قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 62362
ڈاؤنلوڈ: 3594

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62362 / ڈاؤنلوڈ: 3594
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لیکن جہاں حکم، الہی و شرعی نہ ھو، ہر مسلمان کو نظر کے اظھار کا حق ہے، کبھی بھی پیامبر عظیم الشان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوع کے اظھار کو منع نہیں کرتے تھے بلکہ تعریف و تشویق بھی کرتے تھے۔

جنگ احزاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان (رض) کی خندق بنانے کی فکر و نظر اور خیر خواھی کو قبول کرتے ہوئے مورد تاکید بھی قرار دیا، حضرت سلمان (رض) نے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، فارس علاقہ میں جب بھی دشمن کا خطرہ ہوتا ہے شھر کے اطراف میں خندق کھود کر دشمن کی پیش قدمی کو روکا جاتا ہے لھذا مدینہ کے اطراف میں آسیب پذیر علاقے جہاں دشمن وسائل جنگی کو آسانی سے عبور دے سکتا ہے، وھاں خندق کھود کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا جائے، اور خندق کے اطراف میں سوراخ و برج بنا کر دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتے ہوئے شھر کا دفاع کیا جائے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان (رض) کی نظر کو منظور کرتے ہوئے خندق کھودنے میں مشغول ھوگئے(116)

ایک دوسری آیت تصریح کر رھی ہے کہ صاحب ولایت کے فرامین سے ھمراھی لازم ہے، اس کے اوامر پر سبقت ممنوع ہے۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی الله ورسوله) (117)

اے ایمان والو! خبردار خدا و رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاؤ۔

خدا اور پیامبر سے سبقت لینا یعنی خدا و پیامبر (ص) کے باصراحت دستور و حکم کے سامنے شخصی طور و طریقہ کو استعمال کرنا، یا کسی دوسرے نظریہ کو بیان کرنا، ولایت سے سبقت لینا یعنی صاحب ولایت کی گفتار و اقوال کو کچھ اس طرح تفسیر و تشریح کرنا کہ اپنی پسند و خواہش کے مطابق ھو۔

------------

116. تاریخ طبری، ج2، ص224۔ فروغ ابدیت، ج2، ص535۔

117. سورہ حجرات/1۔

۸۱

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس نوعیت کی تاویل کو مورد لعنت قرار دیا ہے۔

((قوم یزعمون انی اما مهم والله ما انا بامام لهم لعنهم الله کلما سترت سرا هتکوه اقول کذا وکذا فیقولون انما یعنی کذا و کذا فیقولون انما یعنی کذا و کذا انما انا امام من اطاعنی)) (118)

بعض خیال کرتے ہیں کہ میں ان کا امام ہوں خدا کی قسم میں ان لوگوں کا امام نہیں ہوں خدا ان لوگوں پر لعنت کرے، میں جس راز کو مخفی رکھنا چاھتا ہوں وہ افشا کرتے ہیں، میں کسی قول کو پیش کرتا ھوں، وہ لوگ کہتے ہیں کہ امام کا مقصد یہ ہے وہ ہے (تاویل کرتے ھیں) میں صرف ان افراد کا امام ہوں جو میرے اطاعت گزار و فرمان بردار ہیں۔

بھر حال ولایت کی حریم میں سے ایک، بغیر چون و چرا صاحب ولایت کے احکام و دستور کی پیروی و اطاعت کرنا ہے۔

منافقین کا طرز عمل پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان و دستور کی خلاف ورزی، اور حضرت کے حریم کی حرمت شکنی تھا، لیکن جیسا کہ وضاحت کی گئی کہ معاشرے کے قائدین کے لئے ناصح و خیر خواہ کا لازم ھونا، چون و چرا کے بغیر اطاعت گزار و فرمان بردار ہونے سے کوئی تعارض و تضاد نہیں رکھتا ہے۔

ولایت کے لئے دوسری حریم جو قرآن بیان کر رہا ہے، ولایت کے احترام کا لازم ہونا ہے، قرآن مجید کا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں صدا کو بلند نہ کرنے کا حکم دینا احترام ولایت کے مصادیق میں سے ہے۔

--------------

118. بحار الانوار، ج68، ص164۔

۸۲

(یا ایها الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النّبی ولا تجهروا اله بالقول کجهر بعضکم لبعض )(119)

اے صاحبان ایمان خبردار! تم اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا، اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ھو۔

دوسری آیت میں بھی اسی قسم کے مفھوم کو پیش کیا گیا ہے۔

(لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً) (120)

مسلمانوں! خبردار رسول کو اس طرح نہ پکارو۔ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ھو۔

فوق کی دونوں آیات صاحب ولایت سے مومنین کے صحیح برتاؤ و رفتار کو بیان کرتے ہوئے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منافقین کے زشت برتاؤ و روش کو بھی بطور کنایہ پیش کر رھی ہے، صاحب ولایت کے احترام کو تباہ کرنے کے سلسلہ میں منافقین کا ایک اور حربہ، صاحب ولایت (ولی) کو سادہ لوحی کا خطاب دینا ہے۔

(ومنهم الذین یوذون النبی و یقولون هو اذن) (121)

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیامبر کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کا ن والے خوش خیال و سادہ لوح) ہیں۔

ولایت کی حریم کو پامال کرنے کے لئے منافقین کی ایک دوسری روش صاحب ولایت (پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال و رفتار پر تنقید کرنا تھا۔

-----------

119. سورہ حجرات/2۔

120. سورہ نور/63۔ اس آیت کے لئے دو تفسیر بیان کی گئی ہے، ایک وہ جو متن میں موجود ہے دوسرے وہ جس کی علامہ طباطبائی تاکید کرتے ہیں کہ یہ آیت پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے سلسلہ میں ہے اور مفھوم یہ ہے کہ جس وقت پیامبر (ص) تم کو کسی امر کے لئے بلائیں چونکہ دعوت الہی رھبر کی طرف سے ہے لھذا پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو ایک معمولی و عادی دعوت نہیں سمجھنا چاھئے۔

121. سورہ توبہ/61۔

۸۳

حرقوص ابن زھیر جو بعد میں خوارج کا سرغنہ قرار پایا جنگ حنین کے غنائم کی تقسیم کے وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کرتے ہوئے کھا: عدالت سے تقسیم کریں حضرت نے فرمایا: مجھ سے عادل تر کون ھے؟ اس سوء ادب کی بنا پر ایک مسلمان نے اس کو ھلاک کرنا چاھا، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑدو اس کے کچھ مرید ہوں گے اور اتنی عبادت کریں گے کہ تم لوگ اپنی عبادت کو کم حیثیت سمجھو گے لیکن اس قدر عبادت کرنے کے باوجود دین سے خارج ہوجائیں گے(122) حرقوص ابن زھیر نھروان میں امام علی علیہ السلام کے ھاتھوں واصل جھنم ہوا۔(123)

ذیل کی آیت حرقوص کی حرکت کی مذمت میں اور بعض منافقین کے لئے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنا چاہتے تھے نازل ھوئی ہے۔

(ومنهم من یلمزک فی الصدقات فان اعطوا منها رضوا وان لم یعطوا منها اذا هم یسخطون) (124)

اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انھیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے، اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے۔

---------------

122. الدرالمنثور، ذیل آیت58 سورہ توبہ۔

123. اسد الغابہ، ص1، ص474۔

124. سورہ توبہ 58: لمز ونصح کے معنی میں فرق ہے لمز کینہ پروری کے بناء پر عیب یابی کے لئے ہوتا ہے تا کہ شخصیت کو نظروں سے گرا دیا جائے، کھا جاتا ہے۔

۸۴

منافقین کی دوسری سیاسی خصوصیتیں

موقع پرست ھونا

قرآن کی نظر کے مطابق منافقین کی سیاسی خصائص میں سے ایک موقع پرست ہونا ہے، ان کے لئے صرف اپنے منافع اھمیت کے حامل ھوتے ہیں، نفاق کی طرف مائل ہونے کی وجہ بھی یھی ہے، موقع پرستی کا آشکار و ظاہر مصداق کہ جس کے چند مورد کی قرآن نے تصریح کی ہے۔

غنائم کو حاصل کرنے اور میدان نبرد و جنگ سے فرار کرنے میں موقع پرستی کے ماھر تھے، جس وقت مسلمین کامیاب ھوتے تھے بلا فاصلہ خود کو مسلمانوں کی صف میں پھنچا دیتے تھے تاکہ جنگ کے غنائم سے بھرہ مند ھوسکیں اور جس وقت مسلمان شکست وناکامی سے دوچار ھوتے تھے، فوراً اسلام کے دشمنوں سے کہتے تھے، کیا تم سے نہیں کھا تھا کہ اسلامی حکومت نام نھاد حکومت ہے، اور تم کامیاب ھوگے، ھمارا حصہ حوالہ کردو، قرآن مجید منافقین کی موقع پرستیں کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔

الذین یتربصون بکم فان کان لکم فتح من الله قالوا الم نکن معکم وان کان للکافرین نصیب قالوا الم نستحوذ علیکم و نمنعکم من المؤمنین فالله یحکم بینکم یوم القیامة و لن یجعل الله للکافرین علی المومنین سبیلا) (125)

اور یہ منافقین تمھارے حالات کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ تمھیں خدا کی طرف سے فتح نصیب ہو تو کہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہیں تھے اور اگر کفار کو کوئی حصہ مل جائے گا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے اور تمھیں مومنین سے بچا نہیں لیا تھا، تو اب خدا ہی قیامت کے دن تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور خدا کفار کے لئے صاحبان ایمان کے خلاف کوئی راہ نہیں دے سکتا۔

---------------

125. سورہ نساء/ 141، نکتہ قابل توجہ یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کی کامیابی کو فتح سے تعبیر کیا گیا ہے جب کہ کفار کی کامیابی کو نصیب سے تعبیر کیا گیا، اس بات کی طرف اشارہ ہے اگر کفار کو کامیابی ملے تو وہ وقتی اور محدود و پائدار نہیں ہے، لیکن دائمی فتح مومنین کے لئے ہے اس آیت کے ذیل میں اسی نکتہ کی تصریح ھورھی ہے کہ کفار مومنین پر مسلط نہیں ھوسکتے۔

۸۵

موقع پرست اشخاص مشکلات و رنج میں ھمراہ نہیں ھوتے، لیکن فتح و ظفر کی علامت ظاہر ھوتے ہی ان کے چہرے نظر آنے لگتے ہیں اور اپنے سھم و حقوق کا مطالبہ ہونے لگتا ہے، ذیل کی آیت واضح طریقہ سے ان کی موقع پرستی کو بیان کر رھی ہے۔

(اشحّة علیکم فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور اعینهم کالذی یغشی من الموت فاذا ذهب الخوف سلقو کم بألسنة حداد اشحة علی الخیر) (126)

یہ تم سے جان چراتے ہیں اور جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے کہ جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی ہیں جیسے موت کی غشی طاری ہو اور جب خوف چلا جائے گا تو آپ پر تیز زبانوں کے ساتھ حملہ کریں گے اور انھیں مال غنیمت کی حرص ھوگی۔

سورۂ احزاب کی آیت نمبر بیس میں بھی ان کے سخت، حساس، بحران زدہ لحظات سے فرار کو اچھے طرز سے بیان کیا گیا ہے۔

(یحسبون الأحزاب لم یذهبوا و ان یأت الأحزاب یودو لو أنهم بادون فی الاعراب یسئلون عن انبائکم ولو کانوا فیکم ما قاتلوا الا قلیلا)

یہ لوگ ابھی تک اس خیال میں ہیں کہ کفار کے لشکر گئے نہیں ہیں اور اگر دوبارہ لشکر آجائیں تو یہ یھی چاھیں گے کہ کاش دھاتیوں کے ساتھ صحراؤں میں آباد ھوگئے ھوتے اور وھاں سے تمھاری خبریں دریافت کرتے رہتے اور اگر تمھارے ساتھ ھوتے بھی تو بھت کم ہی جھاد کرتے۔

---------------

126. سورہ احزاب/ 19۔

۸۶

مذکورہ دونوں آیات (19، 20 سورہ احزاب) سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین مسلمانوں کے حق میں فوق العادہ بخیل ہیں، اہل اسلام کے لئے کسی قسم کی ھمراھی کرنے کے لئے حاضر نہیں، کسی بھی قسم کی مالی، جانی، فکری مساعدت سے گریز کرتے ہوئے بالکل غیرت برتتے ہیں جب ایثار و شہوت کی بات آتی ہے تو خلاف عادت بزدلی کا شکار ہوجاتے ہیں، قلب و دل کھو بیٹھنے کا امکان رہتا ہے لیکن جب خطرات دور ہوجاتے ہیں تو مال غنیمت کے لئے میدان میں حاضر ہوجاتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ حالات کا نظارہ کرتے رھیں دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ تالاب کے کنارہ بیٹھے رہتے رھیں اور حالات کا جائزہ لیتے رھیں اور قدم اس وقت رکھتے ہیں جب مطمئن ہوجائیں کہ خطرہ ٹل چکا ہے، ان کا ہم و غم مال غنیمت کا حصول ھے(127)

تاریخ سے نقل کیا جاتا ہے کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر فرمایا: خیبر کے غنائم ان اشخاص کے لئے ہیں جو حدیبیہ اور اس کے سخت شرائط میں شریک تھے منافقین نے حدیبیہ میں شرکت نہیں کی تھی وہ جنگ خیبر میں اس فکر کے ساتھ کہ مال غنیمت زیادہ ملے گا شریک ہونا چاہتے تھے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرمان کے ذریعہ، ان کی موقع پرستی کو بے آبرو کر کے رکھ دیا، اگر چہ منافقین نے پیامبر عظیم الشان و مسلمانوں پر نکتہ چینی و اعتراضات کرتے ہوئے حسادت ورزی کے الزام لگائے ذیل کی آیت اسی سلسلہ میں نازل ھوئی ھے:

--------------

127. "سلقوکم، سلق" مادّہ سے ہے اس کے معنی، کسی چیز کو غصہ سے کھولنا ہے خواہ یہ کھولنا ھاتھ سے ہو یا زبان سے، یہ تعبیر ان لوگوں کے لئے استعمال ھوئی ہے جو آمرانہ و طالبانہ طرز سے چیختے ہیں اور کسی چیز کو طلب کرتے ہیں۔ السنہ حداد تیز و طرار زبان خشن ہونے کے لئے کنایہ ہے۔

۸۷

(سیقولون المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوها ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلوا کلام الله قل لن تتبعونا کذلکم قال من قبل فسیقولون بل تحسدوننا بل کانوا لا یفقهون الا قلیلا) (128)

عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے تم سے کہیں گے جب تم مال غنیمت لینے کے لئے جانے لگو گے کہ اجازت دو ہم بھی تمھارے ساتھ چل چلیں یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کردیں تو تم کہدو کہ تم لوگ ھمارے ساتھ نہیں آسکتے ھو، اللہ نے یہ بات پہلے سے طے کردی ہے پھر یہ کہیں گے کہ تم لوگ ہم سے حسد رکھتے ھو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بات کو بھت کم سمجھ پاتے ہیں۔

اگر ہم اوّل اسلام سے اب تک کی تاریخ کو ملاحظہ کریں تو اس نکتہ کی طرف ضرور متوجہ ھونگے کہ مسلمانوں کو اب تک جو ھزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کے اسباب و علل، اہل اسلام کی صفوف میں موقع پرست افراد کی در اندازی کا نتیجہ ہے۔

بنی امیہ جس نے ایک ھزار سال، اسلامی مملکت پر حکومت کی اور اپنے ادوار حکومت میں شرم آور ترین افعال اور قبیح و زشت کارنامے کے مرتکب ہوئے اسلام میں موقع پرست اشخاص کے نفوذ کا نتیجہ تھا۔

ابو سفیان جس کے پاس فتح مکہ کے بعد اظھار اسلام کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا جس کے جسم و روح میں اسلام نام کی کوئی شی نہ تھی وہ موقع پرستی کی بنا پر حکومت کے عالی منصب میں نفوذ کرتا چلا گیا، یھاں تک کہ عثمان کے زمانے میں بھت زیادہ ہی قدرت و اقتدار کا حامل تھا، بلکہ اس سے قبل ہی شام کی حکومت اس کے فرزندوں کے ھاتھ میں تھی۔

---------------

128. سورہ فتح/15۔

۸۸

بنی عباس کی بھی موقع پرستی، انقلاب کے تمام طرفدار حضرات کے لئے ایک عبرت کا مقام ہے، بنی عباس نے اہل بیت اطھار علیھم السلام کی محبوبیت و آل محمد علیھم السلام کی رضایت کے نام پر قیام کر کے لوگوں کو اپنے اطراف جمع کر لیا اور جب اپنے اس ھدف میں کامیاب ھوگئے تو اہل بیت اطھار پر ویسے ہی مظالم کئے جیسے بنی امیہ کرتے تھے تقریباً شیعوں کے نصف ائمہ کی تعداد، بنی امیہ اور نصف ائمہ، بنی عباس کے ذریعہ شھید کئے گئے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام آغاز ہی سے اس موقع پرستی کی تحریک کو پھچانتے تھے جس وقت ابو مسلم نے آپ کے پاس خط لکھا کہ آپ تیار رھیے ہم خلافت آپ کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں امام نے فرمایا:

((ما انت من رجالی ولا الزمان زمانی)) (129)

نہ تم میرے افراد میں سے ہو اور نہ ہی زمانہ میرا زمانہ ہے۔

جس وقت ابو سلمہ خلال، بنی عباس کے طرفدار نے اس مضمون کا خط امام کے لئے بھیجا آپ نے نامہ جلاتے ہوئے فرمایا:

((مالی و لأبی سلمة هو شیعة لغیری)) (130)

مجھے ابو سلمہ سے کیا کام؟ وہ تو کسی اور کا تابع اور پیرو ہے۔

-------------

129. الامام الصادق و المذاھب الاربعہ، ج3 و 4، ص 312۔

130. ملل و نحل شھرستانی، ج1، ص241؛ الامام الصادق و المذاھب الاربعہ،ج3 و4، ص314۔

۸۹

تاریخ معاصر میں بھی مشروطیت تحریک میں موقع پرستوں کے نفوذ کی بنا پر تاریخ درد ناک حوادث کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، مشروطیت تحریک اور قیام کو وجود میں لانے والے وحید خراسانی، شیخ فضل اللہ مازندرانی و شیخ فضل اللہ نوری جیسے عظیم و ممتاز علماء تھے یہ علماء تھے جو سخت و مشکل مراحل میں میدان میں حاضر اور تحریک کو کامیابی کی طرف لے جارھے تھے، جیسے ہی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگے مغرب زدہ افراد، آزادی اور عدم استبداد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے موقع پر حاضر ھوگئے، علماء پر تمھت کی بارش کرتے ہوئے، مشروطیت کو اس کے صحیح راہ و روش سے منحرف کر بیٹھے، اس وقت حالات یہ ھوگئے کہ، ماحصل مشروطہ، استبداد سے لبریز پھلوی کی پچاس سالہ حکومت تھی۔

شیخ فضل اللہ نوری جو مشروطہ کے بانی حضرات میں سے تھے، مشروطہ کی مخالفت کے جرم میں تختہ دار پر لٹکادئے گئے اور شھادت کے بعد ان کے بدن و جسم سے وہ بے حرمتی کی گئی جسے قلم بیان کرنے سے قاصر ھے(131)

آخوند خراسانی اور انجمن کے دیگر قائدین مخفیانہ شھید کر دئے گئے موقع پرست تحریک کو اصل ھدف و مقصد سے موڑ کر اپنے منافع کی خاطر تحریک پر قابض ھوگئے۔

صنعت پیٹرولیم کو ملّی کرنے کی تحریک میں مرحوم آیت اللہ کاشانی مبارزے کے میدان میں وارد عمل ہوئے ہم عصر بزرگ فقھاء جیسے آیت اللہ محمد تقی خوانساری، آیت اللہ سید محمد روحانی، سے فتاوی حاصل کرکے، اس تحریک کے لئے معاشرہ کے افراد کی حمایت کو منظّم کیا، لیکن اس تحریک کی کامیابی کے بعد موقع پرست، تعصب قومی کے دلدادہ (مذھب و روحانیت کے مخالف) حاضر و آمادہ دستر خوان پر براجمان ھوگئے، شکر یہ سپاس گذاری کے بجائے نمک کھاکر، نمک حرامی کے مصادیق افعال انجام دینے لگے۔

---------------

131. فضل اللہ نوری و مشروعیت: رویاروئی دو اندیشہ، ص251 و 255۔

۹۰

آیت اللہ کاشانی کے محضر میں بدترین و بیھودہ ترین حرکات انجام دیتے تھے، آپ کو گوشہ نشینی پر مجبور کردیا گیا، شھید نواب صفوی اور آپ کے ہم رکاب جو اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کئے تھے، مصدّق کے مسند قدرت پر تکیہ دینے کے بعد زندان کے حوالہ کر دئے گئے۔

آیت اللہ شھید مطھری قدس سرہ نے مختلف تحریکوں میں، موقع پرستوں کے نفوذ کے سلسلہ میں عمیق و کامل نکات کو عرض کیا ہے جس کو نقل کرنا بھت فائدہ مند ہے۔

ایک تحریک کے اندر، موقع پرست افراد کا نفوذ اور رخنہ اس تحریک کے لئے عظیم آفت و مصیبت ہے، تحریک کے ارکان و قائدین کا اہم فریضہ ہے کہ اس قسم کے افراد کے نفوذ و رخنہ کے راستے کو مسدود کردیں، جو تحریک بھی اپنے اول مرحلہ کو طے کررھی ہوتی ہے اس کی مشکلات و دشواری وغیرہ صاحب ایمان اور اخلاص و فداکار افراد کے کاندھوں پر ہوتی ہے لیکن جیسے ہی اس تحریک کے ثمرہ دینے کا وقت آتا ہے یا اس کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں، گلستان تحریک کی کلیاں کھلنے لگتی ہیں، موقع پرست افراد کے سرو گردن دکھائی دینے شروع ہوجاتے ہیں، جیسے جیسے دشواری میں کمی آنے لگتی ہے اور ثمرے کے استفادہ کا وقت نزد یکتر ہوتا رہتا ہے موقع پرست و فرصت طلب پہلے سے کہیں زیادہ تحریک اور انجمن کے لئے سینہ چاک کر کے میدان عمل میں وارد ھوتے ہیں اور آھستہ آھستہ تحریک کے سابقین، انقلابی، فداکار مومن اور دل سوز کو میدان سے بے دخل کرتے چلے جاتے ہیں، اس نوعیت کے اقدام اس طرح عام ھوچکے ہیں کہ مثل کے طور پر کھا جانے لگا ہے انقلاب فرزند خور ہے گویا انقلاب کی خاصیت یہ ہے کہ جیسے ہی کامیابی سے ہم کنار ہوا اپنے فرزند (ممبران) کو ایک ایک کر کے ختم کردیتا ہے، لیکن انقلاب فرزند خور نہیں ہے بلکہ موقع پرست افراد کے رخنہ و نفوذ سے غفلت ورزی ہے جو حادثہ کو وجود میں لاتا ہے کہیں دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، مشروطیت تحریک کے انقلاب کو کون سے افراد نے پایۂ تکمیل تک پھنچایا؟

۹۱

کامیابی دلانے کے بعد کیسے کیسے چہرے منصب اور مقام پر قابض ہوئے اور سر انجام کیا ہوا؟ آزادی طلب مجاھدین، قومی سر براہ و قائدین ایک گوشہ میں ڈال دئے گئے فراموشی کے حوالے کردئے گئے اور آخرکار گرسنگی و گمنامی کی حالت میں سپرد خاک کردئے گئے لیکن وہ فلان الدولہ وغیرہ------ جو کل تک استبداد و ڈکٹیر کے پرچم تلے انقلابی طاقتوں سے برسر پیکار تھے، نیز مشروطیت تحریک کے ممبران کی گردنوں میں پھانسی کی رسی ڈال رہے تھے، وہ صدارت عظمی کے منصب پر فائز ھوگئے سر انجام مشروطیت تحریک ڈکٹیر شپ میں تبدیل ھوکر رہ گئی۔

موقع پرستی کا منحوس اثر اسلام کی اول تاریخ میں بھی آشکار ہوا عثمان کے دور خلافت میں موقع پرست افراد نے صاحبان ایمان و اسلام کے مقام و مقاصد کو اپنے ھاتھوں میں لے لیا، رسول کے ذریعہ مدینہ سے اخراج شدہ فرد وزیر بن گئے اور کعب الاحبار کردار والے اشخاص مشاور، ابوذر و عمار صفت والے یا تو شھر بدر کردئے گئے یا خلافت کے قدموں تلے روند ڈالے گئے۔

کیوں قرآن فتح مکہ کے قبل کے جھاد، و انفاق میں اور فتح مکہ کے بعد کے انفاق و جھاد میں فرق قرار دے رہا ہے، در حقیقت قرآن فتح مکہ کے قبل کے مومن و منفق اور فتح مکہ کے بعد مومن منفق کے درمیان تفریق کا قائل ہے۔

(لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل اولئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بعد و قاتلوا و کلا وعدا الله الحسنی والله بما تعملون خبیر) (132)

اور تم میں فتح مکہ سے پہلے انفاق کرنے والا اور جھاد کرنے والا اس شخص کے جیسا نہیں ھوسکتا ہے کہ جس نے فتح مکہ کے بعد انفاق اور جھاد کیا ہے پہلے جھاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے اگر چہ خدا نے سب سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور وہ تمھارے جملہ اعمال سے باخبر ہے۔

-------------

132. سورہ حدید/10۔

۹۲

راز مطلب واضح ہے فتح مکہ جو کچھ بھی تھا دشواری، مشکلات، مشقت کا تحمل ہی تھا فتح مکہ سے قبل ایمان، انفاق و جھاد، اخلاص ترو بے شائبہ تر تھا موقع پرستی کی روح و فکر سے بعید تھا، برخلاف فتح مکہ کے بعد کے انفاق، ایمان و جھاد، ان میں اخلاص بی شایبہ نہ تھا۔

تحریک کو ایک اصلاح طلب فرد آغاز کرتا ہے موقع پرست نہیں، اسی طریقہ سے تحریک کے مقاصد کو ایک اصلاح طلب مومن آگے بڑھا سکتا ہے نہ موقع پرست کہ ہمیشہ اپنے منافع کے فکر و خیال میں رہتا ہے۔

بھر حال موقع پرست افراد کے نفوذ و رخنہ سے مبارزہ و معرکہ آرائی ہی (فریب دینے والے ظواھر کے باوجود) ایک بنیادی شرط ہے تاکہ ایک تحریک اپنے اصلی راستہ و ھدف پر گام زن رھے(133)

انقلاب اسلامی کے اصلی معمار حضرت امام خمینی (رح) بھی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے، نیز تاریخ ماضی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہمیشہ موقع پرست اور سوء استفادہ کرنے والوں سے ھوشیار رھنا چاھئے، اور ان کو فرصت نہیں دینا چاھئے کہ کشتی انقلاب اور اس کے چھوٹے موٹے وسائل کی بھی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے سکیں، آنے والی نسلوں کے لئے آپ کی وصیت و نصیحت یہ ہے کہ:

-------------

133. نھضتھای اسلامی در صد سال اخیر، ص96۔99۔

۹۳

میں تمھارے درمیان میں رھوں یا نہ رھوں تم سب لوگوں کو وصیت کر رہا ہوں کہ موقع و فرصت نہ دینا کہ اسلامی انقلاب نا اہل و نامحرم (غیر) افراد کے ھاتھوں میں چلا جائے(134) ۔

امام خمینی (رح) مشروطہ تحریک سے عبرت گیری کی ضرورت کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اگر علماء، ملت، خطبا، دانشور، روشنفکر، صحافی اور متعھد حضرات سستی کریں اور مشروطہ کے واقعات سے عبرت حاصل نہ کریں تو انقلاب انھیں حالات سے دوچار ہوگا جس سے مشروطہ تحریک دوچار ھوئی تھی(135)

صاحبان غیرت دینی کی تحقیر

ادوار تاریخ میں انبیاء کے دشمنوں کی سیاسی رفتار کی ایک خصوصیت، متدین غیرت دار افراد کی تحقیر ہے حضرت نوح کے دشمن نوح کی پیروی کرنے والے افراد کو پست، حقیر، وکوتاہ فکر سمجھتے تھے۔

(وما نریک اتبعک الا الذین هم ارا ذلنا بادی الرای) (136)

اور تمھارے اتباع کرنے والوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ھمارے پست طبقہ کے سادہ لوح افراد ہیں۔

----------------

135. کلمات قصار پند ھاو حکمتھا، ص176۔

136. سورہ ھود/ 27۔

۹۴

حضرت نوح علیہ السلام کے دشمن آپ کی پیروی نہ کرنے کی توجیہ و تاویل کرتے ہوئے یہ عذر پیش کرتے تھے کہ آپ کی پیروی کرنے والے پست انسان ہیں اور ہم ان کے ساتھ ھماھنگ معاسرت نہیں کرسکتے۔

(قالوا أنومن واتبعک الارذلون) (137)

ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ پر کس طرح ایمان لے آئیں جب کہ آپ کے سارے پیروکار پست طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

پیامبر اسلام کی تاریخ میں بھی اسی قسم کے واقعات ھمیں دکھائی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں قریش کے بزرگان اپنے جاھل افکار کی بنا پر مستضعف مومنین کے پہلو میں بیٹھنے کو اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے تھے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیشکش کی کہ آپ ان افراد کو اپنے سے دور کردیں تو ہم آپ سے مل بیٹھیں گے اور آپ سے استفادہ کریں گے، کفار قریش کی اس پیشکش کے بعد ذیل کی آیت نازل ھوئی اور پیامبر اسلام کو حکم دیا گیا کہ بطور قاطع کافروں کی پیشکش کو ٹھکرادیں۔

واصبر نفسک مع الذین یدعون ربهم بالغدٰوة والعشی یریدون وجهه ولا تعد عیناک عنهم ترید زینة الحیوٰة الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبه عن ذکرنا واتبع هواه وکان امره فرطاً) (138)

اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاھیں ان کی طرف سے نہ پھر جائیں کہ نزندگانی دنیا کی زینت کے طلبگار بن جاؤ اور ھرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔

--------------

137. سورہ شعراء/111۔

138. سورہ کھف/ 28۔

۹۵

تحقیر اور سفاھت کی تھمت انبیاء حضرات کے ماننے والوں تک محدود نہیں بلکہ خود انبیاء حضرات بھی دشمنوں کی طرف سے سفاھت کی تھمت کے شکار ھوتے تھے، قوم عاد صرحتا اور تاکید کے ساتھ حضرت ھود علیہ السلام کو سفیہ کھتی تھی۔

(قال الملاء الذین کفروا من قومه انا لنراک فی سفاهة) (139)

قوم میں سے کفر اختیار کرنے والے رؤسا نے کہا کہ ہم تم کو حماقت میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔

انبیاء و صاحبان ایمان کے دشمنوں میں سے بعض دشمن منافق ہیں جو دونوں روش کا استعمال کرتے ہیں، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی تحقیر کرتے ہیں اور مومنین کی بھی، منافق پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سادہ لوح اور خوش خیال (زود باور) کہتے تھے اور مومنین کو سفھاء میں شمار کرتے تھے(140)

(واذا قیل لهم آمنوا کما آمن الناس قالوا انؤمن کما امن السفهاء الا انهم هم السفهاء ولکن لا یعلمون) (141)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان اختیار کریں؟ حالانکہ اصل میں یھی بیوقوف ہیں اور انھیں اس کی واقفیت بھی نہیں ہے۔

لیکن چونکہ منافقین، دین و ایمان کا اظھار کرتے تھے لھذا پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں زیادہ اعتراضات و تکذیب کی جرأت نہیں رکھتے تھے بلکہ حضرت کی رفتار و گفتار اور اخلاقی خصائص میں عیب جوئی کیا کرتے تھے، اسی طریقہ سے مومنین کی تحقیر و توھین میں ان کی دینی و سیاسی کار کردگی کو مورد تنقید قرار دیتے تھے، تاکہ اس تنقید کے ذریعہ ان کے اصل ایمان کا مضحکہ و تمسخر کیا جاسکے۔

-------------

139. سورہ اعراف/66۔

140. سورہ توبہ/ 16۔

141. سورہ بقرہ/ 13۔

۹۶

وہ افراد جو جنگ کے سلسلہ میں زیادہ خدمات انجام دے چکے تھے، ان کی تحقیر کی نوعیت کچھ اور تھی اور وہ افراد جو اپنی بے بضاعتی کی بنا پر کم خدمات انجام دیتے تھے ان کی دوسرے طریقہ سے توھین کرتے تھے۔

(الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم ولهم عذاب الیم) (142)

جو لوگ صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے مومنین اور ان غریبوں پر جن کے پاس ان کی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے الزام لگاتے ہیں اور پھر ان کا مزاق اڑاتے ہیں، خدا ان کا بھی مزاق بنادے گا اور اس کے پاس بڑا درد ناک عذاب ہے۔

صاحبان ایمان کی تحقیر و توھین کرنے میں منافقین کا اساسی ھدف یہ ہے کہ ان کی دینی غیرت و حیا کو سست کرتے ہوئے دینی فرائض کے انجام دینے کی حساسیت و اشتیاق کو مومنین سے سلب کر لیا جائے، یہ بات سب کے لئے آشکار ہے کہ جب تک مسلمانوں میں بے لوث دینداری کے جذبات، موجزن رھیں گے اسلامی اقدار کی توھین کے مقابلہ میں عکس العمل کا اظھار کرتے رھیں گے، لھذا منافقین اپنے اصلی ھدف و مقصد میں، جو کہ دین کی حاکمیت کو پامال کرنا ہے، کامیاب نہیں ھوسکتے منافقین، مومنین اور ان کے دینداری کے مظاہر کی تحقیر و توھین کے ذریعہ کوشش کرتے ہیں کہ دین و مذہب کی حساسیت کو ختم یا کم کردیں، دین و اسلامی اقدار کو فردی و شخصی رفتار کے دائرہ میں محدود کردیں تاکہ اس طریقۂ و زاویہ سے اسلامی حکومت کو تسخیر اور دین کے چھرہ کو مسخ کرسکیں۔ اسی بنیاد پر منافقین اغیار و بیگانہ سے روابط رکھے ہوئے ہیں اور دوستانہ سلوک کرتے ہیں، لیکن اپنوں اور مومنین سے غضب ناک ظلم و بربریت کا سلوک کرتے ہیں بالکل ان صفات کے مخالف ہیں جسے خداوند متعال مومنین کے لئے ترسیم کر رہا ہے، خدا مومنین کے لئے (رحماء بینھم و اشداء علی الکفار) تعریف کر رہا ہے لیکن منافقین کی بہ نسبت اشداء، اغیار کی بہ نسبت رحماء ھیں(143)

--------------

142. سورہ توبہ/ 79۔

143. سورہ فتح/ 29۔ (محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء الکفار رحماء بینھم) محمد خدا کے فرستادہ ہیں اور وہ لوگ جوان کے ساتھ ہیں کفار کے مقابلہ میں سخت اور اپنوں کے درمیان مھربان ہیں۔

۹۷

وحدت اور ھمبستگی

منافقین کی سیاسی رفتار کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی نظام کی حاکمیت و اسلام پر ضرب لگانے کے لئے وہ ایک دوسرے سے مرتبط ہیں وہ لوگ اسلام کو آسیب پزیر بنانے کے لئے اور دینی حاکمیت کو ضعیف کرنے کے لئے اپنے داخلی اختلافات سے ھاتھ روک رکھے ہیں اور اسلام کے مقابلہ میں متحد ہوجاتے ہیں۔

(المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض) (144)

منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے ہیں۔

اس وحدت و یکجھتی کی آبیاری کے لئے سازشی مرکز بناتے ہیں اور اسلام کے خلاف کارکردگی کے لئے جلسات بھی تشکیل دیتے ہیں، ہر زمانہ کے سازشی مراکز اس عصر و زمان کے تناسب سے ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ مسجد ضرار کی تعمیر ہے، کہ اس قضیہ کو بیان کیا جاچکا ہے، وہ لوگ چاہتے تھے کہ مسجد کے ذریعہ مومنین کے درمیان تفرقہ کی ایجاد، اور دشمن کے لئے جاسوسی کریں اور مسلمین پر ضربہ وارد کرنے، نیز کفر کی ترویج کے لئے استفادہ کریں کہ رسوا و ذلیل کردئے گئے، اس واقعہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین اپنے منظّم پروگرام کے تحت دین کے خلاف ہر وسیلہ سے استفادہ کرتے ہیں، جہاں مناسب سمجھتے ہیں وھاں دین سے سوء استفادہ کرتے ہوئے حقیقی دین ہی کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ ان کی خواہش تھی کہ مسجد بناکر، اس کے ذریعہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کے لئے استعمال کریں، مختلف جلسات کی تشکیل و تنظیم، تاکہ اسلام کے خلاف پروگرام مرتب کیا جائے ان کی تشکیلاتی افعال میں سے ہے۔

--------------

144. سورہ توبہ/67۔

۹۸

قرآن باصراحت اعلان کر رہا ہے کہ منافقین روز میں پیامبر گرامی کی سخن و گفتگو سماعت کرتے تھے، لیکن شب میں سازشی جلسہ کی تشکیل کر کے پیامبر گرامی (ص) کے رھنمود و گفتگو کے مقابلہ کی راھیں تلاش کرتے تھے۔

(ویقولون طاعة فاذا برزوا من عندک بیت طائفة منهم غیر الذین تقول والله یکتب ما یبیتون) (145)

یہ لوگ پہلے اطاعت کی بات کرتے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو ایک گروہ اپنے قول کے خلاف تدبیر کرتا ہے اور خدا ان کی باتوں کو لکھ رہا ہے۔

وہ جلسہ جو جنگ تبوک کے سلسلہ میں سویلم یھودی کے گھر میں تشکیل پایا تھا تاکہ لوگوں کو جنگ تبوک سے روکنے کے لئے راہ و روش کو پیدا کیا جاسکے، ان ھزاروں سازشی جلسے و پروگرام میں سے ایک ہے جسے منافقین انجام دیتے تھے۔(146)

منافقین سے مقابلہ کرنے کے لئے، یکجھتی و اتحاد اور پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے یکجھتی ایسی ہو جس کا ھدف و مقصد فرائض کی انجام دھی اور سازش سے مقابلہ کرنا ھو، یکجھتی کے اھداف اسلامی معاشرے میں وحدت و اتحاد کے لئے میدان ھموار کرنا ھو، تاکہ دشمنوں کی سازش کو ناکام بنایا جاسکے، نہ کہ یکجھتی خود جدید اور ماڈرن بتوں میں تبدیل ھوجائے اور تفرقہ و اختلاف کے عوامل بن جائے(147)

اختلاف سلائق، کثرت آراء، اسلامی شایستگی و اقدار کے دائرے میں ہی رشد و نمو پاتی ہیں لیکن اگر خود پرستی، اھانت نمائی، آبروریزی وتھمت زنی وغیرہ------ خدا محوری، شرح صدر، تحمل و بردباری کی جگھیں لے لیں، تو صرف دشمن ہی اس سے فایدہ اٹھائیں گے جس کے نتیجہ میں اسلامی معاشرہ نا قابل تلافی اور ضرر سے دوچار ہوگا، جیسے اختلاف و تشتت اور پراکندگی نیز اسلام کی حاکمیت کی تضعیف وغیرہ-------- کہ دشمنان اسلام کی دیرینہ و بنیادی آرزو بھی یھی ہے۔

--------------

145. سورہ نساء/ 81۔

146. اس جلسہ کی تشکیل اور اس کے افشاء ہونے کے سلسلہ میں بیان کیا جاچکا ہے۔

147. سورہ روم/31، 32 (ولا تکون من المشرکین من الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاً کل حزب بما لدیھم فرحون) مشرکوں میں سے نہ ھوجانا، ان لوگوں میں سے جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروھوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست ومگن ہے۔

۹۹

حضرت علی علیہ السلام نے شھرانبار (عراق) میں معاویہ کے جاسوس و کار گزار کی دخالت اور تجاوز، اور افراد کے تجاوز کو رفع و دفع کرنے کے سلسلہ میں سستی برتنے کی بنا پر فرمایا:

((فیا عجباو الله یمیت القلب و یجلب الّهم من اجتماع هولاء القوم علی باطلهم و تفّرقکم عن حقکم)) (148)

کس قدر حیرت انگیز و تعجب خیز صورت حال ہے خدا کی قسم یہ بات دل کو مردہ بنادینے والی ہے اور ہم و غم کو سمیٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پر مجتمع اور متحدہ ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نھیں۔

اس نکتہ کی یاد آوری بھی ضروری ہے کہ منافقین کا اتحاد و وحدت وقتی اور مخصوص زمانہ کے لئے ہوتا ہے صرف اسلامی نظام کو ختم کرنے کے لئے ہے، لیکن جب اپنے مقاصد میں کامیاب ھوگئے یا صرف یہ کہ ابھی کامیابی کی خفیف علامت ہی سامنے آئی، تفرقہ و جدائی میں گرفتار ہونے لگتے ہیں اس لئے کہ ان کے اتحاد کا محور و مرکز باطل ہے اور ایسی وحدت کبھی بھی پائدار نہیں رہ سکتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ باطل ہمیشہ کمزور و ناپائدار ہے، باقی رھنے والی شی صرف حق ہے اور بس۔

-------------

148. نھج البلاغہ، خطبہ27۔

۱۰۰