واقعہ غدیر کاپیش خیمہ
غدیر کاعمیق مطالعہ کر نے کےلئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معا شرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہو نا ضروری ہے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سا تھ کون لو گ تھے ؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے ؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ؟
یہ فکری آمادگی واقعہ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کاتجزیہ و تحلیل کر نے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔
۱.ہجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل
دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رسالت
دین اسلام آخری دین ہے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰہی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ہے جو کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ہیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ہمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے
اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خا تم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے ۔ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آہستہ آہستہ بیان فر ما تے تھے اور ہر اقدام سے پہلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے ۔جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہو تا جاتا تھا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لو گو ں کے سامنے بیان فر ما تے تھے ،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رہا ۔
ہجرت سے پہلے مسلمان
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی اور اس کی وجہ ظا ہر ی طور پر اسلام کاکمزور ہوناتھا ،لہٰذا دنیوی خواہشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہو تے تھے ۔
اگر چہ اس دور میں بھی کچھ منا فقین اپنا مستقبل بنا نے کی غرض سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاہلیت والے مقاصدکوحاصل کرنے اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اقدامات کو نابود کر نے کےلئے دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کر تے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔
ہجرت کے بعد مسلمان
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراہم ہو جا نے کے بعدروز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گا مزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی توساراقبیلہ مسلمان ہو جا تا تھا ۔مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرتعليهالسلام
کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو تے تھے اور اسلام قبول کر تے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رہی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گرو ہوں کو اپنے اندر جگہ دے رہا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کر نے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔
جب پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفا ظت کے لئے اسلام قبول کر نے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔
اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خوا ھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔
فتح مکہ کے بعد مسلمان
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزیدپیچیدہ ہوگئی۔یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔
حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ خواہشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کامقصددنیاحا صل کر نا تھا۔
کچھ افراد کی افکار پر دور جا ہلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھااس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہو تا جا رہا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انہیں اسباب کی دین تھی۔
مسلم معا شرے میں منا فقین
مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انہیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔
یہ گروہ بعثت کی ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ہی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رہے تھے اور اسلام کی ظاہر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مہلک وار کر تے تھے ۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ہیں ۔ اگر ہم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی تر تیب کا جا ئزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر مصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حیات طیبہ کے آخری سالو ں میں نا زل ہو ئی ہیں ۔
منافقین ظا ہر ی طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئےں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ہم اس ہدف کو آسانی سے نہیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ہے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔
انھوں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں ۔
غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد
جو چیزاس ماحول میں منا فقو ں کی سازشوں کو بالکل نیست و نا بود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد آپ کے جا نشین کااعلان تھا۔ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ہر منا سب مو قع پراس کا اعلان فر ما یا تھا یھاں تک کہ متعدد مر تبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منینعليهالسلام
کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔
اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پہلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہو نے کا حکم دیا اور فر مایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کر تے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ہے اور مجھ کو امر اور نھی کر تا ہے اور میںخدا وند عالم کے قو ل کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں رکھتا“؟
انھو ں نے کہا :ھاں ، یا رسول اللہ ۔آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیا دہ حا کم نہیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتاہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔
فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ہیں یہ تم کو امر و نھی کر نے کا حق رکھتے ہیں اور تمہیں ان کو امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ۔خدایا علیعليهالسلام
کے دوست کو دوست رکھ اور علیعليهالسلام
کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کر ے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاہد ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رہا۔
اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مر تبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :تم میں کون شخص اس عہد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کہا : ہم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ہیں اگر ہم اپنے عہد سے پھریں۔
اس کے بعد آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس کاغذکو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجودسب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علیعليهالسلام
اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عہد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنا ناتا کہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔
ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت علیعليهالسلام
کو قا نونی طور پر اپناجانشین و خلیفہ معین فر ما نے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایا م میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رہے تھے ۔
قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کر نے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیااور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔
حضرت فا طمہ زھراءصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس سلسلہ میں فر ما تی ہیں :
”وَ اللهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “
”پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علیعليهالسلام
کےلئے محکم و استوار فرما یا تا کہ اس طرح تمھا ری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جا ئیں “
غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میںمسلمانوں کے پھیل جا نے کے بعدقیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرا یا ۔
اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیاا ور امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوںکے اکثر افرادنے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔یھی غدیر کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف تھا ۔
اگر چہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جا مہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ہی نور ہے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے با وجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ہر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کودنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ہے ۔
اسی طرح اگر عر صہ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حقیقی جا نشینوں کے سا منے سر تسلیم خم نہ کیا اور نہیں کر تے ہیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالبعليهالسلام
اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جا نشین سمجھتی ہے ۔
اس مقدمہ سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ خطبہ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نہیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خود یہ ارشاد فر مایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاوں میں رہنے والوں کو اورباپ اپنی اولاد کوقیامت تک یہ خبر پہنچا تے رہیں اور سب اس پیغام کو پہنچا نے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔
جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لو گو ں کے اوپر ہے کہ وہ چا ہے جنت کو اختیار کر یں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علیعليهالسلام
کو قبول کر نا یا قبول نہ کرنا ایک الٰہی امتحان ہے ۔
اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(مَثَلُ الْمُومِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهِمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهِمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ
)
”غدیر خم کے دن حضرت علیعليهالسلام
کی ولایت کو قبول کر نیوالے مو منین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کر نےوالے ملا ئکہ جیسی ہے ،اور ولایت امیر المو منینعليهالسلام
کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ہے ‘
اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضااور وہ حالات جن میں واقعہ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصدجوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جا تے ہیں ۔
۲. خطبہ غدیر کی اہمیت کے پھلو
پیغمبر اسلا مصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہو ا ہے دیگر تمام احکام الٰہی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلا م کا یہ الٰہی حکم دوسرے تمام الٰہی احکام سے ممتاز اور اہم ہے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ہیں :
لَمْ یُنَادِبِشَيء مِثْلَ مَانُوْدِیَ بِالْوِلَایَةِ یَوْمَ الْغَدِیْر
”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا “
ہم ذیل میں فھر ست وار خطبہ غدیر کی اہمیت کے اسباب بیان کر رہے ہیں :
جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پہلے ہے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔
خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وفات کے نزدیک ہو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔
خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا “یعنی فرامین الٰہی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نہیں ہوا ۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰہی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ہے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔
خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ہے اور احکام الٰہی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نہیں دی گئی ۔
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔
اس دستور الٰہی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰہی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن ہو گیا تھا۔
مسئلہ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ہی خطبہ کی صورت میں نہیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عہد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔
وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ہیں ۔
خطبہ سے پہلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اہمیت پر دلالت کر تے ہیں ۔
خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نہیں فر مایا گیا ۔
ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہیں چھو ڑا “
نیز علماء کا ائمہ ہدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ہے ۔
تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میں ممتاز اوربے مثال ہے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ہیں اور تمام مسلمان چا ہے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کااعتراف کرتے ہیں
خطبہ غدیر میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بلند و بالا مقاصد
۱ ۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکہے گا۔
۲ ۔اسلام کو کفار و منافقین سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔
۳ ۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ہمیشہ رائج رھاہے اور تاریخ میںبطورسندثابت ہے ۔
۴ ۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔
۵ ۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔
۶ ۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ہے ۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اہمیت کا بہترین گواہ ہے ۔
____________________