نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں33%

نماز کي گہرائیاں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نماز کي گہرائیاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7671 / ڈاؤنلوڈ: 3882
سائز سائز سائز
نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نماز کي گہرائیاں

از

حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای

نشر ولایت پاکستان

مرکزحفظ ونشر آثار ولایت

www.wilayat.com

بسم الله الرحمن الرحيم

خصوصي مقدمہ

الحمد لله والصلوٰة عليٰ رسول الله وعليٰ آله خلفائ الله

١۔ خدا وند عظيم کي صفات ۔

مخلوق کي تربيت کرنا ہے۔ اس نے ہم انسانوں کي تربيت اور کمالات تک پہنچانے کے لئے جو انسانيت کا عروج ہيں۔ کچھ عبادات مقرر کي ہيںاور کچھ اخلاقي اچھائيوں کو ہمارے لئے معين فرمايا ہے۔ خدا کي غرض يہي ہے کہ انسان ان عبادات پر عمل کرے اور ان اخلاقي فرائض کو اپنے ميں پيدا کرے۔۔ اور ان دونوں کے ذريعے سے انسا ن اس کمال تک پہنچے جو اس کي معراج ہے۔ يہ معراج اس لحاظ سے ہے کہ انسان ان روحاني لذتوں اور باطني کمالات کو حاصل کرے جس سے وہ دنيا ميں بھي ظاہري اور باطني اعتبار سے خوشي محسوس کرے گا اور آخرت ميں بھي وہاں کے عظيم باطني کمالات کو حاصل کرے گا۔

قابل توجہ بات يہ ہے کہ انسان غير اخلاقي اور گھٹيا حرکات ميں مصروف ہے اور اس کا کردار پست لوگوں جيسا ہے ۔۔۔۔ جو اس کي (انسانيت) کي شان سے بالکل ميل نہيں کھاتا۔۔۔ ايسي حالت ميں اس کي باطني قوتيں اور روحاني کمالات کو صلاحيتيں دبي رہ جائيں گي اور اسے کوئي فائدہ نہيں پہنچاسکيں گي۔۔۔ اور جب تک انسان خود ميں روحاني اور باطني عظمتوں کو پيدا نہ کرے اور نا ہي خود اپني صلاحيتوں کو عملي کرسکے تو اس وقت تک اس کے اس کے باطن کي کيفيت ايسي نہيں ہوگي کہ وہ روحاني لذات کا احساس اور باطني کيفيات کا ادراک کرسکے۔

ايسے آدمي کي مثال اس ديہاتي کي سي ہے جو بالکل جاہل اور ان پڑ ھ ہو اور ہم اسے ايسي لائبريري ميں لے جائيں جس ميں علم و فکر کے خزانے بھرے ہوں ليکن اسے علمي خزانوں کي اہميت ذرہ بر ابر بھي نہ ہوسکے گي يا اسے ايک فلسفي کے پاس بٹھا ديا جائے جس کي محفل علم و دانش سے پر ہو اور وہ فلسفي گہرے مطالب کو باآساني سمجھا ديتا ہو ليکن يہ جاہل ديہاتي نہ اس کتب خانہ سے کوئي فائدہ اٹھاسکے گا اور نا ہي اس فلسفي کي نشست سے کوئي علمي لذت حاصل کرسکے گا۔

٢۔ يہ حقيقت واضح ہوني چاہئيے

کہ دنيا کو خلق کرکے خدا نے نا کسي اپني خواہش کي تکميل چاہي ہے اور نا ہي اپنا کوئي مقصد پورا کرنے کا ارادہ کيا ہے۔ کيونکہ خدا غني ہے ، وہ کسي چيز اور کسي کام کے لئے محتاج نہيں ہے اور نا ہي کوئي ايسا مقصد ہے کہ جس کا کوئي فائدہ يا نفع ذات مقدس الہي کو پہنچے گا۔ اس قسم کا کوئي ايمان عقلاً ، ممکن نہيں ۔ پھر بھي يہ بات اپني جگہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ اس نے تمام کائنات کو بے مقصد خلق نہيں کيا ہے۔ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ کائنات جو زندگي کے ہنگاموں سے بھري ہوئي ہے اور يہ آسمان بے مقصد و عبث ہے۔ کيونکہ خداوند عظيم نے ارشاد فرمايا ہے:

وما خلقنا السموات والارض وما بينهما لاعبين

اور ہم نے آسمانوں اور زمين کو ۔۔ اور جو کچھ ان کے درميان ہے کھيل کے طور پر خلق نہيں کيا ہے ۔(سورہ دخان ٣٨)

ما خلقنا هما الا بالحق ولکن اکثرهم لا يعلمون

ہم نے ان دونوں کو حق کے ساتھ خلق کيا ہے ليکن لوگوں ميں سے اکثريت کو اس کا علم نہيں۔(سورہ دخان ٣٩)

کائنات کي تخليق سے خدا کي جو بھي غرض ہو ليکن يہ بات بالکل يقيني ہے کہ خدا کي تمام مخلوقات ميں انسان کي حيثيت سب سے اعليٰ ہے اور اسے پيدا کرنے کي غرض بھي سب سے زيادہ اعليٰ و ارفع مقام ہے۔ بازار ہستي ميں صرف انسان ہي ہے جو اس اعليٰ و ارفع مقام تک پہنچنے کي طاقت و لياقت رکھتا ہے اور اس عظمت کو برداشت کرسکتا ہے۔ انسان کے علاوہ اس درجہ اعليٰ تک پہنچنے کي طاقت نہ تو بلند و بالا پہاڑوں کو ہے جو اپنے سر آسمان کي طرف اٹھائے ہوئے ہيں اور نا ہي اس درجہ تک پہنچنے کي قوت و قدرت اس نيلگوں آسمان کو ہے جس کي عظمت کو ستاروں اور کہکشاوں کے بے حد حساب نظام چار چاند لگا رہے ہيں۔

انا عرضنا االامانة عليٰ السموت والارض والجبال فابين ان يحملنها واشفقن منها و حملها الانسان

ہم نے امانت کو پيش کيا آسمانوں ۔۔۔۔ اور زمين اور پہاڑوں پر ۔۔۔ پر انہوں نے انکار کيا کہ وہ اس امانت کو نہيں اٹھائيں گے اور وہ اس سے ڈرے اور انسان نے اس امانت کو اٹھاليا ۔۔۔۔ (سورہ دخان ٧٢)

آسمان بار امانت نتوانست کشيد

قرعہ فال بنام من ديوانہ زدند

آسمان بار امانت کو نہ اٹھا سکا

قرعہ ہم ديوانے انسانوں کے نام آگيا

واصطنعتک لنفسي

اور ہم نے تمہيں (خاص) اپنے نفس کے لئے بنايا ہے۔

اس آيہ مبارکہ ميں کہ خدا کا ارشاد اس مقصد کے راز سے تھوڑا پردہ ہٹا کر اس حقيقت کو ظاہر کررہا ہے کہ انسان کي غرض خلقت کيا ہے وہ لوگ جو زندہ دل ہيں ، پروانے کي مانند شمع کے شعلہ سے جو شعلہ الہي سے جل کر خود کو اس کے سامنے فنا کرديتے ہيں۔

٣۔ انسانيت کا يہ اعليٰ کمال کيونکہ حاصل کيا جائے ، اس سلسلے ميں بہت سے نظريے اور پروگرام پيش کئے گئے۔ ان نظريوں اور پروگراموں کو پيش کرنے والے لوگ اس بات کے دعويدار تھے کہ ہم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ہيں۔ ان ميں انبيائ بھي تھے اور غير انبيائ بھي۔ ان کے دعووں کے سلسلے ميں ہماري غرض يہ نہيں ہے کہ کوئي تفصيلي گفتگو يہاں کريں۔البتہ ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ ہم نے گہري فکر کي ، ہر پہلو پر غور کيا اور ديکھا کہ وہ نظام جس کے پيش کرنے والے انبيائ کے علاوہ دوسرے طبقے کے لوگ تھے ، اس ميں جو باتيں بيان کي گئي ہيں ان کا ايک جملے ميں خلاصہ کيا جاسکتا ہے کہ ان پروگراموں اور نظاموں ميں سے کوئي ايک بھي ان دو خرابيوں سے خالي نہ تھا۔

١۔ بعض خوبيوں کي طرف ضرورت سے زيادہ توجہ دلائي گئي تھي اور (٢) بعض خوبيوں کي طرف توجہ دلانے ميں کوتاہي کي گئي تھي۔ اس لحاظ سے ان کا نظريہ اور نظام اس قابل نہ تھا کہ جو انسان کے کامل بننے کي بھوک کو مٹاسکے۔ ہر انسان ميں يہ بھوک موجود ہے اور تمام انسان بغير اس بھوک کو سير کيے دنيا سے چلے جاتے ہيں۔

اسي اثنائ ميں ہم نے ديکھا کہ خدا کا پيغام لانے والے اور اس کي طرف سے رہبري کا عہدہ لے کر آنے والے انبيائ نے (ہميں) يہ بتايا کہ انسان کي روح و باطن کا کمال صرف اس چيز ميں ہے کہ وہ خدا کي عبادت کرے اور اس کي بندگي ميں مصروف رہے چنانچہ اس سلسلے ميں ہم ۔۔۔ شيعوں کے پيشوا کے بيان کو نقل کررہے ہيں کہ انہوں نے فرمايا :

بندگي وہ جوہر ہے ۔۔۔۔ جس کے اندر چھپا ہوا راز تربيت ہے ۔

عبادت کرنے سے ہمارے باطني کمالات خود بخود تربيت پانے لگتے ہيں ۔ يعني خدا کي بندگي روح کا چمکتا ہوا موتي ہے اور جو بھي اس چمک کي روشني ميں آگے بڑ ھے گا وہ بارگاہ الہي کي ربوبيت کے حرم ميں پہنچ جائے گا يا يوں کہا جائے کہ خدا کے بتائے ہوئے روح کے اس کارخانے تک پہنچ جائے گا جہاں روحوں کو اعليٰ درجے کو تربيت دے کر انہيں باکمال فرد کي حيثيت سے اس دنيا سے اس دنيا تک جانے کے قابل بنايا جاتا ہے۔

اے خدا ۔۔۔ تيري محبت کي قسم ! اگر تو مجھے اپنا بندہ قبول کرلے تو ميں دنيا اور سارے جہانوں کي بادشاہت کو ترک کردوں گا ۔ (فارسي شعر کا ترجمہ)

حديث صحيح جو شيعہ اور سني علمائ نے رسول خدا سے نقل کي ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمايا :

بندہ جن چيزوں سے ميري بارگاہ ميں قربت حاصل کرتا ہے ان ميں سب سے زيادہ جو بات مجھے محبوب ہے وہ ۔۔۔ وہ واجبات ہيں جو ميں نے اس پر فرض کيے ہيں اور يہ بندہ پھر ميري اور قربت کو حاصل کرتا ہے نافلہ ادا کرکے يہاں تک کہ ميں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس جب ميں اس سے محبت کرنے لگوں تو ميں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کي آنکھيں بن جاتا ہوں جن سے وہ ديکھتا ہے ، اس کي زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ قوت کے جوہر دکھاتا ہے۔

يعني اس کے کان ميں وہي آوازيں پڑتي ہيں جو اس کے لئے مفيد ہوتي ہيں اور جسے خدا چاہتا ہے کہ يہ بات اس کے کان ميں آئے۔ اسي طرح وہ وہي چيزيں ديکھتا ہے جسے خدا چاہتا ہے کہ بندہ اسے ديکھے اور اس کي زبان سے ايسي باتيں نکلتي ہيں کہ وہ خود بھي سمجھتا بلکہ خود اس کي زبان سے ادا کرديتا ہے اور اس کے ہاتھ سے ايسے کام انجام پاتے ہيں کہ جسے وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے يہ کام انجام نہيں دئيے بلکہ کسي غيبي طاقت نے اس سے يہ کام کرايا ہے۔

بندہ خدا سے بہت زيادہ قربت کي وجہ سے اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس کا کان ، آنکھ، زبان اور ہاتھ ہوجاتا ہے۔

٤۔ تمام عبادات ميں نماز ايک عظيم فريضہ ہے بلکہ اگر يوں کہا جائے تو زيادہ بہتر ہوگا کہ اسلامي باتوں کي تربيت کا عالي ترين مکتب اور درسگاہ ۔۔۔ نماز ہے ۔

خدا نے عبادت کي اس قسم کو اس لئے ايجاد فرمايا ہے کہ بندہ اس عبادت کے ذريعہ اپنے خدا سے رشتہ جوڑ ليتا اور وہ اپني بندگي کي بنيادوں کو مضبوط و مستحکم کرليتا ہے۔ نماز اگر سمجھ کر پڑھي جائے تو اس سے نما گذار کے دل ميں وہ طاقت پيدا ہوجائے گي کہ اس کا دل گناہ کے مقابل اس کي سخت حفاظت کرے گا اور يہ دل مشکلات ميں بالکل پريشان نہ ہوگا بلکہ مردانگي کے ساتھ ثابت قدم رہے گا ۔ قرآن ميں ہے کہ

ان الصلاة تنهيٰ عن الفحشائ والمنکر

يقينا نماز روکتي ہے ۔۔۔ فحش باتوں اور منکرات سے ۔ (سورہ عنکبوت ٤٥)

واستعينوبالصبر والصلوٰة

مدد حاصل کرو ۔۔۔ صبر اور نماز سے ۔ (سورہ بقرہ ٤٥)

بہت سے لوگ يہ سوال کرتے ہيں کہ يہ عبادت کيوں بجالائي جائے؟ کيا خدا ہماري عبادات کا محتاج ہے کہ ہم اس کي تکليف دور کرنے کے لئے اس کي عبادت کريں؟

اس قسم کا سوال کرنے والے اپنے ذہن ميں يہ تصور کرتے ہيں کہ خدا کو ہماري عبادت سے کوئي فائدہ يا خوشي حاصل ہوتي ہے اور وہ اپني خوشي يا حاجت کي تکميل کے لئے ہم سے اپني عبادات کراتا ہے۔۔۔ جبکہ حقيقت ميں يہ فکر کي بہت بڑي غلطي ہے۔ ہم عبادت اس لئے بجا نہيں لاتے کہ خدا کي کسي پريشاني کو دور کريں۔ ہم اس کي اطاعت کريں يا اس کي نافرماني کريں۔۔۔ اس سے کوئي نفع يا نقصان ذات الہي کو نہيں پہنچتا۔ حضرت علي نے ھمام کو خطبہ ديتے وقت شروع ميں يہ فرمايا تھا :

اللہ تعاليٰ نے مخلوقات کو خلق کيا ہے اور وہ غني ہے۔ اسے نہ ان کي اطاعت کي کوئي حاجت ہے اور نا ہي مخلوقات کي معصيت سے کسي پريشاني ميں مبتلا ہوتا ہے کيونکہ خدا کو اطاعت کرنے والوں کي اطاعت سے نا کوئي فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نا ہي معصيت کرنے والے کي معصيت سے کوئي نقصان ۔

گر جملہ کائنات کافر گردند

بردامن کبرياش ننشيند گرد

( اگر تمام کي تمام کائنات کافر ہوجائے تو بھي خدا کي بزرگي کے دامن ميں ايک دھبہ بھي نہيں آئے گا)

ہماري عبادت کا مقصد يہ ہے کہ ہماري روح و جان کي تربيت ہو اور وہ کمال تک پہنچيں يعني عبادت کي غرض يہ ہے کہ ہم اپني روحاني قدرتوں کو سمجھيں ۔۔۔۔ انہيں استعمال کريں۔۔۔ اور ان سے لذت اٹھائيں اور ان تمام روحاني قدرتوں کا سر چشمہ ۔۔۔۔ خدا کي عبادت و بندگي ۔۔۔۔ ہے۔ان تمام عبادات کا مقصد يہ ہے کہ ہمارے دل کي تاريکي چھٹ جائے اور ہمارے دل کي باطني کيفيات خدا کي حکمت والي باتوں کو سمجھ کر خدا کي حکمت کے نور سے بھر جائيں اور انسان کا دل اس قابل ہوجائے کہ وہ حق کي باتوں کے جلووں کو سمجھ سکے اور عشق الہي کا نور اس کے باطن ميں پيدا ہو۔

٥۔ بہت سے نماز پڑھنے والے نماز پڑھنے ہيں۔۔۔۔ ليکن وہ نہيں جانتے کہ کس وجہ سے نماز پڑھ رہے ہيں ؟ انہيں نماز سے کيا فائدہ پہنچے گا ؟ انہيں نہيں علم کہ نماز ان کے باطن اور روح ميں کيا عظيم تبديلياں پيدا اور انقلاب رونما کرسکتي ہيں۔ ہم اس بات کو زيادہ واضح طور سے يوں بيان کرسکتے ہيں کہ وہ خود نہيں سمجھتے کہ وہ نماز کيوں پڑھ رہے ہيں اور وہ عظيم الشان اغراض و مقاصد سے خود غافل ہيں لہذا انہيں نماز سے کوئي فائدہ نہيں پہنچتا اور نا ہي يہ عبادت بزرگ ان کي روحانيت پر کوئي اثر ڈالتي ہے يا اگر بہت معمولي سا بھي اثر ڈالتي ہے تو اس سے کوئي نماياں فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ چنانچہ رسول اکرم ايک شخص کے بارے ميں جو جلدي جلدي نما پڑھ رہا تھا ، ارشاد فرمايا :

’’ يہ شخص ايسے ٹھونگے مار رہا ہے جيسے کوا ٹھونگے مارتا ہے۔‘‘

جس طرح کوا اپني چونچ زمين پر مارتا ہے اسي طرح نمازي نے بے سوچے سمجھے اپني نماز شروع کردي اور بے سوچے سمجھے اسے ختم کرديگا۔ البتہ اس نماز پڑھنے والے کو اپني نماز سے کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا اور نا ہي نماز اس کے دل کو روشن و نوراني کرسکے گي ۔۔۔ اور نا ہي اسے انسانيت کي طاقت دے سکے گي اسي وجہ سے ہم قرآن ميں ديکھتے ہيں کہ خدا کا ارشاد ہے :

نماز ۔۔۔۔ نماز ي کو فحش و منکرات سے روکتي ہے۔ (سورہ عنکبوت ٤٥)

ليکن ہم ميں سے لوگوں کي ايک کثير تعداد ہے جو سالہا سال سے نماز پڑھ رہي ہے ليکن ہماري روح ميں اتني چھوٹي سي بھي طاقت پيدا نہيں ہوئي کہ ہم خود کو معمولي سے معمولي گناہ سے بھي روک سکيں۔ اس بحث سے ہم اس نتيجے کو حاصل کرسکتے ہيں کہ حقيقت ميں ہم نے بالکل نماز نہيں پڑھي بلکہ جو کچھ ہم بجالاتے ہيں وہ صرف نماز کي ظاہري شکل و صورت ہوتي ہے۔

انسان کي اسي حاجت کو پورا کرنے اور اس کے روحاني نقصانات و آفات کو دور کرنے کے لئے اسلام کے بزرگ علمائ نے اس عظيم الشان عبادت کي باطني خوبيوں کو ظاہر کرنے۔۔۔۔ باطني آداب سے آگاہ کرنے اور روحاني اچھائيوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بہت سي کتابيں لکھي ہيں۔

١۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ تاليف شہيد ثاني ( شہيد زين الدين)

٢۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ از حکيم و عارف اعليٰ قاضي سعيد قمي

٣۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ از عارف و زاہد فقيہہ ( مجتہد) کامل مرحوم حاج مرزا جواد ملکي

تبريزي استاد گرانقدر حضرت امام خميني رضوان اللہ عليہ

٤۔ اسرار الصلوٰۃ۔۔۔۔۔۔ از باني حکومت جمہوري اسلامي ايران حضرت امام خميني رضوان اللہ

عليہ

٥۔ آداب الصلوٰۃ۔۔۔۔۔ از فقيہہ کامل عارف رباني حضرت امام خميني رضوان اللہ عليہ

٦۔ اور کتاب مبارک ۔۔۔۔ از ژرفاي نماز ( نماز کي گہرائياں) ۔۔۔۔ از مجموعہ تقارير رہبر معظم

انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہٰ اي دامت برکاتہ

جس شخص کي بھي يہ خواہش ہو کہ اس عظيم عبادت کے کچھ اسرار و آداب سے آگاہي حاصل کرے اس پر لازم ہے کہ جن کتابوں کا ميں نے تذکرہ کيا ہے ، ان کا مطالعہ کرے۔

اپنے مضمون کے اختتام پر ہم حضرت آيت اللہ العظميٰ امام خميني کي کتاب ۔۔ آداب نماز ۔۔۔۔ سے چند جملے تحرير کرکے اپنے مضمون کو نوراني کرنا چاہتے ہيں تاکہ مضمون کے آخر ميں مشک و عنبر کي مہر ثبت ہوجائے۔

خدا وندا۔۔۔۔ تيري بارگاہ ميں پہنچنے کے لئے ہمارا قدم اس قابل نہيں ہے کہ اس عظيم اور اعليٰ منزل تک پہنچ سکے۔

خداوندا ۔۔۔ ہمارا طلب کرنے والا ہاتھ اس قابل نہيں کہ تيري محبت و انسيت کو چھوسکے۔

خداوندا۔۔۔ ہمارے دل پر شہوت و غفلت کے پردے بڑھے ہوئے ہيں، ہمارے دل پر شيطان اور محبت دنيا کے غليظ حجاب پڑے ہيں اور جن کي وجہ سے ہماري بصيرت قلبي تيري ذات ، عظمت اور جلال کي طرف توجہ نہيں کرپاتي۔

آخرت کا راستہ باريک اور انسانيت کا طريقہ حديد ( سخت ) ہے۔

ہم بے چارے مکڑي کے جالے کي طرح اپني حقير فکر کے تانے بانے ميں پھنسے ہوئے ہيں۔ ہم وہ حيران لوگ ہيں جنہوں نے ابر يشم کے کيڑے کي طرح اپنے چاروں طرف شہوتوں اور آرزووں کا جال بن ليا ہے اور خود اپنے ہي جال ميں پھنس گئے ہيں۔

اور ہميں بالکل پتہ نہيں۔ کہ بارگاہ الہي کے غيب کي باتيں کيا ہيں اور اس کي بارگاہ سے عشق و محبت کے کيا مزے ہيں؟

( صرف ايک ہي صورت ہے اور وہ) صرف يہ کہ تو اپنے جلوے سے ہمارے دل کو روشني عنايت فرما اور اپني غيبي چمک سے ہماري خودي کو بے خودي ميں بدل دے۔

مولا علي فرماتے ہيں:

الهي هب لي کمال الا نقطاع اليک وانر ابصار قلوبنا بضيائ نظرها اليک حتيٰ تخرق ابصار القلوب حجب النور فتصل الي معدن العظمة و تصير ارواحنا معلقة بعز قدسک (مناجات شعبانيہ)

’’ ميرے معبود ۔۔۔ مجھے مکمل طور سے سب چيزوں سے دل کو توڑ کر صرف تيري محبت والا بنادے اور ہمارے دل کي آنکھوں کو وہ روشني دے جس سے تو نظر آئے اور وہ روشني دے جس سے نور کے پردوں کو ہم چاک کرديں۔۔۔ اور براہ راست تيري عظمت کے خزانے سے متصل ہوجائيں۔۔ اور ہماري روحيں تيري مقدس عظمت کے درجے سے وابستہ ہوجائيں۔‘‘

(مناجات شعبانيہ)

بسم الله الرحمن الرحيم

نماز ۔۔ بندے اور خدا کے درميان رابطہ

نماز ۔۔۔ معبود حقيقي کي بارگاہ ميں دل کي گہرائيوں کے ساتھ سر جھکانا اور انسان و خدا کے درميان ربط قائم کرنا ہے اس رابطہ کا تعلق پيدا کرنے والے اور پيدا ہونے والے سے ہے۔نماز تسلي دينے کے ساتھ ساتھ ہمارے پريشان اور تھکے ہوئے خستہ حال دلوں کو آرام و سکون عطا کرتي ہے۔ نماز ہمارے باطن کو صاف ، آلودگي سے پاک اور نور خدا سے روشن کرتي ہے۔

نماز بندے کا خدا سے عہد و پيمان ہے، نماز خدا کے راستے پر چلنے کے لئے تحريک پيد اکرنے والي ہے اور اس حالت کے لئے آمادہ کرتي ہے جو دھوکہ اور فريب سے پاک ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہيں تاکہ ہر برائي و بدي کو دور کريں اور اس کے ذريعے سے ہر خير و خوبي اور جمال ملکوتي کو حاصل کريں۔نماز اپنے وجود سے آگاہ ہونے اور اسے حاصل کرنے کا نظام ہے۔ مختصر يہ کہ نماز اس ذات سے رابطہ قائم کرنے اور مسلسل فائدہ حاصل کرنے کا نام ہے جو تمام کمالات کا سر چشمہ ہے۔ نماز اس ذات سے رشتہ جوڑنا ہے جو تمام خوبيوں اور نيکيوں کا خالق ہے يعني خدا۔

ہمارے ذہنوں ميں اکثر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ

٭ نماز کو اہم ترين واجبات ميں کيوں شمار کيا جاتا ہے؟

٭ کيا وجہ ہے کہ نما زکو دين کي بنياد قرار ديا گيا ہے؟

٭ کيا وجہ ہے کہ نماز کو اس قدر اہميت دي گئي ہے کہ ارشاد ہوا کہ اگر نماز قبول نہيں ہوئي

تو کوئي عمل قبول نہيں ہوگا!

٭ دوسري تمام عبادات کے مقابلے ميں آخر نماز ميں کيا خاص چيز ہے جس کي وجہ سے وہ تمام

عبادات ميں سر فہرست ہے؟

٭ اور وہ کيا را ز ہيں جن کے پيش نظراسلام نماز کو بہت اہميت کے ساتھ بيان کرتا ہے؟

ہم اسلام ميں نماز کي غير معمولي اہميت کے پيش نظر اس کے مختلف پہلووں کي طرف توجہ کرسکتے ہيں مختلف کيفيات سے اسکي تحقيق اور مختلف زاويوں سے اس کے حقائق تک رسائي حاصل کرسکتے ہيں چنانچہ ہم ابتدائ ہي ميںاس نکتے کي جانب اشارہ کريں گے کہ خلقت انسان کي اصلي غرض اور اس کي زندگي کا حقيقي ہدف کيا ہے؟

انسان کے کمال کا راستہ

قادر مطلق ۔۔ جس کي ذات حکمت والي ہے ۔۔ ہم نے انسانوں کو پيدا کرکے وجود جيسي نعمت سے مالا مال کيا ہے تو لازماً اس کے معني يہ ہيں کہ خداوند عالم نے ہماري پيدائش وجود سے ہمارے لئے ايک ہدف و مقصد مقرر کيا ہے اسے ہم يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہميںايک مقرر کردہ راستے پر چلنا ہے تاکہ ہم اپني منزل و مقصد تک پہنچ سکيں، وہ تراستہ اپني اہميت کے سبب باريک ہے اوراس کے وسائل بھي معين شدہ ہيں۔

اس لحاظ سے ہميں چاہئيے کہ ہم اس راستے کي معرفت حاصل کريں جو ہماري منزل تک جاتا ہے اور ساتھ ساتھ يہ بھي سمجھيں کہ وہ مطالب و مقاصد کيا ہيں جن کو حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر چلنا ضروري قرار ديا گيا ہے تاکہ اپنے راستے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتيجے پر پہنچيں کہ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمايا ہے۔

پس جو شخص اس راستے پر قدم اٹھالے تو اسے چاہئيے کہ وہ صرف اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرے لہذا جب انسان کو اپنے مقصد تک جانے والي راہ کي اہميت کا اندازہ ہوگا تو اسے يہ خيال ہوگا کہ اس راستے ميں انحرافات اور اس کے عزم و ارادے کو کمزور اور متزلزل کرنے والے خيالات کہيں اسے اپنے جال ميں پھنسا کر راہ مستقيم سے ہٹا نہ ديں چنانچہ اسے اپنے ہدف و مقصد کو پانے کي جدوجہد کو جاري رکھنے اور کم ہمتي اور حوصلہ شکني سے اس کي حفاظت کرنے کے لئے رہبر و ہادي کے احکامات سے ہدايات حاصل کرنے کي ضرورت ہے چنانچہ وہ رہبر اول ۔۔۔ کہ جس نے انسانوں کو ان کے ہدف و مقصد تک پہنچانے کے لئے راستہ مقرر کيا ۔۔۔۔۔ يعني خدا کے پيغمبر کي تعليمات سے ذرہ برابر منہ نہ موڑے اور وہ ان کے مرتب کردہ اصول و قوانين سے ہرگز انحراف نہ کرے۔

وہ مقصد ۔۔۔۔ کہ جو انسان کا مقام کمال ہے۔۔۔ کتنا ارفع و اعليٰ ہے يہي ہے کہ انسان کو اس دنيا سے واپس خدا کي جانا ہے جس کے لئے نماز کو مقرر کيا گيا ہے انسان کي پيدائش کي اصلي غرض يہي ہے کہ وہ نيک صفات جو انسان ميں پوشيدہ ہيں ظاہر ہوں اور باطن ميں پنہاں کمالات جلوہ افروز ہوں تاکہ انسان کي تمام صلاحيتيں اور کمالات عملي ہوجائيں اور وہ نيکي کے راستے پر گامزن ہوکر اپني ذات ، تمام دنيا اور تمام انسانيت کو نيک بنائے۔ ليکن لازم ہے کہ انسان اللہ کي معرفت کے ساتھ ساتھ اس راستے کي بھي معرفت حاصل کرے جسے خداوند عالم نے ہم انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے مقرر کيا ہے تاکہ اسے پيش نظررکھتے ہوئے سستي اور کاہلي کئے بغير اپنے مقصد و ہدف تک رسائي کے لئے جدوجہد کرے۔

وہ کام ۔۔۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد سے نزديک کرتے ہيں انہيں انجام دينا اور وہ کام۔۔۔۔۔ جو انحرافات و گمراہي سے پر اور انسان کي منزل کي راہ ميں رکاوٹ ہيں۔۔۔ انہيں ترک کرنا يہي وہ طريقہ ہے جو انسان کو اس کي زندگي کے معاني سمجھاتا ہے کہ اس مقرر کردہ خدائي راستے پر چلنا ہي اس کي زندگي کا حقيقي فلسفہ ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے ان کاموں کو انجام نہيں ديا جو ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے نزديک کرتے ہيں اور ان افعال سے دوري اختيار نہيں کي جو نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے دور کرديتے ہيں تو حقيقتاً ہماري زندگي بے معني ہوجائيگي کہ جس کے گزارنے کا ہميں کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا۔

ہم اپني بات کو دوسرے الفاظ ميں يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہماري زندگي ايک کلاس يا کمرہ امتحان کي مانند ہے جہاں ہميں چاہئيے کہ کائنات خلق کرنے والي اور ہميں زندگي عطا کرنے والي ذات نے جو قوانين و فارمولے بنائے ہيں ان پر عمل کريں تاکہ اپني دلي مراد اور نتيجہ اعليٰ تک پہنچ سکيں۔ ہم ان قوانين کو الہي سنتيں اور پيدائش کے (فطري) قوانين کہہ سکتے ہيں چنانچہ ہميں چاہئيے کہ عالم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ان قوانين کي معرفت حاصل کريں اور ان کے مطابق اپني زندگي بسر کريں۔

ان تمام باتوں کو عملي جامہ پہنانے کے لئے ضروري ہے کہ ہم اپني ذات کي معرفت حاصل کريں اور يہ بھي جانيں کہ خداوند عالم نے ہمارے باطن ميں کون کون سے کمالات پوشيدہ کئے ہيں اور ہميں اپني منزل تک پہنچنے کے لئے کن کن چيزوں کي ضرورت ہے يہي انسان کي سب سے بڑي مسؤليت اور ذمہ داري ہے اور اسي ذمہ داري کو احسن طريقے سے نبھا کر انسان کو يہ قدرت حاصل ہوگي کہ اس کي اپنے مقصد کو حاصل کرنے کي جدوجہد ۔۔۔۔۔ ہوشياري کے ساتھ ہو اور اس کي جدوجہد ميں خدا کي توفيقات شامل ہوں۔ ليکن اگر ہم نے اس الہي راستے کي ، جو ہمارے کمال کا راستہ ہے۔۔۔۔ معرفت حاصل نہيں کي اور ان قوانين کے مطابق ۔۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہمارے کمال کے لئے مقرر کئے ہيں۔۔۔ عمل نہيں کيا اس کا مطلب ہے کہ ہماري زندگي ميں جمود ہي جمود ہے ہاں اگر ہم نے معرفت کے بغير جدوجہد کي يا قہراً تو نہ خدا کي توفيق شامل ہوگي اور نہ ہي ہم اپنے مقصد کو حاصل کرسکيں گے۔

ياد خدا

دين ہميں يہ بتاتا ہے کہ ہمارا مقصد و ہدف کيا ہونا چاہئيے ، ہميں کس رخ پر عمل کرنا چاہئيے اور ہم کن وسائل سے اپني منزل تک پہنچ سکتے ہيں اور صرف يہ بيان ہي نہيں کرتا ہے بلکہ قوت بھي ۔۔۔۔۔ جو ہماري جدوجہد کے لئے از حد ضروري ہے ۔۔۔ دين ہي انسان کو عطا کرتا ہے اور وہ اہم ترين توشہ راہ اور سامان ۔۔۔ جو ہماري گھٹڑي ميں ہے۔۔ ياد خدا ہے۔

چند چيزيں و روح انسان کے لئے ضروري ہيں وہ ’’ طلب (خواہش) ‘‘ اميد اور ’’اطمينان ‘‘ہے۔ طلب ( خواہش ) ، اميد اور اطمينان وہ مضبوط و توانا پر ہے جن کے ذريعے انسان اپني منزل کي طرف پرواز کرتا ہے اور ان کا مبدا و منبع ياد خدا ہے ياد خدا ہي کي وجہ سے انسان خواہش بھي رکھتا ہے ، اسے اميد بھي ہوتي ہے اور اطمينان بھي۔ ياد خدا ہميں ہمارے مقصد کي طرف متوجہ کرتي ہے۔ جو خدا تک پرواز ہے۔

خدا تک پرواز سے کيا مراد ہے؟ يعني تمام خوبيوں اور کمالات تک پرواز ۔ ياد خدا ہي کي وجہ سے ہم متوجہ رہتے ہيں کہ ہميں کامل بننا ہے۔ ياد خدا ۔۔ ہماري اپنے مقصد کے حصول کي جدوجہد کي حفاظت کرتي ہے کہ کہيں ہم کج ر وي کي طرف مائل ہو کر اپنے مقصد سے دور نہ ہوجائيں۔

ياد خدا راہيان کمال کو ان کے راستے اور وسيلے کے بارے ميں ہوشيار کرتي ہے اور انہيں احساس رہتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہيں اور ان کا راستہ کون سا ہے؟ ياد خدا۔۔۔۔ ہمارے قلوب کو قوت ، تازگي اور اطمينان عطا کرتي ہے۔ ياد خدا اس سلسلے ميں بھي ہماري معاونت کرتي ہے کہ کہيں ہم دنياوي جلووں اور ان کي ظاہري چمک دمک ميں دل نہ لگا بيٹھيں اور نہ ہي زندگي کے مسائل اور نشيب و فراز ہماري راہ ميں رکاوٹ بنيں۔

ايک اسلامي معاشرے ميں ايک گروہ يا ايک مسلمان اگر يہ خواہش رکھتا ہے کہ

ميں اس راستے پر چلوں جو اسلام نے انسانوں کے کمال کے لئے مقرر کيا ہے

ان اصول و قوانين پر عمل پيرا ہوں جن پر تمام پيغمبران نے عالم انسانيت کو عمل کرنے کي دعوت دي

اس راستے کا مسافر بنوں جس ميں رکاوٹيں اور مزاحمتيں نہ ہوں کہ ان سے گھبرا کر منزل پر پہنچنے سے قبل ہي واپس پلٹ آوںاور اس کي يہ بھي خواہش ہو کہ صراط مستقيم پر ميرے قدم ثابت رہيں

تو خواہ وہ ايک گروہ ہو يا فرد واحد، اس کے لئے ضروري ہے کہ وہ ہميشہ خدا کو ياد رکھے اور اس کي يا سے کبھي منہ نہ موڑے اور اسي وجہ سے دين کي ۔۔ جو انسانوں کو منزل کمال تک پہنچانے والے قوانين کا مجموعہ ہے۔۔۔۔ ہميشہ سے يہ کوشش رہي ہے کہ مختلف راستوں اور وسيلوں سے ايسے حالات پيدا کرے کہ ايک ديندار کے دل ميں ياد الہي کا سورج ہميشہ چمکتا دمکتا رہے اور اس کي روشني سے اسکي روحاني دنيا ہميشہ منور رہے۔

انہي اعمال ميں سے۔۔۔۔ جو دين نے ہم انسانوں کے کمال کے لئے ضروري قرار دئيے ہيں ايک عمل ايسا ہے جو ياد خدا سے لبريز اس کي نورانيت سے منور اور انسان کو ياد خدا کے دريا ميں غرق کرنے والا ہے اور وہ عمل انسان کو بيدار اور اسے اس کي ذات سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ عمل شاخص يا علامت و نشاني کے مثل ہے کہ خدائي راستے پر چلنے والے اس شاخص يا علامت و نشاني کو ديکھتے ہوئے ’’ صراط مستقيم ‘‘ پر ثابت قدم اور انحرافات و گمراہي سے دور رہيں اور وہ عمل جو انسان کي زندگي ميں سر اٹھانے والي دنياوي غفلت سے ہر آن اور ہر لمحے برسرپيکار ہے ’’ نماز‘‘ ہے۔

نماز انسان کو بيدار کرتي ہے

انسان کو ذہن ہر وقت زندگي کے مسائل ميں الجھا رہتا ہے جب کہ اس کي فکر مختلف امور ميں مصروف و مشغول رہتي ہے اور شاذ و نادر ہي ايسا ہوتا ہے کہ انسان کبھي اپني ذات کي طرف متوجہ ہو يا کبھي اسے خيال ہو کہ ميري زندگي کا کيا مقصد ہے يا کبھي وہ اپنا حساب کرے کہ ميري زندگي کے لمحات جو گزر گئے وہ کيسے گزرے اور يہ دن گزر رہے ہيں ان ميں کيا تياري کررہا ہوں چنانچہ ہماري زندگي ميں کتنے ہي ايسے دن ہيں جو اپنے انجام يعني رات کي تاريکي ميں گم ہوجاتے ہيں اور دوسرا دن اپنا سفر شروع کرديتا ہے۔ کڑيوں سے ملتي رہتي ہيں ، دن و رات دوڑ ميں ہفتے اور مہينے گزر جاتے ہيں اور انسان کي زندگي سالوں کے گرد و غبار ميں مٹتي چلي جاتي ہے اور انسان يہ خيال بھي نہيں کرتا کہ کب صبح ہوئي اور کب شام ؟ کتني باطل پرستي ہے کہ انسان ان باتوں کا احساس بھي نہيں کرتا اور وقت گزرتا جارہا ہے ۔

نماز ايک گھنٹي ہے جو زندگي کے عظيم مقصد سے غافل انسان کو بيدار کرنے کا کام انجام ديتي ہے ، نماز انسان کو دن و رات کے مختلف اوقات ميں بيدار کرتي ہے اور اس کي زندگي کو بہتر طور پر گزارنے کا پروگرام ديتي ہے ۔۔۔ نماز انسان سے يہ کہتي ہے کہ تم يہ عہد کرو کہ مجھے تمام کمالات حاصل کرنے ہيں۔ نماز۔۔۔۔ انسان کو متوجہ کرتي ہے کہ تمہارے دن اور رات بيکار نہيں ہيں۔ يہ نما ہي ہے جو انسان کو اس کے گذرے ہوئے لمحات کا حساب کرنے پر آمادہ کرتي ہے ايسي زندگي کہ جس ميں انسان مادي مسائل اور ہنگاموں ميں پھنسا رہتا ہے اور اسے يہ احساس بھي نہيں ہوتا کہ زمانہ اپنا سفر کتني تيزي سے طے کررہا ہے اور وقت کي چکي ميں اس کي زندگي کے شب و روز پس پس کر اس کي زندگي کو ختم کررہے ہيں۔ نماز انسان کو متوجہ کرتي ہے اور اسے سمجھاتي ہے کہ تمہاري زندگي کا ايک اور دن رات کي تاريکي ميں گم ہوگيا جو کبھي پلٹنے والا نہيں اور ايک نئے دن کا آغاز ہوگيا کہ معلوم نہيں کہ تم اس کا انجام ديکھ سکو گے يا نہيں نماز ہي انسان کو خواب غفلت سے جھنجھوڑ تي ہے کہ تم بيکار پيدا نہيں کئے گئے ہو بلکہ تمہارے کندھوں پر ايک عظيم ذمہ داري اور عہدہ ہے تمہيں اہم ترين کام انجام دينے ہيں لہذا تم اپنا وقت برباد مت کرو۔۔۔ نماز ہي انسان کو ہوشيار کرتي ہے کہ تمہاري زندگي کا ايک بڑا حصہ بيکار گزر چکا ہے تو اب جو تمہاري عمر باقي ہے تمہيں چاہئيے کہ اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد ميں لگے رہو۔

نماز تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے

ايک طرف يہ خيال کرنا چاہئيے کہ ہماري زندگي کے مادي مسائل اتنے پيچيدہ اور گھمبير ہيں ۔۔۔۔ اور يہ فطري بات ہے ۔۔۔۔۔ کہ انسان اپني زندگي کے مقصد اعليٰ اور عظيم ہدف کو فراموش کرديتا ہے اور دوسري جانب انسان کا خودبخود ان عظيم ذمہ داريوں کي طرف ۔۔۔۔۔۔ جو اسے مقام کمال تک پہنچے کے لئے سونپي گئي ہيں۔۔ ہر روز متوجہ ہونا ، نا ممکن اور محال ہے اور اسي طريقے سے يہ بھي ممکن نہيں کہ کوئي ايسي ذات ہو جس کا کام فقط يہي ہو کہ وہ ہميں سمجھائے کہ تم کس لئے دنيا ميں آئے ہو اور تمہاري زندگي کا کيا مقصد ہے؟

اس کے ساتھ ساتھ ايک اور بات بھي قابل ذکر ہے کہ خود يہ زمانہ اپنے دامن ميں اتني وسعت نہيں رکھتا ہے کہ ہم اسلامي آئيڈيالوجي يا نظريات کے مطابق اپني زندگي بسر کريں اور اسلام کي عطا کردہ خواہشات کي تکميل کريں۔ نہ تو ہمارے صبح و شام ميں اتني گنجائش ہے کہ ہم اعليٰ مقاصد تک پہنچ سکيں اور نہ ہي ايسي لمبي فرصت ملے گي کہ ہم اس ميں اپني منزل کو پاسکيں۔

چنانچہ کم اوقات والے دن و رات کي زندگي ميں نماز وہ معجون الہي ہے جس نے انسانوں کے لئے تمام کمالات کو اپنے اندر سمويا ہوا ہے يا با الفاظ ديگر نماز ہي تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے۔ ہمارا دل روزانہ نما ز ميں متوجہ ہوتا ہے کہ ہميں دنيا ميں رہ کر کيا کرنا ہے۔۔۔۔۔ نماز ہميں بتاتي ہے کہ اسلام ہم سے کس چيز کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔۔ ؟ نماز کے لئے ہم کہہ سکتے ہيں کہ نما زتمام ممالک کا قومي نغمہ ہے البتہ ہر قوم کے لحاظ سے نماز کے معني ميں تھوڑے بہت فرق ہوں گے اور ہر ملک اور ہر زمانے کے لحاظ سے اس کي توجہ ميں کمي بيشي ہوسکتي ہے۔

اصول و قوانين کي تکرار ذہنوں ميں ان کي پختگي کا سبب ہوتي ہے

ايک مملکت اس بات کي خواہشمند ہوتي ہے کہ اس کے اصول و قوانين مضبوط ہوں، اس کے نظريات وہاں بسنے والے افراد کے اذہان ميں راسخ و پختہ ہوں اور وہ مملکت کي فکر پر باقي رہيں، چنانچہ اس کے لئے ضروري ہے کہ ان افراد کے لئے ان نظريات کي تکرار کي جائے اور وہاں کے افراد ہے کہ ان افراد کے لئے ان نظريات کي تکرار کي جائے اور وہاں کے افراد سے کہا جائے کہ يہ تمہارا قومي نغمہ ہے ۔۔۔۔ جو زندگي کے ہدف ، آئيڈيالوجي اور ملت کے افراد کے مقاصد پر مشتمل ہے۔۔۔۔

اسے بار بار پڑھو اور ضروري ہے کہ اس ملک کے باشندے ان کي تکرار کرتے ہيں کيونکہ اس تکرار کي وجہ سے وہ ملک کے نظريات و افکار پر باقي رہيں گے اور انہيں يہ احساس رہے گا کہ وہ اس ملک کے رہنے والے ہيں اور وہ ، ان اغراض و مقاصد کو ۔۔ جو مملکت انہيں بتا رہي ہے۔۔۔ حاصل کرنے کي جدوجہد جاري رکھيں گے۔

اگر اس مملکت کے رہنے والے اپنے ملک کے اصول و قوانين اور اغراض و مقاصد کو فراموش کرديں تو اس کا مطلب يہ ہے کہ ان کا راستہ بدل جائے گا اور وہ اس راستے کے مسافر نہيں رہيں گے۔ چنانچہ لوگوں کے لئے مملکت کے اغراض و مقاصد بار بار بيان کرنا ، ان ميں احساس ذمہ داري پيدا کرنا اور کام و خدمت کي طرف بار بار ان کي توجہ مبذول کرانا۔۔۔۔ يہي وہ عوامل ہيں جن کي وجہ سے وہ جدوجہد کے لئے آمادہ ہوں گے۔۔۔۔۔ اور ويسے ہي بن جائيں گے ۔۔۔ اور اسي تکرار کي وجہ سے منزل کا نقشہ اور منزل کا راستہ ان کي سمجھ ميں آجائے گا اور ساتھ ہي وہ اپني مسؤليت و ذمہ داري کو بھي سمجھ ليں گے۔ يہ تکرار ان کے ذہنوں ميں ان کي مملکت کے اصول و قوانين اور اغراض و مقاصد کو زندہ رکھنے اور ان کي ذمہ داريوں کو مقرر کرنے کا باعث ہوگي اور ان تمام باتوں کا نتيجہ يہ ہوگا کہ وہ عمل کے لئے تيار ہوجائيں گے اور شجاعت و ہمت کے ساتھ ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے۔

نماز مکتب اسلام کے اصولوں کا خلاصہ

نماز ۔۔۔ مکتب اسلام کے اصولوں خلاصہ ہے ، نماز ۔۔۔ مسلمانوں کے لئے ان سے راہ نماز ’’ صراط مستقيم ‘‘ کو روشن کرنے والي ۔۔۔ ان کي مسؤليت و ذمہ داري کي نشاندہي کرنے والي۔۔۔ اور ان کي محنت و جدوجہد کے نتيجے کو بيان کرنے والي ہے۔

دن کا آغاز يا زوال آفتاب يا پھر رات کي تاريکي ۔۔۔ مسلمان کو طلب کرکے اسلام کے اصول و قوانين ، اسلام کے راستے اور اس کے مقصد و نتيجے کو اس کي زبان ميں سمجھايا جاتا ہے اور اسے روحاني طريقے سے آمادہ کيا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے اصول و قوانين کے مطابق عمل کرے۔ نماز ميں انسان اپني زبان کے ذريعے دل کو آمادہ کرتا ہے۔۔۔۔۔ اسے اطمينان و تسلي ديتا ہے اور اپنے ميں يہ احساس پيد اکرتا ہے کہ کہيں ميں اپنے ہدف و مقصد سے دور تو نہيں ہورہا ہوں، نماز ہي انسان کے ہر قدم کو ايمان کے آخري درجے تک لے جاتي ہے اور اس کے ہر عمل کو کامل کرديتي ہے ۔ المختصر نماز انسان ناقص کو انسان کامل بناديتي ہے۔ ہاں يہي نماز ہے جو معراج مومن ہے۔

نماز تار يکي و ظلمت ميں نور الہي ہے

ہم انسانوں کا راستہ ۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہمارے کمال کے لئے مقرر کيا ہے ۔۔۔ جو آگے چل کر بہت دشوار ہوگا کہ اسي راستے پر چل کر انسان کامياب ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ حقيقي سعادت ۔۔۔۔ خوشي اور کمال کو حاصل کرسکتا ہے اور اسي راستے پر چلنا اور منزل کو پانا ہي انسان کي زندگي کا اصلي ہدف ہے۔

ليکن مشکل يہ ہے کہ ہمارے سامنے صرف يہي راستہ نہيں ہے کہ اس کي نشاندہي کردي جائے اور ہم وہ راستہ طے کرکے اپني منزل تک پہنچ جائيں بلکہ ظلمت ( تاريکي) ۔۔۔ خدائي اصولوں سے انحراف۔۔۔۔ اور ہميں ہماري منزل سے دور کرنے والے عوامل کثرت سے ہماري راہ ميں رکاوٹ ہيں اور نہ صرف رکاوٹ ہيں بلکہ اتنے پرکشش و پر فريب اور دل کو اپني جانب موہ لينے والے ہيں کہ راہ اسلام پر چلنے والا مسافر تردد ميں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کيا کروں اور کيا نہ کروں ۔۔۔ اس راستے پر قدم اٹھاوں يا نہ اٹھاوں۔۔۔ اور اسي کيفيت ميں انسان بعض اوقات غلط کو صحيح خيال کرنے لگتا ہے۔

انسان اس منزل پر کيا کرے جب اس کے قدم لڑکھڑانے لگيں۔۔۔۔ انسان کيا کرے کہ اس کي راہ روشن اور اس کي جدوجہد صحيح سمت ميں جاري رہے ۔۔۔۔۔ اور انسان کيا کرے کہ وہ اپني منزل آخر ۔۔۔ جو قرب خدا اور کمالات کا حصول ہے ۔۔۔۔۔ سے ايک لمحے کے لئے بھي غافل نہ ہو۔

انساني عزائم کو کمزور و متزلزل کرنے کے مقام پر نماز ہي وہ سہارا ہے جس کے ذريعے انسان باحفاظت اپني منزل تک پہنچ سکتا ہے ۔۔۔ تردد و اشتباہ کي سياہي و ظلمت ميں نماز ہي مينارہ نور ہے جو انسان کي راہ کمال کو روشن رکھتي ہے ۔۔۔۔ نماز ہي وہ ميزان الہي ہے جو حق کو حق اور باطل کو باطل قرار ديتي ہے ۔۔۔ اور يہ نماز ہي ہے جس کي وجہ سے انسان ياد خدا کي طرف متوجہ رہتا ہے۔

اپنے مفاہيم کو سميٹتے ہوئے ہم اپنے مقصد کو دوسرے الفاظ ميں يوں بيان کرسکتے ہيں کہ انسان کي پوري زندگي کا خلاصہ روزانہ نماز ميں اس کے سامنے آتا ہے ۔۔۔۔ نماز ہي کي وجہ سے ہمارے دل کي کھڑکي سے خدا کے رابطے باد نسيم ہماري روحاني دنيا کو شاد و آباد رکھتي ہے اور ہمارے وجود کو حقيقت ۔۔۔۔ انسانيت ۔۔۔۔ اور روحانيت عطا کرتي ہے يا يوں کہيے کہ نماز کے چند الفاظ ميں اسلامي فکر کي تمام باتيں اور مقاصد بطور خلاصہ موجود ہيں يا اسلام کے تمام بيانات کا نچوڑ نماز ميں ہے يا نماز اسلام کا جوہر اصلي ہے۔

اس طريقے سے يہ واضح ہوجاتا ہے کہ نماز کو پانچ اوقات ميں تقسيم کرنے کي کيا وجہ ہے اور اسي وجہ سے يہ اندازہ ہوتا ہے کہ نماز کي اہميت کس قدر ہے ؟ جيسے جسم کو قوت پہنچانے کے لئے ہم ايک نظام کے تحت اسے غذا ديتے ہيں، اسي طرح ہماري روح کو بھي خدا تک پرواز کے لئے غذا کي ضرورت ہے تاکہ وہ تندرست و توانا رہتے ہوئے تمام شيطاني قوتوں کا ظابت قدمي سے مقابلہ کرسکے۔ ساتھ ہي ساتھ يہ بھي سمجھنا چاہئيے کہ روح کا معاملہ ايسا نہيں ہے کہ ہم روح کو ايک دفعہ درس دے ديں يا ايک ہي دفعہ ہدايت کرديں جو ہمارے مرنے تک اس کے لئے کافي ہو بلکہ روح کا معاملہ بدن سے زيادہ حساس ہے يعني روح کے لئے ضروري ہے کہ دن و رات ميں ہر تھوڑي دير بعد اسے غذا فراہم کي جائے۔

ايک بات تو يہ طے ہوگئي کہ نماز اسلام کے تمام اغراض و مقاصد کا خلاصہ ہے۔ نماز ميں تلاوت قرآن بھي ہے جو نماز کے واجبات ميں سے ہے۔ نما ز، نمازي کو قرآن کے مضامين سے آشنا کرتي ہے کہ قرآن کے مطالب ميں غور کرو اور اپني فکر کو فکر قرآن کے ساتھ مربوط کرنے کي کوشش کرو۔ بنيادي طور سے ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ نماز ميں جتنے افعال و حرکات ہيں سب اسلام کو نمونہ پيش کرتي ہيں البتہ مختصر طريقے سے۔

اسلام اپنے پيروکاروں کے بدن، ان کي فکر اور ان کي روحوں کو بھي ان کي خوش بختي اور کمال کے لئے استعمال کرتا ہے۔ نماز ميں انسان کي تينوں چيزيں يعني اس کا بدن ، اس کي فکر اور اس کي روح مصروف ہوتے ہيں۔

بدني حالت : ہاتھ ، پير ، زبان کي حرکت ، جھکنا ، بيٹھنا اور خاک پر پيشاني رکھنا۔ يہ انسان کي بدني حالت ہے۔

فکري حالت: ہم نماز کے مضامين اور نماز کے الفاظ کے بارے ميں سوچتے ہيں جو نماز ميں بيان کئے جاتے ہيں۔ يہ مضامين اور الفاظ عام طور سے اشارہ کرتے ہيں کہ ہماري زندگي کا ہدف و مقصد اور اس کے وسيلے کيا ہيں يعني نماز ميں اسلام کا خلاصہ ہمارے ذہنوں سے گذرتا ہے۔

روحي حالت: نماز ميں ہماري روح کا عالم يہ ہوتا ہے کہ نماز ميں ہم خدا کو ياد کرتے ہيں جو ہماري روح کے کمال کا سبب ہے، نماز ميں ہمارا دل ۔۔۔ باطني کمالات ۔۔۔ اور اخلاقي پاکيزگي کے لئے پرواز کرتا ہے اور نماز نہ صرف ہماري روح کي طہارت کرتي ہے بلکہ ہمارے دل کو فضول کاموں کي انجام دہي اور اسے بھٹکنے سے روکتي ہے اور يہ نماز ہي ہے جو ہماري روح ميں خوف خدا کا بيج ڈالتي ہے۔

نماز کو قائم کرنا پڑھنے سے زيادہ اہميت ک حامل ہے

لوگوں نے بيان کيا ہے کہ دنيا ميں جتنے آئين اور جتنے لوگ ہيں، ہر ملت کي نماز ان کے نظريے کا خلاصہ ہوتي ہے چنانچہ اس بيان کے مطابق ہم کہہ سکتے ہيں کہ نماز بھي ايسي ہي ہے اور اسلام نے جو نماز مقرر کي ہے اس ميں روح و جسم ۔۔۔۔ماديت و روحانيت ( معنويت) ۔۔۔۔ اور دنيا و آخرت ۔۔۔۔۔ کو يکجا کرديا گيا ہے۔ يہ نماز کي عظيم الشان خوبيان ہيں جو اسلام نے بيان کي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ جب ايک مسلمان نماز اد اکرتا ہے تو وہ اپني تمام ( مادي و روحاني) طاقتوں اور قوتوں کو اپنے وجود کے کمال کے لئے استعمال کرتا ہے يعني وہ بيک وقت اپني جسماني ۔۔۔ فکري ۔۔۔۔ اور روحي قوتوں کو اپنے کمال و ارتقائ کے لئے استعمال کرتا ہے۔

نماز پڑھنے والا اس دليل کي وجہ سے۔۔۔ اپني تمام ( مادي و روحاني) صلاحيتوں اور قوتوں کے ساتھ خدائي راستے پر قدم بڑھاتا ہے ۔۔۔۔ اور اپنے وجود ميں سر اٹھانے والے شر کے جذبات ۔۔۔۔۔ فساد کے ميلانات اور انحرافات کا مشاہدہ کرتا ہے تو نماز کے ذريعے سے ان کو ترک کرتا جاتا ہے چنانچہ قرآن ميں کئي مقامات پر نماز کو قائم کرنے کو کہا گيا ہے اور يہي دينداري کي پہچان اور علامت ہے اور اسي وجہ سے ہماري يہ خيال ہوتا ہے کہ نماز کو قائم کرنا نماز کو پڑھنے سے زيادہ اہميت والا ہے يعني آيات قرآني ميں جس کثرت کے ساتھ نماز کو قائم کرنے کا حکم آيا ہے اس کا مطلب فقط يہ نہيں ہے کہ ايک شخص صر ف( ظاہري صورت اور آداب کے ساتھ) نماز پڑھ لے بلکہ حقيقتاً نماز کو قائم کرنے کا مقصد يہ ہے کہ نماز ہميں جس سمت لے جانا چاہتي ہے ہم اسي سمت پيش قدمي کريں۔۔۔۔ جس منزل کي طرف ہماري توجہ مبذول کرانا چاہتي ہے ہم اس کے لئے بھرپور توجہ کريں ۔۔۔۔ اور جن اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے آمادہ کرتي ہے ہم ان کے حصول کے لئے جدوجہد کريں يعني ہم نيک صفات اور تمام خير و خوبيوں کو حاصل کرنے کا عہد کريں جن کا خلاصہ نماز ہے يا دوسرے الفاظ ميں ياد خدا اور اسلام کے بيان کردہ تمام مقاصد ہمارے دل ميں قيام کريں اور يہ دوسروں کي زندگي ميں قيام کريں۔ ہم بھي اسلام کے مقرر کردہ ہدف و مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کريں اور دوسرے بھي انہي مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہيں۔

گويا نماز کو قائم کرنے سے مراد يہ ہے کہ انسان اپني کوشش کے ذريعے اپنے ماحول اور زندگي کي فضا کو ايسا بنائے کہ جيسا نما زہم سے تقاضا کرتي ہے يعني سب خدا کي تلاش و توجہ ميں ہمہ وقت کوشاں ہوں، خدا پرست ہوں اور اس سمت اور اس راستے پر حرکت کريں کہ جس سمت اور جس راہ پر نما ز ہميں لے جانا چاہتي ہے۔

پس ايک مومن ہو يا مومنين کا گروہ۔۔۔۔۔ نماز کو قائم کرکے اپني تباہي ، گناہ کي طرف توجہات و ميلانات اور فساد کي تمام کيفيات کو اپني ذات سے ختم کرديتا ہے اور نہ صرف اپني ذات کو ان سے پاک کرتا ہے بلکہ اپنے ماحول اور معاشرے کو بھي پاک کرتا ہے۔

يعني ايک گروہ جب نماز قائم کرتا ہے تو اس کا مطلب يہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو تباہي و بربادي سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔

نماز ان تمام کيفيات کو ۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد و ہدف سے انحراف و بغاوت پر اکساتي ہيں ۔۔۔۔ ختم کرديتي ہے، ہمارے گناہوں کو جلاديتي ہے ، نماز ہي ہمارے اندروني و بيروني جوش و جذبات کے طوفان کو پرسکون کرديتي ہے اور نفس کے ان عوامل کو ۔۔۔۔ خواہ شخصي و فردي ہوں يا اجتماعي ۔۔۔ بے جان کرديتي ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ نماز فرد واحد کي اصلاح کے ساتھ ساتھ ايک معاشرے کو بيہودہ اور ناپسنديدہ اعمال سے روکنے کا ذريعہ ہے۔

نيکي کے خلاف شيطان کي جنگ جاري ہے

زندگي کي دوڑ ميں ۔۔۔۔۔ جہاں ہر طرف مختلف نوعيتوں کي کشمکش اور نيکي و بدي کي جنگ و جدل جاري ہے۔۔۔ ہمارا مقابلہ مختلف النوع مسائل سے ہوتا ہے اور ہمارا ذہن مختلف الجھنوں ميں گھرا رہتا ہے۔ کاروبار حيات ميں برائيوں کي نجاسات اپنے عروج پر ہيں يعني تمام شيطاني قوتيں اپنے کل اسباب ، بہترين انتظامات اور ہتھياروں سے مسلح اپني کمين گاہ سے انسانوں کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے ہيں اور انہوں نے اس بات پر قيام کيا ہوا ہے کہ جہاں بھي ديکھيں کہ لوگوں ميں نيکي کا جذبہ ہے يا نيک اعمال کي طرف توجہات ہيں تو کسي نے کسي طرح اسے نابود کرديں اور اس شجر طيبہ کو جڑ سے کاٹ ديں تاکہ وہ نيکي کا شجر معاشرے ميں نشونما نہ پاسکے۔

انسان کے الہي مقاصد کي پہلي حفاظتي ديوار کہ جس پر شيطاني قوتوں کا زيادہ ہجوم رہتا ہے انسان کا عزم اور نفس کي قوت ہے۔ شيطان کي دلي آرزو ہے کہ ہمارے عزم ( مقصد و ہدف کو حاصل کرنے کي قوت طلبي) کو کمزور کردے اور ہمارے نفس کي قدر و طاقت نيست و نابود ہوجائے۔ چنانچہ انسان کي زندگي ميں عزم اور قدرت نفس کا نہ ہونا يا کمزور ہونا اس بات کا پيش خيمہ ہوگا کہ شيطان ہمارے وجود پر اپنا تسلط جمالے اور ہماري صلاحيتوں اور کمالات کو برباد کردے۔ شيطان انسان کے وجود کو ۔۔۔۔۔ جس ميں صلاحيتيں ، کمالات ، خوبياں اور علم و معرفت الہي کے خزانے پوشيدہ ہيں ۔۔۔۔۔ اپني چراگاہ بناليتا ہے اور جب چاہے اس ميں داخل ہو کر انسان کے گلشن معرفت کو ويران کرديتا ہے اور اس طرح اپنے مذموم مقاصد کي تکميل کرتا ہے۔

وہ افراد جو اپنے زمانے اور تاريخ کے لئے خدا کے راستے پر ايک پيغام رکھتے ہوں اور نئے راستے پر چلنے کے خواہشمند ہوں۔۔۔۔ ايسے افراد اور ان کے نظريے کي تباہي کے لئے شيطان زيادہ فکر مند رہتا ہے اور ان پر زيادہ حملے کرتا ہے تاکہ ان کے عزم و قدرت نفس کو کمزور کردے۔ چنانچہ وہ افراد جو اپني منزل تک پہنچنا چاہتے ہيں انہيں چاہئيے کہ اپنے عزم و ارادے کو مستحکم بنائيں تاکہ وہ شيطان کے حملوں کا دفاع کرتے ہوئے اپني منزل مقصود تک پہنچ سکيں۔

اسلام نے انسان کي حقيقي کاميابي و کامراني اور اس کے معراج کے لئے جو نماز مقرر کي ہے، ہم اس ميں اپنے آپ کو نصيحت کرتے ہيں اور دل کو بار بار ياد خدا کي طرف متوجہ کرتے ہيں۔ نماز معمولي قوتوں کي مالک اور مادي کمالات کي حاصل شخصيت کو ۔۔۔ جس کے لئے تباہي کے خطرات ہمہ وقت اس کے سر پر منڈلاتے رہتے ہيں ۔۔۔۔۔ اس خدا سے مربوط کرديتي ہے جس کي تمام صفات و کمالات کي کوئي حد نہيں ہے بلکہ حد يہ ہے کہ وہ تمام حدود سے مبرا ہے۔

يقيناً نماز ہي وہ پل ہے جس کے ذريعے ہمارا اور خدا کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور نماز ہي کے ذريعے سے ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہيں اور ہم خود کو اس ذات سے قريب کرتے ہيں جو تمام جہانوں کي فکر کرنے والي ہے اور ہميں احساس ہوتا ہے کہ ہماري قوت لامحدود لازول ہے۔ نماز کے ذريعے سے انسان کا خدا سے قريب ہونا اور خدا کي حاکميت و طاقت پر بھروسہ کرنا ہم انسانوں کي تمام کمزوريوں اور تمام برائيوں کا بہترين علاج ہے اور ہمارے عزم و ارادے کو مضبوط و مستحکم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے بہترين مالک ہے۔

رسول اللہ اور نماز

رسول گرامي قدر صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم ۔۔۔ جو اسلام کے عظيم آستانے ميں تمام دنيا کي جاہليت کے مقابل اپنے کندھوں پر مسؤليت اور ذمہ داري کا کوہ گراں محسوس کررہے ہيں ۔۔۔۔ کو حکم ديا گيا خدا کو ياد کرو اور رات کي تاريکي ميں نماز پڑھو

(سورہ مزمل ١ تا ٥)

اے مزمل ۔۔۔۔ رات کو خدا کي بارگاہ ميں قيام کرو مگر تھوڑي دير۔ آدھي رات يا اس سے کم يا اس سے زيادہ اور قرآن کو ترتيل کے ساتھ پڑھو۔ ہم عنقريب تم پر ايک بھاري بيان ( کي ذمہ داري) ڈالنے والے ہيں۔

اس عظيم ذمہ داري ، قول ثقيل يا مقصد کے لئے سورہ مزمل کي ان ابتدائي آيات ميں رسول خدا کو نماز شب پڑھنے کا حکم ديا گيا ہے ۔ ہم اپنے مضمون کو آگے بڑھاتے ہيں تاکہ نماز کے بيانات ميں توجہ کرسکيں اور اسي توجہ ميں ہم نماز کے ترجمے سے ۔۔۔۔۔ جو مناسب ہونا چاہئيے ۔۔۔۔ آگے نہيں بڑھيں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم علمي نقطہ نگاہ سے يہ تعليم دينے کي کوشش کريں گے کہ نماز کا ہدف کيا ہے ؟ اور حتيٰ الامکان ہماري يہ بھي کوشش ہوگي کہ ہم انہيں بيان کرنے ميں اپنے مقصد سے نزديک تر ہوں۔

ابتدائي نماز

نماز کي ابتدائ ، خدا کے نام ، اس کي عظمت کي ياد اور اس چيز سے ہے کہ اس کي ذات کتني بلند ہے اور اس کي ذات تمام انساني فکروں سے بلند تر ہے۔

اللہ اکبر ۔۔۔۔ خدا سب سے بزرگ ہے

نماز گذار اس جملے کے ساتھ خدا سے اپنے راز و نياز کو شروع کرديتا ہے۔

اللہ اکبر ۔۔ خدا بزرگ تر ہے۔ خدا اس سے بھي اونچا ہے کہ کوئي اس کي تعريف و توصيف بيان کرے۔ خدا تاريخ عالم کے تمام خداوں سے بزرگ تر ہے بلکہ خدا ان کي قدرتوں اور ظاہر طاقتوں سے بھي بزرگ تر ہے کہ جن سے انسان خوف کھاتا ہے يا جن سے لالچ رکھتا ہے اور خدا اس سے بھي بلند و اعليٰ ہے کہ خدا کي جو سنتيں مقرر ہيں، اور اس کے قوانين جو کائنات ميں جاري و ساري ہيں ، کوئي ان کو توڑ سکے۔

اگر انسان ان خدائي سنتوں کي معرفت اور ان پر اپني توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اپنے مقصد اور اپني تلاش کا انتخاب کيے ہوئے ہو اوراس کا خيال ہو کہ خدا بہت عظيم اور بزرگ ہے تو وہ اپنے دل ميں ايک طاقت کا احساس کرے گا اور اميد سے بھر پور احساس کرے گا کہ اسے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کي جدوجہد ميں خدا کي مدد ضرور شامل ہوگي اور اس کے کاموں کا انجام يقينا نيک اور کامياب ہوگا اور اس طرح وہ مستقبل کي زندگي اور آنے والے راستے پر نيک خيالات سے بھرپور نگاہ ڈالنے کا چنانچہ نماز پڑھنے والا لفظ ۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر کے ادا کرنے کے بعد عملاً نماز ميں داخل ہوجاتا ہے۔ پس اسے چاہئيے کہ اس قيام کي حالت ميں سورہ حمد کے بعد قرآن کے ايک مکمل سورے کي تلاوت کرے۔

سورہ حمد

بسم الله الرحمن الرحيم

ابتدائ اس خدا کے نام سے جو ايسي رحمت رکھتا ہے جو تمام عالم پرسايہ افگن ہے اور ايسي رحيميت ( مہرباني) والا ہے جو ہميشہ باقي رہنے والي ہے۔

قرآن کے ہر سورے کي ابتدائ اسي جملے سے ہے اور اسي جملے سے نہ صرف نماز کي ابتدائ ہوتي ہے بلکہ ايک مسلمان کے تمام کاموں کي ابتدائ اور آغاز نام خدا سے ہوتا ہے۔ انسان کي زندگي ، اس کے تمام معاملات اور اس کي زندگي کے تمام جلووں کي ابتدائ خدا کے نام سے ہے۔ مسلمان خدا کے نام سے اپنے دن کو شروع کرتا ہے اور خدا ہي کے نام سے اپنے روزمرہ کے امور کو انجام تک پہنچاتا ہے ۔۔۔۔ وہ خدا کے نام اور اس کي ياد کے ساتھ بستر ميں داخل ہوجاتا ہے ۔۔۔ اور اپنے نئے دن کے کاموں کو دوبارہ خدا کے نام سے شروع کرکے انہيں پايہ تکميل تک پہنچاتا ہے بلکہ اپنے خدا کي ياد سے اس دنيا سے آنکھيں بند کرتا ہے اور ہميشہ رہنے والي زندگي کي طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

الحمد لله رب العالمين

تعريف و توصيف صرف اس خدا کے لئے ہے جو پوري دنيا اور تمام کائنات کا پالنے والا ہے۔

سب تعريفيں خدا کے لئے ہيں

تعريف و توصيف کي جتني بھي قسميں ہيں وہ سب خد اکے لئے مخصوص ہيں کيونکہ کائنات ميں جتني عظمتيں وجود رکھتي ہيں اب سب کا خالق خدا ہے اور جتني رحمتيں ہيں وہ سب خدا کي طرف سے ہيں۔ خداوند عالم کي ذات ميں تمام اعليٰ صفات جمع ہيں اور تمام نيکياں اور نيک کام جو ہم دنيا ميں ديکھ رہے ہيں ان سب کا سر چشمہ اسي کا وجود ہے۔ لہذا خدا کي تعريف کرنا نيکيوں اور نيکوکاروں کي تعريف کرنا ہے اور خدا ہي کي تعريف کرنے کي وجہ سے ہماري کوشش اور جدوجہد کو ۔۔۔۔ جو نيک بننے اور نيک خواہشات کي تکميل کے لئے ہے، اپنے انجام تک پہنچنے کا راستہ مل جاتا ہے۔

اگر کوئي انسان خود ميں اچھي صفت ديکھے يا قابل تعريف کردار محسوس کرے تو وہ جان لے کہ اس ميں موجود وہ نيکي اور خوبي خدا کي رحمت کا فيض اور اس کا لطف و کرم ہے اس لئے کہ يہ صرف خدا ہي کي ذات ہے کہ جس نے انسانوں کي فطرت کو نيکيوں پر قائم کيا ہے اور يہ بھي خدا ہي کا کام ہے کہ جس نے انسان کے باطن ميں پوشيدہ صلاحيتوں کو ايسا بنايا ہے کہ اس کاباطن ہميشہ ايسي فکر ميں رہتا ہے کہ ان تمام نيکيوں اور صلاحيتوں کو ايسا بنايا ہے کہ اس کا باطن ہميشہ ايسي فکر ميں رہتا ہے کہ ان تمام نيکيوں اور صلاحيتوں کو ۔۔۔۔ جن کا سر چشمہ خدا کي ذات ہے۔ کمال تک پہنچائے اور يہ بھي خدا ہي کي ذات ہے جس نے انسانوں کو ايک اور قدرت دي ہے جسے ہم تصميم يا مصمم ( پکا ) ارادہ کہتے ہيں يعني کس کام کو کرکے ہي چھوڑنا يا کسي کام کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم ۔ يہ انسان کے لئے ايسا سرمايہ ہے جس کے ذريعے سے انسان نيک بننے کے لئے اور نيک اعمال کے راستے پر قدم بڑھاتا ہے۔

خدا عالمين کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے

انسان اپنے اس خيال سے ۔۔۔۔ کہ جو رحمت و خوبي دنيا ميں ہے وہ سب خدا کي طرف سے ہے ۔۔۔ اپني ذات کو اچھائيوں ميں گم نہيں ہوجاتا ہے اور نہ ہي اپني ذات کے شاندار ہونے کا خيال کرتا ہے۔ اگر انسان ميں نيک بننے اور کمالات حاصل کرنے کي توجہ ہوگي تو اس کي وجہ سے اس کي اس بات کي طرف بھي ہوگي کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کرے يا بيہودہ حرکات ميں وقت نہ گذارے اور اسي طرح يہ بھي خيال ہوگا کہ وہ نيکي کي صلاحيتوں اور قوتوں کي حفاظت و پاسداري بھي کرے۔

نماز پڑھنے والا جب عبادت ميں کہتا ہے کہ رب العالمين ۔۔ وہ تمام ( عالمين ) جہانوں کا رب ہے يعني کائنات ميں جتني دنيائيں اور لوگ وجود رکھتے ہيں وہ ان سب کا رب ہے اور ہم قبول کرتے ہيں کہ کائنات ميں يہي ايک دنيا نہيں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بہت سي دنيائيں ہيں۔ يہي ايک جہان نہيں ہے اور بہت سے پوشيدہ جہان اس کائنات کا حصہ ہيں اور ان تمام دنياوں اور جہانوں کا تعلق ہم ہي سے ہے سب کے سب آپس ميں ايک دوسرے سے منسلک ہيں۔۔ سب کو خدا نے خلق کيا ہے ۔۔۔۔ اور وہي سب کو کمال تک پہنچا رہا ہے۔

نماز پڑھنے والا اس بات کا احساس کرتا ہے کہ اس دنيا کے علاوہ اور بہت سي دنيائيں ہيں جبکہ اس سے قبل وہ نہ صرف خود کو اس دنيا تک محدود خيال کرتا تھا بلکہ اس کي زندگي کا نظريہ بھي ماديت کي قيد ميں تھا ليکن رب العالمين ۔۔۔ کہنے کے بعد اسے يہ خيال ہوتا ہے کہ ہماري اس دنيا کے علاوہ آگے اور بھي دنيائيں اور جہان پھيلے ہوئے ہيں۔۔۔۔۔ جو ميرا خدا ہے وہي ان جہانوں اور دنياوں کا خدا ہے اور ايسي فکر کي وجہ سے اس کي اپني دنيا سے متعلق تنگ نظري ختم ہوجاتي ہے اور محدوديت کا حصار ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ اس کي کوتاہ نظري کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس ميں جرآت اور خواہش پيدا ہوتي ہے اور وہ کائنات ميں پوشيدہ رازوں کي تلاش شروع کرديتا ہے اور انسان اس خدا کي ۔۔۔۔۔ جو تمام جہانوں اور دنياوں کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے۔۔۔۔ بندگي سے عظمت کا احساس کرتا ہے کہ ميں خدائے لاشريک کا بندہ ہوں۔

آيت الحمد للہ رب العالمين ۔۔۔ کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ نمازي کي توجہ اس بات کي طرف بھي ہوتي ہے کہ کائنات کے تمام موجودات ۔۔۔ انسان ۔۔۔ حيوان۔۔۔۔ جمادات۔۔۔ گھاس ۔۔۔۔ پھوس ۔۔۔ تمام آسمان ۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ اس کائنات ميں پوشيدہ ان گنت دنيائيں اور جہان ۔۔۔۔ جو ہمارے ادراک کي رسائي سے بہت آگے ہيں ۔۔۔۔۔ سب خدا کي بندگي اور اطاعت کرنے والے ہيں اور خدا ہي ان کي تربيت کرنے والا ہے اور ان کو کمال تک پہنچانے والا ہے۔

ان تمام خيالات کے ساتھ نمازي يہ بھي خيال کرتا ہے کہ ميرا خدا نہ تو کسي خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہي وہ کسي نسل و ملت سے ہے بلکہ رب العالمين کہہ کر بندہ يہ خيال کرتا ہے کہ خدا صرف انسانوں کا ہي تربيت کرنے والا نہيں ہے بلکہ وہ تو ايک چيونٹي اور ايک معمولي سي گھاس کا بھي خدا ہے اور خدا ہي کي تربيت کي وجہ سے تمام آسمان ، کہکشائيں اور سيارے اپني اپني منزل کي طرف رواں دواں ہيں۔ نماز پڑھنے والا اس حقيقت کو بھي درک کرتا ہے کہ ميں تنہا نہيں ہوں بلکہ دنيا ميں جتنے دنيا کي چھوٹي سے چھوٹي اور بڑي سے بڑي چيزيں سب خدا کي تربيت کے زير سايہ ميرے ايک ساتھ تربيت کررہا ہے ۔۔۔ ہم سب کے سب شاہراہ حيات پر ايک دوسرے کے بھائي اور ہمسفر ہيں۔۔۔۔ اور يہ کاروان عظيم ۔۔۔ جس ميں کائنات کے ذرے سے لے کر کہکشاوں سميت سب جاندار ، حيوان و انسان شامل ہيں ۔۔۔۔ خدا کے مقرر کردہ ہدف کے تحت ايک ہي راہ پر ايک ہي سمت رخ کئے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے۔

نمازي جب اس ربط و تعلق کا احساس کرتا ہے تو اس کي وجہ سے تمام موجودات کي نسبت خود کو ذمہ دار اور مسؤل سمجھتا ہے کہ ميري ڈيوٹي يہ ہے کہ ميں انسانيت کي خدمت کروں ، اور ان کي خدمت ان کي ہدايت اور زندگي کے امور ميں ان کي امداد کرنا ہے۔ اور وہ يہ بھي خيال کرتا ہے کہ ميں سمجھوں کہ کون سي چيزيں کس لئے بنائي ہے ؟ ان کا صحيح کون سا ہے؟ وہ کون مقاصد کے تحت دنيا ميں آئي ہيں ؟ اور وہ توجہ کرتا ہے کہ تمام موجودات کو اس راستے پر چلنا چاہئيے جس ميں خدا کي غرض ہو۔

الرحمن الرحيم

خدا رحمان اور رحيم ہے

رحمت عام اور رحمت خاص

خدا کي ايک رحمت ۔۔۔۔۔ رحمت ہے جو مختلف شکلوں ميں دنيا ميں وجود رکھتي ہے اور ان ميں سے ايک شکل وہ طاقتيں اور قوانين ہيں جو حيات کي پيدائش کا سبب ہيں اور جن کے ذريعے اس کرہ ارض پر حيات کا وجود اور ا س کي بقائ ہے۔ خداوند عالم کي يہ رحمت عام کائنات کے تمام موجودات پر چھائي ہوئي ہے۔ کائنات کي تمام چيزيں اور انسان ۔۔۔ جب تک موت کي دہليز پر نہيں پہنچتے ۔۔۔۔ ہر آن و ہر لمحے خدا کي رحمت رحمانيت سے فائدہ اٹھاتے ہيں۔

جبکہ دوسري طرف خدا کي وہ رحمت ہے جو ہر ايک کے لئے مخصوص ہے۔ خداوند عالم کي يہ رحمت ، ہدايت اور اعليٰ کاموں ميں نصرت خدا کي رحمت ہے، اجر اور اس کي خاص محبت کي رحمت ہے جو خدا انہي بندوں کو عنايت کرتا ہے جن ميں ان کي لياقت و صلاحيت ہوتي ہے جو کمالات کے لائق اور نيک انسان ہيں۔

خداوند عالم کي يہ رحمت بھي اسي دنيا سے انسان کے شامل حال ہوجاتي ہے۔ اس نوراني رحمت کا اثر قابل موجودات اور نيک انسانوں ميں موت تک اور بعد از موت قيامت تک باقي رہتا ہے۔ يہاں تک کہ انسان اپني منزل آخر تک پہنچ جاتا ہے مگر خدا کي يہ رحمت اس کے ساتھ ساتھ ہوتي ہے۔

پس معلوم ہوا کہ يہ خدا ہي کي ذات ہے جو تمام موجودات پر رحمت کرنے والي ہے اگرچہ کہ وہ تھوڑي ہي کيوں نہ ہو اور يہ بھي خدا ہي کي ذات ہے جس کي رحمت ہميشہ رہنے والي ہے اور ہر انسان ميں موجود لياقت و صلاحيت کے اعتبار سے اس کے لئے مخصوص بھي۔

ہمارا نماز ميں ياد کرنا کہ ہمارا پروردگار رحمت والا ہے يا تلاوت قرآن سے قبل ۔۔۔ نماز کے آغاز ميں ۔۔۔۔ يا کسي بھي سورے کو شروع کرنے سے پہلے خدا اور اس کي رحمت کو ياد کرنا ۔۔۔۔ ہميں متوجہ کرتا ہے کہ خدا کي محبت و مہرباني اس کي نماياں ترين صفات ہيں جو کائنات کي تخليق اور اس کے وجود کي ابتدائ ہي سے ہر ايک کے ساتھ شامل ہيں اور اس کے بر خلاف اس کي دوسري صفات يعني اس کا قہر و غضب ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو خدا کے دشمن اور فساد و تباہياں پھيلانے والے ہيں۔ا س کي رحمت رحمانيت چار سو پھيلي ہوئي ہے جو تمام موجودات اور ہر ذي حيات تک پہنچ کر رہے گي۔


3

4

5

6