مناسك حج

مناسك حج18%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67807 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

دے اور اگر دومرتبہ سے زيادہ كرے توكفارہ ميں ايك گائے دينا واجب ہے_

۱۶_ حشرات بدن كو مارنا:

مسئلہ ۲۱۳_ احوط كى بناپر احرام كى حالت ميں جوؤں كو مارنا جائز نہيں ہے _ اوراسى طرح كے ديگر حشرات جيسے پسُّو

۱۷_ حرم كے پودوں اور درختوں كو كاٹنا:

مسئلہ ۲۱۴_ حرم ميں اگنے والے درختوں اور گھاس كو قطع كرنا ، كاٹنا اور توڑنا حرام ہے اور اس ميں محرم اور غير محرم كے درميان كوئي فرق نہيں ہے _

مسئلہ ۲۱۵_ مذكورہ حكم سے وہ مستثنى ہے كہ جو چلنے كى وجہ سے ٹوٹ جائے يا جانوروں كو چارہ ڈالٹے كيلئے كاٹا جائے _

مسئلہ ۲۱۶_ حرم سے گھاس كاٹنے پر كفارہ نہيں ہے بلكہ صرف استغفار واجب ہے ليكن اگر اس درخت كو كاٹے كہ جس كاكاٹنا حرام ہے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ ايك گائے كفارے ميں دے _

۱۰۱

۱۸_ اسلحہ اٹھانا:

مسئلہ ۲۱۷_ محرم كيلئے اسلحہ اٹھانا جائز نہيں ہے _

مسئلہ ۲۱۸_ اگر اپنى جان و مال يا كسى دوسرے كى جان كى حفاظت كيلئے اسلحہ اٹھانے كى ضرورت ہو تو يہ جائز ہے_

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا:

مسئلہ ۲۱۹_ احرام كى حالت ميں خشكى كا شكار كرنا حرام ہے مگر جب اسكى طرف سے تكليف پہنچانے كاخوف ہو اسى طرح پرندوں اور ٹڈى كا شكار كرنا بھى حرام ہے _

مسئلہ ۲۲۰_ محرم كيلئے شكار كا گوشت كھانا حرام ہے چاہے اس نے خود اسے شكار كيا ہو يا كسى اور نے اور چاہے شكار كرنے والا محرم ہو يا مُحل _

مسئلہ ۲۲۱_ دريائي جانوروں كے شكار كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے جيسے مچھلى كا شكار كرنے اور انكے كھانے ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے_

۱۰۲

مسئلہ ۲۲۲_ پالتو جانوروں كے ذبح كرنے اور كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے جيسے بكري، مرغى و غيرہ _

مسئلہ ۲۲۳_ حرم كے دائرے كے اندر جانور كا شكار كرنا جائز نہيں ہے چاہے محرم ہو يا مُحل_

احرام كى حالت ميں شكار كرنے اور اسكے كفارات كے احكام بہت زيادہ ہيں اور چونكہ موجودہ دور ميں يہ پيش نہيں آتے اسلئے ہم ان سے صرف نظر كرتے ہيں _

۲۰_ جماع

مسئلہ ۲۲۴_ احرام كى حالت ميں جماع اور بيوى سے ہر قسم كى لذت حاصل كرنا حرام ہے جيسے اسكے بدن كو چھونا ، اسكى طرف شہوت كے ساتھ ديكھنا اور اسے بوسہ دينا_

مسئلہ ۲۲۵_ مياں بيوى ميں سے ہر ايك كا دوسرے كى طرف ديكھنا اور

۱۰۳

اسكے ہاتھ كو چھونا جائز ہے اگر شہوت اور لذت سے نہ ہو_

مسئلہ ۲۲۶_ انسان كے محارم جسے باپ، ماں ، بھائي ، بہن اور چچا، پھوپھى و غيرہ احرام كى حالت ميں بھى مَحْرَمْ ہى رہتے ہيں_

مسئلہ ۲۲۷_ بيوى كے ساتھ جماع كرنے كا كفارہ ايك اونٹ ہے اور بعض موارد ميں اس سے حج باطل ہوجاتا ہے اور اسكى تفصيل فقہ كى مفصل كتابوں ميں مذكور ہے_

مسئلہ ۲۲۸_ ديگر لذات ميںسے ہر ايك كيلئے ايك كفارہ ہے كہ جنكى تفصيل فقہى كتابوں ميں مذكور ہے_

۲۱_ عقد نكاح:

مسئلہ ۲۲۹_ احرام كى حالت ميں اپنے لئے يا كسى اور كيلئے عقد كرنا حرام ہے حتى اگر وہ غير ،مُحل ہو اور ايسا عقد باطل ہے_

مسئلہ ۲۳۰_ عقد كى حرمت اور اسكے باطل ہونے ميں عقد دائم

۱۰۴

اورموقت كے درميان كوئي فرق نہيں ہے _

۲۲_ استمنائ

مسئلہ ۲۳۱_ احرام كى حالت ميں استمناء كرنا حرام ہے اور اس كا حكم جماع والا حكم ہے_

اور اس سے مراد يہ ہے كہ انسان اپنے ساتھ ايسا كام كرے كہ جس سے اسكى شہوت برانگيختہ ہوجائے يہاں تك كہ منى نكل آئے _

محرمات احرام كے كفارات كے احكام

مسئلہ ۲۳۲_ اگر غفلت كى وجہ سے يا بھول كر احرام كے محرمات ميں سے كسى كا ارتكاب كرے تو كفارہ واجب نہيں ہے مگر شكار كيونكہ اس ميں ہر حال ميں كفارہ واجب ہے _

مسئلہ ۲۳۳_ عمرہ ميں شكار كے كفارے كے ذبح كرنے كا مقام مكہ

۱۰۵

مكرمہ ہے اور حج ميں منى ہے اور احوط يہ ہے كہ ديگر كفارات ميں بھى اسى ترتيب كے مطابق عمل كيا جائے ليكن اگر مكہ يا منى ميں كفارہ كو ذبح نہ كرے تو كسى دوسرى جگہ ذبح كردينا كافى ہے حتى كہ حج سے لوٹنے كے بعد اپنے شہر ميں _

مسئلہ ۲۳۴_ جس پر كفارہ واجب ہو اس كيلئے اسكے گوشت سے كچھ كھانا جائز نہيں ہے ليكن حج كى واجب يا مستحب يا نذر كى قربانى سے كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے _

مسئلہ ۲۳۵_ محرمات احرام كا كفارہ فقير كو دينا واجب ہے_

مكہ مكرمہ كى طرف جانا

مسئلہ ۲۳۶_ ميقات سے احرام باندھ كر حجاج عمرہ كے باقى اعمال كى انجام دہى كيلئے مكہ مكرمہ كى طرف جاتے ہيں اور مكہ پہنچنے سے پہلے حرم كا

۱۰۶

علاقہ شروع ہوجاتا ہے اور حرم كے علاقے ميں داخل ہونے كيلئے اسى طرح مكہ مكرمہ اور مسجدالحرام ميں داخل ہونے كيلئے بہت سارى دعائيں اور آداب وارد ہوئے ہيں ہم ان ميں سے بعض كو ذكر كرتے ہيں جو شخص ان سب آداب اور مستحبات پر عمل كرناچاہتا ہے وہ مفصل كتابوں كى طرف رجوع كرے_

حرم ميں داخل ہونے كى دعا

مسئلہ ۲۳۷_حرم ميں داخل ہوتے وقت يہ دعا مستحب ہے_

اللّہُمَّ انَّكَ قُلْتَ فى كتَابكَ الْمُنْزَل وقَوْلُكَ الْحَقُّ (وَ ا َذّنْ فى النَّاس بالْحَجّ يَا تُوكَ رجالاً وَ عَلى كُلّ ضامر: يَا تينَ منْ كُلّ فَجّ: عَميق:) اللّہُمَّ وَ انّى ا َرْجُو ا َنْ ا َكُونَ ممَّنْ ا َجَابَ دَعْوَتَكَ وَ قَدْ جئْتُ منْ شُقَّة: بَعيدَة: وَ منْ فَجّ: عَميق: سَامعاً لندَائكَ وَ مُسْتَجيباً

۱۰۷

لَكَ مُطيعاً ل-اَمْركَ وَ كُلُّ ذَلكَ بفَضْلكَ عَلَيَّ وَ احْسَانكَ الَيَّ فَلَكَ الْحَمْدُ عَلى مَا وَفَّقْتَنى لَہُ ا َبْتَغى بذلكَ الزُّلْفَة عنْدَكَ وَالقُرْبَةَ الَيْكَ وَالمَنْزلَةَ لَدَيْكَ وَالمَغْفرَةَ لذُنُوبى وَالتَّوْبَةَ عَلَيَّ منْہَا بمَنّكَ اللّہُمَّ صَلّ عَلى مُحَمَّد: وَ آل مُحَمَّد: وَحَرّمْ بَدَنى عَلى النَّار وَآمنّى منْ عَذَابكَ وَ عقَابكَ برَحْمَتكَ يَا ا رْحَمَ الرَّاحمينَ_

مسجد الحرام ميں داخل ہونے كے مستحبات

مسئلہ ۲۳۸_ مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت مندرجہ ذيل اعمال مستحب ہيں _

۱_ مكلف كيلئے مستحب ہے كہ مسجدالحرام ميں داخل ہونے كيلئے غسل كرے_

۱۰۸

۲_ مستحب ہے كہ مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت وہ دعائيں پڑھے جو احاديث ميں وارد ہوئي ہيں_

۱۰۹

تيسرى فصل :

طواف اور نماز طواف كے بارے ميں

طواف:

يہ عمرہ كا دوسرا واجب عمل ہے پس عمرہ كا احرام باندھ كر عمرہ كے باقى اعمال بجالانے كيلئے مكہ معظمہ كى طر ف جائے اور پہلا عمل جو انجام دے گا وہ خانہ كعبہ كے اردگرد سات چكر لگاكر اس كا طواف ہے _

طواف كے بارے ميں بحث ايك تو اسكى شرائط كے بارے ميں ہے اور دوسرى اسكے واجبات كے بارے ميں _

۱۱۰

طواف كى شرائط

طواف ميں چند چيزيں شرط ہيں_

اول : نيت

دوم: حدث سے پاك ہونا

سوم : خبث سے پاك ہونا

چہارم : مردوں كيلئے ختنہ

پنجم: شرمگاہ كو چھپانا

ششم: موالات

پہلى شرط نيت

يعنى عمرہ يا حج كے طواف كو قربةً الى اللہ بجالانے كا قصد كرے پس اس قصد كے بغير _اگر چہ بعض چكروں ميں _طواف كافى نہيں ہے_

۱۱۱

مسئلہ ۲۳۹_ نيت ميں قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص شرط ہے پس عمل كو بجالائے گا اللہ تعالى كے حكم كى اطاعت كرنے كيلئے لذا اگر رياء كيلئے انجام دے تو نافرمانى كا مرتكب ہوگا اور اس كا عمل باطل ہے_

مسئلہ ۲۴۰_ نيت ميں اس بات كى تعيين كرنا شرط ہے كہ يہ عمرہ مفردہ كا طواف ہے يا عمرہ تمتع كا ياحج كا ،پھر آيا حجة الاسلام كا طواف ہے يا حج استحبابى كا يا نذر والے حج كا ، اور اگر حج ميں نائب ہو تو اس كا بھى قصد كرے_

مسئلہ ۲۴۱_ نيت كو بولنا يا اسے دل سے گزارنا واجب نہيں ہے بلكہ عمرہ كے طواف كو اللہ تعالى اور اسكے حكم كى اطاعت كرنے كيلئے بجالانا كافى ہے اور طواف كى حالت ميں ذكر ، خشوع، حضور قلب اور اس سلسلے ميں وارد ہونے والى دعاؤں كو پڑھنے كى تسلسل كے ساتھ پابندى كرنى چاہيے_

۱۱۲

دوسرى شرط : حدث اكبر اور اصغر سے پاك ہونا

مسئلہ ۲۴۲_ واجب طواف كى حالت ميں جنابت، حيض اور نفاس سے پاك ہونا واجب ہے اور طواف كيلئے وضو بھى واجب ہے_

وضاحت : واجب طواف وہ طواف ہے جو عمرہ اور حج كے اعمال كا جز ہوتا ہے اسى لئے مستحب حج و عمرہ ميں بھى طواف كو واجب شمار كيا جاتا ہے _

مسئلہ ۲۴۳_ اگر حدث اكبر يا اصغر والا شخص طواف كرے تو اس كا طواف صحيح نہيں ہے اگر چہ وہ جاہل ہو يا اس نے بھول كر ايسا كيا ہو بلكہ اس پر طواف اور اسكى نماز كا تدارك كرنا واجب ہے حتى كہ اگر طہارت كے نہ ہونے كى طرف التفات عمرہ يا حج كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد ہو _

مسئلہ ۲۴۴_ مستحب طواف ميں وضو شرط نہيں ہے ليكن احوط كى بناپر جنابت، حيض يا نفاس كى حالت ميں طواف حكم وضعى كے اعتبار سے صحيح نہيں ہے اور اسكے ساتھ ساتھ حكم تكليفى كے اعتبار سے جنب، حيض يا نفاس كى حالت ميں مسجدالحرام ميں داخل ہونا حرام ہے _

۱۱۳

وضاحت: طواف مستحب وہ طواف ہوتا ہے كہ جو عمرہ اور حج كے اعمال سے مستقل اور عليحدہ ہوتا ہے چاہے اپنى طرف سے طواف كرے يا كسى كى نيابت ميں _ اور يہ كام ان كاموںميں سے ايك ہے جو مكہ ميں مستحب ہيں پس انسان كيلئے جس قدر طواف كرنا ممكن ہو اچھا ہے اور اجر و ثواب كا موجب ہے _

مسئلہ ۲۴۵_ اگر محرم اپنے طواف كے دوران ميں حدث اصغر ميں مبتلا ہوجائے تو اسكى چند صورتيں ہيں

۱_ يہ كہ حدث چوتھے چكر كے نصف تك پہنچنے سے پہلے عارض ہو (يعنى خانہ كعبہ كے تيسرے ركن كے بالمقابل پہنچنے سے پہلے) تو اس طواف كو منقطع كردے اور طہارت كے بعد طواف كااعادہ كرے

۲_ يہ كہ حدث چوتھے چكر كے نصف كے بعد ليكن اسے مكمل كرنے سے پہلے عارض ہو تو طواف كو منقطع كرے اور طہارت كے بعد طواف كو وہيں سے جارى ركھے البتہ اگر اس سے موالات عرفى ميں خلل وارد نہ ہوتا

۱۱۴

ہو ورنہ تمام و اتمام كے قصد كے ساتھ اس كااعادہ كرے (يعنى اس نيت كے ساتھ سات چكر لگائے كہ اگر پچھلے چكر صحيح ہيں تو اس كے باقى چكر كى كمى ان ميں سے پورى ہوجائے گى اور اگر وہ باطل ہيں تو يہ سات چكر ايك نيا طواف ہے ) اور اس كيلئے يہ بھى جائز ہے كہ اسے بالكل كالعدم كر كے نئے سرے سے طواف كرے_

۳_ يہ كہ حدث چوتھا چكر مكمل كرنے كے بعد عارض ہو تو طواف كو منقطع كر كے طہارت كرے اور پھر وہيں سے طواف كو جارى ركھے ليكن اگر اس سے موالات عرفيہ كو نقصان نہ پہنچا ہو ورنہ احوط يہ ہے كہ اسے مكمل كرے اور پھر اس كا اعادہ بھى كرے اور اس كيلئے جائز ہے كہ اس طواف كو بالكل ختم كر كے نئے سرے سے طواف بجالائے جيسے كہ اس كيلئے جائز ہے كہ تمام و اتمام كے قصد كے ساتھ سات چكر بجالائے_

مسئلہ ۲۴۶_ اگر طواف كے دوران ميں حدث اكبر عارض ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ فوراً مسجد الحرام سے نكل جائے پھر اگر يہ چوتھے چكر كے نصف تك پہنچنے سے پہلے ہو تو طواف باطل ہے اور غسل كے بعد اس كا

۱۱۵

اعادہ كرنا واجب ہے اور اگر نصف تك پہنچنے كے بعد اور چوتھا چكر مكمل كرنے سے پہلے ہو تو اگر موالات عرفيہ ميں خلل وارد نہ ہوا ہو تو وہيں سے طواف كو جارى ركھے ورنہ احوط يہ ہے كہ اسے مكمل كرے اور پھر اعادہ بھى كرے اور اس كيلئے جائز ہے كہ تمام واتمام كے قصدكے ساتھ پورا طواف بجالائے جيسا كہ اسكے لئے يہ بھى جائز ہے كہ سابقہ چكروں كو بالكل كالعدم كركے غسل كے بعد نيا طواف بجالائے اور اگر چوتھا چكر مكمل كرنے كے بعد عا رض ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو طواف كے دوران ميں چوتھا چكر مكمل كرنے كے بعد حدث اصغر كے عارض ہونے كا ہے جو كہ ابھى ابھى گزرا ہے _

مسئلہ ۲۴۷_ جو شخص وضو يا غسل كے ترك كرنے ميں معذور ہو اس پر ان دونوں كے بدلے ميں تيمم كرنا واجب ہے_

مسئلہ ۲۴۸_ اگر كسى عذر كى وجہ سے وضو يا غسل نہ كرسكتا ہو تو اگر اسے آخرى وقت تك اس عذر كے دور ہونے كا علم ہے جيسے كہ وہ مريض جو جانتا ہے كہ آخرى وقت تك شفا ياب ہوجائيگا تو اس پر واجب ہے كہ اپنا عذر دور ہونے تك صبر كرے پس وضو يا غسل كے ساتھ طواف بجالائے بلكہ اگر

۱۱۶

اسے اپنے عذر كے مرتفع ہونے كى اميد ہو تو بھى احوط وجوبى ہے كہ صبر كرے يہاں تك كہ وقت تنگ ہوجائے يا اپنے عذركے مرتفع ہونے سے مايوس ہوجائے اور اسكے بعد تيمم كركے طواف بجالائے _

مسئلہ ۲۴۹_ جس شخص كا فريضہ تيمم يا جبيرہ والا وضو ہے اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے مذكورہ طہارت كے بغير طواف يا اسكى نماز كو بجالائے تو اس پر واجب ہے كہ اگر ممكن ہو خود ان كا اعادہ كرے ورنہ نائب بنائے _

مسئلہ ۲۵۰_ اگر عمرہ مفردہ كے احرام كے بعد عورت كو حيض آجائے اور پاك ہونے كا انتظار نہ كر سكتى ہو تا كہ غسل كر كے اسكے اعمال كو انجام دے تو اس پر واجب ہے كہ طواف اور نماز طواف كيلئے نائب بنائے ليكن سعى اور تقصير كو خود بجالائے اور ان سب كے ساتھ احرام سے خارج ہو جائے اور يہى حكم ہے كہ ا گر حيض كى حالت ميں احرام باندھے ليكن اگر حيض كى حالت ميں عمرہ تمتع كا احرام باندھے يا عمرہ تمتع كا احرام باندھنے كے بعد اسے حيض آجائے اور پاك ہونے كا انتظار نہ كرسكتى ہو تا كہ غسل كر كے عمرہ كا

۱۱۷

طواف اور اسكى نماز بجالائے تو اس كا حكم اور ہے كہ جس كا ذكر گزرچكا ہے_

مسئلہ ۲۵۱_ عمرہ كے اعمال ميں سے صرف طواف اور نماز طواف ميں حدث سے پاك ہونا واجب ہے ليكن عمرہ كے باقى اعمال ميں حدث سے طہارت شرط نہيں ہے اگر چہ افضل يہ ہے كہ انسان ہر حال ميں با طہارت ہو _

مسئلہ ۲۵۲_ اگر طہارت ميں شك ہو تو اسكى ذمہ دارى درج ذيل ہے_

۱_ اگر طواف كو شروع كرنے سے پہلے وضو ميں شك ہو تو وضو كرے_

۲_ اگر اس پر غسل واجب ہو اور طواف كو شروع كرنے سے پہلے اسكے بجالانے ميں شك كرے تو اس پر واجب ہے كہ غسل كو بجالائے_

۳_ اگر با وضو ہو اور شك كرے كہ اس كا وضو باطل ہوا ہے يا نہيں تو وضو واجب نہيں ہے _

۴_ اگر با طہارت ہو اور شك كرے كہ جنب ہوا ہے يا نہيں يا عورت شك كرے كہ اسے حيض آيا ہے يا نہيں تو ان پر غسل واجب نہيں ہے _

۱۱۸

۵_ اگر طواف سے فارغ ہونے كے بعد طہارت ميں شك كرے تو اس كا طواف صحيح ہے ليكن اس پر واجب ہے كہ نماز طواف كيلئے طہارت حاصل كرے_

۶_ اگر طہارت كى حالت ميں طواف كو شروع كرے اور اثناء ميں حدث كے طارى ہونے اور نہ ہونے ميں شك كرے جيسے كہ شك كرے كہ اس كا وضو باطل ہوا ہے يا نہيں تو اپنے شك كى پروا نہ كرے اور طہارت پر بنا ركھے_

۷_ اگر طواف كے اثناء ميں شك كرے كہ اس نے وضو كى حالت ميں طواف كو شروع كيا تھا يا نہيں تو يہاں پر اسكى سابقہ حالت اگر وضو ہو تو اس پر بناركھے اور اپنے شك كى پر وا نہ كرے اور اس كا طواف صحيح ہے ليكن اگر اسكى سابقہ حالت وضو نہ ہو يا اس ميں بھى شك كرے كہ سابق ميں وضو ركھتا تھا يانہيں تو اس پرواجب ہے كہ وضو كر كے نئے سرے سے طواف بجالائے_

۸_ اگر اس پر غسل واجب ہو اور طواف كے اثنا ميں شك كرے كہ غسل

۱۱۹

كو بجالايا تھا يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ فوراً مسجد سے نكل جائے اور غسل كر كے نئے سرے سے طواف بجالائے_

تيسرى شرط: بدن اور لباس كا خبث سے پاك ہونا

مسئلہ ۲۵۳_واجب ہے كہ طوا ف كى حالت ميں بدن اور لباس خون سے پاك ہوں اور احوط وجوبى يہ ہے كہ يہ دونوں باقى نجاسات سے بھى پاك ہوں ہاں جوراب، رومال اور انگوٹھى كا پاك ہونا شرط نہيں ہے_

مسئلہ ۲۵۴:درہم سے كم خون اور اسى طرح پھوڑے پھنسى كا خون جس طرح نماز كے بطلان كا سبب نہيں بنتا اسى طرح طواف كو بھى باطل نہيں كرتا_

مسئلہ ۲۵۵_ اگر بدن نجس ہو اور طواف كو مؤخر كرنا ممكن ہو يہاں تك كہ اسے نجاست سے پاك كرلے تو طواف كو مؤخر كرنا واجب ہے جبتك اس كا وقت تنگ نہ ہوجائے _

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217