مناسك حج

مناسك حج27%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67751 / ڈاؤنلوڈ: 3397
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مسلمان تاریخ نویسوں کی نظر میں عبدالله بن سبا کی داستان

۱ سید رشید رضا(۱)

متاخرین میں سے سید رشید رضا نے یوں کہاہے :

” چوتھے خلیفہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام پر شیعیت ، امت محمدی میں دینی اور سیاسی اختلاف کا آغاز تھا ، پہلا شخص جس نے تشیع کے اصول گڑھے ہیں ، وہ عبد الله بن سبا نامی ایک یہودی تھا جس نے مکر و فریب کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے کی دعوت دیتا تھا تا کہ اس طرح امت میں اختلاف اور تفرقہ پھیلا کر اسے تباہ و برباد کرے(۲)

سید رشید رضا اس داستان کو اپنی کتاب کے چھٹے صفحہ تک جاری رکھتے ہوئے اس پر اپنا خاطر خواہ حاشیہ لگایا ہے ، جب ہم اس سے اس خیالی داستان کے ثبوت اور مصادر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھاہے :

” اگر کوئی تاریخ ابن اثیر کی تیسری جلد کے صفحہ ۹۵ ۔ ۱۰۳ پر جنگ جمل کے واقعہ کی

____________________

۱۔ متولد ۱۳۶۵ھ

۲۔ سید رشید رضا کی الشیعہ و السنة ،ص ۶۔۴۔

۴۱

خبر کا مطالعہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ ” سبائیوں “ نے کس حد تک اختلاف اندازی کی ہے اور نہایت ذہانت اور چالاکی سے اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے اور صلح کی راہ میں کتنی روکاوٹیں ڈالی ہیں ، اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ سید رشید رضا نے اس داستان کو ” تاریخ ابن اثیر “ پر بھروسہ کرکے نقل کیا ہے ۔

۲ ابو الفدء

ابو الفداء جس نے ۷۳۲ ھ میں وفات پائی ہے ، ” المختصر “ نامی اپنی تاریخ میں چند دوسری غیر صحیح داستانوں کے ساتھ ضمیمہ کرکے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس داستان کے ایک حصہ کو یوں لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کو شیخ عز الدین علی معروف بہ ابن اثیر جزری کی تالیف ’ ’ تاریخ کامل “ سے لیا ہے اور ابن اثیر کے مطالب کو خلاصہ کے طورپرمیں نے اپنی اِس کتاب میں درج کیا ہے “

۳ ابن اثیر

ابن اثیر وفات ۶۳۰ ھ ئنے اس داستان کو ۳۰ ۔ ۳۶ ء کے حوادث کے ضمن میں مکمل طور پر نقل کیا ہے، لیکن اس بات کی طرف کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ اس نے اس داستان کو کس مآخذ سے نقل کیا ہے ، صرف کتاب کے دیباجہ میں(۱)

____________________

۱۔ صفحہ ۵ ،طبع مصر ۱۳۴۸ھ ۔

۴۲

جس کا پورا نام ” الکامل فی التاریخ “ ذکر کیا ہے لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کے مطالب کو ابتداء میں امام ابو جعفر محمد طبری کی تالیف ” تاریخ الامم و الملوک “ سے نقل کیا ہے ، کیونکہ وہ تنہا کتاب ہے جو عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد ہے اور اگر کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، لہذا میں نے بھی اس کتاب کی روایتوں کو کسی دخل و تصرف کے بغیر من و عن نقل کیا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اکثر واقعات کے بارے میں متعد روایتیں ذکر کی ہیں لیکن میں نے ان تمام روایتوں کے مطالب کو جمع کرکے ایک جگہ بیان کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر جو کچھ اس نے ایک واقعہ کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے مختلف مآخذ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ، میں نے اُسے ایک روایت کی شکلمیں ذکر کیا ہے “

یہاں تک کہ کہتا ہے :

” لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختلافات کے بارے میں جو کچھ تھا اسے میں نے مذکورہ تاریخ سے من و عن نقل کرکے درج کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مطالب کی وضاحت کی ہے یا اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اور یا خلاصہ کے طور پر ان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ کسی صحابی کی بے احترامی نہ ہو“

اس لحاظ سے ابن اثیر، (جس سے ابو الفداء اور سید رشید رضا نے نقل کیا ہے)نے اس داستان کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ داستانیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان رونما ہوئے حوادث کی تفصیلات سے مربوط جعل کی گئی ہیں ، لہذ اابن اثیر کے کہنے کے مطابق اس نے طبری کے نقل کردہ مطالب پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

۴ ابن کثیر

ابن کثیر ---(وفات ۷۷۴ ھ)نے بھی اس داستان کو اپنی تاریخ ” البدایة و النہایة “ کی ساتویں جلد میں طبری سے نقل کیا ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۶۷ میں لکھاہے :

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ عثمان کے خلافمختلف پارٹیوں کی بغاوت کا سبب یہ تھا کہ ” عبدا للہ بن سبا “ نامی ایک شخص نے ظاہری طور پر اسلام لانے کے بعد مصر میں جاکر خود کچھ عقائد اور تعلیمات گڑھ کر وہاں کے لوگوں میں ان عقائد کو پھیلای“

۴۳

اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے مربوط داستانوں کو تمام خصوصیات کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴۶ تک نقل کرتا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

” یہ اس کا ایک خلاصہ ہے جو کچھ ابو جعفر بن جریر طبری نے نقل کیا ہے “۔

اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ داستان کو ” تاریخ طبری “ سے نقل کیا ہے ۔

۵ ابن خلدون

عبد الرحمان بن محمد بن خلدون نے بھی ” المبتداء و الخبر “ نامی اپنی تاریخ میں ابن اثیر اور ابن کثیر کے ہی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے عبداللہ بن سبا کی داستان کو قتل عثمان اور جنگ جمل کے واقعہ میں ذکر کیا ہے پھر اسی کتاب کی جلد(۲) صفحہ ۴۲۵ میں جنگ جمل کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے :

یہ ہے جنگ جمل کا واقعہ جسے میں نے خلاصہ کے طور پر ابو جعفر طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے، طبری اس لحاظ سے قابل اعتماد ہے کہ وہ باوثوق ہے اور اس کی کتاب ، ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کے یہاں موجود مطالب کی نسبت صحیح و سالم ہے “

اور صفحہ نمبر ۴۵۷ پر لکھاہے :

میں نے جو کچھ اس کتاب میں اسلامی خلافت کے موضوع، مرتدوں کے بارے میں فتوحات ، جنگوں اور اس کے بعد مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع (امام حسن اور معاویہ کے درمیان صلح) کے بارے میں درج کیا ہے ، وہ سب امام ابو جعفر طبری کی عظیم تاریخ سے خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ، چونکہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی نسبت قابل اعتمادہے اور ا سمیں ا یسے مطالب درج کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس امت کے بزرگوں ، اصحاب اور تابعین کی بے احترامی کا سبب بنیں “

۴۴

۶ فرید وجدی

فرید وجدی نے بھی اپنے” دائرة المعارف “ میں لغت ” عثم “ ، جنگ جمل اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان داستانوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۰ ، ۱۶۸ ، اور ۱۶۹ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا مآخذ ” تاریخ طبری “ ہے ۔

۷ بستانی

بستانی(وفات ۱۳۰۰ ھ)نے عبدا لله ابن سبا کی داستان کو ”تاریخ ابن کثیر “ سے نقل کرکے اپنے دائرة المعارف میں مادہ ” عبد اللہ “ کے تحت ذکر کیا ہے اور ” خطط مقریزی “(۱) کے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات تمام کی ہے ۔

۸ احمد امین

عصر حاضر کے مصنفین ، جوتاریخی حوادث کو تجزیہ و تحلیل کے طریقے سے لکھنا چاہتے ہیں اور ہر حادثہ کے سرچشمہ پر نظر رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک احمد امین مصری ہیں ۔جنھوں نے ” فجر الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں ایرانیوں اور اسلام پر ان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کے صفحہ نمبر ۱۰۹ سے ۱۱۱ تک ” مسلمانون پر زرتشت عقائد و افکار کے اثرات “ کے باب میں ” مزدک “ کے

____________________

۱۔ یہ احمد بن علی مقریزی وفات ۸۴۸ ھ ہے

۴۵

بارے میں بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی بات کا خلاصہ حسب ذیل ہے(۱) ” مزدک کی اہم دعوت اس کا اشتراکی نظام مقصد تھا ، مزدک کہتا تھا

” لوگ مساوی طور پر دنیا میں آئے ہیں اور انھیں مساوی زندگی بسر کرنی چاہئے ، اہم ترین چیز جس میں لوگوں کو مساوات کا لحاظ رکھنا چاہئے ، دولت اور عورت ہے ، کیونکہ یہی دو چیزیں لوگوں کے درمیان دشمنی اور جنگ کا سبب بنتی ہیں ، لہذا لوگوں کو ان دو چیزوں میں ایک دوسرے کا شریک ہونا چاہئے تا کہ دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے “

وہ دولتمندوں کی دولت کو محتاجوں اور فقیروں میں تقسیم کرنا واجب جانتا تھا ، لہذا حاجتمندوں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی حمایت کی اور اس طرح وہ اس قدر قوی ہوگیا کہ کوئی اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرسکتا تھا ، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے ان کے مال و ناموس کو لوٹ لیتا تھا ، اس طرح ایسے حالات رونما ہوئے کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچان سکتا تھا اور نہ بیٹا باپ کو جانتا تھا اور نہ کسی کی دولت باقی رہی تھی “

اس کے بعد احمد امین لکھتے ہیں کہ یہ دین اسلام کے پھیلنے کے زمانے اور بنی امیہ کی خلافت کے آخری ایام تک ایران کے بعض دیہاتی باشندوں میں موجود تھا ۔

اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

____________________

۱۔ احمد امین سے پہلے رشید رضا نے اپنی کتاب ” الشیعہ و السنة “ میں یہی بات کہی ہے ۔

۴۶

” ہم مالی امور کے سلسلے میں ا بوذر کے نظریہ اور مزدک کے نظریہ میں شباہت پاتے ہیں ، کیونکہ طبری کہتا ہے ابوذر نے شام میں انقلاب کرکے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اے دولتمندو حاجتمندوں کی مدد و یاری کرو“ اور یہ کہتا تھا : <اَلَّذِینَ یکنزون الذهب و الفضة و لا ینفقونها فی سبیل الله فبشّرهم بعذابٍ الیم >(۱)

اس نعرہ کو اس قدر دہرایا کہ تنگدستوں نے اسے اپنا منشور قرارد یا اور مساوات کو ثروتمندوں پر واجب سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ دولتمندوں نے تنگ آکر شکایت کی اور معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ابوذر شام کے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائےں ، اسے عثمان کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

عثمان نے ابو ذر سے پوچھا : کیوں لوگ تیری زبان درازی پر تجھ سے شکایت کرتے ہیں ؟ ابوذر نے جواب میں کہا : دولتمند سزاوار نہیں ہیں کہ وہ اپنے مال کو جمع کریں !

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اور دولت کے بارے میں ابوذر کا طرز تفکر مزدک کے نظریہ سے بہت نزدیک تھا یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوذر نے نظریہ کہاں سے سیکھا تھا؟

ہم اس سوال کے جواب کو طبری کی تحریر میں پاتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے : ابن سوداء عبداللہ بن سبا نے ابوذر سے ملاقات کرکے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ عبداللہ بن سبا ابود رداء اور عبادہ بن صامت(۲) کے پاس بھی گیا تھا لیکن وہ اس کے فریب میں نہیں آئے تھے ، حتی عبادة بن

____________________

۱۔ مال و دولت کو جمع کرکے راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والو ں کو خبردار کرو کہ ان کی پیشانی اور پہلو کو داغ کرنے کیلئے اوزار آمادہ ہے ۔

۲۔یہ دونو ں پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں ، اس کتاب کے آخر میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

۴۷

صامت نے ابن سوداء کے گریبان پکڑ کر اسے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ سے کہا: خدا کی قسم یہ وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو تیرے خلاف اکسایا ہے(۱)

اس کے بعد احمد امین بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہم جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا صنعاء کا رہنے و الا ایک یہودی شخص تھا ، اس نے عثمان کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا تا کہ اسلام کو نابود کردے ، اس لئے اس نے مختلف شہروں میں اپنے گمراہ کن اور مضر افکار کو پھیلادیا جن کے بارے میں بعد میں ہم اشارہ کریں گے۔

چونکہ ابن سبا نے حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، شام اور مصر جیسے بہت سے شہروں کا سفر کیا تھا ا س لئے اس کا قوی امکان ہے کہ اس نے اس طرز تفکر کو عراق یا یمن کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہوگا اور ابوذر نے اس سے حسن نیت رکھنے کی بنا پر اس نظریہ کو قبول کیا ہوگا“

اور حاشیہ میں لکھا ہے :

____________________

۱” تاریخ طبری کا حصہ پنجم ملاحظہ ہو “

وہ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۲ میں اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں :

” مزدک و مانی وہ سرچشمہ تھے جن سے رافضیوں -(شیعوں) نے اپنے عقائد اخذ کئے ہیں ، انہوں نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ اپنے ایرانی اسلام کے اس عقیدہ سے لیا ہے جو وہ ساسانی بادشاہوں کے بارے میں رکھتے تھے ، کیونکہ وہ پادشاہوں کی پادشاہی کو ایک قسم کا خدائی حق جانتے تھے ۔

۴۸

احمد امین نے وعدہ کیا تھا کہ ” مختلف شہروں میں ان گمراہ کن اور مضر عقیدوں و و افکار کو پھیلنے کے بارے میں بعد میں اشارہ کریں گے “ وہ اس وعدہ کو پورار کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵۴ پر اسلامی فرقوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :

عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں بعض گروہ مخفی طور پر جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو عثمان کا تختہ الٹنے، اس کی جگہ پر دوسروں کو بٹھانے کی ترغیب دلانے لگے ۔

ان فرقوں میں سے بعض فرقے علی علیہ السلام کے حق میں پروپگنڈہ کرتے تھے ، ان کے سرغنوں میں سب سے مشہور شخص عبداللہ بن سبا تھا ، جو یمن کا ایک یہودی تھا اور اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا اور بصرہ ، شام و مصر کے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک وصی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی، علی علیہ السلام ہیں اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کرے اور ا س کے وصی کے خلاف بغاوت کرے ؟ ابن سبا ان معروف افراد میں سے تھا جس نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا “

اس کے بعد صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں :

” یہ اس تاریخ کا خلاصہ ہے جس کو نقل کرنے پر میں مجبور تھا ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تین فرقے اسی کی بناء پر وجود میں آئے ہیں جو عبارت ہیں ، شیعہ اور “

اپنی کتاب کے ۲۶۶ ۔ ۲۷۸ پر شیعوں سے مربوط فصل میں ایسے مطالب کو واضح تر صورت میں بیان کیا ہے ۔ وہ صفحہ ۲۷۰ پر رقم طراز ہیں :

رجعت کے عقیدہ کو ابن سبا نے مذہب یہود سے لیا ہے کیونکہ وہ لوگ اس امر کے معقتد ہیں کہ الیاس پیغمبر نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے اور وہ واپس آئیں گے اس عقیدہ نے شیعوں کو ائمہ کے غائب ہونے او رمھدی منتظر کے اعتقاد رکھنے پر مجبور کیا ہے(۱) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۷۶ پر مذکورہ مقدمات کا حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’ ’ حقیقت میں تشیع ایسے لوگوں کی پناہ گاہ تھی جو اسلام کے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھنے کی بناء پر اسے نابود کرنا چاہتے تھے ۔ جو بھی گروہ اپنے اسلام یعنی یہودی ، عیسائی اور زردشتی دین کو اسلام میں داخل کرنا چاہتا تھا ، اس نے اہل بیت پیغمبر کی دوستی

____________________

۱۔ مؤلف نے مصری عالم شیخ محمود ابوریہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں مھدی موعود (عج) کے بارے میں شیعو ں کے عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ دلائل لکھے ہیں ، اس خط کا ایک حصہ مذکورہ عالم کی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں درج ہوا ہے ، طبع صور لبنا ں ۱۳۸۳ ھ ء ملاحظہ ہو۔

۴۹

کو وسیلہ قرار دیا اور اس آڑ میں جو بھی چاہا انجام دیا ، شیعوں نے رجعت کے عقیدہ کو یہودیوں سے سیکھا ہے(۱)

اور صفحہ ۲۷۷ پریوں تحریک کرتے ہیں :

ولھاوزن کا عقیدہ یہ ہے کہ تشیع ایرانیوں کے دین کی بہ نسبت ،دین یہود سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تشیع کا بانی عبداللہ بن سبا نامی ایک یہودی شخص تھا ۔“

احمد امین کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعوں نے رجعت اور امامت کے عقیدہ کو عبدا للہ بن سبا سے لیاہے اور ائمہ کی عصمت اور غیبت مھدی (عج) کے عقیدہ کا سرچشمہ بھی یہی ہے اور ابوذر نے جو اشتراک کی تبلیغ کی ہے یہ تبلیغات اور تعلیمات بھی عبداللہ بن سبا سے سیکھی ہے اور ابن سبا نے بھی رجعت کے عقیدہ کو دین یہود سے لیا ہے اور اشتراکی نظریہ کو مزدک کے دین سے اخذ کیا ہے اور عبدا لله بن سبا نے یہ کام علی علیہ السلام کے حق کے مطالبہ کی آڑ میں انجام دیا ہے اور اس طرح اسلام میں شیعہ عقیدہ کو ایجاد کیا ہے ، اس طرح یہاں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حب اہل بیت دشمنان اسلام کے لئے وسیلہ قرار پایا ہے اور شیعیت کے روپ میں یہود وغیرہ کی تعلیمات اسلام میں داخل ہوئی ہیں !!!

احمد امین کے ان تمام مفروضوں کا منبع اور دلیل ابن سبا کے افسانے ہیں اور مآخذ تاریخ طبری ہے اس نے صرف ایک جگہ پر ولھاوزن سے نقل کیا ہے ، ہم ثابت کریں گے کہ ولھاوزن نے بھی طبری

____________________

۱۔ کتاب ” فجر اسلام “ اور ” تاریخ الاسلام السیاسی “ دنیا کی یونیورسٹیوں میں تاریخی مآخذمیں جانی جاتی ہیں یہ شیعہ تاریخ یونیورسٹیوں میں یوں پڑھا ئی جاتی ہے تو کیاصحیح تاریخ سمجھانے کا کوئی وسیلہ موجود ہے ؟

۵۰

سے نقل کیا ہے ۔

اگر چہ احمد امین نے اس افسانہ کو علمی تجزیہ و تحلیل کے طریقے پر پیش کیا ہے ، لیکن اس میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بغض و کینہ نے انھیں ان مفروضوں کے سلسلہ میں کوسوں دور پھینک دیا ہے نہ کہ علمی ا ور تحقیقی روش نے

۹ حسن ابراہیم

معاصر کے مصنفین میں سے ایک اور شخص جس نے ان داستانوں کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مصر کی یونیورسٹی کے شعبہ تار یخ اسلام کے استادپروفیسر ڈاکٹر حسن ابراہیم ہیں ، انھوں نے ” تاریخ الاسلام السیاسی “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۷ پر خلافت عثمان کے آخری ایام میں مسلمانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

” یہ ماحول مکمل طور پر عبد اللہ بن سبا اور اس کے پیرکاروں ،اور اس کے اثر ات قبول کر نے والوں کا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک دیرینہ صحابی ، ابوذر غفاری (جو تقوی اورپرہیزگاری میں مشہور تھے اور خود ائمہ حدیث کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے)نے فتنہ کی آگ کو بھڑکادیا ، اس نے صنعا کے رہنے والے ایک شخص عبد اللہ بن سبا کے کئے گئے زبردست پروپگنڈے کے اثر میں آکر عثمان اور اس کے شام میں مقرر کردہ گورنر معاویہ کی سیاست کی مخالفت کی ، عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرکے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس نے اپنے دورے کو حجاز سے شروعکیا اور کوفہ ، شام اور مصر تک چھان ڈالا “

۵۱

اس نے اس صفحہ کے حاشیہ پر تاریخ طبری(۱) کو اپنا مآخذ قرار دیا ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۹ پر یوں لکھا ہے :

” عبداللہ بن سبا سب سے پہلا شخص ہے جس نے عثمان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی اور عثمان کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کی “

کتاب کے حاشیہ پر تاریخ طبری کے صفحات کی طرف چار بار اشارہ کرتا ہے کہ اس خبر کو میں نے اس سے نقل کیا ہے اور اسی طرح داستان کو ص ۳۵۲ تک جاری رکھتا ہے اور بارہ دفعہ اس داستان کے تنہا مآخذ تاریخ طبری کے صفحات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے باوجود کہ جنگِ جمل کے بارے میں طبری کی نقل کردہ بات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ، جبکہ ابن سبا دونوں داستانوں میں موجود ہے، اور دونوں قصے ایک ہی داستان پر مشتمل ہیں اور داستان گڑھنے والا بھی ایک ہی شخص ہے!!!

۱۰ ابن بدران

ابن بدران (وفات ۳۴۶ ھ ء) نے تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام ” تہذیب ابن عساکر “ رکھاہے اس نے اپنی اس کتاب میں اکثر روایتوں کو راوی کا نام لئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اس

____________________

۱۔ طبری طبع یورپ حصہ اول صف ۲۸۵۹

۵۲

نے ابن سبا کے افسانے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے اس نے بعض جگہوں پر اس کے راوی سیف بن عرم کا نام لیا ہے اور بعض جگہوں پر راوی کا ذکر کئے بغیر افسانہ نقل کیا ہے اور بعض مواقع پر سیف کی روایتوں کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چنانچہ اس سے زیادہ ا بن ابیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے سیف کی روایتوں کو اس کی کتاب سے نقل کیا ہے(۱)

لہذا معلوم ہوتا ہے کہ سبائیوں کی داستان نقل کرنے میں اسلام کے مؤرخین کا مآخذ و مدرک ” تاریخ طبری “ تھا۔

۱۱ سعید افغانی

سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ نامی اپنی کتاب میں ابن سبا کے افسانہ سے کچھ حصے، ” عثمان کااحتجاج “ ابن سبا مرموز اور خطرناک ہیرو ، سازش و دسیسہ کاری پر نظر “‘ کے عنوا ن کے تحت بیان کیا ہے ، اس نے اپنی کتاب کے دوسرے حصوں میں ان افسانوں کے چند اقتباسات درج کئے ہیں ۔

اس کا مآخذ ، پہلے درجہ پر تاریخ طبری ، دوسرے درجہ پر تاریخ ابن عساکر اور اس کی تہذیب اور تیسرے درجہ پر تمہید ابن ابی بکر(۱) ہے ، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵ پر طبری کے او پر اکثر اعتماد کرنے کا سبب یوں بیان کرتا ہے :۔

میں نے بیشتر اعتماد تاریخ طبری پر کیا ہے ، کیونکہ یہ کتاب دوسرے تمام مصادر سے حقیقت کے نزدیک تر اور اس کا مصنف دوسروں سے امین تر اور اس کے بعد آنے والے ہر با اعتبارر مؤرخ نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔

میں نے اس کے الفاط میں کسی قسم کے رد و بدل کے بغیر اپنی کتاب میں درج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔

____________________

۱۔ ص ۴۳ اور ۴۵ پر تاریخ ابن عساکر ، صفحہ ۴۲ ، ۴۹، ۵۲ اور ۱۸۷ پر تہذیب ابن عساکر سے اور صفحہ ۳۴ اور ۳۵ میں تمہید سے استفادہ کیا ہے ۔

۵۳

غیر مسلم مؤرخین کی نظر میں عبدللہ بن سبا کی داستانیں

۱ فان فلوٹن

وہ ایک مستشرق ہے وہ اپنی کتاب ”السیاسة العربیة و الشیعة و الاسرائیلیات فی عهد بنی امیة “ ترجمہ ڈاکٹر حسن ابراہیم و محمد زکی ابراہیم طبع اول ، مصر ۱۹۳۴ ءء کے صفحہ ۷۹ پر شیعہ فرقہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے، یوں لکھتا ہے :

” امام ،سبائی ، عبداللہ بن سبا کے پیرو ، ہیں نیز ان افراد میں ہیں جو عثمان کے پورے دو ر خلافت میں علی علیہ السلام کو خلافت کےلئے سزاوار جانتے تھے “

اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ کے حاشیہ پر تاریخ طبری کو اپنے مآخذ و مدرک کے طور پر پیش کیا ہے ۔

۲ نکلسن

نکلسن اپنی کتا ب” تاریخ الادب العربیّ“ طبع کمبریج کے صفحہ نمبر ۲۱۵ پر لکھتا ہے :

” عبدا للہ بن سبا ،سبائیوں کے گروہ کا بانی ہے ، وہ یمن کے شہر صنعا کا باشندہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اور عثمان کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور ایک سیاح مبلغ تھا ، مؤرخین اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں رہا کرتا تھا تا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان میں اختلاف پیدا کرے ، سب سے پہلے وہ حجاز میں نمودار ہوا اس کے بعد بصرہ اور کوفہ اس کے بعد شام اور آخر کار مصر پہنچا ، وہ لوگوں کو رجعت کے اعتقاد کی دعوت دیتا تھا ، ابن سبا کہتا تھا : بے شک تعجب کا مقام ہے کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ کے پھر سے اس دنیا میں آنے کا معتقد ہو لیکن حضرت محمد کی رجعت کے بارے میں اعتقاد نہ رکھتا ہو جبکہ قرآن مجید نے اس کا واضح طور پر ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہزاروں پیغمبر آئے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی و جانشین تھا ، محمد کا بھی ایک وصی ہے جو علی علیہ السلام ہے ، چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اس لئے علی علیہ السلام بھی آخری وصی اور ان کے جانشین ہیں “

اس نے بھی اپنا مآخذ کو تاریخ طبری کو قرار دیکر مذکورہ بیانات کے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

۵۴

۳ اسلامی دائرة المعارف لکھنے والے مستشرقین

ہو تسمن ، ولاینسنگ ، اورنلڈ ، برونسال ، ھیونک ، شادہ ، پاسیہ ، ہارٹمان اور کیب جیسے مشرق شناس استادوں کے ایک گروہ کے تصنیف کردہ اسلامی دائرة المعارف میں یہ داستان حسب ذیل درج ہوئی ہے :(۱)

____________________

۱۔ اسلامی دائرة المعارف ج۱/ ۲۹ طبع لندن

۵۵

” اگر ہم صرف طبری اورمقریزی کی بات پر اکتفا کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ جن چیزوں کی طرف عبد اللہ بن سبا دعوت دیتا تھا ، ان میں رجعت محمد بھی تھی وہ کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہے اور علی علیہ السلام محمد کے جانشین ہیں ۔ لہذا ہر مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے کردار و گفتار سے علی علیہ السلام کے حق کی حمایت کرے “ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ نے اس طرز تفکر کی تبلیغ کےلئے بعض افراد کو معین کیا تھا اور خود بھی ان میں شامل تھا، وہ شوال ۱۵ ھ مطابق اپریل ۶۵۶ ءء میں مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہو “

ہم نے یہاں پر وہ مطلب درج کیا جسے مذکورہ دائرة المعارف نے طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ حوادث مقریزی سے ۸۰۰ سال قبل رونما ہوئے ہیں ، اس لئے اس طولانی فاصلہ زمان کے پیش نظر اور اس کے علاوہ مقریزی نے مآخذکا ذکر بھی نہیں کیا ہے یا جس کتاب سے نقل کیاہے اس کا نام بھی نہیں لیا ہے اسلئے مقریزی کے نقل پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ طبری اس داستان کی سند کو اس کے راوی تک پہنچاتا ہے اور وہ خود بھی مقریزی سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گذراہے، اس حالت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مقریزی کی تحریر کو تاریخ طبری کے برابر قرار دیں اس کے باوجود ہم کتاب کے آخر میں مقریزی کی روایت پر بحث کریں گے ۔

۴ڈوایت ، ایم، ڈونالڈسن

ڈوایت ، ایم ، ڈونالڈسن ، ‘” عقیدہ الشیعہ “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ ۵۸ پر یوں رقمطراز ہے:

” قدیم روایتین ہمیں اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام جس خلافت کا دعویٰ کرتے تھے اس کی ان کے حامیوں اور شیعوں کی نظر میں صرف سیاسی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ اسے ایک الہی حق سمجھتے تھے اور ان عقائد و افکار کے پھیلانے میں تاریخ اسلام کے ایک مرموز شخص کی ریشہ دوانیوں کا اہم رول تھا ۔ کیونکہ عثمان کی خلافت کے دوران عبداللہ بن سبا نامی ایک شخص پیدا ہوا جس نے وسیع تعلیمات کو پھیلانے کا اقدام کیا ، اس نے ان عقائد کو پھیلانے کیلئے اسلامی ممالک کے شہروں کا ایک طولا نی دورہ کیا ، طبری کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلام کو نابود کرنا تھ“

۵۶

جیسا کہ کتاب کے صفحہ نمبر ۵۹ کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ” عقیدہ الشیعہ “ نامی کتاب کے مصنف نے اس داستان کو براہ راست طبری سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نقل میں اس نے دو کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے :

۱ ۔ گذشتہ اشارہ کئے گئے مستشرقین کے دائرة المعارف کا مادہ ” عبداللہ “

۲ ۔ نیکلسن کی تالیف کردہ کتاب ” تاریخ الادب العربی “ ص ۳۱۵ ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں جو کچھ عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵ ولھاوزن

ولھاوزں اپنی کتاب ”الدولة العربیة و سقوطها “ کے صفحہ نمبر ۵۶ اور ۵۷ پر لکھتا ہے :

” سبائیوں نے اسلام میں تبدیلی ایجاد کی ، قرآن مجید کے بر عکس اعتقاد رکھتے تھے کہ روح خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم میں حلول کیا ہے اور ان کی وفات کے بعد اس روح نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام میں حلول کیا ہے ان کی نظر میں علی علیہ السلام ، ابو بکر اور عمر کے ہم پلہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ ان دونوں کو علی علیہ السلام کا حق غصب کرنے والے جانتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس مقدس روح نے علی علیہ السلام کے اندر حلول کیاہے “

۵۷

اس کے بعد لکھتا ہے :

” کہا جاتا ہے کہ سبائی عبداللہ بن سبا سے منسوب تھے وہ یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا “

ولھاوزن نے یہاں پر اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اپنی کتاب کے ۳۹۶ سے ۳۹۹ تک مطلب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اپنے مآخذ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے :

” سیف کہتا ہے : سبائی پہلے ہی دن سے شر پسند اور بد نّیت تھے ، انہوں نے عثمان کوقتل کرکے مسلمانوں کے اندر افراتفری اور جنگ کے شعلے بھڑکادیئے ان میں اکثر لوگ موالی اور غیر عرب تھے ۔

سبائی عبد اللہ بن سبا کی پیروی کرتے ہوئے اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رجعت کریں گے اور آپ اپنے اہل بیت کے بدن میں حلول کرتے ہیں چونکہ علی علیہ السلام کی اولاد جو پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سے تھی ، نے اسلام اورعربی نسل سے منہ نہیں موڑا اور سبائیوں کو مسترد کردیا اسلئے وہ علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے منسلک ہوگئے ۔

محمد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ابو ہاشم ---جو اپنے باپ کی طرح بے قدر تھا ---ان کا امام بنا ، ابو ہاشم نے اپنے بعد محمد بن علی عباسی کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا اور یہاں سے خلافت بنی عباس میں منتقل ہوگئی ۔ سیف کی روایت کے مطابق بنی عباس کا خروج سبائیوں کے خروج کے مانند تھا ، دونوں گروہوں کی دعوت کا مرکز شہر کوفہ تھا ور ان کے پیرو ایرانی تھے اور دونوں گروہوں نے عرب مسلمانوں کے خلاف خروج کیا تھا “

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنہیں ولھاوزن نے سیف سے نقل کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ دوبار اس کے نام کی تکرار کی ہے ، کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر وہ سیف کی ستائش کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

اس بناء پر ولھاوزن کا مآخذ بھی تاریخ طبری ہے اور طبری کے ہی واسطہ سے اس نے اس افسانہ کو نقل کیا ہے ۔

جیسا کہ معلوم ہوا ، ا بن سبا کا افسانہ عجیب شہرت کاحامل ہوا جیسا کہ مشاہدہ ہورہا ہے، کہ جنہوں نے بھی اس افسانہ کو نقل کیا ہے ان سب کی روایتیں بلاواسطہ یا ایک یا اس سے زیادہ واسطوں سے طبری پر ختم ہوتی ہیں ۔

۵۸

وہ لوگ جنہوں نے عبد اللہ بن سباکی داستان کو ،مآخذ کا اشارہ کئے بغیر نقل کیا ہے ۔

مؤرخین اور مصنفین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جنہوں نے نہ اپنی روایت کے مآخذ کو لکھا ہے اور نہ اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود جہاں بھی اجمالی طور پر ان کی کتابوں کے مصادر کا ذکر آتا ہے ، طبری ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں طبری سے روایت نقل کی گئی ہے ، جیسے :

۱ میر خواند:

اس نے عبداللہ بن سبا کی داستان کو اپنی کتاب ” روضة الصفا“ میں درج کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن تحقیق و مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲ غیاث الدین

غیاث الدین فرزند میرخواند (وفات ۹۴۰ ھ) نے اپنی کتاب ” حبیب السیر “ میں عبداللہ بن سبا کی داستان اپنے باپ کی کتاب ” روضة الصفا“ سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند و مآخذ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

عبداللہ بن سبا کی داستان کے اسناد

جیسا کہ ذکر ہوا ، تاریخ طبری قدیمی ترین کتاب ہے جس میں عبداللہ بن سبا کی داستانیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس داستان کے راوی کو بھی معین و مشخص کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لکھی جانے والی تمام کتابوں میں ، ابن سبا کی داستان اور سبائیوں کے افسانہ کو طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵۹

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

مسئلہ ۲۵۶_ اگر بدن يا لباس كى طہارت ميں شك كرے تو اس كيلئے انہيں كے ساتھ طواف كرنا جائز ہے اور اس كا طواف صحيح ہے ليكن اگر جانتا ہو كہ پہلے نجس تھا اور شك كرے كہ اس نے اسے پاك كيا ہے يا نہيں تو اس كيلئے اس كے ساتھ طواف كرنا جائز نہيں ہے _

مسئلہ ۲۵۷_ اگر طواف سے فارغ ہونے كے بعد اپنے بدن يا لباس كى نجاست كى طرف متوجہ ہو تو اس كا طواف صحيح ہے _

مسئلہ ۲۵۸_ اگر طواف كے دوران ميں اس كا بدن يا لباس نجس ہوجائے جيسے كہ لوگوں كى بھيڑ كے نتيجے ميں اس كا پاؤں زخمى ہوجائے اور طواف كو منقطع كئے بغير اسے پاك بھى نہ كرسكتا ہو تو اس پرواجب ہے كہ طواف كو منقطع كر كے اپنے بدن يا لباس كو پاك كرے پھر فوراً پلٹ آئے اور جہاں سے طواف كو چھوڑا تھا وہيں سے اسے جارى ركھے اور يہ صحيح ہے _

مسئلہ ۲۵۹_ اگر طواف كے دوران ميں اپنے بدن يا لباس ميں نجاست ديكھے اور نہ جانتا ہو كہ كيا يہ نجاست طواف كو شروع كرنے سے پہلے تھى يا

۱۲۱

طواف كے دوران ميںعارض ہوئي ہے تو سابقہ مسئلہ كا حكم يہاں بھى لاگو ہوگا_

مسئلہ ۲۶۰_ اگر طواف كے دوران ميں اپنے بدن يا لباس كى نجاست كى طرف متوجہ ہو اور اسے يقين ہو كہ يہ نجاست طواف كو شروع كرنے سے پہلے تھى تو اس كا حكم سابقہ مسئلہ والا ہے_

مسئلہ ۲۶۱_ اگر اپنے بدن يا لباس كى نجاست كو بھول كر اسى حالت ميں طواف كرلے اور طواف كے دوران ميں اسے ياد آئے تو اس كا حكم گذشتہ تين مسائل والا ہے _

مسئہ ۲۶۲_ اگر اپنے بدن يا لباس كى نجاست كو بھول كر اسى حالت ميں طواف كرلے اور طواف سے فارغ ہونے كے بعد ياد آئے تو طواف صحيح ہے ليكن اگر نماز طواف كو نجس بدن يا لباس كے ساتھ بجالائے تو اس پر واجب ہے كہ طہارت كے بعد اسے نئے سرے سے پڑھے_

۱۲۲

اور اس مسئلہ ميں احوط يہ ہے كہ طہارت كے بعد طواف كا بھى نئے سرے سے اعادہ كرے_

چوتھى شرط : ختنہ

يہ صرف مرد كے طواف كى صحت ميں شرط ہے نہ عورت كے _پس ختنہ نہ كئے ہوئے شخص كا طواف باطل ہے چاہے وہ بالغ ہو يا نہ _

پانچويں شرط: شرم گاہ كو چھپانا

مسئلہ ۲۶۳_ احوط وجوبى كى بناپر طواف كى صحت ميں شرمگاہ كو چھپانا شرط ہے_

مسئلہ ۲۶۴_ اگر طواف كے دوران ميں عورت اپنے سر كے تمام بالوں كو نہ چھپائے يا اپنے بدن كے بعض حصوں كو ظاہر كرے تو اس كا طواف صحيح ہے اگر چہ اس نے حرام كام كيا ہے _

۱۲۳

چھٹى شرط: طواف كى حالت ميں لباس كاغصبى نہ ہو نا

مسئلہ ۲۶۵_ طواف كى صحت ميں شرط ہے كہ لباس غصبى نہ ہو پس اگر غصبى لباس ميں طواف بجالائے تو احوط وجوبى كى بناپر اس كا طواف باطل ہے_

ساتويں شرط: موالات

مسئلہ ۲۶۶_ احوط وجوبى كى بناپر طواف كے اجزا كے درميان موالات عرفيہ شرط ہے يعنى طواف كے چكروں كے درميان اتنا فاصلہ نہ كرے كہ جس سے ايك طواف بر قرار نہ رہے _ اور وہ صورت اس مستثنے ہے كہ جب نصف طواف يعنى ساڑھے تين چكروں سے گزرنے كے بعد نماز وغيرہ كيلئے طواف كو منقطع كرے_

۱۲۴

مسئلہ ۲۶۷_ جو شخص نماز فريضہ كى خاطر اپنے واجب طواف كو منقطع كرے تو اگر نصف كے بعد منقطع كرے توجہاں سے اسے منقطع كيا تھا وہيں سے مكمل كرے اور اگر اس سے پہلے منقطع كيا ہو تو اگر زيادہ فاصلہ ہوجائے تو احوط يہ ہے كہ طواف كا اعادہ كرے ورنہ اس احتياط كا واجب نہ ہونا بعيد نہيںہے اگر چہ ہر حالت ميںاحتياط اچھا ہے اور اس ميں فرق نہيں ہے كہ نماز فرادى ہو يا جماعت كے ساتھ اور نہ اس ميں كہ وقت تنگ ہو يا وسيع _

مسئلہ ۲۶۸_ مستحب بلكہ واجب طواف كو بھى منقطع كرنا جائز ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ واجب طواف كو اس طرح منقطع نہ كرے كہ جس سے موالات عرفيہ فوت ہوجائے _

۱۲۵

طواف كے واجبات

طواف ميں سات چيزيں شرط ہيں :

اول: حجر اسود سے شروع كرنا يعنى اسكے بالمقابل جگہ سے شروع

۱۳۰ كرے _يہ شرط نہيں ہے كہ طواف حجر اسود كے شروع سے ہو كہ اپنے پورے بدن كے ساتھ جحر اسود كے سب اجزا كے سامنے سے گزرے بلكہ عرفاً ابتدا صدق كرنا كافى ہے اسى لئے حجر اسود كے كسى بھى نقطہ سے آغاز كرنا صحيح ہے ہاں واجب ہے كہ اسى جگہ پر ختم كرے جہاں سے شروع كرے پس اگر درميان سے شروع كرے تو وہيں پر ختم كرے _

دوم: ہر چكر كو حجر اسود پر ختم كرنا :

مسئلہ ۲۶۹_ واجب نہيں ہے كہ ہر چكر ميں ٹھہر كر دوبارہ شروع كرے بلكہ كافى ہے كہ بغير ٹھہرے اس طرح سات چكر لگائے كہ ساتويں چكر كو اس جگہ ختم كرے جہاں سے پہلا چكر شروع كيا تھا ہاں احتياطاً كچھ مقدار زيادہ كرنے سے كوئي مانع نہيں ہے تا كہ يقين ہوجائے كہ اس نے اسى نقطے پر ختم كيا ہے جہاں سے آغاز كياتھا پس زائد كو احتياط كى نيت سے بجالائے_

مسئلہ ۲۷۰_ واجب ہے كہ طواف اسى طرح كرے جيسے سب مسلمان

۱۲۶

كرتے ہيں پس حجر اسود كے بالمقابل سے آغاز كرے اور اسى پر ختم كردے_ وسوسہ كرنے والوں كى دقت كے بغير اور ہر چكر ميں حجر اسود كے مقابل ميں ٹھہر نا واجب نہيں ہے_

سوم: طواف بائيں جانب ہوگا اس طرح كے طواف كے دوران خانہ كعبہ حاجى كى بائيں طرف ہو اور اس سے مقصود طواف كى سمت كو معين كرنا ہے _

مسئلہ ۲۷۱_ خانہ كعبہ كے بائيں جانب ہونے كا معيار صدق عرفى ہے نہ دقت عقلى پس حجر اسماعيل عليہ السلام اور چار اركان كے پاس پہنچتے وقت تھوڑاسا مڑنا طواف كى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا پس ان كے پاس پہنچتے وقت اپنے كند ھے كو موڑنے كى ضرورت نہيں ہے _

مسئلہ ۲۷۲_ اگر كچھ مقدار طواف رائج صورت سے ہٹ كر بجالائے جيسے كہ طواف كے دوران ميں كعبہ كو چومنے كيلئے اسكى طرف رخ موڑلے يا بھيڑ اس كا رخ يا پشت كعبہ كى طرف كردے يا كعبہ كو اسكى دائيں جانب

۱۲۷

كردے تو اس كا طواف صحيح نہيں ہے بلكہ اس مقدار كا تدارك كرنا واجب ہے _

چہارم: حجر اسماعيل عليہ السلام كو اپنے طواف كے اندر داخل كرنا اور اسكے باہر سے طواف كرنا _

مسئلہ ۲۷۳_ اگر اپنا طواف حجر اسماعيل عليہ السلام كے اندر سے يا اسكى ديوار كے اوپر سے بجالائے تو اس كا طواف باطل ہے اور اس كا اعادہ كرنا واجب ہے اور اگر كسى چكر ميں حجر كے اندر سے طواف كرے تو صرف وہى چكر باطل ہوگا _

مسئلہ ۲۷۴_ اگر جان بوجھ كر حجر كے اندر سے طواف بجالائے تو اس كا حكم جان بوجھ كر طواف كو ترك كرنے والا حكم ہے اور اگر بھول كر ايسا كرے تو اس كا حكم بھول كر طواف كو ترك كر نے والاحكم ہے اور ان دونوں كا بيان آجائيگا _

پنجم : طواف كے دوران ميں خانہ كعبہ اور اسكى ديوار كى نچلى جانب كى

۱۲۸

بنياد جسے ''شاذروان'' كہاجاتاہے،سے باہر رہنا_

مسئلہ ۲۷۵_ حجر اسماعيل عليہ السلام كى ديوار پر ہاتھ ركھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے جيسے كہ كعبہ كى ديوار پر ہاتھ ركھنا بھى ايسا ہى ہے _

ششم: مشہور قول كے مطابق شر ط ہے كہ طواف خانہ كعبہ اور مقام ابراہيم عليہ السلام كے درميان ہو اور ديگر جوانب سے ان دو كے درميان كے فاصلے كى حدود ميں ہو ليكن اقوى يہ ہے كہ يہ شرط نہيں ہے پس اسے مسجدالحرام ميں اس مقدار سے پيچھے انجام دينا جائز ہے بالخصوص جب شديد بھيڑ مانع ہوہاں اولى يہ ہے كہ اگر مانع نہ ہو تو طواف مذكورہ مطاف كے اندر ہو _

مسئلہ ۲۷۶_ بعيد نہيںہے كہ زمين اور كعبہ كى چھت كے بالمقابل والى فضا ميں طواف كافى ہو ليكن يہ احتياط كے خلاف ہے _

اگر صرف اوپر والى چھت( دوسرى منزل) ميں طواف كرنے پر قادر ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ خود ''اوپر والى منزل'' پر طواف بجالائے اور كسى

۱۲۹

كونائب بنادے جو اسكى طرف سے مسجدالحرام كے صحن ميں طواف بجالائے _

ہفتم : طواف كے سات چكر ہيں _

طواف كے ترك كرنے، اس ميں كمى كرنے يا اس ميں شك كرنے كے بارے ميں چند مسائل_

مسئلہ ۲۷۷_ طواف ايك ركن ہے كہ جسے اسكے فوت ہونے كے وقت تك جان بوجھ كر ترك كرنے سے عمرہ باطل ہو جاتا ہے اور اس ميں فرق نہيں ہے كہ اس حكم كو جانتا ہو يا نہ _

مسئلہ ۲۷۸_ مكہ ميں داخل ہونے كے بعد فوراً طواف كرنا واجب نہيں ہے بلكہ اس وقت تك مؤخر كرسكتا ہے كہ جس سے عرفات كے اختيارى وقوف كا وقت تنگ نہ ہو ( عرفات ميں اختيارى وقوف نوذى الحج كى ظہر سے ليكر غروب تك ہوتا ہے ) اس طرح كہ اس كيلئے طواف اور اس پر مترتب ہونے والے اعمال كو انجام دينے كے بعد مذكورہ وقوف كو درك كرنا

۱۳۰

ممكن ہو _

مسئلہ ۲۷۹_ اگر اپنے طواف كو باطل كردے _ جيسے كہ گذشتہ حالت ميں يا ديگر حالات ميں كہ جنہيں ہم بيان كريںگے _ تو احوط يہ ہے كہ عمرہ كو حج افراد ميں تبديل كردے اور اس كے بعد عمرہ مفردہ كو بجالائے پھر اگر اس پر حج واجب تھا تو آئندہ سال عمرہ اور حج بجالائے _

مسئلہ ۲۸۰_ اگر بھول كر طواف كو ترك كردے اور طواف كا وقت گزرنے سے پہلے ياد آجائے تو طواف اور نماز طواف كو بجالائے اور ان كے بعد سعى كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۲۸۱_ اگر بھول كر طواف كوترك كردے اور اس كا وقت گزرنے كے بعد ياد آئے تو جس وقت اس كيلئے ممكن ہو طواف اور نماز طواف كى قضا كرنا واجب ہے ليكن اگر اپنے وطن واپس پلٹنے كے بعد ياد آئے تو اگر اسكے لئے بغير مشقت اور حرج كے لوٹنا ممكن ہو تو ٹھيك ورنہ نائب بنائے اور طواف اور نماز طواف كى قضا كے بعد اس پر سعى كا اعادہ كرنا واجب نہيں

۱۳۱

ہے_

مسئلہ ۲۸۲_ طواف كو ترك كرنے والے كيلئے وہ چيزيں حلال نہيں ہيں كہ جنكى حليت طواف پر موقوف ہے چاہے جان بوجھ كر ترك كرے يا بھول كر جبتك خود يا اپنے نائب كے ذريعے طواف كو بجانہ لائے اور اسى طرح وہ شخص جو اپنے طواف كو بھول كر كم كردے_

مسئلہ ۲۸۳_ جو شخص بيمارى يا شكستگى و غيرہ كى وجہ سے طواف كا وقت گزرنے سے پہلے خود طواف كرنے سے عاجز ہو حتى كہ كسى اور كى مدد سے بھى توواجب ہے كہ اسے اٹھا كر طواف كرايا جائے البتہ اگر يہ ممكن ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ نائب بنائے _

مسئلہ ۲۸۴_ اگر طواف اور انصراف يعنى مطاف سے خارج ہونے كے بعد چكروں كے كم يازيادہ ہونے ميں شك كرے تو اپنے شك كى پروا نہ كرے اور صحت پر بنا ركھے _

۱۳۲

نماز طواف :

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے تيسرا و اجب ہے_

مسئلہ ۲۸۵_ طواف كے بعد دو ركعت نماز طواف واجب ہے اور اس ميں جہر و اخفات كے درميان اختيار ہے اور نيت ميںاسى طرح معين كرنا واجب ہے جيسے كہ طواف كى نيت ميں گزر چكا ہے اور اسى طرح قربت اور اخلاص_

مسئلہ ۲۸۶_ واجب ہے كہ طواف اور نماز طواف كے درميان فاصلہ نہ كرے اور فاصلے كے صدق كرنے اور نہ كرنے كا معيار عرف ہے _

مسئلہ ۲۸۷_ نماز طواف ، نماز صبح كى طرح ہے اور حمد كے بعد ہر سورت پڑھنا جائز ہے سوائے چار سور عزائم كے _اور مستحب ہے كہ پہلى ركعت ميں حمد كے بعد سورہ توحيد پڑھے اور دوسرى ركعت ميں حمد كے بعد سورہ جحد (قل يا ايہا الكافرون) پڑھے_

مسئلہ ۲۸۸_ واجب ہے كہ نماز مقام ابراہيم عليہ السلام كے پيچھے اور

۱۳۳

اسكے قريب ہو البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس ميں دوسروں كيلئے مزاحمت نہ ہو اور اگر اس پر قادر نہ ہو تو مسجدالحرام ميں مقام ابراہيم كے پيچھے نماز پڑھے اگر چہ اس سے دور ہو بلكہ بعيد نہيں ہے كہ مسجد الحرام كى كسى بھى جگہ ميں نماز بجالانا كافى ہو _

مسئلہ ۲۸۹_ اگر جان بوجھ كر نمازطواف كو ترك كرے تو اس كا حج باطل ہے ليكن اگر بھول كر ترك كرے تو اگر مكہ مكرمہ سے خارج ہونے سے پہلے ياد آجائے اور نماز كو اسكى جگہ پر انجام دينے كيلئے وہاں جانا اس كيلئے شاق نہ ہوتو مسجد الحرام كى طرف پلٹے اور نماز كو اسكى جگہ پر انجام دے ليكن اگر مكہ مكرمہ سے خارج ہونے كے بعد ياد آئے تو جہاں ياد آئے وہيں پر نماز پڑھ لے_

مسئلہ ۲۹۰_ سابقہ مسئلہ ميں جاہل قاصر يا مقصر كا حكم وہى ہے جو بھولنے والے كا ہے _

مسئلہ ۲۹۱_اگر سعى كے اثناء ميں ياد آئے كہ اس نے نماز طواف نہيں

۱۳۴

پڑھى تو سعى كو منقطع كر كے نماز كى جگہ پر نماز بجالائے پھر پلٹے اور جہاں سے سعى كو منقطع كيا تھا اسے وہيں سے جارى ركھے _

مسئلہ ۲۹۲_ اگر مرد كى نماز طواف عورت كى نماز كے بالمقابل ہوتو اگر مرد عورت سے تھوڑى سى مقدار بھى آگے ہو تو ان دونوں كى نماز كى صحت ميں كوئي اشكال نہيں ہے اور اسى طرح ہے كہ ان كے درميان فاصلہ ہو اگرچہ ايك بالشت كا _

مسئلہ ۲۹۳_ نماز طواف ميں جماعت كا مشروع ہونا معلوم نہيں ہے _

مسئلہ ۲۹۴_ ہر مكلف پر واجب ہے كہ وہ صحيح نماز كو سيكھے تا كہ اپنى ذمہ دارى كو صحيح طرح سے انجام دے سكے بالخصوص جو شخص حج كرنا چاہتا ہے_

۱۳۵

چوتھى فصل :سعي

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے چوتھا واجب ہے _

مسئلہ ۲۹۵_ طواف كى دوركعتوںكے بعد صفا و مروہ كے درميان سعى واجب ہے سعى سے مراد ان كے درميان اس طرح چلنا ہے كہ صفا سے شروع كرے اور پہلا چكر مروہ پر ختم كردے پھر دوسرا چكر مروہ سے شروع كر كے صفا پر ختم كرے اور اسى طرح سات چكر لگائے اور ساتواں چكر مروہ پر ختم كردے اور مروہ سے شروع كر كے صفا پر ختم كرنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۲۹۶_ سعى ميںنيت شرط ہے اور نيت ميں قربت ، اخلاص اور تعيين سب معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے _

۱۳۶

مسئلہ ۲۹۷_ سعى ميں حدث اور خبث سے پاك ہونا شرط نہيں ہے_

مسئلہ ۲۹۸_ سعى كو طواف اور نماز طواف كے بعد انجام ديا جاتا ہے پس اسے ان دو پر مقدم كرنا صحيح نہيںہے _

مسئلہ ۲۹۹_ سعى كو اپنے اختيار كے ساتھ طواف اور نماز طواف سے بعد والے دن تك مؤخر كرنا جائز نہيں ہے البتہ رات تك مؤخر كرنے سے كوئي مانع نہيںہے _

مسئلہ ۳۰۰_ ہر چكر ميں صفا اور مروہ كے درميان پورى مسافت طے كرناواجب ہے البتہ ان كے اوپر چڑھنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۰۱_ سعى كے دوران مروہ كى طرف جاتے ہوئے مروہ كى طرف رخ كرنا واجب ہے اور اسى طرح صفا كى طرف رخ كرنا پس اگر سعى كے دوران پشت كرے يعنى الٹا چلے تو اسكى سعى صحيح نہيں ہے ہاں اپنے چہرے كو دائيں ، بائيں يا پيچھے كى طرف موڑنا مضر نہيں ہے _

مسئلہ ۳۰۲_ واجب ہے كہ سعى عام راستے ميں ہو _

۱۳۷

مسئلہ ۳۰۳_ اوپر والى منزل ميں سعى كرنا صحيح نہيں ہے جبتك يہ محرز نہ ہوجائے كہ يہ دو پہاڑوں كے درميان ہے نہ ان سے اوپر اور جو شخص صرف اوپر والى منزل ميں سعى كرنے پر قادر ہو تو يہ كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ كسى كو نائب بنائے جو اسكى طرف سے پہلى منزل پر سعى بجالائے _

مسئلہ ۳۰۴_ سعى كے دوران استراحت كى خاطر صفا و مروہ كے اوپر يا ان كے درميان بيٹھنا اور ان پر سونا جائز ہے بلكہ يہ بغير عذر كے بھى جائز ہے _

مسئلہ ۳۰۵_ قدرت ركھنے كى صورت ميں واجب ہے كہ خود سعى بجالائے اور پيدل چلتے ہوئے اور سوار ہوكر سعى كرنا بھى جائز ہے اور پيدل چلنا افضل ہے _ پس اگر خود سعى كرنا ممكن نہ ہو تو كسى سے مدد لے جو اسے سعى كرائے يا اسے اٹھا كرسعى كرائي جائے اور اگر يہ بھى ممكن نہ ہو تو نائب بنائے _

۱۳۸

سعى كے ترك كرنے اور اس ميں كمى بيشى كرنے كے بارے ميں چند مسائل

مسئلہ ۳۰۶_ سعى طواف كى طرح ركن ہے اور اسے جان بوجھ كر يا بھول كر ترك كرنے كا حكم وہى ہے جو طواف كوترك كرنے كا ہے اور اس كا ذكر گزرچكا ہے _

مسئلہ ۳۰۷_ جو شخص بھول كر سعى كو ترك كر كے اپنے عمرہ سے مُحل ہوجائے اوراپنى بيوى كے ساتھ جماع كرلے تو احوط وجوبى كى بناپر سعى كے بجالانے كے ساتھ ساتھ ايك گائے كا كفارہ دينا بھى واجب ہے _

مسئلہ ۳۰۸_ اگر بھول كر سعى ميں ايك يا زيادہ چكر كا اضافہ كردے تو اسكى سعى صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اور حكم سے جاہل حكم كو بھولنے والے كى طرح ہے _

مسئلہ ۳۰۹_ جو شخص سعى كى نيت سے اپنى سعى ميں سات چكروں كا

۱۳۹

اضافہ كردے_ اس طرح كہ وہ سمجھتا تھا آنا جانا ايك چكر ہے _ تو اس پر اعادہ واجب نہيں ہے اور اسكى سعى صحيح ہے اور يہى حكم ہے اگر سعى كے دوران اسكى طرف متوجہ ہوجائے تو جہاں سے ياد آئے زائد كو منقطع كردے _

مسئلہ ۳۱۰ _ جو شخص بھول كر سعى ميں كمى كردے تو اس پر واجب ہے كہ جب يادآئے اسے مكمل كرے پس اگر اپنے شہر پلٹنے كے بعد ياد آئے تو اس پر واجب ہے كہ سعى كو مكمل كرنے كيلئے دوبارہ وہاں جائے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے مشقت اور حرج ہو تو كسى دوسرے كو نائب بنائے _

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217