قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 40%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71134 / ڈاؤنلوڈ: 5105
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف : خاتمی، سید احمد

مترجم / مصحح : سید نوشاد علی نقوی خرم آبادی

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت (ع)

نشر کی جگہ : قم (ایران)

نشر کا سال : ۲۰۰۶

جلدوں کی تعداد : ۱

صفحات : ۲۵۱

سائز : رقعی

زبان : -

۱

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ وراہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں۔

چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ وآلم وسلم غار حرا سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگھی کی پیاسی ایک دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل، فطرت انسانی سے ہم آھنگ ارتقاء بشریت کی ضرورت تھا۔

اس لئے تیئیس برس کے مختصر سے عرصے میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تھذیبیں اسلامی اقدار کے سامنے ماند پڑ گئیں، وہ تھذیبی اصنام صرف جو دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذاھب عقل و آگاھی سے رو برو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاھب اور تھذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۲

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ گراں بھا میراث کو جس کی اھلبیت علیہم السلام اور ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرندان اسلام کی بے توجھی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ھوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا، چودہ سال کے عرصہ میں بھت سے ایسے جلیل القدر علماء اور دانشور دنیائے اسلام کو پیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناھی کی ہے ہر دور اور زمانہ میں ہر قسم کے شکوک و شبھات کا ازالہ کیا ہے۔

خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاھیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ھوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذھبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بیتاب ہیں۔

یہ زمانہ علمی و فکری مقابلہ کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بھتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام (عالمی اہل بیت کونسل) نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت علیہم السلام عصمت وطھارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجھتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں بھتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کریں۔

۳

موجودہ دنیاء بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے، زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ھوسکے۔

ھمیں یقین ہے، عقل و خرد پر استوار ماھرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طھارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علم بردار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث، اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کی دشمن، انانیت کی شکار، سامرا جی خونخواروں کی نام نھاد تھذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جھالت سے تھکی ماندی آدمیت کو، امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنٰی خدمت گار تصور کرتے ہیں۔

زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے فاضل علام حجۃ الاسلام و المسلمین "سید احمد خاتمی" کی گراں قدر کتاب قرآن اور چھرہ نفاق کو فاضل جلیل مولانا "سید نوشاد علی نقوی خرم آبادی" نے اردو زبان میں اپنے سے قلم آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار اور مزید توفیقات کے آرزو مند ہیں۔

اس منزل میں ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنٰی جھاد رضائے مولٰی کا باعث قرار پائے۔ والسلام مع الکرام

مدیر امور ثقافت: مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام

۴

عرض مترجم

((نٓ و القلم و ما یسطرون))

ابراہیم زمن، شہنشاہیت شکن، حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت و رہبری میں رونما ہونے والا عظیم اسلامی انقلاب جس نے افکار شرق اور سیاست غرب کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا، جس نے عالم اسلام کو نئی حیات و وقار عطا کیا، اس انقلاب کی کامیابی کے بعد، اسلامی تھذیب و تمدن، فرھنگ و ثقافت، افکار و اخلاق کو اہل جہاں تک پہونچانے کے لئے، جہاں اور اہم اسلامی ادارے وجود میں آئے، مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی صفحۂ ھستی پر قدم رکھا اس عالمی ادارہ کے بلند اغراض و مقاصد میں سے ایک، معارف اہل بیت علیہم السلام کے تشنگان کو سیراب کرنا ہے، اس مقدس ھدف و مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دنیا کی ھزاروں رائج زبانوں میں اہل بیت اطھار علیہم السلام کے افکار و اخلاق، افعال و گفتار، رفتار و کردار کو تحریری شکل میں پیش کیا جاتا ہے اسی رائج زبانوں میں ایک اردو بھی ہے، اس عالمی ادارے کی طرف سے اردو زبان میں اب تک قابل توجہ اعداد میں کتب شائع ھوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔

آپ کے پیش نظر کتاب "قرآن اور چھرہ نفاق" فارسی کتاب "سیمای نفاق در قرآن" کا اردو ترجمہ ہے، حقیر نے تمام ھمت کے ساتھ کوشش کی ہے کہ مطلب و مفھوم کتاب کو سادے، آسان، عام فھم الفاظ میں پیش کرے، غیر مانوس اور ذھن گریز کلمات سے پرہیز کیا گیا ہے۔

۵

یہ کتاب موضوع نفاق پر ایک جامع و کامل دستاویز ہے جو آپ کے ھاتھوں میں ہے، یہ کتاب صاحبان ایمان کی خدمت میں خصوصی ھدیہ ہے اس لئے کہ ایمان اس وقت تک کامل نہیں ھوسکتا جب تک اجر رسالت کی ادائگی نہ ھو، اجر رسالت اس وقت تک ادا نہیں ھوسکتا جب تک اہل بیت اطھار علیہم السلام سے محبت و مودت نہ کی جائے(۱) ان حضرات سے محبت و مودت نہیں ھوسکتی جب تک کہ ان کے دشمنوں کی شناخت کرتے ہوئے ان سے اور ان کے افعال و کردار سے نفرت نہ کی جائے، اور یہ ممکن ہی نہیں جب تک نفاق کی آشنائی کا حصول نہ ھوجائے، اس لئے کہ نفاق کی شناخت اہل بیت اطھار علیہم السلام کے دشمنوں کی شناخت ہے۔

اگر یہ نفاق نہ ہوتا تو امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کا حق غصب نہ کیا گیا ھوتا، ام ابیہا فاطمہ زھرا صلوات اللہ علیہا کے شکم و بازو پر جلتا ہوا دروازہ نہ گرایا گیا ھوتا، قرۃ عین رسول اللہ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم امام حسن مجتبی علیہ السلام کے جنازے پر تیروں کی بارش نہ ہوتی اور کربلا کے میدان میں"حسین منی و انا من الحسین" کا تن تنھا مصداق تین دن کا تشنہ لب شھید نہ کیا گیا ھوتا۔

اگر نفاق کے اقدامات نہ ھوتے تو آج کرۂ ارض کی وضعیت و کیفیت کچھ اور ھوتی، جھانی و عالمی معاشرے کا رنگ و روپ کچھ اور ہی ھوتا، آج عالم اسلامی کی ذلت و پستی کی شناخت اور اعدا اسلام کی پیش قدمی اس نفاق کے عملی اقدام کا نتیجہ ہے۔

شناخت نفاق کا ما حصل اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی شناخت ہے اور ان کے دشمنوں کی شناخت تبرّا کے قالب میں جزء فروع دین ہے، فروع دین کے اجزا کی بجا آوری تکمیل ایمان کا سبب ہے۔

----------------------

(۱): سورہ شوری/ ۲۳۔(قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربی)

۶

لہذا استاد محترم حجۃ الاسلام و المسلمین سید احمد خاتمی دام ظلہ العالی کی کتاب "قرآن اور چھرۂ نفاق"، ایمان کو جلا، فکر کو مستحکم، عمل کو قوی، دائرہ ایمان کو وسیع کرنے کے لئے معاون و مدد گار ثابت ھوگی استاد معظم نے دقیق مطالب، شائستہ انداز، زمان و مکان سے تطابق کرتے ہوئے جامع و کامل کتاب تحریر فرمائی ہے۔

آپ آشیانۂ آل محمد علیہم السلام، مرکز تشیع، بستان علم، گلشن فقاھت، حوزہ علمیہ قم جمھوری اسلامی ایران کے ستارہ فروزان ہیں آپ کو علوم اسلامی میں تجرّ حاصل ہے، علم اصول و فقہ و تفسیر قرآن کے ھزاروں تربیت کردہ آپ کے شاگرد خدمات اسلام و قرآن انجام دے رہے ہیں۔

بھر حال بندہ کے لئے باعث افتخار ہے کہ ایسے عظیم المرتبت گراں قدر عالم و فاضل و جلیل کی کتاب کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ھوں، معانی و مفاھیم کو منتقل کرنے میں کتنا کامیاب رہا ہوں وہ تو قارئین ہی بتا سکتے ہیں البتہ اس کتاب کو ادبی محک سے نہ پرکھا جائے کیوں کہ کسی ادیب کے ذریعہ ترجمہ شدہ نہیں، لھذا خطا و غلطی کو دامن عفو میں جگہ دیں گے۔

سید نوشاد علی نقوی خرم آبادی

حوزہ علمیہ قم المقدسہ

۷

مقدمہ مصنف

بصیرت و نظر، دینی معاشرے کے لئے بنیادی ترین معیار رشد و کمال ہے، دینی معاشرہ میں فضا سازی، طلاطم آفرینی، معرکہ آرائی، سخن اوّل نہیں ھوتے بلکہ سخن اوّل بصیرت و نظر ہے، دعوت حق کے لئے، بصیرت لازم ترین شرط ہے، اللہ کی طرف دعوت دھندگان کو چاھئے کہ خود کو اس صفت سے آراستہ کریں:

(قل هذه سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة انا و من اتّبعنی) (۲)

آپ کہہ دیجئے یھی میرا راستہ ہے، میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ھوں، اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے۔

بصیرت و دانائی کثیر الجھت و مختلف زوایا کی حامل ہے، خدا، نبی (ص) و امام علیہ السلام کی معرفت، قیامت کی شناخت اور وظائف سے آشنائی وغیرہ------

دشمن کی معرفت و، اہم ترین زاویہ بصیرت پر مشتمل ہے، اس لئے کہ قرآن میں اکثر مقام پر خدا کی وحدانیت و عبودیت کی دعوت کے بعد یا اس کے قبل بلا فاصلہ، طاغوت سے انکار(۳) طاغوت سے پرہیز(۴) عبادت شیطان سے کنارہ کشی(۵) کی گفتگو ہے، کبھی دشمن شناختہ شدہ ہے، علی الاعلان، دشمنی کے بیز کو اٹھائے ہوتا ہے، اس صورت میں گرچہ دشمن سے ٹکرانے میں بھت سی مشکلات و سختی کا سامنا ہے، لیکن فریب و اغوا کی صعوبتیں نہیں ہیں۔

---------------------

۲. سورہ یوسف /۱۰۸۔

۳. سورہ بقرہ/ ۲۵۶۔

۴. سورہ نحل/ ۳۶۔

۵. سورہ یس/ ۶۰۔

۸

لیکن کبھی دشمن ایسے لباس ایسے رسم و رواج میں ظھور پذیر ہوتا ہے، جسے سماج و معاشرہ، مقدس سمجھتا ہے، مخالفت دین کا پرچم اٹھائے نہیں ھوتا، بلکہ اپنی منافقانہ رفتار و گفتار کے ذریعہ خود کو دین کا طرف دار و مروّج، دین کا پاسبان و نگھبان ظاہر کرتا ہے۔

اس حالت میں دشمن سے مبارزہ و مقابلہ کی سختی و مشکلات کے علاوہ دوسری مشکلات و صعوبتیں بھی عالم وجود میں آتی ہیں، جو اصل مقابلہ و مبارزہ سے کہیں زیادہ اور کئی برابر ھوتیں ہیں، اور وہ مشکلات عوام فریبی، اثر گذاری اپنے ہی فریق و دستہ پر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ناکثین، قاسطین، مارقین سے حرب و جنگ، ان جنگوں کی بہ نسبت سخت ترین و مشکل ترین تھی جو پیامبر عظیم الشان نے بت پرستوں و مشرکوں سے کی تھی۔

اس لئے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مد مقابل وہ گروہ تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد، لیکن امام علی علیہ السلام کا ان افراد سے مقابلہ تھا جن کو بھت سے جھادوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم رکاب جونے کا تمغہ حاصل تھ(۶) اور جانباز اسلام کھلاتے تھے(۷) ان افراد سے مقابلہ تھا جن کے درخشاں ماضی کو دیکھتے ہوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعریف و تمجید کی تھی(۸)

-------------------

۶. جناب زبیر کے قتل کے بعد ان کی شمشیر کو امام علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا۔ امام نے فرمایا: "سیف طالما جلی الکرب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" یہ وہ شمشیر ہے جس نے رسول خدا کے چھرہ سے ھزاروں غم کو دور کئے۔ (مروج الذھب۔ ج۲۔ ص۳۶۱۔ سفینۃ البحار کلمہ زبر) ۔

۷. جناب طلحہ، اکثر معرکے خصوصاً احد و خندق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم رکاب و ہم کار زار تھے جنگ احد میں سر پر ضرب لگنے سے شدید زخمی و مجروح بھی ہوئے تھے۔

۸. جنگ خندق کےوقت جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکوں کے حالات کی آگاھی کے لئے مجمع میں اس بات کا اعلان کیا، قریش میں سے کون ہے جو ان کی خبروں کو ہم تک پہنچائے جناب زبیر کھڑے ہوئے اور اپنی آمادگی کا اظھار کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سوال تین مرتبہ تکرار کیا اور تینوں مرتبہ جناب زبیر کھڑے ہوئے، آپ گئے اور مشرکوں کے حالات کی آگاھی پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی، آپ نے ان کی فدا کاری کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ہر نبی کے لئے ناصر و مددگار ہیں اور میرے ناصر و مددگار زبیر ہیں (اسد الغابہ، ج۲، ص۲۵۰) ۔

۹

ان افراد سے مقابلہ تھا جن کی پیشانی پر کثرت عبادت و شب زندہ داری کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے(۹) ان افراد سے مقابلہ تھا جن کی رات گئے قرائت قرآن کی دلنشین آواز کا جادو کمیل جیسی عظیم ھستی پر بھی اثر انداز ھوگیا تھا(۱۰)

حضرت علی علیہ السلام کا مقابلہ اس نوعیت کے دشمنوں سے تھا۔ ظاہر سی بات ہے ایسے دشمنوں سے معرکہ آرائی، ان کے حقیقی چہرے کی شناسائی علوی نگاہ و بصیرت کا کام ہے، جیسا کہ خود آپ نے نھج البلاغہ میں چند مقام پر اس کی تصریح بھی فرمائی ھے(۱۱)

اہم ترین زاویہ بصیرت ایسے دشمنوں کی شناخت ہے جسے قرآن کریم منافق کے نام سے یاد کرتا ہے۔

قرآن کریم میں نفاق کے رخ کا تعارف کرانے کے سلسلے میں کفر سے کہیں زیادہ اھتمام کیا گیا ہے، اس لئے کہ اسلامی معاشرہ کے لئے خطرات و نقصان کافروں سے کہیں زیادہ منافقوں سے ہے۔

خاص کر آج کے اسلامی و انقلابی معاشرہ کے لئے جس نے بحمد اللہ سر بلندی کے ساتھ اسلامی انقلاب کی چھبیس ۲۶ بھاروں کا مشاہدہ کر چکا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ خدا کے فضل و کرم اور پیامبر عظیم الشان (ص) و اہل بیت اطھار علیہم السلام کی ارواح طیبہ کے تصدق میں تمام مشکلات و زحمات کو حل کرتے ہوئے دینی حکومت و معاشرت کا ایک عالی ترین و کامیاب ترین نمونہ و معیار ثابت ہوگا۔

-------------

۹. امام علی علیہ السلام نے ابن عباس کو خوارج کی نصیحت کے لئے بھیجا آپ نے واپس آنے کے بعد خوارج کو ان الفاظ میں توصیف کی: "لھم جباۃ قرحۃ لطول السجود و اید کثفنات الابل علیھم قمص مرخصۃ وھم مشمرون"، ان کی پیشانیوں پر کثرت عبادت سے گھٹے پڑے ہوئے ہیں حق کے لئے گرم و خشک زمین پر ھاتھ پیر رکھنے کی بنا پر اونٹ کے پیر کے مثل سخت ھوگئے ہیں، پھٹے پرانے کپڑے پہنتے ہیں لیکن قاطع و با ارادہ انسان ہیں۔

۱۰. بحار الانوار ج۳۳ ص۳۹۹، سفینۃ البحار کلمہ (کمل) ۔

۱۱. نھج البلاغہ، خطبہ/ ۱۰/ ۱۳۷/ ۹۳۔

۱۰

آج بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمن (منافقین) تمام قدرت و طاقت کے ساتھ سعی لا حاصل میں مصروف ہیں، کہ اسلامی معاشرے کو باور اور یقین کرادیں کہ دینی حکومت و نظام ناکام ہے، تاکہ پوری دنیا کے وہ افراد جو قلباً اس انقلاب سے وابستہ ہیں ان کو نا امید کرسکیں۔

اس سلسلہ میں اپنی تمام توانائی صرف کرچکے ہیں، جو کچھ قدرت و اختیار میں تھا انجام دے چکے ہیں، اگر اب تک کسی کام کو انجام نہیں دیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انجام دینا نہ چاہتے ہوں بلکہ اس فعل کے عمل سے عاجز و ناتواں ہیں۔

عظیم الشان اسلامی انقلاب کی اوائل کامیابی سے ہی کفر کا متحد گروہ خالص محمدی (ص) اسلام کہ مقابل صف آرائی میں مشغول ہے، اور اس گروہ کی عداوت ابھی تک جاری ہے۔

اس جماعت کا اسلامی انقلاب کے مقابلہ میں صف آرا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں اتحاد ہی اتحاد ہے، بلکہ یہ گروہ اختلاف و افتراق کا مرکز ہے لیکن ان کا مشترک ھدف و مقصد اسلامی انقلاب سے مقابلہ کرنا ہے۔

احزاب کو اسلامی نظام سے ٹکرا دینا، بغیر درک و فھم کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا، ایران کی مسلمان ملت پر جنگ مسلط کرنا، ان کے مشترک اھداف و مقاصد کے کچھ نمونہ ہیں۔

۱۱

اسلامی انقلاب کے کینہ پرور دشمنوں کا آخری حربہ انقلاب کی اصالت و بنیاد پر ثقافتی یورش کرنا ہے لیکن اب تک جس طریقہ سے ان کی سازشیں ناکام ہوتی رھی ہیں، خدا کے فضل و کرم سے یہ سازش بھی شرمندہ تعبیر نہ ھوسکے گی۔

ان سازشوں کا ناکام بنانے کے سلسلہ میں اہم ترین وسیلہ، نفاق و منافقین کی روش و طرزِ عمل کی شناخت ہے، خوش قسمتی سے قرآن مجید اس سلسلہ میں عمیق، جامع، موزون مطالب و نکات کو پیش کر رہا ہے۔

خداوند عالم کے لطف و کرم سے امید کرتا ہوں کے یہ ناچیز کتاب، اسلامی معاشرہ کے لیے دینی بصیرت و بینائی کے اضافہ کا سبب بنے گی، اشاء اللہ

(بشر المنافقین بانّ لهم عذاب الیماً) (۱۲) آپ ان منافقین کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

سید احمد خاتمی - حوزہ علمیہ، قم المقدسہ

-----------------

۱۲. سورہ نساء / ۱۳۸۔

۱۲

فصل اوّل؛ نفاق کی اجمالی شناخت

۱۔ نفاق شناسی کی ضرورت

۲۔ نفاق کی لغوی و اصطلاحی معانی

۳۔ اسلام میں نفاق کے وجود آنے کی تاریخ

نفاق شناسی کی ضرورت

دشمن شناسی کی اھمیت

صاحبان ایمان کے وظائف میں سے ایک اہم وظیفہ خصوصاً اسلامی نظام و قانون میں دشمن کی شناخت و معرفت ہے۔

اس میں کوئی تردید نہیں کہ اسلامی نظام کو برقرار رکھنے اور اس کے استحکام، پائداری کے لئے اندرونی (داخلی) و بیرونی (خارجی) دشمنوں نیز، ان کے حملہ ور وسائل کی شناخت لازم و ضروری ہے، دشمن اور ان کے مکر و فریب کو پہچانے بغیر مبارزہ کا کوئی فائدہ نہیں، بعض اوقات دشمن کے سلسلہ میں کافی بصیرت و ھوشیاری نہ ہونے کے سبب، انسان دشمن سے رھائی حاصل کرنے کے بجائے دشمن ہی کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر اقدام سے پہلے بصیرت و ھوشیاری کو بنیادی شرط بتایا ہے، آپ فرماتے ہیں:

((العامل علی غیر بصیرة کالسائر علی غیر الطریق، لا یزیده سرع ة السیر الا بعداً عن الطریق)) (۱۳)

-----------

۱۳. اصول کافی، ج۱، ص۴۳۔

۱۳

بغیر بصیرت و آگاھی کے عمل کو انجام دینے ولا ایسا ہی ہے جیسے راستہ کو بغیر پہچانے ہوئے چلنے والا، کہ اس صورت میں اصل ھدف و مقصد اور راہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

اسی ضرورت کی بنا پر قرآن میں پندرہ سو آیات سے زیادہ دشمن کی شناخت کے سلسلہ میں نازل ھوئی ہیں، خدا وند عالم ان آیات میں، مومنین اور نظام اسلامی کے مختلف دشمنوں کی (جن و انس میں سے) نشاندھی کی ہے نیز ان کی دشمنی کے انواع و اقسام حربے اور ان سے مقابلہ کرنے کے طور و طریقہ کو بتایا ہے، اور اس بات کی مزید تاکید کی ہے کہ مسلمان ان سے دور رھیں اور برائت اختیار کریں:

(یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء) (۱۴)

اے صاحبان ایمان اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔

آیات قرآن کی بنا پر مومنین کے دشمنوں کو بنیادی طور پر چار نوع و گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

نوع اوّل: شیطان اور اس کے اہل کار

(انّ الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدوا) (۱۵)

یقیناً شیطان تم سب کا دشمن ہے، تم بھی اسے دشمن بنائے رکھو۔

---------------

۱۴. سورہ ممتحنہ/ ۱۔

۱۵. سورہ فاطر/ ۶۔

۱۴

بعض قرآن کی آیات میں، خداوند عالم نے انسان خصوصاً مومنین کے سلسلہ میں شیطان کے آشکار کینے اور دشمنی کو عدو مبین (آشکار دشمن) سے تعبیر کیا ہے، اللہ انسان کو منحرف کرنے والے شیطان کے مکر و فریب، حیلے کو شمار کرتے ہوئے، مومنین سے چاھتا ہے کے وہ شیطان کے راستے پر نہ چلیں۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان) (۱۶)

اے صاحبان ایمان شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔

نوع دوّم: کفار

قرآن کی نظر میں مومنین کے دشمنوں میں ایک دشمن کفار ہیں۔

(انّ الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا) (۱۷)

کفار تمھارے آشکار و عیاں دشمن ہیں۔

------------------

۱۶. سورہ نور/ ۲۱۔

۱۷. سورہ نساء/ ۱۰۱۔

۱۵

نوع سوم: بعض اہل کتاب

صاحبان ایمان و اسلام کے دشمنوں میں بعض اہل کتاب خصوصاً یھودی دشمن ہیں، شھادت قرآن کے مطابق، صدر اسلام سے اب تک اسلام و مسلمان کے کینہ توز، عناد پسند دشمن یھودی رہے ہیں، قرآن ان سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کو منع کرتا ہے۔

(لتجدنّ اشدّ الناس عداوة للذین آمنوا الیهود) (۱۸)

یقیناً آپ مومنین کے سلسلہ میں شدید ترین دشمن یھود کو پائیں گے۔

نوع چھارم: منافقین

قرآن مجید نے منافقین کے اصلی خدو خال اور خصوصیت نیز ان کی خطرناک حرکتوں کو اجاگر کرنے کے سلسلہ میں بھت زیادہ اھتمام اور بندوبست کیا ہے، تین سو سے زیادہ آیات میں ان کے طرز عمل کو افشا کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کی راہ اور طریقہ کو پیش کیا گیا ہے۔

یہ قرآنی آیتیں جو تیرہ سوروں کے ذیل میں بیان کی گئی ہیں بحث حاضر، قرآن میں چھرۂ نفاق کا اصلی محور و موضوع ہیں۔

گرچہ اہل بیت اطھار علیہم السلام ارواحنا لھم الفداء کے زرین اقوال بھی روایات و احادیث کی شکل میں تناسب مباحث کے اعتبار سے پیش کئے جائیں گے۔

-----------------

۱۸. سورہ مائدہ/ ۸۲۔

۱۶

قرآن میں نفاق و منافقین

منافقین کی خصوصیت و صفات کی شناخت کے سلسلہ میں، قرآن اکثر مقام پر جو تاکید کر رہا ہے وہ تاکید کفار کے سلسلہ میں نظر نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار علی الاعلان، مومنین کے مد مقابل ہیں، اور اپنی عداوت خصوصیت کا اعلانیہ اظھار بھی کرتے ہیں، لیکن منافقین وہ دشمن ہیں جو دوستی کا لباس پھن کر اپنی ہی صف میں مستقر ھوتے ہیں، اور اس طریقہ سے وہ شدید ترین نقصان اسلام اور مسلمین پر وارد کرتے ہیں، منافقین کا مخفیانہ و شاطرانہ طرز عمل ایک طرف، ظواھر کی آراستگی دوسری طرف، اس بات کا موجب بنتی ہے کہ سب سے پہلے ان کی شناخت کے لئے خاص بینایی و بصیرت چاھئے، دوسرے ان کا خطرہ و خوف آشکار دشمن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

"کن للعدو المکاتم اشدّ حذر منک للعدو المبارز" (۱۹)

آشکار و ظاہر دشمن کی بہ نسبت باطن و مخفی دشمن سے بھت زیادہ ڈرو۔

آیت اللہ شھید مطھری، معاشرہ میں نفاق کے شدید خطرے نیز نفاق شناسی کی اھمیت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں۔

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی نفاق کے خطرے اور نقصان جو کفر کے خطرے اور ضرر سے کہیں زیادہ شدید تر ہے، تردید کا شکار ھو، اس لئے کہ نفاق ایک قسم کا کفر ہی ہے، جو حجاب کے اندر ہے جب تک حجاب کی چلمن اٹھے اور اس کا مکروہ و زشت چھرہ عیاں ھو، تب تک نہ جانے کتنے لوگ دھوکے و فریب کے شکار اور گمراہ ھوچکے ہوں گے، کیوں مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیش قدمی کی حالت، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرق رکھتی ہے، ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام کا طریقۂ کار، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہیں ھے،

-----------------------

۱۹. شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۲۰ ص۳۱۱۔

۱۷

کیوں پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش قدمی اتنی سریع ہے کہ ایک کے بعد ایک دشمن شکست سے دوچار ھوتے جارھے ہیں، لیکن جب مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام دشمنوں کے مد مقابل آتے ہیں، تو بھت ہی فشار و مشکلات میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ان کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی پیش رفت حاصل نہیں ھوتی، صرف یہی نہیں بلکہ بعض مواقع پر آپ کو دشمنوں سے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسا کیوں ھے؟!

صرف اس لئے کہ پیامبر عظیم الشان کا مقابلہ کافروں سے تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کا مقابلہ منافقین گروہ سے تھا(۲۰)

سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۱۰۱ سے استفادہ ہوتا ہے کہ کبھی چھرۂ نفاق اس قدر غازۂ ایمان سے آراستہ ہوتا ہے کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی عادی علم کے ذریعہ اس کی شناخت مشکل ھوجاتی ہے، اللہ ہے جو وحی کے وسلیہ سے اس جماعت کا تعارف کراتا ہے۔

(وممّن حولکم من الاعراب منافقون و من اهل المدینة مردوا علی النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذّبهم مرّتین یردّون الی عذاب عظیم) (۲۱)

اور تمھارے گرد دیھاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماھر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ہم عنقریب ان پر دھرا عذاب کریں گے اس کے بعد وہ عذاب عظیم کی طرف پلٹادئے جائیں گے۔

---------------------

۲۰. مسئلہ نفاق: بنابر نقل نفاق یا کفر پنھان، ص۵۲۔

۲۱. سورہ توبہ/ ۱۰۱۔

۱۸

مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، اسلامی معاشرہ میں نفاق کے آفات و خطرات کا اظھار کرتے ہوئے نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

((ولقد قال لی رسول الله: انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکا امّا المؤمن فیمنعه الله بایمانه و امّا المشرک فیقمعه الله بشرکه ولکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان، عالم اللسان یقول ما تعرفون و یفعل ما تنکرون)) (۲۲)

رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ھے: میں اپنی امت کے سلسلہ میں نہ کسی مومن سے خوف زدہ ہوں اور نہ مشرک سے، مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی بنا پر مغلوب کر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم اور دل کے منافق ہیں کہتے وہی ہیں، جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ھو۔

اسی نفاق کے خدو خال کی پیچیدگی کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کی زمام داری کی پانچ سال کی مدت میں دشمنوں سے جنگ کی مشکلات کہیں زیادہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی مشکلات و زحمات سے تھیں۔

پیامبر عظیم الشان ان افراد سے بر سر پیکار تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد لیکن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن کی پیشانیوں پر کثرت سجدہ کی بنا پر نشان پڑے ہوئے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے جنگ و جدال کر رہے تھے جن کی رات گئے تلاوت قرآن کی صداء دلسوز حضرت کمیل جیسی فرد پر بھی اثر انداز ھوگئی تھی(۲۳)

------------

۲۲. نھج البلاغہ، نامہ۲۷۔

۲۳. بحار الانوار، ج۳۳، ص۳۹۹۔

۱۹

آپ کا مقابلہ ایسے صاحبان اجتھاد سے تھا جو قرآن سے استنباط کرتے ہوئے آپ سے لڑ رہے تھے(۲۴)

وہ افراد جو راہ خدا میں معرکہ و جھاد کے اعتبار سے درخشاں ماضی رکھتے تھے یھاں تک کہ بعض کو تمغہ جانبازی و فدا کاری بھی حاصل تھا، لیکن دنیا پرستی نے ان صاحبان صفات و کردار کو حق کے مقابل لاکھڑا کیا۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو (سابقہ، فداکاری و معرکہ آرائی دیکھتے ہوئے) سیف الاسلام کے لقب سے نوازا تھا اور طلحہ جنگ احد کے جانباز و دلیر تھے، ایسے رونما ہونے والے حالات و حادثات کا مقابلہ کرنا علوی بصیرت ہی کا کام ہے۔

قابل توجہ یہ ہے کہ مولائے کائنات نے نھج البلاغہ میں ایسے افراد سے جنگ کرنے کی بصیرت و بینائی پر افتخار کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے علاوہ کسی بھی فرد کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی جو ان سے مقابلہ و مبارزہ کرتا۔

((ایها الناس انی فقات عین الفتنة ولم یکن لیجتری علیها احد غیری) )(۲۵)

لوگو! یاد رکھو میں نے فتنہ کی آنکھ کو پھوڑ دیا ہے اور یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے۔

--------------

۲۴. سفینۃ البحار، ج۱، ص۳۸۰۔

۲۵. نھج البلاغہ، خطبہ۹۳۔

۲۰

دوسرى جگہ فرمايا :

''جہاں تك ہوسكے اور جيسے بھى بن پڑي' پاك و پاكيزہ رہو كيونكہ اللہ تعالى نے اسلام كى بنياد صفائي پر ركھى ہي' اور جنت ميں سوائے صاف ستھرے شخص كے كوئي اور نہيں جا سكے گا''(۱)

امام رضا _ فرماتے ہيں:

''پاكيزگى كا شمار انبياء (ع) كے اخلا ق ميںہوتا ہي''(۲)

ب:___ سنوارنا:

سر' بدن ' لباس اور جوتوں وغيرہ كو آراستہ اور صاف ركھنا' اسلام كا ايك اخلاقى دستور ہے _ اس كا تعلق ايك پكّے اور سچے مومن كى نجى زندگى كے نظم وضبط سے ہي_

اسلامى تعليمات كى رو سے ايك مسلمان كو اپنى وضع و قطع ميں پاكيزگى كا خيال ركھنے كے علاوہ اپنے لباس اور جسمانى وضع و قطع كو بھى سنوارنا چاہئي_ بالوں ميں كنگھى ' دانتوں كى صفائي ' اور وقار اور ادب سے چلنا چاہئے _

ايك دن حضور سرور كائنات (ص) نے ايك بكھرے بالوں والے شخص كو ديكھا تو فرمايا :

''تمہيں كوئي چيز نہيں ملتى تھى كہ بالوں كوسنوار ليتي''(۳)

عباد بن كثير نے ' جو ايك ريا كار زاہد تھا اور كھردرا لباس پہنا كرتا تھا ' ايك دن

____________________

۱_ ميزان الحكمة ، ج ۱۰، ص ۹۲

۲_ بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۳۳۵

۳_ ميزان الحكمة، ج ۱۰، ص ۹۲

۲۱

اس نے حضرت امام جعفر صادق عليه السلام پر اعتراض كيا كہ :

''آپ (ع) كے دو جد امجد ''حضرت رسول خدا (ص) اور اميرالمومنين عليه السلام '' تو كھردرا لباس پہنا كرتے تھي''_

تو امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

'' وائے ہو تم پر كيا تم نے قرآن مجيد كى وہ آيت نہيں پڑھى جس ميں خداوند عالم نے اپنے پيغمبر (ص) كو حكم ديا ہے كہ :

( قُل مَن حَرَمَ زينة الله التى اخرج لعباده والطيّبات من الرزق'' ) (۱)

''اے پيغمبر (ص) ان لوگوں سے پوچھئے كہ خدا كى زينت اور حلال رزق وروزى كو كہ جو اس نے اپنے بندوں كے واسطے بنايا ہے ' كس نے حرام كرديا ہي؟''_

وہ شخص اپنے اس فضول اعتراض پر نادم ہوا او رسرجھكا كر چلاگيا(۲)

آيت :( خُذوا زينتكم عند كلّ مسجد'' ) _''ہر سجدہ كرنے كے وقت زينت كرليا كرو''،اس آيت كى تفسير ميں حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

''ان زينتوں ميں سے ايك زينت ' نماز كے وقت بالوں ميںكنگھى كرنا ہي''_(۳)

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام دانتوں كى صفائي كے بارے ميں فرماتے ہيں:

''من اخلاق الانبياء (عليهم السلام)السَّواك ''(۴)

____________________

۱_سورہ اعراف ، آيت ۳۲

۲ _ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۴۴ سے مفہوم حديث

۳_ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۸۹

۴_ اصول كافى ج۶ ص ۴۵۹

۲۲

''مسواك كرنا اخلاق انبياء ميں شامل ہي''_

حضرت على عليه السلام نے مناسب جوتا پہننے كے بارے ميں فرمايا :

''اچھا جوتا پہننا اور بدن كى حفاظت و طہارت نماز كے لئے مددگار ہونے كا ايك ذريعہ ہي''(۱)

رسول خدا (ص) جب بھى گھر سے مسجد يا مسلمانوں كے اجتماع ميں تشريف لے جانا چاہتے تھے تو آئينہ ديكھتي' ريش اور بالوں كو سنوارتي' لباس كو ٹھيك كرتے اور عطر لگايا كرتے تھي' اور فرمايا كرتے تھے :

''خداوند عالم اس بات كو پسند فرماتا ہے كہ جب اس كا كوئي بندہ اپنے دينى بھائيوں كى ملاقات كے لئے گھر سے باہر نكلے تو خود كو بناسنوار كر باہر نكلي''(۲)

لہذا اگر اس حساب سے ديكھاجائے تو پريشان حالت' آلودگى اور بدنظمى دين اسلام كى مقدس نگاہوں ميں نہايت ہى قابل مذمت او رموجب نفرت ہے ' اور رسول خدا (ص) كے ايك پيروكار مسلمان سے يہى توقع ركھى جانى چاہئے كہ وہ ہميشہ بن سنور كر رہے گا اور خود كو معطر اور پاك وپاكيزہ ركھے گا_

۳_ معاشرتى زندگى ميں اس كى اہميت:

سماجى امور اور دوسرے لوگوں كے ساتھ تعلقات قائم ركھنے كے لئے انسان كى كاميابى كا راز اس بات ميںمضمر ہے كہ وہ ايك مقرَّرہ ومرتَّبہ پروگرام كے تحت وقت

____________________

۱_ فروع كافي، ج ۶ _ ص ۴۶۲

۲ _ مكارم اخلاق ، ص ۳۵_

۲۳

سے صحيح فائدہ اٹھائے ' چاہے اس پروگرام كا تعلق اس كے كاموں سے ہو' جيسے مطالعہ كرنا اور كسى جگہ آنا جانا يا كسى سے ملاقات كيلئے جانا، بدنظمى اور بے ترتيبى سے وقت ضائع ہوتا ہے جبكہ ترتيب ونظم وضبط سے انسانى كوششوں كا اچھا نتيجہ نكلتا ہي_

امور زندگى اور كاروبار ميں نظم وضبط كى اس قدر اہميت ہے كہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام نے اپنى آخرى وصيت ميں كہ جو بستر شہادت پر ارشاد فرمائي ' اس بات پر زور ديا اور حسنين (ع) سے مخاطب ہوكر فرمايا :

''اُوصيكما وجميع ا هلى وَ ولدى ومَن بَلَغَهُ كتابى بتقوى الله ونظم امركم ''(۱)

''ميں تم دونوں كو اور تمام افراد خاندان كو اور اپنى تمام اولاد كو اور جن لوگوں تك ميرى تحرير پہنچي' سب كو خدا كے تقوى اور امور ميں نظم وضبط كى وصيت كرتا ہوں''_

حضرت امام موسى كاظم عليه السلام فرماتے ہيں كہ اپنے دن رات كے اوقات كو چار حصوں ميں تقسيم كرو:

۱_ايك حصہ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ راز و نيازكے لئي_

۲_ايك حصہ ذاتى كاموں اور ضروريات زندگى كے پورا كرنے كے لئي_

۳_ايك حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں كے ساتھ ملنے جلنے اور ملاقات كے لئے _

۴_اور ايك حصہ آرام و تفريح اور گھر ميں اہل خانہ كے ساتھ رہنے كے لئي(۲)

____________________

۱_ نہج البلاغہ (فيض الاسلام) خطبہ ۱۵۷_ ص ۹۷۷_

۲ _ تحف العقول ص۴۸۱_

۲۴

۴_عہدوپيمان ميں اس كى اہميت:

وہ امور كہ جہاں سختى كے ساتھ نظم وضبط كى رعايت كرنا چاہئي' عہدوپيمان اور اقرار ناموں كى پابندى ہي_ مثلاً قرض دينے ' قرض لينے اور دوسرے لين دين ميں تحريرى سند كا ہونا ضرورى ہي_ تاكہ بعد ميں كسى قسم كى كوئي مشكل پيدا نہ ہونے پائے اور ايسا كرنے سے مشكلات كا راستہ بند اور اختلاف كى راہيں مسدود ہوجائيں_ يہ عہدوپيمان اور لين دين كے بارے ميں ايك طرح كا نظم وضبط ہي_

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوا ہے :

''ايے ايمان لانے والو جب تم ايك مقررہ مدت كے لئے قرضہ ليتے يا ديتے ہو تو اسے لكھ ليا كرو' اور يہ تحرير ايك عادل شخص تمہارے لئے لكھي' اور اگر تم سفر كى حالت ميں ہو اور تمہيں كوئي لكھنے والا نہ ملے تو اسے گروى كى صورت لے ليا كرو ''(۱)

ايك اور آيت ميں ارشاد ہوتا ہے :

( اَوفوا بالعَهد انَّ العَهد كانَ مسئولاً'' ) (۲)

''عہد كو پورا كرو 'كيونكہ عہد كے بارے ميں تم سے پوچھا جائے گا''_

پيغمبر اسلام (ص) نے وعدہ كى پابندى كو قيامت كے اوپر عقيدہ ركھنے سے تعبير فرمايا ہي_ چنانچہ ارشاد ہي:

____________________

۱_ سورہ بقرہ آيت ۲۸۲_ ۲۸۳

۲ _ سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۳۴

۲۵

''مَن كان يؤمن بالله واليوم الآخرة فليف إذا وَعَدَ'' (۱)

''جو شخص خدا اور قيامت پر ايمان ركھتا ہے اسے اپنا وعدہ پورا كرنا چاہئي''_

ايك واضح پيمان مقررّ كرنے سے بہت سے اختلافات كا سدّ باب ہوسكتا ہي_ اور اس پر صحيح طريقہ سے عملدرآمد لوگوں كى محبت اور اعتماد حاصل كرنے كا موجب بن جاتا ہے _ چنانچہ روايت ہے كہ ايك دن حضرت امام على ابن موسى الرضا عليه السلام نے ديكھا كہ آپ (ع) كے ملازمين ميں ايك اجنبى شخص كام كر رہا ہي' جب آپ (ع) نے اس كے بارے ميں دريافت كيا تو بتا يا گيا كہ اسے اس لئے لے آئے ہيں تاكہ ہمارا ہاتھ بٹاسكي_ امام (ع) نے پوچھا: كيا تم نے اس كى اجرت بھى طے كى تھي؟ كہا گيا كہ نہيں_ امام (ع) سخت ناراض ہوئے اور ان كے اس عمل كو ناپسند فرماتے ہوئے كہا :

''ميں نے بارہا كہا ہے كہ جب تم كسى كو مزدورى كے لئے لاتے ہو تو پہلے اس سے اجرت طے كرليا كرو' ورنہ آخر ميں تم اسے جس قدر بھى مزدورى دوگے وہ خيال كرے گا كہ اسے حق سے كم ملا ہي' ليكن اگر طے كرلوگے اور آخر ميںطے شدہ اجرت سے جتنا بھى زيادہ دوگے خوش ہوجائے گا اور سمجھے گا كہ تم نے اس كے ساتھ محبت كى ہي''(۲)

بات پر قائم رہنا اور وعدہ وفائي انبياء اور اولياء خدا كا شيوہ ہي، ان كے پيروكاروں كو اس سلسلے ميں ان كى اقتدا كرنى چاہئي_

____________________

۱_ كافي_ ج ۲_ ص ۳۶۴

۲_ بحارالانوار _ ج ۴۹_ ص ۱۰۶

۲۶

۵_عبادت ميں اس كى اہميت:

عبادت ميں بھى نظم وضبط كا اہتمام كرنا چاہئے اور وہ يوں كہ ہر عبادت كو بروقت اور بموقع بجالائيں' نماز كو اس كے اول وقت ميں اور جماعت كے ساتھ ادا كريں' ماہ رمضان ميں روزے ركھيں' اگر سفر يا بيمارى كى وجہ سے كوئي روزہ قضا ہوجائے تو اس كى قضا كريں ' خمس وزكوة ادا كريں' اور عبادت ميں افراط وتفريط سے اجتناب كريں بلكہعبادت ميں اعتدال كو ملحوظ ركھنا چاہئي' كيونكہ اعتدال پسندى عبادت ميں مفيد ہي_

عبادت اور مستحب امور ميں افراط سے كام لينے سے بسا اوقات انسان اكتا جاتا ہي' جس كى وجہ سے بعض اوقات وہ اجتماعى سرگرميوں سے محروم رہتا ہے بلكہ كبھى تو اس كا يہ عمل بجائے باعث ثواب كے عذاب كا باعث بن جاتا ہے ' جيسے دعا يا نوحہ خوانى كرنا يا كوئي اور مستحب عمل كہ رات گئے تك لائوڈ اسپيكر پر پڑھتا رہے 'ظاہر ہے اس سے ہمسايوں يا بيماروں كو تكليف ہوتى ہي_

مستحب عبادت اس وقت مفيد اور كار آمد ہوتى ہے جب وہ رضا ورغبت اور شوق و محبت كے ساتھ انجام دى جائے _ اُس مسلمان كى داستان مشہور ہے كہ جس نے اپنے غير مسلم ہمسائے كو اسلام قبول كرنے كى دعوت دى تھى ' جب اس كا وہ ہمسايہ مسلمان ہوگيا تو وہ اسے مسجد لے گيا اور صبح سے ليكر مغرب تك مسجد ميں نماز ودعائيں پڑھتا رہا ' قران كى تلاوت كرتا رہا ، غرض اسے صبح سے شام تك ان امور ميں مصروف ركھا_

۲۷

چنانچہ جب وہ دوسرے دن اس كے پاس گيا كہ اسے عبادت كے لئے اپنے ہمراہ مسجد لے چلے تو اس نے ساتھ چلنے سے صاف انكار كرديا اور كہا :

''ميرے يہاں بيوى بچے بھى ہيں' ان كے اخراجات كے لئے بھى كچھ كرنا ہي' مجھے ايسا دين قبول نہيں جائو اپنى راہ لو_،،

۶_ اخراجات ميںاس كى اہميّت:

روٹي' كپڑے اور زندگى كے دوسرے اخراجات' جو كہ بيت المال يا ديگر اموال سے پورے ہوتے ہيں ان ميں اعتدال سے كام لينا چاہئے نہ افراط سے كام لياجائے اور نہ ہى بخل و مشكلات ميں پڑنا چاہئي_

اخراجات ميں نظم وضبط كا مطلب يہ ہے كہ آمد وخرچ ميں ماشہ، گرام كا حساب ركھاجائي، پيداوار اور اخراجات ميں توازن ركھاجائے اور اخراجات ميں اسراف اور فضول خرچى بد نظمى ہے كہ اس سے انسان مفلس اور نادار ہوجاتا ہي_

قرآن مجيد فضول خرچى اور بے حساب خرچ كرنے كى مذمت كرتا ہے اور فضول خرچ انسان كو شيطان كا بھائي قرار ديتاہے( ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين'' ) (۱)

فردى اور نجى زندگى ميں بھى اخراجات ميں تعادل ركھنا چاہئے ،اسى طرح حكومت اور مسلمانوں كے بيت المال ميں بھى ميانہ روى اختيار كرنا چاہئي، معاشرہ ميں وہى حكومت كامياب ہوتى ہے كہ جس كے مال و منصوبے نظم وضبط پر مبنى ہوتے ہيں_ اخراجات ميں اعتدال ، يعنى بجلى ، پانى ، پھل ، لباس اور كھانے پينے كى چيزوں كو

____________________

۱_سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۲۷

۲۸

بے مقصد صرف كرنے سے اجتناب كرنا ، تاكہ انسان اپنے آپ اور معاشرہ كو خود كفيل بنا دے اور دوسرں سے بے نياز ہو جائے _

حضرت امير المومنين على ابن ابى طالب (ع) بيت المال سے خرچ كرنے كے بارے ميں اپنے كاركنوں كو ہدايت كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

''قلم كى نوك كو باريك اور سطروں كے فاصلے كو كم كرو اضافى آداب والقاب كو حذف كرو ، اپنے مطالب كو خلاصہ كو طور پر تحرير كيا كرو اور فضول خرچى سے دور رہو كہ مسلمانوں كا بيت المال اس قسم كے اخرجات كا متحمل نہيں ہو سكتا _،،(۱)

۷_محاذ جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كى اہميّت :

خاص طور پر جنگ ، جنگى آپريشن ، ميدان جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كو ملحوظ ركھنا خصوصى اہميّت كا حاصل ہے _

واضح رہے ، جنگ ميں مجاہدين كى كاميابى كا دار ومدار اپنے كمانڈروں كى حكمت عملى اور جنگى تدابير پر پختہ يقين اور راستح عقيدہ كے بعد ان كى اطاعت اور عسكرى امور كے نظم وضبط پر ہے _

خدا وند عالم ،قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

( انَّ الله يحبّ: الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص ) ،،(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۱_ ص ۱۰۵

۲_ سورہ وصف _ آيت ۴

۲۹

''يقينا خداوند عالم ان لوگوں كو دوست ركھتا ہے جو اس كى راہ ميں يوں منظم طريقہ سے صف باندھ كر لڑتے ہيں جيسے سيسہ پلائي ہوئي ديوار ہوتى ہے _،،

جنگ كے دوران ، حملہ كے وقت ، پيچھے ہٹنے كے موقع پر اور آرام كے وقت نظم وضبط كا مظاہرہ فتح اور كاميابى كى علامت ہے _ جب كہ گربڑ ، سر كشى اور بدنظمى بعض اوقات جيتى ہوئي جنگ كو شكست ميںتبديل كر ديتى ہے _

حضرت رسو ل اكرم (ص) حملہ كا حكم دينے سے پہلے تمام فوجيوں كى صفيں درست كرتے تھے ، ہر شخص كا فريضہ مقرر فرماتے تھے اور نافرمانى پر تنبيہ اور سرزنش فرماتے تھے(۱)

جنگ ميں كمانڈر كى اطاعت اور عسكرى قوانين كى پابندى زبردست اہميّت اور حسّاس ذمہ دارى كى حامل ہوتى ہے _كمانڈر كے احكام كا احترام ،اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا ، خودرائي اور جذباقى طرز فكر سے اجتناب ، كاميابى كا ضامن ہوتا ہے _

تاريخ ميں بہت سے ايسے واقعات بھى ملتے ہيں كہ بدنظمي، بے ضابطگى اور قوانين كى خلاف ورزى كى وجہ سے جيتى ہوئي جنگيں شكست ميں تبديل ہوئي ہيں اور دشمن كے غالب آجانے كا سبب بن گئيں ہيں _ چنانچہ جنگ اُحُد ميںنبى (ص) نے كچھ مسلمان جنگجووًں كو عبداللہ ابن جبُير كى سر كردگى ميں ايك پہا ڑى درّے پر متعين فرمايا،

جنگ كے شروع ہو جانے كے بعد سپاہ اسلام كى سرفروشانہ جنگ سے دشمن كے پاوّں اكھڑ گئے اور لشكر اسلام آخرى كاميابى كى حدود تك پہنچ گيا اور دشمنان اسلام

____________________

۱_تاريخ پيامبر اسلام (ص) _ ص ۲۳۹(مولف ڈاكٹر آيتي)

۳۰

شكست كھا كر بھاگنے لگے تو درّے پر متعين افراد نے كاميابى كى صورت حال ديكھ كر رسول خدا (ص) كے فرمان كو فراموش كر ديا اوراپنے مورچوں كو چھوڑ كر نيچے اتر آئے اور مال غنيمت جمع كرنے لگے ، اس بدنظمى اور رسول خدا(ص) كے عسكرى فرمان كى خلاف ورزى كى وجہ سے دشمن كے شكست خوردہ لشكر نے مسلمانوں كى غفلت سے فائدہ اٹھايا اور پہاڑ كے حسّاس درّے كو خالى پاكر سپاہ اسلام پر حملہ ور ہو گيا، آخر ميں اس بد نظمى اور كمانڈر كے حكم كى خلاف ورزى كے سبب مسلمانوں كو زبردست شكست كا منہ ديكھنا پڑا اور سنگين جانى نقصان بھى اٹھانا پڑا(۱)

محاذ جنگ ذمّہ دار افسران كے احكام كى پابندے نہايت ضرورى ہے :

محاذ جنگ پر كسى ڈيوٹى پر متعين ہونے ، كسى يونٹ ميں منتقل ہونے ، چھٹى پر جانے ، كسى پروگرام ميں پرجوش شركت ، غرض تمام امور ميں ذمہ دار افسران كے احكام وآرا ء كى پابندى ضرورى ہوتى ہے _

خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے :

'' مومن وہ لوگ ہيں جو خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان لائے اور جب كسى اہم اور جامع كام( جنگ)ميں پيغمبر اكرم(ص) كے ہمراہ ہوتے ہيں تو ان كى اجازت كے بغير كہيں نہيں جاتے ،اجازت حاصل كرنے والے ہى صيحح معنوں ميں خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان ركھتے ہيں ، پس جب بھى وہ اپنے بعض كاموں كے لئے آپ(ع) سے اجازت طلب كريں ، تو آپ(ع) جسے

____________________

۱_مزيد تفصيل كے لئے كتاب فروغ ابديت _ ج ۲_ ص ۴۶۶ كا مطالعہ كياجائے_

۳۱

چاہيں اجازت عطا فرمائيں ،،(۱) اس سے يہ بات سامنے آتى ہے كہ چھٹى پر جانا بھى پيغمبر(ع) كى اجازت پر موقوف ہے _

ہمارى دعا ہے كہ راہ خدا ميں مسلسل جّدوجہد كرنے والے اور فى سبيل اللہ جہاد كرنے والے مجاہدين اسلام ايك محكم و مضبوط صف ميں اور مستحكم نظم و ضبط كے تحت متحّدو متّفق ہو كر دشمنان حق اور پيروان شيطان پر غالب آجائيں _آمين،،

____________________

۱_سورہ نور _ آيت ۶۲

۳۲

تيسرا سبق :

سچ اور جھوٹ

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں؟

۲) .........سچائي انبيائ(ص) كے مقاصد ميں سے ايك ہي

۳) .........جھوٹ كى وجوہات

۴) .........جھوٹ كيوں بولاجاتا ہے ؟

۵) جھوٹ كا علاج

۳۳

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں ؟

'' سچ ،،ايك نہايت بہترين اور قابل تعريف صفت ہے كہ جس سے مو من كو آراستہ ہونا چاہئے _ راست گوئي انسان كے عظيم شخصيت ہونے كى علامت ہے _

جب كہ '' جھوٹ بولنا،، اس كے پست ، ذليل اور حقير ہونے كى نشانى ہے ، جس سے ہر مو من كو پرہيز كرنا چاہئے _

احاديث ميں '' سچ ،، اور ''جھوٹ ،،كو كسى انسان كے پہچاننے كا معيار قرار ديا گيا ہے _ حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں :

'' كسى انسان كے اچھّے يا برے ہونے كى پہچان اس كے ركوع اور سجود كو طول دينے سے نہيں ہوتى ، اور نہ ہى تم اس كے ركوع اور سجود كے طولانى ہونے كو ديكھو ،كيونكہ ممكن ہے ايسا كرنا اس كى عادت بن چكا ہو كہ جسكے چھوڑنے سے اسے وحشت ہوتى ہے ، بلكہ تم اس كے سچ بولنے اور امانتوں

۳۴

كے ادا كرنے كو ديكھو ،،(۱) سچّے انسان كا ظاہر پر سكون اور باطن مطمئن ہوتا ہي، جب كہ جھوٹا آدمى ہميشہ ظاہرى طور پرپريشان اور باطنى طور پراضطراب و تشويش ميں مبتلا رہتا ہي_ حضرت اميرالمومنين (ع) فرماتے ہيں :

'' كوئي شخص بھى اپنے دل ميں كوئي راز نہيں چھپاتا ، مگر يہ كہ وہ اس كى بے ربط باتوں اور چہرے كے رنگ سے ظاہر ہو جاتا ہے (جيسے چہرے كى زردى خوف كے علامت اور سرخى شرمندگى كى نشانى ہے ) ،،(۲)

ايك شخص بہت سامان ليكر چند ساتھيوں سے ساتھ سفر پر گيا ہوا تھا ، اس كے ساتھيوں نے اسے قتل كر كے اس كے مال پر قبضہ كر ليا ، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے كہ وہ سفر كے دوران فوت ہو گيا ،انہوں نے آپس ميں يہ طے كر ليا تھا كہ اگر كوئي ان سے اس كى موت كا سبب پوچھے تو سب يہى كہيں گے كہ وہ بيمار ہو گيا تھا اور اس بيمارى ميں وہ فوت ہو گيا _

اس شخص كے ورثاء نے حضرت على عليہ السلّام كى خدمت ميں يہ واقعہ ذكر كيا تو حضرت على عليه السلام نے تفتيش كے دوران سے دريافت فرمايا كہ تمہارے ساتھى كى موت كس دن اور كس وقت واقع ہوئي ؟ ،اسے كس نے غسل ديا ؟ ،كس نے پہنايا؟اور كس نے نماز جنازہ پڑھائي ؟ _ ہر ايك سے بطور جدا گانہ سوالات كئے ، اور ہر ايك نے ايك دوسرے كے برعكس جواب ديا _

____________________

۱_ سفينة البحار_ ج ۲_ ص۱۸

۲_ نہج البلاغہ _ حكمت ۲۵

۳۵

امام _ نے بلند آواز سے تكبير كہى اور تفتيش كو مكمل كر ليا ، اس طرح سے اُن كے جھوٹ كا پردہ فاش ہو گيا اور معلوم ہو گيا كہ ساتھيوں ہى نے اسے قتل كياتھا اور اس كے مال پر قبضہ كر ليا تھا(۱)

۲) ...سچّائي انبياء (ع) كے مقاصد ميں سے ايك ہے :

لوگوں كو سچّائي اور امانت دارى كے راستوں پر ہدايت كرنا، اور جھوٹ اور خيانت سے ان كو باز ركھنا تمام انبياء (ع) الہى كى بعثت كے مقاصد ميں سے ايك مقصد رہا ہے _ جيسا كہ حضرت امام جعفر صاد ق(ع) فرماتے ہيں :

''ان الله لم يبعث نبيا الا بصدق الحد يث وَاَدَائ الاَمَانة ،،(۲) '' خداوند عالم نے كسى نبى كو نہيں بھيجا مگر دو نيك اور پسنديدہ اخلاق كے ساتھ ، ايك تو سچ بولنا اور دوسرے امانتوں كى ادائيگى ہے _،،

حضرت على عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''لايجدُ عبد حقيقة الايمان حتّى يدع الكذبَ جدَّه وهزله'' (۳) ''كوئي بندہ ايمان كى حقيقت كو اس وقت تك نہيں پاسكتا ، جب تك كہ وہ جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے ، چاہے وہ واقعاً جھوٹ ہو يا مذاق سے جھوٹ ہو_،،

____________________

۱_قضاوتہاى حضرت على عليه السلام

۲ _ سفينة البحار_ ج ۶_ ص ۲۱۸

۳_سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۶

۳) جھوٹ كے اثرات :

الف: جھوٹ ، انسان كى شرافت اور اس كى شخصيت كے منافى ہے ،

يہ انسان كو ذليل كر ديتا ہے ، جناب اميرالمؤمنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''الكذبُ وَالخيانة ليسا من اخلاق الكرام _،،(۱)

ترجمعہ :'' جھوٹ اور خيانت شريف لوگوں كا شيوہ نہيں ہے _،،

::: ب: جھوٹ ، ايمان كو برباد كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليہ السلّام فرماتے ہے :

''انَّ الكذب هوخراب الايمان ،،(۲) ''جھوٹ ايمان كى تباہى كا موجب بنتا ہے _ ،،

ج: جھوٹ دوسرے گناہوں كا سبب بنتا ہے

_ جبكہ سچّائي بہت سے گناہوں ميں ركاوٹ بنتى ہے _ جھوٹ بولنے والا كسى گناہ كے ارتكاب سے نہيں ہچكتا ، اور ہر قسم كى قيد و بند كو توڑ ڈالتا ہے اور جھوٹ سے ان تمام گناہوں كا انكار كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

'' خداوند عالم نے تمام برائيوں كو ايك جگہ قرار ديا ہے اور اس كى چابى شراب ہے _ ليكن جھوٹ شراب سے بھى بدتر ہے _،،(۳)

____________________

۱_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ص ۳۴۳

۲_ اصول كافى _ (مترجم)_ ج ۲_ ص ۳۳۹

۳_ سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۷

د: جھوٹ ، كفر سے قريب ہے _

ايك شخص نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر سوال كيا كہ جہنّمى كون سے جرم كى وجہ سے زيادہ جہنّم ميں جائيں گے ؟ ، حضور(ص) نے ارشاد فرمايا :

'' جھوٹ كى وجہ سے ، كيونكہ جھوٹ انسان كو فسق و فجور اور ہتك حرمت كى طرف لے جاتا ہے ، فسق و فجور كفر كى طرف اور كفر جہنّم كى طرف لے جاتا ہے _ ،،(۱)

ھ: ......جھوٹ بولنے والے پر كوئي اعتماد نہيں كرتا ،

جھوٹ بولنے سے انسان كى شخصيّت كا اعتبار ختم ہو جاتا ہے ، اور دروغگوئي كى صفت اس كے بے آبرو ہو جانے كا سبب بن جاتى ہے _ جھوٹے چروا ہے كى داستان آپ نے كتابوں ميں پڑھى ہو گى كہ جس نے دروغ گوئي سے شير آيا ، شير آيا،،چلا چلاكر اپنا اعتماد كھو ديا تھا ، چنانچہ ايك دن وہ ايك واقعى شير كا شكار ہو گيا _

حضرت امير المومنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''جو شخص جھوٹا مشہور ہو جائے لوگوں كا اعتماد اس سے اٹھ جاتا ہے _،،(۲)

'' جو جس قدر زيادہ جھوٹا ہو گا ، اسى قدر زيادہ ناقابل اعتماد ہو گا _،،(۳)

ي: '' دروغ گورا حاقطہ نباشد ،، والى ضرب المثل صحيح ہے ،كيونكہ وہ ہميشہ حقيقت كے خلاف بات كرتا ہي، متعدد نشستوں ميں مختلف قسم كے جھوٹ بولتا ہي، جو ايك دوسرے كے برعكس ہوتے ہيں _

____________________

۱_ مستدرك الوسائل ج۲ ص ۱۰۱

۲_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۲۴۵

۳_ اصول كافى (مترجم ) _ ج ۴ _ ص ۳۸

۳۸

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' نسيان اور بھول چوك ايك ايسى چيز ہے كہ جو خدا جھوٹوں كے دامن ميں ڈال ديتا ہے _،،(۱)

۴) ......جھوٹ كى وجوہات :

ہر ايك گناہ اور برا كام ان اسباب وعلل كى وجہ سے سر زد ہوتا ہے جو كہ انسان كے اندر ہى اندر پروان چڑھتے رہتے ہيں ، لہذا گناہوں كا مقابلہ كر كے ان اسباب و علل كا خاتمہ كر دينا چاہئے _ جھوٹ ايك ايسى برى عادت ہے كہ جس كے كئي اسباب بتائے گئے ہيں ، جنہيں ہم ذيل ميں اختصار كے ساتھ ذكر كر رہے ہيں :

الف: احساس كمتري:

بعض لوگ چونكہ اپنے آپ ميں اپنى اہميت يا كوئي خاص ہنر نہيں پاتي، لہذا كچھ جھوٹى اور بے سروپا باتوں كو جوڑ كر لوگوں كے سامنے اپنى اس كمى كى تلافى كرتے ہيں اور اپنے آپ كومعاشرہ كى ايك اعلى شخصيت ظاہر كرنے كى كوشش كرتے ہيں، يہى وجہ ہے كہ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''جھوٹا شخص ' احساس كمترى كى وجہ سے ہى جھوٹ بولتا ہي''_

ب: سزا اور جرمانہ سے بچنے كيلئے :

كچھ لوگ سزا كے خوف سے جھوٹ كا سہارا ليتے ہيں اور اس طرح وہ يا تو سرے ہى سے جرم كا انكار كرديتے ہيں يا پھر اپنے جرم كى توجيہہ ميں غلط بيانى كرتے ہيں اور اپنے جرم كا اقرار كرنے پر قطعاً آمادہ نہيں ہوتے اور جرم كى سزا بھگتنے يا جرمانہ ادا

۳۹

كرنے كے لئے تيار نہيں ہوتي_

ج: منافقت اور دوغلى پاليسي_

منافق اور دوغلے لوگ خوشامد اور چاپلوسى كے پردے ميں جھوٹ بول بول كر ايسى حركتوں كے مرتكب ہوجاتے ہيں جن كے ذريعے وہ معاشرے كے افراد كى توجہ اپنى طرف مبذول كركے اپنے ناپاك عزائم كو پورا كرليتے ہيں_

خداوند عالم نے سورہ بقرہ كے اوائل ميں اس طريقہ كار كو منافقين كى صفت قرار ديا ہے اور فرمايا ہي:

( واذ القو الذين امنوا قالوا امنا واذا خلوا إلى شياطينهم قالو انا معكم انما نحن مستهزئون'' ) (۱)

''جب منافقين' مومنين سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لائے ہيں' اور جب اپنے شيطان صفت لوگوں سے تنہائي ميں ملاقات كرتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تو تمہارے ساتھ ہيں' ہم تو (مومنين كے ساتھ ) ٹھٹھا مذاق كرتے ہيں''_

د: ايمان كا فقدان:

قران مجيد اور روايات سے پتہ چلتا ہے كہ دروغگوئي كى ايك بنيادى وجہ ايمان كا كلى طور پر فقدان يا ايمان كى كمزورى ہي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہي:

( انما يفترى الكذب الذين لا يومنون بايات الله و اولئك هم الكاذبون'' ) (۱)

____________________

۱_ سورہ بقرہ_ آيت ۱۴

۲_ سورہ نحل _آيت ۱۰۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193