مناسك حج

مناسك حج27%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67831 / ڈاؤنلوڈ: 3409
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

مناسك حج

ولى امر مسلمين و مرجع تقليد

حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)

مترجم:

معارف اسلام پبلشرز

۳

نام كتاب :مناسك حج

مترجم : معارف اسلام پبلشرز

ناشر :نور مطاف

اشاعت :پہلى

سنہ اشاعت : رمضان المبارك ۱۴۲۷ ھ_ق

تعداد :دوہزار

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۴

و اذن فى الناس بالحج يا توك رجالا و على كل ضامر يا تين من كل حج عميق

(سورہ حج آيت ۲۷)

حج بيت اللہ كے باعظمت اعمال مختلف پہلوؤں سے قابل توجہ ہيں_ خاص طور پر ان كا عبادى پہلو خصوصى ظرافت كا حامل ہے چنانچہ حجاج كرام اعمال حج كو شروع سے آخر تك مراجع عظام كے فتاوى كے مطابق انجام دينے كو بڑى اہميت ديتے ہيں_يہ كتاب جو قارئين محترم كے ہاتھوں ميں ہے يہ مناسك حج كے سلسلے ميں رہبر انقلا ب حضرت آيت اللہ العظمى خامنہ اى (دام ظلہ) كے جديد ترين فتاوى كا ترجمہ ہے_

ہمارى دعا ہے كہ اسكے ترجمے اور تصحيح و غيرہ كے سلسلے ميں جن لوگوں

۵

نے زحمات اٹھائي ہيں خدا تعالى انہيں اجر جزيل عطا فرمائے اور ہم راہبر معظم كے دفتر كے بھى شكر گزار ہيں جنہوں نے اس سلسلے ميں ہمارى مدد كى _

آخر ميں خدا تعالى كے تہ دل سے شكرگزار ہيں كہ اس نے ہميں اس گرانبہا كام كوانجام دينے كيلئے توفيق عظيم عنايت فرمائي_

اللهم عجل لوليك الفرج واجعلنا من اعوانه و انصاره

معارف اسلام پبلشرز

رمضان المبارك ۱۴۲۷

۶

مقدمہ:

شرعاً حج سے مراد خاص اعمال كا مجموعہ ہے اور يہ ان اركان ميں سے ايك ركن ہے كہ جن پر اسلام كى بنياد ركھى گئي ہے جيسا كہ امام محمدباقر (ع) سے روايت ہے :

''بنى الاسلام على خمس على الصلوة و الزكاة و الصوم و الحج و الولاية''

اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ركھى گئي ہے نماز ، زكات ، روزہ ، حج اور ولايت پر _

حج چاہے واجب ہو چاہے مستحب بہت بڑى فضيلت اور كثير اجر ركھتا ہے اور اسكى فضيلت كے بارے ميں پيغمبر اكرم (ص) اور اہل بيت (عليہم السلام) سے كثير روايات وارد ہوئي ہيں چنانچہ امام صادق (ع) سے روايت ہے:

''الحاج والمعتمر وفد الله ان سا لوه اعطاهم وان

۷

دعوه اجابهم و ان شفعوا شفعهم و ان سكتوا ابتدا هم و يعوضون بالدرهم الف الف درهم ''

حج اور عمرہ كرنے والے اللہ كا گروہ ہيں اگر اللہ سے سوال كريں تو انہيں عطا كرتاہے اور اسے پكاريں تو انہيں جواب ديتاہے، اگر شفاعت كريں تو انكى شفاعت كو قبول كرتاہے اگرچھپ رہيں تو از خود اقدام كرتاہے اور انہيںايك درہم كے بدلے دس لاكھ درہم ديئے جاتے ہيں_

وجوب حج كے منكر اور تارك حج كا حكم

حج كا وجوب كتاب و سنت كے ساتھ ثابت ہے اور يہ ضروريات دين ميںسے ہے اور جس بندے ميںاسكى آئندہ بيان ہونے والى شرائط كامل ہوں اور اسے اسكے وجوب كا بھى علم ہو اس كا اسے انجام نہ دينا كبيرہ گناہ ہے_

۸

اللہ تعالى اپنى محكم كتاب ميں فرماتا ہے:

''وللہ على الناس حج البيت من استطاع اليہ سبيلا و من كفر فان اللہ غنى عن العالمين''

اور لوگوں پر واجب ہے كہ محض خدا كيلئے خانہ كعبہ كا حج كريں جنہيں وہاں تك پہنچنے كى استطاعت (قدرت) ہو اور جس نے با وجود قدرت حج سے انكار كيا تو ( ياد ركھئے كہ ) خدا سارے جہان سے بے پروا ہے_

اور امام صادق سے روايت ہے :

جو شخص دنيا سے اس حال ميں چل بسے كہ اس نے حجةا لاسلام انجام نہ ديا ہو جبكہ كوئي حاجت اس كيلئے مانع نہ ہو يا ايسى بيمارى ميں بھى مبتلا نہ ہو جسكے ساتھ حج كى طاقت نہ ركھتا ہو اور كوئي حاكم ركاوٹ نہ بنے تو وہ يہودى يا نصرانى ہوكر مرے_

حج كى اقسام:

جو حج مكلف انجام ديتا ہے يا تو اسے اپنى طرف سے انجا م ديتا ہے يا

۹

كسى اور كى طرف سے _اس دوسرے كو ''نيابتى حج '' كہتے ہيں اور پہلا يا واجب ہے يا مستحب اور واجب حج يا بذات خود شريعت ميں واجب ہوتا ہے تو اسے ''حجة الاسلام'' كہتے ہيں اور يا كسى اور سبب كى وجہ سے واجب ہوتا ہے جيسے نذر كرنے كى وجہ سے يا حج كو فاسد كردينے كى وجہ سے _

اور حجة الاسلام اورنيابتى حج ميں سے ہر ايك كى اپنى اپنى شرائط اور احكام ہيں كہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں كے ضمن ميں ذكر كريںگے_

نيز حج كى تين قسميں ہيں تمتع ، افراد ، قران

حج تمتع ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن مكہ مكرمہ سے اڑتاليس ميل تقريباً نوے كيلوميٹر دور ہے اور حج افراد اور قران ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن يا تو خود مكہ ہے يا مذكورہ مسافت سے كم فاصلے پر اور حج تمتع ، حج قران و افراد سے بعض اعمال و مناسك كے اعتبار سے مختلف ہے اور اسے ہم دوسرے باب ميں چند فصول كے ضمن ميں بيان كريں گے_

۱۰

باب اول:

حَجة الاسلام اورنيابتى حج كے بارے ميں

۱۱

فصل اول : حجة الاسلام

مسا لہ ۱_ جو شخص حج كى استطاعت ركھتا ہو اس پر اصل شريعت كے اعتبار سے پورى عمر ميں صرف ايك مرتبہ حج واجب ہوتا ہے اوراسے ''حجة الاسلام'' كہا جاتا ہے_

مسا لہ ۲_ حجة الاسلام كا وجوب فورى ہے يعنى جس سال استطاعت حاصل ہوجائے اسى سال حج پر جانا واجب ہے اور كسى عذر كے بغير مؤخر كرنا جائز نہيں ہے اور اگر اسے مؤخر كرے تو گناہ گار ہے اور حج اسكے ذمے ثابت ہوجائيگا اور اسے آئندہ سال انجام دينا واجب ہے و على ہذا القياس_

۱۲

مسا لہ۳_ اگر استطاعت والے سال حج كوانجام دينا بعض مقدمات پر موقوف ہو _جيسے سفر كرنا اور حج كے وسائل و اسباب كو مہيا كرنا_ تو اس پر واجب ہے كہ ان مقدمات كو حاصل كرنے كيلئے اس طرح مبادرت سے كام لے كہ اسے اسى سال حج كو پالينے كا اطمينان ہو_

اور اگر اس ميں كوتاہى كرے اور حج كو بجا نہ لائے تو گناہ گار ہے اور حج اسكے ذمے ميں ثابت اور مستقر ہو جائيگا اور اس پر اسے بجا لانا واجب ہے اگر چہ استطاعت باقى نہ رہے_

حجة الاسلام كے وجوب كے شرائط

حجة الاسلام مندرجہ ذيل شرائط كے ساتھ واجب ہوتا ہے:

پہلى شرط :

عقل پس مجنون پر حج واجب نہيں ہوتا_

۱۳

دوسرى شرط:

بلوغ پس نابالغ پر حج واجب نہيں ہوتا اگر چہ وہ بلوغ كے قريب ہو اور اگر نابالغ بچہ حج بجا لائے تو اگر چہ اس كا حج صحيح ہے ليكن يہ حجة الاسلام سے كافى نہيں ہے_

مسا لہ ۴:اگر بچہ احرام باندھ كر مشعر ميں وقوف كو بالغ ہونے كى حالت ميں پالے اور حج كى استطاعت بھى ركھتاہو تو اس كا يہ حج حجة الاسلام سے كافى ہے_

مسا لہ۵: وہ بچہ جواحرام باندھے ہوئے ہے اگر محرمات ( جو كام احرام كى حالت ميں حرام ہيں ) ميں سے كسى كام كاارتكاب كرے تو اگر وہ كام شكار ہو تو اس كا كفارہ اسكے ولى پر ہوگا اور اسكے علاوہ ديگر كفارات تو ظاہر يہ ہے كہ وہ نہ تو ولى پر واجب ہيں اور نہ ہى بچے كے مال ميں :

مسا لہ ۶: بچے كے حج ميں قربانى كى قيمت اسكے ولى پر ہے_

مسا لہ ۷: واجب حج ميں شوہر كى اجازت شرط نہيں ہے پس بيوى پر حج

۱۴

واجب ہے اگر چہ شوہر سفر حج پر راضى نہ ہو _

مسا لہ ۸_ مستطيع شخص سے حجة الاسلام كے صحيح ہونے ميں والدين كى اجازت شرط نہيں ہے _

تيسرى شرط :

استطاعت اور يہ مندرجہ ذيل امور پر مشتمل ہے_

الف : مالى استطاعت

ب : جسمانى استطاعت

ج : سربى استطاعت (راستے كا با امن اور كھلا ہونا)

د : زمانى استطاعت

ہر ايك كى تفصيل

الف : مالى استطاعت :

يہ متعدد امور پر مشتمل ہے_

۱۵

۱_ زاد و راحلہ

۲_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات

۳_ ضروريات زندگي

۴_ رجوع الى الكفاية

مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں انكى تفصيل بيان كرتے ہيں:

۱_ زاد و راحلہ

زاد سے مراد ہر وہ شے ہے كہ جسكى سفر ميں ضرورت ہوتى ہے جيسے كھانے پينے كى چيزيں اور اس سفر كى ديگر ضروريات اور راحلہ سے مراد ايسى سوارى ہے كہ جسكے ذريعے سفر طے كيا جا سكے _

مسا لہ ۹_ جس شخص كے پاس نہ زاد و راحلہ ہے اور نہ انہيں حاصل كرنے كيلئے رقم اس پر حج واجب نہيں ہے اگر چہ وہ كما كر يا كسى اور ذريعے سے انہيں حاصل كرسكتا ہو _

۱۶

مسا لہ ۱۰_ اگر پلٹنے كا ارادہ ركھتا ہو تو شرط ہے كہ اسكے پاس اپنے وطن يا كسى دوسرى منزل مقصود تك واپس پلٹنے كے اخراجات ہوں_

مسا لہ ۱۱_ اگر اسكے پاس حج كے اخراجات نہ ہوں ليكن اس نے حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقداركے برابر كسى شخص سے قرض واپس لينا ہواورقرض حال ہو يا اسكى ادائيگى كا وقت آچكا ہو اور مقروض مالدارہو اور قرض خواہ كيلئے قرض كا مطالبہ كرنے ميں كوئي حرج بھى نہ ہو تو قرض كا مطالبہ كرنا واجب ہے _

مسا لہ ۱۲_ اگر عورت كا مہر اسكے شوہر كے ذمے ميں ہو اور وہ اسكے حج كے اخراجات كيلئے كافى ہو تو اگر شوہر تنگدست ہو تو يہ اس سے مہر كا مطالبہ نہيں كر سكتى اور مستطيع بھى نہيں ہوگى ليكن اگر شوہر مالدار ہے اور مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان بھى نہ ہو تو اس پر مہر كا مطالبہ كرنا واجب ہے تا كہ اسكے ساتھ حج كر سكے ليكن اگر مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان ہو مثلاً يہ لڑائي جھگڑے اور طلاق تك منتج ہو تو عورت پر مطالبہ كرنا واجب نہيں ہے اور عورت مستطيع بھى نہيں ہو گى _

۱۷

مسا لہ ۱۳_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات نہيں ہيں ليكن وہ قرض ليكر اسے آسانى سے ادا كر سكتا ہو تو اس پر واجب نہيں ہے كہ وہ قرض ليكر اپنے آپ كو مستطيع بنائے ليكن اگر قرض لے لے تو اس پر حج واجب ہو جائيگا_

مسا لہ ۱۴_ جو شخص مقروض ہے اور اسكے پاس حج كے اخراجات سے اتنا اضافى مال نہ ہو كہ جس سے وہ اپنا قرض ادا كر سكے تو اگر قرض كى ادائيگى كا وقت مخصوص ہو اور اسے اطمينان ہے كہ وہ ا س وقت اپنے قرض كو ادا كرنے پر قادر ہوگا تو اس پر واجب ہے كہ انہيں اخراجات كے ساتھ حج بجا لائے _

اور يہى حكم ہے اگر قرض كى ادائيگى كا وقت آچكا ہو ليكن قرض خواہ اسے مؤخر كرنے پر راضى ہو اور مقروض كو اطمينان ہو كہ جب قرض خواہ مطالبہ كريگا اس وقت يہ قرض كى ادائيگى پر قادر ہوگااور مذكورہ دو صورتوں كے علاوہ اس پر حج واجب نہيں ہے_

مسئلہ ۱۵_ جس شخص كو شادى كرنے كى ضرورت ہے اس طرح كہ اگر

۱۸

شادى نہ كرے تو اسے مشقت ياحرج كا سامنا ہوگا اور اس كيلئے شادى كرنا ممكن بھى ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہوگا مگر يہ كہ اس كے پاس حج كے اخراجات كے علاوہ شادى كرنے كا انتظام بھى ہو _

مسئلہ ۱۶_ اگر استطاعت والے سال ميں اسے سفر حج كيلئے سوارى نہ ملتى ہو مگر اسكى رائج اجرت سے زيادہ كے ساتھ تو اگر يہ شخص زائد مال دينے پر قادر ہو اور يہ اس كے حق ميں زيادتى بھى نہ ہو تو اس پر اس زائدمال كا دينا واجب ہے تا كہ حج بجالا سكے پس صرف مہنگائي اور كرائے كا بڑھ جانا استطاعت كيلئے مضر نہيں ہے _ ليكن اگر يہ زائد مال كے دينے پر قادر نہيں ہے يا يہ اسكے حق ميں زيادتى ہو تو واجب نہيں ہے اور يہ مستطيع بھى نہيں ہوگا اور يہى حكم ہے سفر حج كى ديگر ضروريات كے خريدنے يا انكے كرائے پر لينے كا نيز يہى حكم ہے اگر يہ حج كے اخراجات كيلئے كوئي چيز بيچنا چاہتا ہے ليكن اسے خريدار صرف وہ ملتا ہے جو اسے اسكى رائج قيمت سے كم پر خريد تا ہے _

مسئلہ ۱۷_ اگر كوئي شخص يہ سمجھتا ہو كہ اگر وہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے

۱۹

ساتھ حج پر جانا چاہے تو وہ اس طرح حج كيلئے استطاعت نہيں ركھتا جيسے ديگر لوگ حج بجالاتے ہيں ليكن اسے احتمال ہے كہ تلاش و جستجو كرنے سے اسے ايسا راستہ مل جائيگا كہ يہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے ساتھ حج كيلئے مستطيع ہو جائيگا تو اس پر تلاش و جستجو كرنا واجب نہيں ہے كيونكہ استطاعت كا معيار يہ ہے كہ يہ حج كيلئے اسى طرح استطاعت ركھتا ہوجو ديگر لوگوں كيلئے متعارف ہے _

ہاں ظاہر يہ ہے كہ اگر اسے اپنے مستطيع ہونے ميں شك ہو اور جاننا چاہتا ہو كہ استطاعت ہے يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ اپنى مالى حيثيت كے بارے ميں جستجو كرے

۲_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات

مسئلہ۱۸_ مالى استطاعت ميں يہ شرط ہے كہ يہ حج سے واپس آنے تك اپنے اہل و عيال كے اخراجات ركھتا ہو

۲۰

دوران آنحضرت (ص)انفسنا کی جگہ حضرت علی (ع)ابنائنا کی جگہ حسنین +اور نسائنا کی جگہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کو لے کر میدان میں نکلے،اس وقت یہ آیت

شریفہ نازل ہوئی۔چنانچہ جابر سے یوں روایت کی گئی ہے:

فیهم نزلت، انفسنا و انفسکم رسول الله وعلی وابنائنا الحسن والحسین ونسائنا فاطمة ( ۱ ) آیت شریفہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے،انفسنا سے پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع)،ابنائنا سے امام حسن و حسین (ع) جبکہ نسائنا سے حضرت فاطمہ زہرا (س)مراد ہے۔

نیز آیت کی شان نزول کے متعلق تفسیر بیضاوی اور شواہد التنزیل میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :

آیت شریفہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے جس میں کسی قسم کی تردید اور شک کی گنجائش نہیں ہے۔لہٰذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف چند

ا یک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں،( ۲ )

نوٹ:آیت مباہلہ میں مذکورہ تفسیر کی بناء پر پنجتن پاک کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔پہلی آیت میں حضرت امیر(ع)کی فضیلت کو بیان کیا گیا

____________________

( ۱ ) ۔درمنثور ج ۲ ص۲۳۱،دار الفکربیروت

( ۲ ) مزید تفصیلات کےلئے تفسیر بیضاوی اور شواہد التنزیل ( مجلد ۱ص۱۲ ۰ ۔۱۲ ۹ ) کامطالعہ کریں

۲۱

ہے،دوسری آیت میں حضرت رسول (ص)کی فضیلت اور عظمت بیان ہوئی ہے لہٰذا مذکورہ آیات تما م اہل بیت کی عظمت اور فضیلت بیان کرنے کےلئے دلیل نہیں بن سکتیں۔لیکن انشاء اللہ وہ روایات بھی بیان کریں گے جن میں تمام اہل بیت کی عظمت بیان ہوئی ہے اور مذکورہ آیات سے بھی تمام اہل بیت کی فضیلت کو کچھ روایات اور تفاسیرکی بناء پر ثابت کیا جاسکتا ہے ۔لہٰذا تفاسیر کی کتابوں کی طرف مراجعہ کریں۔

۵)اہل بیت تمام عالم سے افضل ہیں

( ان الله اصطفیٰ آدم و نوحاً وآل ابراهیم و آل عمران علیٰ العٰلمین ) ( ۱ )

''بے شک خدا نے آد م (ع)ونوح (ع)اور خاندان ابراہیم (ع)و خاندان عمران (ع)کو سارے جہاں سے منتخب کیا ہے۔''

تفسیر آیہ:

ابن عباس سے جلال الدین سیوطی نے درمنثور میں روایت کی ہے:

فی قوله و آل ابراهیم.....قال هم المومنون من آل ابراهیم و آل عمران و آل یٰس و آل محمد ( ۲ )

____________________

( ۱ ) ۔آل عمران/۳۱

( ۲ ) ۔در منثور،ج۲،ص۱ ۸۰

۲۲

آیت سے ابراہیم(ع)، عمران ،یاسین اور حضرت محمد(ص) کے خاندان کے مومن مراد ہے۔

نیز روایت کی گئی ہے کہ مامون نے امام رضا (ع)سے پوچھا:

هل فضل الله العترة علیٰ سائر الناس فقال ابوالحسن انّ الله ابان فضل العترة علیٰ سائر الناس فی محکم کتابه فقال المأمون این ذالک فی کتاب الله؟فقال له الرضا علیه السلام :فی قوله ( انّ الله اصطفیٰ آدم و نوحاً و آل ابراهیم و آل عمران علیٰ العالمین ) ( ۱ )

کیاخدا نے تمام انسانوں پراہل بیت کو فضیلت دی ہے؟

امام (ع)نے فرمایا:ہاں خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر اہل بیت کوتمام انسانوں سے افضل قرار دیا ہے۔

مامون نے عرض کیا:یا ابالحسن-!یہ بات خدا کی کتاب میں کہاں ہے؟

اس وقت امام علیہ السلام نے آیت انّ اللہ اصطفیٰ...کی تلاوت فرمائی۔

نوٹ:اگرچہ ہمارا مقصد اہل بیت کی فضیلت کو اہل سنت کی نظر میں بیان کرنا ہے لیکن مذکورہ روایت کو المیزان سے نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج ۳ ص۱٦ ۸ ۔در منثور ج۲ص ۱ ۸ ۱۔

۲۳

حدیث کے مضمون کی مانند بہت ساری روایات ہمارے برادران اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں،( ۱ )

نیز امام محمد باقر (ع)سے روایت کی گئی ہے کہ:

انّه تلا هٰذه الآیة.......فقال نحن منهم و نحن بقیّة تلک العترة ( ۲ )

آپ- نے اس آیت کی تلاوت کے بعدفرمایا: ہم انہیں میں سے ہیں اور اہل بیت میں سے جو زندہ ہیں وہ ہم ہیں۔

تفسیر ثعالبی اور دیگر کتب تفاسیر میںاہل سنت کے بڑے مفسرین نے آل ابراہیم کی تفسیر کے بارے میں کئی روایات بیان کی ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ آل ابراہیم سے(جو تمام عالم سے افضل ہیں)اہل بیت رسول مراد ہیں۔لہٰذا مذکورہ تفسیر اور روایات کی رو سے کہہ سکتے ہیں کہ پورے عالم سے خدا نے اہل بیت رسول کو افضل قرار دیا ہے۔( ۳ )

٦)اہل بیت پریشانیوںسے نجات کا ذریعہ ہیں

____________________

( ۱ ) در منثور/ ج۲،شواہد التزیل ( ج ۱ص ۱۱ ۸) اور تفسیر ثعالبی وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں۔

( ۲ ) ۔المیزان ج۳،ص۱٦ ۸ ۔در منثور ج۲ص۱ ۸ ۲۔

( ۳ ) در منثور اور شواہد التنزیل کا ضرور مطالعہ کریں

۲۴

( الا بذکر الله تطمئنّ القلوب ) ( ۱ )

آگاہ ہو! خدا ہی کی یاد سے دلوں کو تسلی ملتی ہے

تفسیر آیہ:

خدا نے انسان کے بدن میں تین سو ساٹھ اعضاء ایک نظام کے ساتھ ودیعت فرمایا ہے۔لیکن ان اعضاء میں سے دل کو مرکزیت حاصل ہے۔لہٰذا سارے اعضاء و جوارح دل کے تابع ہیں اور شیطان بھی جب کسی مومن پر مسلط ہونا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی طرف مولا امیر المومنین (ع)نے نہج البلاغہ کے کئی خطبوں میں اشارہ فرمایا ہے۔اور قرآن کریم میں خدا نے دل کو متعدد تعبیرات سے یاد فرمایا ہے کبھی صدر،کبھی قلب،کبھی قلوب.....جس سے اس کی اہمیت معلوم ہوجاتی ہے۔

ابن مردویہ نے حضرت علی (ع)سے روایت کی ہے:

انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لمّا نزلت هٰذه الآیة:الا بذکر الله.....قال ذالک من احبّ الله ورسوله واحب اهل بیتی صادقاً غیر کاذباً و احبّ المومنین شاهداً و غائباً الا بذکر الله یتحابون ( ۲ )

____________________

( ۱ ) سورئہ رعدآیہ ۲ ۸

( ۲ ) ۔،المیزان ج۱۱ ص۲٦ ۷ ۔در منثور ج۴،ص ۲۱۲۔

۲۵

جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس سے مراد خدا اوراس کے رسول (ص)اور ان کے اہل بیت سے سچی دوستی رکھنے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ، مومنین سے بھی ان کی موجودگی و عدم موجودگی میں محبت رکھتے ہیں،وہی لوگ ہیں جو خدا کی یاد میں ایک دوسرے سے دوستی کے خواہاں ہیں۔

تفسیر عیاشی میں ابن عباس (رض)سے روایت کی ہے:

انّه قال رسول الله الذین آمنوا و تطمئن قلوبهم یذکر الله الا بذکر الله تطمئن القلوب ثم قال اتدری یابن ام سلمة من هم؟قلت من هم یا رسول الله؟قال نحن اهل البیت و شیعتنا ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی پھر مجھ سے فرمایا :اے ام سلمہ کے فرزند کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون ہیں،میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ(ص)!وہ کون لوگ ہیں؟فرمایا:ہم اہل بیت اور ہمارے چاہنے والے ہیں۔

اس روایت اور تفسیر سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ دلوں کے اضطراب اور پریشانی سے نجات ملنے کا ذریعہ اہل بیت ہیں،کیونکہ اہل بیت کی سیرت اور حقیقت کو صحیح معنوں میں درک کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حضرات روحانی و نفسیاتی

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج۱۱ ص۳٦ ۷ کشاف ج۲ ص ۳۱۱۔

۲۶

امراض اور اضطراب و پریشانی کو ختم کرنے والے طبیب ہیں یعنی روحانی امراض کے طبیب اہل بیت ہیں۔

۷)اہل بیت دنیا و آخرت میں سعادت کا ذریعہ ہیں

( وقولوا حطّة نغفرلکم خطٰیاکم و سنزید المحسنین ) ( ۱ )

''اور زبان سے حطہ(بخشش) کہتے رہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کی نیکیاں بڑھا دیںگے۔''

تفسیر آیہ:

ابن ابی شیبہ نے علی ابن ابی طالب (ع)سے روایت کی ہے:

قال انّما مثلنا فی هٰذه الامة کسفینة نوح وکباب حطة فی بنی اسرائیل ( ۲ )

حضرت علی (ع)نے فرمایا:اس امت میں ہماری مثال نوح (ع)کی کشتی اور بنی اسرائیل میں باب حطہ کی ہے۔

یعنی امت مسلمہ کےلئے نجات اور سعادت کا ذریعہ دنیا و آخرت میں اہل بیت ہیں اور ان سے تمسک رکھنے سے دنیا میںوقار اور آخرت میں سعادت حاصل ہوگی ،کیونکہ خدا نے ان کوبشر کی سعادت اور نجات کےلئے خلق فرمایا ہے،لہٰذا

____________________

( ۱ ) ۔بقرۃ۵ ۸

( ۲ ) ۔در منثور ج ۱ ص۱ ۷ ۴

۲۷

اگردنیا و آخرت میں سعادت ،اور ذلت و خواری سے نجات، نیکنام اور با بصیرت ہونے کے خواہاں ہیں تو ان کی سیرت پر چلنا چاہے۔

۸)اہل بیت سے رجوع کرنے کا حکم

( فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) ( ۱ )

''اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو اہل الذکر (یعنی جاننے والوں)سے پوچھو۔''

تفسیر آیہ:

اخرج الثعلبی عن جابر بن عبدا لله قال:قال علی ابن ابی طالب علیه السلام: نحن اهل الذکر ( ۲ )

علامہ ثعالبی نے جابر بن عبد اللہ(ع)سے روایت کی ہے کہ جابر نے کہا :حضرت علی (ع)نے فرمایا :اہل الذکر سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔

نیز جابر جعفی(ع)سے روایت کی ہے کہ آپ نے کہا:جب آیت ذکر نازل ہوئی تو حضرت علی (ع)نے فرمایا: اس سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔( ۳ )

عن الحرث قال سألت علیاً عن هٰذه الآیة فاسئلوا اهل الذکر قال والله انا نحن اهل الذکر نحن اهل العلم و نحن معدن التاویل

____________________

( ۱ ) ۔نحل/۴۳

( ۲ ) ینابیع المودۃ،ج ۱ص۱۱ ۹ ط:الطبعۃٰ الثانیۃمکتبۃ العرفان بیروت صیدا

( ۳ ) ۔ینابیع المودۃص ۱۲ ۰

۲۸

والتنزیل و قد سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول انا مدینة العلم و علی بابها فمن اراد العلم فلیاته من بابه ( ۱ )

حرث (ع)سے روایت کی ہے:اس نے کہا: میں نے حضرت علی (ع)سے آیت ذکر کے بارے میں پوچھا تو آپ- نے فرمایا:خدا کی قسم اہل الذکر اور اہل العلم سے ہم اہل بیت مراد ہیں ہم ہی تنزیل اور تاویل کا سر چشمہ ہیں اور بے شک میں نے پیغمبر اسلام (ص)سے سنا ہے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:میں علم کا شہر اور علی (ع)اس کا دروازہ ہے،پس جو علم کاخواہاں ہے اسے چاہے کہ وہ علم کے دروازے سے داخل ہو۔

اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر اس حدیث کے بارے میں غور کرے تو معلوم ہوگا کہ علم اور معرفت کی دو قسمیں ہیں:

(۱)حقیقی علم و معرفت،

(۲)اعتباری علم و معرفت۔

حقیقی علم و معرفت اس کو کہا جاتا ہے جو پیغمبر اسلام (ص)اور علی (ع)سے لیا گیاہو لہٰذا دنیا میں بہت سارے انسان اس طرح گذرے ہیں اور موجود ہیںجوکہ کسی موضوع سے متعلق برسوں تحقیق کرنے کے باوجودان کی عاقبت منفی

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج۱ ص ۳۳۴حدیث۴۵ ۹

۲۹

نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا سر چشمہ پیغمبر اسلام (ص) اورحضرت علی (ع)کو قرار نہیں دیا ہے۔

نیز معاویہ بن عمار ذہبی نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:اہل الذکر سے ہم اہل بیت مراد ہیں( ۱ )

عجیب بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کا دعوےٰ تو کرتے ہیں لیکن ایسی انسان ساز روایات کا مطالعہ نہیں کرتے، اگر ہم روایات نبوی(ص) کا مطالعہ کرتے تو آج روز مرّہ زندگی کے مسائل اور دنیا و آخرت سے متعلق مسائل کےلئے جاہلوں کی طرف رجوع نہ کرتے،بلکہ خدا نے جن سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے ان سے سوال کرتے اور ان سے راہ حل حاصل کرتے۔آیت ذکر سے اہل بیت کا کائنات کے ہر مسئلہ سے باخبر ہونا معلوم ہوجاتا ہے،اور ہر مسئلے کا حل ان سے لینا،ان کی طرف رجوع کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

جن لوگوں نے ان سے رجوع کیا ہے اور ان سے ہر مشکل کا حل چاہا ہے آج فریقین کی کتابوں میںان کی تفصیل درج ہے اور اس کا نتیجہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

____________________

( ۱ ) ۔فصول المہمہ نقل از ترجمہ فرمان علی ص۳ ۷ ۴

۳۰

سعید بن جبیر نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)ؐنے فرمایا:

انّ الرجل یصلی ویصوم و یحج و یعتمر و انّه لمنافق قیل یا رسول الله ! لماذا دخل علیه النفاق؟قال:یطعن علیٰ امامه وامامة من قال الله فی کتابه فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ( ۱ )

بے شک وہ شخص جو نماز پڑھتا ہے،روزہ رکھتاہے،حج و عمرہ بھی بجالاتا ہے لیکن وہ منافق ہے۔پوچھا گیا :یا رسول اللہ(ص)! ایسے شخص پر نفاق کیسے داخل ہوا؟ آپنے فرمایا:وہ اپنے امام کو طعنہ دیتا ہے اس وجہ سے اس میں نفاق داخل ہے جبکہ اس کا امام وہ ہستی ہے جس کا تذکرہ خدا نے اپنی کتاب میں( فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) سے کیا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں اہل سنت کی کتابوں میں بہت ساری روایات نبوی(ص)شان نزول اور توضیح آیت کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل الذکر سے مراد اہل بیت ہیں،اس کا مصداق امام وقت ہونے میں کسی قسم کی تردید اور شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔( ۲ )

____________________

( ۱ ) در منثور ج۵ ص۱۲۳

( ۲ ) در منثور ج۵،ص۱۲۴۔

۳۱

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہے کہ وہ اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرے اور اہل بیت سے متمسک ہو کر دنیا و آخرت دونوں کی سعادتوں سے فیض حاصل کرے۔

۹)اہل بیت ، ہدایت کا چراغ

( وانّی لغفّار لمن تاب و آمن و عمل صالحاً ثمّ اهتدیٰ ) ( ۱ )

''اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کےلئے جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے۔''

تفسیر آیہ:

جمال الدین محمد بن یوسف الزرندی الحنفی نے آیت شریفہ کی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے:

ثم اهتدیٰ ای ولایة اهل بیته ۔ یا دوسری روایت:ثم اہتدیٰ ولایتنا اہل البیتیا تیسری روایت:ثم اہتدیٰ حب آل محمدیعنی ثم اہتدیٰ سے ہم اہل بیت کی ولایت سے بہرہ مند ہونا مقصود ہے،یعنی ہدایت پانے والے وہی ہونگے جو ہماری ولایت اور سرپرستی کو مانے گا اور اہل سنت کے کئی مفسرین اور علماء نے ثم اہتدیٰ کی تفسیر میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں۔( ۲ ) جن کا

____________________

( ۱ ) ۔طہ/ ۸ ۲

( ۲ ) المیزان ج ۱٦ص ۲۱۱ودرمنثور ج٦،ص ۳۲۱

۳۲

خلاصہ یہ ہے کہ ولایت اہل بیت اور ان کی سرپرستی کے بغیر ہدایت پانے کا دعویٰ سراسر غلط ہے،کیونکہ خدا کی جانب سے جوحضرات ہدایت ہی کےلئے منصوب ہوئے ہیں ان کی رہنمائی اور نمائندگی کے بغیر ہدایت پانے کا تصور ہی صحیح نہیں ہے،چاہے ہدایت تشریعی ہو یا ہدایت تکوینی۔اگرچہ ہدایت تکوینی کو ہر بشر کی فطرت میں خدا نے ودیعت فرمایا ہے لیکن صرف ہدایت تکوینی بشر کےلئے کافی نہیں ہے اور آیت کریمہ میں ہدایت سے مراد یقیناً ہدایت تشریعی ہے،کیونکہ خدا نے توبہ کرنے والے اور ایمان لے آنے والے اور عمل صالح بجا لانے والے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد''ثم اھتدی''فرمایاہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہدایت تشریعی کی آبیاری کےلئے ولایت اہل بیت ضروری ہے وہ اہل بیت جن کو خدا نے ہی ہر قسم کی ناپاکی اور برائی سے پاک وپاکیزہ کرکے خلق فرمایا ہے۔

لہٰذا ولایت اہل بیت کے بغیر نماز، منافق کی نماز کہلائے گی،روزہ منافق کا روزہ شمار ہوگا اور حج و عمرہ بھی منافق کا حج و عمرہ شمار ہوگا جس کا اثر وضعی شائد ہو لیکن اجر و ثواب یقیناً نہیں۔ مذکورہ آیت سے واضح ہوا کہ اعمال صالحہ کی قبولیت اور ثواب ملنے کی شرط ولایت اہل بیت ہے، اور ان کی سر پرستی کے بغیرروحانی تکامل و ترقی کا تصور کرناغلط ہے ،کیونکہ روحانی اور معنوی تکامل و ترقی اس وقت ہوسکتی ہے جب مسلمان خدا کی طرف سے منصوب شدہ ہستیوں کی سیرت پر چلے۔

۳۳

۱۰)اہل بیت ،پاکیزہ ترین ہستیاں ہیں

( انّما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیراً ) ( ۱ )

''خدا یہ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت رسول !تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔''

تفسیر آیہ:

ابن ابی شیبہ، احمد، ابن جریر، ابن المنذر ،ابن ابی حاتم طبرانی ،حاکم اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں واثلہ ابن الاسقع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا:

جاء رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الیٰ فاطمة (ع) ومعه حسن (ع)و حسین (ع) و علی (ع) حتیٰ دخل فادنیٰ علیاً و فاطمة فاجلسهما بین یدیه و اجلس حسناً وحسیناً کل واحد منهما علیٰ فخذه ثم لفّ علیهم ثوبه وانا مستندیرهم ثم تلا هٰذه الآیة : ( انما یرید الله..... ) ( ۲ )

پیغمبراسلام (ص) حسنین(ع)اور حضرت علی (ع)کے ہمراہ حضرت فاطمہ زہرا(س)

____________________

( ۱ ) ۔الاحزاب /۳۳

( ۲ ) ۔در منثورج٦،ص٦ ۰ ۵

۳۴

کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت (ص)نے گھر میں داخل ہونے کے بعد حضرت زہرا (س)اور حضرت علی (ع)کو بلا کراپنے قریب بٹھایا اور حسن(ع)و حسین- میں سے ہر ایک کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا پھر سب پر ایک چادر اوڑھائی اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

دور حاضرعلم و معرفت کے حوالے سے ترقی و پیشرفت کا دور ہے،لہٰذا پڑھے لکھے لوگوں کو چاہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مفسرین کی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں ، کیونکہ اہل بیت کی معرفت،ان سے دوستی رکھنا ہر بشر کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا اہل سنت کی تفسیروں میں اس آیت کریمہ کی شان نزول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

پیغمبر اسلام (ص) ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ اتنے میں پیغمبر اکرم (ص) نے پنجتن پاک پر ایک بڑی چادر اوڑھا دی،پھر آ پ ؐنے اس آیت کی تلاوت فرمائی، ام سلمہ اؑم المومنین کی حیثیت سے ان کے ساتھ چادر میں جانے کی درخوا ست کرنے لگیں توپیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا تو نیکی پر ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے خدا ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

۳۵

آنحضرت (ص) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد چالیس دن تک نماز کے اوقات میں اہل بیت سے سفارش کرتے رہے کہ اے اہل بیت نماز کا وقت ہے،نماز کی حفاظت کرو۔( ۱ )

نیز ابن جریر ،حاکم اور ابن مردویہ نے سعد (ع)سے روایت کی ہے:

قال نزل علیٰ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الوحی فادخل علیاً و فاطمة و ابنیهما تحت ثوبه قال اللهم هٰؤلآء اهلی و اهل بیتی ( ۲ )

سعد (ع)نے کہا:جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر وحی(یعنی آیت کریمہ)نازل ہوئی تو آپنے حضرت علی (ع)، فاطمہ (س)اور ان کے بیٹوں (حسن- و حسین-) کو کسائ(چادر)کے اندر داخل کیا،پھر خدا سے دعا کی :پروردگارا!یہ میرے گھر والے ہیں،یہ میرے اہل بیت ہیں،ان کو ہر برائی سے دور رکھ۔اس حدیث کے آخر سے ایک جملے کو حذف کیا گیا ہے۔لہٰذا ہم نے ترجمہ کرکے اس حذف شدہ جملے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

نیز ابن جریر،ابن ابی حاتم اور طبرانی، ابوسعید الخدری (ع)سے روایت کرتے ہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:نزلت هٰذه الآیة فی خمسة فیّ،وفی علی و فی فاطمة و حسن وحسین انما

____________________

( ۱ ) شواہد التنزیل ج۲ص۲ ۰ حدیث٦۵۵

( ۲ ) ۔در منثور ج٦،ص٦ ۰ ۵

۳۶

یرید الله لیذهب .........( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کہ یہ آیت شریفہ پانچ ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہے،ان میں،میں علی (ع)،فاطمہ (س) ، حسن (ع)اور حسین(ع)شامل ہیں۔

اسی طرح ابن مردویہ اور قطبیب نے ابی سعید الخدری (ع)سے روایت کی ہے:

قال :کان یوم ام سلمة ام المومنین لقی الله علیها فنزل جبرئیل علیه السلام علیٰ رسول الله هٰذه الآیة:انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیراً،قال فدعا رسول الله بحسن وحسین و فاطمة و علی فضّمهم الیه و نشر علیهم الثوب و الحجاب علیٰ ام سلمة مضروب ثم قال اللهم هٰؤلآء اهل بیتی اللهم اذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیراً قالت ام سلمة فانا معهم یا نبی الله؟ قال: انت علیٰ مکانک و انک علیٰ خیرٍ ( ۲ )

ابی سعید الخدری (ع)نے کہا کہ ایک دن حضرت رسول اسلام (ص)

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج٦،ص٦ ۰ ۴۔

( ۲ ) ۔در منثور ج٦،ص٦ ۰ ۴۔

۳۷

حضرت ام ّالمومنین ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے اتنے میں( انما یرید الله ) کی آیت لے کر جبرئیل امین (ع)نازل ہوئے،پیغمبر اکرم (ص)نے حسن- وحسین(ع)اور فاطمہ (س)و علی (ع)کو اپنے پاس بلالیا اور ان کے اوپر ایک چادر اوڑھادی اور حضرت ام سلمہ اور ان کے درمیان ایک محکم پردہ نصب کیا پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں،ان سے ہر برائی کو دور رکھ اور انہیں اس طرح پاک و پاکیزہ قرار دے جو پاک و پاکیزہ قرار دینے کا حق ہے۔یہ سن کر جناب ام سلمہ نے درخواست کی : اے خدا کے نبی! کیا میں ان کے ساتھ ہوجاؤں؟آنحضرت (ص)نے فرمایا :تم بہترین خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

۳۸

تحلیل

اگرچہ محققین و مفسرین نے آیت تطہیر کے بارے میں مفصل کتابیں لکھی ہیں جن میں آیت تطہیر سے متعلق مفصل گفتگو اور اس آیت پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی بہتر طریقے سے دیا گیا ہے۔لیکن اہل سنت کے مفسرین نے آیت تطہیر کی شان نزول اور اس کے مصداق کو اہل بیت قرار دیا ہے۔اور اہل سنت کی کتابوں میں اس طرح کی روایات بہت زیادہ نظر آتی ہیں کہ زوجات پیغمبر (ص)میںسے ام سلمہ نے پیغمبر (ص)سے اہل بیت کے ساتھ ہونے کی کوشش کی لیکن پیغمبر (ص)نے اہل بیت کے مصداق معین کرتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم نیک خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔جس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے۔اہل بیت (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں جبکہ اہل بیت رسول میں سے جو اہل بیت (ع)کے مصداق نہیں ہے وہ حجت خدا نہیں ہے۔لہٰذا امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی، قرآن و سنت کی بالا دستی اور اسلام کی حفاظت کی خاطر فریقین کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

نیز ترمذی نے اپنی گراں بہا کتاب اور ابن جریر،ابن المنذر اور حاکم ، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے:

قالت نزلت هٰذه الآیة :انما یرید الله...وفی البیت سبعة:جبرئیل و میکائیل علیهما السلام و علی (ع) و فاطمة (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) وانا علیٰ باب البیت قلت یا رسو ل الله الست من اهل البیت قال انک علیٰ خیر انک من ازواج النبی صلی الله علیه وآله وسلم ( ۱ )

ام سلمہ نے کہا کہ'' انمایرید اللہ'' کی آیت میرے گھر میں اس وقت نازل ہوئی جس وقت گھر میں سات افراد موجود تھے:جبرائیل (ع)،میکائیل(ع)

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج٦،ص ٦ ۰ ۴وسنن ترمذی،ج۲ص۱۱۳۔

۳۹

علی (ع)فاطمہ (س) ،حسین(ع)، حسین(ع)اوررسول گرامی اسلام (ص) تشریف فرما تھے۔جبکہ میں گھر کے دروازے پر تھی،میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا یا رسول اللہ(ص)! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپنے فرمایا : تم پیغمبر اکرم (ص)کی ازواج میں سے ایک بہترین خاتون ہو۔

اہم نکات:

آیت تطہیر سے اہل بیت کی عصمت کے ساتھ ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے دور ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

نیز اہل بیت کائنات میں خدا کی طرف سے امین ترین ہستیاں ہونے کا علم ہوتا ہے۔

اگر ہم اہل سنت کی قدیم ترین تفاسیر اورکتب احادیث کا مطالعہ کریں اور ان میں منقول روایات کے بارے میں غور کریں تو بہت سارے نکات اہل بیت کے بارے میں واضح ہوجاتے ہیں۔

اہل بیت کا معنی،ٰ لغت کے حوالے سے وسیع اور عام ہے،جس میں ہر وہ فرد داخل ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ان کے عیال کی حیثیت سے زندگی گذارتا تھا۔لیکن قرآن مجیدجو آیات اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرتی ہیں ان میں یقیناً سارے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217