فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب33%

فلسفہ نماز شب مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

فلسفہ نماز شب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 91160 / ڈاؤنلوڈ: 3710
سائز سائز سائز
فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

امام جعفر صادق اور امام محمد باقر علیہما السلام نے فرمایا کہ اس آیت سے رات کے آخری وقت میں نماز شب کے لئے جاگنا مراد ہے اور'' اشد وطاً''کا مقصد حد سے بڑھ کر سنگین اور دشواری کا سامنا ہونا ہے کیونکہ رات معمولا لوگوں کے آرام کرنے کا وقت ہے لہٰذا اس وقت کسی اور کام کو انجام دینا دشوار اورمشکل ہوجاتا ہے اسی لے خدا نے اس وقت کے خواب کو چھوڑکر نماز شب میں مصروف ہونے والے حضرات کا تذکرہ اس آیہ شریفہ میں کیا ہے ۔

اسی طرح انس ومجاہد اور ابن زید سے روایت کی گئی ہے کہ جس میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیہ شریفہ سے مرادیہ ہے:

''قیام الرجل عن براشه لایرید به الا الله تعالی ''(١)

یعنی رات کے وقت بستر کی لذت کو چھوڑکر صرف خدا کی رضایت کے لئے جاگنا مقصود ہے :

نویں آیہ شریفہ :

( وَجَعَلْنَا فِی قُلُوبِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوهَامَا کَتَبْنَاهَا عَلَیْهِمْ إِلاَّ ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اﷲِ ) (٢)

____________________

(١)مجمع البیان

(٢) حدید آیت ٢٧

۲۱

اور جن لوگوں نے انکے پیروی کی ہے ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور مہربانی ڈال دے اور رھبا نیت (یعنی لذت سے کنارہ کشی کرنا) ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکال تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے خود ایجاد کیا ہے۔

تفسیر آیہ کریمہ :

بہت سے مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی تفسیریوں بیان کئے ہیں رہبانیت سے مراد نماز شب ہے کہ اس کی تائید روایت بھی کرتی ہے کہ جس کو کلینیؓ نے اصول کافی میں صدوق ؓنے علل الشرائع ،من لایحضرہ الفقیہ اور عیون الا خبار میں اور جناب مرحوم شیخ طوسی نے تہذیب میں معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ محمد بن علی نے امام حسن علیہ السلام سے نقل کیا کہ جس میں آنحضرت سے اس آیہ شریفہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا رہبانیت سے مراد نماز شب ہے لہِذا اس تفسیر کی بناپر آیت نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہے۔

۲۲

دسویں آیہ کریمہ :

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ

( لَیْسُوا سَوَائً مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اﷲِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُونَ ) (١)

اور یہ لوگ بھی سب کے سب یکسان نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ خدا کے دین پر اس طرح ثابت قدم ہیں کہ راتوں کو خدا کی آیتیں پڑھا کرتے ہیں اور برابر سجدے کیا کرتے ہیں

تفسیر آیت :

اگر چہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے شان نزول کے بارے میں عبداللہ بن سلام وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن یہ صرف انہیں کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بنتا لہٰذا یہ آیہ شریفہ بھی ظاہر اََ نماز شب کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

چنانچہ اسی مطلب پر مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں یوں اشارہ کیا ہے :

''وفی هذه الایة دلالة علی عظم مو ضع صلوة اللیل من الله تعالی ۔''

یعنی حقیقت میں یہ آیہ شریفہ اللہ کے نزدیک نماز شب کی عظمت زیاد ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

اور اسی تفسیر پر ایک روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم )ص(سے منقول ہے کہ ''انه قال رکعتان یر کعهما العبد فی جوف اللیل

____________________

(١)ا ل عمران آیت ١١٣.

۲۳

الآخرخیر له من الدنیا وما فیهما ولولا ان اشق علی امتی لفرضهما علیها .''

اپنے فرمایا اس سے مراد وہ دورکعت نماز ہے جو خدا کا بندہ رات کے آخری وقت میں انجام دیتاہے کہ ۔

یہ دو٢ رکعت نماز پڑھنا پوری کائنات سے افضل ہے اور اگر میری امت کے لئے مشقت کا باعث نہ ہوتی تو میں اپنی امت پر ان دورکعتوں کو واجب قرار دیتا۔

گیارہویں آیت :

( وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا ) .)(١)

اور جو لوگ راتوں کو اس طرح گذارتے ہیں کہ خدا کی بارہ میں کبھی سر بسجود رہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں۔

اس آیہ شریفہ کے آغاز میں وعبادالرحمن :کا جملہ ہے کہ زیل میں سجداََ وقیاماکی تعبیر آئی ہے کہ اس تعبیر کے بارے میں ابن عباس نے فرمایا کہ اس جملے سے مراد :

''کل من کان صلی فی اللیل رکعتین اواکثر فهومن هولائ''

____________________

(١) فرقان آیت ٦٤

۲۴

یعنی کوئی بھی شخص رات کو دو٢ رکعت یا اس سے زیادہ نمار انجام دیے وہ عباد الرحمن اور سجداََ وقیاماََ کے مصداق ہے۔

لہٰذا اس تفسیر کو آیہ کریمہ کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز شب کی طرف خداوند کریم تاکیدکے ساتھ دعوت دے رہاہے اور نماز شب کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

خلاصہئ کلام چنانچہ اب تک نماز شب سے متعلق گیارہ آیات کو تفسیر کے ساتھ ذکر کیا گیا جو تین قسموں میں تقسیم ہوجاتی ہے پہلی قسم وہ آیات تھی جو نماز شب کی فضیلت اوراہمیت کو صریحاََ بیان کرتی ہے دوسری قسم وہ آیات اس طرح کی تھی جو تمام نمازوں کی عظمت وفضیلت پر دلالت کرتی تھی کہ جس میں نماز شب بھی شامل ہے تیسری قسم وہ آیات جو ظاہری طور پر نماز شب کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتی تھی ۔

مذکورہ آیات کے علاوہ اور بھی آیات ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے پر اکتفاء کرتے ہیں، لہٰذا قرآن کی روشنی میں نماز شب ایک ایسی حقیقت ہے جو پورے انبیا ء علیہم السلام اور اوصیاء کی سیرت ہونے کے باوجود ہرمشکل اور دشواری کا حل اور لاعلاج افراد کے لئے علاج اور نجات کاذریعہ ہے اور اس سے غفلت اور گوتا ہی کرنا بدبختی کی علامت ہے۔

۲۵

ب. سنت کی روشنی میں

قرآن کی روشنی میں نماز شب کی فضیلت واہمیت کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد اب نماز شب کی فضیلت کو سنت کی روشنی میں ثابت کریں گے تاکہ خوش نصیب مؤمنین کے لئے نورانیت قلب توفیقات میں اضافہ کا موجب بنے کیونکہ معصومین علیہم السلام کے ہرقول و فعل میں نورانیت الہیہ کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا کائنات میں انسان اگر ہرعمل اور حرکت کا ملاک ومعیار سنت معصومین علیہم السلام قرار دے تو ہمیشہ کامیابی ہے اگر چہ خواہشات اور آرزو انسان کو اجازت نہیں دیتی لہٰذا ہزاروں کوشش اور زحمتوں کے باوجود بہت کم ایسے انسان ہیں جوسعادت دنیا اور آخرت دونوں سے مندہوں۔

نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات بہت زیادہ ہیں جن میں سے کچھ روایات کو اختصار کو مدنظر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے یہ روایات دو٢ قسم کی ہیں پہلی قسم کچھ روایات اس طرح کی ہے جو صریحاََنماز شب کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیںدوسری قسم کچھ راوایات ظاہرانماز شب کی عظمت اور اس کے فوائد کو بیان کرتی ہیں لہٰذا روایات کو شروع کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ جو آنے والے مطالب کے لئے مفید ہے وہ مقدمہ یہ ہے جب علماء و مجتہدین کسی مطلب کو ثابت کرنے کے لئے روایات کو پیش کرتے ہیں تو اس کو ماننے کے لئے تین نکات کو ذہن میں رکھنا لازم ہے ایک سند روایات دو جہت روایات تین دلالت روایات کہ ان نکات کی تفسیر اور وضاحت علم اصول اور علم رجال کی کتابوں میں تفیصلا کیا گیا ہے تفصیلی معلومات کی خاطران کی طرف رجوع بہتر ہے۔

لہٰذا ہم سب سے پہلے ان روایات کی طرف اشارہ کریں گے جو صریحا َنماز شب کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں ان کی تعداد بھی زیادہ ہے

۲۶

پہلی روایت:

'' قال رسوالله (ص) فی وصیة بعلی علیه السلام علیک بصلاة اللیل یکررها اربعاً''

آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت میں فرمایا اے علی میں تجھے نماز شب انجام دینے کی وصیت کرتا ہوں کہ اسی جملے کو آنحضرت نے چار مرتبہ تکرار فرمایا۔

اس روایت کو جناب صاحب الوافی نے یوں نقل کیا ہے :

''معاویه بن عمارقال سمعت ابا عبدالله یقول کان فی وصیة النبی بعلی انه قال یاعلی اوصیک فی نفسک خصال فاحفظها عنی ثم قال اللهم اعنه الی ان قال وعلیک بصلوةاللیل وعلیک بصلوة اللیل وعلیک بصلوة اللیل (١)

معاویہ بن عمارنے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم )ص(نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی اور فرمایا اے علی میں تجھے کچھ ایسے اوصاف کی سفارش کرتا ہوں کہ جن کو مجھ سے یاد کرلو اور فرمایا خدایا ان اوصاف پر عمل کرنے میں علی علیہ السلام کی مددکرو۔

یہاں تک آپ نے فرمایا اے علی میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ نماز شب انجام دینا نماز شب ترک نہیں کرنا ۔

روایت کی شرح:

یہاں اس روایت کے بارے میں اس سوال کا ذہن میں آنا ایک ظاہر بات ہے کہ پیغمبر اکرم )ص( رحمتہ العالمین ہونے کے باوجود اور حضرت علی امام المسلمین ہونے کی حیثیت سے کیوں اس جملے کو چار دفعہ یادوسری روایت میں تین دفعہ تکرار فرمایا ؟

جبکہ حضرت علی علیہ السلام آغاز وحی سے لیکر اختتام وحی تک لحظہ بہ لحظہ پیغمبر اکرم )ص( کے ساتھ تھے اور تمام احکام ودستورات اسلامی سے آگاہ تھے اور بعد از پیغمبر سب سے زیادہ عمل کرنے والی ہستی تھے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے تابع محض رہے ہیں۔

____________________

(١) الوافی، ج ١و وسائل ج ٥

۲۷

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مقدمہ لازم ہے تاکہ سوال کا جواب پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرسکیں وہ مقدمہ یہ ہے کہ جب کسی زبان میں چاہئے عربی ہو یا غیر عربی کوئی جملہ یا کلمہ تکرار کے ساتھ کہا جاتا ہے تو اس کو ادبی اصطلاح میں تاکید لفظی یا معنوی کہا جاتا ہے لیکن کسی مطلب کو بیان کرنے کی خاطرح تاکید لانے کا مقصد اور ہدف کے بارے میں ادباء کے مابین آراء ونظریات مختلف ہیں۔

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے حضرت علی سے تاکید اََفرمایا کہ نماز شب فراموش نہ کرو بلکہ ہمیشہ نماز شب انجام دو اس تاکید کے ہدف اور مقصد کے بارے میں عقلاََتین قسم کے تصورقابل تصوریں ہیں۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے تاکید اََ ذکر فرمایا کہ مخاطب عام عادی انسان کی طبعت سے خارج ہے کیونکہ اس پر غفلت اور فراموشی کی بیماری لاحق ہے لہٰذا اگر تکرار کے ساتھ نہ فرماتے اور اس پر اصرار نہ کرتے تو غفلت اور فراموشی کی وجہ سے انجام نہیں دیتا کہ یہ صورت یہاںیقیناََ نہیں ہے کیونکہ مخاطب علی علیہ السلام ہے کہ جن کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ امام، وصی پیغمبراور عصمت کے مالک ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے تاکید اسی لئے کسی زبان یا کسی حدیث میں بیان کیا جاتاکہ مخاطِب عام عادی حمکرانوں میںسے ایک حمکران ہے اور وہ تاکید اََکسی جملے یا کلمے کو بیان کر کے اپنا رعب دوسروں پر جمانا چاہتا ہے حقیقت میں یہ ایک قسم کی دھمکی ہے مورد نظر حدیث میں یہ ہدف بھی محال ہے کیونکہ متکلم اور مخاطب پیغمبر اکرم )ص(ہیں کہ وہ رحمۃ اللعالمین ہیں عام عادی حکمرانوں میں سے کوئی حکمران نہیں ہے تاکہ مخاطب اپنا جملہ تکرار کرکے دہمکی دینا مقصود ہوکہ ایسا سلوک ان کی سیرت اور رحمت العالمین ہونے کے منافی ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ تاکید اور اصرار اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ کام اورفعل خدا کی نظر میں یا متکلم کی نگاہ میں بہت اہم اور عظیم ہے کہ جس میں پوری کائنات کی خیروبرکت مضمر ہے اور حقیقت میں اس تکرار اور تاکید کے ذریعے اس کام کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے'' علیک باالصلوۃ اللیل'' کو چار دفعہ یا تین دفعہ تکرار کرنے کا مقصد آخری صورت ہے یعنی حقیقت میں پیغمبر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز شب تمام کامیابی اور خیرو سعادت کا ذریعہ ہے اور جتنی مشکلات انسان پر آپڑے تو اس وقت نماز شب سے مدد لینی چاہئے ۔

۲۸

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب'' لیلۃالھریر'' کو امام حسین نے شب عاشورا کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا شام غریباں کی شب نماز شب اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہانے تمام مشکلات اور سختیوں کے وقت نماز شب کبھی فراموش نہیں کی ہے۔

لہٰذا پیغمبر اکرم )ص(نے نماز شب کی عظمت اور فضیلت کو اس مختصر جملے کو تکرار کرکے پوری کائنات کے باشعو رانسانوں کو سمجھا دیا ہے اسی لئے سوال کا جواب اس تحلیل کی روشنی میں یوں ملتا ہے کہ نماز شب کی عظمت اور اہمیت بہت زیادہ ہے اسی کو بیان کرنے کی خاطر پیغمبر اکرم نے اپنے جملے کو تکرار فرمایا اور یہ ہر انسان کی فطرت اور ضمیر کی چاہت بھی ہے کہ جب کوئی اہم قضیہ کسی اور کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کو باقی قضایا اور عام عادی مسائل کی طرح اس کے حوالہ نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو اصرار اور تاکید کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ اس قضیہ کی اہمیت اور عظمت کا پتہ چل سکے لہٰذا روایت بھی حقیقت میں فطرت اور ضمیر کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آئی ہے کیونکہ نظام اسلام کے دستورات فطرت اور عقل کے عین موافق ہیں۔

دوسری حدیث :

''قال رسول الله یاعلی ثلاث فرحات للمؤمن لقی الا خوان والا فطار من الصیام والتهجد من آخر اللیل'' (١)

حضرت پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا:

'' اے علی )ع( تین چیزین مؤمنین کے لئے خوشی کا باعث ہیں:

١) برادر دینی کا دیدار کرنا۔

____________________

(١) بحار الانوار ج ٢٩

۲۹

٢) مغرب کے وقت روزہ کھولنا۔

٣) رات کے آخری وقت نماز شب پڑھنا۔

روایت کی تشریح:

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے تین مھم ذمہ داریوں کی طرف لوگوں کی توجہ کو مبذول کرائی ہے ایک لوگوں سے ملنا کہ یہ ہرکسی معاشرے کے استحکام اور بقاء کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے ملتا ہے تو اس ملاقات کے نیتجے میں قدرتی طور پر ان کے آپس میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے اور نتیجتاً وہ ایک دوسرے کے خلاف زبانی تلوار وں سے حملہ نہیں کرتے جبکہ یہی زبانی حملے ایک دوسرے سے دوری اور جدائی اور آپس میں دشمنی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔

لہٰذا شریعت اسلام میں ایک دوسرے سے ملنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے کہ جس کا فلسفہ حقیقت میں معاشرہ کے نظام میں استحکام اور لوگوں کے آپس میں محبت ودوستی ہے لہٰذا پیغمبر اکرم )ص( نے اس حدیث میں ایک دوسرے سے ملنے کو خوشی کا ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ زندگی صلح وآئشی کے ساتھ گذار سکیں اور جھگڑا فساد جیسی اخلاقی بیماریوں سے دور رہ کر قدرتی صلاحیتوں کو بروی کار لاسکیں لیکن اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے لوگوں سے ملنے اور دیدار کرنے کو صرف مومنین کے لئے باعث خوشی قرار دیا ہے جبکہ دنیا کے تمام انسانوں میں یہ رسم ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے اور اظہار محبت کرتے ہیں جواب حقیقت میں یہ ہے کہ ملنے کی دو قسمیں ہیں:

١) ایمانداری سے ملنا۔

٢) عام عادی رسم ورواج کو پورا کرنے کی خاطر ملنا۔

۳۰

اگر ایمانداری سے ایک دوسری کی زیارت کی تو وہ خوشی کا باعث ہوگا چاہئے اس کو ظاہراََمادی فائدہ ہو یا نہ کہ جس کا تذکرہ روایت میں پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا لیکن اگر ایک دوسرے سے ملنے کا سر چشمہ ایمان نہ ہو بلکہ عام عادی رواج کو پورا کرنے کی خاطر ہو جس سے اظہار خوشی بھی کر رہا ہوپھر بھی حقیقت میں خوشی کا باعث نہیں ہے کیونکہ جو نہی تھوڑی سی نارضگی پیدا ہوتی ہے فورا آپس میں رابطہ ختم ہوجاتا ہے لہٰذا پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا ملنا اور دیدار کرنا مؤمنین کے لئے باعث مسرت ہے کیونکہ مؤمنین کے تمام اقوال اور افعال کا سر چشمہ ایمان ہے لہٰذامختصر سی نارضگی سے وہ رابطہ ختم نہیں ہوتا اور اسلام کی نظر میں ہروہ کام باارزش اور باعث مسرت ہے جو ایمان کے ساتھ سر انجام پائے ۔

دوسری ذمہ داری کہ جس کا تذکرہ پیغمبر اکرم )ص(نے اس حدیث میں فرمایا ہے وہ روزہ دار کو افطار کے وقت حاصل ہو نے والی خوشی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ جب کسی شخص پر کسی کی طرف سے کسی سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کو انجام دینے کا دستور دیا جا تا ہے تو اس کو انجام دینے کے بعد اس کا خوشی فطری تقاضا ہے لہٰذا روزہ شریعت اسلام میں ایک مہم ذمہ داری ہے جو کہ لوگوں کی نظر میں بہت سنگین اور تکالیف الہیہ میں سے بہت تکلیف دہ امر ہے لہٰذا جس کو بجا لانے کے بعد اختتام کے وقت روزہ داروں کو خوشی ہو نا فطری تقاضوں میں سے ایک ہے اسی لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا روزہ کھولتے وقت مؤمنین کو خوشی ہوتی ہے۔

نیز تیسری ذمہ داری جو مؤمنین کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث بنتی ہے اس کا اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص(نے تذکرہ کیا ہے وہ نماز شب ہے لہٰذا نماز شب کی توفیق حاصل ہونے میں ایک خاص درجہ کا ایمان درکار ہے جوایمان کے مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے کہ اس مرتبہ پر فائز شخص کو حقیقی مؤمن اور ایماندار کہا جاسکتا ہے اور ایمان کایہی مرحلہ ہے کہ انسانی طبیعت اور خواہشات کے برخلاف ہونے کے باوجود رات کی تاریکی میں ارام وسکون اور نیندکی لذتوں کو چھوڑکر زحمتوںکے ساتھ وضوکرکے قیام وسجود اور عبادت الٰہی بجالانے پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور ہرباایمان شخص سے نماز شب کی ادائیگی بعید ہے کیونکہ مؤ منین کے ایمان اس حدتک نہیں ہے کہ رات کے وقت بستر کی گرمی اور نیند کی لذت سے خود کومحروم کرکے اس عظیم نعمت سے اپنے آپ کو مالا مال اور بہر مند کرے بنابراین نماز شب کی اہمیت اور عظمت پر حدیث بہترین دلیل ہے اور اس عظیم عبادت کی عظمت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ نماز شب کتنی عظیم اور کتنا محبوب عمل ہے کہ جس کو انجام دینے سے خوشی ہوتی ہے یعنی نفسیاتی امراض بر طرف ہوجاتے ہیں آرامش قلبی کا سبب بنتا ہے چونکہ یہ عبادت دنیا اور آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرتی ہے اور انسان کومقام محمود کے نزدیک کردیتی ہے۔

۳۱

تیسری حدیث :

قال رسول الله ما اتخذ الله ابراهم خلیلا الا لا طعامه الطعام وصلاته باللیل والناس نیام (١)

پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا کہ خدا نے حضرت ابراہیم ؑکو صرف دو٢ کاموں کے نتیجہ میں اپنا خلیل قرار دیا ہے

(١) لوگوں کو کھانا کھلا نے

(٢) اور رات کے وقت نماز شب انجام دینا جب کہ باقی تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہورہے ہوں۔

حدیث کی وضاحت :

دنیا میں تمام باشعور انسانوں کی یہ رسم رہی ہے کہ جب کوئی شخص کسی مقام یا منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس کو کسی نہ کسی عنوان اور لقب سے پکارا جاتا ہے تاکہ اس کے مقام اور منصب پر دلالت کرے اسی طرح شریعت اسلام میں بھی ایسے عناوین اور القاب کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ جن کی تشریح اور انکی کمیت وکیفت کو ذکر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اشارہ کرنا مقصد ہے کہ خدا کی طرف

____________________

(١) علل الشرائع ص ٣٥

۳۲

سے جو القاب یا مقام ومنزلت جن انسانوں کو ملی ہے وہ کسی سبب اور علت سے خارج نہیں ہے۔

خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو صفی اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ حضرت اسماعیل ؑکو ذبیح اللہ حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ اور حضور اکرم )ص(کو حبیب اللہ کے القاب سے یاد فرمایا ہے اسی طرح دوسرے انسان کو بھی مختلف القاب وعناوین سے پکارے جاتے ہیں تاکہ ان اشخاص کے منصب اور مقام ومنزلت پر دلالت کرے لیکن مقام اور منصب کی دو ٢ قسمیں ہیں ایک منصب اور مقام معنوی ہے دوسرا مادی منصب، اور کسی منصب کا حاصل ہونا بھی قانون علل واسباب سے ماوراء نہیںلہٰذا مقام اور منزلت کا ملنا کردار اور گفتار کی کمیت وکیفیت پر موقوف ہے اور کردار وگفتار کے اعتبار سے لوگوں کی نظر اور خدا کی نظر مختلف ہے لہٰذا ان دو ٢ منصبوں میں سے معنوی منصب کو مثبت اور ان کے اسبا ب کو شریعت اسلام کہا جاتاہے جب کہ مادی منصب کو منفی اور اس کے اسباب کو مادی نظام کہا جاتا ہے لہٰذا معنوی منصب کے علل واسبا ب میں سے ایک نماز شب ہے اس طرح لوگوں کو کھانا کھلانابھی مثبت منصب کے اسباب میں سے ہے لیکن شیطانی سیاست کرکے مقام ومنزلت کی تلاش کرنا منفی منصب کا سبب ہے کہ جس کا نتیجہ خسرالد نیا والا خرۃ ہے۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص( نے اس روایت میں دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے (١) نماز شب کا پڑ ھنا صرف میری ذمہ داری اورخصوصیت نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم ؑجیسے پیغمبر کی بھی سیرت ہے (٢) حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ کا لقب ملنے کا سبب بھی ذکرفرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ کا لقب اسی لئے دیا گیا کہ آپ لوگوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور نماز شب پڑھا کرتے تھے جب کہ اس وقت دوسرے لوگ خواب غفلت میں مشغول ہوتے ہیں اگر ہم بھی خدا کے محبوب اور خلیل بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی حضرت ابراہیم کی سیرت کو اپنانا ہوگا یعنی ضرورت مند مسلمان بھائیوں کو کھانا کھلا نا اور نماز شب کو پابندی کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔

۳۳

١۔نماز شب باعث شرافت

نماز شب کی اہمیت اورعظمت بیان کرنے والی روایات میں سے چوتھی روایت حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی یہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

''قال شرف المومن صلوته بااللیل وعز المؤمن کفه عن اعراض الناس ''(١)

نماز شب کا پڑھنا مؤمنین کی شرافت کا باعث ہے اور مومن کی عزت لوگوں کی آبرو ریزی سے پرہیزکرنے میں ہے۔

____________________

(١)کافی ج٣

۳۴

حدیث کی توضیح:

اس حدیث شریف میں چھٹے امام نے چار چیزوں کو بیان فرمایا ہے:

١) مؤمنین کی شرافت۔

٢) ان کی عزت ۔

٣) نماز شب۔

٤) لوگوں کی ابرو کی حفاظت کرنا۔

اور یہ طبیعی امر ہے کہ ہرانسان اس خواہش کا متمنی ہے کہ معاشرے میں اس کی شرافت اورعزت میں روز بروزاضافہ ہو لہٰذا شرافت اور عزت کی خاطر پوری زندگی کا خاتمہ اور ہزاروں مشکلات کو برداشت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر خواہش رکھنے والا اس میدان میں کامیاب نہیں ہوتا اور ہر معاشرہ میں شاید ١٠/ فیصدافراد نماز شب سے حاصل ہونے والی شرافت اور عزت سے مالامال ہیں جب کہ باقی ٩٠/فیصد افراد اس شرافت اور عزت سے محروم ہیں کیونکہ شرافت اور عزت زحمت وہمیت کا نتیجہ ہے جو برسوں کی مشقت اٹھا نے کے بعد حاصل ہوتی ہے لیکن ہر زحمت باعث عزت وشرافت نہیں ہے کیونکہ زحمت اور ہمیت کی دو٢ قسمیں ہیں:

١) منفی زحمت۔

٢) مثبت زحمت۔

۳۵

اگر شرافت اور عزت کے اسباب مثبت ہوں یعنی خدائی زحمات اور الٰہی ہمتوں پر مشتمل ہو تو اس حاصل ہوئی شرافت کو حقیقی اور الٰہی شرافت اور عزت سے تعبیرکیا جاتا ہے جیسے مؤمن بندہ رات کے وقت نیند کی لذت سے محروم ہو کر اپنے محبوب حقیقی کو راضی کرنے کے لئے رات کی تاریکی میں نماز شب کی زحمت اٹھانا اسی طرح دوسرے شخص کی آبرو کو اپنی آبرو سمجھتے ہوئے اس کی آبر وریزی کرنے سے پرہیز کرنا جبکہ وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہوتا ہے لیکن ان کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہے چونکہ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسروں کو انسان سمجھا جائے لیکن آج کل بد قسمتی سے ایسا سلوک بہت کم نظر آتا ہے لہٰذامعصوم کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ مومن کی حقیقی شرافت اور عزت نماز شب پڑھنے اور دوسرے بھائیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے میں پوشدہ ہے۔

٢۔نماز شب محبت خدا کا سبب:

امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے ۔

''قال الامام الباقر ان الله یحب المساهر باالصلوة ''(١)

آپ نے فرمایا کہ خدا اس شخص کو دوست رکھتا ہے جو سحر کے وقت نماز شب کی خاطر نیند سے بیدار ہوتا ہے

تشریح :

اس حدیث میں امام نے محبت خدا کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن محبت ایک امر

____________________

(١) بحار الانوارج٧٦

۳۶

باطنی ہے اور اس کے آثار اور نتائج ظاہری ہیں نیز محبت کا مفہوم متعدد مراتب اور مختلف درجات کا حامل ہے پس اگر کسی سے کہا جائے کہ فلانی اپنے محبوب کے ساتھ محبت کے آخری مرحلہ پر ہے تو اتفاق سے اگر وہ محبوب کو کھوبیٹھے تو وہ دیوانہ ہوجاتا ہے اور کبھی محبت اس مرتبے کی نہیں ہوتی کہ جس کے نتیجے میں محبوب کے نہ ملنے کی صورت میں وہ دیوانہ نہیں ہوتا لہٰذاہمیشہ محبت کا نتیجہ محبت کے مراتب اور مراحل کا تابع ہے اگر محبت آخری مرحلے کا ہو تو نتیجہ بھی حتمی ہے اور اگر محبت آخری مرحلے کا نہ ہو تو نتیجہ بھی حتمی نہیں ہے لیکن محبت کی حقیقت کے بارے میں محققین نے بہت سی تحقیقات کی ہیں مگر وہ تحقیقات محبت کی حقیقت سے دور ہیں اسی لئے ان پراعتماد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اسلام کی روشنی میں محبت دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

(۱)الٰہی محبت یعنی خدا کا کسی سے محبت ودوستی رکھنا

(٢)انسانی محبت یعنی لوگوں کا ایک دوسرے سے محبت کرنا اور اظہار دوستی کرنا اگر خدا کسی بندے سے کہے کہ تو میرا محبوب ہے تجھ سے میں محبت کرتا ہوں ایسی محبت کو حقیقی اور واقعی کہا جاتا ہے کیونکہ اس محبت میں کیفیت اورکمیت کے لحاظ سے کوئی نقص اور کمی نہیں پائی جاتی لہٰذا اس کا نتیجہ اور آثار حتمی ہے یعنی اس کے نتیجے میں اس انسان کے لیے دنیا میں عزت وشرافت جیسی منزلت اور اخروی زندگی میں جنت جیسی عظیم نعمت عطا کیا جاتا ہے لیکن اگر محبت کی دوسری قسم ہو یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ تو میرا محبوب ہے اس کو اعتباری اور غیر حقیقی محبت کہا جاتا ہے اگر چہ والدین اور اولاد کے مابین پائی جانے والی محبت ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ محبت ان کی ذاتی نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی طرف سے عطاہوئی ہے لہٰذا محبت اعتباری ہے لیکن دونوں قسم محبت کچھ علل واسباب کی مرہون منت ہیں۔

لہٰذا امام علیہ السلام نے اس حدیث میں حقیقی محبت کا سبب ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ خدا اپنے بندوں سے دوستی اور محبت اسوقت کرتا ہے کہ جب بندہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں کو رضائے الہی کی خاطر ترک کرے جیسے نیندکی لذت بندے کی نظر میں بہت پسندیدہ ہے لیکن اس کو ترک کرکے وہ کوئی ایساکام انجام دے جو اس کی نظر میں بامشقت ہو اور خدا کی نظر میں بہت اہم ہو جیسے نماز شب کیلئے بیدار ہونا ایسے کاموں کو انجام دینے کی خاطر ایمان کا اعلی مرتبہ درکار ہے کہ جب عبد ایمان کے اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اور اپنی خواہشات کو خدا کی چاہت پر فدا کرے تو خدا اس کو اپنا محبوب قرار دیتا ہے اور خدا اس سے دوستی کرنے لگتا ہے لہٰذا اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز شب خدا کی محبت کا سبب ہے اور یہی فضیلت نماز شب کے لئے کا فی ہے

۳۷

٣۔نماز شب زنیت کا باعث

چنانچہ مذکورہ مطلب سے ہمیں معلوم ہوا کہ نماز شب کا میابی کا راز شرافت کا ذریعہ ،اور محبت خدا کا سبب ہے نیز نماز شب انسان کی زینت کا سبب بھی ہے اس مطلب کو امام جعفر صادق نے یوں ارشاد فرمایا :

''المال والبنون زینت الحیاة الدنیا ان الثمان رکعات یصلها اخراللیل زینة الاخرة '' (١)

(اے لوگو!) اولاد اور دولت دینوی زندگی کی زنیت ہے (لیکن)آٹھ رکعت نمازجو رات کے آخری وقت میں پڑھی جاتی ہے وہ اخرو ی زندگی کی زینت ہے ۔

حدیث کی تحلیل :

نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات میں سے کئی روایات کو مختصر توضیحات کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نماز شب میں خیر وبرکت اور سعادت دنیا وآخرت مضمرہے اور اس ورایت میں امام جعفرصادق نے دومطلب کی طرف اشارہ فرمایا :

(١)ہر انسان کی دوقسم کی ز ندگی حتمی ہے دنیوی اور اخروی ۔

(٢) ہرایک زندگی کے لئے کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہیں کہ ان دونو ں مطالب کی مختصر وضاحت کرنا لازم ہے پہلا مطلب زندگی دوقسموں میں تقسیم ہوتی ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے ثبوت اور اثبات کے قائل سارے مسلمان ہیں اگر چہ کچھ ملحد اس تقسیم سے انکار کرتے ہیں اور معادو قیامت کے

____________________

(١)وسائل ج١٣.

۳۸

حساب وکتاب کے نام سے کسی چیز کے قائل نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں زندگی کا دارو مدار بس اسی دنیوی اور مادی زندگی پر ہے کہ جس کے بعد انسان نسیت ونابود اور فناء کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہٰذا دنیا میں اپنی خواہشات کے منافی عوامل سے مقابلہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ دنیا میں زیادہ بہترزندگی گذار سیکیں اسلئے اسلام جیسے نظام کو جو فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے مانع آذادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے میں حا لانکہ وہ اسلام کی حقیقت اور نظام اسلامی استحکام وبقاء سے بخوبی واقف ہیں۔

دوسرامطلب جو روایت میں مذکورہے کہ جس کا اعتراف سارے انسان کرتے ہیں چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم اس کے باوجود غیرمسلم اور مادہ پرست اسلام کو بد نام کرنے کی خاطر طرح طرح کی غیر منطقی باتیں منسوب کرنے میں سر گردان رہے ہیں لہٰذا کہا کرتے ہیںکہ اسلام زینت کے مخالف ہے جب کہ اسلامی تعلیمات انسانوں کو زینت کی طرف (چاہے مادی ہو یامعنوی)ترغیب دلاتی ہے لہٰذا اسلامی تعلیمات میں ملتا ہے کہ جمعہ کے روزغسل کرنا ناخن تراشنا بالوں کو خضاب لگانا اورآنکھوں کی زینت کے لیے سرمہ لگانا اور ہمیشہ خوشبولگا کر نمازپڑھنا وغیرہ مستحب ہے اگر چہ اسلام زینت کی حقیقت اور کمیت وکیفت کے حوالہ سے باقی نظریات کے مخالف ہے لیکن خود زینت کے مخالف نہیں ہے لہٰذا امام اس روایت میں زینت دنیوی کے علل واسباب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا اولاد اور دولت مادی زندگی کی زینت ہیں کہ اس مطلب کی طرف کلام مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے :

''المال والبنون زینةالحیاة الدینا''

یعنی مال واولاد دنیوی زندگی کی زینت کا ذریعہ ہیں ۔

۳۹

ابدی زندگی کی زینت کے علل واسباب میں سے ایک نمازشب ہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑتا ہے کہ جس طرح غیر مسلم، عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے اخروی زندگی کی سے محروم ہیں اسی طرح مسلمان حضرات بھی اخروی زندگی کی زینت سے عملاََبہت دور ہیںاگرچہ عقیدہ اور تصورکے مرحلے میں غیر مسلم کے مساوی نہیںہیں لیکن عملی میدان میں ان کے یکسان نظر آتے ہیں کہ یہ مسلمانوںکےلئے بہت دکھ کی بات ہے نیز نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔

'' انه کان یقول ان اهلیبت امر نا ان نطعم الطعام ونوادی فی النائیه ونصلی اذ ا نام الناس (٣)

آپ نے فرمایا کہ ہم ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہمیں خدا کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلائیں اور مشکل کے وقت ان کی مدد کریں اور جب وہ خواب غفلت میں سو رہے تو ہم نماز شب کو اداء کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

____________________

(٣) معانی الاخبار

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

یہ شواہد جو میں نے عرض کیے کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ اہل سنت کا اہل بیتؑ نبویؐ سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ لوگ ائمہ اہل بیتؑ سے الگ کیوں رہے؟صرف اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہماری فقہ،ہمارے عقائد،ہماری ثقافت،کچھ بھی تو اہل بیتؑ سے میل نہیں کھاتی سب کچھ اہلبیتؑ سے الگ ہے اس لئے ہم بھی اہل بیتؑ سے الگ ہیں۔

ائمہ اہل بیتؑ نے امت کی ہدایت و ثقافت اور تہذیب اخلاق کو اہمیت دی

لیکن ائمہ اہل بیتؑ چونکہ نبیؐ کے وارث اور آپؑ کے علوم کے حامل تھے اس لئے انہوں نے ہمیشہ نبیؐ کے بعد امت کی ہدایت کا خود کو ذمہ دار سمجھا اور امت کی ثقافت پردھیان دیتے رہے تا کہ اسلامی سماج کو صحیح سمت کی نشان وہی کرتے رہیں یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے سب سے اہم کام یہ سمجھا کہ علم و معرفت کا زیادہ سے زیادہ پرچار کیا جائے اس سلسلہ میں مولائے کائناتؑ کا قول ثبوت کے طور پر حاضر ہے آپؑ فرمایا کرتے تھے مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں(1) حدیث مشہور میں جناب کمیل سے مروی ہے جناب کمیل کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنینؑ نے میرا ہاتھ پکڑا اور صحرا کی طرف لے کر چلے جب ہم لوگ صحرا میں بالکل اکیلے ہوگئے تو آپؑ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور فرمایا(اے کمیل دلوں میں ظرفیت ہوتی ہے اور وہ دل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:2ص:383،کتاب فتن میں مذکور سنتیں،ج:4ص:838،دلائل،علامات اور اشراط کے باب میں ج:6ص:1196،جس نے کہا صافی بن صیّاد ہی دجّال ہے کہ باب میں اسی کے مانند تفسیر طبری ج:13ص:221میں ہے،المستدرک علی صحیحین ج:2ص:506،معتصر المختصرج:2ص:30،مناقب علی کے بیان میں لیکن(تفقدونی)کی جگہ(لا تسالونی)نیز دیگر مختلف الفاظ میں ہر منتخب احادیث میں ذکر ہوا ہےج:2ص:61،مجمع الزوائدج:4ص:669،کتاب النکاح،المصنف،ابن ابی شیبہ ج:3ص:530،مسند الشاشی ج:2ص:96،مسند البزارج:2ص:192،الفتن،ابن نعیم بن حمادج:1ص:40،فتح الباری ج:11ص:291،تحفۃ الاحوذی ج:7ص:27،فیض القدیرج:4ص:357،حلیۃ الاولیاءج:4ص:366،تہذیب التہذیب ج:7ص:297،تہذیب الکمال ج:20ص:487،الطبقات الکبریٰ ج:2ص:338،علی بن ابی طالب کے حالات میں الاصابۃج:4ص:568،تہذیب الاسماءص:317،تلخیص المتشابۃج:1ص:62،اخبار مکہ،ج:3ص:228 ان اشیاء کے اوائل کے بیان میں جو زمانہ قدیم سے آج تک مکہ میں رونما ہوتی ہیں

۱۴۱

سب سے بہتر ہے جس میں علم کی زیادہ گنجائش ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کی حفاظت کرنا لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:

1۔عالم ربانی.

2۔نجات کے راستے کا طالب علم.

3۔گنوار کمینے لوگ.

ہر آواز دینےوالے کی پیروی کرنےوالے جو ہوا کے رخ پر چل نکلے ہیں انہوں نے نور علم سے روشنی لی نہ قابل اعتبار سہارے پر تکیہ کیا)پھر آپؑ نے علم کی فضیلت میں ایک لمبی گفتگو کی اور تحصیل علم کو فرض ثابت کیا پھر آپؑ نے صدر اقدس پر ہاتھ رکھ فرمایا اے کمیل یہاں بہت علم ہے کاش میں اس علم کو اٹھانےوالا پاتا۔(1)

عمروبن مقدام کہتا ہے جب میں جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہوجاتا تھا کہ آپ کا لگاؤ شجرہ نبوت سے ہے میں نے آپ کو باب جمرہ پر کھڑے ہوئے دیکھا آپ کہہ رہے تھے مجھ سے پوچھو!مجھ سے پوچھو!(2)

صالح بن ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا جعفر بن محمدؑ کہہ رہے تھے مجھے کھودینے سے پہلے مجھ سے پوچھو!میری طرح میرے بعد تم سے کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرےگا(3) ائمہ اہل بیتؑ سے ایسی بہت سی باتیں ظاہر ہوتی رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:4ص:36،نزھۃ الناظر و تنبیہ الخاطرص:57،کنزالعمال ج:10ص:363،حدیث:39391،تاریخ بغدادج:6ص:376،اسحاق بن محمد بن احمد بن ابان کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:5ص:252کمیل بن زیاد کے حالات میں تہذیب الکمال ج:24،ص:220کمیل بن زیاد کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:11،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،حلیۃ الاولیاءج:1ص:80،التدوین فی اخبار القزوین ج:3ص:209،صفوۃ الصفوۃ ج:1ص:329۔303۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:257،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:132،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں تہذیب الکمال ج:5ص:79،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں

(3)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:166حالات جعفر بن محمد صادقؑ،سیر اعلام النبلاءج:6ص:257حالات جعفر بن محمد صادقؑ،تھذیب الکمال ج:5ص:79حالات جعفر بن محمد بن صادقؑ(میں تمہیں جو بتاؤں گا وہ میرے بعد کوئی بھی نہیں بتائے سکےگا)

۱۴۲

جب جمہور نے منھ موڑ لیا تو آپ حضرات نے اپنے شیعوں کو بہت اہمیت دی

ائمہ اہل بیتؑ نے ب یہ دیکھا کہ جمہور ہم سے منحرف ہے اور ہماری باتوں کو قبول نہیں کرتے تو ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گذری،اس سلسلہ میں امام زین العابدین علیہ السلام کا قول ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہوں آپؑ فرمایا کرتے تھے ہمیں نہیں معلوم کہ ہم لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں جب ہم ان سے وہ حدیثیں بیان کرتے ہیں جو ہم نے نبیؐ سے سنی ہیں تو وہ ہنسنے لگتے ہیں اور ہم چپ رہیں تو ایسا ہم کر نہیں سکتے۔(1)

پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارے سلسلےمیں لوگوں کو بڑی سخت آزمائش کا سامنا ہے اگر ہم انھیں دعوت دیں تو وہ ہماری سنتے نہیں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑدیں تو ہمارے بغیر وہ ہدایت پا نہیں سکتے۔(2)

اسی طرح کی شکایت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی کی ہے(3)

مجبور ہو کر ائمہ اہل بیتؑ نے جمہور اہل سنت سے تقیہ اور کتمان کرنا شروع کیا اور اپنےشیعوں کی طرف متوجہ ہوگئے،ان حضرات نے اپنے شیعوں کو اختصاص بخشا،ان سے مطمئن ہوئے،انہیں اپنا رازدار بنایا،انہیں اپنی سیرت کے سانچے میں ڈھالا اور عقیدہ،فقہ،اخلاق،حسن سلوک اور تمام علوم جو انھیں ورثہ میں ہادی برحق سے ملے تھے اپنے شیعوں کو بخش دیئے یہی وجہ ہے کہ شیعیان اہل بیتؑ(محبت اہل بیتؑ اور اپنے اماموں کی خصوصی توجہ کی وجہ سے)تمام عالم اسلام میں ممتاز اور سربلند ہوگئے اور دشمنان اہل بیتؑ سے بےنیاز ہوگئے بلکہ ان سے بچتے رہے اور ان کی طرف سے بالکل ہی روگردانی کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکافی ج:3ص:234

(2)الارشادج:2ص:167۔168،اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ ج:1ص:508الخرائج و الجرائح ج:2ص:893،مناقب آل ابی طالب ج:3ص:336،کشف الغمہ ج:2ص:339۔340،بحارالانوارج:26ص:253ج:6ص:288

(3)الامالی للصدوق ص:707،وسائل الشیعہ ج:21ص:142،بحارالانوارج:23ص:99۔

۱۴۳

عالم اسلام میں ائمہ اہل بیتؑ کا بہرحال ایک مقام ہے

عنایات الٰہی کا یہ فیصلہ ہے کہ حجت تمام کرنے کے لئے اہل بیت کے ائمہ اطہارؑ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ مقام ان کی اپنے قوت بازو کی کمائی ہے،ان کا علم ان کا جہاد،ان کا تقویٰ،ان کی حکمت،ان کی حسن سیرت،کتاب و سنت کے ارشادات ان کی فضیلت میں ان کی عظمت و بزرگی،ان کے شیعوں کی جد و جہد،مسلسل قربانیاں،یہ تمام باتیں نظرانداز کرنے کے لائق نہیں ہیں اور انھیں صفات حسنہ کی وجہ سے عام عالم اسلام ان کی عزت کرنے پر مجبور ہے اور انہیں ایک مقام دیتا ہے۔

ثبوت یہ ہے کہ جب جمہور اہل سنت نے دیکھا اور محسوس کیا کہ(اہل بیتؑ کو چھوڑ دینے کے بعد)ان کے عقیدے میں کافی خامیاں آگئی ہیں تو کوشش شروع کردی کہ شیعہ اپنے اماموں سے عقیدہ،امامت و خلافت سے جو بات کہتے ہیں اس کا سرے سے انکار کردیا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ شیعوں نے یہ بات اپنی طرف سے گڑھی ہیں ائمہ اہل بیتؑ اور مولا علی علیہ السلام تو دونوں خلفا(ابوبکر و عمر)کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھے اور یہ کہ اس دلیل کی بنیاد پر ہم اہل بیتؑ کے تابع ہیں نہ کہ شیعہ لوگ،دلیل میں انہوں نے ایسی نادر الوجود اور کمیاب حدیثیں پیش کی ہیں جو یا تحریف شدہ ہیں یا جھوٹی ہیں یا مقام تقیہ میں ہیں بہرحال استدلال سے قاصر ہیں وہ حدیثیں تو خود ہی کمزور ہیں بھلا ان قوی ثقہ اور حسن حدیثوں کا کیا مقابلہ کرسکیں گی جو شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ سے خاص طور سے امامت و خلافت کے سلسلے میں وارد کرتے ہیں اور جن کی بنیاد پر شیعوں کے عقیدہ امامت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے،جو حدیثیں پکار پکار کے کہتی ہیں کہ اہلبیتؑ کے عقیدہ امامت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے،جو حدیثیں پکار پکار کے کہتی ہیں کہ اہلبیتؑ کا حق غصب کیا گیا،ان پر ظلم کیا گیا اور ان کو ہمیشہ ستایا گیا اور جن حدیثوں میں ائمہ اہل بیتؑ ظلم کرنےوالے غاصبوں کا انکار کرتے ہیں وہ حدیثیں اور دلیلیں قائم حقیقتیں ہیں،روشن و ضیا بار حدیثیں ہیں ان میں

۱۴۴

شک کی گنجائش ہے نہ شبہ کی جگہ۔اور اگر کوئی غبی شبہ کرتا بھی ہے تو ہمیں کوئی ایسی حقیقت بتا دیجئے جو چاہے جتنا بھی روشن ہو مگر شبہ سے بری ہو اور شک سے پاک،لیکن یہ دیکھیں کہ شبہ کر کون رہا ہے؟وہی جو اس حقیقت کو مٹانا چاہتا ہے یا ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اس کو ماننا نہیں چاہتا ہے،خاص طور سے یہ حقیقت(عقیدہ امامت)اس پر شبہ تو کیا ہی جائےگا اس لئے کہ یہ ایک بڑےگروہ کے لئے لقمہ تلخ بنی ہوئی ہے،اقتدار غالب کے خلاف ہے اور ایک ایسی بات کو ثابت کر رہی ہے جس کا انکار کرنےوالا فضیحت کا مستحق ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ شکوک و شبہات کی بنیاد پر حق جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور شک و شبہ کسی حق کے انکار کی دلیل نہیں بن سکتا کوئی وجہ نہٰں ہے کہ محض شک و شبہ کی وجہ سے ایک واضح حقیقت کا انکار کیا جائے اور اس پر یقین نہ کیا جائے کوئی بھی صاحب عقل اور انصاف پسند انسان اس حقیقت کی وضاحت اور اس کا جلوہ دیکھ کے یہی فیصلہ کرےگا۔

خلافت کے معاملے میں ائمہ اہل بیت(ہدیٰ)علیہم السلام اور ان کے خاص لوگوں کی تصریحات

1۔خود ائمہ ہدیٰ علیہم السلام اور ان حضرات کے خاص افراد(جو ائمہ ھدیٰؑ کی وثاقت و جلالت پر متفق تھے)کی وافر تصریحات موجود ہیں،ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مقدس افراد نے امر خلافت کے بارے میں شکوا کیا ہے،یہ کہا ہے کہ ان پر ظلم ہوا ہے،ان حضرات نے ظالموں کا انکار کیا ہے،ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلفاء کی خلافت پر بالکل راضی نہیں تھے نہ اسے پسند کرتے تھے اور اس کی شرعیت کے منکر تھے،یہی وجہ ہے کہ شرعی اعتبار سے غاصبان خلافت تجاوز و عدوان کی حدوں میں رہے اور ائمہ ھدیٰ علیہم السلام انہیں ظالم اور غاصب سمجھتے بھی تھے اور کہتے بھی تھے۔

۱۴۵

یہ تصریحات غیر شیعہ کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں،ایسی کتابوں میں جو کافی مشہور ہیں اور ان کا صدور شک سے پرے ہے ان عبارتوں کا صدور اس طرح ہوا ہے کہ اجمالی طور پر یا تفصیل سے علما جمہور انکار نہیں کرسکتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام کا امر خلافت کے معاملے میں صریحی بیان

یہ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنے حق کے غاصبوں کی کافی شکایتیں کی ہیں اور صاف لفظوں میں ان کے ظلم کا اظہار کیا ہے اور انہیں ظالم کہا ہے۔

1۔آپ کا مشہور خطبہ ملاحظہ ہو جو خطبہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے اس مشہور خطبہ میں آپؑ نے ان لوگوں کی بہت مذمت کی ہے جنھوں نے آپ کو الگ کرکے خلافت پر زبردستی قبضہ کرلیا،آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:

لیکن خدا کی قسم فلاں نے خلافت کی قمیص کو کھینچ تان کر پہنا،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ میں خلافت کے لئے ایسا ہی ہوں جیسا چکی کے لئے کھونٹا،مجھ سے(علم و حکمت کے)چشمے نکلتے ہیں اور میری بلندیوں تک طاہر علم و خیال نہیں پہنچ سکتا،تو میں نے خلافت سے اپنے کپڑے کو سمیٹے رکھا اور یہ سونچنے لگا کہ میں اپنے بریدہ ہاتھوں سے حملہ کر بیٹھوں یا اس اندھری رات میں صبر کروں جس میں سن رسیدہ کھوسٹ ہو رہے ہیں اور بچے بوڑھے ہو رہے ہیں اور مومن کچلا جارہا ہے یہاں تک کہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے،تو میں نے طے کیا کہ ان حالات میں صبر کر لینا سب سے مناسب بات ہے۔میں نے اس حال میں صبر کیا کہ میری آنکھ میں تنکا اور حلق میں ہڈی تھی میں اپنی میراث کو لٹتا ہوا دیکھ رہا تھا،یہاں تک کہ پہلے نے اپنا راستہ لیا اور فلاں بن فلاں کو اپنے بعد ذمہ دار بنا گیا اس نے خلافت کی اونٹنی کو بہت شدت سے دوہا اور اسے ایک ایسی کھردری وادی میں لےگیا جہاں بار بار ٹھوکر لگتی تھی اور راستہ اوبڑکھا بڑتھا،اس وادی میں وہ بار بار پھسلتا تھا اور اکثر عذر پیش کرتا تھا خدا کی قسم

۱۴۶

لوگ خبط ہو کے رہ گئے تھے،تلوُّن اور اعتراض کا دور دورہ تھا پھر میں نے مدت کی درازی اور امتحان کی سختیوں پر صبر کیا یہاں تک کہ کدوسرے نے بھی اپنا راستہ لیا اور نصب خلافت کا ذمہ ایک جماعت کو دے کے چلا گیا۔

اس نے مجھے بھی جاعلین خلیفہ میں قرار دیا یہ سونچ کر کہ میں بھی انھیں جیسا ہوں یا اللہ یہ شوریٰ بھی کیا چیز تھی!میرے بارے میں مستحق خلافت ہونے کا شبہ ہی کب تھا کہ مجھے ایسے لوگوں کے برابر قرار دیا گیا،بہرحال اصحاب شوریٰ میں ایک آدمی تو اپنے کینہ پروری کی وجہ سے ایک طرف جھک گیا دوسرے نے سسرال کی طرف داری کی اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا کھڑا ہوا،پہلو اور پیٹ کو پھلائے اور اس کے ساتھ اس کے باپ کے بیٹے بھی آئے پس مال خدا کو یوں کھانے لگے جیسے اونٹ فصل بہار کی سبزی چرتے ہیں یہاں تک کہ اس رسی کے بٹ کھل گئے اور اس کی بدرفتاری سے عوام بھڑک اٹھی اور اس کی شکم پروری نے اسے تباہ کردیا(1) (ابن عباس کا جب کلام پیش کیا جائےگا تو اس خطبہ کی توثیق بھی پیش کی جائےگی)

2۔طلحہ و زبیر کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو جس میں آپ نے فرمایا:خدا کی قسم مجھے ہمیشہ اپنے حق سے دور رکھا گیا اور مجھ پر دوسروں کو ترجیح دی گئی۔یہ سلسلہ اس دن سے جاری ہے جس دن خداوند عالم نے اپنے نبیؐ کو بلا لیا اور آج بھی وہی صورت حال باقی ہے۔(2)

3۔سقیفہ کے ڈرامے کے بعد حضرتؑ نے اس وقت فرمایا جب آپ کا مددگار آپؑ کے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی نہیں تھا تو آپؑ فرماتے ہیں((پس میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ میرا مددگار سوا میرے اہلبیتؑ کے کوئی نہیں ہے تو میں ان کے بارے میں موت سے ڈرا اور آنکھوں میں تنکے برداشت کرنے اور حلق میں پھانس لگنے کے باوجود میں نے غصہ کو ضبط کیا اور تلخ گھونٹ پی لیا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:30۔35

(2)نہج البلاغہ ج:1ص:42

(3)نہج البلاغہ ج:1ص:67وتقویۃ الایمان محمد بن عقیل ص:68

۱۴۷

4۔آپؑ ہی کا ارشاد ہے:ائمہؑ صرف قریش میں وہ بھی شجرہ ہاشم میں قرار دیئے گئے ہیں ان کے علاوہ کسی میں امامت کی صلاحیت نہیں ہے اور حکمرانوں کی اصلاح کرنا بھی ان کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں ہے۔(1)

5۔ایک اور جگہ آپؑ کا ارشاد ہے یہاں تک کہ نبیؐ کی وفات ہوئی اور قوم اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئی راستے ان کے سامنے بدل گئے،ٹیڑھے ھے میڑھے راستوں پر اعتماد کرنے لگے،غیر رحم میں صلہ رحم کرنے لگے،ان سب کو چھوڑدیا جن کی مؤدت کا حکم دیا گیا اور عمارت کو اس کے سنگ بنیاد سے ہٹادیا اور ایسی جگہ بنایا جو اس کے لئے مناسب نہیں تھی وہ جگہ ہر غلطی کا معدن اور ہر تاریکی کا دروازہ تھی،لوگ حیرت میں گمراہ ہوگئے اور نشہ میں ان کی عقل ضائع ہوگئی،آل فرعون کے طریقہ پر انہوں نے صرف دنیا سے رشتہ جوڑ کے اسی پر بھروسہ کی اور دین سے الگ ہوگئے پھر دین کو چھوڑ ہی دیا۔(2)

6۔کسی نے آپؑ سے پوچھا کہ آخر جب آپ مستحق تھے تو قوم نے آپؑ سے خلافت کیسے چھین لی؟آپ نے فرمایا کچھ آثار ہیں کچھ طریقے ہیں ایک قوم نے ہمیں ہمارا حق دینے میں بخل کیا اور دوسری قوم نے ہمارا حق دوسروں کو دینے میں سخاوت کی فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی طرف پلٹ کے قیامت میں جانا ہے۔(3)

7۔اپنے بھائی عقیل کو ایک خط میں آپ لکھتے ہیں((آپ قریش کو چھوڑ دیں اور انہیں گمراہیوں میں لوٹنے دیں،اختلافات میں جولانیان کرنے دین اور کیچڑ میں بھٹکنے دیں،انہوں نے مجھ سے جنگ پر ٹھیک اسی طرح اتفاق کیا ہے جس طرح پیغمبرؐ سے لڑنے پر جمع ہوئے میں نے قریش کے ساتھ گذارہ کیا اور کئی راستوں سے گذرا ہوں انہوں نے میرے رحم کو قطع کیا اور مجھ سے میری ماں کے بیٹے کی سلطنت چھیں لی))(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:27 (2)نہج البلاغہ ج:2ص:36۔37

(3)نہج البلاغہ ج:2ص:63۔64

(4)نہج البلاغہ ج:4ص:61،امامت و سیاست ج:1ص:51علیؑ کا مدینہ سے خارج ہونا

۱۴۸

8۔آپؑ معاویہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ((کتاب خدا نے بہت سی نادر چیزیں ہمارے لئے جمع کردی ہیں اور خداوند عالم کا یہ قول ہے:(وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ) (1)

ترجمہ آیت:صاحبان رحم ایک دوسرے کے اوپر زیادہ حق رکھتے ہیں۔

اور یہ قول:(إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ) (2)

ترجمہ آیت:ابراہیمؑ کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جو ابراہیمؑ کی پیروی کریں اور یہ نبیؐ اور ایمان دار لوگ ہیں اللہ تو صاحبان ایمان کا سرپرست ہے۔اور اسی بنیاد پر مہاجرین نے انصار سے رسول خداؐ کے حوالے سے احتجاج کیا اور کامیاب ہوگئے تو اگر اسی آیت کے اصول پر انھیں کامیابی ملی تو تمہارے مقابلے میں ہم زیادہ حقدار تھے اگر اس کی طرح کھینچے ہوئے لے جارہے تھے تا کہ میں بیعت کروں!تو اگر اس تحریر سے میری مذمت کا ارادہ کیا ہے تو کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس میں تو مدح کا پہلو نکل رہا ہے اور تو نے مجھے ذلیل کرنے کا اردہ کیا تو تو خود فضیحت کا شکار ہوگیا مومن جب تک اپنے دین میں شک نہ کرے اور اس کا یقین بدگمانی میں نہ بدلے اس وقت تک اس کے مظلوم ہونے میں کوئی بےعزتی کی بات نہیں ہے حالانکہ مذکورہ بالا دلیل تیرے غیر کے لئے ہے لیکن میں نے تجھ کو بقدر ضرورت لکھ دیا۔(3)

9۔آپؑ نے فرمایا:((لوگو!مجھے معلوم ہے کہ تم میرا انکار کروگے لیکن میں کہوں گا ضرور۔پس زمین و آسمان کے پروردگار کی قسم نبیؐ امی نے مجھ سے عہد کیا تھا اور فرمایا کہ یہ امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال آیت:75

(2)سورہ آل عمران آیت:68

(3)نہج البلاغہ ج:3ص:30

۱۴۹

میرے بعد تم سے غداری کرےگی))(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ اکثر اہل حدیث نے اس خبر کو یا تو انہیں الفاظ میں نقل کیا ہے یا اس کے قریب المعنیٰ الفاظ میں۔(2)

10۔اور حضرتؑ نے فرمایا کہ میں چالیس آدمی بھی اپنی حمایت میں پاتا،تو اس قوم کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوتا۔

معاویہ کا ایک مشہور خط ہے جو اس نے امیرالمومنینؑ کو بھیجا تھا،خط کے ذیل میں معاویہ لکھتا ہے:(میں آپ کو وہ دن یاد دلا رہا ہوں جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تھی اور آپ اپنی بیوی کو خچر پر بٹھا کے اور اپنے دونوں بیٹوں حسنؑ اور حسینؑ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تاریکی میں نکلا کرتے تھے،آپ نے اہل بدر اور سابقین میں سے کسی گھر کے دروازے کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہاں دستک دی اور اپنی نصرت کے لئے پکارا،آپ بیوی کولے کر ان کے پاس جاتے رہے اور اپنے بچوں کا انھیں واسطہ دیتے رہے اور صحابی پیغمبر کے خلاف ان سے نصرت طلب کرتے رہے تو آپ کا جواب دینےوالے نہیں تھے مگر صرف چار یا پانچ آدمی،میری جان کی قسم آہ،اگر آپ حق پر ہوتے تو لوگ آپ کا جواب ضروری دیتے لیکن آپ کا دعویٰ باطل تھا اور آپ وہ بات کہہ رہے تھے جس سے خود ناواقف تھے اور ایسی جگہ تیرمار رہے تھے جو آپ کی دسترس میں نہیں تھی اور شاید آپ بھول گئے ہیں لیکن میں وہ بات نہیں بھولا ہوں جو آپ نے ابوسفیان سے کہی تھی۔

جب آپ کو ابوسفیان نے حرکت میں لانے کی کوشش کی اور آپ کو جوش دلایا تو آپ نے کہا تھا کہ اگر چالیس آدمی بھی مجھے مل جاتے تو میں اس قوم کے خلاف کھڑا ہوجاتا یعنی آج پہلے دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:3ص:150

(2)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:107،اسی طرح کے الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ کتاب المستدرک،ج:3ص:107،مسند الحارث،ج:2ص:905،تذکرۃ الحفاظ،ج:3ص:995،تاریخ دمشق،ج:42ص:447،البدایۃ و النہایۃ،ج:6ص:218،تاریخ بغداد،ج:11ص:216

۱۵۰

مسلمانوں کے لئے آپ مسئلہ نہیں بنے ہیں اور آپ کی خلفا سے یہ پہلی بغاوت نہیں ہے اور نہ کوئی نئی بات ہے۔(1)

صفین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اسی طرح کی بات خود امیرالمومنینؑ کی گفتگو میں بھی ملےگی۔(2)

11۔حضرت فرمایا کرتے تھے((میں زمانہ پیغمبرؐ کے ایک جڑ کی طرح تھا لوگ مجھے سراٹھا اٹھا کر یوں دیکھتے تھے جیسے آسمان پر تاروں کو دیکھتے ہیں،پھر دنیا نے مجھ سے آنکھیں موندلیں اور میری برابری میں فلاں،فلاں آگئے،پھر مجھے عثمان جیسے پانچ آدمیوں کے مقارن بنایا گیا تو میں نے کہا وائے ہوذفرپر))(3)

12۔آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایّام میں فرمایا،جب اللہ نے اپنے نبیؐ کو اپنے پاس بلالیا تو ہم نے یہ سوچا کہ ہم آپؐ کے اہل،وارث اور اولیا ہیں نہ کہ دوسرے لوگ،ہم سے کوئی بھی اقتدار کے بارے میں نہیں لڑےگا اور لالچ کرنےوالا کم سے کم ہمارے معاملے میں لالچ نہیں کرےگا لیکن قوم نے ہمیں الگ کردیا اور ہمارے نبیؐ کا اقتدار ہم سے لےلیا،پس حکومت ہمارے غیر کے ہاتھوں میں چلی گئی اور ہم رعایا بن گئے،اب تو صورت حال یہ ہے کہ کمزور بھی للچائی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور ذلیل بھی ہم پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہے،اس کی وجہ سے ہماری آنکھیں رو رہی ہیں دل ڈرے ہوئے ہیں اور کراہیں نکل رہی ہیں،خدا کی قسم اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ مسلمان فرقوں میں بٹ جائیں گے اور کفر واپس آجائےگا اور دین برباد ہوجائےگا تو ہم دشمن کو اسی کے ہتھیار سے مارتے۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:47

(2)واقعہ صفین ص:163

(3)ذفر،عمر کا بدل ہے جسے امامؑ نے بطور تقیہ ملامت استعمال کیا ہے،شرح نہج البلاغہ،ج:2ص:326

(4)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:307

۱۵۱

13۔جس وقت آپ بصرہ جارہے تھے تو آپ نے فرمایا((جب حضور سرور کائناتؐ کی وفات ہوئی تو قریش نے حکومت کے معاملہ میں ہم پر دوسروں کو ترجیح دی اور ہم سے ہمارا وہ حق چھیں لیا جس کے ہم ساری دنیا میں سب سے زیادہ حقدار تھے تو میں نے سمجھ لیا کہ اس معاملے میں صبر کرنا مسلمانوں کو تقسیم کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور ان کے خون بہانے سے زیادہ اچھا ہے صورت حال یہ تھی کہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور دین کو تو ابھی متھا جا رہا تھا جو تھوڑی سی کمزوری سے خراب ہوجاتا اور ذراسی بات بھی اس پر فوراً اثر ڈالتی،طلحہ اور زبیر کو کیا ہوا ہے؟یہ لوگ تو اس حکومت کے راستے پر چلنے کے مستحق نہیں ہیں جو اونٹنی دودھ دینا بند کرچکی ہے اس کا دودھ پینا چاہتے ہیں اور جو بدعت مرچکی ہے اس کو زندہ کرنا چاہتے ہیں))(1)

14۔دوسری جگہ حضرت نے فرمایا((لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کرلی حالانکہ میں ابوبکر سے زیادہ امر خلافت کا مستحق تھا پھر بھی میں نے سنا اور خاموشی سے اطاعت کی صرف اس خوف سے کہ لوگ دوبارہ کافر ہوجائیں گے اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگیں گے،پھر لوگوں نے عمر کی بیعت کر لی تب بھی میں نے سنا اور چپ چاپ خاموشی سے اطاعت کی حالانکہ میں عمر سے زیادہ مستحق خلافت تھا لیکن مجھے خوف تھا کہ لوگ کفر کی طرف واپس چلے جائیں گے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں گے اور اب تم لوگ عثمان کی بیعت کرنا چاہتے ہو تو میں آج بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا،عمر نے مجھے پانچ آدمیوں کے ساتھ چھٹا آدمی قرار دیا ہے وہ ان پر میری فضیلت سے واقف نہیں ہے اور نہ یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں جیسے کہ ہم سب لوگ فضیلت کے معاملے میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں؟خدا کی قسم اگر میں بولنا چاہوں گا تو ان کے عرب و عجم اور ان کے ذمی اور مشرک کوئی بھی میری کسی بات کو جواب نہیں دےسکےگا اور ایسا میں کرسکتا ہوں(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:308

(2)تاریخ دمشق ج:42ص:434،حالات علی ابن ابی طالبؑ،کنزالعمال ج:5ص:724،حدیث14243،میزان الاعتدال ج:2ص:178حالات حارث بن محمد،لسان المیزان ج:2ص:156حالات حارث بن محمد،الضعفاءللعقیلی ج:1ص:211حالات حارث بن محمد

۱۵۲

15۔حضرتؑ نے فرمایا،سرکارؐ نے مجھ سے کہا تھا علیؑ،لوگ تمہارے خلاف اکھٹا ہوں گے تمہیں اس وقت وہی کرنا ہے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں ورنہ پھر اپنے سینے کو زمین سے متصل کردینا(بے تعلق ہوجانا)تو جب مجھ سے حضورؐ الک ہوگئے تو میں نے مکروہ باتوں کو برداشت کیا اور اپنی آنکھوں میں تنکے کو جھیل گیا اور آنکھیں بند کئے رہا اور اپنے سینے کو زمین سے سٹادیا(اور صبر کیا)۔(1)

16۔روایت ہے کہ معصومہ کونین علیہا السلام آپؑ کے گھر بیٹھے رہنے پر ایک مرتبہ آپ سے گفتگو نے لگیں اور بہت دیر تک آپؑ کو سمجھاتی رہیں کہ آپؑ کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے لیکن موالائے کائناتؑ خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت ہوا اور موذن کی آواز آئی جب موذن نے اشھد انَّ محمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا فقرہ ادا کیا تو آپؑ نے معصومہؑ سے پوچھا کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ فقرہ(جملہ)دنیا سے اٹھ جائے معصومہؑ نے کہا ہرگز نہیں،آپ نے فرمایا یہی بات میں آپ کو اتنی دیر سےسمجھا رہا تھا۔(2)

17۔حضرت نے فرمایا((قریش نے اپنے دلوں میں پیغمبر سے جو کینہ چھپار کھا تھا اس کا اظہار مجھ سے کیا اور میرے بعد میرے بچوں سے یہی کینہ جاری رکھیں گے،میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ قریش ہمارے دشمن کیوں ہوگئے،میں نے انھیں خدا اور خدا کے رسول کے حکم سے قتل کیا اگر وہ لوگ مسلمان ہیں تو خدا را سوچیں کیا خدا اور خدا کے رسولؐ کی اطاعت کرنےالے کا یہی بدلہ ہے))(3)

18۔حضرت فرماتے ہیں کہ((بچپن میں قریش نے مجھے ڈرایا اور بڑے ہونے پر میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ حضورؐ سرور کائنات کی وفات ہوگئی یہ بہت بڑی مصیبت تھی اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:326

(2) شرح نہج البلاغہ ج:20ص:326

(3) شرح نہج البلاغہ ج:20ص: 328 ینابیع المودۃ ج:1ص402

۱۵۳

اللہ کے خلاف بولنےوالوں کی سزا دینے کے لئے اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے))۔(1)

19۔آپؑ نے فرمایا((پالنےوالے میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد مانگتا ہوں انھوں نے تیرے رسولؐ کے خلاف اپنے دلوں میں کئی طرح کی غداری اور شر چھپا رکھے ہیں اور یہ بیماریاں بڑھ رہی ہیں تو میں ان کے اور پیغمبرؐ کے درمیان حائل ہوگیا نتیجے میں گاج مجھ پر گری اور مصیبتیں مجھ پر آنے لگیں پالنےوالے تو حسنؑ اور حسینؑ کی حفاظت کرنا جب تک میں زندہ ہوں ان دونوں معصوموں پر قریش کو راستہ نہ دینا اور جب میں مرجاؤں گا تو تو ہی قریش کے خلاف ان کا نگراں ہے اور تو ہر چیز پر گواہ ہے))۔(2)

20۔کسی نے آپؐ سے پوچھا کہ امیرالمومنینؑ اگر حضورؐ کا کائی بیٹا ہوتا اور آپؐ اس کو چھوڑ کے گئے ہوتے اور وہ سن بلوغ اور رشد کی منزل تک پہنچتا تو کیا عرب اس کی حکومت کو قبول کر لیتے آپؑ نے فرمایا نہیں بلکہ انہیں یہ لوگ قتل کردیتے اگر وہ میری طرح نہیں کرتا،سیدھی بات تو یہ ہے کہ عرب محمدؐ کی حکومت کو ناگوار سمجھتے تھے اور اللہ نے جو فضیلت آپ کو دی تھی اس پر حسد کرتے تھے،عرب نے ہمیشہ آپؐ کے ساتھ زیادتی کی کبھی آپؐ کی بیوی پر الزام لگایا اور کبھی آپؐ کے ناقہ کو بھڑکا کے مارنے کی کوشش کی،حالانکہ آنحضرتؐ نے ان پر احسان عظیم اور لطف جسیم کیا تھا لیکن یہ عرب احسان فراموش تھے انھوں نے آپ کی زندگی ہی میں یہ بات جمع ہو کر طے کرلی تھی کہ حکومت اور اقتدار آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اہل بیتؑ سے دور کردیں گے۔

اگر قریش نے سرکار دو عالمؑ کے اسم مبارک کو ریاست کا ذریعہ اور حکومت و عزت کا وسیلہ نہ بنایا ہوتا تو لوگ آپؐ کی وفات کے بعد ایک دن بھی خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اپنے پچھلے پیروں پلٹ جاتے،پس درخت کے اندر برگ و بار آنے کے بعد سب گرا کے صرف تنارہ جاتا اور اونٹنی کے دانت نکلنے کے بعد پھر وہ سن بکر پر واپس چلی جاتی(بہرحال انھوں نے نام محمدؐ سے فائدہ اٹھایا اس لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:108

(2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:298

۱۵۴

اذانوں میں ان کا نام شامل ہے اور نمازیں ہورہی ہیں)پھر تو فتوحات کا سلسلہ چل نکلا،فاتے کے بعد ثروت آئی اور جفاکشی کے بعد آرام ملا تو آنکھوں کو اسلام کی ناگوار چیزیں بھی اچھی لگنے لگیں اور جو لوگ دلی اضطراب میں گرفتار تھے وہ بھی ثابت قدم ہوگئے اور کہنے لگے اگر اسلام حق نہ ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔

اس کے بعد(ایک تبدیلی اور آئی کہ)جو لوگ سردار تھے ان سے فتح کو منسوب کردیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تو ان کے حسن تدبیر کا نتیجہ تھا جب یہ نظریہ پیدا ہوا تو ایک قوم کی شہرت ہوگئی اور دوسری قوم کی گمنامی،اہم انہیں گمنام لوگوں میں ہیں جن کے شعلے بجھ چلے ہیں،شہرہ ختم ہوچکا ہے یہاں تک کہ زمانہ ہمارے خلاف ہوگیا لوگ ہماری مخالفت ہی پر کھاتے پیتے اور جیتے رہے،وقت گذرتا گیا جو لوگ جانے مانے تھے ان میں سے زیادہ تر لوگ مرگئے اور جو لوگ غیر مشہور تھے پیدا ہوگئے،اگر نبیؐ کع بیٹا ہوتا تو کیا ہوتا؟سنو پیغمبرؐ نسب اور خون کی وجہ سے مجھ کو قریب نہیں رکھتے تھے بلکہ جہاد اور خیرخواہی کی وجہ سے آپؐ نے مجھے تقرب عنایت فرمایا تھا،اچھا اگر آپؐ کے کوئی بیٹا ہوتا تو میں پوچھتا ہوں کہ جتنی خدمت میں نے کی ہے کیا وہ اتنی خدمت کرسکتا تھا؟(جواب ہے نہیں)تو وہ اتنا قریب بھی نہیں ہوتا جتنا میں نبیؐ کے قریب رہا پھر بھی میری نبیؐ سے قربت عرب کی نگاہوں میں میری منزلت اور مرتبہ کا سبب نہیں ہے بلکہ ذلت اور محرومی کا سبب ہے۔

پالنےوالے تو جانتا ہے کہ میں حکومت کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ملکیت و ریاست کی بلندی چاہتا ہوں میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ تیری حدیں قائم ہوں تیری شریعت کے مطالبے ادا ہوں،ہر کام اپنی جگہ پر ہو،حقدار کو ان کا حق دیدیا جائے،تیرے نبیؐ کے طریقے پر عمل جاری رہے اور گمراہ کو تیرے نور کی ہدایت کی طرف موڑدیا جائے۔(1)

21۔اپنے اس ابتدائی خطبہ میں جو اپنے دور خلافت میں خطبہ دیا تھا آپ نے فرمایا:اپنے گھروں میں چھپے رہو اور آپس میں صلح و آشتی پیدا کرو اور اس کے بعد توبہ کرو،جس نے حق کے خلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:298۔299

۱۵۵

لب کشائی کی ہلاک ہوا تمہارے امور تھے جن میں ایک امر کی طرف مائل ہوگئے،اس میں کوئی میرے نزدیک قابل تعریف اور راہ حق و صواب پر نہیں ہے لیکن اگر میں چاہتا تو ضرور کہتا خدا گذشتہ کو معاف کرےدو شخص نے سبقت کی اور تیسرا کوّے کی طرح کھڑا رہا جس کا مقصد صرف پیٹ ہےوای ہو اگر اس کے دونوں پر قطع کردیئے جائیں اور سر اڑادیا جائے تو اس کے لئے بہتر ہوگا۔(1)

ابن ابی الحدید نے کہا:یہ خطبہ حضرت کے عظیم خطبوں میں سے ایک ہے نیز مشہور ہے جسے سارے لوگوں نے روایت کی ہے نیز اسے ہمارے استاد ابوعثمان جا خط البیان اور التبین نامی کتاب میں اسی طرح ذکر کیا ہےاور اسے ابوعبیدہ مصمر بن مثنی نے بھی روایت کی ہے۔

ابن قتیبہ نے((عیوں الاخبار))میں اس کا بیشتر حصہ ذکر کیا ہے(2) اور ابن عبدربہ نے العقد الفرید میں(3) متقی ہندی نے کنزالعمال(4) ابن دمشقی نے مناقب علی بن ابی طالبؑ میں ذکر کیا ہے۔(5)

اس کے بعد ابن ابی الحدید نے کہا:ہمارے استاد ابوعثمانؒ نے کہا:اور ابوعبیدہ نے جعفر بن محمدؑ کے آبا و اجداد سے روایت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا:آگاہ ہوجاؤ میری عترت کے نیکوکار اور میری ذریت کے پاکیزہ لوگ چھوٹوں کے اعتبار سے زیادہ بردبار اور بڑوں کے اعتبار سے زیادہ جانکار ہیں،لٰہذا اگر(ہمارا)اتباع کروگے ہدایت پاؤگے اور اگر مخالفت کروگے خداوند عالم تمہیں ہمارے ہاتھوں ہلاک کردےگا ہمارے ساتھ پرچم حق ہے جو اس کا اتباع کرے وہ اس سے ملحق ہوگا اور جو پیچھے رہ جائے وہ ڈوب جائےگا آگاہ!ہمارے ہی ذریعہ ہر مومن عزت پاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:275۔276

(2)المجلد الثانی ج:5ص:236،کتاب العلم و البیان:خطبہ حضرت علیؑ،قتل عثمان کے بعد،

(3)ج:4ص:68خطبہ امیرالمومنین

(4)ج:5ص:749۔750حدیث:14282

( 5 )ج:1ص:323۔324

۱۵۶

ہمارے ہی ذریعہ اسے رسوائی سے نجات ملےگی ہمارے ہی ذریعہ فتح ہے نہ تمہارے،مجھ پر خاتمہ بخری ہے نہ تم پر۔(1)

22۔نیز آپؑ نے فرمایا:معاویہ کے جواب میں تم نے میرے خلفاء کی نسبت حسد کا ذکر کیا ہے،اور ان سے متعلق کوتاہی اور بغاوت کا۔رہا بغاوت کا سوال تو خدا کی پناہ کہ ایسا ہورہا ہے،رہا ان کے امور میں میری سستی اور ان سے ناپسندیدگی کا اظہار،تو میں ان سے متعلق لوگوں کے سامنے عذر کرنےوالا نہیں ہوں اور تمہارا باپ میرے پاس اس وقت آیا تھا جب لوگوں نے ابوبکر کی ولی بنایا تھا ت اس نے مجھ سے کہا کہ تم محمدؐ کی جانشینی کے زیادہ سزاوار ہو جب کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جس نے انکار کیا کیونکہ لوگ کفر سے قریب العہد تھے اہل اسلام کے درمیان تفرقہ کے خوف سے۔(2)

23۔آپؑ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا:بیٹا جب سے آپ کے جد کی وفات ہوئی لوگ میرے خلاف بغاوت ہی کررہے ہیں۔(3)

24۔آپ نے ابوعبیدہ سے فرمایا((اے ابوعبیدہ کیا وقت زیادہ گذرنے کی وجہ سے تم عہد کو بھول گئے یا آرام ملا تو تم نے خود بھلادیا،میں نے تو سنا اور یاد رکھا اور جب یاد رکھا تو پھر اس کی رعایت کیوں نہ کروں))۔(4)

25۔ابوحذیفہ کے غلام سالم کے بارے میں فرمایا((بنوربیعہ کے کمینے گلام پروائے ہو وہ اپنے شرک قدیم کا پسینہ مجھ پر پھینک کر مجھے برابنانا چاہتا ہے اور ولید،عتبہ اور شیبہ کے خون کا ذکر کر رہا ہے(یہ لوگ بدر میں آپؐ کے ہاتھوں مارے گئے تھے)کہ میں ان کے خون کا ذمہ دار ہوں خدا کی قسم مجھے وہ اسی جگہ لارہا ہے جو اس کے لئے بری ہے اور پھر وہ وہاں پر فلاں اور فلاں سے ملاقات نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:276

(2)شرح نہج البلاغہ ج:15ص:77۔78۔انساب الاشراف ج:3ص:69،المناقب،خوارزمی ص:250۔254 العقد الفریدج:4ص:309

(3)امامت و سیاست ج:1ص:45،واقعہ بیعت علی ابن ابی طالبؑ

(4)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:307

۱۵۷

کرےگا(کوئی اس کا مددگار نہ ہوگا)۔(1)

26۔آپ نے فرمایا سب سے پہلے سعد بن عبادہ نے میرے خلاف ہمت کی لیکن دروازہ اس نے کھولا داخل دوسرا ہوا آگ اس نے بھڑکائی جس کے نتیجہ میں شعلے اس کو ملے اور اس کے دشمن اس آگ کی روشنی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔(2)

27۔عمر جناب ابن عباس سے بات کررہے تھے ابن عباس کہتے ہیں کہ عمر نے مجھ سے پوچھا اپنے بھتیجے کو کس حال میں چھوڑ کے آئے ہو؟وہ کہتے ہیں میں سمجھا عبداللہ بن جعفر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔میں نے کہا اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے عمر کہنے لگے میں ان کے بارے میں تھوڑی پوچھ رہا ہوں میں تو تم سے اہل بیتؑ کے سردار کے بارے میں پوچھ رہا ہوں،میں نے کہا میں نے آپ کو اس حال میں چھوڑٓ کہ فلاں کے کھجوروں کے باغ کی سینچائی کررہے تھے اور قرآن بھی پڑھ رہے تھے کہنے لگے اے عبداللہ اگر آج تم نے مجھ سے کچھ چھپایا تو تم سے مزید ایک بات کہتا ہوں،میں نے اپنے والد سے ان کو دعوے کے بارے میں پوچھا تھا تو انھوں نے علیؑ کی تصدیق کی تھی۔

عمر کہنے لگے پیغمبرؐ کے قول سے کوئی صاف بات ظاہر نہیں ہوتی تھی جس کو حجت تسلیم کیا جائے اور کوئی قطعی عذر بھی نہیں تھا کچھ دنوں تک آپ(رسولؐ)نے ان(علیؑ)کے معاملے میں انتظار کیا لیکن آپ جب بیمار پڑے تو ارادہ کیا کہ علیؑ کے نام کی صراحت کردیں لیکن میں نے انھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:296،یہ سالم ابوحذیفہ بن عتبتہ کا غلام ہے اسے تو عتبہ اور اس کے بیٹے ولید اور اس کے بھائی شیبہ نے روز بدر کے مبارزہ میں قتل کیا ہے امیرالمومنینؑ نے اپنے اس کلام سے اشارہ کیا ہے کہ سالم کا موقف معاندانہ تھا۔امیرالمومنین کی نسبت ایسا صرف بدر کے دن اس کے چاہنےوالوں کے مرنے کے انتقام میں تھا۔

(2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:307۔308

۱۵۸

روک دیا،مقصد اسلام کی خیرخواہی تھی میں نے یہ اقدار خوف اور احتیاط کی وجہ سے کیا تھا،اس کعبہ کے پروردگار کی قسم!قریش ہرگز ان پر متحد اور جمع نہین ہوتے اور اگر انہیں والی خلافت بنا دیا جاتا تو عرب ٹوٹ پھوٹ جاتے،پیغمبرؐ صبھی میرے دل کی بات سمجھ گئے اس لئے آپ نے اپنا ہاتھ روک دیا اور جو بات حتمی تھی وہ ہو کر رہی۔(1)

28۔آپؑ نے فرمایا،مجھے کہنےوالے ہیں کہ اے ابوطالب کے بیٹے تم خلافت کے حریص ہو،میں جواب دیتا ہوں تم مجھ سے زیادہ حریص ہو،میں تو اپنے بھائی کی میراث اور ان کا حق کا طالب ہوں اور تم میرے اور میرے بھائی کے درمیان آکے(بغیر کسی حق کے)میرا منھ موڑنے کی کوشش کررہے ہو،پالنےوالے میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد مانگ رہا ہوں،انھوں نے میرا رشتہ توڑدیا،میری بڑی منزلت اور فضیلت کو چھوٹا سمجھا،مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کیا جس کا صرف میں حقدار ہوں،انھوں نے مجھ سے وہ حق چھین لیا پھر مجھ سے کہا کہ تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ صبر کرو اور پچھتاوے کی زندگی جیتے رہو،میں نے چاروں طرف دیکھا تو سمجھ گیا کہ سوائے میرے گھروالوں کے میرا کوئی رفیق اور مددگار نہیں ہے،پس مجھے ان کی ہلاکت کا خوف ہوا تو میں آنکھیں بند کرلیں جب کہ میری آنکھ میں تنکا تھا اور میرے حلق میں پھانس تھی لیکن میں یہ گھونٹ پی گیا میں نے غصّہ کو صبر میں بدلا اور کڑوا لقمہ نگل گیا،میرے دل میں ایسا درد تھا جیسےلوہے سے شگافتہ کردیا گیا ہو۔(2)

امیرالمومنین علیہ السلام کے شکوے کی بہت سی خبریں ہیں

ابن ابی الحدید آپ کے مذکورہ بالا بیان کے بعد نوٹ لگاتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ آپ نےسیکڑوں بار فرمائے جیسے آپ کا کہنا ہے کہ وفات پیغمبرؐ سے آج کے دن تک میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:20۔21

(2)امامت و سیاست ج:1ص:126۔127،امام علیؑ کا خط اہل عراق کے نام نہج البلاغہ ج:2ص:84،85

۱۵۹

مسلسل مظلوم رہا((یا یہ کہنا!اے پالنےوالے قریش کو ذلیل کر انھوں نے میرے حق سے مجھے روکا اور میری خلافت کو غصب کرلیا یا ایک بار آپ نے سنا کوئی پکار رہا تھا((میں مظلوم ہوں))آپ نے فرمایا اے بھائی آؤ،ہم دونوں مل کر فریاد کریں میں تو ہمیشہ مظلوم رہا))یا حضرتؑ کا یہ کہنا کہ لوگو!ان دونوں نے ہمارے ہی برتن میں پانی پیا پھر لوگوں کو ہماری ہی گردن پر لاوگئے اور آپ کا یہ قول لوگوں نے ہمیشہ مجھ پر غیروں کو ترجیح دی مجھے میرے حق اور واجب شئی سے باز رکھا۔(1)

ابن ابی الحدید نے اس موضوع پر علی علیہ السلام کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں لیکن چونکہ میں نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہی میرے دعوے کی تصدیق کے لئے کافی ہے اس لئے میں مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔

ابن ابی الحدید نے جوہری کی کتاب السقیفہ اور شعبی کی کتاب مقتل عثمان اور شوریٰ اور دیگر کتابوں کے حوالے سے بھی امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کلام کی روایت کی ہے جس میں حضرت نے مقام استدلال میں فرمایا کہ خلافت صرف آپ کا اور آپ کے اہل بیت کا حق تھا لیکن انھیں مظلوم و مقہور بنادیا گیا اور وہ حضرات یا تو خوف جان یا ضیاع اسلام کے خوف سے خاموش رہے جب کہ انھیں ہمیشہ اس کا صدمہ رہا اور غاصبوں کے ہاتھوں وہ ستائے بھی گئے۔(2)

ان واقعات و حادثات کی تاریخ شاہد اور حدیثیں گواہ ہیں۔

امیرالمومنینؑ کے شکوے پر ابن ابی الحدید کا نوٹ

ابن ابی الحدید اپنے سابق کالم پر تعقیبی نوٹ لگاتے ہیں:ہمارے اصحاب(یعنی معتزلی فرقہ کے علما)کا خیال ہے کہ آپ کے یہ دعوے آپ کی افضلیت واحقیت کو ثابت کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حق ہے یعنی آپ افضل صحابہ اور احق بالخلافہ ہیں،لیکن ان سب کے باوجود اگر یہ مان لیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:306۔307

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:185۔194،ج:2ص:21۔60،ج:6ص:5۔52ج:9ص:49۔58،

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179