قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 30%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71138 / ڈاؤنلوڈ: 5105
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(و اذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انّما نحن مصلحون) (۱۸۵)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

قرآن کریم منافقین کے سلسلہ میں دونوں مناظر (تحقیر افراد اور عدم تسلیم حق) کی تصریح کررھا ہے کہ وہ خود کو اہل فھم و فراست اور دیگر افراد کو سفیہ (احمق) سمجھتے ہیں اور اس وسیلہ سے اشخاص کی تحقیر کرتے ہیں۔

(و اذا قیل لهم آمنو کما آمن الناس قالوا أنؤمن کما آمن السفهاء) (۱۸۶)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان اختیار کرلیں؟

منافقین کے بارے میں عدم تسلیم حق کی تصویر کشی کرتے ہوئے خدا ان کو خشک لکڑیوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔

(کأنّهم خشب مسنّدة) (۱۸۷)

گویا سوکھی لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگادی گئی ہیں۔

----------

۱۸۵. سورہ بقر/۱۱۔

۱۸۶. سورہ بقرہ/۱۳۔

۱۸۷. سورہ منافقون/۴۔

۱۲۱

۲) خوف و ھراس

قرآن کریم منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کے سلسلہ میں دوسری صفت خوف و ھراس کو بتا رہا ہے، قرآن ان کو بے حد درجہ ھراساں و خوف زدہ بیان کررھا ہے، اصول کی بنا پر شجاعت و شھامت، خوف وحشت کا ریشہ ایمان ہوتا ہے، جہاں ایمان کا وجود ہے دلیری و شجاعت کا بھی وجود ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

((لایکون المومن جبانا)) (۱۸۸)

مومن بزدل و خائف نہیں ہوتا ہے۔

قرآن مومنین کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے ان کی شجاعت اور مادی قدرت و قوت سے خوف زدہ نہ ہونے کی تصریح کر رہا ہے۔

(…… وانّ الله لا یضیع اجر المؤمنین الذین استجابوا لِلّٰه والرسول من بعد مَا اصابهم القرح للّذین احسنوا منهم واتقوا اجر عظیم الذین قال لهم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا و قالوا حسبنا لله و نعم الوکیل) (۱۸۹)

خداوند عالم صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا (خواہ شھیدوں کے اجر کو اور نہ ہی مجاہدوں کے اجر کو جو شھید نہیں ہوئے ہیں) یہ صاحبان ایمان ہیں جنھوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کھا (میدان احد کے زخم بہبود بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حمراء الاسد میدان کی طرف حرکت کرنے لگے) ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ عظیم اجر ہے، یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لھذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ھوگیا اور انھوں نے کہا کہ ھمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ھمارا ذمہ دار ہے۔

----------------

۱۸۸. بحار الانوار، ج۶۷، ص۳۶۴۔

۱۸۹. سورہ آل عمران/ ۱۷۳، ۱۷۱۔

۱۲۲

حقیقی صاحبان ایمان کی صفت شجاعت ہے لیکن چونکہ منافقین ایمان سے بالکل بے بھرہ مند ہیں، ان کے نزدیک خدا کی قوت لایزال وبی حساب پر اعتماد و توکل کوئی مفھوم و معنا نہیں رکھتا ہے لھذا ہمیشہ موجودہ قدرت سے خائف و ھراساں ہیں خصوصاً میدان جنگ کہ جہاں شھامت، سرفروشی، ایثار ہی والوں کا گذر ہے، وھاں سے ہمیشہ فرار اور دور ہی سے جنگ کا نظارہ کرتے ہیں اور نتیجہ کے منتظر ھوتے ہیں۔

(فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور أعینهم کا الذی یغشی علیه من الموت) (۱۹۰) جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی جیسے موت کی غشی طاری ھو۔

سورہ احزاب کی آٹھویں آیت سے پینتیسویں آیت، جنگ خندق کے سخت حالات و مسائل سے مخصوص ہے، ان آیات کے ضمن میں چھ مرتبہ صداقت کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ بعض افراد کے خوف و ھراس کو بھی بیان کیا گیا ہے، جنگ احزاب اپنے خاص شرائط (زمانی و مکانی) کی بنا پر مومنین کی ایمانی صداقت اور منافقین کے جھوٹے دعوے کو پرکھنے کے لئے بھترین کسوٹی و محک ہے۔

------------

۱۹۰. سورہ احزاب/۱۹۔

۱۲۳

ایمان میں صادق افراد کا ذکر آیت نمبر تئیس اور چوبیس میں ھورھا ھے:

(من المؤمنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظرو ما بدّلوا تبدیلا لیجزی الله الصادقین بصدقهم و یعذب المنافقین ان شاء او یتوب علیهم ان الله کان غفورا رحیما) (۱۹۱)

مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہے جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دیکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے تا کہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاھے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرے اللہ یقیناً بھت بخشنے والا اور مھربان ہے۔

ان آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ایمان میں صادق سے مراد دین کی راہ میں جھاد و شھادت ہے بعض افراد نے شھادت کے رفیع مقام کو حاصل کرلیا ہے اور بعض اگر چہ ابھی اس عظیم مرتبہ پر فائز نہیں ہوئے ہیں لیکن شجاعت و شھامت کے ساتھ ویسے ہی منتظر و آمادہ ہیں، اسی سورہ کی آیت نمبر بیس میں خوبصورتی کے ساتھ منافقین کے اضطراب و خوف کو میدان جنگ کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے، آیت اور اس کا ترجمہ اس سے قبل پیش کیا جاچکا ہے۔

-----------

۱۹۱. سورہ احزاب ۳۲، ۲۴۔

۱۲۴

۳) تشویش و اضطراب

منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں سے، تشویش و اضطراب بھی ہے چونکہ ان کا باطن ظاہر کے بر خلاف ہے لھذا ہمیشہ اضطراب کی حالت میں رہتے ہیں کہیں ان کے باطن کے اسرار افشانہ ہوجائیں اور اصل چھرہ کی شناسائی نہ ھوجائے جس شخص نے بھی خیانت کی ہے یا خلافِ امر شی کا مرتکب ہوا ہے اس کے افشا سے ڈرتا ہے اور تشویش و اضطراب میں رہتا ہے عربی کی مثل مشھور ہے "الخائن خائف" خائن خوف زدہ رہتا ہے، دوسرے یہ کہ منافقین نعمت ایمان سے محروم ہونے کی بنا پر مستقبل کے سلسلہ میں کبھی بھی امید واری و در خشندگی کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں اور اپنے انجام کار سے خائف اور ھراساں رہتے ہیں اس کے برخلاف صاحبان ایمان یاد الہی اور اپنے ایمان کی بنا پر اطمینان و سکون سے ھمکنار رہتے ہیں۔

(ألا بذکر الله تطمئن القلوب) (۱۹۲)

آگاہ ھوجاؤ کہ ذکر خدا ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔

منافقین اپنی خیانت کارانہ حرکات کی وجہ سے اضطراب و تشویش کی وادی میں پڑے رہتے ہیں لھذا ہر قسم کی افشا گری و تھدید کی آواز کو اپنے خلاف ہی تصور کرتے ہیں۔

(یحسبون کل صیحة علیهم) (۱۹۳)

یہ ہر فریاد کو اپنے خلاف ہی گمان کرتے ہیں۔

-------------

۱۹۲. سورہ رعد/۲۸۔

۱۹۳. سورہ منافقون/۴۔

۱۲۵

منافقین کی دائمی کوشش یہ رھتی ہے کہ جس طرح سے بھی ہو خود کو مومنین کی صفوں میں داخل کریں اور صاحبان ایمان کو مطمئن کرادیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں لیکن ہمیشہ پریشان خیال رہتے ہیں کہ کہیں رسوا و ذلیل نہ ہوجائیں۔

(و یحلفون بالله انهم لمنکم و ماهم منکم و لکنهم قوم یفرقون) (۱۹۴)

اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں یہ لوگ بزدل ہیں۔

ان کے ھراسان و پریشان رھنے کی کیفیت یہ ہے کہ جب بھی کوئی جدید آیت کا نزول ہوتا ہے تو ڈرتے ہیں کہ کہیں وحی کے ذریعہ ھمارے اسرار فاش نہ ھوجائیں، اس نکتہ کو قرآن کریم صراحت سے بیان کررھا ہے اور تاکید کررھا ہے کہ راہ نفاق کا انجام خیر نہیں ھوسکتا، اگر چہ چند روز اپنے باطن کو چھپانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سر انجام رسوا و ذلیل ھوکر رھیں گے۔

(یحذر المنافقون ان تنزل علیهم سورة تنبّئهم بما فی قلوبهم قل استهزئوا ان الله مخرج ما تحذرون) (۱۹۵)

منافقین کو یہ خوف بھی ہے کہ کہیں کوئی سورہ نازل ھوکر مسلمانوں کو ان کے دل کے حالات سے باخبر نہ کردے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم اور مزاق اڑاؤ اللہ بھر حال اس چیز کو منظر عام پر لے آئے گا جس کا تمھیں خطرہ ہے۔

سورہ بقرہ کی آیات نمبر سترہ سے بیس تک میں منافقین کی کشمکش، ترس و اضطراب کی حالت، کو دو معنی خیز تشبیھوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔

-------------

۱۹۴. سورہ توبہ/۵۶۔

۱۹۵. سورہ توبہ/۶۴۔

۱۲۶

۴) لجاجت گری

منافقین کی چوتھی نفسیاتی خصوصیت لجاجت گری ہے لجاجت ایک روحی و نفسانی مرض ہے جو صحیح معرفت کے حصول میں اساسی مانع ہے معرفت شناسی میں اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے کہ بعض اخلاقی رذائل سبب ھوتے ہیں کہ انسان حقیقت تک نہ پہونچ سکے، جیسے بیھودہ تعصب، بغیر دلیل خاص، نظریہ پر اصرار، غلط آرزو اور خواہشات وغیرہ-------(۱۹۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام دو حدیث میں اس مطلب کو صراحتاً بیان فرما رہے ہیں:

((اللجاجة تسل الرای)) (۱۹۷)

لجاجت صحیح و مستحکم رای کو فنا کردیتی ہے۔

((اللجوج لا رای له)) (۱۹۸)

لجاجت گر فرد صحیح فکر و نظر کا مالک نہیں ھوتا۔

جو فرد لجاجت گری کی وادی میں سر گردان ہو وہ صاحب رای و نظر نہیں ھوسکتا ہے کیوں کہ لجاجت اس کی بینائی و دانائی پر ایک ضخیم پردہ ڈال دیتی ہے جس کی بنا پر لجاجت گر فرد تمام حقائق کو اپنی خاص نظر سے دیکھتا ہے لھذا ایسا فرد حق شناسی کے وسائل و نور حق کو اختیار میں رکھتے ہوئے بھی حقیقت تک نہیں پہونچ سکتا ہے چونکہ منافقین کا بنیادی منشا اپنی آمال و خواہشات کی تکمیل اور باطل راہ میں قدم رکھنا ہے لھذا کبھی بھی حق کو حاصل نہیں کرسکتا ہے، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

------------

۱۹۶. نظریۃ المعرفہ، ص۳۱۹۔

۱۹۷. نھج البلاغہ، حکمت، ۱۷۹۔

۱۹۸. میزان الحکمۃ، ج۸، ص۴۸۴۔

۱۲۷

((من کان غرضه الباطل لم یدرک الحق ولو کان اشهر من الشمس)) (۱۹۹)

جس کا بنیادی ھدف باطل ہو کبھی بھی حق کو درک نہیں کرسکتا ہے خواہ حق آفتاب سے روشن ترھی کیوں نہ ہو

قرآن مجید منافقین کی حالت لجاجت کو بیان کرتے ہوئے ان کی یوں توصیف کر رکھا ھے:

(صم بکم عمی فهم لا یرجعون) (۲۰۰)

یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے ھوگئے ہیں اور پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں۔

منافقین کی لجاجت سبب بن گئی کہ وہ نہ سن سکے جو سننا چاھئے تھا، نہ دیکھ سکے جو دیکھنا چاھئے تھا، نہ کہہ سکے جو کھنا چاھئے تھا، باوجودیکہ آنکھ، کان، زبان جو ایک انسانِ بااعتدال کے لئے صحیح ادراک کے وسائل ہیں، یہ بھی اختیار میں رکھتے ہیں لیکن ان کی لجاجت گری سبب ھوئی کہ عظیم نعمات سے محروم، اور جھالت کی وادی میں سر گرداں ہیں۔

منافقین کا بھرہ، اندھا، گونگا ہونا آخرت سے مخصوص نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے ہی ہیں، ان کا قیامت میں بھرہ، اندھا، گونگا ہونا ان کے حالات سے اسی دنیا میں مجسم ہے۔

(لهم قلوب لا یفقهون بها ولهم اعین لا یبصرون بها ولهم آذان لا یسمعون بها) (۲۰۱)

ان کے پاس دل ہے مگر سمجھتے نہیں ہیں، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں، کان ہیں مگر سنتے نھیں۔

مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہوئے کھا جاسکتا ہے منافقین اسی دنیا میں اپنی لجاجت کی بنا پر صحیح سماعت و بصارت، زبان گویا، حق کو درک اور بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتے ہیں، اور مدام باطل کے گرداب میں غوطہ زن ہیں۔

--------------

۱۹۹. غرر الحکم، نمبر ۸۸۵۳۔

۲۰۰. سورہ بقرہ/۱۸۔

۲۰۱. سورہ اعراف/۱۷۹۔

۱۲۸

ماحصل یہ ہے کہ منافقین کے فھم و شعور کے منافذ و مسلمات لجاجت پسندی کی بنا پر بند ھوچکے ہیں۔

قرآن مجید نفاق کی اس حالت کو (طبع قلوب) سے یاد کررھا ہے۔

(طبع الله علی قلوبهم فهم لا یعلمون) (۲۰۲)

خدا نے ان کے دلوں پر مھر لگادی ہے اور اب وہ لوگ کچھ جاننے والے نھیں۔

(فطبع علی قلوبهم فهم لا یفقهون) (۲۰۳)

ان کے دلوں پر مھر لگادی گئی ہے تو اب کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

جو مھر ان کے دلوں پر لگائی گئی ہے اس کا سبب یہ ہوگا کہ حق کی گفتگو سماعت نہ کرسکیں اور حق کی عدم قبولیت ان کی ہمیشہ کی روش بن جائے، البتہ یہ بات واضح ہے کہ طبع قلوب (دلوں پر مھر لگانا) کے اسباب خود انھوں نے فراھم کئے ہیں اور ان کے دلوں پر مھر لگنا خود ان کے افعال و کردار کا نتیجہ ہے۔

------------

۲۰۲. سورہ توبہ/۹۳۔

۲۰۳. سورہ منافقون/۳۔

۱۲۹

۵) ضعف معنویت

منافقین کی پانچویں نفسیاتی و نفسانی صفت جسے قرآن مجید بیان کررھا ہے معنویت میں ضعف و سستی کا وجود ہے، یہ گروہ ضعف بصارت کی بنا پر خدا سے زیادہ عوام اور لوگوں کے لئے حرمت و عزت کا قائل ہے۔

منافقین محکم و راسخ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے غیبی و معنوی قدرت پر بھی محکم و کامل ایمان نہیں رکھتے، ان کی ساری غیرت اور خوف فقط ظاہری ہے، عوام سے حیا کرتے ہیں، لیکن خدا کے محضر میں بے حیا ہیں چونکہ خود کو الہی محضر میں سمجھتے ہی نہیں اور خدا کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

(یستخفون من الناس ولا یستخفون من الله وهو معهم اذ یبیتون مالا یرضی من القول وکان الله بما یعلمون محیطاً) (۲۰۴)

یہ لوگ انسانوں کی نظروں سے اپنے کو چھپاتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپ سکتے ہیں جب کہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ رہتا ہے جب وہ ناپسندیدہ باتوں کی سازش کرتے ہیں اور خدا ان کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اگر ظاہر میں ایک عبادت انجام دیں یا ظواھر اسلامی کی رعایت کریں تو صرف عوام نیز لوگوں کی توجہ و اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے ورنہ ان کی عبادتیں ہر قسم کے مفھوم اور معنویت سے خالی ہیں۔

(ان المنافقین… اذا قاموا الی الصلوٰة قاموا کسالی یرائون الناس ولا یذکرون الله الا قلیلا) (۲۰۵)

منافقین---- جب نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ، لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں، اور اللہ کو بھت کم یاد کرتے ہیں۔

--------------

۲۰۴. سورہ نساء/۱۰۸۔

۲۰۵. سورہ نساء/۱۴۲۔

۱۳۰

(ولا یأتون الصلوٰة الا وهم کسالی) (۲۰۶)

اور یہ نماز بھی سستی اور تساھلی کے ساتھ بجالاتے ہیں۔

اگر چہ مذکورہ دونوں آیات میں منافقین کی ریا و کسالت (سستی) نماز کے موقع کے لئے بیان کی گئی ہے، لیکن علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں نماز، قرآن میں تمام معنویت کا محور و مرکز ہے لھذا اس نکتہ پر توجہ کرتے ہوئے دونوں آیت کا مفھوم یہ ہے کے منافقین تمام عبادت و معنویت میں بے حال و سست ہیں اور صاحبان ایمان کے جیسی نشاط و فرحت، سرور و شادمانی نہیں رکھتے ہیں۔

البتہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بھی منافقین کی عبادات کو بے معنویت اور سستی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(ولا ینفقون الا وهم کارهون) (۲۰۷)

اور راہ خدا میں کراھت و ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔

یہ آیت صراحتاً بیان کررھی ہے کہ ان کے انفاق کی بنا اخلاص و خلوص پر نہیں ہے، سورہ انفال میں بھی مسلمانوں کے مبارزہ و جھاد کی صف میں ان کی حرکات کو ریا سے تعبیر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس منافقانہ عمل سے دور رھنے کے لئے کھا گیا ھے:

(ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارهم بطرا و رئاء الناس) (۲۰۸)

اور ان لوگوں کے جیسے نہ ھوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نکلتے ہیں۔

------------

۲۰۶. سورہ توبہ/۵۴۔

۲۰۷. سورہ توبہ/۵۴۔

۲۰۸. سورہ انفال/۴۷۔

۱۳۱

بھر حال جن اشخاص نے دین کے اظھار کو قدرت طلبی، شیطانی خواہشات کے حصول کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے، ان کی رفتار و گفتار میں دین داری کی حقیقی روح نہیں ملتی ہے وہ عبادت کو خود نمائی کے لئے اور سستی سے انجام دیتے ہیں۔

۶) خواہشات نفس کی پیروی

منافقین کی چھٹی نفسیاتی خصوصیت، خواہشات نفسانی کی پیروی اور اطاعت ہے، منافقین حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور عقل و نقل کی پیروی اور اطاعت کرنے کے بجائے، امیال و خواہشات نفسانی کے تابع و پیروکار ہیں، صعیف اعتقاد نیز باطل اور نحس مقاصد کی بنا پر خدا پرستی و حق محوری ان کے لئے کوئی مفھوم و معنی نہیں رکھتا ہے وہ خواہشات نفسانی کے مطیع و خود محوری کے تابع ہیں۔

(اولئک الذین طبع الله علی قلوبهم واتبعوا اهوائهم) (۲۰۹)

یھی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مھر لگادی ہے اور انھوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کرلیا ہے۔

تکبر اور برتر بینی خواہشات نفسانی کی نمائش و علامت میں سے ایک ہے، خواہشات نفسانی کے دو آشکار نمونے، ریاست و منصب کی طلب اور دنیا پرستی ہے جو منافقین میں پائی جاتی ہے، مال و منصب کی محبت، نفاق کی جڑوں کو دلوں میں رشد اور مستحکم کرنے کے عوامل میں سے ہیں۔

-----------

۲۰۹. سورہ محمد/۱۶۔

۱۳۲

پیامبر عظیم الشان فرماتے ہیں:

((حب الجاه و المال ینبتان النفاق کما ینبت الماء البقل)) (۲۱۰)

مال دنیا اور مقام و منصب کی محبت، نفاق کو دل میں یوں رشد دیتی ہے جیسے پانی سبزے کو نشو نما دیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ ریاست و منصب قابل مذمت ہے جس کا مقصد و ھدف انسان ہو یہ وہی مقام پرستی ہے جو لوگوں کے دین کے لئے بھت بڑا خطرہ ہے۔

نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں کسی کا نام لیتے ہوئے کھا گیا وہ منصب و مقام پرست ہے، آپ نے فرمایا:

((ما ذئبان ضاریان فی غنم قد تفرق رعاؤهابأ ضرّ فی دین المسلم من الریاسة)) (۲۱۱)

دو خونخوار بھیڑیوں کا خطرہ ایسے گلہ کے لئے جو بغیر چوپان کے ہو اس خطرہ سے زیادہ نہیں، جو خطرہ مسلمان کے دین کو ریاست طلبی و مقام پرستی سے ہے۔

لیکن وہ مال و مقام جو اپنی اور اپنے خانوادے کی زندگی کی بھتری نیز مخلوق خدا کی خدمت اور پرچم حق کو بلند و قائم کرنے اور باطل کو ختم کرنے کے لئے ھو، وہ قابل مذمت نہیں ہے بلکہ عین آخرت اور حق کی راہ میں قدم بڑھانا ہے، شاید کبھی واجب بھی ھوسکتا ہے۔

-------------

۲۱۰. المحجۃ البیضاء، ج،۶، ص، ۱۱۲۔

۲۱۱. بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۴۵۔

۱۳۳

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی پیوند زدہ اور بے قیمتی نعلین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن عباس کو خطاب کرکے فرماتے ہیں:

((والله لهی احب الی من امرتکم الا ان اقیم حقا او ادفع باطل)) (۲۱۲)

خدا کی قسم! یہ بی قیمت نعلین مجھے تمھارے اوپر حکومت سے زیادہ عزیز ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعہ کسی حق کو قائم کرسکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔

اس بنا پر اسلام میں اپنے اور خانوادے کی معاشی زندگی کے لئے کوشش و تلاش کو راہ خدا میں جھاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔

((الکاد علی عیاله کالمجاهد فی سبیل الله)) (۲۱۳)

جو فرد بھی اپنے خانوادے کی امرار معاش کے لئے کوشش وسعی کرتا ہے وہ مجاھد راہ خدا ہے

دوسرے افراد کی خدمت گذاری کو بھی بھترین افعال میں شمار کیا گیا ہے۔

((خیر الناس انفعهم للناس)) (۲۱۴)

بھترین فرد وہ ہے جس سے بیشتر فائدہ لوگوں کو پھنچتا ہے۔

لیکن منافقین کے اھداف فقط دنیا کے اموال، مناصب و اقتدار پر قبضہ کرنا ہے، دوسروں کی خدمت مدنظر نہیں ہے، اور اپنے اس پست و حقیر مقصد کے حصول کی خاطر تمام اسلامی و انسانی اقدار کو پامال کرنے کے لئے حاضر ہیں۔

-------------

۲۱۲. بھج البلاغہ، خطبہ۳۳۔

۲۱۳. بحار الانوار، ج۹۶، ص۳۲۴۔

۲۱۴. مستدرک الوسایل، ج۱۲،ص۳۹۱۔

۱۳۴

مدینہ کے منافقین کا سرغنہ، عبد اللہ ابن ابی کا باطنی مرض یہ تھا کہ جب اس نے اپنی ریاست کے دست و بازو قطع ھوتے دیکھے تو تمام خیانت کاری و پست فطرتی کا مظاہرہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مسلمانوں پر کرنے لگا کہ شاید ھاتھ سے جاچکا مقام و منصب دوبارہ حاصل ہوجائے۔

منافقین کی دنیا طلبی کی شدید خواہش کی کیفیت کو قرآنی آیات نے بخوبی بیان کیا ہے، قرآن کریم اکثر موارد پر اس نکتہ کو بیان کررھا ہے کہ منافقین اگر چہ میدان جنگ میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرتے لیکن جنگ ختم ھوتے ہی غنائم کی تقسیم کے وقت میدان میں حاضر ہوجاتے ہیں، اور اپنے سھم کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں اس موضوع سے مربوط بعض آیات کو منافقین کی موقع پرستی کی بحث میں بیان کیا جاچکا ہے۔

۷) گناہ کی تاویل گری

منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کی ساتویں کڑی، گناہ کی توجیہ و تاویل گری ہے اس سے قبل اشارہ کیا گیا ہے کہ منافقین کی تمام سعی لا حاصل یہ ہے کہ اپنے باطن اور پلید نیت کو مخفی کرکے، اور جھوٹی قسمیں کھاکر، ظواھر کی آراستگی کرتے ہوئے خود کو صاحبان ایمان واقعی کی صفوف میں شامل کرلیں۔

۱۳۵

اگر چہ صدر اسلام میں ایسا ممکن ھوسکا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے باطن کو مخفی نہیں رکھ سکتے چونکہ ان سے بعض اوقات ایسے افعال و اعمال صادر ہوجاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے مومنین ان کے ایمان میں شک کرنے لگتے ہیں لھذا منافقین، اس لئے کہ مسلمانوں کی نظروں سے نہ گر جائیں، نیز مسلمانوں کا اعتماد ان سے سلب نہ ھوجائے اپنے کردار اور برے افعال کی عام پسند توجیہ و تاویل کرنے لگتے ہیں۔

(فکیف اذا اصابتهم مصیبة بما قدمت ایدیهم ثم جاؤوک یحلفون بالله ان اردنا الا احسانا و توفیقا اولئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فأعرض عنهم و عظهم و قل لهم فی انفسهم قولا بلیغا) (۲۱۵)

پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ھوگی وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ھمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا یھی وہ لوگ ہیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا ہے لھذا آپ ان سے کنارہ کش رھیں انھیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی موقع و محل سے مربوط بات کریں۔

جھاد و معرکہ کا میدان ان مقامات میں سے ہے جہاں منافقین حاضر ھوتے ہوئے بے حد درجہ خائف و ھراساں رہتے ہیں لھذا جھاد میں شریک نہ ہونے کی خاطر (جھاد میں عدم شرکت عظیم گناہ ھے) عذر تراشی کرتے ہوئے تاویل و توجیہ کیا کرتے تھے ذیل کی آیت میں ایک منافق کی جنگ تبوک میں عدم شرکت کی عذر تراشی اور تاویل کو بیان کیا گیا ہے۔

(ومنهم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین) (۲۱۶)

ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو آگاہ ھوجاؤ کہ یہ واقعاً فتنہ میں گر چکے ہیں اور جھنم تو کافرین کو ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔

------------

۲۱۵. سورہ نساء/ ۶۲، ۶۳۔

۲۱۶. سورہ توبہ/۴۹۔

۱۳۶

اس آیت کی شان نزول کے لئے بیان کیا گیا ہے کسی قبیلہ کا ایک بزرگ جو منافقین کے ارکان میں تھا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاھی کہ جنگ تبوک میں شرکت نہ کرے اور عدم شرکت کی وجہ اور دلیل یہ بیان کی کہ اگر اس کی نطریں رومی عورتوں پر پڑے گی تو ان پر فریفتہ اور گناھوں میں مبتلا ھوجائے گا، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرمادی کہ وہ مدینہ ہی میں رھے، اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ھوئی جس نے اس کے باطن کو افشا کر کے رکھ دیا اور خداوند عالم نے اسے جنگ میں عدم شرکت کی بنا پر عصیان گر اور فتنہ میں غریق فرد سے تعبیر کیا ہے(۲۱۷) ، منافقین کے دوسرے وہ افراد جو جنگ احزاب میں شریک نہیں ہوئے تھے ان کا عذر یہ تھا کہ وہ اپنے گھر اور مال و دولت کے تحفظ سے مطمئن نہیں ہیں، ذیل کی آیت ان کی پلید فکر کو فاش کرتے ہوئے ان کی عدم شرکت کے اصل مقصد کو جنگ سے فرار بیان کیا ہے۔

(ویستاذن فریق منهم النبی یقولون ان بیوتنا عورة وما هی بعورة ان یریدون الا فرارا) (۲۱۸)

اور ان میں سے ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ھمارے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر خالی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررھے تھے۔

بھر حال گناہ کی تاویل و توجیہ خود عظیم گناہ ہے جس کے منافق مرتکب ھوتے رہتے تھے بسا اوقات ممکن ہے منافقین سیدھے، سادے و زور باور و مومنین کو فریب دیدیں، لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ خدا ہر اس شی سے جو وہ اپنے قلب کے اندر مخفی کئے ہوئے ہیں آگاہ ہے ان کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی دوزخ کے عذاب سے ان کا استقبال کیا جائے گا، یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ منافقین کی تاویل و توجیہ کا سلسلہ صرف فردی مسائل سے مختص نہیں بلکہ اجتماعی و معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی مسائل میں بھی تاویل و توجیہ کرتے رہتے ہیں کہ اس موضوع پر بھی بحث ھوگی۔

--------------------------

۲۱۷. مجمع البیان، ج۳، ص۳۶۔

۲۱۸. سورہ احزاب/۱۳۔

۱۳۷

فصل چھارم: منافقین کی ثقافتی (کلچرل) خصائص

۱۔ خودی اور اپنائیت کا اظھار

۲۔ دینی یقینیات کی تضعیف

خودی اور اپنائیت کا اظھار

منافقین کو اپنی تخریبی اقدامات جاری رکھنے کے لئے تاکہ صاحب ایمان حضرات کی اعتقادی اور ثقافتی اعتبار سے تخریب کاری کرسکیں، انھیں ہر چیز سے اشد ضرورت مسلمانوں کے اعتماد و اعتبار کی ہے تاکہ مسلمان منافقین کو اپنوں میں سے تصور کریں اور ان کی اپنائیت میں شک سے کام نہ لیں، اس لئے کہ منافقین کے انحرافی القائات معاشرے میں اثر گذار ہوں اور ان کے منحوس مقاصد کی تکمیل ھوسکے۔

ان کی تمام سعی و کوشش یہ ہے کہ خود معاشرے میں اپنائیت کی جلوہ نمائی کرائیں، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں اگر ان کے باطن کا افشا، اور ان کے اسرار آشکار ھوگئے تو کوئی شخص بھی منافقین کی باتوں کو قبول نہیں کریگا اور ان کی سازشیں جلد ہی ناکام ہوجائیں گی، ان کے راز افشا ہونے کی بنا پر اسلام کے خلاف ہر قسم کی تبلیغی فعالیت، نیز سیاسی سر گرمی سے ھاتھ دھو بیٹھیں گے، لھذا منافقین کا بنیادی اور ثقافتی ھدف اپنے خیر خواہ ہونے کی جلوہ نمائی اور عمومی مسلمانوں کے اعتماد کو کسب کرنا ہے اور یہ بھت عظیم خطرہ ہے کہ افراد و اشخاص، بیگانے اور اجنبی شخص کو اپنوں میں شمار کرنے لگیں، اور معاشرہ میں خواص کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے،

۱۳۸

ثقافتی حادثہ اس وقت وجود میں آتا ہے کہ جب مسلمین منافقین کی ثقافتی روش طرز سے آشنائی نہ رکھتے ہوں اور ان کو اپنا دوست بھی تصور کریں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مختلف افراد کے ظواھر پر اعتماد کرنے کے خطرات اور اشخاص کی اھمیت پر توجہ کرنے کی ضرورت کے متعلق فرماتے ہیں۔

((انما اتا کبا لحدیث اربعة رجال لیس لهم خامس رجل منافق مظهر للایمان متصنع بالاسلام لا یتأثم ولا یتحرج یکذب علی رسول الله متعمدا فلو علم الناس انه منافق کاذب لم یقبلوا منه ولم یصدقوا قوله ولکنهم قالوا صاحب رسول الله رآه وسمع منه و لقف عنه فیاخذون بقوله) (۲۱۹)

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان کرنے والے چار طرح کے افراد ھوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظھار کرتا ہے اسلام کی وضع و قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افترا میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ھوجائے کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو یقیناً اس کے بیان کی تصدیق نہیں کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہیں انھوں نے حضور کو دیکھا ہے ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اسی طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہے۔

----------------

۲۱۹. نھج البلاغہ، خطبہ ۲۱۰۔

۱۳۹

اظھار اپنائیت کے لئے منافقین کی راہ و روش

منافقین اظھار اپنائیت کے لئے مختلف روش و طریقے سے استفادہ کرتے ہیں، چونکہ یہ مبدا و معاد پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں، لھذا راہ و روش کی مشروعیت یا عدم جواز ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا، اور ان کے نزدیک قابل بحث بھی نہیں ہے ان کی منطق میں ھدف کی تحصیل و تکمیل کے لئے، ہر وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خواہ وسائل ضد انسانی ہی کیوں نہ ہوں یھاں منافقین کی اظھار اپنائیت کے سلسلہ میں فقط پانچ طریقوں کی جانب اشارہ کیا جارھا ہے۔

۱) کذب و ریاکاری کے ذریعہ اظھار کرنا

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے نفاق کا اصلی جو ہر کذب اور اظھار کا ذبانہ ہے منافقین اظھار اپنائیت کے لئے وسیع پیمانہ پر حربۂ کذب سے استفادہ کرتے ہیں کبھی اجتماعی اور گروھی شکل میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں، خداوند عالم با صراحت ان کو اس اقرار میں کاذب تعارف کراتا ہے اور پیامبر عظیم الشان سے فرماتا ہے، اگر چہ تم واقعاً فرستادہ الہی ہو لیکن وہ اس اقرار میں کاذب ہیں اور دل سے تمھاری رسالت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔

(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون) (۲۲۰)

پیامبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواھی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔

----------------

۲۲۰. سورہ منافقون/۱۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھی کرلیا_

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ یثرب کے مشہور افراد میں سے بارہ آدمی مكّہ آئے تا کہ اپنے اسلام کو پیغمبر(ص) کے سامنے پیش کریں اور اسلام کیلئے اپنی خدمات وقف کردیں_

ان افراد کی پیغمبر(ص) سے ملاقات اتنی آسان نہ تھی کیونکہ مكّہ کی حکنومت بت پرستوں اور طاقتوروں کے زور پر چل رہی تھی اور شہر مكّہ کے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاریکی کا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو شہر سے باہر، پہاڑ کے دامن میں اور مشرکوں کی نظروں سے دور تھی یہ ملاقات آدھی رات کو عقبہ نامی جگہ پر رکھی گئی_

عقبہ کا معاہدہ

آدھی رات کے وقت چاند کی معمولی روشنی میں نہایت خفیہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمی پہاڑ کے پیچھے پر پیچ راستے سے گزرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھی مكّہ سے پیغمبر(ص) کے ساتھ آئے _

تمام گفتگو بہت رازداری کے ساتھ اور خفیہ طور پر ہوئی اور سپیدی صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگیا اور ان تمام کے تمام حضرات نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی راہ لی_ اور خوش بختی سے مكّہ کے مشرکوں میں سے کسی کو بھی اس جلسہ کی خبر نہ ہوئی_

۱۸۱

مدینہ میں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) سے ملاقات کیسی رہی___؟ ان سے کیا کہا اور کیا معاہدہ ہوا___؟

انہوں نے جواب میں کہا کہ:

ہم نے خدا کے رسول (ص) سے معاہدہ کیا ہے کہ خدا کا کوئی شریک قرار نہ دیں گے، چوری نہ کریں گے نہ زنا اورفحشاء کا ارتکاب کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں رسول خدا(ص) کی مدد کریں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے''

مدینہ میں تبلیغ اسلام

ایک مدّت کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو خط لکھا کہ ایک ایسا آدمی ہماری طرف روانہ کیجئے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور قرآن مجید کے معارف سے آگاہ و آشنا کرے_

پیغمبر(ص) نے ایک جوان مصعب نامی ان کی طرف روانہ کیا مصعب قرآن مجید کو عمدہ طریقہ سے اور خوش الحانی کے ساتھ قرات کیا کرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشین گفتگو کرتا تھا دن میں مدینہ کے ایک کنویں کے نزدیک درخت کے سائے میں کھڑا ہوجاتا اور بہت اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا،

لوگ اس کے اردگرد حلقہ بنالیتے اور وہ ٹھہرٹھہر کر قرآن

۱۸۲

کی تلاوت کرتا جب کوئی دل قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تو اس سے گفتگو کرتا اور دین اسلام کی اعلی تعلمیات کو اس کے لئے بیان کرتا:

جن حق پرست اور حق کو قبول کرنے والے لوگوں کے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس کی باتوں کو توجّہ سے سنتے اور اسلام کے گرویدہ ہو کر ایمان لے آتے تھے''

اسلام کی طرف اس طرح مائل ہونے کی خبر سن کر مدینہ کے بعض قبائل کے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک مصعب کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اس کے نزدیک پہنچ کر غصہ کے عالم میں اپنی تلوار کو نیام سے باہر کھینچ کر چلایا کہ: اسلام کی تبلیغ کرنے سے رک جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟

مصعب نے اس کے اس سخت لہجہ کے باوجود نہایت نرمی اور محبت سے کہا:

کیا ممکن ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے یہیں بیٹھ جائیں اور آپس میں گفتگو کریں؟ میری باتوں کو سنو اگر وہ غیر معقول اور غلط نظر آئیں تو میں ان کی تبلیغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے کہ جس سے آیا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''

تم سچ کہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہاری بات کو سننا چاہئے،تمہاری دعوت کو سننا چاہیئے اس کے بعد کوئی

۱۸۳

فیصلہ کرنا چاہئے''

اس سردار نے اپنی شمشیر کو نیام میں رکھا اور مصعب کے قریب بیٹھ گیا_ مصعب نے قرآن مجید کی چند منتخب آیا ت اس کے سامنے تلاوت کیں''

اے کاش کہ تاریخ نے ہمارے لئے ان آیات کو تحریر کیا ہوتا جو اس حساس لمحہ میں مصعب نے تلاوت کیں_ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آیات کے مانند دوسری آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں جو تقریباً وہی معنی رکھتی ہیں جن میں خدا نے مشرکین کو خبردار کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ہے''___ دیکھیں اور سوچیں''

آیا جو خلق کرنے والا ہے خلق نہ کرنے والے کے برابر ہے بس تم کیوں نہیں سوچتے؟

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہا ہو تو نہ کرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چیزوں کو جنہیں تم چھپاتے ہو اور انہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو تمام کا علم رکھتا ہے،

یہ بت کہ جنہیں خدا کے مقابل پرستش کرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو یہ کوئی چیز بھی خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود کسی کے بنائے ہوئے ہیں''

تمہارا خدا ایک ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل برے اور سرکش و متکبّر ہیں''

خدا اس سے جو تم چھپ کر انجام دیتے ہو آگاہ ہے اور اس سے کہ جسے علانیہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متکبّرین کو کبھی بھی دوست نہیں رکھتا

۱۸۴

قرآن کے نورانی حقائق اور آیات کی جاذبیت و زیبائی اور مصعب کے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص میں تغیر اور تبدیلی پیدا کردی، اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیا اور اس کی سرکش اور متکبّر عداوت سرنگوں ہوگئیں اور اسے ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوا کہ وہ جاننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہوگیا تب اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے کچھ سوالات ادب سے کئے پھر پوچھا:

اسلام کس طرح قبول کیا جاتا ہے؟ اس دین کے قبول کرنے کے آداب و رسوم کیا ہیں؟

مصعب نے جواب دیا:

کوئی مشکل کام نہیں، صرف اللہ کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی جائے، کپڑوں اور جسم کو پانی سے دھوکر پاک کیا جائے اور خدا کے بندوں سے انس و محبت کی راہ کھول دی جائے اور نماز پڑھی جائے_

عقبہ میں دوسرا معاہدہ

مدینہ کے لوگ دین اسلام کی حقانیت دریافت کر رہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا امر الہی کو تسلیم کر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دین اسلام کو قبول کر رہے تھے_ انتظار کر رہے تھے کہ حج کے دن آپہنچیں اور وہ سفر کریں اور پیغمبر(ص) کے دیدار کے لئے جائیں اور اپنی مدد اور خدمت

۱۸۵

کرنے کا اعلان کریں''

آخر کار پانچ سو آدمیوں کا قافلہ مدینہ سے مكّہ کی طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ستّر کے قریب مسلمان بھی موجود تھے_ ان سب کا پروگرام پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے کا بھی تھا وہ چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں پیغمبر(ص) سے رسمی طور سے بیعت کریں اور آپ(ص) کی مدد کا اعلان کریں''

۱۳/ ذی الحجہ کی آدھی رات کو منی میں ایک پہاڑی کے دامن میں ملاقات کرنے کا وقت معین کیا گیا،

وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ کر ایک، ایک، دو، دو، کر کے اس عقبہ کی طرف چل دئے اور وہاں مشرکوں کی سوئی ہوئی آنکھوں سے دور جمع ہوکر پیغمبر(ص) کے گرد حلقہ ڈال دیا،

انہوں نے پیغمبر(ص) سے خواہش کی کہ آپ(ص) کچھ خطاب فرمائیں، پیغمبر(ص) نے قرآن مجید کی کچھ آیات کا انتخاب کر کے ان کے سامنے تلاوت کی اور اسکی تشریح بیان کی اور فرمایا، اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر و استقامت کو اپنا شیوہ بناؤ اور یہ جان لو کہ نیک انجام متقیوں کے لئے ہوا کرتا ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے اپنی خواہش کاا ظہار کیا اور فرمایا:

کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں مدینہ کی طرف ہجرت کروں اور تمہارے ساتھ زندگی بسر کروں؟''

سبھی نے پیغمبر(ص) کی اس خواہش پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور نہایت اشتیاق سے ایک بولا

خدا کی قسم میں پوری صداقت کے ساتھ آپ(ص) سے عہد

۱۸۶

کرتا ہوں کہ آپ(ص) کے دفاع میں اپنی جان کی بازی لگادوں گا اور جو کچھ زبان سے کہہ رہا ہوں وہی میرے دل میں بھی ہے''

دوسرے نے کہا:

میں آپ(ص) کی بیعت کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے اہل و عیال اور اولاد کی حفاظت کرتا ہوں، آپ(ص) کی بھی کروں گا:

تیسرے نے کہا:

ہم جنگ اور لڑائی کے فرزند ہیں اور جنگ کے سخت میدان کے لئے تربیت حاصل کی ہے اور جان کی حد تک پیغمبر خدا(ص) کی خدمت اور دفاع کے لئے حاضر ہیں''

یہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبریز تھا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے دل کی بات کہی لیکن وہ یہ بھول چکے تھے وہ مكّہ میں اور مشرکوں کی ایک خطرناک حکومت کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں،

پیغمبر اکرم(ص) کے چچا نے جو آپ(ص) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے بہت دہیمی آواز میں جو کہ مشکل سے سنی جا رہی تھیں کہا:

مطمئن رہو، آہستہ بولو، کہیں مشرکوں نے ہمارے اوپر کوئی آدمی تعینات نہ کیا ہو ...''

اس کے بعد یہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی، عہد کیا اور خداحافظ کہا:

ابھی دن کی سفیدی بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ تمام لوگ وہاں سے علیحدہ علیحدہ روانہ ہوگئے''

۱۸۷

لیکن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا کر مكّہ کے مشرکوں کو اس جلسے کی خبر مل چکی ہے اور اہل مدینہ کی پیغمبری(ص) سے بیعت اور بہت کی گفتگو کا کافی حد تک انہیں علم ہوچکا ہے مشرکین میں اضطراب اور خوف پھیل گیا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مكّہ سے مدینہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مرکز بنالیا تو کیا ہوگا؟

لہذا وہ سب دالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور بہت زیادہ سختی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کی جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے کسی عمدہ طریقہ کو سوچنے لگے_

آیت قرآن

( انّ الّذین قالوا ربّنا الله ثمّ استقاموا فلا خوف علیهم و لا هم یحزنون ) ''

سورہ احقاف آیت ۱۳/''

البتہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محکم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہی وہ محزون ہوں گے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱۸۸

۱)___ سورہ نحل کی جن آیات کا ترجمہ اس سبق میں بیان ہوا ہے، ان میں خداوند عالم نے کن چیزوں کو اپنی قدرت کی_

واضح نشانیاں بتایا ہے؟ اور ان نشانیوں کے ذکر کرنے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ یہ نشانیاں دین اسلام کے اصولوں میں سے کس اصل کو بیان کرتی ہیں _

۲)___ قبیلہ خرزج کے ان چھ آدمیوں نے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تھا یہودیوں سے کیا سن رکھا تھا؟ اور یہودیوں کی وہ خبر کس اصول کو بیان کرتی ہے؟

۳) ___ جب یہ لوگ پیغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو کس مسئلہ کے بارے میں امید کا اظہار کر رہے تھے؟

۴)___ پیغمبر(ص) نے کس آدمی کو مدینہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا؟ اور اس میں کیا خصوصیات موجود تھیں؟ اس کی تبلیغ کا کیا طریقہ تھا؟ اور دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ کون سی چیزیں بیان کرتا تھا؟

۵)___ دوسرے معاہدہ کا وقت کیا تھا؟ اس میں کتنے افراد نے پیغمبر(ص) کا دیدار کیا؟ اور کیا کہا اور کیا سنا ؟

۱۸۹

مشرکوں کا مکر و فریب

جب مشرکوں کو اس خفیہ اجلاس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں پر آزار و تکلیف پہنچانے میں اضافہ کردیا مسلمان جو مصائب و مشکلات کی بناپر بہت زیادہ دباؤ میں تھے انہوں نے پیغمبر(ص) سے سوال کیا کہ کیا ان مصائب پر صبر کریں؟ یا کوئی اور راستہ اس کے لئے سوچیں؟

رسول خدا(ص) نے انہیں حکم دیا کہ بالکل خفیہ طور پر مشرکوں کی آنکھوں سے چھپ کر مدینہ کی طرف کہ جسے اس زمانے میں یثرب کہا جاتا تھا اور بعد میں اس کا نام پیغمبر(ص) اسلام کے احترام میں ''مدینة الرسول'' رکھا گیا ہجرت کر جائیں اور آپ(ص) نے انہیں خوشخبری دی کہ:

جو لوگ اس رنج و غم اور ظلم پر جوان پر روا رکھا گیا ہے صبر کر کے ہجرت کرجائیں گے تو خداوند

۱۹۰

بزرگ ان کے لئے دنیا میں ایک عمدہ اور قیمتی جگہ عطا کرے گا البتہ ان کا آخرت میں اجر بہت بہتر اور بالاتر ہوگا یہ عظیم اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو مشکلات میں صابر اور پائیدار اور استقامت رکھتا ہو اور خداوند عالم پر توکل کرے البتہ خدا تم پر جو مشکلات میں صبر وہ حوصلہ رکھتے ہو او راللہ تعالی کی راہ میں ہجرت اور جہات کرتے ہو بہت ہی مہربان اور بخشنے والا ہے''

لیکن ہجرت کس طرح ممکن ہے؟

اس شہر سے کہ جس میں بہت طویل مدت گزاری ہو اور اس سے مانوس ہوں کس طرح چلے جائیں؟

کیسے ہوسکتا ہے کہ گھر بار کو چھوڑ کر یک و تنہا ایک ایسے شہر کی طرف چلے جائیں جو ہمارے لئے بالکل اجنبی ہے؟

کس طرح چھوٹے بچّوں کو اتنے طویل اور سخت سفر میں ہمراہ لے جایا جائے_

اور کس طرح اس شہر میں کہ جس سے واقف نہیں زندگی گزاری جائے؟ نہ کسب اور نہ کوئی کام نہ کوئی آمدنی اور نہ ہی گھر یہ

یہ تمام مشکلات ان کی آنکھوں میں پھر گئیں_ لیکن اللہ کا وعدہ اور خدا پر توکل اور خدا کے راستے میں صبر ان تمام مشکلات اور سختیوں کو آسان کردیتا تھا_

لہذا خدا کے وعدے پر اعتماد اور خدا کی مدد سے ان فداکار مسلمانوں

۱۹۱

نے مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز کیا''

مشرکوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس وقت تک کافی زیادہ مسلمانوں مدینہ ہجرت کرچکے تھے_ لہذا دوسرے مسلمانوں کی ہجرت کرتے تھے بالخصوص رات کے وقت اور وہ بھی آدھی رات کے وقت جب نگرانی کرنے والے غفلت اور نیند میں ہوتے تھے تو وہ عام راستوں سے ہٹ کر سخت اور دشوار گزار راستہ کے ذریعہ پہاڑوں کے نشیب و فراز عبور کر کے زخمی پیروں اور جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ مدینہ پہنچتے تھے''

اس قسم کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفّار کی وحشت میں اور اضافہ کردیا وہ ڈرتے تھے کہ مسلمان مدینہ میں ایک مضبوط مرکز بنا کر ان پر حملہ نہ کردیں_ لہذا فوراً انہوں نے مٹینگ طلب کی تا کہ صلاح و مشورے اور سوچ بچار سے اس خطرے کے تدارک کے لئے کہ جس کا ان کو خیال تک نہ تھا خوب غور و خوض کریں_

اس اجلاس میں ایک مشرک نے گفتگو کی ابتداء ان الفاظ سے کی:

'' ہم سوچتے تھے کہ محمد(ص) کی آواز کو اپنے شہر میں خاموش کردیں گے لیکن اب خطرہ بہت سخت ہوگیا ہے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد(ص) سے عہد و پیمان باندھ لیا ہے جانتے ہوکیا

۱۹۲

ہوا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چند روز قبل عقبہ میں ایک اجلاس ہوا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ اکثر مسلمان مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں سے مل گئے ہیں؟ جانتے ہو کہ اگر محمد(ص) مدینہ کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو کتنا بڑا خطرہ ہمارے لئے پیدا ہوجائے گا؟ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں اس کا علاج سوچا جائے_ اگر اس خطرے کے تدارک کے لئے جلدہی کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور کوئی قطعی فیصلہ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ فرصت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور بہت جلد محمد(ص) بھی مدینہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے_

جانتے ہو اس کا علاج کیا ہے؟ صرف اور صرف محمد(ص) کا قتل_ اب ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ باقی ہے_ ایک بہادر آدمی کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ چھپ کر محمد(ص) کو قتل کردے اور اگر بنی ہاشم محمد(ص) کے خون کا مطالبہ کریں تو خون بہا ادا کردیا جائے یہی ایک راہ ہے اطمینان و سکون سے زندگی بسر کرنے کی''

ایک بوڑھا آدمی جو ابھی ابھی اجلاس میں شامل ہوا تھا اس نے کہا:

۱۹۳