مناسك حج

مناسك حج27%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66276 / ڈاؤنلوڈ: 3237
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مسئلہ ۱۹_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

۳_ ضروريات زندگي:

مسئلہ ۲۰_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيںاس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم و غيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۱_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائشے كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا

-

۲۱

موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے _

مسئلہ ۲۲_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہوليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

مسلئہ ۲۳_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم و غيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۴_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت و غيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے

۲۲

خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _

مسئلہ ۲۵_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تا كہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو_

مسئلہ ۲۶_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_

۲۳

۴_ رجوع الى الكفاية:

مسئلہ ۲۷_ مالى استطاعت ميں '' رجوع الى الكفاية'' شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى )اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان و غيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_

مسئلہ ۲۸_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ''رجوع الى الكفاية'' وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك

۲۴

ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى _

مسئلہ ۲۹_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ''حج بجالا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ''تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں '' رجوع الى الكفايہ '' شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے _

ليكن اگراسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كرلے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_

۲۵

مسئلہ ۳۰_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے_

مسئلہ ۳۱_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل

مسئلہ ۳۲_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _

مسئلہ ۳۳_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں

۲۶

حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _

مسئلہ ۳۴_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے و غيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ''رجوع الى الكفاية'' تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _

مسئلہ ۳۵_اگركسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول

۲۷

كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجالانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۶_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجالائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجالائے _

مسئلہ ۳۷_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كرلے اگر چہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تا كہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج

۲۸

كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجالانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصدكيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

ب_ جسمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جانہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے _

مسئلہ ۳۸_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كرلے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور

۲۹

ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجالانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _

۳۰

مسئلہ ۳۹_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيارہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھو ادے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے _

د_زمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _

۳۱

دوسرى فصل :نيابتى حج

نائب و منوب عنہ كى شرائط كو بيان كرنے سے پہلے حج كى وصيت اور اس كيلئے نائب بنانے كے بعض موارد اور ان كے احكام كو ذكر كرتے ہيں _

مسئلہ ۴۰_ جس پر حج مستقر ہو جائے پھر وہ بڑھا پے يا بيمارى كى وجہ سے حج پر جانے سے عاجر ہو يا اس كيلئے حج پر جانے ميں عسر و حرج ہو اور بغير حرج كے قادر ہونے سے مايوس ہو حتى كہ آئندہ سالوں ميں بھى تو اس پر نائب بنانا واجب ہے ليكن جس پر حج مستقر نہ ہوا تواس پر نائب بنانا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۴۱_ نائب جب حج كو انجام دے دے تو منوب عنہ كہ جو حج كو

۳۲

انجام دينے سے معذور تھا اس سے حج كا وجوب ساقط ہو جائيگا اور اس پر دوبارہ حج بجا لانا واجب نہيں ہے اگر چہ نائب كے انجام دينے كے بعد اس كا عذر ختم بھى ہو جائے _ہاں اگر نائب كے عمل كے دوران ميںاس كا عذر ختم ہو جائے تو پھر منوب عنہ پر حج كا اعادہ كرنا واجب ہے اور ايسى حالت ميں اس كيلئے نائب كا حج كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۲_ جس شخص پر حج مستقر ہے اگر وہ راستے ميں فوت ہو جائے تو اگر وہ احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعدفوت ہو تو يہ حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر احرام سے پہلے فوت ہو جائے تو اس كيلئے يہ كافى نہيں ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپريہ كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۳_ جو شخص فوت ہو جائے اور اسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہو تو اگر اس كا اتنا تركہ ہو جو حج كيلئے كافى ہو اگر چہ ميقات سے ، تو اس كى طرف سے اصل تركہ سے حج كيلئے نائب بنانا واجب ہے مگر يہ كہ اس نے

۳۳

تركہ كے تيسرے حصے سے مخارج حج نكالنے كى وصيت كى ہو تو يہ اسى تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے اور يہ مستحب وصيت پر مقدم ہوں گے اور اگر يہ تيسرا حصہ كافى نہ ہو تو باقى كو اصل تركہ سے ليا جائيگا_

مسئلہ ۴۴_ جن موارد ميں نائب بنانا مشروع ہے ان ميں يہ كام فوراً واجب ہے چاہے يہ نيابت زندہ كى طرف سے ہو يا مردہ كى طرف سے _

مسئلہ ۴۵_ زندہ شخص پر شہر سے نائب بنانا واجب نہيں ہے بلكہ ميقات سے نائب بنا دينا كافى ہے اگر ميقات سے نائب بنانا ممكن ہو ورنہ اپنے وطن يا كسى دوسرے شہر سے اپنے حج كيلئے نائب بنائے اسى طرح وہ ميت كہ جسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہے تو اسكى طرف سے ميقات سے حج كافى ہے اور اگر نائب بنانا ممكن نہ ہو مگر ميت كے وطن سے يا كسى دوسرے شہر سے تو يہ واجب ہے اور حج كے مخارج اصل تركہ سے نكالے جائيں گے ہاں اگر اس نے اپنے شہر سے حج كرانے كى وصيت كى ہو تو وصيت كو نافذ كرنا واجب ہے اور ميقات كى اجرت سے زائد كو تركہ كے تيسرے حصے

۳۴

سے نكالا جائيگا _

مسئلہ ۴۶_ اگر وصيت كرے كہ اسكى طرف سے استحباباً حج انجام ديا جائے تو اسكے اخراجات تركہ كے تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے _

مسئلہ ۴۷_ جب ورثاء يا وصى كو ميت پر حج كے مستقر ہونے كا علم ہو جائے اور اسكے ادا كرنے ميں شك ہو تو ميت كى طرف سے نائب بنانا واجب ہے ليكن اگر استقرار كا علم نہ ہو اور اس نے اسكى وصيت بھى نہ كى ہو تو ان پر كوئي شے واجب نہيں ہے _

نائب كى شرائط :

۱_ بلوغ ، احوط كى بناپر ،پس نابالغ كا حج اپنے غير كى طرف سے حجة الاسلام كے طور پر كافى نہيں ہے بلكہ كسى بھى واجب حج كے طور پر _

۲_ عقل ، پس مجنون كا حج كافى نہيں ہے چاہے وہ دائمى ہو يا اسے جنون كے دورے پڑتے ہوں البتہ اگر جنون كے دورے كى حالت ميں حج انجام

۳۵

دے _

۳_ ايمان ، احوط كى بناپر ،پس مؤمن كى طرف سے غير مؤمن كا حج كافى نہيں ہے _

۴_ اس كا حج كے اعمال اور احكام سے اس طرح واقف ہونا كہ اعمال حج كو صحيح طور پر انجام دينے پر قادر ہو اگر چہ اس طرح كہ ہر عمل كے وقت معلم كى راہنمائي كے ساتھ اسے انجام دے_

۵_ اس سال ميں خود اس كا ذمہ واجب حج كے ساتھ مشغول نہ ہو ہاں اگر اسے اپنے اوپر حج كے وجوب كا علم نہ ہو تو اسكے نيابتى حج كے صحيح ہونے كا قائل ہونا بعيد نہيں ہے _

۶_ حج كے بعض اعمال كے ترك كرنے ميں معذور نہ ہو _ اس شرط اور اس پر مترتب ہونے والے احكام كى وضاحت اعمال حج ميں آجائيگي_

مسئلہ ۴۸_نائب بنانے كے كافى ہونے ميں شرط ہے كہ نائب كے منوب عنہ كى طرف سے حج كے بجا لانے كا وثوق ہو ليكن يہ جان لينے كے

۳۶

بعد كہ اس نے حج انجام دے ديا ہے اس بات كا وثوق شرط نہيں ہے كہ اس نے حج كو صحيح طور پر انجام ديا ہے بلكہ اس ميں اصالة الصحة كافى ہے (يعنى اس كا عمل صحيح ہے)_

منوب عنہ كى شرائط :

منوب عنہ ميں چند چيزيں شرط ہيں_

اول : اسلام ، پس كافر كى طرف سے حج كافى نہيں ہے _

دوم : يہ كہ منوب عنہ فوت ہو چكا ہو يا بيمارى يا بڑھاپے كى وجہ سے خود حج بجالانے پر قادر نہ ہو يا خود حج بجالانے ميں اسكے لئے حرج ہو اور آئندہ سالوں ميں بھى بغير حرج كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ركھتا ہو البتہ اگر نيابت واجب حج ميں ہو _ ليكن مستحب حج ميں غير كى طرف سے نائب بننا مطلقا صحيح ہے _

۳۷

چند مسائل :

مسئلہ ۴۹_ نائب اور منوب عنہ كے درميان ہم جنس ہونا شرط نہيں ہے پس عورت مرد كى طرف سے نائب بن سكتى ہے اور مرد عورت كى طرف سے نائب بن سكتا ہے _

مسئلہ ۵۰_ صرورہ ( جس نے حج نہ كيا ہو) صرورہ اور غير صرورہ كى طرف سے نائب بن سكتا ہے چاہے نائب يا منوب عنہ مرد ہو ياعورت _

مسلئہ ۵۱_ منوب عنہ ميں نہ بلوغ شرط ہے نہ عقل_

مسلئہ ۵۲_ نيابتى حج كى صحت ميں نيابت كا قصد اور منوب عنہ كو معين كرنا شرط ہے اگر چہ اجمالى طور پر ليكن نا م كا ذكر كرنا شرط نہيں ہے_

مسئلہ ۵۳_ اس بندے كو اجير بنانا صحيح نہيں ہے كہ جسكے پاس، حج تمتع كے اعمال كو مكمل كرنے كا وقت نہ ہو اور اس وجہ سے اس كافريضہ حج افراد كى طرف عدول كرنا ہو ہاں اگر اجير بنائے اور اتفاق سے وقت تنگ ہو جائے تو اس پر عدول كر نا واجب ہے اور يہ حج تمتع سے كافى ہے اور اجرت كا بھى

۳۸

مستحق ہو گا _

مسئلہ ۵۴_ اگر اجير احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو پورى اجرت كا مستحق ہو گا البتہ اگر اجارہ منوب عنہ كے ذمہ كو برى كرنے كيلئے ہو جيسا كہ اگر اجارہ مطلق ہو اور اعمال كو انجام دينے كے ساتھ مقيد نہ ہو تو ظاہر حال يہى ہوتا ہے _

مسئلہ ۵۵_ اگر معين اجرت كے ساتھ حج كيلئے اجير بنايا جائے اور وہ اجرت حج كے اخراجات سے كم پڑ جائے تو اجير پر حج كے اعمال كو مكمل كرنا واجب نہيں ہے جيسے كہ اگر وہ حج كے اخراجات سے زيادہ ہو تو اس كا واپس لينا جائز نہيں ہے_

مسئلہ ۵۶_ نائب پر واجب ہے كہ جن موارد ميں اسكے حج كے منوب عنہ سے كافى نہ ہونے كا حكم لگايا جائے _ نائب بنانے والے كو اجرت واپس كردے البتہ اگر اجارہ اسى سال كے ساتھ مشروط ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ بعد ميں منوب عنہ كى طرف سے حج بجالائے _

۳۹

مسئلہ ۵۷_ جو شخص حج كے بعض اعمال انجام دينے سے معذور ہے اسے نائب بنانا جائز نہيں ہے اور معذور وہ شخص ہے جو مختار شخص كے فريضے كو انجام نہ دے سكتا ہو مثلاً تلبيہ يا نماز طواف كو صحيح طور پر انجام نہ دے سكتا ہو يا طواف اور سعى ميں خود چلنے كى قدرت نہ ركھتا ہو يا رمى جمرات پر قادر نہ ہو ، اس طرح كہ اس سے حج كے بعض اعمال ميں نقص پيدا ہوتا ہو ، پس اگر عذر اس نقص تك نہ پہنچائے جيسے صرف بعض تروك احرام كے ارتكاب ميں معذور ہو تو اسكى نيابت صحيح ہے _

مسئلہ ۵۸_ اگر نيابتى حج كے دوران ميں عذر كا طارى ہونا نائب كے اعمال ميں نقص كا سبب بنے تو اجارے كا باطل ہو جانا بعيد نہيں ہے اور اس صورت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اجرت اور منوب عنہ كى طرف سے دوبارہ حج بجالانے پر مصالحت كريں_

مسئلہ ۵۹_ جو لوگ مشعر الحرام ميں اختيارى وقوف سے معذور ہيں انہيں نائب بنانا صحيح نہيں ہے پس اگر انہيں اس طرح نائب بنايا جائے تو وہ

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اس کی عمارت کو قصر کی اینٹو ں کو توڑ کر بنایا گیا جو مقام ''حیرة ''میں کسری کی طرح تھا اور قصر کے آخر میں قبلہ کی طرف بیت المال قرار دیا گیا۔ اس طرح مسجد کا قبلہ قصر کے داہنی طرف تھا اور اسکی عمارت مرمری تھی جس کے پتھر کسری سے لائے گئے تھے۔(طبری ،ج٤ ، ص٦٤)مسجد کے قبلہ کی طرف ٤راستے بنائے گئے اور اس کے پچھم ، پورب٣٣سڑکی ں بنائی گئی ں ۔مسجد اور بازار سے ملی ہوئی جگہ پر ٥سڑکی ں بنائی گئی ں ۔ قبلہ کی سڑک کی طرف بنی اسد نے مکان بنانے کے لئے انتخاب کیا۔ اسد اور نخع کے درمیا ن ایک راستہ تھا ، نخع اور کندہ کے درمیان ایک راستہ تھا ۔کندہ اور ازد کے درمیان ایک راستہ تھا۔صحن کے شرقی حصہ میں انصار اور مزینہ ر ہنے لگے، اس طرح تمیم اور محارب کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ اسد اور عامر کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ صحن کے غر بی حصہ میں بجلہ اور بجیلہ نے منزل کے لئے انتخاب کیا۔ اسی طرح جد یلہ اور اخلا ط کے درمیان ایک راستہ اور سلیمان و ثقیف کے درمیان دو راستے تھے جو مسجد سے ملے ہوئے تھے۔ہمدان ایک راستہ پر اور بجیلہ ایک راستہ پر تھے ، اسی طرح تمیم اور تغلب کا ایک راستہ تھا۔یہ وہ سڑکی ں تھی ں جو بڑی سڑکی ں کہی جاتی تھی ں ۔ ان سڑ کو ں کے برابر کچھ اور سڑکی ں بنائی گئی ں پھر ان کو ان شاہراہو ں سے ملا دیا گیا۔ یہ دوسری سڑکی ں ایک ذراع سے کم کے فا صلہ پر تھی ں ۔اسی طرح اس کے اطراف میں مسافرین کے ٹھہرنے کے لئے مکانات بنائے گئے تھے ۔وہا ں کے بازارمسجدو ں کی روش پر تھے جو پہلے آ کر بیٹھ جاتاتھا وہ جگہ اسی کی ہوجاتی تھی یہا ں تک کہ وہا ں سے اٹھ جائے یا چیزو ں کے بیچنے سے فارغ ہوجائے(طبری ،ج٤، ص ٤٥ ۔ ٤٦) اور تمام دفاعی نظام بھی بر قرار کئے گئے، منجملہ ٤ ہزار تیز رفتار گھوڑے بھی رکھے گئے۔ اس طرح شہر کو فہ مسلمانو ں کے ہا تھو ں تعمیر ہو ا۔

٥۔ نعمان مدینہ میں قبیلہ ء خزرج کی ایک فرد تھا ۔شیخ طوسی نے'' رجال'' میں ص٣٠ پر اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور طبری نے ج ٤،ص ٤٣٠ پر اسے ان لوگو ں میں شمار کیا ہے جنہو ں نے عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے سر پیچی کی ہے۔اس کے بعد یہ معاویہ سے ملحق ہو گیا اور جنگ صفین میں اسی کے ہمراہ تھا۔ اس کے بعد معاویہ نے ایک فوج کے ساتھ اسے'' عین التمر''شب خون کے لئے بھیجا۔ اس مطلب کو طبری نے ٣٩ ھکے واقعات ج ٥، ص ١٣٣ پر لکھا ہے پھر ٥٨ھ میں معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنادیا ۔ یہ اس عہدہ پر باقی رہا یہا ں تک کہ معاویہ کیفر کر دار تک پہنچ گیا اور یزید نے مسند سنبھالی ۔ آخر کا ر اس کی جگہ پر یزید کی جانب سے ٦٠ ھمیں عبید اللہ بن زیاد نے گورنر ی کی با گ ڈور سنبھا لی۔اب نعما ن نے یزید کی راہ لی اور امام حسین علیہ السلام کے قتل ہو نے تک اسی کے پاس رہا ۔ پھر یزیدکے حکم پر اہل حرم کے ہمراہ مدینہ گیا (طبری ،ج٥،ص٤١٢) وہا ں سے شام لو ٹ کر یزید کے پاس رہنے لگا یہا ں تک کہ یزید نے اسے پھر مدینہ بھیجاتاکہ وہ انصار کو عبداللہ بن حنظلہ سے دور رہنے کا مشورہ دے اور یزیدکی مخالفت سے ا نہیں ڈرائے دھمکائے لیکن انصار نے ایک نہ سنی۔ (طبری ،ج٥،ص٤٨١ا)

۱۰۱

٦۔ ٢٠ھ میں عبیداللہ بن زیاد پیدا ہوا ۔(طبری، ج٥، ص ٢٩٧) ٤١ھ میں بسربن ارطاة نے بصرہ میں اسے اس کے دو بھائیو ں عباد اور عبدالرحمن کے ہمراہ قید کرلیا اور زیاد کے نام ایک خط لکھاکہ یا تم فورا ً تم معاویہ کے پاس جائویا میں تمہارے بیٹو ں کو قتل کردو ں گا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٦٨)٥٣ھ میں زیاد مر گیا ۔(طبری، ج٥،ص٢٨) اس کے بعد اس کا بیٹا عبید اللہ معاویہ کے پاس گیا ۔ معاویہ نے ٥٤ھ میں اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ (طبری ،ج ٥،ص٢٩٧) اس کے بعد ٥٥ھ میں بصرہ کا والی مقررکردیا ۔ خراسان سے نکل کر بصرہ جاتے وقت اس نے اسلم بن زرعہ کلابی کواپنا جا نشین بنا یا۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٠٦) جس زمانے میں خراسان میں اس نے کوہ نجاری پر حملہ کیا اور اس کے دو شہر رامیشتہ اوربیر جند کو فتح کرلیا اسی وقت اپنے سپاہیو ں میں سے دوہزارتیر اندازو ں کو اس نے لیا اور ان کی تربیت کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیکر بصرہ روانہ ہوگیا۔ (طبری، ج ٥،ص ٢٩٨) اس کا ایک بھائی عباد بن زیاد، سجستان کا گورنر تھا اوردوسرابھائی عبدالرحمن بن زیاد اپنے بھائی عبیداللہ ہی کے ہمراہ خراسان کی حکمرانی میں تھا ،وہ اس عہدہ پر دو سال تک رہا (طبری ،ج٥ ،ص٢٩٨) پھر کرمان کی حکومت کو بھی عبیداللہ بن زیاد نے ہی سنبھال لیا اور وہا ں اس نے شریک بن اعورحارثی ہمدانی کو بھیج دیا۔ (طبری، ج٥ ،ص٣٢١) یزید نے عباد کو سجستان سے اور عبدالرحمن کو خراسان سے معزول کرکے ان کے بھائی سلم بن زیاد کو گورنربنادیااورسجستان اس کے بھائی یزید بن زیاد کو بھیج دیا (طبری، ج٥ ،ص٤٧١)پھر اسے کو فہ کی گورنری بھی ٦٠ھ میں دیدی او بصرہ میں اس کے بھائی عثمان بن زیاد کو حاکم بنادیا۔ (طبری ،ج٥،ص٣٥٨) جب امام حسین کی شہادت ہوئی تو یہ ملعون ٤٠سال کا تھا اور اس عظیم واقعہ کے بعد یہ ١ ٦ھمیں پھر کوفہ سے بصرہ لوٹ گیا۔ جب یزید اوراس کا بیٹا معاویہ ہلاک ہوگیا تو بصرہ والو ں نے اس کی بیعت کرلی اور اسکو خلیفہ کہنے لگے لیکن پھر اس کی مخالفت کرنے لگے تویہ شام چلاگیا (طبری ،ج ٥،ص٥٠٣) اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا بھائی عبداللہ بھی تھا۔ یہ ٦٤ھکا واقعہ ہے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥١٣) وہا ں اس نے مروان کی بیعت کی ور اس کو اہل عراق کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا تو مروان نے اسے ایک فوج کے ساتھ عراقیو ں کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣) وہا ں اس نے تو ابین سے جنگ کی اور ان کو ہرادیا یہ واقعہ ٦٥ھ کا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٩٨)پھر ٦٦ھ میں جناب مختار سے نبرد آزما ہوا (طبری ،ج٦، ص٨١) اور اسی میں اپنے شامی ہمراہیو ں کے ساتھ ٦٧ ھمیں قتل کردیا گیا۔ (طبری، ج ٦، ص ٨٧)

۱۰۲

لیکن یزید نے جب زمام حکومت سنبھالی تو اس کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ ان لوگوں سے بیعت حاصل کرے جنہوں نے اس کے باپ معاویہ کی درخواست کو یزید کی بیعت کے سلسلے میں ٹھکرادیا تھا اور کسی طرح بھی یزید کی بیعت کے سلسلہ میں اپناہاتھ دینا نہیں چاہتے تھے ،لہٰذاآسودہ خاطرہونے کے لئے اس نے مدینہ کے گورنر ولید کو ایک خط اس طرح لکھا :'' بسم اللّه الرحمن الرحیم ، من یزید امیر المؤمنین الی الولید بن عتبه ...اما بعد: فان معاوية کان عبدامن عباداللّه ، اکرمه اللّه و استخلفه، و خوله و مکن له فعاش بقدر ومات باجل،فرحمه اللّه !فقد عاش محموداً! ومات برّاً تقیا! والسلام ''

یزید امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عتبہ کے نام، امابعد ...حقیقت یہ ہے کہ معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کو خدا نے مورد احترام و اکرام قرار دیا اور خلافت و اقتدار عطا فرمایا اور بہت سارے امکانات دئیے ۔ان کی زندگی کی جتنی مد ت تھی انھوں نے اچھی زندگی بسر کی اور جب وقت آگیاتو دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ خدا ان کو اپنی رحمت سے قریب کرے ۔انھوں نے بڑی اچھی زندگی بسر کی اورنیکی اور شائستگی کے ساتھ دنیا سے گزر گئے۔ والسلام

پھر ایک دوسر ے کا غذ پر جو چوہے کے کان کی طرح تھا یہ جملے لکھے :

'' اما بعد فخذ حسینا و عبد اللّه بن عمر و عبداللّه بن زبیر با لبیعة اخذا شدیدًالیست فیه رخصة حتی یبا یعوا، والسلام'' ( ١)

اما بعد ، حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے سختی کے ساتھ مہلت دیئے بغیر فوراً بیعت حاصل کرو ۔ والسلام

معاویہ کی خبر مرگ پاتے ہی(٢) ولید نے فوراً مروان بن حکم(٣) کو بلوا یا تا کہ اس سلسلے میں اس سے مشورہ کر سکے ۔(٤)

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٣٣٨ ، اس خبر کو طبری نے ہشام کے حوالے سے اور ہشام نے ابو مخنف کی زبانی نقل کیا ہے۔یہ ان متعدد روایتو ں میں سے پہلی روایت ہے جنہیں طبری نے آپس میں ملادیا ہے اور ہر روایت کے شروع میں ''قال '' کہا ہے۔ یہ تمام روایتی ں ابو مخنف کی طرف مستند ہیں ۔

طبری کی روایت میں ہشام کے حوالے سے ابو مخنف سے یہی جملہ نقل ہوا ہے جس میں فقط شدت اور سختی کا تذکر ہ ہے ، قتل کا ذکر نہیں ہے۔ہشام کے حوالے سے سبط بن جوزی کی روایت میں بھی یہی الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ (ص ٢٣٥) ارشاد کے ص ٢٠٠ پر شیخ مفید نے بھی اسی جملہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ہشام اور مداینی کا حوالہ موجود ہے لیکن یعقوبی نے اپنی تا ریخ میں ج ٢،ص ٢٢٩پر خط کا مضمون اس طرح نقل کیا ہے:

''اذ اتاک کتابی هذا فأ حضر الحسین بن علی ، وعبدالله بن زبیر فخذهما با لبیعة ، فان امتنعا فا ضرب أعنا قهماوابعث الیّ برؤوسهما،وخذ الناس بالبیعة ، فمن امتنع فأ نفذ فیه الحکم، وفی الحسین بن علی و عبدالله بن زبیر، والسلام''

۱۰۳

جیسے ہی تم کو میرا خط ملے ویسے ہی حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کرو اور ان دونو ں سے بیعت حاصل کر! اگر انکار کری ں تو ان کی گر دن اڑادواور ان کے سر ہمارے پاس بھیج دو! لوگو ں سے بھی بیعت لو اور انکا ر کرنے پر ان کے ساتھ بتائے ہوئے حکم پر عمل کرو! وہی جو حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کے بارے میں بتایا ہے ۔ والسلام

خوا رزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٠ پر ابن اعثم کے حوالے سے خط کو نقل کیا ہے ۔ یہ خط بعینہ طبری کی ہشام کے حوالے سے منقول روایت کی طرح ہے فقط اس جملہ کا اضافہ کیاہے : ...ومن ابی علیک منہم فاضرب عنقہ و ابعث الیّ براسہ ، ان میں سے جو انکا ر کرے اس کا سر کاٹ کر فوراً میرے پاس روانہ کرو !یزید کا یہ خط ولید کو ٢٦ جب شب جمعہ کو موصول ہوا تھا جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے مدینہ کو الوادع کہنے کی تا ریخ سے یہی اندازہ ہوتا ہے ۔

٢۔ مورخین نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ہے کہ یزید نے یہ خط کب لکھا اور کب قاصد کو مدینہ کے لئے روانہ کیا تا کہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ شام سے مدینہ کی مسافت میں کتنا وقت لگا۔ ہا ں طبری نے (ج٥، ص، ٤٨٢)پر ہشا م کے حوالے سے ابو مخنف سے جو روایت نقل کی اس سے ہم کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں ، کیو نکہ عبد الملک بن مروان نے یزید کو جو خط لکھا تھا کہ ہم لوگ مدینہ میں محصورہیں لہٰذ ا فوج بھیجو جس کے نتیجے میں واقعہ حرہ سامنے آیا اس میں یہ ملتا ہے کہ قاصد کو آمدورفت میں ٢٤ دن لگے؛ بارہ دن جانے میں اور ١٢ دن واپس لوٹنے میں ۔ اس وقت یہ قاصد کہتا ہے کہ اتنے دنو ں کے بعد میں فلا ں وقت عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچا، اس کے علاوہ طبری کے دوسرے بیان سے بھی کچھ اندازہ لگتا ہے کیو نکہ طبری نے ج ٥،ص ٤٩٨ پر واقدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یزید ١٤ ربیع الاول ٦٤ ھ کوواصل جہنم ہوا اور مدینہ میں اس کی خبر مرگ ربیع الآ خر کے شروع میں موصول ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ یزید کی ہلاکت کی خبر ١٦ دنو ں بعد ملی ۔

٣۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے باپ حکم بن عاص کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکال دیاتھا ،کیو نکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایاکرتا تھا ، لیکن عثمان نے اسے اپنی حکومت میں جگہ دی اور اپنی بیٹی نائلہ کی اس سے شادی کردی اور افریقا سے مصالحت کے بعد جو ایک خطیر رقم آئی تھی جس کا ایک حصہ ٣٠٠ قنطار سو نا تھاوہ اسے دیدیا (طبری، ج٤،ص ٢٥٦) اور اسنے ان اموال کی مددسے نہر مروان کی خریداری کی جو تمام عراق میں پھیلی ہوئی تھی (طبری ،ج٤،ص٢٨٠) اس کے علا وہ مروان کو ١٥ ہزار دینار کی ایک رقم اور دی (طبری، ج٤، ص ٣٤٥) سب سے بری بات جو ہوئی وہ یہ کہ عثمان ، مروان کے ہاتھو ں کی کٹھ پتلی بن گئے۔ وہ جو چاہتا تھا یہ وہی کرتے تھے۔ اسی مسئلہ میں امیر المو منین علی علیہ السلام نے عثمان کوخیر خواہی میں سمجھا یا تھا ۔جب عثمان کا محا صرہ ہوا تو عثمان کی طرف سے اس نے لڑنا شروع کیا جس کے نتیجے میں خود اس پر حملہ ہوا پھر لوگو ں نے اس کے قتل کا ارادہ کیالیکن ایک بوڑھی دایہ جس نے اسے دودھ پلا یا تھا مانع ہو گئی اور بولی : اگر تم اس آدمی کو مارنا چاہتے ہو تو یہ مر چکا ہے اور اگر تم اس کے گوشت سے کھیلنا چاہتے ہو تو بری بات ہے (طبری ،ج٤ ،ص ٣٦٤) وہا ں سے اس کا غلام ابو حفصہ یمانی اسے اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٨٠) اسی واقعہ کے بعد مروان کی گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی اور آخر وقت تک ایسی ہی رہی۔ (طبری، ج٤،ص٣٩٤)

۱۰۴

یہ شخص جنگ جمل میں شریک تھا اور دونو ں نمازو ں کے وقت اذان دیا کر تاتھا۔ اسی نے طلحہ پر ایسا تیر چلا یا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئے ۔خود بھی یہ جنگ میں زخمی ہوگیا تھا لہٰذا وہا ں سے بھاگ کر مالک بن مسمع غزاری کے یہا ں پہنچااور اس سے پناہ کی درخواست کی اور اس نے درخواست کوقبول کر لیا ۔(طبری ،ج ٤، ص ٥٣٦) جب وہا ں سے پلٹا تو معاویہ سے جاملا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٥٤١) معاویہ نے بھی عام الجماعةکے بعد اسے مدینہ کا گورنر بنادیا ۔ ٤٤ھ میں اس نے مسجد میں پیش نماز کی خاص جگہ بنانے کی بدعت رائج کی۔ (طبری ،ج٥،ص٢١٥) اس کے بعد معاویہ نے فدک اس کے سپرد کر دیالیکن پھر واپس لے لیا (ج ٥،ص ٥٣١) ٤٩ھمیں معاویہ نے اسے معزول کر دیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٣٢) ٥٤ھ میں ایک بار پھر مدینہ کی گو رنری اس کے سپرد کردی۔ ٥٦ھ میں معاویہ نے حج انجام دیا تو وہا ں اس نے چاہا کہ مروان یزید کی بیعت کی تو ثیق کردے (طبری، ج٥،ص٣٠٤) لیکن پھر معاویہ ٥٨ ھ تک اپنے اس ارادے سے منصرف ہو گیا ۔ ٥٦ھ میں ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو مدینہ کا گو رنر بنادیا۔یہی وجہ ہے کہ مروان اس سے ہمیشہ منہ پھلا ئے رکھتا تھا۔(طبری، ج ٥، ص ٣٠٩) جب اہل حرم شام وارد ہو رہے تھے تو یہ ملعون دمشق میں موجود تھا ۔(طبری، ج٥ ،ص ٤٦٥) ٦٢ھ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یہ مدینہ ہی میں تھا۔ یہی وہ ملعون ہے جس نے حکو مت سے مدد مانگی تھی تو مدد کے طور پر یزید نے مسلم بن عقبہ المری کو روانہ کیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٨٢) جب اہل مدینہ مسلم بن عقبہ کے سامنے پہنچے تو بنی امیہ نے انہیں مروان کے گھر میں قید کر دیا جبکہ وہ ہزار آدمی تھے پھر ان کو مدینہ سے باہرنکال دیا اور اس نے اپنے اہل وعیال کو چو تھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے پاس مقام ینبع میں چھوڑ دیا امام علیہ السلام نے ان کی پر ورش و حمایت کی ذمہ داری لے لی ۔ امام علیہ السلام نے اس زمانے میں مدینہ کو چھو ڑدیا تھا تا کہ ان کے کسی جرم کے گواہ نہ بن سکی ں (طبری ،ج٥،ص ٤٨٥) پھر جب ٦٤ھمیں عبید اللہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کی حکو مت میں مدینہ کا گورنر بن گیا تو بنی امیہ مدینہ سے نکل بھاگے اور شام پہنچ کر مروان کے ہاتھو ں پر بیعت کرلی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٣٠) ٦٥ھ میں اس کو موت آگئی۔

٤۔ جب ولید گورنر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مدینہ پہنچا تو مروان ناراضگی کے اظہار کے ساتھ اس سے ملنے آیا۔جب ولید نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اس نے اپنے افراد کے درمیان مروان کی بڑی ملامت کی؛ جب یہ خبر مروان تک پہنچی تو ان دونو ں کے آپسی رشتے اور رابطے تیرو تار ہو گئے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہا ں تک کہ معاویہ کی موت کی خبر لے کر نامہ بر آیا۔ چونکہ یہ موت ولید کے لئے بڑی صبرآزماتھی اور دوسری اہم مشکل جو اس کے سر پر تھی وہ یہ کہ اس خط میں حکم دیا گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر لوگو ں سے بیعت لی جائے لہذاایسی صورت میں اس نے مروان جیسے گھا گ آدمی کا سہارا لیا اور اسے بلوا بھیجا ۔(. طبری، ج٥،ص ٣٢٥)

۱۰۵

مروان سے مشورہ

مروان نے جب یزید کا خط پڑھا تو''انّا للّه وانّا الیه راجعون ''کہا اور اس کے لئے دعا ئے رحمت کی۔ ولید نے اس سے اس سلسلے میں مشورہ لیتے ہو ئے پو چھا : ''کیف تری ان نصنع'' تم کیا کہتے ہو ہمیں کیا کر نا چاہیے؟ اس پر مروان نے کہا : میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اسی وقت تم ایک آدمی کو ان لوگوں کے پاس بھیجو اور ان لوگوں سے بیعت طلب کرو اور کہو کہ فوراً مطیع ہو جائیں ؛ اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے دست بر دارہو جاؤ لیکن اگر وہ انکار کریں تو قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کی خبر ملے ان کے سرقلم کردو؛کیو نکہ اگر ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر ہو گئی تو ان میں سے ہر ایک ملک کے گو شہ و کنار میں شورش بر پا کر کے قیام کردے گا اور مخالفت کا بازار گرم ہو جا ے گا اور یہ لوگ عوام کو اپنی طرف بلا نے لگیں گے ۔(١)

قاصد بیعت

یہ سنتے ہی ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو جو ایک نو جوان تھا(٢) امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے تلاش کرنے کے بعد دونوں لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہواپایا۔ وہ ان دونوں کے پاس گیا اور ان کو ایسے وقت میں ولید کے دربار میں بلایا کہ نہ تو وہ و قت ولید کے عام جلسے کا تھا اورنہ ہی ولید کے پاس اس وقت جایاجاتاتھا۔(٣)

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص ٣٩٩ ، اسی روایت کو ہشام نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے بھی ص١٨١ پر اس کی روایت کی ہے۔

٢۔ یہ شخص٩١ھ تک زندہ رہا ، کیونکہ ولید بن عبد الملک نے جب مدینہ میں بعض قریشیو ں کا استقبال کیا تو یہ موجود تھا (طبری ،ج٦ ، ص٥٦٥) ''القمقام ''کے بیان کے مطابق اس کی وفات ٩٦ھ میں ہوئی اور اس کالقب مطرف تھا ۔(القمقام، ص ٢٧٠)عبدا للہ کا باپ عمرو جوخلیفہ سوم عثمان کا بیٹا ہے یعنی یہ قاصد عثمان کا پوتا تھا ۔اس کی ما ں کا نام ام عمرو بنت جندب ازدی تھا۔ (طبری ،ج٤،ص٤٢٠) طبری نے جلد ٥، ص ٤٩٤ پر لکھا ہے کہ اس کی ما ں قبیلۂ''دو س'' سے تھی ۔مسلم بن عقبہ نے واقعہ حرہ میں اسے بنی امیہ سے بے وفائی میں متہم کیا۔ جب اسے مسلم بن عقبہ کے پاس لایاگیاتو اس نے عبداللہ بن عمرو کی بڑی مذمت کی اور حکم دیا کہ اس کی داڑھی کو نوچ ڈالا جائے ۔

٣۔وقت کے سلسلے میں ابو مخنف کی خبر اس حد تک ہے کہ ''لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' ایسے وقت میں

۱۰۶

بلایا کہ جب کوئی عمومی جلسے کا وقت نہ تھا ، لیکن یہ رات کا وقت تھا یا دن کا اس کی کوئی تصریح نہیں ہے؛ لیکن اس روایت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جس سے وقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ٢٦ رجب جمعہ کے دن صبح کا واقعہ ہے۔

(الف)۔ روایت کا جملہ یہ ہے''فارسل ..الیهما یدعو هما فآتاهما فوجد هما فی المسجد فقال : اجیبا ا لأ میر یدعوکما فقالا له : انصرف ، الأن ناتیه'' ۔ ولید نے اسے ان دونو ں کی طرف بلانے کے لئے بھیجا۔ قاصد نے تلاش کرتے ہوئے ان دونو ں کو مسجدمیں پایا تو کہنے لگا:امیر نے تم دونو ں کو بلا یا ہے۔ اس پر ان دونو ں نے کہاکہ تم چلوہم ابھی آتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونو ں کو ایک ہی وقت میں بلایا گیا تھا ۔ ابن زبیر سے ایک دوسری خبر میں یہ ہے کہ اس نے کہا : ہم ابھی آتے ہیں لیکن وہ وہا ں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا اور چھپ گیا۔ ولید نے پھر دوبارہ قاصد کو بھیجا تو اسے اپنے ساتھیو ں کے درمیان پایا۔ اس نے مسلسل تین یا چار با قاصدو ں کو بھیج کر بے حد اصرار کیا تو اس پر ابن زبیر نے کہا : ''لاتعجلونی ، امھلونی فانی آتیکم'' ا تنی جلدی نہ کرو تھوڑی سی مہلت دو ،میں بس آہی رہا ہو ں ۔ اس پر ولید نے پانچوی ں مرتبہ اپنے گرگو ں کو بھیج کر اسے بلوایا ۔وہ سب آکر ابن زبیر کو برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے :''یا بن الکاهلیه! واللّه لتاتینّ الامیر او لیقتلنّک' 'اے کاہلہ کے بیٹے تو فورا امیر کے پاس آجا ورنہ وہ تیرا سر کاٹ دے گا۔ اس کے بعد ابن زبیر نے وہ پورا دن اور رات کے پہلے حصے تک وہا ں جانے سے گریز کیا اور وہ ہر وقت یہی کہے جاتا تھا کہ ابھی آتا ہو ں ؛ لیکن جب لوگو ں نے اسے برانگیختہ کیا تو وہ بولا : خدا کی قسم میں اتنے قاصدو ں کی آمد سے پریشان ہوگیا ہو ں اور اس طرح پے در پے لوگو ں نے میرا جینا حرام کردیا ہے لہٰذاتم لوگ اتنی جلدی نہ کرو تاکہ میں امیر کے پاس ایک ایسے شخص کوبھیجو ں جو ان کا منشاء اور حکم معلوم کر آئے۔ اس کا م کے لئے اس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا۔ جعفر بن زبیر نے وہا ں جا کر کہا : رحمک اللہ : اللہ آپ پر رحم کرے آپ عبداللہ سے دست بردار ہوجائیے ۔ آپ نے قاصدو ں کو بھیج بھیج کر ان کا کھانا پانی حرام کر دیا ہے،ان کا کلیجہ منہ کو آرہاہے، انشاء اللہ وہ کل خود آجائی ں گے۔ آپ اپنے قاصد کو لوٹالیجئے اور اس سے کہیے کہ ہم سے منصرف ہوجائے۔ اس پر حاکم نے شام کے وقت وہا ں سے لوگو ں کو ہٹالیا اور ابن زبیر راتو ں رات مدینے سے نکل گیا۔ گذشتہ سطرو ں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ولید کا قاصد صبح میں آیا تھا ، بلکہ واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ سارے امور صبح میں انجام پائے کیونکہ عبارت کا جملہ یہ ہے : ''فلبث بذالک نھارہ و اول لیلہ '' اس کے بعد ابن زبیر دن بھر اور رات کے پہلے حصے تک تھما رہا چونکہ امام علیہ السلام اور ابن زبیر کو ایک ہی ساتھ بلایا گیا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو بلائے جانے کا وقت بھی وقت صبح ہی ہوگا ۔

(ب)روایت میں یہ جملہ موجود ہے ''فالحوا علیھما عشیتھما تلک و اول لیلھما '' ان لوگو ں کو شام کے وقت اور شب کے پہلے حصے میں پھر بلوایا گیا۔اس جملہ سے بعض لوگو ں نے یہ سمجھا کہ امام علیہ السلام کو عصر کے وقت بلایا گیا تھا؛ لیکن یہ ایک وہم ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس جملہ میں جو ایک کلمہ موجود ہے وہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ، فألحواعلیھما''میں الحاح اصرار کے معنی میں استعمال ہواہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے صبح کے وقت بلا یا گیا پھر اصرار اور تکرار دعوت میں شام سے رات

۱۰۷

ہوگئی۔ خود یہ عبارت اس بات کوبیا ن کرتی ہے کہ یہ دعوت دن میں تھی، رات میں نہیں ۔

(ج) ابومخنف نے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے اور انھو ں نے ابو سعید مقبری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد النبی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ابھی دو دن بھی نہ گذرے تھے کہ معلوم ہوا کہ آپ مکہ روانہ ہوگئے(طبری ،ج٥،ص ٣٤٢) اس مطلب کی تائید ایک دوسری روایت بھی کرتی ہے کیونکہ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ابن زبیر اپنے گھر میں چھپ کر اپنے چاہنے والو ں کے درمیان پناہ گزی ں ہوگیا تھا۔اس کے بعد پورے دن اور رات کے پہلے حصہ تک ٹھہرا رہا لیکن پچھلے پہر وہ مدینہ سے باہرنکل گیا ۔جب صبح ہوئی اور ولید نے پھر آدمی کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ نکل چکا ہے۔اس پر ولید نے ٨٠گھوڑ سوارو ں کو ابن زبیر کے پیچھے دوڑایا لیکن کوئی بھی اس کی گرد پا نہ پا سکا۔ سب کے سب لوٹ آئے اور ایک دوسرے کو سست کہنے لگے یہا ں تک کہ شام ہو گئی (یہ دوسرا دن تھا) پھر ان لوگو ں نے شام کے وقت قاصد کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا توامام علیہ ا لسلام نے فرمایا :''اصبحواثم ترو ن و نری'' ذرا صبح تو ہولینے دو پھر تم بھی دیکھ لینا ہم بھی دیکھ لی ں گے۔ اس پر ان لوگو ں نے اس شب امام علیہ السلام سے کچھ نہ کہا اور اپنی بات پر اصرار نہ کیا پھر امام علیہ السلام اسی شب تڑکے نکل گئے ۔یہ یکشنبہ کی شب تھی اور رجب کے دو دن باقی تھے۔ (طبری، ج٥،ص ٣٤١)

نتیجہ ۔ان تمام باتو ں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن زبیر حاکم وقت کی طرف سے بلائے جانے کے بعددن بھر ہی مدینہ میں رہے اور راتو ں رات نکل بھاگے اور امام علیہ السلام دو دن رہے اور تیسرے دن تڑکے نکل گئے ۔ چونکہ امام علیہ السلام نے شب یکشنبہ مدینہ سے کوچ کیا،اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روز جمعہ اور شب شنبہ اور روز شنبہ آپ مدینہ میں رہے اور یہ بلاوا جمعہ کے دن بالکل سویرے سویرے تھا۔ اس بنیاد پر روایت یہ کا جملہ کہ'' ساعة لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' (ایسے وقت میں بلا یا تھا جس وقت وہ عوام سے نہیں ملاکرتا تھا) قابل تفہیم ہوگا۔ ابن زبیر اور امام علیہ السلام جمعہ کے دن صبح صبح مسجد میں موجود تھے؛ شاید یہ نماز صبح کے بعد کاوقت تھا ۔مقبری کے حوالے سے ابو مخنف کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام ولید کے دربار سے لوٹنے کے بعد اپنے ان دو بھروسہ مند ساتھیو ں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے جن کے ہمراہ آپ ولید کے دربار میں گئے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح ہی میں ولید کا قاصد آیا تھا اور وہ رجب کی ٢٦وی ں تاریخ تھی، اسی لئے ولید اس دن عوام کے لئے نہیں بیٹھتاتھا کیونکہ وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن دربار نہیں لگتا تھا ۔

۱۰۸

پس قاصد نے کہا : '' آپ دونوں کو امیر نے بلا یا ہے '' اس پر ان دونوں نے جواب دیا تم جاؤ ہم ابھی آتے ہیں ۔(١) ولید کے قاصد کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھااور ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اس بے وقت بلائے جانے کے سلسلے میں آپ کیا گمان کرتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' قد ظننت ان طاغیتهم قد هلک فبعث الینا لیا خذنا با لبیعة قبل ان یفشوا فی الناس الخبر '' میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا سرکش حاکم ہلاک ہوچکا ہے لہٰذا ولید نے قاصد کو بھیجاتاکہ لوگوں کے درمیان خبر پھیلنے سے پہلے ہی ہم سے بیعت لے لی جا ئے ۔

____________________

١۔طبری ج ، ٤ص ٣٣٩ ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ سبط ابن جوزی نے بھی ص ٢٠٣ پر اور خوارزمی نے ص ١٨١ پراس مطلب کو ذکر کیا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہا ں دو ہی افراد کا ذکر ہے جب کہ خط میں تین لوگو ں کا تذکرہ تھا۔

روایت کے آخری ٹکڑے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقط امام علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کا ذکرکرنا اور عبد الر حمن بن ابو بکراور عبداللہ بن عمر کا ذکر نہ آنا شاید اس لئے ہے کہ پہلا یعنی پسر ابو بکر تو واقعہ سے پہلے ہی مر چکا تھااور دوسرا یعنی عبداللہ بن عمر مدینہ ہی میں نہیں تھا، جیسا کہ طبری نے واقدی سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٤٣)

۱۰۹

مقتل خوارزمی میں اعثم کوفی کے حوالے سے ص ١٨١ پراوراسی طرح سبط بن جوزی نے ص ٢٣٥ پر اس قاصد کا نام جو اُن دونوں کے پاس آیا تھا عمرو بن عثمان ذکر کیا ہے اور تاریخ ا بن عساکر،ج٤، ص٣٢پر اس کا نام عبدالرحمن بن عمروبن عثمان بن عفان ہے۔

اس پر ابن زبیر نے کہا:وما اظن غیرہ فما ترید ان تصنع ؟ میرا گمان بھی یہی ہے تو آپ اب کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' اجمع فتیا نی الساعة ثم امشی الیہ فاذا ابلغت الباب احتبستھم علیہ ثم دخلت علیہ '' ، میں ابھی ابھی اپنے جوانوں کو جمع کرکے ان کے ہمراہ دربار کی طرف روانہ ہوجاؤں گا اور وہاں پہنچ کر ان کو دروازہ پر روک دوں گا اور تنہا دربار میں چلاجاؤں گا۔ابن زبیر : ''انی اخافہ علیک اذا دخلت'' جب آپ تنہا دربار میں جائیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' لاآتیہ الا وانا علی الا متناع قادر'' تم فکر مت کرو میں ان کے ہر حربہ سے بے خوف ہوکر ان سے مقاومت کی قدرت رکھتا ہوں ۔ اس گفتگو کے بعد امام علیہ السلام اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے چاہنے والوں اور گھر والوں کو اکھٹا کر کے روانہ ہوگئے۔ دربار ولید کے دروازہ تک پہنچ کر اپنے اصحاب سے اس طرح گویا ہوئے :'' انی داخل ، فان دعوتکم او سمعتم صوته قد علا فاقتحموا علیّ باجمعکم والا فلاتبرحوا حتی أخرج الیکم ''میں اندر جا رہا ہوں اگرمیں بلاؤں یا اس کی آواز بلند ہو تو تم سب کے سب ٹوٹ پڑنا ور نہ یہیں پر ٹھہرے رہنا یہاں تک کہ میں خود آجاؤں ۔(١)

____________________

١۔شیخ مفید نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، ص ٢٠٠؛سبط بن جوزی ،ص ٢٣٦، خوارزمی ، ص ١٨٣۔

۱۱۰

امام حسین علیہ السلام ولید کے پاس

اس کے بعد امام علیہ السلام دربار میں داخل ہوئے ۔اس کو سلام کیا اور وہاں پر مروان کو بیٹھاہوا پایا جبکہ اس سے پہلے دونوں کے رابطہ میں دراڑپڑ گئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی موت سے انجان بنتے ہوئے فرمایا :''الصلة خیر من القطیعه'' رابطہ برقرار رکھنا توڑنے سے بہتر ہے۔

خدا تم دونوں کے درمیان صلح و آشتی برقرار فرمائے۔ ان دونوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ امام علیہ السلام آکر اپنی جگہ پربیٹھ گئے۔ ولید نے معاویہ کی خبر مرگ دیتے ہی فوراًاس خط کو پڑھ دیا اور آپ سے بیعت طلب کرنے لگا تو آپ نے فرمایا :''انا للّه وانّا الیه راجعون أمّا ما سأ لتنی من البیعة فان مثلی لا یعطی بیعته سرا'' تم نے جو بیعت کے سلسلے میں سوال کیا ہے تو میرے جیسا آدمی تو خاموشی سے بیعت نہیں کرسکتا'' ولا أراک تجتزی بها منی سرّاً دون ان تظهرها علی رؤوس الناس علانية'' ؟ میں نہیں سمجھتا کہ تم لوگوں میں اعلان عام کئے بغیر مجھ سے خاموشی سے بیعت لینا چاہوگے۔ولید نے کہا : ہاں یہ صحیح ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فاذاخرجت الی الناس فدعوتهم الی البیعةدعوتنا مع الناس فکان امراً واحداً'' (١) توٹھیک ہے جب باہر نکل کر لوگوں کو بیعت کے لئے بلاؤگے تو ہمیں بھی دعوت دینا تاکہ کام ایک بار ہوجائے۔امام علیہ السلام کے سلسلے میں ولید عافیت کو پسند کررہاتھا لہٰذا کہنے لگا : ٹھیک ہے اللہ کا نام لے کر آپ چلے جائیے جب ہم لوگوں کو بلائیں گے تو آپ کو بھی دعوت دیں گے ، لیکن مروان ولید سے فوراً بول پڑا :ّواللّه لئن فارقک الساعة ولم یبایع ؛لاقدرت منه علی مثلها أبداً ، حتی تکثر القتلی بینکم وبینه ! احبس الرجل ولا یخرج من عندک حتی یبایع أو تضرب عنقه! ''(٢)

____________________

١۔خوارزمی نے اس مطلب کو دوسرے لفظو ں میں ذکر کیا ہے ،ص١٨٣۔

٢۔خوارزمی نے اس مطلب کو ص١٨٤پر ذکر کیا ہے۔

۱۱۱

خدا کی قسم اگر یہ ابھی چلے گئے اور بیعت نہ کی تو پھر ایسا موقع کبھی بھی نہیں ملے گا یہاں تک کہ دونوں گروہ کے درمیان زبر دست جنگ ہو تم اسی وقت اس مرد کو قید کرلو اور بیعت کئے بغیر جا نے نہ دو یا گردن اڑادو ،یہ سنتے ہی امام حسین علیہ السلام غضبناک ہو کراٹھے اور فرمایا :''یابن الزرقاء (١) انت تقتلنی ام هو؟ کذبت والله واثمت'' (٢) اے زن نیلگوں چشم کے بیٹے تو مجھے قتل کرے گا یا وہ ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا ہے اور بڑے دھوکے میں ہے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام باہر نکل کر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان کو لیکر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔(٣)

____________________

١۔یہ زرقاء بنت موہب ہے۔ تاریخ کامل ،ج٤،ص ٧٥ کے مطابق یہ عورت برے کامو ں کی پرچمدار تھی ۔یہ امام علیہ السلام کی طرف سے قذف اور تہمت نہیں ہے کہ اسے برے لقب سے یاد کرنا کہاجائے بلکہ قرآن مجید کی تاسی ہے قرآن ولید بن مغیرہ مخزومی کی شان میں کہتا ہے:''عتل بعد ذالک زنیم'' زنیم کے معنی لغت میں غیر مشروع اولاد کے ہیں جس کو کوئی اپنے نسب میں شامل کرلے۔

٢۔مقتل خوارزمی، ص١٨٤ میں ان جملوں کا اضافہ ہے :''انا اهل بیت النبوه ومعدن الرسالة و مختلف الملائکةومهبط الرحمة، بنا فتح اللّه وبنا یختم، ویزید رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس، معلن بالفسق، فمثلی لا یبایع مثله ،ولکن نصبح و تصبحون وننظر و تنظرون أیناأحق بالخلافةو البیعة'' ہاں اے ولید !تو خوب جانتا ہے کہ ہم اہل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمد ورفت کی جگہ اور رحمت خدائی کے نزول و ھبوط کا مرکز ہیں ، اللہ نے ہمارے ہی وسیلہ سے تمام چیزوں کا آغاز کیااور ہمارے ہی ذریعہ انجام ہوگا ، جبکہ یزیدایک فاسق ، شراب خوار ، لوگوں کا قاتل اور کھلم کھلا فسق انجام دینے والا ہے،پس میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ؛لیکن صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھنا اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون خلافت و بیعت کا زیادہ حقدار ہے۔ جیسے ہی امام علیہ السلام کی آواز بلند ہوئی تو جوانان بنی ہاشم برہنہ تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑے؛ لیکن امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو روکا اور گھر کی طرف لے کر روانہ ہوگئے۔ مثیرالاحزان میں ابن نما(متوفیٰ٦٤٥ھ) نے اور لہوف میں سید ابن طائووس (متوفیٰ ٦١٣ھ) نے روایت کا تذکرہ کیاہے ۔

٣۔طبری نے اس روایت کو ہشام بن محمد کے حوالے سے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے ص١٨٤پر خبر کا تتمہ بھی لکھا ہے کہ ولید سے مروان بولا :''عصیتنی لاوالله لا یمکنک من مثلها من نفسه ابداً'' تم نے میری مخالفت کی ہے تو خدا کی قسم تم اب کبھی بھی ان پر اس طرح قدرت نہیں پاؤگے ۔ولیدنے کہا:'' ویح غیرک یا مروان ..''اے مروان! یہ سرزنش کسی اور کو کر تو نے تو میرے لئے ایسا راستہ چنا ہے کہ جس سے میرا دین برباد ہوجائے گا ، خدا کی قسم اگر میرے پاس مال دنیا میں سے ہرو ہ چیز ہو جس پر خورشید کی روشنی پڑتی ہے اور دوسری طرف حسین کا قتل ہوتوحسین کا قتل مجھے محبوب نہیں ہے۔(سبط بن جوزی، ص٢٢٦)

سبحان اللہ ! کیا میں حسین کو فقط اس بات پر قتل کردوں کہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ میں بیعت نہیں کروں گا ؟ خدا کی قسم میں گمان کرتا ہوں کہ جو قتل حسین کا مرتکب ہو گا وہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک خفیف المیزان ہوگا۔ (ارشاد ،ص ٢٠١)

مروان نے اس سے کہا : اگر تمہاری رائے یہی ہے تو پھر تم نے جو کیا وہ پالیا۔

۱۱۲

ابن زبیر کا موقف

ابن زبیر نے یہ کہا: میں ابھی آتا ہوں لیکن اپنے گھر آکر چھپ گئے ۔ ولید نے قاصد کودوبارہ اس کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے ابن زبیر کو اپنے چاہنے والوں کی جھر مٹ میں پا یا جہاں وہ پناہ گزیں تھا۔ اس پر ولید نے مسلسل بلا نے والوں کے ذریعہ آنے پرتاکید کی ...آخر کا ر ابن زبیر نے کہا :''لا تعجلو نی فانی آتیکم امهلونی'' جلد ی نہ کرو میں ابھی آرہا ہوں ؛ مجھ کو تھوڑی سی مہلت دو ۔ اسکے بعد وہ دن اور رات کے پہلے پہر تک مدینہ میں رہا اور یہی کہتا رہا کہ میں ابھی آرہا ہوں ؛یہا ں تک کہ ولیدنے پھر اپنے گر گوں کو ابن زبیر کے پاس روانہ کیا ۔ وہ سب وہاں پہنچ کر اسے برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے : ائے کا ہلہ کے بیٹے ! خدا کی قسم تو فوراً آجا ورنہ امیر تجھ کو قتل کر دے گا۔ لوگوں نے زبر دستی کی تو ابن زبیر نے کہا :خدا کی قسم ان مسلسل پیغام لانے والوں کی وجہ سے میں بے چین ہوں ؛ پس تم لوگ جلدی نہ کرومیں ابھی امیر کے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجتا ہوں جو ان کی رائے معلوم کر کے آئے ، اس کے بعد فوراًاس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا ۔ اس نے جا کر کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے ، عبداللہ سے دست بردار ہوجایئے، لوگوں کو بھیج بھیج کر آپ نے ان کو خوف زدہ کر رکھا ہے، وہ انشا ء اللہ کل آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے۔ اب آپ اپنے پیغام رساں سے کہئے کہ وہ ہمارا پیچھا چھوڑ دے، اس پر ولید نے آدمی بھیج کر قاصد کو جانے سے روک دیا ۔

ادھر ابن زبیر ٢٧ رجب کو شب شنبہ امام حسین علیہ السلام کے نکلنے سے پہلے ہی راتوں رات مدینے سے نکل گئے اور سفر کے لئے نا معلوم راستہ اختیار کیا۔سفر کا ساتھی فقط انکا بھائی جعفر تھا اور کوئی تیسرا نہیں تھا ۔ ان دونوں بھائیوں نے پکڑے جانے کے خوف سے عام راستے پر چلنے سے گریز کیا اور ناہموار راستے سے ہو تے ہوئے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (تذکرةالخواص ، ابن جوزی ،ص ٢٣٦)

جب صبح ہوئی تو ولید نے اپنے آدمیوں کو پھر بھیجا لیکن ابن زبیر نکل چکے تھے۔ اس پر مروان نے کہا : خدا کی قسم وہ مکہ روانہ ہواہے اس پر ولید نے فوراً لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑایا؛ اس کے بعد بنی ا میہ کے ٨٠ گھوڑ سواروں کو ابن زبیرکی تلاش کے لئے بھیجا لیکن وہ سب کے سب خالی ہاتھ لو ٹے ۔

ادھر عبداللہ بن زبیر اپنے بھائی کے ہمراہ مشغول سفر ہیں ۔ چلتے چلتے جعفر بن زبیر نے'' صبرةالحنظلی'' کے شعر سے تمثیل کی:

وکل بنی أم سیمسون لیلة

ولم یبق من أعقابهم غیر واحد

اس پر عبداللہ نے کہا :سبحان اللہ !بھائی اس شعر سے کیا کہنا چاہتے ہو ؟جعفر نے جواب دیا : بھائی ! میں نے کوئی ایسا

۱۱۳

ارادہ نہیں کیا ہے جو آپ کے لئے رنجش خاطرکاباعث ہو ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے یہ نا پسند ہے کہ تمہاری زبان سے کوئی ایسی بات نکلے جس کا تم نے ارادہ نہ کیا ہو۔ اس طرح ابن زبیر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ اس وقت مکہ کا حاکم عمرو بن سعید تھا۔ جب ابن زبیر وارد مکہ ہوئے تو عمرو بن سعیدسے کہا : میں نے آپ کے پا س پناہ لی ہے لیکن ابن زبیر نے کبھی ان لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی اور نہ ہی کوئی افاضہ کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک کنارے رہنے لگے اور نماز بھی تنہا پڑھنے لگے اور افاضہ بھی تنہا ہی رہا ۔(طبری ، ج٥،ص٣٤٣) اس واقعہ کو ہشام بن محمد نے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص٢٠١، اور سبط ابن جوزی نے تذکرة الخواص ،ص٢٣٦پر بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں یہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام آئندہ شب میں اپنے بچوں ، جوانوں اور گھر االوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرنکل گئے اور ابن زبیر سے دور ہی رہے اور سبط ابن جوزی ص ٢٤٥ پر ہشام اور محمد بن اسحاق سے رویت نقل کرتے ہیں کہ دو شنبہ کے دن ٢٨ رجب کو امام علیہ السلام نکلے اورخوارزمی نے ص١٨٦پر لکھا ہے کہ آپ ٣ شعبان کومکہ پہنچے ۔

امام حسین علیہ السلام مسجد مدینہ میں

دوسرے دن سب کے سب عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں لگ گئے اور امام حسین علیہ السلام کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا یہا ں تک کہ شام ہو گئی۔ شام کے وقت ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین کے پاس بھیجا ۔یہ٢٨ رجب سنییجر کا دن تھا۔ امام حسین نے ان سے فرما یا : صبح ہونے دو تم لوگ بھی کچھ سوچ لواور میں بھی سوچتا ہوں ۔ یہ سن کر وہ لوگ اس شب یعنی شب ٢٩ رجب امام حسین علیہ السلام سے دست بردار ہوگئے اور اصرار نہیں کیا ۔(١) ابو سعید مقبری کا بیا ن ہے کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد میں وارد ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ دولوگوں پر تکیہ کئے ہوئے چل رہے تھے، کبھی ایک شخص پر تکیہ کرتے تھے اور کبھی دوسرے پر؛اسی حال میں یزید بن مفرغ حمیری کے شعر کو پڑھ رہے تھے :

لاذعرت السوام فی فلق الصبح

مغیراً،و لا د عیت یزیداً

یوم اْعطی من المهابه ضیماً

والمنایا یرصدننی أن أحیدا(٢)

____________________

١۔طبری، ج٥ ، ص٣٣٨، ٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے روایت نقل کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔(ارشاد، ص ٢٠١)

٢۔خوارزمی ،ص١٨٦

۱۱۴

میں سپیدہ سحری میں حشرات الارض سے نہیں ڈرتا نہ ہی متغیر ہوتاہوں اور نہ ہی اپنی مدد کے لئے یزید کو پکاروں گا ۔سختیوں کے دنوں میں خوف نہیں کھاتا جبکہ موت میری کمین میں ہے کہ مجھے شکارکرے ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے جب یہ اشعار سنے تواپنے دل میں کہا : خدا کی قسم ان اشعار کے پیچھے کوئی ارادہ چھپاہواہے۔ابھی دو دن نہ گذرے تھے کہ خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ کا سفر اختیار کرکیا ہے۔(١)

محمدبن حنفیہ کا موقف(٢)

محمد حنفیہ کو جب اس سفر کی اطلاع ملی تو اپنے بھا ئی حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور فر مایا بھائی جان ! آپ میرے لئے دنیا میں سب سے زیاد ہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں میں اپنی نصیحت اور خیر خواہی کا ذخیرہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے تک پہنچانا بہتر نہیں سمجھتا آپ یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کیجئے اور کسی دور دراز علاقہ میں جاکر پناہ گزین ہو جائیے پھر اپنے نمائندوں کو لوگوں کے پاس بھیج کر اپنی طرف دعوت دیجئے اب اگر ان لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی تو اس پر آپ خدا کی حمد وثنا کیجئے اور اگر لوگ آپ کے علاوہ کسی اور کی بیعت کر لیتے ہیں تو اس سے نہ آپ کے دین میں کمی آئے گی نہ عقل میں ، اس سے نہ آپ کی مروت میں کوئی کمی آئے گی اور نہ فضل وبخشش میں ۔مجھے اس بات کاخوف ہے کہ آپ ان شہروں میں سے کسی ایک شہر میں چلے جائیں اور کچھ لوگ وہا ں آکر آپ سے ملیں پھر آپس میں اختلاف کرنے لگیں ۔کچھ گروہ آپ کے ساتھ ہو جائیں اور کچھ آپ کے مخالف ۔اس طرح جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھے اور آپ سب سے پہلے نیزوں کی باڑھ پر آجائیں ۔اس صورت میں وہ ذات جو ذاتی طور پر اور اپنے آبا ء واجد اد کی طرف سے اس امت کی باوقار ترین فرد ہے اس کا خون ضائع ہوگا اور ان کے اہل بیت ذلیل ہوں گے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا :بھائی میں جارہا ہوں !

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص٣٤٢، ابومخنف کا بیان ہے کہ یہ واقعہ مجھ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق نے ابوسعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے ، جن کازندگی نامہ پہلے بیان ہوچکاہے۔تذکرةالخواص ،ص٢٣٧

٢۔ محمد حنفیہ کی ما ں خولہ بنت جعفر بن قیس ہیں جو قبیلہ ء بنی بکر بن وائل سے تعلق رکھتی ہیں ۔(طبری ،ج، ٥، ص ١٥٤)

۱۱۵

آپ جنگ جمل میں اپنے بابا علی مرتضیٰ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ امام علی السلام نے آپ کے ہاتھوں میں علم دیا تھا (طبری ،ج ٥، ص ٤٤٥)آپ نے وہاں بہت دلیری کے ساتھ جنگ لڑی اور قبیلۂ ''ازد''کے ایک شخص کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جو لوگوں کو جنگ پر اکسارہا تھا ۔(طبری، ج ٤،ص ٤١٢) آپ جنگ صفین میں بھی موجودتھے اور وہاں عبید اللہ بن عمر نے ان کو مبارزہ کے لئے طلب کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے شفقت میں روکا کہ کہیں قتل نہ ہو جا ئیں ۔ (طبری ،ج٥، ص١٣) امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے عراق جارہے تھے تو آپ مدینہ میں مقیم تھے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٩٤) مختار آپ ہی کی نمائند گی کا دعویٰ کر تے ہوئے کوفہ میں وارد ہوئے تھے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٦١) ابن حنفیہ کو اس کی خبر دی گئی اور ان سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ خدا ئے متعال اپنے جس بندے کے ذریعہ چاہے ہمارے دشمن سے بد لہ لے۔جب مختار کو ابن حنفیہ کے اس جملہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے جناب محمد حنفیہ کو امام مہدی کا لقب دیدیا ۔(طبری ،ج٦، ص ١٤) مختار ایک خط لیکرابراہیم بن مالک اشتر کے پا س گئے جو ابن حنفیہ سے منسوب تھا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٤٦) اس کا تذکرہ ابن حنفیہ کے پاس کیا گیا تو انھوں نے کہا : وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ہمارا چاہنے والا ہے اور قاتلین حسین علیہ السلام تخت حکومت پر بیٹھ کر حکم نا فذ کر رہے ہیں ۔مختار نے یہ سنا تو عمر بن سعداور اس کے بیٹے کو قتل کر کے ان دو نوں کا سر ابن حنفیہ کے پاس روانہ کر دیا۔ (طبری، ج ٦،ص ٦٢) مختار نے ایک فوج بھیج کر ابن حنفیہ کو برانگیختہ کرنا چاہا کہ وہ ابن زبیر سے مقابلہ کریں لیکن محمد حنفیہ نے روک دیا اور خون بہا نے سے منع کر دیا۔ (طبری،ج٦،ص٧٤) جب یہ خبر ابن زبیر کو ملی تو اس نے ابن حنفیہ اور ان کے ١٧رشتہ داروں کو کچھ کو فیوں کے ہمراہ زمزم کے پاس قید کردیا اور یہ دھمکی دی کہ بیعت کریں ورنہ سب کوجلادیں گے۔ اس حالت کو دیکھ کر محمد حنفیہ نے کو فہ کے تین آدمیوں کو مختار کے پاس روانہ کیا اور نجات کی درخواست کی ۔ خبر ملتے ہی مختار نے چار ہزار کا لشکرجو مال واسباب سے لیث تھا فوراً روانہ کیا ۔وہ لوگ پہنچتے ہی مکہ میں داخل ہوئے اور مسجدالحرام میں پہنچ کر فوراً ان لوگوں کو قید سے آزاد کیا ۔ آزاد کر نے کے بعد ان لوگوں نے محمدحنفیہ سے ابن زبیر کے مقابلہ میں جنگ کی اجازت مانگی تو محمد حنفیہ نے روک دیا اور اموال کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٦٧) آپ شیعوں کو زیادہ روی سے روکا کرتے تھے۔ (طبری ،ج ٦،ص ١٠٦) ٦٨ ھ میں حج کے موقع پر آپ کے پاس ایک مستقل پر چم تھا اور آپ فرمایا کر تے تھے: میں ایسا شخص ہوں جو خود کو ابن زبیر سے دور رکھتا ہو ں اور جو میرے ساتھ ہے اس کو بھی یہی کہتا ہوں کیو نکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سلسلے میں دو لوگ بھی اختلاف کریں ۔(طبری ،ج٦،ص١٣٨) آپ جحاف کے سال تک زندہ رہے اور ٦٥سال کی عمر میں طائف میں اس دنیا سے جاں بحق ہو گئے۔ ابن عباس نے آپ کی نماز پڑھائی ۔(طبری ،ج ٥،ص ١٥٤)

۱۱۶

محمد حنفیہ نے کہا :اگرآپ جا ہی رہے ہیں تو مکہ میں قیام کیجئے گا۔اگروہ جگہ آپ کے لئے جا ئے امن ہو تو کیا بہتر اور اگرامن وسلامتی کو وہاں پر بھی خطرہ لاحق ہو تو ریگستانو ں ، پہاڑوں اوردرّہ کو ہ میں پناہ لیجئے گا او رایک شہر سے دوسرے شہر جاتے رہیئے گا تاکہ روشن ہو جائے کہ لوگ کس طرف ہیں ۔ ایسی

صورت میں آپ حالات کو اچھی طرح سمجھ کر فیصلہ کر سکیں گے ۔ میرے نزدیک آپ کے لئے بہترین راستہ یہی ہے۔اس صورت میں تمام امور آپ کا استقبال کریں گے اوراگر آپ نے اس سے منھ موڑ اتو تما م امور آپ کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجائیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :بھائی جان !آپ نے خیر خواہی کی ہے اور شفقت فرمائی ہے، امید ہے کہ آپ کی رائے محکم اور استوار ہو۔(١)

امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

امام حسین علیہ السلام نے ولید سے کہا ٹھہرجاؤتاکہ تم بھی غور کرلو اور ہم بھی غور کرلیں ، تم بھی دیکھ لواور ہم بھی دیکھ لیں ، ادھر وہ لوگ عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں امام حسین علیہ السلام کو با لکل بھول گئے یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اسی شام ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ یہ ٢٧ رجب شنبہ کا دن تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھ لینا اور ہم بھی دیکھ لیں گے، اس پر وہ لوگ اس شب جو شب یکشنبہ یعنی شب ٢٨ رجب تھی رک گئے اور کسی نے اصرار بھی نہیں کیا۔ اسی رات امام حسین مدینہ سے خارج ہوئے جب کہ رجب کے فقط دو دن باقی تھے۔ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند اور بھائی وبھتیجے موجود تھے بلکہ اہل بیت کے اکثر افراد موجود تھے،البتہ محمد حنفیہ اس کاروان کے ہمراہ نہیں تھے۔(٢)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ، ص٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے یہ روایت کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ (ارشاد،ص٢٠٢، خوارزمی ، ص١٨٨،اور خوارزمی نے اعثم کوفی کے حوالے سے امام علیہ السلام کی وصیت ''امّا بعد فانّی لم اخرج ...''کا اضافہ کیا ہے ۔اور وصیت میں ''سیرة خلفاء الراشدین '' کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔طبری ، ج ٥،ص٢٤٠، ٢٤١و ٣٨١ پر بھی کوچ کرنے کی تاریخ یہی بیان کرتے ہیں جسے ابو مخنف نے صقعب بن زہیر کے حوالے سے اورانھو ں نے عون بن ابی حجیفہ کے توسط سے نقل کیا ہے۔'' ارشاد'' ، ص٢٠٩پر شیخ مفید اور تذکرة الخواص، ص٢٣٦پر سبط بن جوزی بیان کرتے ہیں : آئندہ شب امام حسین علیہ السلام اپنے جوانو ں اور اہل بیت کے ہمراہ مدینہ سے سفر اختیار کیا در حالیکہ لوگ ابن زبیر کی وجہ سے آپ سے دست بردار ہوگئے تھے، پھرص٢٤٥ پر محمدبن اسحاق اور ہشام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یکشنبہ کو جبکہ رجب کے تمام ہونے میں دو دن بچے تھے مدینے سے سفر اختیار کیا ،البتہ خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٩ پر لکھا ہے کہ رجب کے تین دن باقی تھے ۔

۱۱۷

مدینہ سے سفر اختیار کرتے وقت امام حسین علیہ السلام اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:( ''فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الْظَّالِمِيْنَ'' ) (١) اور جب مکہ پہنچے تویہ آیت تلا وت فر ما ئی( ''وَلَمَّاتَوَجَّهَ تِلْقَآ ئَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَٰی رَبِّی أَنْ يَهْدِيَنِی سَوَائَ السَّبِيْلِ'' ) (٢)

____________________

١۔ قصص ، آیت٢١

٢۔ قصص ، آیت ٢٢، طبری ج٥،ص، ٣٤٣ پرہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کر تے ہیں ۔

۱۱۸

عبد اللہ بن عمر کا موقف :(۱) پھر ولید نے ایک شخص کو عبد اللہ بن عمر کے پاس بھیجا تو آنے والے نے ا بن عمر سے کہا : یزید کی بیعت کرو ! عبد اللہ بن عمر نے کہا : جب سب بیعت کرلیں گے تو میں بھی کرلوں گا۔(۲) اس پر ایک شخص نے کہا : بیعت کرنے سے تم کو کونسی چیز روک رہی ہے ؟ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اختلاف کریں اورآپس میں لڑبھڑکر فنا ہوجائیں اور جب کوئی نہ بچے تو لوگ یہ کہیں کہ اب تو عبداللہ بن عمر کے علاو ہ کو ئی بچانہیں ہے لہذا اسی کی بیعت کرلو ، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا : میں نہیں چاہتاکہ وہ لوگ قتل ہوں ، اختلاف کریں اور فناہوجائیں لیکن جب سب بیعت کرلیں گے اور میرے علاو ہ کوئی نہیں بچے گا تو میں بھی بیعت کرلوں گا اس پر ان لوگوں نے ابن عمر کو چھوڑدیا کیونکہ کسی کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

____________________

(١) طبری ، ج ٥، ص٣٤٢ میں یہ لفظ موجود ہے کہ ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں ...، پھر طبری کہتے ہیں کہ واقدی (متوفی ٢٠٧) کا گمان ہے کہ جب قاصد ،معاویہ کی موت کی خبر لے کر ولید کے پاس آیا تھا اس وقت ابن عمر مدینہ میں موجود ہی نہیں تھے اور یہی مطلب سبط بن جوزی نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ ٢٣٧ پر لکھاہے۔ ہا ں ابن زبیر اور امام حسین علیہ السلام کو بیعت یزید کے لئے بلایا تو یہ دونو ں اسی رات مکہ کو روانہ ہوگئے ؛ا ن دونو ں سے ابن عباس اور ابن عمر کی ملاقات ہوئی،جو مکہ سے آرہے تھے تو ان دونو ں نے ان دونو ں سے پوچھا : آپ کے پیچھے کیا ہے ؟ تو ان دونو ں نے کہا : معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت ، اس پر ابن عمر نے کہا : آپ دونو ں تقوائے الٰہی اختیار کیجئے اور مسلمین کی جماعت کو متفرق نہ کیجئے ! اس کے بعد وہ آگے بڑھ گیا اور وہیں چند دنو ں اقامت کی یہا ں تک کہ مختلف شہرو ں سے بیعت آنے لگی تو وہ اور ابن عباس نے پیش قدمی کی اور دونو ں نے یزید کی بیعت کر لی''۔

(٢) جیسا کہ معاویہ نے اپنی وصیت میں اور مروان نے ولید کو مشورہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ایسا ہوگا اورویسا ہی ہوا ۔

۱۱۹

امام حسین علیہ السلام مکہ میں

* عبد اللہ بن مطیع عدوی

* امام حسین علیہ السلام کا مکہ میں ورود

* کوفیوں کے خطوط

* امام حسین علیہ السلام کا جواب

* حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر

* راستے سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نا م خط

* مسلم کو امام علیہ السلام کا جواب

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217