قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 30%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71147 / ڈاؤنلوڈ: 5107
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

كيا اس صورتحال ميں حفصہ سے رسول خدا كى شادى ايك بيوہ كى نفسياتى شكست اور عثمان و ابوبكر سے ازردگى ختم كرنے كيلئے نہيں تھى ؟

اسى زمانے ميں دوسرى خواتين جيسے ام سلمہ جو بڑى عمر كى اور صاحب اولاد تھيں اور ان كے شوھر جنگ احد ميں مارے گئے تھے ،شھر غربت ميںكيا كر سكتى تھيں كيا ان كے لئے ايسا ممكن تھا كہ اسى خانوادے ميں واپس جائيں جنكے تشدد سے تنگ اكر انھوں نے حبشہ كى طرف فرار كيا تھا _

يا وہ دوسرى خاتون زينب بنت خزيمہ جنكى رسول خدا سے پہلے دو مرد وں سے شادياں ہوئي تھيں اور دوسرے شوہر جنگ احد ميں شھيد ہوئے تھے ، وہ اپنى زندگى كے دن كيسے كاٹ سكتى تھيں ؟

اسى طرح ابو سفيان كى بيٹى ام حبيبہ جو اپنے خاندان كى سختيوں سے تنگ اكر اپنے شوہر كے ساتھ حبشہ بھاگ گئي تھيں ، وہاں ان كے شوہر كا انتقال ہوگيا انكى بيچارگى كا درمان سوائے اس كے اور كيا تھا كہ رسول كے زير سايہ اجائيں ام حبيبہ اسى ابو سفيان كى بيٹى ہيں جس نے اسلام كا نام و نشان مٹانے اور رسول خدا كو ذليل كرنے كيلئے كوئي پاپ نہيں چھوڑا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جو بھى سركشى كا پرچم بلند ہوا اسكا بانى مبانى ابو سفيان ، اپ نے اسى ابو سفيان كى ابرو كا اسطرح تحفظ فرمايا كہ جسكا گمان بھى نہيں كيا جاسكتا تھا ، ہاں ، اگر قريش نے ابو سفيان كى سر كشى ميں يہ كوشش كى تھى كہ اپ كى بيٹيوں كو طلاق دلا كر انكے گھر واپس كرديا جائے اج وہى پيغمبر ہيں ، اسى ابو سفيان كى بيٹى كو حبشہ سے نكاح نامے كے ساتھ اپنى زوجہ بنا ليا ، انھيں اعزاز و اكرام كے ساتھ مدينہ بلوايا ، يعنى انھيں عرب كے شريف ترين شخص كى خاتون بنا ليا ، رسول خدا خانوادہ ء عبد المطلب سے جو تھے يہى وہ بات تھى كہ ابو سفيان جھومنے لگا ، اور ايسا جملہ زبان سے نكالا جو ہميشہ كيلئے ضرب المثل بن گياذالك الفحل لا يقدع انفه _

يہ وہ مرد ہے كہ اسكى ناك نہيں رگڑى جا سكتى اسكے دماغ پر ہتھوڑا نہيں لگايا جا سكتا ، ايسى كردار كى عظمت كا رد عمل تمام بنى اميہ كے افراد خاندان ميں كيا تھى جو كچھ گذشتہ صفحات ميں نقل كيا گيا اسكى مثال ميرے علم ميں تو نہيں ہے ليكن اس واقع كى نطير جو مجھے معلوم ہے قبيلہ بنى المصطلق كے سردار كى بيٹى كى شادى كا واقعہ ، تفصيلى انداز ميں نظر اتا ہے

۴۱

قبيلہ بنى المصطلق خزائمہ كى ايك شاخ تھا ، اور مدينے سے پانچ منزل پر رہتا تھا ، اسكا سردار حارث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرنے كيلئے قبائل عرب كو ملا كر ايك بڑا لشكر تيار كر چكا تھا كہ ناگہان رسول خدا نے اچانك ان پر حملہ كر ديا ،

اس وقت دوسرے قبائل جو اسكى كمك ميں ائے تھے سبھى بھاگ گئے ، رسول خدا نے ان سے اسلام قبول كرنے كو كہا ، انھوں نے قبول نہيں كيا ، جنگ بھڑك اٹھى ، حارث كے قبيلے نے شكست كھا كر ہتھيار ڈال دئے ، قيديوں ميں خود حارث كى بيٹى بھى تھى ، جس انصارى نے اسے اسير كيا تھا رسول خدا نے اسكو خريد كر ازاد كر ديا ، پھر اس سے خود ہى عقد كر ليا ، اور اپنى ازواج ميں شامل كر ليا ، حالانكہ اگر چاہتے تو بطور كنيز اس سے ہم بستر ہوتے ، مسلمانوں نے اس ازدواج كے احترام ميں اپنے تمام قيديوں كو ازاد كر ديا ، اس اعلى ظرفى كى خبر حارث كو ملى تو مدينے ايا اور اسلام قبول كر ليا اسكے بعد تمام قبيلے والے مسلمان ہو گئے ، صلح حديبيہ كے زمانے ميں اسكا قبيلہ اور خزائمہ كا قبيلہ جس طرح قريش ہم پيمان ہوئے تھے يہ بھى ہم پيمان ہوئے _

يہيں سے جنگ زدہ عرب كے قبائل كى حكمت پر نظر جاتى ہے ، وہ لوگ جب چاہتے تھے كہ صلح و اشتى قائم ہو تو ظالم قبيلہ مظلوم قبيلے كو اپنى بيٹى ديديتا تھا ، اور اس طرح شادى بياہ كے ذريعے سياسى رابطہ بر قرار ہو جاتا تھا ، واضح بات ہے كہ رسول خدا كى تمام شادياں اس قاعدے سے مستثنى نہيں تھيں ، مثلاً صفيہ سے اپكا نكاح جو خيبر كے يہودى سردار كى بيٹى تھيں يا ريحانہ جو بنى نظير كے يہوديوں ميں سے تھيں اور اسكا شوہر بنو قريظہ كا يہودى تھا _

اس طرح كى شاديوں سے رسول خدا كا مقصد واضح ہوتا ہے كہ اپ سركش قبائل سے رشتہ قائم كرنا چاہتے تھے ، اس حكمت كى وضاحت اس سے بھى ہوتى ہے كہ اپ نے كوئي ايك رشتہ بھى انصار سے قائم نہيں كيا ، كيونكہ انصار كى بيوہ عورتيں خود اپنے گھر اور ٹھكانے ميں تھيں ، اپنے خاندان ميں تھيں ، ان كو كسى سرپرستى يا معاشى تعاون كى ضرورت نہيں تھى ، بلكہ انصار ہى نے مكہ كے مہاجروں كى مالى مدد كى ، انھيں گھر ، لباس اور كھانا ديا ، ان تمام شاديوں سے رسول خدا كى حكمت عملى روشن ہے صرف دو مواقع ہيں جنكے تجزيے كى ضرورت ہے ، پہلى تو عائشه سے اپ كى شادى ، كيونكہ رسول خدا نے ان سے نو سال پورے ہوتے ہى ازدواج فرمايا ،اور خود ہى يہ رواج موجودہ عادات كے مخالف ہے ،اور جو لوگ شھرى زندگى بسر كرتے ہيں ان كے خصوصيات سے ميل نہيں كھاتا _

اس اعتراض كے جواب ميں اول تو ہم يہ كہيں گے كہ اس عہد كے زمانى و مكانى حالت كو اج كے زمانى و مكانى حالت پر قياس كرنا غلط ہے ، ہم يہ بھى كہيں گے كہ خود رسول ہى نے ايسى كم عمر ميں شادى نہيں كى ، بلكہ اپ نے بھى اپنى پيارى بيٹى كا عقد نو سال ہى كى عمر ميں كيا ،اور يہ بات اسلامى قانونى لحاظ سے صحيح ہے دوسرے يہ كہ انسان كى فطرت ہے كہ گرم شہروں ميں جلد بالغ ہو جاتا ہے اور جلد ہى ٹوٹ پھوٹ بھى جاتا ہے ، يہ چيز اج ہندوستان ميں ديكھى

۴۲

جا سكتى ہے ، وہاں كى اكثر لڑكياں جلد بالغ اور بچے والى ہو جاتى ہيں اور جلد ہى بوڑھى بھى ہوجاتى ہيں ، اسى كے مقابل تبتى كہساروں معاملہ اس كے الٹا ہے ، جيسا كہ كہا جاتا ہے وہاں مردوں كا سن كبھى كبھى دو سو سال تك پہونچ جاتا ہے اور سو سال ميں وہ جوان نظر اتا ہے _

دوسرا واقعہ زينب بنت جحش كے نكاح كا ہے ، جو رسول كے منھ بولے بيٹے اسامہ كى مطلقہ تھيں ، اس ازدواج كى حكمت ميں نے وہيں بيان كى ہے _

ان تمام تجزيوں سے رسول خدا كى متعدد ازواج كى حكمت واضح ہے پھر ان كے بارے ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اخر كيا بات ہوتى كہ رسول خدا كے خلاف بد گمانى اور غلط فہمى تعدد ازواج كے بارے ميں پيدا ہو گئي ، اس سوال كا جواب يہ ہے كہ جس وقت ہم نے حديث و سيرت كے تجزيے كئے تو ہم نے ديكھا كہ تمام غلط فہمياں صرف اور صرف ان حديثوں سے رسول خدا كے عورت باز ہونے كى نشان دہى ہوتى ہے ، اور خود يہى اہم ترين مسئلہ اس كتاب كے لكھنے كا سبب بنا ہے _

ايندہ فصلوں ميں ہم بعض روايات پر بحث كريں گے _

عائشه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں

رشك، و غيرت

ہم نے بتايا كہ عائشه نفسياتى اعتبار سے بلند پرواز جاہ طلب ، تند خو اور شوھر كے لئے دل ميں رشك برتنے والى تھيں ، وہ شوہر كے دل ميں دوسرے كو جاگزيں نہيں ديكھ سكتى تھيں _

ان كے شديد غيرت و حسد كا نمونہ اس وقت نظر اتا ہے جب رسول خدا نے وقتى مصلحت كے تحت دوسرى شادى كى _

عائشه كا حسد اس وقت سامنے اتا ہے جب ام سلمہ زينب اور دوسرى خواتين رسول كے گھر ميں ائيں ، اس دور ميں ان لوگوں كا نام درميان ميں اتا ہے اور بے جھجھك اپنے اندرونى احساسات كو بغير كسى پردہ پوشى كے ظاہر كيا ہے ، اور اپنى شديد غيرت كو لچر اور بے بنياد خيالات ميں بيان كيا ہے _ خاص كر ان راتوں ميں جب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا عبادت كے لئے گھر سے نكلتے ہيں ، رسول خدا اندھيرى راتوں ميں جس وقت كے تمام دينا سكون و اطميان سے سو رہى ہوتى

۴۳

اپنے خدا سے راز و نياز ميں مصروف ہو جاتے ، كچھ رات گذرتى تو خداسے خلوت و عبادت كرتے ، اس قسم كى عبادت كا اقدام اسطرح ہوتا كہ رسول خدا كى ہر رات كسى زوجہ كيلئے مخصوص ہوتى ، يہى وجہ تھى كہ كچھ رات گذرنے كے بعد گھر سے باہر نكلتے جيسے مسجد ميں يا بقيع كے قبرستان ميں جاتے ، اور وہيں عبادت كرتے ، اسى طرح ايك رات جبكہ عائشه كى بارى تھى ، رسول خدا كو انھيں كے گھر رہنا تھا ، جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے كچھ رات گذرنے كے بعد عبادت كے لئے گھر سے قدم نكالا عائشه كى نسوانى رشك و غيرت بھڑك اٹھى ، انھوں نے رسول خدا كا تعاقب كيا ، ان كے پيچھے پيچھے چليں تاكہ يہ ديكھيں كہ رسول خدا كہاں جا رہے ہيں اور كيا كر رہے ہيں ؟

عائشه نے خود ہى مختلف مواقع اور مختلف راتوں ميں اس تعاقب كے نمونے بيان كئے ہيں ، ايئےم انھيں كى زبانى سنيں _

راتوں كا تعاقب

عائشه كہتى ہيں ، ايك رات ميں نے محسوس كيا كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے بستر پر نہيں ہيں ، ميرے غم و غصے سے بھرے و سوسے اور خيالات نے اس گمان پر مجبوركيا كہ يقينى طور سے كسى دوسرى عورت كے يہاں گئے ہيں ، يہ سوچكر ميں اپنى جگہ سے اٹھى اور انھيں تلاش كرنے لگى كہ ناگاہ انھيں مسجد ميں پايا ، وہ مسجد ميں پڑے فرما رہے تھے _

ربّ اغفرلى (خدا يا مجھے بخش دے )(۲) _

ايك اور جگہ فرماتى ہيں :

ميں نے ايك رات ديكھا كہ پيغمبر اپنے بستر پر نہيں ہيں ميں نے دل ميں سوچا كہ يقينا كسى دوسرى زوجہ كے يہاں گئے ہيں ، كان كھڑے كر كے ادھر ادھر تلاش كرنے لگى ناگہاں ديكھا كہ بارگاہ خدا وندى ميں ركوع كر رہے ہيں(۳)

ان كا يہ بھى بيان ہے كہ ميں نے ايك رات اپ كو اپنے بستر پر نہيں پايا ، انھيں ڈھونڈھنے كيلئے اپنى جگہ سے اٹھى اور

____________________

۲_ مسند احمد ج۶ /ص ۱۴۷

۳_ مسند احمد ج۶ص ۱۵۱

۴۴

تاريك رات ميں ہر طرف بے اختيار ہاتھ چلانے لگى اچانك ميرا ہاتھ ان كے تلوے پر پڑ گيا ، وہ مسجد كے اندر بارگاہ خدا وندى ميں سجدہ كى حالت ميں فرما رہے تھے(۴) _

اسى طرح وہ فرماتى ہيں :

ايك رات ميرى بارى تھى كہ رسول خدا ميرے گھر رات بسر كريں ، اپ نے عباء دوش سے اتار كر ايك طرف ڈالا ، جوتے ڈھونڈ ھكر بستر كے نزديك پيروں كے پاس ڈالا اسوقت اپنے چادر منھ پر ڈالى اور ليٹ گئے ، دير تك ايسے ہى رہے اس حد تك كہ اندازہ كر ليا كہ ميں سو گئي ہوں پھر اپ اپنى جگہ سے اٹھے دھيرے سے اپنى عبا اٹھائي اسطرح جوتے پہنے كہ اواز نہ ہو ، پھر اپ نے كواڑكھولى اور گھر سے اسطرح نكلے كہ پيروں كى چاپ بھى نہ سنائي دے ، ميں بغير كچھ سونچے اپنى جگہ سے اٹھى ، اپنے كپڑے پہنے ، اوڑھنى سر پر ڈالى اس پر عبا كھينچ كر تيزى كے ساتھ گھر سے نكلى اور ان كا پيچھا كرنے لگى ،ميں نے انھيں بقيع كے قبرستان ميں پايا ، رسول خدا وہاں بيٹھے اور كافى دير ٹھرے رہے پھر ميں نے ديكھا كہ تين بار ہاتھوں كو اسمان كى طرف بلند كيا ،پھر واپس ہوئے ميں بھى واپس ہوئي ،وہ تيز بڑھنے لگے ،ميں بھى تيز چلنے لگى ،وہ اور تيزى سے قدم بڑھائے ميں نے بھى ايسا ہى كيا ، وہ دوڑنے لگے تو ميں بھى دوڑى ، اخر كار ان سے پہلے گھر ميں اگئي اور بس اتنى دير كہ اپنے كپڑے اتار لے اور ليٹ گئي ، اتنے ميں رسول خدا اگئے ، اس وقت ميرى سانس پھول رہى تھى رسول خدا نے فرمايا ، اس طرح تيز سانسيں كيوں لے رہى ہو؟

كچھ نہيں ، اے خدا كے رسول

تم خود كہو گى يا ميرا واقفكار خدا اس راز سے اگاہ كرے گا ؟

ميرے ماں باپ فدا ہوں ، بات اصل ميں ايسى اور ايسى تھي

اچھا تو وہ سياہى جو ميرے اگے اگے تھى وہ تم تھيں ؟

جى ہاں _اسوقت رسول خدا نے ہتھيلى سے ميرى پشت پر اسقدر زور سے مارا كہ درد ہونے لگا _

تو نے ايسا گمان كيا تھا كہ خدا و رسول تيرے اوپر ظلم كريں گے ؟(۵)

____________________

۴_ مسند احمد ج۶ ص۵۸ و ج۶ ص۲۰۱

۵_ مسند احمد ج۶ ص۲۱ ۲

۴۵

يہ بھى بيان ہے :

ايك رات رسول خدا ميرے پاس سے نكل كھڑے ہوئے ميرى غيرت اور حسد خويش ميں ايا ، غصے ميں بھر گئي ، جب انحضڑت واپس ائے اور ميرا حال ديكھا تو وجہ پوچھى ، اور فرمايا عائشه تجھے كيا ہوگيا ہے پھر بھى تو حسد اور غصہ كرتى ہے _

اخر ميرے جيسى اپ جيسے كى حسد كيوں نہ كرے _

تو پھر اپنے شيطان كے جال ميں پھنس گئي ہے(۶)

يہ بھى بيان ہے :

جب كچھ رات گذر گئي ، رسول خدا اٹھے اور گھر سے نكل گئے ميں نے گمان كيا كہ كسى زوجہ كے گھر گئے ہوں گے _

پھر ميں اٹھى اور دھيرے دھيرے ان كا پيچھا كرنے لگى ، يہاں تك كہ اپ بقيع كے قبرستان ميں گئے ، وہاں اپ بيٹھ گئے ، اور ان مومنوں سے جو ابدى نيند سوئے ہوئے تھے خطاب فرمايا :

اے گروہ مومنين تم پرصلوات

اچانك اپ مڑے تو مجھے اپنا پيچھا كرتے پايا تو فرمايا :

وائے ہو اس پر ، اگر قابو چلے تو كيا كيا كر گذرے(۷)

عائشه اور ديگر ازواج رسول (ص)

مد بھيڑ _سوتاپا

ام المومنين عائشه سے رنگ و صورت سے رشك و حسد اور نسوانى غيرت ، اور بد خلقى ظاہر ہوئي ہے ، جس كے نمونے دوسرى ازواج رسول كے لئے اپے سے باہر ہونے ، برتن توڑنے اور كھانوں كو پھينكنے ، چال ڈھال كے ڈھنگ اور مد بھيڑوں ميں نظر اتے ہيں ، ميں نے ان دونوں باتوں كى الگ الگ طريقے سے بحث و تحقيق كى ہے ، پہلے عائشه كے رد عمل كو پيش كرونگا كہ دوسرى خواتين نے رسول خدا كے لئے كھانا تيار كر كے خدمت ميں حاضر كيا تو عائشه كا رد عمل كيا ہوا ، اسكے بعد دوسرى ازواج رسول سے انكى مد بھيڑوں كو مورد بحث و تحقيق قرار دوں گا _

____________________

۶_مسند احمد ج۶ ص ۱۱۵

۷_ مسند احمد ,ج۶صفحات ۸۶ و ۱۱۱, بروايت قاسم مسند طيالمى حديث ۱۴۲۹

۴۶

بد حواسياں

فلما رايت الجاريه اخذتنى رعدة حتى استقلنى افكل ، فضربت القصعة فرميت بها

ميں نے جيسے ہى كھانے لئے ہوئي كنيز كو ديكھا تو ميں تھر تھر كانپنے لگى ، پھر تو ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن تھاما اور دور پھينك ديا _

اتفاق ايسا ہوا كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ، ايك دوسرى زوجہ نے اپ كے لئے كھانا تيار كر كے بھيجا اس وقت ام المومنين قابو سے باہر ہو گئيں اور شديد رد عمل ميں ايسا غصہ دكھايا كہ اسكے نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں

عائشه اور ام سلمہ كى غذا

ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ام سلمہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كھانا تيار كر كے ايك برتن ميں ركھ كر بھيجا ، عائشه كو پہلے يہ ام سلمہ كى ہى يہ خوش خدمتى معلوم ہو گئي تھى وہ خود كو عبا ميں لپيٹے ہوئي تھيں ، ہاتھ ميں پتھر تھا ،اسى پتھر سے كھانے كے برتن كو ايسا مارا كہ برتن ٹوٹ گيا ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عائشه كى يہ حركت ديكھى تو اس برتن كے بدلے دوسرا برتن ام سلمہ كے لئے بھيج ديا(۸)

عائشه اور حفصہ كا كھانا

خود ہى عائشه كا بيان ہے:

ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے لئے كھانا تيار كيا تھا ، اتنے ميں مجھے خبر ملى كہ حفصہ نے بھى ايسا ہى كيا ہے ، ميں نے اپنى كنيز كو حكم ديا كہ تيار رہو اگر ديكھنا كہ حفصہ مجھ سے پہلے كھانا لے ائي ہے تو اس سے چھين كر دور پھينك دينا ، كنيز حكم بجا لائي اور ايسا ہى كيا ، نتيجے ميں حفصہ كے كھانے كا برتن ٹوٹ گيا اور جو كچھ برتن ميں تھا چرمى دستر خوان پر بكھر گيا ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بذات خود گرے ہوئے كھانے كو جمع كر كے مجھ سے فرمايا :

اپنا برتن لائو اور حفصہ كے ٹوٹے برتن كے بدلے اسے بھيج دو(۹)

____________________

۸ _ صحيح مسلم باب الغيرة

۹_ مسند احمد ج۶ /۱۱۱،و كنزالعمال ج۴ ,ص۴۴

۴۷

عائشه اور صفيہ كا كھانا

صفيہ كا تعارف گذشتہ صفحات ميں كيا گيا ، اب ذرا ام المومنين عائشه كے بارے ميں بھى سنئے ، خود عائشه كى زبانى كھانے كا برتن دور پھينكنا اور صفيہ كا برتن ٹوٹنا ملاحظہ فرمايئے عائشه كہتى ہيں :

ايك دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميرے گھر ميں تھے ، صفيہ نے كھانا پكا كر انحضرت كى خدمت ميں بھيجا ، جب ميں نے كھانا لئے ہوئے كنيز كو ديكھا تو ميرے جسم مين لرزہ پڑ گيا يہاں تك كہ ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن چھين كر دور پھينك ديا ، ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى انكھيں غصے سے لال ديكھيں ان كے تمام وجود سے غم و غصہ جھلك رہا تھا ، ميں نے فوڑاً كہا :

رسول خدا كے غصے سے حضرت كى پناہ چاہتى ہوں ، مجھے اميد ہے كہ نفرين نہ فرمائيں گے ، تو بہ كرو _

اب ميں اس عمل كى تلافى كيسے كروں ؟

ويسا ہى كھانا بھيجو اور ويسا ہى برتن فراہم كر كے بدلے ميں بھيجو(۱۰) _

مد بھيڑيں

تغار على قلب زوجها ، فلا تريد ان تشاركها فيه انثى غيرها

عائشه اپنے شوہر پر بہت حاسد تھيں يہ حداست تھا كہ اپنے سوا دوسرى عورت كے لئے شوہر كے دل ميں ذرا گنجائشے نہيں ديكھ سكتى تھيں اب موقع ہے كہ ديگر ازواج رسول سے ام المومنين عائشه كى تند مد بھيڑوں اور گرما گرم اقدامات كا مطالبہ كيا جائے_

عائشه و صفيہ

عائشه اور صفيہ ايك گھر يلو مد بھيڑ ميں ايك دوسرے كے ساتھ بد كلامى كرنے لگيں طعنہ زنى كے ساتھ مار پيٹ كرنے لگيں _

جب رسول خدا كو ان دونوں كے جھگڑے اور دعوے كى خبر ہوئي تو صفيہ سے فرمايا جو عائشه كى ملامت اور ڈينگو ں سے سخت رنجيدہ تھيں تم نے يہ كيوں نہ كہا كہ ميرے باپ ہارون تھے اور چچا حضرت موسى تھے ؟(۱۱)

____________________

۱۰_ مسند احمد ج ۶ ص ۲۷۷ ،۱۴۴_ نسائي ج۲ ص ۱۵۹، سيرة حلبيہ ۲۸۳ ،۲۸۴

۱۱_ طبقات ابن سعد ج,۸

۴۸

خود عائشه كا بيان ہے :

ميں نے رسول خدا سے شكايت كرتے ہوئے كہا كہ صفيہ ايسى اور ويسى ہے ، ميں نے اسكى بڑى مذمت كى رسول خدا نے ميرا جواب ديا :

صفيہ كے بارے ميں تم نے ايسى باتيں كہى ہيں كہ اس سے سمندر بھى گندہ ہو جائے(۱۲)

صفيہ كا بيان ہے :

ميں رسول خدا كى خدمت ميں روتى ہوئي پہونچى ،مجھے روتے ہوئے ديكھا تو فرمايا :

جس كى بيٹى كيو ں رورہى ہو؟

ميں نے سنا ہے كہ عائشه و صفيہ بيٹھ كر ميرى برائياں كرتى ہيں(۱۳)

سودہ كے ساتھ

ام المومنين عائشه كا سودہ كے ساتھ دعوى اور تھپڑ بازى كا قصہ يوںپيش ايا كہ ايك دن عائشه نے سودہ كوشعر گنگنا تے ہوئے سن ليا ،عدى و تيم تبتغى من تحالف_

عدى اور تيم (دونوں كے نام ہيں ) اس بات كے در پے ہيں كہ ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كے ہم پيمان ہوں _

سودہ سے يہ شعر سن كر ام المومنين لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہوگئيں _

عمر كى بيٹى حفصہ سے كہا :

سودہ اپنے شعر سے ميرى اور تمھارى مذمت كر رہى ہے(۱۴) ميں اس بد تميزى كى سزا دونگى جب تم ديكھنا كہ ميں سودہ كا گلا دبا ديا ہے تو ميرى مدد كو اجانا _

پھر وہ اٹھيں اور سودہ كے پاس پہونچى ان كا گريبان پكڑ ليا ، اور ان كے اوپر گھونسے اور لاتيںبرسانے لگيں ، حفصہ بھى ام المومنين كى پشتيبانى ميں كھڑى تھيں ، ام سلمہ نے يہ منظر ديكھا تو سودہ كى مدد كرنے پہونچ گئيں _

____________________

۱۲_ ترمذى بحوالہ زر كشى اجابہ ص۷۳

۱۳_ مستدرك الصحيحين ج۴ ، ص۲۹

۱۴_ جيسا كہ بيان كيا گيا عائشہ قبيلہء تيم سے تھيں اور حفصہ قبيلہء عدى سے يہ دونوں تيم و عدى قبيلے الگ الگ قريش كے قبيلے تھے

۴۹

اب تو چار عورتيں غصے اور كينہ توزى كا مظاہرہ كر رہى تھيں ، نتيجے ميں گھوسے بازى سے اواز تيز ہوتى گئي ، لوگوں نے رسول خدا كو خبر دى كہ اپ كے ازواج جان لينے دينے پر امادہ ہيں ، انحضرت تشريف لائے اور ان سے خطاب فرمايا :

تم سب پر افسوس ہے اخر تم لوگوں كو كيا ہو گيا ہے ؟

عائشه نے جواب ديا :

خدا كے رسول اپ نے سنا نہيں كہ سودہ يہ شعر پڑھ رہى ہے عدى و تيم تبتغى من تحالف _

وائے ہو تم پر ، اس شعر مين تمھارے قبيلہ تيم كى طرف نہيں ہے نہ حفصہ كے قبيلہ عدى كى طرف اشارہ ہے ، بلكہ يہ تو بنى تيم كے دو قبيلوں كى طرف اشارہ ہے _

بے مہر يہ عورتوں كے ساتھ

عائشه كا بيان ہے:

ايسى عورتوں پر جو بغير مہر لئے اپنے كو رسول خدا كيلئے پيش كرتيں اور اپ كى زوجہ بننے كى خواہشمند ہوتيں ، ميرا خون

جوش مارنے لگتا ، مارے غصے كے ميں ان سے كہتى ، كيا ازاد اور اہميت والى عورت بھى خود كو دوسروں كے لئے بخشتى ہے ؟

خاص طور سے ايسے وقت جبكہ يہ آيت نازل ہوئي ،اپنى ازواج ميں سے جسے چاہو الگ كردو اور جسے چاہو اپنے لئے ركھو ، تمھارے اوپر كوئي گناہ نہيں (سورہ احزاب آيت ۵۰_ ۵۱)

ميں نے رسول خدا كى طرف رخ كر كے كہا ، ميں ديكھ رہى ہوں كہ خدا بھى اپ كى خواہش كے مطابق آيت اتار ديتا ہے(۱۵)

ابن سعد نے اپنى طبقات ميں تفصيلى طور سے خواتين كے بارے ميں جنھوں نے بغير مہر لئے اپنے كو رسول كے لئے پيش كيا ، اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ بننے كى خواہش كى ان كے بارے ميں قلم فرسائي كى ہے ، خاص طور سے اس خاتون كے لئے جن كے بارے ميں ابھى اشارہ كيا گيا ، اسكا نام شريك اورغزيہ بتايا ہے(۱۶) اسى بات كو ابن حجر نے بھى كتاب اصابہ ميں تفصيل سے لكھا ہے(۱۷)

____________________

۱۵_ صحيح بخارى تفسير سورہ احزاب ميں ج۳ ص۱۱۸_ صحيح مسلم ج۴ ص ۲۷۴

۱۶_ طبقات بن سعدج ۸ص ۱۵۴_۱۵۶

۱۷_ اصابہ ابن حجر ج۴ ص ۳۶۱و ۱۷۴

۵۰

ليكن بطور كلى علماء نے ان متذكرہ خاتون كے بارے ميں جسكى طرف قران نے اشارہ كيا ہے ، اختلاف كيا ہے ، اور يہ اختلاف اس صورت سے ہے كہ جس خاتون يا جن خواتين نے اپنے كو بے مہر لئے خدمت رسالت ميں پيش كيا اور ام المومنين عائشه كے غم و غصے كا شكار ہوئيں وہ ايك ہيں يا كئي عورتيں ہيں ، اگر چہ آيت صرف ايك عورت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، افسوسناك بات تو يہ ہے كہ اس خاتون كے نام كى اج تك نشاندہى نہيں ہو سكى _

ليكن اس دليل سے كہ عائشه نے جن خواتين كيلئے غم و غصہ ظاہر كيا اسے جمع كے لفظ سے بيان كيا ہے (كنت انحا ء على اللائي و هبن )

( ميں ان عورتوں پر جو بے مہر لئے )اس سے ثابت ہوتا ہے كہ وہ كئي خواتين تھيں امام احمد نے اپنى مسند ميں اس بات كو جمع كى ضمير كے ساتھ ام المومنين كى طرف نسبت دى ہے _

وہ (عائشه )ان عورتوں كو ملامت كرنے لگيں جنہوں نے اپنے كو بغير مہر لئے رسول كى خدمت ميں پيش كيا(۱۸)

مسلم نے اپنى صحيح ميں ھشام كى روايت نقل كى ہے كہ خولہ بنت حكيم ان عورتوں ميں تھيں جنھوں نے بغير مہر لئے رسول

سے ازدواج كى خواہش ظاہر كى ، اور اپنے كو رسول كے لئے بخشا ، عائشه اس بات پر بہت غصہ ہوئيں اور كہاكيا يہ عورت كيلئے شرمناك نہيں ہے كہ خود كو كسى مرد كيلئے بخشے اور بغير مہر كے ازدواج كى خواہش كرے(۱۹)

مليكہ كے ساتھ

رسول خدا نے فتح مكہ كے بعد مليكہ بنت كعب سے عقد فرمايا ، مليكہ كے باپ كعب فتح مكہ كے موقع پر خالد كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے _

كہتے ہيں كہ مليكہ انتہائي حسين و خوبصورت عورت تھى ، گويا اس وصال سے عائشه كا نفرت و عناد بر انگيختہ ہونا بنيادى بات ہو سكتى ہے كيونكہ عائشه اپنى خاص موقع شناسى اور نسوانى تندى احساس لئے ہوئے مليكہ سے مليں اور كہا ، تمھيں شرم نہيں اتى كہ اپنے باپ كے قاتل كو شوہر بنا ليا ہے ؟

____________________

۱۸_ مسند احمد ج۴ ص ۱۳۴ _ صحيح بخارى ج۴ ص ۱۶۲ - ابن ھشام ج۴ ص ۳۲۵ _

۱۹_ صحيح مسلم ج۳ ص ۱۶۳

۵۱

مليكہ اسانى سے عائشه كى اس سرزنش كا شكار ہوگئيں اور ايسا دھوكہ كھايا كہ رسول خدا سے الگ ہو گئيں ، رسول خدا نے بھى انھيں طلاق ديدى اس كے رشتہ دار رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ :

اے خدا كے رسول وہ ابھى نوجوان ہے ، وہ دھوكہ كھا گئي ہے ، اس سے جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس كى اپنى رائے سے نہيں ہوا ہے اسے معاف كر ديجئے اور واپس بلا ليجئے ، ليكن رسول خدا نے اسے قبو ل نہ فرمايا(۲۰)

اسماء كے ساتھ

اسماء بنت لقمان قبيلہ كندہ كى خاتون تھيں ، وہ خاص طور سے عائشه كے رشك و حسد كا شكار ہوئيں ، رسول خدا نے اسماء سے عقد فرمايا عائشه تو اس قسم كى باتوں ميں سخت حساس ہو ہى جاتى تھيں اسكى مسافر ت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبضے ميں كر ليا اور طعنہ ديا كہ ،

( اب دوسرى بار اوارہ وطن ہے اور انھيں بھى ہم سے چھين كر اپنے لئے خاص ، ہم سے لے لى )

قبيلہ كندہ كا ايك وفد جسميں اسماء كا باپ لقمان بھى تھا ، رسول خدا كى خدمت ميں ايا رسول خدا نے ان سے اسماء كى خواستگارى كى جب رسول كى ازواج نے اسماء كو ديكھا تو رشك كرنے لگيں اور رسول كى نظر سے گرانے كے لئے مكارى سے بوليں ،اگر خوش قسمت بننا چاہتى ہو تو جسوقت رسول خدا تمھارے پاس ائيں ان سے كہو ،تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں اسماء اسانى سے دھوكہ كھا گئي ، جيسے ہى رسول خدا نے كمرے ميں قدم ركھا اور اس كى طرف بڑھے ، اسماء نے كہا :

تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں

جو بھى خدا كى پناہ طلب كرے ، وہ اسكى امان ميں ہے ، اب تم اپنے گھر واپس جائو ، اپ غصے ميں بھرے كمرے سے باہر نكل ائے اسماء كا واقعہ حمزہ بن ابواسيد ساعدى اپنے باپ سے روايت كرتے ہوئے اسطرح نقل كرتے ہيں ، رسول خدا نے قبيلہ جون و كندہ كى اسماء بنت نعمان سے عقد كيا ، مجھے بھيجا كہ اسے جاكر لے ائوں وہ ائي تو عائشه و حفصہ نے سازش كى كہ اسے ايك خضاب كرے اور دوسرى سر ميں كنگھى كرے اسى درميان دونوں ميں سے كسى نے ايك نے اسماء سے كہا :

____________________

۲۰_ طبقات ابن سعد ج۸ ص ۱۴۸_ تاريخ ذھبى ج۱ ص ۳۳۵ _ تاريخ ابن كثيرہ ج۵ ص ۱۹۹ _ اصابہ ج۴ ص ۳۹۲

۵۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عورت سے خوش ہوتے ہيں جو كہتى ہے كہ ميں خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ، تم بھى اگر انكى پيارى بننا چاہتى ہو تو ايسا ہى كہو ،رسول خدا اسماء كے پاس ائے تو جيسا اسے پڑھايا گيا تھا اس نے رسول خدا سے كہا ، اپ سے خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ،يہ سنتے ہى رسول خدا نے استين سے اپنا منھ چھپا كر تين بار فرمايا:

تو نے سب سے بڑى پناہ پكڑى ، پھر اپ كمرے سے باہر اگئے اور مجھ سے فرمايا :

ابو اسيد اسكو اسكے خاندان ميں واپس پہونچا دو اور دو روٹى بھر كے تھيلے بطور تحفہ ديدينا اسماء اس اچانك واقعے سے سناٹے ميں تھى ، جو فريب ديا گيا تھا ،اسكى وجہ سے بہت رنجيدہ تھى عمر بھر اس واقع كو ياد كرتى رہى ، وہ كہتى تھى اب مجھے اسماء نہ كہا كرو بلكہ بد بخت كہا كرو اور اسطرح پكا را كرو ادعونى الشقية (ميرے لئے بد بخت كو بلا دو )(۲۱)

اس واقع سے معلوم ہوتا ہے كہ جن خواتين نےام المومنين كے سكھانے پڑھانے سے خدا كى پناہ طلب كى وہ ايك سے زيادہ تھيں _

____________________

۲۱_ ذيل المذيل طبرى ج۱۲ ص۷۹ و مستدرك حاكم ج۷ ص۳۴ _ استيعاب ج۲ ص ۷۰۳ _ اصابہ ج۳ ص ۵۳۰ ۹۵ ميں ہے كہ اسماء تمام عمر خون تھوكتى رہى اسے دق ہو گئي تھى اور وہ مر گئي _

۵۳

ماريہ كے ساتھ

اسكندريہ كے حكمراں مقوقس ۷ھ اپنے بوڑھے بھائي مابور كے ساتھ ماريہ اور اسكى بہن شيريں كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے ايلچى حاطب(۱) بن بلتعہ كے ساتھ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں ہديہ بھيجا ، انھيں كے ساتھ ہزار مثقال سونا ، بيس ريشمى كپڑے ، مشھور خچر دلدل اور عفير نام كا گدھا روانہ كيا ، حاطب نے راستے ميں ماريہ اور شيريں كو اسلام قبول كرنے كيلئے كہا ان دونوں نے خوشى سے اسلام قبول كر ليا ، ليكن مابور مدينہ پہونچنے تك اپنے دين پر باقى تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماريہ كو اپنے لئے مخصوص فرماليا اور انھيں محلہ عاليہ(۲) كے ايك گھر جو اج مشربہ ام ابراہيم كے نام سے مشھور ہے ركھا ازاد عورتوں كى طرح انھيں حجاب ميں ركھا اور ان سے ازدواج فرمايا ،ماريہ كو حمل ٹھرا اور اسى گھر ميں لڑكا پيدا ہوا جس وقت ابراہيم پيدا ہوئے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كنيز سلمى(۳) نے دايہ كے فرائض انجام دئے ، سلمى كے شوہر ابو رافع نے جب انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرزند ابراہيم كے ولادت كى خوشخبرى سنائي تو اپ نے خوشى ميں انھيں انعام ديا _

ابراہيم كى ولادت ۸ھ ميں ہوئي ، انصار كو اس سے بڑى خوشى ہوئي تھى انھوں نے ماريہ كى ضرورت پورى كرنے ميں ايك دوسرے سے بارى لے جانے كى كوشش كى اور بوجھ بٹانے كى ہر ممكن سعى كى ، كيونكہ وہ ماريہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا والہانہ تعلق ديكھ رہے تھے _

اس لئے دوسرى ازواج كو جب ولادت ابراہيم كى خبر معلوم ہوئي تو ماريہ سے ان كا رشك و حسد بڑھ گيا ، وہ جل بھن گئيں ، انھوں نے اعتراض و شكايت كى زبانيں بھى كھول ديں ، ليكن اس طعن و ميں كوئي بھى عائشه سے اگے نہ بڑھ سكا _(۴)

____________________

۱_ حاطب كا نام عمر بن عمير اور كنيت ابو عبد اللہ تھى _ قبيلہ لخم كے تھے رسول نے انہيں ۶ھ ميں مقوقس كے پاس بھيجا _ مقوقس نے ماريہ اور شيريں و ديگر ہدايا كے ساتھ روانہ كيا _ حاطب كى ۳۱ھ ميں مدينہ ميں وفات ہوئي _ عثمان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي _ اسد الغابہ _ اصابہ اور استيعاب ديكھئے

۲_ مدينے كے بالائي حصہ كو عاليہ كہتے _ وہاں قبيلہ بنى نظير رہتا تھا

۳_ زوجہء رسول صفيہ كى كنيز سلمى تھيں_ وہ جنگ خيبر ميں موجود تھيں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليھا كى دايہ كے فرائض بھى انجام دئے تھے _ انہوں نے غسل فاطمہ ميں بھى شركت كى تھى

۴_ طبقات بن سعد ج۱ ص ۱۳۴

۵۴

خود عائشه كا بيان :

مجھے ماريہ سے زيادہ كسى عورت پر رشك و حسد نہيں ہوا ، ماريہ بہت حسين تھى ، اسكے بال گھونگھريالے تھے ، جو ديكھتا ديكھتا ہى رہ جاتا ، اس پر مزيد يہ كہ رسول خدا اس سے بہت محبت كرتے تھے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شروع ميں ماريہ كو حارثہ(۵) بن نعمان كے گھر ميں ركھا اور جب ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى اس سے والہانہ محبت ديكھى تو ماريہ كى مخالفت ميں جٹ گئي ، اس قدر ستايا كہ ماريہ نے مجھ سے تنگ اكر رسول سے شكايت كى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھى اسے عاليہ كے مكان ميں منتقل كر ديا اور وہيں اسكے پاس جاتے ،يہ تو ميرے اوپر اور بھى گراں گذرا خاص طور سے ميرى اتش رنج اور جلن اتنى بڑھى كہ خدا نے اسے لڑكا بھى ديديا ، حالانكہ خدا نے مجھے اولاد سے محروم ركھا وہ يہ بھى كہتى ہيں _

جب ابراہيم پيدا ہوئے ايك دن رسول خدا بچے كو ميرے پاس لائے اور فرمايا :

_ذرا ديكھوتو مجھ سے كس قدر شباھت ركھتا ہے

_ نہيں ، ہرگز ايسا نہيں ، ميں تو كوئي شباہت نہيں ديكھتي

_ كيا تم اسے ميرى طرح گورا نہيں ديكھ رہى ہو ،بالكل ميرے بدن كى طرح ہے_

_ ارے جسے بھى بكرى كا دودھ پلايا جائے گا سفيد اور موٹا ہوہى جائےگا_

عائشه اور حفصہ كى انہيں حركتوں اور سخت جلن كى وجہ سے خدا نے ماريہ كى برائت ميں سورہ تحريم نازل فرمائي موثق روايات كى بناء پر رسول خدا نے حفصہ كے گھر ميں ماريہ سے ہمبسترى فرمائي _ جب حفصہ كو اس كى خبر ہوئي تو بھڑك اٹھيں _لگيں انحضرت سے چلّا چلا كر گلا شكايتيں كرنے ، اس قدر اسمان سر پر اٹھا يا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حفصہ كى دلجوئي اور خوشنودى كے لئے ماريہ كو اپنے اوپر حرام كر ليا ، ليكن اسى كے ساتھ حفصہ سے كہا كہ يہ بات كسى سے نہ كہنا ، اور اس راز كو كسى دوسرے سے بيان نہ كرنا حفصہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تمام تاكيدوں كو قطعى نظر انداز كر ديا ، اس راز كو عائشه سے بيان كر ڈالا ، وہ بھى ايك تحريك ميں معاون ہو گئيں پھر تو دونوں كى عيارياں اور كج رفتارياں بڑھتى گئيں ، اخر كار ان دونوں كى سرزنش ميں سورہ تحريم نازل ہوئي اور خدا نے اس راز سے پردہ اٹھا يا _(۶)

____________________

۵_ حارثہ قبيلہ بنى نجار سے تھے _ جنگ بدر اور بعد كى دوسرى جنگوں ميں شريك رہے حارثہ كى خلافت معاويہ كى زمانے ميں وفات ہوئي _ اسد الغابہ ج۱ ص ۳۵۸ _ اصابہ ج۱ ص ۱۵۳۲

۶_ طبقات بن سعد ج۸ ص ۱۳۴

۵۵

سورہ تحريم

خدا كے نام سے جو بخشنے والا اور مہربان ہے

اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم كيوں اس چيز كو حرام كرتے ہو جسے خدا نے تمھارے لئے حلال كى ہے ، تم اپنى بيويوں كى خوشى چاہتے ہو ؟اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے _

اللہ نے تم لوگوں كے لئے اپنى قسموں كى پابندى سے نكلنے كا طريقہ مقرر كر ديا ہے ، اللہ تمھارا مولا ہے اور وہى دانا اور حكيم ہے _

اور جس وقت پيغمبر نے اپنى ايك بيوى (حفصہ ) سے راز كى ايك بات كہى تھى ، پھر جب اس بيوى نے اس راز كو (عائشه )پر راز ظاہر كر ديا ، خدا نے اس افشائے راز كو پيغمبر سے باخبر كر ديا (پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى ) اس پر كسى حد تك جو عائشه اور حفصہ كے درميان گذرى تھى تذكرے كے انداز ميں حفصہ سے بيان كيا اور بعض سے در گزر كيا ، پھر جب پيغمبر نے اس افشائے راز كى بات بتائي تو حفصہ نے پوچھا اپ كو اس كى كس نے خبر دى ؟ پيغمبر نے حفصہ كے جواب ميں فرمايا ، مجھے اس نے خبر دى ہے جو سب كچھ جانتا ہے اور اچھى طرح با خبر ہے

اگر تم دونوں (عائشه و حفصہ )خدا كى طرف واپس اتى ہو اور توبہ كرتى ہو تو تمہارے دل سيدھى راہ سے ہٹ گئے ہيں ، اور اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقابلے ميں تم نے باہم جتھہ بندى كى تو جان ركھو كہ اللہ اس كا مولى ہے اور اس كے بعد جبرئيل اور مومنوں ميں مرد صالح ہے ، اور سب ملائكہ اسكے ساتھى اور مددگار ہيں ،بعيد نہيں كہ اگر پيغمبر تم سب بيويوں كو طلاق ديدے تو اللہ اسے ايسى بيوياں تمہارے بدلے ميں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچى مسلمان ، با ايمان ، اطاعت گذار ، توبہ والى ، عبادت گذار اور روزہ دار ہوں خواہ شوہر ديدہ ہوں يا باكرہ _

۵۶

اے لوگو جو ايمان لائے ہو بچائو اپنے اپ كو اور اپنے اہل و عيال كو اس اگ سے جسكا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، جس پر نہايت تند خو اور سخت گير فرشتے مقرر ہوں گے ، جو كبھى اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے اور جو حكم بھى انھيں ديا جاتا ہے اسے بجالاتے ہيں _

اے كافرو اج معذرتيں پيش نہ كرو تمھيں تو ويسا ہى بدلہ ديا جا رہا ہے جيسے تم عمل كر رہے تھے _

اے لوگو جو ايمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ كرو ، خالص توبہ ، اميد ہے كہ اللہ تمہارى برائياں تم سے دور كر دے اور تمھيں ايسى جنتوں ميں داخل فرمادے جن كے نيچے نہر يں بہہ رہى ہوں گى ، يہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے پيغمبر كو اور ان لوگوں كو جو اس كے ساتھ ايمان لائے ہيں رسوا نہ كرے گا ان كا نور ان كے اگے اگے اور ان كے دائيں جانب دوڑ رہا ہو گا ، اور وہ كہہ رہے ہوں گے كہ اے ہمارے پروردگار ، ہمارا نور ہمارے لئے مكمل كر دے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چيز پر قدرت ركھتا ہے _

اے رسول ، كفار اور منافقين سے جہاد كرو اور ان كے ساتھ سختى سے پيش ائو ، ان كا ٹھكانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھكانا ہے _

اللہ كافروں كے معاملے ميں نوح اور لوط كى بيويوں كو بطور مثال پيش كرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں كى زوجيت ميں تھيں ، مگر انھوں نے اپنے شوھروں سے خيانت كى اور اللہ كے مقابلے ميں ان كے كچھ بھى نہ كام اسكے ، دونوں سے كہہ ديا گيا كہ جائو اگ ميں جانے والوں كے ساتھ تم بھى چلى جائو اور اہل ايمان كے مقابلے ميں اللہ فرعون كے بيوى كى مثال پيش كرتا ہے جبكہ اس نے دعا كى ،اے ميرے رب ، ميرے لئے اپنے يہاں جنت ميں ايك گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس كے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھے نجات دے اور عمران كى بيٹى مريم كى مثال ديتا ہے جس نے اپنى عفت كى حفاظت كى پھر ہم نے اس كے اندر اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اس نے اپنے رب كے ارشادات اور اسكى كتابوں كى تصديق كى اور وہ اطاعت گزار لوگوں ميں سے تھى _

سورہ تحريم ام المومنين عائشه بنت ابو بكر اور حفصہ بنت عمر بن خطا ب كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، اس سلسلے ميں سيكڑوں حديثيں ابن عباس كے طريق سے اور خود عمر بن خطاب كے طريق سے وار د ہوئي ہيں جن سے اس حقيقت كا پتہ چلتا ہے_(۷)

اور ميں انشاء اللہ بعد كے صفحات ميں جہاں ام المومنين عائشه كى احاديث پر بحث كروں گا ، وہيں تفصيلى تبصرہ كروں گا _

____________________

۷_صحيح بخارى مطبوعہ مصر سال ۳۶_۳۷ جلد ۳/ ص۱۳۷ ،تفسير سورہء تحريم ، كتاب فضائل القران جلد ۳ / ص۱۳۸ ، اور باب موعظہ الرجل جلد ۳/ ص ۱۴۷ ،كتاب المظالم جلد ۴/ ص۴۷ ، صحيح مسلم الرضاع جلد ۱/ ۵۰۹ صحيح ترمذى ج۲ / ۴۰۹ ، مطبوعہ ہندوستان ، صحيح نسائي ج۱/ ص ۳۰۲ ، اسكے علاوہ تفسير طبرى اور در منثور بھى ديكھى جا سكتى ہے

۵۷

عائشه اور خديجہ كى ياديں

عائشه كا بيان ہے :

ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميں خديجہ سے زيادہ مجھے كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، وجہ يہ تھى كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انھيں بہت يا د كرتے تھے ہر وقت تعريف كرتے رہتے ، خصوصيت يہ تھى كہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو وحى كے ذريعے خبر دى تھى كہ خديجہ كے لئے جنت ميں ايك پر شكوہ اور سجا سجايا محل عطا فرمايا ہے _(۸)

يہ بھى بيان ہے كہ_ حالانكہ ميں نے خديجہ كو نہيں ديكھا تھا ، پھر خديجہ سے زيادہ كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، كيونكہ اكثر ايسا ہوتا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خديجہ كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى تعريف و ستائشے كرتے ، اكثر اپ ايك گوسفند ان كے نام سے قربانى كرتے ،اسكى بوٹياں كركے تقسيم فرما ديتے(۹)

يہ بھى حكايت كرتى ہيں كہ :

ايك دن خديجہ كى بہن ہالہ بنت خويلد نے رسول خدا سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جيسے ہى ہالہ كى اواز سنى ، خديجہ كى ياد اگئي اپ كى حالت شدت سے متغير ہوگئي اور بے اختيار فرمايا :

ہائے ميرے خدا ، ہالہ

يہ سنكر ميرى تو خديجہ سے جلن بھڑك اٹھى تھى ، فوراً كہا اپ اس بے دانت كى بڑھيا كو كتنا ياد كرتے رہتے ہيں ؟

زمانہ ہوا كہ وہ مر گئي اور خدا نے اس سے بہتر اپ كو عطا فرما ديا(۱۰)

ايك دوسرى روايت ميں يہى بات يوں بيان كى ہے _

ميرے اس اعتراض پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو ميں نے ديكھا كہ چہرہ بھڑك اٹھا ، چہرے كى حالت متغير ہو كر ويسى ہو گئي

____________________

۸_ بخارى ج۲ ص۲۷۷

۹_ بخارى ج۲ ص۲۱۰

۱۰_ حضرت خديجہ كے حالات زندگى ، فداكارياں ، امتيازى اور اہم ترين اخلاقى خصوصيات پر مستقل كتاب كى ضرورت ہے _ اپ كے حالات طبقات بن سعد ، استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ كے علاوہ وہ بہت سى كتابيں ديكھنے كى ضرورت ہے _

۵۸

جيسى وحى نازل ہوتے وقت ہوتى ، جب اپ اسمانى حكم كے منتظر ہوتے كہ پيغام رحمت نازل ہوتا ہے يا عذاب(۱۱)

ايك دوسرى روايت ميں ہے _

عائشه كہتى ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ، نہيں ہرگز خدا وند عالم نے مجھے اسكے بدلے اس سے اچھى عورت نہيں دى ، كيونكہ جسوقت تمام لوگ ميرا انكار كررہے تھے ، وہ مجھ پر ايمان لائيں ، لوگ جب مجھے جھوٹا سمجھ رہے تھے ، خديجہ نے ميرى تصديق كى ، جب لوگوں نے مجھے مالى پريشانيوں ميں ڈالا تو انھوں نے اپنى بے حساب دولت ميں مجھے شريك كيا ، خدا نے دوسرى عورتوں سے مجھے اولاد نہيں دى ،خديجہ سے مجھے اولاد عطا فرمائي(۱۲)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہميشہ اپنى اس پہلى رفيقہ حيات كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى يادوں اور ياد گاروں كى تجديد فرماتے ، ان كے رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك فرماتے ، انھيں دوسروں پر مقدم كرتے انكى ياديں تمام زندگى پر محيط رہيں ، يہى وجہ تھى كہ ام المومنين كا سينہ ان كى نفرت و حسد و جلن سے بھر گيا تھا ، اسى وجہ سے جب بھى خديجہ كا نام اتا ، اپ انھيں ياد كرتے تو يہ اعتراض كى زبان كھول ديتيں سب سے بد تر يہ كہ وہ خديجہ كى تعريف سنكر اندوہ سے پاگل ہو جاتيں اپنے كو سرزنش و مذمت كا سزاوار پاتيں ، انھيں باتو ں كى وجہ سے خديجہ كى بيٹى حضرت فاطمہ اور ان كے بچوں سے روابط خراب تھے ، كيونكہ رسول خدا ان سے والہانہ پيار كرتے _

اسى دشمنى اور اندرونى نفرت كے اثرات كا اندازہ مسند احمد بن حنبل كى روايت سے ہوتا ہے جسے نعمان بن بشير نے بيان كيا ہے _

ايك دن ابو بكر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كى اجازت چاہى اسى وقت انھوں نے كمرے سے عائشه كى اواز سنى جو چلا رہى تھيں _

خدا كى قسم ، ميں اچھى طرح جانتى ہوں كہ اپ على كو ميرے باپ سے زيادہ چاہتے ہيں

____________________

۱۱_ مسند احمد ج۶ ص ۱۵۰، ۱۵۴

۱۲_ مسند احمد ج۶ ص۱۱۷ ،وسنن ترمذى ص۲۴۷

۵۹

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے بارے ميں نفرت و عناد كا ايك گوشہ ايك تقرير ميں بيان فرمايا ، ليكن وہ ...عائشه ، اس نے عورتوں كے مزاج كے مطابق عقل كو طاق پر ركھ ديا ہے ، كينہ و عناد كے شرارت اپنے دل ميں اسطرح بھڑكا لئے ہيں جيسے لوہاروں كى بھٹى دھونكى جاتى ہے ، اگر اس سے كہا جائے كہ جو سلوك ،ميرے ساتھ كرتى ہے دوسرے كے ساتھ بھى كرے تو ہرگز پسند نہ كر يگى نہ مانے گى اخر امير المومنين نے بات اس پر ختم كى _

اسكے باوجود اسكے سابقہ احترامات محفوظ ہيں ، اسكے كرتوتوں كا بدلہ خدا ديگا ، وہ جسے چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب ديتا ہے _

ابن ابى الحديد كى عبارت

و كانت تكثر الشكوى من عائشه ، و يغشا ها نساء المدينه فينقلن اليها كلمات عن عائشه _

فاطمہ كا دل عائشه كے طعنوں سے بھر اہوا تھا كيونكہ مدينے كى عورتيں اپ كے پاس اتيں اور طعنوں بھرى باتيں عائشه كى پہونچاتى رہتى تھيں ابن ابى الحديد :

حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام كے بيان كينہ ء عائشه كے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ابن ابى الحديد معتزلى كے بيان و شرح كو بھى بيان كيا جائے كيونكہ يہ بيان غور طلب ہے ، وہ لكھتے ہيں :

ميں جس وقت علم كلام كى تحصيل ميں مشغول تھا ، ميں نے امام كے اس خطبے كو اپنے استاد شيخ ابو يعقوب يوسف بن اسماعيل لمعانى كے سامنے پڑھا ، اور ان سے خواہش ظاہر كى كہ اس كے راز سے مطلع فرمايئے ، شيخ نے ميرى خواہش قبول كى ، انھوں نے جو اس خطبے كى تشريح فرمائي اسكو بطور خلاصہ يہاں نقل كر رہا ہوں ، كيو نكہ انكى پورى بات اس وقت ميرے حافظے ميں نہيں ، پورى تفصيل كو اختصار كے ساتھ پيش كر رہا ہوں _

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

لیکن جہاں حکم، الہی و شرعی نہ ھو، ہر مسلمان کو نظر کے اظھار کا حق ہے، کبھی بھی پیامبر عظیم الشان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوع کے اظھار کو منع نہیں کرتے تھے بلکہ تعریف و تشویق بھی کرتے تھے۔

جنگ احزاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان (رض) کی خندق بنانے کی فکر و نظر اور خیر خواھی کو قبول کرتے ہوئے مورد تاکید بھی قرار دیا، حضرت سلمان (رض) نے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، فارس علاقہ میں جب بھی دشمن کا خطرہ ہوتا ہے شھر کے اطراف میں خندق کھود کر دشمن کی پیش قدمی کو روکا جاتا ہے لھذا مدینہ کے اطراف میں آسیب پذیر علاقے جہاں دشمن وسائل جنگی کو آسانی سے عبور دے سکتا ہے، وھاں خندق کھود کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا جائے، اور خندق کے اطراف میں سوراخ و برج بنا کر دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتے ہوئے شھر کا دفاع کیا جائے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان (رض) کی نظر کو منظور کرتے ہوئے خندق کھودنے میں مشغول ھوگئے(۱۱۶)

ایک دوسری آیت تصریح کر رھی ہے کہ صاحب ولایت کے فرامین سے ھمراھی لازم ہے، اس کے اوامر پر سبقت ممنوع ہے۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی الله ورسوله) (۱۱۷)

اے ایمان والو! خبردار خدا و رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاؤ۔

خدا اور پیامبر سے سبقت لینا یعنی خدا و پیامبر (ص) کے باصراحت دستور و حکم کے سامنے شخصی طور و طریقہ کو استعمال کرنا، یا کسی دوسرے نظریہ کو بیان کرنا، ولایت سے سبقت لینا یعنی صاحب ولایت کی گفتار و اقوال کو کچھ اس طرح تفسیر و تشریح کرنا کہ اپنی پسند و خواہش کے مطابق ھو۔

------------

۱۱۶. تاریخ طبری، ج۲، ص۲۲۴۔ فروغ ابدیت، ج۲، ص۵۳۵۔

۱۱۷. سورہ حجرات/۱۔

۸۱

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس نوعیت کی تاویل کو مورد لعنت قرار دیا ہے۔

((قوم یزعمون انی اما مهم والله ما انا بامام لهم لعنهم الله کلما سترت سرا هتکوه اقول کذا وکذا فیقولون انما یعنی کذا و کذا فیقولون انما یعنی کذا و کذا انما انا امام من اطاعنی)) (۱۱۸)

بعض خیال کرتے ہیں کہ میں ان کا امام ہوں خدا کی قسم میں ان لوگوں کا امام نہیں ہوں خدا ان لوگوں پر لعنت کرے، میں جس راز کو مخفی رکھنا چاھتا ہوں وہ افشا کرتے ہیں، میں کسی قول کو پیش کرتا ھوں، وہ لوگ کہتے ہیں کہ امام کا مقصد یہ ہے وہ ہے (تاویل کرتے ھیں) میں صرف ان افراد کا امام ہوں جو میرے اطاعت گزار و فرمان بردار ہیں۔

بھر حال ولایت کی حریم میں سے ایک، بغیر چون و چرا صاحب ولایت کے احکام و دستور کی پیروی و اطاعت کرنا ہے۔

منافقین کا طرز عمل پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان و دستور کی خلاف ورزی، اور حضرت کے حریم کی حرمت شکنی تھا، لیکن جیسا کہ وضاحت کی گئی کہ معاشرے کے قائدین کے لئے ناصح و خیر خواہ کا لازم ھونا، چون و چرا کے بغیر اطاعت گزار و فرمان بردار ہونے سے کوئی تعارض و تضاد نہیں رکھتا ہے۔

ولایت کے لئے دوسری حریم جو قرآن بیان کر رہا ہے، ولایت کے احترام کا لازم ہونا ہے، قرآن مجید کا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں صدا کو بلند نہ کرنے کا حکم دینا احترام ولایت کے مصادیق میں سے ہے۔

--------------

۱۱۸. بحار الانوار، ج۶۸، ص۱۶۴۔

۸۲

(یا ایها الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النّبی ولا تجهروا اله بالقول کجهر بعضکم لبعض )(۱۱۹)

اے صاحبان ایمان خبردار! تم اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا، اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ھو۔

دوسری آیت میں بھی اسی قسم کے مفھوم کو پیش کیا گیا ہے۔

(لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً) (۱۲۰)

مسلمانوں! خبردار رسول کو اس طرح نہ پکارو۔ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ھو۔

فوق کی دونوں آیات صاحب ولایت سے مومنین کے صحیح برتاؤ و رفتار کو بیان کرتے ہوئے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منافقین کے زشت برتاؤ و روش کو بھی بطور کنایہ پیش کر رھی ہے، صاحب ولایت کے احترام کو تباہ کرنے کے سلسلہ میں منافقین کا ایک اور حربہ، صاحب ولایت (ولی) کو سادہ لوحی کا خطاب دینا ہے۔

(ومنهم الذین یوذون النبی و یقولون هو اذن) (۱۲۱)

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیامبر کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کا ن والے خوش خیال و سادہ لوح) ہیں۔

ولایت کی حریم کو پامال کرنے کے لئے منافقین کی ایک دوسری روش صاحب ولایت (پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال و رفتار پر تنقید کرنا تھا۔

-----------

۱۱۹. سورہ حجرات/۲۔

۱۲۰. سورہ نور/۶۳۔ اس آیت کے لئے دو تفسیر بیان کی گئی ہے، ایک وہ جو متن میں موجود ہے دوسرے وہ جس کی علامہ طباطبائی تاکید کرتے ہیں کہ یہ آیت پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے سلسلہ میں ہے اور مفھوم یہ ہے کہ جس وقت پیامبر (ص) تم کو کسی امر کے لئے بلائیں چونکہ دعوت الہی رھبر کی طرف سے ہے لھذا پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو ایک معمولی و عادی دعوت نہیں سمجھنا چاھئے۔

۱۲۱. سورہ توبہ/۶۱۔

۸۳

حرقوص ابن زھیر جو بعد میں خوارج کا سرغنہ قرار پایا جنگ حنین کے غنائم کی تقسیم کے وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کرتے ہوئے کھا: عدالت سے تقسیم کریں حضرت نے فرمایا: مجھ سے عادل تر کون ھے؟ اس سوء ادب کی بنا پر ایک مسلمان نے اس کو ھلاک کرنا چاھا، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑدو اس کے کچھ مرید ہوں گے اور اتنی عبادت کریں گے کہ تم لوگ اپنی عبادت کو کم حیثیت سمجھو گے لیکن اس قدر عبادت کرنے کے باوجود دین سے خارج ہوجائیں گے(۱۲۲) حرقوص ابن زھیر نھروان میں امام علی علیہ السلام کے ھاتھوں واصل جھنم ہوا۔(۱۲۳)

ذیل کی آیت حرقوص کی حرکت کی مذمت میں اور بعض منافقین کے لئے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنا چاہتے تھے نازل ھوئی ہے۔

(ومنهم من یلمزک فی الصدقات فان اعطوا منها رضوا وان لم یعطوا منها اذا هم یسخطون) (۱۲۴)

اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انھیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے، اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے۔

---------------

۱۲۲. الدرالمنثور، ذیل آیت۵۸ سورہ توبہ۔

۱۲۳. اسد الغابہ، ص۱، ص۴۷۴۔

۱۲۴. سورہ توبہ ۵۸: لمز ونصح کے معنی میں فرق ہے لمز کینہ پروری کے بناء پر عیب یابی کے لئے ہوتا ہے تا کہ شخصیت کو نظروں سے گرا دیا جائے، کھا جاتا ہے۔

۸۴

منافقین کی دوسری سیاسی خصوصیتیں

موقع پرست ھونا

قرآن کی نظر کے مطابق منافقین کی سیاسی خصائص میں سے ایک موقع پرست ہونا ہے، ان کے لئے صرف اپنے منافع اھمیت کے حامل ھوتے ہیں، نفاق کی طرف مائل ہونے کی وجہ بھی یھی ہے، موقع پرستی کا آشکار و ظاہر مصداق کہ جس کے چند مورد کی قرآن نے تصریح کی ہے۔

غنائم کو حاصل کرنے اور میدان نبرد و جنگ سے فرار کرنے میں موقع پرستی کے ماھر تھے، جس وقت مسلمین کامیاب ھوتے تھے بلا فاصلہ خود کو مسلمانوں کی صف میں پھنچا دیتے تھے تاکہ جنگ کے غنائم سے بھرہ مند ھوسکیں اور جس وقت مسلمان شکست وناکامی سے دوچار ھوتے تھے، فوراً اسلام کے دشمنوں سے کہتے تھے، کیا تم سے نہیں کھا تھا کہ اسلامی حکومت نام نھاد حکومت ہے، اور تم کامیاب ھوگے، ھمارا حصہ حوالہ کردو، قرآن مجید منافقین کی موقع پرستیں کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔

الذین یتربصون بکم فان کان لکم فتح من الله قالوا الم نکن معکم وان کان للکافرین نصیب قالوا الم نستحوذ علیکم و نمنعکم من المؤمنین فالله یحکم بینکم یوم القیامة و لن یجعل الله للکافرین علی المومنین سبیلا) (۱۲۵)

اور یہ منافقین تمھارے حالات کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ تمھیں خدا کی طرف سے فتح نصیب ہو تو کہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہیں تھے اور اگر کفار کو کوئی حصہ مل جائے گا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے اور تمھیں مومنین سے بچا نہیں لیا تھا، تو اب خدا ہی قیامت کے دن تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور خدا کفار کے لئے صاحبان ایمان کے خلاف کوئی راہ نہیں دے سکتا۔

---------------

۱۲۵. سورہ نساء/ ۱۴۱، نکتہ قابل توجہ یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کی کامیابی کو فتح سے تعبیر کیا گیا ہے جب کہ کفار کی کامیابی کو نصیب سے تعبیر کیا گیا، اس بات کی طرف اشارہ ہے اگر کفار کو کامیابی ملے تو وہ وقتی اور محدود و پائدار نہیں ہے، لیکن دائمی فتح مومنین کے لئے ہے اس آیت کے ذیل میں اسی نکتہ کی تصریح ھورھی ہے کہ کفار مومنین پر مسلط نہیں ھوسکتے۔

۸۵

موقع پرست اشخاص مشکلات و رنج میں ھمراہ نہیں ھوتے، لیکن فتح و ظفر کی علامت ظاہر ھوتے ہی ان کے چہرے نظر آنے لگتے ہیں اور اپنے سھم و حقوق کا مطالبہ ہونے لگتا ہے، ذیل کی آیت واضح طریقہ سے ان کی موقع پرستی کو بیان کر رھی ہے۔

(اشحّة علیکم فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور اعینهم کالذی یغشی من الموت فاذا ذهب الخوف سلقو کم بألسنة حداد اشحة علی الخیر) (۱۲۶)

یہ تم سے جان چراتے ہیں اور جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے کہ جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی ہیں جیسے موت کی غشی طاری ہو اور جب خوف چلا جائے گا تو آپ پر تیز زبانوں کے ساتھ حملہ کریں گے اور انھیں مال غنیمت کی حرص ھوگی۔

سورۂ احزاب کی آیت نمبر بیس میں بھی ان کے سخت، حساس، بحران زدہ لحظات سے فرار کو اچھے طرز سے بیان کیا گیا ہے۔

(یحسبون الأحزاب لم یذهبوا و ان یأت الأحزاب یودو لو أنهم بادون فی الاعراب یسئلون عن انبائکم ولو کانوا فیکم ما قاتلوا الا قلیلا)

یہ لوگ ابھی تک اس خیال میں ہیں کہ کفار کے لشکر گئے نہیں ہیں اور اگر دوبارہ لشکر آجائیں تو یہ یھی چاھیں گے کہ کاش دھاتیوں کے ساتھ صحراؤں میں آباد ھوگئے ھوتے اور وھاں سے تمھاری خبریں دریافت کرتے رہتے اور اگر تمھارے ساتھ ھوتے بھی تو بھت کم ہی جھاد کرتے۔

---------------

۱۲۶. سورہ احزاب/ ۱۹۔

۸۶

مذکورہ دونوں آیات (۱۹، ۲۰ سورہ احزاب) سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین مسلمانوں کے حق میں فوق العادہ بخیل ہیں، اہل اسلام کے لئے کسی قسم کی ھمراھی کرنے کے لئے حاضر نہیں، کسی بھی قسم کی مالی، جانی، فکری مساعدت سے گریز کرتے ہوئے بالکل غیرت برتتے ہیں جب ایثار و شہوت کی بات آتی ہے تو خلاف عادت بزدلی کا شکار ہوجاتے ہیں، قلب و دل کھو بیٹھنے کا امکان رہتا ہے لیکن جب خطرات دور ہوجاتے ہیں تو مال غنیمت کے لئے میدان میں حاضر ہوجاتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ حالات کا نظارہ کرتے رھیں دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ تالاب کے کنارہ بیٹھے رہتے رھیں اور حالات کا جائزہ لیتے رھیں اور قدم اس وقت رکھتے ہیں جب مطمئن ہوجائیں کہ خطرہ ٹل چکا ہے، ان کا ہم و غم مال غنیمت کا حصول ھے(۱۲۷)

تاریخ سے نقل کیا جاتا ہے کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر فرمایا: خیبر کے غنائم ان اشخاص کے لئے ہیں جو حدیبیہ اور اس کے سخت شرائط میں شریک تھے منافقین نے حدیبیہ میں شرکت نہیں کی تھی وہ جنگ خیبر میں اس فکر کے ساتھ کہ مال غنیمت زیادہ ملے گا شریک ہونا چاہتے تھے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرمان کے ذریعہ، ان کی موقع پرستی کو بے آبرو کر کے رکھ دیا، اگر چہ منافقین نے پیامبر عظیم الشان و مسلمانوں پر نکتہ چینی و اعتراضات کرتے ہوئے حسادت ورزی کے الزام لگائے ذیل کی آیت اسی سلسلہ میں نازل ھوئی ھے:

--------------

۱۲۷. "سلقوکم، سلق" مادّہ سے ہے اس کے معنی، کسی چیز کو غصہ سے کھولنا ہے خواہ یہ کھولنا ھاتھ سے ہو یا زبان سے، یہ تعبیر ان لوگوں کے لئے استعمال ھوئی ہے جو آمرانہ و طالبانہ طرز سے چیختے ہیں اور کسی چیز کو طلب کرتے ہیں۔ السنہ حداد تیز و طرار زبان خشن ہونے کے لئے کنایہ ہے۔

۸۷

(سیقولون المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوها ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلوا کلام الله قل لن تتبعونا کذلکم قال من قبل فسیقولون بل تحسدوننا بل کانوا لا یفقهون الا قلیلا) (۱۲۸)

عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے تم سے کہیں گے جب تم مال غنیمت لینے کے لئے جانے لگو گے کہ اجازت دو ہم بھی تمھارے ساتھ چل چلیں یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کردیں تو تم کہدو کہ تم لوگ ھمارے ساتھ نہیں آسکتے ھو، اللہ نے یہ بات پہلے سے طے کردی ہے پھر یہ کہیں گے کہ تم لوگ ہم سے حسد رکھتے ھو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بات کو بھت کم سمجھ پاتے ہیں۔

اگر ہم اوّل اسلام سے اب تک کی تاریخ کو ملاحظہ کریں تو اس نکتہ کی طرف ضرور متوجہ ھونگے کہ مسلمانوں کو اب تک جو ھزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کے اسباب و علل، اہل اسلام کی صفوف میں موقع پرست افراد کی در اندازی کا نتیجہ ہے۔

بنی امیہ جس نے ایک ھزار سال، اسلامی مملکت پر حکومت کی اور اپنے ادوار حکومت میں شرم آور ترین افعال اور قبیح و زشت کارنامے کے مرتکب ہوئے اسلام میں موقع پرست اشخاص کے نفوذ کا نتیجہ تھا۔

ابو سفیان جس کے پاس فتح مکہ کے بعد اظھار اسلام کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا جس کے جسم و روح میں اسلام نام کی کوئی شی نہ تھی وہ موقع پرستی کی بنا پر حکومت کے عالی منصب میں نفوذ کرتا چلا گیا، یھاں تک کہ عثمان کے زمانے میں بھت زیادہ ہی قدرت و اقتدار کا حامل تھا، بلکہ اس سے قبل ہی شام کی حکومت اس کے فرزندوں کے ھاتھ میں تھی۔

---------------

۱۲۸. سورہ فتح/۱۵۔

۸۸

بنی عباس کی بھی موقع پرستی، انقلاب کے تمام طرفدار حضرات کے لئے ایک عبرت کا مقام ہے، بنی عباس نے اہل بیت اطھار علیھم السلام کی محبوبیت و آل محمد علیھم السلام کی رضایت کے نام پر قیام کر کے لوگوں کو اپنے اطراف جمع کر لیا اور جب اپنے اس ھدف میں کامیاب ھوگئے تو اہل بیت اطھار پر ویسے ہی مظالم کئے جیسے بنی امیہ کرتے تھے تقریباً شیعوں کے نصف ائمہ کی تعداد، بنی امیہ اور نصف ائمہ، بنی عباس کے ذریعہ شھید کئے گئے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام آغاز ہی سے اس موقع پرستی کی تحریک کو پھچانتے تھے جس وقت ابو مسلم نے آپ کے پاس خط لکھا کہ آپ تیار رھیے ہم خلافت آپ کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں امام نے فرمایا:

((ما انت من رجالی ولا الزمان زمانی)) (۱۲۹)

نہ تم میرے افراد میں سے ہو اور نہ ہی زمانہ میرا زمانہ ہے۔

جس وقت ابو سلمہ خلال، بنی عباس کے طرفدار نے اس مضمون کا خط امام کے لئے بھیجا آپ نے نامہ جلاتے ہوئے فرمایا:

((مالی و لأبی سلمة هو شیعة لغیری)) (۱۳۰)

مجھے ابو سلمہ سے کیا کام؟ وہ تو کسی اور کا تابع اور پیرو ہے۔

-------------

۱۲۹. الامام الصادق و المذاھب الاربعہ، ج۳ و ۴، ص ۳۱۲۔

۱۳۰. ملل و نحل شھرستانی، ج۱، ص۲۴۱؛ الامام الصادق و المذاھب الاربعہ،ج۳ و۴، ص۳۱۴۔

۸۹

تاریخ معاصر میں بھی مشروطیت تحریک میں موقع پرستوں کے نفوذ کی بنا پر تاریخ درد ناک حوادث کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، مشروطیت تحریک اور قیام کو وجود میں لانے والے وحید خراسانی، شیخ فضل اللہ مازندرانی و شیخ فضل اللہ نوری جیسے عظیم و ممتاز علماء تھے یہ علماء تھے جو سخت و مشکل مراحل میں میدان میں حاضر اور تحریک کو کامیابی کی طرف لے جارھے تھے، جیسے ہی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگے مغرب زدہ افراد، آزادی اور عدم استبداد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے موقع پر حاضر ھوگئے، علماء پر تمھت کی بارش کرتے ہوئے، مشروطیت کو اس کے صحیح راہ و روش سے منحرف کر بیٹھے، اس وقت حالات یہ ھوگئے کہ، ماحصل مشروطہ، استبداد سے لبریز پھلوی کی پچاس سالہ حکومت تھی۔

شیخ فضل اللہ نوری جو مشروطہ کے بانی حضرات میں سے تھے، مشروطہ کی مخالفت کے جرم میں تختہ دار پر لٹکادئے گئے اور شھادت کے بعد ان کے بدن و جسم سے وہ بے حرمتی کی گئی جسے قلم بیان کرنے سے قاصر ھے(۱۳۱)

آخوند خراسانی اور انجمن کے دیگر قائدین مخفیانہ شھید کر دئے گئے موقع پرست تحریک کو اصل ھدف و مقصد سے موڑ کر اپنے منافع کی خاطر تحریک پر قابض ھوگئے۔

صنعت پیٹرولیم کو ملّی کرنے کی تحریک میں مرحوم آیت اللہ کاشانی مبارزے کے میدان میں وارد عمل ہوئے ہم عصر بزرگ فقھاء جیسے آیت اللہ محمد تقی خوانساری، آیت اللہ سید محمد روحانی، سے فتاوی حاصل کرکے، اس تحریک کے لئے معاشرہ کے افراد کی حمایت کو منظّم کیا، لیکن اس تحریک کی کامیابی کے بعد موقع پرست، تعصب قومی کے دلدادہ (مذھب و روحانیت کے مخالف) حاضر و آمادہ دستر خوان پر براجمان ھوگئے، شکر یہ سپاس گذاری کے بجائے نمک کھاکر، نمک حرامی کے مصادیق افعال انجام دینے لگے۔

---------------

۱۳۱. فضل اللہ نوری و مشروعیت: رویاروئی دو اندیشہ، ص۲۵۱ و ۲۵۵۔

۹۰

آیت اللہ کاشانی کے محضر میں بدترین و بیھودہ ترین حرکات انجام دیتے تھے، آپ کو گوشہ نشینی پر مجبور کردیا گیا، شھید نواب صفوی اور آپ کے ہم رکاب جو اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کئے تھے، مصدّق کے مسند قدرت پر تکیہ دینے کے بعد زندان کے حوالہ کر دئے گئے۔

آیت اللہ شھید مطھری قدس سرہ نے مختلف تحریکوں میں، موقع پرستوں کے نفوذ کے سلسلہ میں عمیق و کامل نکات کو عرض کیا ہے جس کو نقل کرنا بھت فائدہ مند ہے۔

ایک تحریک کے اندر، موقع پرست افراد کا نفوذ اور رخنہ اس تحریک کے لئے عظیم آفت و مصیبت ہے، تحریک کے ارکان و قائدین کا اہم فریضہ ہے کہ اس قسم کے افراد کے نفوذ و رخنہ کے راستے کو مسدود کردیں، جو تحریک بھی اپنے اول مرحلہ کو طے کررھی ہوتی ہے اس کی مشکلات و دشواری وغیرہ صاحب ایمان اور اخلاص و فداکار افراد کے کاندھوں پر ہوتی ہے لیکن جیسے ہی اس تحریک کے ثمرہ دینے کا وقت آتا ہے یا اس کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں، گلستان تحریک کی کلیاں کھلنے لگتی ہیں، موقع پرست افراد کے سرو گردن دکھائی دینے شروع ہوجاتے ہیں، جیسے جیسے دشواری میں کمی آنے لگتی ہے اور ثمرے کے استفادہ کا وقت نزد یکتر ہوتا رہتا ہے موقع پرست و فرصت طلب پہلے سے کہیں زیادہ تحریک اور انجمن کے لئے سینہ چاک کر کے میدان عمل میں وارد ھوتے ہیں اور آھستہ آھستہ تحریک کے سابقین، انقلابی، فداکار مومن اور دل سوز کو میدان سے بے دخل کرتے چلے جاتے ہیں، اس نوعیت کے اقدام اس طرح عام ھوچکے ہیں کہ مثل کے طور پر کھا جانے لگا ہے انقلاب فرزند خور ہے گویا انقلاب کی خاصیت یہ ہے کہ جیسے ہی کامیابی سے ہم کنار ہوا اپنے فرزند (ممبران) کو ایک ایک کر کے ختم کردیتا ہے، لیکن انقلاب فرزند خور نہیں ہے بلکہ موقع پرست افراد کے رخنہ و نفوذ سے غفلت ورزی ہے جو حادثہ کو وجود میں لاتا ہے کہیں دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، مشروطیت تحریک کے انقلاب کو کون سے افراد نے پایۂ تکمیل تک پھنچایا؟

۹۱

کامیابی دلانے کے بعد کیسے کیسے چہرے منصب اور مقام پر قابض ہوئے اور سر انجام کیا ہوا؟ آزادی طلب مجاھدین، قومی سر براہ و قائدین ایک گوشہ میں ڈال دئے گئے فراموشی کے حوالے کردئے گئے اور آخرکار گرسنگی و گمنامی کی حالت میں سپرد خاک کردئے گئے لیکن وہ فلان الدولہ وغیرہ------ جو کل تک استبداد و ڈکٹیر کے پرچم تلے انقلابی طاقتوں سے برسر پیکار تھے، نیز مشروطیت تحریک کے ممبران کی گردنوں میں پھانسی کی رسی ڈال رہے تھے، وہ صدارت عظمی کے منصب پر فائز ھوگئے سر انجام مشروطیت تحریک ڈکٹیر شپ میں تبدیل ھوکر رہ گئی۔

موقع پرستی کا منحوس اثر اسلام کی اول تاریخ میں بھی آشکار ہوا عثمان کے دور خلافت میں موقع پرست افراد نے صاحبان ایمان و اسلام کے مقام و مقاصد کو اپنے ھاتھوں میں لے لیا، رسول کے ذریعہ مدینہ سے اخراج شدہ فرد وزیر بن گئے اور کعب الاحبار کردار والے اشخاص مشاور، ابوذر و عمار صفت والے یا تو شھر بدر کردئے گئے یا خلافت کے قدموں تلے روند ڈالے گئے۔

کیوں قرآن فتح مکہ کے قبل کے جھاد، و انفاق میں اور فتح مکہ کے بعد کے انفاق و جھاد میں فرق قرار دے رہا ہے، در حقیقت قرآن فتح مکہ کے قبل کے مومن و منفق اور فتح مکہ کے بعد مومن منفق کے درمیان تفریق کا قائل ہے۔

(لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل اولئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بعد و قاتلوا و کلا وعدا الله الحسنی والله بما تعملون خبیر) (۱۳۲)

اور تم میں فتح مکہ سے پہلے انفاق کرنے والا اور جھاد کرنے والا اس شخص کے جیسا نہیں ھوسکتا ہے کہ جس نے فتح مکہ کے بعد انفاق اور جھاد کیا ہے پہلے جھاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے اگر چہ خدا نے سب سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور وہ تمھارے جملہ اعمال سے باخبر ہے۔

-------------

۱۳۲. سورہ حدید/۱۰۔

۹۲

راز مطلب واضح ہے فتح مکہ جو کچھ بھی تھا دشواری، مشکلات، مشقت کا تحمل ہی تھا فتح مکہ سے قبل ایمان، انفاق و جھاد، اخلاص ترو بے شائبہ تر تھا موقع پرستی کی روح و فکر سے بعید تھا، برخلاف فتح مکہ کے بعد کے انفاق، ایمان و جھاد، ان میں اخلاص بی شایبہ نہ تھا۔

تحریک کو ایک اصلاح طلب فرد آغاز کرتا ہے موقع پرست نہیں، اسی طریقہ سے تحریک کے مقاصد کو ایک اصلاح طلب مومن آگے بڑھا سکتا ہے نہ موقع پرست کہ ہمیشہ اپنے منافع کے فکر و خیال میں رہتا ہے۔

بھر حال موقع پرست افراد کے نفوذ و رخنہ سے مبارزہ و معرکہ آرائی ہی (فریب دینے والے ظواھر کے باوجود) ایک بنیادی شرط ہے تاکہ ایک تحریک اپنے اصلی راستہ و ھدف پر گام زن رھے(۱۳۳)

انقلاب اسلامی کے اصلی معمار حضرت امام خمینی (رح) بھی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے، نیز تاریخ ماضی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہمیشہ موقع پرست اور سوء استفادہ کرنے والوں سے ھوشیار رھنا چاھئے، اور ان کو فرصت نہیں دینا چاھئے کہ کشتی انقلاب اور اس کے چھوٹے موٹے وسائل کی بھی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے سکیں، آنے والی نسلوں کے لئے آپ کی وصیت و نصیحت یہ ہے کہ:

-------------

۱۳۳. نھضتھای اسلامی در صد سال اخیر، ص۹۶۔۹۹۔

۹۳

میں تمھارے درمیان میں رھوں یا نہ رھوں تم سب لوگوں کو وصیت کر رہا ہوں کہ موقع و فرصت نہ دینا کہ اسلامی انقلاب نا اہل و نامحرم (غیر) افراد کے ھاتھوں میں چلا جائے(۱۳۴) ۔

امام خمینی (رح) مشروطہ تحریک سے عبرت گیری کی ضرورت کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اگر علماء، ملت، خطبا، دانشور، روشنفکر، صحافی اور متعھد حضرات سستی کریں اور مشروطہ کے واقعات سے عبرت حاصل نہ کریں تو انقلاب انھیں حالات سے دوچار ہوگا جس سے مشروطہ تحریک دوچار ھوئی تھی(۱۳۵)

صاحبان غیرت دینی کی تحقیر

ادوار تاریخ میں انبیاء کے دشمنوں کی سیاسی رفتار کی ایک خصوصیت، متدین غیرت دار افراد کی تحقیر ہے حضرت نوح کے دشمن نوح کی پیروی کرنے والے افراد کو پست، حقیر، وکوتاہ فکر سمجھتے تھے۔

(وما نریک اتبعک الا الذین هم ارا ذلنا بادی الرای) (۱۳۶)

اور تمھارے اتباع کرنے والوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ھمارے پست طبقہ کے سادہ لوح افراد ہیں۔

----------------

۱۳۵. کلمات قصار پند ھاو حکمتھا، ص۱۷۶۔

۱۳۶. سورہ ھود/ ۲۷۔

۹۴

حضرت نوح علیہ السلام کے دشمن آپ کی پیروی نہ کرنے کی توجیہ و تاویل کرتے ہوئے یہ عذر پیش کرتے تھے کہ آپ کی پیروی کرنے والے پست انسان ہیں اور ہم ان کے ساتھ ھماھنگ معاسرت نہیں کرسکتے۔

(قالوا أنومن واتبعک الارذلون) (۱۳۷)

ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ پر کس طرح ایمان لے آئیں جب کہ آپ کے سارے پیروکار پست طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

پیامبر اسلام کی تاریخ میں بھی اسی قسم کے واقعات ھمیں دکھائی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں قریش کے بزرگان اپنے جاھل افکار کی بنا پر مستضعف مومنین کے پہلو میں بیٹھنے کو اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے تھے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیشکش کی کہ آپ ان افراد کو اپنے سے دور کردیں تو ہم آپ سے مل بیٹھیں گے اور آپ سے استفادہ کریں گے، کفار قریش کی اس پیشکش کے بعد ذیل کی آیت نازل ھوئی اور پیامبر اسلام کو حکم دیا گیا کہ بطور قاطع کافروں کی پیشکش کو ٹھکرادیں۔

واصبر نفسک مع الذین یدعون ربهم بالغدٰوة والعشی یریدون وجهه ولا تعد عیناک عنهم ترید زینة الحیوٰة الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبه عن ذکرنا واتبع هواه وکان امره فرطاً) (۱۳۸)

اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاھیں ان کی طرف سے نہ پھر جائیں کہ نزندگانی دنیا کی زینت کے طلبگار بن جاؤ اور ھرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔

--------------

۱۳۷. سورہ شعراء/۱۱۱۔

۱۳۸. سورہ کھف/ ۲۸۔

۹۵

تحقیر اور سفاھت کی تھمت انبیاء حضرات کے ماننے والوں تک محدود نہیں بلکہ خود انبیاء حضرات بھی دشمنوں کی طرف سے سفاھت کی تھمت کے شکار ھوتے تھے، قوم عاد صرحتا اور تاکید کے ساتھ حضرت ھود علیہ السلام کو سفیہ کھتی تھی۔

(قال الملاء الذین کفروا من قومه انا لنراک فی سفاهة) (۱۳۹)

قوم میں سے کفر اختیار کرنے والے رؤسا نے کہا کہ ہم تم کو حماقت میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔

انبیاء و صاحبان ایمان کے دشمنوں میں سے بعض دشمن منافق ہیں جو دونوں روش کا استعمال کرتے ہیں، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی تحقیر کرتے ہیں اور مومنین کی بھی، منافق پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سادہ لوح اور خوش خیال (زود باور) کہتے تھے اور مومنین کو سفھاء میں شمار کرتے تھے(۱۴۰)

(واذا قیل لهم آمنوا کما آمن الناس قالوا انؤمن کما امن السفهاء الا انهم هم السفهاء ولکن لا یعلمون) (۱۴۱)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان اختیار کریں؟ حالانکہ اصل میں یھی بیوقوف ہیں اور انھیں اس کی واقفیت بھی نہیں ہے۔

لیکن چونکہ منافقین، دین و ایمان کا اظھار کرتے تھے لھذا پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں زیادہ اعتراضات و تکذیب کی جرأت نہیں رکھتے تھے بلکہ حضرت کی رفتار و گفتار اور اخلاقی خصائص میں عیب جوئی کیا کرتے تھے، اسی طریقہ سے مومنین کی تحقیر و توھین میں ان کی دینی و سیاسی کار کردگی کو مورد تنقید قرار دیتے تھے، تاکہ اس تنقید کے ذریعہ ان کے اصل ایمان کا مضحکہ و تمسخر کیا جاسکے۔

-------------

۱۳۹. سورہ اعراف/۶۶۔

۱۴۰. سورہ توبہ/ ۱۶۔

۱۴۱. سورہ بقرہ/ ۱۳۔

۹۶

وہ افراد جو جنگ کے سلسلہ میں زیادہ خدمات انجام دے چکے تھے، ان کی تحقیر کی نوعیت کچھ اور تھی اور وہ افراد جو اپنی بے بضاعتی کی بنا پر کم خدمات انجام دیتے تھے ان کی دوسرے طریقہ سے توھین کرتے تھے۔

(الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم ولهم عذاب الیم) (۱۴۲)

جو لوگ صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے مومنین اور ان غریبوں پر جن کے پاس ان کی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے الزام لگاتے ہیں اور پھر ان کا مزاق اڑاتے ہیں، خدا ان کا بھی مزاق بنادے گا اور اس کے پاس بڑا درد ناک عذاب ہے۔

صاحبان ایمان کی تحقیر و توھین کرنے میں منافقین کا اساسی ھدف یہ ہے کہ ان کی دینی غیرت و حیا کو سست کرتے ہوئے دینی فرائض کے انجام دینے کی حساسیت و اشتیاق کو مومنین سے سلب کر لیا جائے، یہ بات سب کے لئے آشکار ہے کہ جب تک مسلمانوں میں بے لوث دینداری کے جذبات، موجزن رھیں گے اسلامی اقدار کی توھین کے مقابلہ میں عکس العمل کا اظھار کرتے رھیں گے، لھذا منافقین اپنے اصلی ھدف و مقصد میں، جو کہ دین کی حاکمیت کو پامال کرنا ہے، کامیاب نہیں ھوسکتے منافقین، مومنین اور ان کے دینداری کے مظاہر کی تحقیر و توھین کے ذریعہ کوشش کرتے ہیں کہ دین و مذہب کی حساسیت کو ختم یا کم کردیں، دین و اسلامی اقدار کو فردی و شخصی رفتار کے دائرہ میں محدود کردیں تاکہ اس طریقۂ و زاویہ سے اسلامی حکومت کو تسخیر اور دین کے چھرہ کو مسخ کرسکیں۔ اسی بنیاد پر منافقین اغیار و بیگانہ سے روابط رکھے ہوئے ہیں اور دوستانہ سلوک کرتے ہیں، لیکن اپنوں اور مومنین سے غضب ناک ظلم و بربریت کا سلوک کرتے ہیں بالکل ان صفات کے مخالف ہیں جسے خداوند متعال مومنین کے لئے ترسیم کر رہا ہے، خدا مومنین کے لئے (رحماء بینھم و اشداء علی الکفار) تعریف کر رہا ہے لیکن منافقین کی بہ نسبت اشداء، اغیار کی بہ نسبت رحماء ھیں(۱۴۳)

--------------

۱۴۲. سورہ توبہ/ ۷۹۔

۱۴۳. سورہ فتح/ ۲۹۔ (محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء الکفار رحماء بینھم) محمد خدا کے فرستادہ ہیں اور وہ لوگ جوان کے ساتھ ہیں کفار کے مقابلہ میں سخت اور اپنوں کے درمیان مھربان ہیں۔

۹۷

وحدت اور ھمبستگی

منافقین کی سیاسی رفتار کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی نظام کی حاکمیت و اسلام پر ضرب لگانے کے لئے وہ ایک دوسرے سے مرتبط ہیں وہ لوگ اسلام کو آسیب پزیر بنانے کے لئے اور دینی حاکمیت کو ضعیف کرنے کے لئے اپنے داخلی اختلافات سے ھاتھ روک رکھے ہیں اور اسلام کے مقابلہ میں متحد ہوجاتے ہیں۔

(المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض) (۱۴۴)

منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے ہیں۔

اس وحدت و یکجھتی کی آبیاری کے لئے سازشی مرکز بناتے ہیں اور اسلام کے خلاف کارکردگی کے لئے جلسات بھی تشکیل دیتے ہیں، ہر زمانہ کے سازشی مراکز اس عصر و زمان کے تناسب سے ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ مسجد ضرار کی تعمیر ہے، کہ اس قضیہ کو بیان کیا جاچکا ہے، وہ لوگ چاہتے تھے کہ مسجد کے ذریعہ مومنین کے درمیان تفرقہ کی ایجاد، اور دشمن کے لئے جاسوسی کریں اور مسلمین پر ضربہ وارد کرنے، نیز کفر کی ترویج کے لئے استفادہ کریں کہ رسوا و ذلیل کردئے گئے، اس واقعہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین اپنے منظّم پروگرام کے تحت دین کے خلاف ہر وسیلہ سے استفادہ کرتے ہیں، جہاں مناسب سمجھتے ہیں وھاں دین سے سوء استفادہ کرتے ہوئے حقیقی دین ہی کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ ان کی خواہش تھی کہ مسجد بناکر، اس کے ذریعہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کے لئے استعمال کریں، مختلف جلسات کی تشکیل و تنظیم، تاکہ اسلام کے خلاف پروگرام مرتب کیا جائے ان کی تشکیلاتی افعال میں سے ہے۔

--------------

۱۴۴. سورہ توبہ/۶۷۔

۹۸

قرآن باصراحت اعلان کر رہا ہے کہ منافقین روز میں پیامبر گرامی کی سخن و گفتگو سماعت کرتے تھے، لیکن شب میں سازشی جلسہ کی تشکیل کر کے پیامبر گرامی (ص) کے رھنمود و گفتگو کے مقابلہ کی راھیں تلاش کرتے تھے۔

(ویقولون طاعة فاذا برزوا من عندک بیت طائفة منهم غیر الذین تقول والله یکتب ما یبیتون) (۱۴۵)

یہ لوگ پہلے اطاعت کی بات کرتے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو ایک گروہ اپنے قول کے خلاف تدبیر کرتا ہے اور خدا ان کی باتوں کو لکھ رہا ہے۔

وہ جلسہ جو جنگ تبوک کے سلسلہ میں سویلم یھودی کے گھر میں تشکیل پایا تھا تاکہ لوگوں کو جنگ تبوک سے روکنے کے لئے راہ و روش کو پیدا کیا جاسکے، ان ھزاروں سازشی جلسے و پروگرام میں سے ایک ہے جسے منافقین انجام دیتے تھے۔(۱۴۶)

منافقین سے مقابلہ کرنے کے لئے، یکجھتی و اتحاد اور پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے یکجھتی ایسی ہو جس کا ھدف و مقصد فرائض کی انجام دھی اور سازش سے مقابلہ کرنا ھو، یکجھتی کے اھداف اسلامی معاشرے میں وحدت و اتحاد کے لئے میدان ھموار کرنا ھو، تاکہ دشمنوں کی سازش کو ناکام بنایا جاسکے، نہ کہ یکجھتی خود جدید اور ماڈرن بتوں میں تبدیل ھوجائے اور تفرقہ و اختلاف کے عوامل بن جائے(۱۴۷)

اختلاف سلائق، کثرت آراء، اسلامی شایستگی و اقدار کے دائرے میں ہی رشد و نمو پاتی ہیں لیکن اگر خود پرستی، اھانت نمائی، آبروریزی وتھمت زنی وغیرہ------ خدا محوری، شرح صدر، تحمل و بردباری کی جگھیں لے لیں، تو صرف دشمن ہی اس سے فایدہ اٹھائیں گے جس کے نتیجہ میں اسلامی معاشرہ نا قابل تلافی اور ضرر سے دوچار ہوگا، جیسے اختلاف و تشتت اور پراکندگی نیز اسلام کی حاکمیت کی تضعیف وغیرہ-------- کہ دشمنان اسلام کی دیرینہ و بنیادی آرزو بھی یھی ہے۔

--------------

۱۴۵. سورہ نساء/ ۸۱۔

۱۴۶. اس جلسہ کی تشکیل اور اس کے افشاء ہونے کے سلسلہ میں بیان کیا جاچکا ہے۔

۱۴۷. سورہ روم/۳۱، ۳۲ (ولا تکون من المشرکین من الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاً کل حزب بما لدیھم فرحون) مشرکوں میں سے نہ ھوجانا، ان لوگوں میں سے جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروھوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست ومگن ہے۔

۹۹

حضرت علی علیہ السلام نے شھرانبار (عراق) میں معاویہ کے جاسوس و کار گزار کی دخالت اور تجاوز، اور افراد کے تجاوز کو رفع و دفع کرنے کے سلسلہ میں سستی برتنے کی بنا پر فرمایا:

((فیا عجباو الله یمیت القلب و یجلب الّهم من اجتماع هولاء القوم علی باطلهم و تفّرقکم عن حقکم)) (۱۴۸)

کس قدر حیرت انگیز و تعجب خیز صورت حال ہے خدا کی قسم یہ بات دل کو مردہ بنادینے والی ہے اور ہم و غم کو سمیٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پر مجتمع اور متحدہ ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نھیں۔

اس نکتہ کی یاد آوری بھی ضروری ہے کہ منافقین کا اتحاد و وحدت وقتی اور مخصوص زمانہ کے لئے ہوتا ہے صرف اسلامی نظام کو ختم کرنے کے لئے ہے، لیکن جب اپنے مقاصد میں کامیاب ھوگئے یا صرف یہ کہ ابھی کامیابی کی خفیف علامت ہی سامنے آئی، تفرقہ و جدائی میں گرفتار ہونے لگتے ہیں اس لئے کہ ان کے اتحاد کا محور و مرکز باطل ہے اور ایسی وحدت کبھی بھی پائدار نہیں رہ سکتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ باطل ہمیشہ کمزور و ناپائدار ہے، باقی رھنے والی شی صرف حق ہے اور بس۔

-------------

۱۴۸. نھج البلاغہ، خطبہ۲۷۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193