قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 30%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71151 / ڈاؤنلوڈ: 5107
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

(یا ایها الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردّوکم علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین) (۵۲)

اے ایمان والو! اگر تم کفر اختیار کرنے والوں کی اطاعت کرو گے تو یہ تمھیں گزشتہ زمانہ کی طرف پلٹا لے جائیں گے، اور سر انجام تم خود ہی خسارہ و نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے۔

(ودّ کثیر من اهل الکتاب لو یردّونکم من بعد ایمانکم کفار حسداً من عند انفسهم من بعد ما تبین لهم الحق) (۵۳)

بھت سے اہل کتاب حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں ایمان کے بعد کافر بنادیں حالانکہ حق ان پر بالکل واضح و آشکار ھوچکا ہے۔

۲۔ اسلامی اصول و اقدار سے انحراف کی تمنا کرنا

دشمن کی ایک اہم خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسلامی حکومت اور مومنین، اسلامی اصول و اقدار سے رو گرداں و منحرف ھوجائیں، مومنین سے اسلامی اصول اور اس کے اقدار پر سودا کرنے کے خواہش مند ھوتے ہیں:

(ودّوا لو تدهن فیه هنون) (۵۴)

یہ چاہتے ہیں کہ آپ تھوڑا نرم (حق کی راہ سے منحرف) ہوجائیں تاکہ وہ بھی نرم ہوجائیں۔

اسلامی حکومت میں الہی سیاست گزار کو صرف اپنی شرعی ذمہ داری و فرائض کا خیال رکھنا ہوتا ہے، ان کے پروگرام میں سر فھرست الہی مقاصد اور اصولوں کی حفاظت مقصود ہوتی ہے، ان کے طریقۂ کار میں اصولی و بنیادی مسائل پر سودا گری اور ساز باز کا کوئی مفھوم نہیں ہوتا ہے۔

------------

۵۲. سورہ آل عمران/ ۱۴۹۔

۵۳. سورہ بقرہ/ ۱۰۹۔

۵۴. سورہ قلم/ ۹۔

۴۱

لیکن دنیاوی اور مادہ پرست سیاست گزار کا ھدف و مقصد صرف حکومت و استعماریت ہوتا ہے ان کی سیاست کی بساط، اصول کی سودا گری و ساز و باز پر ہوتی ہے وہی سیاست کہ جس کا معاویہ شیدائی تھا لیکن مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام شدت سے مخالف تھے، آپ اس طریقۂ کار کو شیطنت و مکر و فریب سمجھتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام ایسی پست سیاست و طرز عمل سے دور تھے، وہ لوگ جو معاویہ کی حرکات کو زیرکی و دانائی تصور کرتے تھے، امام علی علیہ السلام ان کے جواب میں فرماتے ہیں:

((و الله ما معاویة با دهٰی منی و لکنه یغدر و یفجر ولو لا کراهیة الغدر لکنت منّی ادهی الناس)) (۵۵)

خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ ھوشیار و صاحب ھنر نہیں ہے، لیکن وہ مکر و فریب اور فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے، اگر مجھے مکر و فریب نا پسند نہ ہوتا تو مجھ سے زیادہ ھوشیار کوئی نہیں تھا۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی مختصر مدت حکومت و خلافت میں بعض قریبی اصحاب کی نصیحت و مشورہ کے باوجود ھرگز اسلامی اصول سے انحراف و سودا گری کو قطعاً قبول نہیں کرتے تھے، بعض صاحبان تفسیر ابن عباس سے نقل کرتے ہیں، یھودی مذہب کے بزرگان ایک نزاع کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلامی اصول سے منحرف کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں آئے، اور اپنی آرزؤں کو اس انداز سے پیش کیا، ہم یھودی قوم و مذہب کے اشراف و عالم ہیں اگر ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، تو تمام یھودی ہم لوگ کی پیروی کرتے ہوئے آپ پر ایمان لے آئیں گے، لیکن ھمارے ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ آپ اس نزاع میں ھمارے فائدے و حق میں فیصلہ دیں،

-----------------

۵۵. نھج البلاغہ، خطبہ۲۰۰۔

۴۲

لیکن مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی شرط اور ایمان لانے کی لالچ کو ٹھکرادیا، اسلام کے اصول و ارکان یعنی عدالت سے ھرگز منحرف نہیں ہوئے، ذیل کی آیت اسی واقعہ کی بنا پر نازل ھوئی ھے:

( و ان احکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم و احذرهم ان یفتنوک عن بعض ما انزل الله الیک) (۵۶)

اور پیامبر آپ کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کا اتباع نہ کریں، اور اس بات سے بچتے رھیں کہ یہ بعض احکام الہی سے جو تم پر نازل کیا جاچکا ہے منحرف کردیں۔

سورہ اسراء میں پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصول سے منحرف کرنے کے لئے دشمنون کے شدید وسوسہ کا ذکر کیا گیا ہے خدا کا ارشاد ہو رہا ہے، اگر آپ کو عصمت اور وحی کی مساعدت نہ ھوتی، اگر آپ عام بشر کے مثل ھوتے تو ان کے دلدادہ ھوجاتے۔

(و ان کادوا لیفتنوک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیره و اذاً لاتّخذوک خلیلا ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیهم شیئا قلیلا) (۵۷)

اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو میری وحی سے ھٹا کر دوسری باتوں کی افترا پر آمادہ کردیں، اور اسی طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر ھماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور سے) کچھ نہ کچھ ان کی طرف ضرور مائل ھوجاتے۔

--------------

۵۶. سورہ مائدہ/ ۴۹۔

۵۷. سورہ اسراء/ ۷۳/ ۷۴۔

۴۳

۳۔ خیر خواہ نہ ہونا

قرآن کریم نے اغیار کی شناخت کے سلسلہ میں دوسری جو صفت بیان کی ہے وہ اغیار کا مسلمانوں کے سلسلہ میں خیر خواہ نہ ہونا ہے، وہ اپنی بد خصلت اور پست فطرت خمیر کی بنا پر ہمیشہ اسلام کے افکار و نظام کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں وہ مومنین کے سلسلہ میں صرف عدم خیر خواھی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ صاحبان ایمان کی آسائش و آرام، امن و سکون، فتح و کامرانی کو ایک لمحے کے لئے تحمل بھی نہیں کرسکتے۔

(ما یودّ الذین کرو من اهل الکتاب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم) ) ۵۸ (

کافر اہل کتاب (یھود و نصاری) اور عام مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمھارے اوپر پروردگار کی طرف سے کوئی خیر و برکت نازل ھو۔

وہ مومنین کے سلسلہ میں صرف خیر و برکت کے عدم نزول کی خواہش ہی نہیں رکھتے بلکہ مومنین کی سختی و پریشانی کو دیکھ کر خوشحال اور ایمان والوں کی خوشی کو دیکھ کر غمگین ھوتے ہیں۔

(ان تمسسکم حسنة تسؤهم وان تصبکم سیئة یفرحوا بها) ) ۵۹ (

اگر تمھیں ذرا بھی خیر و نیکی ملے تو انھیں برا لگے گا اور اگر تمھیں تکلیف پھونچےتو وہ خوش ہوں گے۔

------------------

۵۸. سورہ بقرہ/ ۱۰۵۔

۵۹. سورہ آل عمران/ ۱۲۰۔

۴۴

۴۔بغض و کینہ کا رکھنا

اغیار کی ایک اور اہم خصوصیت بغض اور کینہ پرستی ہے ان کا تمام وجود اسلام کے خلاف عداوت و نفرت سے بھرا ہوا ہے، یہ صفت رذائل فقط دل کی چھار دیواری تک محدود نہیں بلکہ عملی طور سے ان کے افعال و کردار میں حسد و کینہ توزی کے آثار ھویدا ہیں، اپنی اس کیفیت کو پوشیدہ و مخفی رکھے بغیر اہل اسلام کے خلاف وسیع پیمانے پر معرکہ و جنگ کی جد و جھد میں مصروف رہتے ہیں۔

(لا یألونکم خبالا ودّوا ما عنتّم قد بدت البغضاء من افواهم وما تخفی صدورکم اکبر…… اذا لقوکم قالوا آمنا واذا خلوا عضو علیکم الأنامل من الغیظ قل موتوا بغیظکم) ) ۶۰ (

یہ تمھیں نقصان پھونچانے میں کوئی کوتاھی نہیں کریں گے، یہ صرف تمھاری مشقت و زحمت رنج و مصیبت کے خواہش مند ہیں ان کی عداوت و نفرت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں پوشیدہ کر رکھا ہے وہ تو بھت زیادہ ہے اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اکیلے ھوتے ہیں تو خشم و غصہ سے انگلیاں کاٹتے ہیں، پیامبر آپ کہہ دیجئے کہ تم اسی غصہ میں مرجاؤ۔

------------------

۶۰. سورہ آل عمران/ ۱۱۸ و /۱۱۹۔

۴۵

۵۔ غفلت پذیری میں مبتلا کرنا

دشمن و اغیار کا اپنی کامیابی و موفقیت کے لئے مسلمانوں کو غفلت و بے خبری کے جال میں پھنسائے رکھنا ہے، وہ چاہتے یہ ہیں کہ ایسی فضا و حالات وجود میں لائے جائیں جس کی بنا پر صاحبان ایمان اپنی قوت و طاقت کی صلاحیت و موقف سے غفلت ورزی کا شکار ہوجائیں تاکہ وہ ان پر قابض و کامران ھوسکیں، ان کی دائمی کوشش رھتی ہے کہ مسلمان کی نظر میں ان کی اقتصادی طاقت فوجی قدرت، ثمرۂ وحدت اور دین و دنیا کی شان و شوکت کو بے وقعت پیش کیا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ غفلت و بے خبری کے دام میں الجھے رھیں جس کے نتیجہ میں اغیار کی فتح و ظفر کی زمین ھموار ھوسکے۔

(ودّا لذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة) ) ۶۱ (

کفار کی خواہش یھی ہے کہ تم اپنے ساز و سامان اور اسلحہ سے غافل ھوجاؤ تو یہ یکبارگی تم پر حملہ کردیں۔

مذکورہ آیت میں اگر چہ اسلحہ و ساز و سامان کا ذکر ہے لیکن آیت کی دلالت صرف اقتصادی ساز و سامان وجنگی اسلحہ جات پر منحصر نہیں ہے بلکہ تمام وہ وسائل و عوامل جو مسلمانوں کے لئے عزت و شرف قوت و طاقت کا باعث ہو آیت کی غرض وغایت ہے، اس لئے کہ دشمن کا ھدف ان وسائل سے غفلت و لاپرواھی میں مبتلا کرنا ہے تاکہ تسلط کے مواقع فراھم ھوسکیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے عہد نامہ میں فرماتے ہیں:

((الحذر کل الحذر من عدوک بعد صلحه فان العدو ربما قارب لیتغفل فخذ با لحزم و اتهم فی ذلک حسن الظن)) ) ۶۲ (

صلح کے بعد دشمن کی طرف سے قطعاً مکمل طور پر ھوشیار رھنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غفلت میں ڈالنے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاھیں گے لھذا اس سلسلہ میں مکمل ھوشیار رھنا، اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا۔

--------------

۶۱. سورہ نساء/ ۱۰۲۔

۶۲. نھج البلاغہ، نامہ/ ۵۳۔

۴۶

۶۔ مومنین سے سخت و تند برتاؤ کرنا

قرآن کریم کی روشنی میں اغیار کی ایک دوسری صفت، مومنین کی ساتھ سخت طرز عمل و سلوک کا انجام دینا ہے، یہ عہد و پیمان کی پابندی اور دوستی کا اظھار کرتے ہوئے مومنین کو فریب دینا چاہتے ہیں، ان کے عہد و پیمان، قول و قرار پر اعتماد کرنا منطقی عمل نہیں، جب ناتواں اور کمزور ہوجاتے ہیں تو حقوق بشر اور اخلاق انسانی کی بات کرتے ہیں، لیکن جب قوی و مسلط ہوجاتے ہیں، تمام حقوقِ اور انسانی اخلاق کو پامال کرتے ہیں، عہد و پیمان، قول و قرار، حقوق و اصول بشریت، عظمت انسانیت، سب ہتکنڈے ہیں تاکہ اپنے منافع کو حاصل کرسکیں، منظور نظر منافع کے حصول کے بعد ان قوانین و عہد و پیمان کی کوئی وقعت نہیں رھتی ہے۔

(کیف وان یظهروا علیکم لا یرقبوا فیکم الّا ولا ذمّة یرضونکم بأفواههم و تأبی قلوبهم و اکثرهم فاسقون) ) ۶۳ (

ان کے ساتھ کس طرح رعایت کی جائے، جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں گے تو نہ کسی ھمسایگی و قرابتداری کی رعایت کریں گے اور نہ ہی کسی عہد و پیمان کا لحاظ کریں گے یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کر رہے ہیں، ورنہ ان کا دل قطعی منکر ہے اور ان کی اکثریت فاسق و بد عہد ہے۔

۷۔ خیانت کاری اور دشمنی کا مستمر ہونا

اغیار کی ایک اور صفت، تجاوز گری و تخریب کاری ہے، جب تک ان کے اھداف پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے فتنہ گری و خراب کاری کا بازار گرم کئے رہتے ہیں۔

---------------

۶۳. سورہ توبہ/ ۸۔

۴۷

(لا یزالون یقاتلونکم حتی یردّوکم عن دینکم) ) ۶۴ (

اور یہ کفار برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رھیں گے، یہاں تک کہ ان کے امکان میں ہو تو وہ تم کو تمھارے دین سے پلٹادیں۔

اسی بنا پر دشمن کی عارضی، خاموشی و سکوت یا دوستی و محبت کا اظھار، دشمنی کے پایان و اتمام کی علامت نہیں، یہ صرف دشمن کی بدلتی ھوئی طرز و روش ہے، برابر کچھ وقفہ کے بعد کوئی نہ کوئی خیانت کاری کا آشکار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک اغیار و دشمن اپنے اھداف و مقاصد کو عملی جامہ نہ پہنالیں تب تک وہ فتنہ گری و دشمنی سے دست بردار نہیں ہوں گے۔

(ولا تزال تطلع علی خائنة منهم) ) ۶۵ (

آپ ان کی طرف سے خیانتوں پر مطلع ھوتے رھیں گے۔

اصل اوّل کا ماحصل، اسلام کے پیش نظر اغیار سے سیاسی روابط و اصول اور اغیار کی شناخت ہے جس میں ان کی چند خصائص کو بیان کیا گیا ہے کسی فرد یا گروہ میں ایک خصوصیت کا بھی پایا جانا قرآن کی رو سے اس کا شمار اغیار میں ہے، لھذا ان سے رابطہ کے سلسلہ میں اسلام کے اغیار سے رابطہ و اصول کا لحاظ کیا جانا چاھئے۔

------------------

۶۴. سورہ بقرہ/ ۲۱۷۔

۶۵. سورہ مائدہ/ ۱۳۔

۴۸

اصل دوّم: دشمن کے مقابلہ میں ھوشیاری اور اقتدار کا حصول

اسلام کے فردی و اجتماعی روابط میں حسن ظن کی رعایت اسلام کے اصل دستورات میں سے ہے لیکن اغیار سے روابط کے سلسلہ میں اسلام کی تاکید سوء ظن پر ہے، ہر زمان و مکان میں ان سے بھترین اقتصادی، سیاسی، ثقافتی روابط ہونے کے باوجود سوء ظن کی کیفیت باقی رکھتے ہوئے ھوشیار رھنا چاھئے۔ ان کی چھوٹی حرکتیں اور ھلکے مناظر دشمنی کو نظر انداز نہیں کرنا چاھئے۔

اسلام کی تاکید یہ ہے کہ اسلامی نظام و حکومت اغیار کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ قدرت و طاقت کا حصول کریں، اس قدر قوی اور طاقتور ہوں کہ دشمن تجاوز کا خیال بھی دل میں نہ لاسکے۔

(و اعدّوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم) ) ۶۶ (

اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑے کی صف بندی (سلاح) کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن سب کو خوف زدہ کردو۔

آیت قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں قوی و قدرت مند ھونا، جدید اسلحہ جات سے آراستہ ہونا ضروری ہے تاکہ اسلامی حکومت و نظام کا دفاع کیا جاسکے، (ما استطعتم) عبارت کا مفھوم وسیع ہے وسائل و سلاح، اطلاعاتی و نظامی، اقتصادی و سیاسی، فرھنگی و ثقافتی آمادگی، سب پر منطبق ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل کی آیت میں کلمہ حذر کا مفھوم وسیع و عریض

ہے۔

(یا ایها الذین آمنوا خذوا حذرکم فانفرو اثبات او انفروا جمیعا) ) ۶۷ (

اے صاحبان ایمان! اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو اور گروہ در گروہ یا اکٹھا جیسا موقع ہو سب نکل پڑو۔

------------------

۶۶. سورہ انفال/ ۶۰۔

۶۷. سورہ نساء/ ۷۱، بعض مفسرین نے کلمہ حذر کو اسلحہ سے تفسیر کی ہے حالانکہ حذر کے معنی وسیع ہیں وسائل جنگ سے مختص نہیں نساء کی آیت ۱۰۲ حذر و اسلحہ کے تفاوت کو پیش کر رھی ہے اس آیت میں دونوں لفظ کا استعمال ہوا ہے اور یہ تعدد معنا کی علامت ہے، (ان تصنعوا اسلحتکم و خذو احذرکم) ۔

۴۹

یہ آیت ایک جامع و کلی آئین و دستور ہر زمان و مکان کے مسلمانوں کو دے رھی ہے، اپنی امنیت و سرحد کی حفاظت کے لئے ہر وقت آمادہ رھیں اجتماع و معاشرے میں ایک قسم کی مادی و معنوی آمادگی کا ہمیشہ وجود رھے۔

حذر کے معنی اس قدر وسیع ہیں کہ ہر قسم کے مادی و معنوی وسائل پر اطلاق ھوتے ہیں۔

مسلمانوں کو چاھئے کہ مدام دشمن کی حرکات و سکنات، سلاح کی نوعیت، جنگ کے اطوار پر نگاہ رکھے رھیں، اس لئے کہ یہ تمام موارد دشمن کے خطرات کو روکنے میں مؤثر اور آیت حذر کے مفھوم کی نشان دھی ہے۔

آیت حذر کے دستور کے مطابق مسلمانوں کے چاھئے کہ اپنے تحفظ کے لئے زمان و مکان کے اعتبار سے انواع و اقسام کے وسائل کو فراھم کریں، نیز ان وسائل و سلاح سے بھترین استفادہ کے طور و طریقہ کو بھی حاصل کریں۔

۵۰

اصل سوم: اغیار سے دوستی و صمیمیت کا ممنوع ھونا

اغیار سے سیاسی رفتار و روابط کے سلسلہ میں اسلام کی نظر کے مطابق ان سے دوستانہ روابط و صمیم قلبی کو منع کیا گیا ہے، عداوت پسند افراد نیز وہ لوگ جو اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں ان سے سخت برتاؤ سے پیش آنا چاھئے۔

(یا ایها الذین آمنوا لاتتخذوا الذین اتخذوا دینکم هزوا ولعبا من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم و الکفار اولیاء واتقوا الله ان کنتم مؤمنین و اذا نادیتم الی الصلاة اتخذوها هزوا ولعبا ذلک بانهم قوم لا یعقلون) ) ۶۸ (

اے ایمان والو! خبر دار اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمھارے دین کو مزاق و تماشا بنا لیا ہے اور دیگر کفار کو بھی اپنا ولی (دوست) و سرپرست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو اور تم جب نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذاق و کھیل بنالیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں۔

ھنر و تمسخر آمیز گفتگو و حرکات کو کھا جاتا ہے جو کسی چیز کی قدر و قیمت کو کم کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

لعب، وہ افعال جب کے اھداف غلط یا بے ھدف ہوں ان پر اطلاق ہوتا ہے آیت کا مفھوم یہ ہے کہ مومنین کی حیا وغیرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اسلامی مقدسات و دینی اقدار کو پامال کرنے والوں سے سخت اور تند برتاؤ کریں، اور ان کا یہ برتاؤ دینی تقوے کی ایک جھلک ہے، کیونکہ تقوا صرف فردی مسائل پر منحصر نہیں ہے۔

---------------

۶۸. سورہ مائدہ/ ۵۷، ۵۸۔

۵۱

سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت میں بھی صریحاً اغیار سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء تلقون الیهم بالمودة وقد کفروا بما جاءکم من الحق)

اے ایمان والو خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا، کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوں نے اس حق کا انکار کیا ہے، جو تمھارے پاس آچکا ہے۔

اس بنا پر تمام وہ افراد، جو دین اسلام اور اس کی شائستگی کے معتقد نہیں ہیں ان کا شمار اغیار و بیگانے میں ہوتا ہے، لھذا ان سے دوستی و نشست و برخاست کو منع کیا گیا ہے، قرآن مجید نے اغیار سے، خصوصاً جو اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں، فکری و ثقافتی قربت کو خسران و نقصان سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ رفت و آمد و دوستی کے اثرات انسان پر ضرور مرتب ھوتے ہیں اور اسی کے مثل بنا دیتے ہیں۔

(وقد نزّل علیکم فی الکتاب ان اذا سمعتم آیات الله یکفر بها و یستهز ٔبها فلا تقعدوا معهم حتی یخوضوا فی حدیث غیره انکم اذا مثلهم) ) ۶۹ (

اور اللہ نے کتاب میں یہ بات نازل کردی ہے کہ جب آیات الہی کے بارے میں یہ سنو کہ ان کا انکار اور استھزا ھورھا ہے تو خبردار ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں ورنہ تم انھیں کے مثل ھوجاؤ گے۔

بیان شدہ اصل سوم کا مفھوم یہ نہیں کہ دیگر مذاھب کے پیروکاروں کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی کی نفی کی جائے یا ان کے انسانی حقوق کو ضائع کیا جائے غیر اسلامی حکومتوں سے رابطہ نہ رکھا جائے) ۷۰ (

----------------------------

۶۹. سورہ نساء/۱۴۰۔

۷۰. اس سلسلہ میں بحث اصل چھارم میں پیش کی جائے گی۔

۵۲

بلکہ اصل سوم کا مفھوم یہ ہے کہ مسلمان دشمن سے دوستانہ وصمیمی روابط سے پرہیز کریں اغیار کی اطاعت و اثر پذیری سے دور رھیں، ان کو فکری و سیاسی اعتبار سے غیر ہی سمجھیں، قرآن اغیار پرستی سے مبارزہ اور برائت کے سلسلہ میں حضرت ابراھیم علیہ السلام اور آپ کے مقلدین کی سیرت کو بطور نمونہ پیش کر رہا ہے آپ اور آپ کے اصحاب اپنی ہی قوم کی بت پرستی کو مشاہدہ کرنے کے بعد، باوجودیکہ ان کے قرابتدار بھی اس میں شریک تھے ان کے افعال سے برائت کرتے ہیں۔

(قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراهیم و الذین معه اذ قالوا لقومهم انّا برآؤا منکم و مما تعبدون من دون الله کفرنا بکم و بدا بیننا وبینکم العداوة و البغضاء ابدا حتّی تؤمنوا بالله وحده؛) ) ۷۱ (

تمھارے لئے بھترین نمونہ عمل ابراھیم اور ان کے ساتھیوں میں ہے، جب انھوں نے اپنی قوم سے کہدیا ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بیزار ہیں ہم نے تمھارا انکار کردیا ہے اور ھمارے تمھارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یھاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ۔

---------------

۷۱. سورہ ممتحنہ/ ۴۔

۵۳

اصل چھارم: غیر حربی اغیار سے صلح آمیز روابط رکھنا

اسلام کے سیاسی نظریہ و اصول میں اغیار و بیگانے کی دو قسم ہیں۔

۱۔ حربی: وہ افراد اور حکومت جو اسلامی حکومت اور نظام سے برسر پیکار ہیں اور مدام سازشیں و خیانتیں کرتے رہتے ہیں۔

۲۔ غیر حربی: وہ کفار جو اپنے دین و مذہب پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سر زمین پر اسلامی قانون کے تحت اسلامی حکومت کو جزیہ دیتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں، یا وہ ممالک جو اسلامی حکومت سے پیمان صلح یا اس کے مثل عہد و پیمان رکھتے ہیں، اور اس عہد کے پابند بھی ہیں۔اگرچہ دونوں ہی دستہ کا فکری و ثقافتی اعتبار سے اغیار میں شمار ہوتا ہے اور اصل سوم میں شمولیت رکھتے ہیں لیکن ان سے معاشرتی و سماجی رفتار و سلوک میں فرق ہونا چاھئے۔

قرآن کریم ان سے رفتار و برتاؤ کی نوعیت کو بیان کر رہا ہے۔

(لا ینها کم الله عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم ان الله یحسب المقسطین انما ینها کم الله عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاهرو اعلی اخراجکم ان تولّوهم و من یتولّهم فاولئک هم الظالمون) ) ۷۲ (

خدا تمھیں ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے وہ تمھیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے، اور تمھیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمن کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقیناً ظالم ہوگا۔

------------------

۷۲. سورہ ممتحنہ/ ۸، ۹۔

۵۴

آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ افراد یا حکومتیں جو مومنین کے حق میں ظالمانہ رویہ اپناتی ہیں نیز اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نا شائستہ عمل انجام دیتی ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مساعدت کرتی ہیں، اہل اسلام کے وظائف کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے سخت و تند رفتار کا مظاہرہ کریں، ان سے ہر قسم کے سماجی و معاشرتی رابطہ کو منقطع کردیں، لیکن وہ افراد جو بے طرف رہے ہیں مسلمانوں کے خلاف سازش میں ملوث نہیں رہے ہیں ان کے حقوق کی رعایت اور اسلامی حوکمت کی حمایت حاصل ہونا چاھئے، ان پر ظلم و تعدی شدید ممنوع ہے۔

پیامبر عظیم الشان (ص) فرماتے ہیں:

((من ظلم معاهداً و تخلّف فوق طاقته فانا حجیجه)) ) ۷۳ (

جو شخص بھی معاھدہ پر ظلم کرے گا میں روز قیامت اس سے باز پرس کروں گا۔

معاہد سے مراد وہ یھودی و نصرانی ہیں جو جزیہ دیتے ہوئے اسلامی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں، اسلامی فقہ میں اغیار سے روابط کے تمام حقوقی جوانب توجّہ کے قابل ہیں، اگر اغیار و بیگانے سیاسی و فکری اعتبار سے مسالمت آمیز زندگی کی رعایت کریں مسلمانوں کے حقوق کا احترام کریں تو وہ اپنے تمام بنیادی اور جمھوری حقوق سے فیضیاب ھوسکتے ہیں کسی کو ان سے مزاحمت کا حق نہیں، ذیل کا واقعہ اسلامی نظام اور حکومت میں اغیار غیر حربی کے بنیادی حقوق کی رعایت کا آشکار نمونہ ہے۔

------------------

۷۳. فتوح البلدان، ص۶۷۔

۵۵

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک نابینا بوڑھے آدمی کو دیکھا جو گدائی کر رہا تھا جب مولا نے اس کے احوال دریافت کئے تو معلوم ہوا وہ نصرانی ہے علی علیہ السلام رنجیدہ خاطر ھوے، فرمایا: وہ تمہارے درمیان میں تھا اس سے کام لیا گیا، لیکن جب وہ بوڑھا ھوگیا تو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، آپ نے اس کے مخارج بیت المال سے اداء کرنے کا حکم دیا) ۷۴ (

منافقین کا اغیار سے ارتباط اور ان کا طرز عمل

گزشتہ بحث میں اغیار سے روابط اور اسلام کے کلی و جامع اصول پیش کئے جاچکے ہیں، اب اغیار کے سلسہ میں منافقین کی روش اور طرز عمل کا مختصر تجزیہ پیش کیا جارھا ہے۔

قرآن کریم سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین تمام دوستی و محبت اغیار اور بیگانوں پر نچھاور کرتے ہیں، یہ مسلمانوں کے ساتھ شرارت و خباثت سے پیش آتے ہیں، مومنین کو حقارت و ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تمسخر و نکتہ چینی ان کا مشغلہ ہے ان کی تمام سعی و کوشش اور جد و جھد یہ ہوتی ہے کہ اغیار سے قریب تر ہوجائیں اغیار سے صمیمیت و اخلاص اور دوستانہ رفتار و گفتار کے حامی ہیں۔

(الم تر الی الذین تولّوا قوما غضب الله علیهم ما هم منکم ولا منهم و یحلفون علی الکذب وهم یعلمون) ) ۷۵ (

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قوم سے دوستی کرلی ہے جس پر خدا نے عذاب نازل کیا ہے کہ یہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں اور یہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور خود بھی اپنے جھوٹ سے باخبر ہیں۔

------------------

۷۴. وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص۴۹۔

۷۵. سورہ مجادلہ/۱۴۔

۵۶

منافقین کے بیگانوں سے ارتباط کے جلووں میں سے، مشترک کانفرنس کا انجام دینا، ان سے ہم آواز وھم نشین ہونا ہے، قرآن صریح الفاظ میں کفار اور الہی دستور و آئین کا استھزا کرنے والوں کے ساتھ ہم نشینی کو منع کرتا ہے۔

(واذا رأیت الذین یخوضون فی آیاتنا فاعرض عنهم حتی یخوضوا فی حدیث غیره) ) ۷۶ (

اور جب تم دیکھو کہ لوگ ھماری آیات کا استھزا و تمسخر کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ھوجاؤ یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں مصروف ہوجائیں۔

لیکن قرآن کے صریح دستور و حکم کے باوجود منافقین، مخفی طریقہ سے اغیار کے جلسات و نشست میں شریک ہوا کرتے تھے لھذا سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۴۰ منافقین کو اس رفتار و طرز عمل پر سرزنش و توبیخ کر رھی ہے۔

منافقین کے اجنبی و غیر پرستی کے مظاہر میں سے ایک، ان کے لئے مطیع و فرمان بردار ہونا ہے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۹ منافقین کی اسی روش کو بیان کر رھی ہے اگر تم کفار کے مطیع و دوست ھوگے جیسا کہ بعض منافقین کا یہ طرز عمل ہے تو قدیم و جاھلی اطوار کی طرف پلٹا دیئے جاؤ گے،

(یا ایها الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علی اعقابکم) ) ۷۷ (

اے ایمان لانے والو اگر تم کفر اختیار کرنے والوں کی اطاعت کرو گے تو یہ تمھیں گزشتہ طرز زندگی و عمل کی طرف پلٹالے جائیں گے۔

-----------------

۷۶. سورہ انعام/ ۶۸۔

۷۷. سورہ آل عمران/ ۱۴۹۔

۵۷

دشمنوں کی جماعت میں مدام مومنین سے عداوت و دشمنی رکھنے والے بعض یھودی ہیں خدا نے قرآن مجید میں دشمنوں کے عمومی و کلی اوصاف کو بیان کیا ہے لیکن اس عمومیت کے باوجود بعض دشمنوں کے اوصاف کے ساتھ ان کے نام کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں یھودی سر فھرست ہیں۔

ہم جب عصر پیامبر عظیم الشان کے منافقین کی تاریخ کی تحقیق کرتے ہیں تو منافقین کے روابط کے شواہد یھودی کے تینوں گروہ بنی قینقاع، بنی نظیر، بنی قریظہ میں پائے جاتے ہیں۔

اغیار سے منافقین کے روابط کا فلسفہ

وہ اہم نکتہ جس کی اس فصل میں تحقیق ھونی چاھئے یہ کہ اغیار سے منافقین کے ارتباط کی حکمت کا پس منظر کیا ہے، وہ کن مضمرات کی بنا پر اس سیاست کے پجاری ہیں، قرآن مجید منافقین کے اغیار سے روابط کی ریشہ یابی کرتے ہوئے دو وجہ کو بیان کر رہا ھے:

۱۔ تحصیل عزت

منافقین اپنے اس رویہ و طرز عمل کے ذریعہ محبوبیت و شھرت، عزت و منصب کے طلب گار ہیں، منافقین اغیار کے زیر سایہ خواہشات نفسانی کی تکمیل کے آرزو مند ہیں، شرک کا آشکار ترین جلوہ، وقار و عزت کو کسب کرنے کے لئے غیر (خدا) سے تمسک کرنا ہے۔

۵۸

(و اتّخذوا من دون الله الهةً لیکونوا لهم عزّا) ) ۷۸ (

اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا اختیار کر لئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت رہے (کیا خیام خیالی ھے!) ۔

اسی طریقہ سے منافقین جو باطن میں مشرک ہیں، اغیار سے وابستگی و تعلقات کے ذریعہ عزت و آبرو کسب کرنا چاہتے ہیں۔

(الذین یتّخذون الکافرون اولیاء من دون المؤمنین أیبتغون عندهم العزة فان العزّة لله جمیعا) ) ۷۹ (

جو لوگ مومنین کو چھوڑ کر کفار کو ولی و سرپرست بناتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں جب کہ ساری عزت صرف اللہ کے لئے ہے۔

خداوند تبارک و تعالی نے عزت کو اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے، پیامبر عظیم المرتبت (ص) اور صاحبان ایمان کی عزت کا سر چشمہ عزت الہی ہے، منافقین عدم ایمان کی بنا پر اس کو درک کرنے سے قاصر ہیں۔

(ولله العزّة و لرسوله و للمؤمنین ولکن المنافقین لا یعلمون) ) ۸۰ (

ساری عزت اللہ، رسول، اور صاحبان ایمان کے لئے ہی ہے اور منافقین یہ جانتے بھی نہیں ہیں۔

---------------

۷۸. سورہ مریم/ ۸۱۔

۷۹. سورہ نساء/ ۱۳۹۔

۸۰. سورہ منافقون/۸۔

۵۹

قرآن کریم فقط اللہ تعالی کے وجود اقدس اور جھان کے حقیقی صاحب عزت (محبوب) سے تمسک کو عزت و عظمت کا سر چشمہ جانتا ہے۔

(من کان یرید العزّة فللّٰه العزّة جمیعا) ) ۸۱ (

جو شخص بھی عزت کا طلب گار ہے وہ یہ سمجھ لے کہ عزت سب پروردگار کے لئے ہے۔

اسی ذیل کی آیت میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ تحصیل عزت کا واحد راستہ خدا کی اطاعت و فرمان برداری ہے۔

((ان الله یقول کلّ یوم انا ربّکم العزیز فمن اراد عزّ الدارین فلیطع العزیز)) ) ۸۲ (

خداوند عالم ہر روز اعلان کرتا ہے کہ میں تمھارا عزت دار پروردگار ہوں جو شخص بھی آخرت و دنیا کی عزت کا خواہش مند ہے اسے چاھئے کہ حقیقی صاحب عزت کا مطیع و فرمانبردار ھو۔

شاید کوئی فرد خدا کی اطاعت کئے بغیر کسی اور طریقہ سے عزت کا حصول کر لے، لیکن یہ عزت وقتی و کھوکھلی ہوتی ہے یھی عزت اس کے لئے ذلت کا سبب بن جاتی ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

((من اعتز بغیر الله اهلکه العز)) ) ۸۳ (

جو شخص غیر خدا سے عزت یافتہ ہے وہ عزت اس کو تباہ کردے گی۔

-----------

۸۱. سورہ فاطر/ ۱۰۔

۸۲. الدرالمنصور، ص۲، ص۷۱۷۔

۸۳. میزان الحکمہ، ج۶، ص۲۹۸۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قریش کے ہاتھ سے لے لیا اور وہیں پھاڑ دیا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ شعب کی طرف روانہ ہوگئے_

اور یوں رسول خدا(ص) کی زندگی میں دعوت اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا_

آیت قرآن

''( انّه من يّتّق و یصبر فانّ الله لا یضیع اجر المحسنین ) ''

جو شخص تقوی اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالی نیکیوں کے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرتا''

سورہ یوسف آیت ۹۰''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے اعزاء و اقارب کتنی مدت شعب میں محصور رہے؟ یہ مدّت ان پر کسی گزری ان تمام سختیوں کو وہ کس مقصد اور غرض کے لئے برداشت کرتے رہے؟

۲)___ قریش کے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) کو دیکھ

۱۶۱

کرکیا سوچا؟ انہوں نے کس لئے صدر مجلس میں جگہ دی___؟

۳)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں کے صبر و استقامت کی کس طرح تعریف کی؟

۴)___ مشرکین نے پیغام کے سننے اور صندوق کے کھولنے سے پہلے کیا سوچا تھا؟

۵)___ ابوطالب (ع) کی ملاقات اور پیغام کا کیا نتیجہ نکلا___؟

۱۶۲

انسانوں کی نجات کیلئے کوشش

بعثت کے دسویں سال اقتصادی بائیکات ختم ہوگیا پیغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) کے باوفا ساتھی تین سال تک صبر و استقامت سے صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شعب کے قیدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں کی طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں سعی و کوشش کریں اور صبر و استقامت کا مظاہر کریں تو خدا ان کی مدد کرے گا اور خدا نے اپنا کیا ہوا وعہ پورا کیا_

حضرت ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کیا تھا، کفار کی طاقت اور کثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پوری قوت کے ساتھ رسول(ص) خدا کا دفاع کیا_

آخر کار خدا کی نصرت آپہنچی اور انہیں اس جہاد میں کامیابی نصیب

۱۶۳

ہوئی اور ان کے احترام، سماجی مرتبے اور عظمت میں اضافہ ہوگیا بنی ہاشم اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے اور تمام تکالیف اور سختیوں کے بعد دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز کیا_

بت پرست اور قریش کے سردار اپنی شکست پر بہت پیچ و تاب کھارہے تھے لیکن ان حالات میں بے بس تھے لہذا کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے ان حالات میں پیغمبر اسلام(ص) کو تبلیغ دین کا نہایت نادر موقع ہاتھ آیا وہ بہت خوش تھے کہ اس طرح اپنے چچا کے سماجی رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آزادی سے اپنے الہی پیام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اس لئے آپ(ص) بہت زیادہ لگن سے تبلیغ میں مشغول ہوگئے_

آپ(ص) نے لوگوں سے کہا

اے لوگو

وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہارے لئے روزی پہنچاتا ہے؟ کون ہے جس نے تمھیں آنکھ اور کان عنایت فرمائے؟ کون ہے جس کے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس کا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان کا پیدا کرنے والا خدا ہے وہی تمہاری اور اس جہان کی پرورش کرتا ہے اور روزی دیتا ہے وہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے پس کیوں اس کا شریک قرار دیتے ہو اور اس کے علاوہ کسی اور کی

۱۶۴

اطاعت کرتے ہو؟ صرف خدا کی پرستش کرو اور صرف اسی کی اطلاعت کرو کہ یہی صحیح راستہ ہے اور حق کا ایک ہی راستہ ہے اور اس کے سوا سب گمراہی ہے_ پس جان لو کہ کسی طرف جارہے ہو؟ اے لوگو

جو لوگ نیکی اور حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں خدا انہیں بہترین جزا عنایت فرماتا ہے اور زیادہ اور بہتر بھی دیتا ہے نیکوں کے چہرے پر کبھی ذلّت و خواری کی گرد نہیں بیٹھتی، ایسے لوگ جتنی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے لیکن وہ لوگ جو برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جائے گی''

لیکن افسوس کہ یہ حالات اور آزادنہ تبلیغ و گفتگو کا سلسلہ زیادہ مدت تک برقرار نہ رہ سکا_ ابھی اقتصادی بائیکاٹ کو ختم ہوئے نو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ حضرت محمد(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور یوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_

مشرکین اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں کا سلسلہ شروع کردیا ابھی زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ حضرت محمد(ص) کی زوجہ محترمہ جناب خدیجہ کہ جنہوں نے صداقت و وفاداری کے ساتھ حضرت محمد(ص) کے ساتھ

۱۶۵

ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا اسے تبلیغ دین اور اسلام کی مدد پر خرچ کردیا تھا وفات پاگئیں_

اس حساس موقع پر ان دو حادثات کا واقع ہونا پیغمبر خدا(ص) کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور رنج و غم کا باعث تھا آپ نے اس سال کا نام غم و اندوہ کا سال یعنی عام الحزن رکھا_

حضرت ابوطالب(ع) کی وفات کے بعد بنی ہاشم نا اتفاقی کا شکار ہوگئے، اپنے اتحاد کی طاقت کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ پہلے کی طرح رسول خدا(ص) کی حمایت نہ کرسکے''

کفار و مشرکین نے جو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے رسول خدا(ص) کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سلسلہ پھر شروع کردیا اور آپ کے کاموں میں مداخلت کرنے لگے_

کوچہ و بازار میں پیغمبر اسلام(ص) کا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) کو آزادانہ طور پر قرآن کی آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھنے نہ دیتے اور نہ ہی لوگوں سے بات چیت کرنے دیتے اور آپ کو ڈراتے دھمکاتے_

آخر کار نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کبھی کبھار آپ کے سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتے اور آپ خاک آلودہ ہوکر گھر واپس آتے آپ کی کم عمر صاحبزادی جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں_ آپ(ص) کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل دکھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ کے سرمنہ کو صاف کرتیں اور بے اختیار دوپڑتیں لیکن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہایت شفقت کے ساتھ

۱۶۶

فرماتے''

میری پیاری بیٹی پریشان نہ ہو، خدا کی راہ میں ان مصائب کا برداشت کرنا بہت آسان ہے''

اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ کی وفات سے پیغمبر اسلام(ص) کی اندرونی اور بیرونی زندگی تہ و بالا ہوکر رہ گئی کیوں کہ آپ اپنے سب سے بڑے حامی و مددگار اور جانباز سے جو قریش کے قبیلے کا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ کو اس معاشرے اور اجتماع میں آزادی اور سکون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ کی جان خطرے میں رہتی تھی آپ کا گھر بھی ایک جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بیوی سے خالی ہوچکا تھا جب آپ ان مصائب اور تکالیف کو جو باہردی جاتی تھیں برداشت کرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنی بیوی اور ہمسر کا کشادہ اور مسکراتا چہرہ نہ دیکھ پاتے بلکہ چھوٹی سی بچّی کے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتی، وہ آپ کے استقبال کے لئے آتی اور اپنی والدہ کے پوچھتی اور سوال کرتی''

بابا ماں کہاں ہیں؟

رسول خدا(ص) اپنی بیٹی کا چہرہ چومتے اسے پیار کرتے اور اس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو صاف کرتے اور فرماتے:

بیٹی رؤومت، تمہاری ماں بہشت میں گئی ہیں اور وہاں جنّت کے پاک فرشتے ان کی مہمان نوازی کر رہے ہیں

اس قسم کے حالات میں پیغمبر اسلام(ص) نے کس طرح اپنی رسالت کے کام کو انجام دیا؟ آیا ممکن تھا کہ حضرت ابوطالب (ع) جیسا کوئی اور شخص تلاش

۱۶۷

کریں کہ جو ان کی تبلیغ اور دعوت کی حمایت کرے؟

کیا اس قسم کے حامی اور مددگار کے بغیر اپنی دعوت اور لوگوں کی ہدایت کا اہم فریضہ انجام دے سکتے تھے؟

طائف کا سفر

جب پیغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آیا کہ آپ مکہ کے لوگوں کی حمایت اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ کیا کہ طائف(۱) کا سفر کریں اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں گے اور قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں ان کی حمایت کریں گے_

پیغمبر(ص) خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ(ص) کو اپنے عزیزوں میں سے ایک کے سپرد کیا اور تھوڑی سی خوراک اور پانی لے کر خفیہ طور پر مکہ سے باہر نکلے اور بندگان خدا کو ظلم و ستم، شرک و پلیدی اور گناہ سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی طرف دعوت دینے کی غرض سے طائف کا رخ کیا_

مكّہ اور طائف کا درمیانی راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن

____________________

۱) طائف ایک ٹھنڈا شہر ہے جو مكّہ سے بارہ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقیف قبیلہ جو قریش کا سب سے بڑا قبیلہ تھا وہاں سکونت پذیر رہا ہے

۱۶۸

تھا آپ خستہ حال لیکن ایمان کامل اور بھر پور امید کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے وہاں آپ بالکل اجنبی اور ناآشنا تھے_

اگر چہ طائف کے اکثر لوگوںنے آپ کا نام اور آپ کے دین کے متعلق تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن لوگوں نے آپ کو نزدیک سے نہیں دیکھا تھا اور وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے_

آپ شہر میں داخل ہوئے اور گلی کو چوں کا رخ کیا کہ شاید کوئی شناسا مل جائے لیکن آپ کو کوئی شناسا نظر نہین آیا کہ جو شہر کے رؤسا اور بزرگوں کے گھروں تک رہنمائی کرے اور آپ(ص) سے آپ کی مدد کے متعلق دریافت کرے کہ آپ(ص) اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں؟

آخر کار کوئی صورت آشنا نہ پا کر رسول (ص) خدا نے خود اپنی پہچان کروائی اور اپنے سفر کے مقصد کو بیان کیا:

میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول(ص) ہوں، میں اللہ کی طرف سے تمہاری ہدایت و نجات کا پیغام لایا ہوں تم لوگ شرک و بت پرستی اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا کی اطاعت کرو اور تقوی اختیار کرو اور میری پیروی کرو تا کہ تمہیں دنیا و آخرت کی پاکیزہ زندگی اور دائمی و نیک زندگی کی طرف راہنمائی کروں میں تمہیں قیامت کے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت کے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب کام تمام ہوجائے اور تم کافر و مشرک

۱۶۹

دنیا سے چلے جاؤ کہ پھر قیامت کے دن حسرت و عذاب میں گرفتار ہوگے میری دعوت کو قبول کرلو تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ میری اور میری آسمانی دعوت کی حمایت کرو تا کہ میں تمام لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا سکوں''

لیکن قبیلہ ثقیف کے سرداروں کے دل ظلم و ستم کی وجہ سے سخت اور تاریک ہوچکے تھے انہوں نے آپ کی آسمانی ندا کو قبول نہ کیا بلکہ آپ(ص) کے ساتھ بے جا اور ناروا سلوک کیا_ رسول (ص) خدا بہت زیادہ ملول ہونے کہ یہ لوگ کیوں اپنی گمراہی پر اصرار کر رہے ہیں؟ کیوں بتوں کی عبادت کرتے ہیں؟ کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ان کو کچھ دے سکتی ہیں؟

کیوں لوگ میرے نور پیغمبر(ص) کی جو اللہ نے مجھے عنایت کیا ہے پیروی نہیں کرتے؟ کیوں خدا کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے؟

کیوں اپنی برائیوں اور ظلم پر باقی رہنا چاہتے ہیں؟

کیوں یہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنیا و آخرت کی ذلت و خواری میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ...؟

رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوکر ان کے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسرے لوگوں کودعوت دینا شروع کردیں_ تقریباً ایک مہینہ تک آپ(ص) نے اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں سے جو کوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت کی دنیا____ میں انسانی اعمال کی

۱۷۰

قدر و قیمت اور زندگی کی غرض و غایت اور صحیح راہ و رسم کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور انہیں خداپرستی اور خدا دوستی اور اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا_ لیکن آپ(ص) کے وعظ و نصیحت اور تبلیغ نے ان کے تاریک دلوں پر کوئی زیادہ اثر نہ کیا گو کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کہ جو بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوئے تھے ایک نور سا چمک اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکی اور برائی چھٹتی چلی گئی_

لیکن مستکبرین اور سردار کہ جو اپنی قدرت اور منافع کو خطرے میں دیکھ رہے تھے انہوں نے تدریجاً خطرے کا احساس کرلیا اور بعض نادان اور کمینے انسانوں کو ابھارا کہ وہ جناب رسول(ص) خدا کی راہ میں زحمتیں اور روکاوٹیں پیدا کریں آپ(ص) کا مذاق اڑائیں اور آپ کی گفتگو کے درمیان شور و غل مچائیں اور انہیں ناسزا کہیں اور پتھر ماریں_

آخر کار ایک دن جب آپ(ص) لوگوں کے درمیان تقریر فرما رہے تھے کہ اوباش قسم کے انسانوں اور دھوکہ میں آئے ہوئے نادانوں نے کہ جنہیں مستکبرین نے بھڑکایا تھا آپ کے گرد گھیرا ڈالا اور آپ کو پتھر مارنے شروع کردئے اور کہنے لگے کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ_

طائف سے خروج

پیغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوکر شہر سے باہر کا رخ کیا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھی آپ(ص) کا پیچھا کر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص)

۱۷۱

کا جسم مبارک بری طرح زخمی ہوچکا تھا اور آپ(ص) کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھکے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ کے ساتھ طائف سے نکل گئے_

آپ(ص) ان لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لئے تنہا اور اجنبی ہوتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تھے جو ظلم کے اسیر تھے اور اب زخمی اور خستہ بدن کے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف کے احمق اور کمین لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند کئے اور آپ(ص) کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ظلم اور تاریکی سے مغلوب شہر کی طرف واپس لوٹ گئے_

پیغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھکن کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ایک ایسے درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے جس کی شاخیں ایک باغ کی دیوار سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور اپنے خدا سے یوں مناجات کرنے لگے اے پروردگار میں اپنی کمزوری و ناتوانی اورناتوان لوگوں کے ظلم و ستم کو تیرے سامنے بیان کرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفین کے پروردگار مجھے کس کے آسرے پر چھوڑا ہے؟ کیا مجھے بیگانوں کے لئے چھوڑدیا ہے؟ تا کہ وہ اپنے سخت اور کرخت چہرے سے مجھے دیکھیں؟ کیا تجھے پسند ہے کہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟

خدایا میں ان تمام مصائب کو تیرے لئے اور تیرے بندوں کی خاطر برداشت کر رہا ہوں_

۱۷۲

باغ کا مالک آپ(ص) کی یہ حالت دور سے دیکھ رہا تھا اس کا دل پیغمبر اسلام(ص) کی اس حالت پر دکھا انگور سے بھری ایک ٹوکری غلام کے حوالہ کی جس کا نام ''عداس'' تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو دے آئے_

عداس نے ٹوکری کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) خدا کے نزدیک لایا_ پیغمبر(ص) کا تھکا ہوا نورانی چہرہ، زخمی جسم، اور خون میں آلودہ پاؤں اس کے لئے تعجب خیز تھے_ اس نے انگوروں کی ٹوکری پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کی اور ادب سے بولا:

شوق فرمایئےان انگوروں میں سے کھا لیجئے''

اور خود ایک طرف جاکر کھڑا ہوکیا اور حیرت سے اللہ کے پیغمبر کی جانب دیکھنے لگا_

رسول خدا(ص) نے کہ جو بھوک و پیاس سے نڈھال تھے ایک خوشہ انگور کا اٹھایا اس کے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع کردیا_

کتنی بر محل اور موقع کی مناسبت سے رسول خدا(ص) کی مہمانی کی گئی آپ(ص) کا خشک گلاتر ہوگیا''

عداس جو بڑی توجہ سے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:

اس کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اس کلمہ کو آپ نے کس سے سیکھا ہے؟

۱۷۳

رسول خدا(ص) نے عداس کی صورت کو محبت آمیزنگاہ سے دیکھا اور پھر اس سے پوچھا:

تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تمہارا کیا دین ہے؟

اس نے جواب دیا_

نینوا کا رہنے والا ہوں اور مسیحی دین رکھتا ہوں''

اچھا نینوا کے ہو جو اللہ کے نیک بندے یونس (ع) کا شہر ہے_

یونس جو متی کے فرزند ہیں''

عداس کی حیرانی میں اور اضافہ ہوا اور پوچھا کہ:

آپ(ص) یونس (ع) کو کس طرح جانتے ہیں؟ اور ان کے باپ کا نام کس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) کی قسم جب میں نینوا سے باہر نکلا تو اس وقت دس لوگ بھی نہیں تھے جو جناب یونس (ع) کے باپ کو جانتے ہوں آپ(ص) ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ اور کس طرح ان کے باپ کا نام جانتے ہیں؟ اس خطّے کے لوگ جاہل ہیں اور آپ(ص) نے یونس (ع) کے باپ کا نام کس سے معلوم کیا ہے_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

یونس میرا بھائی اور خدا کا پیغمبر(ص) تھا اور میں بھی خدا کا پیغمبر ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے تمام کاموں کا آغاز اس کے نام اور اس مقدس کلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے کروں جانتے ہو کس لئے؟

عداس کہ جس کا دل روشن اور حق کو قبول کرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پیغمبر خدا(ص) کی دعوت اور آپ(ص) کی پیغمبری کے

۱۷۴

متعلق بہت سے سوالات کئے پیغمبر اسلام(ص) باوجود اسکے کہ بہت تھکے ہوئے تھے اس کے تمام سوالات کا بہت صبر و حوصلہ سے جواب دیتے رہے_ عداس کی گفتگو پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور آخر کار پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کی دعوت کی حقیقت اس پر واضح ہوگئی وہ آپ(ص) پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا_

پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سفر میں ایک محروم اور ستم رسیدہ انسان کی ہدایت کی _

آپ(ص) نے عداس کو خداحافظ کہا اور مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے اس مكّہ کی جانب کہ جسکے رہنے والے مشرکین تلواریں نکالے آپ(ص) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ لیکن اللہ کی طرف سے ذمہ داری اور ماموریت اور سول (ص) خدا کا ہدف زیادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع کیا آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ خون کے قطرے آپ کے ایمان راسخ اور خدا کے بندوں کی ہدایت کی راہ میں_ استقامت کو راستے کے سخت پتھروں پر نقش کی صورت میں چھوڑ رہے تھے_

آیت قرآن

( لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص

۱۷۵

علیکم بالمؤمنین رء وف رّحیم)

سورہ توبہ آیت ۱۲۸''

تم میں سے رسول ہدایت کے لئے آیا ہے تمہاری پریشانی اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہاری ہدایت کے لئے حریص و دلسوز ہے اور مومنین پر مہربان اور رحیم ہے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) اپنی تبلیغ و گفتگو میں لوگوں کو کن اصولوں کی طرف دعوت دیتے تھے؟

۲)___ حضرت ابوطالب (ع) کی وفات نے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ اور دعوت پر کیا اثر ڈالا؟

۳)___ پیغمبر(ص) نے طائف کا سفر کس غرض سے کیا تھا؟ کتنی مدّت طائف میں رہے اور اس مدّت میں آپ(ص) کی تبلیغ کا کیا پروگرام تھا؟

۴)___ شہر کے بزرگوں اور سرداروں نے کس طرح پیغمبر(ص) کی تبلیغ کی مزاحمت کی؟ اور کیوں؟

۵)___ رسول خدا(ص) نے طائف کے شہر سے نکلنے کے بعد اللہ سے کیسی مناجات کی اور خدا سے کیا کہا؟

۶)___ اس حالت میں کس نے آپ(ص) کی مہمان نوازی کی؟

۱۷۶

۷)___ عداس نے کس چیز کے سبب تعجب کیا؟ اور رسول (ص) سے کیا سوال کیا؟

۸) کس چیز کو سن کر عداس کے تعجب میں اضافہ ہوا؟

۹)___ عداس کس طرح مسلمان ہوا پیغمبر اسلام(ص) عداس کے مسلمان ہونے سے کیوں خوش ہوئے؟

۱۷۷

پیغمبر اکرم(ص) کی بیعت

حج کے ایام میں بہترین اور مناسب موقع تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) مشرکین کے کسی دباؤ کے بغیر لوگوں سے گفتگو کرسکیں اور انہیں اسلام کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دے سکیں اور اسلام و ایمان کے نور کو لوگوں کے دلوں میں روشن کرسکیں_

اس مرتبہ پیغمبر اسلام (ص) خزرج قبیلہ کے چھ آدمیوں سے گفتگو کر رہے تھے اپنے دل نشین اور آسمانی آہنگ میں لوگوں کے لئے قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستی کی تائید اور شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں تھیں اور بعض آیات عقل و دل کو بیدار کرنے کے بارے میں تھیں_

ان آیات میں سے چند ایک بطور نمونہ یہاں تحریر کی جاتی ہیں جن

۱۷۸

کا تعلق سورہ نحل سے ہے''

خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ کو زندہ کرنا ہے، البتہ اس میں واضح اور روشن نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو بات سننے کے لئے حاضر ہو تمہیں چوپایوں کی خلقت سے عبرت حاصل کرنا چاہئے_ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ اور خوش مزہ دودھ تمہیں پلاتے ہیں کھجور اور انگور کے درخت کے پھولوں کو دیکھو کہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاک و پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو اس میں عقلمندوں کے لئے واضح علامت موجود ہے تیرے خدا نے شہد کی مكّھی کو وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں او ردرختوں میں گھر بنائیں اور تمام میوے کھائیں اور تیرے اللہ کے راستے کو تواضع سے طے کریں اور دیکھو کہ ہم کس طرح شہد کی مکھی سے اس طرح کا مزیدار شربت مختلف رنگوں میں باہر لاتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے واضح نشانی موجود ہے خدا ہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا اور وہی ہے جو تمہیں موت دے گا تم میں سے کچھ لوگ ضعیفی اور بڑھا پے کی عمر کو پہنچ جائیں گے کہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائیں گے البتہ خدا علیم و قدیر ہے

پس کیوں غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں کہ

۱۷۹

جن کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی روزی نہیں ہے، کچھ نہیں اور نہ ہی ان کے ذمہ کوئی کام ہے

قرآن مجید کی آیات کے معنی اور پیغمبر(ص) کی حکیمانہ اور دل نشین اور محبت بھری گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر کیا اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ حضرت موسی (ع) نے اپنی آسمان کتاب میں خبر دی ہے کہ ایک پیغمبر مکہ سے اٹھے گا جو وحدانیت او رتوحید پرستی کی ترویج کرے گا_ غرض پیغمبر خدا(ص) کی اس تمہیدی گفتگو ان کی روح پرور باتیں سن کر اور ان کا محبت بھرا انداز دیکھ کر ان میں ایک نئی روح پیدا ہوئی اور انہوں نے اسی مجلس میں اسلام قبول کرلیا،

جب وہ لوگ پیغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو کہنے لگے کہ:

ایک طویل عرصہ سے ہمارے اور اس قبیلے کے درمیان جنگ جاری ہے امید ہے کہ خداوند عالم آپ(ص) کے مذہب اور دین کے وسیلے سے اس جنگ کا خاتمہ کردے گا اب ہم اپنے شہر یثرب کی طرف لوٹ کرجائیں گے تو آپ کے آسمانی دین اسلام کو لوگوں سے بیان کریں گے_

یثرب کے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ کے دین کے متعلق ادھر ادھر سے سن رکھا تھا لیکن ان چھ افراد کی تبلیغ نے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے ایک مناسب فضا پیدا کردی اور اسلام کے لئے حالات سازگار بنادئے اور یوں کافی تعداد میں لوگ

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193