مناسك حج

مناسك حج27%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67824 / ڈاؤنلوڈ: 3406
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ہو جائيں جيسے قميص، شلوار ، كوٹ ، جيكٹ،نيچے كا لباس ، عبا اور قبا و غيرہ اور اسى طرح بٹن لگے ہوئے كپڑے_

مسئلہ ۱۲۹_ سابقہ مسئلہ كے موضوع كے بارے ميں فرق نہيں ہے كہ وہ لباس سلا ہواہو يابُنا ہوا يا انكى مثل _

مسئلہ ۱۳۰_ كمربند ،و ہ تھيلى كہ جس ميں پيسے ركھے جاتے ہيں اور گھڑى كے پٹے و غيرہ كے پہننے ميںكوئي اشكال نہيں ہے كہ جنہيں لباس شمار نہيں كياجاتا اگر چہ يہ سلے ہوئے ہوں_

مسئلہ ۱۳۱: سلے ہوئے بستر يا اس لباس پر بيٹھنے اور سونے سے كوئي مانع نہيں ہے كہ جس كا پہننا حرام ہے جيسے كہ انكا بستر بنانے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے_

مسئلہ۱۳۲_ لحاف اور استرو غيرہ كوشانے پر ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اگر چہ اس كے اطراف سلے ہوئے ہوں جيسے كہ احرام كے كپڑوں كے اطراف كے سلے ہوئے ہونے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

۸۱

مسئلہ ۱۳۳_ اگر جان بوجھ كر سلا ہوا لباس پہنے تو ايك بكرے كا كفارہ دينا واجب ہے اور اگر سلے ہوئے متعد د كپڑے پہنے جيسے پينٹ اور كوٹ پہنے يا قميص اور اندرونى لباس پہنے تو اس پر ہر ايك كيلئے الگ كفارہ ہو گا _

مسئلہ ۱۳۴_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے ان كپڑوں كو پہننے پر مجبور ہوجائے كہ جنہيں پہننا حرام ہے تو گناہ نہيں ہے ليكن احوط يہ ہے كہ ايك بكرا كفارے ميں دے _

مسئلہ ۱۳۵_ عورتوں كيلئے ہر قسم كاسلا ہوالباس پہننا جائز ہے اور اس ميں كفارہ نہيں ہے ہاںان كيلئے دستانے پہننا جائز نہيں ہے_

۲_ اس چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے پورے حصے كو چھپالے_

مسئلہ ۱۳۶_ مرد پر احرام كى حالت ميں موزوں اور جوراب كا پہننا حرام ہے اور احوط وجوبى ہر اس چيز كے پہننے سے اجتناب كرنا ہے جو پاؤں

۸۲

كے اوپر والے پورے حصے كو چھپالے جيسے جو تا اور موزہ و غيرہ _

مسئلہ ۱۳۷_ اس چوڑى پٹى والے جوتے كے پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے كہ جو پاؤں كے پورے اوپر والے حصے كو نہيں ڈھانپتا _

مسئلہ۱۳۸_ بيٹھنے يا سونے كى حالت ميں پاؤںپر لحاف و غيرہ كے ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اسى طرح اگر احرام كا لباس پاؤں پر آپڑے تو بھى اشكال نہيں ہے _

مسئلہ۱۳۹_ اگر محرم ايسے جوتے و غيرہ كو پہننے پر مجبور ہو كہ جو پاؤں كے پورے اوپر والے حصے كو ڈھانپ ليتا ہے تو اس كيلئے يہ جائز ہے ليكن اس حالت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اسكے اوپر والے حصے كو چيردے_

مسئلہ ۱۴۰_ اگر گذشتہ مسئلہ ميں مذكور موزہ اور جوراب و غيرہ پہنے تو كفارہ نہيں ہے اگر چہ جوراب كے سلسلے ميں احوط استحبابى ايك بكرے كا كفارہ ديناہے _

مسئلہ ۱۴۱_مذكورہ حكم ( موزے اور جوراب و غيرہ كے پہننے كى حرمت )

۸۳

مردوں كے ساتھ مختص ہے ليكن عورتوں كيلئے بھى احوط استحبابى اسكى رعايت كرنا ہے _

۳_ مرد كا اپنے سر اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھا نپنا

مسئلہ ۱۴۲_ مرد كيلئے ٹوپى ، عمامے ، رومال اور توليے وغيرہ كے ساتھ اپنے سر كو ڈھانپنا جائز نہيں ہے_

مسئلہ ۱۴۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ مرد اپنے سر كے اوپر كوئي ايسى چيز نہ ركھے اور نہ لگائے جو اسكے سر كو ڈھانپ لے جيسے مہندى ،صابون كى جھاگ يا اپنے سر كے اوپر سامان اٹھانا و غيرہ _

مسئلہ ۱۴۴_ كان ،سر كا حصہ ہيں پس مرد كيلئے احرام كى حالت ميں انہيں ڈھانپنا جائز نہيں ہے _

مسئلہ ۱۴۵_سركے بعض حصے كو اس طرح ڈھانپنا كہ اسے عرف ميں سر كا ڈھانپنا كہا جائے جائز نہيں ہے جيسے ايك چھوٹى سى ٹوپى اپنے سركے

۸۴

درميان ميں ركھے ورنہ كوئي اشكال نہيں ہے جيسے قرآن و غيرہ كو اپنے سركے اوپر ركھے يا اپنے سركے بعض حصے كو بالتدريج تو ليے كے ساتھ خشك كرے اگر چہ احوط اس سے بھى اجتناب كرنا ہے _

مسئلہ ۱۴۶_ مُحرم كيلئے اپنے سر كو پانى ميں ڈبونا جائز نہيں ہے اور ظاہر يہ ہے كہ اس مسئلہ ميں مرد اور عورت كے درميان فرق نہيں ہے ليكن اگر ڈبوئے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۱۴۷_ احوط وجوبى كى بناپر سر كو ڈھانپنے كا كفارہ ايك بكرى ہے _

مسئلہ ۱۴۸_ اگر غفلت، بھول كر يا لا علمى كى وجہ سے سر كو ڈھانپے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۱۴۹_عورتوں كيلئے احرام كى حالت ميں اس طرح چہرے كو ڈھانپنا جائز نہيں ہے كہ جيسے وہ حجاب يا چہرے كو چھپانے كيلئے كرتى ہيں _ اس بناپر چہرے كے بعض حصے كو ڈھانپنا كہ جس پر چہرے كا ڈھانپناصدق كرے جيسے پردے يا چھپانے كيلئے رخساروں كو ناك ، منہ اور ٹھوڑى

۸۵

سميت ڈھانپنا تو يہ پورے چہرے كو ڈھانپنے كى طرح ہے پس يہ بھى جائز نہيں ہے _

مسئلہ ۱۵۰_ احرام كى حالت ميں عورتوں كيلئے ماسك كا استعمال جائز ہے _

مسئلہ ۱۵۱_ چہرے كے اوپر ، نيچے يا دونوں اطراف كو اتنى مقدار ڈھانپنا كہ جتنا رائج گھونگھٹ كے ذريعے ہوتا ہے اور جس طرح عورتيں نماز كے وقت سر كوڈھانپنے كيلئے كرتى ہيں كہ جس پر چہرے كا ڈھانپنا صادق نہيں آتا اشكال نہيں ركھتا چاہے يہ نماز ميں ہو يا غير نماز ميں _

مسئلہ ۱۵۲_ چہرے كو پنكھے و غيرہ ( جيسے رسالہ ، كاغذ) كے ساتھ ڈھانپنا حرام ہے ہاں چہرے پر ہاتھ ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے _

مسئلہ ۱۵۳_ محرم عورت كيلے اپنى چادر كو اپنے چہرے پر اس طرح ڈالنا جائز ہے كہ وہ اسكے ناك كے اوپر والے كنارے كے بالمقابل تك اسكے چہرے كے بعض حصے اور اسكى پيشانى كو ڈھانپ لے ليكن احوط اس سے

۸۶

اجتناب كرنا ہے اگر اجنبى كے ديكھنے كى جگہ ميں نہ ہو _

مسئلہ ۱۵۴_ سابقہ مسئلہ ميں احوط يہ ہے كہ مذكورہ پردے كو اس طرح نہ چھوڑدے كہ وہ اسكے چہرے كو چھورہا ہو _

مسئلہ ۱۵۵_ چہرے كو ڈھانپنے ميں كفارہ نہيں ہوتا اگر چہ يہ احوط ہے_

۴_ مردوں كيلئے سايہ كرنا _

مسئلہ ۱۵۶ _ مرد كيلئے احرام كى حالت ميں چلتے ہوئے اور منزليں طے كرتے ہوئے ( جيسے ميقات اور مكہ كے درميان چلنا اور مكہ و عرفات كے درميان چلنا و غيرہ) سايہ كرنا جائز نہيں ہے ہاں اگر راستے ميں كہيں رك جائے يا منزل مقصود تك پہنچ جائے جيسے گھر يا ريسٹورينٹ ميں داخل ہوجائے تو سايہ كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے پس سفر كے دوران چھت والى گاڑى ميں سوار ہونا جائز نہيں ہے _

مسئلہ ۱۵۷_ احوط و جوبى يہ ہے كہ محرم مكہ پہنچنے كے بعد اور اعمال عمرہ كو

۸۷

بجالانے سے پہلے متحرك سائے سے اجتناب كرے جيسے چھت والى گاڑى ميں سوار ہونا يا چھترى كا استعمال كرنا اور اسى طرح حج كا احرام باندھنے كے بعد عرفات اور مزدلفہ كى طرف جاتے ہوئے البتہ اگر دن كے وقت سفر كرے اور مزدلفہ سے منى كى طرف جاتے ہوئے اور اسى طرح عرفات اور منى كے اندر چلتے ہوئے _

مسئلہ ۱۵۸_ سابقہ دومسئلوں ميں مذكور حكم دن ميں سايہ كرنے كے ساتھ مختص ہے بنابراين رات كے وقت چھت والى گاڑى ميں سوار ہونے سے كوئي مانع نہيں ہے اگر چہ احتياط يہ ہے كہ سايہ سے استفادہ نہ كرے_

مسئلہ ۱۵۹: بارانى اور ٹھنڈى راتوں ميں احوط يہ ہے كہ چھت والى گاڑى و غيرہ ميں سوار ہوكر اپنے اوپرسايہ نہ كرے_

مسئلہ ۱۶۰_ ديوار، درخت اور ان جيسے سايہ سے استفادہ كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے حتى كہ دن كے دوران بھى اسى طرح ثابت سايہ جيسے سرنگ اور پُل كے نيچے سے عبور كرنا _

۸۸

مسئلہ ۱۶۱_ محرم پر سايہ سے استفادہ كرنے كى حرمت مردوں كے ساتھ مختص ہے پس عورتوں كيلئے يہ ہر صورت ميں جائز ہے _

مسئلہ ۱۶۲_ سايہ كرنے كا كفارہ ايك بكرى ہے _

مسئلہ ۱۶۳_ اگر بيمارى يا كسى اور عذر كى وجہ سے سايہ كرنے پر مجبور ہو تو ايسا كرنا جائز ہے ليكن ايك بكرى كفارہ ميں دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۶۴_ احرام ميںسايہ كرنے كا كفار ہ ايك مرتبہ واجب ہے اگر چہ باربار سايہ كرے پس اگر عمرہ كے كفارہ ميں ايك سے زيادہ مرتبہ سايہ كرے تو اس پر ايك سے زيادہ كفارہ واجب نہيں ہے اور اسى طرح حج كے احرام ميں_

۵_ خوشبو كا استعمال:

مسئلہ ۱۶۵_ احرام كى حالت ميں ہر قسم كى خوشبو كا استعمال كرنا حرام ہے جيسے كستوري،اگر كى لكڑي، گلاب كا پانى اور رائج خوشبو ئيں_

۸۹

مسئلہ ۱۶۶_ اس لباس كا پہننا جائز نہيں ہے كہ جسے پہلے سے معطر كيا گيا ہے جب اس سے عطر كى خوشبو اٹھ رہى ہو _

مسئلہ ۱۶۷_ احوط كى بناپر خوشبودار صابون كا استعمال كرنا جائز نہيں ہے اور اسى طرح خوشبو دار شيمپو_

مسئلہ ۱۶۸_ احوط وجوبى خوشبودار چيز كے سونگھنے سے اجتناب كرنا ہے اگر چہ اس پر خوشبو كا عنوان صدق نہ كرتا ہو جيسے گلاب كے پھول يا خوشبودار سبزيوں اور پھلوں كو سونگھنا_

مسئلہ ۱۶۹_ محرم كيلئے ايسا كھانا كھانا جائز نہيں ہے كہ جس ميں زعفران ڈالا گيا ہو _

مسئلہ ۱۷۰_ سيب اور مالٹے جيسے خوشبودار پھلوں كے كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے ليكن احوط وجوبى يہ ہے كہ انہيں سونگھے نہ_

مسئلہ ۱۷۱_ اگر خوشبو كو جان بوجھ كر استعمال كرے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ كفارے ميں ايك بكرى دے اگر چہ وہ كھانے ميں ہو جيسے زعفران

۹۰

ياكھانے ميں نہ ہو_

مسئلہ ۱۷۲_ محرم كيلئے بدبو سے اپنے ناك كو روكنا جائز نہيں ہے ہاں بدبو والى جگہ سے نكل جانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اور اسى طرح اس سے عبور كرنا _

۶_ آئينے ميں ديكھنا:

مسئلہ ۱۷۳: احرام كى حالت ميں زينت كى غرض سے آئينے ميں ديكھنا حرام ہے ليكن اگر كسى اور غرض سے ديكھے جيسے گاڑى كا ڈرائيور گاڑى چلاتے وقت اسكے آئينے ميں ديكھتا ہے تو كوئي اشكال نہيں ہے_

مسئلہ ۱۷۴_ صاف و شفاف پانى يا ديگران صيقل كى ہوئي چيزوں ميں ديكھنا كہ جن ميں شے كى تصوير نظر آتى ہے آئينے ميں ديكھنے كا حكم ركھتا ہے پس اگر زينت كى غرض سے ہو تو جائز نہيں ہے_

مسئلہ ۱۷۵_ اگر ايسے كمرے ميں رہتا ہو كہ جس ميں آئينہ ہے اور اسے علم ہو كہ بھول كر اسكى آنكھ آئينے پر پڑجائيگى تو آئينے كو اپنى جگہ برقرار ركھنے

۹۱

ميں كوئي اشكال نہيں ہے ليكن بہتر يہ ہے كہ آئينے كو كمرے سے نكال دے يا اسے ڈھانپ دے_

مسئلہ۱۷۶_ عينك پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اگر يہ زينت كيلئے نہ ہو_

مسئلہ ۱۷۷_ احرام كى حالت ميں تصوير اتارنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے_

مسئلہ ۱۷۸_ آئينے ميں ديكھنے كا كفارہ نہيں ہے ليكن احوط وجوبى يہ ہے كہ اس ميں ديكھنے كے بعد تلبيہ كہے_

۷_ انگوٹھى پہننا:

مسئلہ ۱۷۹: احوط وجوبى يہ ہے كہ محرم انگوٹھى كے پہننے سے اجتناب كرے البتہ اگر اسے زينت شمار كيا جائے_

مسئلہ ۱۸۰_ اگر انگوٹھى زينت كيلئے نہ ہو بلكہ استحباب كے قصد سے انگوٹھى پہنے يا كسى دوسرى غرض سے تو اسكے پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے _

مسئلہ ۱۸۱_ احرام كى حالت ميں انگوٹھى پہننے كا كفارہ نہيں ہے _

۹۲

۸_ مہندى اور رنگ كا استعمال كرنا :

مسئلہ ۱۸۲_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اگر زينت شمار ہو تو محرم مہندى كے استعمال اور بالوں كو رنگنے سے اجتناب كرے بلكہ ہر اس شے سے جسے زينت شمار كيا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۸۳_ اگر احرام سے پہلے اپنے ہاتھوں ، پيروں اور ناخنوں پر مہندى لگائے يا اپنے بالوں كو رنگ كرے اور احرام كے وقت تك ان كا اثر باقى رہے تو اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے _

مسئلہ ۱۸۴_ مہندى اور رنگ كے استعمال كرنے ميں كفارہ نہيں ہے _

۹_ بدن پر تيل لگانا :

مسئلہ ۱۸۵_ محرم كيلئے اپنے بدن اور بالوں پر تيل لگانا جائز نہيں ہے چاہے وہ تيل خوبصورتى كيلئے استعمال كيا جاتا ہو يا نہ اور چاہے خوشبودار ہو يا نہ _

۹۳

مسئلہ ۱۸۶_ اگر خوشبودارتيل كى خوشبو احرام كے وقت تك باقى رہے تو احرام سے پہلے بھى ايسا تيل لگانا حرام ہے _

مسئلہ ۱۸۷_ تيل( گھي) كے كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے البتہ اگر اس ميں خوشبو نہ ہو _

مسئلہ ۱۸۸_ اگر تيل لگانے پر مجبور ہو جيسے يہ علاج كى غرض سے ہو يا دھوپ كے نقصان سے بچنے كيلئے يا اس پسينے سے بچنے كيلئے كہ جو بدن كے جلنے كا موجب بنتا ہے تو كوئي اشكال نہيں ہے _

مسئلہ ۱۸۹_ خوشبو والا تيل لگانے كا كفارہ احوط كى بناپر ايك بكرى ہے اور اگر خوشبو والا نہ ہو تو ايك فقير كوكھانا كھلانا اگر چہ ان سب موارد ميں كفارے كا واجب نہ ہونا بعيد نہيں ہے _

۱۰_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا:

مسئلہ ۱۹۰_ محرم كيلئے سر اور بدن كے بالوں كو زائل كرنا حرام ہے اور

۹۴

اس ميں كم اور زيادہ بالوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے حتى كہ ايك بال بھى _اسى طرح فرق نہيں ہے كہ كاٹ كر زائل كرے يا نو چ كر نيز كوئي فرق نہيں ہے كہ اپنے سر اور بدن كے بال زائل كرے يا كسى اور كے سر اور بدن كے بال زائل كرے_

مسئلہ ۱۹۱_ وضو، غسل يا تيمم كى حالت ميں بالوں كے گرنے كى وجہ سے اس پر كوئي شے نہيں ہے البتہ اگر زائل كرنے كے قصد سے نہ ہو _

مسئلہ ۱۹۲_ اگر بالوں كے زائل كرنے پر مجبور ہو جيسے آنكھ كے بال جب اسكى اذيت كا باعث ہوں يا سر كے بال جب درد كا سبب ہوں تو كوئي اشكال نہيں ہے _

مسئلہ ۱۹۳_ اگر محرم جان بوجھ كر بغير ضرورت كے اپنا سر مونڈے تو اس پر ايك بكرى كا كفارہ ہے ليكن اگر غفلت ، بھولنے يا مسئلہ سے لاعلمى كى وجہ سے ہو تو كوئي كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۱۹۴_ اگر اپنا سر مونڈنے پر مجبور ہو تو اس كا كفارہ بارہ مد طعام ہے

۹۵

جو چھ مساكين كو ديا جائيگا يا تين دن كے روزے يا ايك بكرى ہے _

مسئلہ ۱۹۵_ اگر محرم قينچى يامشين كے ساتھ اپنے سر كے بال كاٹے تو احوط وجوبى ايك بكرى كا كفارہ دينا ہے _

مسئلہ ۱۹۶_ اگر اپنے چہرے پر ہاتھ لگائے پس ايك يا زيادہ بال گرجائيں تو احوط استحبابى يہ ہے كہ مٹھى بھر گندم ، آٹا اور ان جيسى كسى چيز كا فقير كو صدقہ دے _

۱۱_ سرمہ ڈالنا:

مسئلہ ۱۹۷: اگر زينت شمار كيا جائے تو محرم كيلئے سرمہ ڈالنا جائز نہيں ہے اسى طرح پلكوں پر مسكارا ( MASCARA )لگانا جيسا كہ عورتيں زينت كيلئے كرتى ہيں اور اس ميں سياہ اور غير سياہ رنگ كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_

۱۲_ ناخن تراشنا:

مسئلہ ۱۹۸_ محرم كيلئے ناخن كاٹنا حرام ہے اور اس ميں ہاتھوں اور

۹۶

پاؤںكے ناخنوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے اور نہ پورے يا بعض ناخنوں كے كاٹنے ميں اور نہ انكے كاٹنے ، تراشنے اور اكھيڑنے كے درميان چاہے يہ قينچى كے ساتھ ہو يا چھرى كے ساتھ ياكسى اور ذريعے سے _

مسئلہ ۱۹۹_ اگر ناخن كاٹنے پر مجبور ہوجائے تو اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے جيسے اگر ناخن كا كچھ حصہ ٹوٹ جائے اور باقى حصہ تكليف كا باعث ہو _

مسئلہ ۲۰۰_ كسى دوسرے كے ناخن كاٹنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے_

مسئلہ ۲۰۱_ احرام كى حالت ميںناخن كاٹنے كا كفارہ مندرجہ ذيل ہے_

_ اگر اپنے ہاتھ پاؤں كا ايك يا زيادہ ناخن كاٹے تو ہر ايك كے بدلے ايك مد طعام كفارہ دينا ہوگا _

_ اگر ہاتھ يا پاؤں كے سب ناخن كاٹے تو ايك بكرى كفارہ دينا ہوگى _

_ اگر ايك ہى نشست ميں ہاتھ اور پاؤں كے پورے ناخن كاٹے تو ايك بكرى كفارہ ميں دينا ہوگى اور اگر ہاتھ كے ناخن ايك نشست ميں اور

۹۷

پاؤں كے دوسرى نشست ميں كاٹے تو دو بكرياں كفارے ميں دينا ہوںگي_

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

مسئلہ ۲۰۲_ احوط وجوبى يہ ہے كہ محرم ايسا كام نہ كرے جس سے اسكے بدن سے خون نكل آئے _

مسئلہ ۲۰۳_ احرام كى حالت ميں ٹيكا لگانے سے كوئي مانع نہيں ہے ليكن اگر اسكى وجہ سے بدن سے خون نكل آتا ہوتو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس سے اجتناب كيا جائے مگر ضرورت كے موارد ميں_

مسئلہ ۲۰۴_ احوط وجوبى يہ ہے كہ داڑھ نكالنے سے اجتناب كيا جائے البتہ اگر يہ خون نكلنے كا موجب بنے مگر ضرورت اور احتياج كى صورت ميں_

مسئلہ ۲۰۵_ بدن سے خون نكالنے كى صورت ميںكفارہ نہيں ہے اگر چہ

۹۸

ايك بكرى كفارے ميںدينا مستحب ہے_

۱۴_ فسوق:

مسئلہ ۲۰۶_ فسوق كا معنى ہے جھوٹ بولنا، گالياں دينا اور دوسروں كے مقابل فخر كرنااس بناپر پس احرام كى حالت ميں جھوٹ بولنے اور گالى دينے كى حرمت غير احرام كى حالت سے زيادہ ہے _

ليكن دوسروں كے مقابل فخر كرنا تو يہ احرام كى حالت كے بغير حرام نہيں ہے ليكن احرام كے دوران ميں جائز نہيں ہے _

مسئلہ ۲۰۷_ فسوق ميں كفارہ واجب نہيں ہوتا ليكن استغفار كرنا واجب ہے _

۱۵_ جدال

مسئلہ ۲۰۸_ دوسروں كے ساتھ جدال كرنا اگر لفظ '' اللہ '' كے ساتھ قسم اٹھانے پر مشتمل ہو تو محرم پر حرام ہے جيسے دوسروں كے ساتھ نزاع كرتے

۹۹

ہوئے '' لا واللہ '' يا '' بلى واللہ '' كہنا_

مسئلہ ۲۰۹_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس لفظ كے ساتھ قسم اٹھانے سے اجتناب كيا جائے كہ جسے ديگر زبانوں ميں لفظ '' اللہ'' كاترجمہ شمار كيا جاتا ہے جيسے فارسى ميں لفظ '' خدا'' ہے اور اسى طرح احوط وجوبى يہ ہے كہ جھگڑتے وقت اللہ تعالى كے ديگر ناموں كے ساتھ قسم اٹھانے سے اجتناب كيا جائے جيسے '' رحمن، رحيم ، قادر ، متعال و غيرہ'' _

مسئلہ۲۱۰_ اللہ تعالى كے علاوہ ديگر مقدس چيزوں كى قسم اٹھانا احرام كے محرمات ميں سے نہيں ہے _

مسئلہ ۲۱۱_ اگر سچى قسم اٹھائے تو پہلى اور دوسرى مرتبہ ميں استغفار واجب ہے اور اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر دومرتبہ سے زيادہ كرے تو كفارے ميں ايك بكرى دينا واجب ہے _

مسئلہ ۲۱۲_ اگر جھوٹى قسم اٹھائے تو پہلى اور دوسرى مرتبہ ميں ايك بكرى كفارہ ميں دينا واجب ہے ليكن احوط يہ ہے كہ دوسرى مرتبہ ميں دو بكرياں

۱۰۰

کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ انصاریوں کے سلمی بنی سلمہ بن سعد، بنی تزید بن جشم بن خزرج سے ہیں کسی اور قبیلہ سے نہیں ۔

ساتویں صدی ہجری کا نامور نسب شناس ابن قدامہ عبید بن صخر اور اس کی داستان کو مندرجہ ذیل مشہور و معروف کتابوں میں دیکھ کر متثر ہوا ہے ِ:

١۔ سیف ابن عمر کی کتاب ' ' فتوح'' ( ١٢٠ ھ تک با حیات تھا)

٢۔۔ امام المؤرخین طبری کی تاریخ ( وفات ٣١٠ ھ

٣۔ بغوی کی '' معجم الصحابہ'' ( وفات ٣١٧ ھ )

٤۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' (وفات ٣٥١ ھ)

٥۔ اسحاق بن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' ( وفات ٣٩٥ھ)

٦۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ) کی '' معرفة الصحابہ'' ابن اثیر کی روایت کے مطابق '' اسد الغابہ' ' میں ۔

٧۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ ھ کی '' استیعاب'' میں

٨۔ ابن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) کی '' التاریخ المستخرج من الحدیث''

٩۔آخر میں ابن قدامہ ( وفات ٦٢٠ ھ ) کی '' نسب الصحابہ من الانصار '' ۔ابن قدامہ نے مذکورہ کتابوں کے علاوہ ان جیسی دیگر کتابوں میں عبید کا نام دیکھا ہے اور یہ تصور کیا ہے کہ عبید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا صحابی تھا۔اسی لئے اس کے نام کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔

لیکن اس نے اور مذکورہ دوسرے دانشوروں نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ ان تمام روایتوں کا ماخذ صرف سیف بن عمر ہے جو کہ دروغ سازی اور زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

عبید بن صخر کو اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالنے والے تمام علماء نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے زمرے میں قرار دیا ہے ۔لیکن ان حجر کے بقول ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) کا کہنا ہے: کہ

۱۰۱

لوگ کہتے ہیں : وہ ۔۔ عبید۔۔ اصحاب میں سے ہے ۔ لیکن اس کی حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں ۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ ابن سکن اس صحابی اور اس کی حدیث کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس نے اپنے شک و شبہہ کے سبب کا اظہار نہیں کیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر بھی اس صحابی کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوا ہے شاید اسی لئے اس نے اپنی بات کے اختتام پر اس کے بارے میں '' ز'' کی علامت لگائی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر اس رمز سے اس وقت کام لیتا جب اس صحابی کے بارے میں دوسرے تذکرہ نویسوں جیسے ، ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' میں اور ذہبی کی '' تجرید '' میں لکھے گئے مطالب پر کچھ اضافہ کرتا یا ممکن ہے یہ غلطی عبارت نقل کرنے والے کی ہو۔

خلاصہ

ہم نے عبید بن صخر کو جس طرح اسے سیف نے خلق کیا ہے اس کی مذکورہ سات روایتوں میں پایا اور سیف نے اپنی اس تخلیق کو اس طرح پہنچوایا ہے:

١۔ عبید وہ شخص تھا جسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے بعد اپنے گماشتے کی حیثیت سے یمن بھیجا تھا ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن اپنے کارندوں اور گماشتوں کو یمن کیلئے ممور فرماتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ اپنے امور میں زیادہ تر قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور

٣۔ تیس گائے کیلئے حد نصاب گائے کے ایک سالہ ایک بچھڑے کو تعیین فرمایا ہے و...

٤۔ اور معاذ بن جبل کو اس کے ہمراہ اہالی یمن اور حضرموت کیلئے معلم معین فرماکر فرمایا: میں نے تحفہ و تحائف تمہارے لئے حلال کردیے ہیں ۔ اور معاذ تیس جانوروں کو لئے مدینہ لوٹا ، جو اسے تحفہ کے طور پر ملے تھے۔

٥۔ یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھے گا کہ اس کا مقام تمام علماء اور محققین سے بلند ہوگا۔

٦۔ جھوٹی پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے '' اسود'' نے پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کو لکھا کہ ہماری جن سرزمینوں پر قابض ہوئے ہو ، انھیں واپس کردو، اس نے ایرانیوں سے جنگ کرکے انھیں شکست دی اور نتیجہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو گماشتے اور گورنر معاذ اور ابو موسی جو یمانی قحطانی تھے ، حضرموت بھاگ گئے اور باقی افراد نے یمانی گورنر طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوکر وہاں پناہ لی۔

۱۰۲

داستان عبید کے ماخذ کی پڑتال

سیف بن عمر نے مذکورہ سات احادیث کو سہل بن یوسف بن سہل سلمی سے اس نے اپنے باپ سے اور اس عبید بن صخر سے کہ سہل ، یوسف اور عبید تینوں سیف کے خیالات کی ہیں ، نقل کرکے بیان کیا ہے

اس بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے روایت کی ہے کہ عبید بن صخر یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ و گماشتہ تھا ، لیکن ہم نے اس کا نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کی فہرست میں سیف کے علاوہ اور وہ بھی افسانۂ طاہر میں ، کہیں اور نہیں دیکھا ۔ سیف نے عبید کی زبانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حدیث نقل کی ہے جو کہ گائے کی زکات کا نصاب مقرر کرنے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کی راہنمائی معاذ کیلئے تحفہ لینے کو حلال قرار دینے سے مربوط ہے اس کے علاوہ اس کی زبان سے مدعی پیغمبر '' اسود'' کی بغاوت ، پیغمبر کے گماشتوں اور کارندوں کے ابو ہالہ مضری کے ہاں پناہ لینے اورارتداد کے دیگر واقعات کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی ہے ہمیں اس قسم کے مطالب رجال اور روات کی تشریح سے مربوط کتابوں میں کہیں بھی نہیں ملے۔

جو کچھ ہم نے سیف کے ہاں عبید بن صخر کے بارے پایا یہی تھا جس کا ہم نے ذکر کیا سیف نے ان روایتوں میں عبید کی شجاعتوں اور دلاوریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور قصیدوں ، رزمی اشعار اور میدان کارزار میں خودستائیو کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیف شجاعتوں ' پہلوانیوں ، جنگی کارناموں اور رجزخوانیوں کو پہلے مرحلہ میں صرف خاندان تمیم کیلئے اور دوسرے درجے میں مضر اور ان کے ہم پیمانوں کیلئے خلق کرتا ہے اس کے بعد کے درجے کے کردار ان کے حامیوں اور طرفداروں کیلئے مخصوص کرتا ہے تاکہ وہ سیف کے اصلی سورماؤں کیلئے مداحی اور قصیدہ خوانی کریں ، اور گرفتاری و مشکلات میں ان کے ہاں پناہ لیں اور ان کے سائے میں اطمینان اور آرام کا سانس لیں ۔ اور یہ وہی دوسرا کردار ہے جسے سیف نے اس افسانہ میں عیبد بن صخر انصاری سبائی یمانی کیلئے بیان کیا ہے ۔

۱۰۳

یہاں پر بیجا نہیں ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت دی گئی جھوٹی حدیث کے مطابق اور اس کے دعوے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاذ بن جبل سے فرماتے ہیں '' تحفہ و تحائف کو میں نے تم پر حلال کردیا ہے ' ' یہاں تک کہ کہتا ہے : '' معاذ اپنی ماموریت کی جگہ سے تیس حیوانوں کولے کر مدینہ لوٹے ، جو انہیں تحفہ کے طور پر ملے تھے'' یہ سب اسلئے ہے کہ سیف خاندان '' بنی امیہ '' کے حکام کا دفاع کرے اور حکمرانی کے دوران ان کے نامناسب اقدام اور جبری طور پر لوگوں سے مال لینے اور رشوت ستانیوں کی معاذ کے اس افسانہ کے ذریعہ توجیہ کرے

بنی امیہ کے سرداروں کے اجبار، زبردستی اور رشوت ستانی کی توجیہ کرنے کی سیف کی کوشش اس لئے ہے کہ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مقام و منزلت کا تحفظ اور ان کے افتخارات کا دفاع در حقیقت سیف کا اپنا مشن ہے ۔

۱۰۴

اکتیسواں جعلی صحابی صخر بن لوذان انصاری

یہاں تک جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ سیف بن عمر کے صرف ایک جعلی اور خیالی صحابی عبید بن صخر کے بارے میں اس کے جھوٹ پر مبنی روایتیں تھیں ۔ لیکن بعض علماء اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور اسی سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص تصور کر بیٹھے ہیں اور ہر ایک کے حالات پر الگ الگ تشریحیں لکھی ہیں ، ملاحظہ فرمائیے:

ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد بن اسحاق بن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) ١ اپنی کتاب ''التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث'' کے باب ''صاد'' میں یوں لکھتا ہے :

صخر بن لوذان ، حجاز کا رہنے والا اور عبید کا باپ ہے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے عمار کے ہمراہ مموریت پربھیجا ہے ۔ درج ذیل حدیث اس کے بیٹے عبید نے اس سے روایت کی ہے:

تعاهدو الناس بالتذکرة و الموعظة

اس کے بعد باب '' عین'' میں لکھتا ہے:

عبید بن صخر بن لوذان حجاز کا باشندہ ہے اور یوسف بن سہل انصاری نے اس سے حدیث قرآن اور

____________________

١۔ جیسا کہ کتاب ا'' العبر'' (٣ ٢٧٤) میں آیا ہے کہ ابو القاسم در اصل اصفہانی تھا ، وہ حافظِ حدیث اور بہت سی کتابوں کا مصنف تھا ، اس کے بہت سے مرید تھے اہل سنت ، مکتف خلفاء کی پیروی کرنے میں سخت متعصب انسان تھا اور خدا کے لئے جسم کا قائل تھا ، ابو القاسم نے ٨٩ سال زندگی کی ہے)

۱۰۵

کتاب کی روایت کی ہے ۔

اس طرح ابن مندہ کا پوتا ابو القاسم غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص سمجھ کر اس کی ایک من گڑھت حدیث کو دو حدیث تصور کیا ہے اور انہیں اپنی کتاب میں درج کیا ہے !

یہ اس حالت میں ہے کہ سیف کا جعلی صحابی وہی عبید بن صخر لوذان ہے جس کے لئے سیف نے حدیث گڑھی ہے جو ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' اور ابن حجر کی '' اصابہ'' میں درج ہوئی ہے ، حسبِ ذیل ہے:

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتوں اور کارندوں کو یمن میں متعین کرکے فرمایا :

تعاهدوا القرآن بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة

لیکن اس جعلی حدیث کا متن ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں تحریف ہو کر یوں ذکر ہوا ہے:

تعاهدوا الناس بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة

اور یہی امر ابو القاسم کے غلط فہمی سے دوچار ہونے کا سبب بنا ہے اوروہ اس ایک حدیث کو دو تصور کر بیٹھا ہے ان میں سے ایک '' تعاھدوا الناس بالمذاکرہ'' کو اس کے خیال میں عبید نے اپنے باپ صخر سے نقل کیا ہے اور دوسری '' تعاھدوا القرآن بالمذاکرہ...'' جسے اس کے زعم میں یوسف بن سہل نے عبید سے قرآن و کتاب کے بارے میں نقل کیا ہے۔

یہاں پر ہم تقریباً یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو دانشوروں کے سیف کی ایک خیالی حدیث کو دو جاننے کا سبب یہی تھا ۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ کس طرح عبید کے باپ ، صخر کے بارے میں غلطی فہمی کا شکار ہو اہے اور تصور کیا ہے کہ سیف نے اس سے اس کے بیٹے عبید کے ذریعہ یہ حدیث روایت کی ہے ؟ جبکہ ہم نے گزشتہ تمام مصادر میں کہیں ایسی چیز نہیں دیکھی ۔

ہم یہ بھی کہہ دیں کہ یہدانشور اسی سلسلہ میں چند دیگر غلط فہمیوں کا بھی شکار ہوا ہے جیسے لکھتا ہے : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صخر کو عمار کے ہمراہ یمن بھیجا ، جبکہ اس قسم کا کوئی مطلب سیف کی احادیث میں نہیں آیا ہے۔

بہر حال سیف کی حدیث کو غلط پڑھنا اس امر کا سبب بنا ہے کہ سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں '' صخر بن لوذان'' نامی ایک اور صحابی کا اضافہ ہوجائے اور اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد بڑھ جائے۔

۱۰۶

سیف کی احادیث کا نتیجہ

١۔ انصار میں سے دو صحابیوں کی تخلیق جن کے حالات کی تشریح اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کتابوں میں آئی ہے ۔ ان میں سے ایک کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ اور کارندہ بننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی

٢۔ آداب و احکام کے سلسلے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک حدیث۔

٣۔ ارتداد کی جنگوں کے بارے میں ایک خبر۔

یہ سب چیزیں اس سیف کی احادیث کے وجود کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں جو وہ زندیقی ہونے کا ملزم بھی ہے۔

٤۔ حجاز کے باشندوں میں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے چند راویوں کی تخلیق ، جن کے حالات پر علم رجال کی کتابوں میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

سیف نے کن سے روایت کی؟

گزشتہ روایات کو سیف نے چند خیالی راویوں سے نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف بن سہل سلمی اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ اس سہل نے اپنے باپ یوسف سے روایت کی ہے۔

٢۔ یوسف بن سہل سلمی' کہ اس یوسف نے خود داستان کے کردار عبید سے روایت کی ہے۔

٣۔ عبید بن صخر بن لوذان سلمی' کہ یہ تینوں راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

۱۰۷

اس جھوٹ کو پھیلانے کے منابع:

ہم نے اس بحث کے دوران عبید کی روایت کو سیف سے نقل کرنے و الے آٹھ منابع کا ذکر کیا ہے ۔ باقی مصادر حسبِ ذیل ہیں :

٩۔ ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) ابن حجر کی روایت کے مطابق اس نے اپنی کتاب '' حروف الصحابہ'' میں ذکر کیا ہے ۔

١٠۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' اسد الغابہ '' میں ۔

١١۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے اپنی ان کتابوں میں :

الف) '' تجرید اسماء الصحابہ''

ب) '' سیر اعلام النبلائ''

١٢۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے '' اصابہ '' میں ۔

مصادر و مآخذ

عبید بن صخر کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی استیعاب ( ٢ ٤٠٨)

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٣ ٣٥١)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٨٥٢)

٤۔ تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢)

٥۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ حضرت امیر المؤمنین نجف اشرف میں موجود ہے ۔ ورقۂ ١٠٧ ب

٦۔ ابن مندہ کی '' تاریخ مستخرج '' ( ص ١٥٢)

٧۔ ''نسب الصحابہ من الانصار'' از ابن قدامہ (١٨٢ اور ٣٥٠)

۱۰۸

بنی سلمہ کا نسب

١۔ ابن حزم کی'' جمہرة انساب'' ( ٣٥٨۔ ٣٦١)

٢۔ '' اللباب '' لفظ '' سلمی'' ( ١ ٥٥٤)

قبیلۂ اوس میں بنی لوذان کا نسب

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ'' صفحات ( ٣٣٢ ، ٣٣٧، ٧٤٠) اور( ٣٥٣، ٣٦٢، ٣٦٣، ٣٥٦)

اسود عنسی کی داستان اور عبید بن صخر کی بات

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٨٥٣، و ١٨٦٨)

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' عبید کے حالات کے ضمن میں ۔

اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ '' عارف افندی ' مدینۂ منورہ میں موجود ہے۔

معاذ بن جبل کے حالات

١۔ بغوی کی ''معجم الصحابہ'' ( ٢١ ١٠٦ ) اس کتاب کا ایک نسخہ کتاب خانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی ، قم میں موجود ہے۔

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٤٠٦)

٣۔ ذہبی کی '' سیر اعلام النبلائ'' ( ١ ٣١٨ ۔ ٣٢٥)

صخر بن لوذان کے حالات :

١۔ تاریخ المستخرج '' تالیف ابو القاسم عبد الرحمان بن اسحاق بن مندہ، ورقہ ١٤٠۔

۱۰۹

بتیسواں جعلی صحابی عکاشہ بن ثور الغوثی

عکاشہ ، یمن میں ایک کارگزار کی حیثیت سے :

طبری ، مدعی پیغمبری '' اسود '' کی داستان اور ١١ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف بن عمرسے نقل کرکے لکھتا ہے :

١٠ ھ میں جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فریضہ حج ( وہی حجة الوداع' انجام دیا ، تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ ''باذام '' نے یمن میں وفات پائی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی مموریت کے علاقہ کو حسبِ ذیل چند اصحاب میں تقسیم فرمایا:

اس کے بعد طبری، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یمن کیلئے مموریت پر بھیجے گئے اشخاص میں طاہر ابو ہالہ جسے سیف نے حضرت خدیجہ کا بیٹا اور رسول اللہ کاپروردہ بتایا ہے کا نام لے کر کہتا ہے:

اور زیاد بن لبید بیاضی کوحضرموت پر اور عکاشہ بن ثور بن اصغرغوثی کو سکاسک و سکون اور بنی معاویہ بن کندہ پر ممور فرمایا.... ( تا آخر)طبری نے ، اس روایت کے بعد ایک دوسری روایت میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ لوٹے اور یمن کی حکومت کو چند سر کردہ اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کی مموریت کے حدود کو معین فرمایا۔

(یہاں تک کہ لکھتا ہے :)

عک اور اشعریین پر طاہر ابو ہالہ کو معین فرمایا اور حضرموت کے اطراف جیسے ، سکاسک و سکون پر عکاشہ بن ثور کو ممور فرمایا اور بنی معاویہ بن کندہ پر عبد اللہ ١ یا مہاجر کونامزد فرمایا۔ لیکن مہاجر بیمار ہوگیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا مگر، صحت یاب ہونے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے مموریت پر بھیجا۔ عکاشہ ٢ اور دیگر لوگ اپنی مموریت کی طرف روانہ ہوئے۔

حضرموت پر زیا بن لبید کو ممور فرمایا گیا اور وہ مہاجر کی عدم موجودگی میں اس کی مسئولیت کو بھی نبھاتا رہا۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت تک یمن اور حضرموت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارگزار تھے۔ طبری نے ایک اور روایت میں عبید بن صخر۔ سیف کے افسانہ کے مطابق جو خود بھی یمن میں رسول

___________________

١۔ یہاں پر عبد اللہ سے سیف کی مراد عبد اللہ بن ثور ہے جو اس کا اپنا خلق کردہ ہے ، تعجب کی بات ہے کہ سیف اپنے جھوٹ کو پیش کرنے میں اس طرح احتیاط و تقدس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: مجھے نہیں معلوم یہ عبد اللہ تھا یا مہاجر !! تا کہ اس کا جھوٹ حق کی جگہ لے لے اور دلوں کو آرام ملے۔

٢۔اصل میں '' محصن '' لکھا گیا ہے جو غلط ہے ، کیونکہ عکاشہ بن محصن مدینہ میں تھا اور اس نے خالد کی فوج میں ہر اول دستے کے طور پر طلیحہ سے جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس مطلب کو سیف اور دوسروں نے ذکر کیا ہے لیکن جو کچھ یمن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارگزاروں کے بارے اور حضرموت میں ارتداد کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں میں آیا ہے وہ '' عکاشہ بن ثور'' سے مربوط ہے۔

۱۱۰

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارگزارتھا۔ سے نقل کرکے لکھا ہے :

جب ہم اس علاقہ ۔۔ مموریت کی جگہ۔۔ کو شائستہ طریقے پر چلا رہے تھے ، ہمیں پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے اسود کا ایک خط ملا، اس میں لکھا تھا۔

اے لوگو! جو ناخواستہ ہم پر مسلط ہوئے ہو ! اورہماری ملکیت میں داخل ہوئے ہو جو کچھ ہماری سرزمین سے لوٹ چکے ہو' اسے ایک جگہ ہمارے لئے جمع کردو، ہم تمہاری نسبت اس پر تصرف کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں ( یہاں تک لج کہتا ہے:)

ہمیں خبر ملی کہ اسود نے صنعا پر قبضہ کیاکر لیا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام کارگزار وہاں سے بھاگ گئے ہیں اور باقی امراء اور حاکم طاہر ابو ہالہ کے ہاں جا کر پناہ لے چکے ہیں ۔

طبری حضرموت کے باشندوں کے مرتد ہونے کے بارے میں ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت حضرموت اور دیگر شہروں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارگزار حسبِ ذیل تھے:

زیاد بن لبید بیاضی، حضرموت پر ، عکاشہ بن ثور سکاسک و سکون پر اور مہاجر کندہ پر ، مہاجر اسی طرح مدینہ میں رہا اور جائے مموریت پر نہ گیا یہاں تک کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی۔ اس کے بعد ابو بکر نے اسے باغیوں سے نمٹنے کیلئے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ بغاوت کو کچلنے کے بعد اپنی مموریت کی جگہ پر جائے۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجربن ابی امیہ کو کندہ کیلئے ممور فرمایا لیکن مہاجر بیمار ہو گیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا ، لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زیاد کے نام ایک خط لکھا تا کہ مہاجر کے فرائض نبھائے ۔

مہاجر کے صحت یاب ہونے کے بعد ، ابو بکر نے اس کی مموریت کی تائید کی اور حکم دیا کہ پہلے نجران کے باغیوں سے نپٹنے کیلئے یمن کے دور دراز علاقوں تک جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ زیاد بن ولید اور عکاشہ نے کندہ کی لڑائی میں مہاجر کے آنے تک تاخیر کی۔

۱۱۱

تینتیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن ثور الغوثی

عبد اﷲ ثور ، ابوبکر کا کارگزار

طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے طاہر ابو ہالہ کی داستان میں لکھا ہے :

اس سے پہلے ابو بکر نے '' عبد اللہ بن ثور بن اصغر '' کو فرمان جاری کیا تھا کہ اعراب اور تہامہ کے لوگوں میں سے جوبھی چاہے اس کی فوج میں شامل ہوسکتا ہے ، اور عبداﷲ کو تاکید کی تھی کہ ابو بکر کے حکم کے پہنچنے تک وہیں پر رکا رہے ..

سیف کہتا ہے:

جب مہاجر ابو بکر سے رخصت لے کر مموریت پر روانہ ہوا تو عبدا للہ ثور تمام سپاہیوں سمیت اس سے ملحق ہوا ( اس کے بعد کہتا ہے :)

مہاجر نجران سے '' لحجیہ'' کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پر اسود کے بھاگے مرتد سپاہیوں نے اس سے پناہ کی درخواست کی ۔ لیکن مہاجر نے ان کی یہ درخواست منظور نہیں کی ۔

طبری اس مطلب کے ضمن میں لکھتا ہے :

مہاجر کے سوار فوجیوں کی کمانڈ عبدا ﷲ بن ثور غوثی کے ہاتھ میں تھی اخابث کے راستہ پر عبدا للہ کی ان فراریوں سے مڈ بھیڑ ہوئی ۔ اس نے ان سب کا قتل عام کیا ۔

طبری نے ان تمام روایتوں کو صراحت کے ساتھ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اس کے بعد طبری صدقات کے امور میں ابو بکر کے کارگزاروں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

کہتے ہیں اس کے علاوہ عبد اللہ بن ثور نے ۔۔۔ قبیلۂ غوث کے افراد میں سے ایک شخص ۔۔ کو علاقہ '' جرش'' پر مامور کیا۔

طبری نے اس حدیث کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن ابن حجر عبد اﷲ کے حالات کی تشریح میں صراحت سے کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے۔

۱۱۲

عکاشہ اور عبد اللہ کی داستان کے مآخذ کی تحقیق

ہم نے جو روایتیں سیف سے نقل کیں ہیں ، ان میں درج ذیل جعلی راویوں کے نام دکھائی دیتے ہیں :

١۔ سہل بن یوسف، چار روایتوں میں ۔

٢۔ یوسف بن سہل ، دو روایتوں میں ۔

٣۔ اور درج ذیل سیف کے جعلی راوی میں سے ہر ایک نے ایک روایت نقل کی ہے :

٣۔ عبید بن صخر

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عرو ہ بن غزیہ

سیف کی روایتوں کا موازنہ

مذکورہ روایت ، داستانِ اخابث ( ناپاک ) اور داستان عبید بن صخر میں طاہر ابو ہالہ کی روایت کی متمم ہے اور ہم نے ان دو صحابیوں کی بحث کے دوران ثابت کیا ہے کہ خود یہ اور ان کی داستانیں جعلی اور سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

ان میں سے بعض روایات پیغمبری کے مدعی ، اسود عنسی کی داستان سے مربوط ہیں ' ہم نے کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور وہاں پر ہم نے بتایا ہے کہ سیف نے کس طرح حقائق کو بدل کر رکھدیا ہے اور کن چیزوں میں تحریف اور تبدیلی کی ہے ۔ یہاں پر اس کی تکرار کی مجال اور گنجائش نہیں ہے ۔

ہاں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کی طرف سے ان کی نمائندگی اور کارندوں کی حیثیت سے مموریت کے بارے میں سیف کی روایت کو ہم نے تحقیق کے دوران خلیفہ بن خیاط اور ذہبی جیسے دانشوروں کے ہاں نہیں پایا اور نہ ہی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے کارگزاروں کے حالات کی تشریح لکھنے والوں کے ہاں ۔ یہ دو جعلی اصحاب کہیں دکھائی دیئے۔

۱۱۳

روایت کا نتیجہ

سیف نے عکاشہ بن ثور غوثی اور اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور غوثی کی روایت اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کرکے طبری جیسے دانشور کو ١٠ ۔ ١٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ان ہی مطالب کو نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون اور میر خواند نے بھی ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔

ابن عبد البر نے سیف کی تحریر پر اعتماد کرکے حسبِ ذیل مطالب کو اپنی کتاب '' استیعاب'' میں نقل کیا ہے :

عکاشہ بن ثور بن اصغر قرشی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے سکاسک ، سکون او ر بنی معاویۂ کندہ پر بعنوان گماشتہ اور کارندہ ممور تھا ۔ ان مطالب کو سیف نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ، اور میں ۔۔ ابن عبد البر ۔۔ اس کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں ۔

ابن اثیر نے ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' سے عین عبارت کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے انہی مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' تجرید '' میں نقل کیا ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :

عکاشہ بن ثور بن اصغر کا نام سیف نے داستان ارتداد کی ابتدا ء میں سہل بن یوسف سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبدی بن صخر بن لوذان سے نقل کرکے لکھا ہے کہ وہ سکاسک و سکون پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ تھا ۔ ابو عمر ۔۔ ابن عبد البر ۔۔نے ان مطالب کو نقل کیا ہے۔

اس طرح ان دانشوروں نے سیف کی روایت پر اعتماد کرکے عکاشہ کے حالات سند کے ذکر کے ساتھ اپنی کتابوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے حالات کی فہرست میں درج کیا کئے ہیں ۔

روایات سیف پر اس اعتماد کی بنا پر ، اس کے خیالی بھائی کے حالات کو بھی دیگر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیا گیا ہے ۔ توجہ فرمائیے کہ ابن حجر اس سلسلے میں کہتا ہے :

۱۱۴

عبدا ﷲ بن ثور ، قبیلۂ بنی غوث کا ایک فرد ہے۔ اس کا نام سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں چندجگہوں پر ذکر کیا ہے ۔ وہ ارتداد کی جنگوں میں سپاہ اسلام کا ایک سپہ سالار تھا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر نے اس کے حق میں ایک فرمان جاری کیا کہ اعراب اور تہامہ کے باشندے اس کی اطاعت کریں اور اسی ۔۔ عبد اللہ ۔۔ کے پرچم تلے جمع ہوجائیں ۔ اور عبد اللہ وہیں پر رکا رہے جب تک اس کیلئے حکم نہ پہنچے ۔ سیف نے یہ بھی روایت کی ہے کہ وہ مہاجر بن ابی امیہ کے ہمراہ '' جرش '' کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے کیلئے وہاں گیا اور وہاں سے صوب کی طرف کوچ کیا۔ اور ہم نے ۔۔ ابن حجر ۔۔ چند بار کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھی علاقائی حکومت یا فوجی کمانڈ کیلئے صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کو ہی منصوب کرتے تھے (ز)

ابن حجر نے جو تشریح عبد اﷲ کے بارے میں لکھی ہے اس میں یہ مطالب ظاہر ہوتے ہیں :

١۔ سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں چند جگہوں پر عبد اللہ ابن ثور کا نام ذکر کیا ہے ۔

٢۔ عبد اللہ ارتداد کی جنگوں میں سپہ سالار تھا۔

٣۔ ابو بکر نے اس کیلئے فرمان جاری کیا ہے کہ اعراب اور تہامہ میں اس کے حامی اس کے گرد جمع ہوکر حکم پہچنے تک منتظر رہیں ۔

٤۔ عبد اللہ جب '' جرش'' کے گورنر کے طور پر منصوب ہوا تو وہ مہاجر کے ہمراہ روانہ ہوا تھا۔

تمام مطالب کو طبری نے سیف کی سند کے ذکر کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

صرف عبداللہ کی گورنری' جس کی سند طبری نے ذکر نہیں کی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اس حصہ کی سند بھی سیف کے نام کی صراحت کے ساتھ ذکر کی ہے۔

۱۱۵

چونتیسواں جعلی صحابی عبید اللہ بن ثور غوثی

ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر جیسا جلیل القدر عالم سیف کی کتاب '' فتوح '' میں عبد اللہ بن ثور کا نام پڑھتے وقت سخت غلطی کا شکا رہوا ہے اور اسے '' عبید اﷲبن ثور '' پڑھا ہے یا یہ کہ اس کے پاس موجود نسخہ میں اس نام میں یہ تبدیلی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پائی ہو۔

بہر حال خواہ یہ غلطی کتابت کی ہو یا محترم دانشور نے اسے غلط پڑھا ہو ، اصل میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ابن حجر نے عبید اللہ بن ثور کے حالات پر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں الگ سے روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے :

عکاشہ کے بھائی ، عبید اللہ بن ثور بن اصغر عرنی کے بارے میں سیف نے کہا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عکاشہ کو سکاسک اور سکون کیلئے اپنا گماشتہ مقرر فرمایا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابو بکر نے اس کے بھائی عبید اللہ کو یمن کی حکمرانی پر منصوب کیا ۔

ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھیکہ صرف صحابی کو حکومت اور سپہ سالاری پر منصوب کیا جاتا تھا ۔(ز)

ابن حجر کی اس بات '' اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ اس زمانے میں یہ رسم....'' پر انشاء اللہ ہم اگلی بحثوں میں وضاحت کریں گے ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک کہا وہ ثور کے تین بیٹوں کی داستان تھی جسے ہم نے تاریخ کی عام کتابوں اور رجال اور اصحاب کے حالات پر لکھی گئی کتابوں سے حاصل کیا ہے ۔

لیکن جس چیز کو آپ ذیل میں مشاہدہ کررہے ہیں وہ سیف کے ان تین جعلی اصحاب کے بارے میں انساب کی کتابو ں میں درج ذیل مطالب ہیں :

۱۱۶

مذکورہ تین اصحاب کا نسب

تاریخ طبری میں ، سیف کی روایتوں کے مطابق ان تین '' غوثی '' صحابیوں کا شجرۂ نسب درج ہوا ہے ۔ لیکن '' استیعاب '' میں غلطی سے '' قرشی '' ، ' اسد الغابہ'' اور '' تجرید ' میں '' غرثی '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں ''' عرنی '' ثبت ہوا ہے ۔

یہ اس حالت میں ہے کہ ہم نے ان نسب شناس علماء کے ہاں '' عکاشہ '' اور '' عبید اللہ '' کا نام نہیں پایا، جنہوں نے بنی غوث بن طے کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں ۔ جیسے ابن حزم نے اپنی کتاب'' جمہرہ '' میں اور ابن درید نے '' اشتقاق '' میں اور اس طرح کی دوسری کتابوں کا بھی ہم نے مطالعہ کیا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی اس سلسلے میں درج ذیل مطالب کے علاوہ کچھ نہیں پایا:

ابن ماکو لا اپنی کتاب '' اکمال '' میں لفظ ' غوثی'' کے بارے میں لکھتا ہے :

عکاشہ بن ثور بن غوثی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سکاسک ، سکون اور معاویہ بن کندہ کیلئے ممور فرمایا تھا اور ابو بکر صدیق نے اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور اصغر کو یمن کا حاکم منصوب کیا تھا۔

سمعانی نے بھی لفظ '' غوثی'' کے بارے میں اپنی کتاب انساب میں لکھا ہے :

'' غوثی '' در حقیقت غوث کی طرف نسبت ہے ۔ اس قبیلہ کے سرکردہ صحابیوں میں عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سکاسک ،سکون اور معاویہ بن کندہ کا حاکم مقرر فرمایا تھا۔

ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے اس کی عبارت کو من عن اپنی کتاب '' لباب الانساب ''۔۔ جو سمعانی کی کتاب '' انساب '' کا خلاصہ ہے ۔۔ میں ثبت کیا ہے اور اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔

ا بن حجر بھی اپنی دوسری کتاب '' تحر یر المشتبہ '' میں لکھتا ہے :

عکاشہ بن ثور غوثی اصحاب میں سے تھا

۱۱۷

فیروزآبادی نے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' عکش '' میں یوں لکھا ہے:

عکاشہ الغوثی ، ابن ثور اور ابن محصن تینوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ۔

زبیدی بھی اپنی کتاب شرح '' تاج العروس '' میں لکھتا ہے :

جیسا کہ کہا گیا ہے عکاشہ بن ثوربن اصغر غوثی ، سکاسک میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارگزار تھا۔

مختلف عرب قبائل کے نسب شناس علماء میں سے کسی ایک نے اب تک کسی کو غوثی کے طور پر متعارف نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ بنی غث کے سرکردہ افراد بنی غث بن طی '' طائی'' کے نام سے مشہور ہیں نہ غوثی ۔ جیسے حاتم طائی اور اس کا بیٹا عدی طائی ۔ اسی لئے سمعانی لکھتا ہے ١

____________________

١۔عکاشہ بن ثور ، سمعانی کے زمانے میں '' غوثی'' کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس سے پہلے عکاشہ کا نام اسی انتساب سے سیف کی کتاب '' فتوح'' میں آیا ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے بعد رجال و اصحاب کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں میں ، جنہوں نے اس کے حالات سیف سے نقل کئے ہیں ، غوثی کا نام آیا ہے ، جیسا کہ '' تاریخ طبری '' ، ابن عبد البر کی '' استیعاب '' اور ابن ماکولا کی ''اکمال' ' میں درج ہوا ہے ۔

۱۱۸

'' غوثی '' عکاشہ اس انتساب سے مشہور ہے ۔

ابن اثیر کو اس مطلب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ملی اس لئے اسی کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' لباب '' میں لکھا ہے ۔

''جو کچھ ذہبی کی '' تحریر المشتبہ '' میں آیا ہے حسب ذیل ہے :

' ' الغوثی ۔ ابو الھیثم ، احمد بن محمد بن غوث ، حافظ ابو نعیم کا مرشد اور استاد تھا''

اور معلوم ہے کہ یہ غوث انساب عرب میں سے ہمارا مورد بحث نسب نہیں ہے۔

خلاصہ :

سیف نے عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی کو بنی غوث سے خلق کیا ہے اور لفظ '' غوثی'' سے '' قرشی'' ، '' غرثی'' ، '' عرنی '' لکھا گیا ہے اور تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ' بنی غوث ' تغیر کرکے '' بنی یغوث'' درج ہوا ہے ۔

سیف ، عکاشہ کے بارے میں کہتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ حجة الوداع سے واپسی پر اسے سکاسک اور سکون کی مموریت عطا فرمائی تھی اور ابوبکر کی خلافت تک عکاشہ وہیں پر تھا۔

سیف نے عکاشہ کیلئے ایک بھائی خلق کرکے اس کا نام عبدا للہ بن ثور رکھا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ارتداد کی جنگوں میں ابو بکر نے اس کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ افراد کو اپنی مدد کیلئے آمادہ کرکے حکم کا انتظار کرے۔

جب مہاجربن ابی امیہ ، مرتدوں سے لڑنے کیلئے روانہ ہوتا ہے ، تو اسود کے قتل ہونے کے بعد عبدا للہ ، مہاجر کی فوج کے سواروں کا کمانڈر مقرر ہوتا ہے اور اسود کے تتر بتر ہوئے مرتد فراری فوجیوں سے اس کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے ، اس جنگ میں وہ ان سب کا قتل عام کر تا ہے اس کے بعد ابو بکر ایک فرمان کے ذریعہ '' جرش'' کا حاکم مقر ہوتا ہے ۔

ابن حجر اس عبدا للہ کے نام کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے اور اپنی کتاب میں دو شرحیں لکھتا ہے ، ایک اسی عبدا للہ کیلئے اور دوسری '' عبید اللہ '' کے نام سے۔

۱۱۹

سیف نے ان تین یا دو بھائیوں کو سبائی یمانیوں سے خلق کیا ہے تا کہ دوسرے درجے کا رول یعنی قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور فرمانبرداری انھیں سونپے ۔

توجہ فرمائیے!

یہ عبد اللہ بن ثور ہے جو قریش کے ایک معروف شخص '' مہاجربن ابی امیہ'' کے پیچھے پڑتا ہے، اسی طرح اس کا بھائی عکاشہ بھی ، پروردۂ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خاندان تمیم کے ایک نامور شخص یعنی طاہر ابو ہالہ ، کے ہاں پناہ لیتا ہے۔

سیف ، مضر کے سرداروں اور شجاعوں کیلئے حامی اور طرفدار خلق کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ لیکن اس کیلئے ہرگز یہ چیز اہمیت نہیں رکھتی کہ یہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کی سعادت حاصل کرکے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے کے طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور ہوں یا نہ! بلکہ سیف کی نظر میں سرفرازی اور افتخار اس میں ہے کہ ان کے ہاتھوں دنیا کو تباہ و برباد کرکے زندگیوں کا خاتمہ اور بستیوں کو آگ لگوادے اور ان سب گستاخیوں کے بعد اپنے آتشین قصیدوں میں فخر و مباہات کے نغمے گائے اور دنیا کو جوش و خروش سے بھر دے تا کہ اس طرح اس کے خلق کئے ہوئے یہ مجد و افتخارات تاریخ میں ثبت ہوجائیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں ۔

سیف کی کوشش یہ ہے کہ خاندان مضر کیلئے بیہودہ اور بے بنیاد معجزے اور کرامتیں خلق کرے تا کہ مناقب لکھنے والے قصہ گو و جد میں آئیں اور اسلام کے دشمن مسلمانوں کا مذاق اڑائیں ۔

سیف بن عمر نے جو ذمہ داری عبید بن صخر بن لوذان قحطانی یمانی عکاشہ بن ثور یمانی پر ڈالی ہے یہی چیزیں تھیں ۔ سیف نے ان کیلئے قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور خدمت گزاری معین کرکے مذکورہ قبیلہ کیلئے بہادریاں اور کرامتیں خلق کی ہیں ۔

اصحابِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والے علماء نے عکاشہ ، عبدا للہ اور عبید اللہ کا نام سیف کی روایتوں سے لیا ہے اور ان کے نسب اور داستانین بھی اس کی روایتوں سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217