توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)0%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 60673
ڈاؤنلوڈ: 4790

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 60673 / ڈاؤنلوڈ: 4790
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

احکام تقلید

بسم الل ہ الرحمن الرحیم

الحمد لل ہ رب العالمین

والصلا ۃ والسلام علی اشرف الانبیآء والمرسلین

محمد و اٰل ہ الطیبین الطا ھ رین

واللعن ۃ الدآئم ۃ علی اعدآئ ھ م اجمعین

من الآن الی قیام یوم الدین

(مسئلہ 1 ) ہر مسلمان کے لئے اصول دین کو از روئے بصیرت جاننا ضروری ہے کیونکہ اصول دین میں کسی طور پر بھی تقلید نہیں کی جاسکتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اصول دین میں کسی کی بات صرف اس وجہ سے مانے کہ وہ ان اصول کو جانتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہو اور اس کا اظہار کرتا ہو اگرچہ یہ اظہار از روئے بصیرت نہ ہو تب بھی وہ مسلمان اور مومن ہے۔ لہذا اس مسلمان پر ایمان اور اسلام کے تمام احکام جاری ہوں گے لیکن "مسلمات دین" کو چھوڑ کر باقی دینی احکامات میں ضروری ہے کہ انسان یا تو خود مجہتد ہو یعنی احکام کو دلیل کے ذریعے حاصل کرے یا کسی مجہتد کی تقلید کرے یا از راہ احتیاط اپنا فریضہ یوں ادا کرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ دار پوری کردی ہے۔ مثلا اگر چند مجتہد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسرے کہیں کہ حرام نہیں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر بعض مجتہد کسی عمل کو واجب اور بعض مستجب گردانیں تو اسے بجالائے۔ لہذا جو اشخاص نہ تو مجتہد ہوں اور نہ ہی احتیاط پر عمل پیرا ہوسکیں اور ان کے لئے واجب ہے کہ مجتہد کی تقلید کریں۔

2 ۔ دینی احکامات میں تقلید کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجتہد کے فتوے پر عمل کیا جائے۔ اور ضروری ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کی جائے وہ مرد۔ بالغ۔عاقل۔شیعہ اثنا عشری۔ حلال زادہ۔ زندہ اور عادل ہو۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجالائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجالائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھا شخص ہو اور اس کے اہل محلہ یا ہمسایوں یا ہم نشینوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں۔

اگر یہ بات اجملاً معلوم ہو کہ در پیش مسائل میں مجتہد کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو ضروری ہے کہ اس مجتہد کی تقلید کی جائے جو "اعلم" ہو یعنی اپنے زمانے کے دوسرے مجتہدوں کے مقابلے میں احکام الہی کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو۔

3 ۔ مجتہد اور اعلم کی پہچان تین طریقوں سے ہوسکتی ہے۔

* (اول) ایک شخص کو جو خود صاحب علم ہو ذاتی طور پر یقین ہو اور مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

* (دوم) دو اشخاص جو عالم اور عادل ہوں نیز مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کا ملکہ رکھتے ہوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دو اور عالم اور عادل ان کی تردیدنہ کریں اور بظاہر کسی کا مجتہد یا اعلم ہونا ایک قابل اعتماد شخص کے قول سے بھی ثابت ہوجاتا ہے۔

* (سوم) کچھ اہل علم (اہل خبرہ) جو مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں اور ان کی تصدیق سے انسان مطمئن ہوجائے۔

4 ۔ اگر در پیش مسائل میں دو یا اس سے زیادہ مجتہدین کے اختلافی فتوے اجمالی طور پر معلوم ہوں اور بعض کے مقابلے میں بعض دوسروں کا اعلم ہونا بھی معلوم ہو لیکن اگر اعلم کی پہچان آسان نہ ہو تو اخوط یہ ہے کہ آدمی تمام مسائل میں ان کے فتووں میں جتنا ہو سکے احتیاط کرے (یہ مسئلہ تفصیلی ہے اور اس کے بیان کا یہ مقام نہیں ہے)۔ اور ایسی صورت میں جبکہ احتیاط ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا عمل اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہو۔ جس کے اعلم ہونے کا احتمال دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر دونوں کے اعلم ہونے کا احتمال یکساں ہو تو اسے اختیار ہے ( کہ جس کے فتوے پر چاہے عمل کرے)۔

5 ۔ کسی مجتہد کا فتوی حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں

* (اول) خود مجہتد سے (اس کا فتوی) سننا۔

* (دوم) ایسے دو عادل اشخاص سے سننا جو مجتہد کا فتوی بیان کریں۔

* (سوم) مجتہد کا فتوی کسی ایسے شخص سے سننا جس کے قول پر اطمینان ہو

* (چہارم) مجتہد کی کتاب (مثلاً توضیح المسائل) میں پڑھنا بشرطیکہ اس کتاب کی صحت کے بارے میں اطمینان ہو۔

6 ۔ جب تک انسان کو یہ یقین نہ ہوجائے کہ مجتہد کا فتوی بدل چکا ہے وہ کتاب میں لکھے ہوئے فتوے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر فتوے کے بدل جانے کا احتمال ہو تو چھان بین کرنا ضروری نہیں۔

7 ۔ اگر مجتہد اعلم کوئی فتوی دے تو اس کا مقلد اس مسئلے کے بارے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا۔ تاہم اگر ہو (یعنی مجتہد اعلم) فتوی نہ دے بلکہ یہ کہے کہ احتیاط اس میں سے ہے۔ کہ یوں عمل کیا جائے مثلا احتیاط اس میں ہے کہ نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک اور پوری سورت پڑھے تو مقلد کو چاہئے کہ یا تو اس احتیاط پر، جسے احتیاط واجب کہتے ہیں، عمل کرے یا کسی ایسے دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے جس کی تقلید جائز ہو۔ (مثلاً فالاً علم)۔ پس اگر وہ (یعنی دوسرے مجتہد) فقط سورہ الحمد کو کافی سمجھتا ہو تو دوسری سورت ترک کی جاسکتی ہے۔ جب مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں کہے کہ محل تامل یا محل اشکال ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔

8 ۔ اگر مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں فتوی دینے کے بعد یا اس سے پہلے احتیاط لگائے مثلاً یہ کہے کہ کس نجس برتن کو پانی میں ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ تین مرتبہ دھوئے تو مقلد ایسی احتیاط کو ترک کر سکتا ہے۔ اس قسم کی احتیاط کو احتیاط مستجب کہتے ہیں۔

9 ۔ اگر وہ مجتہد جس کی ایک شخص تقلید کرتا ہے فوت ہو جائے تو جو حکم اس کی زندگی میں تھا وہی حکم اس کی وفات کے بعد بھی ہے۔ بنا بریں اگر مرحوم مجتہد، زندہ مجتہد کے مقابلے میں اعلم تھا تو ہو شخص جسے در پیش مسائل میں دونوں مجتہدین کے مابین اختلاف کا اگرچہ اجمالی طور پر علم ہو اسے مرحوم مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا ضروری ہے۔ اور اگر زندہ مجتہد اعلم ہو تو پھر زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس مسئلے میں تقلید سے مراد معین مجتہد کے فتوے کی پیروی کرنے (قصد رجوع) کو صرف اپنے لئے لازم قرار دینا ہے نہ کہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔

10 ۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلے میں ایک مجتہد کے فتوے پر عمل کرے، پھر اس مجتہد کے فوت ہوجانے کے بعد وہ اسی مسئلے میں زندہ مجتہد کے فتوے پر عمل کرلے تو اسے اس امر کی اجازت نہیں کہ دوبارہ مرحوم مجتہد کے فتوے پر عمل کرے۔

11 ۔ جو مسائل انسان کو اکثر پیش آتے رہتے ہیں ان کو یاد کر لینا واجب ہے۔

12 ۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس کا حکم اسے معلوم نہ تو لازم ہے کہ احتیاط کرے یا ان شرائط کے مطابق تقلید کرے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن اگر اس مسئلے میں اسے اعلم کے فتوے کا علم نہ ہو اور اعلم اور غیر اعلم کی آراء کے مختلف ہونے کا مجملاً علم ہو یا تو غیر اعلم کی تقلید جائز ہے۔

13۔ اگر کوئی شخص مجتہد کا فتوی کسی دوسرے شخص کو بتائے لیکن مجتہد نے اپنا سابقہ فتوی بدل دیا ہو تو اس کے لئے دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا ضروری نہیں۔ لیکن اگر فتوی بتانے کے بعد یہ محسوس ہو کہ (شاید فتوی بتانے میں) غلطی ہوگئی ہے اور اگر اندیشہ ہو کہ اس اطلاع کی وجہ سے وہ شخص اپنے شرعی وظیفے کے خلاف عمل کرے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر جہاں تک ہوسکے اس غلطی کا ازالہ کرے۔

14۔ اگر کوئی مکلف ایک مدت تک کسی کی تقلید کیے بغیر اعمال بجا لاتا رہے لیکن بعد میں کسی مجتہد کی تقلید کرلے تو اس صورت میں اگر مجتہد اس کے گزشتہ اعمال کے بارے میں حکم لگائے کہ وہ صحیح ہیں تو وہ صحیح متصور ہوں گے ورنہ طابل شمار ہوں گے۔

احکام طہارت

مطلق اور مضاف پانی

15 ۔ پانی یا مطلق ہوتا ہے یا مضاف۔ "مُضَاف" وہ پانی ہے جو کسی چیز سے حاصل کیا جائے مثلاً تربوز کا پانی (ناریل کا پانی) گلاب کا عرق (وغیرہ)۔ اس پانی کو بھی مضاف کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے آلودہ ہو مثلا گدلا پانی جو اس حد تک مٹیالا ہو کہ پھر اسے پانی نہ کہا جاسکے۔ ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے "آب مُطلَق" کہتے ہیں اور اس کی پانچ قسمیں ہیں۔ (اول) کر پانی (دوم) قلیل پانی (سوم) جاری پانی (چہارم) بارش کا پانی (پنجم) کنویں کا پانی۔

کُر پانی

16 ۔ مشہور قول کی بنا پر کُر اتنا پانی ہے جو ایک ایسے برتن کو بھر دے جس کی لمبائی،چوڑائی اور گہرائی ہر ایک ساڑھے تین بالشت ہو اس بنا پر اس کا مجموعہ ضرب 8 ۔ 7 ۔ 42 ( 87 ء 42) بالشت ہونا ضروری ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اگر چھتیں بالشت بھی ہو تو کافی ہے۔ تاہم کرُ پانی کا وزن کے لحاظ سے تعین کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے۔

17 ۔ اگر کوئی چیز عین نجس ہو مثلاً پیشاب یا خون یا وہ چیز جو نجس ہو گئی ہو جسیے کہ نجس لباس ایسے پانی میں گر جائے جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور اس کے نتیجے کی بو، رنگ یا ذائقہ پانی میں سرایت کر جائے تو پانی نجس ہوجائے گا لیکن اگر ایسی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو نجس نہیں ہوگا۔

18 ۔ اگر ایسے پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ جس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہو نجاست کے علاوہ کسی اور چیز سے تبدیل ہو جائے تو وہ پانی نجس نہیں ہوگا۔

19 ۔ اگر کوئی عین نجاست مثلاً خون ایسے پانی میں جاگرے۔ جس کی مقدار ایک کُر سے زیادہ ہو اور اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے تو اس صورت میں اگر پانی کے اس حصے کی مقدار جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ایک کُر سے کم ہو تو سارا پانی نجس ہو جائے گا لیکن اگر اس کی مقدار ایک کُر یا اس سے زیادہ ہو تو صرف وہ حصہ نجس متصور ہوگا جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔

20 ۔ اگر فوارے کا پانی (یعنی وہ پانی جو جوش مار کر فوارے کی شکل میں اچھلے) ایسے دوسرے پانی سے متصل ہو جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو تو فوارے کا پانی نجس پانی کو پاک کر دیتا ہے لیکن اگر نجس پانی پر فوارے کے پانی کا ایک ایک قطرہ گرے تو اسے پاک نہیں کرتا البتہ اگر فوارے کے سامنے کوئی چیز رکھ دی جائے۔ جس کے نتیجے میں اس کا پانی قطرہ قطرہ ہونے سے پہلے نجس پانی سے متصل ہو جائے تو نجس پانی کو پلک کر دیتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ فوارے کا پانی نجس پانی سے مخلوط ہو جائے۔

21 ۔ اگر کسی نجس چیز کو ایسے نل کے نیچے دھوئیں جو ایسے (پاک) پانی سے ملا ہوا ہو جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور اس چیز کی دھوون اس پانی سے متصل ہو جائے۔ جس کی مقدار کرُ کے برابر ہو تو وہ دھوون پاک ہوگی۔ بشرطیکہ اس میں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا نہ ہو اور نہ ہی اس میں عین نجاست کی آمیزش ہو۔

22 ۔ اگر کُر پانی کا کچھ حصہ جم کر برف بن جائے اور کچھ حصہ پانی کی شکل میں باقی بچے جس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو تو جونہی نجاست اس پانی کو چھوئے گی وہ نجس ہو جائے گا اور برف پگھلنے پر جو پانی سے بنے گا وہ بھی نجس ہوگا۔

23 ۔ اگر پانی کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور بعد میں شک ہو کہ آیا اب بھی کُر کے برابر ہے یا نہیں تو اس کی حیثیت ایک کُر پانی ہی کی ہوگی۔ یعنی وہ نجاست کو بھی پاک کرے گا اور نجاست کے اتصال سے نجس بھی نہیں ہوگا۔اس کے برعکس جو پانی کُر سے کم تھا اور اگر اس کے متعلق شک ہو کہ اب اس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہوگئی ہے یا نہیں تو اسے ایک کُر سے کم ہی سمجھا جائے گا۔

24 ۔ پانی کا ایک کُر کے برابر ہونا دو طریقوں سے ثابت ہوسکتا ہے۔ (اول) انسان کو خود اس بارے میں یقین یا اطمینان ہو (دوم) دو عادل مرد اس بارے میں خبر دیں۔

قلیل پانی

25 ۔ ایسے پانی کو قلیل پانی کہتے ہیں جو زمین سے نہ ابلے اور جس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو۔

26 ۔ جب قلیل پانی کسی نجس چیز پر گرے یا کوئی نجس چیز اس پر گرے تو پانی نجس ہوجائے گا۔ البتہ اگر پانی نجس چیز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصہ اس نجس چیز سے ملے گا نجس ہو جائے گا لیکن باقی پاک ہوگا۔

27 ۔ جو قلیل پانی کسی چیز پر عَین نجاست دور کرنے کے لئے ڈالا جائے وہ نجاست سے جدا ہونے کے بعد نجس ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح وہ قلیل پانی جو عین نجاست کے الگ ہوجانے کے بعد نجس چیز کو پاک کرنے کے لئے اس پر ڈالا جائے اس سے جدا ہو جانے کے بعد بنا بر احتیاط لازم مطلقاً نجس ہے۔

28 ۔ جس قلیل پانی سے پیشاب یا پاخانے کے مخارج دھوئے جائیں وہ اگر کسی چیز کو لگ جائے تو پانچ شرائط کے ساتھ اسے نجس نہیں کرے گا۔

(اول) پانی میں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا نہ ہوا ہو۔ (دوم) باہر سے کوئی نجاست اس سے نہ آملی ہو۔ (سوم) کوئی اور نجاست (مثلاً خون) پیشاب یا پاخانے کے ساتھ خارج نہ ہوئی ہو۔ (چہارم) پاخانے کے ذرے پانی میں دکھائی نہ دیں (پنجم) پیشاب یا پاخانے کے مخارج پر معمول سے زیادہ نجاست نہ لگی ہو۔

جاری پانی

جاری پانی وہ ہے جو زمین سے اُبلے اور بہتا ہو۔ مثلاً چشمے کا پانی۔

29 ۔ جاری پانی اگرچہ کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو نجاست کے آملنے سے تب تک نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے۔

30 ۔ اگر نجاست جاری پانی سے آملے تو اس کی اتنی مقدار جس کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے نجس ہے۔ البتہ اس پانی کا وہ حصہ جو چشمے سے متصل ہو پاک ہے خواہ اس کی مقدار کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ ندی کی دوسری طرف کا پانی اگر ایک کُر جتنا ہو یا اس پانی کے ذریعہ جس میں (بُو، رنگ یا ذائقے کی) کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی چشمے کی طرف کے پانی سے ملا ہوا ہو تو پاک ہے ورنہ نجس ہے۔

31 ۔ اگر کسی چشمے کا پانی جاری نہ ہو لیکن صورت حال یہ ہو کہ جب اس میں سے پانی نکال لیں تو دوبارہ اس کا پانی اُبل پڑتا ہو تو وہ پانی، جاری پانی کا حکم نہیں رکھتا یعنی اگر نجاست اس سے آملے تو نجس ہوجاتا ہے۔

32 ۔ ندی یا نہر کے کنارے کا پانی جو ساکن ہو اور جاری پانی سے متصل ہو، جاری پانی کا حکم نہیں رکھتا۔

33 ۔ اگر ایک ایسا چشمہ ہو جو مثال کے طور پر سردیوں میں اُبل پڑتا ہو لیکن گرمیوں میں اس کا جوش ختم ہوجاتا ہو اسی وقت جاری پانی کے حکم میں آئے گا۔ جب اس کا پانی اُبل پڑتا ہو۔

34 ۔ اگر کسی (تُرکی اور ایرانی طرز کے) حمام کے چھوٹے حوض کا پانی ایک کُر سے کم ہو لیکن وہ ایسے "وسیلئہ آب" سے متصل ہو جس کا پانی حوض کے پانی سے مل کر ایک کُر بن جاتا ہو تو جب تک نجاست کے مل جانے سے اس کی بُو، رنگ اور ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے وہ نجس نہیں ہوتا۔

35 ۔ حمام اور بلڈنگ کے نلکوں کا پانی جا ٹنٹیوں اور شاوروں کے ذریعے بہتا ہے اگر اس حوض کے پانی سے مل کر جو ان نلکوں سے متصل ہو ایک کُر کے برابر ہو جائے تو نلکوں کا پانی بھی کُر پانی کے حکم میں شامل ہوگا۔

36 ۔ جو پانی زمین پر بہہ رہا ہو۔ لیکن زمین سے اُبل نہ رہا ہو اگر وہ ایک کُر سے کم ہو اور اس میں نجاست مل جائے تو وہ نجس ہو جائے گا لیکن اگر وہ پانی تیزی سے بہہ رہا ہو اور مثال کے طور پر اگر نجاست اس کے نچلے حصے کو لگے تو اس کا اوپر والا حصہ نجس نہیں ہوگا۔

بارش کا پانی

37 ۔ جو چیز نجس ہو اور عین نجاست اس میں نہ ہو اس پر جہاں جہاں ایک بار بارش ہو جائے پاک ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر بدن اور لباس پیشاب سے نجس ہو جائے تو بنابر احتیاط ان پر دوبار بارش ہونا ضروری ہے مگر قالین اور لباس وغیرہ کا نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہلکی بوندا باندی کافی نہیں بلکہ اتنی بارش لازمی ہے کہ لوگ کہیں کہ بارش ہو رہی ہے۔

38 ۔ اگر بارش کا پانی عین نجس پر برسے اور پھر دوسری جگہ چھینٹے پڑیں لیکن عین نجاست اس میں شامل نہ ہو اور نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ بھی اس میں پیدا نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے۔ پس اگر بارش کا پانی خون پر برسنے سے چھینٹے پڑیں اور ان میں خون کے ذرات شامل ہوں یا خون کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا ہوگیا ہو تو وہ پانی نجس ہوگا۔

39 ۔ اگر مکان کی اندرونی یا اوپری چھت پر عین نجاست موجود ہو تو بارش کے دوران جو پانی نجاست کو چھو کر اندرونی چھت سے ٹپکے یا پرنالے سے گرے وہ پاک ہے۔ لیکن جب بارش تھم جائے اور یہ بات علم میں آئے کہ اب جو پانی گر رہا ہے وہ کسی نجاست کو چھو کر آرہا ہے تو وہ پانی نجس ہوگا۔

40 ۔ جس نجس زمین پر بارش برس جائے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اگر بارش کا پانی زمین پر بہنے لگے اور اندرونی چھت کے اس مقام پر جا پہنچے جو نجس ہے تو وہ جگہ بھی پاک ہو جائے گی بشرطیکہ ہنوز بارش ہو رہی ہو۔

41 ۔ نجس مٹی کے تمام اجزاء تک بارش کا مُطلَق پانی پہنچ جائے تو مٹی پاک ہوجائے گی۔

42 ۔ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہو جائے خواہ ایک کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو بارش برسنے کے وقت وہ (جمع شدہ پانی) کُر کا حکم رکھتا ہے اور کوئی نجس چیز اس میں دھوئی جائے اور پانی نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ قبول نہ کرے تو وہ نجس چیز پاک ہو جائیگی۔

43 ۔اگر نجس زمین پر بچھے ہوئے پاک قالین (یادری) پر بارش برسے اور اس کا پانی برسنے کے وقت قالین سے نجس زمین پر پہنچ جائے تو قالین بھی نجس نہیں ہوگا اور زمین بھی پاک ہوجائے گی۔

کُنویں کا پانی

44 ۔ ایک ایسے کنویں کا پانی جو زمین سے اُبلتا ہواگرچہ مقدار میں ایک کُر سے کم ہو نجاست پڑنے سے اس وقت تک نجس نہیں ہوگا۔ جب تک اس نجاست سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے۔ لیکن مستجب یہ ہے کہ بعض نجاستوں کے گرنے پر کنویں سے اتنی مقدار میں پانی نکال دیں جو مفصل کتابوں میں درج ہے۔

45 ۔ اگر کوئی نجاست کنویں میں گر جائے اور اس کے پانی کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے تو جب کنویں کے پانی میں پیدا شدہ یہ تبدیلی ختم ہو جائے گی پانی پاک ہو جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ یہ پانی کنویں سے اُبلنے والے پانی میں مخلوط ہو جائے۔

46 ۔ اگر بارش کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہوجائے اور اس کی مقدار ایک کُرسے کم ہو تو بارش تھمنے کے بعد نجاست کی آمیزش سے وہ پانی نجس ہوجائے گا۔

پانی کے احکام

47 ۔ مضاف پانی (جس کے معنی مسئلہ نمبر 15 میں بیان ہوچکے ہیں) کسی نجس چیز کو پاک نہیں کرتا۔ ایسے پانی سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے۔

48 ۔ مضاف پانی کی مقدار اگرچہ ایک کُر کے برابر ہو اگر اس میں نجاست کا ایک ذرہ بھی پڑجائے تو نجس ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر ایسا پانی کسی نجس چیز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصہ نجس چیز سے متصل ہوگا۔ نجس ہوجائے گا اور جو متصل نہیں ہوگا وہ پاک ہوگا مثلاً اگر عرق گلاب کو گلاب دان سے نجس ہاتھ پر چھڑ کا جائے تو اس کا جتنا حصہ ہاتھ کو لگے گا نجس ہوگا اور جو نہیں لگے گا وہ پاک ہوگا۔

49 ۔ اگر وہ مُضاف پانی جو نجس ہو ایک کُر کے برابر پانی یا جاری پانی سے یوں مل جائے کہ پھر اسے مضاف پانی نہ کہا جاسکے تو وہ پاک ہو جائے گا۔

50 ۔ اگر ایک پانی مطلق تھا اور بعد میں اس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مضاف ہو جانے کی حد تک پہنچا ہے۔ انہیں تو وہ مطلق پانی متصور ہوگا یعنی نجس چیز کو پاک کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی صحیح ہوگا اور اگر پانی مضاف تھا اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مطلق ہوا یا نہیں تو وہ مضاف متصور ہوگا یعنی کسی نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہوگا۔

51 ۔ ایسا پانی جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضاف، نجاست کو پاک نہیں کرتا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے۔ جونہی کوئی نجاست ایسے پانی سے آملتی ہے تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس ہو جاتا ہے خواہ اس کی مقدار ایک کُر ہی کیوں نہ ہو۔

52 ۔ ایسا پانی جس میں خون یا پیشاب جیسی عین نجاست آپڑے اور اس کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے نجس ہوجاتا ہے خواہ وہ کُر کے برابر یا جاری پانی ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر اس پانی کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی ایسی نجاست سے تبدیل ہوجائے جو اس سے باہر ہے مثلاً قریب پڑے ہوئے مُردار کی وجہ سے اس کی بُو بدل جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس ہو جائے گا۔

53 وہ پانی جس میں عین نجاست مثلاً خون یا پیشاب گر جائے اور اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے اگر کُر کے برابر یا جاری پانی سے متصل ہو جائے یا بارش کا پانی اس پر برس جائے یا ہوا کی وجہ سے بارش کا پانی اس پر گرے یا بارش کا پانی اس دوران جب کہ بارش ہو رہی ہو پرنالے سے اس پر گرے اور جاری ہو جائے تو ان تمام صورتوں میں اس میں واقع شدہ تبدیلی زائل ہو جانے پر ایسا پانی پاک ہوجاتا ہے لیکن قول اقوی کی بنا پر ضروری ہے کہ بارش کا پانی یا کُر پانی یا جاری پانی اس میں مخلوط ہوجائے۔

54 ۔ اگر کسی نجس چیز کو بہ مقدار کر پانی جلدی پانی میں پاک کیا جائے تو وہ پانی جو باہر نکالنے کے بعد اس سے ٹپکے پاک ہوگا۔

55 ۔ جو پانی پہلے پاک ہو اور یہ علم نہ ہو کہ بعد میں نجس ہوا یا نہیں، وہ پاک ہے اور جو پانی پہلے نجس ہو اور معلوم نہ ہو کہ بعد میں پاک ہوا یا نہیں، وہ نجس ہے۔

56 ۔ کُتے، سُوّر اور غیر کتابی کافر کا جھوٹا بلکہ احتیاط مُستجب کے طور پر کتابی کافر کا جھوٹا بھی نجس ہے اور اس کا کھانا پینا حرام ہے مگر حرام گوشت جانور کا جھوٹا پاک ہے اور بلی کے علاوہ اس قسم کے باقی تمام جانوروں کے جھوٹے کا کھانا اور پینا مکروہ ہے۔

بَیتُ الخَلاء کے احکام

57 ۔ انسان پر واجب ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت اور دوسرے مواقع پر اپنی شرمگاہوں کو ان لوگوں سے جا بالغ ہوں خواہ وہ ماں اور بہن کی طرح اس کے محرم ہی کیوں نہ ہوں اور اسی طرح دیوانوں اور ان بچوں سے جو اچھے بُرے کی تمیز رکھتے ہوں چھپا کر رکھے۔ لیکن بیوی اور شوہر کے لئے اپنی شرمگاہوں کو ایک دوسرے سے چھپانا لازم نہیں۔

58 ۔ اپنی شرمگاہوں کو کسی مخصوص چیز سے چھپانا لازم نہیں مثلاً اگر ہاتھ سے بھی چھپالے تو کافی ہے۔

59 ۔ پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت احتیاط لازم کی بنا پر بدن کا اگلا حصہ یعنی پیٹ اور سینہ قبلے کی طرف نہ ہو اور نہ ہی پشت قبلے کی طرف ہو۔

60 ۔ اگر پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ یا پشت بقبلہ ہو اور وہ اپنی شرمگاہ کو قبلے کی طرف سے موڑ لے تو یہ کافی نہیں ہے اور اگر اس کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ شرمگاہ کو رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ موڑے۔

61 ۔ احتیاط مُستجب یہ ہے کہ اِستبراَ کے موقع پر، جس کے احکام بعد میں بیان کئے جائیں گے، نیز اگلی اور پچھلی شرم گاہوں کو پاک کرتے وقت بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ اور پشت بہ قبلہ نہ ہو۔

62 ۔ اگر کوئی شخص اس لئے کہ نامحرم اسے نہ دیکھے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ پشت بہ قبلہ بیٹھ جائے اگر پشت بہ قبلہ بیٹھنا ممکن نہ ہو تو رو بہ قبلہ بیٹھ جائے۔ اگر کسی اور وجہ سے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو بھی یہی حکم ہے۔

63 ۔ احتیاط مُستجب یہ ہے کہ بچے کو رفع حاجت کے لئے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ بٹھائے۔ ہاں اگر بچہ خود ہی اس طرح بیٹھ جائے تو روکنا واجب نہیں۔

64 ۔ چار جگہوں پر رفع حاجت حرام ہے۔

1 ۔ بند گلی میں جب کہ وہاں رہنے والوں نے اس کی اجازت نہ دے رکھی ہو۔ 2 ۔ اس قطعہ زمین میں جو کسی کی نجی ملکیت ہو جب کہ اس نے اس رفع حاجت کی اجازت نہ دے رکھی ہو۔

3 ۔ ان جگہوں میں جو مخصوص لوگوں کے لئے وقف ہوں مثلاً بعض مدرسے 4 ۔ مومنین کی قبروں کے پاس جب کہ اس فعل سے ان کی بے حرمتی ہوتی ہو۔ یہی صورت ہر اس جگہ کی ہے جہاں رفع حاجت دین یا مذہب کے مقدسات کی توہین کا موجب ہو۔

65 ۔ تین صورتوں میں مقعد (پاخانہ خارج ہونے کا مقام) فقط پانی سے پاک ہوتا ہے۔

1 ۔ پاخانے کے ساتھ کوئی اور نجاست (مثلاً خون) باہر آئی ہو۔

2 ۔ کوئی بیرونی نجاست مقعد پر لگ گئی ہو۔

3 ۔مقعد کا اطراف معمول سے زیادہ آلودہ ہوگیا ہو۔

ان تین صورتوں کے علاوہ مقعد کو یا تو پانی سے دھویا جاسکتا ہے اور یا اس طریقے کے مطابق جو بعد میں بیان کیا جائے گا کپڑے یا پتھر وغیرہ سے بھی پاک کیا جاسکتا ہے اگرچہ پانی سے دھونا بہتر ہے۔

66 ۔ پیشاب کا مخرج پانی کے علاوہ کسی چیز سے پاک نہیں ہوتا۔ اگر پانی کُر کے برابر ہو یا جاری ہو تو پیشاب کرنے کے بعد ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔ لیکن اگر قلیل پانی سے دھویا جائے تو احتیاط مُستحب کی بنا پر دو مرتبہ دھونا چاہئے اور بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ دھوئیں۔

67 ۔ اگر مقعد کو پانی سے دھویا جائے تو ضروری ہے کہ پاخانے کا کوئی زرہ باقی نہ رہے البتہ رنگ یا بُو باقی رہ جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر پہلی بار ہی وہ مقام یوں دُھل جائے کہ پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہ رہے تو دوبارہ دھونا لازم نہیں۔

68 ۔ پتھر، ڈھیلا، کپڑا یا انہی جیسی دوسری چیزیں اگر خشک اور پاک ہوں تو ان سے مقعد کو پاک کیا جاسکتا ہے اور اگر ان میں معمولی نمی بھی ہو جو مقعد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں۔

69 ۔ اگر مقعد کو پتھر یا ڈھیلے یا کپڑے سے ایک مرتبہ بالکل صاف کر دیا جائے تو کافی ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ صاف کیا جائے اور (جس چیز سے صاف کیا جائے اس کے) تین ٹکڑے بھی ہوں اور اگر تین ٹکڑوں سے صاف نہ ہو تو اتنے مزید ٹکڑوں کا اضافہ کرنا چاہئے کہ مقعد بالکل صاف ہو جائے۔ البتہ اگر اتنے چھوٹے ذرے باقی رہ جائیں جو نظر نہ آئیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

70 ۔ مقعد کو ایسی چیزوں سے پاک کرنا حرام ہے جن کا احترام لازم ہو (مثلا کاپی یا اخبار کا ایسا کاغذ جس پر خدا تعالی اور پیغمبروں کے نام لکھے ہوں) اور مقعد کے ہڈی یا گوبر سے پاک ہونے میں اشکال ہے۔

71 ۔ اگر ایک شخص کو شک ہو کہ مقعد پاک کیا ہے یا نہیں تو اس پر لازم ہے کہ اسے پاک کرے اگرچہ پیشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد وہ یمیشہ متعلقہ مقام کو فوراً پاک کرتا ہو۔

72 ۔ اگر کسی شخص کو نماز کے بعد شک گزرے کہ نماز سے پہلے پیشاب یا پاخانے کا مخرج پاک کیا تھا یا نہیں تو اس نے جو نماز ادا کی ہے وہ صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کے لئے اس (متعلقہ مقامات کو) پاک کرنا ضروری ہے۔

اِستِبرَاء

73 ۔ اِستِبرَاء ایک مستجب عمل ہے جو مرد پیشاب کرنے کے بعد اس غرض سے انجام دیتے ہیں تاکہ اطمینان ہو جائے کہ اب پیشاب نالی میں باقی نہیں رہا۔ اس کی کئی ترکیبیں ہیں جن میں سے بہترین یہ ہے کہ پیشاب سے فارغ ہوجانے کے بعد اگر مقعد نجس ہوگیا ہو تو پہلے اسے پاک کرے اور پھر تین دفعہ بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی کے ساتھ مقعد سے لے کر عضو تناسل کی جڑ تک سونتے اور اس کے بعد انگوٹھے کو عضو تناسل کے اوپر اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اس کے نیچے رکھے اور تین دفعہ سپاری تک سونتے اور پھر تین دفعہ سپاری کو جھٹکے۔

74 ۔ وہ رطوبت جو کبھی کبھی عورت سے مُلاَعَبَت یا ہنسی مذاق کرنے کے بعد مرد کے آلہ تناسل سے خارج ہوتی ہے اسے مَذِی کہتے ہیں اور وہ پاک ہے۔ علاوہ ازیں وہ رطوبت جو کبھی کبھی مَنِی کے بعد خارج ہوتی ہے۔ جیسے وذی کہا جاتا ہے یا وہ رطوبت جو بعض اوقات پیشاب کے بعد نکلتی ہے اور جسے ودی کہا جاتا ہے پاک ہے بشرطیکہ اس میں پیشاب کی آمیزش نہ ہو۔ مزید یہ کہ جب کسی شخص نے پیشاب کے بعد اِستِبراء کیا ہو اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ پیشاب ہے یا مذکورہ بالا تین رطوبتوں میں سے کوئی ایک تو وہ بھی پاک ہے۔

75 ۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اِستِبراء کیا ہے یا نہیں اور اس کے پیشاب کے مخرج سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ پاک ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے۔ نیز یہ کہ اگر وہ وضو کر چکا ہو تو وہ بھی باطل ہوگا۔ لیکن اگر اسے اس بارے میں شک ہو کہ جو اِستِبراء اس نے کیا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں اور اس دوران رطوبت خارج ہو اور وہ نہ جانتا ہے کہ وہ رطوبت پاک ہے یا نہیں تو وہ پاک ہوگی اور اس کا وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

76 ۔ اگر کسی شخص نے اِستِبراء نہ کیا ہو اور پیشاب کرنے کے بعد کافی وقت گزر جانے کی وجہ سے اسے اطمینان ہو کہ پیشاب نالی میں باقی نہیں رہا تھا اور اس دوران رطوبت خارج ہو اور اسے شک ہو کہ پاک ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہوگی اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

77 ۔ اگر کوئی شخص پیشاب کے بعد استبراء کرکے وضو کرلے اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ پیشاب ہے یا منی تو اس پر واجب ہے کہ احتیاطاً غسل کرے اور وضو بھی کرے البتہ اگر اس نے پہلے وضو نہ کیا ہو تو وضو کر لینا کافی ہے۔

78 ۔ عورت کے لئے پیشاب کے بعد استبراء نہیں ہے۔ پس اگر کوئی رطوبت خارج ہو اور شک ہو کہ یہ پیشاب ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہوگی اور اس کے وضو اور غسل کو بھی باطل نہیں کرے گی۔

رفع حاجت کے مُستَحَبّات اور مکرُوہات

79 ۔ ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ جب بھی رفع حاجت کے لئے جائے تو ایسی جگہ بیٹھے جہاں اسے کوئی نہ دیکھے۔ اور بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاوں اندر رکھے اور نکلتے وقت پہلے دایاں پاوں باہر رکھے اور یہ بھی مستحب ہے کہ رفع حاجت کے وقت (ٹوپی، دوپٹے وغیرہ سے) سر ڈھانپ کر رکھے اور بدن کا بوجھ بائیں پاوں پر ڈالے۔

80 ۔ رفع حاجت کے وقت سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے بیٹھنا مکروہ ہے لیکن اگر اپنی شرم گاہ کو کسی طرح ڈھانپ لے تو مکروہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رفع حاجت کے لئے ہوا کہ رُخ کے بالمقابل نیز گلی کوچوں، راستوں، مکان کے دروازوں کے سامنے اور میوہ دار درختوں کے نیچے بیٹھنا بھی مکروہ ہے اور اس حالت میں کوئی چیز کھانا یا زیادہ وقت لگانا یا دائیں ہاتھ سے طہارت کرنا بھی مکروہ ہے اور یہی صورت باتیں کرنے کی بھی ہے لیکن اگر مجبوری ہو یا ذکر خدا کرے تو کوئی حرج نہیں۔

81 ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا اور سخت زمین پر یا جانوروں کے بلوں میں یا پانی میں بالخصوص ساکن پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے۔

82 ۔ پیشاب اور پاخانہ روکنا مکروہ ہے اور اگر بدن کے لئے مکمل طور پر مضر ہو تو حرام ہے۔

83 ۔ نماز سے پہلے، سونے سے پہلے، مباشرت کرنے سے پہے اور انزال منی کے بعد پیشاب کرنا مستحب ہے۔