• ابتداء
  • پچھلا
  • 8 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6396 / ڈاؤنلوڈ: 3104
سائز سائز سائز
اجتھاد اور تقلید

اجتھاد اور تقلید

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اجتھاد اور تقلید

مصنف: شھید مرتضی مطھری

بسم الله الرحمن الرحیم

وما کان المومنون لینفردا کافة فلو لانفر من کل فرقة منهم طائفة لیفقهوا في الدین ولینذروا قومهم اذارجعوا الیهم لعلهم یحذرون

"تمام مومنوں کے لئے کوچ کرنا تو ممکن نہیں ہے مگر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کا علم حاصل کرے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرے‘ شاید وہ اس طرح ڈرنے لگیں۔"(توبہ‘ ۱۲۲)

اجتہاد کی تعریف

آج کل اجتہاد و تقلید کا مسئلہ موضوع سخن بنا ہوا ہے‘ آج بہت سے افراد یہ پوچھتے نظر آتے ہیں یا اپنے ذہن میں سوچتے ہیں کہ اسلام میں اجتہاد کی کیا حیثیت ہے؟ اسلام میں اس کا مآخذ کیا ہے؟ تقلید کیوں کی جاء؟ اجتہاد کے شرائط کیا ہیں؟ مجتہد کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ مقلد کے فرائض کیا ہیں؟

اجمالی طور پر اجتہاد کا مطلب دینی مسائل میں مہارت حاصل کرنا اور صاحب نظر ہونا ہے‘ لیکن ہم شیعوں کے نقطہ نظر سے دینی مسائل میں صاحب رائے ہونے کی دو صورتیں ہیں‘ جائز اور ناجائز۔ اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔

ناجائز اجتہاد

ہمارے نقطہ نظر سے ناجائز اجتہاد کا مطلب قانون سازی ہے یعنی مجتہد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے‘ اسے اصطلاح میں "اجتہاد بالرائے" کہتے ہیں۔ شیعی نقطہ نظر سے اس قسم کا اجتہاد منع ہے‘ لیکن اہل سنت اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اہل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجتہاد‘ اجتہاد کو جس سے مراد اجتہاد بالرائے ہے قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ہیں۔

اس اختلاف نظر کا سبب اہل سنت کا یہ نظریہ ہے کہ کتاب و سنت کے ذریعے بننے والے قوانین محدود ہیں‘ حالانکہ واقعات و حادثات لامحدود ہیں‘ لہٰذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ہے جس کے سہارے الٰہی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وہی ہے جسے ہم "اجتہاد بالرائے" کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ انہوں نے اس سلسلے میں رسول اکرم سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ہیں‘ من جملہ یہ کہ رسول خدا جس وقت معاذ بن جبل کویمن بھیج رہے تھے‘ ان سے دریافت فرمایا کہ تم وہاں کیسے فیصلے کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت نے فرمایا‘ اگر کتاب خدا میں تمہیں اس کا حکم نہ مل سکا؟ معاذ نے عرض کیا‘ رسول خدا کی سنت سے استفادہ کروں گا۔ حضرت نے فرمایا‘ اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ اجتہد رائی یعنی اپنی فکر‘ اپنی رائے‘ اپنے ذوق اور اپنے سلیقے سے کام لوں گا۔ کچھ اور حدیثیں بھی اس سلسلے میں ان لوگوں نے نقل کی ہیں۔

"اجتہاد بالرائے" کیا ہے؟ اور کس طرح انجام پانا چاہئے؟ اس سلسلے میں اہل سنت کے یہاں خاصا اختلاف ہے۔ شافعی کو اپنی مشہور و معروف کتاب "الرسالہ" میں جو علوم اصول فقہ میں لکھی گئی‘ پہلی کتاب ہے اور میں نے اسے پارلیمنٹ کی لائبریری میں دیکھا ہے‘ اس میں ایک باب "باب اجتہاد" کے نام سے بھی ہے‘ شافعی کو اس میں اس بات پر اصرار ہے کہ احادیث میں "اجتہاد" کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے صرف "قیاس" مراد ہے۔ قیاس کا مطلب اجمالی طور پر یہ ہے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے سامنے درپیش قضیہ میں ان ہی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں۔

لیکن بعض دوسرے سنی فقیہوں نے اجتہاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نہیں جانا ہے بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ہے۔ استحسان کا مطلب یہ ہے کہ مشابہ موارد کو مدنظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائزہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ہو‘ نیز ہمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں۔ اسی طرح "استصلاح" بھی ہے‘ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ایسے ہی "تاوّل" بھی ہے یعنی اگرچہ کسی دینی نص‘ کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ہے لیکن بعض وجوہات کے پیش نظر ہمیں نص کے مفہوم و مدلول کو نظرانداز کر کے اپنی "اجتہادی رائے" مقدم کرنے کا حق ہے۔ ان اصطلاحوں کے متعلق تفصیلی بحث و گفتگو کی ضرورت ہے اور اس طرح شیعہ سنی کی بحث بھی چھڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں یعنی نص کے مقابلے میں اجتہاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اور شاید سب سے اچھی کتاب "النص و الاجتہاد" ہے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے۔

شیعہ نقطہ نظر سے اس طرح کا اجتہاد ناجائز ہے‘ شیعوں اور ان کے آئمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیاد ہی یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی فکر و رائے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے درست نہیں ہے‘ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ ہر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ہے کتاب "وافی" میں باب البدع والمقائیس" کے بعد ایک باب ہے جس کا عنوان یہ ہے:

باب الرد الی الکتاب والسنة وانه لیس شئی من الحلال و الحرام وجمیع ماتحتاج الیه الناس الا وقد جاء فیه کتاب او سنة (کافی‘ جلد ۱‘ کتاب العلم‘ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ہر حلال و حرام اور عوام کی ضروریات قرآن و سنت میں موجود ہیں)

قیاس و اجتہاد کو قبول یا اسے رد کرنے کے متعلق دو جہتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہی جہت جسے میں نے بیان کیا کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سرچشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ہوئے کہیں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا حکم وحی کے ذریعے بیان نہیں ہوا ہے‘ اب یہ مجتہدوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم بیان کریں‘ دوسری جہت یہ ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل‘ مثلاً خبر واحد سے استفادہ کرتے ہیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ہے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ہے اسے طریقیت کی حیثیت دیں۔

شیعہ فقہ میں قیاس و اجتہاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نہیں ہے‘ پہلی جہت اس لئے معتبر نہیں ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کا حکم (چاہے کلی طور پر سہی) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ہو‘ دوسری جہت اس لئے باطل ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ہے اور یہ شرعی احکام میں بہت زیادہ خطا و لغزش سے دوچار ہوتے ہیں۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وہی پہلی جہت ہے اگرچہ اصولیوں کے یہاں دوسری جہت زیادہ مشہور ہوئی ہے۔

"اجتہاد" کا حق اہل سنت کے یہاں زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ سکا‘ شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں‘ کیونکہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رہے‘ خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف جائز سمجھتے ہیں اور ہر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رہے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا‘ شاید یہی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتہاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشہور مجتہدوں اور اماموں ابوحنیفہ‘ شافعی‘ مالک بن انس‘ احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لے جائیں اور انہیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پہلے (ساتویں صدی میں) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی۔

جائز اجتہاد

لفظ "اجتہاد" پانچویں صدی ہجری تک اسی طرح مخصوص معنی میں یعنی قیاس و اجتہاد بالرائے جو شیعہ نقطہ نظر سے ناجائز ہے استعمال ہوتا تھا۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں "باب الاجتہاد" اسے رد کرنے اور باطل و ناجائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے‘ جیسے شیخ طوسی کتاب "عدہ" میں لیکن آہستہ آہستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنی سے باہر آ گیا اور خود سنی علماء نے بھی جیسے ابن حاجب "مختصرالاصول" میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ہے اور مدتوں جامعة الازہر کے درسی نصاب میں شامل رہی ہے اور شاید آج بھی شامل ہو۔ ان سے پہلے غزالی نے اپنی مشہور کتاب "المستصفٰی" میں لفظ اجتہاد کو اجتہاد بالرائے کے اس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے جو کتاب و سنت کے مقابلے میں ہے‘ بلکہ انہوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عالم معنی میں استعمال کیا ہے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ استفراع الوسع فی طلب الحکم الشرعی اس تعریف کے مطابق اجتہاد کا مطلب‘ "معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعے شرعی احکام کے استنباط کی انتہائی کوشش کرنا ہے۔" اب رہی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ہیں؟ آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ہیں یا نہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔

اس وقت (پانچویں صدی) سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتہاد کے پہلے سے قائل تھے۔ یہ اجتہاد‘ جائز اجتہاد ہے‘ اگرچہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنی و مفہوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نہیں لینا چاہا اور اس کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ علماء بہت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجہتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے‘ مثلاً اہل سنت‘ اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے‘ جبکہ شیعہ اسے نہیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ہیں‘ لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکھ دیا۔ اہل سنت کہتے تھے شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ اجتہاد (قیاس)۔ شیعہ علماء نے کہا‘ شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ عقل۔ انہوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکھ دی۔

بہرکیف اجتہاد رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ہونے لگا یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مہارت ضروری ہے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ہیں۔ علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ہوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استخراج و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ہے‘ جیسے عربی ادب‘ منطق‘ تفسیر قرآن‘ حدیث‘ رجال حدیث‘ علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم۔ اب مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو ان تمام علوم میں مہارت رکھتا ہو۔

یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ شیعوں میں اجتہاد و مجتہد کا لفظ اس معنی میں سب سے پہلے علامہ حلی نے استعمال کیا ہے۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب "تہذیب الاصول" میں "باب القیاس" کے بعد "باب الاجتہاد" تحریر فرمایا ہے‘ وہاں انہوں نے اجتہاد اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ہے اور رائج ہے۔

پس شیعی نقطہ نظر سے وہ اجتہاد ناجائز ہے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اب چاہے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سرچشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ‘ لیکن جائز اجتہاد سے مراد فنی مہارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ہے۔

پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اجتہاد کیا چیز ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد جس معنی میں آج استعمال ہو رہا ہے‘ اس سے مراد صلاحیت اور فنی مہارت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کی تفسیر‘ آیتوں کے معانی‘ ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت‘ نیز معتبر و غیر معتبر حدیثوں میں تمیز دینے کی صلاحیت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صحیح عقلی اصولوں کی بنیاد پر حدیثوں کے آپسی ٹکراؤ کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ہو‘ مذہب کے اجمالی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ہو‘ خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر کرتے ہوئے ہیں‘ دنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق‘ تمرین‘ تجربہ اور ممارست ضروری ہے۔ ایک ماہر صنعت کار کی طرح اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ہے‘ اس میں مہارت و استعداد ہونی چاہئے۔ خاص طور سے حدیثوں میں بہت زیادہ السٹ پھیر اور جعل سازی ہوئی ہے‘ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط ملط ہیں‘ اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراہم ہونی چاہئیں کہ واقعاً اس میں اہلیت‘ قابلیت‘ صلاحیت اور فنی مہارت پیدا ہو جائے

شیعوں میں اخباریت کا رواج

میں یہاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں اجتہاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ہے اور وہ "اخباریت" کی تحریک ہے۔ اگر کچھ جید و دلیر علماء نہ ہوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سرکوب نہ کرتے تو نہیں معلوم آج ہماری کیا حالت ہوتی۔ دباستان اخباریت کی عمر چار صدی سے زیادہ نہیں ہے‘ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ہیں‘ جو بذات خود بہت ذہین تھے اور بہت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ہے۔ خود اخباریوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں جو عقل کی حجیت کی منکر ہو‘ قرآن کی حجیت و سندیت کی‘ یہ بہانہ بنا کر منکر ہو کہ قرآن صرف پیغمبر کے اہل بیت ۱ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری فقط اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ہے اور اجماع سنیوں کی بدعت ہے‘ لہٰذا ادلہ اربعہ یعنی قرآن‘ سنت‘ اجماع‘ عقل میں سے صرف سنت حجت ہے اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی "کافی"، "من لایحضرہ الفقیہ"، "تہذیب" اور "استبصار" میں بیان ہوئی ہیں‘ صحیح و معتبر بلکہ قطعی الصدور ہیں یعنی رسول خدا اور آئمہ طاہرین ۱ سے ان کا صادر ہونا یقینی ہے ان اصولوں کا پیرو اسکول چار سو سال پہلے موجود نہ تھا۔

شیخ طوسی نے اپنی کتاب "عدة الاصول" میں بعض قدیم علماء کو "مقلدہ" کے نام سے یاد کیا ہے اور ان پر نکتہ چینی کی ہے‘ تاہم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے انہیں مقلدہ اس لئے کہا ہے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے۔

بہرحال اخباریت کا اسکول‘ اجتہاد و تقلید کے دبستان کے خلاف ہے‘ جس صلاحیت‘ قابلیت اور فنی مہارت کے مجتہدین قائل ہیں اخباری اس کے منکر ہیں۔ وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ہیں‘ اس اسکول کا حکم ہے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ہے اور اس میں بھی کسی کو اجتہاد و اظہار نظر کا حق نہیں ہے‘ لہٰذا عوام پر فرض ہے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ہی کے مطابق عمل کریں‘ بیچ میں کسی عالم کو مجتہد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں۔

ملا امین استر آبادی نے جو اس دبستان کے بانی ہیں اور بذات خود ذہین‘ صاحِ مطالعہ اور جہان دیدہ تھے‘ انہوں نے "الفوائد المدینتہ" نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ہے‘ موصوف نے اس کتاب میں مجتہدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ہے‘ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوڑی کا زور صرف فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل (جیسے ریاضیات) میں حجت ہے‘ اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

بدقسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسی فلسفہ نے جنم لیا تھا‘ وہ لوگ علوم (سائنس) میں عقل کی حجیت کے منکر ہوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے‘ اب یہ نہیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کہاں سے حاصل کی‘ ان کی اپنی ایجاد ہے یا کسی سے سیکھا ہے؟

مجھے یاد ہے کہ ۱۹۴۳ ء کے موسم گرما میں بروجرد گیا ہوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ بروجرد ہی میں مقیم تھے‘ ابھی قسم تشریف نہیں لائے تھے۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی‘ آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ

"اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسی فلسفہ کی لہر کے زیراثر عمل میں آئی ہے۔"

یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی‘ جب آپ قم تشریف لائے اور آپ کے درس اصول میں "حجیت قطع" کا موضوع زیر بحث آیا‘ تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وہی بات فرمائیں گے‘ لیکن افسوس! انہوں نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انہوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نہیں آئی ہے اور بعید نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ حسی فکر مغرب سے مشرق تک پہنچی ہو‘ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت میں نے اس سلسلے میں ان سے سوال کیوں نہیں کیا۔

اخباریت کا مقابلہ

بہرصورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی‘ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرما تھا۔ خوش قسمتی سے وحید بہبہانی معرف بہ آقا "آل آقا" حضرات آپ ہی کی نسل سے ہیں آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

وحید بہبہانی کربلا میں تھے اس زمانے میں‘ ایک ماہر اخباری‘ صاحب "حدائق" بھی کربلا میں ساکن تھے‘ دونوں کا اپنا اپنا حلقہ درس تھا۔ وحید بہبہانی اجتہادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو۔ فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی۔ آخرکار وحید بہبہانی نے صاحب حدائق کو شکست دے دی۔ کہتے ہیں کاشف الغطا بحرالعلوم اور سید مہدی شہرستانی جیسے وحید بہبہانی کے جید شاگرد‘ پہلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے‘ بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔

البتہ صاحب حدائق‘ نرم مزاج اخباری تھے‘ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وہی ہے جو علامہ مجلسی کا مسلک تھا‘ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ہے۔ علاوہ برایں وہ بڑے مومن‘ خدا ترس اور متقی و پرہیزگار انسان تھے‘ باجودیکہ وحید بہبہانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے‘ لیکن وہ اس کے برعکس‘ کہتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے کہتے ہیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بہبہانی پڑھائیں۔

اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جدوجہد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم اصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا۔ کہتے ہیں‘ خود شیخ انصاری فرمایا کرتے تھے کہ اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو میرا اصول مان لیتا۔

اخباری اسکول اس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ہیں‘ لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہوئے اور تقریباً دو سو سال تک چھائے رہے ذہنوں سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ حدیث کے بغیر‘ قرآن کی تفسیر جائز نہیں سمجھتے۔ بہت سے اخلاقی و سماجی مسائل بکہ بعض فقہی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ہے‘ فی الحال ان کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔

ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ہوئی وہ اس کا عوام پسند پہلو ہے‘ کیونکہ وہ کہتے تھے ہم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہتے‘ ہم کلام معصوم ۱ کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں‘ ہمیں صرف "قال الباقر و قال الصادق" سے سروکار ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے معصوم ۱ کا کلام بیان کرتے ہیں۔

شیخ انصاری "فرائدالاصول" میں "برائت" و "احتیاط" کی بحث میں سید نعمت اللہ جزائری سےجو اخباری مسلک کے پیرو تھے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں:

"کیا کوئی صاحب عقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے کسی بندہ (یعنی کسی اخباری) کو حاضر کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ تم نے کس بنیاد پر عمل کیا؟ وہ جواب دے کہ میں نے معصومین ۱ کے حکم کے مطابق عمل کیا‘ جہاں کہیں معصوم ۱ کا فرمان مجھے نہیں ملا میں نے احتیاط کی‘ کیا ایسے شخص کو جہنم میں لے جایا جائے گا اور اس شخص کو بہشت میں جگہ دی جائے گی‘ جو کلام معصوم ۱ کو اہمیت نہیں دیتا تھا اور ہر حدیث کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھکرا دیتا تھا (یعنی اجتہادی دبستان کا پرو شخص)!! ہرگز نہیں۔"

مجتہدین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس قسم کی اطاعت و تسلیم‘ قول معصوم ۱ کی اطاعت اور ان کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نہیں ہے بلکہ جہالت کے آگے سر جھکانا ہے‘ اگر واقعاً یہ معلوم ہو جائے کہ معصوم ۱ نے فلاں بات کہی ہے تو ہم بھی اسے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں‘ لیکن آپ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم سنیں (اس کی سند اور معنی و مفہوم میں تحقیق کئے بغیر) جاہلوں کی طرح اسے قبول کر لیں۔

اب ہم یہاں چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں جس سے اخباریت کے جامہ طرز فکر اور اجتہادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا۔