فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب0%

فلسفہ نماز شب مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

فلسفہ نماز شب

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 73342
ڈاؤنلوڈ: 2148

تبصرے:

فلسفہ نماز شب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73342 / ڈاؤنلوڈ: 2148
سائز سائز سائز
فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

فلسفہ نماز شب

تالیف محمد باقر مقدسی

۳

مقدمہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰه رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآله الطاهرین ولعنة الله علیٰ اعدائهم اجمعین

اس دنیا امکان کا بہ نظر عائر مطالعہ کیا جائے تو اس کی ہر چیز چاہئیے عرض ہو یا جو ہر حضرت حق کے فضل وکرم کا محتاج نظر آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سویٰ کسی چیز کے و جود میں استقلال قابل تصور نہیں ہے لہٰذا ذات باری کے علاوہ تمام موجودات فقر ذاتی کا مجموعہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حالات لحظہ بہ لحظہ غیر کی طرف محتاج اور زمان ومکان کے حوالے سے قابل تغیر ہے کہ جس کو سمجھے نے کے خاطر تدبر وتفکر کا حکم ہوا اور آیات وروایات میں تدبر کی بیحد تاکید کے ساتھ فرمایا فکر الساعتہ عبادہ تاکہ قانون فلسفی اور موجودات کے آپس میں نظر آنے والا تناقص اور تنافی دور، اور خلقت کے حقیقی ہدف کو( جو ترقی وتکامل ہے) درک کرسکے۔

اور تکامل وترقی کے اسباب میں سے اہم ترین ایک سبب مستحبات کی پائبندی بالخصوص نماز شب کی عادت ہے کہ جس کی اہمیت قرآن وسنت کی روشنی میں انشاء اللہ عنقریب ذکر کیا جائیگا۔

لیکن کاش کہ آج کل زمانہ کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ ہم نماز شب جیسی عبادت کو انجام دینے سے محروم ہیں جبکہ قدیم زمانے میں علماء بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں مذہب پر اتنے خوف وہراس اور ہر قسم کی سختی اور دیگر وسائل کی کمی کے باوجود تہجد کے ذریعے مذہب اور قرآن کی حفاظت کرتے رہے لیکن آج کل علماء کی اتنی کثرت اور سہولیات کی فراوانی اور گذشتہ دور کی مانند خوف وہراس اور کسی کی طرف سے کوئی پابندی نہ ہونے کے باوجود تبلیغات میں استحکام نظر نہیں آتا۔

۴

لہٰذا علما ء ر وحی طبیب ہونے کی حیثیت سے لوگ روز بہ روز علماء اور مذہب سے نزدیک ہونے کے بجائے دور ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ دور حاظر فہم وشعور اور علم وادراک کے حوالے سے کامل اور سہولیات کے اعتبار سے بنی امیہ اور بنی عباس کے دور سے مقائیسہ کرنا ہی غلط ہے پس اگر دین کا استحکام ،مذہب کی ترویج ،کلام میں جاذبیت ،کاموں میں اثر،علم میں برکت اور خدا کی رضایت کے خواہاں ہو تو مستحبات پر عمل کر کے اپنے آپ کو تہجد گزار بنائے تاکہ انتشار اور آپس میں جدائی ،مذہب کی نابودی ،تبلیغ کی ناکامی ،معاشرے میں بدنامی جیسی مشکلات کا سدباب کرسکےں۔

کیونکہ اس قسم کے تمام اخلاقی مشکلات کا سدباب اور راہ حل نماز شب ہے لہٰذا اگر کوئی شخص پابندی کےساتھ نماز شب انجام دے تو علم میں شہید صدر سیاست میں خمینی کی مانند بن سکتا ہے کہ خمینی نے بوڑھاپے میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کی طاقتوں کو خاک میں ملادیا جب کہ دینوی سپرپاور حکومتیں اور سیاست دان ایسا انقلاب اور کامیابی کو ناممکن سمجھتے تھے لیکن یہ حقیقت میں ان کے خام خیالی اور مادی فکر کا نتیجہ تھا کیونکہ خدا نے ہر انسان کو دوطاقتیں عنایت کی ہے مادی اور معنوی اگر کسی کی معنوی طاقت قوی ہو تو کبھی کوئی مادی طاقت اس پر غلبہ اور دیگر ذرائع اسے ناکام نہیں بنا سکتے لہٰذا اگر خمینی ؒجیسے عمر رسیدہ ہستی کے ہاتھوں دنیا کے کسی خطےّ میں اسلام کی حاکمیت اور انقلاب کی آبیاری ہو تو تعجب نہ کیجئے کیونکہ کوئی بھی عالم دین اپنے معنویات کو مستحکم کرنے کی کوشش کریگا تو اتنی معنوی طاقت خداوند عطاکرتا ہے کہ اس کا کوئی بھی مادی طاقت اور دیگر ذرائع مقابلہ نہیں کرسکتے اسی لئے قدیم زمانے میں مدارس دینیہ اور مراکز علمیہ میں علماء اور طلباء پرابتدائی مرحلے میں ہی نمازشب کو انجام دینے کی پابندی عائد کرتے تھے کیونکہ علماء اور طلباء اسلام کے حقیقی محافظ ہیں اور اسلام کی حفاظت معنوی استحکام بغیر ناممکن ہے ۔

۵

لہٰذا اس عظیم عبادت کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس مختصر کتاب میں نماز شب سے متعلق آیات کریمہ اور روایات مبارکہ کی جمع آوری کے ساتھ ان کی وضاحت کی گئی ہے اگر چہ سند کے حوالے سے روایات میں خدشہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس مو ضوع سے مربوط بہت سی روایات سند کے حوالے سے ضعیف ہے لیکن اس کا مضمون اور دلالت امام کے کلام ہونے پر قرینہ ہے لہٰذا سند کی تحقیق سے قطع نظر صرف دلالت کی وضاحت کی گئی ہے تاکہ مؤمنین نماز شب کی حقیقت سے آگاہ اور اس کے فوائد سے بہرہ مندہوں نیز نماز شب کی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کے ساتھ نماز شب سے مربوط پیغمبر اکرم ؐاور ائمہ علہیم السلام سے منقول دعاؤں کو ترجمہ کے ساتھ بیان کیا ہے تاکہ خوش نصیب اور نماز شب کے عادی لوگوں کو نماز شب کی حقیقت اور بندگی کا ذریعہ ہونے پر مذید یقین اور یہ نورانی کلمات معنوی درجات کی بلندی کا وسیلہ بنے کیونکہ نماز شب شریعت اسلام میں پورے مستحباب کا نچوڑاور خلاصہ ہے لہٰذا گنہگار بندہ اپنے مولا ومالک حقیقی کی بارگاہ میںنماز شب پڑھنے کی تو فیق رات کی تاریکی میں رازونیاز کرنے میں کامیابی اور نماز شب کے فوائد سے دنیاوآخرت میں مالا مال ہونے کا خواہاں ہے ساتھ ہی امام عصر کے ظہور میں تعجیل اور اس نا چیز زحمت پر تائید کا طالب ہوں۔ (آمین)

والسلام۔

باقر مقدسی

١٥ /جمادی الثانی١٤٠٢٢ق ھ

حوزہ علمیہ قم مقدس

۶

پہلی فصل:

نماز شب کی اہمیت

دنیا میں ہرانسان مفکر ہو یا غیر مفکر دانشمند ہو یا غیر دانشمندمحقق ہو یا غیر محقق جب کسی قضیہ اور مسئلہ کی اہمیت اور فضیلت کو ثابت کرنا چاہتا ہیں تو ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس کو برہان اور دلیل کے ساتھ بیان کریں تاکہ لوگ اس کی فضیلت اور اہمیت کے قائل ہوجائیں لیکن ہر قضیہ کی اہمیت استدلال اور برہان کے حوالے سے مختلف ہے چونکہ اگر کوئی مسئلہ عقلی ہو یا حکمت اور منطق سے مربوط ہو تو اس کی اہمیت اور فضیلت کو بھی منطقی اور فلسفی دلائل کے ذریع ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

پس عقلی اور منطقی مسئلہ کی اہمیت کو تاریخ کے شواہد اور دلیل نقلی سے ثابت کرنا اس کی اہمیت اور فضیلت شمار نہیں ہوتی لہٰذاہر قضے کو اس کی مخصوص روش اور نہج پر ثابت کرنا فصاحت وبلاغت کی چاہت اور محققین و دانشمنددوں کی سیرت ہے اگرچہ اس قضیے سے مربوط علم کے مبانی اور اصول میں لوگوں کے آراء میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ایسا اختلاف اس قضیہ کے ثبوت اور حقیقت کے اثبات میں کوئی اثر نہیں رکھتا ہے اسی طرح اگر کوئی مسئلہ اخلاقی مسئلہ ہوچاہیے عملی اخلاق سے مربوط ہویا نظری علماء اخلاق نے اس قیضہ کی اہمیت اور فضیلت کو علم اخلاق کے فارمولوں کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا علم اخلاق سے مربوط مسائل کی اہمیت اور فضیلت کوعقلی اور فلسفی اصول و ضوابط سے ثابت کرناآیندہ آنے والی نسلوں کے لئے توہم اور اشکالات کا باعث ہوگا۔

تب ہی تو زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اعتراضات اورتصورات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اسی طرح اگر کوئی مسئلہ تاریخی ہوتو اس کی اہمیت اور فضیلت کو تاریخ کے شواہد وضوابط کی روشنی میں بھی ثابت کرنا چاہئے نہ عقل اور منطق کے روشنی میں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں واقعہ کربلا جیسی عظیم انسان ساز قربانی پر مادی ذہانت رکھنے والے افراد کی جانب سے ہونے والے بہت سی اعتراضات کا سبب تاریخی مسائل کو عقلی اورفلسفی دلائل سے مقائیسہ کرنے کا نتیجہ ہے نیز اگر کوئی مسئلہ فقہی ہو یعنی احکام الٰہی سے مربوط ہو تو اس کی اہمیت اور فضیلت کو کتاب وسنت کی روشنی میں ثابت کرنا چاہیے لہٰذا ہر مسئلہ کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والے استدلال اور براہین کی نوعیت کا مختلف ہونا طبعی ہے۔

۷

اگر چہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی سے مربوط تمام مسائل کی اہمیت اور فضیلت کے اثبات کا سر چشمہ کتاب وسنت ہے چاہئے عقلی مسئلہ ہو یا فلسفی تاریخی ہو یا فقہی اخلاقی ہو یا ادبی اس لئے نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کو تین چیزوں کی روشنی میں بیان کیا گیاہے :

١۔ کتاب کی روشنی میں ۔

٢۔ سنت کی روشنی میں۔

٣)اہل بیت علیہم السلام اور مجتہدین کی سیرت کی روشنی میں۔

الف ۔کتاب کی روشنی

نماز شب کی اہمیت بیان کر نے والی آیات دوقسم کی ہیں کہ

(١) وہ آیات جو نمازشب کی اہمیت اور فضیلت کو صریحاََبیان کرتی ہیں

(٢) وہ آیات ہیں جو نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کو ظاہرابیان کرتی ہیں وہ آیات جو صریحاََ نماز شب کی اہمیت کوبیان کرتی ہیںوہ متعدد آیات ہیں ۔

پہلی آیت:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَکَ عَسَی أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا ) (١)

اور رات کے کچھ حصے میں تہجد(یعنی نماز شب ) پڑھا کر کہ امید ہے تمہارے پروردگار روز قیامت تجھے مقام محمود تک پونہچادے ۔

تفسیر آیہ :

آیہ شریفہ کی تفسیر کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ خطاب

____________________

(١) سورہ بنی اسرائیل آیت ٧٩

۸

پیغمبر اکرم )ص( کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا نماز شب پیغمبر اکرم )ص( پر واحب تھی جبکہ باقی انسانوں پر مستحب ہے جیسا کہ اس مطلب کی طرف حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ جس سے شیخ طوسی علیہ رحمہ نے سند معتبر کے ساتھ عمار ساباطی سے نقل کیا ہے :

'' عن عمارساباطی قال کناجلوسا عند ابی عبد الله بمنی فقال له رجل ماتقول فی النوافل فقال فریضة قال ففزعنا وفزع الرجل فقال ابوعبد الله علیه السلام انما اعنی صلوةالیل علی رسول الله صلی الله علیه واله ان الله یقول ومن الیل فتهجد به نافلة لک ''(١)

عمار ساباطی نے کہا کہ ہم منی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدامت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں کسی نے آپ سے نافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نافلہ واجب ہے (جب امام نے یوں بیان فرمایا) تو وہ شخص اور ہم سب پریشان ہوئے اسوقت آپ نے فرمایا میرامقصد یہ ہے کہ نماز شب پیغمبر اکرم )ص( پر واجب ہے کیونکہ خدا نے فرمایا : اے رسول تو،رات کے خاص حصے میں نماز شب انجام دے۔

____________________

(١)تہذیب ج٣ ص ٢٤٢

۹

لہٰذا جب آیہ کریمہ کو روایت مبارکہ کے ساتھ رکھا جاتا ہے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے:

١) نماز شب پیغمبر اکرم )ص( پر واجب تھی۔

٢) نماز شب انسان سازی کابہترین ذریعہ ہے۔

٣) نماز شب مقام محمود پر پہچنے کا وسیلہ ہے ۔

لیکن مقام محمود کیا ہے یہ اپنی جگہ خود تفصیلی گفتگو ہے ۔

دوسری آیہ شریفہ:

( وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْأَسْحَار ) (١)

اور سحروں کے وقت گناہوں سے مغفرت مانگنے والے حضرات کہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر اس طرح ہوئی ہے کہ'' والمستغفرین باالاسحار ''سے وترکے قنوت میں استغفراللہ کا ذکر تکرار کرنے والے حضرات مقصود ہیں ۔

چنانچہ ابوبصیرنے روایت موثقہ کواس طرح ذکر کیا ہے:

عن ابی بصیر قال قلت له المسغفرین باالاسحار فقال استغفررسول الله صلی الله علیه والیه فی وتره سیعین مرة (٢)

یعنی ابی بصیر نے کہا کہ میں نے امام سے پوچھا کہ''والمستغفرین

____________________

(١)آل عمران آیت ١٧

(٢)وسائل الشیعہ ج٤ باب ١٠ /ابواب قنوت

۱۰

باالاسحار' ' سے کون مراد ہیں تو آپ نے فرمایا اس سے مراد حضرت پیغمبر اکرم )ص( ہیں کہ آپ نماز وترکے (قنوت میں ) ستر دفعہ استغفراللہ کا ذکر تکرار کرتے تھے ۔

مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں یوں تفسیر کی ہے:

'' المستغفرین باالاسحار ای المصلین وقت السحر'' (١)

یعنی المستغفرین باالاسحار سے مراد وہ حضرات ہیں جو سحر کے وقت نماز گذار ہیں کہ اس تفسیر کی تائید دوسری کچھ روایات بھی کرتی ہیں لہٰذا یہ ایہ شریفہ نماز شب کی ا ہمیت اور فضیلت پر واضح دلیل ہے ۔

تیسری آیہ شریفہ :

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُون ) (٢)

رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوئے اور عذاب کے خوف اور رحمت کی امید پر اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ انہیں عطاکیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں

____________________

(١)مجع البیان ج٢ ص٧١٣.

(٢)سورۃالم سجدۃ آیت ١٦

۱۱

آیہ شریفہ کی وضاحت:

اس آیہ شریفہ کی تفسیر کے بارے میں معصوم سے چار روایات نقل ہوئی ہیں کہ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ'' تتجافا'' کا مصداق وہ حضرات ہیں جو خدا کی یادمیں رات کے وقت بستر کی گرمی اورنرمی سے اپنے آپ کو محروم کرکے نماز شب کے لئے کھڑے ہوجاتے اور پروردگار سے رازونیاز کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

چنانچہ اس مطلب کو سلمان بن خالد نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

''قال الا اخبرک باالا سلام اصله وفرعه وذروةسنامه قلت بلی جعلت فداک قال:امّااصله فالصلاةوفرعه الزکاة وذروة سنا مه الجهاد ثم قال ان شئت أخبرتک باأبواب الخبر ؟قلت نعم جعلت فداک :قال الصوم جنة من النار والصدقة تذهب بالخطئیة وقیام الرجل فی جوف اللیل بذکرالله ثم فرأعلیه السلام تنجافی جنوبهم عن المضاجع'' (١)

سلیمان بن خالد امام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام نے فرمایا اے ابن خالد کیا میں تجھے اسلام کی حقیقت سے باخبر نہ کروں ؟کہ جس کی جڑتنا

____________________

(١) اصول کافی باب دعائم السلام حدیث ١٠ ج ٢

۱۲

اور شاخیں ہوں تو سلیمان بن خالد نے عرض کیا میں آپ پر فدا ہوجاؤں کیوں نہیں اسوقت آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد اور جڑنماز اس کا تنا ،زکات اور اس کی شاخیںجہادہے پھر دوبارہ آپ نے فرمایا اگر تم راضی ہوتو میں تمام نیکوں کے دروازوں کا بھی تعارف کراؤں۔

تو سلیمان بن خالد نے عرض کیا آپ پر فدا ہوجاؤں تو آپ نے فرمایا روزہ انسان کو جہنم کی اگ سے نجات دیتا ہے صدقہ انسان کے گناہ کو مٹادیتا ہے اور اگر کوئی شخص رات کی تاریکی میں خدا سے رازونیاز کی خاطر بیدار ہوتو یہ خیر اور نجات کا وسیلہ ہے اور آپ نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ )

یعنی رات کی تاریکی میں بیدار ہونے والے اس آیہ شریفہ کا مصداق ہے۔

اس روایت میں امام علیہ السلام نے اسلام کو ایک درخت سے تشبہہ دی ہے لہٰذا قرآن کریم میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ اسلام شجرطیبہ کانام ہے کہ اس کی جڑ نماز یعنی نماز کے بغیر کوئی بھی عبادت اور نیکی قابل نہیں ہے اوراس کا تنازکوٰۃ اور اس کی شاخیں جہاد ہے اور تمام نیکوں کا دروازہ روزہ اور نماز شب ہے ۔

۱۳

نیز مرحوم صدوق نے اپنی گرانبہا کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں مرسلہ کے طور پر اور دوسری کتاب( علل الشرائع) میں مسند کی شکل میں نقل کیا ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا :''فقال تتجافی جنوبهم عن المضاجع نزلت فی امیرالمؤمنین علیه السلام واتباعیه من شیعتنا ینامون فی اول اللیل فاذاذهب ثلثا الیل اوماشاالله فزعواالی ربهم راغبین راهبین طامعین فماعنده فذکرهم الله فی کتابه لنبیه (ص)وآخرهم بما اعطاهم وانه اسکنهم فی جواره وادخلهم جنةوامن خوفهم وامن روعتهم'' (١)

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے آیت تتجافی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ہمارے ان پیروکاروں کے بارے میں نازل ہوئی جو رات کے آغاز میں سوجاتے ہیں لیکن رات کے دوحصے گذرنے کے بعد یا جب خدا چاہئے تو پروردگار کی بارگاہ مین خوف و رجاء اور شوق و رغبت کے ساتھ حاضر ہو جاتے اور اللہ سے اپنی آرزؤں کی تمنا کرتے ہیں اللہ تعالی نے اسی ایت کے ذریعہ پیغمبر کو خبردی اور ان لوگوں کو دئے جانے والے درجات اور ان کو پیغمبر اکرم )ص(کے جوارمیں جگہ عطاء فرمانے اور ان کو جنت میں داخل کرکے قیامت کے خوف وہراس سے نجات دینے کے وعدہ سے مطلع فرمایا ۔

____________________

(١) من لایحضرہ الفقیۃ ج١.

۱۴

چھوتھی آیہ شریفہ :

( أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَیَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ) (١)

کیا وہ شخص جورات کے اوقات میں سجدہ کرکے اور کھڑے کھڑا خدا کی عبادت کرتا ہو اور آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہو۔

ناشکر کافرکے برابر ہوسکتا ہے (ہرگز ایسا نہیں ہے )۔

توضیح :

اس آیت کریمہ کی تفسیر کے بارے میں جناب زرارہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

فقلت (له)آنٰا اللیل ساجدا أو قائما سے مراد کیا ہے ؟

قال صلوةاللیل (٢)

یعنی زرارہ نے کہا کہ میں امام سے اس آیت کریمہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

''آنٰا اللیل ساجدا أو قائما'' سے مراد نماز شب ہے لہٰذا اس تفسیر کی

بناء پر آیت شریفہ نماز شب کی فضیلت اور اہمیت بیان کرنے والی آیات میں سے شمارہوتی ہے ۔

پانچویں آیہ شریفہ:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ) (٣)

____________________

(١)زمرآیت نمر٩

(٢)وسائل الشیعہ ج٣.

(٣)طو ر آیت نمبر٤٩.

۱۵

اور رات کے خاص وقت میں خدا کی تسبح کرکہ جس وقت ستارے غروب ہونے کے قریب ہوجاتے ہیں۔

تفسیر مجمع البیان میں جناب طبرسی اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں یوں بیان فرماتے ہیں:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ) ۔

سے مراد نماز شب ہے کیونکہ جناب زرارہ اورحمران اور محمد بن مسلم نے امام باقر اور امام جعفرصادق علیہما السلام سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں روایت کی ہے :

قالا (ان) رسول الله کان یقوم من اللیل ثلاث مراة ینظر فی افاق السماء ویقرا الخمس من ال عمران آخرها انک لاتخلف المیعاد ثم یفتح صلوة الللیل (١)

____________________

(١)مجمع البیان ج٩.

۱۶

اما م محمد باقر اور امام جعفرصادق علیہالسلام دونوں نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم )ص( رات کو تین دفعہ جاگتے اورآسمان کے افق کی طرف نظر کرتے اور سورہ آل عمران کی ان پانچ آیات کی تلاوت فرماتے تھے کہ جن میں سے آخری آیہ (انک لاتخلف المیعاد) پر ختم ہوتی ہے پھر نمازشب شروع کرتے تھے ۔

نیز آیت مذکورہ کی تفسیر میں دوسری روایت یہ ہے کہ زرارہ امام باقرعلیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

''قال قلت له وادبارالنجوم قال رکعتان قبل الصبح ''

یعنی زرارہ نے کہا کہ میں نے اما م باقر علیہ السلام سے وادبار النجوم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد صبح سے پہلے پڑھی جانے والی دو رکعت نماز ہے لہٰذا ان دوروایتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلی روایت کی بناپر آیہ شریفہ نماز شب کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتی ہے جبکہ دوسری روایت اورکچھ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ سے مراد نماز شب نہیں ہے بلکہ نماز صبح سے پہلے پڑھی جانے والی دورکعت نافلہ مقصود ہے۔

چھٹی آیت:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ) (١)

(اے رسول )اور تھوڑی دیر رات کو بھی اورنماز کے بعد بھی اس کی تسبیح کیا کرو۔

____________________

(١)سورہ ق آیت ٤٠.

۱۷

تفسیر آیہ:

اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور توضیح کے بارے میں دو قسم کی روایات پائی جاتی ہیں :

وہ روایات جو دلالت کرتی ہے کہ اس آیہ شریفہ سے مراد نماز شب ہے چنانچہ اس مطلب کو مرحوم صاحب مجمع البیان نے یوں ذکر کیا ہے کہ اس آیہ کریمہ سے مراد نمازوتر جورات کے آخری وقت نماز شب کے بعد صبح سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور اسی کی تائید میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک روایت بھی ذکر کیا ہے لیکن کچھ دوسری روایت اس طرح کی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ سے مراد نماز وتر نہیں ہے بلکہ'' لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ.لہ الملک ولہ الحمد وہوعلی کل شئی قدیر ''مراد ہے لہٰذا پہلی تفسیر اور روایت کی بناپر یہ آیہ کریمہ بھی نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کیلے دلیل بن سکتی ہے لیکن دوسری تفسیر کی بناپر یہ آیت نماز شب سے مربوط نہیں۔

ساتویں آیہ شریفہ:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیلاً ) (١)

یعنی اور کچھ رات گئے اس کا سجدہ کرو اور بڑی رات تک اس کی تسبیح کرتے رہو۔

____________________

(١)سورہ دہرآیت ٢٦.

۱۸

اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں مرحوم طبر سی نے مجمع البیان میں یوں بیان فرمایا ہے کہ آیہ شریفہ کے بارے میں امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے:

''انه سئل احمد بن محمد عن هٰذه الایةقال وماذلک التسبیح؟ قال صلوة اللیل''

یعنی احمد بن محمد نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ اس آیت کریمہ میں کلمہ تسبیح سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا اس سے مراد نماز شب ہے ۔

آٹھویں آیہ شریفہ:

( إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ هِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلاً ) (١)

بیشک رات کا اٹھنا نفس کی پائمالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے۔

مشائخ ثلاثہ یعنی مرحوم کلینی صدوق اور شیخ طوسی رحمتہ اللہ علیہم معتبر سند کے ساتھ ہشام بن سالم سے وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

فی قول الله عزوجل ان ناشئة الیل هی اشد وطا واقوم قیلا یعنی بقوله واقوم قیلا قیام الرجل عن نراشه یریدبه الله عز

____________________

(۱) سورہ مزمل آیت ٦

۱۹

وجل ولایرید به غیره (١)

جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیہ مذکورہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

''اقوم قیلا''

سے مراد وہ شخص ہے کہ جو رات کے وقت نیند اور بستر کے لطف اندوز لذتوں کو چھوڑکر صرف خدا کی بارگاہ میں کھڑاہوجاتاہے نیز صاحب مجمع البیان نے فرمایا:

''ان ناشة اللیل معناه ان ساعات اللیل لانها تنشاء ساعة بعد ساعة وتقدیره ان ساعات اللیل الناشیئة یعنی نایشة اللیل'' سے مراد رات کے اوقات ہیں کیونکہ رات کے اوقات لحظ بہ لحظ آتے اور گذار جاتے ہیں لہٰذا آیہ شریفہ کی حقیقت یوں ہے کہ'' ساعات اللیل النا شئة'' یعنی رات کے لحظ بہ لحظ آنے اور گذرنے والے اوقات مقصود ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر سے مروی ہے :

''انهما قالا هی القیام فی آخر اللیل الی صلوة اللیل هی اشد وطاای اکثر ثقلا وابلغ شفة لان اللیل وقت الراحة والعمل یشق فیه ۔''(٢)

____________________

(١) وسائل الشیعہ ج ٥.

(٢) مجمع البیان

۲۰