قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 62391
ڈاؤنلوڈ: 3595

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62391 / ڈاؤنلوڈ: 3595
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

((العزیز بغیر الله ذلیل)) ) 84 (

وہ عزت جو غیر خدا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ذلت میں تبدیل ھوجایا کرتی ہے۔

قرآن کی نظر میں وہ عزت جو خدا کی طرف سے عطا نہ ہو وہ تار عنکبوت کے مانند ہے جس کا شمار غیر مستحکم ترین گھروں میں ہوتا ہے۔

(مثل الذین اتّخذوا من دون الله أولیاء کمثل العنکبوت اتّخذت بیتاً و اِنّ اوهن البیوت لبیت العنکبوت لو کانوا یعلمون) ) 85 (

اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنالئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنا لیا لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہو (تو سمجھیں) ۔

یہ آیت منافقین کی وضعیت کو سلیس و دلربا مفھوم، خوش گفتار تشبیہ، دقیق مثال کے ذریعہ ترسیم کر رھی ہے۔

عنکبوت کے آشیانے بھت ہی نازک تار کے ذریعہ بنے ھوتے ہیں، نہ دیوار ہوتی ہے نہ چھت، دروازے اور صحن کی بات ہی الگ ہے اس کے میٹیریل اتنے کمزور ھوتے ہیں کہ کسی حادثہ کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے، بارش کے چند قطرےاس کو تباہ و برباد، آگ کے ھلکے شعلے اسے خاکستر، گرد و غبار کے خفیف جھٹکے اس اس کو صفحہ ھستی سے محو کرنے کے لئے کافی ہے کسی بھی مسئلہ میں غیر کدا پر اعتماد و اعتبار خصوصاً عزت و آبرو کسب کرنے کے لیے، یقیناً اسی نوعیت کے ہیں، بی ثبات و ناتواں، ناقابل بھروسہ، حوادث کے مقابلہ میں غیر مستحکم، غیر خدا جو بھی اور جیسا بھی ہو عزت وعظمت کا حامل ہے ہی نہیں کہ عزت بخشش و نچھاور کرسکے۔

-----------

84. بحار الانوار، ج78، ص10۔

85. سورہ عنکبوت/ 41۔

۶۱

اگر ھزاروں مکر و فریب کے بعد ظاہری طاقت و قوت حاصل کر بھی لی، اور کسی شخص کو عزت و مقام دے کر قابل عزت بنا بھی دیا تو بھی یہ (عزت) قابل اعتماد نہیں ھوسکتی اس لئے کہ جس وقت بھی ان کے منافع اقتضا کریں گے وہ بے درنگ اپنے صمیمی اتحادی گروہ کو ترک کردیں گے اور توانائی و قدرت حاصل ہونے کی صورت میں وہ تمھیں خاک ذلت پر بیٹھا دیں گے۔

2۔ رعب وحشت

منافقین کا اغیار سے پیوستہ دوستانہ روابط کا ھونا، ان سے وحشت زدہ ہونے کی علامت ہے، ان کے خیال خام میں یہ آئندہ اوضاع و احوال پر مسلّط نہ ھوجائیں، اس لئے ان سے خائف رہتے ہیں، یہ اس بنا پر بیگانوں سے دوستانہ روابط برقرار رکھتے ہیں کہ اگر ایک روز حکومت و طاقت ان کے ھاتھوں میں آجائے تو اپنی عزیز دنیا کو بچا سکیں، زندگی و حیات کا تحفظ کرسکیں، اسلام کے نظریہ کے مطابق وہ فرد جس کی روح و جان گوھر ایمان سے آراستہ ھوچکی ہے وہ صرف اللہ سے خائف رہتا ہے، غیر اللہ سے ذرہ برابر بھی وحشت زدہ نہیں ھوتا، اللہ کی سفارش یہ ہے کہ خوف و خشیت اس کے لئے ھو، اور کسی قدرت و طاقت سے خوفزدہ نہ ہوا جائے یہ فقط ایمان ہی کی بنا پر عملی ھوسکتا ہے۔

قرآن مجید انبیاء علیھم السلام کی تعریف ان صفات کے ذریعہ کر رہا ھے:

(الذین یبلّغون رسالات الله و یخشونه ولا یخشون احدا الا الله) ) 86 (

وہ لوگ جو اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں دل میں اسی کا خوف رکھتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔

--------------

86. سورہ احزاب/ 39۔

۶۲

پیغمبران الہی اور حقیقی صاحبان ایمان صرف یہی نہیں کہ غیر اللہ کی قدرت و طاقت سے ھراساں نہیں ھوتے، بلکہ جس قدر ان کو خوفزدہ اور ھراساں کیا جاتا ہے اسی اعتبار سے ان کا ایمان و اعتماد خدا کی طاقت و قدرت پر زیادہ ہی ہوتا جاتا ہے۔

(الذین قال لهم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا و قالوا حسبنا الله ونعم الوکیل) ) 87 (

یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لھذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ھوگیا۔ اور انھوں نے کہا کہ ھمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ھمارا ذمہ دار ہے۔

مذکورہ آیت میں زیادی ایمان اور خدا پر توکل، نیز خوف الہی اور دلوں میں اس کی عظمت ایک فطری امر ہے۔

افراد جس قدر خدا کی عظمت، قدرت، شوکت، کو زیادہ سے زیادہ درک کریں اور خالص وحدانیت سے نزدیک تر ھوں، تمام قدرت و اقتدار ان کی نظروں میں پست سے پست نظر آئیں گے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام متقین کے صفات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((عظم الخائق فی انفسهم فصغر ما دونه فی اعینهم)) ) 88 (

خالق ان کی نگاہ میں اس قدر عظیم ہے کہ ساری دنیا نگاہوں سے گر گئی ہے۔

------------

87. سورہ آل عمران/ 173۔

88. نھج البلاغہ، خطبہ193۔

۶۳

اگر انسان خدا سے ویسے ہی خائف رہے جیسا کہ خائف ہونے کا حق ہے اور محبت خدا سے اس کا قلب لبریز ہو تو سب کے سب اس کی عظمت کے معترف اور محبت کے قائل ہوجائیں گے لیکن اگر حریم پروردگار کہ جس کے لئے شائستہ و سزاوار ہے، رعایت نہ کی، تو ہر شی سے وہ خوف زدہ و مقہور رہتا ہے، مجاھدین راہ حقیقت و ہدایت کی صلابت و استقامت نیز راہ حق و ہدایت سے منحرفین کی دائمی تشویش اور اضطراب کا راز یہی ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

((من خاف الله اخاف الله منه کل شیء ومن لم یخف الله اخافه الله من کل شیء)) ) 89 (

جو خدا سے خائف ہوتا ہے خدا ہر شی سے اس کے خوف کو ختم کر دیتا ہے اور جو خدا سے خائف نہیں ہوتا خدا اس کو ہر شی سے مرعوب کر دیتا ہے۔

وہ منافقین جو ادنی درجہ کے ایمان سے خالی ہیں اور توحید کے معانی درک کرنے سے قاصر، مادہ پرست طاقتوں کی وحشت و ہیبت اس قدر ان کے افکار پر طاری ہے کہ ان سے ایجاد روابط کے لئے کوشاں ہیں کہ آئندہ کہیں یہ تسلط پیدا نہ کرلیں۔

(فتری الذین فی قلوبهم مرض یسارعون فیهم یقولون نخشی ان تصیبنا دائرة فعصی الله ان یأتی بالفتح أو أمر من عنده فیصبحوا علی ما اسروا فی انفسهم نادمین) ) 90 (

پیامبر!آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف (یہود و نصاری) جا رہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ھمیں گردش زمانہ کا خوف ہے پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہوجائیں گے۔

-------------

89. اصول کافی، ج2، ص68۔

90. سورہ مائدہ/ 52۔

۶۴

بیگانوں و اغیار سے منافقین کے ایجاد روابط کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر آئندہ اغیار مسلمانوں پر غالب ہوجائیں تو اپنے مخفی ارتباط کے صلہ میں حیات اور اموال کا تحفظ کرسکیں، قرآن مجید منافقین کے اس طرز فکر و منطق کا جواب مذکورہ آیت سے دے رہا ہے، قضیہ کے اس پھلو کی طرف بھی توجہ کرنی چاھئے کہ اگر مسلمانوں کو فتح و کامرانی ملی تو یہ صاحب قدرت و سطوت ہوں گے اس صورت میں تمھارا کیا حال ہوگا؟ یقیناً اہل اسلام فاتح و کامیاب ہوں گے اور تم (منافقین) اپنی زشت حرکات اور غلط افعال کی وجہ سے پشیمان و شرمندہ ہوگے۔

ولایت ستیزی

ولایت اور اسلام میں ولایت پذیری

منافقین کی سیاسی رفتار و کردار کی دوسری خصوصیت و صفت، ولایت ستیزی ہے اس بحث کی تحقیق سے قبل، مقدمہ کے عنوان سے بہ طور اختصار، اسلام کی نگاہ میں ولایت پذیری اور ولایت کی منزلت و مقام کے سلسلہ میں کچھ باتیں عرض کرنا ضروری ہے تاکہ منافقین کی ولایت ستیزی نیز رفتار و سیاست کو قرآنی شواہد کی روشنی میں تحقیق کی جاسکے۔

اسلام کی نگاہ میں ولایت اور ولایت پذیری، اصول اعتقادی و عملی دونوں ہی سے مرتبط ہے، اصول اعتقادی کی بنیاد پر نبوت و امامت کا تعلق عقائد اور اصول دین سے ہے، اصول عملی کی بنیاد پر ولی کی اطاعت کا واجب ہونا اثبات ولایت کا لازمہ ہے، یعنی ولی کی اطاعت اور اس کے دستور و حکم کو قبول کرنا اسی وقت ہوگا جب اسے ہم اپنے اوپر حاکم قرار دیں۔

۶۵

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ایک حدیث میں اسلام کے عملی عمود و ستون کا ذکر کرتے ہوئے ولایت کو اہم ترین ستون قرار دیتے ہیں۔

((بنی الاسلام علی خمس علی الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولایة ولم یناد بشیء ما نودی بالولایة)) ) 91 (

اسلام کی بنا پانچ (عملی ستون) پر واقع ہے نماز، زکاة، روزہ، حج، ولایت، کسی بھی موارد کی، ولایت کے مثل سفارش نہیں کی گئی ہے۔

قرآن کریم اور روایات میں تولّا اور ولایت پذیری، محبت اور قلبی لگاؤ کے مرتبے سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے، اسلام میں مسئلہ ولایت کا پایا جانا، اسلام کے سیاسی نظریہ کے اہم ترین مبانی میں سے ہے، ولایت، نظام اسلامی کے فقرات کے مثل ہے۔

اگر چہ قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی گفتگو ہے، لیکن یہ ولایت حاکمیت کے معنا میں ہے، ولایت پذیری، یعنی ولایت کے دستور و احکام کی عملی اطاعت اگر چہ اہل بیت اطھار علیہم السلام کی محبت و مودت کا دینی اقدار کی بنا پر ایک الگ ہی مقام ہے۔

(النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسهم) ) 92 (

بے شک نبی (ص) تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے۔

-------------

91. وسائل الشیعہ، ج1، ص10۔

92. سورہ احزاب/6۔

۶۶

(انما ولیکم الله ورسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة وهم راکعون ) ) 93 (

ایمان والو! پس تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔

نبوت و امامت کا لازمہ حاکمیت و ولایت کا وجود ہے، ان لوگوں کی ولایت کی مشروعیت (جواز) کا منشا وہی ہے جس نے ان کو رسالت اور امامت عطا کی ہے۔

(وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله ) ) 94 (

اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے۔

ولایت پذیری، کمال مطلق سے عشق و محبت کا جلوہ ہے اور الہی حاکمیت کو قبول کرنے کا لازمہ ہے۔

وہ شخص جس کے وجود میں توحید خالص نیز کمال حقیقی کی محبت کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور وہ محبوب الہی کا اشتیاق مند ہوگا یقیناً وہ ولایت پذیر ہوگا۔

(قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله) ) 95 (

ای پیامبر! کہہ دیجئے کے اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔

--------------

93. سورہ مائدہ/ 55۔

94. سورہ نساء/ 64۔

95. سورہ آل عمران/ 31۔

۶۷

اس اعتبار سے مومنین، حقیقی ولایت کو قبول کرنے والے ہیں قرآن کے صریح دستورات کی پیروی کرتے ہوئے خداوند عالم کی طرف سے نصب شدہ ولی کو قبول کرنا مومنین کے صفات میں سے ہے،

(انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی الله و رسوله لیحکم بینهم ان یقولوا سمعنا و اطعنا و اولئک هم المفلحون) ) 96 (

مومنین کو تو خدا و رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں تو ان کا قول صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور یھی لوگ در حقیقت فلاح پانے والے ہیں۔

قرآن کی روشنی میں سعادت کا یک و تنھا راستہ یھی ہے، اولیا حق کی محبت کے راستہ سے خارج ہونا باطل اور طاغوت کی آغوش میں گر پڑنا ہے، اس لئے کہ حق کے بعد باطل کے علاوہ کچھ بھی نہیں) 97 (

(و من یطع الله و رسوله و یخش الله و یتقه فاولئک هم الفائزون) ) 98 (

اور جو بھی اللہ و رسول کی اطاعت کرے گا اور اس کے دل میں خوف خدا ہوگا اور وہ پرہیز گاری اختیار کرے گا تو وہی کامیاب کہا جائے گا۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ائمہ اطھار علیھم السلام کے بلند پایہ اور ممتاز اصحاب، ولایت پرستی کے بلند مقام پر فائز تھے اور اس پر افتخار کیا کرتے تھے، عبد اللہ بن ابی یعفور اس گروہ میں سے ہیں وہ مفسر قرآن تھے اور کوفہ میں درس تفسیر دیا کرتے تھے،

--------------

96. سورہ نور/ 51۔

97. سورہ یونس/32، "فما ذا بعد الحق الا الضلال"۔

98. سورہ نور/ 52۔

۶۸

حضرت امام صادق علیہ السلام آپ سے بے حد محبت و احترام کرتے تھے، امام صادق علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

((ما وجدت احدا یقبل وصیتی ویطیع امری الا عبد الله بن ابی یعفور)) ) 99 (

کسی کو عبداللہ بن ابی یعفور جیسا نہیں پایا وہ میرے دستورات و نصائح کو قبول کرتے ہیں اور میرے حکم کے فرمان بردار ہیں۔

بغیر قید و شرط کے ولایت پذیری ان کی ممتاز خصوصیت تھی، ایک دن امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: اگر آپ ایک انار دو حصے میں تقسیم کریں، اس کے ایک حصے کو حلال دوسرے حصے کو حرام بتائیں، آپ کے حلال بتائے ہوئے حصے کو حلال اور حرام حصے کو حرام سمجھوں گا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ان کی اس ارادت و اطاعت کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ((رحمک اللہ)) خدا تم کو مشمول رحمت قرار دے۔

ولایت کے مسئلہ میں منافقین کی روش

قرآن کریم سے استفادہ ہوتا ہے کہ عمیق و خالص نفاق کی علامت، عدم قبولیت ولایت اور ولایت ستیزی ہے۔

(و یقولون آمنّا بالله و بالرسول و اطعنا ثم یتولّی فریق منهم من بعد ذالک وما اولئک بالمؤمنین و اذا دعوا الی الله و رسوله لیحکم بینهم اذا فریق منهم معرضون) ) 100 (

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں، اور ان کی اطاعت کی ہے، اور اس کے بعد ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے، یہ واقعاً صاحبان ایمان نہیں ہیں، اور جب انھیں خدا و رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک فریق کنارہ کش ہوجاتا ہے۔

--------------

99. قاموس الرجال، ج6، ص121۔

100. سورہ نور، 47، 48۔

۶۹

مذکورہ آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور ایک فرد کے درمیان جس نے آپ سے زمین خریدی تھی اختلاف در پیش ہوا وہ مرد اس پتھر کی بنا پر جو زمین میں تھے معیوب قرار دے رہا تھا اور معاملہ کو فسخ کرنا چاھتا تھا امام علی علیہ السلام نے قضاوت کے لئے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش کش کی، لیکن حکم بن ابی العاص جس کا شمار منافقوں میں ہوتا تھااس نے خریدار کو ور غلایا کہ اگر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ گے تو وہ حضرت علی علیہ السلام کے فائدہ میں فیصلہ کریں گے کیونکہ علی علیہ السلام ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔

یہ آیت اسی مناسبت سے نازل ھوئی اور حکم بن ابی العاص کی شدّت سے سرزنش کی اور اس بات کا اضافہ بھی کیا کہ، اگر حق ان کے ساتھ ہو اور فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو وہ دست بستہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوتے ہیں لیکن اب جب کہ وہ جانتے ہیں کہ حق ان لوگوں کے ساتھ نہیں تو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قضاوت سے منہ موڑ لیتے ھیں) 101 (

منافقین، حق کی حکومت اور اسلامی نظام کی حاکمیت کے دشمن ہونے کی بنا پر طاغوت کے قبضہ و دبدبہ کو وجود بخشنے کی فکر میں رہتے ہیں، ہمیشہ اسلامی نظام کے اہم ترین رکن، ولایت سے برسر پیکار رہے ہیں، مختلف اطوار سے اپنے اس کینہ و عداوت کو بروئے کار لاتے ہیں۔حقیقی ولایت پرستی، اور ولایت پرست ہونے کا نعرہ بلند کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، منافقین نہ صرف یہ کہ زبان سے ولایت کو قبول نہ کرنے کا اظھار نہیں کرتے بلکہ ولایت پذیری کے نعروں کے ذریعہ اپنے کو سب سے زیادہ ولایتی فرد بتاتے ہیں، لیکن پس پردہ ولایت ستیزی و ولایت کے خلاف عملی اقدام کی فکر و ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔

----------------

101. سورہ نور/ 49۔

۷۰

ولایت ستیزی کے عملی مناظر

جس طریقہ سے صاحبان ایمان کی ولایت پرستی اور ولایت پذیری کے خاص عملی جلوے نظر آتے ہیں، منافقین کی بھی ولایت ستیزی کی جلوہ افروزی کم نہیں، ان جلوے اور مناظر کے ذریعہ، تحریک نفاق کی شناخت بخیر و خوبی کی جاسکتی ہے قرآن مجید منافقین کی ولایت سے برسر پیکار عملی جلوے و مناظر کے چند نمونے پیش کر رہا ہے۔

1۔ دینی حکومت و حاکمیت کو قبول نہ کرنا

منافقین کی ولایت ستیزی کا ایک عملی نمونہ ان کا دینی حکومت و اسلامی نظام کی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کرنا ہے، اسلام کے سیاسی نظریہ میں ولایت، اسلامی نظام کا اہم ترین، رکن ہے بغیر ولایت کے حکومت کا نظام ایک طاغوتی نظام ہے۔

قرآن کریم کے پیش نظر ایمان کا معیار و پیمانہ ولایت کے دستور و احکام کو از حیث قلب و عمل قبول و تسلیم کرنا ہے۔

(فلا و ربّک لا یؤمنون حتی یحكّموک فیما شجر بینهم ثم لا یجدوا فی انفسهم حرجا مما قضیت و یسلّموا تسلیما ) ) 102 (

پس آپ کے پروردگار کی قسم یہ ھرگز صاحبان ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں، اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں۔

روایات میں بھی اس نکتہ کی تصریح کی گئی ہے، اس عصر و زمان میں جب کہ اسلامی نظام و حکومت قائم نہیں ہے، اہل بیت اطھار علیھم السلام کے افکار کے مقلدین کو طاغوت کی حاکمیت قبول نہیں کرنا چاھئے، اس حالت میں اسلامی نظام کی حاکمیت کے عصر میں ان کا وظیفہ بالکل عیاں و آشکار ہے، حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

-------------

102. سورہ نساء/ 65۔

۷۱

((من تحاکم الیهم فی حق او باطل فانما تحاکم الی الطاغوت وما یحکم له فانما یاخذ سحتا وان کان حقه ثابتا لانه اخذه بحکم الطاغوت و قد امر الله ان یکفر به)) ) 103 (

کسی شخص کا اپنے اس حق کے لئے جو ضائع ھوگیا ہے یا باطل دعوی کے سلسلہ میں ان (اھل باطل و ظالم) کے پاس جانا یعنی محاکمہ کے لئے طاغوت کے پاس جانے کے مترادف ہے، اور جو کچھ ان کی حکمیت کے ذریعہ حاصل کیا ہے وہ حرام ہے چاھے اس کا حق ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ اپنے حق کو طاغوت کے ذریعہ حاصل کیا ہے، حالانکہ خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں۔

نفاق کی اہم خصوصیت، دینی حکومت کا انکار اور اغیار کی حکومت و حاکمیت کا اقرار کیا ہے، منافقین پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین و مذہب کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے ہیں، لیکن طاغوت کی حاکمیت کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔

(الم تر الذین یزعمون انهم آمنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطّاغوت و قد أمروا ان یکفروا به )) 104 (

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ کے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئیں ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں۔

--------------

103. وسائل الشیعہ، ج18، ص3۔

104. سورہ نساء/60۔

۷۲

تفاسیر کی کتب میں آیا ہے کہ ایک منافق کا یھودی فرد سے اختلاف ھوگیا یھودی شخص نے اس منافق کو پیامبر عظیم الشان (ص) کی قضاوت قبول کرنے کی عدوت دی، کھا تمھارے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو حکم بھی کریں گے اس کو قبول کرلوں گا، لیکن اس منافق نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اسے کعب بن اشرف یھودی کی حکمیت کی دعوت دی، مذکورہ آیت منافقت کی غلط سیاست و رفتار کی سرزنش کے سلسلہ میں نازل ھوئی ھے) 105 (

منافقین ہمیشہ پیامبر عظیم الشان کے دستورات و احکام سے مقابلہ اور صف آرائی میں مشغول رہتے تھے، نہ خود ہی حق و حقیقت کی اطاعت کرتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو اس کی اجازت دیتے تھے۔

(اذا قیل لهم تعالوا الی ما انزل الله و الی الرسول رأیت المنافقین یصدون عنک صدودا) ) 106 (

اور جب ان سے کھا جاتا ہے کہ حکم خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آؤ تو آپ منافقین کو دیکھیں گے کہ وہ شدت سے انکار کرتے ہیں۔

منافقین نہ صرف یہ کہ دین کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے اور خود کو اس کے حوالہ نہیں کرتے، بلکہ مدام اسلامی نظام کی حاکمیت اور دین و مذہب کی قدرت کی تضعیف و تحقیر میں مشغول رہتے ہیں۔

---------------

105. مواھب الرحمٰن، ج8، ص253۔

106. سورہ نساء/61۔

۷۳

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت کو ضعیف و کمزور کرنے کے لئے منافقین کے طریقۂ کار میں سے ایک، اقتصادی ناکہ بندی اور مشکلات کی ایجاد، کا حربہ تھا جس کا استعمال ہمیشہ دشمنوں نے کیا ہے اور آج بھی اسلامی نظام کی تضعیف کے لئے اس حربہ سے استفادہ ھورھا ہے۔

(هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضوا) ) 107 (

یھی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ لوگ منتشر ہوجائیں۔

پیامبر رحمت (ص) کے سلسلہ میں عبد اللہ ابن ابی کی سازش یہ تھی کہ ہر قسم کا معاملہ اور خرید و فروخت، مھاجرین اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیدائی افراد سے ممنوع قرار دیا جائے تاکہ اقتصادی و معاشی کی بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیدائی ان کے اطراف سے منتشر ہوجائیں۔

بالکل وہی پالیسی جو مشرکین قریش نے مکہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انجام دی تھی، قریش کے سر کردہ افراد نے ایک پیمان کو ترتیب دیا اور دستخط کے بعد خانۂ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردیا، اس عہد و پیمان کی بنا پر ہر قسم کے اقتصادی معاشرتی روابط مسلمانوں سے ممنوع تھے، کسی کو بھی حق نہ تھا کہ بنی ھاشم، پیامبر، اور ان کے اصحاب سے رشتہ داری کے روابط برقرار کرے، نیز بنی ہاشم سے ہر قسم کی دفاعی قرار داد کا انعقاد بھی ممنوع کردیا گیا تھا۔

------------

107. سورہ منافقون/7۔

۷۴

اس سازش کو عملی جامہ پہنایا گیا لیکن وہ تمام صعوبت اور رنج و تکلیف جو اس قرار اور پیمان کی بنا پر مسلمان شکار ہوئے، اہل اسلام کی استقامت و صبر کی بنا پر مشرکین کے سارے پروگرام نقش بر آب ھوگئے، اور اسلام کی طاقت و اقتدار میں اضافہ ہوتا رہا۔

تعجب آور ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہی پروگرام آپ کے وصی و جانشین اور خلیفہ برحق حضرت علی علیہ السلام پر جاری کیا گیا، حضرت زھرا سلام اللہ علیھا سے فدک غصب کرلیا گیا تاکہ حضرت علی علیہ السلام کی اقتصادی در آمد کے وسیلہ کو ختم کردیا جائے۔

2۔ ولایت کے دستورات و احکام کی عملی مخالفت

منافقین کی ولایت کی عدم قبولیت کا ایک اور نمونہ، ولی کے فرامین کی عملی مخالفت ہے، سورہ نور کی آیت نمبر اکاون جو اس سے قبل پیش کی گئی ہے، ولایت کے اوامر کی سماعت اور اس کی اتباع، حقیقی صاحبان ایمان کے اوصاف و صفات میں شمار کیا گیا ہے، لیکن منافق دین کی حکمیت کو قبول نہیں کرتے ہیں، ظاہر میں پیروی کا ادعا کرتے ہیں، مگر اعمال میں ولی کے فرمان کی مخالفت کرتے ہیں۔

(ویقولون طاعة فاذا برزوا من عندک بیت طائفة منهم غیر الذی تقول) ) 108 (

اور یہ لوگ پہلے اطاعت کی بات کرتے ہیں، پھر جب آپ کے پاس سے باہر بکلتے ہیں تو پھر ایک گروہ اپنے قول کے خلاف تدبیریں کرتا ہے۔

----------------

108. سورہ نساء/ 81۔

۷۵

قرآن کریم نے ایمان اور نفاق کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے معاشرتی و سیاسی میدان میں حضور کو، معیار و محک قرار دیا ہے، صرف پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے اس میدان کو ترک کیا جاسکتا ہے۔

(انما المؤمنون الذین آمنوا بالله و رسوله و اذا کانوا معه علی امر جامع لم یذهبوا حتی یستأذنوه ان الذین یستأذنونک اولئک الذین یؤمنون بالله ورسوله) ) 109 (

مومنین صرف وہ افراد ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہوں اور جب اجتماعی کام میں مصروف ہوں تو اس وقت تک کہیں نہ جائیں جب تک اجازت حاصل نہ ھوجائے، بے شک جو لوگ آپ سے اجازت حاصل کرتے ہیں وہی اللہ و رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔

مذکورہ آیت کے مصادیق میں سے ایک غسیل الملائہ (ملائکہ کے ذریعہ غسل دئے ہوئے) حنظلہ ہیں جناب حنظلہ کی شادی ہی کی شب، مسلمان احد کے لئے حرکت کر رہے تھے، جناب حنظلہ نے رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاھی کہ ایک شب شریک حیات کے پاس گزار کر صبح کو احد میں حاضر ہوجائیں گے، آپ نے اجازت بھی فرمادی جناب حنظلہ دوسرے روز احد پہونچ کر جنگ کے لئے آمادہ ہوئے اور اسی جنگ میں درجۂ شھادت پر فائز بھی ہوئے، پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شھادت کے بعد فرمایا: حنظلہ کو ملائکہ غسل دے رہے تھے۔

--------------

109. سورہ نور/62۔

۷۶

جناب حنظلہ کے عمل کے نقطۂ مقابل، جنگ خندق میں منافقین کی حرکت ہے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جنگ میں خندق بنانے کے لئے، دس دس افراد کا دستہ بنا کر ایک ایک حصہ ان کے حوالہ کردیا تھا جس وقت منافقین مسلمانوں کی چشم سے پوشیدہ ھوتے تو فریضہ سے سر ییچی کرتے اور جب مسلمان کی آھٹ پاتے تو مشغول ہوجاتے ذیل کی آیت منافقین کے زشت فعل کو بیان کررھی ہے۔

(قد یعلم الله الذین یتسلّلون منکم ولو اذاً فلیحذر الذین یخالفون عن امره ان تصیبهم فتنه او یصیبهم عذاب الیم ) ) 110 (

اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے خاموشی سے الگ ہوجاتے ہیں لھذا جو لوگ حکم خدا کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس امر سے ڈریں کہیں ان تک کوئی فتنہ پہونچ جائے یا کوئی درد ناک عذاب نازل ہوجائے۔

دوسری آیت جو منافقین کی، دستورات پیامبر (ص) سے عملی مخالفت کو بیان کر رھی ہے، سورہ توبہ کی آیت نمبر اکاسی ہے، خداوند عالم اس آیت اور بعد والی آیت میں منافقین کے عمل کی شدت سے سرزنش و توبیخ کرتے ہوئے سخت عذاب کا وعدہ دے رہا ہے۔

(فرح المخلّفون بمقعدهم خلاف رسول الله و کرهوا أن یجاهدوا باموالهم وأنفسهم فی سبیل الله وقالوا لا تنفروا فی الحرّ قل نار جهنّم اشدّ حرّا لو کانوا یفقهون فلیضحکوا قلیلا و لیبکوا کثیرا جزاء بما کانوا یکسبون) ) 111 (

جو لوگ جنگ تبوک میں نہیں گئے وہ رسول اللہ کے پیچھے بیٹھے رہ جانے پر خوشحال ہیں اور انھیں اپنے جان و مال سے راہ خدا میں جھاد ناگوار معلوم ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ تم لوگ گرمی میں نہ نکلو تو اے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کہہ دیجئے کہ آتش جھنم اس سے زیادہ گرم ہے اگر یہ لوگ کچھ سمجھنے والے ہیں اب یہ لوگ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ کہ یہی ان کے کئے کی جزا ہے۔

-------------

110. سورہ نور/63۔

111. سورہ توبۂ/ 81، 82۔

۷۷

جیسا کہ آیت کے لحن و طرز سے ظاہر ہے منافقین رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک نہیں ھوتے تھے اور وہ اپنے اس زشت عمل سے نادم و پشیمان ہونے کے بجائے اس خلاف ورزی سے خوش حال اور مسرور بھی رہتے تھے، وہ صرف یھی نہیں کہ خود میدان جنگ میں شریک نہ ھوتے بلکہ اپنی مغرضا نہ و معاندانہ تبلیغ سے جھاد پر جانے والوں کو روکتے بھی تھے۔

3۔ ولایت کی حریم کو پامال کرنا

ولایت ستیزی کے زمرہ میں منافقین کا ایک اور عملی شاھکار، حریم ولایت کی حرمت کو پامال کرنا ہے۔

قرآن مجید نے ولایت کی حریم کو معین کر دیا ہے اور اس حریم کا تحفظ و احترام، اہل اسلام کا وظیفہ ہے، پھلی حریم یہ ہے کہ جب صاحب ولایت کی طرف سے کوئی حکم صادر ھو، بغیر کسی چون و چرا کے اطاعت کی جائے اگر ولی یعنی صاحب ولایت کی اطاعت نہ ہو تو اسلامی نظام کہیں کا نہیں رہے گا۔

(وما کان لمؤمن ولا مؤمنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم ومن یعص الله و رسوله فقد ضلّ ضلالا مبینا) (112)

اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ھوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔

--------------

112. سورہ احزاب/36۔

۷۸

صاحب ولایت کی طرف سے فرمان و حکم جاری ھوجانے کے بعد اظھار نظر، ذاتی سلیقہ و روش، اشکال تراشی کی کوئی گنجائش نہیں منافقین صاحب ولایت کے فرامین کی مخالفت و رو گردانی سے ولایت کی حریم کو پامال کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اس فعل کے ذریعہ دوسروں کو بھی نافرمانی کی تشویق دلاتے ہیں۔

سورہ توبہ کی آیت نمبر اکاسی میں پیامبر عظیم الشان (ع) کے فرمان کی، مخالفین کے ذریعہ رو گردانی و مخالفت، نیز ان کی خوشحالی و رضایت کا ذکر، صراحتاً ھوچکا ہے، البتہ فرامین کا بغیر چون و چرا اجرا کرنے کا مطلب، مشورت و نصیحت نیز یاد دھانی کے متعارض نہیں ہے۔

جب تک منصب ولایت کی طرف سے کوئی حکم و دستور کا صدور نہ ہوا ھو، نہ صرف یہ کہ افراد نصیحت و مشورہ کا جواز رکھتے ہیں بلکہ "النصیحۃ لائمۃ المسلمین" کی بنا پر اپنے نظریات و خیالات کا صاحب ولایت کے محضر میں بیان کرنا واجب ہے لیکن جب ولی نے کسی امر کی تصمیم گیری کر لی ہے تو سب کا وظیفہ اطاعت و فرماں برداری ہے، حتی وہ افراد بھی جو مشورت کے مرحلے میں اس تصمیم و عمل کے مخالف نظر تھے یعنی کوئی بھی فرد، مخالف نظر، کا عذر پیش کرتے ہوئے اطاعت سے رو گردانی نہیں کرسکتا ہے۔

ابن عباس، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو مشورے دیتے ہیں کہ آپ معاویہ کو شام میں رھنے دیں اور بصرہ و کوفہ کی امارت طلحہ و زبیر کے سپرد کردیں حالات آرام ھوجانے کے بعد ان کو معزول کردیں، امام علی علیہ السلام نے ابن عباس کا مشورہ رد کرتے ہوئے فرمایا:

((لا افسد دینی بدنیا غیری لک ان تشیر علی و اری فان عصیتک فأطعنی)) (113)

میں اپنے دین کو دوسروں کی دنیا کے لئے تباہ و برباد نہیں کرسکتا، تمھیں مجھے مشورہ دینے کا حق حاصل ہے، اس کے بعد رای میری ہے، لھذا اگر میں تمھارے خلاف رای قائم کرلوں تو تمھارا فریضہ ہے کہ میری اطاعت کرو۔

-----------

113. نھج البلاغہ، حکمت 321 و نیز تاریخ طبری ض6، ص3089، مروج ذھب، ج2، ص365۔

۷۹

بھت زیادہ روایات، اسلامی معاشرے کے قائدین کی نصیحت و خیر خواھی کے سلسلہ میں آئی ہیں، نصیحت و خیر خواھی ایک قیمتی شیء اور لوگوں کے لئے ایک فریضہ ہے حضرت امام علی علیہ السلام اشخاص پر رھبر و رھنما کے حقوق میں ایک نصیحت و رھنمائی کو سمجھتے ہیں۔

((و امام حقی علیکم…… النصیحة فی المشهد والمغیب)) (114)

میرا حق تم پر یہ ہے کہ باطن و ظاہر میں نصیحت و خیر خواھی کو ھاتھ سے نہ جانے دو۔

اسی طریقہ سے حضرت علی علیہ السلام نے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے نیک و ممتاز اصحاب کی تجلیل و تکریم کے بعد، ان سے چاہتے ہیں کہ خالصانہ نصیحت سے ان کی مساعدت کریں۔

((…… فاعینونی بمنا صحة خلیلة من الغش سلیمة من الریب)) (115)

مجھے خالصانہ و ہر قسم کے شک و تردید سے جدا، نصیحت سے میری مدد و نصرت کرو۔

نصیحت و خیر خواھی سب کے لئے، خصوصاً معاشرہ کے افراد کی نصیحت اسلامی نظام کے رھبر کے لئے، ایک قیمتی شی اور فریضہ ہے، اس شرط کے ساتھ کہ واقعی مصداق نصیحت ھو، اس لئے کہ کینہ پروری کی بنا پر عیب کی تلاش، در حقیقت نصیحت نہیں ہے، معرکہ آرائی، بے مورد اتھام، ایک طرفہ و شتاب زدہ فیصلہ وغیرہ نصایح نہیں ہیں۔

اس نکتہ کی طرف بھی توجہ مرکوز ھونی چاھئے کہ، ولائی اوامر، میں خواہ ولائی معصوم (ع) ، خواہ ولائی ولی فقیہ، میں مطیع فرماں بردار ہونا چاھئے اور یہ وہ نکتہ ہے جسے قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے، اور علم فقہ میں بھی (حاکم کے حکم کو دوسرے مجتھد کا نقض کرنا حرام ھے) کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔

--------------

114. نھج البلاغہ، خطبہ 34۔

115. نھج البلاغہ، 118

۸۰