فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب22%

فلسفہ نماز شب مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

فلسفہ نماز شب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 91162 / ڈاؤنلوڈ: 3710
سائز سائز سائز
فلسفہ نماز شب

فلسفہ نماز شب

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تحلیل حدیث

اس روایت شریفہ میں امام المتقین والمسلمین نے تین عظیم ذمداریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

١) لوگوں کو کھانا کھلانا ہماری سیرت ہے ۔

٢) لوگوں کی مشکلات میںمدد کرنا

٣) رات کے وقت نماز شب پڑھنا ۔

کہ یہ تینوں ذمہ داریاں آنجام دینا عام انسان کے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ جب انسان کسی مال کو اپنا حقیقی مال سمجھتا ہے

توکسی اور کومفت کھلاناطبیعت وخواہشات کے منافی ہے کیونکہ مفت میں کسی کو دینا کمی اور خسارہ کا باعث ہے اگر چہ فطرت کی چاہت اسکے برعکس ہے یعنی ہم کسی چیز کا حقیقی مالک نہیں ہے اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مال کا حقیقی مالک نہ سمجھے بلکہ اعتبار ی مالک ماننے اور اس ملکیت کوزوال پیذیر ہونے کااعتراف کرے اور دوسروں کو کھلانا اپنی ابدی زندگی کی خوش بختی اور آبادی کا باعث سمجھے تو دوسروں کو کھلانے میں خوشی وحسرت کا احساس کرتا ہے کیونکہ فطرت کی چاہت کی بناء پر حقیقی مالک اسکی نظر میں صرف خدا ہے اور خدا نے ہی انسانوں کو استعمال کرنے کا حق دیا ہے اور اسی طرح اگرکسی شخص پر کوئی مشکل آپڑے لیکن دوسرا شخص آپنے آپ کو اس بری سمجھے تو اس کے لئے عملاََ مدد کرنا بہت مشکل ہے حتی اس کی مشکلات کو ذہن میں تصور کی حدتک بھی نہیں لاتا کہ اس کا لازمی نتیجہ، کائنات میں روز بروز طبقاتی نظاموں میں اضافہ اور فقر وتنگ دستی کا بازار گرم ہوناہے۔

لہٰذا بہت سے افراد اس ذمہ داری کو انجام دینے کے حوالے سے تصور کے مرحلہ سے بھی محروم ہیں ایسے حضرات کو قرآن میں'' بل ہم اضل''کی تعبیر سے یاد کیا گیا ہے لیکن کچھ حضرات اس طرح کئے ہیں کہ عملاً مدد کرنے سے محروم ہے جب کہ تصور کے مرحلے میں باعمل ہیں یعنی انکی مشکلات کو اعضاد وحواح کے ذریعے برطرف کرنے کی کوشش نہیں کرتے لیکن ان کی مجبوری کو ہمیشہ ذہن میں تصور کیا کرتے ہیں اسیے حضرات کوعالم بے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن کچھ حضرات ایسے ہیں کہ جو تصور اور عمل کے اعتبار سے لوگوں کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھ کر ہر وقت ان کو برطرف کرنے کیلئے زحمت ومشقت کو اپنی مشکلات سمجھ کر ہر وقت ان کو بر طرف کرنے کی خاطرہزاروںمشقتیں اٹھاتے ہیں لہٰذا بنی اکرم )ص(نے فرمایا :

''من لم یتهم بامورالمسلین فهو لیس بمسلم .''

یعنی جو مسلمانوں کی مشکلات کی بر طرفی کا اہتمام نہیں کرتے وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔

۴۱

لہٰذا انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسا ہو لیکن اس قسم کے حضرات سوائے انبیاء اور آئمہ کے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حدیث میں فرمایا ہے ہم اہل بیت ہی ایسا کرتے ہیں لہٰذا جن افراد پر اہل بیت صادق آتا ہے ان تمام حضرات کی مخصوصیت اور سیرت یہ ہی ہے اگرچہ مذاہب کے مابین اہل بیت کے بارے میںاختلاف پایا جاتا ہے لیکن امامیہ مذہب جو حق اور نجات دلانے والا مذہب ہے اسکی نظر میں اہل بیت کے مصداق صرف چھاردہ معصومین ہیں لہٰذا تمام اہل علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا اور ان کی مشکلات میں مدد کرنااور رات کے آخری وقت نماز شب کے ذریعے خدا سے راز ونیاز کرنا یہ تمام چیزیں ان کی سیرت سے ثابت ہے لہٰذا آپ اگر سیرت اہل بیت پر چلنا چاہتے ہیں تو ان ذمداریوں کو کبھی فراموش نہ کریں اور انشاء اللہ مزید وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

لاتدع قیام الیل فان المبغون من غبن بقیام الیل (١)

تم لوگ نماز شب کو ترک نہ کرے کیونکہ جو شخص اس سے محروم ہوا وہ خسارے میں ہے ۔

تحلیل حدیث :

اس روایت کی وضاحت یہ ہے کہ روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے دو مطالب کی طرف اشارہ فرمایا جو قابل توضیح ہے

____________________

(١) معانی الا خبار ص ٣٤٢

۴۲

١) شب بیداری کرنا ۔

٢) اور شب بیداری کی حقیقت اور ہدف

پہلا مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ شب بیداری کرنے کی دوقسمیں قابل تصور ہیں :

١) عبادت الہٰی کی خاطر شب بیداری کرنا تاکہ خدا سے راز ونیاز کریں۔

٢) لہو ولعب یا کسی غیر عبادی امور کے لئے شب بیداری کرنا۔

روایت شریفہ میں اما م نے قیام اللیل کو مطلق ذکر فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باقی روایات سے قطع نظر دیکھا جائے تو دونوں صورتیں روایت میں شامل ہیں یعنی شب بیداری کرنا چاہئے عبادت میں رات گذارے یا کسی لہوولعب میںدونوں کا اچھے ہیں لیکن جب ہم باقی روایات جو قیام اللیل سے مربوط ہیں اور قرائن وشواہد کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں امام علیہ السلام کا ہدف وہ قیام اللیل ہے جو عبادت الٰہی کے لیے ہو۔

لہٰذا علماء اور فقہا نے بھی قیام اللیل سے یہی مراد لیا ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ روایت میں معصوم کی مراد صرف قیام اللیل نہیں ہے بلکہ عبادت کےلئے رات گذار نا مقصود ہے۔

دوسرا مطلب جو اس روایت میں قابل وضاحت ہے وہ یہ ہے کہ کیوں شب بیداری عبادت الٰہی کے لیے مہم ہے ؟کیا کسی اور وقت میں عبادت نہیں ہوسکتی کہ جسکی خبرامام نے نہیں دی ؟

۴۳

جواب یہ ہے کہ شب بیداری اسی لئے مہم ہے کہ عبادت الٰہی کی خاطر جاگنا حقیقت میں طبیعت شب کے ہدف کے خلاف ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف خداوند کریم نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ خدا نے رات کو سکون اور آرام کے لئے خلق کیا ہے لہٰذا رات کے وقت عبادت کی خاطرجاگنارات کی خلقت اور طبیعت کے منافی ہے لیکن جب انسان رات کے سکون اور آرام کو چھوڑکر عبادت الہٰی کے لیے شب بیداری کرے تو خدا کی نظر میں اسکی اہمیت اور عظمت بھی زیادہ ہوجاتی ہے اور نماز شب کی خصوصیت اور فضیلت کا وقت ہی وہی ہے جب باقی تمام انسان آرام وسکون کی گہری نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوں لیکن خدا کے عاشق اور ایمان کے نور سے بہر مند حضرات اپنے محبوب حقیقی سے رازونیاز کی خاطر اس وقت اپنے آرام وسکون کو راہ خدا میں فدا کرتے ہیں لہٰذا امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم شب بیداری کو نہ چھوڑیں کیونکہ شب بیداری نہ کرنے والے افرادہمیشہ خسارہ اور نقصان کے شکار رہتے ہیں پس اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر شب بیداری کو نہ چھوڑے تو ہمیشہ فائدے میں ہوگا صحت جیسی نعمت سے بہرہ مند ہونگے۔

نماز شب کی اہمیت کو امام جعفرصادق نے یوں بیان فرمایا:

'' انی لا مقت الرجل قدقرأ القرآن تم یستیقظ من اللیل فلا یقوم حتی اذا کان عندالصبح قام ویبادر بالصلوة '' (٢)

____________________

(٢) بحار ج٨٣

۴۴

مجھے اس شخص سے نفرت ہے کہ جو قرآن کی تلاوت کرے اور نصف شب کے وقت نیندسے جاگئے لیکن صبح تک کوئی نماز نافلہ نہ پڑھے بلکہ صرف نماز صبح پر اکتفاکرے

حدیث کی تحلیل :

اس روایت کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ امام نے اس روایت میں اپنے ان ماننے والوں سے جو رات کو نماز نافلہ انجام نہیںدیتے اظہار نفرت کیاہے لہٰذا اس روایت کے مصداق کو معین کر کے اس پر تطبیق کرنا لازم ہے تاکہ یہ شبہ نہ رہے کہ ہرنماز شب ترک کرنے والا معصوم کی نظر میں قابل نفرت ہے کہ اس مسئلہ میں چار صورتیں قابل تصور ہے:

١) نماز شب وہ شخص ترک کرتا ہے کہ جو خواب اور نیند سے بالکل بیدار نہیں ہوتا ایسے افراد کی دوصورت ہیں :

١) وہ شخص ہے جو سوتے وقت نماز شب انجام دینے کی نیت تو رکھتا ہے لیکن نیند اسے اٹھنے کی اجازت نہیں دیتی تاکہ نماز شب سے لذت اٹھاسکے۔

٢) وہ شخص ہے جو سوتے وقت نماز شب پڑھنے کے عزم کے بغیر سوجاتا ہے اور پوری شب نیند میں غرق ہو اور نماز شب سے محروم رہ جاتا ہے ایسا شخص امام کے اس جملے میں داخل نہیں ہے کہ فرمایا:

''لامقت الرجل ۔''

یعنی مجھے اس شخص سے نفرت ہے جو پوری رات سوتا رہے صرف نماز صبح انجام دے اگر کوئی شخص سوتے وقت نماز شب کے لئے جاگنے کی نیت کے ساتھ سوئے اور پھرنہ جاگ سکے تو ایسا شخص بھی امام علیہ السلام کے اس جملے سے خارج ہے ۔

۴۵

کیونکہ اس قسم کے افراد سے نفرت کرنا خلاف عقل ہے اور بہت ساری رویات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افراد سے امام علیہ السلام خوش ہیں کیونکہ وہ نماز شب پڑھنے کا ارادہ رکھتے تھے ایسا شخص اس حدیث : ''نیۃ المؤمن خیر من عملہ'' کے مصداق قرار پاتا ہے لہٰذا ایسا شخص یقیناََ روایت سے خارج ہے لیکن دوسری قسم کے افراد یعنی سوتے وقت جاگنے کی نیت کے بعیر حیوانات کی طرح سوتے ہیں ایسے اشخاص بھی خارج ہیں کیونکہ امام نے فرمایا:'' ثم یستیقظہ'' یعنی سوئے پھر جاگے اور نماز شب نہ پڑھے ایسے افراد سے مجھے نفرت ہے اگرچہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیفیت اور حالات میں سوجانا باعث مذمت ہے لیکنلامقت الرجل میں داخل نہیں ہے کیونکہ نیند کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے اور نیند اپنی جگہ پر عذر شرعی شمار ہوتا ہے۔

٢) صورت وہ افراد ہے جو نصف شب کے وقت نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں لیکن نماز شب انجام نہیں دیتے کہ اس کی مزید تین قسمیں قابل تصور ہیں :

١) جاگنے کے بعد نماز شب پڑھنے کا شوق ہے لیکن کسی اور کام یا مصروفیات کی وجہ سے نماز شب سے محروم ہوجاتے ہیں جیسے مطالعہ یادیگر لوازمات زندگی کی فراہمی ایسے افراد بھی اس حدیث سے خارج ہیں کیونکہ لوازمات کی فراہمی کے لئے کوشش کرنا اور شب بیداری کرنا خود خدا کی عبادت ہے جیسا کہ امام نے فرمایا ۔

٢) دوسری صورت وہ افرادہیں جو نیند سے بیدار تو ہوتے ہیں لیکن غیر ضروری مباح یا مکروہ کام کی وجہ سے نماز شب ترک کربیٹھتے ہیں ایسے افراد اس حدیث میں داخل ہیں کہ انہیں کے بارے میں فرمایا کہ مجھے ان سے نفرت ہے۔

٣)تیسری صورت وہ شخص کہ جو نصف شب کے وقت جاگتے ہے لیکن کسی عذر کے بغیر سستی کی وجہ سے نماز شب ترک کرتے ہیں تو ایسے افراد سے امام نے اظہار نفرت کیا ہے لہٰذا فرمایا:

لا مقت الرجل یعنی رات کو بیدار ہوتا ہے اور نماز شب بجانہیں لاتا یہ افراد قابل مذمت ہیں ۔

۴۶

نتیجہ نماز شب کسی عذر عقلی کے بغیر نہ پڑھنا امامَ کی نفرت کا باعث ہے اور امام کے ماننے والے حضرات کے لئے یہ بہت ہی سخت اور ناگوار بات ہے لہٰذا امام اس سے نفرت کریں۔

اور نماز شب کوانجام دینے میں کوتاہی اور سستی شیطان کے تسلط اور حکمرانی کا نتیجہ ہے اور نماز شب کی فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات میں سے ایک پیغمبر اکرم )ص( کا یہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا :

''اذا ایقظ الرجل اهله من الیل وتوضیا وصلیا کتبا من الذاکرین کثیرا والذاکرات'' (١)

ترجمہ :اگر کوئی شخص نصف شب کے وقت اپنی شریک حیات کو نیند سے جگائے اور دونوں وضو کرکے نماز شب انجام دے تو میاں بیوی دونوں کثرت سے ذکر کرنے والوں میں سے قرار دیاجائے گا ۔

تحلیل حدیث :

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص(نے تین شرطوں کیلئے ایک جزاء کا ذکر کیا ہے :

١)اگر شوہر اپنی بیوی کو نیند سے جگائے ۔

٢)اگر دونوں وضوکرے ۔

٣) اور دونوں نماز شب انجام دیں۔

پھر''کتبامن الذاکرین کثیرا والذا کرات'' (اگرچہ علم اصول میں تعدد شرط اور جزاء واحد کی بحث مستقل ایک بحث ہے کہ اس کا نتیجہ اور حقیقت کیا ہے اس کا حکم کیا ہے یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے لہٰذا قارئین محترم کی

____________________

(٢)نورالثقلین ج٤۔

۴۷

خدمت میں صرف اشارہ کرنا مقصود ہے تاکہ حدیث کی حقیقت اور مطلب واضح ہوجائیں) لہٰذا اس حدیث سے دومطلبوں کا استفادہ ہوتا ہے ایک نماز شب کی تاکید اور اہمیت نیز نماز شب صرف مردوں کے ساتھ مختص نہیں بلکہ خواتین بھی اس روح پرور عبادت سے بہرہ مند ہوسکتی ہیں لہٰذا نماز شب مرد اور عورت دونوں کے لئے مستحب ہے اگر چہ ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر ایسی عبادت کو انجام دینے کا نظر یہ صرف مردوںکے بارے میں قائم ہے جب کہ نماز شب پڑھنا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت زینب کبریٰ علیہاالسلام کی سیرت طیبہ میں سے اہم سیرت ہے اور روایت کا ماحصل اور مدلول بھی یہی ہے کہ مردوں اور عورتوں میں نماز شب کے استحباب کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا دونوں اس انسان ساز عبادت سے فیضیاب ہوسکتا ہیں ۔

دوسرا مطلب جو روایت سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے والے کا شمار ذاکرین میں سے ہوتا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ذاکرین کے حقیقی مصداق اہل بیت علہیم السلام ہیں لہٰذا نماز شب پڑھنے والے بھی ایسے درجات کے مالک ہوسکتے ہیں یعنی ذاکرین کے کئی مراتب ہے جس کے کامل ترین درجہ پر ائمہ اطہار فائز ہیں اور نماز شب پڑھنے والا مؤمن دوسرے مرتبہ پر فائز ہوگا جو عام انسانوں کی نسبت خود بہت بڑا کمال ہے۔

۴۸

نیز نمازشب کی اہمیت کو بیان کرنے والی رویات میں سے ایک اور روایت جو اس آیہ شریفہ'' ان ناشئۃ اللیل'' کی تفسیر میں وارد ہوئی ہے امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ان ناشئتہ اللیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ دونوں حضرات نے فرمایا :

''هیی القیام فی آخر الیل ''

یعنی اس آیہ شریفہ سے مراد رات کے آخری وقت نماز شب کی خاطر نیند سے جاگنا ہے۔

اسی طرح دوسری روایت جو اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہے جو امام جعفر الصادق علیہ السلام سے یوں نقل کی گئی ہے کہ ۔ ان ناشئتہ اللیل سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:

''قیام الرجل عن فراشه بین یدی الله عزوجل لایریدبه غیره'' (١)

یعنی اس آیہ شریفہ سے مراد بارگاہ الٰہی میں نیند کے سکون اور آرام کو چھوڑکر نماز شب کی خاطر جاگنا کہ جس سے صرف رضایت خدا مقصود ہو لہٰذا ان دونوں روایتوں سے بھی نمازشب کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے معتقد حضرات جو ٢٤/ گھنٹوں میںسے ایک دفعہ تلاوت قرآن حکیم ضرور کرتے ہونگے اور اس آیہ شریفہ کی بھی تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہوگا

____________________

(١)بحار جلد ٨٧

۴۹

اس کے باوجود نمازشب کا نہ پڑھنا سلب توفیق اور بدبختی کی علامت ہے پالنے والے ہمیں ایسی بدبختی اور سلب توفیق سے نجات دے یہاںممکن ہے کوئی شخص یہ خیال کرے کہ ہم اسلام کی خدمت کرتے ہیں مثلا مدرسے کی تاسیس کرنا یا کسی مسجد اور دیگردینی مراکزکی تعمیر کرانا یا کسی اور خدمت میں مصروف ہونا )لہٰذا نماز شب کیلئے نہ جاگے یا نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کتاب لکھ رہا ہے یا کوئی اور خدمت کو انجام دے رہا ہے تو ایسا خیال رکھنے والے حضرات بہت بڑے اشتباہ کا شکار ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نماز شب کے فوائد اور آثار اس قدر عظیم ہیں کہ اس کے مقابلے میں کوئی اور کام یا خدمت اس کا بدل نہیں ہوسکتی ۔

اسی طرح یہ روایت بھی ہمارے مطلب پر دلیل ہے کہ جس میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :

''لماسئل عن التسبیح فی قوله تعالٰی وسبحه لیلا طویلا صلوة اللیل ''

یعنی امام رضا علیہ السلام سے وسبحہ لیلا َطویلا کے بارے میں پوچھا گیا : رات دیر تک خدا کی تسبیح کرنے سے کیا مراد ہے ؟

اس وقت آپ نے فرمایا اس سے مراد نماز شب ہے یعنی نماز شب کے ذریعے خدا کی تقدیس و تسبیح ہوسکتی ہے کہ اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ ہمارے عقیدہ کی بناء پرکائنات کے تمام موجودات چاہے انسان ہو یا حیوان نباتات ہو یا جمادات سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حدوث وبقاء کے حوالے سے خدا کا محتاج ہیں لہٰذا تمام مخلوقات یعنی پوری کائنات اللہ تعا لیٰ کی تسبیح وتقدیس کرتی ہے کہ اس مطلب کی تصدیق قرآن نے یوں کی ہے:

''سبح لله مافی السموت والارض''

لیکن تسبیح کی کیفیت اور کمیت کے بارے میں مخلوقات کے مابین بہت پڑا فرق ہے یعنی اگر کوئی زبان سے تکلم کے ذریعہ خدا کی تسبیح کرے تو دوسرا زبان حال اور نطق گویا کے ذریعے خدا کی تسبیح میں مصروف ہے کہ اس آیہ شریفہ میں خدا نے رات دیر تک تسبیح کرنے کا حکم فرمایا اور امام نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے اس کی تفسیر فرمائی ہے کیونکہ حقیقی مفسر اور عاشق الٰہی وہی ہے لہٰذا عاشق معشوق کے کلام میں ہونے والے کنایات واشارات اور فصاحت وبلاغت کے نکات سے بخوبی واقف ہے جب کہ دوسرے لو گ ایسے نکات اور اشارات سے بے خبر ہوتے ہیں۔

۵۰

لہٰذا آنحضرت نے وسبحہ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد نماز شب ہے پس نماز شب کی اہمیت وفضیلت کے لئے صاحبان عقل کو اتنا ہی کافی ہے لیکن دنیا میں نیاز مند افراد کا طریقہ یوں رہا ہے کہ کہیں سے کوئی معمولی سی چیز ملنے کی امید ہو تو ہزاروں قسم کی زحمات برداشت کرتے ہیں تاکہ اس چیز کے حصول سے محروم نہ رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کتنا غافل ہے کہ مادی زندگی جو مختصر عرصے تک باقی رہتی ہے اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر اتنی زحمات اور سختیاں برداشت کرتا ہے مگر نماز شب جیسی عظیم نعمت اور دولت کو ہاتھ سے جانے دیتا ہے جب کہ نماز شب عالم برزخ اور ابدی زندگی کےلئے بھی مفید ہے اور نماز شب انجام دینے میں صرف آدھ گھنٹہ نیند سے بیدار ہونے کی زحمت ہوتی ہے اور اس جاگنے میں کتنی لذت ہے کہ جس کا اسے اندازہ نہیں۔

لہٰذا اگر کوئی شخص فکر و تدبرسے کام لے لے تو یقینا اس مادی زندگی کے دوران میں ہی آخرت اور ابدی زندگی کے لئے نماز شب جیسی دولت کے ذریعے سرمایہ گذاری کرسکتاہے اور دنیامیں کامیاب اور سعادت مند ہو اور عالم برزخ میں سکون کے ساتھ سفر کے لمحات طے کرسکے اور ابدی زندگی میں جاودانہ نعمتوں سے مالامال ہوسکے۔

۵۱

حضرت امام ہفتم علیہ السلام نے فرمایا:

''لما یرفع راسه من آخر رکعت الوتر (یقول ) هذا مقام حسنا ته نعمته منک وشکره ضعیف وذنبه عظیم ولیس له الا دفعک ورحمتک فانک قلت فی کتابک المنزل علی نبیک المرسل کانوقلیلا من اللیل ما یهجعون وباالاسحار هم مستغفرون کمال هجو عی وقل قیامی وهٰذا السحر وانا استغفرک لذنبی استغفارا من لم یجد نفسه ضراولا نفعا ولاموتا ولاحیواتا ولانشورا ثم یخرساجدا'' (١)

جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نماز وترکی آخری رکعت سے فارغ ہوتے تو فرمایا کرتے تھے کہ یہاںایک ایسا شخص کھڑا ہوا ہے کہ جس کی نیکیاں تیری طرف سے دی ہوئی نعمتیں ہیں کہ جس کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہے گناہ اس کے زیادہ ہے صرف تیری رحمت اور حمایت کے سواء کچھ نہیں ہے کیونکہ تونے ہی اپنے نبی مرسل پر نازل کئی ہوئی کتاب میں فرمایا ہے کہ کانو قلیلایعنی ہمارے انبیاء رات کے کم حصہ سوتے اور زیادہ حصہ ہماری عبادت کی خاطر شب بیداری کرتے تھے اور سحرکے وقت طلب مغفرت کرتے تھے لہٰذا (میرے پالنے والے) میری نیند اور خواب زیادہ اور شب بیداری کم ہے اس سحرکے وقت میں تجھے سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا طلب اس شخص کی طرح کرتا ہوں کہ جس کو اپنے نفع ونقصان اٹھانے کی طاقت اور حساب وکتاب سے بچنے کے لیے کوئی راہ فرار نہیں ہے نہ ہی موت وحیات اس کے بس میں ہے پھر انھیں جملات کو بیان فرمانے کے بعد آپ سجدہ شکر اداء کیا کرتے تھے۔

تحلیل حدیث :

حضرت نے اس راویت میں کئی مطالب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جن میں سے ایک یہ ہے کہ خالق کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے معافی

____________________

(١)الخیرص ١٧٥

۵۲

مانگنے اور مغفرت طلب کرنے کا بہترین وسیلہ نماز شب اور بہترین وقت سحرکا وقت ہے کہ جس سے انسان کے گناہوں سے آلودہ شدہ قلب کی دوبارہ آبیاری ہوتی ہے اور کھوئی ہوئی خدا داد صلاحتیں پھر مل جاتی ہیں۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان جس مقام اور پوسٹ پر فائز ہو اس کے باوجود نماز شب جیسی نعمت سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہے لہٰذا امام خود امامت کے منصب ومقام پر ہونے کے باوجوداورپورے انبیاء علہیم السلام نبوت کے مقام ومنزلت پر فائز ہونے کے علاوہ بندگی اور شب بیداری اور نماز شب میں مشغول رہتے تھے لہٰذا تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود کبھی نمازشب کی انجام دہی میں کوتاہی اور سستی نہیں کرتے تھے لہٰذا نماز شب کا ترک کرنا حقیقت میں انبیاء اوصیاء اور محتہدین کی سیرت ترک کرنے کی مترادف ہے کہ ان کی سیرت قلب اور روح انسان کے نابود شدہ قدرت اور صلاحیتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

لہٰذا ایک مسلمان کے لئے قرآن وسنت پر اعتقاد رکھنے والے انبیاء اوصاء کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے ضروری ہے کہ وہ اس پرلطف روح پرورمعنوی نعمت کے حصوں میں کوتا ہی اور سستی نہ کرے کیونکہ بہت امراض اور بیماریوں کے لئے باعث شفابھی یہی نماز شب ہے لہٰذا یہ چیزیںاہمیت اور فضیلت کے لئے بہترین دلیل ہے ۔

٤۔نماز شب پر خدا کا فرشتوں سے ناز

قدیم ایام میں غلام اور بندہ گی کنیزولونڈی کا سلسلہ معاشرے میں عروج پر تھا کہ جس کی حالات اور احکام کو انبیاء اور ائمہ کے بعد فقہا اور نائبین عام نے اپنے دور میں فقہی مباحث میں شعراء وآدباء نے آدبی کتابوں میں ، محققین نے اپنی تحقیقاتی کتابوں میں غلام وکنیز کے موضوع پر مستقل اور مفصل بحث کئی ہے لیکن عصر حاضر میں حقوق بشر اور متمدن معاشر کے قیام کا نعرہ عروج پر ہے لہٰذا شاید اس وقت دنیا میں کسی گوشے میں قدیم زمانے کی کیفیت وکمیت پر غلام وکنیز کا سلسلہ نہ پایا جائے اسی لئے آج کل فقہی مباحث میں بھی وہ بحث متروک ہوچکی ہے۔

لیکن آج کل کے مفکرین عبد وعبید کا سلسلہ معاشرے میں نہ ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایک باشعور انسان کڑی نظر کے ساتھ مطالعہ کرے تو اسے معلوم ہوجائےگا کہ عبدو عبید کا سلسلہ اس زمانے کی بہ نسبت اس دورحاضر میں زیادہ عروج پر ہے اگر چہ کیفیت وکمیت میں ضرور فرق ہے کہ قدیم زمانے میں ایک شخص دوسرے کا غلام وکنیز ہوا کرتا تھا لیکن اس دور میں تمام انسان مادیات اور خواہشات کے غلام بن چکے ہیں لہٰذا قدیم زمانے کی غلامی دور حاضر کی غلامی سے بہترہے کیونکہ قدیم زمانے

۵۳

میں اس کا مالک اور مولیٰ بھی ایک انسان تھا جب کہ ہمارے دور میں ہمارا مولیٰ اور مالک پیسہ اور دیگر مادیات بن گئے ہیں کہ یہ انسان کے لیے بہت خطرناک مسئلہ ہے کیونکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان فقط خدا کا بندہ ہے نہ مادیات اور دیگر لوازمات کا چونکہ انسان کے علاوہ باقی ساری چیزیں انسان ہی کےلئے خلق کئی گئی ہیں اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا :

''ان العبد اذا تخلی بسیده فی جوف اللیل المظلم وناجاه آشبت الله النور فی قبله ثم یقول جلّ جلاله الملائکة یا ملائکتی النظروا الی عبدی فقد تخلی فی جوف اللیل المظلم والبا طلون لاهون والغافلون نیام الشهدوا انی قد غفرت له ۔

جب کوئی بندہ اپنے آقا کو نصف شب کے وقت کہ جس وقت ہرطرف تاریک ہی تاریک ہے پکارتا ہے اور راز ونیاز کیا کرتا ہے تو خدا وند اس کے دل کو نور سے منور کردیتا ہے اور پھر فرشتوں سے کہتا ہے کہ اے میرے سچے ماننے والے فرشتو! میرے اس بندے کی طرف دیکھو جو رات کی تاریکی میں میری عبادت میں مشغول ہیں حالانکہ مجھے نہ ماننے والے لوگ کھیل وکود میں مصروف اور میرے ماننے والے غافل خواب غفلت میں غرق ہیں لہٰذا تم گواہ رہو کہ میں اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیا۔

تحلیل وتفسیر:

اس حدیث میں کئی مطالب توضیح طلب ہیں ایک یہ ہے کہ خدا فرشتوں سے اپنے بند کے کردارپر فخر کررہا ہے کہ جس کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر بندہ اور آقا کے درمیان گفتگو ہوتی ہے تو آقا کی نظر میں بندہ کے کردار وگفتار کے حوالے سے تین حالتیں قابل تصور ہیں:

١) بندہ کے کردار سے مولا خوش ہوجاتا ہے

٢)مولی اس کے کردار وگفتار سے ناراض ہوجاتا ہے ۔

٣)مولیٰ کو اس کے کردار وگفتار سے نہ خوشی ہوتی نہ ناراضگی ۔

پیغمبر اکرم )ص( نے اس حدیث میں غلام کے اس کردار کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جس سے آقا خوش ہوجاتا ہے مثلا ایک ایسا کام جو انسان کی نظر میں انجام دینا مثکل ہو لیکن خدا کی نظر میں اسے انجام دینا امستحب ہو اسے انجام دینے سے مولا خو ش ہوجاتا ہے جیسے نماز شب جس کو انجام دینے سے خدا فرشتوں کے سامنے ناز اور فخر کرتا ہے جب کہ فرشتے کائنات کی خلقت سے لیکر قیامت تک اللہ کے تابع کل ہیں ۔

۵۴

دوسرا مطلب جو قابل دقت اور توضیح طلب ہے وہ یہ ہے کہ خدا فرشتوں کو اس شخص کے گناہوں کی معافی پر گواہ بنایا ہے جس کا لازمہ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسکی کیا وجہ ہے ؟ شاید اس کی علت یہ ہوکہ خدا کی نظر میں امین ترین مخلوق فرشتے ہیںلہٰذا اس نے وحی کو ہمیشہ جبرئیل کے ذریعہ انبیاء تک پہنچا دیا کیونکہ فرشتے عمل کے حوالے سے کبھی غفلت وفراموشی کاشکار اور اپنی خواہشات کے تابع ہونے کا احتمال نہیں ہے لہٰذا خدا نے اس مسئلہ پر فرشتوں کو گواہ بنایا تاکہ اپنے بندوں کو زیادہ سے زیادہ اطمینان دلاسکے پس اس روایت سے بخوبی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فرشتوں پر ناز کرنے کا سبب نماز شب کی آدائیگی ہے اورخدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے ۔

٥۔نماز شب پڑھنے والا فرشتوں کاامام

''قال رسول الله من رزق صلوة اللیل من عبد او امة قام لله عزوجل مخلصا فتوضیاوضوئً سابغاً وصلی الله عزوجل بنیة صادقة وقلب سیلم وبدن خاشع وعین دامعة جعل الله تبارک وتعالی سبعة صفوف من الملائیة فی کل صف مالایحصی عدد هم الا الله تبارک تعالی احد طرفی فی صف باالمشرق والاخر بالمغرب قال فاذا فرغ کتب له بعد دهم درجات ''(١)

اگر کسی (مرد یا عورت ) غلام یا کنیز کو نماز شب انجام دینے کی توفیق حاصل ہو اور وہ خدا کی خاطر اخلاص کے ساتھ نیند سے اٹھ کر وضو کرے پھر سچی نیت، اطمان قلب بدن میں خضوع وخشوع اور اشک بار انکھوں کے ساتھ نمازشب انجام دے تو خدا وند تبارک وتعالی اس کے پیچھے فرشتوں کی سات صفوں کومقرر فرماتا

____________________

(١)امالی صدوق ص ٢٣٠.

۵۵

ہے کہ ان صفوں میں سے ہر ایک صف کاایک سرا مشرق اور دوسرا سرا مغرب تک پھیلا ہوا ہوگا کہ جس کی تعداد سوائے خدا کے کوئی اور شمار نہیں کرسکتا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جب وہ نماز سے فارغ ہوجائے توخدا ان فرشتوں کی تعداد کے مطابق اس کے درجات میں اضافہ فرماتا ہے

تحلیل وتفسیر حدیث :

اسلام میں امام جماعت کا منصب بہت ہی سنگین اور باارزش منصب ہے کہ جس پر فائز ہونے کی خاطر برسوں سال تز کیہ نفس کرنا اور دینی مسائل اور معارف اسلامی حاصل ہونے کی خاطر ہزاروں زحمات اور مشقتیںاٹھا نے اور خواہشات نفسانیہ کے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے پھر اس مقام کا لائق ہوجاتا ہے۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے خواہشات نفسانی اور تمیلات سے جنگ کرنے کو جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے جب کہ میدان کا رزار میں جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرنے کو جہاد اصغر سے تعبیر کیا ہے لہٰذا کوئی شخص ان مراحل کو طے کرے تو امام جماعت کے منصب کا لائق ہوسکتا ہے کیونکہ امام جماعت کے شرائط میں سے اہم ترین شرط عدالت ہے اور عدالت ان مراحل کے طے کئے بغیر ناممکن ہے کہ یہی اس منصب کی اہمیت کو ثابت کرنے میں کافی ہے اگر چہ آج کل زمانے کے بدلنے سے امام جماعت کے منصب کو ایک معمولی منصب سمجھ کر ہر کس وناکس اس کے شرئط کو نظر انداز کرکے اس عظیم منصب پرقابض نظر آتا ہے یہاں تک کہ بعض جگہوں پر سفارش کے ذریعہ امام جماعت معین ہو جاتا ہے

اور دوسری طرف بہت دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں امام جماعت جیسا عظیم مقام پر فائز ہونے والے افراد کو ذلت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اس کی عظمت اسلام میں کسی سے مخفی نہیں ہے شاید اسکی دو وجہ ہوسکتی ہے

۵۶

١) ذاتی دشمنی کی بناء پر اس سے نفرت کی جاتی ہے یعنی امام جماعت عدالت اور ایمانداری سے اپنی ذمہ داری انجام دیتا ہے لیکن کچھ منفعت پر ست افراد اپنا الہ کار بنانا چاہتے تھے جن کے کہنے میں نہ آنے پر اسے برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں اور بعض غلط باتیں اسے منسوب کرتے ہیں کیونکہ امام جما عت ان کے منافع اور خواہشات کے منافی ہے۔

٢) دوسری وجہ شاید یہ ہو کہ خود امام جماعت میں عیب ہے یعنی امام جماعت تندکیہ نفس کے مراحل کو طے اور خواہشات نفسانیہ کے میدان میں کامیابی حاصل کئے بغیر اس منصب پرفائز ہے حقیقت میںوہ خدا کی نظر میں اس منصب کے لائق نہیں ہے اس کے باوجود سفارش اور اثروروسوخ کے ذریعہ اس منصب پر قابض ہوجاتا ہے نتیجہ آیات اور احادیث بتانے کے باوجود لوگوں پر اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ آیات واحادیث کے آثر ہونے میں بیان کرنے والے کا تذکیہ نفس کے مراحل کو طے کرنا شرط ہے جب کہ اس میں یہ شرط نہیں پائی جاتی اسی لئے لوگوں کی نظر میں روز بروز حقیر اور ذلیل ہوتا ہے وگرنہ خدا وندمتعال صاف لفظوں میں فرماچکا ہے :

( ان تنصر الله ینصرکم فاذ کرونی اذکرکم )

تب بھی توپیغمبر اکرم )ص(نے اس حدیث میں فرشتوں کے امام جماعت کی شرائط کا تذکرہ فرمایا جس کے مطابق ہر نماز شب پڑھنے والے شخص کے پیچھے فرشتے اقتداء نہیں کرتے بلکہ فرشتوں کی اقتداء کرنے کے لیے امام جماعت میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔

١) اخلاص کے ساتھ نیند سے جاگنا چنانچہ اس شرط کی طرف یوں اشارہ فرمایا کہ''قام ﷲ عزوجل مخلصا .''

٢) کامل وضوء کے ساتھ ہو یعنی عام عادی وضو نہ ہو بلکہ ایسا وضو ہوکہ شرائط صحت کے علاوہ شرائط کمالیہ پربھی مشتمل ہو اور کسی بھی نقص وعیب سے خالی ہو چنانچہ اس شرط کی طرف یوں اشارہ فرمایا:فتوضا وضوء سابقا

٣) نماز کو سچی نیت کے ساتھ شروع کیا جانا چاہے یعنی دینوی فوائد اور آخروی نتائج کی خاطر اور خوف ورجاء کی خاطر نہ ہو بلکہ فقط خداوند کریم کو لائق عبادت سمجھ کر شروع کرنا چاہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا :وصلی لله عزوجل بنیة صادقة .چنانچہ یہ اولیاء اللہ اور ائمہؑ اطہار کی سیرت بھی ہے جضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔

٤)ا ضطراب قلبی اور وسوسہ شیطانی دل میں نہ ہو کہ جسکی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے ۔و قلب سلیم

۵۷

٥) بدن میں خشوع وخضوع ہو یعنی پورے اعضاء وجوارح کی حالت اس غلام کی طرح ہو جو اپنے مولی کے حقیقی تابع ہے اور اس کے حضور میں نہایت ادب واحترام اور انکساری کے ساتھ حاضر ہوتا ہے اس مطلب کی طرف یوں اشارہ فرمایا وبدن خاشع۔

٦) آنکھیں اشکبار ہوںکہ جس کی طرف یوں اشارہ فرمایا:وعین دامعة

ان تمام شرائط کے ساتھ نماز شب انجام دینے والا خوش نصیب شخص فرشتوں کا امام بن سکتا ہے اور خدا کی نظر میں وہ شخص محبوب تریں افراد میں شمار کیا جاتا ہے جو اس خاکی بشر کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے اور نماز شب کی اہمیت پر بہترین دلیل بھی ۔

٦۔نماز شب باعث خوشنودی خداوند

پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا :

''وثلاثة یحبهم الله ویضحک الهیم ویستبشر بهم الذی اذا انکشف فیئة قاتل وراتهم نفسه لله عزوجل فاما یقتل واما ینصره الله تعالیٰ ویکفیه فیقول انظر واالی عبدی کیف صبرلی نفسه والذی له امراةحسنا ء وفراش لین حسن فیقوم من الیل فیذر شهوته فیذ کرنی ویناجینی ولوشاء رقد والذی اذا کان فی سفر معه رکب فسهروا وسعتبوا ثم هجعوا فقام من السحر فی السراء والضرائ ''(١)

پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا کہ خدا وند تین قسم کے لوگوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے خوش ہوجاتا ہے جن میں سے پہلا وہ شخص ہے جو راہ خدا میں اللہ کے دوشمنوں سے اس طرح جنگ کرتے کہ یا جام شہادت نوش کرتا ہے یا خدا کی طرف سے فتح ونصرت آجاتی اور وہ زندہ رہے جاتا ہے اس وقت خدا فرماتا ہے تم میرے اس بندہ کی طرف دیکھیں کہ اس نے میری خاطر کس قدر صبر اور استقامت سے کام لیا۔

(دوسرا) وہ شخص ہے کہ جس کی خوبصورت بیوی ہو اور آرام سکون کے ساتھ نرم وگرم بستر سے لطف انداز ہو اور جس طرح کا آرام وسکون کرنا چاہتے توکرسکتا تھا لیکن ان لذتوں اور خواہشات نفس کو چھوڑکر رات کے وقت اللہ کی عبادت کی خاطر اٹھ جاتے اور اللہ سے رازونیاز کرے ۔

(تیسرا )وہ شخص ہے جو مسافر ہے لیکن اپنے ہم سفر ساتھیوں کو رات کی

____________________

(١)الدرامنثور ج٢/ ٣٨٣

۵۸

عدم خوابی اور تھکاوٹوں کی شدت کے موقع پر ان کو سلاتے اور خود (عشق الٰہی )میں اس طرح غرق ہوجاتا ہے کہ خوشی اورسختی کی حالت میں بھی سحر کے وقت اٹھاکر خدا کی عبادت کو فراموش نہیں کرتا ۔

تحلیل وتفسیر :

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے انسانوں کے تین طریقوں سے خداوند کے خوش ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے لہٰذاخلا صہ کے طورپر کہا جائے تو حدیث مجاہدین کی عظمت کو بیان کرتی ہے اورمجاہدین کے دو قسمیں ہیں

۱)خارجی دوشمنوں سے لڑنے والا مجاہد ۔

٢)اور اندارونی دشمنوں سے لڑنے والا مجاہد۔

دونوںقسموں کی تعریف قرآن وسنت میں آچکی ہے اور بیرونی دوشمنوں سے لڑنے والا مجاہدین کے خود اپنی جگہ دوقسمیں ہے

١) امام اور نبی ؐکے اذن سے ان کے ہمراہ دوشمنوں سے مقابلہ کرنے والے جس کو فقہی اصطلاح میں مجاہدکہا جاتا ہے اور اس جنگ کو جہاد کہلاتے ہیں ہے کہ جس کا مصداق عصر غیبت میں منتفی ہے کیونکہ اکثر مجتہدین اور فقہاء عصر غیبت میں جہاد ابتدائی واجب نہ ہونے کے قائل ہیں لہٰذا عصرغیبت میں ایسے مجاہد کے مصداق بھی منتفی ہیں۔

٢) دوسرا مجاہد وہ شخص ہے جو عصر غیبت میں اسلام اور مسلمین اور اسلامی سرزمین اور ناموس کی خاطر جنگ کرتے جس جنگ کو قرآن وسنت اور فقہی اصطلاح میں وفاع کہا جاتا ہے کہ اس کے واجب ہونے کے بارے میں مجتہدین اور صاحب نظر حضرات کے مابین کوئی اختلاف نہیںہے اور جہاد کی طرح یہ بھی واجب ہے اور لڑنے والے کو مجاہد کہا جاتاہے ۔

٣)تیسرا مجاہد وہ شخص ہے جو داخلی دشمنوں سے لڑتے اس داخلی جنگ کو جہاد اکبر کہا جاتا ہے اور لڑے والے کو مجاہد جبکہ اسلحہ لے کر بیرونی دشمنوں سے جنگ کرنے کو جہاد اصغر سے تعبیر گیا ہے یعنی خواہشات اور نفس امارہ سے لڑنے والے افراد کو پیغمبر اکرم )ص( نے مجاہدین اکبر فرمایا ہے کیونکہ اگر انسان کو داخلی دشمنوں پرفتح حاصل ہو تو مولیٰ حقیقی کی پرستش اور اطاعت آسانی سے کرسکتا ہے لہٰذا اگر تزکیہ نفس کرچکا ہو یعنی داخلی دشمنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہو تو راحت کی نیند چھوڑکر اور سفر کے سختیوں کو برداشت کرکے بھی نماز شب کو فراموش نہیںکرتا کہ اس حدیث میں ایسے ہی مجاہدین کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے افراد کے ساتھ خدا روز قیامت پیار ومحبت اور خندہ پیشانی سے پیش آئے گا اور یہ حقیقت میں خدا کی طرف سے بہت بڑا مقام اور عظیم مرتبہ ہے لہٰذا نماز شب کو فراموش نہ کیجئے کیونکہ نماز شب میں دنیوی اور ابدی زندگی کی کامیابیاں مضمر ہے اور انجام دینے والے مجاہد ہیں جو اس خاکی زندگی میں بڑااعزازہے۔

۵۹

''قال الامام علی ثلاثة یضحک الله الهیم یوم القیامة رجل یکون علی فراشیه وهویحبها فیتوضاء ویدخل المسجد فیصلی ویناجی ربه'' (١)

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا روز قیامت تین قسم کے انسانوں کے ساتھ خندہ پشیمانی سے پیش آئے گا کہ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جواپنی بیوی کے ساتھ بستر پر محبت کی لذت سے لطف اندوز ہو لیکن آپس کے پیارے ومحبت کو عشق الٰہی پر فدا کرتے ہوئے وضو کرتے اور مسجد میں جاکر اپنے پروردگار کے ساتھ راز ونیاز میں مشغول ہوجاتے اور نماز شب ادا کرتے ۔

توضح وتفسیر روایت :

آج دنیا میں اگر کوئی شخص نمازی ہو اور احکام اسلام کا پابند ہو تو بعض غیر اسلامی ذہانیت کے حامل کچھ افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص بہت بے وقوف ہے کیونکہ یہ مادی لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کررکھا ہے چونکہ انکی نظر میں اسلامی رسم ورواج اور احکام کے مطابق عمل کرنا اپنے آپ کو نعمتوں سے محروم کرکے بدبختی سے دوچار کرنے اور زندان میں بند کر نے کا مترادف ہے جب کہ حقیقت میں یہ ان کا اسلام سے ناآ شنا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ تعلیمات اسلامی کبھی بھی مادی لذت سے محروم رہنے اوردیگر مادیات سے استفادہ نہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے لہٰذا اس قسم کی باتوں کا اسلام کی طرف نسبت دینا ناانصافی ہے کیونکہ نظام

____________________

(١) الاختصاص ص ١٨٨

۶۰

اسلام انسان کو انسانی زندگی گزارنے کی ترغیب اور حیوانوں کی طرح زندگی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں حیوانوں کے زمرے میں زندگی گذارنے والے افراد نظام اسلام کو سلب آزادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اس روایت میں ایسی خام خیالی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، اگر کسی وقت مادی لذت اور معنوی اور روحی لذتوں کا آپس میں ٹکراؤہو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ عشق انسانی عشق خدا کے ساتھ ٹکراجائے تو عشق الٰہی کو عشق انسانی پر مقدم کیا جائے کہ جس کے نتیجہ میں خدا وند ابدی زندگی میں خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے گا لہٰذا نمازی اور اسلام کے اصولوں کی پابندرہنے والے کسی مادی لذت سے محروم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اگر کوئی شخص آدھا گھنٹہ کے ارام کو چھوڑدے اور نماز شب انجام دے تو خدا قیامت کے دن اس کے بدلے میں دائمی لذت عطا فرمائے گا لہٰذا اس مختصر وقت کی مادی لذت کا قیامت کی دائمی لذت کے حصول کی خاطر ترک کرنا لذت مادی سے محروم نہیں ہے ۔

٧۔نماز شب پڑھنے کا ثواب

انسان روز مرہ زندگی میں جو کام انجام دیتا ہے وہ دوطرح کا ہے۔

١۔ نیک ۔

٢۔ بد ۔

نیک عمل کو قرآن وسنت میں عمل صالح سے یادکیا گیا ہے جب کہ بداوربرُے اعمال کو غیر صالح اور گناہ سے یاد کیا گیا ہے مندرجہ زیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل صالح کا نتیجہ ثواب ہے اورہر بُرے اعمال کا نتیجہ عقاب ہے لیکن ثواب اور عقاب کا استحقاق اور کمیت وکیفیت کے بارے میں محققین اور مجتہدین کے مابین اختلاف نظر ہے علم اصول اور علم کلام میں تفصیلی بحث کی گئی ہیں اس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے ۔

ثواب وعقاب کے بارے میں تین نظرئیے ہیں:

١) ثواب وعقاب اور جزاء وعذاب جعل شرعی ہے۔

٢)عقاب وثواب جعل عقلائی ہے ۔

٣) دونوں عقلی ہے یہ بحث مفصل اور مشکل ترین مباحث میںسے ایک ہے۔

۶۱

جس کا اس مختصر کتاب میں نقدوبررسی کی گنجائش نہیں ہے فقط اشارہ کے طور پر ثواب وعقاب کے بارے میں استاد محترم حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کا نظریہ قابل توجہ ہے کہ آپ نے درس اصول کے خارج میں فرمایا کہ ثواب وعقاب کا استحقاق عقلی ہے لیکن ثواب وعقاب کا اہدٰی اور اعطا امر شرعی ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو انجام دے تو عقلا عمل کرنے والا مستحق ثواب ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی برے کام کا مرتکب ہو تو عقاب وسزا کا عقلا مستحق ہے لیکن ان کا اہدی کرنا اور دنیا امر شرعی ہے یعنی اگر مولٰی دنیا چاہے تو دے سکتا ہے نہ دنیا چاہے تو مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہے لہٰذا ثواب وعقاب کا مطالبہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا ہے پس ثواب وعقاب ہر نیک اور بد عمل کا نتیجہ ہے کہ جس کی طرف حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے :

''مامن عمل حسن یعمله العبد الا وله ثواب فی القرآن الاصلوة اللیل فان الله لم یبین ثوابها لعظیم خطرها عنده فقال تتجا فاجنوبهم عن المضاجع فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرة اعین جزاء بما کا نو یکسبون ''(٣)

یعنی ہر نیک کام جیسے بندہ انجام دیتا ہے تو اس کا ثواب بھی قرآن میں مقرر کیا گیا ہے مگر نماز شب کا ثواب اتنازیادہ ہے کہ جس کی وجہ سے قرآن میں اس کا ثواب مقرر نہیں ہوا ہے (لہٰذا )خدا نے (نماز شب کے بارے میں ) فرمایا کہ( تتجافا جنوبهم عن المضاجع ) یعنی نماز شب پرھنے والے اپنے پہلوں کو رات کے وقت بستروں سے دور کیا کرتے ہیں اور اس طرح فرمایا :( فلا تعلم نفس ما اخفی من قرة عین بما کا نو ایکسبون ) یعنی اگر کوئی شخص نماز شب انجام دے تو اس کا مقام اور ثواب مخفی ہے اسے وہ نہیں جانتے ۔

____________________

(٣)بحارج ٨ ص٣٨٢

۶۲

توضیح وتفسیر

توضیح اس حدیث شریف میں فرمایا کہ ہر نیک کام کرنے کے نتیجہ میں ثواب ہے اور ان کا تذکرہ بھی قرآن میں کیا گیا ہے صرف نماز شب کے ثواب کو قرآن میں مقرر نہیں کیا گیا ہے اس کی علت یہ ہے کہ اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ جیسے خالق نے پردہ راز میں رکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب تمام مشکلات کو دور کرنے کا ذریعہ کامیابی کا بہترین وسیلہ اور سعادت دنیا وآخرت کے لیے مفید ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہم سب اس نعمت سے مالامال ہوں پس مذکورہ آیات وروایات سے نماز شب کی اہمیت اور عظمت قرآن وسنت کی روشنی میں واضح ہوگئی ۔

ج۔نماز شب اور چہاردہ معصومین )ع( کی سیرت

الف: پیغمبر اکرم )ص( کی سیرت

مذہب تشیع کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انبیاء وائمہ علیہم السلام کے علاوہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) جیسی ہستی کو بھی معصوم مانتے ہیں کہ جو ہماری کتابوں میں چہاردہ معصومین کی عنوان سے مشہورہیں جن میں سے پہلی ہستی حضرت پیغمبر اکرم )ص(ہے اور پیغمبر اکرم )ص( اور باقی انسانوں کے مابین کچھ احکام الہیہ میں فرق ہے یعنی خدا کی طرف سے کچھ احکام پیغمبر اکرم )ص( پر واجب ہے جبکہ یہی احکام دوسرے انسانوں کے لئے مستحب کی شکل میں بیان ہوئے ہیں جیسے نماز شب پس اسی مختصر تشریح سے بخوبی یہ علم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم )ص(کی سیرت میں نماز شب کا کیا نقش واثر تھا لہٰذا پیغمبر اکرم کی سیرت طیبہ پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کو نماز شب ہمیشہ انجام دینا ہوگا کیونکہ آنحضرت بطور واجب ہمیشہ انجام دیتے تھے

ب۔حضرت علی کی سیرت

چہاردہ معصومین میں سے دوسری ہستی حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں اگر ہم نماز شب کے بارےے میں علی کی سیرت جاننا چاہے تو علی کے ذرین جملات سے آگاہ ہونا صروری ہے آپ نے فرمایا جب پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا نماز شب نورہے تو میں نے اس جملہ کے سننے کے بعد کبھی بھی نماز شب کو ترک نہیں کیا اس وقت ابن کویٰ نے آپ سے پوچھا یاعلی کیا آپ نے لیلۃ الھریر کو بھی نہیں چھوڑی ؟ جی ہاں.

۶۳

توضیح :

لیلۃ الہریر سے مراد جنگ صفین کی راتوں میں سے ایک رات ہے کہ جس رات امرالمومنین کے لشکر نے دشمنوں سے مقابلہ کیا اور خود حضرت علی نے دشمنوں کے پانچ سو تئیس (٥٢٣) افراد کو واصل جہنم کیا اس فضا اورماحول میں بھی حضرت علی نے نماز شب کو ترک نہیں فرمایا(١)

یہی نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کی بہترین دلیل ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود قرآن وسنت کی حفاظت کی خاطر بہتر (٧٥) جنگہوں میں شرکت کی اور ہر وقت اصحاب سے تاکید کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ہماری کامیابی صرف واجبات کی ادائیگی میں نہیں ہے بلکہ نماز شب جیسے نافلہ میں پوشیدہ ہے اسی لئے آپ سے منقول ہے کہ ایک دن ایک گروہ حضرت علی کے پیچھے پیچھے جارہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ماننے والے ہیں آپ نے فرمایا تو پھر کیوں ہمارے ماننے والوں کی علامات تم میں دیکھائی نہیں دیتی۔

تو انہوں نے پوچھا آپ کے ماننے والوںکی علامت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ان کے چہرے کثرت عبادت سے زرد اور بدن کثرت عبادت کی وجہ سے کمزور ،زبان ہمیشہ ذکر الہی کے نتیجہ میں خشک اور ان پر ہمیشہ خوف الہی غالب آنا ہمارے پیروکاروں کی علامتیں ہیں کہ جو تم میں نہیں پائی جاتی ،(۲)

پس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت علی کی سیرت نماز شب کے بارے میں وہی ہے جو حضور اکرم اور باقی انبیاء علیہم السلام کی تھی

____________________

(١)کتاب صفات الشیعہ

(۲)بحارالانوار ج ٢١

۶۴

ج۔حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت

چہاردہ معصومین )ع( میںسے تیسری ہستی حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) ہے کہ جو عبادات اور تہجد میں ایسی سیرت کے مالک ہے کہ جس کے پیغمبر اکرم )ص( اورعلی علیہ السلام تھے لہٰذا جب آپ محراب عبادت میں مشغول عبادت ہوتی تھی تو فرشتے دولت سراء میں حاضر ہوجاتے تھے اور آپ کے گھریلوکاموں کو انجام دیتے تھے کہ اس مطلب کو حضور اکرم کے مخلص صحابی جناب ابوذر غفاری نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم نے مجھے حضرت علی کو بلانے کے لئے بھیجا تو میں نے دیکھا کہ علی اور زہرا (سلام اللہ علیہا ) مصلی پر عبادت الہٰی میں مشغول ہیں اور چکی بغیر کسی پسینے والے کے حرکت کر ر ہی تھی میں نے اس منظرکو پیغمبر ؐکی خدمت میں عرض کیا تو پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا اے ابوذر تعجب نہ کیجئے کیونکہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ) کی اتنی عظمت اور شرافت خدا کی نظر میں ہے کہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھریلو ذمہ داریوں میں سے ایک چکی چلانا بھی ہے لیکن جب زہرا (سلام اللہ علیہا ) خدا کی عبادت میںمصروف ہوجاتی ہے تو خدا ان کی مدد کےلئے فرشتے مأمور فرما تے ہیں لہٰذا چکی کو چلانے والے فرشتے ہیں نیز امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے فرمایا جب ہماری والدہئ گرامی شب جمعہ کو شب بیداری کرتی تھی تو نماز شب انجام دینے کے بعد جب صبح نزدیک ہوجاتی تو مؤمنین کے حق میں دعائیں کرتی تھی لیکن ہمارے حق میں نہیں کرتی تھی میں نے پوچھا ہمارے حق میں دعا کیوں نہیں فرماتیں تو آپ نے فرمایا پہلے ہمسائے کے حق میں دعا کرنا چاہیئے پھر خاندان پس حضرات زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر چلنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کو چاہے کہ نماز شب نہ بھولے کیونکہ نماز شب ہی میں تمام سعادتیں پوشیدہ ہے ۔

۶۵

د۔حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی سیرت

جس طرح جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا )کی معرفت وعظمت سے ابھی تک اہل اسلام بخوبی آگاہ نہیں ہوسکے اسی طرح جناب زینب کبری (سلام اللہ علیہا ) کی انقلاب ساز شخصیت سے آشنا ئی نہیں رکھتے لہٰذا بی بی زینب (سلام اللہ علیہا ) زندگی کے ہر میدان میں انسانیت کے لئے ایک کامل نمونہ عمل ہے یہی وجہ ہے کہ آپ (سلام اللہ علیہا ) ہمیشہ اپنی والدہ گرامی کی طرح رات کی تاریکی میں محراب عبادت میںخدا سے راز ونیاز میں مشغول رہتی تھی۔

اس امر کا انکشاف تاریخ کر تی ہے کہ کربلا ء کوفہ اور شام میں درپیش عظیم مصائب کے باوجود بی بی تلاوت قرآن اور نماز شب انجام دیتی تھی اور ساتھ اپنے اہل بیت اور رشتہ داروں کو بھی اس کی تلقین فرماتی تھی اسی طرح نماز شب کا انجام دینا نہ صرف بی بی زہرا (سلام اللہ علیہا اور زینب (سلام اللہ علیہا ) کی سیرت ہے بلکہ زہرا (سلام اللہ علیہا کی خادمہ فضہ کی بھی سیرت تھی۔

پس خواتین اگر جناب زہرا (سلام اللہ علیہا ) جناب زینب (سلام اللہ علیہا ) اور فضہ خادمہ کی سیرت پر چلنا چاہتی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ نماز شب فراموش نہ کریں ۔

ز۔نماز شب اور باقی ائمہ )ع(کی سیرت

آئمہ علیہم السلام میں سے دوسرا اور چہاردہ معصومین میںسے چوتھی ہستی حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہے اگر آپ کی سیرت کا مطالعہ نماز شب کے حوالے سے کیا جائے تو وہی سیرت ہے جو پیغمبر اکرم )ص( کی سیرت طبیہ تھی لہٰذا آپ ہمیشہ رات کے آخری وقت میں نماز شب انجام دیتے تھے اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس پر آشوب فضاء اور ماحول میں اسلام اور قرآن اور خاندان رسالت کے نام زندہ رہنا نا ممکن تھا لیکن آپ کی عبادت اور شب بیداری کے نتیجہ میں قرآن واسلام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی حقانیت کو بھی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے نیز حضرت امام حسین علیہ السلام کی پوری زندگی عبادت الہی اور قرآن وسنت کی حفاظت میں گزری۔

۶۶

لہٰذا کہا جاتاہے کہ آپ کی سیرت طیبہ میں اہم ترین سیرت نماز شب ہے آپ رات کو خدا سے راز ونیاز کرنے کے اتنے عاشق تھے کہ جب کربلاء میں پہنچے تو آپ اپنے بھائی جناب عباس سے تاسوعا( نویں) محرم کے دن کہنے لگے کہ آپ دشمنوں سے ایک رات کی مہلت لیجئے تاکہ آخری شب قرآن کی تلاوت اور عبادت الہی میں گزار سکوں کیونکہ خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز شب اور تلاوت قرآن سے کتنی محبت ہے نیز امام سجاد علیہ السلام کی سیرت بھی عبادت الہی کے میدان میں کسی سے مخفی نہیں ہے کیونکہ آپ کو دوست ودشمن دونوں سیدالساجدین اور زین العاہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے لہٰذا آپ کی پوری زندگی یزید (لعنۃ اللہ علیہ) کی سختیوں کے باوجود سجدے اور شب بیداری میں گذاری چنانچہ اس کا اندازہ ہم ان سے منقول ادعیہ جو صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے کرسکتے ہیں یہ آپ کی شب بیداری کا نتیجہ تھا کہ جس سے دشمنوں کو ناکام ہونا پڑا اسی لئے آپ کی شب بیداری اور عبادت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے :

''وکان علی ابن الحسین یقول العفو تلاثماة مرة فی الوترفی السحر ۔''

امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا یہ معمول تھا کہ آپ ہمیشہ وتر کے قنوت میں سحر کے وقت تین سو مرتبہ العفو کا ذکر کہا کرتے تھے۔

لہٰذا ہر سختی ومشکل کے موقع پر کام آنے والا واحد ذریعہ نماز شب ہے جو تمام انبیاء اور ائمہ کی تعلیمات سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس عظیم وسیلہ سے مددلی ہے اور دوسروں کو اس کی دعوت دی ہے اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت کا اندازہ ان سے منقول روایات سے بخوبی کرسکتے ہیں نیز امام موسی کاظم باب الحوائج علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام امام حسن العسکری علیہ السلام اور امام زمان علیہ السلام ان تمام حضرات کی سیرت میں بھی نماز شب واضح طور پر نظر آتی ہے کہ جو ہر سختی کے لئے کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

۶۷

د۔علماء کی سیرت اور نماز شب

علم ومعنویت کے میدان میں ہماری ناکامی کی دووجہ ہوسکتی ہیں:

١) قرآنی تعلیمات اور چہاردہ معصومین کی سیرت کو اپنی روز مرہ زندگی کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دینا۔

٢) بزرگ علمائے دین حضرات کی سیرتوں پر نہ چلنا جس سے انسان اخلاقی اور اصول وفروع کے مسائل سے بے خبر رہ جاتا ہے لہٰذا اگر انسان ان کی سیرت پر نہ چلے تو دنیوی زندگی میں ناکام اور شقاوت سے ہمکنار اوراخروی زندگی میں بد بختی اور نابودی کے علاوہ کچھ نہیں پا سکتا لہٰذا نماز شب کے بارے میں علماء اور مجتہدین کی سیرت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ تہجد گزار حضرات کے لئے اطمنان قلب اور تشویق کا باعث بنے کیونکہ مجتہدین، عصر غیبت میں ائمہ علیہم السلام کے نائب اور حجت خدا ہیں تب ہی تو قرآن میں فرمایا:

''انما یخشی الله من عباده العلمائ ۔''

اور ائمہ علیہم السلام نے فرمایا:

''العلماء امنا العلماء ورثة الانبیاء ۔''

الف )نماز شب اورامام خمنی کی سیرت :

دور حاضر کے مجتہدین میں سے ایک آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی ہے جنہوں نے اسلام کے پرچم کو بیسویں صدی کے اواخر میں بلند کرکے مذہب تشیع کے اس نظرئیے کی ایک بار پھر تجدید کردی کہ علمائے ربانی ہی ائمہ علیہم السلام کے حقیقی وارث اور نائب ہیں اور انہیں کی پیروی، چاہے دنیوی امور میں ہو یا دینی تمام میں لازم ہے ان کی زندگی آنحضرت ؐاور ائمہ اطہار کی سیرت کے مطابق تھی یہی وجہ ہے کہ وہ تمام انسانوں میں ایک بڑے مقا م پر فائز ہوئے اور دنیا ان کے عظیم کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور دنیاء کے اہل علم حضرات کو چاہئے کہ وہ ان کہ اسلامی اورانقلابی افکار کو ہمیشہ اپنے لئے مشعل راہ بنائیں وہ عالم باالزمان تھے اسی لیئے انہوں نے معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اور شرق وغرب کے طاغوت کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے رکھ دیا یہ تمام طاقت اور مدد اسلام کے انسان ساز عبادی پہلوںسے کما حقہ فیض اٹھانے کی وجہ سے حاصل ہوئی چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فرعون ایران کے سپاہی آپ کوگرفتار کرکے تہران لے جارہے تھے

۶۸

تو انہوں نے مامورین سے نماز شب انجام دینے کی اجازت مانگی اسی طرح جب وہ ایک روز بیمار ہوئے تو ہسپتال میں مرض کی حالت میں بھی نماز شب کو قضا نہ ہونے دیا.تیسرا موقع وہ ہے کہ جب امام خمینیؒ نجف اشرف سے کویت جانے پر مجبورہوئے توسفر کے باوجود انھوں نے نمازشب انجام دی اسی طرح اوربھی متعد دموارد ا ن کی حالات زندگی میں ملتے ہیں اسی لئے آج اکیسویں صدی کی دنیا حیران ہے کہ ایک عمررسیدہ ناتواں انسان نے اڈھائی ہزار سالہ شہنشا ہیت کے بت کو اس طرح سر نگون کر کے رکھ دیا اس کی وجہ کیا تھی؟جبکہ وہ کسی خاص سیاسی ترتیب گاہ کے ترتیب یا فتہ نہ تھے اورنہ ہی کسی سیاسی گھرانے میں پرورشںپائی تھی۔اس کا راز نماز شب جیسی انسان ساز عبادت اور اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوناہے اسی لیے انہوں نے اس دنیا میںاپنے جانے سے پہلے اس فکرکو چھوڑا کہ اسلام کانظام ہی فقط دنیاء کے قوانین پرحاکم ہے اورکسی شرق وغرب کے قوانین کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ وہ عوام پرحکومت کرلے.

(ب) شہیدمطہری کی سیرت

چنانچہ آپ جانتے ہیںکہ شریعت اسلام میںجام شہادت نوش کرنے کی فضیلت اوراہمیت کیاہے جام شہادت نوش کرنے کی توفیق ہرانسان کونہیںملتی تب ہی تو خداوندنے فرمایا(بل احیاء عند ربھم یرزقون) لہٰذا جام شہادت نوش کرنے کیلےئ کچھ خاص اسباب در کار ہیں شہید مطہری کو بار گاہ ایزدی میں سجدہ زیر ہونے کی توفیق حاصل ہوئی تھی اس لیے شہادت نصیب ہوئی شہید ہونے کا سبب ان کی نماز شب اور خدا سے راز ونیاز اوردیگرمستحبات کو انجام دنیا تھا کہ جس کوپابندی کے ساتھ انجام دینے کا سلسلہ طالب علمی کے زمانہ ہی سے شروع کررکھا تھاچنانچہ اس مطلب کو ان کے ساتھیوں میں سے کچھ نے یوں نقل کیا ہے کہ شہید مطہری مدرسہ میں نماز شب کے سختی سے پابند تھے اور ہمیں بھی تہّجد انجام دینے کی نصیحت کرتے تھے لیکن ہم شیطان کے فریب اور دھوکے کی وجہ سے بہانے کیا کرتے تھے جیساکہ کہاایک دن کسی دوست کو نماز شب انجام دینے کی نصیحت فرمائی لیکن انہوں نے کہا مدرسہ کاپانی میرے لیے مضرہے لہٰذا میںوضوء نہیں کرسکتا کیونکہ مدرسہ کاپانی نمکین ہے جومیری آنکھ کے لیے نقصان دہ ہے.شہیدمطہری نے دوست کے اس عذر کے پیش نظر آدھی رات کے وقت مدرسہ سے دورایک نالہ بہتا تھااس سے پانی لے آئے تاکہ ان کادوست نمازشب جیسی نعمت سے محروم نہ رہے۔

۶۹

اسی طرح شہیدکے بارے میںرہبر نے نقل کیا کہ شہیدمطہری نماز شب کے بے حدپابند تھے یہی وجہ ہے کہ آج کل محققین پریشان نظرآتے ہیںکہ مطہری کے افکار کیوںاس قدرمعاشرے میںزیادہ مئوثر ہیں؟جبکہ ان کے نظریہ دوسرے محققین کے نظریات سے ذیادہ مستدل نہیں ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نماز شب اورشب بیداری کے ساتھ نظریات کو جمع کیئے ہوئے تھے اس کے نتیجہ میں معاشرے پران کے افکارذیادہ مؤثر ہیں.

(ج) نماز شب اورعلاّمہ طباطبائی کی سیرت:

دنیاکاہردانشمند جانتاہے کہ علاّمہ طبا طبایئ دینی اورفلسفی مسائل میں اکیسویں صدی کے تمام محققین سے آگے تھے چنانچہ شہیدمطہری نے علاّمہ طباطبائی کے بارے میں یوں فرمایا علاّمہ طباطبائی کی شخصیت اوران کے عمیق نظریات کولوگ مزیدایک صدی کے بعد سمجھ سکیںگے کہ جس کی تائیدالمیزان جیسی تفسیرقرآن کے مطالعہ سے ہوتی ہے کہ اتنی توفیق ہمّت اورفہم وادراک کسی عام انسان کوحاصل ہونا محال عادی ہے۔

اسی لیئے سوال کیا جاتا ہے کیوں اتنی مالی مجبوری ہونے کے باوجودکوئی اورپشت پناہ نہ ہونے کے علاوہ علم کے سمندراوربے بہاگوہرآج حوزہ علمیہ قم اوردیگر جہاںکے گوشے میں علاّمہ طباطبائی کے نام سے منّورہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ علوم دینی کے حصول کی خاطر نجف اشرف تشریف لے گےئ تو کھبی کہبار مرحوم عارف زمان قاضی کی زیارت کو جاتے تھے انہوں نے ان کے حوالے دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن قاضی نے مجھ سے فرمایا:

.اے طباطبائی دنیاچاہتے ہویاآخرت؟اگر آخرت کے خواہاںہو تو نماز شب انجام دو کیونکہ آخرت کی زندگی نمازشب میں مخفی ہے اس بات نے مجھ پراتنا اثر کیاکہ نجف سے ایران آنے تک شب وروز قاضی کی مجلس میں جاتاتھا تاکہ ایسے مؤثرنصائح سے زیادہ متفید ہوسکوں اس وقعہ میں علاّمہ نے صریحاً نہیں کہا کہ میں ایران واپس آنے تک ہمیشہ ان کی نصیحت کی وجہ سے پابندی کے ساتھ نماز شب انجام دیتا رہا ہوںلیکن اشارتاً مطلب روشن ہے لہذا آپ کی تہجدّاور تقویٰ کانتیجہ ہے کہ آج ان کی عملی تالئیفات پر حوزے کے تمام دانشمدناز کرتے ہو ئے نظرآتے اور ان کے تربیت یافتہ شاگرد علم تقویٰ میں دوسروں سے آگے نظر آتے ہیںپس توفیق اور ہمّت کا عظیم سر چشمہ نماز شب ہے کہ جس سے ہمیں کھبی فراموش نہیں کرناچاہےئ.

۷۰

(د) نمازشب اور شہید قدّوسی کی سیرت

شہیدقدّوسی مستحبّات کی انجام دہی اورمکروہات کو ترکرنے میں خاصہ پابندتھے.وہ نمازشب کی اہمیت کے اس قدر قائل تھے کہ مدارس دینیہ طلاّب اور علمائے کرام کے لیئے نمازشب کوپابندی کے ساتھ انجام دینا لازم سمجھتے تھے یعنی اگر کویئ طالب علم نماز شب انجام دینے میںکوتاہی کرے توان کی نظر میںطالب علم شمار نہیں ہوتا تھا اسی طرح بہت سی علماء اور مجتہدین کی سیرت نماز شب اوررات کو خداسے رازونیاز کرناہی رہی لہٰذااگر خلاصہ کہا جائے تویہ نتیجہ نکلتا ہے جتنے بھی مجتہدین گزرے ہیں یا اس وقت زندہ ہیں ان تمام حضرات کی زندگی نمازشب میںخلاصہ ہو جاتا ہے اور محترم اساتذہئ کرام مرحوم آیۃ اﷲ العظمیٰ بروجردی کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آقای بروجردی نے کہا مرحوم آیۃاﷲ محمدباقرآیۃاﷲمیرزا آیۃاﷲقوچانی وغیرہ نماز شب کے قنوت میں قیام کی حالت میں دُعائے ابوحمزہ ثمالی پڑھاکرتے تھے۔

(ر)نماز شب اور مرحو م شیخ حسن مہدی آبادی کی سیرت:

ہمارے استاد محترم مؤ سس مدارس دینیہ و مراکز علمیہ محسن ملت مرحوم شیخ مہدی آبادی کی سیرت ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے کیونکہ آپ ہمیشہ طلباء اور علماء سے تہجد کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ پابند رہتے تھے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بلتستان جیسے پسماندہ علاقہ میں علوم آل محمد کے شمع جلائے اور بیسیوں مدارس سیکڑوں دینیات سینٹر ز مساجد امام بارگاہیں اور دینی مراکز قائم کر کے مذہب اہل البیت ؑ کی ترویج کا ایسا وسیلہ فراہم کیا جو رہتی دنیا تک جاری رہے گا اللہ تعالیٰ ان کو تہجد گذاروں کے ساتھ محشور فرمائیں۔

۷۱

دوسری فصل

نمازشب کے فوائد

جب کسی فعل کے نتائج اور فوائدکے بارے میںگفتگوہوتی ہے تو ہر انسان کے ذہن میںفوراًیہ تصور پیداہوتا ہے کہ کیا چیز ہے کہ جس کے خاطرانسان ہرقسم کی زحمات کوبرداشت کرتاہے تاکہ اس فائدہ اورنتیجہ سے محروم نہ رہے لہٰذاضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے فائدہ کی حقیقت اورنتیجے کاخاکہ ذہن میںڈالیں تاکہ ہمیں اپنے کاموں میں زیادہ مطمئن ہوفائدہ اور نتیجہ کی دواصطلاح ہیں:

١)اصطلاح فقہی۔

٢)اصلاح عوامی وعرفی ۔

اصطلاح فقہی میںفائدہ اس چیزکو کہا جاتا ہے جوفعل کے مقدار سے ذیادہ ہو جیسے ایک شخص کسی کے ہاں مزدوری کرتاہے تواس کی اجرت کام کے گھنٹوں کی مقدارسے زیادہ ہو تواس وقت فائدہ کہا جاتا ہے لہذا اگر کوئی شخص کسی کے ہاں کام کرتاہو لیکن اجرت کی مقدارگھنٹوںکی مقدار سے کم ہوتواس کونقصان اورخسارہ کہاجاتا ہے.اسی طرح اگرکسی چیزکی اُجرت وقت کے مقدارکے برابرہو تواس وقت فائدہ اورنقصان دونوںتعبیراستعمال نہں ہوتے.

لیکن عرف اورعوامی اصطلاح میں فعل کے نتیجے کو فائدہ کہا جاتاہے چاہے وہ نتیجہ فعل کے مقدار سے کم ہویازیادہ ہویابرابرہواسی لیے عوامی اصطلاح میں فائدہ کا مفہوم فقہی اصطلاح سے زیادہ وسیع ہے اور ہماراموردبحث نمازشب کے فوائدکواصطلاح عرف میں بیان کرنامقصدہے کہ جس کوبیان کرنے سے عاشقین الٰہی کواطمینان حاصل ہواورفائدے کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو ، لہٰذااس مختصرکتاب میں نماز شب کے فوائدکے اقسام کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے.

نماز شب کے اہم فائدے تین طرح کے ہیں:

۷۲

١)دنیامیںنمازشب کے آثاراورفوائد۔

٢)نمازشب کے فوائدبرزخ میں۔

٣)نمازشب کے فوائداورنتائج آخرت میں۔

البتہ ان تین قسموں کوبعض علماء اورمحققین نے دوقسموں میں تقسیم کیئے ہیں:

نمازشب کے مادی فوائدیعنی دینوی فوائد کومادی کہا جاتا ہے اور اخروی فوائد۔

لہٰذااس تقسیم کے بنا پرعالم برزخ اورعالم آخرت سے مربوط فوائد کو معنوی کہاجاتا ہے۔لیکن وہ فوائدجودینوی اورمادی ہیںان کی خود متعددقسمیں ہیں۔

(١)نمازشب باعث صحت

اگرآپ نمازشب پڑھیں گے تو نماز شب آپ کی تندرستی اورصحت بدن کا باعث بنتا ہے کہ دنیا میںتندرستی اورصحت اتنااہم اوردوررس موضوع ہے جس کو ہرانسان شخصی اوراجتماعی طورپر سرمایہ اورنعمت سمجھتا ہے۔نیزدنیا کے ہرنظام خواہ اسلامی ہویاغیر اسلامی اسے ضروری اورمحبوب قرار دیتاہے لہٰذا اگرہم کڑی نظر سے دیکھیںاوردقت کریںتومعلوم ہوتا ہے کہ دنیاکے کسی گوشے میںایسی کوئی حکومت اورملک نہیں ہے کہ جس میںاس معاشرے کے صحت اور تندرستی کہ خاطر کوئی پروگرام اورشعبہ مقررنہ کیا گیا ہولہٰذاہرحکومت اورنظام کی کوشش یہی رہی ہے کہ معاشرہ ہر قسم کے امراض اور بیماریوںسے پاک ہواورا مراض سے روک تھام کی خاطر ایک ماہر شخص کو وزیر صحت کے نام سے مقررکیا جاتا ہے اور وزیر تعلیم کی کوشش اور جدو جہد بھی یہی رہی ہے کہ سائنس اور علم الطب میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ معاشرہ کے امراض اور بیماریوں کو صحیح طریقے سے ٹھیک کرسکیں لہٰذا ہر گورنمنٹ اور حکومت اپنی درآمدات کے حساب سے سب سے زیادہ رقم تندرستی کے لوازمات کو فراہم اور مہلک امراض سے تحفظ کرنے کی خاطر مقرر کرتی ہے تاکہ تندرستی اور صحت یابی سے معاشرہ محروم نہ رہے ۔

اس طرح ہر حکومت اور نظام انسان کی صحت اور تندرستی کو بحال رکھنے کی خاطر کھیلوں اور دیگر مفید تفریحی پروگرام کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے تاکہ معاشرہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت سے مالامال ہو ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں تمام موضوعات سے اہم موضوع صحت اور تندرستی کا موضوع ہے لہٰذا اس موضوع میں کامیاب ہونے کی خاطرہر انسان ہزاروں زحمات اور تکالیف برداشت کرتا ہے اور کروڑوں روپیہ امراض سے بچنے اور تندرست رہنے کے لئے خرچ کرتا ہے چونکہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت دنیا میں کمیاب ہے لیکن نظام اسلام اور باقی نظاموں میں صحت کے حوالے سے ایک فرق ہے وہ فرق یہ ہے

۷۳

کہ غیر اسلامی نظاموں میں صرف مادی صحت اور تندرستی مورد نظر ہے لیکن اسلامی نظام کی نگاہ انسان کے دونوں پہلؤں کی طرف ہے یعنی روح اور بدن دونوں کی تندرستی اور صحت یابی مورد نظر ہے صحت کے اصولوں کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جس کی رعایت کرنے سے انسان روحی اور جسمی تندرستی سے مالامال ہوسکتا ہے لہٰذا فقہ میں مستقل ایک بحث ہے کہ اگر کوئی شخص مریض ہو تو کیا علاج کروانا واجب ہے یا نہیں کہ اس مسئلہ میں مذاہب خمسہ کے آپس میں نظریات مختلف ہیں۔

١۔امام احمد نے اس مسئلہ کے بارے میں کہا ہے کہ علاج رخصۃٌ و ترکہ درجۃٌ اعلیٰ۔ یعنی علاج کرنا جائز ہے لیکن نہ کرنا بہتر ہے ۔

٢۔ شافعی نے کہاہے کہ التداوی افضل من ترکہ یعنی علاج کرنا نہ کرنے سے بہتر ہے۔

٣۔ ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ التداوی مؤاکد یعنی علاج کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

٤۔مالک نے کہا ہے کہ التداوی یستوی فعلہ و ترکہ یعنی علاج کرنا اور نہ کرنا مساوی ہے۔

٥۔ امامیہ کانظر یہ ہے کہ علاج کرنا واجب ہے۔(١)

لہٰذاعلاج کے بارے میں جتنی روایات امام رضاعلیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جن کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صحّت اورتندرستی کے موضوع کوکتنااہم اورضروری قراردیاگیاہے لہٰذاصحت اورتندرستی کوہمیشہ برقراررکھنے کے طریقوں میں سے ایک شب بیداری اورنمازشب کاانجام دیناہے کہ جس کے بارے میںپیغمبر اکرم)ص(نے فرمایا:

____________________

(١)المسائل الطیبہ استاد:محسنی دامت عزہ.

۷۴

''علیکم وصلوٰة اللّیل فانّهاسنّةنبیکم ودأب الصالحین فعلیکم و مطرة الداء عن اجسادکم ۔''(١)

آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نمازشب پڑھوکیونکہ نمازشب تمھارے نبی کی سیرت اورسنت ہے اورتم سے پہلے والے صالحین کی بھی سیرت ہے اورنمازشب پڑھنے سے تمھارے بدن کی بیماریاںدوراورٹھیک ہوجاتی ہے۔

تفسیروتحلیل روایت:

دنیامیںانسان کی عادت ہے کہ جب کوئی شخص کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے توفوراًکسی ڈاکٹرسے مراجعہ کرتاہے تاکہ علاج کرسکے لیکن بسااوقات کچھ امراض ایسے ہیںکہ جن کاعلاج ڈاکٹروںکی قدرت اورتجربے سے خارج ہے لہٰذاان امراض کولاعلاج امراض سے تعبیرکرتے ہیںچنانچہ یہ مطلب تجربے اور مشاہدات میںآچکاہے یعنی بہت سارے بیمارافرادکوڈاکٹروںنے لاعلاج قراردیاہے لیکن قوانین اسلام اورنظام اسلامی نے تمام امراض کے لےئ علاج اور دوائیوںکی نشاندہی کی ہے جسے نمازشب،دعاء وصدقات اوردیگرکارخیرکوانجام دینا۔

لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوتاہے اگرانسان کے بدن پرکوئی مرض ہوجوڈاکٹروںکے نزدیک قابل علاج ہویاقابل علاج نہ ہو،نمازشب ہرایک

____________________

(١)علل الشرائع.

۷۵

بیماریوںکے علاج کاذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف یوںاشارہ فرمایا:نمازشب مطرۃ الداء عن اجسادکم یعنی نمازشب بدن سے امراض کے ٹھیک ہونے کاوسیلہ ہے لہٰذاآپ اگرصحّت بدن اورتندرستی جسمی کے جوا ہاں ہیں اور لاعلاج امراض کے علاج کوبغیرکسی خرچ اورزحمت کے کرناچاہتے ہیںتونمازشب پڑھیںکہ جس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے بدن کوتندرست اورنفسیاتی امراض کوٹھیک کرتی ہے اسی طرح دوسری روایت۔

مولیٰ امیرؑکایہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا:شب بیداری صحت یابی بدن اورتندرستی جسمی کاذریعہ ہے :

''قیام اللیل مصححة للبدن'' ( ١)

اگرچہ اس روایت میںنمازشب کوصریحاً باعث صحت اورتندرستی قرار نہیں دیابلکہ مطلق شب بیداری کے فوائدمیںسے ایک صحّت بدن قراردیاہے لیکن دوقرینوںسے معلوم ہوتاہے کہ قیام اللیل سے مراد نماز شب ہے. ایک قرینہ یہ ہے کہ اگر ہر قیام اللیل بدن کے تندرست اور صحت کا ذریعہ ہو تو نماز شب کے لئے قیام اللیل کرنا بطریق اولیٰ صحت اور تندرستی بدن کا ذریعہ ہے ۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دوسری روایت میں قیام اللیل کی وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد نماز شب ہے لہٰذا ان دونوں قرینوں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ

____________________

(١)۔کتاب الدعوات للراوندی ص٧٦.

۷۶

اس روایت میں قیالم اللیل سے مراد نماز شب ہے کہ جس کے فوائد دنیوی میں سے ایک فائدہ صحت بدن اور تندرستی ہے ۔

تیسری روایت:

امام المسلمین والمتقین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' قیام اللیل مصححة للبدن و مرضاة للرب عزوجلّ وتعرض للرحمة وتمسک باخلاق اللنبیین'' (١)

آپ نے فرمایا کہ شب بیداری صحت بدن اور تندرستی انسان کا ذریعہ اور خداوند تبارک وتعالیٰ کی رضایت حاصل ہونے ، رحمت پرورگار سے مالامال ہونے اور سارے انبیاء کے رفتار و کردار سے منسلک ہونے کا سبب ہے ۔

توضیح وتفسیر:

اس روایت میں مولائے کائنات امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب کے چار فوائد کا ذکر فرمایا.

١۔ نماز شب پڑھنے سے صحت ٹھیک اور تندرستی بحال ہوتی ہے کہ اس مطلب کی طرف تین روایات میں اشارہ فرمایا

٢۔دوسرا مطلب کہ نماز شب رضایت الٰہی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے

____________________

(١)۔ بحار الانوار ج ٨٧.

۷۷

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک آسان کام ہے کیونکہ پورے کائنات کے مخلوقات کی خلقت کا ہدف ہی رضایت الٰہی کو حاصل کرنا اور خدا کی بندگی کا شرف حاصل کرنا ہے لہٰذا رضایت خداوند حاصل کرنا بہت مشکل اور دشوار کام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس مشکل کام کو باآسانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو نماز شب انجام دے کیونکہ نماز شب رضایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا نماز شب کو نہ چھوڑیں تاکہ اس کے فوائد سے محروم نہ ہو.

٣۔تیسرا فائدہ :

جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے اچھے اور صالحین کی سیرت پر گامزن ہوتا ہے کیونکہ نماز شب سارے صالحین کی سیرت ہے لہٰذا دنیا میں ہر انسان اچھے اور نیک حضرات کی سیرت کو اپنانے کی کوشش میں ہوتا ہے اور ان کی سیرت پر چلنے کی خاطر ہر قسم کے حربے مادی ہو یا معنوی اور دیگر وسائل سے کمک لیتے ہیں تاکہ ان کی سیرت پر گامزن ہو لہٰذا ہر معاشرہ میں اگر کوئی شخص اس معاشرہ کے اصول و ضوابط کے پابند ہو امانتدار ہو اور دیگر ہر قسم کے عیب و نقص سے ظاہراً مبرّیٰ ہو تو دوسرے لوگ نہ صرف اس کو قابل احترام سمجھتے بلکہ اس کی سیرت کو اپنے لئے نمونہئ عمل قرار دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں

۷۸

لہٰذا نماز شب صالحین کی سیرت ہے کہ صالحین کے مصداق اتم انبیاء اور اوصیاء ہے پس نماز شب کا تیسرا فائدہ صالحین کی سیرت پر گامزن رہنا یعنی خود کو دوسروں اور آئندہ آنے والوں کے لئے نمونہئ عمل بنانا کہ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت اور مقام انسان کے لئے قابل تصور نہیں چنانچہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم)ص( نے اشارہ فرمایا:

'' علیکم قیام اللیل فإنّه دأب الصالحین فیکم وإنّ قیام اللیل قربة الیٰ اﷲ ومنهاة عن الاثم'' (٣)

یعنی تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ نماز شب نیکی کرنے والوں کی سیرت اور خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ اور گناہوں سے بچنے کا وسیلہ ہے نیز اسی مضمون کی روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوںنقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''علیکم بصلاة اللیل فإنّها سة نبیکم و دأب الصالحین و مطرة الدّاء عن اجسادکم ۔ ''

جس کا ترجمہ اور تفصیل پہلے گذر چکی ہے لہٰذا پہلی روایت کی تحلیل اور حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم)ص(نے اس روایت میں نماز شب کے فوائد میں سے تین فائدوں کی طرف اشارہ فرمایا :

١۔نماز شب صالحین کی سیرت پر گامزن ہونے کا وسیلہ ہے

٢۔ نماز شب خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے کہ خدا سے قریب ہونےکی

____________________

(٣) کنز العمال.

۷۹

چاہت ہر انسان کی فطرت میں مخفی ہے لیکن عوامل خارجی کی وجہ سے کبھی بظاہر یہ چاہت مردہ نظر آتی ہے لہٰذا صرف مسلمانوں کی چاہت سمجھا جاتا ہے لیکن خدا سے قریب ہونے سے مراد قرب مکانی اور زمانی نہیں ہے بلکہ معنوی مراد ہے کیونکہ خدا مکان و زمان کا خالق ہے لہٰذا خدا زمان و مکان سے بالاتر ہے یعنی خدا من جمیع الجہات مجرد محض ہے اور نماز شب پڑھنے والے حضرات کا رتبہ بلند ہوتاہے اور خدا کے نزدیک وہ عزیز ہے

٢۔نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ

دوسرا فائدہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے یعنی اگر نمازشب انجام دینگے تو خدا آپ کو نافرمانی سے نجات دیتا ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف خدا نے قرآن میں اشارہ فرمایا ہے :

( انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء والمنکر )

بیشک نماز ہی برائی اور نافرمانی سے نجات دیتی ہے کہ گناہ اور نافرمانی خدا اور انسان کے درمیان حجاب ہے کہ جس کی وجہ سے خالق حقیقی مخلوق سے دور اور مخلوق کو خالق حقیقی نظر نہیں آتا لہٰذا عبد اور مولا کے آپس کارابطہ ٹوٹ جانے کا سبب گناہ اور نافرمانی ہے لیکن اگر نماز شب انجام دی جائے تو یہ رابطہ دوبارہ بحال ہوجاتا ہے کیونکہ گناہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی زندگی کو تباہ کرتی ہے اور اس کی عمر میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے جبکہ گناہ سے پرہیز کرنے سے زندگی آباد اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح نفسیاتی امراض کو ٹھیک کرنے کا بھی ذریعہ ہے تب بھی تو معصوم نے ایک روحی طبیب کی حیثیت سے فرمایا :(ومطرۃ ا لد اء عن اجسادکم) یعنی نماز شب بیماریوں کو ٹھیک کرتی ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179