قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 30%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71152 / ڈاؤنلوڈ: 5107
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

***

۴۱

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں میں نو

حہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین،

میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

***

۴۲

آنسوؤں کے موسم میں

اقبال ساجد

حُسین تیرے لیے خواہشوں نے خوں رویا

فضائے شہرِ تمنّا بہت اداس ہوئی

*

غبارِ ظلم پہ رنگِ شفق بھڑک اٹھا

زمیں پہ آگ بگولا گُلوں کی باس ہوئی

*

غموں کو کاشت کیا آنسوؤں کے موسم میں

یہ فصل اب کے بہت دل کے آس پاس ہوئی

*

وہ پیاس جس کو سمندر سلام کرتے ہیں

ہوئی تو تیرے لبوں سے ہی روشناس ہوئی

*

جو تُو نے خون سے لکھی حُسین وہ تحریر

کتابِ حق و صداقت کا اقتباس ہوئی

*

کبھی بجھا نہ سکے گی ترے چراغ کی لو

کہ جمع تیری امانت ہوا کے پاس ہوئی

*

دکھوں میں ڈوب گئی دشتِ کربلا کی سحر

ہوائے شام ترے غم میں بد حواس ہوئی

***

۴۳

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

*

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

*

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

*

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

*

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

*

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

*

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

*

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفیٰ سا ہے

***

۴۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

*

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

*

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

*

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

*

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

***

۴۵

فارغ بخاری

حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے

حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے

*

ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور

یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے

*

بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام

صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے

*

ترے لہو کا یہ ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے

ہوئی ہے عام شہادت کی آرزو تجھ سے

*

کبھی نہ جبر کی قوت سے دب سکا فارغ

ملی ہے ورثے میں یہ سر کشی کی خُو تجھ سے

***

۴۶

عطاء الحق قاسمی

جب بھی شام کو سورج ڈوبنے لگتا ہے

ایسے میں یہ دل بھی ڈولنے لگتا ہے

*

آنکھوں میں پھر جاتی ہے وہ سوہنی صورت

اور پھر دل پر خنجر چلنے لگتا ہے

*

اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں

خیموں میں کوئی بچہ رونے لگتا ہے

*

چاروں جانب گھیرا جھوٹ کے لشکر کا

سچ کا سایہ اس پر پھیلنے لگتا ہے

*

سچ کا سایہ حُر کی صورت سامنے ہے

وہ ہر دل پر دستک دینے لگتا ہے

*

حرص و ہوس کے بندے لیکن کیا جانیں

مرنے والا کیسے جینے لگتا ہے

*

لیکن تم مایوس نہ ہونا دل والو

دل جو سوچتا ہے وہ ہونے لگتا ہے

****

۴۷

خالد احمد

اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے

یہ خستگی تو اہلِ رضا کا لباس ہے

*

اے تشنگی، یہ حُسنِ محبت کے رنگ ہیں

اے چشمِ نم، یہ قافلۂ اہلِ یاس ہے

*

یہ عشق ہے کہ وسعتِ آفاقِ کربلا

یہ عقل ہے کہ گوشۂ دشتِ قیاس ہے

*

سایہ ہے سر پہ چادرِ صبر و صلوٰۃ کا

بادل کی آرزو ہے نہ بارش کی آس ہے

*

سوئے دمشق صبر کا سکہ رواں ہوا

اک رخ پہ ہے خراش تو اک رخ پہ لاس ہے

*

اے زینِ عابدین، امامِ شکستگاں

زنجیر زن ہواؤں میں کس خوں کی باس ہے

*

اے سر بلند و سر بہ فلک اہلِ دین و دل

مدفون کربلا میں ہماری اساس ہے

*

۴۸

تاجِ سرِ نیاز کا ہالہ ہے رفتگی

آہِ امامِ دل زدگاں آس پاس ہے

*

ممکن ہے کسطرح وہ ہماری خبر نہ لیں

ہر سانس، تارِ پیرہنِ التماس ہے

*

خالد شکست و فتح کے معنی بدل گئے

بازارِ شام ہے کہ شبِ التباس ہے

***

۴۹

محمد اعظم چشتی

جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین

نشانِ حق و صداقت ہے آستانِ حُسین

*

حدیثِ صدق و صفا، داستانِ صبر و رضا

بنائے شوقِ شہادت ہے آستانِ حُسین

*

جہاں میں مسکن و ماوا ہے اہلِ ایماں کا

دیارِ حُسنِ عقیدت ہے آستانِ حُسین

*

زمانہ کہتا ہے جس کو جمالِ لم یزلی

اسی جمال کی حجّت ہے آستانِ حُسین

*

نظر گئی مگر اب تک نہ لوٹ کر آئی

وہ برجِ اوجِ امامت ہے آستانِ حُسین

*

جو دیکھنا ہو تو میری نگاہ سے دیکھو

گناہ گاروں کی جنّت ہے آستانِ حُسین

*

یہیں سے جلتے ہیں اعظم حقیقتوں کے چراغ

ضیائے شمعِ نبوت ہے آستانِ حُسین

***

۵۰

رباعیات ۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

نغمۂ بربطِ کونین ہے فریادِ حُسین

جادۂ راہِ بقا مسلک آزاد حُسین

شوخیِ لالۂ رنگین ہے کہیں خونِ شفق

کس قدر عام ہوئی سرخیِ رودادِ حُسین

***

زندہ اسلام کو کیا تُو نے

حق و باطل کو دکھا دیا تُو نے

جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے

مر کے جینا سکھا دیا تُو نے

***

بڑھائی دینِ مُحمد کی آبرو تُو نے

جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے

چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر

عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بُو تُو نے

***

لب پہ جب شاہِ شہیداں ترا نام آتا ہے

ساقی بادۂ عرفاں لیے جام آتا ہے

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیتے

کھوٹا سکہ بھی تو آقا کبھی کام آتا ہے

****

۵۱

سبط علی صبا

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا

سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا

*

حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا

جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا

*

کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن

تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

*

کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا

کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا

*

حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو

وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا

*

حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا

بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

*

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو

غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا

***

۵۲

گردھاری پرشاد باقی

سلامی کربلا ہے اور میں ہوں

غمِ کرب و بلا ہے اور میں ہوں

*

کہا شہ نے نہیں کوئی رفیق اب

فقط ذاتِ خدا ہے اور میں ہوں

*

دیا ہے اپنا سر میں نے خوشی سے

قضا ہے یا رضا ہے اور میں ہوں

*

جو کچھ وعدہ کیا پورا کروں گا

یہ خنجر ہے گلا ہے اور میں ہوں

***

۵۳

نظم طباطبائی

چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں

پھیلی شعاع ہند میں چین و تتار میں

*

پہنچا ستارہ اوج پہ دینِ حُسین کا

اب تک تھا گردشِ فلکِ کج مدار میں

*

چونکیں ذرا یہود و نصاریٰ تو خواب سے

آئی نسیم صبحِ شبِ انتظار میں

*

وردِ زبانِ پاک صحیفہ ہے نور کا

اترا تھا جو خلیل پہ گلزارِ نار میں

*

ہے یاد دشت میں گہر افشانیِ کلیم

اور موعظ مسیح کا وہ کوہسار میں

*

موسیٰ کی رات کی مناجات طُور پر

داؤد کا وظیفہ وہ صبح بہار میں

*

بت ہو گیا ہے سنگ سرِ بت پرست پر

سرکہ بنی شراب کہن بادہ خوار میں

*

وہ جام پی کے اٹھ گئے پردے نگاہ سے

دریائے علم و نور کو پایا کنار میں

***

۵۴

ثروت حسین

کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

روشنی اب کے سوا آتی ہے

*

ساعتِ علم و خبر سے پہلے

منزلِ کرب و بلا آتی ہے

*

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا

شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

*

گریہ و گرد کا ہنگام نہیں

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے

*

پھر سرِ خاکِ شہیداں ثروت

پھول رکھنے کو ہوا آتی ہے

****

۵۵

صدائے استغاثہ

افتخار عارف

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گ

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا

صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز

سنائی دی تھی

جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی

یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی

بازگشت ہے

اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا

سامان کیا جاتا ہے

اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا

جاتا ہے

تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے

اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا

سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا

اور اب برسوں بیت گئے ہیں

۵۶

جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے

سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو

ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟

موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں؟

***

۵۷

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہ دار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہ دار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

*

۵۸

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

*

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

***

۵۹

شہزاد احمد

وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے

کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے

*

اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں

کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے

*

رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی

کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے

*

فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟

آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے

*

ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی

غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے

*

ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری

اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے

*

عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی

خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے

*

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(و اذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انّما نحن مصلحون) (۱۸۵)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

قرآن کریم منافقین کے سلسلہ میں دونوں مناظر (تحقیر افراد اور عدم تسلیم حق) کی تصریح کررھا ہے کہ وہ خود کو اہل فھم و فراست اور دیگر افراد کو سفیہ (احمق) سمجھتے ہیں اور اس وسیلہ سے اشخاص کی تحقیر کرتے ہیں۔

(و اذا قیل لهم آمنو کما آمن الناس قالوا أنؤمن کما آمن السفهاء) (۱۸۶)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان اختیار کرلیں؟

منافقین کے بارے میں عدم تسلیم حق کی تصویر کشی کرتے ہوئے خدا ان کو خشک لکڑیوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔

(کأنّهم خشب مسنّدة) (۱۸۷)

گویا سوکھی لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگادی گئی ہیں۔

----------

۱۸۵. سورہ بقر/۱۱۔

۱۸۶. سورہ بقرہ/۱۳۔

۱۸۷. سورہ منافقون/۴۔

۱۲۱

۲) خوف و ھراس

قرآن کریم منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کے سلسلہ میں دوسری صفت خوف و ھراس کو بتا رہا ہے، قرآن ان کو بے حد درجہ ھراساں و خوف زدہ بیان کررھا ہے، اصول کی بنا پر شجاعت و شھامت، خوف وحشت کا ریشہ ایمان ہوتا ہے، جہاں ایمان کا وجود ہے دلیری و شجاعت کا بھی وجود ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

((لایکون المومن جبانا)) (۱۸۸)

مومن بزدل و خائف نہیں ہوتا ہے۔

قرآن مومنین کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے ان کی شجاعت اور مادی قدرت و قوت سے خوف زدہ نہ ہونے کی تصریح کر رہا ہے۔

(…… وانّ الله لا یضیع اجر المؤمنین الذین استجابوا لِلّٰه والرسول من بعد مَا اصابهم القرح للّذین احسنوا منهم واتقوا اجر عظیم الذین قال لهم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا و قالوا حسبنا لله و نعم الوکیل) (۱۸۹)

خداوند عالم صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا (خواہ شھیدوں کے اجر کو اور نہ ہی مجاہدوں کے اجر کو جو شھید نہیں ہوئے ہیں) یہ صاحبان ایمان ہیں جنھوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کھا (میدان احد کے زخم بہبود بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حمراء الاسد میدان کی طرف حرکت کرنے لگے) ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ عظیم اجر ہے، یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لھذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ھوگیا اور انھوں نے کہا کہ ھمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ھمارا ذمہ دار ہے۔

----------------

۱۸۸. بحار الانوار، ج۶۷، ص۳۶۴۔

۱۸۹. سورہ آل عمران/ ۱۷۳، ۱۷۱۔

۱۲۲

حقیقی صاحبان ایمان کی صفت شجاعت ہے لیکن چونکہ منافقین ایمان سے بالکل بے بھرہ مند ہیں، ان کے نزدیک خدا کی قوت لایزال وبی حساب پر اعتماد و توکل کوئی مفھوم و معنا نہیں رکھتا ہے لھذا ہمیشہ موجودہ قدرت سے خائف و ھراساں ہیں خصوصاً میدان جنگ کہ جہاں شھامت، سرفروشی، ایثار ہی والوں کا گذر ہے، وھاں سے ہمیشہ فرار اور دور ہی سے جنگ کا نظارہ کرتے ہیں اور نتیجہ کے منتظر ھوتے ہیں۔

(فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور أعینهم کا الذی یغشی علیه من الموت) (۱۹۰) جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی جیسے موت کی غشی طاری ھو۔

سورہ احزاب کی آٹھویں آیت سے پینتیسویں آیت، جنگ خندق کے سخت حالات و مسائل سے مخصوص ہے، ان آیات کے ضمن میں چھ مرتبہ صداقت کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ بعض افراد کے خوف و ھراس کو بھی بیان کیا گیا ہے، جنگ احزاب اپنے خاص شرائط (زمانی و مکانی) کی بنا پر مومنین کی ایمانی صداقت اور منافقین کے جھوٹے دعوے کو پرکھنے کے لئے بھترین کسوٹی و محک ہے۔

------------

۱۹۰. سورہ احزاب/۱۹۔

۱۲۳

ایمان میں صادق افراد کا ذکر آیت نمبر تئیس اور چوبیس میں ھورھا ھے:

(من المؤمنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظرو ما بدّلوا تبدیلا لیجزی الله الصادقین بصدقهم و یعذب المنافقین ان شاء او یتوب علیهم ان الله کان غفورا رحیما) (۱۹۱)

مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہے جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دیکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے تا کہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاھے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرے اللہ یقیناً بھت بخشنے والا اور مھربان ہے۔

ان آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ایمان میں صادق سے مراد دین کی راہ میں جھاد و شھادت ہے بعض افراد نے شھادت کے رفیع مقام کو حاصل کرلیا ہے اور بعض اگر چہ ابھی اس عظیم مرتبہ پر فائز نہیں ہوئے ہیں لیکن شجاعت و شھامت کے ساتھ ویسے ہی منتظر و آمادہ ہیں، اسی سورہ کی آیت نمبر بیس میں خوبصورتی کے ساتھ منافقین کے اضطراب و خوف کو میدان جنگ کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے، آیت اور اس کا ترجمہ اس سے قبل پیش کیا جاچکا ہے۔

-----------

۱۹۱. سورہ احزاب ۳۲، ۲۴۔

۱۲۴

۳) تشویش و اضطراب

منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں سے، تشویش و اضطراب بھی ہے چونکہ ان کا باطن ظاہر کے بر خلاف ہے لھذا ہمیشہ اضطراب کی حالت میں رہتے ہیں کہیں ان کے باطن کے اسرار افشانہ ہوجائیں اور اصل چھرہ کی شناسائی نہ ھوجائے جس شخص نے بھی خیانت کی ہے یا خلافِ امر شی کا مرتکب ہوا ہے اس کے افشا سے ڈرتا ہے اور تشویش و اضطراب میں رہتا ہے عربی کی مثل مشھور ہے "الخائن خائف" خائن خوف زدہ رہتا ہے، دوسرے یہ کہ منافقین نعمت ایمان سے محروم ہونے کی بنا پر مستقبل کے سلسلہ میں کبھی بھی امید واری و در خشندگی کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں اور اپنے انجام کار سے خائف اور ھراساں رہتے ہیں اس کے برخلاف صاحبان ایمان یاد الہی اور اپنے ایمان کی بنا پر اطمینان و سکون سے ھمکنار رہتے ہیں۔

(ألا بذکر الله تطمئن القلوب) (۱۹۲)

آگاہ ھوجاؤ کہ ذکر خدا ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔

منافقین اپنی خیانت کارانہ حرکات کی وجہ سے اضطراب و تشویش کی وادی میں پڑے رہتے ہیں لھذا ہر قسم کی افشا گری و تھدید کی آواز کو اپنے خلاف ہی تصور کرتے ہیں۔

(یحسبون کل صیحة علیهم) (۱۹۳)

یہ ہر فریاد کو اپنے خلاف ہی گمان کرتے ہیں۔

-------------

۱۹۲. سورہ رعد/۲۸۔

۱۹۳. سورہ منافقون/۴۔

۱۲۵

منافقین کی دائمی کوشش یہ رھتی ہے کہ جس طرح سے بھی ہو خود کو مومنین کی صفوں میں داخل کریں اور صاحبان ایمان کو مطمئن کرادیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں لیکن ہمیشہ پریشان خیال رہتے ہیں کہ کہیں رسوا و ذلیل نہ ہوجائیں۔

(و یحلفون بالله انهم لمنکم و ماهم منکم و لکنهم قوم یفرقون) (۱۹۴)

اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں یہ لوگ بزدل ہیں۔

ان کے ھراسان و پریشان رھنے کی کیفیت یہ ہے کہ جب بھی کوئی جدید آیت کا نزول ہوتا ہے تو ڈرتے ہیں کہ کہیں وحی کے ذریعہ ھمارے اسرار فاش نہ ھوجائیں، اس نکتہ کو قرآن کریم صراحت سے بیان کررھا ہے اور تاکید کررھا ہے کہ راہ نفاق کا انجام خیر نہیں ھوسکتا، اگر چہ چند روز اپنے باطن کو چھپانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سر انجام رسوا و ذلیل ھوکر رھیں گے۔

(یحذر المنافقون ان تنزل علیهم سورة تنبّئهم بما فی قلوبهم قل استهزئوا ان الله مخرج ما تحذرون) (۱۹۵)

منافقین کو یہ خوف بھی ہے کہ کہیں کوئی سورہ نازل ھوکر مسلمانوں کو ان کے دل کے حالات سے باخبر نہ کردے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم اور مزاق اڑاؤ اللہ بھر حال اس چیز کو منظر عام پر لے آئے گا جس کا تمھیں خطرہ ہے۔

سورہ بقرہ کی آیات نمبر سترہ سے بیس تک میں منافقین کی کشمکش، ترس و اضطراب کی حالت، کو دو معنی خیز تشبیھوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔

-------------

۱۹۴. سورہ توبہ/۵۶۔

۱۹۵. سورہ توبہ/۶۴۔

۱۲۶

۴) لجاجت گری

منافقین کی چوتھی نفسیاتی خصوصیت لجاجت گری ہے لجاجت ایک روحی و نفسانی مرض ہے جو صحیح معرفت کے حصول میں اساسی مانع ہے معرفت شناسی میں اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے کہ بعض اخلاقی رذائل سبب ھوتے ہیں کہ انسان حقیقت تک نہ پہونچ سکے، جیسے بیھودہ تعصب، بغیر دلیل خاص، نظریہ پر اصرار، غلط آرزو اور خواہشات وغیرہ-------(۱۹۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام دو حدیث میں اس مطلب کو صراحتاً بیان فرما رہے ہیں:

((اللجاجة تسل الرای)) (۱۹۷)

لجاجت صحیح و مستحکم رای کو فنا کردیتی ہے۔

((اللجوج لا رای له)) (۱۹۸)

لجاجت گر فرد صحیح فکر و نظر کا مالک نہیں ھوتا۔

جو فرد لجاجت گری کی وادی میں سر گردان ہو وہ صاحب رای و نظر نہیں ھوسکتا ہے کیوں کہ لجاجت اس کی بینائی و دانائی پر ایک ضخیم پردہ ڈال دیتی ہے جس کی بنا پر لجاجت گر فرد تمام حقائق کو اپنی خاص نظر سے دیکھتا ہے لھذا ایسا فرد حق شناسی کے وسائل و نور حق کو اختیار میں رکھتے ہوئے بھی حقیقت تک نہیں پہونچ سکتا ہے چونکہ منافقین کا بنیادی منشا اپنی آمال و خواہشات کی تکمیل اور باطل راہ میں قدم رکھنا ہے لھذا کبھی بھی حق کو حاصل نہیں کرسکتا ہے، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

------------

۱۹۶. نظریۃ المعرفہ، ص۳۱۹۔

۱۹۷. نھج البلاغہ، حکمت، ۱۷۹۔

۱۹۸. میزان الحکمۃ، ج۸، ص۴۸۴۔

۱۲۷

((من کان غرضه الباطل لم یدرک الحق ولو کان اشهر من الشمس)) (۱۹۹)

جس کا بنیادی ھدف باطل ہو کبھی بھی حق کو درک نہیں کرسکتا ہے خواہ حق آفتاب سے روشن ترھی کیوں نہ ہو

قرآن مجید منافقین کی حالت لجاجت کو بیان کرتے ہوئے ان کی یوں توصیف کر رکھا ھے:

(صم بکم عمی فهم لا یرجعون) (۲۰۰)

یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے ھوگئے ہیں اور پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں۔

منافقین کی لجاجت سبب بن گئی کہ وہ نہ سن سکے جو سننا چاھئے تھا، نہ دیکھ سکے جو دیکھنا چاھئے تھا، نہ کہہ سکے جو کھنا چاھئے تھا، باوجودیکہ آنکھ، کان، زبان جو ایک انسانِ بااعتدال کے لئے صحیح ادراک کے وسائل ہیں، یہ بھی اختیار میں رکھتے ہیں لیکن ان کی لجاجت گری سبب ھوئی کہ عظیم نعمات سے محروم، اور جھالت کی وادی میں سر گرداں ہیں۔

منافقین کا بھرہ، اندھا، گونگا ہونا آخرت سے مخصوص نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے ہی ہیں، ان کا قیامت میں بھرہ، اندھا، گونگا ہونا ان کے حالات سے اسی دنیا میں مجسم ہے۔

(لهم قلوب لا یفقهون بها ولهم اعین لا یبصرون بها ولهم آذان لا یسمعون بها) (۲۰۱)

ان کے پاس دل ہے مگر سمجھتے نہیں ہیں، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں، کان ہیں مگر سنتے نھیں۔

مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہوئے کھا جاسکتا ہے منافقین اسی دنیا میں اپنی لجاجت کی بنا پر صحیح سماعت و بصارت، زبان گویا، حق کو درک اور بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتے ہیں، اور مدام باطل کے گرداب میں غوطہ زن ہیں۔

--------------

۱۹۹. غرر الحکم، نمبر ۸۸۵۳۔

۲۰۰. سورہ بقرہ/۱۸۔

۲۰۱. سورہ اعراف/۱۷۹۔

۱۲۸

ماحصل یہ ہے کہ منافقین کے فھم و شعور کے منافذ و مسلمات لجاجت پسندی کی بنا پر بند ھوچکے ہیں۔

قرآن مجید نفاق کی اس حالت کو (طبع قلوب) سے یاد کررھا ہے۔

(طبع الله علی قلوبهم فهم لا یعلمون) (۲۰۲)

خدا نے ان کے دلوں پر مھر لگادی ہے اور اب وہ لوگ کچھ جاننے والے نھیں۔

(فطبع علی قلوبهم فهم لا یفقهون) (۲۰۳)

ان کے دلوں پر مھر لگادی گئی ہے تو اب کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

جو مھر ان کے دلوں پر لگائی گئی ہے اس کا سبب یہ ہوگا کہ حق کی گفتگو سماعت نہ کرسکیں اور حق کی عدم قبولیت ان کی ہمیشہ کی روش بن جائے، البتہ یہ بات واضح ہے کہ طبع قلوب (دلوں پر مھر لگانا) کے اسباب خود انھوں نے فراھم کئے ہیں اور ان کے دلوں پر مھر لگنا خود ان کے افعال و کردار کا نتیجہ ہے۔

------------

۲۰۲. سورہ توبہ/۹۳۔

۲۰۳. سورہ منافقون/۳۔

۱۲۹

۵) ضعف معنویت

منافقین کی پانچویں نفسیاتی و نفسانی صفت جسے قرآن مجید بیان کررھا ہے معنویت میں ضعف و سستی کا وجود ہے، یہ گروہ ضعف بصارت کی بنا پر خدا سے زیادہ عوام اور لوگوں کے لئے حرمت و عزت کا قائل ہے۔

منافقین محکم و راسخ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے غیبی و معنوی قدرت پر بھی محکم و کامل ایمان نہیں رکھتے، ان کی ساری غیرت اور خوف فقط ظاہری ہے، عوام سے حیا کرتے ہیں، لیکن خدا کے محضر میں بے حیا ہیں چونکہ خود کو الہی محضر میں سمجھتے ہی نہیں اور خدا کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

(یستخفون من الناس ولا یستخفون من الله وهو معهم اذ یبیتون مالا یرضی من القول وکان الله بما یعلمون محیطاً) (۲۰۴)

یہ لوگ انسانوں کی نظروں سے اپنے کو چھپاتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپ سکتے ہیں جب کہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ رہتا ہے جب وہ ناپسندیدہ باتوں کی سازش کرتے ہیں اور خدا ان کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اگر ظاہر میں ایک عبادت انجام دیں یا ظواھر اسلامی کی رعایت کریں تو صرف عوام نیز لوگوں کی توجہ و اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے ورنہ ان کی عبادتیں ہر قسم کے مفھوم اور معنویت سے خالی ہیں۔

(ان المنافقین… اذا قاموا الی الصلوٰة قاموا کسالی یرائون الناس ولا یذکرون الله الا قلیلا) (۲۰۵)

منافقین---- جب نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ، لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں، اور اللہ کو بھت کم یاد کرتے ہیں۔

--------------

۲۰۴. سورہ نساء/۱۰۸۔

۲۰۵. سورہ نساء/۱۴۲۔

۱۳۰

(ولا یأتون الصلوٰة الا وهم کسالی) (۲۰۶)

اور یہ نماز بھی سستی اور تساھلی کے ساتھ بجالاتے ہیں۔

اگر چہ مذکورہ دونوں آیات میں منافقین کی ریا و کسالت (سستی) نماز کے موقع کے لئے بیان کی گئی ہے، لیکن علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں نماز، قرآن میں تمام معنویت کا محور و مرکز ہے لھذا اس نکتہ پر توجہ کرتے ہوئے دونوں آیت کا مفھوم یہ ہے کے منافقین تمام عبادت و معنویت میں بے حال و سست ہیں اور صاحبان ایمان کے جیسی نشاط و فرحت، سرور و شادمانی نہیں رکھتے ہیں۔

البتہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بھی منافقین کی عبادات کو بے معنویت اور سستی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(ولا ینفقون الا وهم کارهون) (۲۰۷)

اور راہ خدا میں کراھت و ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔

یہ آیت صراحتاً بیان کررھی ہے کہ ان کے انفاق کی بنا اخلاص و خلوص پر نہیں ہے، سورہ انفال میں بھی مسلمانوں کے مبارزہ و جھاد کی صف میں ان کی حرکات کو ریا سے تعبیر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس منافقانہ عمل سے دور رھنے کے لئے کھا گیا ھے:

(ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارهم بطرا و رئاء الناس) (۲۰۸)

اور ان لوگوں کے جیسے نہ ھوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نکلتے ہیں۔

------------

۲۰۶. سورہ توبہ/۵۴۔

۲۰۷. سورہ توبہ/۵۴۔

۲۰۸. سورہ انفال/۴۷۔

۱۳۱

بھر حال جن اشخاص نے دین کے اظھار کو قدرت طلبی، شیطانی خواہشات کے حصول کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے، ان کی رفتار و گفتار میں دین داری کی حقیقی روح نہیں ملتی ہے وہ عبادت کو خود نمائی کے لئے اور سستی سے انجام دیتے ہیں۔

۶) خواہشات نفس کی پیروی

منافقین کی چھٹی نفسیاتی خصوصیت، خواہشات نفسانی کی پیروی اور اطاعت ہے، منافقین حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور عقل و نقل کی پیروی اور اطاعت کرنے کے بجائے، امیال و خواہشات نفسانی کے تابع و پیروکار ہیں، صعیف اعتقاد نیز باطل اور نحس مقاصد کی بنا پر خدا پرستی و حق محوری ان کے لئے کوئی مفھوم و معنی نہیں رکھتا ہے وہ خواہشات نفسانی کے مطیع و خود محوری کے تابع ہیں۔

(اولئک الذین طبع الله علی قلوبهم واتبعوا اهوائهم) (۲۰۹)

یھی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مھر لگادی ہے اور انھوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کرلیا ہے۔

تکبر اور برتر بینی خواہشات نفسانی کی نمائش و علامت میں سے ایک ہے، خواہشات نفسانی کے دو آشکار نمونے، ریاست و منصب کی طلب اور دنیا پرستی ہے جو منافقین میں پائی جاتی ہے، مال و منصب کی محبت، نفاق کی جڑوں کو دلوں میں رشد اور مستحکم کرنے کے عوامل میں سے ہیں۔

-----------

۲۰۹. سورہ محمد/۱۶۔

۱۳۲

پیامبر عظیم الشان فرماتے ہیں:

((حب الجاه و المال ینبتان النفاق کما ینبت الماء البقل)) (۲۱۰)

مال دنیا اور مقام و منصب کی محبت، نفاق کو دل میں یوں رشد دیتی ہے جیسے پانی سبزے کو نشو نما دیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ ریاست و منصب قابل مذمت ہے جس کا مقصد و ھدف انسان ہو یہ وہی مقام پرستی ہے جو لوگوں کے دین کے لئے بھت بڑا خطرہ ہے۔

نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں کسی کا نام لیتے ہوئے کھا گیا وہ منصب و مقام پرست ہے، آپ نے فرمایا:

((ما ذئبان ضاریان فی غنم قد تفرق رعاؤهابأ ضرّ فی دین المسلم من الریاسة)) (۲۱۱)

دو خونخوار بھیڑیوں کا خطرہ ایسے گلہ کے لئے جو بغیر چوپان کے ہو اس خطرہ سے زیادہ نہیں، جو خطرہ مسلمان کے دین کو ریاست طلبی و مقام پرستی سے ہے۔

لیکن وہ مال و مقام جو اپنی اور اپنے خانوادے کی زندگی کی بھتری نیز مخلوق خدا کی خدمت اور پرچم حق کو بلند و قائم کرنے اور باطل کو ختم کرنے کے لئے ھو، وہ قابل مذمت نہیں ہے بلکہ عین آخرت اور حق کی راہ میں قدم بڑھانا ہے، شاید کبھی واجب بھی ھوسکتا ہے۔

-------------

۲۱۰. المحجۃ البیضاء، ج،۶، ص، ۱۱۲۔

۲۱۱. بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۴۵۔

۱۳۳

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی پیوند زدہ اور بے قیمتی نعلین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن عباس کو خطاب کرکے فرماتے ہیں:

((والله لهی احب الی من امرتکم الا ان اقیم حقا او ادفع باطل)) (۲۱۲)

خدا کی قسم! یہ بی قیمت نعلین مجھے تمھارے اوپر حکومت سے زیادہ عزیز ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعہ کسی حق کو قائم کرسکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔

اس بنا پر اسلام میں اپنے اور خانوادے کی معاشی زندگی کے لئے کوشش و تلاش کو راہ خدا میں جھاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔

((الکاد علی عیاله کالمجاهد فی سبیل الله)) (۲۱۳)

جو فرد بھی اپنے خانوادے کی امرار معاش کے لئے کوشش وسعی کرتا ہے وہ مجاھد راہ خدا ہے

دوسرے افراد کی خدمت گذاری کو بھی بھترین افعال میں شمار کیا گیا ہے۔

((خیر الناس انفعهم للناس)) (۲۱۴)

بھترین فرد وہ ہے جس سے بیشتر فائدہ لوگوں کو پھنچتا ہے۔

لیکن منافقین کے اھداف فقط دنیا کے اموال، مناصب و اقتدار پر قبضہ کرنا ہے، دوسروں کی خدمت مدنظر نہیں ہے، اور اپنے اس پست و حقیر مقصد کے حصول کی خاطر تمام اسلامی و انسانی اقدار کو پامال کرنے کے لئے حاضر ہیں۔

-------------

۲۱۲. بھج البلاغہ، خطبہ۳۳۔

۲۱۳. بحار الانوار، ج۹۶، ص۳۲۴۔

۲۱۴. مستدرک الوسایل، ج۱۲،ص۳۹۱۔

۱۳۴

مدینہ کے منافقین کا سرغنہ، عبد اللہ ابن ابی کا باطنی مرض یہ تھا کہ جب اس نے اپنی ریاست کے دست و بازو قطع ھوتے دیکھے تو تمام خیانت کاری و پست فطرتی کا مظاہرہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مسلمانوں پر کرنے لگا کہ شاید ھاتھ سے جاچکا مقام و منصب دوبارہ حاصل ہوجائے۔

منافقین کی دنیا طلبی کی شدید خواہش کی کیفیت کو قرآنی آیات نے بخوبی بیان کیا ہے، قرآن کریم اکثر موارد پر اس نکتہ کو بیان کررھا ہے کہ منافقین اگر چہ میدان جنگ میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرتے لیکن جنگ ختم ھوتے ہی غنائم کی تقسیم کے وقت میدان میں حاضر ہوجاتے ہیں، اور اپنے سھم کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں اس موضوع سے مربوط بعض آیات کو منافقین کی موقع پرستی کی بحث میں بیان کیا جاچکا ہے۔

۷) گناہ کی تاویل گری

منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کی ساتویں کڑی، گناہ کی توجیہ و تاویل گری ہے اس سے قبل اشارہ کیا گیا ہے کہ منافقین کی تمام سعی لا حاصل یہ ہے کہ اپنے باطن اور پلید نیت کو مخفی کرکے، اور جھوٹی قسمیں کھاکر، ظواھر کی آراستگی کرتے ہوئے خود کو صاحبان ایمان واقعی کی صفوف میں شامل کرلیں۔

۱۳۵

اگر چہ صدر اسلام میں ایسا ممکن ھوسکا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے باطن کو مخفی نہیں رکھ سکتے چونکہ ان سے بعض اوقات ایسے افعال و اعمال صادر ہوجاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے مومنین ان کے ایمان میں شک کرنے لگتے ہیں لھذا منافقین، اس لئے کہ مسلمانوں کی نظروں سے نہ گر جائیں، نیز مسلمانوں کا اعتماد ان سے سلب نہ ھوجائے اپنے کردار اور برے افعال کی عام پسند توجیہ و تاویل کرنے لگتے ہیں۔

(فکیف اذا اصابتهم مصیبة بما قدمت ایدیهم ثم جاؤوک یحلفون بالله ان اردنا الا احسانا و توفیقا اولئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فأعرض عنهم و عظهم و قل لهم فی انفسهم قولا بلیغا) (۲۱۵)

پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ھوگی وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ھمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا یھی وہ لوگ ہیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا ہے لھذا آپ ان سے کنارہ کش رھیں انھیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی موقع و محل سے مربوط بات کریں۔

جھاد و معرکہ کا میدان ان مقامات میں سے ہے جہاں منافقین حاضر ھوتے ہوئے بے حد درجہ خائف و ھراساں رہتے ہیں لھذا جھاد میں شریک نہ ہونے کی خاطر (جھاد میں عدم شرکت عظیم گناہ ھے) عذر تراشی کرتے ہوئے تاویل و توجیہ کیا کرتے تھے ذیل کی آیت میں ایک منافق کی جنگ تبوک میں عدم شرکت کی عذر تراشی اور تاویل کو بیان کیا گیا ہے۔

(ومنهم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین) (۲۱۶)

ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو آگاہ ھوجاؤ کہ یہ واقعاً فتنہ میں گر چکے ہیں اور جھنم تو کافرین کو ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔

------------

۲۱۵. سورہ نساء/ ۶۲، ۶۳۔

۲۱۶. سورہ توبہ/۴۹۔

۱۳۶

اس آیت کی شان نزول کے لئے بیان کیا گیا ہے کسی قبیلہ کا ایک بزرگ جو منافقین کے ارکان میں تھا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاھی کہ جنگ تبوک میں شرکت نہ کرے اور عدم شرکت کی وجہ اور دلیل یہ بیان کی کہ اگر اس کی نطریں رومی عورتوں پر پڑے گی تو ان پر فریفتہ اور گناھوں میں مبتلا ھوجائے گا، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرمادی کہ وہ مدینہ ہی میں رھے، اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ھوئی جس نے اس کے باطن کو افشا کر کے رکھ دیا اور خداوند عالم نے اسے جنگ میں عدم شرکت کی بنا پر عصیان گر اور فتنہ میں غریق فرد سے تعبیر کیا ہے(۲۱۷) ، منافقین کے دوسرے وہ افراد جو جنگ احزاب میں شریک نہیں ہوئے تھے ان کا عذر یہ تھا کہ وہ اپنے گھر اور مال و دولت کے تحفظ سے مطمئن نہیں ہیں، ذیل کی آیت ان کی پلید فکر کو فاش کرتے ہوئے ان کی عدم شرکت کے اصل مقصد کو جنگ سے فرار بیان کیا ہے۔

(ویستاذن فریق منهم النبی یقولون ان بیوتنا عورة وما هی بعورة ان یریدون الا فرارا) (۲۱۸)

اور ان میں سے ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ھمارے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر خالی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررھے تھے۔

بھر حال گناہ کی تاویل و توجیہ خود عظیم گناہ ہے جس کے منافق مرتکب ھوتے رہتے تھے بسا اوقات ممکن ہے منافقین سیدھے، سادے و زور باور و مومنین کو فریب دیدیں، لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ خدا ہر اس شی سے جو وہ اپنے قلب کے اندر مخفی کئے ہوئے ہیں آگاہ ہے ان کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی دوزخ کے عذاب سے ان کا استقبال کیا جائے گا، یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ منافقین کی تاویل و توجیہ کا سلسلہ صرف فردی مسائل سے مختص نہیں بلکہ اجتماعی و معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی مسائل میں بھی تاویل و توجیہ کرتے رہتے ہیں کہ اس موضوع پر بھی بحث ھوگی۔

--------------------------

۲۱۷. مجمع البیان، ج۳، ص۳۶۔

۲۱۸. سورہ احزاب/۱۳۔

۱۳۷

فصل چھارم: منافقین کی ثقافتی (کلچرل) خصائص

۱۔ خودی اور اپنائیت کا اظھار

۲۔ دینی یقینیات کی تضعیف

خودی اور اپنائیت کا اظھار

منافقین کو اپنی تخریبی اقدامات جاری رکھنے کے لئے تاکہ صاحب ایمان حضرات کی اعتقادی اور ثقافتی اعتبار سے تخریب کاری کرسکیں، انھیں ہر چیز سے اشد ضرورت مسلمانوں کے اعتماد و اعتبار کی ہے تاکہ مسلمان منافقین کو اپنوں میں سے تصور کریں اور ان کی اپنائیت میں شک سے کام نہ لیں، اس لئے کہ منافقین کے انحرافی القائات معاشرے میں اثر گذار ہوں اور ان کے منحوس مقاصد کی تکمیل ھوسکے۔

ان کی تمام سعی و کوشش یہ ہے کہ خود معاشرے میں اپنائیت کی جلوہ نمائی کرائیں، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں اگر ان کے باطن کا افشا، اور ان کے اسرار آشکار ھوگئے تو کوئی شخص بھی منافقین کی باتوں کو قبول نہیں کریگا اور ان کی سازشیں جلد ہی ناکام ہوجائیں گی، ان کے راز افشا ہونے کی بنا پر اسلام کے خلاف ہر قسم کی تبلیغی فعالیت، نیز سیاسی سر گرمی سے ھاتھ دھو بیٹھیں گے، لھذا منافقین کا بنیادی اور ثقافتی ھدف اپنے خیر خواہ ہونے کی جلوہ نمائی اور عمومی مسلمانوں کے اعتماد کو کسب کرنا ہے اور یہ بھت عظیم خطرہ ہے کہ افراد و اشخاص، بیگانے اور اجنبی شخص کو اپنوں میں شمار کرنے لگیں، اور معاشرہ میں خواص کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے،

۱۳۸

ثقافتی حادثہ اس وقت وجود میں آتا ہے کہ جب مسلمین منافقین کی ثقافتی روش طرز سے آشنائی نہ رکھتے ہوں اور ان کو اپنا دوست بھی تصور کریں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مختلف افراد کے ظواھر پر اعتماد کرنے کے خطرات اور اشخاص کی اھمیت پر توجہ کرنے کی ضرورت کے متعلق فرماتے ہیں۔

((انما اتا کبا لحدیث اربعة رجال لیس لهم خامس رجل منافق مظهر للایمان متصنع بالاسلام لا یتأثم ولا یتحرج یکذب علی رسول الله متعمدا فلو علم الناس انه منافق کاذب لم یقبلوا منه ولم یصدقوا قوله ولکنهم قالوا صاحب رسول الله رآه وسمع منه و لقف عنه فیاخذون بقوله) (۲۱۹)

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان کرنے والے چار طرح کے افراد ھوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظھار کرتا ہے اسلام کی وضع و قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افترا میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ھوجائے کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو یقیناً اس کے بیان کی تصدیق نہیں کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہیں انھوں نے حضور کو دیکھا ہے ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اسی طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہے۔

----------------

۲۱۹. نھج البلاغہ، خطبہ ۲۱۰۔

۱۳۹

اظھار اپنائیت کے لئے منافقین کی راہ و روش

منافقین اظھار اپنائیت کے لئے مختلف روش و طریقے سے استفادہ کرتے ہیں، چونکہ یہ مبدا و معاد پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں، لھذا راہ و روش کی مشروعیت یا عدم جواز ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا، اور ان کے نزدیک قابل بحث بھی نہیں ہے ان کی منطق میں ھدف کی تحصیل و تکمیل کے لئے، ہر وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خواہ وسائل ضد انسانی ہی کیوں نہ ہوں یھاں منافقین کی اظھار اپنائیت کے سلسلہ میں فقط پانچ طریقوں کی جانب اشارہ کیا جارھا ہے۔

۱) کذب و ریاکاری کے ذریعہ اظھار کرنا

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے نفاق کا اصلی جو ہر کذب اور اظھار کا ذبانہ ہے منافقین اظھار اپنائیت کے لئے وسیع پیمانہ پر حربۂ کذب سے استفادہ کرتے ہیں کبھی اجتماعی اور گروھی شکل میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں، خداوند عالم با صراحت ان کو اس اقرار میں کاذب تعارف کراتا ہے اور پیامبر عظیم الشان سے فرماتا ہے، اگر چہ تم واقعاً فرستادہ الہی ہو لیکن وہ اس اقرار میں کاذب ہیں اور دل سے تمھاری رسالت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔

(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون) (۲۲۰)

پیامبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواھی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔

----------------

۲۲۰. سورہ منافقون/۱۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193