قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 20%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71162 / ڈاؤنلوڈ: 5107
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

خداوند عالم ان کے اس شبہ (جنگ میں شرکت قتل کئے جانے کا سبب ھے) کا جواب بیان کررھا ہے، موت ایک الہی تقدیر و سر نوشت ہے موت سے فرار میسر نہیں، اور معرکہ احد میں قتل کیا جانا نبوت و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نا سالم ہونے اور ان کے نادرست اقدام کی علامت نہیں، جن افراد نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی ہے موت سے گریز و فرار نہیں کرسکتے ہیں یا اس کو موخر کرنے کی قدرت و توانائی نہیں رکھتے ہیں۔

(قل لو کانوا فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیهم القتل الی مضاجعهم) (۲۴۸)

تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم گھروں میں بھی رہ جاتے تو جن کے لئے شھادت لکھ دی گئی ہے وہ اپنے مقتل تک بہر حال جاتے۔

قرآن موت و حیات کو خدا کے اختیار میں بتاتا ہے معرکہ و جنگ کے میدان میں جانا موت کے آنے یا تاخیر سے آنے میں مؤثر نہیں ہے۔

(والله یحیی و یمیت والله بما تعملون بصیر) (۲۴۹)

موت و حیات خدا کے ھاتھ میں ہے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے اس مطلب کی تاکید کی کہ موت و حیات انسان کے اختیار میں نہیں ہے منافقین کے لئے اعلان کیا جارھا ہے کہ اگر تمھارا عقیدہ یہ ہے کہ موت و حیات تمھارے اختیار میں ہے تو جب فرشتۂ مرگ نازل ہو تو اس کو اپنے سے دور کردینا اور اس سے نجات حاصل کرلینا۔

(قل فادرئوا عن انفسکم الموت ان کنتم صادقین) (۲۵۰)

پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو اب اپنی ہی موت کو ٹال دو۔

-----------------

۲۴۸. سورہ آل عمران/۱۵۴۔

۲۴۹. سورہ آل عمران/۱۵۶۔

۲۵۰. سورہ آل عمران/۱۶۸۔

۱۶۱

مسلمانوں کو اپنے مذہب و عقیدہ میں شک سے دوچار کرنے کے لئے منافقین ہمیشہ یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے، اگر ہم حق پر تھے تو کیوں قتل ہوئے اور کیوں اس قدر ھمیں قربانی دینی پڑی، ھمیں جو جنگ احد میں ضربات و شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ھمارا دین اور آئین حق پر نہیں ہے۔

قرآن کے کچھ جوابات اس شبہ کے سلسلہ میں گزر چکے ہیں، اساسی و مرکزی مطلب اس شبہ کو باطل کرنے کے لئے مورد توجہ ہونا چاھئے وہ یہ کہ ظاہری شکست حق پر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے جس طریقہ سے ظاہری کامیابی بھی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔

بھت سے انبیاء حضرات کہ جو یقیناً حق پر تھے، اپنے پروگرام کو جاری کرنے میں کامیابی سے ہم کنار نہیں ھوسکے، بنی اسرائیل نے بین الطلوعین ایک روز میں ستر انبیاء کو شھید کر ڈالا اور اس کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ھوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، کوئی حادثہ وجود میں آیا ہی نہیں، تو کیا ان پیامبران الہی کا شھید و مغلوب ہونا ان کے باطل ہونے کی دلیل ھے؟ اور بنی اسرائیل کا غالب ھوجانا ان کی حقانیت کی علامت ھے؟ یقیناً اس کا جواب نہیں میں ہے، دین کے سلسلہ میں فریب کی نسبت دینا اور حق پر نہ ہونے کے لئے شبہ پیدا کرنا، منافقین کے القاء شبھات کے دو نمونہ تھے جسے منافقین پیش کرتے تھے لیکن ان کے شبھات کی ایجاد ان دو قسموں پر منحصر و محصور نہیں ہے۔

۱۶۲

دین کو اجتماع و معاشرت کے میدان سے جدا کرکے صرف آخرت کے لئے متعارف کرانا، دین کے تقدس کے بھانے دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ بلند کرنا، تمام ادیان و مذاھب کے لئے حقانیت کا نظریہ پیش کرنا، صاحب ولایت کا تمام انسانوں کے برابر ھونا، صاحب ولایت کی درایت میں تردید اور اس کے اوامر میں مصلحت سنجی کے نظریہ کو پیش کرنا، احکام الہی کے اجرا ہونے کی ضرورت میں تشکیک وجود میں لانا، خدا محوری کے بجائے انسان محوری کی ترویج کرنا، اس قبیل کے ھزاروں شبھات ہیں جن کو منافقین ترویج کرتے تھے اور کررھے ہیں، تا کہ ان شبھات کے ذریعہ دین کے حقایق و مسلّمات کو ضعیف اور اسلامی معاشرہ سے روح ایمان کو خالی کردیں اور اپنے باطل و بیھودہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔

البتہ یہ بات ظاہر و عیاں ہے کہ منافقین مسلمانوں کے اعتقادی و مذھبی یقینیات و مسلّمات میں القاء شبھات کے لئے اس نوع کے مسائل کا انتخاب کرتے ہیں جو اسلامی حکومت و معاشرے کی تشکیل میں مرکزی نقش رکھتے ہیں اور ان کے تسلط و قدرت کے لئے موانع ثابت ھوتے ہیں، اسی بنا پر منافقین کے القاء شبھات کے لئے زیادہ تر سعی و کوشش دین کے سیاسی و اجتماعی مبانی نیز دین و سیاست کی جدائی اور دین کو فردی مسائل سے مخصوص کردینے کے لئے ہوتی ہیں۔

۱۶۳

فصل پنجم: منافقین کی اجتماعی و معاشرتی خصائص

۱) اہل ایمان و اصلاح ہونے کی تشھیر

منافقین ہمیشہ سماج اور معاشرہ میں ظاہراً ایمان اور اصلاح کا نعرہ بلند کرتے ہوئے قد علم کرتے ہیں، دین اور اسلامی نظام سے و معرکہ آرائی کی صریح گفتگو نہیں کرتے اسی طرح منافقین کبھی بھی فساد کا دعوی نہیں کرتے بلکہ شدت سے انکار کرتے ہوئے، بلکہ خود کو اصلاح کی دعوت دینے والا اور دینداری کا علمبردار پیش کرتے ہیں۔

اس سے قبل منافقین کی فردی رفتار کی خصوصیت کے ذیل میں بعض آیات جو منافقین کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں، پیش کی گئی ہیں، جس میں عرض کیا گیا کہ منافقین اس طرح خوبصورت اور دلچسپ انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی تعجب خیز ہوتا ہے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض منافقین کو پہچانتے بھی تھے، لیکن اس کے باوجود دیکھتے تھے کہ وہ اچھائی اور بھتری کا نعرہ لگاتے ہیں، دل موہ لینے والی گفتگو کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں خیر و صلاح کی نمائش بھی ہوتی ہے، منافقین کی یہ فردی خصوصیات ان کی اجتماعی رفتار میں بھی مشاہدہ کی جاسکتی

ہے۔

(ویقولون آمنّا بالله و بالرسول و اطعنا ثم یتولّی فریق منهم من بعد ذلک وما اولئک بالمومنین) (۲۵۱)

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اطاعت کی اور اس کے بعد ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے اور یہ واقعاً صاحبان ایمان نہیں ہیں۔

--------------

۲۵۱. سورہ نور/۴۷۔

۱۶۴

مسجد ضرار کی سازش میں منافقین کا نعرہ مریض، بیمار افراد کی مساعدت اور ایک مقدس ھدف کا اظھار تھا، قرآن صریحی اعلان کررھا ہے کہ ان لوگوں نے مسجد، اسلام و مسلمانوں کو ضرر اور نقصان پھونچانے اور کفر کی تقویت دینے کے لئے بنائی تھی، مسجد کا ھدف صاحبان ایمان کے مابین تفرقہ و اختلاف کی ایجاد اور دشمنان اسلام کے لئے سازشی مرکز تیار کرنا تھا حالانکہ وہ قسم کھاتے تھے کہ ھمارا ارادہ خدمت خلق اور نیکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

(ولیحلفن ان اراد الّا الحسنی) (۲۵۲)

اور یہ قسم کھاتے ہیں کے ہم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر قرآن منافقین کو اس طرح بیان کررھا ہے کہ منافقین پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں ان کے دستور و آئین کی فرماں فرداری اور مطیع محض ہونے کا اظھار کرتے ہیں لیکن جب خصوصی جلسہ تشکیل دیتے ہیں تو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازش کا پروگرام بناتے ھیں(۲۵۳)

ظواھر کا آراستہ ہونا اور اچھے اچھے نعرے لگانا، منافقین کے دونوں گروہ، یعنی منافق خوف، اور منافق طمع، کی اجتماعی خصوصیات میں سے ہے، منافقین، اسلامی و ایمانی معاشرے میں پلید افعال انجام دینے کے لئے ایمان کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دین داری و اصلاح طلبی کا اظھار کرتے ہیں۔

----------

۲۵۲. سورہ توبہ/۱۰۷۔

۲۵۳. سورہ نساء/ ۸۱۔

۱۶۵

۲) معروف کی نھی و منکر کا حکم

منافقین کی دوسری اجتماعی خصوصیت معروف کی نھی اور منکر کا حکم دینا ہے کلمہ (معروف و منکر) وسیع مفھوم کے حامل ہیں، تمام فردی، اجتماعی، سیاسی، نظامی ثقافتی اور معاشرتی اقدار و ضد اقدار کو شامل ھوتے ہیں جماعت نفاق کا نشانہ اور ھدف انواع منکرات کی اشاعت اور اسلامی اقدار و شائستگی کو محو کرنا ہے، لھذا اپنے منافقانہ کردار و رفتار کے ذریعہ شوم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

(المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض یامرون باالمنکر وینهون عن المعروف) (۲۵۴)

منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں سب برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں۔

مذکورہ آیت میں جیسا کہ اس کے شان نزول سے استفادہ ہوتا ہے منکر کا مصداق سیاسی اقدار کی خلاف ورزی ہے، منافقین افراد کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھمراھی نہ کرنے کی دعوت دیتے تھے جو اسلامی نظام کی علامت اور بانی تھے، صاحبان ایمان حضرات کو ولایت کے فرامین سے عدول اور نافرمانی کی ترغیب دلاتے تھے، ظاہرا ہے کہ اس منکر سیاسی کا خطرہ، فردی منکرات سے کہیں زیادہ ہے۔

لیکن کبھی خطا سرزد ھوجاتی ہے اور معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف انجام ہوجاتا ہے قصد تخریب نہیں ہوتا ہے، لھذا اس قسم کے موراد قابل گذشت ہیں لیکن اس کے مقابل بعض افراد معروف کی شناخت رکھتے ہوئے اس کے برخلاف دعوت عمل دینے کے پابند ہیں منکر سے آگاہ ھوتے ہوئے بھی لوگوں کو اس کے انجام کے لئے ورغلاتے ہیں۔

------------

۲۵۴. سورہ توبہ/۶۷۔

۱۶۶

ابو حنیفہ کی یہ کوشش رھتی تھی کہ وہ بعض موارد میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے خلاف فتوی دے، چنانچہ وہ سجدے کے مسئلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے فتوے کو نہیں جانتا تھا کہ اس حالت میں آپ کا فتوی آنکھ بند کرنے کا ہے یا کھلی رکھنے کا لھذا اس نے فتوی دیا کہ ایک آنکھ کھلی اور ایک بند رکھی جائے تاکہ ہر حال میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے فتوے کی مخالفت ھوسکے۔

منافقین، اسلامی معاشرے میں معروف و منکر کی عمیق شناخت رکھتے ہوئے منکر کا حکم اور معروف سے نھی کرتے تھے لیکن انتھائی زیر کی اور فریب کاری کے ساتھ کہ کہیں ان کے راز فاش نہ ہوجائیں اور ان کے حربے ناکام ہوجائیں۔

۳) بخل صفت ہونا

منافقین کی اجتماعی رفتارکی دوسری خصوصیت بخیل ہونا ہے وہ سماج و معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کے لئے مال صرف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

(یقبضون ایدیهم) (۲۵۵)

اور (منافقین وہ لوگ ہیں جو) اپنے ھاتھوں کو (نفاق و بخشش سے) روکے رہتے ہیں۔

سورہ احزاب میں بھی منافقین کی توصیف کرتے ہوئے ان کی اس معاشرتی فکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

(اشحة علیکم) (۲۵۶)

وہ (منافقین) تمام چیزوں میں، تمھارے حق میں بخیل ہیں۔

------------

۲۵۵. سورہ توبہ /۶۷۔

۲۵۶. سورہ احزاب ۱۹، اشحۃ، شیح کی جمع ہے اس کے معنی شدید بخل حرص کے ساتھ، کرنا ہے۔

۱۶۷

منافقین نہ صرف یہ کہ خود بخیل، کوتاہ دست، نیز محرومین و فقراء کی مدد و مساعدت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس صفت کا عادی بنانا چاہتے ہیں اور انفاق کرنے سے روکتے ہیں۔

(هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضّوا ولله خزائن السماوات والارض ولکن المنافقین لا یفقهون) (۲۵۷)

یھی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ لوگ منتشر ہوجائیں حالانکہ آسمان و زمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور یہ منافقین اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔

مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں کھا جاتا ہے کہ غزوہ بنی المصطلق کے بعد مسلمانوں کے دو فرد کا کنویں سے پانی لینے کے سلسلہ میں جھگڑا ھوگیا ان میں ایک انصار اور دوسرا مھاجرین کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے دونوں نے اپنے اپنے گروھوں کو مدد کے لئے آوازدی، عبداللہ ابن ابی جو منافقین کے ارکان میں سے تھا، گروہ انصار کی طرف داری کرتے ہوئے میدان میں اتر آیا دونوں گروہ میں لفظی جنگ شروع ھوگئی۔

عبد اللہ ابن ابی نے کھا: ہم نے مھاجرین جماعت کو پناہ دی، اور ان کی مدد کی لیکن ھماری مدد و مساعدت اس معروف مثل کے مانند ھوگئی جس میں کھا جاتا ہے "ثمن کلبک یأکلک" اپنے کتے کو کھلا پلا کر فربہ کرو تاکہ وہ تم کو کھا جائے یہ ہم انصار کی مدد و نصرت کا نتیجہ ہے جو ہم نے مھاجرین ھمارے ساتھ کررھے ہیں ہم نے اس گروہ (مھاجر) کو اپنے شھر میں جگہ دی اپنے اموال کو ان کے درمیان تقسیم کئے، اگر اپنی باقی ماندہ غذا کو ان مھاجرین کو نہ دیتے تو آج ہم انصار کی یہ نوبت نہ آتی کہ مھاجر ھماری گردنوں پر سوار ھوتے بلکہ ھماری مدد نہ کرنے کی صورت میں اس شھر سے چلے جاتے اور اپنے قبائل سے ملحق ھوجاتے۔

قرآن عبداللہ ابن ابی کی توھین آمیز گفتگو اور اس کی تاکید کہ انصار مھاجرین کی مدد کرنا ترک کردیں، کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ کررھا ہے کہ آسمان و زمین کے خزائن خدا کے ھاتھوں میں ہے منافقین کے بخل کرنے اور انفاق سے ھاتھ روک لینے سے، کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔

-----------

۲۵۷. سورہ منافقون/۷۔

۱۶۸

۴) صاحبان ایمان کی عیب جوئی اور استھزا

منافقین کی اجتماعی خصائص میں سے ایک خصوصیت صاحب ایمان کا استھزا، عیب جوئی اور تمسخر ہے، منافقین سے ایسے افعال کا صدور ان کی ناسالم طبیعت اور روحانی مریض ہونے کی غمازی کررھا ہے، تمسخر اور عیب جوئی ایک قسم کا ظلم شخصیت پر دست درازی اور انسانی حیثیت کی بے حرمتی ہے، حالانکہ انسان کے لئے اس کی شخصیت و حرمت اور آبرو ھرشی سے عزیز تر ہوتی ہے۔

اشخاص کی تمسخر و عیب جوئی کے ذریعہ رسوائی اور بے حرمتی کرنا، فرد مقابل کے مریض، کینہ پرستی سے لبریز قلب اور پست فطرتی کی علامت ہے، منافقین بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔

(واذا لقوا الذین آمنوا قالوا آمنا واذا خلوا الی شیاطینهم قالوا انا معکم انما نحن مستهزون) (۲۵۸)

جب صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اہل ایمان ہیں، اور جب اپنے شیاطین کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف صاحبان ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

منافقین جنگوں میں ہر زاویہ سے مومنین پر اعتراض کرتے تھے جو جنگ میں زیادہ حصہ لیتے تھے اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے ان کو ریا کاری کا عنوان دیدیتے تھے اور جن کی بضاعت کم تھی اور مختصر مساعدت کرتے تھے، تو ان کا استھزا کرتے ہوئے کہتے تھے لشکر اسلام کو اس کی کیا ضرورت ھے؟!

-------------

۲۵۸. سورہ بقرہ/۱۴۔

۱۶۹

نقل کیا جاتا ہے ابو عقیل انصاری نے شب و روز کام کرکے دومن خرمے حاصل کئے ایک من اپنے اہل و عیال کے لئے رکھے اور ایک من پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، منافقین ابو عقیل انصاری کے اس عمل پر تمسخر و استھزا میں مشغول ھوگئے، اس وقت ذیل کی آیت کا نزول ہوا۔

(الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم ولهم عذاب الیم) (۲۵۹)

جو لوگ صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے مومنین اور ان غریبوں پر جن کے پاس ان کی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے الزام لگاتے ہیں اور پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں خدا ان کا بھی مذاق بنادے گا اور اس کے پاس بڑا درد ناک عذاب ہے۔

آیت فوق سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین ایک گروہ کی عیب جوئی کرتے تھے اور ایک گروہ کا استھزا و مسخرہ کرتے تھے ان کا استھزا ان افراد کے لئے تھا جو لشکر اسلام کے لئے مختصر اور ناچیز مساعدت کرتے تھے اور عیب جوئی ان اشخاص کے لئے تھی جو وافر مقدار میں نصرت و مدد کرتے تھے پہلی قسم کے افراد کو استھزا کرتے ہوئے بے مقدار و ناچیز مدد کرنے والے القاب سے نوازتے تھے اور دوسری قسم کے اشخاص کو ریا کار سے تعارف کراتے تھے۔

----------------

۲۵۹. سورہ توبہ/۷۹۔

۱۷۰

۵) تضحیک و خندہ زنی

منافقین کی ایک دوسری اجتماعی رفتار کی خصوصیت تضحیک اور خندہ زنی ہے یعنی جب بھی صاحب ایمان سختی و عسرت میں ھوتے تھے تو منافقین خوشحال ھوتے اور ھنستے تھے اور مومنین کی سرزنش کیا کرتے تھے لیکن جب صاحبان ایمان کو آرام اور آسائش میں دیکھتے تھے تو ناراض اور غمزدہ ھوتے تھے، قرآن مجید چند آیات کے ذریعہ منافقین کی اس کیفیت کو بیان کر رہا ہے۔

(ان تمسسکم حسنة تسؤهم وان تصبکم سیئة یفرحوا بها) (۲۶۰)

تمھیں ذرا بھی نیکی پہنچتی ہے تو وہ ناراض ھوتے ہیں اور تمھیں تکلیف پھنچتی ہے تو وہ خوش ھوتے ہیں۔

(وان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علی اذالم اکن معهم شهیداً) (۲۶۱)

اور اگر تم پر کوئی مصیبت آگئی تو کہیں گے خدا نے ہم پر احسان کیا کہ ہم ان کے ساتھ حاضر نہیں تھے۔

(ان تصبک حسنة تسؤهم وان تصبک مصیبة یقولوا قد اخذنا امرنا من قبل ویتولوا وهم فرحون) (۲۶۲)

ان کا حال یہ ہے کہ جب آپ تک نیکی آتی ہے تو انھین بری لگتی اور جب کوئی مصیبت آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا اور خوش و خرم واپس چلے جاتے ہیں۔

----------------

۲۶۰. سورہ آل عمران/۱۲۰۔

۲۶۱. سورہ نساء/۷۲۔

۲۶۲. سورہ توبہ/۵۰۔

۱۷۱

منافقین عداوت و دشمنی کی بنا پر جو مسلمانوں کے لئے رکھتے ہیں ان کی خوش حالی اور آسائش کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں لیکن جب صاحب ایمان مصیبت یا جنگ میں گرفتار ھوتے ہیں تو بھت شادمان اور خوش نظر آتے ہیں۔

جب مسلمان سختی و عسرت میں ھوتے ہیں تو ان کی سرزنش کرتے ہیں اور اپنے موقف کو ان سے جدا کر لیتے ہے، اور شکر خدا بھی کرتے ہیں کہ ہم مومنین کے ساتھ (گرفتار) نہیں ہوئے۔

۶) کینہ توزی

منافقین، مومنین و اسلامی نظام کی نسبت شدید عداوت و کینہ رکھتے ہیں، کینہ و عداوت کے شعلے ہمیشہ ان کے دل و قلب میں افروختہ ہیں جو کچھ بھی دل میں ہوتا ہے وہ ان کی زبان و عمل سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے خواہ وہ اظھار خفیف ہی کیوں نہ ھو۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام اپنی گران قدر گفتگو میں صراحت کے ساتھ اس باریکی کو انسانوں کے لئے بیان فرماتے ہیں۔

((ما اضمر احد شیئا الا ظهر فی قلتات لسانه و صفحات وجهه)) (۲۶۳)

انسان جس بات کو دل میں چھپانا چاھتا ہے وہ اس کی زبان کے بے ساختہ کلمات اور چھرہ کے آثار سے نمایاں ھوجاتی ہے۔

مذکورہ کلام کی بنیاد پر منافقین جو شدید کینہ و عداوت صاحب ایمان سے رکھتے ہیں اس کا مختصر حصہ ہی منافقین کی رفتار و گفتار میں جلوہ گر ہوتا ہے۔

--------------

۲۶۳. نھج البلاغہ، حکمت۲۶۔

۱۷۲

قرآن مجید نے اس باریک مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ منافقین نے اپنے دلوں میں جو مخفی کر رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ان کی رفتار و گفتار میں دیکھا جاتا ہے۔

(قد بدت البغضاء من افواههم وما تخفی صدورهم اکبر) (۲۶۴)

ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے۔

لھذا منافقین کی رفتار و گفتار کے ظواھر سے اسلامی نظام اور صاحبان ایمان سے عداوت و کینہ کے کچھ بخش و حصہ کی شناخت کی جاسکتی ہے اور یہ آگاھی و شناخت مقدمہ ہے کہ ان سے مبارزہ کیا جاسکے اور اس نوعیت کے دشمنوں کو اسلامی معاشرے سے جدا اور اخراج کیا جاسکے۔

----------------

۲۶۴. سورہ آل عمران/۱۱۸۔

۱۷۳

فصل ششم: منافقین سے مقابلہ کرنے کی راہ و روش

روشن فکری و افشا گری

منافقین سے مقابلہ و مبارزہ کرنے کی راہ و روش ایک مفصل اور طولانی بحث ہے، یھاں بطور اجمال اشارہ کیا جارھا ہے، منافقین سے مقابلہ کے طریقوں میں زیادہ وہ طریقے قابل بحث ہیں جو منافقین کے سیاسی و ثقافتی فعالیت کو مسدود کرسکیں اور ان کے شوم اھداف کے حصول کو ناکام بناسکیں۔

منافقین سے مقابلہ اور مبارزہ کے سلسلہ میں پھلا مطلب یہ ہے کہ تحریک نفاق، ان کے اھداف نیز ان کے طور طریقہ اور روش کے سلسلہ میں روشن فکر ہونا چاھئے، نفاق کے چھروں کا تعارف نیز ان کے اعمال و افعال کا افشا کرنا نفاق و منافقین سے مقابلے و مبارزہ کے سلسلہ میں ایک مؤثر قدم ھوسکتا ہے۔

بطور مقدمہ اس مطلب کی یاد دھانی بھی ضروری ہے کہ دوسروں کے گناہ، اسرار کا افشا اور عیب جوئی کو اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے۔

بعض روایات و احادیث میں دوسروں کی معصیت و گناہ کو فاش کرنے کا گناہ، اسی معصیت و گناہ کے مطابق ہے، صاحبان ایمان کو نصیحت کی گئی ہے اگر تم چاہتے ھوکہ خداوند عالم قیامت میں تمھارے عیوب پر پردہ ڈالے رہے تو دنیا میں دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے رھو۔

۱۷۴

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سوال کے جواب میں، جس نے سوال کیا تھا ہم کون سا فعل انجام دیں کہ اللہ قیامت میں ھمارے عیوب کو ظاہر نہ کرے، آپ فرماتے ہیں:

((استر عیوب اخوانک یستر الله علیک عیوبک)) (۲۶۵)

اپنے (دینی) برادران کے عیوب کو پوشیدہ رکھو تاکہ اللہ بھی تمھارے عیوب کو پوشیدہ اور چھپائے رکھے۔

امیر المومنین حضرت علی نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

جو لوگ گناھوں سے محفوظ ہیں اور خدا نے ان کو گناھوں کی آلودگی سے پاک رکھا ہے ان کے شایان شان یھی ہے کہ گناھگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں اور اس حوالے سے خدا کی بارگاہ میں شکر گزار ہوں کیوں کہ ان کا شکر کرنا ہی ان کو عیب جوئی سے محفوظ رکھ سکتا ہے، چہ جائیکہ انسان خود عیب دار ہو اور اپنے بھائی کا عیب بیان کرے اور اس کے عیب کی بنا پر اس کی سرزنش بھی کرے، یہ شخص یہ کیوں نہیں فکر کرتا ہے کہ پروردگار نے اس کے جن عیوب کو چھپاکر رکھا ہے وہ اس سے بڑے ہیں جن پر یہ سرزنش کر رہا ہے اور اس عیب پر کس طرح مذمت کررھا ہے جس کا خود مرتکب ہوتا ہے اور اگر بعینہ اس گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے تو اس کے علاوہ دوسرے گناہ کرتا ہے جو اس سے بھی عظیم تر ہیں اور خدا کی قسم! اگر اس سے عظیم تر نہیں بھی ہیں تو کمتر تو ضرور ہی ہیں اور ایسی صورت میں برائی کرنے اور سرزنش کرنے کی جرأت بھر حال اس سے بھی عظیم تر ہے۔

------------------

۲۶۵. میزان الحکمۃ، ج۷، ص۱۴۵۔

۱۷۵

اے بندہ خدا! دوسرے کے عیب بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے خدا نے اسے معاف کردیا ہو اور اپنے نفس کو معمولی گناہ کے بارے میں محفوظ تصور نہ کر شاید کہ خداوند عالم اسی پر عذاب کردے ہر شخص کو چاھئے کہ دوسرے کے عیب بیان کرنے سے پرہیز کرے کیونکہ اسے اپنا عیب بھی معلوم ہے اور اگر عیب سے محفوظ ہے تو اس سلامتی کے شکریہ ہی میں مشغول رھے(۲۶۶)

حضرت علی علیہ السلام کی فرمایش کے مطابق نہ صرف یہ کہ افراد کو چاھئے کہ اپنے دینی اور انسانی برادران کے اسرار کو فاش نہ کریں اور ان کی بے حرمتی نہ کریں بلکہ حضرت کی فرمایش و نصیحت یہ ہے کہ اگر حکومت بھی، سماج و معاشرہ کے جن افراد کے اسرار و عیوب کو جانتی ہے تو اس کو چاھئے، ان کے عیوب کو پوشیدہ رکھے ان کی خطاؤں سے جہاں تک ممکن ہے چشم پوشی کرے، حضرت ایک نامہ کے ذریعہ مالک اشتر کو لکھتے ہیں:

((ولیکن ابعد رعیتک منک واشنأهم عندک اطلبهم لمعائب الناس فان فی الناس عیوبا الوالی احق من سترها فلا تکشفنّ عما غاب عنک منها فانّما علیک تطهیر ما ظهر لک والله یحکم علی ما غاب عنک فاستر العورة ما استطعت یستر الله منک ما تحبّ ستره من رعیتک)) (۲۶۷)

رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمھارے نزدیک مبغوض وہ شخص ہونا چاھئے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کو تلاش کرنے والا ہو اس لئے کہ لوگوں میں بھر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری، والی پر ہے لھذا خبردار جو عیب تمھارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا تمھاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کرنا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو کہ جن کے سلسلہ میں اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا کرتے ھو۔

----------------

۲۶۶. نھج، البالغہ، خطبہ۱۴۰، خطبہ طولانی ہونے کی بنا پر عربی عبارت نقل کرنے سے صرف نظر کیا گیا۔

۲۶۷. نھج البلاغہ، نامہ۵۳۔

۱۷۶

البتہ گناہ و معصیت کو پوشیدہ رکھنے اور فاش نہ کرنے کا حکم اور دستور وھاں تک ہے جب تک گناہ فردی و شخصی ہو اور سماج و معاشرے یا اسلامی نظام کے مصالح کے لئے ضرر و زیان کا باعث نہ ہو لیکن اگر کسی فرد نے بیت المال میں خیانت کی ہے، عمومی اموال و افراد کے حقوق ضائع کئے ہیں یا اسلامی نظام کے خلاف سازش اور فعالیت انجام دی ہے، تو اس کے افعال و رفتار کی خبر دینی چاھئے اور اس کو بیت المال کی خیانت و افراد کے حقوق ضائع کرنے کی بنا پر محاکمہ اور سزا دینی چاھئے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے تعیین کردہ امراء اور کارندوں کے افعال و رفتار کی تحقیق و نظارت کے لئے بھت سے مقام پر اپنے تفتیش کرنے والوں کو بھیجا کرتے تھے، اور جب کبھی ان کار گزاروں کی طرف سے خطا و نافرمانی کی خبر ملتی تھی ان کو حاضر کر کے شدید توبیخ کرتے اور سزا دیتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام بیت المال کے خیانت کاروں اور اموال عمومی کو ضائع کرنے والوں سے قاطعانہ طور پر باز پرس کرتے تھے آپ کے دوران خلافت و حکومت میں یہ مسئلہ بطور کامل مشھود ہے۔

منافقین کے عیوب و معصیت کے لئے یہ دونوں طریقے یقینی طور پر قابل اجرا ہیں، اگر ان کے گناہ، فسق و فجور فردی ہیں تو چشم پوشی سے کام لینا چاھئے لیکن اگر ان کی سرگرمی و فعالیت دشمن اسلام کے مانند ہو ان کا ھدف اسلام اور اسلامی نظام کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکنا ہو تو ایسی صورت میں ان کی حرکت کو فاش کرنا چاھئے ان کے افراد و ارکان کا تعارف کرانا چاھئے تاکہ امنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخریبی حرکتیں انجام نہ دیں، جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا گیا قرآن مجید نے تین سو آیات کے ذریعہ منافقین کی افشا گری کرتے ہوئے ان کی تخریبی فعالیت کی نشاندھی کی ہے اور ان کی صفات کو بطور دقیق بیان کیا گیا ہے، نفاق کی تحریک اور منافقین جماعت کی افشا گری چند بنیادی فوائد رکھتے ہیں۔

۱۷۷

۱۔ منافق جماعت کے ذریعہ فریب کے شکار ہوئے افراد خواب غفلت سے بیدار ھوکر حق کے دامن میں واپس آجائیں گے۔

۲۔ دوسرے وہ افراد جو تحریک نفاق سے آشنائی نہیں رکھتے وہ ھوشیار ہوجائیں گے اور اس کے خلاف موقف اختیار کریں گے ان کے موقف کی بنا پر حزب نفاق کے افراد کنارہ کش اور خلوت نشین ہوجائیں گے۔

۳۔ تیسرے منافقین کی جانی امنیت اور مالی حیثیت، افشا گری کی بنا پر خطرہ سے مواجہ ہوجائیں گی اور ان کی فعالیت میں خاصی کمی واقع ھوجائے گی۔

نفاق کے وسائل سے مقابلہ

منافقین سے مقابلہ کے سلسلہ میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نفاق کے وسایل و حربے نیز ان کی راہ و روش کی شناخت ہے، پہلے منافقین کی تخریبی فعالیت کے وسایل اور اھداف کی شناخت ہونا چاھئے پھر ان سے مقابلہ کرنا چاھئے۔

نفاق کی شناخت کے لئے ضروری ترین امر، ان کی سیاسی و ثقافتی فعالیت کی روش اور طریقہ کی شناسائی ہے، یہ شناخت نفاق ستیزی کے لئے بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے کہ جب تک دشمن اور اس کے وسایل و حربے شناختہ شدہ نہ ہوں تو مبارزہ و مقابلہ کی بساط کہیں کی نہیں ہوتی ہے۔

یھاں پر وسائل نفاق سے مقابلہ و مبارزہ کے لئے چند اساسی و بنیادی طریقہ کو بیان کیا جارھا ہے ، البتہ دشمن کے ھجومی اور ہر قسم کے تخریبی حملے سے مقابلہ کے لئے کچھ خاص طریقۂ کار کی ضرورت ہے کہ جس کا یھاں احصا ممکن نھیں۔

۱۷۸

۱) صحیح اطلاع فراھم کرنا

اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے کہ منافقین کا ایک اور حربہ و وسیلہ افواہ کی ایجاد ہے، اس حربہ سے مقابلہ کے لئے بھترین طریقۂ کار صحیح اور موقع سے اطلاع کا فراھم کرنا ہے، افواہ پھیلانے والے افراد، نظام اطلاعات کے خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افواھوں کا بازار گرم کرتے ہیں، اگر اخبار و اطلاعات بہ موقع، صحیح اور دقیق، افراد و اشخاص اور معاشرے کے حوالہ کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ افواہ و شایعات اپنے اثرات کھو بیٹھیں گے۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ االسلام نھج البلاغہ میں حاکموں پر عوام کے حقوق میں سے ایک حق، ملک کے حالات سے عوام کو آگاہ کرنا بتاتے ہیں، آپ فرماتےھیں:

((ألا و انّ لکم عندی ان لا احتجز دونکم سراً الا فی حرب)) (۲۶۸)

یاد رکھو! مجھ پر تمھارا ایک حق یہ بھی ہے کہ جنگ کے علاوہ کسی بھی موقع پر کسی راز کو تم سے چھپاکر نہ رکھوں۔

مذکورہ کلام میں جنگ کے مسائل و فوجی و نظامی اسرار کا ذکر کسی خصوصیت کا حامل نہیں، صرف ایک نمونہ کا ذکر ہے، نظامی اسرار اور اطلاعات کے سلسلہ میں عدم افشا کا معیار معاشرہ اور حکومت کے لئے ایک مصلحت تصور کرنا چاھئے، لھذا اسی اصل پر توجہ کرتے ہوئے اور اموی مشیزی کی افواہ سازی کے حربہ کو ناکام بنانے کے لئے آپ نے جنگ صفین کے اتمام کے بعد مختلف شھروں میں خطوط بھیجے اور ان خطوط میں جنگ صفین کے تمام تفصیلات بیان کئے، معاویہ اور اس کے افراد کی جنگ طلبی کی وجہ اور علت کو تحریر فرمایا اور دونوں گروہ کے مذاکرات کی تفصیل بھی مرقوم فرمائی(۲۶۹)

--------------

۲۶۸. نھج البلاغہ، نامہ۵۰۔

۲۶۹. نھج البلاغہ، نامہ۵۸۔

۱۷۹

امام علیہ السلام کے خطوط بھیجنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ امام پیش بینی کر رہے تھے کہ معاویہ اور اس کے افراد افواھوں کا بازار گرم کریں گے مسلمانوں کے درمیان مسموم تبلیغ کے ذریعہ، عمومی افکار کی تخریب کرتے ہوئے علوی حکومت کے خلاف عوام کو ورغلائیں گے لھذا امام نے پھل کرتے ہوئے سریع اور صحیح اطلاعات فراھم کرتے ہوئے لوگوں کے افکار اور قضیہ کے ابھامات روشن کردیئے۔

مذکورہ مقام کے علاوہ بھت سے ایسے موارد نھج البلاغہ میں پائے جاتے ہیں کہ جس میں حضرت نے مختلف مواقع پر حکومتی امور کی گزارش عوام کے سامنے پیش کی ہے، اور اس عمل کے ذریعہ بھت سی افواہ و شایعات کو وجود میں آنے سے روک دیا ہے۔

۲) شبھات کی جواب دھی اور سیاسی و دینی بصیرت کی افزائش

شبہ کا القا ایک دوسری روش ہے جس کے ذریعہ منافقین سوء استفادہ کرتے ہیں، منافقین کے شبھات کا منطقی اور بر محل جواب دے کر ان کو خلع سلاح کرتے ہوئے اثرات کو زائل کیا جاسکتا ہے۔

شبھات کے جواب میں منطقی استدلال پیش کرنا ایک، مکتب فکر کے قدرت مند اور مستحکم ہونے کی اہم ترین علامت ہے، بحمداللہ اسلام کے حیات بخش آئین کو عقل قوی اور فطرت کی پشت پناھی حاصل ہے، اہل نفاق کے اس حربہ سے مقابلہ کرنے کے لئے لازم ہے کہ اسلامی مکتب فکر سے عمیق آشنائی رکھتے ہوئے ایجاد کردہ شبھات کی شناسائی اور ان کے شبھات کو حل کرتے ہوئے ان کو گندے عزائم کی تکمیل و تحصیل سے روکنا چاھئے۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193