قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 40%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71140 / ڈاؤنلوڈ: 5105
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قرآن مجید حکم دے رہا ہے کے اپنے آشکار و مخفی دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پوری طاقت سے مستعدر ہو اور طاقت حاصل کرو تاکہ تمھاری قدرت و اقتداران کی خلاف ورزی روکنے کا ذریعہ ہوجائے۔

(واعدّوا لهم ما استتطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدّو الله و عدوکم آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم) (۲۶)

اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے (منافقین) سب کو خوفزدہ کردو۔

اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں طاقت و قدرت کا حصول تجاوز و قانون کی خلاف ورزی روکنے کا وسیلہ ہے نہ تجاوز گری کا ذریعہ۔

منافقین ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ اسلامی نظام و سر زمین پر تعرض و تجاوز کا خیال رکھتے ہیں لھذا نظامی و انتظامی اعتبار سے آمادگی اور معاشرہ کا صاحب بصارت و دانائی ہونا سبب ہوگا کہ وہ اپنے خیال خام سے باز رھیں، اس نکتہ کا بیان بھی ضروری ہے کہ قوت و قدرت کا حصول (آمادگی) صرف جنگ و معرکہ آرائی پر منحصر نہ ہو اگر چہ جنگ ورزم میں مستعد ھونا، اس کے ایک روشن و واضح مصادیق میں سے ہے، لیکن دشمن کی خصوصیت، اس کے حملہ آور وسائل کی شناخت و پھچان کے لئے بصیرت کا وجود، حصول قدرت و اقتدار کے ارکان میں سے ہے۔

جب کہ منافقین کا شمار خطرناک ترین دشمنوں مں ہوتا ہے لھذا، نفاق اور اس کی خصوصیت و صفات کی شناخت ان چند ضرورتوں میں سے ایک ہے جسے عالم اسلام ہمیشہ قابل توجہ قرار دے۔

اس لئے کہ ممکن ہے ھزار چہرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزی، شاید اسلامی نظام و مسلمانوں کے لئے ایسی کاری ضرب ثابت ہو جو التیام و بہبود کے قابل ہی نہ ھو۔

-----------------

۲۶. سورہ انفال/۶۰۔

۲۱

نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی

لفظ نفاق کا ریشہ اور اس کے اصل

لفظ نفاق کے معنی، کفر کو پوشیدہ، اور ایمان کا ظاہر کرنا ہے، نفاق کا استعمال اس معنی میں پہلی مرتبہ قرآن میں ہوا ہے، عرب میں اسلام سے قبل اس معنی کا استعمال نہیں تھا، ابن اثیر تحریر کرتے ہیں:

((وهو اسم لم یعرفه العرب بالمعنی المخصوص وهو الذی یستر کفره و یظهره ایمانه)) (۲۷)

لفظ نفاق کا اس خاص معنی میں استعمال لغت کے اعتبار سے چار احتمال ھوسکتا ھے:

پہلا احتمال:

یہ ہے کہ نفاق بمعنی اذھاب و اھلاک کے ہیں، جیسے(نفقت الدّابة) کہ حیوان کے برباد و ھلاک ھوجانے کے معنی میں ہے۔

نفاق کا اس معنی سے تناسب یہ ہے کہ منافق اپنے نفاق کی بنا پر اس میت کے مثل ہے جو برباد و تباہ ھوجاتی ہے۔

دوسرا احتمال:

نفاق ذیل عبارت سے اخذ کیا گیا ھے:

((نفقت لسلعة اذا راجت و کثرت طلابها))

وہ سامان جو بھت زیادہ رائج ہو اور اس کے طلب گار بھی زیادہ ہوں تو یہاں پر لفظ "نفق" کا استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر اہل لغت کا اصطلاحی مفھوم سے مرتبط ھوتے ہوئے، نفاق یہ ہے کہ منافق ظاہر میں اسلام کو رواج دیتا ہے، کیوں کہ اسلام کے طلب گار زیادہ ھوتے ہیں۔

----------

۲۷. نھایۃ، ابن اثیر، بحث "نفق" و نیز: لسان العرب، ج۱۰، ص۳۵۹۔

۲۲

تیسرا احتمال:

نفاق، زمین دوز راستہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

((النفق سرب فی الارض له مخلص الی المکان))

اس اصل کے مطابق منافق ان افراد کے مثل ہے جو خطرات کی بنا پر زمین دوز راستہ (سرنگ) میں مخفی ھوجائے، یعنی منافق بھی اسلام کے لباس کو زیب تن کرکے خود کو محفوظ کرلیتا ہے اگر چہ مسلمان نہیں ہوتا ہے۔

چوتھا احتمال: نفاق کا ریشہ "نافقاء" ہے، صحرائی چوھے اپنے گھر کے لئے دو راستہ بناتے ہیں ایک ظاہر و آشکار راستہ، اس کا نام "قاصعاء" ہے، دوسرا مخفی و پوشیدہ راستہ، اس کا نام "نافقاء" ہے، جب صحرائی چوھا خطرہ کا احساس کرتا ہے تو، قاصعاء سے داخل ھوکر نافقاء سے فرار کرتا ہے۔

اس احتمال کی بنا پر، منافق ہمیشہ خروج کے لئے دو راستہ اپناتا ہے، ایمان پر کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہتا اگر چہ اس کا حقیقی راستہ کفر ہے لیکن اسلام کا ظاہر کر کے اپنے کو خطرے سے بچا لیتا ہے۔

ابتدا میں دو احتمال یعنی، نفاق بمعنی ھلاک ہونے اور ترویج پانے کے سلسلے میں علماء لغت کی طرف سے کوئی تائید نہیں ملتی ہے، لھذا ان معانی سے اعراض کرنا چاھئے، لیکن تیسرے اور چوتھے احتمال میں سے کون سا احتمال اساسی و بنیادی ہے اس کے لئے مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔

تمام مجموعی احتمالات سے ایک نکتہ ضرور سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ نفاق کے معانی میں دو عنصر قطعاً موجود ہے، ۱: عنصر دورخی، ۲:عنصر پوشیدہ کاری

اس بنا پر نفاق کے معانی میں دو رخی و پوشیدہ کاری کا بھی اضافہ کردینا چاھئے، منافق وہ ہے جو دو روئی کا حامل ہوتا ہے، اور اپنی صفت کو پوشیدہ بھی رکھتا ہے۔

۲۳

قرآن و احادیث میں نفاق کے معانی

روایات و قرآن میں نفاق دو معانی اور دو عنوان سے استعمال ہوا ھے:

۱۔ اعتقادی نفاق

قرآن و حدیث میں نفاق کا پہلا عنوان اسلام کا ظاہر کرنا، اور باطن میں کافر ھونا، اس نفاق کو اعتقادی نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قرآن میں جس مقام پر بھی نفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے یہی معنی منظور نظر ہے، یعنی کسی فرد کا ظاہر میں اسلام کا دم بھرنا، لیکن باطن میں کفر کا شیدائی ھونا۔

سورہ منافق کی پہلی آیت اسی معنی کو بیان کر رھی ہے۔

(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون)

پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواھی دیتا ہے کے یہ منافقین اپنے قول میں جھوٹے ہیں۔

سورہ نساء میں منافقین کی باطنی وضعیت اس طریقہ سے بیان کی گئی ہے۔

(و دّو لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء) (۲۸)

یہ منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ھوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں۔

--------------

۲۸. سورہ نساء/ ۸۹۔

۲۴

اس بنیاد پر امکان ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو اسلام کا اظھار کرتے ہوں اور باطن میں دین اور اس کی حقانیت پر اعتقاد نہ رکھتے ھوں۔

لیکن ان کے اس فعل کا محرک کیا ھے؟ اس کا ذکر تاریخ نفاق کی فصل میں بیان ہوگا، اس نوعیت کے افراد کا فعل نفاق ہے اور ان کو منافق کھا جاتا ہے۔

یقیناً بعض افراد کا اسلام، جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے اسی زمرہ میں آتا ہے، مثال کے طور پر ابوسفیان کا اسلام، پیامبر عظیم الشان کے بعد کے واقعات، خصوصاً عثمان کے دورہ خلافت میں ظاہر ہوجاتا ہے کہ، ان کا اسلام چال بازی اور مکاری سے لبریز تھا، آھستہ آھستہ خلافتی ڈھانچے میں اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اسلام کے پردے میں کفر ہی کی پیروی کرتے تھے، یھاں تک کہ عثمان کے عصر خلافت میں ابوسفیان، سید الشھدا حضرت حمزہ کی قبر کے پاس آکر کھتا ہے، اے حمزہ! کل جس اسلام کے لئے تم جنگ کر رہے تھے، آج وہ اسلام گیند کے مثل میری اولاد میں دست بدست ہو رہا ہے(۲۹)

ابوسفیان، خلافت عثمان کے ابتدائی ایام میں خاندان بنی امیہ کے اجتماع میں اپنے نفاق کا اظھار یوں کرتا ہے، خاندان تمیم وعدی (ابوبکر و عمر کے بعد) خلافت تم کو نصیب ھوئی اس سے گیند کی طرح کھیلتے رہو اور اس گیند (خلافت) کے لئے قدم، بنی امیہ سے انتخاب کرو، یہ خلافت صرف سلطنت و بشر کی سرداری ہے اور جان لو کہ میں ہر گز جنت و جھنم پر ایمان نہیں رکھتا ھوں(۳۰)

---------------

۲۹. قاموس الرجال، ج۱۰، ص۸۹۔

۳۰. الاصابہ، ج۴، ص۸۸۔

۲۵

جس وقت ابوبکر نے امور خلافت کو اپنے ھاتھ میں لیا ابوسفیان چاھتا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ھوجائے اور اسی غرض کے تحت مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے حمایت و مساعدت کی پیشکش کرتا ہے لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کو اچھے طریقہ سے پہچانتے تھے، پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا: تم اور حق کے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ہی سے اسلام و مسلمان کے دشمن تھے آپ نے اس کی منافقانہ بیعت کے دراز شدہ دست کو رد کرتے ہوئے چھرہ کو موڑ لیا(۳۱)

بھر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوسفیان ان افراد میں سے تھا جن کے جسم و روح، اسلام سے بیگانے تھے اور صرف اسلام کا اظھار کرتا تھا۔

۲۔ اخلاقی نفاق

نفاق کا دوسرا عنوان اور معنی جو بعض روایات میں استعمال ہوا ہے اخلاقی نفاق ہے، یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا، لیکن دین کے قانون پر عمل نہ کرنا، اس کو اخلاقی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے(۳۲) البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اور کبھی اجتماعی پہلوؤں میں رونما ہوتا ہے، وہ فرد جو اسلام کے فردی احکام و قوانین اور اس کی حیثیت کو پامال کر رہا ہو وہ فردی اخلاقی نفاق میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق و اجتماعی احکام کو جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ہے نہ بجالاتا ہو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعی سے دوچار ہے۔

فردی، نفاق اخلاق کی چند قسمیں، ائمہ حضرات کی احادیث کے ذریعہ پیش کی جارھی ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

---------------

۳۱. تفسیر سورہ توبہ و منافقون۔

۳۲. یقیناً اخلاق کی یہ حالتیں، رذائل کے اجزا میں سے ہے لیکن یہ کہ عادت رذیلہ روایات میں نفاق پر اطلاق ہوتی ہے یا نہیں یہ وہ موضوع ہے جسے اجاگر ہونا چاھئے علامہ مجلسی بحار الانوار ج۷۲ ص۱۰۸ میں اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں کہ روایات میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، اصول کافی ج۲ میں ایک باب صفت النفاق و المنافق ہے اس باب کی اکثر احادیث انفرادی، اجتماعی اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہے یہ خود دلیل ہے کہ نفاق روایات میں اس خاص معنی (نفاق اخلاقی) جس کا میں نے اشارہ کیا ہے استعمال ہوا ہے۔

۲۶

((اظهر الناس نفاقاً من امر با لطاعة ولم یعمل بها ونهی عن المعصیة ولم ینته عنها)) (۳۳) کسی فرد کا سب سے واضح و نمایاں نفاق یہ ہے کہ اطاعت (خداوند متعال) کا حکم دے لیکن خود مطیع و فرمان بردار نہ ھو، گناہ و عصیان کو منع کرتا ہے لیکن خود کو اس سے باز نہیں رکھتا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام مرسل اعظم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((ما زاد خشوع الجسد علی ما فی القلب فهو عندنا نفاق)) (۳۴)

جب کبھی جسم (ظاہر) کا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زیادہ ہو تو ایسی حالت ھمارے نزدیک نفاق ہے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((ان المنافق ینهی ولا ینتهی و یامر بما لا یاتی------ یمسی وهمه العشا وهو مفطر و یصبح وهمه النوم ولم یسهر)) (۳۵)

یقیناً منافق وہ شخص ہے جو لوگوں کو منع کرتا ہے لیکن خود اس کام سے پرہیز نہیں کرتا ہے، اور ایسے کام کا حکم دیتا ہے جس کو خود انجام نہیں دیتا، اور جب شب ہوتی ہے تو سواء شام کے کھانے کے اسے کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی حالانکہ وہ روزہ سے بھی نہیں ھوتا، اور جب صبح کو بیدار ہوتا ہے تو سونے کی فکر میں رہتا ہے، حالانکہ شب بیداری بھی نہیں کرتا (یعنی ھدف و مقصد صرف خواب و خوراک ھے) ۔

ذکر شدہ روایات اور اس کے علاوہ دیگر احادیث جو ان مضامین پر دلالت کرتی ہیں ان کی روشنی میں بے عمل عالم اور ریا کار شخص کا شمار انھیں لوگوں میں سے ہے جو فردی اخلاقی نفاق سے دوچار ھوتے ہیں۔

--------------

۳۳. غرور الحکم، حدیث ۳۲۱۴۔

۳۴. اصول کافی، ج۲، ص۳۹۶۔

۳۵. اصول کافی، ج۲، ص۳۹۶۔

۲۷

نفاق اخلاقی اجتماعی کے سلسلہ میں معصومین علیہ السلام سے بھت سی احادیث صادر ھوئی ہیں، چند عدد پیش کی جارھی ہیں۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

((ان المنافق…… ان حدثک کذبک و ان ائتمنه خانک وان غبت اغتابک وان وعدک اخلفک)) (۳۶)

منافق جب تم سے گفتگو کرے تو جھوٹ بولتا ہے، اگر اس کے پاس امانت رکھو تو خیانت کرتا ہے، اگر اس کی نظروں سے اوجھل رہو تو غیبت کرتا ہے، اگر تم سے وعدہ کرے تو وفا نہیں کرتا ہے۔

پیامبر عظیم الشان (ص) نفاق اخلاقی کے صفات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((اربع من کن فیه فهو منافق وان کانت فیه واحدة منهن کانت فیه خصلة من النفاق من اذا حدّث کذب واذا وعد اخلف واذا عاهد غدر واذا خاصم فجر)) (۳۷)

چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی میں پائی جائیں تو وہ منافق ہے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اگر عہد و پیمان کرے تو اس پر عمل نہ کرے، جب پیروز و کامیاب ھوجائے تو برے اعمال کے ارتکاب سے پرہیز نہ کرے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

((کثرة الوفاق نفاق)) (۳۸)

کسی شخصی کا زیادہ ہی وفاقی اور سازگاری مزاج و طبیعت کا ہونا یہ اس کے نفاق کی علامت ہے۔

-------------

۳۶. المحجۃ البیضاء، ج۵، ص۲۸۲۔

۳۷. خصال شیخ صدوق، ص۲۵۴۔

۳۸. میزان الحکمت، ج۸، ص۳۳۴۳۔

۲۸

ظاہر سی بات ہے کہ صاحب ایمان ہمیشہ حق کا طرف دار ہوتا ہے اور حق کا مزاج رکھنے والا کبھی بھی سب سے خاص کر ان لوگوں سے جو باطل پرست ہیں سازگار و ھمراہ نہیں ھوتا، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے، صاحب ایمان ابن الوقت نہیں ھوتا۔

نفاق اجتماعی کا آشکار ترین نمونہ اجتماعی زندگی و معاشرے میں دو روئی اور دو زبان کا ہونا ہے، یعنی انسان کا کسی کے حضور میں تعریف و تمجید کرنا لیکن پس پشت مذمت و برائی کرنا۔

صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت کی پرستاری، صاحب ایمان کے صفات میں سے ہیں، صرف چند ایسے خاص مواقع میں جہاں اہم حکمت اس بات کا اقتضا کرتی ہے جیسے جنگ اور اس کے اسرار کی حفاظت، افراد اور جماعت میں صلح و مصالحت کی خاطر صدق گوئی سے اعراض کیا جاسکتا ہے(۳۹)

پیامبر اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوعیت کے نفاق کے انجام و نتیجہ کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((من کان له وجهان فی الدنیا کان له لسانان من نار یوم القیامة)) (۴۰)

جو شخص بھی دنیا میں دو چہرے والا ہوگا، آخرت میں اسے دو آتشی زبان دی جائے گی۔

امام حضرت محمد باقر علیہ السلام بھی اخلاقی نفاق کے خدو خال کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((بئس العبد یکون ذاوجهین و ذالسانین یطری اخاه شاهداً و یأکله غائباً ان اعطی حسده وان ابتلی خذله)) (۴۱)

بہت بدبخت و بد سرشت ہے، وہ بندہ جو دو چہرے اور دو زبان والا ہے، اپنے دینی بھائی کے سامنے تو تعریف و تمجید کرتا ہے اور اس کی غیبت میں اس کو ناسزا کھتا ہے، اگر اللہ اس کے دینی بھائی کو کچھ عطا کرتا ہے تو حسد کرتا ہے، اگر کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی اھانت کرتا ہے۔

--------------

۳۹. غیبت و کذب سے مستثنٰی موارد کے سلسلہ میں اخلاقی و فقھی کتب جیسے جامع السعادات اور مکاسب کی طرف مراجعہ کریں۔

۴۰. المحجۃ البیضاء، ج۵، ص۲۸۰۔

۴۱. المحجۃ البیضاء، ج۵، ص۲۸۲۔

۲۹

اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ

مشھور نظریہ

مشھور و معروف نظریہ، نفاق کے وجود و آغاز کے سلسلہ میں یہ ہے کہ نفاق کی بنیاد مدینہ میں پڑی، اس فکر و نظر کی دلیل یہ ہے کہ مکہ میں مسلمین بھت کم تعداد اور فشار میں تھے، لھذا کم تعداد افراد سے مقابلے کے لئے، کفار کی طرف سے منافقانہ و مخفیانہ حرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مکہ کے کفار ومشرکین علی الاعلان آزار و اذیت، شکنجہ دیا کرتے تھے۔

عظیم الشان پیامبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ھجرت کرنے کی بنا پر اسلام نے ایک نئی کروٹ لی، روز بروز اسلام کے اقتدار و طاقت، شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا، لھذا اس موقع پر بعض اسلام کے دشمنوں نے اسلام کی نقاب اوڑھ کر دینداری کا اظھار کرتے ہوئے اسلام کو تباہ و نابود کرنے کی کوشش شروع کردی، اسلام کا اظھار اس لئے کرتے تھے تاکہ اسلام کی حکومت و طاقت سے محفوظ رہ سکیں، لیکن باطن میں اسلام کے جگر خوار و جانی دشمن تھے، یہ نفاق کا نقطہ آغاز تھا، خاص کر ان افراد کے لئے جن کی علمداری اور سرداری کو شدید جھٹکا لگا تھا، وہ کچھ زیادہ ہی پیامبر اکرم اور ان کے مشن سے عناد و کینہ رکھنے لگے تھے۔

عبد اللہ ابن ابی انھی منافقین میں سے تھا، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ھجرت کرنے سے قبل اوس و خزرج مدینہ کے دو طاقتور قبیلہ کی سرداری اسے نصیب ھونی تھی، لیکن بد نصیبی سے واقعۂ ھجرت پیش آنے کی بنا بر سرداری کے یہ تمام پروگرام خاکستر ھوکر رہ گئے، بعد میں گر چہ اس نے ظاہراً اسلام قبول کرلیا، لیکن رفتار و گفتار کے ذریعہ، اپنے بغض و کینہ، عناد و عداوت کا ہمیشہ اظھار کرتا رھا، یہ مدینہ میں جماعت نفاق کا رئیس و افسر تھا، قرآن مجید کی بعض آیات میں اس کی منافقانہ اعمال و حرکات کی نشاندھی کی گئی ہے۔

۳۰

جب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں وارد ہوئے۔ اس نے پیامبر عظیم الشان (ص) سے کھا: ہم فریب میں پڑنے والے نہیں، ان کے پاس جاؤ جو تم کو یھاں لائے ہیں اور تم کو فریب دیا ہے، عبد اللہ ابن ابی کی اس ناسزا گفتگو کے فوراً بعد ہی سعد بن عبادہ رسول اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی آپ غمگین و رنجیدہ خاطر نہ ھوں، اوس و خزرج کا ارادہ تھا کہ اس کو اپنے اپنے قبیلہ کا سردار بنائیں گے، لیکن آپ کے آنے سے حالات یکسر تبدیل ھوچکے ہیں، اس کی فرمان روائی سلب ھوچکی ہے، آپ ھمارے قبیلے خزرج میں تشریف لائیں، ہم صاحب قدرت اور باوقار افراد ہیں(۴۲)

اس میں کوئی شک نہیں کہ نفاق کا مبدا ایک اجتماعی و معاشرتی پروگرام کے تحت مدینہ ہے، نفاقِ اجتماعی کے پروگرام کی شکل گیری کا اصل عامل حق کی حاکمیت و حکومت ہے، جو پہلی مرتبہ مدینہ میں تشکیل ھوئی، پیامبر عظیم الشان کا مدینہ میں وارد ہونا و اسلام کا روز بروز قوی و مستحکم ہونا باعث ہوا کہ منافقین کی مرموز حرکات وجود میں آئیں، البتہ منافقین کی یہ خیانت کارانہ حرکتیں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگوں میں زیادہ قابل لمس ہیں۔

قرآن مجید میں بطور صریح جنگ بدر، احد، بنی نظیر، خندق و تبوک نیز مسجد ضرار کے سلسلہ میں منافقین کی سازشیں بیان کی گئی ہیں۔

مدینہ میں جماعت نفاق کے منظّم و مرتب پروگرام کے نمونے، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مشکلات کھڑی کرنا، مسجد ضرار کی تعمیر کے لئے، چال بازی و شعبدہ بازی کا استعمال کرنا۔

-----------

۴۲. علام الوری، ص۴۴، بحار الانوار، ج۱۹ ص۱۰۸۔

۳۱

پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غزوۂ تبوک کے لئے اعلان کرنا تھا کہ منافقین کی حرکات میں شدت آگئی، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منافقانہ حرکتیں اپنے عروج پر پھنچ چکی تھیں، مدینہ سے تبوک کا فاصلہ تقریباً ایک ھزار کیلو میٹر تھا، موسم بھی گرم تھا، محصول زراعت و باغات کے ایام تھے، اس جنگ میں مسلمانوں کی مدّ مقابل روم کی سوپر پاور حکومت تھی، یہ تمام حالات منافقین کے فیور (موافق) میں تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جنگ پر جانے سے روک سکیں، اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔

منافقین کے ایک اجتماع میں جو سویلم یھودی کے یھاں برپا ہوا تھا، جس میں منافق جماعت کے بلند پایہ ارکان موجود تھے، طے یہ ہوا کہ مسلمانوں کو روم کی طاقت و قوت کا خوف دلایا جائے، ان کے دلوں میں روم کی ناقابل تسخیر فوجی طاقت کا رعب بٹھایا جائے۔

اس جلسہ اور اھداف کی خبر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھنچی، آپ نے اسلام کے خلاف اس سازشی مرکز کو ختم نیز دوسروں کی عبرت کے لئے حکم دیا، سویلم کے گھر کو جلادیا جائے آپ نے اس طریقہ سے ایک سازشی جلسہ نیز ان کے ارکان کو متفرق کر کے رکھ دیا(۴۳)

مسجد ضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں نقل کیا جاتا ہے کہ منافقین میں سے کچھ افراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایک مسجد قبیلۂ بنی سالم کے درمیان مسجد قبا کے نزدیک بنانے کی اجازت چاھی، تاکہ بوڑھے، بیمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذور ہیں خصوصاً بارانی راتوں میں، وہ اس مسجد میں اسلامی فریضہ اور عبادت الہی کو انجام دے سکیں، ان لوگوں نے تعمیر مسجد کی اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افتتاح مسجد کی درخواست بھی کی، آپ نے فرمایا: میں ابھی عازم تبوک ہوں واپسی پر انشاء اللہ اس کام کو انجام دوں گا، تبوک سے واپسی پر ابھی آپ مدینہ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے

------------

۴۳. سیرت ابن حشام، ج۲، ص۵۱۷، منشور جاوید قرآن، ج۴، ص۱۱۲۔

۳۲

کہ منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، اس موقع پر وحی کا نزول ہوا(۴۴) جس نے ان کے افعال و اسرار کی پول کھول کر رکھدی، پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے تخریب کا حکم دیا تخریب شدہ مکان کو شھر کے کوڑے اور گندگی ڈالنے کی جگہ قرار دیا۔

اگر اس جماعت کے فعل کی ظاہری صورت کا مشاہدہ کریں تو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے حکم سے حیرت ہوتی ہے لیکن جب اس قضیہ کے باطنی مسئلہ کی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقت سامنے آتی ہے، یہ مسجد جو خراب ہونے کے بعد مسجد ضرار کے نام سے مشھور ھوئی، ابو عامر کے حکم سے بنائی گئی تھی، یہ مسجد نہیں بلکہ جاسوسی اور سازشی مرکز تھا، اسلام کے خلاف جاسوسی و تبلیغ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنا اس کے اھداف و مقاصد تھے۔

ابو عامر مسیحی عالم تھا زمانۂ جاھلیت میں عبّاد و زھّاد میں شمار ہوتا تھا اور قبیلۂ خزرج میں وسیع عمل و دخل رکھتا تھا، جب مرسل اعظم نے مدینہ ھجرت فرمائی مسلمان آپ کے گرد جمع ھوگئے خصوصاً جنگ بدر میں مسلمانوں کی مشرکوں پر کامیابی کے بعد اسلام ترقی کرتا چلا گیا، ابو عامر جو پہلے ظھور پیامبر (ص) کا مژدہ سناتا تھا جب اس نے اپنے اطراف و جوانب کو خالی ھوتے دیکھا تو اسلام کے خلاف اقدام کرنا شروع کردیا، مدینہ سے بھاگ کر کفار مکہ اور دیگر قبائل عرب سے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مدد حاصل کرنی چاھی، جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پروگرام مرتب کرنے میں اس کا بڑا ھاتھ تھا، دونوں لشکر کی صفوں کے درمیان میں خندق کے بنائے جانے کا حکم اسی کی طرف سے تھا، جس میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گر پڑے

------------------

۴۴. سورہ توبہ، ۱۰۷ کے بعد کی آیتیں۔

۳۳

آپ کی پیشانی مجروح ھوگئی دندان مبارک ٹوٹ گئے، جنگ احد کے تمام ہونے کے بعد، باوجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ میں کافی مشکلات و زحمات سے دوچار تھے، اسلام مزید ارتقاء کی منزلیں طے کرنے لگا صدائے اسلام پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہونے لگی ابو عامر، یہ کامیابی و کامرانی دیکھ کر مدینہ سے بادشاہ روم ھرقل کے پاس گیا تاکہ اس کی مدد سے اسلام کی پیش رفت کو روک سکے، لیکن موت نے فرصت نہ دی کہ اپنی آرزو و خواہش کو عملی جامہ پھنا سکے، لیکن بعض کتب کے حوالہ سے کھا جاتا ہے، کہ وہ بادشاہ روم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھی کئے۔

اس نکتہ کو بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس کی تخریبی حرکتیں اور عناد پسند طبیعت کی بنا پر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فاسد کا لقب دے رکھا تھا، بھر حال اس کے قبل کہ وہ واصل جھنم ہوا، ایک خط مدینہ کے منافقین کے نام تحریر کیا جس میں لشکر روم کی آمد اور ایک ایسے مکان و مقام کی تعمیر کا حکم تھا جو اسلام کے خلاف سازشی مرکز ھو، لیکن چونکہ ایسا مرکز منافقین کے بنانا چنداں آسان نہیں تھا لھذا انھوں نے مصلحتاً معذوروں، بیماروں، بوڑھوں کی آڑ میں مسجد کی بنیاد ڈال کر ابو عامر کے حکم کی تعمیل کی، مرکز نفاق مسجد کی شکل میں بنایا گیا، مسجد کا امام جماعت ایک نیک سیرت جوان بنام مجمع بن حارثہ کو معین کیا گیا، تاکہ مسجد قبا کے نماز گزاروں کی توجہ اس مسجد کی طرف مبذول کی جاسکے، اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رھے، لیکن اس مسجد کے سلسلہ میں آیات قرآن کے نزول کے بعد پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مرکز نفاق کو خراب کرنے کا حکم دے دیا(۴۵) ،تاریخ کا یہ نمونہ جسے قرآن بھی ذکر کر رہا ہے منافقین کی مدینہ میں منظّم کار کردگی کا واضح ثبوت ہے۔

----------------

۴۵. مجمع البیان، ج۳، ص۷۲۔

۳۴

مشھور نظریہ کی تحقیق

مشھور نظریہ کے مطابق نفاق کا آغاز مدینہ ہے، اور نفاق کا وجود، حکومت و قدرت سے خوف و ھراس کی بنا پر ہوتا ہے، اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے تھے ہی نہیں، لھذا وھاں نفاق کا وجود میں آنا بے معنی تھا، صرف مدینہ میں مسلمان صاحب قدرت و حکومت تھے لھذا نفاق کا مبداء مدینہ ہے۔

لیکن نفاق کی بنیاد صرف حکومت سے خوف و وحشت کی بنا پر جو اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اسلام میں منصب و قدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود میں آنے کا عامل ھوسکتی ہے، لھذا، نفاق کی دو قسم ھونی چاھئے:

۱۔ نفاقِ خوف: ان افراد کا نفاق جو اسلام کی قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ھوکر اظھار اسلام کرتے ہوئے اسلام کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔

۲۔ نفاقِ طمع: ان افراد کا نفاق جو اس لالچ میں اسلام کا دم بھرتے تھے کہ اگر ایک روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ہوا، تو اس کی زعامت و مناصب پر قابض ہوجائیں یا اس کے حصّہ دار بن جائیں۔

نفاق بر بناء خوف کا سر چشمہ مدینہ ہے، اس لئے کہ اہل اسلام نے قدرت و اقتدار کی باگ ڈور مدینہ میں حاصل کیا۔

لیکن نفق بر بناء طمع و حرص کا مبداء و عنصر مکہ ہونا چاھئے، عقل و فکر کی بنا پر بعید نہیں ہے کہ بعض افراد روز بروز اسلام کی ترقی، اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے باجود اسلام کی کامیابی، مکرر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کے عالمی ہونے والی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ہوئے دور اندیش ھوں، کہ آج کا ضعیف اسلام کل قوت و طاقت میں تبدیل ھوجائے گا، اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر اسلام لائے ھوں، تاکہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کے منصب و قدرت کے حق دار بن جائیں۔

۳۵

اس مطلب کا ذکر ضروری ہے کہ منافق طمع کے افعال و کارکردگی منافق خوف کی فعالیت و کارکردگی سے کافی جدا ہے، منافق خوف کی خصوصیت خراب کاری، کار شکنی، بیخ کنی، اذیت و تکلیف سے دوچار کرنا ہے، جب کہ منافق طمع ایسا نہیں کرتا، بلکہ وہ ایک تحریک کی کامیابی کے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ تحریک ایک شکل و صورت میں تبدیل ھوجائے، اور یہ قدرت کی نبض اور دھڑکن کو اپنے ھاتھوں میں لے سکیں، منافق طمع صرف وھاں تخریبی حرکات کو انجام دیتے ہیں جہاں ان کے بنیادی منافع خطرے میں پڑجائیں۔

اگر ہم نفاق طمع کے وجود کو مکہ قبول کریں، تو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ نفاق کا وجود اور اس کے آغاز کو مدینہ تسلیم کیا جائے۔

جیسا کہ مفسر قرآن علامہ طباطبائی (رح) اس نظریہ کو پیش کرتے ھیں(۴۶) آپ ایک سوال کے ذریعہ کو مذکورہ مضمون کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں، باوجودیکہ اس قدر منافقین کے سلسلہ میں آیات، قرآن میں موجود ہیں، کیوں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد منافقین کا چرچا نہیں ھوتا، منافقین کے بارے میں کوئی گفتگو اور مذاکرات نہیں ھوتے، کیا وہ صفحہ ھستی سے محو ھوگئے تھے؟ کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی بنا پر منتشر اور پراکندہ ھوگئے تھے؟ یا اپنے نفاق سے توبہ کرلی تھی؟ یا اس کی وجہ یہ تھی کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد صاحبان نفاق طمع، صاحبان نفاق خوف کا تال میل ھوگیا تھا، اپنی خواہشات و حکمت عملی کو جامۂ عمل پھنا چکے تھے، اسلام کی حکومت و ثروت پر قبضہ کر چکے تھے اور بہ بانگ دھل یہ شعر پڑھ رہے تھے:

----------

۴۶. تفسیر المیزان، ج۱۹ ص۲۸۷ تا ۲۹۰، سورہ منافقون کی آیات ۱/ ۸ کے ذیل میں۔

۳۶

((لعبت هاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل))

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ نفاق اجتماعی ایک منظّم تحریک کے عنوان سے مدینہ میں ظھور پذیر ہوا، لیکن نفاق فردی جو بر بناء طمع و حرص عالم وجود میں آیا ہو اس کو انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں، اس لئے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ میں بھی ظاہر ھوسکتا تھا، وہ افراد جو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستور و حکم سے سر پیچی کرتے تھے، ان میں بعض وہ تھے جو مکہ میں مسلمان ہوئے تھے، یہ وہی منافق تھے جو طمع و حرص کی بنا پر اسلام کا اظھار کرتے تھے۔

مرض نفاق اور اس کے آثار

نفاق، قلب اور دل کی بیماری ہے، قرآن کی آیات اس باریکی کی طرف توجہ دلاتی ہیں، پاکیزہ قلب خدا کا عرش اور اللہ کا حرم ھے(۴۷) اس میں اللہ کے علاوہ کسی اور کا گذر نہیں ہے، لیکن مریض و عیب دار دل، غیر خدا کی جگہ ہے ہوا و ھوس سے پر دل شیطان کا عرش ہے، قرآن مجید صریح الفاظ میں منافقین کو عیب دار اور مریض دل سمجھتا ھے:

(فی قلوبهم مرض) (۴۸)

-----------------

۴۷. "قلب المؤمن عرش الرحمن" بحار الانوار، ج۵۸، ص۳۹۔ "لقلب حرم اللہ فلا تسکن حرم اللہ غیر اللہ" بحار الانوار، ج۷۰، ص۲۵۔

۴۸. سورہ بقرہ/ ۱۰، مائدہ/۵۲ ، توبہ/ ۱۲۵، محمد/ ۲۰۔ ۲۹: بعض آیات میں (فی قلوبھم مرض) کے ھمراہ منافقون کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جیسے سورہ انفال کی آیت نمبر ۴۹ و سورہ احزاب کی آیت نمبر ۱۲ (اذا یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض) یھاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بیمار دل والے منافق ہی ہیں یا ان کے علاوہ دوسرے افراد، علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان، ج۱۵، ص۲۸۶، ج۹، ص۹۹، میں ان دونوں کو الگ الگ شمار کرتے ہیں، آپ کا کھنا ہے کہ بیمار دل والوں سے مراد ضعیف الاعتقاد مسلمان ہیں، اور منافقین وہ ہیں جو ایمان و اسلام کا اظھار کرتے ہیں لیکن باطن میں کافر ہیں، بعض مفسرین کی نظر میں، بیمار دل صفت والے افراد منافق ہی ہیں، نفاق کے درجات ہیں، نفاق کا آغاز قلب و دل کی کجی اور روح کی بیماری سے شروع ہوتا ہے، اور آھستہ آھستہ پایۂ تکمیل کو پھنچتا ہے، لیکن میرے خیال میں منافقون، و (والذین فی قلوبھم مرض) دو مترادف الفاظ کے مثل ہیں جیسے فقیر و مسکین، اگر یہ دو لفظ ساتھ میں استعمال ہو تو ہر لفظ ایک مخصوص معنی کا حامل ہوگا، لیکن اگر جدا استعمال ھوتو دونوں کے معنی ایک ہی ہوں گے، اس بنا پر وہ آیات جس میں لفظ منافقون و (فی قلوبھم مرض) ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں، دونوں کے مستقل معنی ہیں، منافقون یعنی اسلام کا اظھار و کفر کا پوشیدہ رکھنا، و (فی قلوبھم مرض) یعنی ضعیف الایمان یا آغاز نفاق، لیکن جب (فی قلوبھم مرض) کا استعمال جدا ہو تو اس سے مراد منافقین ہیں، کیوں کہ منافقین وہی ہیں جو (فی قلوبھم مرض) کے مصداق ہیں،

۳۷

نفاق جیسی پُر خطر بیماری میں مبتلا افراد، بزرگترین نقصان و ضرر سے دوچار ھوتے ہیں، اس لئے کہ آخرت میں نجات صرف قلب سلیم (پاکیزہ) کے ذریعہ ہی میسر ہے، ہوا و ھوس سے پر، غیر خدا کا محبّ و غیر خدا سے وابستہ دل نجات کا سبب نھیں۔

(یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم) (۴۹)

اس دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے۔ مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ھو۔

قرآن مجید اس مرض و بیماری کی شناخت و واقفیت کے سلسلہ میں کچھ مفید نکات کا ذکر کر رہا ہے، تمام مسلمانوں کو ان نکات کی طرف توجہ دینی چھاھئے تاکہ اپنے قلب و دل کی صحت و سلامتی و نیز مرض کو تشخیص دے سکیں، نیز ان نکات کے ذریعہ معاشرے کے غیر سلیم و نادرست قلوب کی شناسائی کرتے ہوئے ان کے مراکز فساد و فتنہ سے مبارزہ کرسکیں۔

ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے آیاتِ قرآنی جو منافقین کی شناخت میں نازل ھوئی ہیں ان کو چند نوع میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

وہ آیات جو اسلامی معاشرے میں منافقین کی سیاسی و اجتماعی روش و طرز کو بیان کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین کی فردی خصوصیت نیز ان کی نفسیاتی شخصیت و عادت کو رونما کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین کی ثقافتی روش و طرز عمل کو اجاگر کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین سے مبارزہ و رفتار کے طور و طریقہ کو پیش کرتی ہیں۔

پھلی نوع کی آیات میں منافقین کی سیاسی و معاشرتی اسلوب، اور دوسری نوع کی آیات میں منافقین کی انفرادی و نفسیاتی بیماری کی علامات کا ذکر ہے اور تیسری نوع کی آیات میں منافقین کی کفر و نفاق کے مرض کو وسعت دینے نیز اسلام کو تباہ و برباد کرنے کے طریقے کو بیان کیا گیا ہے، چوتھی نوع کی آیات میں منافقین کی کار کردگی کو بے اثر بنانے کے طریقۂ کار کو پیش کیا گیا ہے، اگر چہ قرآن میں جو آیات منافقین کے سلسلہ میں آئی ہیں وہ ان کی اعتقادی نفاق کو بیان کرتی ہیں، مگر جو آیات منافقین کی خصوصیت و صفات کو بیان کرتی ہیں وہ ان کی منافقانہ رفتار و گفتار کو پیش کر رھی ہیں خواہ اعتقادی ہوں یا نہ ہوں منافقین کے جو خصائص بیان کئے گئے ہیں، منافقانہ رفتار و گفتار کی شناخت کے لئے معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں، اس کے مطابق جو فرد یا جماعت بھی اس نوع و طرز کی رفتار و روش کی حامل ھوگی اس کا شمار منافقین میں ہوگا۔

------------

۴۹. سورہ شعراء/ ۸۸ و ۸۹۔

۳۸

فصل دوّم؛ منافقین کی سیاسی خصائص

۱۔ اغیار پرستی

۲۔ ولایت ستیزی

۳۔ منافقین کی دوسری سیاسی خصوصیتیں

اغیار پرستی

اغیار سے سیاسی روابط اور اس کے ضوابط و اصول

قرآن مجید کے شدید منع کرنے کے باوجود منافقین کی سیاسی رفتار کی اہم خصوصیت، اغیار سے دوستی و رابطہ کا ہونا ہے، اس بحث میں وارد ھونے، اور ان آیات قرآنی کی تحقیق کرنے سے قبل، جو منافقین کی اغیار پرستی و دوستی کو بر ملا کرتی ہیں ضروری ہے کہ ہم بطور اجمال اغیار سے سیاسی رابطہ و رفتار کے اصول جو اسلام نے پیش کی ہیں، بیان کردیں، تاکہ اغیار سے رابطہ اور رفتار کے قوانین و نظریہ کی روشنی میں منافقین کے اعمال و رفتار کا تجزیہ کیا جاسکے۔

اصل اوّل: شناخت اغیار

جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جاچکا ہے نظام و حکومت اسلامی کے کارکنان کا اہم ترین وظیفہ دشمن کی شناخت و پھچان ہے، قرآن کی مکرر و دائمی نصیحت یہ ہے کہ اپنے دشمن کو پھچانو، ان کے مقاصد و اھداف کو سمجھو، تاکہ ان سے صحیح مقابلہ کرتے ہوئے ان کی کامیابی کے لئے سد راہ بن جاؤ۔

۳۹

قرآن کریم کی بھت زیادہ آیتیں اغیار کی صفات و خواہشات کو بیان کر رھی ہیں، تاکہ صاحبان ایمان دشمن و اغیار کی شناخت کے لئے ایک معیار پیمانہ قائم کرسکیں، قرآن کریم اغیار کے سلسلہ میں جو صفتیں اور علامتیں بیان کر رہا ہے، ایک خاص عصر و زمان سے مرتبط و محدود نہیں ہے، بلکہ ہر زمان و مکان میں ان کی سیرت و کردار کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، قرآن کی روشنی میں بطور اختصار اغیار کی سات خصوصیتیں ذکر کی جارھی ہیں۔

۱۔ رجعت و عقب نشینی کی آرزو رکھنا

اغیار کی خواہش مومنین کو رجعت یعنی اسلام سے قبل کی ثقافت و کلچر کی طرف پلٹانے کی ہوتی ہے، دشمنان اسلام کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ، مومنین شرک و کفر کے زمانہ کی طرف پلٹ جائیں، مومنین سے اسلامی تھذیب و اقدار کو چھین لیں:

(ودّوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء) (۵۰)

منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ھوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں۔

(ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردّوکم عن دینکم ان استطاعوا) (۵۱)

یہ کفار برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رھیں گے، یہاں تک کہ ان کے بس میں ہو تو تم کو تمھارے دین سے پلٹادیں۔

قرآن کی نظر میں کفار اور بعض اہل کتاب مومنین سے عداوت و دشمنی رکھتے ہوئے ان کو کفر و جاھلیت کی طرف پلٹانا چاہتے ہیں:

----------------

۵۰. سورہ نساء/ ۸۹۔

۵۱. سورہ بقرہ/ ۲۱۷۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193