توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)0%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 61215
ڈاؤنلوڈ: 4986

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61215 / ڈاؤنلوڈ: 4986
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

خمس کے احکام

1760 ۔ خمس سات چ یزوں پر واجب ہے۔

1 ۔ کاروبار ( یا روزگار) کا منافع

2 ۔ مَعدِن ی کانیں

3 ۔ گ ڑ ا ہ وا خزان ہ

4 ۔ حلال مال جو حرام مال م یں مخلوط ہ و جائ ے

5 ۔ غوط ہ خور ی سے حاصل ہ ون ے وال ے سمندر ی موتی اور مونگے

6 ۔ جنگ م یں ملنے والا مال غن یمت

7 ۔ مش ہ ور قول ک ی بنا پر وہ زم ین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خر یدے۔

ذیل میں ان کے احکام تفص یل سے ب یان کئے جائ یں گے۔

کاروبار کا منافع

1761 ۔ جب انسان تجارت، صنعت و حرفت یا دوسرے کام د ھ ندوں س ے روپ یہ پیسہ کمائے مثال ک ے طور پر اگر کوئ ی اجیر بن کر کسی متوفی کی نمازیں پڑھے اور روز ے رک ھے اور اس طرح کچ ھ روپ یہ کمائے ل ہ ذا اگر و ہ کمائ ی خود اس کے اور اس ک ے ا ہ ل و ع یال کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہو تو ضروری ہے ک ہ زائد کمائ ی کا خمس یعنی پانچواں حصہ اس طر یقے کے مطابق د ے جس ک ی تفصیل بعد میں بیان ہ وگ ی۔

1726 ۔ اگر کس ی کو کمائی کئے بغ یر کوئی آمدنی ہ وجائ ے مثلاً کوئ ی شخص اسے بطور تحف ہ کوئ ی چیز دے اور و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس دے۔

1763 ۔ عورت کو جو م ہ ر ملتا ہے اور شو ہ ر، ب یوی کو طلاق خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا ہے ان پر خمس ن ہیں ہے اور اس ی طرح جو میراث انسان کو ملے اس کا ب ھی میراث کے معتبر قواعد ک ی رو سے یہی حکم ہے۔ اور اگر اس مسلمان کو جو ش یعہ ہے کس ی اور ذریعے سے مثلاً پدر ی رشتے دار ک ی طرف سے م یراث ملے تو اس مال ک ی "فوائد" میں شمار کیا جائے گا اور ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔ اس ی طرح اگر اسے باپ اور ب یٹے کے علاو ہ کس ی اور کی طرف سے م یراث ملے ک ہ جس کا خود اس ے گمان تک ن ہ ہ و تو احت یاط واجب یہ ہے ک ہ و ہ م یراث اگر اس کے سال بھی کے اخراجات سے زیادہ ہ و تو اس کا خمس د ے۔

1724 ۔ اگر کس ی شخص کو کوئی میراث ملے اور اس معلوم ہ و ک ہ جس شخص س ے اس ے یہ میراث ملی ہے اس ن ے اس کا خمس ن ہیں دیا تھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ وارث اس کا خمس د ے۔ اس ی طرح اگر خود اس مال پر خمس واجب نہ ہ و اور وارث کو علم ہ و کہ جس شخص س ے اس ے و ہ مال ورث ے م یں ملا ہے اس شخص ک ے ذمے خمس واجب الادا ت ھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ے مال س ے خمس ادا کر ے۔ ل یکن دونوں صورتوں میں جس شخص سے مال ورث ے م یں ملا ہ و اگر و ہ خمس د ینے کا معتقد نہ ہ و یا یہ کہ و ہ خمس د یتا ہی نہ ہ و تو ضرور ی نہیں کہ وارث و ہ خمس ادا کر ے جو اس شخص پر واجب ت ھ ا ۔

1765 ۔ اگر کس ی شخص نے کفا یت شعاری کے سبب سال ب ھ ر ک ے اخراجات ک ے بعد کچ ھ رقم پس انداز ک ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس بچت کا خمس د ے۔

1766 ۔ جس شخص ک ے تمام اخراجات کوئ ی دوسرا شخص برداشت کرتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ جنتا مال اس ک ے ہ ات ھ آئ ے اس کا خمس د ے۔

1767 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنی جائداد کچھ خاص افراد مثلاً اپن ی اولاد کے لئ ے وقف کر د ے اور و ہ لوگ اس جائداد م یں کھیتی باڑی اور شجرکاری کریں اور اس سے منافع کمائ یں اور وہ کمائ ی ان کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کمائ ی کا خمس دیں۔ ن یز یہ کہ اگر و ہ کسی اور طریقے سے اس جائداد س ے نفع حاصل کر یں مثلاً اسے کرائ ے ( یا ٹھیکے) پر دے د یں تو ضروری ہے ک ہ نفع ک ی جو مقدار ان کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و اس کا خمس د یں۔

1768 ۔ جو مال کس ی فقیر نے واجب یا مستحب صدقے ک ے طور پر حاصل ک یا ہ و اگر و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و یا جو مال اسے د یا گیا ہ و اس س ے اس ن ے نفع کما یا ہ و مثلاً اس ن ے ا یک ایسے درخت سے جو اس ے د یا گیا ہ و م یوہ حاصل کیا ہ و اور و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات سے زیادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔ ل یکن جو مال اسے بطور خمس یا زکوۃ دیا گیا ہ و ضرور ی نہیں کہ اس کا خمس د ے۔

1769 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسی رقم سے کوئ ی چیز خریدے جس کا خمس نہ د یا گیا ہ و یعنی بیچنے والے س ے ک ہے ک ہ "م یں یہ چیز اس رقم سے خر ید رہ ا ہ وں" اگر ب یچنے والا شیعہ اثنا عشری ہ و تو ظا ہ ر یہ ہے ک ہ کل مال ک ے متعلق معامل ہ درست ہے اور خمس کا تعلق اس چ یز سے ہ و جاتا ہے جو اس نے اس رقم سے خر یدی ہے اور (اس معامل ے م یں) حاکم شرع کی اجازت اور دستخط کی ضرورت نہیں ہے۔

1770 ۔ اگر کوئ ی شخص کوئی چیز خریدے اور معاملہ ط ے کرن ے ک ے بعد اس ک ی قیمت اس رقم سے ادا کر ے جس کا خمس ن ہ د یا ہ و تو جو معامل ہ اس ن ے ک یا ہے و ہ صح یح ہے اور جو رقم اس ن ے فروشند ہ کو د ی ہے اس ک ے خمس ک ے لئ ے و ہ خمس ک ے مستحق ین کا مقروض ہے۔

1771 ۔ اگر کوئ ی شیعہ اثنا عشری مسلمان کوئی ایسا مال خریدے جس کا خمس نہ د یا گیا ہ و تو اس کا خمس ب یچنے والے ک ی ذمہ دار ی ہے اور خر یدار کے ذم ے کچ ھ ن ہیں۔

1772 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی شیعہ اثنا عشری مسلمان کو کوئی ایسی چیز بطور عطیہ دے جس کا خمس ن ہ د یا گیا ہ و تو اس ک ے خمس ک ی ادائیگی کی ذمہ دار ی عطیہ دینے والے پر ہے اور (جس شخص کو عط یہ دیا گیا ہ و) اس ک ے ذم ے کچ ھ ن ہیں۔

1773 ۔ اگر انسان ک و کسی کافر سے یا ایسے شخص سے جو خمس د ینے پر اعتقاد نہ رک ھ تا ہ و کوئ ی مال ملے تو اس مال کا خمس د ینا واجب نہیں ہے۔

1774 ۔ تاجر، دکاندار، کار یگر اور اس قسم کے دوسر ے لوگوں ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ اس وقت س ے جب ان ہ وں ن ے کاروبار شروع ک یا ہ و، ا یک سال گزر جائے تو جو کچ ھ ان ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و اس کا خمس د یں۔ اور جو شخص کس ی کام دھ ند ے س ے کمائ ی نہ کرتا ہ و اگر اس ے اتفاقاً کوئی نفع حاصل ہ و جائ ے تو جب اس ے یہ نفع ملے اس وقت س ے ا یک سال گزرنے ک ے بعد جتن ی مقدار اس کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔

1775 ۔ سال ک ے دوران جس وقت ب ھی کسی شخص کو منافع ملے و ہ اس کا خمس د ے سکتا ہے اور اس ک ے لئ ے یہ بھی جائز ہے ک ہ سال ک ے ختم ہ ون ے تک اس ک ی ادائیگی کو موخر کر دے اور اگر و ہ خمس ادا کرن ے ک ے لئ ے شمس ی سال (رومن کیلنڈ ر ) اختیار کرے تو کوئ ی حرج نہیں۔

1776 ۔ اگر کوئ ی تاجر یا دکاندار خمس دینے کے لئ ے سال ک ی مدت معین کرے اور اس ے منافع حاصل ہ و ل یکن وہ سال ک ے دوران مر جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی موت تک کے اخراجات اس منافع م یں سے من ہ ا کر ک ے باق ی ماندہ کا خمس د یا جائے۔

1777 ۔ اگر کس ی شخص کے بغرض تجارت خر یدے ہ وئ ے مال ک ی قیمت بڑھ جائ ے اور و ہ اس ے ن ہ ب یچے اور سال کے دوران اس ک ی قیمت گر جائے تو جتن ی مقدار تک قیمت بڑھی ہ و اس کا خمس واجب ن ہیں ہے۔

1778 ۔ اگر کس ی شخص کے بغرض تجارت خر یدے ہ وئ ے مال ک ی قیمت بڑھ جائ ے اور و ہ اس ام ید پر کہ اب ھی اس کی قیمت اور بڑھے گ ی اس مال کو سال کے خاتم ے ک ے بعد تک فروخت ن ہ کر ے اور پ ھ ر اس ک ی قیمت گر جائے تو جس مقدار تک ق یمت بڑھی ہ و اس کا خمس د ینا واجب ہے۔

1779 ۔ کس ی شخص نے مال تجارت ک ے علاو ہ کوئ ی مال خرید کر یا اسی کی طرح کسی طریقے سے حاصل ک یا ہ و جس کا خمس و ہ ادا کر چکا ہ و تو اگر اس ک ی قیمت بڑھ جائ ے اور و ہ اس ے ب یچ دے تو ضرور ی ہے ک ہ جس قدر اس چ یز کی قیمت بڑھی ہے اس کا خمس د ے۔ اس ی طرح مثلاً اگر کوئی درخت خریدے اور اس میں پھ ل لگ یں یا (بھیڑ خریدے اور وہ ) ب ھیڑ موٹی ہ و جائ ے تو اگر ان چ یزوں کی نگہ داشت س ے اس کا مقصد نفع کمانا ت ھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ ان ک ی قیمت میں جو اضافہ ہ وا ہے اس کا خمس د ے بلک ہ اگر اس کا مقصد نفع کمانا ن ہ ب ھی رہ ا ہ و تب ب ھی ضروری ہے ک ہ ان کا خمس د ے۔

1780 ۔ اگر کوئ ی شخص اس خیال سے باغ (م یں پودے ) لگائ ے ک ہ ق یمت بڑھ جان ے پر ان ہیں بیچ دے گا تو ضرور ی ہے ک ہ پ ھ لوں ک ی اور درختوں کی نشوونما اور باغ کی بڑھی ہ وئ ی قیمت کا خمس دے ل یکن اگر اس کا ارادہ یہ رہ ا ہ و ک ہ ان درختوں ک ے پ ھ ل ب یچ کر ان سے نفع کمائ ے گا تو فقط پ ھ ل وں کا خمس دینا ضروری ہے۔

1781 ۔ اگر کوئ ی شخص بید مشک اور چنار وغیرہ کے درخت لگائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال ان ک ے ب ڑھ ن ے کا خمس د ے اور اس ی طرح اگر مثلاً ان درختوں کی ان شاخوں سے نفع کمائ ے جو عموماً ہ ر سال کا ٹی جاتی ہیں اور تنہ ا ان شاخوں ک ی قیمت یا دوسرے فائدوں کو ملا کر اس ک ی آمدنی اس کے سال بھ ر ک ے اخراجات س ے ب ڑھ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال ک ے خاتم ے پر اس زائد رقم کا خمس دے۔

1782 ۔ اگر کس ی شخص کی آمدنی کی متعدد ذرائع ہ وں مثلاً جائداد کا کرا یہ آتا ہ و اور خر ید و فروخت بھی کرتا ہ و اور ان تمام ذرائع تجارت ک ی آمدنی اور اخراجات اور تمام رقم کا حساب کتاب یکجا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ سال ک ے خاتم ے پر جو کچ ھ اس ک ے اکراجات سے زائد ہ و اس کا خ مس ادا کرے۔ اور اگر ا یک ذریعے سے نفع کمائ ے اور دوسر ے ذر یعے سے نقصان ا ٹھ ائ ے تو و ہ ا یک ذریعے کے نقصان کا دوسر ے ذر یعے کے نقصان س ے تدارک کر سکتا ہے۔ ل یکن اگر اس کے دو مختلف پ یشے ہ وں مثلاً تجارت اور زراعت کرتا ہ و تو اس صورت م یں احتیاط واجب کی بنا پر وہ ا یک پیشے کے نقصان کا تدارک دوسر ے پ یشے کے نفع س ے ن ہیں کر سکتا۔

1783 ۔ انسان جو اخراجات فائد ہ حاصل کرن ے ک ے لئ ے مثلاً دلال ی اور باربرداری کے سلسل ے م یں خرچ کرے تو ان ہیں منافع میں سے من ہ ا کر سکتا ہے اور اتن ی مقدار کا خمس ادا کرنا لازم نہیں۔

1784 ۔ کاروبار ک ے منافع س ے کوئ ی شخص سال بھ ر م یں جو کچھ خوراک، لباس، گ ھ ر ک ے ساز و سامان، مکان ک ی خریداری، بیٹے کی شادی، بیٹی کے ج ہیز اور زیارات وغیرہ پر خرچ کرے اوس پر خمس ن ہیں ہے بشرط یکہ ایسے اخراجات اس کی حیثیت سے ز یادہ نہ ہ وں اور اس ن ے فضول خرچ ی بھی نہ ک ی ہ و ۔

1785 ۔ جو مال انسان منت اور کفار ے پر خرچ کر ے و ہ سالان ہ اخراجات کا حص ہ ہے۔ اس ی طرح وہ مال ب ھی اس کے سالان ہ اخراجات کا حص ہ ہے جو و ہ کس ی کو تحفے یا انعام کے طور پر بشرط یکہ اس کی حیثیت سے ز یادہ نہ ہ و ۔

1786 ۔ اگر انسان اپن ی لڑ ک ی شادی کے وقت تمام ج ہیز اکٹھ ا ت یار نہ کر سکتا ہ و تو و ہ اس ے کئ ی سالوں میں تھ و ڑ ا ت ھ و ڑ ا کر ک ے جمع کر سکتا ہے چنانچ ہ اگر ج ہیز خریدے جو اس کی حیثیت سے ب ڑھ کر ن ہ ہ و تو اس پر خمس د ینا لازم نہیں ہے اور اگر و ہ ج ہیز اس کی حیثیت سے ب ڑھ کر ہ و یا ایک سال کے منافع س ے دوسر ے سال م یں تیار کیا گیا ہ و تو اس کا خمس د ینا ضروری ہے۔

1787 ۔ جو مال کس ی شخص نے ز یارت بیت اللہ (حج) اور دوسر ی زیارات کے سفر پر خرچ ک یا ہ و و ہ اس سال ک ے اخراجات م یں شمار ہ وتا ہے جس سال م یں خرچ کیا جائے اور اگر اس کا سفر سال س ے ز یادہ طول کھینچ جائے تو جو کچ ھ و ہ دوسر ے سال م یں خرچ کرے اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

1788 ۔ جو شخص کس ی پیشے یا تجارت وغیرہ سے منافع حاصل کر ے اگر اس ک ے پاس کوئ ی اور مال بھی ہ و جس پر خمس واجب ن ہ ہ و تو و ہ اپن ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات کا حساب فقط اپن ے منافع کو مدنظر رک ھ ت ے ہ وئ ے کر سکتا ہے۔

1789 ۔ جو سامان کس ی شخص نے سال ب ھ ر ا ستعمال کرنے ک ے لئ ے اپن ے منافع س ے خر یدا ہ و اگر سال ک ے آخر م یں اس میں سے کچ ھ بچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر خمس اس ک ی قیمت کی صورت میں دینا چاہے اور جب و ہ سامان خر یدا تھ ا اس ک ے مقابل ے م یں اس کی قیمت بڑھ گئ ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ سال ک ے خاتم ے پر جو ق یمت ہ و اس کا حساب لگائ ے۔

1790 ۔ کوئ ی شخص خمس دینے سے پ ہ ل ے اپن ے منافع م یں سے گ ھ ر یلو استعمال کے لئ ے سامان خر یدے اگر اس کی ضرورت منافع حاصل ہ ون ے وال ے سال ک ے بعد ختم ہ و جائ ے تو ضرور ی نہیں کہ اس کا خمس د ے۔ اور اگر دوران سال اس ک ی ضرورت ختم ہ و جائ ے تو ب ھی یہی حکم ہے۔ ل یکن اگر وہ سامان ان چ یزوں میں سے جو عموماً آئند ہ سالوں م یں استعمال کے لئ ے رک ھی جاتی ہ و ج یسے سردی اور گرمی کے کپ ڑے تو ان پر خمس ن ہیں ہ وتا ۔ اس صورت ک ے علاو ہ جس وقت ب ھی اس سامان کی ضرورت ختم ہ و جائ ے احت یاط واجب یہ ہے ک ہ اس کا خمس دے اور یہی صورت زمانہ ز یورات کی ہے جب ک ہ عورت ک ا انہیں بطور زینت استعمال کرنے کا زمان ہ گزر جائ ے۔

1791 ۔ اگر کس ی شخص کو کسی سال میں منافع نہ ہ و تو و ہ اس سال ک ے اخراجات کو آئند ہ سال ک ے منافع س ے من ہ ا ن ہیں کر سکتا۔

1792 ۔ اگر کس ی شخص کو سال کے شروع م یں منافع نہ ہ و اور و ہ اپن ے سرمائ ے س ے خرچ ا ٹھ ائ ے اور سال ک ے ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے اس ے منافع ہ و جائ ے تو اس ن ے جو کچ ھ سرمائ ے م یں سے خرچ ک یا ہے اس ے منافع س ے من ہ ا کر سکتا ہے۔

1793 ۔ اگر سرمائ ے کا کچ ھ حص ہ تجارت وغ یرہ میں ڈ وب جائ ے تو جس قدر سرما یہ ڈ وبا ہ و انسان اتن ی مقدار اس سال کے منافع م یں سے من ہ ا کرسکتا ہے۔

1794 ۔ اگر کس ی شخص کے مال م یں سے سرمائ ے ک ے علاو ہ کوئ ی اور چیز ضائع ہ و جائ ے تو و ہ اس چ یز کو منافع میں سے م ہیا نہیں کر سکتا لیکن اگر اسے اس ی سال میں اس چیز کی ضرورت پڑ جائ ے تو و ہ اس سال ک ے دوران اپن ے منافع س ے م ہیا کر سکتا ہے۔

1795 ۔ اگر کس ی شخص کو سارا سال کوئی منافع نہ ہ و اور و ہ اپن ے اخراجات قرض ل ے کر پور ے کر ے تو و ہ آئند ہ سالوں ک ے منافع س ے قرض ک ی رقم منہ ا ن ہیں کر سکتا لیکن اگر سال کے شروع م یں اپنے اخراجات پور ے کرن ے ک ے لئ ے قرض ل ے اور سال ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے منافع کمائ ے تو اپن ے قرض ے ک ی رقم اس منافع میں سے من ہ ا کر سکتا ہے۔ اور اس ی طرح پہ ل ے صورت م یں وہ اس قرض کو اس سال ک ے منافع س ے ادا کرسکتا ہے اور منافع ک ی اس مقدار سے خمس کا کوئ ی تعلق نہیں۔

1796 ۔ اگر کوئ ی شخص مال بڑھ ان ے ک ی غرض سے یا ایسی املاک خریدنے کے لئ ے جس ک ی اسے ضرورت ن ہ ہ و قرض ل ے تو و ہ اس سال ک ے منافع س ے اس قرض کو ادا ن ہیں کر سکتا۔ہ اں جو مال بطور قرض ل یا ہ و یا جو چیز اس قرض سے خر یدی ہ و اگر و ہ تلف ہ وجائ ے تو اس صورت م یں وہ اپنا قرض اس سال ک ے منافع م یں سے ادا کر سکتا ہے۔

1797 ۔ انسان ہ ر اس چ یز کا جس پر خمس واجب ہ و چکا ہ و اس ی چیز کی شکل میں خمس دے سکتا ہے اور اگر چا ہے تو جتنا خمس اس پر واجب ہ و اس ک ی قیمت کے برابر رقم ب ھی دے سکتا ہے ل یکن اگر کسی دوسری جنس کی صورت میں جس پر خمس واجب نہ ہ و د ینا چاہے تو محل اشکال ہے بجز اس ک ے ک ہ ا یسا کرنا حاکم شرع کی اجازت سے ہ و ۔

1798 ۔ جس شخص ک ے مال پر خمس واجب الادا ہ و اور سال گزر گ یا ہ و ل یکن اس نے خمس ن ہ د یا ہ و اور خمس د ینے کا ارادہ ب ھی نہ رک ھ تا ہ و و ہ اس مال م یں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ احت یاط واجب کی بنا پر اگر خمس دینے کا ارادہ رک ھ تا ہ و تب ب ھی وہ تصرف ن ہیں کرسکتا۔

1799 ۔ جس شخص کو خمس ادا کرنا ہ و و ہ یہ نہیں کر سکتا کہ اس خمس کو اپن ے ذم ے ل ے یعنی اپنے آپ کو خمس ک ے مستحق ین کا مقروض تصور کرے اور سارا مال استعمال کرتا ر ہے اور اگر استعمال کر ے اور و ہ مال تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔

1800 ۔ جس شخص کو خمس ادا کرنا ہ و اگر و ہ حاکم شرع س ے مفا ہ مت کرک ے خمس کو اپن ے ذم ے ل ے ل ے تو سارا مال استعمال کر سکتا ہے اور مفا ہ مت ک ے بعد اس مال س ے جو منافع اس ے حاصل ہ و و ہ اس کا اپنا مال ہے۔

1801 ۔ جو شخص کاروبار م یں کسی دوسرے ک ے سات ھ شر یک ہ و اگر و ہ اپن ے منافع پر خمس د ے د ے اور اس کا حص ے د ار نہ د ے اور آئند ہ سال و ہ حص ے دار اس مال کو جس کا خمس اس ن ے ن ہیں دیا ساجھے م یں سرمائے ک ے طور پر پ یش کرے تو و ہ شخص (جس ن ے خمس ادا کر د یا ہ و) اگر ش یعہ اثنا عشری مسلمان ہ و تو اس مال کو استمعال م یں لاسکتا ہے۔

1802 ۔ اگر نابالغ بچ ے ک ے پاس کوئ ی سرمایہ ہ و اور اس سے منافع حاصل ہ و تو اقو ی کی بنا پر اس کا خمس دینا ہ وگا اور اسک ے ول ی پر واجب ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر ول ی خمس نہ د ے تو بالغ ہ ون ے ک ے بعد واجب ہے ک ہ و ہ خود اس کا خمس د ے۔

1803 ۔ جس شخص کو کس ی دوسرے شخص س ے کوئ ی مال ملے اور اس ے شک ہ و ک ہ (مال د ینے والے ) دوسر ے شخص ن ے اس کا خمس د یا ہے یا نہیں تو وہ (مال حاصل کرن ے والا شخص) اس مال م یں تصرف کرسکتا ہے۔ بلک ہ اگر یقین بھی ہ و ک ہ اس دوسر ے شخص ن ے خمس ن ہیں دیا تب بھی اگر وہ ش یعہ اثنا عشری مسلمان ہ و تو اس مال م یں تصرف کر سکتا ہے۔

1804 ۔ اگر کوئ ی شخص کاروبار کے منافع سے سال ک ے دوران ا یسی جائداد خریدے جو اس کی سال بھ ر ک ی ضروریات اور اخراجات میں شمار نہ ہ و تو اس پر واجب ہے ک ہ سال ک ے خاتم ے پر اس کا خمس د ے اور اگر خمس ن ہ د ے اور اس جائداد ک ی قیمت بڑھ جائ ے تو لازم ہے ک ہ اس ک ی موجودہ ق یمت پر خمس دے اور جائداد ک ے علاو ہ ق الین وغیرہ کے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے۔

1805 ۔ جس شخص ن ے شروع س ے ( یعنی جب سے اس پر خمس ک ی ادائیگی واجب ہ وئ ی ہ و) خمس ن ہ د یا ہ و مثال ک ے طور پر اگر و ہ کوئ ی جائداد خریدے اور اس کی قیمت بڑھ جائ ے اور اگر اس ن ے یہ جائداد اس ارادے س ے ن ہ خر یدی ہ و ک ہ اس ک ی قیمت بڑھ جائ ے گ ی تو بیچ دے گا مثلا ک ھیتی باڑی کے ل ئے زمین خریدی ہ و اور اس ک ی قیمت اس رقم سے ادا ک ی ہ و جس پر خمس ن ہ د یا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ق یمت خرید پر خمس دے اور مثلاً اگر ب یچنے والے کو و ہ رقم د ی ہ و جس پر خمس ن ہ د یا ہ و اور اس س ے ک ہ ا ہ و ک ہ م یں یہ جائداد اس رقم سے خر یدتا ہ وں تو ضروری ہے ک ہ اس جائداد ک ی موجودہ قیمت پر خمس دے۔

1806 ۔ جس شخص ن ے شروع س ے ( یعنی جب سے خمس ک ی ادائیگی اس پر واجب ہ وئ ی) خمس نہ د یا ہ و اگر اس ن ے اپن ے کاروبار ک ے منافع س ے کوئ ی ایسی چیز خریدی ہ و جس ک ی اسے ضرورت ن ہ ہ و اور اس ے منافع کمائ ے ا یک سال گزر گیا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر اس ن ے گ ھ ر کا سازوسا مان اور ضرورت کی چیزیں اپنی حیثیت کے مطابق خر یدی ہ وں اور جانتا ہ و ک ہ اس ن ے یہ چیزیں اس سال کے دوران اس منافع س ے خر یدی ہیں جس سال میں اسے منافع ہ وا ہے تو ان پر خمس د ینا لازم نہیں لیکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ حاکم شرع س ے م فاہ مت کرے۔

معدنی کانیں

1807 ۔ سون ے ، چاند ہ ، س یسے ، تانبے ، لو ہے (ج یسی دھ اتوں ک ی کانیں) نیز پیڑ ول یم، کوئلے ، ف یروزے ، عقیق، پھٹ کر ی یا نمک کی کانیں اور (اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمر ے م یں آتی ہیں یعنی یہ امام عصر علیہ السلام کی ملکیت ہیں۔ ل یکن اگر کوئی شخص ان میں سے کوئ ی چیز نکالے جب کہ شرعا کوئ ی حرج نہ ہ و تو و ہ اس ے اپن ی ملکیت قرار دے سکتا ہے اور اگر و ہ چ یز نصاب کے مطابق ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے۔

1808 ۔ کان س ے نکل ی ہ وئ ی چیز کا نصاب 15 مثقال مروجہ سک ہ دار سونا ہے یعنی اگر کان سے نکال ی ہ وئ ی کسی چیز کی قیمت 15 مثقال سکہ دار سون ے تک پ ہ نچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس پر جو اخراجات آئ ے ہ وں ان ہیں منہ ا کرک ے جو باق ی بچے اس کا خمس د ے۔

1809 ۔ جس شخص ن ے کان س ے منافع کما یا ہ و اور جو چ یز کان سے نکالی ہ و اگر اس ک ی قیمت 15 مثقال سکہ دار سون ے تک ن ہ پ ہ نچ ے تو اس پر خمس تب واجب ہ وگا جب صرف یہ منافع یا اس کے دوسر ے منافع اس منافع کو ملا کر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ وجائ یں۔

1810 ۔ جپسم، چونا، چکن ی مٹی اور سرخ مٹی پر احتیاط لازم کی بنا پر معدنی چیزوں کے حکم کا اطلاق ہ وتا ہے ل ہ ذا اگر یہ چیزیں حد نصاب تک پہ نچ جائ یں تو سال بھ ر ک ے اخراجات نکالن ے س ے پ ہ ل ے ان کا خمس د ینا ضروری ہے۔

1811 ۔ جو شخص کان س ے کوئ ی چیز نکالے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے خوا ہ و ہ کان زم ین کے اوپر ہ و یا زیر زمین اور خواہ ا یسی زمین میں ہ و جو کس ی کی ملکیت ہ و یا ایسی زمین میں ہ و جس کا کوئ ی مالک نہ ہ و ۔

1812 ۔ اگر کس ی شخص کو یہ معلوم نہ ہ و ک ہ جو چ یز اس نے کان س ے نکال ی ہے اس ک ی قیمت 15 مثقال سکہ دار سون ے ک ے برابر ہے یا نہیں تو احتیاط لازم یہ ہے ک ہ اگر ممکن ہ و تو وزن کرک ے یا کسی اور طریقے اس کی قیمت معلوم کرے۔

1813 ۔ اگر کئ ی افراد مل کر کان سے کئ ی چیز نکالیں اور اس کی قیمت 15 مثقال سکہ دار سون ے تک پ ہ نچ جائ ے ل یکن ان میں سے ہ ر ا یک کا حصہ اس مقدار س ے کم ہ و تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ خمس د یں۔

1814 ۔ اگر کوئ ی شخص اس معدنی چیز کو جو زیر زمین دوسرے ک ی ملکیت میں ہ و اس ک ی اجازت کے بغ یر اس کی زمین کھ ود کر نکال ے تو مش ہ ور قول یہ ہے ک ہ "جو چ یز دوسرے ک ی زمین سے نکال ی جائے و ہ اس ی مالک کی ہے " ل یکن یہ بات اشکال سے خال ی نہیں اور بہ تر یہ ہے ک ہ با ہ م معامل ہ ط ے ک رے اور اگر آپس میں سمجھ وت ہ ن ہ ہ وسک ے تو حاکم شرع ک ی طرف رجوع کریں تاکہ و ہ اس تنازع کا ف یصلہ کرے۔

گڑ ا ہ وا دف ینہ

1815 ۔ دف ینہ وہ مال ہے جو زم ین یا درخت یا پہ ا ڑ یا دیوار میں گڑ ا ہ وا ہ و اور کوئ ی اسے و ہ اں س ے نکال ے اور اس ک ی صورت یہ ہ و ہ اس ے دف ینہ کہ ا جاسک ے۔

1816 ۔ اگر انسان کو کس ی ایسی زمین سے دف ینہ ملے جو کس ی کی ملکیت نہ ہ و تو و ہ اس ے اپن ے قبض ے م یں لے سکتا ہے یعنی اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے ل یکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

1817 ۔ دف ینے کا نصاب 105 مثقال سکہ دار چاند ی اور 15 مثقال سکہ دار سونا ہے یعنی جو چیز دفینے سے مل ے اگر اس ک ی قیمت ان دونوں میں سے کس ی ایک کے ب ھی برابر ہ و تو اس کا خمس د ینا واجب ہے۔

1818 ۔ اگر کس ی شخص کو ایسی زمین سے دف ینہ ملے جو اس ن ے کس ی سے خر یدی ہ و اور اس ے معلوم ہ و ک ہ یہ ان لوگوں کا مال نہیں ہے جو اس س ے پ ہ ل ے اس زم ین کے مالک ت ھے اور و ہ یہ نہ جانتا ہ و ک ہ مالک مسلمان ہے یا ذمی ہے اور و ہ خود یا اس کے وارث زندہ ہیں تو وہ اس دف ینے کو اپنے قبض ے م یں لے سکتا ہے ل یکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔ اور اگر اس ے احتمال ہ و ک ہ یہ سابقہ مالک کا مال ہے جب ک ہ زم ین اور اسی طرح دفینہ یا وہ جگ ہ ضمناً زم ین میں شامل ہ ون ے ک ی بنا پر اس کا حق ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے اطلاع د ے اور اگر یہ معلوم ہ و ک ہ اس کا مال ن ہیں تو اس شکص کو اطلاع دے جو اس س ے ب ھی پہ ل ے اس زم ین کا مالک تھ ا اور اس پر اس کا حق ت ھ ا اور اس ی ترتیب سے ان تمام لوگوں کو اطلاع د ے جو خود اس س ے پ ہ ل ے اس زم ین کے مالک ر ہے ہ وں اور اس پر ان کا حق ہ و اور اگر پتہ چل ے ک ہ و ہ ان م یں سے کس ی کا بھی مال نہیں ہے تو پ ھ ر و ہ اس ے ا پنے قبضے م یں لے سکتا ہے ل یکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔

1819 ۔ اگر کس ی شخص کو ایسے کئی برتنوں سے مال مل ے جو ا یک جگہ دفن ہ وں اور اس مال ک ی مجموعی قیمت 105 مثقال چاندی یا 15 مثقال سونے ک ے برابر ہ و تو ضروری ہے ک ہ اس مال کا خمس د ے ل یکن اگر مختلف مقامات سے دف ینے ملیں تو ان میں سے جس دف ینے کی قیمت مذکورہ مقدار تک پ ہ نچ ے اس پر خمس واجب ہے اور جب دف ینے کی قیمت اس مقدار تک نہ پ ہ نچ ے اس پر خمس ن ہیں ہے۔

1820 ۔ جب دو اشخاص کو ا یسا دفینہ ملے جس ک ی قیمت 105 مثقال چاندی یا 15 مثقال سونے تک پ ہ نچت ی ہ و ل یکن ان میں سے ہ ر ا یک کا حصہ اتنا ن ہ بنتا ہ و تو اس پر خمس ادا کرنا ضرور ی نہیں ہے۔

1821 ۔ اگر کوئ ی شخص جانور خریدے اور اس کے پ یٹ سے اس ے کوئ ی مال ملے تو اگر اس ے احتمال ہ و ک ہ یہ مال بیچنے والے یا پہ ل ے مالک کا ہے او ر وہ جانور پر اور جوکچ ھ اس ک ے پ یٹ سے برآمد ہ وا ہے اس پر حق رک ھ تا ہے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے اطلاع د ے اور اگر معلوم ہ و ک ہ و ہ مال ان م یں سے کس ی ایک کا بھی نہیں ہے تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اس کا خمس د ے اگرچ ہ و ہ مال دف ینے کے نصاب ک ے برابر ن ہ ہ و ۔ اور یہ حکم مچھ ل ی اور اس کی مانند دوسرے ا یسے جانداروں کے لئ ے ب ھی ہے جن ک ی کوئی شخص کسی مخصوص جگہ م یں افزائش و پرورش کرے اور ان ک ی غذا کا انتظام کرے۔ اور اگر سمندر یا دریا سے اس ے پک ڑے تو کس ی کو اس کی اطلاع دینا لازم نہیں۔

وہ حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہ و جائ ے

1822 ۔ اگر حلال مال حرام مال کے سات ھ اس طرح مل جائ ے ک ہ انسان ان ہیں ایک دوسرے س ے الگ ن ہ کر سک ے اور حرام مال ک ے مالک اور اس مال ک ی مقدار کا بھی علم نہ ہ و اور یہ بھی علم نہ ہ و ک ہ حرام مال ک ی مقدار خمس سے کم ہے یا زیادہ تو تمام مال کا خمس قربت مطلقہ ک ی نیت سے ا یسے شخص کو دے جو خمس کا اور مال مج ہ ول المالک کا مستحق ہے اور خمس د ینے کے بعد باق ی مال اس شخص پر حلال ہے۔

1823 ۔ اگر حلال مال حرام مال س ے مل جائ ے تو انسان حرام ک ی مقدار ۔ خوا ہ و ہ خمس س ے کم ہ و یا زیادہ۔ جانتا ہ و ل یکن اس کے مالک کو ن ہ جانتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اتن ی مقدار اس مال کے مالک ک ی طرف سے صدق ہ کر د ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ حاکم شرع س ے ب ھی اجازت لے۔

1824 ۔ اگر حلال مال حرام مال س ے مل جائ ے اور انسان کو حرام ک ی مقدار کا علم نہ ہ و ل یکن اس مال کے مالک کو پ ہ چانتا ہ و اور دونوں ا یک دوسرے کو راض ی نہ کرسک یں تو ضروری ہے کہ جتن ی مقدار کے بار ے م یں یقین ہ و ک ہ دوسر ے کا مال ہے و ہ اس ے د یدے۔ بلک ہ اگر دو مال اس ک ی اپنی غلطی سے مخلوط ہ وئ ے ہ وں تو احت یاط کی بنا پر جس مال کے بار ے م یں اسے احتمال ہ و ک ہ یہ دوسرے کا ہے اس ے اس مال س ے ز یادہ دینا ضروری ہے۔

1825 ۔ اگر کوئ ی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے د ے اور بعد م یں اسے پت ہ چل ے ک ہ حرام ک ی مقدار خمس سے ز یادہ تھی تو ضروری ہے ک ہ جتن ی مقدار کے بار ے م یں علم ہ و ک ہ خمس س ے ز یادہ تھی اسے اس ک ے مالک ک ی طرف سے صدق ہ کر د ے ۔

1826 ۔ اگر کوئ ی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس د ے یا ایسا مال جس کے مالک کو ن ہ پ ہ چانتا ہ و مال ک ے مالک ک ی طرف سے صدق ہ کر د ے اور بعد م یں اس کا مالک مل جائے تو اگر و ہ راض ی نہ ہ و تو احت یاط لازم کی بنا پر اس کے مال ک ے برابر اس ے د ینا ضروری ہے۔

1827 ۔ اگر حلال مال حرام مال س ے مل جائ ے اور حرام ک ی مقدار معلوم ہ و اور انسان جانتا ہ و ک ہ اس کا مالک چند لوگوں م یں سے ہی کوئی ایک ہے ل یکن یہ نہ جانتا ہ و ک ہ و ہ کون ہے تو ان سب کا اطلاع د ے چنانچ ہ ان م یں سے کوئ ی ایک کہے ک ہ یہ میرا مال ہے اور دوسر ے ک ہیں کہ ہ مارا مال ن ہیں یا اس مال کے بار ے م یں لاعلمی کا اظہ ار کر یں تو اسی پہ ل ے شخص کو و ہ مال دیدے اور اگر دو یا دو سے ز یادہ آدمی کہیں کہ یہ ہ مارا مال ہے اور صلح یا اسی طرح کسی طریقے سے و ہ معامل ہ حل ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ تنازع ک ے حل ک ے لئ ے حاکم شرع س ے رجوع کر یں اور اگر وہ سب لاعلمی کا اظہ ار کر یں اور باہ م صلح ب ھی نہ کر یں تو ظاہ ر یہ ہے ک ہ اس مال ک ے مالک کا تع ین قرعہ انداز ی کے ذر یعے ہ وگا اور احت یاط یہ ہے ک ہ حاکم شرع یا اس کا وکیل قرعہ انداز ی کی نگرانی کرے۔

غَوَّاصِی سے حاصل کئ ے ہ وئ ے موت ی

1828 ۔ اگر غواص ی کے ذر یعے یعنی سمندر میں غوطہ لگا کر لُئولُئو، مرجان یا دوسرے موت ی نکالے جائ یں تو خواہ و ہ ا یسی چیزوں میں سے ہ وں جو اگت ی ہیں۔ یا معدنیات میں سے ہ وں اگر اس ک ی قیمت 18 چنے سون ے ک ے برابر ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د یا جائے خوا ہ ان ہیں ایک دفعہ میں سمندر سے نکالا گ یا ہ و یا ایک سے ز یادہ دفعہ م یں بشرطیکہ پہ ل ی دفعہ اور دوسر ی دفعہ غوط ہ لگان ے م یں زیادہ فاصلہ ن ہ ہ و مثلاً یہ کہ دو موسموں م یں غواصی کی ہ و ۔ بصورت د یگر ہ ر ا یک دفعہ م یں 18 چنے سون ے ک ی قیمت کے برابر ن ہ ہ و تو اس کا خمس د ینا واجب نہیں ہے۔ اور اسی طرح جب غواصی میں شریک تمام غوطہ خوروں م یں سے ہ ر ا یک کا حصہ 18 چنے سون ے ک ی قیمت کے برابر ن ہ ہ و تو ان پر اس خمس د ینا واجب نہیں ہے۔

1829 ۔ اگر سمندر م یں غوطہ لگائ ے بغ یر دوسرے ذرائع س ے موت ی نکالے جائ یں تو احتیاط کی بنا پر ان پر خمس واجب ہے۔ ل یکن اگر کوئی شخص سمندر کے پان ی کی سطح یا سمندر کے کنار ے س ے موت ی حاصل کرے تو ان کا خمس اس ے اس صورت میں دینا ضروری ہے جب جو موت ی اسے دست یاب ہ وئ ے ہ وں و ہ تنہ ا یا اس کے کاروبار ک ے دوسر ے منافع س ے مل کر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و ۔

1830 ۔ مچ ھ ل یوں اور ان دوسرے (آب ی) جانوروں کا خمس جنہیں انسان سمندر میں غوطہ لگائ ے بغ یر حاصل کرتا ہے اس صورت م یں واجب ہ وتا ہے جب ان چ یزوں سے حاصل کرد ہ منافع تن ہ ا یا کاروبار کے دوسر ے منافع س ے مل کر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ ہ و ۔

1831 ۔ اگر انسان کوئ ی چیز نکالنے کا اراد ہ کئ ے بغ یر سمندر میں غوطہ لگائ ے اور اتفاق س ے کوئ ی موتی اس کے ہ ات ھ لگ جائ ے اور و ہ اس ے اپن ی ملکیت میں لینے کا ارادہ کر ے تو اس کا خمس د ینا ضروری ہے بلک ہ احت یاط واجب یہ ہے ک ہ ہ ر حال م یں اس کا خمس دے۔

1832 ۔ اگر انسان سمندر م یں غوطہ لگائ ے اور کوئ ی جانور نکال لائے اور اس ک ے پ یٹ میں سے اس ے کوئ ی موتی ملے تو اگر و ہ جانور س یپی کی مانند ہ و جس ک ے پ یٹ میں عموماً موتی ہ وت ے ہیں اور وہ نصاب تک پ ہ نچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا خمس د ے اور اگر و ہ کوئ ی ایسا جانور ہ و جس ن ے اتفاقاً موت ی نگل لیا ہ و تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اگرچ ہ و ہ حدنصاب تک ن ہ پ ہ نچ ے تب ب ھی اس کا خمس دے۔

1833 ۔ اگر کوئ ی شخص بڑے در یاوں مثلاً دجلہ اور فرات م یں غوطہ لگائ ے اور موت ی نکال لائے تو اگر اس در یا میں موتی پیدا ہ وت ے ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ (جو موت ی نکالے ) ان کا خمس د ے۔

1834 ۔ اگر کوئ ی شخص پانی میں غوطہ لگائ ے اور کچ ھ عنبر نکال لائ ے اور اس ک ی قیمت 18 چنے سون ے یا اس سے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے کہ اس کا خمس د ے بلک ہ اگر پان ی کی سطح یا سمندر کے کنار ے س ے ب ھی حاصل کرے تو اس کا ب ھی یہی حکم ہے۔

1835 ۔ جس شخص کا پ یشہ غوطہ خور ی یا کان کنی ہ و اگر و ہ ان کا خمس ادا کر د ے اور پ ھ ر اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے کچ ھ بچ ر ہے تو اس ک ے لئ ے یہ لازم نہیں کہ دوبار ہ اس کا خمس ادا کرے۔

1836 ۔ اگر بچ ہ کوئ ی معدنی چیز نکالے یا اسے کوئ ی دفینہ مل جائے یا سمندر میں غوطہ لگا کر موت ی نکال لائے تو بچ ے کا ول ی اس کا خمس دے اور اگر ول ی خمس ادا نہ کر ے تو ضرور ی ہے ک ہ بچ ہ بالغ ہ ون ے ک ے بعد خود خمس ادا کر ے اور اس ی طرح اگر اس کے پاس حرام مال م یں حلال مال میں حلال مال ملا ہ وا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا ول ی اس مال کا پاک کرے۔

مال غنیمت

1837 ۔ اگر مسلمان امام عل یہ السلام کے حکم س ے کفار س ے جنگ کر یں اور جو چیزیں جنگ میں ان کے ہ ات ھ لگ یں انہیں "غنیمت" کہ ا جاتا ہے۔ اور اس مال ک ی حفاظت یا اس کی نقل و حمل وغیرہ کے مصارف من ہ ا کرن ے ک ے بعد اور جو رقم امام عل یہ السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کر یں اور جو مال، خاص امام علیہ السلام کا حق ہے اس ے عل یحدہ کرنے ک ے بعد باق یماندہ پر خمس ادا کیا جائے۔ مال غن یمت پر خمس ثابت ہ ون ے م یں اشیائے منقولہ اور غ یر منقولہ م یں کوئی فرق نہیں۔ ہ اں جن زم ینوں کا تعلق "انفال" سے ہے و ہ تمام مسلمانوں ک ی مشترکہ ملک یت ہیں اگرچہ جنگ ا مام علیہ السلام کی اجازت سے ن ہ ہ و ۔

1838 ۔ اگر مسلمان کافروں س ے امام عل یہ السلام کی اجازت کے بغ یر جنگ کریں اور ان سے مال غن یمت حاصل ہ و تو جو غن یمت حاصل ہ و و ہ امام عل یہ السلام کی ملکیت ہے اور جنگ کرن ے والوں کا اس م یں کوئی حق نہیں۔

1839 ۔ جو کچ ھ کافروں ک ے ہ ات ھ م یں ہے اگر اس کا مالک مُحتَرمُ المَال یعنی مسلمان یا کافرِ ذمّی ہ و تو اس پر غن یمت حاصل ہ و تو جو غن یمت حاصل ہ و و ہ امام عل یہ السلام کی ملکیت ہے اور جنگ کرن ے والوں کا اس م یں کوئی حق نہیں۔

1840 ۔ کافر حَرب ہ کا مال چرانا اور اس ج یسا کوئی کام کرنا اگر خیانت اور نقص امن میں شمار ہ و تو حرام ہے اور اس طرح ک ی جو چیزیں ان سے حاصل ک ی جائیں احتیاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ ان ہیں لوٹ ا د ی جائیں۔

1841 ۔ مش ہ ور یہ ہے ک ہ ناصب ی کا مال مومن اپنے لئ ے ل ے سکتا ہے البت ہ اس کا خمس د ے ل یکن یہ حکم اشکال سے خال ی نہیں ہے۔

وہ زمین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خر یدے

1842 ۔ اگر کافر ذم ی مسلمان سے زم ین خریدے تو مشہ ور قول ک ی بنا پر اس کا خمس اسی زمین سے یا اپنے کس ی دوسرے مال س ے د ے ل یکن خمس کے عام قواعد ک ے مطابق اس صورت م یں خمس کے واجب ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

خمس کا مصرف

1843 ۔ ضرور ی ہے ک ہ خمس دو حصوں م یں تقسیم کیا جائے۔ اس کا ا یک حصہ سادات کا حق ہے اور ضرور ی ہے ک ہ کس ی فقیر سید یا یتیم سید یا ایسے سید کو دیا جائے جو سفر م یں ناچار ہ وگ یا ہ و ۔ اور دوسرا حص ہ امام عل یہ السلام کا ہے جو ضرور ی ہے ک ہ موجود ہ زمان ے م یں جامع الشرائط مجہتد کر دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی وہ مجت ہ د اجازت د ے خرچ ک یا جائے اور احت یاط لازم یہ ہے ک ہ و ہ مرجع اعلم عموم ی مصلحتوں سے آگا ہ ہ و ۔

1844 ۔ جس یتیم سید کو خمس دیا جائے ضرور ی ہے ک ہ و ہ فق یر بھی ہ و ل یکن جو سید سفر میں ناچار ہ و جائ ے و ہ خوا ہ اپن ے وطن م یں فقیر نہ ب ھی ہ و اس ے خمس د یا جاسکتا ہے۔

1845 ۔ جو س ید سفر میں ناچار ہ وگ یا ہ و اگر اس کا سفر گنا ہ کا سفر ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ اس ے خمس ن ہ د یا جائے۔

1846 ۔ جو س ید عادل نہ ہ و اس ے خمس د یا جاسکتا ہے ل یکن جو سید اثنا عشری نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے خمس ن ہ د یا جائے۔

1847 ۔ جو س ید گناہ کا کام کرتا ہ و اگر اس ے خمس د ینے سے گنا ہ کرن ے م یں اس کی مدد ہ وت ی ہ و تو اس ے خمس ن ہ د یا جائے اور احوط یہ ہے ک ہ اس س ید کو بھی خمس نہ د یا جائے جو شراب پ یتاہ و یا نماز نہ پ ڑھ تا ہ و یا علانیہ گناہ کرتا ہ و گو خمس د ینے سے اس ے گنا ہ کرن ے م یں مدد نہ مل تی ہ و ۔

1848 ۔ جو شخص ک ہے ک ہ س ید ہ وں اس ے اس وقت تک خمس ن ہ د یا جائے جب تک دو عادل اشخاص اس ک ے س ید ہ ون ے ک ی تصدیق نہ کرد یں یا لوگوں میں اس کا سید ہ ونا اتنا مش ہ ور ہ و ک ہ انسان کو یقین اور اطمینان ہ و جائ ے ک ہ و ہ س ید ہے۔

1849 ۔ کوئ ی شخص اپنے ش ہ ر م یں سید مشہ ور ہ و اور اس ک ے س ید نہ ہ ون ے ک ے بار ے م یں جو باتیں کی جاتی ہ وں انسان کو ان پر یقین یا اطمینان نہ ہ و تو اس ے خمس د یا جاسکتا ہے۔

1850 ۔ اگر کس ی شخص کی بیوی سیدانی ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ شو ہ ر اس ے اس مقصد ک ے لئ ے خمس ن ہ د ے ک ہ و ہ اس ے اپن ے ذات ی استعمال میں لے آئ یں لیکن اگر دوسرے لوگوں ک ی کفالت اس عورت پر واجب ہ وں اور و ہ ان اخراجات ک ی ادائیگی سے قاصر ہ و تو انسان ک ے لئ ے جا ئز ہے ک ہ اپن ی بیوی کو خمس دے تاک ہ و ہ ز یر کفالت لوگوں پر خرچ کرے۔ اور اس عورت کو اس غرض س ے خمس د ینے کے بار ے م یں بھی یہی حکم ہے جبک ہ و ہ ( یہ رقم) اپنے غ یر واجب اخراجات پر صرف کرے ( یعنی اس مقصد کے لئ ے اس خمس ن ہیں دینا چاہ ئ ے ) ۔

1851 ۔ اگر انسان پر کس ی سید کے یا ایسی سیدانی کے اخراجات واجب ہ وں جو اس ک ی بیوی نہ ہ و تو احت یاط واجب کی بنا پر وہ اس س ید یا سیدانی کے خوراک اور پوشاک ک ے اخراجات اور باق ی واجب اخراجات اپنے خمس س ے ادا ن ہیں کر سکتا۔ ہ اں اگر و ہ اس س ید یا سیدانی کو خمس کی کچھ رق م اس مقصد سے د ے ک ہ و ہ واجب اخراجات ک ے علاو ہ اسے دوسر ی ضروریات پر خرچ کرے تو کوئ ی حرج نہیں۔

1852 ۔ اگر کس ی فقیر سید کے اخراجات کس ی دوسرے شخص پر واجب ہ وں اور و ہ شخص اس س ید کے اخراجات برداشت ن ہ کر سکتا ہ و یا استطاعت رکھ تا ہ و ل یکن نہ د یتا ہ و تو اس س ید کو خمس دیا جاسکتا ہے۔

1853 ۔ احت یاط واجب یہ ہے ک ہ کس ی ایک فقیر سید کو اس کے ا یک سال کے اخراجات س ے ز یادہ خمس نہ د یا جائے ۔

1854 ۔ اگر کس ی شخص کے ش ہ ر م یں کوئی مستحق سید نہ ہ و اور اس ے یقین یا اطمینان ہ و ک ہ کوئ ی ایسا سید بعد میں بھی نہیں ملے گا یا جب تک کوئی مستحق سید ملے خمس ک ی حفاظت کرنا ممکن نہ ہ و تو ضرور ی ہے کہ خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جائ ے اور مستحق کو پ ہ نچا د ے اور خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے ج انے کے اخراجات خمس م یں سے ل ے سکتا ہے اور اگر خمس تلف ہ و جائ ے تو اگر اس شخص ن ے اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی برتی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے اور اگر کوتا ہی نہ برت ی ہ و تو اس پر کچ ھ ب ھی واجب نہیں ہے۔

1855 ۔ جب کس ی شخص کے اپن ے ش ہ ر م یں خمس کا مستحق شخص موجود نہ ہ و تو اگرچ ہ اس ے یقین یا اطمینان ہ و ک ہ بعد م یں مل جائے گا اور خمس ک ے مستحق شخص ک ے ملن ے تک خمس ک ی نگہ داشت ب ھی ممکن ہ و تب ب ھی وہ خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جاسکتا ہے اور اگر و ہ خمس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ برت ے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو اس ک ے لئ ے کوئ ی چیز دینا ضروری نہیں لیکن وہ خمس ک ے دوسر ی جگہ ل ے جان ے ک ے اخراجات خمس م یں سے ن ہیں لے سکتا ہے۔

1856 ۔ اگر کس ی شخص کے اپن ے ش ہ ر م یں خمس کا مستحق مل جائے تب ب ھی وہ خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جاکر مستحق کو پ ہ نچاسکتا ہے ال بتہ خمس کا ا یک شہ ر س ے دوسر ے ش ہ ر ل ے جانا اس قدرتاخ یر کا موجب نہ ہ و ک ہ خمس پ ہ نچان ے م یں سستی شمار ہ و ل یکن ضروری ہے ک ہ اس ے ل ے جان ے ک ے اخراجات خود ادا کر ے۔ اور اس صورت م یں اگر خمس ضائع ہ و جائ ے تو اگرچ ہ اس ن ے اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ برت ی ہ و و ہ اس کا ذم ہ دار ہے۔

1857 ۔ اگر کوئ ی شخص حاکم شرع کے حکم س ے خمس دوسر ے ش ہ ر ل ے جائ ے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو اس ک ے لئ ے دوبار ہ خمس د ینا لازم نہیں اور اسی طرح اگر وہ خمس حاکم شرع ک ے وک یل کو دے د ے جو خمس ک ی وصولی پر مامور ہ و اور و ہ وک یل خمس کو ایک شہ ر س ے دوسر ے ش ہ ر ل ے جائ ے تو اس ک ے لئ ے بھی یہی حکم ہے۔

1858 ۔ یہ جائز نہیں کہ کس ی چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے ز یادہ لگا کر اسے بطور خمس د یا جائے۔ اور ج یسا کہ مسئل ہ 1797 میں بتایا گیا ہے ک ہ کس ی دوسری جنس کی شکل میں خمس ادا کرنا ما سوا سونے اور چاند ی کے سکو ں اور انہین جیسی دوسری چیزوں کے ہ ر صورت م یں محل اشکال ہے۔

1859 ۔ جس شخص کو خمس ک ے مستحق شخص س ے کچ ھ ل ینا ہ و اور چا ہ تا ہ و ک ہ اپنا قرض ہ خمس ک ی رقم سے من ہ ا کر ل ے تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ یا تو حاکم شرع سے اجازت ل ے یا خمس اس مستحق کو دیدے اور بعد میں مستحق شخص اسے و ہ مال قرض ے ک ی ادائیگی کے طور پر لو ٹ ا د ے اور و ہ یہ بھی کر سکتا ہے ک ہ خمس ک ے مستحق شخص ک ی اجازت سے اس کا وک یل بن کر خود اس کی طرف سے خمس ل ے ل ے اور اس س ے اپنا قرض چکا ل ے۔

1860 ۔ مالک، خمس ک ے مستحق شخص س ے یہ شرط نہیں کر سکتا کہ و ہ خمس ل ینے کے بع د اسے واپس لو ٹ ا د ے۔ ل یکن اگر مستحق شخص خمس لینے کے بعد اس ے واپس د ینے پر راضی ہ و جائ ے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً جس شخص ک ے ذم ے خمس ک ی زیادہ رقم واجب الادا ہ و اور و ہ فق یر ہ و گ یا ہو اور چاہ تا ہ و ک ہ خمس ک ے مستح لوگوں کا مقروض ن ہ ر ہے تو اگر خمس کا مستحق شخص راضی ہ و جائ ے ک ہ اس س ے خمس ل ے کر پ ھ ر اس ی کو بخش دے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔