توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)11%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68517 / ڈاؤنلوڈ: 7341
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

خمس کے احکام

۱۷۶۰ ۔ خمس سات چ یزوں پر واجب ہے۔

۱ ۔ کاروبار ( یا روزگار) کا منافع

۲ ۔ مَعدِن ی کانیں

۳ ۔ گ ڑ ا ہ وا خزان ہ

۴ ۔ حلال مال جو حرام مال م یں مخلوط ہ و جائ ے

۵ ۔ غوط ہ خور ی سے حاصل ہ ون ے وال ے سمندر ی موتی اور مونگے

۶ ۔ جنگ م یں ملنے والا مال غن یمت

۷ ۔ مش ہ ور قول ک ی بنا پر وہ زم ین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خر یدے۔

ذیل میں ان کے احکام تفص یل سے ب یان کئے جائ یں گے۔

کاروبار کا منافع

۱۷۶۱ ۔ جب انسان تجارت، صنعت و حرفت یا دوسرے کام د ھ ندوں س ے روپ یہ پیسہ کمائے مثال ک ے طور پر اگر کوئ ی اجیر بن کر کسی متوفی کی نمازیں پڑھے اور روز ے رک ھے اور اس طرح کچ ھ روپ یہ کمائے ل ہ ذا اگر و ہ کمائ ی خود اس کے اور اس ک ے ا ہ ل و ع یال کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہو تو ضروری ہے ک ہ زائد کمائ ی کا خمس یعنی پانچواں حصہ اس طر یقے کے مطابق د ے جس ک ی تفصیل بعد میں بیان ہ وگ ی۔

۱۷۲۶ ۔ اگر کس ی کو کمائی کئے بغ یر کوئی آمدنی ہ وجائ ے مثلاً کوئ ی شخص اسے بطور تحف ہ کوئ ی چیز دے اور و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس دے۔

۱۷۶۳ ۔ عورت کو جو م ہ ر ملتا ہے اور شو ہ ر، ب یوی کو طلاق خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا ہے ان پر خمس ن ہیں ہے اور اس ی طرح جو میراث انسان کو ملے اس کا ب ھی میراث کے معتبر قواعد ک ی رو سے یہی حکم ہے۔ اور اگر اس مسلمان کو جو ش یعہ ہے کس ی اور ذریعے سے مثلاً پدر ی رشتے دار ک ی طرف سے م یراث ملے تو اس مال ک ی "فوائد" میں شمار کیا جائے گا اور ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔ اس ی طرح اگر اسے باپ اور ب یٹے کے علاو ہ کس ی اور کی طرف سے م یراث ملے ک ہ جس کا خود اس ے گمان تک ن ہ ہ و تو احت یاط واجب یہ ہے ک ہ و ہ م یراث اگر اس کے سال بھی کے اخراجات سے زیادہ ہ و تو اس کا خمس د ے۔

۱۷۲۴ ۔ اگر کس ی شخص کو کوئی میراث ملے اور اس معلوم ہ و ک ہ جس شخص س ے اس ے یہ میراث ملی ہے اس ن ے اس کا خمس ن ہیں دیا تھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ وارث اس کا خمس د ے۔ اس ی طرح اگر خود اس مال پر خمس واجب نہ ہ و اور وارث کو علم ہ و کہ جس شخص س ے اس ے و ہ مال ورث ے م یں ملا ہے اس شخص ک ے ذمے خمس واجب الادا ت ھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ے مال س ے خمس ادا کر ے۔ ل یکن دونوں صورتوں میں جس شخص سے مال ورث ے م یں ملا ہ و اگر و ہ خمس د ینے کا معتقد نہ ہ و یا یہ کہ و ہ خمس د یتا ہی نہ ہ و تو ضرور ی نہیں کہ وارث و ہ خمس ادا کر ے جو اس شخص پر واجب ت ھ ا ۔

۱۷۶۵ ۔ اگر کس ی شخص نے کفا یت شعاری کے سبب سال ب ھ ر ک ے اخراجات ک ے بعد کچ ھ رقم پس انداز ک ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس بچت کا خمس د ے۔

۱۷۶۶ ۔ جس شخص ک ے تمام اخراجات کوئ ی دوسرا شخص برداشت کرتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ جنتا مال اس ک ے ہ ات ھ آئ ے اس کا خمس د ے۔

۱۷۶۷ ۔ اگر کوئ ی شخص اپنی جائداد کچھ خاص افراد مثلاً اپن ی اولاد کے لئ ے وقف کر د ے اور و ہ لوگ اس جائداد م یں کھیتی باڑی اور شجرکاری کریں اور اس سے منافع کمائ یں اور وہ کمائ ی ان کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کمائ ی کا خمس دیں۔ ن یز یہ کہ اگر و ہ کسی اور طریقے سے اس جائداد س ے نفع حاصل کر یں مثلاً اسے کرائ ے ( یا ٹھیکے) پر دے د یں تو ضروری ہے ک ہ نفع ک ی جو مقدار ان کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و اس کا خمس د یں۔

۱۷۶۸ ۔ جو مال کس ی فقیر نے واجب یا مستحب صدقے ک ے طور پر حاصل ک یا ہ و اگر و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و یا جو مال اسے د یا گیا ہ و اس س ے اس ن ے نفع کما یا ہ و مثلاً اس ن ے ا یک ایسے درخت سے جو اس ے د یا گیا ہ و م یوہ حاصل کیا ہ و اور و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات سے زیادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔ ل یکن جو مال اسے بطور خمس یا زکوۃ دیا گیا ہ و ضرور ی نہیں کہ اس کا خمس د ے۔

۱۷۶۹ ۔ اگر کوئ ی شخص ایسی رقم سے کوئ ی چیز خریدے جس کا خمس نہ د یا گیا ہ و یعنی بیچنے والے س ے ک ہے ک ہ "م یں یہ چیز اس رقم سے خر ید رہ ا ہ وں" اگر ب یچنے والا شیعہ اثنا عشری ہ و تو ظا ہ ر یہ ہے ک ہ کل مال ک ے متعلق معامل ہ درست ہے اور خمس کا تعلق اس چ یز سے ہ و جاتا ہے جو اس نے اس رقم سے خر یدی ہے اور (اس معامل ے م یں) حاکم شرع کی اجازت اور دستخط کی ضرورت نہیں ہے۔

۱۷۷۰ ۔ اگر کوئ ی شخص کوئی چیز خریدے اور معاملہ ط ے کرن ے ک ے بعد اس ک ی قیمت اس رقم سے ادا کر ے جس کا خمس ن ہ د یا ہ و تو جو معامل ہ اس ن ے ک یا ہے و ہ صح یح ہے اور جو رقم اس ن ے فروشند ہ کو د ی ہے اس ک ے خمس ک ے لئ ے و ہ خمس ک ے مستحق ین کا مقروض ہے۔

۱۷۷۱ ۔ اگر کوئ ی شیعہ اثنا عشری مسلمان کوئی ایسا مال خریدے جس کا خمس نہ د یا گیا ہ و تو اس کا خمس ب یچنے والے ک ی ذمہ دار ی ہے اور خر یدار کے ذم ے کچ ھ ن ہیں۔

۱۷۷۲ ۔ اگر کوئ ی شخص کسی شیعہ اثنا عشری مسلمان کو کوئی ایسی چیز بطور عطیہ دے جس کا خمس ن ہ د یا گیا ہ و تو اس ک ے خمس ک ی ادائیگی کی ذمہ دار ی عطیہ دینے والے پر ہے اور (جس شخص کو عط یہ دیا گیا ہ و) اس ک ے ذم ے کچ ھ ن ہیں۔

۱۷۷۳ ۔ اگر انسان ک و کسی کافر سے یا ایسے شخص سے جو خمس د ینے پر اعتقاد نہ رک ھ تا ہ و کوئ ی مال ملے تو اس مال کا خمس د ینا واجب نہیں ہے۔

۱۷۷۴ ۔ تاجر، دکاندار، کار یگر اور اس قسم کے دوسر ے لوگوں ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ اس وقت س ے جب ان ہ وں ن ے کاروبار شروع ک یا ہ و، ا یک سال گزر جائے تو جو کچ ھ ان ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و اس کا خمس د یں۔ اور جو شخص کس ی کام دھ ند ے س ے کمائ ی نہ کرتا ہ و اگر اس ے اتفاقاً کوئی نفع حاصل ہ و جائ ے تو جب اس ے یہ نفع ملے اس وقت س ے ا یک سال گزرنے ک ے بعد جتن ی مقدار اس کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔

۱۷۷۵ ۔ سال ک ے دوران جس وقت ب ھی کسی شخص کو منافع ملے و ہ اس کا خمس د ے سکتا ہے اور اس ک ے لئ ے یہ بھی جائز ہے ک ہ سال ک ے ختم ہ ون ے تک اس ک ی ادائیگی کو موخر کر دے اور اگر و ہ خمس ادا کرن ے ک ے لئ ے شمس ی سال (رومن کیلنڈ ر ) اختیار کرے تو کوئ ی حرج نہیں۔

۱۷۷۶ ۔ اگر کوئ ی تاجر یا دکاندار خمس دینے کے لئ ے سال ک ی مدت معین کرے اور اس ے منافع حاصل ہ و ل یکن وہ سال ک ے دوران مر جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی موت تک کے اخراجات اس منافع م یں سے من ہ ا کر ک ے باق ی ماندہ کا خمس د یا جائے۔

۱۷۷۷ ۔ اگر کس ی شخص کے بغرض تجارت خر یدے ہ وئ ے مال ک ی قیمت بڑھ جائ ے اور و ہ اس ے ن ہ ب یچے اور سال کے دوران اس ک ی قیمت گر جائے تو جتن ی مقدار تک قیمت بڑھی ہ و اس کا خمس واجب ن ہیں ہے۔

۱۷۷۸ ۔ اگر کس ی شخص کے بغرض تجارت خر یدے ہ وئ ے مال ک ی قیمت بڑھ جائ ے اور و ہ اس ام ید پر کہ اب ھی اس کی قیمت اور بڑھے گ ی اس مال کو سال کے خاتم ے ک ے بعد تک فروخت ن ہ کر ے اور پ ھ ر اس ک ی قیمت گر جائے تو جس مقدار تک ق یمت بڑھی ہ و اس کا خمس د ینا واجب ہے۔

۱۷۷۹ ۔ کس ی شخص نے مال تجارت ک ے علاو ہ کوئ ی مال خرید کر یا اسی کی طرح کسی طریقے سے حاصل ک یا ہ و جس کا خمس و ہ ادا کر چکا ہ و تو اگر اس ک ی قیمت بڑھ جائ ے اور و ہ اس ے ب یچ دے تو ضرور ی ہے ک ہ جس قدر اس چ یز کی قیمت بڑھی ہے اس کا خمس د ے۔ اس ی طرح مثلاً اگر کوئی درخت خریدے اور اس میں پھ ل لگ یں یا (بھیڑ خریدے اور وہ ) ب ھیڑ موٹی ہ و جائ ے تو اگر ان چ یزوں کی نگہ داشت س ے اس کا مقصد نفع کمانا ت ھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ ان ک ی قیمت میں جو اضافہ ہ وا ہے اس کا خمس د ے بلک ہ اگر اس کا مقصد نفع کمانا ن ہ ب ھی رہ ا ہ و تب ب ھی ضروری ہے ک ہ ان کا خمس د ے۔

۱۷۸۰ ۔ اگر کوئ ی شخص اس خیال سے باغ (م یں پودے ) لگائ ے ک ہ ق یمت بڑھ جان ے پر ان ہیں بیچ دے گا تو ضرور ی ہے ک ہ پ ھ لوں ک ی اور درختوں کی نشوونما اور باغ کی بڑھی ہ وئ ی قیمت کا خمس دے ل یکن اگر اس کا ارادہ یہ رہ ا ہ و ک ہ ان درختوں ک ے پ ھ ل ب یچ کر ان سے نفع کمائ ے گا تو فقط پ ھ ل وں کا خمس دینا ضروری ہے۔

۱۷۸۱ ۔ اگر کوئ ی شخص بید مشک اور چنار وغیرہ کے درخت لگائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال ان ک ے ب ڑھ ن ے کا خمس د ے اور اس ی طرح اگر مثلاً ان درختوں کی ان شاخوں سے نفع کمائ ے جو عموماً ہ ر سال کا ٹی جاتی ہیں اور تنہ ا ان شاخوں ک ی قیمت یا دوسرے فائدوں کو ملا کر اس ک ی آمدنی اس کے سال بھ ر ک ے اخراجات س ے ب ڑھ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال ک ے خاتم ے پر اس زائد رقم کا خمس دے۔

۱۷۸۲ ۔ اگر کس ی شخص کی آمدنی کی متعدد ذرائع ہ وں مثلاً جائداد کا کرا یہ آتا ہ و اور خر ید و فروخت بھی کرتا ہ و اور ان تمام ذرائع تجارت ک ی آمدنی اور اخراجات اور تمام رقم کا حساب کتاب یکجا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ سال ک ے خاتم ے پر جو کچ ھ اس ک ے اکراجات سے زائد ہ و اس کا خ مس ادا کرے۔ اور اگر ا یک ذریعے سے نفع کمائ ے اور دوسر ے ذر یعے سے نقصان ا ٹھ ائ ے تو و ہ ا یک ذریعے کے نقصان کا دوسر ے ذر یعے کے نقصان س ے تدارک کر سکتا ہے۔ ل یکن اگر اس کے دو مختلف پ یشے ہ وں مثلاً تجارت اور زراعت کرتا ہ و تو اس صورت م یں احتیاط واجب کی بنا پر وہ ا یک پیشے کے نقصان کا تدارک دوسر ے پ یشے کے نفع س ے ن ہیں کر سکتا۔

۱۷۸۳ ۔ انسان جو اخراجات فائد ہ حاصل کرن ے ک ے لئ ے مثلاً دلال ی اور باربرداری کے سلسل ے م یں خرچ کرے تو ان ہیں منافع میں سے من ہ ا کر سکتا ہے اور اتن ی مقدار کا خمس ادا کرنا لازم نہیں۔

۱۷۸۴ ۔ کاروبار ک ے منافع س ے کوئ ی شخص سال بھ ر م یں جو کچھ خوراک، لباس، گ ھ ر ک ے ساز و سامان، مکان ک ی خریداری، بیٹے کی شادی، بیٹی کے ج ہیز اور زیارات وغیرہ پر خرچ کرے اوس پر خمس ن ہیں ہے بشرط یکہ ایسے اخراجات اس کی حیثیت سے ز یادہ نہ ہ وں اور اس ن ے فضول خرچ ی بھی نہ ک ی ہ و ۔

۱۷۸۵ ۔ جو مال انسان منت اور کفار ے پر خرچ کر ے و ہ سالان ہ اخراجات کا حص ہ ہے۔ اس ی طرح وہ مال ب ھی اس کے سالان ہ اخراجات کا حص ہ ہے جو و ہ کس ی کو تحفے یا انعام کے طور پر بشرط یکہ اس کی حیثیت سے ز یادہ نہ ہ و ۔

۱۷۸۶ ۔ اگر انسان اپن ی لڑ ک ی شادی کے وقت تمام ج ہیز اکٹھ ا ت یار نہ کر سکتا ہ و تو و ہ اس ے کئ ی سالوں میں تھ و ڑ ا ت ھ و ڑ ا کر ک ے جمع کر سکتا ہے چنانچ ہ اگر ج ہیز خریدے جو اس کی حیثیت سے ب ڑھ کر ن ہ ہ و تو اس پر خمس د ینا لازم نہیں ہے اور اگر و ہ ج ہیز اس کی حیثیت سے ب ڑھ کر ہ و یا ایک سال کے منافع س ے دوسر ے سال م یں تیار کیا گیا ہ و تو اس کا خمس د ینا ضروری ہے۔

۱۷۸۷ ۔ جو مال کس ی شخص نے ز یارت بیت اللہ (حج) اور دوسر ی زیارات کے سفر پر خرچ ک یا ہ و و ہ اس سال ک ے اخراجات م یں شمار ہ وتا ہے جس سال م یں خرچ کیا جائے اور اگر اس کا سفر سال س ے ز یادہ طول کھینچ جائے تو جو کچ ھ و ہ دوسر ے سال م یں خرچ کرے اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

۱۷۸۸ ۔ جو شخص کس ی پیشے یا تجارت وغیرہ سے منافع حاصل کر ے اگر اس ک ے پاس کوئ ی اور مال بھی ہ و جس پر خمس واجب ن ہ ہ و تو و ہ اپن ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات کا حساب فقط اپن ے منافع کو مدنظر رک ھ ت ے ہ وئ ے کر سکتا ہے۔

۱۷۸۹ ۔ جو سامان کس ی شخص نے سال ب ھ ر ا ستعمال کرنے ک ے لئ ے اپن ے منافع س ے خر یدا ہ و اگر سال ک ے آخر م یں اس میں سے کچ ھ بچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر خمس اس ک ی قیمت کی صورت میں دینا چاہے اور جب و ہ سامان خر یدا تھ ا اس ک ے مقابل ے م یں اس کی قیمت بڑھ گئ ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ سال ک ے خاتم ے پر جو ق یمت ہ و اس کا حساب لگائ ے۔

۱۷۹۰ ۔ کوئ ی شخص خمس دینے سے پ ہ ل ے اپن ے منافع م یں سے گ ھ ر یلو استعمال کے لئ ے سامان خر یدے اگر اس کی ضرورت منافع حاصل ہ ون ے وال ے سال ک ے بعد ختم ہ و جائ ے تو ضرور ی نہیں کہ اس کا خمس د ے۔ اور اگر دوران سال اس ک ی ضرورت ختم ہ و جائ ے تو ب ھی یہی حکم ہے۔ ل یکن اگر وہ سامان ان چ یزوں میں سے جو عموماً آئند ہ سالوں م یں استعمال کے لئ ے رک ھی جاتی ہ و ج یسے سردی اور گرمی کے کپ ڑے تو ان پر خمس ن ہیں ہ وتا ۔ اس صورت ک ے علاو ہ جس وقت ب ھی اس سامان کی ضرورت ختم ہ و جائ ے احت یاط واجب یہ ہے ک ہ اس کا خمس دے اور یہی صورت زمانہ ز یورات کی ہے جب ک ہ عورت ک ا انہیں بطور زینت استعمال کرنے کا زمان ہ گزر جائ ے۔

۱۷۹۱ ۔ اگر کس ی شخص کو کسی سال میں منافع نہ ہ و تو و ہ اس سال ک ے اخراجات کو آئند ہ سال ک ے منافع س ے من ہ ا ن ہیں کر سکتا۔

۱۷۹۲ ۔ اگر کس ی شخص کو سال کے شروع م یں منافع نہ ہ و اور و ہ اپن ے سرمائ ے س ے خرچ ا ٹھ ائ ے اور سال ک ے ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے اس ے منافع ہ و جائ ے تو اس ن ے جو کچ ھ سرمائ ے م یں سے خرچ ک یا ہے اس ے منافع س ے من ہ ا کر سکتا ہے۔

۱۷۹۳ ۔ اگر سرمائ ے کا کچ ھ حص ہ تجارت وغ یرہ میں ڈ وب جائ ے تو جس قدر سرما یہ ڈ وبا ہ و انسان اتن ی مقدار اس سال کے منافع م یں سے من ہ ا کرسکتا ہے۔

۱۷۹۴ ۔ اگر کس ی شخص کے مال م یں سے سرمائ ے ک ے علاو ہ کوئ ی اور چیز ضائع ہ و جائ ے تو و ہ اس چ یز کو منافع میں سے م ہیا نہیں کر سکتا لیکن اگر اسے اس ی سال میں اس چیز کی ضرورت پڑ جائ ے تو و ہ اس سال ک ے دوران اپن ے منافع س ے م ہیا کر سکتا ہے۔

۱۷۹۵ ۔ اگر کس ی شخص کو سارا سال کوئی منافع نہ ہ و اور و ہ اپن ے اخراجات قرض ل ے کر پور ے کر ے تو و ہ آئند ہ سالوں ک ے منافع س ے قرض ک ی رقم منہ ا ن ہیں کر سکتا لیکن اگر سال کے شروع م یں اپنے اخراجات پور ے کرن ے ک ے لئ ے قرض ل ے اور سال ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے منافع کمائ ے تو اپن ے قرض ے ک ی رقم اس منافع میں سے من ہ ا کر سکتا ہے۔ اور اس ی طرح پہ ل ے صورت م یں وہ اس قرض کو اس سال ک ے منافع س ے ادا کرسکتا ہے اور منافع ک ی اس مقدار سے خمس کا کوئ ی تعلق نہیں۔

۱۷۹۶ ۔ اگر کوئ ی شخص مال بڑھ ان ے ک ی غرض سے یا ایسی املاک خریدنے کے لئ ے جس ک ی اسے ضرورت ن ہ ہ و قرض ل ے تو و ہ اس سال ک ے منافع س ے اس قرض کو ادا ن ہیں کر سکتا۔ہ اں جو مال بطور قرض ل یا ہ و یا جو چیز اس قرض سے خر یدی ہ و اگر و ہ تلف ہ وجائ ے تو اس صورت م یں وہ اپنا قرض اس سال ک ے منافع م یں سے ادا کر سکتا ہے۔

۱۷۹۷ ۔ انسان ہ ر اس چ یز کا جس پر خمس واجب ہ و چکا ہ و اس ی چیز کی شکل میں خمس دے سکتا ہے اور اگر چا ہے تو جتنا خمس اس پر واجب ہ و اس ک ی قیمت کے برابر رقم ب ھی دے سکتا ہے ل یکن اگر کسی دوسری جنس کی صورت میں جس پر خمس واجب نہ ہ و د ینا چاہے تو محل اشکال ہے بجز اس ک ے ک ہ ا یسا کرنا حاکم شرع کی اجازت سے ہ و ۔

۱۷۹۸ ۔ جس شخص ک ے مال پر خمس واجب الادا ہ و اور سال گزر گ یا ہ و ل یکن اس نے خمس ن ہ د یا ہ و اور خمس د ینے کا ارادہ ب ھی نہ رک ھ تا ہ و و ہ اس مال م یں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ احت یاط واجب کی بنا پر اگر خمس دینے کا ارادہ رک ھ تا ہ و تب ب ھی وہ تصرف ن ہیں کرسکتا۔

۱۷۹۹ ۔ جس شخص کو خمس ادا کرنا ہ و و ہ یہ نہیں کر سکتا کہ اس خمس کو اپن ے ذم ے ل ے یعنی اپنے آپ کو خمس ک ے مستحق ین کا مقروض تصور کرے اور سارا مال استعمال کرتا ر ہے اور اگر استعمال کر ے اور و ہ مال تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔

۱۸۰۰ ۔ جس شخص کو خمس ادا کرنا ہ و اگر و ہ حاکم شرع س ے مفا ہ مت کرک ے خمس کو اپن ے ذم ے ل ے ل ے تو سارا مال استعمال کر سکتا ہے اور مفا ہ مت ک ے بعد اس مال س ے جو منافع اس ے حاصل ہ و و ہ اس کا اپنا مال ہے۔

۱۸۰۱ ۔ جو شخص کاروبار م یں کسی دوسرے ک ے سات ھ شر یک ہ و اگر و ہ اپن ے منافع پر خمس د ے د ے اور اس کا حص ے د ار نہ د ے اور آئند ہ سال و ہ حص ے دار اس مال کو جس کا خمس اس ن ے ن ہیں دیا ساجھے م یں سرمائے ک ے طور پر پ یش کرے تو و ہ شخص (جس ن ے خمس ادا کر د یا ہ و) اگر ش یعہ اثنا عشری مسلمان ہ و تو اس مال کو استمعال م یں لاسکتا ہے۔

۱۸۰۲ ۔ اگر نابالغ بچ ے ک ے پاس کوئ ی سرمایہ ہ و اور اس سے منافع حاصل ہ و تو اقو ی کی بنا پر اس کا خمس دینا ہ وگا اور اسک ے ول ی پر واجب ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر ول ی خمس نہ د ے تو بالغ ہ ون ے ک ے بعد واجب ہے ک ہ و ہ خود اس کا خمس د ے۔

۱۸۰۳ ۔ جس شخص کو کس ی دوسرے شخص س ے کوئ ی مال ملے اور اس ے شک ہ و ک ہ (مال د ینے والے ) دوسر ے شخص ن ے اس کا خمس د یا ہے یا نہیں تو وہ (مال حاصل کرن ے والا شخص) اس مال م یں تصرف کرسکتا ہے۔ بلک ہ اگر یقین بھی ہ و ک ہ اس دوسر ے شخص ن ے خمس ن ہیں دیا تب بھی اگر وہ ش یعہ اثنا عشری مسلمان ہ و تو اس مال م یں تصرف کر سکتا ہے۔

۱۸۰۴ ۔ اگر کوئ ی شخص کاروبار کے منافع سے سال ک ے دوران ا یسی جائداد خریدے جو اس کی سال بھ ر ک ی ضروریات اور اخراجات میں شمار نہ ہ و تو اس پر واجب ہے ک ہ سال ک ے خاتم ے پر اس کا خمس د ے اور اگر خمس ن ہ د ے اور اس جائداد ک ی قیمت بڑھ جائ ے تو لازم ہے ک ہ اس ک ی موجودہ ق یمت پر خمس دے اور جائداد ک ے علاو ہ ق الین وغیرہ کے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے۔

۱۸۰۵ ۔ جس شخص ن ے شروع س ے ( یعنی جب سے اس پر خمس ک ی ادائیگی واجب ہ وئ ی ہ و) خمس ن ہ د یا ہ و مثال ک ے طور پر اگر و ہ کوئ ی جائداد خریدے اور اس کی قیمت بڑھ جائ ے اور اگر اس ن ے یہ جائداد اس ارادے س ے ن ہ خر یدی ہ و ک ہ اس ک ی قیمت بڑھ جائ ے گ ی تو بیچ دے گا مثلا ک ھیتی باڑی کے ل ئے زمین خریدی ہ و اور اس ک ی قیمت اس رقم سے ادا ک ی ہ و جس پر خمس ن ہ د یا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ق یمت خرید پر خمس دے اور مثلاً اگر ب یچنے والے کو و ہ رقم د ی ہ و جس پر خمس ن ہ د یا ہ و اور اس س ے ک ہ ا ہ و ک ہ م یں یہ جائداد اس رقم سے خر یدتا ہ وں تو ضروری ہے ک ہ اس جائداد ک ی موجودہ قیمت پر خمس دے۔

۱۸۰۶ ۔ جس شخص ن ے شروع س ے ( یعنی جب سے خمس ک ی ادائیگی اس پر واجب ہ وئ ی) خمس نہ د یا ہ و اگر اس ن ے اپن ے کاروبار ک ے منافع س ے کوئ ی ایسی چیز خریدی ہ و جس ک ی اسے ضرورت ن ہ ہ و اور اس ے منافع کمائ ے ا یک سال گزر گیا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر اس ن ے گ ھ ر کا سازوسا مان اور ضرورت کی چیزیں اپنی حیثیت کے مطابق خر یدی ہ وں اور جانتا ہ و ک ہ اس ن ے یہ چیزیں اس سال کے دوران اس منافع س ے خر یدی ہیں جس سال میں اسے منافع ہ وا ہے تو ان پر خمس د ینا لازم نہیں لیکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ حاکم شرع س ے م فاہ مت کرے۔

معدنی کانیں

۱۸۰۷ ۔ سون ے ، چاند ہ ، س یسے ، تانبے ، لو ہے (ج یسی دھ اتوں ک ی کانیں) نیز پیڑ ول یم، کوئلے ، ف یروزے ، عقیق، پھٹ کر ی یا نمک کی کانیں اور (اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمر ے م یں آتی ہیں یعنی یہ امام عصر علیہ السلام کی ملکیت ہیں۔ ل یکن اگر کوئی شخص ان میں سے کوئ ی چیز نکالے جب کہ شرعا کوئ ی حرج نہ ہ و تو و ہ اس ے اپن ی ملکیت قرار دے سکتا ہے اور اگر و ہ چ یز نصاب کے مطابق ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔

۱۸۰۸ ۔ کان س ے نکل ی ہ وئ ی چیز کا نصاب ۱۵ مثقال مروجہ سک ہ دار سونا ہے یعنی اگر کان سے نکال ی ہ وئ ی کسی چیز کی قیمت ۱۵ مثقال سکہ دار سون ے تک پ ہ نچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس پر جو اخراجات آئ ے ہ وں ان ہیں منہ ا کرک ے جو باق ی بچے اس کا خمس د ے۔

۱۸۰۹ ۔ جس شخص ن ے کان س ے منافع کما یا ہ و اور جو چ یز کان سے نکالی ہ و اگر اس ک ی قیمت ۱۵ مثقال سکہ دار سون ے تک ن ہ پ ہ نچ ے تو اس پر خمس تب واجب ہ وگا جب صرف یہ منافع یا اس کے دوسر ے منافع اس منافع کو ملا کر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ وجائ یں۔

۱۸۱۰ ۔ جپسم، چونا، چکن ی مٹی اور سرخ مٹی پر احتیاط لازم کی بنا پر معدنی چیزوں کے حکم کا اطلاق ہ وتا ہے ل ہ ذا اگر یہ چیزیں حد نصاب تک پہ نچ جائ یں تو سال بھ ر ک ے اخراجات نکالن ے س ے پ ہ ل ے ان کا خمس د ینا ضروری ہے۔

۱۸۱۱ ۔ جو شخص کان س ے کوئ ی چیز نکالے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے خوا ہ و ہ کان زم ین کے اوپر ہ و یا زیر زمین اور خواہ ا یسی زمین میں ہ و جو کس ی کی ملکیت ہ و یا ایسی زمین میں ہ و جس کا کوئ ی مالک نہ ہ و ۔

۱۸۱۲ ۔ اگر کس ی شخص کو یہ معلوم نہ ہ و ک ہ جو چ یز اس نے کان س ے نکال ی ہے اس ک ی قیمت ۱۵ مثقال سکہ دار سون ے ک ے برابر ہے یا نہیں تو احتیاط لازم یہ ہے ک ہ اگر ممکن ہ و تو وزن کرک ے یا کسی اور طریقے اس کی قیمت معلوم کرے۔

۱۸۱۳ ۔ اگر کئ ی افراد مل کر کان سے کئ ی چیز نکالیں اور اس کی قیمت ۱۵ مثقال سکہ دار سون ے تک پ ہ نچ جائ ے ل یکن ان میں سے ہ ر ا یک کا حصہ اس مقدار س ے کم ہ و تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ خمس د یں۔

۱۸۱۴ ۔ اگر کوئ ی شخص اس معدنی چیز کو جو زیر زمین دوسرے ک ی ملکیت میں ہ و اس ک ی اجازت کے بغ یر اس کی زمین کھ ود کر نکال ے تو مش ہ ور قول یہ ہے ک ہ "جو چ یز دوسرے ک ی زمین سے نکال ی جائے و ہ اس ی مالک کی ہے " ل یکن یہ بات اشکال سے خال ی نہیں اور بہ تر یہ ہے ک ہ با ہ م معامل ہ ط ے ک رے اور اگر آپس میں سمجھ وت ہ ن ہ ہ وسک ے تو حاکم شرع ک ی طرف رجوع کریں تاکہ و ہ اس تنازع کا ف یصلہ کرے۔

گڑ ا ہ وا دف ینہ

۱۸۱۵ ۔ دف ینہ وہ مال ہے جو زم ین یا درخت یا پہ ا ڑ یا دیوار میں گڑ ا ہ وا ہ و اور کوئ ی اسے و ہ اں س ے نکال ے اور اس ک ی صورت یہ ہ و ہ اس ے دف ینہ کہ ا جاسک ے۔

۱۸۱۶ ۔ اگر انسان کو کس ی ایسی زمین سے دف ینہ ملے جو کس ی کی ملکیت نہ ہ و تو و ہ اس ے اپن ے قبض ے م یں لے سکتا ہے یعنی اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے ل یکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

۱۸۱۷ ۔ دف ینے کا نصاب ۱۰۵ مثقال سکہ دار چاند ی اور ۱۵ مثقال سکہ دار سونا ہے یعنی جو چیز دفینے سے مل ے اگر اس ک ی قیمت ان دونوں میں سے کس ی ایک کے ب ھی برابر ہ و تو اس کا خمس د ینا واجب ہے۔

۱۸۱۸ ۔ اگر کس ی شخص کو ایسی زمین سے دف ینہ ملے جو اس ن ے کس ی سے خر یدی ہ و اور اس ے معلوم ہ و ک ہ یہ ان لوگوں کا مال نہیں ہے جو اس س ے پ ہ ل ے اس زم ین کے مالک ت ھے اور و ہ یہ نہ جانتا ہ و ک ہ مالک مسلمان ہے یا ذمی ہے اور و ہ خود یا اس کے وارث زندہ ہیں تو وہ اس دف ینے کو اپنے قبض ے م یں لے سکتا ہے ل یکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔ اور اگر اس ے احتمال ہ و ک ہ یہ سابقہ مالک کا مال ہے جب ک ہ زم ین اور اسی طرح دفینہ یا وہ جگ ہ ضمناً زم ین میں شامل ہ ون ے ک ی بنا پر اس کا حق ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے اطلاع د ے اور اگر یہ معلوم ہ و ک ہ اس کا مال ن ہیں تو اس شکص کو اطلاع دے جو اس س ے ب ھی پہ ل ے اس زم ین کا مالک تھ ا اور اس پر اس کا حق ت ھ ا اور اس ی ترتیب سے ان تمام لوگوں کو اطلاع د ے جو خود اس س ے پ ہ ل ے اس زم ین کے مالک ر ہے ہ وں اور اس پر ان کا حق ہ و اور اگر پتہ چل ے ک ہ و ہ ان م یں سے کس ی کا بھی مال نہیں ہے تو پ ھ ر و ہ اس ے ا پنے قبضے م یں لے سکتا ہے ل یکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

۱۸۱۹ ۔ اگر کس ی شخص کو ایسے کئی برتنوں سے مال مل ے جو ا یک جگہ دفن ہ وں اور اس مال ک ی مجموعی قیمت ۱۰۵ مثقال چاندی یا ۱۵ مثقال سونے ک ے برابر ہ و تو ضروری ہے ک ہ اس مال کا خمس د ے ل یکن اگر مختلف مقامات سے دف ینے ملیں تو ان میں سے جس دف ینے کی قیمت مذکورہ مقدار تک پ ہ نچ ے اس پر خمس واجب ہے اور جب دف ینے کی قیمت اس مقدار تک نہ پ ہ نچ ے اس پر خمس ن ہیں ہے۔

۱۸۲۰ ۔ جب دو اشخاص کو ا یسا دفینہ ملے جس ک ی قیمت ۱۰۵ مثقال چاندی یا ۱۵ مثقال سونے تک پ ہ نچت ی ہ و ل یکن ان میں سے ہ ر ا یک کا حصہ اتنا ن ہ بنتا ہ و تو اس پر خمس ادا کرنا ضرور ی نہیں ہے۔

۱۸۲۱ ۔ اگر کوئ ی شخص جانور خریدے اور اس کے پ یٹ سے اس ے کوئ ی مال ملے تو اگر اس ے احتمال ہ و ک ہ یہ مال بیچنے والے یا پہ ل ے مالک کا ہے او ر وہ جانور پر اور جوکچ ھ اس ک ے پ یٹ سے برآمد ہ وا ہے اس پر حق رک ھ تا ہے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے اطلاع د ے اور اگر معلوم ہ و ک ہ و ہ مال ان م یں سے کس ی ایک کا بھی نہیں ہے تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اس کا خمس د ے اگرچ ہ و ہ مال دف ینے کے نصاب ک ے برابر ن ہ ہ و ۔ اور یہ حکم مچھ ل ی اور اس کی مانند دوسرے ا یسے جانداروں کے لئ ے ب ھی ہے جن ک ی کوئی شخص کسی مخصوص جگہ م یں افزائش و پرورش کرے اور ان ک ی غذا کا انتظام کرے۔ اور اگر سمندر یا دریا سے اس ے پک ڑے تو کس ی کو اس کی اطلاع دینا لازم نہیں۔

وہ حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہ و جائ ے

۱۸۲۲ ۔ اگر حلال مال حرام مال کے سات ھ اس طرح مل جائ ے ک ہ انسان ان ہیں ایک دوسرے س ے الگ ن ہ کر سک ے اور حرام مال ک ے مالک اور اس مال ک ی مقدار کا بھی علم نہ ہ و اور یہ بھی علم نہ ہ و ک ہ حرام مال ک ی مقدار خمس سے کم ہے یا زیادہ تو تمام مال کا خمس قربت مطلقہ ک ی نیت سے ا یسے شخص کو دے جو خمس کا اور مال مج ہ ول المالک کا مستحق ہے اور خمس د ینے کے بعد باق ی مال اس شخص پر حلال ہے۔

۱۸۲۳ ۔ اگر حلال مال حرام مال س ے مل جائ ے تو انسان حرام ک ی مقدار ۔ خوا ہ و ہ خمس س ے کم ہ و یا زیادہ۔ جانتا ہ و ل یکن اس کے مالک کو ن ہ جانتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اتن ی مقدار اس مال کے مالک ک ی طرف سے صدق ہ کر د ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ حاکم شرع س ے ب ھی اجازت لے۔

۱۸۲۴ ۔ اگر حلال مال حرام مال س ے مل جائ ے اور انسان کو حرام ک ی مقدار کا علم نہ ہ و ل یکن اس مال کے مالک کو پ ہ چانتا ہ و اور دونوں ا یک دوسرے کو راض ی نہ کرسک یں تو ضروری ہے کہ جتن ی مقدار کے بار ے م یں یقین ہ و ک ہ دوسر ے کا مال ہے و ہ اس ے د یدے۔ بلک ہ اگر دو مال اس ک ی اپنی غلطی سے مخلوط ہ وئ ے ہ وں تو احت یاط کی بنا پر جس مال کے بار ے م یں اسے احتمال ہ و ک ہ یہ دوسرے کا ہے اس ے اس مال س ے ز یادہ دینا ضروری ہے۔

۱۸۲۵ ۔ اگر کوئ ی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے د ے اور بعد م یں اسے پت ہ چل ے ک ہ حرام ک ی مقدار خمس سے ز یادہ تھی تو ضروری ہے ک ہ جتن ی مقدار کے بار ے م یں علم ہ و ک ہ خمس س ے ز یادہ تھی اسے اس ک ے مالک ک ی طرف سے صدق ہ کر د ے ۔

۱۸۲۶ ۔ اگر کوئ ی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس د ے یا ایسا مال جس کے مالک کو ن ہ پ ہ چانتا ہ و مال ک ے مالک ک ی طرف سے صدق ہ کر د ے اور بعد م یں اس کا مالک مل جائے تو اگر و ہ راض ی نہ ہ و تو احت یاط لازم کی بنا پر اس کے مال ک ے برابر اس ے د ینا ضروری ہے۔

۱۸۲۷ ۔ اگر حلال مال حرام مال س ے مل جائ ے اور حرام ک ی مقدار معلوم ہ و اور انسان جانتا ہ و ک ہ اس کا مالک چند لوگوں م یں سے ہی کوئی ایک ہے ل یکن یہ نہ جانتا ہ و ک ہ و ہ کون ہے تو ان سب کا اطلاع د ے چنانچ ہ ان م یں سے کوئ ی ایک کہے ک ہ یہ میرا مال ہے اور دوسر ے ک ہیں کہ ہ مارا مال ن ہیں یا اس مال کے بار ے م یں لاعلمی کا اظہ ار کر یں تو اسی پہ ل ے شخص کو و ہ مال دیدے اور اگر دو یا دو سے ز یادہ آدمی کہیں کہ یہ ہ مارا مال ہے اور صلح یا اسی طرح کسی طریقے سے و ہ معامل ہ حل ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ تنازع ک ے حل ک ے لئ ے حاکم شرع س ے رجوع کر یں اور اگر وہ سب لاعلمی کا اظہ ار کر یں اور باہ م صلح ب ھی نہ کر یں تو ظاہ ر یہ ہے ک ہ اس مال ک ے مالک کا تع ین قرعہ انداز ی کے ذر یعے ہ وگا اور احت یاط یہ ہے ک ہ حاکم شرع یا اس کا وکیل قرعہ انداز ی کی نگرانی کرے۔

غَوَّاصِی سے حاصل کئ ے ہ وئ ے موت ی

۱۸۲۸ ۔ اگر غواص ی کے ذر یعے یعنی سمندر میں غوطہ لگا کر لُئولُئو، مرجان یا دوسرے موت ی نکالے جائ یں تو خواہ و ہ ا یسی چیزوں میں سے ہ وں جو اگت ی ہیں۔ یا معدنیات میں سے ہ وں اگر اس ک ی قیمت ۱۸ چنے سون ے ک ے برابر ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د یا جائے خوا ہ ان ہیں ایک دفعہ میں سمندر سے نکالا گ یا ہ و یا ایک سے ز یادہ دفعہ م یں بشرطیکہ پہ ل ی دفعہ اور دوسر ی دفعہ غوط ہ لگان ے م یں زیادہ فاصلہ ن ہ ہ و مثلاً یہ کہ دو موسموں م یں غواصی کی ہ و ۔ بصورت د یگر ہ ر ا یک دفعہ م یں ۱۸ چنے سون ے ک ی قیمت کے برابر ن ہ ہ و تو اس کا خمس د ینا واجب نہیں ہے۔ اور اسی طرح جب غواصی میں شریک تمام غوطہ خوروں م یں سے ہ ر ا یک کا حصہ ۱۸ چنے سون ے ک ی قیمت کے برابر ن ہ ہ و تو ان پر اس خمس د ینا واجب نہیں ہے۔

۱۸۲۹ ۔ اگر سمندر م یں غوطہ لگائ ے بغ یر دوسرے ذرائع س ے موت ی نکالے جائ یں تو احتیاط کی بنا پر ان پر خمس واجب ہے۔ ل یکن اگر کوئی شخص سمندر کے پان ی کی سطح یا سمندر کے کنار ے س ے موت ی حاصل کرے تو ان کا خمس اس ے اس صورت میں دینا ضروری ہے جب جو موت ی اسے دست یاب ہ وئ ے ہ وں و ہ تنہ ا یا اس کے کاروبار ک ے دوسر ے منافع س ے مل کر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و ۔

۱۸۳۰ ۔ مچ ھ ل یوں اور ان دوسرے (آب ی) جانوروں کا خمس جنہیں انسان سمندر میں غوطہ لگائ ے بغ یر حاصل کرتا ہے اس صورت م یں واجب ہ وتا ہے جب ان چ یزوں سے حاصل کرد ہ منافع تن ہ ا یا کاروبار کے دوسر ے منافع س ے مل کر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و ۔

۱۸۳۱ ۔ اگر انسان کوئ ی چیز نکالنے کا اراد ہ کئ ے بغ یر سمندر میں غوطہ لگائ ے اور اتفاق س ے کوئ ی موتی اس کے ہ ات ھ لگ جائ ے اور و ہ اس ے اپن ی ملکیت میں لینے کا ارادہ کر ے تو اس کا خمس د ینا ضروری ہے بلک ہ احت یاط واجب یہ ہے ک ہ ہ ر حال م یں اس کا خمس دے۔

۱۸۳۲ ۔ اگر انسان سمندر م یں غوطہ لگائ ے اور کوئ ی جانور نکال لائے اور اس ک ے پ یٹ میں سے اس ے کوئ ی موتی ملے تو اگر و ہ جانور س یپی کی مانند ہ و جس ک ے پ یٹ میں عموماً موتی ہ وت ے ہیں اور وہ نصاب تک پ ہ نچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر و ہ کوئ ی ایسا جانور ہ و جس ن ے اتفاقاً موت ی نگل لیا ہ و تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اگرچ ہ و ہ حدنصاب تک ن ہ پ ہ نچ ے تب ب ھی اس کا خمس دے۔

۱۸۳۳ ۔ اگر کوئ ی شخص بڑے در یاوں مثلاً دجلہ اور فرات م یں غوطہ لگائ ے اور موت ی نکال لائے تو اگر اس در یا میں موتی پیدا ہ وت ے ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ (جو موت ی نکالے ) ان کا خمس د ے۔

۱۸۳۴ ۔ اگر کوئ ی شخص پانی میں غوطہ لگائ ے اور کچ ھ عنبر نکال لائ ے اور اس ک ی قیمت ۱۸ چنے سون ے یا اس سے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے کہ اس کا خمس د ے بلک ہ اگر پان ی کی سطح یا سمندر کے کنار ے س ے ب ھی حاصل کرے تو اس کا ب ھی یہی حکم ہے۔

۱۸۳۵ ۔ جس شخص کا پ یشہ غوطہ خور ی یا کان کنی ہ و اگر و ہ ان کا خمس ادا کر د ے اور پ ھ ر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے کچ ھ بچ ر ہے تو اس ک ے لئ ے یہ لازم نہیں کہ دوبار ہ اس کا خمس ادا کرے۔

۱۸۳۶ ۔ اگر بچ ہ کوئ ی معدنی چیز نکالے یا اسے کوئ ی دفینہ مل جائے یا سمندر میں غوطہ لگا کر موت ی نکال لائے تو بچ ے کا ول ی اس کا خمس دے اور اگر ول ی خمس ادا نہ کر ے تو ضرور ی ہے ک ہ بچ ہ بالغ ہ ون ے ک ے بعد خود خمس ادا کر ے اور اس ی طرح اگر اس کے پاس حرام مال م یں حلال مال میں حلال مال ملا ہ وا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا ول ی اس مال کا پاک کرے۔

مال غنیمت

۱۸۳۷ ۔ اگر مسلمان امام عل یہ السلام کے حکم س ے کفار س ے جنگ کر یں اور جو چیزیں جنگ میں ان کے ہ ات ھ لگ یں انہیں "غنیمت" کہ ا جاتا ہے۔ اور اس مال ک ی حفاظت یا اس کی نقل و حمل وغیرہ کے مصارف من ہ ا کرن ے ک ے بعد اور جو رقم امام عل یہ السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کر یں اور جو مال، خاص امام علیہ السلام کا حق ہے اس ے عل یحدہ کرنے ک ے بعد باق یماندہ پر خمس ادا کیا جائے۔ مال غن یمت پر خمس ثابت ہ ون ے م یں اشیائے منقولہ اور غ یر منقولہ م یں کوئی فرق نہیں۔ ہ اں جن زم ینوں کا تعلق "انفال" سے ہے و ہ تمام مسلمانوں ک ی مشترکہ ملک یت ہیں اگرچہ جنگ ا مام علیہ السلام کی اجازت سے ن ہ ہ و ۔

۱۸۳۸ ۔ اگر مسلمان کافروں س ے امام عل یہ السلام کی اجازت کے بغ یر جنگ کریں اور ان سے مال غن یمت حاصل ہ و تو جو غن یمت حاصل ہ و و ہ امام عل یہ السلام کی ملکیت ہے اور جنگ کرن ے والوں کا اس م یں کوئی حق نہیں۔

۱۸۳۹ ۔ جو کچ ھ کافروں ک ے ہ ات ھ م یں ہے اگر اس کا مالک مُحتَرمُ المَال یعنی مسلمان یا کافرِ ذمّی ہ و تو اس پر غن یمت حاصل ہ و تو جو غن یمت حاصل ہ و و ہ امام عل یہ السلام کی ملکیت ہے اور جنگ کرن ے والوں کا اس م یں کوئی حق نہیں۔

۱۸۴۰ ۔ کافر حَرب ہ کا مال چرانا اور اس ج یسا کوئی کام کرنا اگر خیانت اور نقص امن میں شمار ہ و تو حرام ہے اور اس طرح ک ی جو چیزیں ان سے حاصل ک ی جائیں احتیاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ ان ہیں لوٹ ا د ی جائیں۔

۱۸۴۱ ۔ مش ہ ور یہ ہے ک ہ ناصب ی کا مال مومن اپنے لئ ے ل ے سکتا ہے البت ہ اس کا خمس د ے ل یکن یہ حکم اشکال سے خال ی نہیں ہے۔

وہ زمین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خر یدے

۱۸۴۲ ۔ اگر کافر ذم ی مسلمان سے زم ین خریدے تو مشہ ور قول ک ی بنا پر اس کا خمس اسی زمین سے یا اپنے کس ی دوسرے مال س ے د ے ل یکن خمس کے عام قواعد ک ے مطابق اس صورت م یں خمس کے واجب ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

خمس کا مصرف

۱۸۴۳ ۔ ضرور ی ہے ک ہ خمس دو حصوں م یں تقسیم کیا جائے۔ اس کا ا یک حصہ سادات کا حق ہے اور ضرور ی ہے ک ہ کس ی فقیر سید یا یتیم سید یا ایسے سید کو دیا جائے جو سفر م یں ناچار ہ وگ یا ہ و ۔ اور دوسرا حص ہ امام عل یہ السلام کا ہے جو ضرور ی ہے ک ہ موجود ہ زمان ے م یں جامع الشرائط مجہتد کر دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی وہ مجت ہ د اجازت د ے خرچ ک یا جائے اور احت یاط لازم یہ ہے ک ہ و ہ مرجع اعلم عموم ی مصلحتوں سے آگا ہ ہ و ۔

۱۸۴۴ ۔ جس یتیم سید کو خمس دیا جائے ضرور ی ہے ک ہ و ہ فق یر بھی ہ و ل یکن جو سید سفر میں ناچار ہ و جائ ے و ہ خوا ہ اپن ے وطن م یں فقیر نہ ب ھی ہ و اس ے خمس د یا جاسکتا ہے۔

۱۸۴۵ ۔ جو س ید سفر میں ناچار ہ وگ یا ہ و اگر اس کا سفر گنا ہ کا سفر ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ اس ے خمس ن ہ د یا جائے۔

۱۸۴۶ ۔ جو س ید عادل نہ ہ و اس ے خمس د یا جاسکتا ہے ل یکن جو سید اثنا عشری نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے خمس ن ہ د یا جائے۔

۱۸۴۷ ۔ جو س ید گناہ کا کام کرتا ہ و اگر اس ے خمس د ینے سے گنا ہ کرن ے م یں اس کی مدد ہ وت ی ہ و تو اس ے خمس ن ہ د یا جائے اور احوط یہ ہے ک ہ اس س ید کو بھی خمس نہ د یا جائے جو شراب پ یتاہ و یا نماز نہ پ ڑھ تا ہ و یا علانیہ گناہ کرتا ہ و گو خمس د ینے سے اس ے گنا ہ کرن ے م یں مدد نہ مل تی ہ و ۔

۱۸۴۸ ۔ جو شخص ک ہے ک ہ س ید ہ وں اس ے اس وقت تک خمس ن ہ د یا جائے جب تک دو عادل اشخاص اس ک ے س ید ہ ون ے ک ی تصدیق نہ کرد یں یا لوگوں میں اس کا سید ہ ونا اتنا مش ہ ور ہ و ک ہ انسان کو یقین اور اطمینان ہ و جائ ے ک ہ و ہ س ید ہے۔

۱۸۴۹ ۔ کوئ ی شخص اپنے ش ہ ر م یں سید مشہ ور ہ و اور اس ک ے س ید نہ ہ ون ے ک ے بار ے م یں جو باتیں کی جاتی ہ وں انسان کو ان پر یقین یا اطمینان نہ ہ و تو اس ے خمس د یا جاسکتا ہے۔

۱۸۵۰ ۔ اگر کس ی شخص کی بیوی سیدانی ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ شو ہ ر اس ے اس مقصد ک ے لئ ے خمس ن ہ د ے ک ہ و ہ اس ے اپن ے ذات ی استعمال میں لے آئ یں لیکن اگر دوسرے لوگوں ک ی کفالت اس عورت پر واجب ہ وں اور و ہ ان اخراجات ک ی ادائیگی سے قاصر ہ و تو انسان ک ے لئ ے جا ئز ہے ک ہ اپن ی بیوی کو خمس دے تاک ہ و ہ ز یر کفالت لوگوں پر خرچ کرے۔ اور اس عورت کو اس غرض س ے خمس د ینے کے بار ے م یں بھی یہی حکم ہے جبک ہ و ہ ( یہ رقم) اپنے غ یر واجب اخراجات پر صرف کرے ( یعنی اس مقصد کے لئ ے اس خمس ن ہیں دینا چاہ ئ ے ) ۔

۱۸۵۱ ۔ اگر انسان پر کس ی سید کے یا ایسی سیدانی کے اخراجات واجب ہ وں جو اس ک ی بیوی نہ ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر وہ اس س ید یا سیدانی کے خوراک اور پوشاک ک ے اخراجات اور باق ی واجب اخراجات اپنے خمس س ے ادا ن ہیں کر سکتا۔ ہ اں اگر و ہ اس س ید یا سیدانی کو خمس کی کچھ رق م اس مقصد سے د ے ک ہ و ہ واجب اخراجات ک ے علاو ہ اسے دوسر ی ضروریات پر خرچ کرے تو کوئ ی حرج نہیں۔

۱۸۵۲ ۔ اگر کس ی فقیر سید کے اخراجات کس ی دوسرے شخص پر واجب ہ وں اور و ہ شخص اس س ید کے اخراجات برداشت ن ہ کر سکتا ہ و یا استطاعت رکھ تا ہ و ل یکن نہ د یتا ہ و تو اس س ید کو خمس دیا جاسکتا ہے۔

۱۸۵۳ ۔ احت یاط واجب یہ ہے ک ہ کس ی ایک فقیر سید کو اس کے ا یک سال کے اخراجات س ے ز یادہ خمس نہ د یا جائے ۔

۱۸۵۴ ۔ اگر کس ی شخص کے ش ہ ر م یں کوئی مستحق سید نہ ہ و اور اس ے یقین یا اطمینان ہ و ک ہ کوئ ی ایسا سید بعد میں بھی نہیں ملے گا یا جب تک کوئی مستحق سید ملے خمس ک ی حفاظت کرنا ممکن نہ ہ و تو ضرور ی ہے کہ خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جائ ے اور مستحق کو پ ہ نچا د ے اور خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے ج انے کے اخراجات خمس م یں سے ل ے سکتا ہے اور اگر خمس تلف ہ و جائ ے تو اگر اس شخص ن ے اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی برتی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے اور اگر کوتا ہی نہ برت ی ہ و تو اس پر کچ ھ ب ھی واجب نہیں ہے۔

۱۸۵۵ ۔ جب کس ی شخص کے اپن ے ش ہ ر م یں خمس کا مستحق شخص موجود نہ ہ و تو اگرچ ہ اس ے یقین یا اطمینان ہ و ک ہ بعد م یں مل جائے گا اور خمس ک ے مستحق شخص ک ے ملن ے تک خمس ک ی نگہ داشت ب ھی ممکن ہ و تب ب ھی وہ خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جاسکتا ہے اور اگر و ہ خمس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ برت ے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو اس ک ے لئ ے کوئ ی چیز دینا ضروری نہیں لیکن وہ خمس ک ے دوسر ی جگہ ل ے جان ے ک ے اخراجات خمس م یں سے ن ہیں لے سکتا ہے۔

۱۸۵۶ ۔ اگر کس ی شخص کے اپن ے ش ہ ر م یں خمس کا مستحق مل جائے تب ب ھی وہ خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جاکر مستحق کو پ ہ نچاسکتا ہے ال بتہ خمس کا ا یک شہ ر س ے دوسر ے ش ہ ر ل ے جانا اس قدرتاخ یر کا موجب نہ ہ و ک ہ خمس پ ہ نچان ے م یں سستی شمار ہ و ل یکن ضروری ہے ک ہ اس ے ل ے جان ے ک ے اخراجات خود ادا کر ے۔ اور اس صورت م یں اگر خمس ضائع ہ و جائ ے تو اگرچ ہ اس ن ے اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ برت ی ہ و و ہ اس کا ذم ہ دار ہے۔

۱۸۵۷ ۔ اگر کوئ ی شخص حاکم شرع کے حکم س ے خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جائ ے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو اس ک ے لئ ے دوبار ہ خمس د ینا لازم نہیں اور اسی طرح اگر وہ خمس حاکم شرع ک ے وک یل کو دے د ے جو خمس ک ی وصولی پر مامور ہ و اور و ہ وک یل خمس کو ایک شہ ر س ے دوسر ے ش ہ ر ل ے جائ ے تو اس ک ے لئ ے بھی یہی حکم ہے۔

۱۸۵۸ ۔ یہ جائز نہیں کہ کس ی چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے ز یادہ لگا کر اسے بطور خمس د یا جائے۔ اور ج یسا کہ مسئل ہ ۱۷۹۷ میں بتایا گیا ہے ک ہ کس ی دوسری جنس کی شکل میں خمس ادا کرنا ما سوا سونے اور چاند ی کے سکو ں اور انہین جیسی دوسری چیزوں کے ہ ر صورت م یں محل اشکال ہے۔

۱۸۵۹ ۔ جس شخص کو خمس ک ے مستحق شخص س ے کچ ھ ل ینا ہ و اور چا ہ تا ہ و ک ہ اپنا قرض ہ خمس ک ی رقم سے من ہ ا کر ل ے تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ یا تو حاکم شرع سے اجازت ل ے یا خمس اس مستحق کو دیدے اور بعد میں مستحق شخص اسے و ہ مال قرض ے ک ی ادائیگی کے طور پر لو ٹ ا د ے اور و ہ یہ بھی کر سکتا ہے ک ہ خمس ک ے مستحق شخص ک ی اجازت سے اس کا وک یل بن کر خود اس کی طرف سے خمس ل ے ل ے اور اس س ے اپنا قرض چکا ل ے۔

۱۸۶۰ ۔ مالک، خمس ک ے مستحق شخص س ے یہ شرط نہیں کر سکتا کہ و ہ خمس ل ینے کے بع د اسے واپس لو ٹ ا د ے۔ ل یکن اگر مستحق شخص خمس لینے کے بعد اس ے واپس د ینے پر راضی ہ و جائ ے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً جس شخص ک ے ذم ے خمس ک ی زیادہ رقم واجب الادا ہ و اور و ہ فق یر ہ و گ یا ہو اور چاہ تا ہ و ک ہ خمس ک ے مستح لوگوں کا مقروض ن ہ ر ہے تو اگر خمس کا مستحق شخص راضی ہ و جائ ے ک ہ اس س ے خمس ل ے کر پ ھ ر اس ی کو بخش دے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔

پہلی بحث:

امامت کے معانی و مراتب

ھماری بحث مسئلہ امامت سے متعلق ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ امامت کو ہم شیعوں کے یہاں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ جبکہ دوسرے اسلامی فرقوں میں اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ راز یہ ہے کہ شیعوں کے یہاں امامت کا جو مفہوم ہے وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے مختلف ہے ۔ اگر چہ بعض مشترک پہوبھی پائے جاتے ہیں ، لیکن شیعی عقاعد میں امامت کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے اور یہی پہلو امامت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم شیعہ اصول دین کو شیعی نقطہ نظر کے مطابق بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصول دین ، توحید ، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کاو مجموعہ ہے ۔ یعنی امامت کو اصول دین کا جز و شمار کرتے ہیں ۔ اہل تسنن بھی ایک طرح جو امامت کے قایل ہیں ۔ بنیادی طور سے امامت کے منکر نہیں ہیں وہ اسے دوسری شکل سے تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن وہ جس نوعیت سے تسلیم کرتے ہیں، اس میں امامت اصول دین کا جز ونہیں ہے بلکہ فروع دین کا جو ہے بہر حال ہم دونوں امامت کے مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ ایک اعتبار سے امامت کےقائل ہےیں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسلیم کرتے ہیں آخر یہ کیسے ہوا کہ شیعہ امامت کو اصول دین کا جزو انتے ہیں او اہل سنت اسے فروغ دین کا جزو سمجھتے ہیں ؟ اس کا سبب وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ اور ایہل سنت کے یہاں امامت کے مفہوم میں فرق ہے ۔

امام کے معنی :

امام کے معنی ہیں پیشوا یا رہبر ۔ لفظ امام، پیشوا یا رہبر بذات خود کوئی مقدس مفہوم نہیں رکھتے پیشوا یارہبر سے مراد ہے،آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع یا پیروی کی جائے ۔ چاہے وہ پیشوا عادی، ہدایت یافتہ اور صحیح راہ پر چلنے والاہو یا باطل اور گمراہ ہو۔ قرآن نے بھی لفظ امام کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے۔ایک جگہ فرماتا ہے :۔

"( وجعلنا هم أئمةیهدون بامرنا ) "(انبیاء / ۷۳ )

ہم نے ان کو امام قرار دیا ہے جو ہمارے حکم سے ہدایت و رہبری کرتے ہیں ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے :۔

( ائمه یدعون الی النار ) (قصص / ۷۱)

وہ امام جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔

یا مثلاًفرعون کے لئےبھی امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے :یقدم قومه یوم لاقیامة (۱)

"وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا ۔" معلوم ہوا کہ لفظاامام سے مراد پیشوا یا رہبر ہے ۔ ہمیں اس وقت باطل پیشوا یا رہبر سے سروکار نہیں ہے، یہاں صرف پیشوا یا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے۔

پیشوائی یا امامت کے چند مقامات ہیں جن میں سے بعض مفاہیم ہیں وہ سرے سے اس طرح کی مامت کے منکر ہیں۔نہ یہ کہ وہ امامت کو توقائل ہوں مگر مصداق میں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں ۔ جس امامت کے وہ قائل ہیں لیکن اس کی کیفیت و شکل اور افراد میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں اس سے مراد معاشرہ کی رہبری و سر پرستی ہے۔ چنانچہ یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیر زمانۂ قدیم سے متکلمین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب "تجرید الاعتقاد" میں امامت کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے "ریاسۃ عامۃ "یعنی "عمومی ریاست و حاکمیت" (یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے )

رسول اکرم(ص) کی حیثیت

پیغمبر اکرم، دین اسلام کی خصوصیت و جامعیت کی بنا پر قرآن اور خود اپنی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے زمانہ میں کئی حیثیتوں اور ذمہ داریوں کے حامل تھے، یعنی ایک ہی وقت میں کئی امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئی منصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کی جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملی طور سے کاربند تھے، پیغمبری و رسالت تھی ۔ یعنی آپ الٰہی احکام و قوانین کو بیان فرماتے تھے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے :"( ماآتاکم الرسول فخذوه وما نهیٰکم عنه فانتهوا ) (۲) "یعنی جو کچھ پیغمبر تمہارے لئےلایاہے اسے اختیار کرلواور جن چیزوں سے تمہیں منع کرتا ھے انھیں چھو ڑدو ۔ یعنی پیغمبر احکام و قوانین سے متعلق جو بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے ۔ اس اعتبار سے پیغمبر صرف ان چیزوں کا بیان کرنے والا ہے جو اس پر وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسرا منصب جس پر پیغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا یعنی وہ تمام مسلمانوں کے درمیان قاضی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں منصب قضاوت بھی کوئی یوں ہی سا بے معنی منصب نہیں ہے کہ جہاں کہیں دو آدمی آپس میں اختلاف کریں ایک تیسرا آدمی قاضی بن کر فیصلہ کر دے ۔ قضاوت اسلامی نقطہ ٔنظر سے ایک الٰہی منصب ہے کیونکہ یہاں عدل کا مسئلہ در پیش ہے ، قاضی وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرے ۔ یہ منصب بھی قرآن کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم کو تفوین ہوا اور آپ خدا کی جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ فرمائیں :( فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینهم ثم لا یجدو ا فی انفسهم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما ) (۳) "

معلوم ہوا یہ بھی ایک الٰہی منصب ہے کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے اور پیغمبر عملی طور پر قاضی بھی تھے ۔ تیسرا منصب جس پر پیغمبر قانونی طور سے فائز تھے یعنی قرآن کی رو سے آپ کو عطا کیا گیا تھا اور آپ اس پر عمل پیرابھی تھے ، یہی ریاست عامہ ہے یعنی وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامی معاشرہ کے سر پرست تھے ۔ کہتے ہیں کہ : "( اطیعو الله و اطیعو االرسول و اولی الامر منکم ) "کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے ۔ وہ تمہیں جو حکم دے اسے تسلیم کر و ۔ لہٰذا یہ تینوں صرف ظاہری اور دکھاوے کے نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر پیغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کی تین حیثیتیں ہیں ۔ ایک پیغمبر کا وہ کلام جو فقط وحی الٰہی ہے ۔ یہاں پیغمبر بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتے جو حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ پیغمبر اسے پہنچانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاں وہ دینی قوانین بیان کرتے ہیں کہ نمازیوں پڑھو ، روزہ ایسے رکھو وغیرہ ۔ وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحی ہے ۔ لیکن جب لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے ہیں اس وقت ان کے فیصلے وحی نہیں ہوتے ۔ یعنی دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں، پیغمبر اسلامی قوانین کے مطابق دونوں کے درمیا ن فیصلہ فرمادیتے ہیں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے یا اس شخص کے ۔ اب یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جبرءیل پیغمبر پر نازل ہوں اور وحی کے ذریعہ بتائیں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے یا نہٰں ہے ۔ ہا ں اگر کوئی استثنائی موقع ہوتو دوسری بات ہے ورنہ کلی طور پر پیغمبر کے فیصلہ انہیں ظاہری بنیادوں پر ہوتے ہیں جن پر دوسرے فیصلے کرتے ہیں فرق یہ ہے پیغمبر کے فیصلے بہت ہی دقیق اور اعلیٰ سطح کے ہوتے ہیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کیا گیا ہوں یعنی مثلامدعی اور مدعیٰ الیہ اکٹھا ہوں اور مدعی کے ساتھ دو عادل گواہ بھی ہوں تو پیغمبر اسی ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں یہ وہ فیصلہ ہے جو خود پیغمبر نے فرمایا ہے۔ آپ پر وہی نہیں نازل ہوئی ہے ۔

تیسری حیثیت بھی جس کے بموجب پیغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہیں اگر اس کے تحت وہ کوئی حکم دے یہ حکم بھی اس فرمان سے مختلف ہوگا جس میں پیغمبر وحی خدا کو پہچانتے ہیں ۔

خدا نے آپ کو ایسی ہی حاکمیت و رہبری کا اختیار دیا ہے اور ایک حق کی صورت میں آ پ کو منصب عطا فرمایا ہے اور وہ بھی رہبر ہونے کی حیثیت سے اپنے فراءض انجام دیتے ہیں لہٰذا اکثرآپ بعض امور میں لوگوں سے مشورہ بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بدر اور احد کی جنگوں میں ۔ نیز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا ۔ جب کہ حکم خدا میں تو مشورہ کی گنجاءش ہی نہیں ہوتی کیا کبھی پیغمبر نے اپنے اصحاب سے یہ مشورہ بھی لیا کہ مغرب کی نماز ایسے پڑھی جائے یا ویسے ؟ بلکہ اکثر ایسے مسائل پیش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر مادیا کرتے تھے کہ مسائل کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہی ایسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا لیکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل میں پیغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کی رآئے دریافت کیا کرتے تھے اب اگر کسی موقع پر پیغمبر کوئی حکم دے کہ ایسا کرو تو یہ اس اختیار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔ ہاں اگر کسی سلسلہ میں مخصوص طور پر وحی بھینازل ہوجائے تو ایک استثنائی بات ہوگی ۔

اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ یہ کہ تمام امور اور جزئیات میں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرہ کے لئےپیغمبر جو کام بھی انجام دیتے تھے ۔ خدا ان کے لئےان پر وحی نازل فرماتا تھا کہ یہاں یہ کرو وہاں یہ کرو اور اس طرح کے مسائل میں بھی پیغمبر صرف اک پیغام رساں کی حیثیت رکھتا رہا ہولہٰذا پیغمبر اسلام یقینی طور پر بیک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہیں ۔

امامت معاشرہ کی حاکمیت کے معنیٰ میں

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں امامت کا مطلب اپنے پہلے معنی کے مطابق ریاست عامہ ہے ۔ یعنی پیغمبر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا وہ عہدہ جسے معاشرہ کی رہبری کہتے ہیں، خالی ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی معاشرہ ایک رہبر کا محتاج ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد معاشرہ کا حاکم و رہبر کو ن ہے ؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے بنیادی لو۔ پر شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور سنّی بھی ۔ شیعہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ کو ایک اعلیٰ رہبر و قاعد اور حاکم کی ضرورت ہے اور سنّی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں خلافت کا مسئلہ اس شکل میں سامنے آتا ہے ۔ سیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے بعد ایک حاکم و رہبر معین کردیا اور فرمایا کہ میرے بعد مسلمانوں کے امور کے امام علی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے اور اہل سنت اس منطق سے اختلاف کرتےہوئےکم از کم اس شکل میں جس شکل میں شیعہ مانتے ہیں یہ بات قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں پیغمبر نے کسی خاص شخص کو معین نہیں فرمایا تھا ۔ بلکہ یہ خود مسلمانوں کا فرض تھا کہ پیغمبر کے بعد اپنا ایک حاکم ورہبر منتخب کرلیں چنانچہ وہ بھی بنیادی طور پر امامت و پیشوائیکو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حاکم و رہبر ضرور ہونا چاہءے بس اختلاف یہ ہے کہ ان کے نزدیک رہبر انتخاب کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم و رہبر کو خود پیغمبر نے وحی کے ذریعہ معین فرمادیا ہے ۔

اگر مسئلہ امامت یہیں تک محدود رہتا اور بات صرف پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے سیاسی رہبر کی ہوتی تو انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم شیعہ بھی امامت کو اصول دین کے بجائے فروع دین کا جزو قرار دیتےاور سمجھتے ہیں کہ یہ بھی نماز کی طرح ایک فرعی مسئلہ ہے لیکن شیعہ جس امامت کےقائل ہیں وہ اس قدر محدود نہیں ہے کہ چونکہ علی بھی دیگر اصحاب مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان اور سیکڑوں اصحاب یہاں تک کہ سلمان و ابوذر کی طرح پیغمبر کے ایک صحابی تھے لیکن ان سب سے بر تر و افضل، سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ متقی اور باصلاحیت تھے اور پیغمبر نے بھی انہیں معین فرمادیا تھا ۔ نہیں، شیعہ صرف اسی حد پر نہیں ٹھہرتے بلکہ امامت کے سلسلہ میں دو اور پہلووں کےقائل ہیں ۔ جن میں سے کسی ایک کو بھی اہل تسنن سرے سے نہیں مانتے ایسا نہیں ہے کہ امامت کی ان دوحیثیتوں کو تو مانتے ہوں لیکن علی کی امامت سے انکار کرتے ہوں، نہیں !ان میں سے یاک مسئلہ یہ ہے کہ امامت دینی مر جعیت کا عنوان رکھتی ہے ۔

امامت دینی مرجعیت کے معنی میں

ہم عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر وحی الٰہی کی تبلیغ کرنے والے اور اس کا پیغام پہونچانے والے تھے ۔ لوگ جب متن اسلامی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے یا قرآن میں مطلب نہ پاتے تھے پیغمبر سے سوال کرتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ اسلام جو کچھ معارف احکام اور قوانین بیان کرنا چاہتا تھا کیا وہ سب کے سب وہی ہے جو قرآن میں آگئے ہیں اور پیغمبر نے عام طور سے لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے ؟ یانہیں بلکہ قہری طور سے زمانہ اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پیغمبر تمام قوانینوں احکام عام طور سے لوگوں میں بیان کردیں علی پیغمبر کے وصی و جانشین تھے اور پیغمبر اسلام نے اسلام کی تمام چھوٹی بڑی باتیں یا کم از کم اسلام کے تمام کلیات علی سے بیان کردئےاور انہیں ایک بے مثال عالم غیر معلم اپنے اصحاب میں سے سب سے ممتاز انہیں کی طرح اپنء باتوں میں خطا و لغزش سے میری اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والی تمام باتوں سے واقف شخصیت کے عنوان سے لوگوں کےسامنے پیش کیا ار فرمایا اے لوگوں میرے بعد دینی مسائل میں جو کچھ پوچھنا ہو میرے اس وصی و جانشین اور اس کے بعد تما م آنے والے اوصیاء سے سوال کرنا در حقیقت یہاں امامت ایک کامل اسلام شناس کی حیثیت سے سامنے آتی ہے لیکن یہ اسلام شناس ایک مجتہد کی حد سے کہیں بالا تر ہے اس کی اسلام شناسی منجانب اللہ ہے اور اءمہ علیہ السلام یعنی واقعی اسلام شناس البتہ یہ وہ افراد نہیں ہے جنھوں نے اپنی عقل اور فکر کے ذریعے اسلام کو پہچانا ہوجن کے یہاں قہری طور پر خطا اور اشتباہ کا امکان بھی پایا جاتا ہو بلکہ انھوں نے ان غیبی اور مرموز ذرائع سے اسلامی علوم پیغمبر سے حاصل کئے ہیں جو ہم پر پوشیدہ پے او ر یہ علم پیغمبر سے علی علیہ السلام تک اور علی سے بعد کے اءمہ تک پہونچا ہے اور اءمہ علیہ السلام کے پورے دور میں یہ علم خطاوں سے بری معصوم علم کی صورت میں ایک امام سے دوسرے امام تک پہونچتا رہا ہے ۔

اہل سنت کسی شخص کے لئےاس منزلت و مقام کےقائلنہیں ہیں لہٰذا وہ سرے سے اس طرح کی امامت کے حامل کسی بھی امام کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یعنی وہ امامت کے ہی قائل نہیں ہیں، نہ یہ کہ امامت کے توقائل ہوں اور کہیں کہ علی امام نہیں ہیں، ابوبکر اس کے اہل ہیں، نہیں بلکہ وہ لوگ ابوبکر، عمر عثمان بلکہ کلی طور پر کسی ایک صحابی کے لئےبھی اس منصب یا مقام کو تسلیم نہیں کرتے ۔یہی سبب ہےکہ خود اپنی کتابوں میں ابوبکرعمر سے دینی مسائل میں ھزاروں اشتباہات اورغلطیاں نقل کرتے ہیں لیکن شیعہ اپنے اماموں کوخطائوں سے معصوم جانتے ہیں اور امام سے کسی خطا کےسرزدہ ونےکو محال سمجھتے ہیں (مثال کے طور پر اہل سنت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ) ابوبکرنے فلاں مقام پراشتباہ کیا اوربعد میں خود ہی کہا کہ "ان لی شیطاناً نعترینی" بلاشبہ ایک شیطان ہےجو اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہےاور میں غلطیاں کربیٹھتا ہوں،یا عمر نےفلاں مقام پرخطااورغلطی کی اوربعدمیں کہاکہ:یہ عورتیں بھی عمر سےزیادہ عالم وفاضل ہیں۔ کہتے ہیں کی جب ابوبکر کاانتقال ہواتو ان کےاہل خاندان منجملہ ابوبکرکی صاحبزادی اورزوجہء رسول عائشہ بھی گریہ وآہ زاری کرنےلگیں۔یہ صداے گریاجب ابوبکر کے گھرسے بلند ہوئی توعمر نے پیغام کہلوایا کی جاکر عورتوںسے کہ دوکہ خاموش رہیں۔وہ خاموش نہ ہوئیںدوسری مرتبہ کہلایاکہ اگرخاموش نہ ہوئیں تو میں تازیانہ لیکرآتا ہوں یوں ہی پیغام کے بعد پیغام جاتے رہےلوگوں نے عائشہ سے کہاکہ عمرگریا کرنے پربگڑرہےہیںدھمکیاںدے رہےہیںاوررونےسےمنع کرتےہیںآپ نے کہاابن خطاب کو بلاءو،دیکھیںوہ کیا کہ رہا ہے۔عمرعائشہ کے احترام میں خودآئے،عائشہ نےپوچھاکیا بات ہےیہ باربارپیغام کییوں کہلارہےتھے؟کہنےلگےمیںنےپیغمبرص سے سناہےکہ اگر کوئی شخص مرجائےاورلوگ اس پرروءیںتو جس قدر وہ گریہ کریں گے اتنا ہی مرنے والا عذاب میں گرفتار ہوتا جائے گا، لوگوں کا گریہ اس کےلئےعذاب ہے ۔ عائشہ نے کہا : تم سمجھتے نہیں، تمہیں اشتباہ ہوا ہے ۔ مسئلہ کچھ اور ہے، میں جانتی ہوں اصل قصہ کیا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک خبیث یہودی مر گیا تھا، اس کے اعزا اس پر رورہے تھے ۔ پیغمبر نے فرمایا :یہ لوگ رورہے ہیں، جبکہ اس پر عذاب ہوریا ہے ۔ یہ نہیں فرمایا تھا کہ ان لوگوں کو رونا عذاب کا سبب بن رہاہے ۔ بلکہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ اس پر رورہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس پر عذاب کیا جارہا ہے ۔ آخر اس واقعہ کا اس مسئلہ سے تعلق ہے ؟!اس کے علاوہ اگر میت پر رونا حرام ہے تو ہم گناہ کررہے ہیں خدا ایک بے گناہ پر عذاب کیوں کر رہا ہے ؟!اس کا اس میں کیا گناہ ہے کہ گریہ ہم کریں اور عذاب میں وہ مبتلا کیا جائے ؟! اگر عورتیں نہ ہوتیں تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا ۔

خود اہل سنت کہتے ہیں کہ عمر نے ستر جگہوں پر (یعنی ستر مقاما ت پر اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسے موارد بہت زیادہ ہے کہا لولا علی لہلک عمر اور امیر المومنین علیہ السلام ان کی غلطیوں کو درست کرتے تھے اور خود بھی اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے تھے

مختصر یہ کہ اہل سنت اس نوعیت کی امامت کےقاءل نہیں ہے اب بحث کا رخ اس مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے بلا شبہ وحی فقط پیغمبر پر نازل ہوتی تھی ہم یہ نہیں کہتے کہ اءمہ پر نازل ہوتی ہے اسلام صرف پیغمبر نے عالم بشریت تک پہونچایا خدا نے بھی اسلام سے متعلق جو کچھ کہنا تھا پیغمبر سے فرمادیا ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلام کے بعض قوانین پیغمبر سے نہ کہے گئے ہوں پیغمبر سے سب کچھ کہ دیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے تمام احکام و قوانین عام لوگوں تک پہونچادیے گئے یا نہیں ؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ اسلام کے جتنے احکام و قوانین تھے پیغمبر نے اپنے اصحاب تک پہونچا دءے لیکن بعد میں جب صحابہ سے کسی مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ملتی تو الجھ جاتے ہیں کے کیا کریں ؟ اور یہیں سے دین میں قیاس کا مسئلہ داخل ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو قانون قیاس کے ذریعہ مکمل کرلیتے ہیں جس کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں گویا خدا نے ناقص دین بھیجا ہے کہ تم اسے مکمل کرو گے ؟ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہ خدانے ناقص اسلامی قوانین پیغمبر پر نازل کیے اور نہ پیغمبر نے انہیں ناقص صورت میں لوگوں تک پہونچایا پیغمبر نے کامل طور پر سب کچھ بیان کردیا لیکن جو کچھ کامل شکل مین پیغمبر نے بیان کیا سب کچھ وہی نہیں ہے جو پیغمبر نے عوام کے سامنے بیان کیا ہے کتنے ہی احکام ایسے تھے جن کی ضرورت پیغمبر کے زمانے میں پیش ہی نہیں آءی اور بعد میں ان سے متعلق سوال ا ٹھا بلکہ آپ نے خدا کی جانب سے نازل ہونے والے تمام احکام اپنے شاگرد خاص کو تعلیم کیے اور ان سے فرمادیا کہ تم بعد میں ضرورت کے مطابق لوگوں سے بیان کرنا

یہیں سے عصمت کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیغمبر اپنے بیان و گفتگو میں عمداً یا سھوا غلطی یا اشتباہ سے دو چار نہیں ہوتے یوں ہی ان کا شاگرد خاص بھی خطا یا اشتباہ سے دوچار نہیں ہوسکتا کیوں کہ جس طرح پیغمبر کو ایک نوعیت سے تائید الٰہی حاصل تھی یوں ہی ان کے خصوصی شاگرد کو بھی غیبی و الٰہی تائید حاصل تھی اور یہ گویا امامت کا ایک اور فضل و شرف ہے ۔

امامت، ولایت کے معنی

اس تیسرے مرتبہ میں اپنے امامت اپنے اوج کمال کو پہونچتی ہے ۔ اور شیعہ کتابیں اس مفہوم سے بھری پڑی ہے ۔ مزید یہ ہے کہ امامت کی یہی حیثیت تشیع اور تصّوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے ۔ البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہ لینا چاہئے ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شد و مد کےساتھ پایا جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا ۔ مجھے یا د ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویوکے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنا یا ہے؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے،علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوفد کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ بعد میں صوفیا کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہوگیا ۔ چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنا یا تو یہی کیا جائے گا کہ تصور شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک انسان کا مل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے ۔ عرفااور صوفیا اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیں

پس یہ ہر دوری و لیتی قائم است

یعنی ہو دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو ۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے، جسے وہ اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں ۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یونی دلوں پر تسلط رکھتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جوتمام ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادہم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کےلئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ابراہیم ادہم دریا کےکنا رہ گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا ۔ مجھلیوں نے پانی سے منھ نکا لا توع سب کےدہن میں ایک ایک سوئی موجود تھی ۔ یہاں مولانا روم کہتے ہیں

دل نگہ دار پدای بی حاصلان

در حضور حضرت صاحبدلان

یہاں تک کہ فرماتے ہیں شیخ یعنی ان پیر صاحب نے ان کے افکار سے حقیقت و واقعیت معلوم کرلی

شیخ واقف گشت از اندیشہ اش

شیخ چون شیراست و دلھا بیشہ اش

ہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلہ میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے ۔ ولایت کا مطلب ہے حجت ِ زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے :ولولا الحجة لساخت الارض باهلها مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کا مل یا حجت خدا سے خالی رہے ( ورنہ زمین اپنی تمام موجودات کے ساتھ ہی ختم ہوجوئے گی ) شیعہ اس انسان کامل کے لئے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ۔ ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولایت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جوتما ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (ہم ان کلمات کو نہ صرف ہمیشہ پڑھتے ہیں بلکہ یہ ہمارے شیعی مسلمات و اصول کا جزو ہے ۔ : اشھد انک تشھد مقامی و تسمع کلامی وترد سلامی ( مزید کہ ہم یہ کلمات ان کے لئے کہتے ہیں جو مر چکے ہیں ۔ البتہ ہماری نظروں میں ان کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کمال پر فائز نہ تھے، مرنے کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ) میں گوہی دیتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے وجود کویہاں محسوس اور درک کررہے ہیں ۔ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ اس وقت جو کچھ میں کہہ رہا ہوں السلام علیک یا علی بن موسی الرضا اسے آپ سن رہے ہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں اور گوہی دیتا ہوں کہ میں آپ کو جوسلام کررہا ہوں اسلام علیک آپ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ مراتب ہیں جن کاہمارے سوا کوئی کسی کے لئے قائل نہیں ہے ۔ اہل سنت ( وہابیوں کے علاوہ) صرف پیغمبر اکرم کے لئے اس مرتبہ کے قائل ہیں پیغمبر کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے لئے اس روحی کمال اور روحانی مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہم شیعوں کو اصول مذہب میں داخل ہے اور ہم ہمیشہ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔

بنابر این مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں ۔ اگر ہم ان تینوں درجوں کو ایک دوسرے سے جدانہ کریں تو امامت سے متعلق دلا ئل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ بعض شیعہ امامت کامطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو اپنے بعد رہبری کے لئے معین فرمادیا تھا ۔ ابوبکرو عمر وعثمان ان کی جگہ پر غلط آئے ۔ یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اوراممت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں ( یعنی امام دینی مرجع ہوتا ہے ) لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے کہتے ہیں کہ مرحوم آقا سید محمد باقر در چہ ای جو آقائے بروجردی کے استاد تھے، امامت کےاس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے ۔ لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے ۔

ہمیں در اصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہئے :۔

۱ ۔ امامت قرآن کی روشنی میں ۔

۲ ۔ امامت احادیث کی روشنی میں ۔

۳ ۔ امامت عقل کی روشنی میں ۔

پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہئے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام و صرف معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں پیش کرتی ہیں یا اس کی دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں ؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر کا جائزہ لیں کہپ حضور نے امامت کےسلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے ۔ اس کے بعدعقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے، اور جانشین پیغمبر کو شوریٰ کے ذریعہ منتخب ہونا چاہئے، یا پیغمبر نے خود اپنا جانشین معین فرمادیا ہے ؟اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے ۔

امامت کے بارہ میں ایک حدیث:

امامت کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے ذکر سے پہلے ایک مشہور و معروف حدیث پیش کرتا ہوں ۔ اس حدیث کی روایت شیعوں نے بھی کی ہے اور اہل سنت نے بھی۔ اور جس حدیث پر شیعہ و سنی متفق ہوں، اسے معمولی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ جب دو فریق دو الگ الگ طریقوں سے اس کی روایت کرتے ہیں تو ایک بات تقریباًیقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اکرم یا امام نے یہ بات بہر حال فرمائی ہے ۔ البتہ اگر چہ عبارتوں میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن مضمون تقریباًایک ہی ہے۔ ہم شیعہ اس حدیث کو زیادہ تر ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة (۴) یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے امام یا رہبر کو پہچانے بغیر مرجائے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حدیث کی یہ تعبیر بہت شدید ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں مرنے والا نہ توحید پر ایمان رکھتا تھا نہ نبوت پر بلکہ سرے سے مشترک ہوتا تھا۔ یہ حدیث شیعہ کتابوں میں کثرت سے نقل ہوئی ہے اور شیعی اصول و مسلمات سے بھی صد فیصد مطابقت و موافقت رکھتی ہے شیعوں کی معتبر ترین حدیث کی کتاب کافی میں یہ حدیث نقل ہوئی اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اسے ایک روایت میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ممات بغیر امام مات میتۃ الجاھلیۃ جو شخص امام کے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ایک دوسری عبارت میں اس طرح نقل ہے من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت کا قلادہ نہ ہو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ایک اور عبارت جو شیعوں کے یہاں بھی ملتی ہے لیکن اہل سنت کے یہاں کثرت سے نقل ہے من مات ولا امام لہ ما ت میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ وہ وہ جاہلیت کی موت مرا اس طرح کی عبارتیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے مسئلہ امامت کے سلسلہ میں خاصہ اہتمام فرمایا ہے

جو لوگ امامت کا مطلب صرف اجتماع و معاشرے کی رہبری سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پیغمبر نے رہبری کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ خود معتقد ہیں اگر امت کا کوئی رہبر پیشوا نہ ہو تو لوگوں کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کیونکہ احکام اسلام کی صحیح تشریح اور ان کا صحیح نفا ض اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امت ایک صالح رہبر موجود ہواور امت اپے رہبر کے ساتھ مضبوط ارتباط قائم رکھے اسلام انفرادی دین نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے میں خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیںنہیں بلکہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے کے بعد بھی آ پ کو بہر حال یہ دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا کہ زمانے میں رہبر اور مام کون ہے تاکہ بہر حال اسی کی سر پرستی اور رہبری میں عملی زندگی گزاریں اور جو لوگ امامت کو دینی مر جعیت کے معنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ( اس حدیث کی روشنی میں)کہتے کہ جسے اپنا دین محفوظ رکھنا ہو اسے اپنے دینی مرجع کی معرفت حاصل کرنا ھوگی ۔ اور یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی دین کہاں سے حاصل کیا جائے۔ اور یہ کہ انسان دین تو رکھتا ہے لیکن وہ اپنا دین خود اس کے مخالف منابع و مراکز سے حاصل کرے تو سراسر جہالت ھوگی۔

اور جو امامت کو ولایت معنوی کی حد تک لے جاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کسی ولی کامل کے لطف و کرم اور اس کی توجہ کا مرکز قرار نہ پائے تو گویا اس کی موٹ جاہلیت کی موت ہے ۔ یہ حدیث چونکہ متواترات سے ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ پہلے عرض کردوں تاکہ ذہنوں میں باقی رہے "انشاء اللہ اس پر آئندہ بحث کی جائے گی۔

امامت قرآن کی روشنی میں:

قرآن کریم میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کےیہاںبھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں ۔ ان میںسے ایک آیت یہ ہے:( انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنواالذین یقیموں الصلاة ویوتون الزکاة وهم راکعون ) ۔(۵)

"انما" کے معنی ہیں صرف اور صرف (کیونکر یہ اداۃ حصر ہے)"ولی"کے اصل معنی ہیں سر پرست ولایت یعنی تسلط و سرپرستی۔ قرآن کہتا ہے۔ تمہارا سر پرست صرف اور صرف خدا ہے، اس کارسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔"اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کہ انسان ھالت رکوع میں رکوۃ دے۔ تاکہ کہا جائے کہ یہ قانون لی ہے اور تمام افراد اس حکم میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو خارج میں صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا۔ شیعہ اور سنی دونوں نے متفق طور پر اس کی روایت کی ہے، واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت علی حالت رکوع میں تھے کہ ایک سائل نے آکر سوال کیا ۔ حضرت نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا ۔ سائل قریب آیا ، اس نے حضرت علی(ع) انگلی سے انگھوٹی اتاردی اور لیکر چلاگیا ۔ یعنی آپ نے اتنا انتظار بھی نہیں کیا کہ نماز تمام ہوجائے اس کے بعد انفاق کریں آپ اس فقیر کے سوال کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسی رکوع کی حالت میں اسے اشارہ سے سمجھا دیا کہ انگھوٹی اتار لے جائے اور اسے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرے ۔ اس واقعہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سنی شیعہ سب متفق ہیں کہ حضرت علی نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ دونوں فریق اس بات پربھی متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ جبکہ رکوع کی حالت میں انفاق کرن اسلامی قوانین کا جزو نہیں ہے ۔ نہ واجب ہے نہ مستحب کہ یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کچھ کوگوں نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔ لہٰذا آ یت کا یہ انداز "جو لوگ یہ عمل انجام دیتے ہیں "ایک اشارہ و کنایہ ہے ۔ جسے خود قرآن میں اکثر آیا ہے "یقولون " یعنی ( وہ لوگ کہتے ہیں ) جبکہ معلوم ہے کہ ایک شخص نے یہ بات کہی ہے ۔ لہٰذا یہان اس مفہوم سے مراد وہ فرد ہے جس نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ بنا بر ایں اس آیت کے حکم کے مطابق حضرت علی (ع) لوگوں پر ولی حیثیت سے معین کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ اس آیت کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ البتہ اس پر اس سے کہیں زیادہ بحث و گفتگو ہونی چاہئے جسے ہم آئندہ پیش کریں گے ۔

دوسری آیات واقعۂ غدیر سے متعلق ہیں ۔ اگر چہ خود واقعہ غدیر احادیث کے ذیل میں آتا ہے اور ہم اس پر بعد میں بحث کریں گے لیکن اس واقعہ سے متعلق سورۂمائدہ میں جو آیتیں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں ایک آیت یہ ہے :( یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۶) (یہاں لہجہ بہت تند ہو گیا ) اے پیغمبر ! جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کردو ، اور اگر تم نے اس کی تبلیغ نہیں کی تو گویا تم نے سرے سے رسالت الٰہی کی تبلیغ نہیں کی ۔ اس آیت کا مفہوم اتنا ہی شدید اور تند ہے جتنا حدیث "من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ " کا اجمالی طور سے خود آیت ظاہر کررہی ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ نہ کی تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ۔

شیعہ و سنی اس پر متفق ہے کہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والا آخری سورہ، مائدہ ہے ۔ اور یہ آیتین ان آیتوں کاجز ہے جو سب سے آخر میں پیغمبر پر نازل ہوئی یعنی اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام تیرہ سال مکہ کی زندگی اور دس سال مدینہ کی حیات میں اسلام کے تمام دوسرے قوانین و احکام بیان کر چکے تھے یہ حکم ان احکام کا آخر جز تھا اب ایک شیعہ سوال کرتا ہے کہ یہ حکم جو آخری احکام کا جزہے اور اس قدر اہم ہے کہ اگر پیغمبر اسے نہ پہونچائیں تو ان کی گذشتہ علم محنتوں پر پانی پھر جائے ۔ آخر ہے کون سا حکم ؟ آپ لاکھ تلاش کے بعد کسی ایسے مسئلہ کی نشان دہی نہیں کرسکتے جو پیغمبر کی زندگی کے آخر دنوں سے مربوط ہو اور اس قدر اہم ہو کہ اگر حضور اس کی تبلیغ نہ کریں تو گویا انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ امامت ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتا سب کچھ بیکا ر ہے یعنی اسلام کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ شیعہ خود اہل سنت کی رواہت سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے ۔

اسی سورۂ مائدہ میں ایک اور آیت ہے( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ) (سورہ مائدہ آیت نمبر ۳) آج میں نے دین کو تم لوگوں کےلئے کمال کی منزلوں تک پہونچا دیا ۔ اس پر اپنی نعمتیں آخر حدوں تک تمام کر دی اور آج کے دن میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسندیدہ قرار دیا ، خود آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس دن کوئی واقعہ گزرا ہے جو اتنا اہم ہے کہ دین کے کامل ہونے اور انسانیت پر خدا کی طرف سے اتمام نعمت کا سبب بن گیا ہے ۔ جس کے ظہور پذیر ہونے سے اسلام در حقیقت اسلام ہے اور خدا اس دین کو ویسا ہی پاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اسلام ،اسلام ہی نہیں ہے ۔ آ یت کا لب و لہجہ بتا تھا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے ۔ اسی بنا پر شیعہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ موضوع جو دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا سبب بنا اور جو اگر واقع نہ ہوتا تو اسلام در اصل اسلام ہی نہ رہتا ۔ وہ کیا تھا ؟ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا موضوع ہے جسے اتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اس با ت کی تائید کرتی ہے کہ یہ آیت بھی اسی موضوع امامت کے تحت نازل ہوئی ہے ۔

____________________

(۱) سورہ ہود آیت نمبر۹۸

(۲) سورہ حشر آیت نمبر ۷

(۳) سورہ نساء آیت ۶۵پس نہیں اے رسول تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف اور دشمنیوں میں تمہیں حاکم نہ بناءیں ۔ اور تم جو کچھ فیصلہ کردو اس سے دل تنگ نہ ہوں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں ۔

(۴) دلائل الصدوق ص ۶، ۱۳

(۵) سورۂ مائدہ /آیت نمبر۵۵۔

(۶) سورہ مائدہ آیت نمبر ۶۷

پہلی بحث:

امامت کے معانی و مراتب

ھماری بحث مسئلہ امامت سے متعلق ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ امامت کو ہم شیعوں کے یہاں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ جبکہ دوسرے اسلامی فرقوں میں اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ راز یہ ہے کہ شیعوں کے یہاں امامت کا جو مفہوم ہے وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے مختلف ہے ۔ اگر چہ بعض مشترک پہوبھی پائے جاتے ہیں ، لیکن شیعی عقاعد میں امامت کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے اور یہی پہلو امامت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم شیعہ اصول دین کو شیعی نقطہ نظر کے مطابق بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصول دین ، توحید ، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کاو مجموعہ ہے ۔ یعنی امامت کو اصول دین کا جز و شمار کرتے ہیں ۔ اہل تسنن بھی ایک طرح جو امامت کے قایل ہیں ۔ بنیادی طور سے امامت کے منکر نہیں ہیں وہ اسے دوسری شکل سے تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن وہ جس نوعیت سے تسلیم کرتے ہیں، اس میں امامت اصول دین کا جز ونہیں ہے بلکہ فروع دین کا جو ہے بہر حال ہم دونوں امامت کے مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ ایک اعتبار سے امامت کےقائل ہےیں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسلیم کرتے ہیں آخر یہ کیسے ہوا کہ شیعہ امامت کو اصول دین کا جزو انتے ہیں او اہل سنت اسے فروغ دین کا جزو سمجھتے ہیں ؟ اس کا سبب وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ اور ایہل سنت کے یہاں امامت کے مفہوم میں فرق ہے ۔

امام کے معنی :

امام کے معنی ہیں پیشوا یا رہبر ۔ لفظ امام، پیشوا یا رہبر بذات خود کوئی مقدس مفہوم نہیں رکھتے پیشوا یارہبر سے مراد ہے،آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع یا پیروی کی جائے ۔ چاہے وہ پیشوا عادی، ہدایت یافتہ اور صحیح راہ پر چلنے والاہو یا باطل اور گمراہ ہو۔ قرآن نے بھی لفظ امام کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے۔ایک جگہ فرماتا ہے :۔

"( وجعلنا هم أئمةیهدون بامرنا ) "(انبیاء / ۷۳ )

ہم نے ان کو امام قرار دیا ہے جو ہمارے حکم سے ہدایت و رہبری کرتے ہیں ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے :۔

( ائمه یدعون الی النار ) (قصص / ۷۱)

وہ امام جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔

یا مثلاًفرعون کے لئےبھی امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے :یقدم قومه یوم لاقیامة (۱)

"وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا ۔" معلوم ہوا کہ لفظاامام سے مراد پیشوا یا رہبر ہے ۔ ہمیں اس وقت باطل پیشوا یا رہبر سے سروکار نہیں ہے، یہاں صرف پیشوا یا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے۔

پیشوائی یا امامت کے چند مقامات ہیں جن میں سے بعض مفاہیم ہیں وہ سرے سے اس طرح کی مامت کے منکر ہیں۔نہ یہ کہ وہ امامت کو توقائل ہوں مگر مصداق میں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں ۔ جس امامت کے وہ قائل ہیں لیکن اس کی کیفیت و شکل اور افراد میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں اس سے مراد معاشرہ کی رہبری و سر پرستی ہے۔ چنانچہ یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیر زمانۂ قدیم سے متکلمین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب "تجرید الاعتقاد" میں امامت کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے "ریاسۃ عامۃ "یعنی "عمومی ریاست و حاکمیت" (یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے )

رسول اکرم(ص) کی حیثیت

پیغمبر اکرم، دین اسلام کی خصوصیت و جامعیت کی بنا پر قرآن اور خود اپنی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے زمانہ میں کئی حیثیتوں اور ذمہ داریوں کے حامل تھے، یعنی ایک ہی وقت میں کئی امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئی منصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کی جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملی طور سے کاربند تھے، پیغمبری و رسالت تھی ۔ یعنی آپ الٰہی احکام و قوانین کو بیان فرماتے تھے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے :"( ماآتاکم الرسول فخذوه وما نهیٰکم عنه فانتهوا ) (۲) "یعنی جو کچھ پیغمبر تمہارے لئےلایاہے اسے اختیار کرلواور جن چیزوں سے تمہیں منع کرتا ھے انھیں چھو ڑدو ۔ یعنی پیغمبر احکام و قوانین سے متعلق جو بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے ۔ اس اعتبار سے پیغمبر صرف ان چیزوں کا بیان کرنے والا ہے جو اس پر وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسرا منصب جس پر پیغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا یعنی وہ تمام مسلمانوں کے درمیان قاضی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں منصب قضاوت بھی کوئی یوں ہی سا بے معنی منصب نہیں ہے کہ جہاں کہیں دو آدمی آپس میں اختلاف کریں ایک تیسرا آدمی قاضی بن کر فیصلہ کر دے ۔ قضاوت اسلامی نقطہ ٔنظر سے ایک الٰہی منصب ہے کیونکہ یہاں عدل کا مسئلہ در پیش ہے ، قاضی وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرے ۔ یہ منصب بھی قرآن کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم کو تفوین ہوا اور آپ خدا کی جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ فرمائیں :( فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینهم ثم لا یجدو ا فی انفسهم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما ) (۳) "

معلوم ہوا یہ بھی ایک الٰہی منصب ہے کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے اور پیغمبر عملی طور پر قاضی بھی تھے ۔ تیسرا منصب جس پر پیغمبر قانونی طور سے فائز تھے یعنی قرآن کی رو سے آپ کو عطا کیا گیا تھا اور آپ اس پر عمل پیرابھی تھے ، یہی ریاست عامہ ہے یعنی وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامی معاشرہ کے سر پرست تھے ۔ کہتے ہیں کہ : "( اطیعو الله و اطیعو االرسول و اولی الامر منکم ) "کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے ۔ وہ تمہیں جو حکم دے اسے تسلیم کر و ۔ لہٰذا یہ تینوں صرف ظاہری اور دکھاوے کے نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر پیغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کی تین حیثیتیں ہیں ۔ ایک پیغمبر کا وہ کلام جو فقط وحی الٰہی ہے ۔ یہاں پیغمبر بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتے جو حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ پیغمبر اسے پہنچانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاں وہ دینی قوانین بیان کرتے ہیں کہ نمازیوں پڑھو ، روزہ ایسے رکھو وغیرہ ۔ وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحی ہے ۔ لیکن جب لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے ہیں اس وقت ان کے فیصلے وحی نہیں ہوتے ۔ یعنی دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں، پیغمبر اسلامی قوانین کے مطابق دونوں کے درمیا ن فیصلہ فرمادیتے ہیں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے یا اس شخص کے ۔ اب یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جبرءیل پیغمبر پر نازل ہوں اور وحی کے ذریعہ بتائیں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے یا نہٰں ہے ۔ ہا ں اگر کوئی استثنائی موقع ہوتو دوسری بات ہے ورنہ کلی طور پر پیغمبر کے فیصلہ انہیں ظاہری بنیادوں پر ہوتے ہیں جن پر دوسرے فیصلے کرتے ہیں فرق یہ ہے پیغمبر کے فیصلے بہت ہی دقیق اور اعلیٰ سطح کے ہوتے ہیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کیا گیا ہوں یعنی مثلامدعی اور مدعیٰ الیہ اکٹھا ہوں اور مدعی کے ساتھ دو عادل گواہ بھی ہوں تو پیغمبر اسی ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں یہ وہ فیصلہ ہے جو خود پیغمبر نے فرمایا ہے۔ آپ پر وہی نہیں نازل ہوئی ہے ۔

تیسری حیثیت بھی جس کے بموجب پیغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہیں اگر اس کے تحت وہ کوئی حکم دے یہ حکم بھی اس فرمان سے مختلف ہوگا جس میں پیغمبر وحی خدا کو پہچانتے ہیں ۔

خدا نے آپ کو ایسی ہی حاکمیت و رہبری کا اختیار دیا ہے اور ایک حق کی صورت میں آ پ کو منصب عطا فرمایا ہے اور وہ بھی رہبر ہونے کی حیثیت سے اپنے فراءض انجام دیتے ہیں لہٰذا اکثرآپ بعض امور میں لوگوں سے مشورہ بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بدر اور احد کی جنگوں میں ۔ نیز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا ۔ جب کہ حکم خدا میں تو مشورہ کی گنجاءش ہی نہیں ہوتی کیا کبھی پیغمبر نے اپنے اصحاب سے یہ مشورہ بھی لیا کہ مغرب کی نماز ایسے پڑھی جائے یا ویسے ؟ بلکہ اکثر ایسے مسائل پیش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر مادیا کرتے تھے کہ مسائل کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہی ایسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا لیکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل میں پیغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کی رآئے دریافت کیا کرتے تھے اب اگر کسی موقع پر پیغمبر کوئی حکم دے کہ ایسا کرو تو یہ اس اختیار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔ ہاں اگر کسی سلسلہ میں مخصوص طور پر وحی بھینازل ہوجائے تو ایک استثنائی بات ہوگی ۔

اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ یہ کہ تمام امور اور جزئیات میں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرہ کے لئےپیغمبر جو کام بھی انجام دیتے تھے ۔ خدا ان کے لئےان پر وحی نازل فرماتا تھا کہ یہاں یہ کرو وہاں یہ کرو اور اس طرح کے مسائل میں بھی پیغمبر صرف اک پیغام رساں کی حیثیت رکھتا رہا ہولہٰذا پیغمبر اسلام یقینی طور پر بیک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہیں ۔

امامت معاشرہ کی حاکمیت کے معنیٰ میں

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں امامت کا مطلب اپنے پہلے معنی کے مطابق ریاست عامہ ہے ۔ یعنی پیغمبر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا وہ عہدہ جسے معاشرہ کی رہبری کہتے ہیں، خالی ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی معاشرہ ایک رہبر کا محتاج ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد معاشرہ کا حاکم و رہبر کو ن ہے ؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے بنیادی لو۔ پر شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور سنّی بھی ۔ شیعہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ کو ایک اعلیٰ رہبر و قاعد اور حاکم کی ضرورت ہے اور سنّی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں خلافت کا مسئلہ اس شکل میں سامنے آتا ہے ۔ سیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے بعد ایک حاکم و رہبر معین کردیا اور فرمایا کہ میرے بعد مسلمانوں کے امور کے امام علی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے اور اہل سنت اس منطق سے اختلاف کرتےہوئےکم از کم اس شکل میں جس شکل میں شیعہ مانتے ہیں یہ بات قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں پیغمبر نے کسی خاص شخص کو معین نہیں فرمایا تھا ۔ بلکہ یہ خود مسلمانوں کا فرض تھا کہ پیغمبر کے بعد اپنا ایک حاکم ورہبر منتخب کرلیں چنانچہ وہ بھی بنیادی طور پر امامت و پیشوائیکو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حاکم و رہبر ضرور ہونا چاہءے بس اختلاف یہ ہے کہ ان کے نزدیک رہبر انتخاب کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم و رہبر کو خود پیغمبر نے وحی کے ذریعہ معین فرمادیا ہے ۔

اگر مسئلہ امامت یہیں تک محدود رہتا اور بات صرف پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے سیاسی رہبر کی ہوتی تو انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم شیعہ بھی امامت کو اصول دین کے بجائے فروع دین کا جزو قرار دیتےاور سمجھتے ہیں کہ یہ بھی نماز کی طرح ایک فرعی مسئلہ ہے لیکن شیعہ جس امامت کےقائل ہیں وہ اس قدر محدود نہیں ہے کہ چونکہ علی بھی دیگر اصحاب مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان اور سیکڑوں اصحاب یہاں تک کہ سلمان و ابوذر کی طرح پیغمبر کے ایک صحابی تھے لیکن ان سب سے بر تر و افضل، سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ متقی اور باصلاحیت تھے اور پیغمبر نے بھی انہیں معین فرمادیا تھا ۔ نہیں، شیعہ صرف اسی حد پر نہیں ٹھہرتے بلکہ امامت کے سلسلہ میں دو اور پہلووں کےقائل ہیں ۔ جن میں سے کسی ایک کو بھی اہل تسنن سرے سے نہیں مانتے ایسا نہیں ہے کہ امامت کی ان دوحیثیتوں کو تو مانتے ہوں لیکن علی کی امامت سے انکار کرتے ہوں، نہیں !ان میں سے یاک مسئلہ یہ ہے کہ امامت دینی مر جعیت کا عنوان رکھتی ہے ۔

امامت دینی مرجعیت کے معنی میں

ہم عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر وحی الٰہی کی تبلیغ کرنے والے اور اس کا پیغام پہونچانے والے تھے ۔ لوگ جب متن اسلامی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے یا قرآن میں مطلب نہ پاتے تھے پیغمبر سے سوال کرتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ اسلام جو کچھ معارف احکام اور قوانین بیان کرنا چاہتا تھا کیا وہ سب کے سب وہی ہے جو قرآن میں آگئے ہیں اور پیغمبر نے عام طور سے لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے ؟ یانہیں بلکہ قہری طور سے زمانہ اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پیغمبر تمام قوانینوں احکام عام طور سے لوگوں میں بیان کردیں علی پیغمبر کے وصی و جانشین تھے اور پیغمبر اسلام نے اسلام کی تمام چھوٹی بڑی باتیں یا کم از کم اسلام کے تمام کلیات علی سے بیان کردئےاور انہیں ایک بے مثال عالم غیر معلم اپنے اصحاب میں سے سب سے ممتاز انہیں کی طرح اپنء باتوں میں خطا و لغزش سے میری اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والی تمام باتوں سے واقف شخصیت کے عنوان سے لوگوں کےسامنے پیش کیا ار فرمایا اے لوگوں میرے بعد دینی مسائل میں جو کچھ پوچھنا ہو میرے اس وصی و جانشین اور اس کے بعد تما م آنے والے اوصیاء سے سوال کرنا در حقیقت یہاں امامت ایک کامل اسلام شناس کی حیثیت سے سامنے آتی ہے لیکن یہ اسلام شناس ایک مجتہد کی حد سے کہیں بالا تر ہے اس کی اسلام شناسی منجانب اللہ ہے اور اءمہ علیہ السلام یعنی واقعی اسلام شناس البتہ یہ وہ افراد نہیں ہے جنھوں نے اپنی عقل اور فکر کے ذریعے اسلام کو پہچانا ہوجن کے یہاں قہری طور پر خطا اور اشتباہ کا امکان بھی پایا جاتا ہو بلکہ انھوں نے ان غیبی اور مرموز ذرائع سے اسلامی علوم پیغمبر سے حاصل کئے ہیں جو ہم پر پوشیدہ پے او ر یہ علم پیغمبر سے علی علیہ السلام تک اور علی سے بعد کے اءمہ تک پہونچا ہے اور اءمہ علیہ السلام کے پورے دور میں یہ علم خطاوں سے بری معصوم علم کی صورت میں ایک امام سے دوسرے امام تک پہونچتا رہا ہے ۔

اہل سنت کسی شخص کے لئےاس منزلت و مقام کےقائلنہیں ہیں لہٰذا وہ سرے سے اس طرح کی امامت کے حامل کسی بھی امام کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یعنی وہ امامت کے ہی قائل نہیں ہیں، نہ یہ کہ امامت کے توقائل ہوں اور کہیں کہ علی امام نہیں ہیں، ابوبکر اس کے اہل ہیں، نہیں بلکہ وہ لوگ ابوبکر، عمر عثمان بلکہ کلی طور پر کسی ایک صحابی کے لئےبھی اس منصب یا مقام کو تسلیم نہیں کرتے ۔یہی سبب ہےکہ خود اپنی کتابوں میں ابوبکرعمر سے دینی مسائل میں ھزاروں اشتباہات اورغلطیاں نقل کرتے ہیں لیکن شیعہ اپنے اماموں کوخطائوں سے معصوم جانتے ہیں اور امام سے کسی خطا کےسرزدہ ونےکو محال سمجھتے ہیں (مثال کے طور پر اہل سنت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ) ابوبکرنے فلاں مقام پراشتباہ کیا اوربعد میں خود ہی کہا کہ "ان لی شیطاناً نعترینی" بلاشبہ ایک شیطان ہےجو اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہےاور میں غلطیاں کربیٹھتا ہوں،یا عمر نےفلاں مقام پرخطااورغلطی کی اوربعدمیں کہاکہ:یہ عورتیں بھی عمر سےزیادہ عالم وفاضل ہیں۔ کہتے ہیں کی جب ابوبکر کاانتقال ہواتو ان کےاہل خاندان منجملہ ابوبکرکی صاحبزادی اورزوجہء رسول عائشہ بھی گریہ وآہ زاری کرنےلگیں۔یہ صداے گریاجب ابوبکر کے گھرسے بلند ہوئی توعمر نے پیغام کہلوایا کی جاکر عورتوںسے کہ دوکہ خاموش رہیں۔وہ خاموش نہ ہوئیںدوسری مرتبہ کہلایاکہ اگرخاموش نہ ہوئیں تو میں تازیانہ لیکرآتا ہوں یوں ہی پیغام کے بعد پیغام جاتے رہےلوگوں نے عائشہ سے کہاکہ عمرگریا کرنے پربگڑرہےہیںدھمکیاںدے رہےہیںاوررونےسےمنع کرتےہیںآپ نے کہاابن خطاب کو بلاءو،دیکھیںوہ کیا کہ رہا ہے۔عمرعائشہ کے احترام میں خودآئے،عائشہ نےپوچھاکیا بات ہےیہ باربارپیغام کییوں کہلارہےتھے؟کہنےلگےمیںنےپیغمبرص سے سناہےکہ اگر کوئی شخص مرجائےاورلوگ اس پرروءیںتو جس قدر وہ گریہ کریں گے اتنا ہی مرنے والا عذاب میں گرفتار ہوتا جائے گا، لوگوں کا گریہ اس کےلئےعذاب ہے ۔ عائشہ نے کہا : تم سمجھتے نہیں، تمہیں اشتباہ ہوا ہے ۔ مسئلہ کچھ اور ہے، میں جانتی ہوں اصل قصہ کیا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک خبیث یہودی مر گیا تھا، اس کے اعزا اس پر رورہے تھے ۔ پیغمبر نے فرمایا :یہ لوگ رورہے ہیں، جبکہ اس پر عذاب ہوریا ہے ۔ یہ نہیں فرمایا تھا کہ ان لوگوں کو رونا عذاب کا سبب بن رہاہے ۔ بلکہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ اس پر رورہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس پر عذاب کیا جارہا ہے ۔ آخر اس واقعہ کا اس مسئلہ سے تعلق ہے ؟!اس کے علاوہ اگر میت پر رونا حرام ہے تو ہم گناہ کررہے ہیں خدا ایک بے گناہ پر عذاب کیوں کر رہا ہے ؟!اس کا اس میں کیا گناہ ہے کہ گریہ ہم کریں اور عذاب میں وہ مبتلا کیا جائے ؟! اگر عورتیں نہ ہوتیں تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا ۔

خود اہل سنت کہتے ہیں کہ عمر نے ستر جگہوں پر (یعنی ستر مقاما ت پر اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسے موارد بہت زیادہ ہے کہا لولا علی لہلک عمر اور امیر المومنین علیہ السلام ان کی غلطیوں کو درست کرتے تھے اور خود بھی اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے تھے

مختصر یہ کہ اہل سنت اس نوعیت کی امامت کےقاءل نہیں ہے اب بحث کا رخ اس مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے بلا شبہ وحی فقط پیغمبر پر نازل ہوتی تھی ہم یہ نہیں کہتے کہ اءمہ پر نازل ہوتی ہے اسلام صرف پیغمبر نے عالم بشریت تک پہونچایا خدا نے بھی اسلام سے متعلق جو کچھ کہنا تھا پیغمبر سے فرمادیا ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلام کے بعض قوانین پیغمبر سے نہ کہے گئے ہوں پیغمبر سے سب کچھ کہ دیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے تمام احکام و قوانین عام لوگوں تک پہونچادیے گئے یا نہیں ؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ اسلام کے جتنے احکام و قوانین تھے پیغمبر نے اپنے اصحاب تک پہونچا دءے لیکن بعد میں جب صحابہ سے کسی مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ملتی تو الجھ جاتے ہیں کے کیا کریں ؟ اور یہیں سے دین میں قیاس کا مسئلہ داخل ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو قانون قیاس کے ذریعہ مکمل کرلیتے ہیں جس کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں گویا خدا نے ناقص دین بھیجا ہے کہ تم اسے مکمل کرو گے ؟ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہ خدانے ناقص اسلامی قوانین پیغمبر پر نازل کیے اور نہ پیغمبر نے انہیں ناقص صورت میں لوگوں تک پہونچایا پیغمبر نے کامل طور پر سب کچھ بیان کردیا لیکن جو کچھ کامل شکل مین پیغمبر نے بیان کیا سب کچھ وہی نہیں ہے جو پیغمبر نے عوام کے سامنے بیان کیا ہے کتنے ہی احکام ایسے تھے جن کی ضرورت پیغمبر کے زمانے میں پیش ہی نہیں آءی اور بعد میں ان سے متعلق سوال ا ٹھا بلکہ آپ نے خدا کی جانب سے نازل ہونے والے تمام احکام اپنے شاگرد خاص کو تعلیم کیے اور ان سے فرمادیا کہ تم بعد میں ضرورت کے مطابق لوگوں سے بیان کرنا

یہیں سے عصمت کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیغمبر اپنے بیان و گفتگو میں عمداً یا سھوا غلطی یا اشتباہ سے دو چار نہیں ہوتے یوں ہی ان کا شاگرد خاص بھی خطا یا اشتباہ سے دوچار نہیں ہوسکتا کیوں کہ جس طرح پیغمبر کو ایک نوعیت سے تائید الٰہی حاصل تھی یوں ہی ان کے خصوصی شاگرد کو بھی غیبی و الٰہی تائید حاصل تھی اور یہ گویا امامت کا ایک اور فضل و شرف ہے ۔

امامت، ولایت کے معنی

اس تیسرے مرتبہ میں اپنے امامت اپنے اوج کمال کو پہونچتی ہے ۔ اور شیعہ کتابیں اس مفہوم سے بھری پڑی ہے ۔ مزید یہ ہے کہ امامت کی یہی حیثیت تشیع اور تصّوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے ۔ البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہ لینا چاہئے ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شد و مد کےساتھ پایا جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا ۔ مجھے یا د ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویوکے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنا یا ہے؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے،علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوفد کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ بعد میں صوفیا کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہوگیا ۔ چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنا یا تو یہی کیا جائے گا کہ تصور شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک انسان کا مل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے ۔ عرفااور صوفیا اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیں

پس یہ ہر دوری و لیتی قائم است

یعنی ہو دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو ۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے، جسے وہ اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں ۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یونی دلوں پر تسلط رکھتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جوتمام ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادہم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کےلئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ابراہیم ادہم دریا کےکنا رہ گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا ۔ مجھلیوں نے پانی سے منھ نکا لا توع سب کےدہن میں ایک ایک سوئی موجود تھی ۔ یہاں مولانا روم کہتے ہیں

دل نگہ دار پدای بی حاصلان

در حضور حضرت صاحبدلان

یہاں تک کہ فرماتے ہیں شیخ یعنی ان پیر صاحب نے ان کے افکار سے حقیقت و واقعیت معلوم کرلی

شیخ واقف گشت از اندیشہ اش

شیخ چون شیراست و دلھا بیشہ اش

ہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلہ میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے ۔ ولایت کا مطلب ہے حجت ِ زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے :ولولا الحجة لساخت الارض باهلها مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کا مل یا حجت خدا سے خالی رہے ( ورنہ زمین اپنی تمام موجودات کے ساتھ ہی ختم ہوجوئے گی ) شیعہ اس انسان کامل کے لئے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ۔ ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولایت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جوتما ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (ہم ان کلمات کو نہ صرف ہمیشہ پڑھتے ہیں بلکہ یہ ہمارے شیعی مسلمات و اصول کا جزو ہے ۔ : اشھد انک تشھد مقامی و تسمع کلامی وترد سلامی ( مزید کہ ہم یہ کلمات ان کے لئے کہتے ہیں جو مر چکے ہیں ۔ البتہ ہماری نظروں میں ان کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کمال پر فائز نہ تھے، مرنے کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ) میں گوہی دیتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے وجود کویہاں محسوس اور درک کررہے ہیں ۔ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ اس وقت جو کچھ میں کہہ رہا ہوں السلام علیک یا علی بن موسی الرضا اسے آپ سن رہے ہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں اور گوہی دیتا ہوں کہ میں آپ کو جوسلام کررہا ہوں اسلام علیک آپ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ مراتب ہیں جن کاہمارے سوا کوئی کسی کے لئے قائل نہیں ہے ۔ اہل سنت ( وہابیوں کے علاوہ) صرف پیغمبر اکرم کے لئے اس مرتبہ کے قائل ہیں پیغمبر کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے لئے اس روحی کمال اور روحانی مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہم شیعوں کو اصول مذہب میں داخل ہے اور ہم ہمیشہ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔

بنابر این مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں ۔ اگر ہم ان تینوں درجوں کو ایک دوسرے سے جدانہ کریں تو امامت سے متعلق دلا ئل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ بعض شیعہ امامت کامطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو اپنے بعد رہبری کے لئے معین فرمادیا تھا ۔ ابوبکرو عمر وعثمان ان کی جگہ پر غلط آئے ۔ یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اوراممت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں ( یعنی امام دینی مرجع ہوتا ہے ) لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے کہتے ہیں کہ مرحوم آقا سید محمد باقر در چہ ای جو آقائے بروجردی کے استاد تھے، امامت کےاس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے ۔ لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے ۔

ہمیں در اصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہئے :۔

۱ ۔ امامت قرآن کی روشنی میں ۔

۲ ۔ امامت احادیث کی روشنی میں ۔

۳ ۔ امامت عقل کی روشنی میں ۔

پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہئے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام و صرف معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں پیش کرتی ہیں یا اس کی دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں ؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر کا جائزہ لیں کہپ حضور نے امامت کےسلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے ۔ اس کے بعدعقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے، اور جانشین پیغمبر کو شوریٰ کے ذریعہ منتخب ہونا چاہئے، یا پیغمبر نے خود اپنا جانشین معین فرمادیا ہے ؟اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے ۔

امامت کے بارہ میں ایک حدیث:

امامت کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے ذکر سے پہلے ایک مشہور و معروف حدیث پیش کرتا ہوں ۔ اس حدیث کی روایت شیعوں نے بھی کی ہے اور اہل سنت نے بھی۔ اور جس حدیث پر شیعہ و سنی متفق ہوں، اسے معمولی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ جب دو فریق دو الگ الگ طریقوں سے اس کی روایت کرتے ہیں تو ایک بات تقریباًیقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اکرم یا امام نے یہ بات بہر حال فرمائی ہے ۔ البتہ اگر چہ عبارتوں میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن مضمون تقریباًایک ہی ہے۔ ہم شیعہ اس حدیث کو زیادہ تر ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة (۴) یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے امام یا رہبر کو پہچانے بغیر مرجائے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حدیث کی یہ تعبیر بہت شدید ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں مرنے والا نہ توحید پر ایمان رکھتا تھا نہ نبوت پر بلکہ سرے سے مشترک ہوتا تھا۔ یہ حدیث شیعہ کتابوں میں کثرت سے نقل ہوئی ہے اور شیعی اصول و مسلمات سے بھی صد فیصد مطابقت و موافقت رکھتی ہے شیعوں کی معتبر ترین حدیث کی کتاب کافی میں یہ حدیث نقل ہوئی اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اسے ایک روایت میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ممات بغیر امام مات میتۃ الجاھلیۃ جو شخص امام کے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ایک دوسری عبارت میں اس طرح نقل ہے من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت کا قلادہ نہ ہو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ایک اور عبارت جو شیعوں کے یہاں بھی ملتی ہے لیکن اہل سنت کے یہاں کثرت سے نقل ہے من مات ولا امام لہ ما ت میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ وہ وہ جاہلیت کی موت مرا اس طرح کی عبارتیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے مسئلہ امامت کے سلسلہ میں خاصہ اہتمام فرمایا ہے

جو لوگ امامت کا مطلب صرف اجتماع و معاشرے کی رہبری سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پیغمبر نے رہبری کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ خود معتقد ہیں اگر امت کا کوئی رہبر پیشوا نہ ہو تو لوگوں کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کیونکہ احکام اسلام کی صحیح تشریح اور ان کا صحیح نفا ض اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امت ایک صالح رہبر موجود ہواور امت اپے رہبر کے ساتھ مضبوط ارتباط قائم رکھے اسلام انفرادی دین نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے میں خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیںنہیں بلکہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے کے بعد بھی آ پ کو بہر حال یہ دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا کہ زمانے میں رہبر اور مام کون ہے تاکہ بہر حال اسی کی سر پرستی اور رہبری میں عملی زندگی گزاریں اور جو لوگ امامت کو دینی مر جعیت کے معنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ( اس حدیث کی روشنی میں)کہتے کہ جسے اپنا دین محفوظ رکھنا ہو اسے اپنے دینی مرجع کی معرفت حاصل کرنا ھوگی ۔ اور یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی دین کہاں سے حاصل کیا جائے۔ اور یہ کہ انسان دین تو رکھتا ہے لیکن وہ اپنا دین خود اس کے مخالف منابع و مراکز سے حاصل کرے تو سراسر جہالت ھوگی۔

اور جو امامت کو ولایت معنوی کی حد تک لے جاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کسی ولی کامل کے لطف و کرم اور اس کی توجہ کا مرکز قرار نہ پائے تو گویا اس کی موٹ جاہلیت کی موت ہے ۔ یہ حدیث چونکہ متواترات سے ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ پہلے عرض کردوں تاکہ ذہنوں میں باقی رہے "انشاء اللہ اس پر آئندہ بحث کی جائے گی۔

امامت قرآن کی روشنی میں:

قرآن کریم میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کےیہاںبھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں ۔ ان میںسے ایک آیت یہ ہے:( انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنواالذین یقیموں الصلاة ویوتون الزکاة وهم راکعون ) ۔(۵)

"انما" کے معنی ہیں صرف اور صرف (کیونکر یہ اداۃ حصر ہے)"ولی"کے اصل معنی ہیں سر پرست ولایت یعنی تسلط و سرپرستی۔ قرآن کہتا ہے۔ تمہارا سر پرست صرف اور صرف خدا ہے، اس کارسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔"اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کہ انسان ھالت رکوع میں رکوۃ دے۔ تاکہ کہا جائے کہ یہ قانون لی ہے اور تمام افراد اس حکم میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو خارج میں صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا۔ شیعہ اور سنی دونوں نے متفق طور پر اس کی روایت کی ہے، واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت علی حالت رکوع میں تھے کہ ایک سائل نے آکر سوال کیا ۔ حضرت نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا ۔ سائل قریب آیا ، اس نے حضرت علی(ع) انگلی سے انگھوٹی اتاردی اور لیکر چلاگیا ۔ یعنی آپ نے اتنا انتظار بھی نہیں کیا کہ نماز تمام ہوجائے اس کے بعد انفاق کریں آپ اس فقیر کے سوال کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسی رکوع کی حالت میں اسے اشارہ سے سمجھا دیا کہ انگھوٹی اتار لے جائے اور اسے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرے ۔ اس واقعہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سنی شیعہ سب متفق ہیں کہ حضرت علی نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ دونوں فریق اس بات پربھی متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ جبکہ رکوع کی حالت میں انفاق کرن اسلامی قوانین کا جزو نہیں ہے ۔ نہ واجب ہے نہ مستحب کہ یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کچھ کوگوں نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔ لہٰذا آ یت کا یہ انداز "جو لوگ یہ عمل انجام دیتے ہیں "ایک اشارہ و کنایہ ہے ۔ جسے خود قرآن میں اکثر آیا ہے "یقولون " یعنی ( وہ لوگ کہتے ہیں ) جبکہ معلوم ہے کہ ایک شخص نے یہ بات کہی ہے ۔ لہٰذا یہان اس مفہوم سے مراد وہ فرد ہے جس نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ بنا بر ایں اس آیت کے حکم کے مطابق حضرت علی (ع) لوگوں پر ولی حیثیت سے معین کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ اس آیت کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ البتہ اس پر اس سے کہیں زیادہ بحث و گفتگو ہونی چاہئے جسے ہم آئندہ پیش کریں گے ۔

دوسری آیات واقعۂ غدیر سے متعلق ہیں ۔ اگر چہ خود واقعہ غدیر احادیث کے ذیل میں آتا ہے اور ہم اس پر بعد میں بحث کریں گے لیکن اس واقعہ سے متعلق سورۂمائدہ میں جو آیتیں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں ایک آیت یہ ہے :( یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۶) (یہاں لہجہ بہت تند ہو گیا ) اے پیغمبر ! جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کردو ، اور اگر تم نے اس کی تبلیغ نہیں کی تو گویا تم نے سرے سے رسالت الٰہی کی تبلیغ نہیں کی ۔ اس آیت کا مفہوم اتنا ہی شدید اور تند ہے جتنا حدیث "من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ " کا اجمالی طور سے خود آیت ظاہر کررہی ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ نہ کی تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ۔

شیعہ و سنی اس پر متفق ہے کہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والا آخری سورہ، مائدہ ہے ۔ اور یہ آیتین ان آیتوں کاجز ہے جو سب سے آخر میں پیغمبر پر نازل ہوئی یعنی اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام تیرہ سال مکہ کی زندگی اور دس سال مدینہ کی حیات میں اسلام کے تمام دوسرے قوانین و احکام بیان کر چکے تھے یہ حکم ان احکام کا آخر جز تھا اب ایک شیعہ سوال کرتا ہے کہ یہ حکم جو آخری احکام کا جزہے اور اس قدر اہم ہے کہ اگر پیغمبر اسے نہ پہونچائیں تو ان کی گذشتہ علم محنتوں پر پانی پھر جائے ۔ آخر ہے کون سا حکم ؟ آپ لاکھ تلاش کے بعد کسی ایسے مسئلہ کی نشان دہی نہیں کرسکتے جو پیغمبر کی زندگی کے آخر دنوں سے مربوط ہو اور اس قدر اہم ہو کہ اگر حضور اس کی تبلیغ نہ کریں تو گویا انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ امامت ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتا سب کچھ بیکا ر ہے یعنی اسلام کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ شیعہ خود اہل سنت کی رواہت سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے ۔

اسی سورۂ مائدہ میں ایک اور آیت ہے( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ) (سورہ مائدہ آیت نمبر ۳) آج میں نے دین کو تم لوگوں کےلئے کمال کی منزلوں تک پہونچا دیا ۔ اس پر اپنی نعمتیں آخر حدوں تک تمام کر دی اور آج کے دن میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسندیدہ قرار دیا ، خود آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس دن کوئی واقعہ گزرا ہے جو اتنا اہم ہے کہ دین کے کامل ہونے اور انسانیت پر خدا کی طرف سے اتمام نعمت کا سبب بن گیا ہے ۔ جس کے ظہور پذیر ہونے سے اسلام در حقیقت اسلام ہے اور خدا اس دین کو ویسا ہی پاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اسلام ،اسلام ہی نہیں ہے ۔ آ یت کا لب و لہجہ بتا تھا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے ۔ اسی بنا پر شیعہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ موضوع جو دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا سبب بنا اور جو اگر واقع نہ ہوتا تو اسلام در اصل اسلام ہی نہ رہتا ۔ وہ کیا تھا ؟ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا موضوع ہے جسے اتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اس با ت کی تائید کرتی ہے کہ یہ آیت بھی اسی موضوع امامت کے تحت نازل ہوئی ہے ۔

____________________

(۱) سورہ ہود آیت نمبر۹۸

(۲) سورہ حشر آیت نمبر ۷

(۳) سورہ نساء آیت ۶۵پس نہیں اے رسول تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف اور دشمنیوں میں تمہیں حاکم نہ بناءیں ۔ اور تم جو کچھ فیصلہ کردو اس سے دل تنگ نہ ہوں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں ۔

(۴) دلائل الصدوق ص ۶، ۱۳

(۵) سورۂ مائدہ /آیت نمبر۵۵۔

(۶) سورہ مائدہ آیت نمبر ۶۷


16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27