مناسك حج

مناسك حج18%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67785 / ڈاؤنلوڈ: 3403
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اس پر اجرت كے مستحق نہيں ہوں گے جيسے كار وانوں كے خدام كہ جو كمزور لوگوں كے ہمراہ رہنے اور كاروان كے بعض كاموں كو انجام دينے پر مجبور ہوتے ہيں چنانچہ طلوع فجر سے پہلے ہى مشعر سے منى كى طرف نكل جاتے ہيں پس اگر ايسے لوگوں كو نيابتى حج كيلئے اجير بنايا جائے تو ان پر اختيار ى وقوف كو درك كرنا اور حج كو بجالانا واجب ہے _

مسلئہ ۶۰_معذور نائب كے حج كے كافى نہ ہونے ميں فرق نہيں ہے كہ وہ اجير ہو يا مفت ميں حج كوانجام دے رہا ہو اور كافى نہ ہونے ميں كوئي فرق نہيں ہے كہ خود نائب اپنے معذور ہونے سے جاہل ہو يا منوب عنہ اس سے جاہل ہو اور اسى طرح ہے اگر ان ميں سے كوئي ايك اس بات سے جاہل ہو كہ يہ ايسا عذر ہے كہ جسكے ساتھ نائب بنانا جائز نہيں ہوتا جيسا كہ اس بات سے جاہل ہو كہ مشعر الحرام ميں وقوف اضطرارى پر اكتفا كرنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۶۱_ نائب پر واجب ہے كہ وہ تقليد ياا جتہاد كے لحاظ سے اپنے

۴۱

فريضے پر عمل كرے _

مسئلہ ۶۲_ اگر نائب احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو يہ منوب عنہ سے كافى ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپركافى نہيں ہے اور اس حكم كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں ہے كہ نائب اجير ہو يا مفت ميں كام انجام دے رہا ہو يا اسكى نيابت حجة الاسلام ميں ہو يا كسى اور حج ميں _

مسئلہ ۶۳_ جس شخص نے اپنى طرف سے حجة الاسلام انجام نہيں ديا اسكے لئے احوط استحبابى يہ ہے كہ نيابتى حج كے اعمال مكمل كرنے كے بعد جب تك مكہ ميں ہے اپنے لئے عمرہ مفردہ بجالائے اگر يہ كر سكتا ہو _

مسئلہ ۶۴_ نيابتى حج كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد نائب كيلئے اپنى طرف سے اور غير كى طرف سے طواف كرنا جائز ہے اسى طرح اس كيلئے عمرہ مفردہ بجا لانا بھى جائز ہے _

مسئلہ ۶۵_ جيسا كہ حج كيلئے نائب ميں احوط كى بنا پر ايمان شرط ہے اسى

۴۲

طرح اعمال حج ميں سے ہر اس كام ميں بھى شرط ہے كہ جس ميں نيابت صحيح ہے جيسے طواف ، رمى ،قرباني_

مسئلہ ۶۶_ نائب پر واجب ہے كہ وہ اعمال حج ميں منوب عنہ كى طرف سے نيابت كا قصد كرے اور اس پر واجب ہے كہ منوب عنہ كى طرف سے طواف النساء كو انجام دے _

۴۳

باب دوم :

حج و عمرہ كے اعمال كے بارے ميں

۴۴

حج و عمرہ كى اقسام

گز ر چكا ہے كہ حج كى تين اقسام ہيں حج تمتع اور يہ اس شخص كا فريضہ ہے كہ جسكے اہل مكہ سے اڑتاليس ميل تقريبا نوے كيلوميٹر دور ہوں اور حج قران و افراد ،اور يہ دونوں اس شخص كا فريضہ ہيں جسكے اہل مكہ ميں ہوں يا مذكورہ مسافت سے كَم فاصلے پر ہوں_ حج تمتع ، قران و افراد سے اس بات ميں مختلف ہے كہ يہ ايك عبادت ہے جو عمرہ اور حج سے مركب ہے اور اس ميں عمرہ حج سے پہلے ہوتا ہے اور عمرہ اور حج كے درميان كچھ مدت كا فاصلہ ہوتا ہے كہ جس ميںانسان عمرہ كے احرام سے باہر آجاتا ہے اور جو كچھ مُحرم كيلئے حرام ہوتا ہے حج كا احرام باندھنے سے پہلے اس كيلئے حلال ہو جاتا

۴۵

ہے اس لئے اسے حج تمتع كا نام دينا مناسب ہے پس عمرہ حج تمتع كى ايك جز ہے اور اس كا نام عمرہ تمتع ہے اور حج دوسرا جز ہے اور ان دونوں كو ايك سال ميں انجام دينا ضرورى ہے _ جبكہ حج افراد اور قران ميں سے ہر ايك ايك عبادت ہے جو فقط حج سے عبارت ہے اور عمرہ ان دونوں سے ايك ، دوسرى مستقل عبادت ہے كہ جسے عمرہ مفردہ كہا جاتا ہے اسى لئے بعض اوقات عمرہ مفردہ ايك سال ميں انجام پاتا ہے اور حج افراد و قران دوسرے سال ميں اور عمرہ ، مفردہ ہو يا تمتع اس كے مشتركہ احكام ہيں كہ جنہيں ہم حج و عمرہ تمتع اور حج قران و افراد ،انكے عمرہ اور ان كے درميان فروق كو بيان كرنے سے پہلے ذكر كرتے ہيں _

چند مسائل:

مسئلہ ۶۷_عمرہ ،حج كى طرح كبھى واجب ہوتا ہے اور كبھى مستحب _

۴۶

مسئلہ ۶۸_عمرہ بھى حج كى طرح اصل شريعت ميں اور عمر بھر ميں ايك دفعہ اس پر واجب ہوتا ہے كہ جس ميں حج والى استطاعت ہو اور يہ بھى حج كى طرح فوراً واجب ہوتا ہے _ اور اس كے وجوب ميں حج كى استطاعت شرط نہيں ہے بلكہ صرف عمرے كى استطاعت كافى ہے اگر چہ حج كيلئے استطاعت نہ بھى ہو جيسا كہ اس كا عكس بھى اسى طرح ہے پس جو شخص صرف حج كيلئے استطاعت ركھتاہو اس پر حج واجب ہے نہ عمرہ يہ اس شخص كيلئے ہے كہ جس كے اہل مكہ ميںہوں يا مكہ سے اڑتاليس ميل سے كم فاصلہ پر ہوں اور رہے وہ لوگ جو مكہ سے دور ہيں كہ جن كا فريضہ حج تمتع ہے توان ميں حج كى استطاعت سے ہٹ كر صرف عمرہ كى استطاعت متصور نہيں ہے اور اسى طرح اس كا عكس كيونكہ حج تمتع ان دونوں سے مركب ہے اور ان دونوں كا ايك ہى سال ميں اكٹھا واقع ہونا ضرورى ہے _

مسئلہ ۶۹_ مكلف كيلئے مكہ مكرمہ ميں بغير احرام كے داخل ہونا جائز نہيں ہے پس جو شخص حج كے مہينوں كے علاوہ داخل ہونا چاہے اس پر عمرہ مفردہ كا

۴۷

احرام باندھنا واجب ہے اور اس حكم سے دو مورد مستثنى ہيں _

الف : جس كا كام ايسا ہو كہ اس كا مكہ ميں آنا جانا زيادہ ہے _

ب : جو شخص حج تمتع ياعمرہ مفردہ كے اعمال مكمل كرنے كے بعد مكہ سے خارج ہوجائے تو اس كيلئے سابقہ عمرہ كے اعمال بجالانے سے ايك ماہ تك بغير احرام كے مكہ ميں دوبارہ داخل ہونا جائز ہے _

مسئلہ ۷۰_ حج كى طرح عمرہ كو بھى مكرر كرنا مستحب ہے اور دو عمروں كے درميان كوئي معين فاصلہ كرنا شرط نہيں ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ اگر اپنے لئے دو عمرے بجالائے تو ان كے درميان ايك ماہ كا فاصلہ كرے اور اگر دو شخصوں كى طرف سے ہوں يا ايك اپنى طرف سے اور دوسرا كسى اور كى طرف سے ہو تو مذكورہ فاصلہ معتبر نہيں ہے بنابراين اگر دوسرا عمرہ نيابت كے ساتھ ہو تو نائب كيلئے اس پر اجرت لينا جائز ہے اور يہ منوب عنہ كے واجب عمرہ مفردہ سے كافى ہے اگر اس پر واجب ہو _

۴۸

حج تمتع اور عمرہ تمتع كى صورت

حج تمتع دو كاموں سے مركب ہے ايك عمرہ اور يہ حج سے پہلے ہوتا ہے اور دوسرا حج اور ہر ايك كے مخصوص اعمال ہيں_

عمرہ تمتع كے اعمال مندرجہ ذيل ہيں _

۱_ كسى ميقات سے احرام باندھنا

۲_ طواف كعبہ

۳_ نماز طواف

۴_ صفا و مرہ كے درميان سعي

۵_ تقصير

حج تمتع كے اعمال مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ مكہ مكرمہ سے احرام باندھنا

۲_ نو ذى الحج كے ظہر سے غروب تك عرفات ميں وقوف كرنا

۳ _ دس ذى الحج كى رات سورج كے طلوع ہونے تك مشعر الحرام

۴۹

ميں وقوف كرنا

۴_ عيد والے دن (دس ذى الحج) جمرة عقبہ كو كنكرياں مارنا

۵_ قرباني

۶_ حلق يا تقصير

۷_ گيارہويں كى رات منى ميں گزارنا

۸_گيارہويں كے دن تينوں جمرات كو كنكرياں مارنا

۹_ بارہ ذى الحج كى رات منى ميں گزارنا

۱۰_ بارہويں كے دن تينوں جمرات كو كنكرياں مارنا

۱۱_ طواف حج

۱۲_ نماز طواف

۱۳_ سعي

۱۴_ طواف النسائ

۱۵_ نماز طواف

۵۰

حج افراد اور عمرہ مفردہ

صورت كے لحاظ سے حج افراد حج تمتع سے مختلف نہيں ہے مگر يہ كہ قربانى حج تمتع ميں واجب ہے اور حج افراد ميں مستحب ہے _عمرہ مفردہ تو يہ عمرہ تمتع كى طرح ہے مگر بعض امور ميں كہ جنہيں ہم مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں_

مسئلہ ۷۱_ عمرہ تمتع ميں تقصير بھى ضرورى ہے جبكہ عمرہ مفردہ ميں تقصير اور حلق كے درميان اختيار ہے البتہ يہ مردوں كيلئے ہے ، ليكن عورتوں كيلئے ہر صورت ميں تقصير ہى ضرورى ہے _

مسئلہ ۷۲_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء اور اسكى نماز واجب نہيں ہيں اگرچہ احوط يہ ہے كہ طواف النساء اور اسكى نماز كو رجاء كى نيت سے انجام دے ليكن يہ دونوں عمرہ مفردہ ميں واجب ہيں _

مسئلہ ۷۳_ عمرہ تمتع صرف حج كے مہينوں ميں واقع ہو سكتا ہے اور وہ ''شوال ، ذيقعد اور ذى الحج'' ہيں جبكہ عمرہ مفردہ تمام مہينوں ميں ہو سكتا

۵۱

ہے_

مسئلہ ۷۴_ عمرہ تمتع ميں ضرورى ہے كہ احرام ان مواقيت ميں سے ايك سے باندھا جائے كہ جن كا ذكر آنے والا ہے ليكن عمرہ مفردہ كا ميقات ادنى الحل ہے اس كيلئے جو مكہ كے اندر ہے اگر چہ اس كيلئے ان مواقيت ميں سے ايك سے احرام باندھنا بھى جائز ہے ليكن جو شخص مكہ سے باہر ہے اور عمرہ مفردہ بجا لانا چاہتا ہے وہ انہيں مواقيت ميں سے ايك سے احرام باندھے گا_

حج قران

صورت كے لحاظ سے حج قران حج افراد كى طرح ہے مگر حج قران ميں واجب ہے كہ احرام كے وقت قربانى اپنے ہمراہ ركھے پس اس لئے اس پر اپنى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے_جيسے كہ حج قران ميں احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو جاتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى جبكہ حج افراد ميں احرام

۵۲

فقط تلبيہ كے ساتھ ہو سكتا ہے _

حج تمتع كے عمومى احكام :

حج تمتع ميں چند چيزيں شرط ہيں:

پہلى شرط : نيت اور وہ يہ ہے كہ عمرہ كے احرام كے شروع سے ہى حج تمتع كا قصد كرے ورنہ صحيح نہيں ہے _

دوسرى شرط : يہ كہ حج اور عمرہ دونوں حج كے مہينوں ميںہوں

تيسرى شرط : يہ كہ حج اور عمرہ دونوں ايك سال ميں ہوں

چوتھى شرط : يہ كہ عمرہ اور حج دونوں كو ايك شخص اور ايك شخص كى طرف سے انجام دے پس اگر ايك ميت كى طرف سے حج تمتع كيلئے دو شخصوں كو اجير بنايا جائے ايك كو حج كيلئے اور دوسرے كو عمرے كيلئے تو يہ ميت كيلئے كافى نہيں ہے_

۵۳

مسئلہ ۷۵_ جس شخص كا فريضہ حج تمتع ہے اس كيلئے اختيا ر ى صورت ميںافراد يا قران كى طرف عدول كرنا جائز نہيں ہے_

مسئلہ ۷۶_ جس شخص كا فريضہ حج تمتع ہے اور اسے علم ہے كہ وقت اتنا تنگ ہے كہ عمرہ كو مكمل كركے حج كو درك نہيں كر سكتا چاہے عمرے ميں داخل ہونے سے پہلے يہ علم ركھتا ہو يا اسكے بعد اسے اس كا علم ہو تو اس پر واجب ہے كہ حج تمتع سے حج افراد كى طرف عدول كرے اور اعمال حج كو مكمل كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے _

مسئلہ ۷۷_ جو عورت حج تمتع بجالانا چاہتى ہے اگر ميقات سے احرام باندھتے وقت حيض كى حالت ميں ہو تو اگر اسے يہ احتمال ہو كہ وہ ايسے وقت ميں پاك ہو جائيگى كہ جس ميں غسل ، طواف ، نماز طواف ، سعى اور تقصير پھر حج كيلئے احرام اور عرفہ والے دن كو زوال سے درك كرنے كى وسعت موجود ہو تو عمرہ تمتع كا احرام باندھے پس اگر ايسے وقت ميں پاك ہو جائے جو عمرہ كو مكمل كرنے اور حج كو درك كرنے كى وسعت ركھتا ہو تو ٹھيك ورنہ

۵۴

اپنے عمرہ كو حج افراد كى طرف پلٹا لے اور اسكے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور يہى اس كيلئے حج تمتع سے كافى ہے ليكن اگر ميقات سے احرام باندھتے وقت پاك ہو پھر راستے ميں يا مكہ ميں داخل ہونے كے بعد عمرہ كو بجالانے سے پہلے اسے حيض آجائے اور ايسے وقت ميں پاك نہ ہو كہ جس ميں عمرہ كو مكمل كركے حج كو درك كرسكے تو اسے اختيار ہے كہ اپنے عمرہ كو حج افراد كى طرف پلٹا دے اور اسكے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے اور يہى اس كيلئے حج تمتع سے كافى ہے يا يہ كہ منى سے پلٹنے تك طواف اور نماز طواف كو بجا نہ لائے اور سعى و تقصير كو بجالائے اور اسكے ذريعے عمرہ كے احرام سے خارج ہو جائے پھر حج تمتع كا احرام باندھ كر عرفہ اور مشعر كو درك كرے اور منى كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد اعمال حج كو مكمل كرنے كيلئے مكہ آئے اور طواف عمرہ اور اسكى نماز كى قضا كرے طواف حج ، اسكى نماز اور سعى كو انجام دينے سے پہلے يا اسكے بعد _اور يہ اس كيلئے حج تمتع سے كافى ہے اوراس پر كوئي اور شے واجب نہيں ہے _

۵۵

پہلاحصہ :

اعمال عمرہ كے بارے ميں

۵۶

پہلى فصل :مواقيت

اور يہ وہ مقامات ہيں كہ جنہيں احرام كيلئے معين كيا گيا ہے اور يہ مندرجہ ذيل ہيں :

اول : مسجد شجرہ اور يہ مدينہ منورہ كے قريب ذو الحليفہ كے علاقہ ميں واقع ہے اور يہ اہل مدينہ اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو مدينہ كے راستہ حج كرنا چاہتے ہيں_

مسئلہ۸ ۷_ احرام كو مسجد شجرہ سے جحفہ تك موخر كرنا جائز نہيں ہے مگر ضرورت كى خاطر مثلا اگر بيمارى ، كمزورى و غيرہ جيسا كوئي عذر ہو _

مسئلہ ۷۹_ مسجد شجرہ كے باہر سے احرام باندھنا كافى نہيں ہے ہاں ان

۵۷

تمام جگہوں سے كافى ہے جنہيں مسجد كا حصہ شمار كيا جاتا ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _

مسئلہ ۸۰_ عذر ركھنے والى عورت پر واجب ہے كہ مسجد سے عبور كى حالت ميں احرام باندھے البتہ اگر مسجد ميں ٹھہرنا لازم نہ آئے ليكن اگر مسجد ميں ٹھہرنا لازم آئے اگر چہ بھيڑو غيرہ كى وجہ سے اور احرام كو عذر كے دور ہونے تك مؤخر نہ كر سكتى ہو تو اس كيلئے ضرورى ہے كہ وہ جحفہ يااسكے بالمقابل مقام سے احرام باندھے _ البتہ اس كيلئے ميقات سے پہلے كسى بھى معين جگہ سے نذر كے ذريعے احرام باندھنا بھى جائز ہے _

مسئلہ۸۱_ اگر شوہر بيوى كے پاس حاضر نہ ہو تو بيوى كا ميقات سے پہلے احرام باندھنے كى نذر كا صحيح ہونا شوہر كى اجازت كے ساتھ مشروط نہيں ہے ليكن اگر شوہر حاضر ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس سے اجازت حاصل كرے پس اگر اس صورت ميں نذر كرے تو اسكى نذر منعقد نہيں ہوگى _

دوم: وادى عقيق _ يہ اہل عراق و نجد اور جو لوگ عمرہ كيلئے اس سے

۵۸

گزرتے ہيں ان كا ميقات ہے اور اسكے تين حصے ہيں ''مسلخ'' اور يہ اسكے شروع كے حصے كا نام ہے ''غمرہ'' اور يہ اسكے درميان والے حصے كا نام ہے ''ذات عرق'' اور يہ اسكے آخر والے حصے كا نام ہے اور ان سب مقامات سے احرام كافى ہے _

سوم : جحفہ : اور يہ اہل شام ، مصر ، شمالى افريقہ اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں _ اور اس ميں موجود مسجد و غيرہ سب مقامات سے احرام باندھنا كافى ہے _

چہارم :يلملم : اور يہ اہل يمن اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو اس سے گزرتے ہيں اور يہ ايك پہاڑ كا نام ہے اور اسكے سب حصوں سے احرام باندھنا كافى ہے _

پنجم : قرن المنازل اور يہ اہل طائف اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں اور اس ميں مسجد و غير مسجدسے احرام باندھنا كافى ہے _

۵۹

مذكورہ مواقيت كے بالمقابل مقام

جو شخص مذكورہ مواقيت ميں سے كسى سے نہ گزرے اور ايسى جگہ پر پہنچ جائے جو ان ميں سے كسى كے بالمقابل ہو تو وہيں سے احرام باندھے اور بالمقابل سے مراد يہ ہے كہ مكہ مكرمہ كے راستے ميں ايسى جگہ پر پہنچ جائے كہ ميقات اسكے دائيں يا بائيں ہو كہ اگر يہ اس جگہ سے آگے بڑھے تو ميقات اسكے پيچھے قرار پاجائے_

مذكورہ مواقيت وہ ہيں كہ جن سے عمرہ تمتع كرنے والے كيلئے احرام باندھنا ضرورى ہے _

حج تمتع و قران و افراد كے مواقيت مندرجہ ذيل ہيں:

اول : مكہ معظمہ اور يہ حج تمتع كاميقات ہے _

دوم : مكلف كى رہائشے گا ہ _ اور يہ اس شخص كا ميقات ہے كہ جسكى رہائشے گاہ ميقات اور مكہ كے درميان ہے بلكہ يہ اہل مكہ كا بھى ميقات ہے اور ان پر واجب نہيں ہے كہ مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك پر آئيں _

۶۰

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217