قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 20%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71141 / ڈاؤنلوڈ: 5105
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

خداوند عالم ان کے اس شبہ (جنگ میں شرکت قتل کئے جانے کا سبب ھے) کا جواب بیان کررھا ہے، موت ایک الہی تقدیر و سر نوشت ہے موت سے فرار میسر نہیں، اور معرکہ احد میں قتل کیا جانا نبوت و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نا سالم ہونے اور ان کے نادرست اقدام کی علامت نہیں، جن افراد نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی ہے موت سے گریز و فرار نہیں کرسکتے ہیں یا اس کو موخر کرنے کی قدرت و توانائی نہیں رکھتے ہیں۔

(قل لو کانوا فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیهم القتل الی مضاجعهم) (۲۴۸)

تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم گھروں میں بھی رہ جاتے تو جن کے لئے شھادت لکھ دی گئی ہے وہ اپنے مقتل تک بہر حال جاتے۔

قرآن موت و حیات کو خدا کے اختیار میں بتاتا ہے معرکہ و جنگ کے میدان میں جانا موت کے آنے یا تاخیر سے آنے میں مؤثر نہیں ہے۔

(والله یحیی و یمیت والله بما تعملون بصیر) (۲۴۹)

موت و حیات خدا کے ھاتھ میں ہے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے اس مطلب کی تاکید کی کہ موت و حیات انسان کے اختیار میں نہیں ہے منافقین کے لئے اعلان کیا جارھا ہے کہ اگر تمھارا عقیدہ یہ ہے کہ موت و حیات تمھارے اختیار میں ہے تو جب فرشتۂ مرگ نازل ہو تو اس کو اپنے سے دور کردینا اور اس سے نجات حاصل کرلینا۔

(قل فادرئوا عن انفسکم الموت ان کنتم صادقین) (۲۵۰)

پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو اب اپنی ہی موت کو ٹال دو۔

-----------------

۲۴۸. سورہ آل عمران/۱۵۴۔

۲۴۹. سورہ آل عمران/۱۵۶۔

۲۵۰. سورہ آل عمران/۱۶۸۔

۱۶۱

مسلمانوں کو اپنے مذہب و عقیدہ میں شک سے دوچار کرنے کے لئے منافقین ہمیشہ یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے، اگر ہم حق پر تھے تو کیوں قتل ہوئے اور کیوں اس قدر ھمیں قربانی دینی پڑی، ھمیں جو جنگ احد میں ضربات و شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ھمارا دین اور آئین حق پر نہیں ہے۔

قرآن کے کچھ جوابات اس شبہ کے سلسلہ میں گزر چکے ہیں، اساسی و مرکزی مطلب اس شبہ کو باطل کرنے کے لئے مورد توجہ ہونا چاھئے وہ یہ کہ ظاہری شکست حق پر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے جس طریقہ سے ظاہری کامیابی بھی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔

بھت سے انبیاء حضرات کہ جو یقیناً حق پر تھے، اپنے پروگرام کو جاری کرنے میں کامیابی سے ہم کنار نہیں ھوسکے، بنی اسرائیل نے بین الطلوعین ایک روز میں ستر انبیاء کو شھید کر ڈالا اور اس کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ھوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، کوئی حادثہ وجود میں آیا ہی نہیں، تو کیا ان پیامبران الہی کا شھید و مغلوب ہونا ان کے باطل ہونے کی دلیل ھے؟ اور بنی اسرائیل کا غالب ھوجانا ان کی حقانیت کی علامت ھے؟ یقیناً اس کا جواب نہیں میں ہے، دین کے سلسلہ میں فریب کی نسبت دینا اور حق پر نہ ہونے کے لئے شبہ پیدا کرنا، منافقین کے القاء شبھات کے دو نمونہ تھے جسے منافقین پیش کرتے تھے لیکن ان کے شبھات کی ایجاد ان دو قسموں پر منحصر و محصور نہیں ہے۔

۱۶۲

دین کو اجتماع و معاشرت کے میدان سے جدا کرکے صرف آخرت کے لئے متعارف کرانا، دین کے تقدس کے بھانے دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ بلند کرنا، تمام ادیان و مذاھب کے لئے حقانیت کا نظریہ پیش کرنا، صاحب ولایت کا تمام انسانوں کے برابر ھونا، صاحب ولایت کی درایت میں تردید اور اس کے اوامر میں مصلحت سنجی کے نظریہ کو پیش کرنا، احکام الہی کے اجرا ہونے کی ضرورت میں تشکیک وجود میں لانا، خدا محوری کے بجائے انسان محوری کی ترویج کرنا، اس قبیل کے ھزاروں شبھات ہیں جن کو منافقین ترویج کرتے تھے اور کررھے ہیں، تا کہ ان شبھات کے ذریعہ دین کے حقایق و مسلّمات کو ضعیف اور اسلامی معاشرہ سے روح ایمان کو خالی کردیں اور اپنے باطل و بیھودہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔

البتہ یہ بات ظاہر و عیاں ہے کہ منافقین مسلمانوں کے اعتقادی و مذھبی یقینیات و مسلّمات میں القاء شبھات کے لئے اس نوع کے مسائل کا انتخاب کرتے ہیں جو اسلامی حکومت و معاشرے کی تشکیل میں مرکزی نقش رکھتے ہیں اور ان کے تسلط و قدرت کے لئے موانع ثابت ھوتے ہیں، اسی بنا پر منافقین کے القاء شبھات کے لئے زیادہ تر سعی و کوشش دین کے سیاسی و اجتماعی مبانی نیز دین و سیاست کی جدائی اور دین کو فردی مسائل سے مخصوص کردینے کے لئے ہوتی ہیں۔

۱۶۳

فصل پنجم: منافقین کی اجتماعی و معاشرتی خصائص

۱) اہل ایمان و اصلاح ہونے کی تشھیر

منافقین ہمیشہ سماج اور معاشرہ میں ظاہراً ایمان اور اصلاح کا نعرہ بلند کرتے ہوئے قد علم کرتے ہیں، دین اور اسلامی نظام سے و معرکہ آرائی کی صریح گفتگو نہیں کرتے اسی طرح منافقین کبھی بھی فساد کا دعوی نہیں کرتے بلکہ شدت سے انکار کرتے ہوئے، بلکہ خود کو اصلاح کی دعوت دینے والا اور دینداری کا علمبردار پیش کرتے ہیں۔

اس سے قبل منافقین کی فردی رفتار کی خصوصیت کے ذیل میں بعض آیات جو منافقین کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں، پیش کی گئی ہیں، جس میں عرض کیا گیا کہ منافقین اس طرح خوبصورت اور دلچسپ انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی تعجب خیز ہوتا ہے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض منافقین کو پہچانتے بھی تھے، لیکن اس کے باوجود دیکھتے تھے کہ وہ اچھائی اور بھتری کا نعرہ لگاتے ہیں، دل موہ لینے والی گفتگو کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں خیر و صلاح کی نمائش بھی ہوتی ہے، منافقین کی یہ فردی خصوصیات ان کی اجتماعی رفتار میں بھی مشاہدہ کی جاسکتی

ہے۔

(ویقولون آمنّا بالله و بالرسول و اطعنا ثم یتولّی فریق منهم من بعد ذلک وما اولئک بالمومنین) (۲۵۱)

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اطاعت کی اور اس کے بعد ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے اور یہ واقعاً صاحبان ایمان نہیں ہیں۔

--------------

۲۵۱. سورہ نور/۴۷۔

۱۶۴

مسجد ضرار کی سازش میں منافقین کا نعرہ مریض، بیمار افراد کی مساعدت اور ایک مقدس ھدف کا اظھار تھا، قرآن صریحی اعلان کررھا ہے کہ ان لوگوں نے مسجد، اسلام و مسلمانوں کو ضرر اور نقصان پھونچانے اور کفر کی تقویت دینے کے لئے بنائی تھی، مسجد کا ھدف صاحبان ایمان کے مابین تفرقہ و اختلاف کی ایجاد اور دشمنان اسلام کے لئے سازشی مرکز تیار کرنا تھا حالانکہ وہ قسم کھاتے تھے کہ ھمارا ارادہ خدمت خلق اور نیکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

(ولیحلفن ان اراد الّا الحسنی) (۲۵۲)

اور یہ قسم کھاتے ہیں کے ہم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر قرآن منافقین کو اس طرح بیان کررھا ہے کہ منافقین پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں ان کے دستور و آئین کی فرماں فرداری اور مطیع محض ہونے کا اظھار کرتے ہیں لیکن جب خصوصی جلسہ تشکیل دیتے ہیں تو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازش کا پروگرام بناتے ھیں(۲۵۳)

ظواھر کا آراستہ ہونا اور اچھے اچھے نعرے لگانا، منافقین کے دونوں گروہ، یعنی منافق خوف، اور منافق طمع، کی اجتماعی خصوصیات میں سے ہے، منافقین، اسلامی و ایمانی معاشرے میں پلید افعال انجام دینے کے لئے ایمان کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دین داری و اصلاح طلبی کا اظھار کرتے ہیں۔

----------

۲۵۲. سورہ توبہ/۱۰۷۔

۲۵۳. سورہ نساء/ ۸۱۔

۱۶۵

۲) معروف کی نھی و منکر کا حکم

منافقین کی دوسری اجتماعی خصوصیت معروف کی نھی اور منکر کا حکم دینا ہے کلمہ (معروف و منکر) وسیع مفھوم کے حامل ہیں، تمام فردی، اجتماعی، سیاسی، نظامی ثقافتی اور معاشرتی اقدار و ضد اقدار کو شامل ھوتے ہیں جماعت نفاق کا نشانہ اور ھدف انواع منکرات کی اشاعت اور اسلامی اقدار و شائستگی کو محو کرنا ہے، لھذا اپنے منافقانہ کردار و رفتار کے ذریعہ شوم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

(المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض یامرون باالمنکر وینهون عن المعروف) (۲۵۴)

منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں سب برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں۔

مذکورہ آیت میں جیسا کہ اس کے شان نزول سے استفادہ ہوتا ہے منکر کا مصداق سیاسی اقدار کی خلاف ورزی ہے، منافقین افراد کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھمراھی نہ کرنے کی دعوت دیتے تھے جو اسلامی نظام کی علامت اور بانی تھے، صاحبان ایمان حضرات کو ولایت کے فرامین سے عدول اور نافرمانی کی ترغیب دلاتے تھے، ظاہرا ہے کہ اس منکر سیاسی کا خطرہ، فردی منکرات سے کہیں زیادہ ہے۔

لیکن کبھی خطا سرزد ھوجاتی ہے اور معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف انجام ہوجاتا ہے قصد تخریب نہیں ہوتا ہے، لھذا اس قسم کے موراد قابل گذشت ہیں لیکن اس کے مقابل بعض افراد معروف کی شناخت رکھتے ہوئے اس کے برخلاف دعوت عمل دینے کے پابند ہیں منکر سے آگاہ ھوتے ہوئے بھی لوگوں کو اس کے انجام کے لئے ورغلاتے ہیں۔

------------

۲۵۴. سورہ توبہ/۶۷۔

۱۶۶

ابو حنیفہ کی یہ کوشش رھتی تھی کہ وہ بعض موارد میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے خلاف فتوی دے، چنانچہ وہ سجدے کے مسئلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے فتوے کو نہیں جانتا تھا کہ اس حالت میں آپ کا فتوی آنکھ بند کرنے کا ہے یا کھلی رکھنے کا لھذا اس نے فتوی دیا کہ ایک آنکھ کھلی اور ایک بند رکھی جائے تاکہ ہر حال میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے فتوے کی مخالفت ھوسکے۔

منافقین، اسلامی معاشرے میں معروف و منکر کی عمیق شناخت رکھتے ہوئے منکر کا حکم اور معروف سے نھی کرتے تھے لیکن انتھائی زیر کی اور فریب کاری کے ساتھ کہ کہیں ان کے راز فاش نہ ہوجائیں اور ان کے حربے ناکام ہوجائیں۔

۳) بخل صفت ہونا

منافقین کی اجتماعی رفتارکی دوسری خصوصیت بخیل ہونا ہے وہ سماج و معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کے لئے مال صرف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

(یقبضون ایدیهم) (۲۵۵)

اور (منافقین وہ لوگ ہیں جو) اپنے ھاتھوں کو (نفاق و بخشش سے) روکے رہتے ہیں۔

سورہ احزاب میں بھی منافقین کی توصیف کرتے ہوئے ان کی اس معاشرتی فکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

(اشحة علیکم) (۲۵۶)

وہ (منافقین) تمام چیزوں میں، تمھارے حق میں بخیل ہیں۔

------------

۲۵۵. سورہ توبہ /۶۷۔

۲۵۶. سورہ احزاب ۱۹، اشحۃ، شیح کی جمع ہے اس کے معنی شدید بخل حرص کے ساتھ، کرنا ہے۔

۱۶۷

منافقین نہ صرف یہ کہ خود بخیل، کوتاہ دست، نیز محرومین و فقراء کی مدد و مساعدت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس صفت کا عادی بنانا چاہتے ہیں اور انفاق کرنے سے روکتے ہیں۔

(هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضّوا ولله خزائن السماوات والارض ولکن المنافقین لا یفقهون) (۲۵۷)

یھی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ لوگ منتشر ہوجائیں حالانکہ آسمان و زمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور یہ منافقین اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔

مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں کھا جاتا ہے کہ غزوہ بنی المصطلق کے بعد مسلمانوں کے دو فرد کا کنویں سے پانی لینے کے سلسلہ میں جھگڑا ھوگیا ان میں ایک انصار اور دوسرا مھاجرین کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے دونوں نے اپنے اپنے گروھوں کو مدد کے لئے آوازدی، عبداللہ ابن ابی جو منافقین کے ارکان میں سے تھا، گروہ انصار کی طرف داری کرتے ہوئے میدان میں اتر آیا دونوں گروہ میں لفظی جنگ شروع ھوگئی۔

عبد اللہ ابن ابی نے کھا: ہم نے مھاجرین جماعت کو پناہ دی، اور ان کی مدد کی لیکن ھماری مدد و مساعدت اس معروف مثل کے مانند ھوگئی جس میں کھا جاتا ہے "ثمن کلبک یأکلک" اپنے کتے کو کھلا پلا کر فربہ کرو تاکہ وہ تم کو کھا جائے یہ ہم انصار کی مدد و نصرت کا نتیجہ ہے جو ہم نے مھاجرین ھمارے ساتھ کررھے ہیں ہم نے اس گروہ (مھاجر) کو اپنے شھر میں جگہ دی اپنے اموال کو ان کے درمیان تقسیم کئے، اگر اپنی باقی ماندہ غذا کو ان مھاجرین کو نہ دیتے تو آج ہم انصار کی یہ نوبت نہ آتی کہ مھاجر ھماری گردنوں پر سوار ھوتے بلکہ ھماری مدد نہ کرنے کی صورت میں اس شھر سے چلے جاتے اور اپنے قبائل سے ملحق ھوجاتے۔

قرآن عبداللہ ابن ابی کی توھین آمیز گفتگو اور اس کی تاکید کہ انصار مھاجرین کی مدد کرنا ترک کردیں، کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ کررھا ہے کہ آسمان و زمین کے خزائن خدا کے ھاتھوں میں ہے منافقین کے بخل کرنے اور انفاق سے ھاتھ روک لینے سے، کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔

-----------

۲۵۷. سورہ منافقون/۷۔

۱۶۸

۴) صاحبان ایمان کی عیب جوئی اور استھزا

منافقین کی اجتماعی خصائص میں سے ایک خصوصیت صاحب ایمان کا استھزا، عیب جوئی اور تمسخر ہے، منافقین سے ایسے افعال کا صدور ان کی ناسالم طبیعت اور روحانی مریض ہونے کی غمازی کررھا ہے، تمسخر اور عیب جوئی ایک قسم کا ظلم شخصیت پر دست درازی اور انسانی حیثیت کی بے حرمتی ہے، حالانکہ انسان کے لئے اس کی شخصیت و حرمت اور آبرو ھرشی سے عزیز تر ہوتی ہے۔

اشخاص کی تمسخر و عیب جوئی کے ذریعہ رسوائی اور بے حرمتی کرنا، فرد مقابل کے مریض، کینہ پرستی سے لبریز قلب اور پست فطرتی کی علامت ہے، منافقین بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔

(واذا لقوا الذین آمنوا قالوا آمنا واذا خلوا الی شیاطینهم قالوا انا معکم انما نحن مستهزون) (۲۵۸)

جب صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اہل ایمان ہیں، اور جب اپنے شیاطین کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف صاحبان ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

منافقین جنگوں میں ہر زاویہ سے مومنین پر اعتراض کرتے تھے جو جنگ میں زیادہ حصہ لیتے تھے اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے ان کو ریا کاری کا عنوان دیدیتے تھے اور جن کی بضاعت کم تھی اور مختصر مساعدت کرتے تھے، تو ان کا استھزا کرتے ہوئے کہتے تھے لشکر اسلام کو اس کی کیا ضرورت ھے؟!

-------------

۲۵۸. سورہ بقرہ/۱۴۔

۱۶۹

نقل کیا جاتا ہے ابو عقیل انصاری نے شب و روز کام کرکے دومن خرمے حاصل کئے ایک من اپنے اہل و عیال کے لئے رکھے اور ایک من پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، منافقین ابو عقیل انصاری کے اس عمل پر تمسخر و استھزا میں مشغول ھوگئے، اس وقت ذیل کی آیت کا نزول ہوا۔

(الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم ولهم عذاب الیم) (۲۵۹)

جو لوگ صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے مومنین اور ان غریبوں پر جن کے پاس ان کی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے الزام لگاتے ہیں اور پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں خدا ان کا بھی مذاق بنادے گا اور اس کے پاس بڑا درد ناک عذاب ہے۔

آیت فوق سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین ایک گروہ کی عیب جوئی کرتے تھے اور ایک گروہ کا استھزا و مسخرہ کرتے تھے ان کا استھزا ان افراد کے لئے تھا جو لشکر اسلام کے لئے مختصر اور ناچیز مساعدت کرتے تھے اور عیب جوئی ان اشخاص کے لئے تھی جو وافر مقدار میں نصرت و مدد کرتے تھے پہلی قسم کے افراد کو استھزا کرتے ہوئے بے مقدار و ناچیز مدد کرنے والے القاب سے نوازتے تھے اور دوسری قسم کے اشخاص کو ریا کار سے تعارف کراتے تھے۔

----------------

۲۵۹. سورہ توبہ/۷۹۔

۱۷۰

۵) تضحیک و خندہ زنی

منافقین کی ایک دوسری اجتماعی رفتار کی خصوصیت تضحیک اور خندہ زنی ہے یعنی جب بھی صاحب ایمان سختی و عسرت میں ھوتے تھے تو منافقین خوشحال ھوتے اور ھنستے تھے اور مومنین کی سرزنش کیا کرتے تھے لیکن جب صاحبان ایمان کو آرام اور آسائش میں دیکھتے تھے تو ناراض اور غمزدہ ھوتے تھے، قرآن مجید چند آیات کے ذریعہ منافقین کی اس کیفیت کو بیان کر رہا ہے۔

(ان تمسسکم حسنة تسؤهم وان تصبکم سیئة یفرحوا بها) (۲۶۰)

تمھیں ذرا بھی نیکی پہنچتی ہے تو وہ ناراض ھوتے ہیں اور تمھیں تکلیف پھنچتی ہے تو وہ خوش ھوتے ہیں۔

(وان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علی اذالم اکن معهم شهیداً) (۲۶۱)

اور اگر تم پر کوئی مصیبت آگئی تو کہیں گے خدا نے ہم پر احسان کیا کہ ہم ان کے ساتھ حاضر نہیں تھے۔

(ان تصبک حسنة تسؤهم وان تصبک مصیبة یقولوا قد اخذنا امرنا من قبل ویتولوا وهم فرحون) (۲۶۲)

ان کا حال یہ ہے کہ جب آپ تک نیکی آتی ہے تو انھین بری لگتی اور جب کوئی مصیبت آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا اور خوش و خرم واپس چلے جاتے ہیں۔

----------------

۲۶۰. سورہ آل عمران/۱۲۰۔

۲۶۱. سورہ نساء/۷۲۔

۲۶۲. سورہ توبہ/۵۰۔

۱۷۱

منافقین عداوت و دشمنی کی بنا پر جو مسلمانوں کے لئے رکھتے ہیں ان کی خوش حالی اور آسائش کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں لیکن جب صاحب ایمان مصیبت یا جنگ میں گرفتار ھوتے ہیں تو بھت شادمان اور خوش نظر آتے ہیں۔

جب مسلمان سختی و عسرت میں ھوتے ہیں تو ان کی سرزنش کرتے ہیں اور اپنے موقف کو ان سے جدا کر لیتے ہے، اور شکر خدا بھی کرتے ہیں کہ ہم مومنین کے ساتھ (گرفتار) نہیں ہوئے۔

۶) کینہ توزی

منافقین، مومنین و اسلامی نظام کی نسبت شدید عداوت و کینہ رکھتے ہیں، کینہ و عداوت کے شعلے ہمیشہ ان کے دل و قلب میں افروختہ ہیں جو کچھ بھی دل میں ہوتا ہے وہ ان کی زبان و عمل سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے خواہ وہ اظھار خفیف ہی کیوں نہ ھو۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام اپنی گران قدر گفتگو میں صراحت کے ساتھ اس باریکی کو انسانوں کے لئے بیان فرماتے ہیں۔

((ما اضمر احد شیئا الا ظهر فی قلتات لسانه و صفحات وجهه)) (۲۶۳)

انسان جس بات کو دل میں چھپانا چاھتا ہے وہ اس کی زبان کے بے ساختہ کلمات اور چھرہ کے آثار سے نمایاں ھوجاتی ہے۔

مذکورہ کلام کی بنیاد پر منافقین جو شدید کینہ و عداوت صاحب ایمان سے رکھتے ہیں اس کا مختصر حصہ ہی منافقین کی رفتار و گفتار میں جلوہ گر ہوتا ہے۔

--------------

۲۶۳. نھج البلاغہ، حکمت۲۶۔

۱۷۲

قرآن مجید نے اس باریک مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ منافقین نے اپنے دلوں میں جو مخفی کر رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ان کی رفتار و گفتار میں دیکھا جاتا ہے۔

(قد بدت البغضاء من افواههم وما تخفی صدورهم اکبر) (۲۶۴)

ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے۔

لھذا منافقین کی رفتار و گفتار کے ظواھر سے اسلامی نظام اور صاحبان ایمان سے عداوت و کینہ کے کچھ بخش و حصہ کی شناخت کی جاسکتی ہے اور یہ آگاھی و شناخت مقدمہ ہے کہ ان سے مبارزہ کیا جاسکے اور اس نوعیت کے دشمنوں کو اسلامی معاشرے سے جدا اور اخراج کیا جاسکے۔

----------------

۲۶۴. سورہ آل عمران/۱۱۸۔

۱۷۳

فصل ششم: منافقین سے مقابلہ کرنے کی راہ و روش

روشن فکری و افشا گری

منافقین سے مقابلہ و مبارزہ کرنے کی راہ و روش ایک مفصل اور طولانی بحث ہے، یھاں بطور اجمال اشارہ کیا جارھا ہے، منافقین سے مقابلہ کے طریقوں میں زیادہ وہ طریقے قابل بحث ہیں جو منافقین کے سیاسی و ثقافتی فعالیت کو مسدود کرسکیں اور ان کے شوم اھداف کے حصول کو ناکام بناسکیں۔

منافقین سے مقابلہ اور مبارزہ کے سلسلہ میں پھلا مطلب یہ ہے کہ تحریک نفاق، ان کے اھداف نیز ان کے طور طریقہ اور روش کے سلسلہ میں روشن فکر ہونا چاھئے، نفاق کے چھروں کا تعارف نیز ان کے اعمال و افعال کا افشا کرنا نفاق و منافقین سے مقابلے و مبارزہ کے سلسلہ میں ایک مؤثر قدم ھوسکتا ہے۔

بطور مقدمہ اس مطلب کی یاد دھانی بھی ضروری ہے کہ دوسروں کے گناہ، اسرار کا افشا اور عیب جوئی کو اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے۔

بعض روایات و احادیث میں دوسروں کی معصیت و گناہ کو فاش کرنے کا گناہ، اسی معصیت و گناہ کے مطابق ہے، صاحبان ایمان کو نصیحت کی گئی ہے اگر تم چاہتے ھوکہ خداوند عالم قیامت میں تمھارے عیوب پر پردہ ڈالے رہے تو دنیا میں دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے رھو۔

۱۷۴

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سوال کے جواب میں، جس نے سوال کیا تھا ہم کون سا فعل انجام دیں کہ اللہ قیامت میں ھمارے عیوب کو ظاہر نہ کرے، آپ فرماتے ہیں:

((استر عیوب اخوانک یستر الله علیک عیوبک)) (۲۶۵)

اپنے (دینی) برادران کے عیوب کو پوشیدہ رکھو تاکہ اللہ بھی تمھارے عیوب کو پوشیدہ اور چھپائے رکھے۔

امیر المومنین حضرت علی نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

جو لوگ گناھوں سے محفوظ ہیں اور خدا نے ان کو گناھوں کی آلودگی سے پاک رکھا ہے ان کے شایان شان یھی ہے کہ گناھگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں اور اس حوالے سے خدا کی بارگاہ میں شکر گزار ہوں کیوں کہ ان کا شکر کرنا ہی ان کو عیب جوئی سے محفوظ رکھ سکتا ہے، چہ جائیکہ انسان خود عیب دار ہو اور اپنے بھائی کا عیب بیان کرے اور اس کے عیب کی بنا پر اس کی سرزنش بھی کرے، یہ شخص یہ کیوں نہیں فکر کرتا ہے کہ پروردگار نے اس کے جن عیوب کو چھپاکر رکھا ہے وہ اس سے بڑے ہیں جن پر یہ سرزنش کر رہا ہے اور اس عیب پر کس طرح مذمت کررھا ہے جس کا خود مرتکب ہوتا ہے اور اگر بعینہ اس گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے تو اس کے علاوہ دوسرے گناہ کرتا ہے جو اس سے بھی عظیم تر ہیں اور خدا کی قسم! اگر اس سے عظیم تر نہیں بھی ہیں تو کمتر تو ضرور ہی ہیں اور ایسی صورت میں برائی کرنے اور سرزنش کرنے کی جرأت بھر حال اس سے بھی عظیم تر ہے۔

------------------

۲۶۵. میزان الحکمۃ، ج۷، ص۱۴۵۔

۱۷۵

اے بندہ خدا! دوسرے کے عیب بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے خدا نے اسے معاف کردیا ہو اور اپنے نفس کو معمولی گناہ کے بارے میں محفوظ تصور نہ کر شاید کہ خداوند عالم اسی پر عذاب کردے ہر شخص کو چاھئے کہ دوسرے کے عیب بیان کرنے سے پرہیز کرے کیونکہ اسے اپنا عیب بھی معلوم ہے اور اگر عیب سے محفوظ ہے تو اس سلامتی کے شکریہ ہی میں مشغول رھے(۲۶۶)

حضرت علی علیہ السلام کی فرمایش کے مطابق نہ صرف یہ کہ افراد کو چاھئے کہ اپنے دینی اور انسانی برادران کے اسرار کو فاش نہ کریں اور ان کی بے حرمتی نہ کریں بلکہ حضرت کی فرمایش و نصیحت یہ ہے کہ اگر حکومت بھی، سماج و معاشرہ کے جن افراد کے اسرار و عیوب کو جانتی ہے تو اس کو چاھئے، ان کے عیوب کو پوشیدہ رکھے ان کی خطاؤں سے جہاں تک ممکن ہے چشم پوشی کرے، حضرت ایک نامہ کے ذریعہ مالک اشتر کو لکھتے ہیں:

((ولیکن ابعد رعیتک منک واشنأهم عندک اطلبهم لمعائب الناس فان فی الناس عیوبا الوالی احق من سترها فلا تکشفنّ عما غاب عنک منها فانّما علیک تطهیر ما ظهر لک والله یحکم علی ما غاب عنک فاستر العورة ما استطعت یستر الله منک ما تحبّ ستره من رعیتک)) (۲۶۷)

رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمھارے نزدیک مبغوض وہ شخص ہونا چاھئے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کو تلاش کرنے والا ہو اس لئے کہ لوگوں میں بھر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری، والی پر ہے لھذا خبردار جو عیب تمھارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا تمھاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کرنا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو کہ جن کے سلسلہ میں اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا کرتے ھو۔

----------------

۲۶۶. نھج، البالغہ، خطبہ۱۴۰، خطبہ طولانی ہونے کی بنا پر عربی عبارت نقل کرنے سے صرف نظر کیا گیا۔

۲۶۷. نھج البلاغہ، نامہ۵۳۔

۱۷۶

البتہ گناہ و معصیت کو پوشیدہ رکھنے اور فاش نہ کرنے کا حکم اور دستور وھاں تک ہے جب تک گناہ فردی و شخصی ہو اور سماج و معاشرے یا اسلامی نظام کے مصالح کے لئے ضرر و زیان کا باعث نہ ہو لیکن اگر کسی فرد نے بیت المال میں خیانت کی ہے، عمومی اموال و افراد کے حقوق ضائع کئے ہیں یا اسلامی نظام کے خلاف سازش اور فعالیت انجام دی ہے، تو اس کے افعال و رفتار کی خبر دینی چاھئے اور اس کو بیت المال کی خیانت و افراد کے حقوق ضائع کرنے کی بنا پر محاکمہ اور سزا دینی چاھئے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے تعیین کردہ امراء اور کارندوں کے افعال و رفتار کی تحقیق و نظارت کے لئے بھت سے مقام پر اپنے تفتیش کرنے والوں کو بھیجا کرتے تھے، اور جب کبھی ان کار گزاروں کی طرف سے خطا و نافرمانی کی خبر ملتی تھی ان کو حاضر کر کے شدید توبیخ کرتے اور سزا دیتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام بیت المال کے خیانت کاروں اور اموال عمومی کو ضائع کرنے والوں سے قاطعانہ طور پر باز پرس کرتے تھے آپ کے دوران خلافت و حکومت میں یہ مسئلہ بطور کامل مشھود ہے۔

منافقین کے عیوب و معصیت کے لئے یہ دونوں طریقے یقینی طور پر قابل اجرا ہیں، اگر ان کے گناہ، فسق و فجور فردی ہیں تو چشم پوشی سے کام لینا چاھئے لیکن اگر ان کی سرگرمی و فعالیت دشمن اسلام کے مانند ہو ان کا ھدف اسلام اور اسلامی نظام کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکنا ہو تو ایسی صورت میں ان کی حرکت کو فاش کرنا چاھئے ان کے افراد و ارکان کا تعارف کرانا چاھئے تاکہ امنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخریبی حرکتیں انجام نہ دیں، جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا گیا قرآن مجید نے تین سو آیات کے ذریعہ منافقین کی افشا گری کرتے ہوئے ان کی تخریبی فعالیت کی نشاندھی کی ہے اور ان کی صفات کو بطور دقیق بیان کیا گیا ہے، نفاق کی تحریک اور منافقین جماعت کی افشا گری چند بنیادی فوائد رکھتے ہیں۔

۱۷۷

۱۔ منافق جماعت کے ذریعہ فریب کے شکار ہوئے افراد خواب غفلت سے بیدار ھوکر حق کے دامن میں واپس آجائیں گے۔

۲۔ دوسرے وہ افراد جو تحریک نفاق سے آشنائی نہیں رکھتے وہ ھوشیار ہوجائیں گے اور اس کے خلاف موقف اختیار کریں گے ان کے موقف کی بنا پر حزب نفاق کے افراد کنارہ کش اور خلوت نشین ہوجائیں گے۔

۳۔ تیسرے منافقین کی جانی امنیت اور مالی حیثیت، افشا گری کی بنا پر خطرہ سے مواجہ ہوجائیں گی اور ان کی فعالیت میں خاصی کمی واقع ھوجائے گی۔

نفاق کے وسائل سے مقابلہ

منافقین سے مقابلہ کے سلسلہ میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نفاق کے وسایل و حربے نیز ان کی راہ و روش کی شناخت ہے، پہلے منافقین کی تخریبی فعالیت کے وسایل اور اھداف کی شناخت ہونا چاھئے پھر ان سے مقابلہ کرنا چاھئے۔

نفاق کی شناخت کے لئے ضروری ترین امر، ان کی سیاسی و ثقافتی فعالیت کی روش اور طریقہ کی شناسائی ہے، یہ شناخت نفاق ستیزی کے لئے بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے کہ جب تک دشمن اور اس کے وسایل و حربے شناختہ شدہ نہ ہوں تو مبارزہ و مقابلہ کی بساط کہیں کی نہیں ہوتی ہے۔

یھاں پر وسائل نفاق سے مقابلہ و مبارزہ کے لئے چند اساسی و بنیادی طریقہ کو بیان کیا جارھا ہے ، البتہ دشمن کے ھجومی اور ہر قسم کے تخریبی حملے سے مقابلہ کے لئے کچھ خاص طریقۂ کار کی ضرورت ہے کہ جس کا یھاں احصا ممکن نھیں۔

۱۷۸

۱) صحیح اطلاع فراھم کرنا

اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے کہ منافقین کا ایک اور حربہ و وسیلہ افواہ کی ایجاد ہے، اس حربہ سے مقابلہ کے لئے بھترین طریقۂ کار صحیح اور موقع سے اطلاع کا فراھم کرنا ہے، افواہ پھیلانے والے افراد، نظام اطلاعات کے خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افواھوں کا بازار گرم کرتے ہیں، اگر اخبار و اطلاعات بہ موقع، صحیح اور دقیق، افراد و اشخاص اور معاشرے کے حوالہ کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ افواہ و شایعات اپنے اثرات کھو بیٹھیں گے۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ االسلام نھج البلاغہ میں حاکموں پر عوام کے حقوق میں سے ایک حق، ملک کے حالات سے عوام کو آگاہ کرنا بتاتے ہیں، آپ فرماتےھیں:

((ألا و انّ لکم عندی ان لا احتجز دونکم سراً الا فی حرب)) (۲۶۸)

یاد رکھو! مجھ پر تمھارا ایک حق یہ بھی ہے کہ جنگ کے علاوہ کسی بھی موقع پر کسی راز کو تم سے چھپاکر نہ رکھوں۔

مذکورہ کلام میں جنگ کے مسائل و فوجی و نظامی اسرار کا ذکر کسی خصوصیت کا حامل نہیں، صرف ایک نمونہ کا ذکر ہے، نظامی اسرار اور اطلاعات کے سلسلہ میں عدم افشا کا معیار معاشرہ اور حکومت کے لئے ایک مصلحت تصور کرنا چاھئے، لھذا اسی اصل پر توجہ کرتے ہوئے اور اموی مشیزی کی افواہ سازی کے حربہ کو ناکام بنانے کے لئے آپ نے جنگ صفین کے اتمام کے بعد مختلف شھروں میں خطوط بھیجے اور ان خطوط میں جنگ صفین کے تمام تفصیلات بیان کئے، معاویہ اور اس کے افراد کی جنگ طلبی کی وجہ اور علت کو تحریر فرمایا اور دونوں گروہ کے مذاکرات کی تفصیل بھی مرقوم فرمائی(۲۶۹)

--------------

۲۶۸. نھج البلاغہ، نامہ۵۰۔

۲۶۹. نھج البلاغہ، نامہ۵۸۔

۱۷۹

امام علیہ السلام کے خطوط بھیجنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ امام پیش بینی کر رہے تھے کہ معاویہ اور اس کے افراد افواھوں کا بازار گرم کریں گے مسلمانوں کے درمیان مسموم تبلیغ کے ذریعہ، عمومی افکار کی تخریب کرتے ہوئے علوی حکومت کے خلاف عوام کو ورغلائیں گے لھذا امام نے پھل کرتے ہوئے سریع اور صحیح اطلاعات فراھم کرتے ہوئے لوگوں کے افکار اور قضیہ کے ابھامات روشن کردیئے۔

مذکورہ مقام کے علاوہ بھت سے ایسے موارد نھج البلاغہ میں پائے جاتے ہیں کہ جس میں حضرت نے مختلف مواقع پر حکومتی امور کی گزارش عوام کے سامنے پیش کی ہے، اور اس عمل کے ذریعہ بھت سی افواہ و شایعات کو وجود میں آنے سے روک دیا ہے۔

۲) شبھات کی جواب دھی اور سیاسی و دینی بصیرت کی افزائش

شبہ کا القا ایک دوسری روش ہے جس کے ذریعہ منافقین سوء استفادہ کرتے ہیں، منافقین کے شبھات کا منطقی اور بر محل جواب دے کر ان کو خلع سلاح کرتے ہوئے اثرات کو زائل کیا جاسکتا ہے۔

شبھات کے جواب میں منطقی استدلال پیش کرنا ایک، مکتب فکر کے قدرت مند اور مستحکم ہونے کی اہم ترین علامت ہے، بحمداللہ اسلام کے حیات بخش آئین کو عقل قوی اور فطرت کی پشت پناھی حاصل ہے، اہل نفاق کے اس حربہ سے مقابلہ کرنے کے لئے لازم ہے کہ اسلامی مکتب فکر سے عمیق آشنائی رکھتے ہوئے ایجاد کردہ شبھات کی شناسائی اور ان کے شبھات کو حل کرتے ہوئے ان کو گندے عزائم کی تکمیل و تحصیل سے روکنا چاھئے۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193