دو طرز فکر کا ایک نمونہ
بہت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رہنے کا حکم دیا گیا ہے‘ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ۔ اس سلسلے کی ایک حدیث یہ ہے:
الفرق بین المومنین و المشرکین التلحی
"مومن و مشرک کا فرق‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ہے۔"
کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کہا ہے کہ تحت الحنک ہمیشہ گلے میں پڑا رہنا چاہئے‘ لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے باوجودیکہ اجتہاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اپنی کتاب "وافی" کے باب "الزی و التجمل" میں اس سلسلے میں ایک قسم کا اجتہاد کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں‘ قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رہتے تھے اور اس عمل کو "اقتعاط" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ہوں‘ چنانچہ یہ حدیث اس عملی و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل ( Symbol ) کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ہے‘ لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ہو چکا ہے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نہیں رہا ہے‘ آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ہے‘ کیونکہ اس صورت میں وہ "لباس شہرت" کی شکل اختیار کر لے گا اور لباس شہرت حرام ہے۔
یہاں اخباریت کا جمود کہتا ہے کہ حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ہوا ہے‘ لہٰذا اس کے بارے میں بحث و اجتہاد کرنا فضول ہے‘ لیکن اجتہادی فکر کہتی ہے ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے‘ ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شہرت سے پرہیز۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹے رہنا سب پر واجب تھا لیکن آج جبکہ یہ موضوع متنفی ہو چکا ہے۔ اب یہ مشرکوں کا سمبل نہیں رہا ہے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب کوئی شخص یہ عمل بجا لاتا ہے تو وہ لباس شہرت کا مصداق ہے اور حرام ہے۔ ایک نمونہ تھا‘ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔
وحید بہبہانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تواتر کی حد تک ثابت ہو گیا‘ اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آ کر چاند دیکھنے کی گواہی دی کہ مجھے یقین آ گیا۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا‘ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود تم نے چاند دیکھا نہیں جن کی عدالت مسلم ہے انہوں نے گواہی بھی نہیں دی‘ پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا؟ میں نے کہا خبر متواتر ہے اور تواتر سے مجھے یقین حاصل ہو گیا ہے۔ کہنے لگے کہ کس حدیث میں ہے کہ تواتر حجت ہے؟
وحید بہبہانی کا بیان ہے کہ
"اخباریوں میں اتناد جمود پایا جاتا ہے کہ اگر بالفرض کوئی مریض کسی امام کے پاس گیا ہو اور امام نے اسے ٹھنڈا پانی پینے کو کہا ہو تو اخباری‘ دنیا کے سارے مریضوں کو ٹھنڈا پانی پینے کا حکم دیں گے اور کہیں گے ہر مرض کا علاج ٹھنڈا پانی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ امام نے یہ حکم اس مریض کے مزاج اور اس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے دیا تھا نہ کہ تمام مریضوں کیلئے۔"
یہ بھی مشہور ہے کہ بعض اخباری میت کے کفن پر شہادتیں اس طرح لکھنے کا حکم دیتے تھے:
اسماعیل یشهد ان لا اله الا الله
"اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔"
وحدانیت کی گواہی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے؟ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق ۱ نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی۔
اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کہ اسماعیل کے کفن میں یہ عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا۔ اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ہوا ہے تو خود ان ہی کا نام کیوں نہ لکھا جائے؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں؟!! اخباری کہتے تھے یہ ساری باتیں اجتہاد اور عقل کا استعمال ہیں‘ ہم اہل تعبد و تسلیم ہیں‘ ہمیں صرف "قال الباقر و قال الصادق" سے مطلب ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ناجائز تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ ایک وہ تقلید ہے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ہے‘ یہ یقینا ناجائز ہے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ہے:
انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارهم مقتدون
"ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔"(زخرف‘ ۲۳)
ہم نے تقلید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ جائز و ناجائز۔ تو ناجائز تقلید ہے‘ مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجداد کے رسم و رواج کی یہی اندھی تقلید ہی نہیں ہے بلکہ عالم کی طرف جاہل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ہے‘ جائز و ناجائز۔
آج کل بعض ایسے افراد سے جو کسی مرجع تقلید کی تلاش میں ہیں‘ یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں‘ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ہے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولنا اور کھلوانا ہے‘ تقلید اگر سرسپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ہزاروں برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔
اس سلسلے میں ایک طویل حدیث ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
و اما من کان من الفقهاء صائنا لنفسه حافظا لدینه مخالفا علی هواه مطیعا لامر مولاه فللقوام ان یقلدوه
یہ حدیث تقلید و اجتہاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے اور شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے‘ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ہیں۔
یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ہے:
و منهم امیون لا یعلسون الکتاب الا امانی و ان هم الا یطنون
(بقرہ‘ ۷۸)
یہ آیت ان جاہل یہودی عوام کی مذمت کر رہی ہے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یہودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے:
"ان میں کچھ ایسے جاہل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور وہم و گمان کی پیروی کرتے تھے۔"
ناجائز تقلید اور امام صادق ۱
مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ہے:
"ایک شخص نے امام صادق ۱ سے عرض کیا کہ جاہل یہودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا اس میں ان کی کیا خطا ہے؟ اگر خطا ہے تو وہ یہودی علماء کی خطا ہے۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رہا ہے جو کچھ جانتے ہی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رہے تھے؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ہے تو پھر ہمارے عوام کی بھی مذمت کی جانی چاہئے جو ہمارے علماء کی تقلید کرتے ہیں‘ اگر یہودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نہیں کرنی چاہئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔"
حضرت نے فرمایا:
بین عوامنا و علمائنا وبین عوام الیهود و علمائهم فرق من جهة وتسویة من جهة: اما من حیث استووا فان الله قد ذم عوامنا بتقلیدهم علمائهم کما قد دم عوامهم و امامن حیث افترقوا فلا
"ہمارے عوام و علماء اور یہودی عوام و علماء میں ایک جہت سے فرق ہے اور ایک جہت سے ایک جیسے ہیں‘ ان کے ایک جیسے ہونے کی جہت میں خداوند عالم نے ہمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کے باعث مذمت کی ہے اور فرق ہونے کی جہت میں مذمت نہیں کی ہے۔"
اس شخص نے عرض کیا:
"فرزند رسول توضیح دیجئے۔"
حضرت نے فرمایا:
"یہودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں‘ رشوت لینے سے نہیں چوکتے‘ رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰہی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ہیں‘ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں‘ ذاتی حب و بغض کو الٰہی احکام میں شامل کرتے ہیں۔"
اس کے بعد حضرت نے فرمایا:
و اضطروا بمعارف قلوبهم الی ان من یفعل ما یفعلونه فهو فاسق لا یجوز ان یصدق علی الله ولا علی الوسائط بین الخلق وبین الله
"وہ اس فطری الہام کی روشنی میں جو خداوند عالم نے تکوینی طور پر ہر شخص کو عطا کیا ہے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کی زبان سے بیان ہونے والا خدا اور رسول ۱ کا قول نہیں ماننا چاہئے۔"
یہاں امام ۱ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہودی عوام اس مسئلہ سے واقف نہیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نہیں ہے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص واقف نہ ہو اس مسئلہ کی معرفت خداوند عالم نے ہر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور ہر شخص کی عقل اسے جانتی ہے۔
منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ہے:
قضایا قیاسها معها
جس شخص کا فلسفہ وجود‘ پاکی و طہارت اور ہویٰ و ہوس سے اجتناب ہے اگر وہ ہوا و ہوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ہو جائے تو ہر عقل یہی حکم کرتی ہے کہ اس کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں:
و کذلک عوام امتنا اذا عرفوا من فقهائهم الفسق الظاهر‘ والعصبیة الشدیدة‘ والتکالب علی حطام الدنیا و حرامها‘ و اهلاک من یتعصبون علنه و ان کان لاصلاح امره مستحقا‘ وبالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا له وان کان للاذلال و الا هانة مستحقا فمن قلک من عوامنا مثل هولا فهم
(احتجاجی طبرسی‘ جلد ۲‘ ص ۲۶۳‘ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری وہاں "بالترفق" کے بجائے "بالترفرف" آیا ہے)
"ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے‘ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقہاء میں بدکاری‘ شدید تعصب‘ مال و دنیا کی ہوس‘ اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری چاہے وہ ناصالح ہی کیوں نہ ہوں اپنے مخالفوں کی سرکوبی چاہے وہ احسان و نیکی کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رہیں تو وہ لوگ بھی یہودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔"
پس معلوم ہوا کہ جائز و ممدوح تقلید‘ خود سپردگی‘ آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالے کر دینا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولے رہنا اور ہوشیار رہنا ہے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے۔
علماء کی کریت اور عصمت کا جاہلانہ نظریہ
بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ گناہ کی تاثیر ہر شخص میں یکساں نہیں ہے‘ عام لوگوں پر گناہ اثرانداز ہوتا ہے اور ان کی عدالت و تقویٰ زائل کر دیتا ہے‘ لیکن علماء پر وہ کارگر ثابت نہیں ہوتا وہ ایک قسم کی "کُریت" اور ایک طرح کی عصمت کے مالک ہیں جو فرق آب قلیل و آب کثیر میں ہے (وہی فرق عوام اور علماء میں ہے) کہ اگر آب کثیر ایک کُر کے برابر ہو تو وہ نجاست کے مل جانے سے نجس نہیں ہوتا‘ نجاست اس پر اثرانداز نہیں ہوتی‘ جبکہ اسلام‘ کسی کے لئے کُریت و اعتصام کا قائل نہیں ہے‘ یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی۔ قرآن مجید کیوں کہتا ہے:
قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم
"اے پیغمبر! کہہ دو کہ اگر میں بھی گناہ کروں تو مجھے بھی یوم عظیم کا خوف ہے۔"
کیونکہ ارشاد ہوتا ہے:
لئن اشرکت لیحبطن عملک
"اگر آپ کے عمل میں شرک کا شائبہ آ جائے تو آپ کا عمل رائیگاں چلا جائے گا۔"
یہ سب ہمیں بتانے کے لئے‘ یہاں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہے کہ کسی کو کُریت و اعتصام حاصل نہیں ہے (کہ چاہے جتنا گناہ کرتے جائیں ان کی عدالت و تقویٰ پر حرف نہ آئے گا)۔
قرآن مجید میں موسیٰ و عبد صالح کی جو داستان بیان ہوئی ہے وہ بڑی عجیب داستان ہے‘ اس داستان سے ایک عظیم درس یہ ملتا ہے کہ تابع و پیرو صرف اسی وقت تک پیشوا و رہنما کی اطاعت اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر سکتا ہے‘ جب تک پیشوا قانون کی خلاف ورزی نہ کرے‘ اصول نہ توڑے‘ برائی کی طرف مائل نہ ہو۔ اگر پیشوا اصول و قوانین کے خلاف اقدام کرے تو یہاں خاموشی ہرگز جائز نہیں ہے‘ اگرچہ اس داستان میں عبد صالح کے اقدامات خود ان کی نظر میں‘ ایک وسیع تر افق پر نظر رکھنے اور موضوع کے باطنی پہلو کی جانب توجہ کرنے کے باعث اصول و قوانین کے خلاف نہ تھے‘ بلکہ فریضہ و ذمہ داری کے عین مطابق تھے‘ لیکن نکتہ یہ ہے کہ موسیٰ نے صبر کیوں نہیں کیا؟ اعتراض کیوں کر بیٹھے؟ باوجودیکہ وہ وعدہ کرتے تھے اور خود کو تلقین کرتے تھے کہ اعتراض نہیں کریں گے لیکن پھر بھی اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ موسیٰ کا کمزور پہلوان کا اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ موضوع کی حقیقت اور اس کے باطن سے ناواقفیت تھی‘ اگر انہیں حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اعتراض نہ کرتے اور وہ حقیقت کو جاننا بھی چاہ رہے تھے لیکن جب تک وہ ان اقدامات کو الٰہی اصول و قوانین کے برخلاف تصور کر رہے تھے‘ ان کا ایمان انہیں خاموش رہنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ اگر قیامت تک عبد صالح کے اقدامات جاری رہتے تو موسیٰ بھی اعتراض و تنقید سے باز نہ آتے‘ مگر یہ کہ حقیقت موضوع سے باخبر ہو جاتے۔
موسیٰ ان سے کہتے ہیں:
هل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا
"کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کی پیروی کروں تاکہ آپ مجھے تعلیم دیں۔"
عبد صالح کہتے ہیں:
لن تستطیع معی صبرا
"تم میری مصاحبت برداشت اور جو کچھ دیکھو گے اس کے متعلق خاموش نہیں رہ سکتے۔"
اس کے بعد خود ہی اس کی وجہ بتائے دیتے ہیں:
وکیف تصبر علی مالم تحط به خبرا؟
"جب تم کوئی (بظاہر) غلط کام ہوتا دیکھو گے اور اس کی حقیقت و راز سے بھی واقف نہ ہو گے تو کیسے خاموش رہ سکتے ہو؟"
موسیٰ نے کہا:
ستجد نی انشاء الله صابراً و لا اعصی لک امراً
"انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔"
موسیٰ نے یہ نہیں کہا کہ راز کا پتہ ہو یا نہ ہو میں صبر کروں گا‘ بلکہ صرف اتنا کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ صبر و تحمل مجھ میں پیدا ہو جائے‘ البتہ موسیٰ میں یہ تحمل اس وقت پیدا ہو گا جب وہ ان اقدامات کے راز سے واقف ہو جائیں گے۔
اس کے بعد عبد صالح نے موسیٰ سے مزید واضح اور پکا وعدہ لینا چاہا کہ راز معلوم ہو یا نہ ہو وہ اعتراض نہ کریں‘ یہاں تک کہ وقت آنے پر میں خود اس کی وضاحت کروں:
قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شئی حتی احدث لک منه ذکراً
"اگر میرے ساتھ آنا چاہتے ہو تو سب کچھ دیکھ بھی چپ رہنا ہو گا‘ بعد میں خود توضیح دوں گا۔"
یہاں اب اس کے بعد آیت میں یہ نہیں ہے کہ موسیٰ نے یہ شرط مان لی‘ آیت میں بس اتنا ہی ہے کہ اس کے بعد وہ لوگ چل پڑے اور ان کو سارے واقعات پیش آئے جنہیں آپ بارہا سن چکے ہیں۔
بہرحال میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ جاہل کا عالم کی تقلید کرنا سرسپردگی نہیں ہے‘ ناجائز تقلید وہی ہے جو سرسپردگی کی شکل میں ہو اور یہ صورت اختیار کر لے کہ
"جاہل کو عالم سے بحث کرنے کا حق نہیں‘ یہ باتیں ہماری سمجھ سے مافوق ہیں‘ شاید یہ سب کچھ شرعی ذمہ داریوں کا تقاضا ہو۔"
میں نے یہ داستان امام جعفر صادق علیہ السلام کی تائید و شاہد کے طور پر پیش کی ہے۔
جائز تقلید
امام جعفر صادق علیہ السلام ناجائز و مذموم تقلید کے متعلق وہ جملے (جنہیں میں نقل کر چکا ہوں) بیان کرنے کے بعد جائز و ممدوح تقلید‘ ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
فاما من کان من الفقهاء صائنا لنفسه حافظاً لدینه مخالفاً علیٰ هواه مطیعاً لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه
"اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو‘ شیطان کی دعوتیں اور آوازیں اس کے قدم ڈگمگا نہ سکتی ہوں‘ اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو‘ دین کا سودا نہ کرتا ہو (شاید مراد یہ ہو کہ عوام اور معاشرہ میں دین کی حفاظت و بقاء کا انتقام کرتا ہو) نفسانی خواہشات کا مخالف اور الٰہی احکام کا مطیع و فرمانبردار ہو تو عوام ایسے شخص کی تقلید کر سکتے ہیں۔"
البتہ یہ نکتہ واضح ہے کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت میں ایک عالم اور عام شخص کے درمیان فرق ہے‘ کیونکہ ہر شخص کی خواہش نفس‘ کچھ معین امور میں ہوتی ہے جوان کی خواہش نفس الگ ہے اور بوڑھے کی خواہش نفس الگ‘ ہر شخص جس منصب‘ جس طبقہ‘ جس سن میں ہو اسی کے مطابق خواہش نفس رکھتا ہے۔ ایک عالم دین کی نفس پرستی کا معیار یہ نہیں ہے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں؟ جوا کھیلتا ہے یا نہیں؟ نماز و روزہ ترک کرتا ہے یا نہیں؟ اس کی ہوا پرستی کا معیار‘ عہدہ و منصب کی خواہش‘ شہرت و محبوبیت سے لگاؤ‘ ہاتھ چموانے کی آرزو‘ اپنے آگے پیچھے لوگوں کے چلنے کی تمنا‘ اپنا اقتدار مضبوط بنانے کے لئے بیت المال کا استعمال‘ اپنے ساتھیوں‘ عزیز و اقرباء‘ خاص طور سے اپنے صاحبزادوں کو بیت المال وغیرہ میں خرد برد کی کھلی چھوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں۔
امام ۱ اس کے بعد فرماتے ہیں:
وهم بعض فقهاء الشیعة لاجمیعهم
"یہ اعلیٰ و ارفع اوصاف و فضائل صرف بعض شیعہ فقہاء میں پائے جا سکتے ہیں‘ تمام شیعہ فقہاء میں نہیں۔"
یہ حدیث اپنے آخری جملوں کے لحاظ سے مسئلہ اجتہاد و تقلید کی ایک دلیل ہے۔
پس معلوم ہوا کہ اجتہاد و تقلید کی دو دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔
میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟
ہماری فقہ کا ایک مسلم الثبوت مسئلہ یہ ہے کہ میت کی تقلید ابتداً جائز نہیں ہے‘ میت کی تقلید اگر جائز ہے تو صرف اس حد تک کہ جو شخص کسی مجتہد کی اس کی زندگی میں تقلید کر رہا تھا اس کی موت کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے‘ مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے بھی زندہ مجتہد کی اجازت ضروری ہے‘ مجھے اس مسئلے کی فقہی دلیلوں سے مطلب نہیں ہے‘ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بڑا ہی بنیادی نظریہ ہے‘ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد واضح ہو جائے۔
اس نظریہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے‘ نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رہیں‘ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ و ترقی آتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ہوں گی۔
ایسا نہیں ہے کہ قدیم زمانہ میں ہماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعے حل ہو چکی ہوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ہو‘ کلام تفسیر‘ فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ہزاروں معمے اور مشکلیں ہیں‘ بہت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ہیں اور بہت سی مشکلیں باقی ہیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں حل کریں اور تدریجی طور پر ہر موضوع میں مزید جامع اور بہتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلے کو آگے بڑھائیں‘ جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا‘ فقہ کو آگے بڑھایا‘ کلام کو آگے بڑھایا‘ یہ قافلہ رکنا نہیں چاہئے‘ پس زندہ مجتہدوں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ‘ اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلمان ہر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور انہیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نہیں ہے‘ لہٰذا ایسے زندہ فقیہوں اور زندہ افکار کی ضرورت ہے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں۔ اجتہاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ہے:
و اما الحوادث الواقعة فا رجعوا فیها الیٰ رواة احادیثنا
(احتجاج طبرسی‘ ج ۲۸۳ ( نئے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرو) "احادیثنا" کے بجائے "حدیثنا" ہے)
"حوادث واقعہ" یہی نئے مسائل ہیں جو ہر صدی میں‘ ہر دور میں اور ہر سال پیش آتے رہتے ہیں۔ مختلف زمانوں‘ مختلف صدیوں کی فقہی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طور پر فقہ میں نئے مسائل داخل ہوئے ہیں اور فقہاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے‘ اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص تحقیقی نقطہ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ‘ کس صدی میں‘ کسی علافہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ہوا ہے۔ اگر زندہ مجتہد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتہد کی تقلید میں کیا فرق ہے؟ بہتر ہے کہ ہم بعض مردہ مجتہدوں مثلاً شیخ انصاری کی جو خود زندہ مجتہدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تھے تقلید کریں۔
بنیادی طور پر اجتہاد کا فلسفہ‘ کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ہوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نہاں ہے۔ واقعی مجتہد وہی ہے جو یہ فلسفہ حاصل کر سکے‘ اسے معلوم ہو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ہیں‘ ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی "علی الاقویٰ" کو "علی الاحوط" سے بدل دینا یا "علی الاحوط" کو "علی الاقوی" میں تبدیل کر دینا تو کوئی ہنر نہیں ہے‘ اس کے لئے اتنے ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ اجتہاد کے لئے بہت سی شرائط و مقدمات کی ضرورت ہے۔ مجتہد کو مختلف علوم کا ماہر ہونا چاہئے‘ عربی ادب‘ منطق‘ اصول فقہ‘ حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ہونا چاہئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ہے‘ تب کہیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ہے۔ فقط نحو‘ صرف‘ معانی‘ بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد‘ مکاسب اور کفایة جیسی سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برتمک درس خاہر میں شرکت کر کے کوئی اجتہاد کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور "وسائل" و "جواہر" سامنے رکھ کر فتوے صادر نہیں کر سکتا‘ اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا سے امام حسن عسکری ۱ تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ہونے والی ہزاروں حدیثو ں‘ نیز ان حدیثوں پر صادر ہونے والے ماحول یعنی ھھھ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ‘ نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ہونا چاہئے۔
آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ واقعاً فقیہ تھے‘ مجھے کسی کا نام لینے کی عادت نہیں ہے۔ وہ بھی جب تک زندہ تھے میں نے اپنی تقریروں میں ان کا نام نہیں لیا ہے‘ لیکن اب جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کسی لالچ کا شائبہ نہیں رہ گیا ہے‘ یہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ واقعاً ایک ممتاز و زبردست فقیہ تھے۔ تفسیر‘ حدیث‘ رجال درایت اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔