فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب0%

فلسفہ نماز شب مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

فلسفہ نماز شب

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 85549
ڈاؤنلوڈ: 3201

تبصرے:

فلسفہ نماز شب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 85549 / ڈاؤنلوڈ: 3201
سائز سائز سائز
فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب

مؤلف:
اردو

امام جعفر صادق اور امام محمد باقر علیہما السلام نے فرمایا کہ اس آیت سے رات کے آخری وقت میں نماز شب کے لئے جاگنا مراد ہے اور'' اشد وطاً''کا مقصد حد سے بڑھ کر سنگین اور دشواری کا سامنا ہونا ہے کیونکہ رات معمولا لوگوں کے آرام کرنے کا وقت ہے لہٰذا اس وقت کسی اور کام کو انجام دینا دشوار اورمشکل ہوجاتا ہے اسی لے خدا نے اس وقت کے خواب کو چھوڑکر نماز شب میں مصروف ہونے والے حضرات کا تذکرہ اس آیہ شریفہ میں کیا ہے ۔

اسی طرح انس ومجاہد اور ابن زید سے روایت کی گئی ہے کہ جس میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیہ شریفہ سے مرادیہ ہے:

''قیام الرجل عن براشه لایرید به الا الله تعالی ''(١)

یعنی رات کے وقت بستر کی لذت کو چھوڑکر صرف خدا کی رضایت کے لئے جاگنا مقصود ہے :

نویں آیہ شریفہ :

( وَجَعَلْنَا فِی قُلُوبِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوهَامَا کَتَبْنَاهَا عَلَیْهِمْ إِلاَّ ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اﷲِ ) (٢)

____________________

(١)مجمع البیان

(٢) حدید آیت ٢٧

۲۱

اور جن لوگوں نے انکے پیروی کی ہے ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور مہربانی ڈال دے اور رھبا نیت (یعنی لذت سے کنارہ کشی کرنا) ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکال تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے خود ایجاد کیا ہے۔

تفسیر آیہ کریمہ :

بہت سے مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی تفسیریوں بیان کئے ہیں رہبانیت سے مراد نماز شب ہے کہ اس کی تائید روایت بھی کرتی ہے کہ جس کو کلینیؓ نے اصول کافی میں صدوق ؓنے علل الشرائع ،من لایحضرہ الفقیہ اور عیون الا خبار میں اور جناب مرحوم شیخ طوسی نے تہذیب میں معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ محمد بن علی نے امام حسن علیہ السلام سے نقل کیا کہ جس میں آنحضرت سے اس آیہ شریفہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا رہبانیت سے مراد نماز شب ہے لہِذا اس تفسیر کی بناپر آیت نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہے۔

۲۲

دسویں آیہ کریمہ :

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ

( لَیْسُوا سَوَائً مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اﷲِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُونَ ) (١)

اور یہ لوگ بھی سب کے سب یکسان نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ خدا کے دین پر اس طرح ثابت قدم ہیں کہ راتوں کو خدا کی آیتیں پڑھا کرتے ہیں اور برابر سجدے کیا کرتے ہیں

تفسیر آیت :

اگر چہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے شان نزول کے بارے میں عبداللہ بن سلام وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن یہ صرف انہیں کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بنتا لہٰذا یہ آیہ شریفہ بھی ظاہر اََ نماز شب کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

چنانچہ اسی مطلب پر مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں یوں اشارہ کیا ہے :

''وفی هذه الایة دلالة علی عظم مو ضع صلوة اللیل من الله تعالی ۔''

یعنی حقیقت میں یہ آیہ شریفہ اللہ کے نزدیک نماز شب کی عظمت زیاد ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

اور اسی تفسیر پر ایک روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم )ص(سے منقول ہے کہ ''انه قال رکعتان یر کعهما العبد فی جوف اللیل

____________________

(١)ا ل عمران آیت ١١٣.

۲۳

الآخرخیر له من الدنیا وما فیهما ولولا ان اشق علی امتی لفرضهما علیها .''

اپنے فرمایا اس سے مراد وہ دورکعت نماز ہے جو خدا کا بندہ رات کے آخری وقت میں انجام دیتاہے کہ ۔

یہ دو٢ رکعت نماز پڑھنا پوری کائنات سے افضل ہے اور اگر میری امت کے لئے مشقت کا باعث نہ ہوتی تو میں اپنی امت پر ان دورکعتوں کو واجب قرار دیتا۔

گیارہویں آیت :

( وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا ) .)(١)

اور جو لوگ راتوں کو اس طرح گذارتے ہیں کہ خدا کی بارہ میں کبھی سر بسجود رہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں۔

اس آیہ شریفہ کے آغاز میں وعبادالرحمن :کا جملہ ہے کہ زیل میں سجداََ وقیاماکی تعبیر آئی ہے کہ اس تعبیر کے بارے میں ابن عباس نے فرمایا کہ اس جملے سے مراد :

''کل من کان صلی فی اللیل رکعتین اواکثر فهومن هولائ''

____________________

(١) فرقان آیت ٦٤

۲۴

یعنی کوئی بھی شخص رات کو دو٢ رکعت یا اس سے زیادہ نمار انجام دیے وہ عباد الرحمن اور سجداََ وقیاماََ کے مصداق ہے۔

لہٰذا اس تفسیر کو آیہ کریمہ کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز شب کی طرف خداوند کریم تاکیدکے ساتھ دعوت دے رہاہے اور نماز شب کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

خلاصہئ کلام چنانچہ اب تک نماز شب سے متعلق گیارہ آیات کو تفسیر کے ساتھ ذکر کیا گیا جو تین قسموں میں تقسیم ہوجاتی ہے پہلی قسم وہ آیات تھی جو نماز شب کی فضیلت اوراہمیت کو صریحاََ بیان کرتی ہے دوسری قسم وہ آیات اس طرح کی تھی جو تمام نمازوں کی عظمت وفضیلت پر دلالت کرتی تھی کہ جس میں نماز شب بھی شامل ہے تیسری قسم وہ آیات جو ظاہری طور پر نماز شب کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتی تھی ۔

مذکورہ آیات کے علاوہ اور بھی آیات ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے پر اکتفاء کرتے ہیں، لہٰذا قرآن کی روشنی میں نماز شب ایک ایسی حقیقت ہے جو پورے انبیا ء علیہم السلام اور اوصیاء کی سیرت ہونے کے باوجود ہرمشکل اور دشواری کا حل اور لاعلاج افراد کے لئے علاج اور نجات کاذریعہ ہے اور اس سے غفلت اور گوتا ہی کرنا بدبختی کی علامت ہے۔

۲۵

ب. سنت کی روشنی میں

قرآن کی روشنی میں نماز شب کی فضیلت واہمیت کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد اب نماز شب کی فضیلت کو سنت کی روشنی میں ثابت کریں گے تاکہ خوش نصیب مؤمنین کے لئے نورانیت قلب توفیقات میں اضافہ کا موجب بنے کیونکہ معصومین علیہم السلام کے ہرقول و فعل میں نورانیت الہیہ کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا کائنات میں انسان اگر ہرعمل اور حرکت کا ملاک ومعیار سنت معصومین علیہم السلام قرار دے تو ہمیشہ کامیابی ہے اگر چہ خواہشات اور آرزو انسان کو اجازت نہیں دیتی لہٰذا ہزاروں کوشش اور زحمتوں کے باوجود بہت کم ایسے انسان ہیں جوسعادت دنیا اور آخرت دونوں سے مندہوں۔

نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات بہت زیادہ ہیں جن میں سے کچھ روایات کو اختصار کو مدنظر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے یہ روایات دو٢ قسم کی ہیں پہلی قسم کچھ روایات اس طرح کی ہے جو صریحاََنماز شب کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیںدوسری قسم کچھ راوایات ظاہرانماز شب کی عظمت اور اس کے فوائد کو بیان کرتی ہیں لہٰذا روایات کو شروع کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ جو آنے والے مطالب کے لئے مفید ہے وہ مقدمہ یہ ہے جب علماء و مجتہدین کسی مطلب کو ثابت کرنے کے لئے روایات کو پیش کرتے ہیں تو اس کو ماننے کے لئے تین نکات کو ذہن میں رکھنا لازم ہے ایک سند روایات دو جہت روایات تین دلالت روایات کہ ان نکات کی تفسیر اور وضاحت علم اصول اور علم رجال کی کتابوں میں تفیصلا کیا گیا ہے تفصیلی معلومات کی خاطران کی طرف رجوع بہتر ہے۔

لہٰذا ہم سب سے پہلے ان روایات کی طرف اشارہ کریں گے جو صریحا َنماز شب کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں ان کی تعداد بھی زیادہ ہے

۲۶

پہلی روایت:

'' قال رسوالله (ص) فی وصیة بعلی علیه السلام علیک بصلاة اللیل یکررها اربعاً''

آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت میں فرمایا اے علی میں تجھے نماز شب انجام دینے کی وصیت کرتا ہوں کہ اسی جملے کو آنحضرت نے چار مرتبہ تکرار فرمایا۔

اس روایت کو جناب صاحب الوافی نے یوں نقل کیا ہے :

''معاویه بن عمارقال سمعت ابا عبدالله یقول کان فی وصیة النبی بعلی انه قال یاعلی اوصیک فی نفسک خصال فاحفظها عنی ثم قال اللهم اعنه الی ان قال وعلیک بصلوةاللیل وعلیک بصلوة اللیل وعلیک بصلوة اللیل (١)

معاویہ بن عمارنے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم )ص(نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی اور فرمایا اے علی میں تجھے کچھ ایسے اوصاف کی سفارش کرتا ہوں کہ جن کو مجھ سے یاد کرلو اور فرمایا خدایا ان اوصاف پر عمل کرنے میں علی علیہ السلام کی مددکرو۔

یہاں تک آپ نے فرمایا اے علی میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ نماز شب انجام دینا نماز شب ترک نہیں کرنا ۔

روایت کی شرح:

یہاں اس روایت کے بارے میں اس سوال کا ذہن میں آنا ایک ظاہر بات ہے کہ پیغمبر اکرم )ص( رحمتہ العالمین ہونے کے باوجود اور حضرت علی امام المسلمین ہونے کی حیثیت سے کیوں اس جملے کو چار دفعہ یادوسری روایت میں تین دفعہ تکرار فرمایا ؟

جبکہ حضرت علی علیہ السلام آغاز وحی سے لیکر اختتام وحی تک لحظہ بہ لحظہ پیغمبر اکرم )ص( کے ساتھ تھے اور تمام احکام ودستورات اسلامی سے آگاہ تھے اور بعد از پیغمبر سب سے زیادہ عمل کرنے والی ہستی تھے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے تابع محض رہے ہیں۔

____________________

(١) الوافی، ج ١و وسائل ج ٥

۲۷

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مقدمہ لازم ہے تاکہ سوال کا جواب پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرسکیں وہ مقدمہ یہ ہے کہ جب کسی زبان میں چاہئے عربی ہو یا غیر عربی کوئی جملہ یا کلمہ تکرار کے ساتھ کہا جاتا ہے تو اس کو ادبی اصطلاح میں تاکید لفظی یا معنوی کہا جاتا ہے لیکن کسی مطلب کو بیان کرنے کی خاطرح تاکید لانے کا مقصد اور ہدف کے بارے میں ادباء کے مابین آراء ونظریات مختلف ہیں۔

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے حضرت علی سے تاکید اََفرمایا کہ نماز شب فراموش نہ کرو بلکہ ہمیشہ نماز شب انجام دو اس تاکید کے ہدف اور مقصد کے بارے میں عقلاََتین قسم کے تصورقابل تصوریں ہیں۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے تاکید اََ ذکر فرمایا کہ مخاطب عام عادی انسان کی طبعت سے خارج ہے کیونکہ اس پر غفلت اور فراموشی کی بیماری لاحق ہے لہٰذا اگر تکرار کے ساتھ نہ فرماتے اور اس پر اصرار نہ کرتے تو غفلت اور فراموشی کی وجہ سے انجام نہیں دیتا کہ یہ صورت یہاںیقیناََ نہیں ہے کیونکہ مخاطب علی علیہ السلام ہے کہ جن کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ امام، وصی پیغمبراور عصمت کے مالک ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے تاکید اسی لئے کسی زبان یا کسی حدیث میں بیان کیا جاتاکہ مخاطِب عام عادی حمکرانوں میںسے ایک حمکران ہے اور وہ تاکید اََکسی جملے یا کلمے کو بیان کر کے اپنا رعب دوسروں پر جمانا چاہتا ہے حقیقت میں یہ ایک قسم کی دھمکی ہے مورد نظر حدیث میں یہ ہدف بھی محال ہے کیونکہ متکلم اور مخاطب پیغمبر اکرم )ص(ہیں کہ وہ رحمۃ اللعالمین ہیں عام عادی حکمرانوں میں سے کوئی حکمران نہیں ہے تاکہ مخاطب اپنا جملہ تکرار کرکے دہمکی دینا مقصود ہوکہ ایسا سلوک ان کی سیرت اور رحمت العالمین ہونے کے منافی ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ تاکید اور اصرار اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ کام اورفعل خدا کی نظر میں یا متکلم کی نگاہ میں بہت اہم اور عظیم ہے کہ جس میں پوری کائنات کی خیروبرکت مضمر ہے اور حقیقت میں اس تکرار اور تاکید کے ذریعے اس کام کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے'' علیک باالصلوۃ اللیل'' کو چار دفعہ یا تین دفعہ تکرار کرنے کا مقصد آخری صورت ہے یعنی حقیقت میں پیغمبر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز شب تمام کامیابی اور خیرو سعادت کا ذریعہ ہے اور جتنی مشکلات انسان پر آپڑے تو اس وقت نماز شب سے مدد لینی چاہئے ۔

۲۸

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب'' لیلۃالھریر'' کو امام حسین نے شب عاشورا کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا شام غریباں کی شب نماز شب اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہانے تمام مشکلات اور سختیوں کے وقت نماز شب کبھی فراموش نہیں کی ہے۔

لہٰذا پیغمبر اکرم )ص(نے نماز شب کی عظمت اور فضیلت کو اس مختصر جملے کو تکرار کرکے پوری کائنات کے باشعو رانسانوں کو سمجھا دیا ہے اسی لئے سوال کا جواب اس تحلیل کی روشنی میں یوں ملتا ہے کہ نماز شب کی عظمت اور اہمیت بہت زیادہ ہے اسی کو بیان کرنے کی خاطر پیغمبر اکرم نے اپنے جملے کو تکرار فرمایا اور یہ ہر انسان کی فطرت اور ضمیر کی چاہت بھی ہے کہ جب کوئی اہم قضیہ کسی اور کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کو باقی قضایا اور عام عادی مسائل کی طرح اس کے حوالہ نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو اصرار اور تاکید کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ اس قضیہ کی اہمیت اور عظمت کا پتہ چل سکے لہٰذا روایت بھی حقیقت میں فطرت اور ضمیر کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آئی ہے کیونکہ نظام اسلام کے دستورات فطرت اور عقل کے عین موافق ہیں۔

دوسری حدیث :

''قال رسول الله یاعلی ثلاث فرحات للمؤمن لقی الا خوان والا فطار من الصیام والتهجد من آخر اللیل'' (١)

حضرت پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا:

'' اے علی )ع( تین چیزین مؤمنین کے لئے خوشی کا باعث ہیں:

١) برادر دینی کا دیدار کرنا۔

____________________

(١) بحار الانوار ج ٢٩

۲۹

٢) مغرب کے وقت روزہ کھولنا۔

٣) رات کے آخری وقت نماز شب پڑھنا۔

روایت کی تشریح:

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے تین مھم ذمہ داریوں کی طرف لوگوں کی توجہ کو مبذول کرائی ہے ایک لوگوں سے ملنا کہ یہ ہرکسی معاشرے کے استحکام اور بقاء کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے ملتا ہے تو اس ملاقات کے نیتجے میں قدرتی طور پر ان کے آپس میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے اور نتیجتاً وہ ایک دوسرے کے خلاف زبانی تلوار وں سے حملہ نہیں کرتے جبکہ یہی زبانی حملے ایک دوسرے سے دوری اور جدائی اور آپس میں دشمنی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔

لہٰذا شریعت اسلام میں ایک دوسرے سے ملنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے کہ جس کا فلسفہ حقیقت میں معاشرہ کے نظام میں استحکام اور لوگوں کے آپس میں محبت ودوستی ہے لہٰذا پیغمبر اکرم )ص( نے اس حدیث میں ایک دوسرے سے ملنے کو خوشی کا ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ زندگی صلح وآئشی کے ساتھ گذار سکیں اور جھگڑا فساد جیسی اخلاقی بیماریوں سے دور رہ کر قدرتی صلاحیتوں کو بروی کار لاسکیں لیکن اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے لوگوں سے ملنے اور دیدار کرنے کو صرف مومنین کے لئے باعث خوشی قرار دیا ہے جبکہ دنیا کے تمام انسانوں میں یہ رسم ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے اور اظہار محبت کرتے ہیں جواب حقیقت میں یہ ہے کہ ملنے کی دو قسمیں ہیں:

١) ایمانداری سے ملنا۔

٢) عام عادی رسم ورواج کو پورا کرنے کی خاطر ملنا۔

۳۰

اگر ایمانداری سے ایک دوسری کی زیارت کی تو وہ خوشی کا باعث ہوگا چاہئے اس کو ظاہراََمادی فائدہ ہو یا نہ کہ جس کا تذکرہ روایت میں پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا لیکن اگر ایک دوسرے سے ملنے کا سر چشمہ ایمان نہ ہو بلکہ عام عادی رواج کو پورا کرنے کی خاطر ہو جس سے اظہار خوشی بھی کر رہا ہوپھر بھی حقیقت میں خوشی کا باعث نہیں ہے کیونکہ جو نہی تھوڑی سی نارضگی پیدا ہوتی ہے فورا آپس میں رابطہ ختم ہوجاتا ہے لہٰذا پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا ملنا اور دیدار کرنا مؤمنین کے لئے باعث مسرت ہے کیونکہ مؤمنین کے تمام اقوال اور افعال کا سر چشمہ ایمان ہے لہٰذامختصر سی نارضگی سے وہ رابطہ ختم نہیں ہوتا اور اسلام کی نظر میں ہروہ کام باارزش اور باعث مسرت ہے جو ایمان کے ساتھ سر انجام پائے ۔

دوسری ذمہ داری کہ جس کا تذکرہ پیغمبر اکرم )ص(نے اس حدیث میں فرمایا ہے وہ روزہ دار کو افطار کے وقت حاصل ہو نے والی خوشی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ جب کسی شخص پر کسی کی طرف سے کسی سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کو انجام دینے کا دستور دیا جا تا ہے تو اس کو انجام دینے کے بعد اس کا خوشی فطری تقاضا ہے لہٰذا روزہ شریعت اسلام میں ایک مہم ذمہ داری ہے جو کہ لوگوں کی نظر میں بہت سنگین اور تکالیف الہیہ میں سے بہت تکلیف دہ امر ہے لہٰذا جس کو بجا لانے کے بعد اختتام کے وقت روزہ داروں کو خوشی ہو نا فطری تقاضوں میں سے ایک ہے اسی لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا روزہ کھولتے وقت مؤمنین کو خوشی ہوتی ہے۔

نیز تیسری ذمہ داری جو مؤمنین کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث بنتی ہے اس کا اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص(نے تذکرہ کیا ہے وہ نماز شب ہے لہٰذا نماز شب کی توفیق حاصل ہونے میں ایک خاص درجہ کا ایمان درکار ہے جوایمان کے مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے کہ اس مرتبہ پر فائز شخص کو حقیقی مؤمن اور ایماندار کہا جاسکتا ہے اور ایمان کایہی مرحلہ ہے کہ انسانی طبیعت اور خواہشات کے برخلاف ہونے کے باوجود رات کی تاریکی میں ارام وسکون اور نیندکی لذتوں کو چھوڑکر زحمتوںکے ساتھ وضوکرکے قیام وسجود اور عبادت الٰہی بجالانے پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور ہرباایمان شخص سے نماز شب کی ادائیگی بعید ہے کیونکہ مؤ منین کے ایمان اس حدتک نہیں ہے کہ رات کے وقت بستر کی گرمی اور نیند کی لذت سے خود کومحروم کرکے اس عظیم نعمت سے اپنے آپ کو مالا مال اور بہر مند کرے بنابراین نماز شب کی اہمیت اور عظمت پر حدیث بہترین دلیل ہے اور اس عظیم عبادت کی عظمت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ نماز شب کتنی عظیم اور کتنا محبوب عمل ہے کہ جس کو انجام دینے سے خوشی ہوتی ہے یعنی نفسیاتی امراض بر طرف ہوجاتے ہیں آرامش قلبی کا سبب بنتا ہے چونکہ یہ عبادت دنیا اور آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرتی ہے اور انسان کومقام محمود کے نزدیک کردیتی ہے۔

۳۱

تیسری حدیث :

قال رسول الله ما اتخذ الله ابراهم خلیلا الا لا طعامه الطعام وصلاته باللیل والناس نیام (١)

پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا کہ خدا نے حضرت ابراہیم ؑکو صرف دو٢ کاموں کے نتیجہ میں اپنا خلیل قرار دیا ہے

(١) لوگوں کو کھانا کھلا نے

(٢) اور رات کے وقت نماز شب انجام دینا جب کہ باقی تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہورہے ہوں۔

حدیث کی وضاحت :

دنیا میں تمام باشعور انسانوں کی یہ رسم رہی ہے کہ جب کوئی شخص کسی مقام یا منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس کو کسی نہ کسی عنوان اور لقب سے پکارا جاتا ہے تاکہ اس کے مقام اور منصب پر دلالت کرے اسی طرح شریعت اسلام میں بھی ایسے عناوین اور القاب کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ جن کی تشریح اور انکی کمیت وکیفت کو ذکر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اشارہ کرنا مقصد ہے کہ خدا کی طرف

____________________

(١) علل الشرائع ص ٣٥

۳۲

سے جو القاب یا مقام ومنزلت جن انسانوں کو ملی ہے وہ کسی سبب اور علت سے خارج نہیں ہے۔

خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو صفی اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ حضرت اسماعیل ؑکو ذبیح اللہ حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ اور حضور اکرم )ص(کو حبیب اللہ کے القاب سے یاد فرمایا ہے اسی طرح دوسرے انسان کو بھی مختلف القاب وعناوین سے پکارے جاتے ہیں تاکہ ان اشخاص کے منصب اور مقام ومنزلت پر دلالت کرے لیکن مقام اور منصب کی دو ٢ قسمیں ہیں ایک منصب اور مقام معنوی ہے دوسرا مادی منصب، اور کسی منصب کا حاصل ہونا بھی قانون علل واسباب سے ماوراء نہیںلہٰذا مقام اور منزلت کا ملنا کردار اور گفتار کی کمیت وکیفیت پر موقوف ہے اور کردار وگفتار کے اعتبار سے لوگوں کی نظر اور خدا کی نظر مختلف ہے لہٰذا ان دو ٢ منصبوں میں سے معنوی منصب کو مثبت اور ان کے اسبا ب کو شریعت اسلام کہا جاتاہے جب کہ مادی منصب کو منفی اور اس کے اسباب کو مادی نظام کہا جاتا ہے لہٰذا معنوی منصب کے علل واسبا ب میں سے ایک نماز شب ہے اس طرح لوگوں کو کھانا کھلانابھی مثبت منصب کے اسباب میں سے ہے لیکن شیطانی سیاست کرکے مقام ومنزلت کی تلاش کرنا منفی منصب کا سبب ہے کہ جس کا نتیجہ خسرالد نیا والا خرۃ ہے۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص( نے اس روایت میں دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے (١) نماز شب کا پڑ ھنا صرف میری ذمہ داری اورخصوصیت نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم ؑجیسے پیغمبر کی بھی سیرت ہے (٢) حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ کا لقب ملنے کا سبب بھی ذکرفرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ کا لقب اسی لئے دیا گیا کہ آپ لوگوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور نماز شب پڑھا کرتے تھے جب کہ اس وقت دوسرے لوگ خواب غفلت میں مشغول ہوتے ہیں اگر ہم بھی خدا کے محبوب اور خلیل بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی حضرت ابراہیم کی سیرت کو اپنانا ہوگا یعنی ضرورت مند مسلمان بھائیوں کو کھانا کھلا نا اور نماز شب کو پابندی کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔

۳۳

١۔نماز شب باعث شرافت

نماز شب کی اہمیت اورعظمت بیان کرنے والی روایات میں سے چوتھی روایت حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی یہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

''قال شرف المومن صلوته بااللیل وعز المؤمن کفه عن اعراض الناس ''(١)

نماز شب کا پڑھنا مؤمنین کی شرافت کا باعث ہے اور مومن کی عزت لوگوں کی آبرو ریزی سے پرہیزکرنے میں ہے۔

____________________

(١)کافی ج٣

۳۴

حدیث کی توضیح:

اس حدیث شریف میں چھٹے امام نے چار چیزوں کو بیان فرمایا ہے:

١) مؤمنین کی شرافت۔

٢) ان کی عزت ۔

٣) نماز شب۔

٤) لوگوں کی ابرو کی حفاظت کرنا۔

اور یہ طبیعی امر ہے کہ ہرانسان اس خواہش کا متمنی ہے کہ معاشرے میں اس کی شرافت اورعزت میں روز بروزاضافہ ہو لہٰذا شرافت اور عزت کی خاطر پوری زندگی کا خاتمہ اور ہزاروں مشکلات کو برداشت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر خواہش رکھنے والا اس میدان میں کامیاب نہیں ہوتا اور ہر معاشرہ میں شاید ١٠/ فیصدافراد نماز شب سے حاصل ہونے والی شرافت اور عزت سے مالامال ہیں جب کہ باقی ٩٠/فیصد افراد اس شرافت اور عزت سے محروم ہیں کیونکہ شرافت اور عزت زحمت وہمیت کا نتیجہ ہے جو برسوں کی مشقت اٹھا نے کے بعد حاصل ہوتی ہے لیکن ہر زحمت باعث عزت وشرافت نہیں ہے کیونکہ زحمت اور ہمیت کی دو٢ قسمیں ہیں:

١) منفی زحمت۔

٢) مثبت زحمت۔

۳۵

اگر شرافت اور عزت کے اسباب مثبت ہوں یعنی خدائی زحمات اور الٰہی ہمتوں پر مشتمل ہو تو اس حاصل ہوئی شرافت کو حقیقی اور الٰہی شرافت اور عزت سے تعبیرکیا جاتا ہے جیسے مؤمن بندہ رات کے وقت نیند کی لذت سے محروم ہو کر اپنے محبوب حقیقی کو راضی کرنے کے لئے رات کی تاریکی میں نماز شب کی زحمت اٹھانا اسی طرح دوسرے شخص کی آبرو کو اپنی آبرو سمجھتے ہوئے اس کی آبر وریزی کرنے سے پرہیز کرنا جبکہ وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہوتا ہے لیکن ان کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہے چونکہ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسروں کو انسان سمجھا جائے لیکن آج کل بد قسمتی سے ایسا سلوک بہت کم نظر آتا ہے لہٰذامعصوم کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ مومن کی حقیقی شرافت اور عزت نماز شب پڑھنے اور دوسرے بھائیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے میں پوشدہ ہے۔

٢۔نماز شب محبت خدا کا سبب:

امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے ۔

''قال الامام الباقر ان الله یحب المساهر باالصلوة ''(١)

آپ نے فرمایا کہ خدا اس شخص کو دوست رکھتا ہے جو سحر کے وقت نماز شب کی خاطر نیند سے بیدار ہوتا ہے

تشریح :

اس حدیث میں امام نے محبت خدا کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن محبت ایک امر

____________________

(١) بحار الانوارج٧٦

۳۶

باطنی ہے اور اس کے آثار اور نتائج ظاہری ہیں نیز محبت کا مفہوم متعدد مراتب اور مختلف درجات کا حامل ہے پس اگر کسی سے کہا جائے کہ فلانی اپنے محبوب کے ساتھ محبت کے آخری مرحلہ پر ہے تو اتفاق سے اگر وہ محبوب کو کھوبیٹھے تو وہ دیوانہ ہوجاتا ہے اور کبھی محبت اس مرتبے کی نہیں ہوتی کہ جس کے نتیجے میں محبوب کے نہ ملنے کی صورت میں وہ دیوانہ نہیں ہوتا لہٰذاہمیشہ محبت کا نتیجہ محبت کے مراتب اور مراحل کا تابع ہے اگر محبت آخری مرحلے کا ہو تو نتیجہ بھی حتمی ہے اور اگر محبت آخری مرحلے کا نہ ہو تو نتیجہ بھی حتمی نہیں ہے لیکن محبت کی حقیقت کے بارے میں محققین نے بہت سی تحقیقات کی ہیں مگر وہ تحقیقات محبت کی حقیقت سے دور ہیں اسی لئے ان پراعتماد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اسلام کی روشنی میں محبت دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

(۱)الٰہی محبت یعنی خدا کا کسی سے محبت ودوستی رکھنا

(٢)انسانی محبت یعنی لوگوں کا ایک دوسرے سے محبت کرنا اور اظہار دوستی کرنا اگر خدا کسی بندے سے کہے کہ تو میرا محبوب ہے تجھ سے میں محبت کرتا ہوں ایسی محبت کو حقیقی اور واقعی کہا جاتا ہے کیونکہ اس محبت میں کیفیت اورکمیت کے لحاظ سے کوئی نقص اور کمی نہیں پائی جاتی لہٰذا اس کا نتیجہ اور آثار حتمی ہے یعنی اس کے نتیجے میں اس انسان کے لیے دنیا میں عزت وشرافت جیسی منزلت اور اخروی زندگی میں جنت جیسی عظیم نعمت عطا کیا جاتا ہے لیکن اگر محبت کی دوسری قسم ہو یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ تو میرا محبوب ہے اس کو اعتباری اور غیر حقیقی محبت کہا جاتا ہے اگر چہ والدین اور اولاد کے مابین پائی جانے والی محبت ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ محبت ان کی ذاتی نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی طرف سے عطاہوئی ہے لہٰذا محبت اعتباری ہے لیکن دونوں قسم محبت کچھ علل واسباب کی مرہون منت ہیں۔

لہٰذا امام علیہ السلام نے اس حدیث میں حقیقی محبت کا سبب ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ خدا اپنے بندوں سے دوستی اور محبت اسوقت کرتا ہے کہ جب بندہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں کو رضائے الہی کی خاطر ترک کرے جیسے نیندکی لذت بندے کی نظر میں بہت پسندیدہ ہے لیکن اس کو ترک کرکے وہ کوئی ایساکام انجام دے جو اس کی نظر میں بامشقت ہو اور خدا کی نظر میں بہت اہم ہو جیسے نماز شب کیلئے بیدار ہونا ایسے کاموں کو انجام دینے کی خاطر ایمان کا اعلی مرتبہ درکار ہے کہ جب عبد ایمان کے اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اور اپنی خواہشات کو خدا کی چاہت پر فدا کرے تو خدا اس کو اپنا محبوب قرار دیتا ہے اور خدا اس سے دوستی کرنے لگتا ہے لہٰذا اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز شب خدا کی محبت کا سبب ہے اور یہی فضیلت نماز شب کے لئے کا فی ہے

۳۷

٣۔نماز شب زنیت کا باعث

چنانچہ مذکورہ مطلب سے ہمیں معلوم ہوا کہ نماز شب کا میابی کا راز شرافت کا ذریعہ ،اور محبت خدا کا سبب ہے نیز نماز شب انسان کی زینت کا سبب بھی ہے اس مطلب کو امام جعفر صادق نے یوں ارشاد فرمایا :

''المال والبنون زینت الحیاة الدنیا ان الثمان رکعات یصلها اخراللیل زینة الاخرة '' (١)

(اے لوگو!) اولاد اور دولت دینوی زندگی کی زنیت ہے (لیکن)آٹھ رکعت نمازجو رات کے آخری وقت میں پڑھی جاتی ہے وہ اخرو ی زندگی کی زینت ہے ۔

حدیث کی تحلیل :

نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات میں سے کئی روایات کو مختصر توضیحات کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نماز شب میں خیر وبرکت اور سعادت دنیا وآخرت مضمرہے اور اس ورایت میں امام جعفرصادق نے دومطلب کی طرف اشارہ فرمایا :

(١)ہر انسان کی دوقسم کی ز ندگی حتمی ہے دنیوی اور اخروی ۔

(٢) ہرایک زندگی کے لئے کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہیں کہ ان دونو ں مطالب کی مختصر وضاحت کرنا لازم ہے پہلا مطلب زندگی دوقسموں میں تقسیم ہوتی ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے ثبوت اور اثبات کے قائل سارے مسلمان ہیں اگر چہ کچھ ملحد اس تقسیم سے انکار کرتے ہیں اور معادو قیامت کے

____________________

(١)وسائل ج١٣.

۳۸

حساب وکتاب کے نام سے کسی چیز کے قائل نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں زندگی کا دارو مدار بس اسی دنیوی اور مادی زندگی پر ہے کہ جس کے بعد انسان نسیت ونابود اور فناء کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہٰذا دنیا میں اپنی خواہشات کے منافی عوامل سے مقابلہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ دنیا میں زیادہ بہترزندگی گذار سیکیں اسلئے اسلام جیسے نظام کو جو فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے مانع آذادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے میں حا لانکہ وہ اسلام کی حقیقت اور نظام اسلامی استحکام وبقاء سے بخوبی واقف ہیں۔

دوسرامطلب جو روایت میں مذکورہے کہ جس کا اعتراف سارے انسان کرتے ہیں چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم اس کے باوجود غیرمسلم اور مادہ پرست اسلام کو بد نام کرنے کی خاطر طرح طرح کی غیر منطقی باتیں منسوب کرنے میں سر گردان رہے ہیں لہٰذا کہا کرتے ہیںکہ اسلام زینت کے مخالف ہے جب کہ اسلامی تعلیمات انسانوں کو زینت کی طرف (چاہے مادی ہو یامعنوی)ترغیب دلاتی ہے لہٰذا اسلامی تعلیمات میں ملتا ہے کہ جمعہ کے روزغسل کرنا ناخن تراشنا بالوں کو خضاب لگانا اورآنکھوں کی زینت کے لیے سرمہ لگانا اور ہمیشہ خوشبولگا کر نمازپڑھنا وغیرہ مستحب ہے اگر چہ اسلام زینت کی حقیقت اور کمیت وکیفت کے حوالہ سے باقی نظریات کے مخالف ہے لیکن خود زینت کے مخالف نہیں ہے لہٰذا امام اس روایت میں زینت دنیوی کے علل واسباب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا اولاد اور دولت مادی زندگی کی زینت ہیں کہ اس مطلب کی طرف کلام مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے :

''المال والبنون زینةالحیاة الدینا''

یعنی مال واولاد دنیوی زندگی کی زینت کا ذریعہ ہیں ۔

۳۹

ابدی زندگی کی زینت کے علل واسباب میں سے ایک نمازشب ہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑتا ہے کہ جس طرح غیر مسلم، عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے اخروی زندگی کی سے محروم ہیں اسی طرح مسلمان حضرات بھی اخروی زندگی کی زینت سے عملاََبہت دور ہیںاگرچہ عقیدہ اور تصورکے مرحلے میں غیر مسلم کے مساوی نہیںہیں لیکن عملی میدان میں ان کے یکسان نظر آتے ہیں کہ یہ مسلمانوںکےلئے بہت دکھ کی بات ہے نیز نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔

'' انه کان یقول ان اهلیبت امر نا ان نطعم الطعام ونوادی فی النائیه ونصلی اذ ا نام الناس (٣)

آپ نے فرمایا کہ ہم ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہمیں خدا کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلائیں اور مشکل کے وقت ان کی مدد کریں اور جب وہ خواب غفلت میں سو رہے تو ہم نماز شب کو اداء کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

____________________

(٣) معانی الاخبار

۴۰