قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 30%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71149 / ڈاؤنلوڈ: 5107
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قرآن مجید حکم دے رہا ہے کے اپنے آشکار و مخفی دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پوری طاقت سے مستعدر ہو اور طاقت حاصل کرو تاکہ تمھاری قدرت و اقتداران کی خلاف ورزی روکنے کا ذریعہ ہوجائے۔

(واعدّوا لهم ما استتطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدّو الله و عدوکم آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم) (۲۶)

اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے (منافقین) سب کو خوفزدہ کردو۔

اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں طاقت و قدرت کا حصول تجاوز و قانون کی خلاف ورزی روکنے کا وسیلہ ہے نہ تجاوز گری کا ذریعہ۔

منافقین ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ اسلامی نظام و سر زمین پر تعرض و تجاوز کا خیال رکھتے ہیں لھذا نظامی و انتظامی اعتبار سے آمادگی اور معاشرہ کا صاحب بصارت و دانائی ہونا سبب ہوگا کہ وہ اپنے خیال خام سے باز رھیں، اس نکتہ کا بیان بھی ضروری ہے کہ قوت و قدرت کا حصول (آمادگی) صرف جنگ و معرکہ آرائی پر منحصر نہ ہو اگر چہ جنگ ورزم میں مستعد ھونا، اس کے ایک روشن و واضح مصادیق میں سے ہے، لیکن دشمن کی خصوصیت، اس کے حملہ آور وسائل کی شناخت و پھچان کے لئے بصیرت کا وجود، حصول قدرت و اقتدار کے ارکان میں سے ہے۔

جب کہ منافقین کا شمار خطرناک ترین دشمنوں مں ہوتا ہے لھذا، نفاق اور اس کی خصوصیت و صفات کی شناخت ان چند ضرورتوں میں سے ایک ہے جسے عالم اسلام ہمیشہ قابل توجہ قرار دے۔

اس لئے کہ ممکن ہے ھزار چہرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزی، شاید اسلامی نظام و مسلمانوں کے لئے ایسی کاری ضرب ثابت ہو جو التیام و بہبود کے قابل ہی نہ ھو۔

-----------------

۲۶. سورہ انفال/۶۰۔

۲۱

نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی

لفظ نفاق کا ریشہ اور اس کے اصل

لفظ نفاق کے معنی، کفر کو پوشیدہ، اور ایمان کا ظاہر کرنا ہے، نفاق کا استعمال اس معنی میں پہلی مرتبہ قرآن میں ہوا ہے، عرب میں اسلام سے قبل اس معنی کا استعمال نہیں تھا، ابن اثیر تحریر کرتے ہیں:

((وهو اسم لم یعرفه العرب بالمعنی المخصوص وهو الذی یستر کفره و یظهره ایمانه)) (۲۷)

لفظ نفاق کا اس خاص معنی میں استعمال لغت کے اعتبار سے چار احتمال ھوسکتا ھے:

پہلا احتمال:

یہ ہے کہ نفاق بمعنی اذھاب و اھلاک کے ہیں، جیسے(نفقت الدّابة) کہ حیوان کے برباد و ھلاک ھوجانے کے معنی میں ہے۔

نفاق کا اس معنی سے تناسب یہ ہے کہ منافق اپنے نفاق کی بنا پر اس میت کے مثل ہے جو برباد و تباہ ھوجاتی ہے۔

دوسرا احتمال:

نفاق ذیل عبارت سے اخذ کیا گیا ھے:

((نفقت لسلعة اذا راجت و کثرت طلابها))

وہ سامان جو بھت زیادہ رائج ہو اور اس کے طلب گار بھی زیادہ ہوں تو یہاں پر لفظ "نفق" کا استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر اہل لغت کا اصطلاحی مفھوم سے مرتبط ھوتے ہوئے، نفاق یہ ہے کہ منافق ظاہر میں اسلام کو رواج دیتا ہے، کیوں کہ اسلام کے طلب گار زیادہ ھوتے ہیں۔

----------

۲۷. نھایۃ، ابن اثیر، بحث "نفق" و نیز: لسان العرب، ج۱۰، ص۳۵۹۔

۲۲

تیسرا احتمال:

نفاق، زمین دوز راستہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

((النفق سرب فی الارض له مخلص الی المکان))

اس اصل کے مطابق منافق ان افراد کے مثل ہے جو خطرات کی بنا پر زمین دوز راستہ (سرنگ) میں مخفی ھوجائے، یعنی منافق بھی اسلام کے لباس کو زیب تن کرکے خود کو محفوظ کرلیتا ہے اگر چہ مسلمان نہیں ہوتا ہے۔

چوتھا احتمال: نفاق کا ریشہ "نافقاء" ہے، صحرائی چوھے اپنے گھر کے لئے دو راستہ بناتے ہیں ایک ظاہر و آشکار راستہ، اس کا نام "قاصعاء" ہے، دوسرا مخفی و پوشیدہ راستہ، اس کا نام "نافقاء" ہے، جب صحرائی چوھا خطرہ کا احساس کرتا ہے تو، قاصعاء سے داخل ھوکر نافقاء سے فرار کرتا ہے۔

اس احتمال کی بنا پر، منافق ہمیشہ خروج کے لئے دو راستہ اپناتا ہے، ایمان پر کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہتا اگر چہ اس کا حقیقی راستہ کفر ہے لیکن اسلام کا ظاہر کر کے اپنے کو خطرے سے بچا لیتا ہے۔

ابتدا میں دو احتمال یعنی، نفاق بمعنی ھلاک ہونے اور ترویج پانے کے سلسلے میں علماء لغت کی طرف سے کوئی تائید نہیں ملتی ہے، لھذا ان معانی سے اعراض کرنا چاھئے، لیکن تیسرے اور چوتھے احتمال میں سے کون سا احتمال اساسی و بنیادی ہے اس کے لئے مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔

تمام مجموعی احتمالات سے ایک نکتہ ضرور سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ نفاق کے معانی میں دو عنصر قطعاً موجود ہے، ۱: عنصر دورخی، ۲:عنصر پوشیدہ کاری

اس بنا پر نفاق کے معانی میں دو رخی و پوشیدہ کاری کا بھی اضافہ کردینا چاھئے، منافق وہ ہے جو دو روئی کا حامل ہوتا ہے، اور اپنی صفت کو پوشیدہ بھی رکھتا ہے۔

۲۳

قرآن و احادیث میں نفاق کے معانی

روایات و قرآن میں نفاق دو معانی اور دو عنوان سے استعمال ہوا ھے:

۱۔ اعتقادی نفاق

قرآن و حدیث میں نفاق کا پہلا عنوان اسلام کا ظاہر کرنا، اور باطن میں کافر ھونا، اس نفاق کو اعتقادی نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قرآن میں جس مقام پر بھی نفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے یہی معنی منظور نظر ہے، یعنی کسی فرد کا ظاہر میں اسلام کا دم بھرنا، لیکن باطن میں کفر کا شیدائی ھونا۔

سورہ منافق کی پہلی آیت اسی معنی کو بیان کر رھی ہے۔

(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون)

پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواھی دیتا ہے کے یہ منافقین اپنے قول میں جھوٹے ہیں۔

سورہ نساء میں منافقین کی باطنی وضعیت اس طریقہ سے بیان کی گئی ہے۔

(و دّو لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء) (۲۸)

یہ منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ھوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں۔

--------------

۲۸. سورہ نساء/ ۸۹۔

۲۴

اس بنیاد پر امکان ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو اسلام کا اظھار کرتے ہوں اور باطن میں دین اور اس کی حقانیت پر اعتقاد نہ رکھتے ھوں۔

لیکن ان کے اس فعل کا محرک کیا ھے؟ اس کا ذکر تاریخ نفاق کی فصل میں بیان ہوگا، اس نوعیت کے افراد کا فعل نفاق ہے اور ان کو منافق کھا جاتا ہے۔

یقیناً بعض افراد کا اسلام، جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے اسی زمرہ میں آتا ہے، مثال کے طور پر ابوسفیان کا اسلام، پیامبر عظیم الشان کے بعد کے واقعات، خصوصاً عثمان کے دورہ خلافت میں ظاہر ہوجاتا ہے کہ، ان کا اسلام چال بازی اور مکاری سے لبریز تھا، آھستہ آھستہ خلافتی ڈھانچے میں اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اسلام کے پردے میں کفر ہی کی پیروی کرتے تھے، یھاں تک کہ عثمان کے عصر خلافت میں ابوسفیان، سید الشھدا حضرت حمزہ کی قبر کے پاس آکر کھتا ہے، اے حمزہ! کل جس اسلام کے لئے تم جنگ کر رہے تھے، آج وہ اسلام گیند کے مثل میری اولاد میں دست بدست ہو رہا ہے(۲۹)

ابوسفیان، خلافت عثمان کے ابتدائی ایام میں خاندان بنی امیہ کے اجتماع میں اپنے نفاق کا اظھار یوں کرتا ہے، خاندان تمیم وعدی (ابوبکر و عمر کے بعد) خلافت تم کو نصیب ھوئی اس سے گیند کی طرح کھیلتے رہو اور اس گیند (خلافت) کے لئے قدم، بنی امیہ سے انتخاب کرو، یہ خلافت صرف سلطنت و بشر کی سرداری ہے اور جان لو کہ میں ہر گز جنت و جھنم پر ایمان نہیں رکھتا ھوں(۳۰)

---------------

۲۹. قاموس الرجال، ج۱۰، ص۸۹۔

۳۰. الاصابہ، ج۴، ص۸۸۔

۲۵

جس وقت ابوبکر نے امور خلافت کو اپنے ھاتھ میں لیا ابوسفیان چاھتا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ھوجائے اور اسی غرض کے تحت مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے حمایت و مساعدت کی پیشکش کرتا ہے لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کو اچھے طریقہ سے پہچانتے تھے، پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا: تم اور حق کے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ہی سے اسلام و مسلمان کے دشمن تھے آپ نے اس کی منافقانہ بیعت کے دراز شدہ دست کو رد کرتے ہوئے چھرہ کو موڑ لیا(۳۱)

بھر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوسفیان ان افراد میں سے تھا جن کے جسم و روح، اسلام سے بیگانے تھے اور صرف اسلام کا اظھار کرتا تھا۔

۲۔ اخلاقی نفاق

نفاق کا دوسرا عنوان اور معنی جو بعض روایات میں استعمال ہوا ہے اخلاقی نفاق ہے، یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا، لیکن دین کے قانون پر عمل نہ کرنا، اس کو اخلاقی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے(۳۲) البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اور کبھی اجتماعی پہلوؤں میں رونما ہوتا ہے، وہ فرد جو اسلام کے فردی احکام و قوانین اور اس کی حیثیت کو پامال کر رہا ہو وہ فردی اخلاقی نفاق میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق و اجتماعی احکام کو جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ہے نہ بجالاتا ہو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعی سے دوچار ہے۔

فردی، نفاق اخلاق کی چند قسمیں، ائمہ حضرات کی احادیث کے ذریعہ پیش کی جارھی ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

---------------

۳۱. تفسیر سورہ توبہ و منافقون۔

۳۲. یقیناً اخلاق کی یہ حالتیں، رذائل کے اجزا میں سے ہے لیکن یہ کہ عادت رذیلہ روایات میں نفاق پر اطلاق ہوتی ہے یا نہیں یہ وہ موضوع ہے جسے اجاگر ہونا چاھئے علامہ مجلسی بحار الانوار ج۷۲ ص۱۰۸ میں اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں کہ روایات میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، اصول کافی ج۲ میں ایک باب صفت النفاق و المنافق ہے اس باب کی اکثر احادیث انفرادی، اجتماعی اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہے یہ خود دلیل ہے کہ نفاق روایات میں اس خاص معنی (نفاق اخلاقی) جس کا میں نے اشارہ کیا ہے استعمال ہوا ہے۔

۲۶

((اظهر الناس نفاقاً من امر با لطاعة ولم یعمل بها ونهی عن المعصیة ولم ینته عنها)) (۳۳) کسی فرد کا سب سے واضح و نمایاں نفاق یہ ہے کہ اطاعت (خداوند متعال) کا حکم دے لیکن خود مطیع و فرمان بردار نہ ھو، گناہ و عصیان کو منع کرتا ہے لیکن خود کو اس سے باز نہیں رکھتا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام مرسل اعظم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((ما زاد خشوع الجسد علی ما فی القلب فهو عندنا نفاق)) (۳۴)

جب کبھی جسم (ظاہر) کا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زیادہ ہو تو ایسی حالت ھمارے نزدیک نفاق ہے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((ان المنافق ینهی ولا ینتهی و یامر بما لا یاتی------ یمسی وهمه العشا وهو مفطر و یصبح وهمه النوم ولم یسهر)) (۳۵)

یقیناً منافق وہ شخص ہے جو لوگوں کو منع کرتا ہے لیکن خود اس کام سے پرہیز نہیں کرتا ہے، اور ایسے کام کا حکم دیتا ہے جس کو خود انجام نہیں دیتا، اور جب شب ہوتی ہے تو سواء شام کے کھانے کے اسے کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی حالانکہ وہ روزہ سے بھی نہیں ھوتا، اور جب صبح کو بیدار ہوتا ہے تو سونے کی فکر میں رہتا ہے، حالانکہ شب بیداری بھی نہیں کرتا (یعنی ھدف و مقصد صرف خواب و خوراک ھے) ۔

ذکر شدہ روایات اور اس کے علاوہ دیگر احادیث جو ان مضامین پر دلالت کرتی ہیں ان کی روشنی میں بے عمل عالم اور ریا کار شخص کا شمار انھیں لوگوں میں سے ہے جو فردی اخلاقی نفاق سے دوچار ھوتے ہیں۔

--------------

۳۳. غرور الحکم، حدیث ۳۲۱۴۔

۳۴. اصول کافی، ج۲، ص۳۹۶۔

۳۵. اصول کافی، ج۲، ص۳۹۶۔

۲۷

نفاق اخلاقی اجتماعی کے سلسلہ میں معصومین علیہ السلام سے بھت سی احادیث صادر ھوئی ہیں، چند عدد پیش کی جارھی ہیں۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

((ان المنافق…… ان حدثک کذبک و ان ائتمنه خانک وان غبت اغتابک وان وعدک اخلفک)) (۳۶)

منافق جب تم سے گفتگو کرے تو جھوٹ بولتا ہے، اگر اس کے پاس امانت رکھو تو خیانت کرتا ہے، اگر اس کی نظروں سے اوجھل رہو تو غیبت کرتا ہے، اگر تم سے وعدہ کرے تو وفا نہیں کرتا ہے۔

پیامبر عظیم الشان (ص) نفاق اخلاقی کے صفات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((اربع من کن فیه فهو منافق وان کانت فیه واحدة منهن کانت فیه خصلة من النفاق من اذا حدّث کذب واذا وعد اخلف واذا عاهد غدر واذا خاصم فجر)) (۳۷)

چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی میں پائی جائیں تو وہ منافق ہے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اگر عہد و پیمان کرے تو اس پر عمل نہ کرے، جب پیروز و کامیاب ھوجائے تو برے اعمال کے ارتکاب سے پرہیز نہ کرے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

((کثرة الوفاق نفاق)) (۳۸)

کسی شخصی کا زیادہ ہی وفاقی اور سازگاری مزاج و طبیعت کا ہونا یہ اس کے نفاق کی علامت ہے۔

-------------

۳۶. المحجۃ البیضاء، ج۵، ص۲۸۲۔

۳۷. خصال شیخ صدوق، ص۲۵۴۔

۳۸. میزان الحکمت، ج۸، ص۳۳۴۳۔

۲۸

ظاہر سی بات ہے کہ صاحب ایمان ہمیشہ حق کا طرف دار ہوتا ہے اور حق کا مزاج رکھنے والا کبھی بھی سب سے خاص کر ان لوگوں سے جو باطل پرست ہیں سازگار و ھمراہ نہیں ھوتا، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے، صاحب ایمان ابن الوقت نہیں ھوتا۔

نفاق اجتماعی کا آشکار ترین نمونہ اجتماعی زندگی و معاشرے میں دو روئی اور دو زبان کا ہونا ہے، یعنی انسان کا کسی کے حضور میں تعریف و تمجید کرنا لیکن پس پشت مذمت و برائی کرنا۔

صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت کی پرستاری، صاحب ایمان کے صفات میں سے ہیں، صرف چند ایسے خاص مواقع میں جہاں اہم حکمت اس بات کا اقتضا کرتی ہے جیسے جنگ اور اس کے اسرار کی حفاظت، افراد اور جماعت میں صلح و مصالحت کی خاطر صدق گوئی سے اعراض کیا جاسکتا ہے(۳۹)

پیامبر اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوعیت کے نفاق کے انجام و نتیجہ کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((من کان له وجهان فی الدنیا کان له لسانان من نار یوم القیامة)) (۴۰)

جو شخص بھی دنیا میں دو چہرے والا ہوگا، آخرت میں اسے دو آتشی زبان دی جائے گی۔

امام حضرت محمد باقر علیہ السلام بھی اخلاقی نفاق کے خدو خال کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((بئس العبد یکون ذاوجهین و ذالسانین یطری اخاه شاهداً و یأکله غائباً ان اعطی حسده وان ابتلی خذله)) (۴۱)

بہت بدبخت و بد سرشت ہے، وہ بندہ جو دو چہرے اور دو زبان والا ہے، اپنے دینی بھائی کے سامنے تو تعریف و تمجید کرتا ہے اور اس کی غیبت میں اس کو ناسزا کھتا ہے، اگر اللہ اس کے دینی بھائی کو کچھ عطا کرتا ہے تو حسد کرتا ہے، اگر کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی اھانت کرتا ہے۔

--------------

۳۹. غیبت و کذب سے مستثنٰی موارد کے سلسلہ میں اخلاقی و فقھی کتب جیسے جامع السعادات اور مکاسب کی طرف مراجعہ کریں۔

۴۰. المحجۃ البیضاء، ج۵، ص۲۸۰۔

۴۱. المحجۃ البیضاء، ج۵، ص۲۸۲۔

۲۹

اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ

مشھور نظریہ

مشھور و معروف نظریہ، نفاق کے وجود و آغاز کے سلسلہ میں یہ ہے کہ نفاق کی بنیاد مدینہ میں پڑی، اس فکر و نظر کی دلیل یہ ہے کہ مکہ میں مسلمین بھت کم تعداد اور فشار میں تھے، لھذا کم تعداد افراد سے مقابلے کے لئے، کفار کی طرف سے منافقانہ و مخفیانہ حرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مکہ کے کفار ومشرکین علی الاعلان آزار و اذیت، شکنجہ دیا کرتے تھے۔

عظیم الشان پیامبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ھجرت کرنے کی بنا پر اسلام نے ایک نئی کروٹ لی، روز بروز اسلام کے اقتدار و طاقت، شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا، لھذا اس موقع پر بعض اسلام کے دشمنوں نے اسلام کی نقاب اوڑھ کر دینداری کا اظھار کرتے ہوئے اسلام کو تباہ و نابود کرنے کی کوشش شروع کردی، اسلام کا اظھار اس لئے کرتے تھے تاکہ اسلام کی حکومت و طاقت سے محفوظ رہ سکیں، لیکن باطن میں اسلام کے جگر خوار و جانی دشمن تھے، یہ نفاق کا نقطہ آغاز تھا، خاص کر ان افراد کے لئے جن کی علمداری اور سرداری کو شدید جھٹکا لگا تھا، وہ کچھ زیادہ ہی پیامبر اکرم اور ان کے مشن سے عناد و کینہ رکھنے لگے تھے۔

عبد اللہ ابن ابی انھی منافقین میں سے تھا، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ھجرت کرنے سے قبل اوس و خزرج مدینہ کے دو طاقتور قبیلہ کی سرداری اسے نصیب ھونی تھی، لیکن بد نصیبی سے واقعۂ ھجرت پیش آنے کی بنا بر سرداری کے یہ تمام پروگرام خاکستر ھوکر رہ گئے، بعد میں گر چہ اس نے ظاہراً اسلام قبول کرلیا، لیکن رفتار و گفتار کے ذریعہ، اپنے بغض و کینہ، عناد و عداوت کا ہمیشہ اظھار کرتا رھا، یہ مدینہ میں جماعت نفاق کا رئیس و افسر تھا، قرآن مجید کی بعض آیات میں اس کی منافقانہ اعمال و حرکات کی نشاندھی کی گئی ہے۔

۳۰

جب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں وارد ہوئے۔ اس نے پیامبر عظیم الشان (ص) سے کھا: ہم فریب میں پڑنے والے نہیں، ان کے پاس جاؤ جو تم کو یھاں لائے ہیں اور تم کو فریب دیا ہے، عبد اللہ ابن ابی کی اس ناسزا گفتگو کے فوراً بعد ہی سعد بن عبادہ رسول اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی آپ غمگین و رنجیدہ خاطر نہ ھوں، اوس و خزرج کا ارادہ تھا کہ اس کو اپنے اپنے قبیلہ کا سردار بنائیں گے، لیکن آپ کے آنے سے حالات یکسر تبدیل ھوچکے ہیں، اس کی فرمان روائی سلب ھوچکی ہے، آپ ھمارے قبیلے خزرج میں تشریف لائیں، ہم صاحب قدرت اور باوقار افراد ہیں(۴۲)

اس میں کوئی شک نہیں کہ نفاق کا مبدا ایک اجتماعی و معاشرتی پروگرام کے تحت مدینہ ہے، نفاقِ اجتماعی کے پروگرام کی شکل گیری کا اصل عامل حق کی حاکمیت و حکومت ہے، جو پہلی مرتبہ مدینہ میں تشکیل ھوئی، پیامبر عظیم الشان کا مدینہ میں وارد ہونا و اسلام کا روز بروز قوی و مستحکم ہونا باعث ہوا کہ منافقین کی مرموز حرکات وجود میں آئیں، البتہ منافقین کی یہ خیانت کارانہ حرکتیں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگوں میں زیادہ قابل لمس ہیں۔

قرآن مجید میں بطور صریح جنگ بدر، احد، بنی نظیر، خندق و تبوک نیز مسجد ضرار کے سلسلہ میں منافقین کی سازشیں بیان کی گئی ہیں۔

مدینہ میں جماعت نفاق کے منظّم و مرتب پروگرام کے نمونے، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مشکلات کھڑی کرنا، مسجد ضرار کی تعمیر کے لئے، چال بازی و شعبدہ بازی کا استعمال کرنا۔

-----------

۴۲. علام الوری، ص۴۴، بحار الانوار، ج۱۹ ص۱۰۸۔

۳۱

پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غزوۂ تبوک کے لئے اعلان کرنا تھا کہ منافقین کی حرکات میں شدت آگئی، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منافقانہ حرکتیں اپنے عروج پر پھنچ چکی تھیں، مدینہ سے تبوک کا فاصلہ تقریباً ایک ھزار کیلو میٹر تھا، موسم بھی گرم تھا، محصول زراعت و باغات کے ایام تھے، اس جنگ میں مسلمانوں کی مدّ مقابل روم کی سوپر پاور حکومت تھی، یہ تمام حالات منافقین کے فیور (موافق) میں تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جنگ پر جانے سے روک سکیں، اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔

منافقین کے ایک اجتماع میں جو سویلم یھودی کے یھاں برپا ہوا تھا، جس میں منافق جماعت کے بلند پایہ ارکان موجود تھے، طے یہ ہوا کہ مسلمانوں کو روم کی طاقت و قوت کا خوف دلایا جائے، ان کے دلوں میں روم کی ناقابل تسخیر فوجی طاقت کا رعب بٹھایا جائے۔

اس جلسہ اور اھداف کی خبر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھنچی، آپ نے اسلام کے خلاف اس سازشی مرکز کو ختم نیز دوسروں کی عبرت کے لئے حکم دیا، سویلم کے گھر کو جلادیا جائے آپ نے اس طریقہ سے ایک سازشی جلسہ نیز ان کے ارکان کو متفرق کر کے رکھ دیا(۴۳)

مسجد ضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں نقل کیا جاتا ہے کہ منافقین میں سے کچھ افراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایک مسجد قبیلۂ بنی سالم کے درمیان مسجد قبا کے نزدیک بنانے کی اجازت چاھی، تاکہ بوڑھے، بیمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذور ہیں خصوصاً بارانی راتوں میں، وہ اس مسجد میں اسلامی فریضہ اور عبادت الہی کو انجام دے سکیں، ان لوگوں نے تعمیر مسجد کی اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افتتاح مسجد کی درخواست بھی کی، آپ نے فرمایا: میں ابھی عازم تبوک ہوں واپسی پر انشاء اللہ اس کام کو انجام دوں گا، تبوک سے واپسی پر ابھی آپ مدینہ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے

------------

۴۳. سیرت ابن حشام، ج۲، ص۵۱۷، منشور جاوید قرآن، ج۴، ص۱۱۲۔

۳۲

کہ منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، اس موقع پر وحی کا نزول ہوا(۴۴) جس نے ان کے افعال و اسرار کی پول کھول کر رکھدی، پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے تخریب کا حکم دیا تخریب شدہ مکان کو شھر کے کوڑے اور گندگی ڈالنے کی جگہ قرار دیا۔

اگر اس جماعت کے فعل کی ظاہری صورت کا مشاہدہ کریں تو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے حکم سے حیرت ہوتی ہے لیکن جب اس قضیہ کے باطنی مسئلہ کی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقت سامنے آتی ہے، یہ مسجد جو خراب ہونے کے بعد مسجد ضرار کے نام سے مشھور ھوئی، ابو عامر کے حکم سے بنائی گئی تھی، یہ مسجد نہیں بلکہ جاسوسی اور سازشی مرکز تھا، اسلام کے خلاف جاسوسی و تبلیغ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنا اس کے اھداف و مقاصد تھے۔

ابو عامر مسیحی عالم تھا زمانۂ جاھلیت میں عبّاد و زھّاد میں شمار ہوتا تھا اور قبیلۂ خزرج میں وسیع عمل و دخل رکھتا تھا، جب مرسل اعظم نے مدینہ ھجرت فرمائی مسلمان آپ کے گرد جمع ھوگئے خصوصاً جنگ بدر میں مسلمانوں کی مشرکوں پر کامیابی کے بعد اسلام ترقی کرتا چلا گیا، ابو عامر جو پہلے ظھور پیامبر (ص) کا مژدہ سناتا تھا جب اس نے اپنے اطراف و جوانب کو خالی ھوتے دیکھا تو اسلام کے خلاف اقدام کرنا شروع کردیا، مدینہ سے بھاگ کر کفار مکہ اور دیگر قبائل عرب سے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مدد حاصل کرنی چاھی، جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پروگرام مرتب کرنے میں اس کا بڑا ھاتھ تھا، دونوں لشکر کی صفوں کے درمیان میں خندق کے بنائے جانے کا حکم اسی کی طرف سے تھا، جس میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گر پڑے

------------------

۴۴. سورہ توبہ، ۱۰۷ کے بعد کی آیتیں۔

۳۳

آپ کی پیشانی مجروح ھوگئی دندان مبارک ٹوٹ گئے، جنگ احد کے تمام ہونے کے بعد، باوجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ میں کافی مشکلات و زحمات سے دوچار تھے، اسلام مزید ارتقاء کی منزلیں طے کرنے لگا صدائے اسلام پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہونے لگی ابو عامر، یہ کامیابی و کامرانی دیکھ کر مدینہ سے بادشاہ روم ھرقل کے پاس گیا تاکہ اس کی مدد سے اسلام کی پیش رفت کو روک سکے، لیکن موت نے فرصت نہ دی کہ اپنی آرزو و خواہش کو عملی جامہ پھنا سکے، لیکن بعض کتب کے حوالہ سے کھا جاتا ہے، کہ وہ بادشاہ روم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھی کئے۔

اس نکتہ کو بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس کی تخریبی حرکتیں اور عناد پسند طبیعت کی بنا پر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فاسد کا لقب دے رکھا تھا، بھر حال اس کے قبل کہ وہ واصل جھنم ہوا، ایک خط مدینہ کے منافقین کے نام تحریر کیا جس میں لشکر روم کی آمد اور ایک ایسے مکان و مقام کی تعمیر کا حکم تھا جو اسلام کے خلاف سازشی مرکز ھو، لیکن چونکہ ایسا مرکز منافقین کے بنانا چنداں آسان نہیں تھا لھذا انھوں نے مصلحتاً معذوروں، بیماروں، بوڑھوں کی آڑ میں مسجد کی بنیاد ڈال کر ابو عامر کے حکم کی تعمیل کی، مرکز نفاق مسجد کی شکل میں بنایا گیا، مسجد کا امام جماعت ایک نیک سیرت جوان بنام مجمع بن حارثہ کو معین کیا گیا، تاکہ مسجد قبا کے نماز گزاروں کی توجہ اس مسجد کی طرف مبذول کی جاسکے، اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رھے، لیکن اس مسجد کے سلسلہ میں آیات قرآن کے نزول کے بعد پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مرکز نفاق کو خراب کرنے کا حکم دے دیا(۴۵) ،تاریخ کا یہ نمونہ جسے قرآن بھی ذکر کر رہا ہے منافقین کی مدینہ میں منظّم کار کردگی کا واضح ثبوت ہے۔

----------------

۴۵. مجمع البیان، ج۳، ص۷۲۔

۳۴

مشھور نظریہ کی تحقیق

مشھور نظریہ کے مطابق نفاق کا آغاز مدینہ ہے، اور نفاق کا وجود، حکومت و قدرت سے خوف و ھراس کی بنا پر ہوتا ہے، اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے تھے ہی نہیں، لھذا وھاں نفاق کا وجود میں آنا بے معنی تھا، صرف مدینہ میں مسلمان صاحب قدرت و حکومت تھے لھذا نفاق کا مبداء مدینہ ہے۔

لیکن نفاق کی بنیاد صرف حکومت سے خوف و وحشت کی بنا پر جو اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اسلام میں منصب و قدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود میں آنے کا عامل ھوسکتی ہے، لھذا، نفاق کی دو قسم ھونی چاھئے:

۱۔ نفاقِ خوف: ان افراد کا نفاق جو اسلام کی قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ھوکر اظھار اسلام کرتے ہوئے اسلام کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔

۲۔ نفاقِ طمع: ان افراد کا نفاق جو اس لالچ میں اسلام کا دم بھرتے تھے کہ اگر ایک روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ہوا، تو اس کی زعامت و مناصب پر قابض ہوجائیں یا اس کے حصّہ دار بن جائیں۔

نفاق بر بناء خوف کا سر چشمہ مدینہ ہے، اس لئے کہ اہل اسلام نے قدرت و اقتدار کی باگ ڈور مدینہ میں حاصل کیا۔

لیکن نفق بر بناء طمع و حرص کا مبداء و عنصر مکہ ہونا چاھئے، عقل و فکر کی بنا پر بعید نہیں ہے کہ بعض افراد روز بروز اسلام کی ترقی، اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے باجود اسلام کی کامیابی، مکرر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کے عالمی ہونے والی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ہوئے دور اندیش ھوں، کہ آج کا ضعیف اسلام کل قوت و طاقت میں تبدیل ھوجائے گا، اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر اسلام لائے ھوں، تاکہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کے منصب و قدرت کے حق دار بن جائیں۔

۳۵

اس مطلب کا ذکر ضروری ہے کہ منافق طمع کے افعال و کارکردگی منافق خوف کی فعالیت و کارکردگی سے کافی جدا ہے، منافق خوف کی خصوصیت خراب کاری، کار شکنی، بیخ کنی، اذیت و تکلیف سے دوچار کرنا ہے، جب کہ منافق طمع ایسا نہیں کرتا، بلکہ وہ ایک تحریک کی کامیابی کے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ تحریک ایک شکل و صورت میں تبدیل ھوجائے، اور یہ قدرت کی نبض اور دھڑکن کو اپنے ھاتھوں میں لے سکیں، منافق طمع صرف وھاں تخریبی حرکات کو انجام دیتے ہیں جہاں ان کے بنیادی منافع خطرے میں پڑجائیں۔

اگر ہم نفاق طمع کے وجود کو مکہ قبول کریں، تو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ نفاق کا وجود اور اس کے آغاز کو مدینہ تسلیم کیا جائے۔

جیسا کہ مفسر قرآن علامہ طباطبائی (رح) اس نظریہ کو پیش کرتے ھیں(۴۶) آپ ایک سوال کے ذریعہ کو مذکورہ مضمون کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں، باوجودیکہ اس قدر منافقین کے سلسلہ میں آیات، قرآن میں موجود ہیں، کیوں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد منافقین کا چرچا نہیں ھوتا، منافقین کے بارے میں کوئی گفتگو اور مذاکرات نہیں ھوتے، کیا وہ صفحہ ھستی سے محو ھوگئے تھے؟ کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی بنا پر منتشر اور پراکندہ ھوگئے تھے؟ یا اپنے نفاق سے توبہ کرلی تھی؟ یا اس کی وجہ یہ تھی کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد صاحبان نفاق طمع، صاحبان نفاق خوف کا تال میل ھوگیا تھا، اپنی خواہشات و حکمت عملی کو جامۂ عمل پھنا چکے تھے، اسلام کی حکومت و ثروت پر قبضہ کر چکے تھے اور بہ بانگ دھل یہ شعر پڑھ رہے تھے:

----------

۴۶. تفسیر المیزان، ج۱۹ ص۲۸۷ تا ۲۹۰، سورہ منافقون کی آیات ۱/ ۸ کے ذیل میں۔

۳۶

((لعبت هاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل))

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ نفاق اجتماعی ایک منظّم تحریک کے عنوان سے مدینہ میں ظھور پذیر ہوا، لیکن نفاق فردی جو بر بناء طمع و حرص عالم وجود میں آیا ہو اس کو انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں، اس لئے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ میں بھی ظاہر ھوسکتا تھا، وہ افراد جو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستور و حکم سے سر پیچی کرتے تھے، ان میں بعض وہ تھے جو مکہ میں مسلمان ہوئے تھے، یہ وہی منافق تھے جو طمع و حرص کی بنا پر اسلام کا اظھار کرتے تھے۔

مرض نفاق اور اس کے آثار

نفاق، قلب اور دل کی بیماری ہے، قرآن کی آیات اس باریکی کی طرف توجہ دلاتی ہیں، پاکیزہ قلب خدا کا عرش اور اللہ کا حرم ھے(۴۷) اس میں اللہ کے علاوہ کسی اور کا گذر نہیں ہے، لیکن مریض و عیب دار دل، غیر خدا کی جگہ ہے ہوا و ھوس سے پر دل شیطان کا عرش ہے، قرآن مجید صریح الفاظ میں منافقین کو عیب دار اور مریض دل سمجھتا ھے:

(فی قلوبهم مرض) (۴۸)

-----------------

۴۷. "قلب المؤمن عرش الرحمن" بحار الانوار، ج۵۸، ص۳۹۔ "لقلب حرم اللہ فلا تسکن حرم اللہ غیر اللہ" بحار الانوار، ج۷۰، ص۲۵۔

۴۸. سورہ بقرہ/ ۱۰، مائدہ/۵۲ ، توبہ/ ۱۲۵، محمد/ ۲۰۔ ۲۹: بعض آیات میں (فی قلوبھم مرض) کے ھمراہ منافقون کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جیسے سورہ انفال کی آیت نمبر ۴۹ و سورہ احزاب کی آیت نمبر ۱۲ (اذا یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض) یھاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بیمار دل والے منافق ہی ہیں یا ان کے علاوہ دوسرے افراد، علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان، ج۱۵، ص۲۸۶، ج۹، ص۹۹، میں ان دونوں کو الگ الگ شمار کرتے ہیں، آپ کا کھنا ہے کہ بیمار دل والوں سے مراد ضعیف الاعتقاد مسلمان ہیں، اور منافقین وہ ہیں جو ایمان و اسلام کا اظھار کرتے ہیں لیکن باطن میں کافر ہیں، بعض مفسرین کی نظر میں، بیمار دل صفت والے افراد منافق ہی ہیں، نفاق کے درجات ہیں، نفاق کا آغاز قلب و دل کی کجی اور روح کی بیماری سے شروع ہوتا ہے، اور آھستہ آھستہ پایۂ تکمیل کو پھنچتا ہے، لیکن میرے خیال میں منافقون، و (والذین فی قلوبھم مرض) دو مترادف الفاظ کے مثل ہیں جیسے فقیر و مسکین، اگر یہ دو لفظ ساتھ میں استعمال ہو تو ہر لفظ ایک مخصوص معنی کا حامل ہوگا، لیکن اگر جدا استعمال ھوتو دونوں کے معنی ایک ہی ہوں گے، اس بنا پر وہ آیات جس میں لفظ منافقون و (فی قلوبھم مرض) ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں، دونوں کے مستقل معنی ہیں، منافقون یعنی اسلام کا اظھار و کفر کا پوشیدہ رکھنا، و (فی قلوبھم مرض) یعنی ضعیف الایمان یا آغاز نفاق، لیکن جب (فی قلوبھم مرض) کا استعمال جدا ہو تو اس سے مراد منافقین ہیں، کیوں کہ منافقین وہی ہیں جو (فی قلوبھم مرض) کے مصداق ہیں،

۳۷

نفاق جیسی پُر خطر بیماری میں مبتلا افراد، بزرگترین نقصان و ضرر سے دوچار ھوتے ہیں، اس لئے کہ آخرت میں نجات صرف قلب سلیم (پاکیزہ) کے ذریعہ ہی میسر ہے، ہوا و ھوس سے پر، غیر خدا کا محبّ و غیر خدا سے وابستہ دل نجات کا سبب نھیں۔

(یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم) (۴۹)

اس دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے۔ مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ھو۔

قرآن مجید اس مرض و بیماری کی شناخت و واقفیت کے سلسلہ میں کچھ مفید نکات کا ذکر کر رہا ہے، تمام مسلمانوں کو ان نکات کی طرف توجہ دینی چھاھئے تاکہ اپنے قلب و دل کی صحت و سلامتی و نیز مرض کو تشخیص دے سکیں، نیز ان نکات کے ذریعہ معاشرے کے غیر سلیم و نادرست قلوب کی شناسائی کرتے ہوئے ان کے مراکز فساد و فتنہ سے مبارزہ کرسکیں۔

ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے آیاتِ قرآنی جو منافقین کی شناخت میں نازل ھوئی ہیں ان کو چند نوع میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

وہ آیات جو اسلامی معاشرے میں منافقین کی سیاسی و اجتماعی روش و طرز کو بیان کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین کی فردی خصوصیت نیز ان کی نفسیاتی شخصیت و عادت کو رونما کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین کی ثقافتی روش و طرز عمل کو اجاگر کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین سے مبارزہ و رفتار کے طور و طریقہ کو پیش کرتی ہیں۔

پھلی نوع کی آیات میں منافقین کی سیاسی و معاشرتی اسلوب، اور دوسری نوع کی آیات میں منافقین کی انفرادی و نفسیاتی بیماری کی علامات کا ذکر ہے اور تیسری نوع کی آیات میں منافقین کی کفر و نفاق کے مرض کو وسعت دینے نیز اسلام کو تباہ و برباد کرنے کے طریقے کو بیان کیا گیا ہے، چوتھی نوع کی آیات میں منافقین کی کار کردگی کو بے اثر بنانے کے طریقۂ کار کو پیش کیا گیا ہے، اگر چہ قرآن میں جو آیات منافقین کے سلسلہ میں آئی ہیں وہ ان کی اعتقادی نفاق کو بیان کرتی ہیں، مگر جو آیات منافقین کی خصوصیت و صفات کو بیان کرتی ہیں وہ ان کی منافقانہ رفتار و گفتار کو پیش کر رھی ہیں خواہ اعتقادی ہوں یا نہ ہوں منافقین کے جو خصائص بیان کئے گئے ہیں، منافقانہ رفتار و گفتار کی شناخت کے لئے معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں، اس کے مطابق جو فرد یا جماعت بھی اس نوع و طرز کی رفتار و روش کی حامل ھوگی اس کا شمار منافقین میں ہوگا۔

------------

۴۹. سورہ شعراء/ ۸۸ و ۸۹۔

۳۸

فصل دوّم؛ منافقین کی سیاسی خصائص

۱۔ اغیار پرستی

۲۔ ولایت ستیزی

۳۔ منافقین کی دوسری سیاسی خصوصیتیں

اغیار پرستی

اغیار سے سیاسی روابط اور اس کے ضوابط و اصول

قرآن مجید کے شدید منع کرنے کے باوجود منافقین کی سیاسی رفتار کی اہم خصوصیت، اغیار سے دوستی و رابطہ کا ہونا ہے، اس بحث میں وارد ھونے، اور ان آیات قرآنی کی تحقیق کرنے سے قبل، جو منافقین کی اغیار پرستی و دوستی کو بر ملا کرتی ہیں ضروری ہے کہ ہم بطور اجمال اغیار سے سیاسی رابطہ و رفتار کے اصول جو اسلام نے پیش کی ہیں، بیان کردیں، تاکہ اغیار سے رابطہ اور رفتار کے قوانین و نظریہ کی روشنی میں منافقین کے اعمال و رفتار کا تجزیہ کیا جاسکے۔

اصل اوّل: شناخت اغیار

جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جاچکا ہے نظام و حکومت اسلامی کے کارکنان کا اہم ترین وظیفہ دشمن کی شناخت و پھچان ہے، قرآن کی مکرر و دائمی نصیحت یہ ہے کہ اپنے دشمن کو پھچانو، ان کے مقاصد و اھداف کو سمجھو، تاکہ ان سے صحیح مقابلہ کرتے ہوئے ان کی کامیابی کے لئے سد راہ بن جاؤ۔

۳۹

قرآن کریم کی بھت زیادہ آیتیں اغیار کی صفات و خواہشات کو بیان کر رھی ہیں، تاکہ صاحبان ایمان دشمن و اغیار کی شناخت کے لئے ایک معیار پیمانہ قائم کرسکیں، قرآن کریم اغیار کے سلسلہ میں جو صفتیں اور علامتیں بیان کر رہا ہے، ایک خاص عصر و زمان سے مرتبط و محدود نہیں ہے، بلکہ ہر زمان و مکان میں ان کی سیرت و کردار کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، قرآن کی روشنی میں بطور اختصار اغیار کی سات خصوصیتیں ذکر کی جارھی ہیں۔

۱۔ رجعت و عقب نشینی کی آرزو رکھنا

اغیار کی خواہش مومنین کو رجعت یعنی اسلام سے قبل کی ثقافت و کلچر کی طرف پلٹانے کی ہوتی ہے، دشمنان اسلام کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ، مومنین شرک و کفر کے زمانہ کی طرف پلٹ جائیں، مومنین سے اسلامی تھذیب و اقدار کو چھین لیں:

(ودّوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء) (۵۰)

منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ھوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں۔

(ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردّوکم عن دینکم ان استطاعوا) (۵۱)

یہ کفار برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رھیں گے، یہاں تک کہ ان کے بس میں ہو تو تم کو تمھارے دین سے پلٹادیں۔

قرآن کی نظر میں کفار اور بعض اہل کتاب مومنین سے عداوت و دشمنی رکھتے ہوئے ان کو کفر و جاھلیت کی طرف پلٹانا چاہتے ہیں:

----------------

۵۰. سورہ نساء/ ۸۹۔

۵۱. سورہ بقرہ/ ۲۱۷۔

۴۰

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193