قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 10%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71137 / ڈاؤنلوڈ: 5105
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

انسان حق پزیر فطرت و خصلت کے حامل ہیں اگر ہم حق کی صورت کو شفاف پیش کرنے کی کوشش کریں تو وہ حق کے مقابل تسلیم ھوسکتے ہیں، خصوصاً نوجوان افراد جن کے یھاں شناخت کے موانع کمتر اور حقیقت پیدا کرنے کی خواہش شدید تر ہے، وہ حق کو جلد ہی درک کر لیتے ہیں اور حق کے مقابل خاضع ہوجاتے ہیں روایات میں جوانی کے زمانہ کو بالیدگی فکر اور بلند ھمتی کا زمانہ کھا گیا ہے اور تاریخی شواہد بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔

حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لانے والے افراد بنی اسرائیل سے جوان ہی تھے پیامبر عظیم الشان نے بعثت کے آغاز میں، مکہ کے سخت شرائط میں اکثر جوانوں کو ہی اسلام کی طرف جذب کیا تھا۔

دوسرا اصول اور بنیادی طریقہ جو شبہ کے انعقاد کو روکنے میں مفید ہے سماج و معاشرہ کی سیاسی و دینی بصیرت کو زیادہ سے زیادہ ارتقاء دیا جائے، اگر تمام افراد اچھی طرح سے دین کی شناخت و پھچان رکھتے ہوں اور ان کے اندر شبھات کی تنقید و تحقیق کی صلاحیت بھی ہو تو منافقین کبھی بھی القا شبہ کے ذریعہ اہل اسلام کو شک میں نہیں ڈال سکتے ہیں، اور ان کی سازش ابتدائی ہی منزل پر ناکام ھوکر رہ جائے گی۔

اگر معاشرے کے تمام افراد سیاسی بصیرت کے حامل ہوں اور سیاسی حوادث کی تحقیق و تحلیل کی توانائی بھی رکھتے ہیں تو منافق کبھی بھی اپنی سازش و فتنہ گری کے ذریعہ لوگوں کو فریب دینے میں کامیاب نہیں ھوسکتے ہیں،

اگر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ معرکہ صفین میں جنگ کرنے والے سیاسی بصیرت کے حامل ھوتے تو قرآن کو نیزہ پر بلند کئے جانے والے حیلہ اور حربے سے شک و شبہ میں مبتلاء نہیں ھوسکتے تھے اور معاویہ کی فوج نفاق کے ذریعہ جنگ کو متوقف نہیں کرسکتی تھی۔

معاشرے کے افراد کی دینی و سیاسی بصیرت کی ارتقاء، نفاق اور اس کے مختلف وسایل سے مبارزہ اور مقابلہ کے لئے سب سے بنیادی طریقہ ہے معاشرے میں اگر کافی مقدار میں صاحبان بصیرت کا وجود ھوتو، منافقین کے مختلف حیلہ و مکر کو خنثی اور ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

۱۸۱

۳) اتحاد و وحدت کا تحفظ

مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و چند احزاب و گروہ کی ایجاد، منافق جماعت کا اصلی حربہ ہے، اس تحریک نفاق سے مقابلہ کرنے کا طریقہ اسلامی معاشرت کی حریم اور اس کی وحدت کی حفاظت کرنا ہے، اگر اہل اسلام خدا محوری کی بنیاد پر حرکت کریں، خود محوری کو ترک کردیں، یقیناً منافقین کا تفرقہ اندازی کا حربہ اپنا اثر کھو بیٹھے گا اسلام کا دستور حبل خدا کو مضبوطی سے تھامنے اور تفرقہ سے جدا رھنے کا ہے۔

دین اور احکام اسلامی کی حاکمیت کو دل و جان سے قبول کرنا، اسلامی اخلاق و آداب سے خود کو آراستہ کرنا اور خواہشات نفسانی کی پیروی سے پرہیز کرنا وغیرہ ایسے اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے ایک متحد سماج اور منظّم معاشرہ عالم ظھور میں آسکتا ہے، جب تک اسلامی معاشرے و سماج میں اتحاد وحدت کی ضوفشانی رہے گی ھرگز اسلام کے مخالفین حتی منافقین اپنے اھداف و مقاصد میں ظفر یاب نہیں ھوسکتے ہیں۔

وحدت و اتحاد کی حفاظت، اختلاف کو ختم کرنے کی جد و جھد قابل قدر و اھمیت کی حامل ہیں، لھذا ہر فرد کا وظیفہ بنتا ہے کہ اپنی توانائی کے اعتبار سے اس کی کامیابی کے لئے سعی و کوشش کرے۔

پیامبر عظیم الشان اکثر موارد میں خود حاضر ھوکر افراد اور قبائل کے مابین اختلاف اور ان کی آپسی دشمنی کو حل و فصل کراتے تھے ان کو دوستی مساوات اور اسلامی اقدار پر گامزن رھنے کے لئے نصیحت فرمایا کرتے تھے۔

۱۸۲

منافقین سے قاطعانہ برتاؤ

منافقین سے مقابلہ کا ایک اور طریقہ ان کے ساتھ قاطعانہ برتاؤ اور غیر مصلحت آمیز سلوک ہے، جب تک منافقین کی جد وجھد قیل و قال کے مرحلہ میں ہے اسلامی نظام کو روشن فکری کے ذریعہ سے مقابلہ کرنا چاھئے لیکن جب منافقین تخریبی اعمال و حرکات انجام دینے لگیں تو شدت و قوت سے مقابلہ ہونا چاھئے۔

خداوند عالم آخرت میں منافقین سے قاطعانہ برتاؤ کا اعلان کرتے ہوئے صاحبان ایمان کو بھی ویسے ہی برتاؤ کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔

(ان المنافقین فی الدرک الا سفل من النار) (۲۷۰)

بے شک منافقین جھنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔

اسی بنا خداودند متعال قرآن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ھے:

(یا ایها النبی جاهد الکفار والمنافقین واغلظ علیهم) (۲۷۱)

پیامبر! آپ کفار اور منافقین سے جھاد کریں اور ان پر سختی کریں۔

--------------

۲۷۰. سورہ نساء/۱۴۵۔

۲۷۱. سورہ توبہ/۷۳، سورہ تحریم/۹۔

۱۸۳

کفار کے مقابلہ میں جھاد کا طریقۂ کار آشکار ہے، یہ جھاد ہر زاویے سے ہے بالخصوص مسلحانہ ہے، لیکن منافقین سے جھاد کا طور و طریقہ مورد بحث ہے اس لئے کہ یہ بات مسلم ہے کہ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منافقین سے مسلحانہ جنگ نہیں کی تھی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

((ان الرسول الله لم یقاتل منافقاً)) (۲۷۲)

رسول خدا نے منافق سے جنگ نہیں کی تھی۔

منافقین سے جھاد نہ کرنے کی دلیل بھی واضح ہے اس لئے کہ منافقین ظواھر اسلام کا اظھار کرتے تھے لھذا تمام اسلامی آثار و فوائد کے مستحق تھے، گر چہ باطن میں وہ اسلامی آئین کی خلاف ورزی کرتے تھے اسلام کے اظھار کرنے والے سے، کسی کو غیر اسلامی رفتار کرنے کا حق نہیں یعنی منافق کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہونا چاھئے جو غیر اسلام (کافر) سے کیا جاتا ہے۔

پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کسی منافق نے علی الاعلان اسلام کی مخالفت میں پرچم بلند نہیں کیا تھا لھذا پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مسلحانہ جنگ انجام نہیں دی تھی۔

لھذا قرآن میں منافق سے جھاد کے دستور کے معنی و مفھوم کو جنگ و جھاد کی دوسری اشکال سے تعبیر کرنا ہوگا جو غیر مسلحانہ ھو، جیسے ان کی سرزنش و توبیخ کرنا مذمت و تھدید سے پیش آنا، رسوا اور ذلیل کرنا وغیرہ شاید "واغلظ علیھم" کا مفھوم بھی ان ہی قسم کے برتاؤ پر صادق آتا ہے۔

------------

۲۷۲. مجمع البیان، ج۱۰، ص۳۱۹۔

۱۸۴

البتہ یہ احتمال بھی ھوسکتا ہے کہ جب تک منافین کے اندرونی اسرار اور خفیہ پروگرام آشکار نہ ہوں نیز ان کی تخریبی حرکات سامنے نہ آئے تب تک وہ اسلامی احکام کے تابع ہیں لیکن جب ان کے باطنی اسرار فاش ہوں اور یہ واضح ھوجائے کہ اسلام و اسلامی نظام کے سلسلہ میں تخریبی اعمال انجام دینا چاہتے ہیں تو ان کو سر کوب کرنا ضروری ہے خواہ مسلحانہ طریقہ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے۔

بھر حال بنی امیہ کی منافق جماعت کے ارکان اور اس کے سرغنہ معاویہ سے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا برتاؤ اور رویہ مذکورہ آیت کا بھترین مصداق ہے۔

جب تک منافقین کا طرز عمل سخن و گفتگو تک محدود تھا آپ نے کوئی فوجی کاروائی نہیں کی بلکہ صرف گفت و شنود اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کرتے رہے لیکن جب نفاق حرف و کلام سے آگے بڑھ گیا اور حرب و جنگ کی نوبت آگئی تو آپ قاطعانہ و قھر آمیز برتاؤ سے پیش آئے۔

آپ نے اپنی گفتگو و خطبات کے ذریعہ ان کے افکار و نظریات کو مسمار اور مسلحانہ اقدام کے ذریعہ ان کو ہمیشہ کے لئے ذیل و رسوا کرکے رکھ دیا۔

(و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین الهم صل علی محمد وآله الطاهرین

۱۸۵

مصادر و مآخذ

۱۔ قرآن کریم

۲۔ نھج البلاغہ

۳۔ الاحتجاج: مرحوم طبرسی

۴۔ اسدا الغاب: ابن اثیر

۵۔ الاصابۃ:ابن حجر عسقلانی

۶۔ اصول کافی: مرحوم کلینی

۷۔ اعلام الوری: طبرسی

۸۔ الامام الصادق والمذاھب الاربعۃ: اسد حیدر

۹۔ بحار الانوار: علامہ مجلسی

۱۰۔ تاریخ الامم والرسل: طبرسی

۱۱۔ تفسیر قرآن: قرطبی

۱۲۔ تفسیر نمونہ: مکارم شیرازی و ھمکاران

۱۳۔ تفسیر سورہ توبہ و منافقون: جعفر سبحانی

۱۴۔ تفسیر المنیر: دکتر و ھبۃ زحیلی

۱۵۔ تصنیف غررالحکم: دفتر تبلیغات اسلامی قم

۱۶۔ جاذبہ و دافعہ امام علی علیہ السلام: شھید مطھری

۱۷۔ حدیث الافک: سید جعفر مرتضی

۱۸۔ خصال: شیخ صدوق

۱۸۶

۱۹۔ الدرالمنثور: جلال الدین سیوطی

۲۰۔ رسالت خواص و عبرتھای عاشورا: سید احمد خاتمی

۲۱۔ سفینۃ البحار: شیخ عباس قمی

۲۲۔ سیرۂ: ابن ھشام

۲۳۔ شرح نھج البلاغہ: ابن ابی الحدید

۲۴۔ شرح نھج البلاغہ: مرحوم خوئی

۲۵۔ شیخ فضل اللہ نوری و مشروطیت: رویارویی دو اندیشہ: مھدی انصاری

۲۶۔ العقد الفرید: ابن عبدر بہ اندلسی

۲۷۔ الغارات: ابو اسحاق ابراھیم بن محمد

۲۸۔ غرر الحکم

۲۹۔ فتوح البلدان: بلاذری

۳۰۔ فروغ ابدیت: جعفر سبحانی

۳۱۔ قاموس الرجال: تستری

۳۲۔ کلمات قصار، پندھا و حکمتھا، گزیدہ سخنان امام خمینی (رح)

۳۳۔ لسان العرب: ابن منظور

۳۴۔ مجمع البیان: طبرسی

۳۵۔ مجموعہ ورام

۳۶۔ المحجۃ البیضاء: فیض کاشانی

۳۷۔ مروج الذھب: مسعودی

۱۸۷

۳۸۔ مسالہ نفاق: شھید مطھری

۳۹۔ مستدرک الوسائل: محدث نوری

۴۰۔ المصباح المنیر: فیومی

۴۱۔ ملل و نحل: شھرستاتی

۴۲۔ منشور جاوید قرآن؛ جعفر سبحانی

۴۳۔ مواھب الرحمان: سید عبد الاعلی سبزواری

۴۴۔ میزان الحکمہ: محمد ری شھری

۴۵۔نظریہ المعرفۃ: جعفر سبحانی

۴۶۔ النھایۃ: ابن اثیر

۴۷۔ نھضتھای اسلامی در صد سال اخیر: شھید مطھری

۴۸۔ نور الثقلین: جمعۃ العروسی الحویزی

۴۹۔ وسایل الشیعہ: شیخ حر عاملی

۱۸۸

فہرست

حرف اول ۲

عرض مترجم ۵

مقدمہ مصنف ۸

فصل اوّل؛ نفاق کی اجمالی شناخت ۱۳

نفاق شناسی کی ضرورت ۱۳

دشمن شناسی کی اھمیت ۱۳

نوع اوّل: شیطان اور اس کے اہل کار ۱۴

نوع دوّم: کفار ۱۵

نوع سوم: بعض اہل کتاب ۱۶

نوع چھارم: منافقین ۱۶

قرآن میں نفاق و منافقین ۱۷

نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی ۲۲

لفظ نفاق کا ریشہ اور اس کے اصل ۲۲

پہلا احتمال: ۲۲

دوسرا احتمال: ۲۲

تیسرا احتمال: ۲۳

قرآن و احادیث میں نفاق کے معانی ۲۴

۱۔ اعتقادی نفاق ۲۴

۲۔ اخلاقی نفاق ۲۶

اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ ۳۰

۱۸۹

مشھور نظریہ ۳۰

مشھور نظریہ کی تحقیق ۳۵

مرض نفاق اور اس کے آثار ۳۷

فصل دوّم؛ منافقین کی سیاسی خصائص ۳۹

اغیار پرستی ۳۹

اغیار سے سیاسی روابط اور اس کے ضوابط و اصول ۳۹

اصل اوّل: شناخت اغیار ۳۹

۱۔ رجعت و عقب نشینی کی آرزو رکھنا ۴۰

۲۔ اسلامی اصول و اقدار سے انحراف کی تمنا کرنا ۴۱

۳۔ خیر خواہ نہ ہونا ۴۴

۴۔بغض و کینہ کا رکھنا ۴۵

۵۔ غفلت پذیری میں مبتلا کرنا ۴۶

۶۔ مومنین سے سخت و تند برتاؤ کرنا ۴۷

۷۔ خیانت کاری اور دشمنی کا مستمر ہونا ۴۷

اصل دوّم: دشمن کے مقابلہ میں ھوشیاری اور اقتدار کا حصول ۴۹

اصل سوم: اغیار سے دوستی و صمیمیت کا ممنوع ھونا ۵۱

اصل چھارم: غیر حربی اغیار سے صلح آمیز روابط رکھنا ۵۴

منافقین کا اغیار سے ارتباط اور ان کا طرز عمل ۵۶

اغیار سے منافقین کے روابط کا فلسفہ ۵۸

۱۔ تحصیل عزت ۵۸

۲۔ رعب وحشت ۶۲

۱۹۰

ولایت ستیزی ۶۵

ولایت اور اسلام میں ولایت پذیری ۶۵

ولایت کے مسئلہ میں منافقین کی روش ۶۹

ولایت ستیزی کے عملی مناظر ۷۱

۱۔ دینی حکومت و حاکمیت کو قبول نہ کرنا ۷۱

۲۔ ولایت کے دستورات و احکام کی عملی مخالفت ۷۵

۳۔ ولایت کی حریم کو پامال کرنا ۷۸

منافقین کی دوسری سیاسی خصوصیتیں ۸۵

موقع پرست ھونا ۸۵

صاحبان غیرت دینی کی تحقیر ۹۴

وحدت اور ھمبستگی ۹۸

فتنہ پروری ۱۰۱

نفسیاتی جنگ کی ایجاد ۱۰۷

نفسیاتی جنگ کے حربے اور وسائل ۱۰۸

۱) دشمن کے عظیم اور بزرگ ہونے کی جلوہ نمائی کرانا ۱۰۸

۲) مشتبہ خبروں کی ایجاد و تشھیر ۱۱۰

۳) افترا پردازی و الزام تراشی ۱۱۲

فصل سوم : منافقین کی نفسیاتی خصائص ۱۱۶

منافقین کی نفسیاتی خصائص ۱۱۶

۱) تکبر اور خود بینی ۱۱۶

۲) خوف و ھراس ۱۲۲

۱۹۱

۳) تشویش و اضطراب ۱۲۵

۴) لجاجت گری ۱۲۷

۵) ضعف معنویت ۱۳۰

۶) خواہشات نفس کی پیروی ۱۳۲

۷) گناہ کی تاویل گری ۱۳۵

فصل چھارم: منافقین کی ثقافتی (کلچرل) خصائص ۱۳۸

خودی اور اپنائیت کا اظھار ۱۳۸

اظھار اپنائیت کے لئے منافقین کی راہ و روش ۱۴۰

۱) کذب و ریاکاری کے ذریعہ اظھار کرنا ۱۴۰

۲) باطل قسمیں یاد کرنا ۱۴۳

۳) غلط اقدامات کی توجیہ کرنا ۱۴۵

۴) ظاہر سازی کرنا ۱۴۸

۵) جھوٹے عہد و پیمان کرنا ۱۴۹

دینی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف ۱۵۱

شبہ کا القا ۱۵۷

۱) دین کے لئے فریب کی نسبت دینا ۱۵۷

۲) حق پر نہ ہونے کا شبہ ایجاد کرنا ۱۶۰

فصل پنجم: منافقین کی اجتماعی و معاشرتی خصائص ۱۶۴

۱) اہل ایمان و اصلاح ہونے کی تشھیر ۱۶۴

۲) معروف کی نھی و منکر کا حکم ۱۶۶

۳) بخل صفت ہونا ۱۶۷

۱۹۲

۴) صاحبان ایمان کی عیب جوئی اور استھزا ۱۶۹

۵) تضحیک و خندہ زنی ۱۷۱

۶) کینہ توزی ۱۷۲

فصل ششم: منافقین سے مقابلہ کرنے کی راہ و روش ۱۷۴

روشن فکری و افشا گری ۱۷۴

نفاق کے وسائل سے مقابلہ ۱۷۸

۱) صحیح اطلاع فراھم کرنا ۱۷۹

۲) شبھات کی جواب دھی اور سیاسی و دینی بصیرت کی افزائش ۱۸۰

۳) اتحاد و وحدت کا تحفظ ۱۸۲

منافقین سے قاطعانہ برتاؤ ۱۸۳

مصادر و مآخذ ۱۸۶

۱۹۳