نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں50%

نماز کي گہرائیاں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نماز کي گہرائیاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7555 / ڈاؤنلوڈ: 3820
سائز سائز سائز
نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نماز کي گہرائیاں

از

حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای

نشر ولایت پاکستان

مرکزحفظ ونشر آثار ولایت

www.wilayat.com

بسم الله الرحمن الرحيم

خصوصي مقدمہ

الحمد لله والصلوٰة عليٰ رسول الله وعليٰ آله خلفائ الله

١۔ خدا وند عظيم کي صفات ۔

مخلوق کي تربيت کرنا ہے۔ اس نے ہم انسانوں کي تربيت اور کمالات تک پہنچانے کے لئے جو انسانيت کا عروج ہيں۔ کچھ عبادات مقرر کي ہيںاور کچھ اخلاقي اچھائيوں کو ہمارے لئے معين فرمايا ہے۔ خدا کي غرض يہي ہے کہ انسان ان عبادات پر عمل کرے اور ان اخلاقي فرائض کو اپنے ميں پيدا کرے۔۔ اور ان دونوں کے ذريعے سے انسا ن اس کمال تک پہنچے جو اس کي معراج ہے۔ يہ معراج اس لحاظ سے ہے کہ انسان ان روحاني لذتوں اور باطني کمالات کو حاصل کرے جس سے وہ دنيا ميں بھي ظاہري اور باطني اعتبار سے خوشي محسوس کرے گا اور آخرت ميں بھي وہاں کے عظيم باطني کمالات کو حاصل کرے گا۔

قابل توجہ بات يہ ہے کہ انسان غير اخلاقي اور گھٹيا حرکات ميں مصروف ہے اور اس کا کردار پست لوگوں جيسا ہے ۔۔۔۔ جو اس کي (انسانيت) کي شان سے بالکل ميل نہيں کھاتا۔۔۔ ايسي حالت ميں اس کي باطني قوتيں اور روحاني کمالات کو صلاحيتيں دبي رہ جائيں گي اور اسے کوئي فائدہ نہيں پہنچاسکيں گي۔۔۔ اور جب تک انسان خود ميں روحاني اور باطني عظمتوں کو پيدا نہ کرے اور نا ہي خود اپني صلاحيتوں کو عملي کرسکے تو اس وقت تک اس کے اس کے باطن کي کيفيت ايسي نہيں ہوگي کہ وہ روحاني لذات کا احساس اور باطني کيفيات کا ادراک کرسکے۔

ايسے آدمي کي مثال اس ديہاتي کي سي ہے جو بالکل جاہل اور ان پڑ ھ ہو اور ہم اسے ايسي لائبريري ميں لے جائيں جس ميں علم و فکر کے خزانے بھرے ہوں ليکن اسے علمي خزانوں کي اہميت ذرہ بر ابر بھي نہ ہوسکے گي يا اسے ايک فلسفي کے پاس بٹھا ديا جائے جس کي محفل علم و دانش سے پر ہو اور وہ فلسفي گہرے مطالب کو باآساني سمجھا ديتا ہو ليکن يہ جاہل ديہاتي نہ اس کتب خانہ سے کوئي فائدہ اٹھاسکے گا اور نا ہي اس فلسفي کي نشست سے کوئي علمي لذت حاصل کرسکے گا۔

٢۔ يہ حقيقت واضح ہوني چاہئيے

کہ دنيا کو خلق کرکے خدا نے نا کسي اپني خواہش کي تکميل چاہي ہے اور نا ہي اپنا کوئي مقصد پورا کرنے کا ارادہ کيا ہے۔ کيونکہ خدا غني ہے ، وہ کسي چيز اور کسي کام کے لئے محتاج نہيں ہے اور نا ہي کوئي ايسا مقصد ہے کہ جس کا کوئي فائدہ يا نفع ذات مقدس الہي کو پہنچے گا۔ اس قسم کا کوئي ايمان عقلاً ، ممکن نہيں ۔ پھر بھي يہ بات اپني جگہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ اس نے تمام کائنات کو بے مقصد خلق نہيں کيا ہے۔ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ کائنات جو زندگي کے ہنگاموں سے بھري ہوئي ہے اور يہ آسمان بے مقصد و عبث ہے۔ کيونکہ خداوند عظيم نے ارشاد فرمايا ہے:

وما خلقنا السموات والارض وما بينهما لاعبين

اور ہم نے آسمانوں اور زمين کو ۔۔ اور جو کچھ ان کے درميان ہے کھيل کے طور پر خلق نہيں کيا ہے ۔(سورہ دخان ٣٨)

ما خلقنا هما الا بالحق ولکن اکثرهم لا يعلمون

ہم نے ان دونوں کو حق کے ساتھ خلق کيا ہے ليکن لوگوں ميں سے اکثريت کو اس کا علم نہيں۔(سورہ دخان ٣٩)

کائنات کي تخليق سے خدا کي جو بھي غرض ہو ليکن يہ بات بالکل يقيني ہے کہ خدا کي تمام مخلوقات ميں انسان کي حيثيت سب سے اعليٰ ہے اور اسے پيدا کرنے کي غرض بھي سب سے زيادہ اعليٰ و ارفع مقام ہے۔ بازار ہستي ميں صرف انسان ہي ہے جو اس اعليٰ و ارفع مقام تک پہنچنے کي طاقت و لياقت رکھتا ہے اور اس عظمت کو برداشت کرسکتا ہے۔ انسان کے علاوہ اس درجہ اعليٰ تک پہنچنے کي طاقت نہ تو بلند و بالا پہاڑوں کو ہے جو اپنے سر آسمان کي طرف اٹھائے ہوئے ہيں اور نا ہي اس درجہ تک پہنچنے کي قوت و قدرت اس نيلگوں آسمان کو ہے جس کي عظمت کو ستاروں اور کہکشاوں کے بے حد حساب نظام چار چاند لگا رہے ہيں۔

انا عرضنا االامانة عليٰ السموت والارض والجبال فابين ان يحملنها واشفقن منها و حملها الانسان

ہم نے امانت کو پيش کيا آسمانوں ۔۔۔۔ اور زمين اور پہاڑوں پر ۔۔۔ پر انہوں نے انکار کيا کہ وہ اس امانت کو نہيں اٹھائيں گے اور وہ اس سے ڈرے اور انسان نے اس امانت کو اٹھاليا ۔۔۔۔ (سورہ دخان ٧٢)

آسمان بار امانت نتوانست کشيد

قرعہ فال بنام من ديوانہ زدند

آسمان بار امانت کو نہ اٹھا سکا

قرعہ ہم ديوانے انسانوں کے نام آگيا

واصطنعتک لنفسي

اور ہم نے تمہيں (خاص) اپنے نفس کے لئے بنايا ہے۔

اس آيہ مبارکہ ميں کہ خدا کا ارشاد اس مقصد کے راز سے تھوڑا پردہ ہٹا کر اس حقيقت کو ظاہر کررہا ہے کہ انسان کي غرض خلقت کيا ہے وہ لوگ جو زندہ دل ہيں ، پروانے کي مانند شمع کے شعلہ سے جو شعلہ الہي سے جل کر خود کو اس کے سامنے فنا کرديتے ہيں۔

٣۔ انسانيت کا يہ اعليٰ کمال کيونکہ حاصل کيا جائے ، اس سلسلے ميں بہت سے نظريے اور پروگرام پيش کئے گئے۔ ان نظريوں اور پروگراموں کو پيش کرنے والے لوگ اس بات کے دعويدار تھے کہ ہم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ہيں۔ ان ميں انبيائ بھي تھے اور غير انبيائ بھي۔ ان کے دعووں کے سلسلے ميں ہماري غرض يہ نہيں ہے کہ کوئي تفصيلي گفتگو يہاں کريں۔البتہ ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ ہم نے گہري فکر کي ، ہر پہلو پر غور کيا اور ديکھا کہ وہ نظام جس کے پيش کرنے والے انبيائ کے علاوہ دوسرے طبقے کے لوگ تھے ، اس ميں جو باتيں بيان کي گئي ہيں ان کا ايک جملے ميں خلاصہ کيا جاسکتا ہے کہ ان پروگراموں اور نظاموں ميں سے کوئي ايک بھي ان دو خرابيوں سے خالي نہ تھا۔

١۔ بعض خوبيوں کي طرف ضرورت سے زيادہ توجہ دلائي گئي تھي اور (٢) بعض خوبيوں کي طرف توجہ دلانے ميں کوتاہي کي گئي تھي۔ اس لحاظ سے ان کا نظريہ اور نظام اس قابل نہ تھا کہ جو انسان کے کامل بننے کي بھوک کو مٹاسکے۔ ہر انسان ميں يہ بھوک موجود ہے اور تمام انسان بغير اس بھوک کو سير کيے دنيا سے چلے جاتے ہيں۔

اسي اثنائ ميں ہم نے ديکھا کہ خدا کا پيغام لانے والے اور اس کي طرف سے رہبري کا عہدہ لے کر آنے والے انبيائ نے (ہميں) يہ بتايا کہ انسان کي روح و باطن کا کمال صرف اس چيز ميں ہے کہ وہ خدا کي عبادت کرے اور اس کي بندگي ميں مصروف رہے چنانچہ اس سلسلے ميں ہم ۔۔۔ شيعوں کے پيشوا کے بيان کو نقل کررہے ہيں کہ انہوں نے فرمايا :

بندگي وہ جوہر ہے ۔۔۔۔ جس کے اندر چھپا ہوا راز تربيت ہے ۔

عبادت کرنے سے ہمارے باطني کمالات خود بخود تربيت پانے لگتے ہيں ۔ يعني خدا کي بندگي روح کا چمکتا ہوا موتي ہے اور جو بھي اس چمک کي روشني ميں آگے بڑ ھے گا وہ بارگاہ الہي کي ربوبيت کے حرم ميں پہنچ جائے گا يا يوں کہا جائے کہ خدا کے بتائے ہوئے روح کے اس کارخانے تک پہنچ جائے گا جہاں روحوں کو اعليٰ درجے کو تربيت دے کر انہيں باکمال فرد کي حيثيت سے اس دنيا سے اس دنيا تک جانے کے قابل بنايا جاتا ہے۔

اے خدا ۔۔۔ تيري محبت کي قسم ! اگر تو مجھے اپنا بندہ قبول کرلے تو ميں دنيا اور سارے جہانوں کي بادشاہت کو ترک کردوں گا ۔ (فارسي شعر کا ترجمہ)

حديث صحيح جو شيعہ اور سني علمائ نے رسول خدا سے نقل کي ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمايا :

بندہ جن چيزوں سے ميري بارگاہ ميں قربت حاصل کرتا ہے ان ميں سب سے زيادہ جو بات مجھے محبوب ہے وہ ۔۔۔ وہ واجبات ہيں جو ميں نے اس پر فرض کيے ہيں اور يہ بندہ پھر ميري اور قربت کو حاصل کرتا ہے نافلہ ادا کرکے يہاں تک کہ ميں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس جب ميں اس سے محبت کرنے لگوں تو ميں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کي آنکھيں بن جاتا ہوں جن سے وہ ديکھتا ہے ، اس کي زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ قوت کے جوہر دکھاتا ہے۔

يعني اس کے کان ميں وہي آوازيں پڑتي ہيں جو اس کے لئے مفيد ہوتي ہيں اور جسے خدا چاہتا ہے کہ يہ بات اس کے کان ميں آئے۔ اسي طرح وہ وہي چيزيں ديکھتا ہے جسے خدا چاہتا ہے کہ بندہ اسے ديکھے اور اس کي زبان سے ايسي باتيں نکلتي ہيں کہ وہ خود بھي سمجھتا بلکہ خود اس کي زبان سے ادا کرديتا ہے اور اس کے ہاتھ سے ايسے کام انجام پاتے ہيں کہ جسے وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے يہ کام انجام نہيں دئيے بلکہ کسي غيبي طاقت نے اس سے يہ کام کرايا ہے۔

بندہ خدا سے بہت زيادہ قربت کي وجہ سے اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس کا کان ، آنکھ، زبان اور ہاتھ ہوجاتا ہے۔

٤۔ تمام عبادات ميں نماز ايک عظيم فريضہ ہے بلکہ اگر يوں کہا جائے تو زيادہ بہتر ہوگا کہ اسلامي باتوں کي تربيت کا عالي ترين مکتب اور درسگاہ ۔۔۔ نماز ہے ۔

خدا نے عبادت کي اس قسم کو اس لئے ايجاد فرمايا ہے کہ بندہ اس عبادت کے ذريعہ اپنے خدا سے رشتہ جوڑ ليتا اور وہ اپني بندگي کي بنيادوں کو مضبوط و مستحکم کرليتا ہے۔ نماز اگر سمجھ کر پڑھي جائے تو اس سے نما گذار کے دل ميں وہ طاقت پيدا ہوجائے گي کہ اس کا دل گناہ کے مقابل اس کي سخت حفاظت کرے گا اور يہ دل مشکلات ميں بالکل پريشان نہ ہوگا بلکہ مردانگي کے ساتھ ثابت قدم رہے گا ۔ قرآن ميں ہے کہ

ان الصلاة تنهيٰ عن الفحشائ والمنکر

يقينا نماز روکتي ہے ۔۔۔ فحش باتوں اور منکرات سے ۔ (سورہ عنکبوت ٤٥)

واستعينوبالصبر والصلوٰة

مدد حاصل کرو ۔۔۔ صبر اور نماز سے ۔ (سورہ بقرہ ٤٥)

بہت سے لوگ يہ سوال کرتے ہيں کہ يہ عبادت کيوں بجالائي جائے؟ کيا خدا ہماري عبادات کا محتاج ہے کہ ہم اس کي تکليف دور کرنے کے لئے اس کي عبادت کريں؟

اس قسم کا سوال کرنے والے اپنے ذہن ميں يہ تصور کرتے ہيں کہ خدا کو ہماري عبادت سے کوئي فائدہ يا خوشي حاصل ہوتي ہے اور وہ اپني خوشي يا حاجت کي تکميل کے لئے ہم سے اپني عبادات کراتا ہے۔۔۔ جبکہ حقيقت ميں يہ فکر کي بہت بڑي غلطي ہے۔ ہم عبادت اس لئے بجا نہيں لاتے کہ خدا کي کسي پريشاني کو دور کريں۔ ہم اس کي اطاعت کريں يا اس کي نافرماني کريں۔۔۔ اس سے کوئي نفع يا نقصان ذات الہي کو نہيں پہنچتا۔ حضرت علي نے ھمام کو خطبہ ديتے وقت شروع ميں يہ فرمايا تھا :

اللہ تعاليٰ نے مخلوقات کو خلق کيا ہے اور وہ غني ہے۔ اسے نہ ان کي اطاعت کي کوئي حاجت ہے اور نا ہي مخلوقات کي معصيت سے کسي پريشاني ميں مبتلا ہوتا ہے کيونکہ خدا کو اطاعت کرنے والوں کي اطاعت سے نا کوئي فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نا ہي معصيت کرنے والے کي معصيت سے کوئي نقصان ۔

گر جملہ کائنات کافر گردند

بردامن کبرياش ننشيند گرد

( اگر تمام کي تمام کائنات کافر ہوجائے تو بھي خدا کي بزرگي کے دامن ميں ايک دھبہ بھي نہيں آئے گا)

ہماري عبادت کا مقصد يہ ہے کہ ہماري روح و جان کي تربيت ہو اور وہ کمال تک پہنچيں يعني عبادت کي غرض يہ ہے کہ ہم اپني روحاني قدرتوں کو سمجھيں ۔۔۔۔ انہيں استعمال کريں۔۔۔ اور ان سے لذت اٹھائيں اور ان تمام روحاني قدرتوں کا سر چشمہ ۔۔۔۔ خدا کي عبادت و بندگي ۔۔۔۔ ہے۔ان تمام عبادات کا مقصد يہ ہے کہ ہمارے دل کي تاريکي چھٹ جائے اور ہمارے دل کي باطني کيفيات خدا کي حکمت والي باتوں کو سمجھ کر خدا کي حکمت کے نور سے بھر جائيں اور انسان کا دل اس قابل ہوجائے کہ وہ حق کي باتوں کے جلووں کو سمجھ سکے اور عشق الہي کا نور اس کے باطن ميں پيدا ہو۔

٥۔ بہت سے نماز پڑھنے والے نماز پڑھنے ہيں۔۔۔۔ ليکن وہ نہيں جانتے کہ کس وجہ سے نماز پڑھ رہے ہيں ؟ انہيں نماز سے کيا فائدہ پہنچے گا ؟ انہيں نہيں علم کہ نماز ان کے باطن اور روح ميں کيا عظيم تبديلياں پيدا اور انقلاب رونما کرسکتي ہيں۔ ہم اس بات کو زيادہ واضح طور سے يوں بيان کرسکتے ہيں کہ وہ خود نہيں سمجھتے کہ وہ نماز کيوں پڑھ رہے ہيں اور وہ عظيم الشان اغراض و مقاصد سے خود غافل ہيں لہذا انہيں نماز سے کوئي فائدہ نہيں پہنچتا اور نا ہي يہ عبادت بزرگ ان کي روحانيت پر کوئي اثر ڈالتي ہے يا اگر بہت معمولي سا بھي اثر ڈالتي ہے تو اس سے کوئي نماياں فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ چنانچہ رسول اکرم ايک شخص کے بارے ميں جو جلدي جلدي نما پڑھ رہا تھا ، ارشاد فرمايا :

’’ يہ شخص ايسے ٹھونگے مار رہا ہے جيسے کوا ٹھونگے مارتا ہے۔‘‘

جس طرح کوا اپني چونچ زمين پر مارتا ہے اسي طرح نمازي نے بے سوچے سمجھے اپني نماز شروع کردي اور بے سوچے سمجھے اسے ختم کرديگا۔ البتہ اس نماز پڑھنے والے کو اپني نماز سے کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا اور نا ہي نماز اس کے دل کو روشن و نوراني کرسکے گي ۔۔۔ اور نا ہي اسے انسانيت کي طاقت دے سکے گي اسي وجہ سے ہم قرآن ميں ديکھتے ہيں کہ خدا کا ارشاد ہے :

نماز ۔۔۔۔ نماز ي کو فحش و منکرات سے روکتي ہے۔ (سورہ عنکبوت ٤٥)

ليکن ہم ميں سے لوگوں کي ايک کثير تعداد ہے جو سالہا سال سے نماز پڑھ رہي ہے ليکن ہماري روح ميں اتني چھوٹي سي بھي طاقت پيدا نہيں ہوئي کہ ہم خود کو معمولي سے معمولي گناہ سے بھي روک سکيں۔ اس بحث سے ہم اس نتيجے کو حاصل کرسکتے ہيں کہ حقيقت ميں ہم نے بالکل نماز نہيں پڑھي بلکہ جو کچھ ہم بجالاتے ہيں وہ صرف نماز کي ظاہري شکل و صورت ہوتي ہے۔

انسان کي اسي حاجت کو پورا کرنے اور اس کے روحاني نقصانات و آفات کو دور کرنے کے لئے اسلام کے بزرگ علمائ نے اس عظيم الشان عبادت کي باطني خوبيوں کو ظاہر کرنے۔۔۔۔ باطني آداب سے آگاہ کرنے اور روحاني اچھائيوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بہت سي کتابيں لکھي ہيں۔

١۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ تاليف شہيد ثاني ( شہيد زين الدين)

٢۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ از حکيم و عارف اعليٰ قاضي سعيد قمي

٣۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ از عارف و زاہد فقيہہ ( مجتہد) کامل مرحوم حاج مرزا جواد ملکي

تبريزي استاد گرانقدر حضرت امام خميني رضوان اللہ عليہ

٤۔ اسرار الصلوٰۃ۔۔۔۔۔۔ از باني حکومت جمہوري اسلامي ايران حضرت امام خميني رضوان اللہ

عليہ

٥۔ آداب الصلوٰۃ۔۔۔۔۔ از فقيہہ کامل عارف رباني حضرت امام خميني رضوان اللہ عليہ

٦۔ اور کتاب مبارک ۔۔۔۔ از ژرفاي نماز ( نماز کي گہرائياں) ۔۔۔۔ از مجموعہ تقارير رہبر معظم

انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہٰ اي دامت برکاتہ

جس شخص کي بھي يہ خواہش ہو کہ اس عظيم عبادت کے کچھ اسرار و آداب سے آگاہي حاصل کرے اس پر لازم ہے کہ جن کتابوں کا ميں نے تذکرہ کيا ہے ، ان کا مطالعہ کرے۔

اپنے مضمون کے اختتام پر ہم حضرت آيت اللہ العظميٰ امام خميني کي کتاب ۔۔ آداب نماز ۔۔۔۔ سے چند جملے تحرير کرکے اپنے مضمون کو نوراني کرنا چاہتے ہيں تاکہ مضمون کے آخر ميں مشک و عنبر کي مہر ثبت ہوجائے۔

خدا وندا۔۔۔۔ تيري بارگاہ ميں پہنچنے کے لئے ہمارا قدم اس قابل نہيں ہے کہ اس عظيم اور اعليٰ منزل تک پہنچ سکے۔

خداوندا ۔۔۔ ہمارا طلب کرنے والا ہاتھ اس قابل نہيں کہ تيري محبت و انسيت کو چھوسکے۔

خداوندا۔۔۔ ہمارے دل پر شہوت و غفلت کے پردے بڑھے ہوئے ہيں، ہمارے دل پر شيطان اور محبت دنيا کے غليظ حجاب پڑے ہيں اور جن کي وجہ سے ہماري بصيرت قلبي تيري ذات ، عظمت اور جلال کي طرف توجہ نہيں کرپاتي۔

آخرت کا راستہ باريک اور انسانيت کا طريقہ حديد ( سخت ) ہے۔

ہم بے چارے مکڑي کے جالے کي طرح اپني حقير فکر کے تانے بانے ميں پھنسے ہوئے ہيں۔ ہم وہ حيران لوگ ہيں جنہوں نے ابر يشم کے کيڑے کي طرح اپنے چاروں طرف شہوتوں اور آرزووں کا جال بن ليا ہے اور خود اپنے ہي جال ميں پھنس گئے ہيں۔

اور ہميں بالکل پتہ نہيں۔ کہ بارگاہ الہي کے غيب کي باتيں کيا ہيں اور اس کي بارگاہ سے عشق و محبت کے کيا مزے ہيں؟

( صرف ايک ہي صورت ہے اور وہ) صرف يہ کہ تو اپنے جلوے سے ہمارے دل کو روشني عنايت فرما اور اپني غيبي چمک سے ہماري خودي کو بے خودي ميں بدل دے۔

مولا علي فرماتے ہيں:

الهي هب لي کمال الا نقطاع اليک وانر ابصار قلوبنا بضيائ نظرها اليک حتيٰ تخرق ابصار القلوب حجب النور فتصل الي معدن العظمة و تصير ارواحنا معلقة بعز قدسک (مناجات شعبانيہ)

’’ ميرے معبود ۔۔۔ مجھے مکمل طور سے سب چيزوں سے دل کو توڑ کر صرف تيري محبت والا بنادے اور ہمارے دل کي آنکھوں کو وہ روشني دے جس سے تو نظر آئے اور وہ روشني دے جس سے نور کے پردوں کو ہم چاک کرديں۔۔۔ اور براہ راست تيري عظمت کے خزانے سے متصل ہوجائيں۔۔ اور ہماري روحيں تيري مقدس عظمت کے درجے سے وابستہ ہوجائيں۔‘‘

(مناجات شعبانيہ)

بسم الله الرحمن الرحيم

نماز ۔۔ بندے اور خدا کے درميان رابطہ

نماز ۔۔۔ معبود حقيقي کي بارگاہ ميں دل کي گہرائيوں کے ساتھ سر جھکانا اور انسان و خدا کے درميان ربط قائم کرنا ہے اس رابطہ کا تعلق پيدا کرنے والے اور پيدا ہونے والے سے ہے۔نماز تسلي دينے کے ساتھ ساتھ ہمارے پريشان اور تھکے ہوئے خستہ حال دلوں کو آرام و سکون عطا کرتي ہے۔ نماز ہمارے باطن کو صاف ، آلودگي سے پاک اور نور خدا سے روشن کرتي ہے۔

نماز بندے کا خدا سے عہد و پيمان ہے، نماز خدا کے راستے پر چلنے کے لئے تحريک پيد اکرنے والي ہے اور اس حالت کے لئے آمادہ کرتي ہے جو دھوکہ اور فريب سے پاک ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہيں تاکہ ہر برائي و بدي کو دور کريں اور اس کے ذريعے سے ہر خير و خوبي اور جمال ملکوتي کو حاصل کريں۔نماز اپنے وجود سے آگاہ ہونے اور اسے حاصل کرنے کا نظام ہے۔ مختصر يہ کہ نماز اس ذات سے رابطہ قائم کرنے اور مسلسل فائدہ حاصل کرنے کا نام ہے جو تمام کمالات کا سر چشمہ ہے۔ نماز اس ذات سے رشتہ جوڑنا ہے جو تمام خوبيوں اور نيکيوں کا خالق ہے يعني خدا۔

ہمارے ذہنوں ميں اکثر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ

٭ نماز کو اہم ترين واجبات ميں کيوں شمار کيا جاتا ہے؟

٭ کيا وجہ ہے کہ نما زکو دين کي بنياد قرار ديا گيا ہے؟

٭ کيا وجہ ہے کہ نماز کو اس قدر اہميت دي گئي ہے کہ ارشاد ہوا کہ اگر نماز قبول نہيں ہوئي

تو کوئي عمل قبول نہيں ہوگا!

٭ دوسري تمام عبادات کے مقابلے ميں آخر نماز ميں کيا خاص چيز ہے جس کي وجہ سے وہ تمام

عبادات ميں سر فہرست ہے؟

٭ اور وہ کيا را ز ہيں جن کے پيش نظراسلام نماز کو بہت اہميت کے ساتھ بيان کرتا ہے؟

ہم اسلام ميں نماز کي غير معمولي اہميت کے پيش نظر اس کے مختلف پہلووں کي طرف توجہ کرسکتے ہيں مختلف کيفيات سے اسکي تحقيق اور مختلف زاويوں سے اس کے حقائق تک رسائي حاصل کرسکتے ہيں چنانچہ ہم ابتدائ ہي ميںاس نکتے کي جانب اشارہ کريں گے کہ خلقت انسان کي اصلي غرض اور اس کي زندگي کا حقيقي ہدف کيا ہے؟

انسان کے کمال کا راستہ

قادر مطلق ۔۔ جس کي ذات حکمت والي ہے ۔۔ ہم نے انسانوں کو پيدا کرکے وجود جيسي نعمت سے مالا مال کيا ہے تو لازماً اس کے معني يہ ہيں کہ خداوند عالم نے ہماري پيدائش وجود سے ہمارے لئے ايک ہدف و مقصد مقرر کيا ہے اسے ہم يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہميںايک مقرر کردہ راستے پر چلنا ہے تاکہ ہم اپني منزل و مقصد تک پہنچ سکيں، وہ تراستہ اپني اہميت کے سبب باريک ہے اوراس کے وسائل بھي معين شدہ ہيں۔

اس لحاظ سے ہميں چاہئيے کہ ہم اس راستے کي معرفت حاصل کريں جو ہماري منزل تک جاتا ہے اور ساتھ ساتھ يہ بھي سمجھيں کہ وہ مطالب و مقاصد کيا ہيں جن کو حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر چلنا ضروري قرار ديا گيا ہے تاکہ اپنے راستے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتيجے پر پہنچيں کہ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمايا ہے۔

پس جو شخص اس راستے پر قدم اٹھالے تو اسے چاہئيے کہ وہ صرف اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرے لہذا جب انسان کو اپنے مقصد تک جانے والي راہ کي اہميت کا اندازہ ہوگا تو اسے يہ خيال ہوگا کہ اس راستے ميں انحرافات اور اس کے عزم و ارادے کو کمزور اور متزلزل کرنے والے خيالات کہيں اسے اپنے جال ميں پھنسا کر راہ مستقيم سے ہٹا نہ ديں چنانچہ اسے اپنے ہدف و مقصد کو پانے کي جدوجہد کو جاري رکھنے اور کم ہمتي اور حوصلہ شکني سے اس کي حفاظت کرنے کے لئے رہبر و ہادي کے احکامات سے ہدايات حاصل کرنے کي ضرورت ہے چنانچہ وہ رہبر اول ۔۔۔ کہ جس نے انسانوں کو ان کے ہدف و مقصد تک پہنچانے کے لئے راستہ مقرر کيا ۔۔۔۔۔ يعني خدا کے پيغمبر کي تعليمات سے ذرہ برابر منہ نہ موڑے اور وہ ان کے مرتب کردہ اصول و قوانين سے ہرگز انحراف نہ کرے۔

وہ مقصد ۔۔۔۔ کہ جو انسان کا مقام کمال ہے۔۔۔ کتنا ارفع و اعليٰ ہے يہي ہے کہ انسان کو اس دنيا سے واپس خدا کي جانا ہے جس کے لئے نماز کو مقرر کيا گيا ہے انسان کي پيدائش کي اصلي غرض يہي ہے کہ وہ نيک صفات جو انسان ميں پوشيدہ ہيں ظاہر ہوں اور باطن ميں پنہاں کمالات جلوہ افروز ہوں تاکہ انسان کي تمام صلاحيتيں اور کمالات عملي ہوجائيں اور وہ نيکي کے راستے پر گامزن ہوکر اپني ذات ، تمام دنيا اور تمام انسانيت کو نيک بنائے۔ ليکن لازم ہے کہ انسان اللہ کي معرفت کے ساتھ ساتھ اس راستے کي بھي معرفت حاصل کرے جسے خداوند عالم نے ہم انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے مقرر کيا ہے تاکہ اسے پيش نظررکھتے ہوئے سستي اور کاہلي کئے بغير اپنے مقصد و ہدف تک رسائي کے لئے جدوجہد کرے۔

وہ کام ۔۔۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد سے نزديک کرتے ہيں انہيں انجام دينا اور وہ کام۔۔۔۔۔ جو انحرافات و گمراہي سے پر اور انسان کي منزل کي راہ ميں رکاوٹ ہيں۔۔۔ انہيں ترک کرنا يہي وہ طريقہ ہے جو انسان کو اس کي زندگي کے معاني سمجھاتا ہے کہ اس مقرر کردہ خدائي راستے پر چلنا ہي اس کي زندگي کا حقيقي فلسفہ ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے ان کاموں کو انجام نہيں ديا جو ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے نزديک کرتے ہيں اور ان افعال سے دوري اختيار نہيں کي جو نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے دور کرديتے ہيں تو حقيقتاً ہماري زندگي بے معني ہوجائيگي کہ جس کے گزارنے کا ہميں کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا۔

ہم اپني بات کو دوسرے الفاظ ميں يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہماري زندگي ايک کلاس يا کمرہ امتحان کي مانند ہے جہاں ہميں چاہئيے کہ کائنات خلق کرنے والي اور ہميں زندگي عطا کرنے والي ذات نے جو قوانين و فارمولے بنائے ہيں ان پر عمل کريں تاکہ اپني دلي مراد اور نتيجہ اعليٰ تک پہنچ سکيں۔ ہم ان قوانين کو الہي سنتيں اور پيدائش کے (فطري) قوانين کہہ سکتے ہيں چنانچہ ہميں چاہئيے کہ عالم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ان قوانين کي معرفت حاصل کريں اور ان کے مطابق اپني زندگي بسر کريں۔

ان تمام باتوں کو عملي جامہ پہنانے کے لئے ضروري ہے کہ ہم اپني ذات کي معرفت حاصل کريں اور يہ بھي جانيں کہ خداوند عالم نے ہمارے باطن ميں کون کون سے کمالات پوشيدہ کئے ہيں اور ہميں اپني منزل تک پہنچنے کے لئے کن کن چيزوں کي ضرورت ہے يہي انسان کي سب سے بڑي مسؤليت اور ذمہ داري ہے اور اسي ذمہ داري کو احسن طريقے سے نبھا کر انسان کو يہ قدرت حاصل ہوگي کہ اس کي اپنے مقصد کو حاصل کرنے کي جدوجہد ۔۔۔۔۔ ہوشياري کے ساتھ ہو اور اس کي جدوجہد ميں خدا کي توفيقات شامل ہوں۔ ليکن اگر ہم نے اس الہي راستے کي ، جو ہمارے کمال کا راستہ ہے۔۔۔۔ معرفت حاصل نہيں کي اور ان قوانين کے مطابق ۔۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہمارے کمال کے لئے مقرر کئے ہيں۔۔۔ عمل نہيں کيا اس کا مطلب ہے کہ ہماري زندگي ميں جمود ہي جمود ہے ہاں اگر ہم نے معرفت کے بغير جدوجہد کي يا قہراً تو نہ خدا کي توفيق شامل ہوگي اور نہ ہي ہم اپنے مقصد کو حاصل کرسکيں گے۔

ياد خدا

دين ہميں يہ بتاتا ہے کہ ہمارا مقصد و ہدف کيا ہونا چاہئيے ، ہميں کس رخ پر عمل کرنا چاہئيے اور ہم کن وسائل سے اپني منزل تک پہنچ سکتے ہيں اور صرف يہ بيان ہي نہيں کرتا ہے بلکہ قوت بھي ۔۔۔۔۔ جو ہماري جدوجہد کے لئے از حد ضروري ہے ۔۔۔ دين ہي انسان کو عطا کرتا ہے اور وہ اہم ترين توشہ راہ اور سامان ۔۔۔ جو ہماري گھٹڑي ميں ہے۔۔ ياد خدا ہے۔

چند چيزيں و روح انسان کے لئے ضروري ہيں وہ ’’ طلب (خواہش) ‘‘ اميد اور ’’اطمينان ‘‘ہے۔ طلب ( خواہش ) ، اميد اور اطمينان وہ مضبوط و توانا پر ہے جن کے ذريعے انسان اپني منزل کي طرف پرواز کرتا ہے اور ان کا مبدا و منبع ياد خدا ہے ياد خدا ہي کي وجہ سے انسان خواہش بھي رکھتا ہے ، اسے اميد بھي ہوتي ہے اور اطمينان بھي۔ ياد خدا ہميں ہمارے مقصد کي طرف متوجہ کرتي ہے۔ جو خدا تک پرواز ہے۔

خدا تک پرواز سے کيا مراد ہے؟ يعني تمام خوبيوں اور کمالات تک پرواز ۔ ياد خدا ہي کي وجہ سے ہم متوجہ رہتے ہيں کہ ہميں کامل بننا ہے۔ ياد خدا ۔۔ ہماري اپنے مقصد کے حصول کي جدوجہد کي حفاظت کرتي ہے کہ کہيں ہم کج ر وي کي طرف مائل ہو کر اپنے مقصد سے دور نہ ہوجائيں۔

ياد خدا راہيان کمال کو ان کے راستے اور وسيلے کے بارے ميں ہوشيار کرتي ہے اور انہيں احساس رہتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہيں اور ان کا راستہ کون سا ہے؟ ياد خدا۔۔۔۔ ہمارے قلوب کو قوت ، تازگي اور اطمينان عطا کرتي ہے۔ ياد خدا اس سلسلے ميں بھي ہماري معاونت کرتي ہے کہ کہيں ہم دنياوي جلووں اور ان کي ظاہري چمک دمک ميں دل نہ لگا بيٹھيں اور نہ ہي زندگي کے مسائل اور نشيب و فراز ہماري راہ ميں رکاوٹ بنيں۔

ايک اسلامي معاشرے ميں ايک گروہ يا ايک مسلمان اگر يہ خواہش رکھتا ہے کہ

ميں اس راستے پر چلوں جو اسلام نے انسانوں کے کمال کے لئے مقرر کيا ہے

ان اصول و قوانين پر عمل پيرا ہوں جن پر تمام پيغمبران نے عالم انسانيت کو عمل کرنے کي دعوت دي

اس راستے کا مسافر بنوں جس ميں رکاوٹيں اور مزاحمتيں نہ ہوں کہ ان سے گھبرا کر منزل پر پہنچنے سے قبل ہي واپس پلٹ آوںاور اس کي يہ بھي خواہش ہو کہ صراط مستقيم پر ميرے قدم ثابت رہيں

تو خواہ وہ ايک گروہ ہو يا فرد واحد، اس کے لئے ضروري ہے کہ وہ ہميشہ خدا کو ياد رکھے اور اس کي يا سے کبھي منہ نہ موڑے اور اسي وجہ سے دين کي ۔۔ جو انسانوں کو منزل کمال تک پہنچانے والے قوانين کا مجموعہ ہے۔۔۔۔ ہميشہ سے يہ کوشش رہي ہے کہ مختلف راستوں اور وسيلوں سے ايسے حالات پيدا کرے کہ ايک ديندار کے دل ميں ياد الہي کا سورج ہميشہ چمکتا دمکتا رہے اور اس کي روشني سے اسکي روحاني دنيا ہميشہ منور رہے۔

انہي اعمال ميں سے۔۔۔۔ جو دين نے ہم انسانوں کے کمال کے لئے ضروري قرار دئيے ہيں ايک عمل ايسا ہے جو ياد خدا سے لبريز اس کي نورانيت سے منور اور انسان کو ياد خدا کے دريا ميں غرق کرنے والا ہے اور وہ عمل انسان کو بيدار اور اسے اس کي ذات سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ عمل شاخص يا علامت و نشاني کے مثل ہے کہ خدائي راستے پر چلنے والے اس شاخص يا علامت و نشاني کو ديکھتے ہوئے ’’ صراط مستقيم ‘‘ پر ثابت قدم اور انحرافات و گمراہي سے دور رہيں اور وہ عمل جو انسان کي زندگي ميں سر اٹھانے والي دنياوي غفلت سے ہر آن اور ہر لمحے برسرپيکار ہے ’’ نماز‘‘ ہے۔

نماز انسان کو بيدار کرتي ہے

انسان کو ذہن ہر وقت زندگي کے مسائل ميں الجھا رہتا ہے جب کہ اس کي فکر مختلف امور ميں مصروف و مشغول رہتي ہے اور شاذ و نادر ہي ايسا ہوتا ہے کہ انسان کبھي اپني ذات کي طرف متوجہ ہو يا کبھي اسے خيال ہو کہ ميري زندگي کا کيا مقصد ہے يا کبھي وہ اپنا حساب کرے کہ ميري زندگي کے لمحات جو گزر گئے وہ کيسے گزرے اور يہ دن گزر رہے ہيں ان ميں کيا تياري کررہا ہوں چنانچہ ہماري زندگي ميں کتنے ہي ايسے دن ہيں جو اپنے انجام يعني رات کي تاريکي ميں گم ہوجاتے ہيں اور دوسرا دن اپنا سفر شروع کرديتا ہے۔ کڑيوں سے ملتي رہتي ہيں ، دن و رات دوڑ ميں ہفتے اور مہينے گزر جاتے ہيں اور انسان کي زندگي سالوں کے گرد و غبار ميں مٹتي چلي جاتي ہے اور انسان يہ خيال بھي نہيں کرتا کہ کب صبح ہوئي اور کب شام ؟ کتني باطل پرستي ہے کہ انسان ان باتوں کا احساس بھي نہيں کرتا اور وقت گزرتا جارہا ہے ۔

نماز ايک گھنٹي ہے جو زندگي کے عظيم مقصد سے غافل انسان کو بيدار کرنے کا کام انجام ديتي ہے ، نماز انسان کو دن و رات کے مختلف اوقات ميں بيدار کرتي ہے اور اس کي زندگي کو بہتر طور پر گزارنے کا پروگرام ديتي ہے ۔۔۔ نماز انسان سے يہ کہتي ہے کہ تم يہ عہد کرو کہ مجھے تمام کمالات حاصل کرنے ہيں۔ نماز۔۔۔۔ انسان کو متوجہ کرتي ہے کہ تمہارے دن اور رات بيکار نہيں ہيں۔ يہ نما ہي ہے جو انسان کو اس کے گذرے ہوئے لمحات کا حساب کرنے پر آمادہ کرتي ہے ايسي زندگي کہ جس ميں انسان مادي مسائل اور ہنگاموں ميں پھنسا رہتا ہے اور اسے يہ احساس بھي نہيں ہوتا کہ زمانہ اپنا سفر کتني تيزي سے طے کررہا ہے اور وقت کي چکي ميں اس کي زندگي کے شب و روز پس پس کر اس کي زندگي کو ختم کررہے ہيں۔ نماز انسان کو متوجہ کرتي ہے اور اسے سمجھاتي ہے کہ تمہاري زندگي کا ايک اور دن رات کي تاريکي ميں گم ہوگيا جو کبھي پلٹنے والا نہيں اور ايک نئے دن کا آغاز ہوگيا کہ معلوم نہيں کہ تم اس کا انجام ديکھ سکو گے يا نہيں نماز ہي انسان کو خواب غفلت سے جھنجھوڑ تي ہے کہ تم بيکار پيدا نہيں کئے گئے ہو بلکہ تمہارے کندھوں پر ايک عظيم ذمہ داري اور عہدہ ہے تمہيں اہم ترين کام انجام دينے ہيں لہذا تم اپنا وقت برباد مت کرو۔۔۔ نماز ہي انسان کو ہوشيار کرتي ہے کہ تمہاري زندگي کا ايک بڑا حصہ بيکار گزر چکا ہے تو اب جو تمہاري عمر باقي ہے تمہيں چاہئيے کہ اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد ميں لگے رہو۔

واقعہ غدیر کاپیش خیمہ

غدیر کاعمیق مطالعہ کر نے کےلئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معا شرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہو نا ضروری ہے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سا تھ کون لو گ تھے ؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے ؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ؟

یہ فکری آمادگی واقعہ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کاتجزیہ و تحلیل کر نے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔

۱.ہجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل

دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت( ۱ )

دین اسلام آخری دین ہے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰہی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ہے جو کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ہیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ہمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے

اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خا تم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آہستہ آہستہ بیان فر ما تے تھے اور ہر اقدام سے پہلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے ۔جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہو تا جاتا تھا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لو گو ں کے سامنے بیان فر ما تے تھے ،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رہا ۔

ہجرت سے پہلے مسلمان( ۲ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی اور اس کی وجہ ظا ہر ی طور پر اسلام کاکمزور ہوناتھا ،لہٰذا دنیوی خواہشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہو تے تھے ۔

اگر چہ اس دور میں بھی کچھ منا فقین اپنا مستقبل بنا نے کی غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاہلیت والے مقاصدکوحاصل کرنے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات کو نابود کر نے کےلئے دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کر تے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔

ہجرت کے بعد مسلمان( ۳ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراہم ہو جا نے کے بعدروز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گا مزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی توساراقبیلہ مسلمان ہو جا تا تھا ۔مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو تے تھے اور اسلام قبول کر تے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رہی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گرو ہوں کو اپنے اندر جگہ دے رہا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کر نے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفا ظت کے لئے اسلام قبول کر نے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔

اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خوا ھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔

فتح مکہ کے بعد مسلمان( ۴ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزیدپیچیدہ ہوگئی۔یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔

حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ( ۵ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ خواہشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کامقصددنیاحا صل کر نا تھا۔

کچھ افراد کی افکار پر دور جا ہلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھااس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہو تا جا رہا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انہیں اسباب کی دین تھی۔

مسلم معا شرے میں منا فقین( ۶ )

مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انہیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔

یہ گروہ بعثت کی ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ہی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رہے تھے اور اسلام کی ظاہر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مہلک وار کر تے تھے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ہیں ۔ اگر ہم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی تر تیب کا جا ئزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سالو ں میں نا زل ہو ئی ہیں ۔( ۷ )

منافقین ظا ہر ی طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئےں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ہم اس ہدف کو آسانی سے نہیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ہے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔

انھوں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں ۔( ۸ )

غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد

جو چیزاس ماحول میں منا فقو ں کی سازشوں کو بالکل نیست و نا بود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کے جا نشین کااعلان تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ہر منا سب مو قع پراس کا اعلان فر ما یا تھا یھاں تک کہ متعدد مر تبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منینعليه‌السلام کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔

اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پہلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہو نے کا حکم دیا اور فر مایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کر تے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ہے اور مجھ کو امر اور نھی کر تا ہے اور میںخدا وند عالم کے قو ل کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں رکھتا“؟

انھو ں نے کہا :ھاں ، یا رسول اللہ ۔آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیا دہ حا کم نہیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتاہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔

فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ہیں یہ تم کو امر و نھی کر نے کا حق رکھتے ہیں اور تمہیں ان کو امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ۔خدایا علیعليه‌السلام کے دوست کو دوست رکھ اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کر ے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاہد ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رہا۔

اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مر تبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :تم میں کون شخص اس عہد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کہا : ہم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ہیں اگر ہم اپنے عہد سے پھریں۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کاغذکو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجودسب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علیعليه‌السلام اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عہد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنا ناتا کہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔( ۹ )

ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کو قا نونی طور پر اپناجانشین و خلیفہ معین فر ما نے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایا م میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رہے تھے ۔

قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کر نے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیااور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔( ۱۰ )

حضرت فا طمہ زھراءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں فر ما تی ہیں :

”وَ اللهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “ ( ۱۱ )

”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علیعليه‌السلام کےلئے محکم و استوار فرما یا تا کہ اس طرح تمھا ری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جا ئیں “

غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میںمسلمانوں کے پھیل جا نے کے بعدقیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرا یا ۔

اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیاا ور امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوںکے اکثر افرادنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔یھی غدیر کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف تھا ۔

اگر چہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جا مہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ہی نور ہے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے با وجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ہر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کودنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ہے ۔

اسی طرح اگر عر صہ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جا نشینوں کے سا منے سر تسلیم خم نہ کیا اور نہیں کر تے ہیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالبعليه‌السلام اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جا نشین سمجھتی ہے ۔

اس مقدمہ سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ خطبہ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نہیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ ارشاد فر مایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاوں میں رہنے والوں کو اورباپ اپنی اولاد کوقیامت تک یہ خبر پہنچا تے رہیں اور سب اس پیغام کو پہنچا نے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔( ۱۲ )

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لو گو ں کے اوپر ہے کہ وہ چا ہے جنت کو اختیار کر یں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علیعليه‌السلام کو قبول کر نا یا قبول نہ کرنا ایک الٰہی امتحان ہے ۔

اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فر ما تے ہیں :

(مَثَلُ الْمُومِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهِمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهِمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ )

”غدیر خم کے دن حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت کو قبول کر نیوالے مو منین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کر نےوالے ملا ئکہ جیسی ہے ،اور ولایت امیر المو منینعليه‌السلام کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ہے ‘( ۱۳ )

اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضااور وہ حالات جن میں واقعہ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصدجوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جا تے ہیں ۔

۲. خطبہ غدیر کی اہمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہو ا ہے دیگر تمام احکام الٰہی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلا م کا یہ الٰہی حکم دوسرے تمام الٰہی احکام سے ممتاز اور اہم ہے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ہیں :

لَمْ یُنَادِبِشَيء مِثْلَ مَانُوْدِیَ بِالْوِلَایَةِ یَوْمَ الْغَدِیْر

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا “

ہم ذیل میں فھر ست وار خطبہ غدیر کی اہمیت کے اسباب بیان کر رہے ہیں :

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پہلے ہے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے نزدیک ہو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا “یعنی فرامین الٰہی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نہیں ہوا ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰہی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ہے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ہے اور احکام الٰہی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نہیں دی گئی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔

اس دستور الٰہی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰہی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن ہو گیا تھا۔

مسئلہ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ہی خطبہ کی صورت میں نہیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عہد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ہیں ۔

خطبہ سے پہلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اہمیت پر دلالت کر تے ہیں ۔

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نہیں فر مایا گیا ۔

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہیں چھو ڑا “(۱۴) نیز علماء کا ائمہ ہدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ہے ۔

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میں ممتاز اوربے مثال ہے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ہیں اور تمام مسلمان چا ہے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کااعتراف کرتے ہیں

خطبہ غدیر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند و بالا مقاصد

۱ ۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکہے گا۔

۲ ۔اسلام کو کفار و منافقین سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔

۳ ۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ہمیشہ رائج رھاہے اور تاریخ میںبطورسندثابت ہے ۔

۴ ۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔

۵ ۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔

۶ ۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اہمیت کا بہترین گواہ ہے ۔

____________________

[۱] بحا ر الانوار جلد :۱۸،۱۹،۲۰۔

[۲] بحا ر الانوار جلد :۱۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۲۴۳ ، جلد ۱۹ صفحہ ۱۔۲۷۔

[۳] بحا ر الانوار جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۴ ۔۱۳۳ ، جلد ۲۰ ،جلد ۲۱ صفحہ ۱ ۔۹۰۔

[۴] بحا ر الانوار :جلد۲۱ صفحہ ۹۱۔۱۸۵۔

[۵] بحا ر الانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۱۸۵۔۳۷۸۔

[۶] بحا رالانوار :جلد ۲۲۔اسی طرح منا فقین سے متعلق آیات ،قرآن کریم میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔

[۷] اس سلسلہ میں سورہ آل عمران ،نساء ،ما ئدہ، انفال ، تو بہ، عنکبوت ، احزاب ،محمد ، فتح ، مجا دلہ، حدید ، منافقین و حشر میں رجوع کریں۔

[۸] منافقوں کی سازشوں کی تفصیل اس کتاب کے تیسرے حصہ میں بیان کی جا ئے گی ۔

[۹] فیض الغدیر :صفحہ ۳۹۴۔

[۱۰] اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں رجوع فر ما ئیں ۔

[۱۱] عوالم : جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۸۔

[۱۲] اس سلسلہ میں خطبہ غدیر کے گیا رہویں حصہ میں رجوع کیجئے ۔

[۱۳] عوالم : جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴ ۔

[۱۴] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔

واقعہ غدیر کاپیش خیمہ

غدیر کاعمیق مطالعہ کر نے کےلئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معا شرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہو نا ضروری ہے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سا تھ کون لو گ تھے ؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے ؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ؟

یہ فکری آمادگی واقعہ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کاتجزیہ و تحلیل کر نے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔

۱.ہجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل

دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت( ۱ )

دین اسلام آخری دین ہے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰہی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ہے جو کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ہیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ہمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے

اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خا تم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آہستہ آہستہ بیان فر ما تے تھے اور ہر اقدام سے پہلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے ۔جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہو تا جاتا تھا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لو گو ں کے سامنے بیان فر ما تے تھے ،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رہا ۔

ہجرت سے پہلے مسلمان( ۲ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی اور اس کی وجہ ظا ہر ی طور پر اسلام کاکمزور ہوناتھا ،لہٰذا دنیوی خواہشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہو تے تھے ۔

اگر چہ اس دور میں بھی کچھ منا فقین اپنا مستقبل بنا نے کی غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاہلیت والے مقاصدکوحاصل کرنے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات کو نابود کر نے کےلئے دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کر تے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔

ہجرت کے بعد مسلمان( ۳ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراہم ہو جا نے کے بعدروز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گا مزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی توساراقبیلہ مسلمان ہو جا تا تھا ۔مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو تے تھے اور اسلام قبول کر تے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رہی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گرو ہوں کو اپنے اندر جگہ دے رہا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کر نے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفا ظت کے لئے اسلام قبول کر نے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔

اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خوا ھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔

فتح مکہ کے بعد مسلمان( ۴ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزیدپیچیدہ ہوگئی۔یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔

حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ( ۵ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ خواہشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کامقصددنیاحا صل کر نا تھا۔

کچھ افراد کی افکار پر دور جا ہلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھااس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہو تا جا رہا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انہیں اسباب کی دین تھی۔

مسلم معا شرے میں منا فقین( ۶ )

مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انہیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔

یہ گروہ بعثت کی ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ہی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رہے تھے اور اسلام کی ظاہر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مہلک وار کر تے تھے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ہیں ۔ اگر ہم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی تر تیب کا جا ئزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سالو ں میں نا زل ہو ئی ہیں ۔( ۷ )

منافقین ظا ہر ی طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئےں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ہم اس ہدف کو آسانی سے نہیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ہے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔

انھوں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں ۔( ۸ )

غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد

جو چیزاس ماحول میں منا فقو ں کی سازشوں کو بالکل نیست و نا بود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کے جا نشین کااعلان تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ہر منا سب مو قع پراس کا اعلان فر ما یا تھا یھاں تک کہ متعدد مر تبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منینعليه‌السلام کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔

اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پہلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہو نے کا حکم دیا اور فر مایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کر تے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ہے اور مجھ کو امر اور نھی کر تا ہے اور میںخدا وند عالم کے قو ل کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں رکھتا“؟

انھو ں نے کہا :ھاں ، یا رسول اللہ ۔آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیا دہ حا کم نہیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتاہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔

فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ہیں یہ تم کو امر و نھی کر نے کا حق رکھتے ہیں اور تمہیں ان کو امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ۔خدایا علیعليه‌السلام کے دوست کو دوست رکھ اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کر ے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاہد ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رہا۔

اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مر تبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :تم میں کون شخص اس عہد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کہا : ہم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ہیں اگر ہم اپنے عہد سے پھریں۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کاغذکو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجودسب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علیعليه‌السلام اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عہد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنا ناتا کہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔( ۹ )

ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کو قا نونی طور پر اپناجانشین و خلیفہ معین فر ما نے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایا م میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رہے تھے ۔

قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کر نے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیااور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔( ۱۰ )

حضرت فا طمہ زھراءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں فر ما تی ہیں :

”وَ اللهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “ ( ۱۱ )

”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علیعليه‌السلام کےلئے محکم و استوار فرما یا تا کہ اس طرح تمھا ری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جا ئیں “

غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میںمسلمانوں کے پھیل جا نے کے بعدقیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرا یا ۔

اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیاا ور امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوںکے اکثر افرادنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔یھی غدیر کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف تھا ۔

اگر چہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جا مہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ہی نور ہے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے با وجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ہر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کودنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ہے ۔

اسی طرح اگر عر صہ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جا نشینوں کے سا منے سر تسلیم خم نہ کیا اور نہیں کر تے ہیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالبعليه‌السلام اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جا نشین سمجھتی ہے ۔

اس مقدمہ سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ خطبہ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نہیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ ارشاد فر مایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاوں میں رہنے والوں کو اورباپ اپنی اولاد کوقیامت تک یہ خبر پہنچا تے رہیں اور سب اس پیغام کو پہنچا نے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔( ۱۲ )

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لو گو ں کے اوپر ہے کہ وہ چا ہے جنت کو اختیار کر یں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علیعليه‌السلام کو قبول کر نا یا قبول نہ کرنا ایک الٰہی امتحان ہے ۔

اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فر ما تے ہیں :

(مَثَلُ الْمُومِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهِمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهِمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ )

”غدیر خم کے دن حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت کو قبول کر نیوالے مو منین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کر نےوالے ملا ئکہ جیسی ہے ،اور ولایت امیر المو منینعليه‌السلام کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ہے ‘( ۱۳ )

اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضااور وہ حالات جن میں واقعہ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصدجوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جا تے ہیں ۔

۲. خطبہ غدیر کی اہمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہو ا ہے دیگر تمام احکام الٰہی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلا م کا یہ الٰہی حکم دوسرے تمام الٰہی احکام سے ممتاز اور اہم ہے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ہیں :

لَمْ یُنَادِبِشَيء مِثْلَ مَانُوْدِیَ بِالْوِلَایَةِ یَوْمَ الْغَدِیْر

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا “

ہم ذیل میں فھر ست وار خطبہ غدیر کی اہمیت کے اسباب بیان کر رہے ہیں :

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پہلے ہے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے نزدیک ہو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا “یعنی فرامین الٰہی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نہیں ہوا ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰہی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ہے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ہے اور احکام الٰہی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نہیں دی گئی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔

اس دستور الٰہی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰہی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن ہو گیا تھا۔

مسئلہ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ہی خطبہ کی صورت میں نہیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عہد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ہیں ۔

خطبہ سے پہلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اہمیت پر دلالت کر تے ہیں ۔

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نہیں فر مایا گیا ۔

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہیں چھو ڑا “(۱۴) نیز علماء کا ائمہ ہدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ہے ۔

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میں ممتاز اوربے مثال ہے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ہیں اور تمام مسلمان چا ہے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کااعتراف کرتے ہیں

خطبہ غدیر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند و بالا مقاصد

۱ ۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکہے گا۔

۲ ۔اسلام کو کفار و منافقین سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔

۳ ۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ہمیشہ رائج رھاہے اور تاریخ میںبطورسندثابت ہے ۔

۴ ۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔

۵ ۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔

۶ ۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اہمیت کا بہترین گواہ ہے ۔

____________________

[۱] بحا ر الانوار جلد :۱۸،۱۹،۲۰۔

[۲] بحا ر الانوار جلد :۱۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۲۴۳ ، جلد ۱۹ صفحہ ۱۔۲۷۔

[۳] بحا ر الانوار جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۴ ۔۱۳۳ ، جلد ۲۰ ،جلد ۲۱ صفحہ ۱ ۔۹۰۔

[۴] بحا ر الانوار :جلد۲۱ صفحہ ۹۱۔۱۸۵۔

[۵] بحا ر الانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۱۸۵۔۳۷۸۔

[۶] بحا رالانوار :جلد ۲۲۔اسی طرح منا فقین سے متعلق آیات ،قرآن کریم میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔

[۷] اس سلسلہ میں سورہ آل عمران ،نساء ،ما ئدہ، انفال ، تو بہ، عنکبوت ، احزاب ،محمد ، فتح ، مجا دلہ، حدید ، منافقین و حشر میں رجوع کریں۔

[۸] منافقوں کی سازشوں کی تفصیل اس کتاب کے تیسرے حصہ میں بیان کی جا ئے گی ۔

[۹] فیض الغدیر :صفحہ ۳۹۴۔

[۱۰] اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں رجوع فر ما ئیں ۔

[۱۱] عوالم : جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۸۔

[۱۲] اس سلسلہ میں خطبہ غدیر کے گیا رہویں حصہ میں رجوع کیجئے ۔

[۱۳] عوالم : جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴ ۔

[۱۴] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔


4

5

6