا دی جانے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس کو دیکہ کر عبرت حاصل کریں ،اور وہ اس طرح کے کام کرنے سے باز رہیں جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں مادیات اور معنویات کی ترقی ہو بھرحال اسلامی نقطہ نظر سے انفرادی آزادی مطلق (نا محدود) نہیں ہے اور جب یہ آزادی معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہو تو پھر یہ آزادی محدود ہوجاتی ہے، اور ضرورت کے وقت یہ آزادی محدود کر دی جاتی ہیں اور ضرورت کے وقت تشدد سے بھی کام لیا جاتا ہے، بعض مجرموں کو کوڑے لگتے ہیں اور بعض کے ھاتہ کاٹے جاتے ہیں اور بعض حالات میں بھت ہی کم تعداد میں مجرموں کو سزائے موت بھی دی جاتی ہے لیکن یہ تمام سزائیں اس وجہ سے ہیں کہ ان کو دیکہ کرمجرمین عبرت حاصل کریں اور قانون کے مطابق عمل کریں ۔

ظاہر سی بات ہے کہ جب اسلام نے چوری کرنے اور عوام الناس کے چین وسکون اور امنیت کو ختم کرنے والے کے ھاتہ کاٹنے کا حکم دیا ہے، تاکہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں اور چوریاں کم ہوں ، اور اس رسوائی میں پھنسنے کے راستے کم ہوں لیکن اگر اسی چوری کے لئے آسان سے آسان سزا رکھی جاتی مثلاً چور کو کچھ مدت کے لئے قید کرنا یا ایک مقدار میں جرمانہ ادا کرنا تو پھر چوروں کی تعداد بھت زیادہ ہوجاتی، اور ممکن تھا جو لوگ کسی جرم کی بنا پر زندان میں ہوں تو چوروں کے ساتھ رہنے سے وہ بھی چوری کرنا سیکہ جاتے۔! قارئین کرام ! ہم حقیقت کہنے سے نہیں ڈرتے اور واضح طور پر کھتے ہیں کہ اسلام میں شدت عمل اور (سخت) سزائیں اور غیروں کے مطابق تشدد ہے مجرموں اور فاسدوں کے لئے بھی تشدد روا ہے اور کفار اور اسلام کے دشمنوں کے لئے بھی؛ جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَه اشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهمْ ) (۳)

”محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دِل ہیں “

اسی طرح خداوندعالم لوگوں کو عبرت دینا اور مجرم کو ذلیل کرنا ضروری سمجھتا ہے :

( وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِین ) (۴)

”اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے “

قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلام اور قرآن بعض موارد میں تشدد کے ساتھ عمل کرنے اور مجرم کو ذلیل کرنے کو ضروری سمجھتا ہے، اور ہم ان آیات کو قرآن سے نہیں مٹاسکتے اگر اس طرح کی سزا کو بعض لوگ انسانی شرافت کے خلاف سمجھتے ہیں تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اجتماعی مصالح کی حفاظت کے لئے بعض مواقع پر مجرموں اور فاسدوں کے ساتھ انسانی شرافت کے خلاف کام واجب اور ضروری ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی سزا حقیقی خشنونت نہیں ہیں بلکہ عوام الناس کی اجتماعی معقول آزادی سے بھرہ مند ہونے کی راہ ہموار کرنا اور اس کا ایک مقدمہ ہے۔

حوالے:

(۱) ”الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ اضَلَّ اعْمَالَهمْ “( سورہ محمد آیت اول)جن لوگوں نے کفر کیا اور لوگوں کو راہ خدا سے روکا خدا نے ان کے اعمال کو برباد کردیا(اضافہ مترجم

(۲)) ” حدّ قذف “ زنا کی تھمت لگانے والے پر ۸۰ کوڑے لگائے جاتے ہیں ،جس کی صراحت سورہ نور کی آیت نمبر ۴ میں وارد ہوئی ہے (مترجم)

(۳)سورہ فتح آیت ۲۹

(۴)سورہ نور آیت ۲