توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)0%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 61227
ڈاؤنلوڈ: 4988

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61227 / ڈاؤنلوڈ: 4988
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

مُعَامَلات

خرید و فروخت کے احکام

2059 ۔ ا یک بیوپاری کے لئ ے مناسب ہے ک ہ خر ید و فروخت کے سلسل ے م یں جن مسائل کا (عموماً) سامنا کرنا پڑ تا ہے ان ک ے احکام س یکھ لے بلک ہ اگر مسائل ن ہ س یکھ ن ے کی وجہ س ے کس ی واجب حکم کی مخالفت کرنے کا اند یشہ ہ و تو مسائل لازم ولابد ہے۔ حضرت امام جعفر صادق عَلَ یہ الصّلوٰۃ ُ وَالسّلام سے روا یت ہے ک ہ "جو پ ہ ل ے خر ید و فروخت کرے گا باطِ ل یا مُشتَبَہ معامل ہ کرن ے ک ی وجہ س ے ہ لاکت م یں پڑے گا ۔ "

2060 ۔ اگر کوئ ی مسئلے س ے ناواقف یت کی بنا پر یہ نہ جانتا ہ و ک ہ اس ن ے جو معامل ہ ک یا ہے و ہ صح یح ہے یا باطل تو جو مال اس نے حاصل ک یا ہ و اس ے استعمال ن ہیں کر سکتا مگر یہ کہ اس ے علم ہ وجائ ے ک ہ دوسرا فر یق اس مال کو استعمال کرنے پر راض ی ہے تو اس صورت م یں وہ استعمال ک ر سکتا ہے اگرچ ہ معامل ہ باطل ہ و ۔

2061 ۔ جس شخص ک ے پاس مال ن ہ ہ و اور کچ ھ اخراجات اس پر واجب ہ وں، مثلاً ب یوی بچوں کا خرچ، تو ضروری ہے ک ہ کاروبار کر ے۔ اور مستحب کاموں ک ے لئ ے مثلاً ا ہ ل و ع یال کی خوشحالی اور فقیروں کی مدد کرنے ک ے لئ ے کاروبار کرنا مستحب ہے۔

خرید و فروخت کے مسُتحبّات

خرید و فروخت میں چند چیزیں مستحب شمار کی گئی ہیں :

(اول) فقر اور اس جیسی کیفیت کے سوا جنس ک ی قیمت میں خریداروں کے درم یان فرق نہ کر ے۔

(دوم) اگر وہ نقصان م یں نہ ہ و تو چ یزیں زیادہ مہ نگ ی نہ ب یچے۔

(سوم) جو چیز بیچ رہ ا ہ و و ہ کچ ھ ز یادہ دے اور جو چ یز خرید رہ ا ہ و و ہ کچ ھ کم ل ے۔

(چہ ارم) اگر کوئ ی شخص سودا کرنے ک ے بعد پش یمان ہ و کر اس چ یز کو واپس کرنا چاہے تو واپس ل ے ل ے۔

مکروہ معاملات

2062 ۔ خاص خاص معاملات جن ہیں مکروہ شمار ک یا گیا ہے ، یہ ہیں:

1 ۔ جائداد کا ب یچنا، بجز اس کے ک ہ اس رقم س ے دوسر ی جائداد خریدی جائے۔

2 ۔ گوشت فروش ی کا پیشہ اختیار کرنا۔

3 ۔ کفن فروش ی کا پیشہ اختیار کرنا۔

4 ۔ ا یسے (اوچھے ) لوگوں س ے معامل ہ کرنا جن ک ی صحیح تربیت نہ ہ وئ ی ہ و ۔

5 ۔ صبح ک ی اذان سے سورج نکلن ے ک ے وقت تک معامل ہ کرنا ۔

6 ۔ گ یہ وں، جَو اور ان جیسی دوسری اجناس کی خریدوفرخت کو اپنا پیشہ قرار دینا۔

7 ۔ اگر مسلمان کوئ ی جنس خرید رہ ا ہ و تو اس ک ے سود ے م یں دخل اندازی کرکے خر یدار بننے کا اظ ہ ار کرنا ۔

حرام معاملات

2063 ۔ ب ہ ت س ے معاملات حرام ہیں جن میں سے کچ ھ یہ ہیں:

1 ۔ نش ہ آور مشروبات، غ یر شکاری کتے اور سور ک ی خریدوفروخت حرام ہے اور احت یاط کی بنا پر نجس مردار کے متعلق ب ھی یہی حکم ہے۔ ان ک ے علاو ہ دوسر ی نجاسات کی خریدوفروخت اس صورت میں جائز ہے جب ک ہ ع ین نجس سے حلال فائد ہ حاصل کرنا مقصود ہ و مثلاً گوبر اور پاخان ے س ے ک ھ اد بنائیں اگرچہ احت یاط اس میں ہے ک ہ ان ک ی خرید و فروخت سے ب ھی پرہیز کیا جائے۔

2 ۔ غصب ی مال کی خرید و فروخت

3 ۔ ان چ یزوں کی خریدوفروخت بھی احتیاط کی بنا پر حرام ہے جن ہیں بالعموم مال تجارت نہ سمج ھ ا جاتا ہ و مثلاً درندوں ک ی خریدوفروخت اس صورت میں جبکہ ان س ے مناسب حد تک حلال فائد ہ ن ہ ہ و ۔

4 ۔ ان چ یزوں کی خریدوفروخت جنہیں عام طور پر فقط حرام کام میں استعمال کرتے ہ وں مثلاً جوئ ے کا سامان ۔

5 ۔ جس ل ین دین میں ربا (سود) ہ و ۔

6 ۔ و ہ ل ین دین جس میں ملاوٹ ہ و یعنی ایسی چیز کا بیچنا جس میں دوسری چیز اس طرح ملائی گئی ہ و ک ہ ملاو ٹ کا پت ہ ن ہ چل سک ے اور ب یچنے والا بھی خریدار کو نہ بتائ ے مثلاً ا یسا گھی بیچناجس میں چربی ملائی گئ ہ و ۔ حضرت رسول اکرم (صل ی اللہ عل یہ وآلہ ) کا ارشاد ہے " جو شخص ملاو ٹ کرک ے کوئ ی چیز کسی مسلمان کے ہ ات ھ ب یچتا ہے یا مسلمان کو نقصان پہ نچاتا ہے یا ان کے سات ھ مکروفر یب سے کام ل یتا ہے و ہ م یری امت میں سے ن ہیں ہے اور جو مسلمان اپن ے مسلمان ب ھ ائ ی کو ملاوٹ وال ی چیز بیچتا ہے تو خداوندتعال ی اس کی روزی سے برکت ا ٹھ ا ل یتا ہے اور اس ک ی روزی کے راستوں کو تنگ کر د یتا ہے اور اس ے اس ک ے حال پر چ ھ و ڑ د یتا ہے "

2064 ۔ جو پ اک چیز نجس ہ وگئ ی ہ و اور اس ے پان ی سے د ھ و کر پاک کرنا ممکن ہ و تو اس ے فروخت کرن ے م یں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر اس ے د ھ ونا ممکن ن ہ ہ و تب ب ھی یہی حکم ہے ل یکن اگر اس کا حلال فائدہ عرف عام م یں اس کے پاک ہ ون ے پر منحصر ن ہ ہ و مثلاً بعض اقسام ک ے ت یل بلکہ اگر ا س کا حلال فائدہ پاک ہ ون ے پر موقوف ہ و اور اس کا مناسب حد تک حلال فائد ہ ب ھی ہ و تب ب ھی اس کا بیچنا جائز ہے۔

2065 ۔ اگر کوئ ی شخص نجس چیز بیچنا چاہے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ اس ک ی نجاست کے بار ے م یں خریدار کو بتا دے اور اگر اس ے ن ہ بتائ ے تو و ہ ا یک حکم واجب کی مخالفت کا مرتکب ہ وگا مثلانجس پان ی کو وضو یا غسل میں استعمال کرے گا اور اس ک ے سات ھ اپن ی واجب نماز پڑھے گا یا اس نجس چیز کو کھ ان ے یا پینے میں استعمال کرے گا البت ہ اگر یہ جانتا ہ و ک ہ اس ے بتان ے س ے کوئ ی فائدہ ن ہیں کیوں کہ و ہ لاپرو شخص ہے اور نجس پاک کا خ یال نہیں رکھ تا تو ا سے بتانا ضرور ی نہیں۔

2066 ۔ اگرچ ہ ک ھ ان ے وال ی اور نہ ک ھ ان ے وال ی نجس دواوں کی خریدوفروخت جائز ہے ل یکن ان کی نجاست کے متعلق خر یدار کو اس صورت میں بتا دینا ضروری ہے جس کا ذکر سابق ہ مسئل ے م یں کیا گیا ہے۔

2067 ۔ جو ت یل غیر اسلامی ممالک سے در آمد کئ ے جات ے ہیں اگر ان کے نجس ہ ون ے ک ے بار ے م یں علم نہ ہ و تو ان ک ی خرید و فرخت میں کوئی حرج نہیں اور جو چربی کسی حیوان کے مرجان ے ک ے بعد حاصل ک ی جاتی ہے اگر اس ے کافر س ے ل یں یا غیر اسلامی ممالک سے منگائ یں تو اس صورت میں جب کہ اس ک ے بار ے م یں احتمال ہ و ک ہ ا یسے حیوان کی ہے جس ے شرعی طریقے سے ذبح ک یا گیا ہے تو گو و ہ پاک ہے اور اس ک ی خریدوفرخت جائز ہے ل یکن اس کا کھ انا حرام ہے اور ب یچنے والے ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ و ہ اس ک ی کیفیت سے خر یدار کو آگاہ کر ے ک یوں کہ خر یدار کو آگاہ کرن ے ک ی صورت میں وہ کس ی واجب حکم کی مخالفت کا مرتکب ہ وگا جس ے ک ہ مسئل ہ 2065 میں گزر چکا ہے۔

2068 ۔ اگر لوم ڑی یا اس جیسے جانوروں کو شرعی طریقے سے ذبح ن ہ ک یا جائے یا وہ خود مرجائ یں تو ان کی کھ ال ک ی خریدوفروخت احتیاط کی بنا پر جائز نہیں ہے۔

2069 ۔ جو چم ڑ ا غ یر اسلامی ممالک سے در آمد ک یا جائے یا کافر سے ل یا جائے اگر اس ک ے بار ے م یں احتمال ہ و ک ہ ا یک ایسے جانور کا ہے جس ے شرع ی طریقے سے ذبح ک یا گیا ہے تو اس ک ی خریدوفروخت جائز ہے اور اس ی طرح اس میں نماز بھی اقوی کی بنا پر صحیح ہ وگ ی۔

2070 ۔ جو ت یل اور چربی حیوان کے مرن ے ک ے بعد حاصل ک ی جائے یا وہ چم ڑ ا جو مسلمان سے ل یا جائے اور انسان کو علم ہ و ک ہ اس مسلمان ن ے یہ چیز کافر سے ل ی ہے ل یکن یہ تحقیق نہیں کی کہ یہ ایسے حیوان کی ہے ج یسے شرعی طریقے سے ذبح ک یا گیا ہے یا نہیں اگرچہ اس پر ط ہ ارت کا ح کم لگتا ہے اور اس ک ی خریدوفروخت جائز ہے ل یکن اس تیل یا چربی کا کھ انا جائز ن ہیں ہے۔

2071 ۔ نش ہ آور مشروبات کال ین دین حرام اور باطل ہے۔

2072 ۔ غصب ی مال کا بیچنا باطل ہے اور ب یچنے والے ن ے جو رقم خر یدار سے ل ی ہ و اس ے واپس کرنا ضرور ی ہے۔

2073 ۔ اگر خر یدار سنجیدگی سے سودا کرن ے کا اراد ہ رک ھ تا ہ و ل یکن اس کی نیت یہ ہ و ک ہ جو چ یز خرید رہ ا ہے اس ک ی قیمت نہیں دے گا تو اس کا یہ سوچنا سو دے ک ہ صح یح ہ ون ے م یں مانع نہیں اور ضروری ہے ک ہ خر یدار اس سودے ک ی قیمت بیچنے والے کو د ے۔

2074 ۔ اگر خر یدار چاہے ک ہ جو مال اس ن ے اد ھ ار خر یدا ہے اس ک ی قیمت بعد میں حرام مال سے د ے گا تب ب ھی معاملہ صح یح ہے البت ہ ضرور ی ہے ک ہ جتن ی قیمت اس کے ذم ے ہ و حلال مال س ے د ے تاک ہ اس کا اد ھ ار چکتا ہ وجائ ے۔

2075 ۔ موس یقی کے آلات مثلاً ستار اور طنبور ہ ک ی خریدوفروخت جائز نہیں ہے اور احت یاط کی بنا پر چھ و ٹے چ ھ و ٹے ساز جو بچوں ک ے ک ھ لون ے ہ وت ے ہیں ان کے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے۔ ل یکن (حلال اور حرام میں استعمال ہ ون ے وال ے ) مشترک ہ آلات مثلاً ر یڈیو اور ٹیپ ریکارڈ کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ انہیں حرام کاموں استعمال کرنے کا اراد ہ ن ہ ہ و ۔

2076 ۔ اگر کوئ ی چیز کہ جس س ے جائز فائد ہ ا ٹھ ا یا جاسکتا ہ و اس ن یت سے ب یچی جائے ک ہ اس ے حرام مصرف م یں لایا جائے مثلاً انگور اس ن یت سے ب یچا جائے ک ہ اس س ے شراب ت یار کی جائے تو اس کا سودا حرام بلک ہ احت یاط کی بنا پر باطل ہے۔ ل یکن اگر کوئی شخص انگور اس مقصد سے ن ہ ب یچے اور فقط یہ جانتا ہ و ک ہ خر یدار انگور سے شراب ت یار کرے گا تو ظا ہ ر یہ ہے ک ہ سود ے م یں کوئی حرج نہیں۔

2077 ۔ جاندار کا مجسم ہ بنانا احت یاط کی بنا پر مطلقاً حرام ہے (مطلقاً س ے مراد یہ ہے ک ہ مجسم ہ کامل بنا یا جائے یاناقص) لیکن ان کی خریدوفروخت ممنوع نہیں ہے اگرچ ہ احوط یہ ہے ک ہ اس ے ب ھی ترک کیا جائے ل یکن جاندار کی نقاشی اقوی کی بنا پر جائز ہے۔

2078 ۔ کس ی ایسی چیز کا خریدنا حرام ہے جو جُوئ ے یا چوری یا باطل سودے س ے حاصل ک ی گئی ہ و اور اگر کوئ ی ایسی چیز خرید لے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ے اصل ی مالک کو لوٹ ا د ے۔

2079 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسا گھی بیچے جس میں چربی کی ملاوٹ ہ و اور اس ے مُعَ یَّن کردے مثلاً ک ہے ک ہ م یں "یہ ایک من گھی بیچ رہ ا ہ وں" تو اس صورت م یں جب اس میں چربی کی مقدار اتنی زیادہ ہ و ک ہ اس ے گ ھی نہ ک ہ ا جائ ے تو معامل ہ باطل ہے اور اگر چرب ی کی مقدار اتنی کم ہ و ک ہ اس ے چرب ی ملا ہ وا ک ہ ا جائ ے تو معامل ہ صح یح ہے ل یکن خریدنے والے کو مال ع یب دار ہ ون ے ک ی بنا پر حق حاصل ہے ک ہ و ہ معامل ہ ختم کرسکتا ہے اور اپنا پ یسہ واپس لے سکتا ہے اور اگر چرب ی گھی سے جدا ہ و تو چرب ی کی جتنی مقدار کی ملاوٹ ہے اس کا معامل ہ باطل ہے اور چرب ی کی جو قیمت بیچنے والے ن ے ل ی ہے و ہ خر یدار کی ہے اور چرب ی، بیچنے والے کا مال ہے اور گا ہ ک اس م یں جو خالص گھی ہے اس کا معامل ہ ب ھی ختم کر سکتا ہے۔ ل یکن اگر معین نہ کر ے بلک ہ صرف ا یک من گھی بتا کر بیچے لیکن دیتے وقت چربی ملا ہ وا گ ھی دے تو گا ہ ک و ہ گ ھی واپس کرکے خالص گ ھی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

2080 ۔ جس جنس کو ناپ تول کر ب یچا جاتا ہے اگر کوئ ی بیچنے والا اسی جنس کے بدل ے م یں بڑھ ا کر ب یچے مثلاً ایک من گیہ وں کی قیمت ڈیڑھ من گیہ وں وصول کرے تو یہ سود اور حرام ہے بلک ہ اگر دو جنسوں م یں سے ا یک بے ع یب اور دوسری عیب دار ہ و یا ایک جنس بڑھیا اور دوسری گھٹیا ہو یا ان کی قیمتوں میں فرق ہ و تو اگر ب یچنے والا جو مقدار دے ر ہ ا ہ و اس س ے ز یادہ لے تب ب ھی سود اور حرام ہے۔ ل ہ ذا اگر و ہ ثابت تانبا د ے کر اس س ے ز یادہ مقدار میں ٹ و ٹ ا ہ وا تانبا ل ے یا ثابت قسم کا پیتل دے کر اس س ے ز یادہ مقدار میں ٹ و ٹ ا ہ وا پ یتل لے یا گھڑ ا ہ وا سونا دے کر اس سے ز یادہ مقدار میں بغیر گھڑ ا ہ وا سونا ل ے تو یہ بھی سود اور حرام ہے۔

2081 ۔ ب یچنے والا جو چیز زائد لے اگر و ہ اس جنس س ے مختلف ہ و جو و ہ ب یچ رہ ا ہے مثلاً ا یک من گیہ وں کو ایک من گیہ وں اور کچھ نقد رقم ک ے عوض ب یچے تب بھی یہ سود اور حرام ہے بلک ہ اگر و ہ کوئ ی چیز زائد نہ ل ے ل یکن یہ شرط لگائے ک ہ خر یدار اس کے لئ ے کوئ ی کام کرے گا تو یہ بھی سود اور حرام ہے۔

2082 ۔ جو شخص کوئ ی چیز کم مقدار میں دے ر ہ ا ہ و اگر و ہ اس ک ے سات ھ کوئ ی اور چیز شامل کر دے مثلاً ا یک من گیہ وں اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گیہ وں کے عِوَض ب یچے تو اس میں کوئی حرج نہیں اس صورت میں جب کہ اس ک ی نیت یہ ہ و ک ہ و ہ رومال اس ز یادہ گیہ وں کے مقابل ے م یں ہے اور معامل ہ ب ھی نقد ہ و ۔ اور اس ی طرح اگر دونوں طرف سے کوئ ی چیز بڑھ ا د ی جائے مثلاً ا یک شخص ایک من گیہ وں اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گیہ وں اور ایک رومال کے عوض ب یچے تو اس کے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے ل ہ ذا اگر ان ک ی نیت یہ ہ و ک ہ ا یک کا رومال اور آدھ ا من گ یہ وں دوسرے ک ے روما ل کے مقابل ے م یں ہے تو اس م یں کوئی اشکال نہیں ہے۔

2083 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسی چیز بیچے جو میڑ اور گز کے حساب س ے ب یچی جاتی ہے مثلاً کپ ڑ ا یا ایسی چیز بیچے جو گن کر یچی جاتی ہے مثلاً اخرو ٹ اور ان ڈے اور ز یادہ لے مثلاً دس ان ڈے د ے اور گ یارہ لے تو اس م یں کوئی حرج نہیں۔ ل یکن اگر ایسا ہ و ک ہ معامل ے م یں دونوں چیزیں ایک ہی جنس سے ہ وں اور مدت مع ین ہ و تو اس صورت م یں معاملے ک ے صح یح ہ ون ے م یں اشکال ہے مثلاً دس اخرو ٹ نقدد ے اور بار ہ اخرو ٹ ا یک مہینے کے بعد ل ے۔ اور کرنس ی نوٹ وں کا فروخت کرنا ب ھی اسی زمرے م یں آتا ہے مثلاً تو مان کو نو ٹ وں ک ی کسی دوسری جنس کے بدل ے م یں مثلاً دینار یا ڈ الر کے بدل ے م یں نقد یا معین مدت کے لئ ے ب یچے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر اپنی ہی جنس کے بدل ے م یں بیچنا چاہے اور ب ہ ت ز یادہ لے تو معامل ہ مع ین مدت کے لئ ے ن ہیں ہ ونا چا ہ ئ ے مثلاً سو تو مان نقد د ے اور ا یک سو دس تو مان چھ م ہینے کے بعد ل ے تو اس معامل ے ک ے صح یح ہ ون ے میں اشکال ہے۔

2084 ۔ اگر کس ی جنس کو اکثر شہ روں م یں ناپ تول کر بیچا جاتا ہ و اور بعض ش ہ روں م یں اس کا لین دین گن کر ہ وتا ہ و تو اقو ی کی بنا پر اس جنس کو اس شہ ر ک ی نسبت جہ اں گن کر ل ین دین ہ وتا ہے دوسر ے ش ہ ر م یں زیادہ قیمت پر بیچنا جائز ہے۔ اور اس ی طرح اس صورت میں جب شہ ر مختلف ہ وں اورا ایسا غلبہ درم یان میں نہ ہ و ( یعنی یہ نہ ک ہ اجاسک ے ک ہ اکثر ش ہ روں م یں یہ جنس ناپ تول کر بکتی ہے یا گن کر بکتی ہے ) تو ہ ر ش یر میں وہ اں ک ے رواج ک ے مطابق حکم لگا یا جائے گا ۔

2085 ۔ ان چ یزوں میں جو تول کر یا ناپ کر بیچی جاتی ہیں اگر بیچی جانے وال ی چیز اور اس کے بدل ے م یں لی جانے وال ی چیز ایک جنس سے ن ہ ہ وں اور ل ین دین بھی نقد ہ و تو ز یادہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ل یکن اگر لین دین معین مدت کے لئ ے ہ و تو اس م یں اشکال ہے۔ ل ہ ذا اگر کوئ ی شخص ایک من چاول کو دو من گیہ وں کے بدل ے م یں ایک مہینے کی مدت تک بیچے تو اس لین دین کا صحیح ہ ونا اشکال س ے خال ی نہیں ۔

2086 ۔ اگر ا یک شخص پکے م یووں کا سودا کچے م یووں سے کر ے تو ز یادہ نہیں لے سکتا اور مش ہ ور (علماء) ن ے ک ہ ا ہے ک ہ ا یک شخص جو چیز بیچ رہ ا ہ و اور اس ک ے بدل ے م یں جو کچھ ل ے ر ہ ا ہ و اگر و ہ دونوں ا یک ہی چیز سے بن ی ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ معامل ے م یں اضافہ ن ہ ل ے مثلاً اگر و ہ ا یک من گائے کا گ ھی بیچے اور اس کے بدل ے م یں ڈیڑھ من گائے کا پن یر حاصل کرے تو یہ سود ہے اور حرام ہے ل یکن اس حکم کے کل ی ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

2087 ۔ سود ک ے اعتبار س ے گ یہ وں اور جو ایک جنس شمار ہ وت ے ہیں لہ ذا مثال ک ے طور پر اگر کوئ ی شخص ایک من گیہ وں دے اور اس ک ے بدل ے م یں ایک من پانچ سیر جولے تو یہ سود ہے اور ح رام ہے۔ اور مثال ک ے طور پر اگر دس من جو اس شرط پر خر یدے کہ گ یہ وں کی فصل اٹھ ان ے ک ے وقت دس من گ یہ وں بدلے م یں دے گا تو چونک ہ جو اس ن ے نقد لئ ے ہیں اور گیہ وں کچھ مدت بعد د ے ر ہ ا ہے ل ہ ذا یہ اسی طرح ہے۔ ج یسے اضافہ ل یا ہ و اس لئ ے حرام ہے۔

2088 ۔ باپ ب یٹ ا اور میاں بیوی ایک دوسرے س ے سود ل ے سکت ے ہیں اور اسی طرح مسلمان ایک ایسے کافر سے جو اسلام ک ی پناہ م یں نہ ہ و سود ل ے سکتا ہے ل یکن ایک ایسے کافر سے جو اسلام ک ی پناہ م یں ہے سود کا ل ین دین حرام البتہ معامل ہ ط ے کر ل ینے کے بعد اگر سود د ینا اس کی شریعت میں جائز ہ و تو اس س ے سود ل ے سکتا ہے۔

بیچنے والے اور خر یدارکی شرائط

2089 ۔ ب یچنے والے اور خر یدار کے لئ ے چ ھ چ یزیں شرط ہیں :

1 ۔ بالغ ہ وں ۔

2 ۔ عاقل ہ وں ۔

3 ۔ سَف یہ نہ ہ وں یعنی اپنا مال احمقانہ کاموں م یں خرچ نہ کرت ے ہ وں ۔

4 ۔ خر ید و فروخت کا ارادہ رک ھ ت ے ہ وں ۔ پس اگر کوئ ی مذاق میں کہے ک ہ م یں نے اپنا مال ب یچا تو معاملہ باطل ہ وگا ۔

5 ۔ کس ی نے ان ہیں خریدوفروخت پر مجبور نہ ک یا ہ و ۔

6 ۔ جو جنس اور اس ک ے بدل ے م یں جو چیز ایک دوسرے کو د ے ر ہے ہ وں اس ک ے مالک ہ وں ۔ اور ان ک ے بار ے م یں احکام آئندہ مسائل م یں بیان کئے جائ یں گے۔

2090 ۔ کس ی نابالغ بچے ک ے سات ھ سودا کرنا جو آزادانہ طور پر سودا کر ر ہ ا ہ و باطل ہے ل یکن ان کم قیمت چیزوں میں جن کی خریدوفروخت کا رواج ہے اگر نابالغ مگر سمج ھ دار بچ ے ک ے سات ھ ل ین دین ہ وجائ ے (توصح یح ہے ) اور اگر سودا اس ک ے سرپرست ک ے سات ھ ہ و اور نابالغ مگر سمج ھ د ار بچہ ل ین دین کا صیغہ جاری کرے ت و سوداہ ر صورت م یں صحیح ہے بلک ہ اگر جنس یا رقم کسی دوسرے آدم ی کا مال ہ و اور بچ ہ بح یثیت وکیل اس مال کے مالک ک ی طرف سے و ہ مال ب یچے یا اس رقم سے کوئ ی چیز خریدے تو ظاہ ر یہ ہے ک ہ سودا صح یح ہے اگرچ ہ و ہ سمج ھ دار بچ ہ آزادان ہ طور پ ر اس مال یا رقم میں (حق) تصرف رکھ تا ہ و اور اس ی طرح اگر بچہ اس کام م یں وسیلہ ہ و ک ہ رقم ب یچنے والے کو د ے اور جنس خر یدار تک پہ نچائ ے یا جنس خریدار کو دے اور رقم ب یچنے والے کو پ ہ نچائ ے تو اگرچ ہ بچ ہ سمج ھ دار ن ہ ہ و سودا صح یح ہے ک یونکہ در اصل دو بالغ افراد نے آپس میں سودا کیا ہے۔

2091 ۔ اگر کوئ ی شخص اس صورت میں کہ ا یک نابالغ بچے س ے سودا کرنا صح یح نہ ہ و اس س ے کوئ ی چیز خریدے یا اس کے ہ ات ھ کوئ ی چیز بیچنے تو ضروری ہے ک ہ جو جنس یا رقم اس بچے س ے ل ے اگر و ہ خود بچ ے کا مال ہ و تو اس ک ے سرپرست کو اور اگر کس ی اور کا مال ہ و تو اس ک ے مالک کو د ے د ے یا اس کے مالک ک ی رضا مندی حاصل کرے اور اگر سودا کرن ے والا شخص اس جنس یا رقم کے مالک کو ن ہ جانتا ہ و اور اس کا پت ہ چلان ے کا کوئ ی ذریعہ بھی نہ ہ و تو اس شخص ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ جو چ یز اس نے بچ ے س ے ل ی ہ و و ہ اس چ یز کے مالک ک ی طرفے بعنوان مَظَالم (ظلماً اور ناحق ل ی ہ وئ ی چیز) کسی فقیر کو دے د ے اور احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اس کام م یں حاکم شرع سے اجازت ل ے۔

2092 ۔ اگر کوئ ی شخص ایک سمجھ دار بچ ے س ے اس صورت م یں سودا کرے جب ک ہ اس ک ے سات ھ سودا کرنا صح یح نہ ہ و اور اس ن ے جو جنس یا رقم بچے کو د ی ہ و و ہ تلف ہ و جائ ے تو ظا ہ ر یہ ہے ک ہ و ہ شخص بچ ے س ے اس ک ے بالغ ہ ون ے ک ے بعد یا اس کے سرپرست س ے مطالب ہ کر سکتا ہے اور اگربچ ہ سمج ھ دار ن ہ ہ و تو پ ھ ر و ہ شخص مطالب ے کا حق ن ہیں رکھ تا ۔

2093 ۔ اگر خر یدار یا بیچنے والے کو سودا کرن ے پر مجبور ک یا جائے اور سودا ہ وجان ے ک ے بعد و ہ راض ی ہ و جائ ے اور مثال کے طور پر ک ہے ک ہ م یں راضی ہ وں تو سودا صح یح ہے ل یکن احتیاط مستحب یہ ہے ک ہ معامل ے کا ص یغہ دوبارہ پ ڑھ ا جائ ے۔

2094 ۔ اگر انسان کس ی کا مال اس کی اجازت کے بغ یر بیچ دے اور مال کا مالک اس ک ے ب یچنے پر راضی نہ ہ و اور اجازت ن ہ د ے تو سودا باطل ہے۔

2095 ۔ بچ ے کا باپ اور دادا نیز باپ کا وصی اور دادا کا وصی بچے کا مال فروخت کر سکت ے ہیں اور اگر صورت حال کا تقاضا ہ و تو مجت ہ د عادل ب ھی دیوانے شخص یا یتیم بچے کا مال یا ایسے شخص کا مال جو غائب ہ و فروخت کر سکتا ہے۔

2096 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی کا مال غصب کرکے ب یچ ڈ ال ے اور مال ک ے بک جان ے ک ے بعد اس کا مالک سود ے ک ی اجازت دے د ے تو سودا صح یح ہے اور جو چ یز غصب کرنے وال ے ن ے خر یدار کو دی ہ و اور اس چ یز سے جو منافع سود ے ک ے وقت س ے حاصل ہ و و ہ خر یدار کی ملکیت ہے اور جو چ یز خریدار نے د ی ہ و اور اس چ یز سے جو منافع سود ے ک ے وقت س ے حاصل ہ و و ہ اس شخص ک ی ملکیت ہے جس کا مال غصب ک یا گیا ہے۔

2097 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی کا مال غصب کرکے ب یچ دے اور اس کا اراد ہ یہ ہ و ک ہ اس مال ک ی قیمت خود اس کی ملکیت ہ وگ ی اور اگر مال کا مالک سودے ک ی اجازت دے د ے تو سودا صح یح ہے ل یکن مال کی قیمت مالک کی ملکیت ہ وگ ی نہ ک ہ غاصب ک ی۔

جنس اور اس کے عِوض ک ی شرائط

2098 ۔ جو چ یز بیچی جائے اور جو چ یز اس کے بدل ے م یں لی جائے اس ک ی پانچ شرطیں ہیں :

(اول) ناپ، تول یا گنتی وغیرہ کی شکل میں اس کی مقدار معلوم ہ و ۔

(دوم) بیچنے والا ان چیزوں کو تحویل میں دینے کا اہ ل ہ و ۔ اگر ا ہ ل ن ہ ہ و تو سودا صح یح نہیں ہے ل یکن اگر وہ اس کو کس ی دوسری چیز کے ک ے سات ھ ملا کر ب یچے جسے و ہ تحو یل میں دے سکتا ہ و تو اس صورت م یں لین دین صحیح ہے البت ہ ظا ہ ر یہ ہے ک ہ اگر خر یدار اس چیز کو جو خریدی ہ و اپن ے قبض ے م یں لے سکتا ہ و اگرچ ہ ب یچنے والا اسے اس ک ی تحویل میں دینے کا اہ ل ن ہ ہ و تو ب ھی لین دین صحیح ہے مثلاً جو گ ھ و ڑ ا ب ھ اگ گ یا ہ و اگر اس ے ب یچے اور خریدنے والا اس گھ و ڑے کو ڈھ ون ڈ سکتا ہ و تو اس سود ے م یں کوئی حرج نہیں اور وہ صح یح ہ وگا اور اس صورت م یں کسی بات کے اضافے ک ی ضرورت نہیں ہے۔

(سوم) وہ خ صوصیات جو جنس اور عوض میں موجود ہ وں اور جن ک ی وجہ س ے سود ے م یں لوگوں کو دلچسپی میں فرق پڑ تا ہ و مع ین کر دی جائیں۔

(چہ ارم) کس ی دوسرے کا حق اس مال س ے اس طرح وابست ہ ن ہ ہ و ک ہ مال مالک ک ی ملکیت سے خارج ہ ون ے س ے دوسر ے کا حق ضائع ہ و جائ ے۔

(پنجم) بیچنے والا خود اس جنس کو بیچے نہ ک ہ اس ک ی منفعت کو۔ پس مثال ک ے طور پر اگر مکان ک ی ایک سال کی منفعت بیچی جائے تو صح یح نہیں ہے ل یکن اگر خریدار نقد کی بجائے اپن ی ملکیت کا منافع دے مثلاً کس ی سے قال ین یا دری وغیر خریدے اور اس کے عوض م یں اپنا مکان کا ایک سال کا منافع اسے د ے د ے تو اس م یں کوئی حرج نہیں۔ ان سب ک ے احکام آئند ہ مسائل م یں بیان کئے جائ یں گے۔

2099 ۔ جس جنس کا سودا کس ی شہ ر م یں تول کر یا ناپ کا کیا جاتا ہ و اس ش ہ ر م یں ضروری ہے اس جنس کو تول کر یا ناپ کر ہی خریدے لیکن جس شہ ر م یں اس جنس کا سودا اسے د یکھ کر کیا جاتا ہ وں اس ش ہ ر م یں وہ اس ے د یکھ کر خرید سکتا ہے۔

2100 ۔ جس چ یز کی خریدوفروخت تول کرکی جاتی ہ و اس کا سودا ناپ کر ب ھی کیا جاسکتا ہے مثال ک ے طور پر اگر ا یک شخص دس من گیہ وں بیچنا چاہے تو و ہ ا یک ایسا پیمانہ جس میں ایک من گیہ وں سماتی ہ و دس مرتب ہ ب ھ ر کر د ے سکتا ہے۔

2101 ۔ اگر معامل ہ چوت ھی شرط کے علاو ہ جو شرائط ب یان کی گئی ہیں ان میں سے کوئ ی ایک شرط نہ ہ ون ے ک ی بنا پر باطل ہ و ل یکن بیچنے والا اور خریدار ایک دوسرے ک ے مال م یں تصرف کرنے پر راض ی ہ وں تو ان ک ے تصرف کرن ے م یں کوئی حرج نہیں۔

2102 ۔ جو چ یز وقت کی جاچکی ہ و اس کا سودا باطل ہے ل یکن اگر وہ چ یز اس قدر خراب ہ و جائ ے ک ہ جس فائد ے ک ے لئ ے وقف ک ی گئی ہے و ہ حاصل ن ہ ک یا جاسکے یا وہ چ یز خراب ہ ون ے وال ی ہ و مثلاً مسجد ک ی چٹ ائ ی اس طرح پھٹ جائ ے ک ہ اس پر نماز ن ہ پ ڑھی جاسکے تو جو شخص مُتَولِّ ی ہے یا جسے مَتَولِّی جیسے اختیارات حاصل ہ وں اور اس ے ب یچ دے تو کوئ ی حرج نہیں اور احتیاط کی بنا پر جہ اں تک ممکن ہ و اس ک ی قیمت اسی مسجد کے کس ی ایسے کام پر خرچ کی جائے جو وقت کرن ے وال ے ک ے مقصد س ے قر یب تر ہ و ۔

2103 ۔ جب ان لوگوں ک ے مَابَ ین جن کے لئ ے مال وقف ک یا گیا ہ و ا یسا اختلاف پیدا ہ و جائ ے ک ہ اند یشہ ہ و ک ہ اگر وقف شد ہ مال فروخت ن ہ ک یا گیا تو مال یا کسی کی جان تلف ہ و جائ ے گ ی تو بعض (فقہ اء) ن ے ک ہ ا ہے ک ہ و ہ ا یسا کر سکتے ہیں کہ مال ب یچ کر رقم ایسے کام پر خرچ کریں جو وقف کرنے وال ے ک ے مقصد س ے قر یب ہ و ل یکن یہ حکم محل اشکال ہے۔ ہ اں اگر وقف ک رنے والا یہ شرط لگائے ک ہ وقف ک ے ب یچ دینے میں کوئی مصلحت ہ و تو ب یچ دیا جائے تو اس صورت م یں اسے ب یچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

2104 ۔ جو جائداد کس ی دوسرے کو کرائ ے پر د ی گئی ہ و اس ک ی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے ل یکن جتنی مدت کے لئ ے اس ے کرائ ے پر د ی گئی ہ و اتن ی مدت کی آمدنی صاحب جائداد کا مال ہے اور اگر خر یداد کو یہ علم نہ ہ و ک ہ و ہ جائداد کرائ ے پر د ی جاچکی ہے یا اس گمان کے تحت ک ہ کرائ ے ک ی مدت تھ و ڑی ہے اس جائداد کو خر ید لے تو جب اس ے حق یقت حال کا علم ہ و، و ہ سودا فسخ کر سکتا ہے۔

خریدوفروخت کا صیغہ

2105 ۔ ضرور ی نہیں کہ خر یدوفروخت کا صیغہ عربی زبان میں جاری کیا جائے مثلاً اگر ب یچنے والا فارسی (یا اردو) میں کہے ک ہ م یں نے یہ مال اتنی رقم پر بیچا اور خریدار کہے ک ہ م یں نے قبول ک یا تو سودا صحیح ہے ل یکن یہ ضروری ہے ک ہ خر یدار اور بیچنے والا (معاملے کا) دل ی ارادہ رکھ ت ے ہ وں یعنی یہ دو جملے ک ہ ن ے س ے ان ک ی مراد خرید و فروخت ہ و ۔

2106 ۔ اگر سودا کرت ے وقت ص یغہ نہ پ ڑھ ا جائ ے ل یکن بیچنے والا اس مال کے مقابل ے م یں جو وہ خر یدار سے ل ے اپنا مال اس ک ی ملکیت میں دے د ے تو سودا صح یح ہے اور دونوں اشخاص متعلق ہ چ یزوں کے مالک ہ وجات ے ہیں۔

پھ لوں کی خرید و فروخت

2107 ۔ جن پ ھ لوں ک ے پ ھ ول گر چک ے ہ وں اور ان م یں دانے پ ڑ چک ے ہ وں اگر ان ک ے آفت (مثلاً ب یماریوں اور کپڑ وں ک ے حملوں) س ے محفوظ ہ ون ے یا نہ ہ ون ے ک ے بار ے م یں اس طرح علم ہ و ک ہ اس درخت ک ی پیداوار کا اندازہ لگا سک یں تو اس کے تو ڑ ن ے س ے پ ہ ل ے اس کا ب یچنا صحیح ہے ب لکہ اگر م علوم نہ ب ھی ہ و ک ہ آفت س ے محفوظ ہے یا نہیں تب بھی اگر دو سال یا اس سے ز یادہ عرصے ک ی پیداوار یا پھ لوں ک ی صرف اتنی مقدار جو اس وقت اس وقت لگی ہ و ب یچی جائے بشرط یکہ اس کی کسی حد تک مالیت ہ و تو معامل ہ صح یح ہے۔ اس ی طرح اگر زمین کی پیداوار یا کسی دوسری چیز کو اس کے ساتھ ب یچا جائے تو معامل ہ صح یح ہے ل یکن اس صورت میں احتیاط لازم یہ ہے ک ہ دوسر ی چیز (جو ضمناً بیچ رہ ا ہ و و ہ ) ا یسی ہ و ک ہ اگر ب یج ثمر آور نہ ہ وسک یں تو خریدار کے سرمائ ے کو ڈ وبن ے س ے بچال ے۔

پھ لوں کی خرید و فروخت

2108 ۔ جس درخت پر پ ھ ل لگا ہ و، دان ے بنن ے اور پھ ول گرن ے س ے پ ہ ل ے اس کا ب یچنا جائز ہے ل یکن ضروری ہے ک ہ اس ک ے سات ھ کوئ ی اور چیز بھی بیچے جیسا کہ اس س ے پ ہ ل ے وال ے مسئل ے م یں بیان کیا گیا ہے یا ایک سال سے ز یادہ مدت کا پھ ل ب یچے۔

2109 ۔ درخت پر لگ ی ہ وئ ی وہ ک ھ جور یں جو زرد یا سرخ ہ و چک ی ہ وں ان کو ب یچنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کے عوض م یں خواہ اس ی درخت کی کھ جور یں ہ وں یا کسی اور درخت کی، کھ جور یں نہ د ی جائیں البتہ اگر ا یک شخص کو کھ جور کا درخت کس ی دوسرے شخص ک ے گ ھ ر م یں ہ و تو اگر اس درخت ک ی کھ جوروں کا تخم ینہ لگا لیا جائے اور درخت کا مالک ان ہیں گھ ر ک ے مالک کو ب یچ دے اور ک ھ جوروں کو اس کا عوضان ہ قرار د یا جائے تو کوئ ی حرج نہیں۔

2110 ۔ ک ھیرے ، بینگن،سبزیاں اور ان جیسی (دوسری) چیزیں جو سال میں کئی دفعہ اترت ی ہ وں اگر و ہ اگ آئ ی ہ وں اور یہ طے کر ل یا جائے ک ہ خر یدار انہیں سال میں کتنی دفعہ تو ڑے گا تو ان ہیں بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے ل یکن اگر اگی نہ ہ وں تو ان ہیں بیچنے میں اشکال ہے۔

2111 ۔ اگر دان ہ آن ے ک ے بعد گندم ک ے خوش ے کو گندم س ے جو خود اس س ے حاصل ہ وت ی ہے یا کسی دوسرے خوش ے ک ے عوض ب یچ دیا جائے تو سودا صح یح نہیں ہے۔

نقد اور ادھ ار ک ے احکام

2112 ۔ اگر کس ی جنس کو نقد بیچا جائے تو سودا ط ے پا جان ے ک ے بعد خر یدار اور بیچنے والا ایک دوسرے س ے جنس اور رقم کا مطالب ہ کر سکت ے ہیں اور اسے اپن ے قبض ے م یں لے سکت ے ہیں۔ منقول ہ چ یزوں مثلاً قالین، اور لباس کو قبضے م یں دینے اور غیر منقولہ چ یزوں مثلاً گھ ر اور زم ین کو قبضے م یں دینے سے مراد یہ ہے ک ہ ان چ یزوں سے دست بردار ہ و جائ ے اور ان ہیں فریق ثانی کی تحویل میں اس طرح دے د ے ک ہ جب و ہ چا ہے اس م یں تصرف کر سکے۔ اور (واضح ر ہے ک ہ ) مختلف چ یزوں میں تصرف مختلف طریقے سے ہ وتا ہے۔

2113 ۔ اد ھ ار ک ے معامل ے م یں ضروری ہے ک ہ مدت ٹھیک ٹھیک معلوم ہ و ۔ ل ہ ذا اگر ا یک شخص کوئی چیز اس وعدے پر ب یچے کہ و ہ اس ک ی قیمت فصل اٹھ ن ے پر ل ے گا تو چونک ہ اس ک ی مدت ٹھیک ٹھیک معین نہیں ہ وئ ی اس لئے سودا باطل ہے۔

2114 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنا مال ادھ ار ب یچے تو جو مدت طے ہ وئ ی ہ و اس ک ی میعاد پوری ہ ون ے س ے پ ہ ل ے و ہ خر یدار سے اس ک ے عوض کا مطالب ہ ن ہیں کرسکتا لیکن اگر خریدار مرجائے اور اس کا اپنا کوئ ی مال ہ و تو ب یچنے والا طے شد ہ م یعاد پوری ہ ون ے س ے پ ہ ل ے ہی جو رقم لینی ہ و اس کا مط البہ مرنے وال ے ک ے ورثاء س ے کر سکتا ہے۔

2115 ۔ اگر کوئ ی شخص ایک چیز ادھ ار ب یچے تو طے شد ہ مدت گزرن ے ک ے بعد و ہ خر یدار سے اس ک ے عوض کا مطالب ہ کر سکتا ہے ل یکن اگر خریدار ادائیگی نہ کرسکتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ب یچنے والا اسے م ہ لت د ے یا سودا ختم کر دے اور اگر و ہ چ یز جو بیچی ہے موجود ہ و تو اس ے واپس ل ے ل ے۔

2116 ۔ اگر کوئ ی شخص ایک ایسے ا یسے فرد کو جسے کس ی چیز کی قیمت معلوم نہ ہ و اس کی کچھ مقدار اد ھ ار د ے اور اس ک ی قیمت اسے ن ہ بتائ ے تو سودا باطل ہے۔ ل یکن اگر ایسے شخص کو جسے جنس ک ی نقد قیمت معلوم ہ و اد ھ ار پر م ہ نگ ے داموں ب یچے مثلاً کہے ک ہ جو جنس م یں تمہیں ادھ ار د ے رہ ا ہ وں اس کی قیمت سے جس پر م یں نقد بیچتا ہ وں ا یک پیسہ فی روپیہ زیادہ لوں گا اور خریدار اس شرط کو قبول کر لے تو ا یسے سودے م یں کوئی حرج نہیں ہے۔

2117 ۔ اگر ا یک شخص نے کوئ ی جنس ادھ ار فروخت ک ی ہ و اور اس ک ی قیمت کی ادائیگی کے لئ ے مدت مقرر ک ی گئی ہ و تو اگر مثال ک ے طور پر آد ھی مدت گزرنے ک ے بعد (فروخت کرن ے والا) واجب الادا رقم م یں کٹ وت ی کر دے اور باق ی ماندہ رقم نقد ل ے ل ے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔

معاملہ سلف کی شرائط

2118 ۔ معامل ہ سلف (پ یشگی سودا) سے مراد یہ ہے ک ہ کوئ ی شخص نقد رقم لے کر پورا مال جو و ہ مقرر ہ مدت ک ے بعد تحو یل میں دے گا، ب یچ دے ل ہ ذا اگر خر یدار کہے ک ہ م یں یہ رقم دے ر ہ ا ہ وں تاک ہ مثلاً چ ھ م ہینے بعد فلاں چیز لے لوں اور ب یچنے والا کہے ک ہ م یں نے قبول ک یا یا بیچنے والا رقم لے ل ے اور ک ہے ک ہ م یں نے فلاں چ یز بیچی اور اس کا قبضہ چ ھ م ہینے بعد دوں گا تو سودا صحیح ہے۔

2119 ۔ اگر کوئ ی شخص سونے یا چاندی کے سک ے بطور سلف ب یچے اور س کے عوض چاند ی یا سونے ک ے سک ے ل ے تو سودا باطل ہے ل یکن اگر کوئی ایسی چیز یا سکے جو سن ے یا چاندی کے ن ہ ہ وں ب یچے اور ان کے عوض کوئ ی دوسری چیز یا سونے یا چاندی کے سک ے ل ے تو سودا اس تفص یل کے مطابق صح یح ہے جو آئند ہ مسئل ے ک ی ساتویں شرط میں بتائی جائے گ ی اور احتیاط مستحب یہ ہے ک ہ جو مال ب یچے اس کے عوض رقم ل ے ،کوئ ی دوسرا مال نہ ل ے۔

2120 ۔ معامل ہ سلف م یں ساتھ شرط یں ہیں :

1 ۔ ان خصوص یات کو جن کی وجہ س ے کس ی چیز کی قیمت میں فرق پڑ تا ہ و مُعَ یّن کر دیا جائے ل یکن زیادہ تفصیلات میں جانے ک ی ضرورت نہیں بلکہ اس ی قدر کافی ہے ک ہ لوگ ک ہیں کہ اس ک ی خصوصیات معلوم ہ وگئ ی ہیں۔

2 ۔ اس س ے پ ہ ل ے ک ہ خر یدار اور بیچنے والا ایک دوسرے س ے جدا ہ و جائ یں خریدار پوری قیمت بیچنے والے کو د ے یا اگر بیچنے والا خریدار کا اتنی ہی رقم کا مقروض ہ و اور خر یدار کو اس سے جو کچ ھ ل ینا ہ و اس ے مال ک ی قیمت کی کچھ مقدار ب یچنے والے کو د ے د ے تو اگرچ ہ اس مقدار ک ی نسبت سے سودا صح یح ہے ل یکن بیچنے والا سودا فتح کرسکتا ہے۔

3 ۔ مدت کو ٹھیک ٹھیک مُعَیّن کیا جائے۔ مثلاً اگر ب یچنے والا کہے ک ہ فصل کا قبض ہ ک ٹ ائ ی پر دوں گا تو چونکہ اس س ے مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین نہیں ہ وتا اس لئ ے سودا باطل ہے۔

4 ۔ جنس کا قبض ہ د ینے کے لئ ے ا یسا وقت مُعَیّن کیا جائے جس م یں بیچنے والا جنس کا قبضہ د ے سک ے خوا ہ و ہ جنس کم یاب ہ و یا نہ ہ و ۔

5 ۔ جنس کا قبض ہ د ینے کی جگہ کا تع ین احتیاط کی بنا پر مکمل طور پر کیا جائے۔ ل یکن اگر طرفین کی باتوں سے جگ ہ کا پتا چل جائے تو اس کا نام ل ینا ضروری نہیں ۔

6 ۔ اس جنس کا تول یا ناپ معین کیاجائے اور جس چیز کا سودا عموماً دیکھ کر کیا جاتا ہے اگر اس ے بطور سلف ب یچا جائے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے ل یکن مثال کے طور پر اخرو ٹ اور ان ڈ وں ک ی بعض قسموں میں تعداد کا فرق ضروری ہے ک ہ اتنا ہ و ک ہ لوگ اس ے ا ہ م یت نہ د یں۔

7 ۔ جس چ یز کو بطور سلف بیچا جائے اگر و ہ ا یسی ہ وں جن ہیں تول کر یا ناپ کر بیچا جاتا ہے تو اس کا عوض اس ی جنس سے ن ہ ہ و بلک ہ احت یاط لازم کی بنا پر دوسری جنس میں سے ب ھی ایسی چیز نہ ہ و جس ے تول کر یا ناپ کر بیچا جاتا ہے اور ا گر وہ چ یز جسے ب یچا جا رہ ا ہے ان چ یزوں میں سے ہ و جن ہیں گن کر بیچا جاتا ہ و تو احت یاط کی بنا پر جائز نہیں ہے ک ہ اس کا عوض خود اس ی کی جنس سے ز یادہ مقدار میں مقرر کرے۔

معاملہ سلف کے احکام

2121 ۔ جو جنس کس ی نے بطور سلف خر یدی ہ و اس ے و ہ مدت ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے ب یچنے والے ک ے سوا کس ی اور کے ہ ات ھ ن ہیں بیچ سکتا اور مدت ختم ہ ون ے ک ے بعد اگرچ ہ خر یدار نے اس کا قبض ہ ن ہ ب ھی لیا ہ و اس ے ب یچنے میں کوئی حرج نہیں۔ البت ہ پ ھ لوں ک ے علاو ہ جن غلوں مثلاً گ یہ وں اور جو وغیرہ کو تول کر یا ناپ کر فروخت کیا جاتا ہے ان ہیں اپنے قبض ے م یں لینے سے پہ ل ے ان کا ب یچنا جائز نہیں ہے ماسوا اس ک ے ک ہ گا ہ گ ن ے جس ق یمت پر خریدی ہ وں اس ی قیمت پر یا اس سے کم ق یمت پر بیچے۔

2122 ۔ سلف ک ے ل ین دین میں اگر بیچنے والا مدت ختم ہ ون ے پر اس چ یز کا قبضہ د ے جس کا سودا ہ وا ہے تو خر یدار کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ اس ے قبول کر ے اگرچ ہ جس چ یز کا سودا ہ وا ہے اس س ے ب ہ تر چ یز دے ر ہ ا ہ و جبک ہ اس چ یز کو اسی جنس میں شمار کیا جائے۔

2123 ۔ اگر ب یچنے والا جو جنس دے و ہ اس جنس س ے گ ھٹیا ہ و جس کا سودا ہ وا ہے تو خر یدار اسے قبول کرن ے س ے انکار کر سکتا ہے۔

2124 ۔ اگر ب یچنے والا اس جنس کی بجائے جس کا سودا ہ وا ہے کوئ ی دوسری جنس دے اور خر یدار اسے ل ینے پر راضی ہ و جائ ے تو اشکال ن ہیں ہے۔

2125 ۔ جو چ یز بطور سلف بیچی گئی ہ و اگر و ہ خر یدار کے حوال ے کرن ے ک ے لئ ے ط ے شد ہ وقت پر دست یاب نہ ہ وسک ے تو خر یدار کو اختیار ہے ک ہ انتظار کر ے تاک ہ ب یچنے والا اسے م ہیا کر دے یا سودا فسخ کر دے اور جو چ یز بیچنے والے کو د ی ہ و اس ے واپس ل ے ل ے اور احت یاط کی بنا پر وہ چ یز بیچنے والے کو ز یادہ قیمت پر نہیں بیچ سکتا ہے۔

2126 ۔ اگر ا یک شخص کوئی چیز بیچے اور معاہ د ہ کر ے ک ہ کچ ھ مدت بعد و ہ چ یز خریدار کے حوال ے کر د ے گا اور اس ک ی قیمت بھی کچھ مدت بعد ل ے گا تو ا یسا سودا باطل ہے۔

سونے چاندی کو سونے چاند ی کے عوض ب یچنا

2127 ۔ اگر سون ے کو سون ے س ے یا چاندی کو چاندی سے ب یچا جائے تو چا ہے و ہ سک ہ دار ہ وں یا نہ ہ و اگر ان م یں سے ا یک کا وزن دوسرے س ے ز یادہ ہ و تو ا یسا سودا حرام اور باطل ہے۔

2128 ۔ اگ ر سونے کو چاند ی سے یا چاندی کو سونے س ے نقد ب یچا جائے تو سودا صح یح ہے اور ضرور ی نہیں کہ دونوں کا وزن برابر ہ و ۔ ل یکن اگر معاملے م یں مدت معین ہ و تو باطل ہے۔

2129 ۔ اگر سون ے یا چاندی کو سونے یا چاندی کے عوض ب یچا جائے تو ضرور ی ہے ک ہ ب یچنے والا اور خریدار ایک دوسرے س ے جدا ہ ون ے س ے پ ہ ل ے جنس اور اس کا عوض ا یک دوسرے ک ے حوال ے کر د یں اور اگر جس چیز کے بار ے م یں معاملہ ط ے ہ وا ہے اس ک ی کچھ مقدار ب ھی ایک دوسرے ک ے حوال ے ن ہ ک ی جائے تو معامل ہ باطل ہے۔

2130 ۔ اگر ب یچنے والے یا خریدار میں سے کوئ ی ایک طے شد ہ مال پورا پورا دوسر ے ک ے حوال ے کر د ے ل یکن دوسرا (مال کی صرف) کچھ مقدار حوال ے کر ے اور پ ھ ر و ہ ا یک دوسرے س ے جدا ہ و جائ یں تو اگرچہ اتن ی مقدار کے متعلق معامل ہ صح یح ہے ل یکن جس کو پورا مال نہ ملا ہ و و ہ سودا فسخ کر سکتا ہے۔

2131 ۔ اگر چاند ی کی کان کی مٹی کو خالص چاندی سے اور سون ے ک ی کان کی سونے ک ی مٹی کو خالص سونے س ے ب یچا جائے تو سودا باطل ہے۔ مگر یہ کہ جب جانت ے ہ وں ک ہ مثلاً چاند ی کی مٹی کی مقدار خالص چاندی کی مقدار کے برابر ہے ل یکن جیسا کہ پ ہ ل ے ک ہ ا جاچکا ہے چاند ی کی مٹی کو سونے کے عوض اور سون ے ک ی مٹی کو سونے ک ے عوض اور سون ے ک ی مٹی کو چاندی کے عوض ب یچنے میں کوئی اشکال نہیں۔

معاملہ فسخ کئے جان ے ک ی صورتیں

2132 ۔ معامل ہ فسخ کرن ے ک ے حق کو "خِ یَار" کہ ت ے ہیں اور خریدار اور بیچنے والا گیارہ صورتوں میں معاملہ فسخ کر سکت ے ہیں :

1 ۔ جس مجلس م یں معاملہ ہ وا ہے و ہ برخاست ن ہ ہ وئ ی ہ و اگرچ ہ سودا ہ و چکا ہ و اس ے "خِ یَار مجلس" کہ ت ے ہیں۔

2 ۔ خر ید و خروفت کے معامل ے م یں خریدار یابیچنے والا نیز دوسرے معاملات م یں طرفین میں سے کوئ ی ایک مغبون ہ و جائ ے اس ے "خِ یارِ غبن" کہ ت ے ہیں (مغبون سے مراد و ہ شخص ہے جس ک ے سات ھ فرا ڈ ک یا گیا ہ و) خ یار کی اس قسم کا منشا عرف عام میں شرط ارتکازی ہ وتا ہے یعنی ہ ر معامل ے م یں فریقین ذہ ن م یں یہ شرط موجود ہ وت ی ہے ک ہ جو مال حاصل کر ر ہ ا ہے اس ک ی قیمت مال سے ب ہ ت ز یادہ کم نہیں جو وہ ادا کر ر ہ ا ہے اور اگر اس ک ی قیمت کم ہ و تو و ہ معامل ے کو ختم کرن ے کا حق رک ھ تا ہے ل یکن عرف خاص کی چند صورتوں میں ارتکازی شرط دوسری طرح ہ و مثلاً یہ شرط یہ کہ اگر جو مال ل یا ہ و و ہ بلحاظ ق یمت اس مال سے کم ہ و جو اس ن ے د یا ہے تو دونوں (مال) ک ے درم یان جو کمی بیشی ہ وگ ی اس کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر ممکن ن ہ ہ وسک ے تو معامل ے کو ختم کر د ے اور ضرور ی ہے ک ہ اس قس م کی صورتوں میں عرف خاص کا خیال رکھ ا جائ ے۔

3 ۔ سودا کرت ے وقت یہ طے ک یا جائے ک ہ مقرر ہ مدت تک فر یقین کو یاکسی ایک فریق کو سودا فسخ کرنے کا اخت یار ہ وگا ۔ اس ے "خِ یارِ شرط" کہ ت ے ہیں۔

4 ۔ فر یقین میں سے ا یک فریق اپنے مال کو اس ک ی اصلیت سے ب ہ تر بتا کر پ یش کرے جس ک ی وجہ س ے دوسر فر یق اس میں دل چسپی لے یا اس کی دل چسپی اس میں بڑھ جائ ے اس ے "خ یار تدلیس"کہ ت ے ہیں۔

5 ۔ فر یقین میں سے ا یک فریق دوسرے ک ے سات ھ شرط کر ے ک ہ و ہ فلاں کام انجام د ے گا اور اس شرط پر عمل ن ہ ہ و یا شرط کی جائے ک ہ ا یک فریق دوسرے فر یق کو ایک مخصوص قسم کا معین مال دے گا اور جو مال د یا جائے اس م یں وہ خصوص یت نہ ہ و، اس صورت م یں شرط لگانے والا فر یق معاملے ک و فسخ کر سکتا ہے ۔ اس ے "خِ یارِ تَخَلُّفِ شرط" کہ ت ے ہیں۔

6 ۔ د ی جانے وال ی جنس یا اس کے عوض م یں کوئی عیب ہ و ۔ اس ے "خ یار عیب" کہ ت ے ہیں۔

7 ۔ یہ پتا چلے ک ہ فر یقین نے جس جنس کا سودا کیا ہے اس ک ی کچھ مقدار کس ی اور شخص کا مال ہے۔ اس صورت م یں اگر اس مقدار کا مالک سودے پر راض ی نہ ہ و تو خر یدنے والا سودا فسخ کر سکتا ہے یا اگر اتنی مقدار کی ادائیگی کر چکا ہ و تو اس ے واپس ل ے سکتا ہے۔ اس ے "خ یار شرکت" کہتے ہیں۔

8 ۔ جس مُعَ یَّن جنس کو دوسرے فر یق نے ن ہ د یکھ ا ہ و اگر اس جنس کا مالک اس ے اس ک ی خصوصیات بتائے اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ جو خصوص یات اس نے بتائ ی تھیں وہ اس م یں نہیں ہیں یا دوسرے فر یق نے پ ہ ل ے اس جنس کو د یکھ ا تھ ا او اس کا خ یال تھ ا ک ہ و ہ خصوص یات اب ابھی اس میں باقی ہیں لیکن دیکھ ن ے کے بعد معلوم ہ و ک ہ و ہ خصوص یات اب اس میں باقی نہیں ہیں تو اس صورت میں دوسرا فریق معاملہ فسخ کر سکتا ہے۔ اس ے "خِ یارِ رُویَت" کہ ت ے ہیں۔

9 ۔ خر یدار نے جو جنس خر یدی ہ و اگر اس ک ی قیمت تین دن تک نہ د ے اور ب یچنے والے ن ے ب ھی وہ جنس خر یدار کے حوال ے ن ہ ک ہ ہ و تو ب یچنے والا سودے کو ختم کر سکتا ہے ل یکن ایسا اس صورت میں ہ و سکتا ہے جب ب یچنے والے ن ے خر یدار کو قیمت ادا کرنے ک ی مہ لت د ی ہ و ل یکن مدت معین نہ ک ی ہ و ۔ اور اگر اس کو بالکل م ہ لت ن ہ د ی ہ و تو ب یچنے والا قیمت کی ادائیگی میں معمولی سی تاخیر سے ب ھی سودا ختم کر سکتا ہے ۔ اور اگر اسے ت ین دن سے ز یادہ مہ لت د ی ہ و تو مدت پور ی ہ ون ے س ے پ ہ ل ے سودا ختم ن ہیں کر سکتا۔ اس س ے یہ معلوم ہ و جاتا ہے ک ہ جو جنس ب یچی ہے اگر و ہ بعض ا یسے پھ لوں ک ی طرح ہ و جو ا یک دن باقی رہ ن ے س ے ضائع ہ و جات ے ہیں چنانچہ خر یدار رات تک اس کی قیمت نہ د ے اور یہ شرط بھی نہ کر ے ک ہ ق یمت دینے میں تاخیر کرے گا تو ب یچنے والا سودا ختم کر سکتا ہے۔ اس ے "خ یار تاخیر" کہ ت ے ہیں۔

10 ۔ جس شخص ن ے کوئ ی جانور خریدا ہ و و ہ ت ین دن تک سودا فسخ کر سکتا ہے اور جو چ یز اس نے ب یچی ہ و اگر اس ک ے عوض م یں خریدار نے جانور د یا ہ و تو جانور ب یچنے والا بھی تین دن تک سودا فسخ کر سکتا ہے۔ اس ے "خ یار حیوان" کہ ت ے ہیں۔

11 ۔ ب یچنے والے ن ے جو چ یز بیچی ہ و اگر اس کا قبض ہ ن ہ د ے سک ے مثلاً جو گ ھ و ڑ ا اس ن ے ب یچا ہ و و ہ ب ھ اگ گ یا ہ و تو اس صورت م یں خریدار سودا فسخ کر سکتا ہے اس ے "خ یار تَعَذُّر تسلیم" کہ ت ے ہیں۔

(خیارات کی) ان تمام اقسام کے (تفص یلی) احکام آئندہ مسائل م یں بیان کئے جائ یں گے۔

2133 ۔ اگر خر ید کو جنس کی قیمت کا علم نہ ہ و یا وہ سودا کرت ے وقت غفلت برت ے اور اس چ یز کو عام قیمت سے م ہ نگا خر یدے اور یہ قیمت خرید بڑی حد تک مہ نگ ی ہ و تو و ہ سودا ختم کر سکتا ہے بشرط یکہ سودا ختم کرتے وقت جس قدر فرق ہ و و ہ موجود ب ھی ہ و اور اگر فرق موجود ن ہ ہ و تو اس کے بار ے م یں معلوم نہیں کہ و ہ سودا ختم کر سکتا ہے۔ ن یز اگر بیچنے والے کو جنس ک ی قیمت کا علم نہ ہ و یا سودا کرتے وقت غفلت برت ے اور اس جنس کو اس ک ی قیمت سے سستا ب یچے اور بڑی حد تک سستا بیچے تو سابقہ شرط ک ے مطابق سودا ختم کر سکتا ہے۔

2134 ۔ مشروط خر ید و فروخت میں جب کہ مثال ک ے طور پر ا یک لاکھ روپ ے کا مکان پچاس ہ زار روپ ے م یں بیچ دیا جائے اور ط ے ک یا جائے ک ہ اگر ب یچنے والا مقررہ مدت تک رقم واپس کر د ے تو سودا فسخ کر سکتا ہے تو اگر خر یدار اور بیچنے والا خرید و فروخت کی نیت رکھ ت ے ہ وں تو سودا صحیح ہے۔

2135 ۔ مشروط خر یدوفرخت میں اگر بیچنے والے کو اطم ینان ہ و ک ہ خر یدار مقررہ مدت م یں رقم ادا نہ کر سکن ے ک ی صورت میں مال اسے واپس کر د ے گا تو سودا صح یح ہے ل یکن اگر وہ مدت ختم ہ ون ے تک رقم ادا ن ہ کر سک ے تو و ہ خر یدار سے مال ک ی واپسی کا مطالبہ کرن ے کا حق ن ہیں رکھ تا ا ور اگر خریدار مر جائے تو اس ک ے ورثاء س ے مال ک ی واپسی کا مطالبہ ن ہیں کر سکتا۔

2136 ۔ اگر کوئ ی شخص عمدہ چائ ے م یں گھٹیا چائے ک ہ ملاو ٹ کرک ے عمد ہ چائ ے ک ے طور پر بیچے تو خریدار سودا فتح کر سکتا ہے۔

2137 ۔ اگر خر یدار کو پتا چلے ک ہ جو مُعَ یَّن مال اس نے خر یدا ہے و ہ ع یب دار ہے مثلاً ا یک جانور خریدے اور (خریدنے کے بعد) اس ے پتا چل ے ک ہ اس ک ی ایک آنکھ ن ہیں ہے ل ہ ذا اگر یہ عیب مال میں سودے س ے پ ہ ل ے ت ھ ا اور اس ے علم ن ہیں تھا تو وہ سودا فسخ کر سکتا ہے اور مال ب یچنے والے کو واپس کر سکتا ہے اور اگر واپس کرنا ممکن ن ہ ہ و مثلاً اس مال م یں کوئی تبدیلی ہ وگئ ی ہ و یا ایسا تصرف کر لیا گیا ہ و جو واپس ی میں رکاوٹ بن ر ہ ا ہ و تو اس صورت م یں وہ ب ے ع یب اور عیب دار مال کی قیمت کے فرق کا حساب کرک ے ب یچنے والے س ے (فرق ک ی) رقم واپس لے ل ے مثلاً اگر س ن ے کوئ ی مال چار روپے م یں خریدار ہ و اور اس ے اس ک ے ع یب دار ہ ون ے کا علم ہ و جائ ے تو اگر ا یسا ہی بے ع یب مال (بازار میں) آٹھ روپ ے کا اور ع یب دار چھ روپ ے کا ہ و تو چونک ہ ب ے ع یب اور عیب دار کی قیمت کا فرق ایک چوتھ ائ ی ہے اس لئ ے اس ن ے جتن ی رقم دی ہے اس کا ایک چوتھ ائ ی یعنی ایک روپیہ بیچنے والے س ے واپس ل ے سکتا ہے۔

2138 ۔ اگر ب یچنے والے کو پتا چل ے ک ہ اس ن ے جس مع ین عوض کے بدل ے اپنا مال ب یچا ہے اس م یں عیب ہے تو اگر و ہ ع یب اس عوض میں سودے س ے پ ہ ل ے موجود ت ھ ا اور اس ے علم ن ہ ہ وا ہ و تو و ہ سودا فسخ کر سکتا ہے اور و ہ عوض اس ک ے مالک کو واپس کر سکتا ہے ل یکن اگر تبدیلی یا تصرف کی وجہ سے واپس ن ہ کر سک ے تو ب ے ع یب اور عیب دار کی قیمت کا فرق اس قاعدے ک ے مطابق ل ے سکتا ہے جس کا ذکر سابق ہ مسئل ے م یں کیا گیا ہے۔

2139 ۔ اگر سودا کرن ے ک ے بعد اور قبض ہ د ینے سے پ ہ ل ے مال م یں کوئی عیب پیدا ہ و جائ ے تو خر یدار سودا فسخ کرسکتا ہے ن یز جو چیز مال کے عوض د ی جائے اگر اس م یں سودا کرنے ک ے بعد اور قبض ہ د ینے سے پ ہ ل ے کوئ ی عیب پیدا ہ و جائ ے تو ب یچنے والا سودا فسخ کر سکتا ہے اور اگر فر یقین قیمت کا فرق لینا چاہیں تو سودا طے ن ہ ہ ون ے ک ی صورت میں چیز کو لوٹ انا جائز ہے۔

2140 ۔ اگر کس ی شخص کو مال کے ع یب کا علم سودا کرنے ک ے بعد ہ و تو اگر و ہ (سودا ختم کرنا) چا ہے تو ضرور ی ہے ک ہ فوراً سود ے کو ختم کرد ے اور ۔ اختل اف کی صورتوں کو پیش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے ۔ اگر معمول س ے ز یادہ تاخیر کرے تو و ہ سود ے کو ختم ن ہیں کر سکتا۔

2141 ۔ جب کس ی شخص کو کوئی جنس خریدنے کے بعد اس ک ے ع یب کا پتا چلے تو خوا ہ ب یچنے والا اس پر تیار نہ ب ھی ہ و خر یدار سودا فسخ کر سکتا ہے اور دوسر ے خ یارات کے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے۔

2142 ۔ چار صورتوں م یں خریدار مال میں عیب ہ ون ے ک ی بنا پر سودا فسخ نہیں کر سکتا اور نہ ہی قیمت کا فرق لے سکتا ہے۔

1 ۔ خر یدتے وقت مال کے ع یب سے واقف ہ و ۔

2 ۔ مال ک ے ع یب کو قبول کرے۔

3 ۔ سودا کرت ے وقت ک ہے : "اگر مال م یں عیب ہ و تب ب ھی واپس نہیں کروں گا اور قیمت کا فرق بھی نہیں لوں گا"۔

4 ۔ سود ے ک ے وقت ب یچنے والا کہے " م یں اس مال کو جو عیب بھی اس میں ہے اس ک ے سات ھ ب یچتا ہ وں"ل یکن اگر وہ ا یک عیب کا تعین کر دے اور ک ہے "م یں اس مال کو فلاں عیب کے سات ھ ب یچ رہ ا ہ وں" اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ مال م یں کوئی دوسرا عیب بھی ہے تو جو ع یب بیچنے والے ن ے مع ین نہ کیا ہ و اس ک ی بنا پر خریدار وہ مال واپس کرسکتا ہے اور اگر واپس ن ہ کرسک ے تو ق یمت کا فرق لے سکتا ہے۔

2143 ۔ اگر خر یدار کو معلوم ہ و ک ہ مال م یں ایک عیب ہے اور اس ے وصول کرن ے ک ے بعد اس م یں کوئی اور عیب نکل آئے تو و ہ سودا فسخ ن ہیں کرسکتا لیکن بے ع یب اور عیب دار مال کا فرق لے سکتا ہے ل یکن اگر وہ ع یب دار حیوان خریدے اور خیار کی مدت جو کہ ت ین دن ہے گزرن ے س ے پ ہ ل ے اس حیوان میں کسی اور عیب کا پتا چل جائے تو گو خر یدار نے اس ے اپن ی تحویل میں لے ل یا ہ و پ ھ ر ب ھی وہ اس ے واپس کر سکتا ہے۔ ن یز اگر فقط خریدار کو کچھ مدت تک سودا فسخ کرن ے کا حق حاصل ہ و اور اس مدت ک ے دوران مال م یں کوئی دوسرا عیب نکل آئے تو اگرچ ہ خر یدار نے و ہ مال اپنی تحویل میں لے ل یا ہ و و ہ سودا فسخ کر سکتا ہے۔

2144 ۔ اگر کس ی شخص کے پاس ا یسا مال ہ و جس ے اس نے بچشم خود ن ہ د یکھ ا ہ و اور کس ی دوسرے شخص ن ے مال ک ی خصوصیات اسے بتائ ی ہ وں اور و ہی خصوصیات خریدار کو بتائے اور و ہ مال اس ک ے ہ ات ھ ب یچ دے اور بعد م یں اسے ( یعنی مالک کو) پتا چلے ک ہ و ہ مال اس س ے ب ہ تر خصوص یات کا حامل ہے تو وہ سودا فسخ کر سکتا ہے۔

متفرق مسائل

2145 ۔ اگر ب یچنے والا خریدار کو کسی جنس کی قیمت خرید بتائے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ تمام چ یزیں بھی اسے بتائ ے جن ک ی وجہ س ے مال ک ی قیمت گھٹ ت ی بڑھ ت ی ہے اگرچ ہ اس ی قیمت پر (جس پر خریدار ہے ) یا اس سے ب ھی کم قیمت پر بیچے۔ مثلاً اس ے بتاتا ضرور ی ہے ک ہ مال نقد خر یدا ہے یا ادھ ار لہ ذا اگر مال ک ی کچھ خصوص یات نہ بتائ ے اور خر یدار کو بعد میں معلوم ہ و تو و ہ سودا فسخ کر سکتا ہے۔

2146 ۔ اگر انسان کوئ ی جنس کسی کو دے اور اس ک ی قیمت معین کر دے اور ک ہے " یہ جنس اس قیمت پر بیچو اور اس سے ز یادہ جتنی قیمت وصول کرو گے و ہ تم ہ ار ی محنت کی اجرت ہ وگ ی" تو اس صورت میں وہ شخص اس ق یمت سے ز یادہ جتنی قیمت بھی وصول کرے و ہ جنس ک ے مالک کامال ہ وگا اور ب یچنے والا مالک سے فقط محنتان ہ ل ے سکتا ہے ل یکن اگر معاہ د ہ بطور جعال ہ ہ و اور مال کا مالک ک ہے ک ہ اگر تو ن ے یہ جنس اس قیمت سے ز یادہ پر بیچی تو فاضل آمدنی تیرا مال ہے تو اس م یں کوئی حرج نہیں۔

2147 ۔ اگر قصاب نر جانور کا گوشت ک ہہ کر ماد ہ کا گوشت ب یچے تو وہ گن ہ گار ہ وگال ہ ذا اگر و ہ اس گوشت کا مع ین کر دے اور ک ہے ک ہ م یں یہ نر جانور کا گوشت بیچ رہ ا ہ وں تو خر یدار سودا فسخ کرسکتا ہے اور اگر قصاب اس گوشت کو مع ین نہ کر ے اور خریدار کو جو گوشت ملا ہ و ( یعنی مادہ کا گوشت) وہ اس پر راض ی نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ قصاب اس ے نر جانور کا گوشت د ے۔

2148 ۔ اگر خر یدار بزاز سے ک ہے ک ہ مج ھے ا یسا کپڑ ا چا ہ ئ ے جس کا رنگ کچا ن ہ ہ و اور بزاز ا یک ایسا کپڑ ا اس ک ے ہ ات ھ فروخت کر ے جس کا رنگ کچا ہ و تو خر یدار سودا فسخ کر سکتا ہے۔

2149 ۔ ل ین دین میں قسم کھ انا اگر سچ ی ہ و تو مکرو ہ ہے اور اگر ج ھ و ٹی ہ و تو حرام ہے۔

شراکت کے احکام

2150 ۔ دو آدم ی اگر باہ م ط ے کر یں کہ اپن ے مشترک مال س ے ب یوپار کرکے جو کچ ھ نفع کمائ یں گے اس ے آپس م یں تقسیم کر لیں گے اور و ہ عرب ی یا کسی اور زبان میں شراکت کا صیغہ پڑھیں یا کوئی ایسا کام کریں جس سے ظا ہ ر ہ وتا ہ و ک ہ و ہ ا یک دوسرے ک ے شر یک بننا چاہ ت ے ہیں تو ان کی شراکت صحیح ہے۔

2151 ۔ اگر چند اشخاص اس مزدور ی میں جو وہ اپن ی محنت سے حاصل کرت ے ہ وں ا یک دوسرے ک ے سات ھ شراکت کر یں مثلاً چند حجام آپس میں طے کر یں کہ جو اجرت حاصل ہ وگ ی اسے آپس م یں تقسیم کر لیں گے تو ان ک ی شراکت صحیح نہیں ہے۔ ل یکن اگر باہ م ط ے کر ل یں کہ مثلاً ہ ر ا یک آدھی مزدوری معین مدت تک کے لئ ے دوسر ے ک ی آدھی مزدوری کے بدل ے م یں ہ وگ ی تو معاملہ صح یح ہے۔ اور ان م یں سے ہ ر ا یک دوسرے ک ی مزدوری میں شریک ہ وگا ۔

2152 ۔ اگر و ہ اشخاص آپس م یں اس طرح شراکت کریں کہ ان م یں سے ہ ر ا یک اپنی ذمے دار ی پر جنس خریدے اور اس کی قیمت کی ادائیگی کا بھی خود ذمے دار ہ و ل یکن جو جنس انہ وں ن ے خر یدی ہ و اس ک ے نفع م یں ایک دوسرے ک ے سات ھ شر یک ہ وں تو ا یسی شراکت صحیح نہیں، البتہ اگر ان م یں سے ہ ر ا یک دوسرے کو اپنا وک یل بنائے ک ہ جو کچ ھ و ہ اد ھ ار ل ے ر ہ ا ہے اس م یں اسے شر یک کر لے یعنی جنس کو اپنے اور اپن ے حص ہ دار ک ے لئ ے خر یدے۔ جس ک ی بنا پر دونوں مقروض ہ وجائ یں تو دونوں میں سے ہ ر ا یک جنس میں شریک ہ و جائ ے گا ۔

2153 ۔ جو اشخاص شراکت ک ے ذریعے ایک دوسرے ک ے شر یک کار بن جائیں ان کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ بالغ اور عاقل ہ وں ن یز یہ کہ اراد ے اور اخت یار کے سات ھ شراکت کر یں اور یہ بھی ضروری ہے ک ہ و ہ اپن ے مال م یں تصرف کر سکتے ہ وں ل ہ ذا چونک ہ سف یہ ۔ جو اپنا بال احمقان ہ اور فضول کاموں پر خرچ کرتا ہے۔ اپن ے مال م یں تصرف کا حق نہیں رکھ تا اگر و ہ کس ی کے سات ھ شراکت کر ے تو صح یح نہیں ہے۔

2154 ۔ اگر شراکت ک ے معا ہ د ے م یں یہ شرط لگائی جائے ک ہ جو شخص کام کر ے گا یا جو دوسرے شر یک سے ز یادہ حصہ مل ے گا تو ضرور ی ہے ک ہ ج یسا طے ک یا گیا ہ و متعلق ہ شخص کو اس ک ے مطابق د یں اور اسی طرح اگر شرط لگائی جائے ک ہ جو شخص کام ن ہیں کرے گا یا زیادہ کام نہیں کرے گا یا جس کے کام ک ی دوسرے ک ے کام ک ے مقابل ے م یں زیادہ اہ م یت نہیں ہے اس ے منافع کا ز یادہ حصہ مل ے گا تب ب ھی شرط صحیح ہے اور ج یسا طے ک یا گیا ہ و متعلق ہ شخص کو اس ک ے مطابق د یں۔

2155 ۔ اگر شرکاء ط ے کر یں کہ سارا منافع کس ی ایک شخص کا ہ وگا یا سار نقصان کسی ایک کو برداشت کرنا ہ وگا تو شراکت صح یح ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

2156 ۔ اگر شرکاء یہ طے ن ہ کر یں کہ کس ی ایک شریک کو زیادہ منافع ملے گا تو اگر ان م یں سے ہ ر ا یک کا سرمایہ ایک جتنا ہ و تو نفع نقصان ب ھی ان کے ماب ین برابر تقسیم ہ وگا اور ان کا سرما یہ برابر برابر نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ نفع نقصان سرمائ ے ک ی نسبت سے تقس یم کریں مثلاً اگر دو افراد شراکت کریں اور ایک کا سرمایہ دوسرے ک ے سرمائ ے س ے دُگنا ہ و تو نفع نقصان م یں بھی اس کا حصہ دوسر ے س ے دگنا ہ وگا خوا ہ دونوں ا یک جتنا کام کریں یا ایک تھ و ڑ ا کام کر ے یا بالکل کام نہ کر ے۔

2157 ۔ اگر شراکت ک ے معا ہ د ے م یں یہ طے ک یا جائے ک ہ دونوں شر یک مل کر خریدوفروخت کریں گے یا ہ ر ا یک انفرادی طور پر لین دین کرنے کا مجاز ہ وگا یا ان میں سے فقط ا یک شخص لین دین کرے گا یا تیسرا شخص اجرت پر لین دین کرے گا تو ضرور ی ہے ک ہ اس معا ہ د ے پر عمل کر یں۔

2158 ۔ اگر شرکاء یہ معین نہ کر یں کہ ان م یں سے کون سرمائ ے ک ے سات ھ خر یدوفروخت کرے گا تو ان م یں سے کوئ ی بھی دوسرے ک ی اجازت کے بغ یر اس سرمائے س ے ل ین دین نہیں کر سکتا۔

2159 ۔ جو شر یک شراکت کے سرمائ ے پر اخت یار رکھ تا ہ و اس ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ شراکت ک ے معا ہ د ے پر عمل کر ے مثلاً اگر اس س ے ط ے ک یا گیا ہ و ک ہ اد ھ ار خر یدے گا یا نقد بیچے گا یا کسی خاص جگہ س ے خر یدے گا تو جو معاہ د ہ ط ے پا یا ہے اس ک ے مطابق عمل کرنا ضرور ی ہے اور اگر اسک ے س اتھ کچھ ط ے ن ہ ہ وا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ معمول ک ے مطابق ل ین دین کرے تاک ہ شراکت کو نقصان ن ہ ہ و ۔ ن یز اگر عام روش کے عَلَ ی الرَّغم ہ و تو سفر م یں شراکت کا مال اپنے ہ مرا ہ ن ہ ل ے جائ ے۔

2160 ۔ جو شر یک شراکت کے سرمائ ے س ے سود ے کرتا ہ و اگر جو کچ ھ اس ک ے سات ھ ط ے ک یا گیا ہ و اس ک ے برخلاف خر یدوفروخت کرے یا اگر کچھ ط ے ن ہ ک یا گیا ہ و اور معمول ک ے خلاف سودا کر ے تو ان دونوں صورتوں م یں اگرچہ اقو ی قول کی بنا پر معاملہ صح یح ہے ل یکن اگر معاملہ نقصان د ہ ہ و یا شراکت کے مال م یں سے کچ ھ مال ضائع ہ و جائ ے تو جس شر یک نے معا ہ د ے یا عام روش کے عَلَی الَّرغم عمل کیا ہ و و ہ ذم ے دار ہے۔

2161 ۔ جو شر یک شراکت کے سرمائ ے س ے کاروبار کرتا ہ و اگر و ہ فضول خرچ ی نہ کر ے اور سرمائ ے ک ی نگہ داشت م یں بھی کوتاہی نہ کر ے اور پ ھ ر اتفاقاً اس سرمائ ے ک ی کچھ مقدار یا سارے کا سار سرما یہ تلف ہ وجائ ے تو و ہ ذم ے دار ن ہیں ہے۔

2162 ۔ جو شر یک شراکت کے سرمائ ے س ے کاروبار کرتا ہ و اگر و ہ ک ہے ک ہ سرما یہ تلف ہ وگ یا ہے تو اگر و ہ دوسر ے شرکاء ک ے نزد یک معتبر شخص ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا ک ہ نا ل یں۔ اور اگر دوسر ے شرکاء ک ے نزد یک وہ معتبر شخص ن ہ ہ و تو شرکاء حاکم شرع ک ے پاس اس ک ے خلاف دعو ی کر سکتے ہیں تاکہ حاکم شرع قضاوت ک ے اصولوں ک ے مطابق تنازع کا ف یصلہ کرے۔

2163 ۔ اگر تمام شر یک اس اجازت سے جو ان ہ وں ن ے ا یک دوسرے کو مال م یں تصرف کے لئ ے د ے رک ھی ہ و پ ھ ر جائ یں تو ان میں سے کوئ ی بھی شراکت کے مال م یں تصرف نہیں کر سکتا اور اگر ان میں سے ا یک اپنی دی ہ وئ ی اجازت سے پ ھ ر جائ ے تو دوسر ے شرکاء کو تصرف کا کوئ ی حق نہیں لیکن جو شخص اپنی دی ہ وئ ی اجازت سے پ ھ ر گ یا ہ و و ہ شراکت ک ے مال م یں تصرف کر سکتا ہے۔

2164 ۔ جب شرکاء م یں سے کوئ ی ایک تقاضا کرے ک ہ شراکت کا سرما یہ تقسیم کر دیا جائے تو اگرچ ہ شراکت ک ی معینہ مدت میں ابھی کچھ وقت باق ی ہ و دوسروں کو اس کا ک ہ نا مان ل ینا ضروری ہے مگر یہ کہ ان ہ وں ن ے پ ہ ل ے ہی (معاہ د ہ کرت ے وقت) سرمائ ے ک ی تقسیم کو رد کر دیا ہ و ( یعنی قبول نہ ک یا ہ و) یا مال کی تقسیم شرکاء کے لئ ے قابل ذکر نقصان کا موجب ہ و (تو اسک ی بات قبول نہیں کرنی چاہ ئ ے ) ۔

2165 ۔ اگر شرکاء میں سے کوئ ی مرجائے یا دیوانہ یا بے حواس ہ و جائ ے تو دوسر ے شرکاء شراکت ک ے مال م یں تصرف نہیں کرسکتے اور اگر ان م یں سے کوئ ی سفیہ ہ و جائ ے یعنی اپنا مال احمقانہ اور فضول کاموں م یں خرچ کرے تو اس کا ب ھی یہی حکم ہے۔

2166 ۔ اگر شر یک اپنے لئ ے کوئ ی چیز ادھ ار خر یدے تو اس نفع نقصان کا وہ خود ذم ے دار ہے ل یکن اگر شراکت کے لئ ے خر یدے اور شراکت کے معا ہ د ے م یں ادھ ار معامل ہ کرنا ب ھی شامل ہ و تو پ ھ ر نفع نقصان م یں دونوں شریک ہ وں گ ے۔

2167 ۔ اگر شراکت ک ے سرمائ ے س ے کوئ ی معاملہ ک یا جائے اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ شراکت باطل ت ھی تو اگر صورت یہ ہ و ک ہ معامل ہ کرن ے ک ی اجازت میں شراکت کے صح یح ہ ون ے ک ی قید نہ ت ھی یعنی اگر شرکاء جانتے ہ وت ے ک ہ شراکت درست ن ہیں ہے تب ب ھی وہ ا یک دوسرے ک ے مال م یں تصرف پر راضی ہ وت ے تو معامل ہ صح یح ہے اور جو کچ ھ اس معامل ے س ے حاصل ہ و و ہ ان سب کا مال ہے۔ اور اگر صورت یہ نہ ہ و تو جو لوگ دوسروں ک ے تصرف پر راض ی نہ ہ وں اگر و ہ یہ کہہ د یں کہ ہ م اس معامل ے پر راض ی ہیں تو معاملہ صح یح ہے۔ ورن ہ باطل ہے۔ دونوں صورتوں م یں ان میں سے جس ن ے ب ھی شراکت کے لئ ے کام ک یا ہ و اگر اس ن ے بلامعاوض ہ کام کرن ے ک ے اراد ے س ے ن ہ ک یا ہ و تو و ہ اپن ی محنت کا معاوضہ معمول ک ے مطابق دوسر ے شرکاء س ے ان ک ے مفاد کا خ یال رکھ ت ے ہ وئ ے ل ے سکتا ہے۔ ل یکن اگر کام کرنے کا معاوض ہ اس فائد ہ ک ی مقدار سے ز یادہ ہ و جو و ہ شراکت صح یح ہ ون ے ک ی صورت میں لیتا تو وہ بس اس ی قدر فائدہ ل ے سکتا ہے۔

صلح کے احکام

2168 ۔ "صُلح" س ے مراد ہے کہ انسان کس ی دوسرے شخص ک ے سات ھ اس بات پر اتفاق کر ے ک ہ اپن ے مال س ے یا اپنے مال ک ے منافع س ے کچ ھ مقدار دوسر ے کو د ے د ے یا اپنا قرض یا حق چھ و ڑے د ے تاک ہ دوسرا ب ھی اس کے عوض اپن ے مال یا منافع کی کچھ مقدار اس ے د ے د ے یا قرض یا حق سے دستبردار ہ و جائے۔ بلک ہ اگر کوئ ی شخص عوض لئے بغ یر کسی سے اتفاق کر ے اور اپنا مال یا مال کے منافع ک ی کچھ مقدار اس کو د ے د ے یا اپنا قرض یا حق چھ و ڑ د ے تب ب ھی صلح صحیح ہے۔

2169 ۔ جو شخص اپنا مال بطور صلح دوسر ے کو د ے اس ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ و ہ بالغ اور عاقل ہ و اور صلح کا قصد رک ھ تا ہ و ن یز یہ کہ کس ی نے اس ے صلح پر مجبور ن ہ ک یا ہ و اور ضرور ی ہے ک ہ سَف یہ یا دیوالیہ ہ ون ے ک ی بنا پر اسے اپن ے مال م یں تصرف کرنے س ے ن ہ روکا گ یا ہ و ۔

6170 ۔ صلح کا ص یغہ عربی میں پڑھ نا ضرور ی نہیں بلکہ جن الفاظ س ے اس بات کا اظ ہ ار ہ و ک ہ فر یقین نے آپس م یں صلح کی ہے (توصلح) صح یح ہے۔

2171 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنی بھیڑیں چرواہے کود ے تاک ہ و ہ مثلاً ا یک سال ان کی نگہ داشت کر ے یا انکے دود ھ س ے خود استفاد ہ حاصل کر ے اور گ ھی کی کچھ مقدار مالک کو د ے تو اگر چروا ہے ک ی محنت اور اس گھی کے مقابل ے م یں وہ شخص ب ھیڑ وں کے دود ھ پر صل ے کر ے تو معامل ہ صح یح ہے بلک ہ اگ ر بھیڑیں چرواہے کو ا یک سال کے لئ ے اس شرط ک ے سات ھ اجار ے پر د ے ک ہ و ہ ان ک ے دود ھ س ے استفاد ہ حاصل کر ے اور اس ک ے عوض اس ے کچ ھ گ ھی دے مگر یہ قید نہ لگائ ے ک ہ بالخصوص ان ھی بھیڑ وں کے دود ھ کا گ ھی ہ و تو اجار ہ صح یح ہے۔

2172 ۔ اگر کوئ ی قرض خواہ اس قرض ک ے بدل ے جو اس ے مقروض سے وصول کرنا ہے یا اپنے حق ک ے بدل ے اس شخص س ے صلح کرنا چا ہے تو یہ صلح اس صورت میں صحیح ہے جب دوسرا اس ے قبول کرل ے ل یکن اگر کوئی شخص اپنے قرض یا حق سے دستبردار ہ ونا چا ہے تو دوسر ے کا قبول کرنا ضرور ی نہیں۔

2173 ۔ اگر مقروض اپن ے قرض ے ک ی مقدار جانتا ہ و جبک ہ قرض خ واہ کو علم ن ہ ہ و اور قرض خوا ہ ن ے جو کچ ھ ل ینا ہ و اس س ے کم پر صلح کر ے مثلا اس ن ے پچاس روپ ے ل ینے ہ وں اور دس روپ ے پر صلح کرل ے تو باق یماندہ رقم مقروض کے لئ ے حلال ن ہیں ہے۔ سوائ ے اس صورت ک ے ک ہ و ہ جتن ے قرض کا د ین دار ہے اس ک ے متعلق خود قرض خوا ہ کو بتائ ے اور اس ے را ضی کرے یا صورت ایسی ہ و ک ہ اگر قرض خوا ہ کو قرض ے ک ی مقدار کا علم ہ و تاتب ب ھی وہ اس ی مقدار (یعنی دس روپے پر صلح کر ل یتا۔

2174 ۔ اگر دو آدم یوں کے پاس کوئ ی مال موجود ہ و یا ایک دوسرے ک ے ذم ے کوئ ی مال باقی ہ و اور ان ہیں یہ علم ہ و ک ہ ان دونوں اموال م یں سے ا یک مال دوسرے مال س ے ز یادہ ہے تو چونک ہ ان دونوں اموال کو ا یک دوسرے ک ے عوض م یں فروخت کرنا سود ہ ون ے ک ی بنا پر حرام ہے اس لئ ے ان دو نوں میں ایک دوسرے ک ے عوض صلح کرنا ب ھی حرام ہے بلک ہ اگر ان دونوں اموال م یں سے ا یک کے دوسر ے س ے ز یادہ ہ ون ے کا علم ن ہ ب ھی ہ و ل یکن زیادہ ہ ون ے کا احتمال ہ و تو احت یاط لازم کی بنا پر ان دونوں میں ایک دوسرے ک ے عوض صلح ن ہیں کی جاسکتی۔

2175 ۔ اگر دو اشخاص کو ا یک شخص سے یا دو اشخاص کو اشخاص سے قرض ہ وصول کرنا ہ و اور و ہ اپن ی اپنی طلب پر ایک دوسرے س ے صلح کرنا چا ہ ت ے ہ وں ۔ چنانچ ہ اگر صلح کرنا سود کا باعث ن ہ ہ و ج یسا کہ سابق ہ مسئل ے م یں کہ ا گ یا ہے تو کوئ ی حرج نہیں ہے مثلاً اگر دونوں کو دس من گ یہ وں وصول کرنا ہ و اور ا یک کا گیہ وں اعلی اور دوسرے کا درم یانے درجے کا ہ و اور دونوں ک ی مدت پوری ہ وچک ی ہ و تو ا ن دونوں کا آپس میں مصالحت کرنا صحیح ہے۔

2176 ۔ اگر ا یک شخص کو کسی سے اپنا قرض ہ کچ ھ مدت ک ے بعد واپس ل ینا ہ و اور و ہ مقروض ک ے سات ھ مقرر ہ مدت س ے پ ہ ل ے مع ین مقدار سے کم پر صلح کرل ے اور اس کا مقصد یہ ہ و ک ہ اپن ے قرض ے کا کچ ھ حص ہ معاف کرد ے اور باق یماندہ نقد لے ل ے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ حکم اس صورت میں ہے ک ہ قرض ہ سون ے یا چاندی کی شکل میں یا کسی ایسی جنس کی شکل میں ہ و جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے اور اگر جنس اس قسم ک ی نہ ہ و تو قرض خوا ہ ک ے لئ ے جائز ہے ک ہ اپن ے قرض ے کو مقروض س ے یا کسی اور شخص سے کمتر مقدار پر صلح کرل ے یا بیچ دے ج یسا کہ مسئل ہ 2297 میں بیان ہ وگا ۔

2177 ۔ اگر دو اشخاص کس ی چیز پر آپس میں صلح کرلیں تو ایک دوسرے ک ی رضامندی سے اس صلح کو تو ڑ سکت ے ہیں۔ ن یز اگر سودے ک ے سلسل ے م یں دونوں کو یا کسی ایک کو سودا فسخ کرنے کا حق د یا گیا ہ و تو جس ک ے پاس حق ہے ، و ہ صلح کو فسخ کر سکتا ہے۔

2178 ۔ جب تک خر یدار اور بیچنے والا ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ وگئ ے ہ وں و ہ سود ے کو فسخ کرسکت ے ہیں۔ ن یز اگر خریدار ایک جانور خریدے تو وہ ت ین دن تک سودا فسخ کرنے کا حق رک ھ تا ہے۔ اس ی طرح اگر ایک خریدار خریدی ہ وئ ی جنس کی قیمت تین دن تک ادا نہ کر ے اور جنس کو اپن ی تحویل میں نہ ل ے تو ج یسا کہ مسئل ہ 2132 میں بیان ہ وچکا ہے ب یچنے والا سودے کو فسخ کرسکتا ہے ل یکن جو شخص کسی مال پر صلح کرے و ہ ان ت ینوں صورتوں میں صلح فسخ کرنے کا حق ن ہیں رکھ تا ۔ ل یکن اگر صلح کا دوسرا فریق مصالحت کا مال دینے میں غیر معمولی تاخیر کرے یا یہ شرط رکھی گئی ہ و ک ہ مصالحت کا مال نقد د یا جائے اور دوسرا فر یق اس شرط پر عمل نہ کر ے تو اس صورت م یں صلح فسخ کی جاسکتی ہے۔ اور اس ی طرح باقی صورتوں میں بھی جن کا ذکر خرید و فروخت کے احکام م یں آیا ہے صلح فسخ ک ی جاسکتی ہے مگر مصالحت ک ے دونوں فر یقوں میں سے ا یک کو نقصان ہ و تو اس صورت میں معلوم نہیں کہ سودا فسخ ک یا جاسکتا ہے ( یانہیں)

2179 ۔ جو چ یز بذریعہ صلح ملے اگر و ہ ع یب دار ہ و تو صلح فسخ ک ی جاسکتی ہے ل یکن اگر متعلقہ شخص ب ے ع یب اور عیب دار کے ماب ین قیمت کا فرق لینا چاہے تو اس م یں اشکال ہے۔

2180 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنے مال ک ے ذر یعے دوسرے س ے صلح کر ے اور اس ک ے سات ھ شرط ٹھہ رائ ے اور ک ہے "جس چ یز میں نے تم س ے صلح ک ی ہے م یرے مرنے ک ے بعد مثلاً تم اس ے وقف کر دو گ ے " اور دوسرا شخص ب ھی اس کو قبول کرلے تو ضرور ی ہے ک ہ اس شرط پر عمل کر ے۔

کرائے کے احکام

2181 ۔ کوئ ی چیز کرائے پر د ینے والے اور کرائ ے پر ل ینے والے ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ بالغ اور عاقل ہ ون اور کرا یہ لینے یا کرایہ دینے کا کام اپنے اخت یاط سے کر یں۔ اور یہ بھی ضروری ہے ک ہ اپن ے مال م یں تصرف کا حق رکھ ت ے ہ وں ل ہ ذا چونک ہ سَفِ یہ اپنے مال م یں تصرف کرنے کا حق ن ہیں رکھ تا اس لئ ے ن ہ و ہ کوئ ی چیز کرائے پر ل ے سکتا ہے اور ن ہ د ے سکتا ہے۔ اس ی طرح جو شخص دیوالیہ ہ و چکا ہ و و ہ ان چ یزوں کو کرائے پر ن ہیں دے سکتا جن م یں وہ تصرف کا حق ن ہ رک ھ تا ہ و اور ن ہ و ہ ان م یں سے کوئ ی چیز کرائے پر ل ے سکتا ہے ل یکن اپنی خدمات کو کرائے پر پ یش کر سکتا ہے۔

2182 ۔ انسان دوسر ے ک ی طرف سے وک یل بن کر اس کا مال کرائے پر د ے سکتا ہے یا کوئی مال اس کے لئ ے کرائ ے پر ل ے سکتا ہے۔

2183 ۔ اگر بچ ے کا سرپرست یا اس کے مال کا منتظم بچ ے کا مال کرائ ے پر د ے یا بچے کو کس ی کا اجیر مقرر کر دے تو کوئ ی حرج نہیں اور اگر بچے ک ے بالغ ہ ون ے ک ے بعد ک ی کچھ مدت کو ب ھی اجارے ک ی مدت کا حصہ قرار د یا جائے تو بچ ہ بالغ ہ ون ے ک ے بعد باق یماندہ اجارہ فسخ کرسکتا ہے اگرچ ہ صورت یہ ہ و ک ہ اگر بچ ے ک ے بالغ ہ ون ے ک ی کچھ مدت کو اجار ہ ک ی مدت کا حصہ ن ہ بنا یا جاتا تو یہ بچے ک ے لئ ے مص لحت کے عل ی الرغم ہ وتا ۔ ہ اں اگر و ہ مصلحت ک ہ جس ک ے بار ے م یں یہ علم ہ و ک ہ شارع مُقدس اس مصلحت کو ترک کرن ے پر راض ی نہیں ہے اس صورت م یں اگر حاکم شرع کی اجازت سے اجار ہ وقع ہ و جائ ے تو بچ ہ بالغ ہ ون ے ک ے بعد اجار ہ فسخ ن ہیں کرسکتا۔

2184 ۔ جس نابالغ بچ ے کا سرپرست ن ہ ہ و اس ے مجت ہ د ک ی اجازت کے بغ یر مزدوری پر نہیں لگایا جاسکتا اور جس شخص کی رسائی مجتہ د تک ن ہ ہ و و ہ ا یک مومن شخص کی اجازت لے کر جو عادل ہ و بچ ے کو مزدور ی پر لگا سکتا ہے۔

2175 ۔ اجار ہ د ینے والے اور اجار ہ ل ینے والے ک ے لئ ے ضرور ی نہیں کہ ص یغہ عربی زبان میں پڑھیں بلکہ اگر کس ی چیز کا مالک دوسرے س ے ک ہے ک ہ م یں نے اپنا مال تم ہیں اجارے پر د یا اور دوسرا کہے ک ہ م یں نے قبول ک یا تو اجارہ صح یح ہے بلک ہ اگر و ہ من ہ س ے کچ ھ ب ھی نہ ک ہیں اور مالک اپنا مال اجارے ک ے قصد س ے مُستاجِر کو د ے اور و ہ ب ھی اجارے ک ے قصد س ے ل ے تو اجار ہ صح یح ہ وگا ۔

2186 ۔ اگر کوئ ی شخص چاہے ک ہ اجار ے کا ص یغہ پڑھے بغ یر کوئی کام کرنے ک ے لئ ے اج یر بن جائے جون ہی وہ کام کر ے م یں مشغول ہ وگا اجار ہ صح یح ہ وجائ ے گا ۔

2187 ۔ جو شخص بول ن ہ سکتا ہ و اگر و ہ اشار ے س ے سمج ھ ا د ے ک ہ اس ن ے کوئ ی چیز اجارے پر دی ہے یا اجارے پرل ی ہے تو اجار ہ صح یح ہے۔

2188 ۔ اگر کوئ ی شخص مکان یا دکان یا کشتی یا کمرہ اجار ے پر ل ے اور اس کا مالک یہ شرط لگائے ک ہ صرف و ہ اس س ے استفاد ہ کر سکتا ہے تو مُستَاجِر اس ے کس ی دوسرے کو استعمال ک ے لئ ے اجار ے پر ن ہیں دے سکتا بجز اس ک ے ک ہ و ہ ن یا اجارہ اس طرح ہ و ک ہ اس ک ے فوائد ب ھی خود مستاجر سے مخصوص ہ وں ۔ مثلاً ا یک عورت ایک مکان یا کمرہ کرائ ے پر ل ے اور بعد م یں شادی کرلے اور کمر ہ یا مکان اپنی رہ ائش ک ے لئ ے کرائ ے پر د ے د ے ( یعنی شوہ ر کو کرائ ے پر د ے ک یونکہ بیوی کی رہ ائش کا انتظام ب ھی شوہ ر ک ی ذمے دار ی ہے ) اور اگر مالک ا یسی کوئی شرط نہ لگائ ے تو مستاج ر دوم کے سپرد کرن ے ک ے لئ ے احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ مالک س ے اجازت ل ے ل ے ل یکن اگر وہ یہ چاہے ک ہ جتن ے کرائ ے پر ل یا ہے اس س ے ز یادہ کرائے پرد ے اگرچ ہ (کرا یہ رقم نہ ہ و) دوسر ی جنس سے ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ن ے مرمت اور سفیدی وغیرہ کرائی ہ و یا اس کی حفاظت کے لئ ے ک چھ نقصان برادشت کیا ہ و تو و ہ اس ے ز یادہ کرائے پر د ے سکتا ہے۔

2189 ۔ اگر اج یر مُستَاجر سے یہ شرط طے کر ے ک ہ و ہ فقط اس ی کا کام کرے گا تو بجز اس صورت ک ے جس کا ذکر سابق ہ مسئل ے م یں کیا گیا ہے اس اج یر کو کسی دوسرے شخ ص کو بطور اجارہ ن ہیں دیا جاسکتا اور اگر اجیر ایسی کوئی شرط نہ لگائ ے تو اس ے دوسر ے کو اجار ے پر د ے سکتا ہے ل یکن جو چیز اس کو اجارے پر د ے ر ہ ا ہے ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی قیمت اس اجارے س ے ز یادہ نہ ہ و جو اج یر کے لئ ے قرار د یا ہے۔ اور اس ی طرح اگر کوئی شخص خود کسی کا اجیر بن جائے اور کس ی دوسرے شخص کو و ہ کام کرن ے ک ے لئ ے کم اجرت پر رک ھ ل ے تو اس ک ے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے ( یعنی وہ اس ے ک م اجرت پر نہیں رکھ سکتا) ل یکن اگر اس نے کام ک ی کچھ مقدار خود انجام د ی ہ و تو پ ھ ر دوسر ے کو کم اجرت پر ب ھی رکھ سکتا ہے۔

2190 ۔ اگر کوئ ی شخص مکان دکان، کمرے اور کشت ی کے علاو ہ کوئ ی اور چیز مثلاً زمین کرائے پرل ے اور زم ین کا مالک اس سے یہ شرط نہ کر ے ک ہ صرف و ہی اس سے استفاد ہ کرسکتا ہے تو اگر جتن ے کرائ ے پر اس ن ے و ہ چ یز لی ہے اس س ے ز یادہ کرائے پر د ے تو اجار ہ صح یح ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

2191 ۔ اگر کوئ ی شخص مکان یا دکان مثلاً ایک سال کے لئ ے سو روپ یہ کرائے پر ل ے اور اس کا آد ھ ا حص ہ خود استعمال کر ے تو دوسرا حص ہ سو روپ یہ کرائے پر چ ڑھ ا سکتا ہے ل یکن اگر وہ چا ہے ک ہ مکان یا دکان کا آدھ ا حص ہ اس س ے ز یادہ کرائے پر چ ڑھ ا د ے جس پر اس ن ے خود و ہ دکان یا مکان کرائے پر ل یا ہے مثلاً 120 روپے کرائ ے پر د ے د ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ن ے اس م یں مرمت وغیرہ کا کام کرایا ہ و ۔

کرائے پر دیئے جانے وال ے مال ک ی شرائط

2192 ۔ جو مال اجار ے پر د یا جائے اس ک ی چند شرائط ہیں :

1 ۔ و ہ مال مع ین ہ و ۔ ل ہ ذا اگر کوئ ی شخص کہے ک ہ م یں نے اپن ے مکانات م یں سے ا یک مکان تمہیں کرائے پر د یا تو یہ درست نہیں ہے۔

2 ۔ مستاجر یعنی کرائے پر ل ینے والا اس مال کو دیک لے یا اجارے پر د ینے والا شخص اپنے مال ک ی خصوصیات اس طرح بیان کرے ک ہ اس ک ے بار ے م یں مکمل معلومات حاصل ہ وجائ یں۔

3 ۔ اجار ے پر د یئے جانے وال ے مال کو دوسر ے فر یق کے سپرد کرنا ممکن ہ و ل ہ ذا اس گ ھ و ڑے کو اجار ے پر د ینا جو بھ اگ گ یا ہ و اگر مستاجر اس کو ن ہ پک ڑ سک ے تو اجار ہ باطل ہے اور اگر پک ڑ سک ے تو اجار ہ صح یح ہے۔

4 ۔ اس مال س ے استفاد ہ کرنا اس ک ے ختم یا کالعدم ہ وجان ے پر موقوف ن ہ ہ و ل ہ ذا رو ٹی، پھ لوں اور دوسر ی خوردنی اشیاء کو کھ ان ے ک ے لئ ے کرائ ے پر د ینا صحیح نہیں ہے۔

5 ۔ مال س ے و ہ فائد ہ ا ٹھ انا ممکن ہ و جس ک ے لئ ے اس ے کرائ ے پر د یا جائے۔ ل ہ ذا ا یسی زمین کا زراعت کے لئ ے کرائ ے پر د ینا جس کے لئ ے بارش کا پان ی کافی نہ ہ و اور و ہ در یا کے پان ی سے ب ھی سیراب نہ ہ وت ی ہ و صح یح نہیں ہے۔

6 ۔ جو چ یز کرائے پر د ی جارہی ہ و و ہ کرائ ے پرد ینے والے کا اپنا مال ہ و اور اگرکس ی دوسرے کا مال کرائ ے پر د یا جائے تو معامل ہ اس صورت م یں صحیح ہے ک ہ جب اس مال کا مالک رضامند ہ و ۔

2193 ۔ جس درخت م یں ابھی پھ ل ن ہ لگا ہ و اس کا اس مقصد س ے کرائ ے پر د ینا کہ اس ک ے پ ھ ل س ے استفاد ہ ک یا جائے گا درست ہے اور اس ی طرح ایک جانور کو اس کے دود ھ ک ے لئ ے کرائ ے پر د ینے کا بھی یہی حکم ہے۔

2194 ۔ عورت اس مقصد ک ے لئ ے اج یر بن سکتی ہے ک ہ اس ک ے دود ھ س ے استفاد ہ ک یا جائے ( یعنی کسی دوسرے ک ے بچ ے کو اجرت پر دود ھ پلاسکت ی ہے ) اور ضرور ی نہیں کہ و ہ اس مقصد ک ے لئ ے شوہ ر س ے اجازت ل ے ل یکن اگر اس کے دود ھ پلان ے س ے شو ہ ر ک ی حق تلفی ہ وت ی ہ و تو پ ھ ر اس ک ی اجازت کے ب غیر عورت اجیر نہیں بن سکتی۔

کرائے پر دیئے جانے وال ے مال س ے اِستِفَاد ے ک ی شرائط

2195 ۔ جس اِستِفَاد ے ک ے لئ ے مال کرائ ے پر د یا جاتا ہے اس ک ی چار شرطیں ہیں :

1 ۔ استفاد ہ کرنا حلال ہ و ۔ ل ہ ذا دکان کو شراب ب یچنے یا شراب ذخیرہ کرنے ک ے لئ ے کرائ ے پر د ینا اور حیوان کو شراب کی نقل و حمل کے لئ ے کرائ ے پر د ینا باطل ہے۔

2 ۔ و ہ عمل شر یعت میں بلامعاوضہ انجام د ینا واجب نہ ہ و ۔ اور احت یاط کی بنا پر اسی قسم کے کاموں م یں سے ہے حلال ا ور حرام کے مسائل سک ھ انا اور مردوں ک ی تجہیز و تکفین کرنا۔ ل ہ ذا ان کاموں ک ی اجرت لینا جائز نہیں ہے اور احت یاط کی بنا پر معتبر ہے ک ہ اس استفاد ے ک ہ لئ ے رق م دینا لوگوں کی نظروں میں فضول نہ ہ و ۔

3 ۔ جو چ یز کرائے پر د ی جائے اگر و ہ کثِ یرالفَوائد (اور کثیرُالمَقاصد) ہ و تو جو فائد ہ ا ٹھ ان ے ک ی مستاجر کو اجازت ہ و اس ے مع ین کیا جائے مثلاً ا یک ایسا جانور کرائے پر د یا جائے جس پر سوا ی بھی کی جا سکتی ہ و اور مال ب ھی لادا جاسکتا ہ و تو اس ے کرائ ے پر د یتے وقت یہ معین کرنا ضروری ہے ک ہ مستاجر اس ے فقط سوار ی کے مقصد ک ے لئ ے یا فقط بار برداری کے مقصد ک ے لئ ے استعمال کرسکتا ہےیا اس سے ہ ر طرح استفاد ہ کرسکتا ہے۔

4 ۔ استفاد ہ کرن ے ک ی مدت کا تعین کر لیا جائے۔ اور یہ استفادہ مدت مع ین کر کے حاصل ک یا جاسکتا ہے مثلاً مکان یا دکان کرائے پر د ے کر یا کام کا تعین کرکے حاصل ک یا جاسکتا ہے مثلاً درز ی کے سا تھ ط ے کر ل یا جائے ک ہ و ہ ا یک معین لباس مخصوص ذیزائن میں سئے گا ۔

2196 ۔ اگر اجار ے ک ی شروعات کا تعین نہ ک یا جائے تو اس ک ے شروع ہ ون ے کا وقت اجار ے کا ص یغہ پڑھ ن ے ک ے بعد س ے ہ وگا ۔

2197 ۔ مثال ک ے طور پر اگر مکان ا یک سال کے لئ ے کرائ ے پر د یا جائے اور معا ہ د ے ک ی ابتدا کا وقت صیغہ پڑھ ن ے س ے ا یک مہینہ بعد سے مقرر ک یا جائے تو اجار ہ صح یح ہے اگرچ ہ جب ص یغہ پڑھ ا جار ہ ا ہ و و ہ مکان کس ی دوسرے ک ے پاس کرائ ے پر ہ و ۔

2198 ۔ اگر اجار ے ک ی مدت کا تعین نہ ک یا جائے بلک ہ کرائ ے دار س ے ک ہ ا جائ ے ک ہ جب تک تم اس مکان م یں رہ و گ ے دس روپ ے ما ہ وار کرایہ دو گے تو اجار ہ صح یح نہیں ہے۔

2199 ۔ اگرمالک مکان، کرائ ے دار س ے ک ہے ک ہ م یں نے تج ھے یہ مکان دس روپے ما ہ وار کرائ ے پر د یا یا یہ کہے ک ہ یہ مکان میں نے تج ھے ا یک مہینے کے لئ ے دس روپ ے کرائ ے پر د یا اور اس کے بعد ب ھی تم جتنی مدت اس میں رہ و گ ے اس کا کرا یہ دس روپے ما ہ ان ہ ہ وگا تو اس صورت م یں جب اجارے کی مدت کی ابتدا کا تعین کر لیا جائے یا اس کی ابتدا کا علم ہ و جائ ے تو پ ہ ل ے م ہینے کا اجارہ صح یح ہے۔

2200 ۔ جس مکان م یں مسافر اور زائر قیام کرتے ہ وں اور یہ علم نہ ہ و ک ہ و ہ کتن ی مدت تک وہ اں ر ہیں گے اگر و ہ مالک مکان س ے ط ے کر ل یں کہ مثلاً ا یک رات کا ایک روپیہ دیں گے اور مالک مکان اس پر راض ی ہ و جائ ے تو اس مکان س ے استفاد ہ کرن ے م یں کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ اجار ے ک ی مدت طے ن ہیں کی گئی لہ ذا پ ہ ل ی رات کے علاو ہ اجار ہ صح یح نہیں ہے اور مالک مکان پ ہ ل ی رات کے بعد جب ب ھی چاہے ان ہیں نکال سکتا ہے۔

کرائے کے متفرق مسائل

2201 ۔ جو مال مُستَاجِر اجار ے ک ے طور پر د ے ر ہ ا ہ و ضرور ی ہے ک ہ و ہ مال معلوم ہ و ۔ ل ہ ذا اگر ا یسی چیزیں ہ وں جن کال ین دین تول کر کیا جاتا ہے مثلاً گ یہ وں تو ان کا وزن معلوم ہ ونا ضرور ی ہے اور اگر ا یسی چیزیں ہ وں جن کا ل ین دین گن کر کیا جاتا ہے مثلاً رائج الوقت سک ے ت و ضروری ہے ک ہ ان ک ی تعداد معین ہ و اور اگر و ہ چ یزیں گھ و ڑے اور ب ھیڑ کی طرح ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ کرا یہ لینے والا انہیں دیکھ لے مستاجران ک ی خصوصیات بتادے۔

2202 ۔ اگر زم ین زراعت کے لئ ے کرائ ے پر د ی جائے اور اس ک ی اجرت اسی زمین کی پیدوار قرار دی جائے جو اس وقت موجود ن ہ ہ و یا کلی طور پر کوئی چیز اس کے ذم ے قرار د ے اس شرط پر ک ہ و ہ اس ی زمین کی پیداوار سے ادا ک ی جائے گ ی تو اجارہ صح یح نہیں ہے اور اگر اجرت ( یعنی اس زمین کی پیداوار ) اجارہ کرت ے وقت موجود ہ و تو پ ھ ر کوئ ی حرج نہیں ہے۔

2203 ۔ ج س شخص نے کوئ ی چیز کرائے پر د ی ہ و و ہ اس چ یز کو کرایہ دار کی تحویل میں دینے سے پ ہ ل ے کرا یہ مانگنے کا حق ن ہیں رکھ تا ن یز اگر کوئی شخص کسی کام کے لئ ے اج یر بنا ہ و تو جب تک و ہ کام انجام ن ہ د ے د ے اجرات کا مطالب ہ کرن ے کا حق ن ہیں رکھ تا مگر بعض صورتوں م یں، مثلاً حج کی ادائیگی کے لئ ے اج یر جسے عموماً عمل ک ے انجام د ینے سے پ ہ ل ے اجرت د ے د ی جاتی ہے (اجرت کا مطالب ہ کرن ے کا حق رک ھ تا ہے ) ۔

2204 ۔ اگر کوئ ی شخص کرائے پر د ی گئی چیز کرایہ دار کی تحویل میں دے د ے تو اگرچ ہ کرا یہ دار اس چیز پر قبضہ ن ہ کر ے یا قبضہ حاصل کرل ے ل یکن اجارہ ختم ہ ون ے تک اس س ے فائد ہ ن ہ ا ٹھ ائ ے پ ھ ر ب ھی ضروری ہے ک ہ مالک کو اجرت ادا کر ے۔

2205 ۔ اگر ا یک شخص کوئی کام ایک معین دن میں انجام دینے کے لئ ے اج یر بن جائے اور اس دن و ہ کام کرن ے ک ے لئ ے ت یار ہ و جائ ے تو جس شخص ن ے اس ے اج یر بنایا ہے خوا ہ و ہ اس دن اس س ے کام ن ہ ل ے ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی اجرت اسے د ے د ے۔ مثلاً اگر کس ی درزی کو ایک معین دن لباس سینے کے لئے اج یر بنائے اور درز ی اس دن کام کرنے پر ت یار ہ و تو اگرچ ہ مالک اس ے س ینے کے لئ ے کپ ڑ ا ن ہ د ے تب ب ھی ضروری ہے ک ہ اس ے اس ک ی مزدوری دے د ے۔ قطع نظر اس س ے ک ہ درز ی بیکار رہ ا ہ و اس ن ے اپنا یا کسی دوسرے کا کام ک یا ہ و ۔

2206 ۔ اگر اجار ے ک ی مدت ختم ہ و جان ے ک ے بعد معلوم ہ و ک ہ اجار ہ باطل ت ھ ا تو مستاجر ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ عام طور پر اس چ یز کا جو کرایہ ہ وتا ہے مال ک ے مالک کو د ے د ے مثلاً اگر و ہ ا یک مکان سو روپے کرائ ے پر ا یک سال کے لئ ے ل ے اور بعد م یں اسے پتا چلے ک ہ اجار ہ باطل ت ھ ا ت و اگر اس مکان کا کرایہ عام طور پر پچاس روپے ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ پچاس روپ ے د ے اور اگر اس کا کرا یہ عام طور پر دو سو روپے ہ و تو اگر مکان کرا یہ پر دینے والا مالک مکان ہ و یا اس کا وکیل مطلق ہ و اور عام طور پر گ ھ ر ک ے کرائ ے ک ی جو شرح ہ و اس ے جانتا ہ و تو ضرور ی نہیں ہے ک ہ مستاجر سو روپ ے س ے ز یادہ دے اور اگر اس ک ے برعکس صورت م یں ہ و تو ضرور ی ہے مستاجر دو سو روپ ے د ے ن یز اگر اجارے ک ی کچھ مدت گزرن ے ک ے بعد معلوم ہ و ک ہ اجار ہ باطل ت ھ ا تو جو مدت گزر چک ی ہ و اس پر ب ھی یہی حکم جاری ہ وگا ۔

2207 ۔ جس چیز کو اجارے پر ل یا گیا ہ و اگر و ہ تلف ہ و جائ ے اور مستاجر ن ے اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ برت ی ہ و اور اس ے غلط طور پر استمعال ن ہ ک یا ہ و تو (پ ھ ر و ہ اس چ یز کے تلف ہ ون ے کا) ذم ے دار ن ہیں ہے۔ اس ی طرح مثال کے طور پر اگر درز ی کو دیا گیا کپڑ ا تلف ہ و جائ ے تو اگر درزی نے ب ے احت یاطی نہ ک ی ہ و اور کپ ڑے ک ی نگہ داشت م یں بھی کوتاہی نہ برت ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ اس کا عوض اس س ے طلب ن ہ کر ے۔

2208 ۔ جو چ یز کسی کاریگر نے ل ی ہ و اگر و ہ اس ے ضائع کر د ے تو (و ہ اس کا ) ذم ہ دار ہے۔

2209 ۔ اگر قصاب کس ی جانور کا سر کاٹ ڈ ال ے اور اس ے حرام کر د ے تو خوا ہ اس ن ے مزدور ی لی ہ و یا بلامعاوضہ ذبح ک یا ہ و ضرور ی ہے ک ہ جانور ک ی قیمت اس کے مالک کو ادا کر ے۔

2210 ۔ اگر کوئ ی شخص ایک جانور کرائے پر ل ے اور مع ین کرے ک ہ کتنا بوج ھ اس پر لاد ے گا تو اگر و ہ اس پر مُعَ یَّنَہ مقدار سے ز یادہ بوجھ لاد ے اور اس وج ہ س ے جانور مرجائ ے یا عیب دار ہ و جائ ے تو مستاجر ذم ے دار ہے۔ ن یز اگر اس نے بوج ھ ک ی مقدار مُعَیَّن نہ ک ی ہ و اور معمول س ے ز یادہ بوجھ جانور پر لاد ے اور جانور مر جائ ے یا عیب دار ہ و جائ ے تب ب ھی مَستَاجِر ذمے دار ہے اور دونوں صورتوں م یں مستاجر کے لئ ے یہ بھی ضروری ہے ک ہ معمول س ے ز یادہ اجرت ادا کرے۔

2211 ۔ اگر کوئ ی شخص حیوان کو ایسا (نازک) سامان لادنے ک ے لئ ے کرائ ے پر د ے جو ٹ و ٹ ن ے والا ہ و اور جانور پ ھ سل جائ ے یا بھ اگ ک ھڑ ا ہ و اور سامان کو تو ڑ پ ھ و ڑ د ے تو جانور کا مالک ذم ے دار ن ہیں ہے۔ ہ اں اگر مالک جانور کو معمول س ے ز یادہ مارے یا ایسی حرکت کرے جس ک ی وجہ س ے ج انور گر جائے اور لدا ہ وا سامان تو ڑ د ے تو مالک ذم ے دار ہے۔

2212 ۔ اگر کوئ ی شخص بچے کا ختن ہ کر ے اور و ہ اپن ے کام م یں کوتاہی یا غلطی کرے مثلاً اس ن ے معمول س ے ز یادہ (چمڑ ا) کا ٹ ا ہ و اور وہ بچ ہ مرجائ ے یا اس میں کوئی نقص پیدا ہ وجائ ے تو و ہ ذم ے دار ہے اور اگر اس ن ے کوتا ہی یا غلطی نہ ک ی ہ و اور بچ ہ ختن ہ کرن ے س ے ہی مرجائے یا اس میں کوئی عیب پیدا ہ و جائ ے چنانچ ہ اس بات ک ی تشخیص کے لئ ے ک ہ بچ ے ک ے لئ ے نقصان د ہ ہے یا نہیں اس کی طرف رجوع نہ ک یا گیا ہ و نیز وہ یہ بھی نہ جانتا ہ و ک ہ بچ ے کو نقصان ہ وگا تو اس صورت م یں وہ ذم ے دار ن ہیں ہے۔

2213 ۔ اگر معالج اپن ے ہ ات ھ س ے کس ی مریض کو دوا دے یا اس کے لئ ے دوا ت یار کرنے کو ک ہے اور دوا ک ھ ان ے ک ی وجہ س ے مر یض کو نقصان پہ نچ ے یا وہ مر جائ ے تو معالج ذم ہ دار ہے اگرچ ہ اس ن ے علاج کرن ے م یں کوتاہی نہ ک ی ہ و ۔

2214 ۔ جب معالج مر یض سے ک ہہ د ے اگر تم ہیں کوئی ضرر پہ نچا تو م یں ذمے دار ن ہیں ہ وں اور پور ی احتیاط سے کام ل ے ل یکن اس کے باوجود اگر مر یض کو ضرر پہ نچ ے یا وہ مرجائ ے تو معالج ذم ے دار ن ہیں ہے۔

2215 ۔ کرائ ے پر ل ینے والا اور جس شخص نے کوئ ی چیز کرائے پر د ی ہ و، و ہ ا یک دوسرے ک ی رضامندی سے معامل ہ فسخ کرسکت ے ہیں اور اگر اجارے م یں یہ شرط عائد کریں کہ و ہ دونوں یا ان میں سے کوئ ی ایک معاملے کو فسخ کرن ے کا حق رک ھ تا ہے تو و ہ معا ہ د ے ک ے مطابق اجار ہ فسخ کرسکت ے ہیں۔

2216 ۔ اگر مال اجار ہ پر د ینے والے یا مستاجر کو پتا چلے ک ہ و ہ گ ھ ا ٹے م یں رہ ا ہے تو اگر اجار ہ کرن ے ک ے وقت و ہ اس امر ک ی جانب متوجہ ن ہ ت ھ ا ک ہ و ہ گ ھ ا ٹے م یں ہے تو و ہ اس تفص یل کے مطابق ج و مسئلہ 2132 میں گزر چکی ہے اجار ہ فسخ کر سکتا ہے ل یکن اگر اجارے ک ے ص یغے میں یہ شرط عائد کی جائے ک ہ اگر ان م یں سے کوئ ی گھ ا ٹے م یں بھی رہے گا تو اس ے اجار ہ فسخ کرن ے کا حق ن ہیں ہ وگا تو پ ھ ر و ہ اجار ہ فسخ ن ہیں کرسکتے۔

2217 ۔ اگر ا یک شخص کوئی چیز ادھ ار پر د ے اور اس سے پ ہ ل ے ک ہ اس کا قبض ہ مستاجر کو د ے کوئ ی اور شخص اس چیز کو غصب کرلے تو مستاجر اجار ہ فسخ کر سکتا ہے اور جو چ یز اس نے اجار ے پر د ینے والے کو د ی ہ و اس ے واپس ل ے سکتا ہے۔ یا (یہ بھی کر سکتا ہے ک ہ ) اجار ہ فسخ ن ہ کر ے اور جتن ی مدت وہ چ یز غاصب کے پاس ر ہی ہ و اس ک ی عام طور پر جتنی اجرت بنے و ہ غاصب س ے ل ے ل ے ل ہ ذا اگر مستاجر ا یک حیوان کا ایک مہینے کا اجارہ دس روپ ے ک ے عوض کر ے اور کوئ ی شخص اس حیوان کو دس دن کے لئ ے غصب کر ل ے اور عام طور پر اس کا دس دن کا اجار ہ پندر ہ روپ ے ہ و تو مستا جر پندرہ روپ ے غاصب س ے ل ے سکت ے ہے۔

2218 ۔ ا گر کوئی دوسرا شخص مستاجر کو اجارہ کرد ہ چ یز اپنی تحویل میں نہ ل ینے دے یا تحویل میں لینے کے بعد اس پر ناجائز قبض ہ کرل ے یا اس سے استفاد ہ کرن ے م یں حائل ہ و تو مستاجر اجار ہ فسخ ن ہیں کر سکتا اور صرف یہ حق رکھ تا ہے ک ہ اس چ یز کا عام طور پر جتنا کرایہ بنتا ہ و و ہ غاص ب سے ل ے ل ے۔

2219 ۔ اگر اجار ے ک ی مدت ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے مالک اپنا مال مستاجر ک ے ہ ات ھ ب یچ ڈ ال ے تو اجار ہ فسخ ن ہیں ہ وتا اور مستاجر کو چا ہ ئ ے ک ہ اس چ یز کا کرایہ مالک کو دے اور اگر (مالک مستاجر ک ے علاو ہ ) اس (مال) کو کس ی اور شخص کے ہ ات ھ ب یچ دے تب ب ھی یہی حکم ہے۔

2220 ۔ اگر اجار ے ک ی مدت شروع ہ ون ے س ے پ ہ ل ے جو چ یز اجارے پر ل ی ہے و ہ اس استفاد ے ک ے قابل ن ہ ر ہے جس کا تع ین کیا گیا تھ ا تو اجار ہ باطل ہ وجاتا ہے اور مستاجر اجار ہ ک ی رقم مالک سے واپس ل ے سکتا ہے اور اگر صورت یہ ہ و ک ہ اس مال س ے ت ھ و ڑ ا سا استفاد ہ ک یا جاسکتا ہ و تو مست اجر اجارہ فسخ کر سکتا ہے۔

2221 ۔ اگر ا یک شخص کوئی چیز اجارے پر ل ے اور و ہ کچ ھ مدت گزرن ے ک ے بعد جو استفاد ہ مستاجر ک ے لئ ے ط ے ک یا گیا ہ و اس ک ے قابل ن ہ ر ہے تو باق ی ماندہ مدت ک ے لئ ے اجار ہ باطل ہ وجاتا ہے اور مستاجر گزر ی ہ وئ ی مدت کا اجارہ "اُجرَ ۃ ُ المِثل" یعنی جتنے دن وہ چ یز استعمال کی ہ و ا تنے دنوں کی عام اجرت دے کر اجار ہ فسخ کرسکتا ہے۔

2222 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسا مکان کرائے پر د ے جس ک ے مثلاً دو کمر ے ہ وں اور ان م یں سے ا یک کمرہ ٹ و ٹ پ ھ و ٹ جائ ے ل یکن اجارے پر د ینے والا اس کمرہ کو (مرمت کرک ے ) اس طرح بناد ے جس م یں سابقہ کمر ے ک ے مقابل ے م یں کافی فرق ہ و تو اس ک ے لئ ے و ہی حکم ہے جو اس س ے پ ہ ل ے وال ے مسئل ے م یں بتایا گیا ہے اور اگر اس طرح ن ہ ہ و بلک ہ اجار ے پر د ینے والا اسے فوراً بنا د ے اور اس س ے استفاد ہ حاصل کرن ے م یں بھی قطعاً فرق دافع نہ ہ و تو اجار ہ باطل ن ہیں ہ وتا ۔ اور کرائ ے دار ب ھی اجارے کو فسخ ن ہیں کرسکتا لیکن اگر کمرے ک ی مرمت میں قدرے تاخ یر ہ و جائ ے اور کرائ ے دار اس س ے استفاد ہ ن ہ کر پائ ے تو اس "تاخ یر" کی مدت تک کا اجارہ باطل ہ وجاتا ہے اور کرائ ے دار چا ہے تو سار ی مدت کا اجارہ ب ھی فسخ کرسکتا ہے البت ہ جتن ی مدت اس نے کمر ے س ے اس تفادہ ک یا ہے اس ک ی اُجرَۃ ُ المِثل دے۔

2223 ۔ اگر مال کرائ ے پر د ینے والا یا مستاجر مر جائے تو اجار ہ باطل ن ہیں ہ وتا ل یکن اگر مکان کا فائدہ صرف اس ک ی زندگی میں ہی اس کا ہ و مثلاً کس ی دوسرے شخص ن ے وص یت کی ہ و ک ہ جب تک و ہ (اجار ے پر د ینے والا) زندہ ہے مکان ک ی آمدنی اس کا مال ہ وگا تو اگر و ہ مکان کرائ ے پ ر دے د ے اور اجار ہ ک ی مدت ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے مرجائ ے تو اس ک ے مرن ے ک ے وقت س ے اجار ہ باطل ہے اور اگر موجود ہ مالک اس اجار ہ ک ی تصدیق کر دے تو اجار ہ صح یح ہے اور جار ے پر د ینے والے ک ے موت ک ے بعد اجار ے ک ی جو مدت باقی ہ وگ ی اس کی اجرت اس شخص کو ملے گ ی جو موجودہ مالک ہ و ۔

2224 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی معمار کو اس مقصد سے وک یل بنائے ک ہ و ہ اس ک ے لئ ے کار یگر مہیا کرے تو اگر معمار ن ے جو کچ ھ اس شخص س ے ل ے ل یا ہے کار یگروں کو اس سے کم د ے تو زائد مال اس پر حرام ہے اور اس ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ و ہ رقم اس شخ ص کو واپس کر دے ل یکن اگر معمار اجبیر بن جائے ک ہ عمارت کو مکمل کر د ے گا اور و ہ اپن ے لئ ے یہ اختیار حاصل کرلے ک ہ خود بنائ ے گا یا دوسرے س ے بنوائ ے گا تو اس صورت م یں کہ کچ ھ کام خود کر ے اور باق یماندہ دوسروں سے اس اجرت س ے کم پر کروائ ے جس پر و ہ خود اج یر بنا ہے تو ز ائد رقم اس کے لئ ے حلال ہ وگ ی۔

2225 ۔ اگر رنگر یز وعدہ کر ے ک ہ مثلاً کپ ڑ ا ن یل سے رنگ ے گا تو اگر و ہ ن یل کے بجائ ے اس ے کس ی اور چیز سے رنگ د ے تو اس ے اجرت ل ینے کا کوئی حق نہیں۔

جعالہ کے احکام

2226 ۔ "جعال ہ " س ے مراد یہ ہے ک ہ انسان وعد ہ کر ے ک ہ اگر ا یک کام اس کے لئ ے انجام د یا جائے گا تو و ہ اس ک ے بدل ے کچ ھ مال بطور انعام د ے گا مثلاً یہ کہے ک ہ جو اس ک ی گمشدہ چ یز بر آمد کرے گا و ہ اس ے دس روپ ے (انعام) د ے گا تو جو شخص اس قسم کا وعد ہ کر ے اس ے "جاعل" اور جو شخص و ہ کام انجام د ے اس ے "عامل" ک ہ ت ے ہیں۔ اور اجار ہ و جع الے م یں بعض لحاظ سے فرق ہے۔ ان م یں سے ا یک یہ ہے ک ہ ک ہ اجار ے م یں صیغہ پڑھ ن ے ک ے بعد اج یر کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ کام انجام د ے۔ اور جس ن ے اس ے اج یر بنایا ہ و و ہ اجرت ک ے لئ ے اس کا مقروض ہ وجاتا ہے ل یکن جعالہ م یں اگرچہ عامل ایک معین شخص ہ و تا ہ م ہ وسکتا ہے ک ہ و ہ کام م یں مشغول نہ ہ و ۔ پس جب تک و ہ کام انجام ن ہ د ے۔ جاعل اس کا مقروض ن ہیں ہ وتا ۔

2227 ۔ جاعل ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ بالغ اور عاقل ہ و اور انعام کا وعد ہ اپن ے اراد ے اور اخت یار سے کر ے اور شرعاً اپن ے مال م یں تصرف کرسکتا ہ و ۔ اس بنا پر سف یہ کا جعالہ صح یح نہیں ہے اور بالکل اس ی طرح دیوالیہ شخص کا جعالہ ان اموال م یں صحیح نہیں ہے جن م یں تصرف کا حق نہ ر کھ تا ہ و ۔

2228 ۔ جاعل جو کام لوگوں س ے کرانا چا ہ تا ہ و ضرور ی ہے ک ہ و ہ حرام یا بے فائد ہ ن ہ ہ و اور ن ہ ہی ان واجبات میں سے ہ و جن کا بلامعاوض ہ بجالانا شرعاً لازم ہ و ۔ ل ہ ذا اگرکوئ ی کہے ک ہ جو ش خص شراب پیئے گا یا رات کے وقت کس ی عاقلانہ مقصد ک ے بغ یر ایک تاریک جگہ پر جائ ے گا یا واجب نماز پڑھے گا م یں اسے دس روپ ے دوں گا تو جعال ہ صح یح نہیں ہے۔

2229 ۔ جس مال ک ے بار ے م یں معاہ د ہ ک یا جارہ ا ہ و ضرور ی نہیں ہے ک ہ اس ے اس ک ی پوری خصوصیات کا ذکر کرکے مع ین کیا جائے بلک ہ اگر صورت حال یہ ہ و ک ہ کام کرن ے وال ے کو معلوم ہ و ک ہ اس کام کو انجام د ینے کے لئ ے اقدام کرنا حماقت شمار ن ہ ہ وگا تو کاف ی ہے مثلاً اگر جاعل یہ کہے کہ اگر تم ن ے اس مال کو دس روپ ے س ے ز یادہ قیمت پر بیچا تو اضافی رقم تمہ ار ی ہ وگ ی تو جعالہ صح یح ہے اور اس ی طرح اگر جاعل کہے ک ہ جو کوئ ی میرا گھ و ڑ ا ڈھ ون ڈ کر لائ ے گا م یں اسے گ ھ و ڑے م یں نصف شراکت یا دس من گیہ وں دوں گا تو بھی جعالہ صح یح ہے۔

2230 ۔ اگر کام ک ی اجرت مکمل طور پر مبہ م ہ و مثلاً جاعل یہ کہے ک ہ جو م یرا بچہ تلاش کر د ے گا م یں اسے رقم دوں گا ل یکن رقم کی مقدار کا تعین نہ کر ے تو اگر کوئ ی شخص اس کام کو انجام دے تو ضرور ی ہے ک ہ جاعل اس ے اتن ی اجرت دے جتن ی عام لوگوں کی نظروں میں اس عمل کی اجرت قرار پاسکے۔

2231 ۔ اگر عامل ن ے جاعل ک ے قول و قرار س ے پ ہ ل ے ہی وہ کام کر د یا ہ و یا قول و قرار کے بعد اس ن یت سے و ہ کام انجام د ے ک ہ اس ک ے بدل ے رقم ن ہیں لے گا تو پ ھ ر و ہ اجرت کا حقدار ن ہیں۔

2232 ۔ اس س ے پ ہ ل ے ک ہ عامل کام شروع کر ے جاعل جعال ہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔

2233 ۔ جب عامل ن ے کام شروع کر د یا ہ و اگر اس ک ے بعد جاعل جعال ہ منسوخ کرنا چا ہے تو اس م یں اشکال ہے۔

2234 ۔ عامل کام کو ادھ ورا چ ھ و ڑ سکتا ہے ل یکن اگر کام ادھ ورا چ ھ و ڑ ن ے پر جاعل کو یا جس شخص کے لئ ے یہ کام انجام دیا جارہ ا ہے ک ہ کوئ ی نقصان پہ نچتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ کام کو مکمل کر ے۔ مثلاً اگر کوئ ی شخص کہے ک ہ جو کوئ ی میری آنکھ کا علاج کر د ے م یں اسے اس قدر معاوض ہ دوں گا اور ڈ اک ڑ اس ک ی آنکھ کا آپر یشن کر دے اور صورت یہ ہ و ک ہ اگر و ہ علاج مکمل ن ہ کر ے تو آنک ھ م یں عیب پیدا ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اپنا عمل تکم یل تک پہ نچائ ے اور اگر اد ھ ورا چ ھ و ڑ د ے تو جاعل س ے اجرت ل ینے کا اسے کوئ ی حق نہیں۔

2235 ۔ اگر عامل کام اد ھ ورا چ ھ و ڑ د ے اور و ہ کام ایسا ہ و جس ے گ ھ و ڑ ا تلاش کرنا ک ہ جس ک ے مکمل کئ ے بغ یر جاعل کو کوئی فائدہ ن ہ ہ و تو عامل، جاعل س ے کس ی چیز کا مطالبہ ن ہیں کرسکتا۔ اور اگر جاعل اجرت کو کام مکمل کرن ے س ے مشروط کر د ے تب ب ھی یہی حکم ہے۔ مثلاً و ہ ک ہے ک ہ جو کوئ ی میرا لباس سئے گا م یں اسے دس روپ ے دوں گا ل یکن اگر اس کی مراد یہ ہ و ک ہ جتنا کام ک یا جائے گا اتن ی اجرت دے گا تو پ ھ ر جاعل کو چا ہ ئ ے ک ہ جتنا کام ہ وا ہ و اتن ی اجرت عامل کودے د ے اگرچ ہ احت یاط یہ ہے ک ہ دونوں مصالحت ک ے طور پر ا یک دوسرے کو راض ی کرلیں۔

مَزارعہ کے احکام

2236 ۔ مُزارع ہ ک ی چند قسمیں ہیں۔ ان م یں سے ا یک یہ ہے ک ہ (زم ین کا) مالک کاشتکار (مزارع) سے معا ہ د کرک ے اپن ی زمین اس کے اخت یار میں دے تاک ہ و ہ اس م یں کاشت کاری کرے اور پ یداوار کا کچھ حص ہ مالک کو د ے۔

2237 ۔ مُزاع ہ ک ی چند شرائط ہیں :

1 ۔ زم ین کا مالک کاشتکار سے ک ہے ک ہ م یں نے زم ین تمہیں کھیتی باڑی کے لئ ے د ی ہے اور کاشتکار ی بھی کہے ک ہ م یں نے قبول ک ی ہے یا بغیر اس کے ک ہ زبان ی کچھ ک ہیں مالک کاشتکار کو کھیتی باڑی کے اراد ے س ے زم ین دے د ے اور کاشتکار قبول کر ل ے۔

2 ۔ زم ین کا مالک اور کاشتکار دونوں بالغ اور عاقل ہ وں اور ب ٹ ائ ی کا معاہ د ہ اپن ے ادار ے اور اختیار سے کر یں اور سفیہ نہ ہ وں ۔ اور اس ی طرح ضروری ہے ک ہ مالک د یوالیہ نہ ہ و ۔ ل یکن اگر کاشتکار دیوالیہ ہ و اور اس کا مزارع ہ کرنا ان اموال م یں تصرف نہ ک ہ لائ ے جن م یں اسے تصرف کرنا منع ت ھ ا تو ا یسی صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

3 ۔ مالک اور کاشتکار م یں سے ہ ر ا یک زمین کی پیداوار میں سے کچ ھ حص ہ مثلاً نصف یا ایک تہ ائ ی وغیرہ لے ل ے ۔ ل ہ ذا اگر کوئ ی بھی اپنے لئ ے کوئ ی حصہ مقرر ن ہ کر ے یا مثلاً مالک کہے ک ہ اس زم ین میں کھیتی باڑی کرو اور جو تمہ ارا ج ی چاہے مج ھے د ے د ینا تو یہ درست نہیں ہے اور اسی طرح اگر پیداوار کی ایک معین مقدار مثلاً دس من کاشتکار یا مالک کے لئ ے مقرر کرد ی جائے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے۔

4 ۔ احت یاط کی بنا پر ہ ر ا یک کا حصہ زم ین کی پوری پیداوار میں مشترک ہ و ۔ اگرچ ہ اظ ہ ر یہ ہے ک ہ یہ شرط معتبرنہیں ہے۔ اس ی بنا پر اگر مالک کہے ک ہ اس زم ین میں کھیتی باڑی کرو اور زمین کی پیداوار کا پہ لا آد ھ ا حص ہ جتنا ب ھی ہ و تم ہ ارا ہ وگا اور دوسرا آد ھ ا حص ہ م یرا تو مزارعہ صحیح ہے۔

5 ۔ جتن ی مدت کے لئ ے زم ین کاشتکار کے قبض ے م یں رہ ن ی چاہ ئ ے اس ے مع ین کر دیں اور ضروری ہے ک ہ و ہ مدت اتن ی ہ و ک ہ اس مدت م یں پیداوار حاصل ہ ونا ممکن ہ و اور اگر مدت ک ی ابتدا ایک مخصوص دن سے اور مدت کا اختتام پ یداوار ملنے کو مقرر کر د یں تو کافی ہے۔

6 ۔ زم ین قابل کاشت ہ و ۔ اور اگر اس م یں ابھی کاشت کرنا ممکن نہ ہ و ل یکن ایسا کام کیا جاسکتا ہ و جس س ے کاشت ممکن ہ و جائ ے تو مزارع ہ صح یح ہے۔

7 ۔ کاشتکار جو چ یز کاشت کرنا چاہے ، ضرور ی ہے ک ہ اس کو مع ین کر دیا جائے۔ مثلاً مع ین کرے ک ہ چاول ہے یا گیہ وں، اور اگر چاول ہے تو کونس ی قسم کا چاول ہے۔ ل یکن اگر کسی مخصوص چیز کی کاشت پیش نظر نہ ہ و تو اس کا مع ین کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور اس ی طرح اگر کوئی مخصوص چیز پیش نظر ہ و اور اس کا علم ہ و تو لازم ن ہیں ہے ک ہ اس ک ی وضاحت بھی کرے۔

8 ۔ مالک، زم ین کو معین کر دے۔ یہ شرط اس صورت میں ہے جبک ہ مالک ک ے پاس زم ین کے چند قطعات ہ وں اور ان قطعات ک ے لوازم کاشتکار ی میں فرق ہ و ۔ ل یکن اگر ان میں کوئی فرق نہ ہ و تو زم ین کو معین کرنا لازم نہیں ہے۔ ل ہ ذا اگر مالک کاشتکار س ے ک ہے ک ہ زم ین کے ان قطعات م یں سے ک سی ایک میں کھیتی باڑی کرو اور اس قطعہ کو مع ین نہ کر ے تو مزارع ہ صح یح ہے۔

9 ۔ جو خرچ ان م یں سے ہ ر ا یک کو کرنا ضروری ہ و اس ے مع ین کردیں لیکن جو خرچ ہ ر ا یک کو کرنا ضروری ہے ہ و اگر اس کا علم ہ و تو پ ھ ر اس کی وضاحت کرنا لازم نہیں۔

2238 ۔ اگر مالک کاشتکار س ے ط ے کر ے ک ہ پ یداوار کی کچھ مقدار ا یک کی ہ وگ ی اور جو باقی بچے گا اس ے و ہ آپس م یں تقسیم کر لیں گے تو مزارع ہ باطل ہے اگرچ ہ ان ہیں علم ہ و ک ہ اس مقدار کو عل یحدہ کرنے ک ے بعد کچ ھ ن ہ کچ ھ باق ی بچ جائے گا ۔ ہ ان اگر و ہ آپس م یں یہ طے کرل یں کہ ب یج کی جو مقدار کاشت کی گئی ہے یا ٹیکس کی جو مقدار حکومت لیتی ہے و ہ پ یداوار سے نکال ی جائے گ ی اور جو باقی بچے گا اس ے دونوں ک ے درم یان تقسیم کیا جائے گا تو مزارع ہ صح یح ہے ۔

2239 ۔ اگر مزارع ہ ک ے لئ ے کوئ ی مدت معین کی ہ و ک ہ جس م یں عموماً پیداوار دستیاب ہ وجات ی ہے ل یکن اگر اتفاقاً معین مدت ختم ہ و جائ ے اور پ یداوار دستیاب نہ ہ وئ ی ہ و تو اگر مدت مع ین کرتے وقت یہ بات بھی شامل تھی یعنی دونوں اس بات پر راضی تھے ک ہ مدت ختم ہ ون ے ک ے بعد اگرچ ہ پیداوار دستیاب نہ ہ و مزارع ہ ختم ہ وجائ ے گا تو اس صورت م یں اگر مالک اس بات پر راضی ہ و ک ہ اجرت پر یا بغیر اجرت فصل اس کی زمیں میں کھڑی رہے اور کاشتکار ب ھی راضی ہ و تو کوئ ی ھ رج ن ہیں اور اگر مالک راضی نہ ہ و تو کاشتکار کو مجبور کر سکتا ہے ک ہ فصل زم ین میں سے کا ٹ ل ے اور اگر فصل کاٹ ل ینے سے کاشتکار کا کوئ ی نقصان پہ نچ ے تو لازم ن ہیں کہ مالک اس ے اس کا عوض د ے ل یکن اگرچہ کاشتکار مالک کو کوئ ی چیز دینے پر راضی ہ و تب ب ھی وہ مالک کو مجبور ن ہیں کر سکتا کہ و ہ فصل اپن ی زمین پر رہ ن ے د ے۔

2240 ۔ اگر کوئ ی ایسی صورت پیش آجائے ک ہ زم ین میں کھیتی باڑی کرنا ممکن نہ ہ و مثلاً زم ین کا پانی بند ہ وجائ ے تو مزارع ہ ختم ہ وجاتا ہے اور اگر کاشتکار بلاوج ہ ک ھیتی باڑی نہ کر ے تو اگر زم ین اس کے تصرف م یں رہی ہ و اور مالک کا اس م یں کوئی تصرف نہ ر ہ ا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ عام شرح ک ے حساب س ے اس مدت کا کرا یہ مالک کو دے۔

2241 ۔ زم ین کا مالک اور کاشتکاری ایک دوسرے ک ی رضامندی کے بغ یر مزارعہ (کا معا ہ د ہ ) منسوخ ن ہیں کرسکتے ۔ ل یکن اگر مزارعہ ک ے معا ہ د ے ک ے سلسل ے م یں انہ وں ن ے شرط ط ے ک ی ہ و ک ہ ان م یں سے دونوں کو یا کسی ایک کو معاملہ فسخ کرن ے کا حق حاصل ہ وگا تو جو معا ہ د ہ ان ہ وں ن ے کر رک ھ ا ہ و اس کے مطابق معامل ہ فسخ کرسکت ے ہیں۔ اس ی طرح اگر ان دونوں میں سے ا یک فریق طے شد ہ شرائط ک ے خلاف عمل کر ے تو دوسرا فر یق معاملہ فسخ کر سکتا ہے۔

2242 ۔ زم ین کا مالک اور کاشتکار ایک دوسرے ک ی رضامندی کے بغ یر مزارعہ (کا معا ہ د ہ ) منسوخ ن ہیں کرسکتے۔ ل یکن اگر مزارعہ ک ے معا ہ د ے ک ے سلسل ے م یں انہ وں ن ے شرط ط ے ک ی ہ و ک ہ ان م یں سے دونوں کو یا کسی یاک کو معاملہ فسخ کرن ے کا حق حاصل ہ وگا تو جو معا ہ د ہ ان ہ وں ن ے کر رک ھ ا ہ و اس ک ے مطابق معامل ہ فسخ کر سکت ے ہیں۔ اس ی طرح اگر ان دونوں میں سے ا یک فریق طے شد ہ شرائط ک ے خلاف عمل کرے تو دوسرا فر یق معاملہ فسخ کر سکتا ہے۔

2243 ۔ اگر کاشت ک ے بعد پتا چل ے ک ہ مزارع ہ باطل ت ھ ا تو اگر جو ب یج ڈ الا گ یا ہ و و ہ مالک کا مال ہ و تو جو فصل ہ ات ھ آئ ے گ ی وہ ب ھی اسی کا مال ہ وگ ی اور ضروری ہے ک ہ کاشتکار ی کی اجرت اور جو کچھ اس ن ے خرچ ک یا ہ و اور کاشتکار ی کے مملو کہ جن ب یلوں اور دوسرے جانوروں ن ے زم ین پر کام کیا ہ و ان کا کرا یہ کاشتکار کو دے۔ اور اگر ب یج کاشتکار کا مال ہ و تو فصل ب ھی اسی کا مال ہے اور ضرور ی ہے ک ہ زم ین کا کرایہ اور جو کچھ مالک ن ے خرچ ک یا ہ و اور ان ب یلوں اور دوسرے جانوروں کا کرا یہ جو مالک کا مال ہ وں اور جن ہ وں ن ے اس زراعت پر کام ک یا ہ و مال ک کو دے۔ اور دونوں صورتوں م یں عام طور پر جو حق بنتا ہ و اگر اس ک ی مقدار طے شد ہ مقدار س ے ز یادہ ہ و اور دوسر ے فر یق کو اس کا علم ہ و تو ز یادہ مقدار دینا واجب نہیں۔

2244 ۔ اگر ب یج کاشتکار کا مال ہ و اور کاشت کے بعد فر یقین کو پتا چلے ک ہ مزارع ہ باطل ت ھ ا تو اگر مالک اور کاشتکار رضامند ہ وں ک ہ اجرت پر یا بلا اجرت فصل زمین پر کھڑی رہے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے اور اگر مالک راض ی نہ ہ و تو (علماء ک ے ) ا یک گروہ ن ے ک ہ ا ہے ک ہ فصل پکن ے س ے پ ہ ل ے ہی وہ کاشتکار کو مجبور کر سکتا ہے کہ اس ے کا ٹ ل ے اور اگرچ ہ کاشتکار اس بات پر ت یار ہ و ک ہ و ہ مالک کو کوئ ی چیز دے د ے تب ب ھی وہ اس ے فصل اپن ی زمین میں رہ ن ے د ینے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ ل یکن یہ قول اشکال سے خال ی نہیں ہے اور کس ی بھی صورت میں مالک کاشتکار کو مجبور نہیں کرسکتا کہ و ہ کرا یہ دے کر فصل اس ک ی زمین میں کھڑی رہ ن ے د ے حت ی کہ اس س ے زم ین کا کرایہ طلب نہ کر ے (تب ب ھی فصل کھڑی رکھ ن ے پر مجبور ن ہیں کر سکتا)۔

2245 ۔ اگر ک ھیت کی پیداوار جمع کرنے اور مزارع ہ ک ی میعاد ختم ہ ون ے ک ے بعد ک ھیت کی جڑیں زمین میں رہ جائ یں اور دوسرے سال سر سبز ہ و جائ یں اور پیداوار دیں تو اگر مالک نے کاشتکار ک ے سات ھ زراعت ک ی جڑ وں م یں اشتراک کا معاہ د ہ ن ہ ک یا ہ و تو دوسر ے سال ک ی پیداوار بیج کے م الک کا مال ہے۔

مُساقات اور مُغارسہ ک ے احکام

2246 ۔ اگر انسان کس ی کے سات ھ اس قسم کا معا ہ د ہ کر ے مثلاً پ ھ ل دار درختوں کو جن کا پ ھ ل خود اس کا مال ہ و یا اس پھ ل پر اس احت یاط ہ و ا یک مقررہ مدت ک ے لئ ے کس ی دوسرے شخص ک ے سپرد کر د ے تاک ہ و ہ ان ک ی نگہ داشت کر ے اور ان ہیں پانی دے اور جتن ی مقدار وہ آپس م یں طے کر یں اس کے مطابق و ہ ان درختوں کا پ ھ ل ل ے ل ے تو ا یسا معاملہ "مُساقات" (آب یاری) کہ لاتا ہے۔

2247 ۔ جو درخت پھ ل ن ہیں دیتے اگر ان کی کوئی دوسری پیداوار ہ و مثلاً پت ے اور پ ھ ول ہ وں ک ہ جو کچ ھ ن ہ کچ ھ مال یت رکھ ت ے ہ وں مثلاً م ہ ند ی (اور پان) کے درخت ک ہ اس ک ے پت ے کام آت ے ہیں، ان کے لئ ے مساقات کا معامل ہ صح یح ہے۔

2248 ۔ مساقات ک ے معامل ے م یں صیغہ پڑھ نا لازم ن ہیں بلکہ اگر درخت کا مالک مساقات ک ی نیت سے اس ے کس ی کے سپرد کر د ے اور جس شخص کو کام کرنا ہ و و ہ ب ھی اسی نیت سے کام م یں مشغول ہ و جائ ے تو معامل ہ صح یح ہے۔

2249 ۔ درختوں کا مالک اور جو شخص درختوں ک ی نگہ داشت ک ی ذمے دار ی لے ضرور ی ہے ک ہ دونوں بالغ اور عاقل ہ وں اور کس ی نے ان ہیں معاملہ کرن ے پر مجبور ن ہ ک یا ہ و ن یز یہ بھی جروری ہے ک ہ سف یہ نہ ہ وں ۔ اس ی طرح ضروری ہے ک ہ مالک د یوالیہ نہ ہ و ۔ ل یکن اگر باغبان دیوالیہ ہ و اور مساقات کا معاملہ کرن ے ک ی صورت میں ان اموال میں تصرف کرنا لازم نہ آئ ے جن م یں تصرف کرنے س ے اس ے روکا گ یا ہ و تو کوئی اشکال نہیں ہے۔

2250 ۔ مساقات ک ی مدت معین ہ ون ی چاہ ئ ے۔ اور اتن ی مدت ہ ونا ضرور ی ہے ک ہ جس م یں پیداوار کا دستیاب ہ ونا ممکن ہ و ۔ اور اگر فر یقین اس مدت کی ابتدا معین کر دیں اور اس کا اختتام اس وقت کو قرار دیں جب اس کی پیداوار دستیاب ہ و تو معامل ہ صح یح ہے۔

2251 ۔ ضرور ی ہے ہ ر فر یق کا حصہ پ یداوار کا آدھ ا یا ایک تہ ائ ی یا اسی کی مانند ہ و اور اگر یہ معاہ د ہ کر یں کہ مثلاً سو من م یوہ مالک کا اور باقی کام کرنے وال ے کا ہ وگا تو معامل ہ باطل ہے۔

2252 ۔ لازم ن ہیں ہے ک ہ مساقات کا معامل ہ پ یداوار ظاہ ر ہ ون ے س ے پ ہ ل ے ط ے کرل یں۔ بل کہ اگر پ یداوار ظاہ ر ہ ون ے ک ے بعد معامل ہ کر یں اور کچھ کام باق ی رہ جائ ے جو ک ہ پ یداوار میں اضافے ک ے لئ ے یا اس کی بہ تر ی یا اسے نقصان س ے بچان ے ک ے لئ ے ضرور ی ہ و تو معامل ہ صح یح ہے۔ ل یکن اگر اس طرح کے کوئ ی کام باقی نہ ر ہے ہ وں ک ہ جو آب یاری کی طرح درخت کی پرورش کے لئ ے ضرور ی ہیں یا میوہ توڑ ن ے یا اس کی حفاظت جیسے کاموں میں سے باق ی رہ جات ے ہیں تو پھ ر مساقات ک ے معامل ے کا صح یح ہ ونا محل اشکال ہے۔

2253 ۔ خربوز ے اور ک ھیرے وغیرہ کی بیلوں کے بار ے م یں مساقات کا معاملہ بنابر اظ ہ ر صح یح ہے۔

2254 ۔ جو درخت بارش ک ے پان ی یا زمین کی نمی سے استفاد ہ کرتا ہ و اور جس ے آبپاش ی کی ضرورت نہ ہ و اگر اس ے مثلاً دوسر ے ا یسے کاموں کی ضرورت ہ و جو مسئل ہ 2252 میں بیان ہ وچک ے ہیں تو ان کاموں کے بار ے م یں مساقات کا معاملہ کرنا صح یح ہے۔

2255 ۔ دو افراد جن ہ وں ن ے مسافات ک ی ہ و با ہ م ی رضامندی سے معامل ہ ف سخ کرسکتے ہیں اور اگر مساقات کے معا ہ د ے ک ے سلسل ے م یں یہ شرط طے کر یں کہ ان دونوں کو یا ان میں سے کس ی ایک کو معاملہ فسخ کرن ے کا حق ہ وگا تو ان ک ے ط ے کرد ہ معا ہ د ہ ک ے مطابق معامل ہ فسخ کرن ے م یں کوئی اشکال نہیں اور اگر مساقات کے معامل ے م یں کوئی شرط طے کر یں اور اس شرط پر عمل نہ ہ و تو جس شخص ک ے فائد ے ک ے لئ ے و ہ شرط ط ے ک ی گئی ہ و و ہ معامل ہ فسخ کرسکتا ہے۔

2256 ۔ اگر مالک ماجائ ے تو مساقات کا معامل ہ فسخ ن ہیں ہ وتا بلک ہ اس ک ے وارث اس ک ی جگہ پات ے ہیں۔

2257 ۔ درختوں ک ی پرورش جس شخص کے سپرد ک ی گئی ہ و اگر و ہ مرجائ ے اور معا ہ د ے م یں یہ قید اور شرط عائد نہ ک ی گئی ہ و ک ہ و ہ خود درختوں ک ی پرورش کرے گا تو اس ک ے ورثاء اس ک ی جگہ ل ے ل یتے ہیں اور اگر ورثاء نہ خود درختوں ک ی پرورش کا کام انجام دیں اور نہ ہی اس مقصد کے لئ ے کس ی کو اجیر مقرر کریں تو حاکم شرع مردے ک ے مال س ے کس ی کو اجیر مقرر کردے گا او ر جو آمدنی ہ وگ ی اسے مرد ے ک ے ورثاء اور درختوں ک ے مالک ک ے ماب ین تقسیم کر دے گا اور اگر فر یقین نے معامل ے م یں یہ قید لگائی ہ و ک ہ و ہ شخص خود درختوں ک ی پرورش کرے گا تو اس ک ے مرن ے ک ے بع د معاملہ فسخ ہ و جائ ے گا ۔

2258 ۔ اگر یہ شرط طے ک ی جائے ک ہ تمام پ یداوار مالک کا مال ہ وگ ی تو مساقات باطل ہے ل یکن ایسی صورت میں پیداوار مالک کا مال ہ وگا اور جس شخص ن ے کام ک یا ہ و و ہ اجرت کا مطالب ہ ن ہیں کرسکتا لیکن اگر مساقات کسی اور وجہ س ے باطل ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ مالک آب یاری اور دوسرے ک ام کرنے ک ی اجرت درختوں کی نگہ داشت کرن ے وال ے کو معمول ک ے مطابق د ے ل یکن اگر معمول کے مطابق اجرت ط ے شد ہ اجرت س ے ز یادہ ہ و اور و ہ اس س ے مطلع ہ و تو ط ے شد ہ اجرت س ے ز یادہ دینا لازم نہیں۔

2289 ۔ "مُغارس ہ " یہ ہے ک ہ کوئ ی شخص زمین دوسرے ک ے سپرد کرد ے تاک ہ و ہ درخت لگائ ے اور جو کچ ھ حاصل ہ و و ہ دون وں کا مال ہ و تو بنابر اظ ہ ر یہ معاملہ صح یح ہے اگرچ ہ احت یاط یہ ہے ک ہ ا یسے معاملے کو ترک کر ے۔ ل یکن اس معاملے ک ے نت یجے پر پہ نچن ے ک ے لئ ے کوئ ی اور معاملہ انجام د ے تو بغیر اشکال کے و ہ معامل ہ صح یح ہے ، مثلاً فر یقین کسی طرح باہ م صلح اور اتفاق کرل یں یا نئے درخت لگان ے م یں شریک ہ وجائ یں پھ ر باغبان اپن ی خدمات مالک زمین کو بیج بونے ، درختوں ک ی نگہ داشت اور آب یاری کرنے ک ے لئ ے ا یک معین مدت تک زمین کی پیداوار کے نصف فائد ے ک ے عو ض کرایہ پر پیش کرے۔

وہ اشخاص جو اپنے مال م یں تصرف نہیں کرسکتے

2260 ۔ جو بچ ہ بالغ ن ہ ہ وا ہ و و ہ اپن ی ذمے دار ی اور اپنے مال م یں شرعاً تصرف نہیں کرسکتا اگرچہ اچ ھے اور بر ے کو سمج ھ ن ے م یں حد کمال اور رشد تک پہ نچ گ یا ہ و اور سرپرست ک ی اجازت اس بارے م یں کوئی فائدہ ن ہیں رکھ ت ی۔ ل یکن چند چیزوں میں بچے کا تصرف کانا صح یح ہے ، ان م یں سے کم قیمت والی چیزوں کی خریدوفروخت کرنا ہے ج یسے کہ مسئل ہ 2090 میں گزر چکا ہے۔ اس ی طرح بچے کا اپن ے خون ی رشتے داروں اور فر یبی رشتے داروں ک ے لئ ے وص یت کرنا جس کا بیان مسئلہ 2706 میں آئے گا ۔ ل ڑ ک ی میں بالغ ہ ون ے ک ی علامت یہ ہے ک ہ و ہ نوقمر ی سال پورے کرل ے اور ل ڑ ک ے کے بالغ ہ ون ے ک ی علامت تین چیزوں میں سے ا یک ہ وت ی ہے۔

1 ۔ ناف ک ے ن یچے اور شرم گاہ س ے اوپر سخت بالوں کا اگنا

2 ۔ من ی کا خارج ہ ونا ۔

3 ۔ بنابر مش ہ ور عمر ک ے پندر ہ قمر ی سال پورے کرنا ۔

2261 ۔ چ ہ ر ے پر اور ہ ون ٹ وں ک ے اوپر سخت بالوں کا اگنا بع ید نہیں کہ بلوغت ک ی علامت ہ و ل یکن سینے پر اور بغل کے ن یچے بالوں کا اگنا اور آواز کا بھ ار ی ہ وجانا اور ا یسی ہی دوسری علامات بلوغت کی نشانیاں نہیں ہیں مگر ان کی وجہ س ے انسان بالغ ہ ون ے کا یقین کرے۔

2262 ۔ د یوانہ اپنے مال م یں تصرف نہیں سکتا۔ اس ی طرح دیوالیہ یعنی وہ شخص جس ے اس ک ے قرض خوا ہ وں ک ے مطالب ے پر حاکم شرع نے اپن ے مال م یں تصرف کرنے س ے منع کر د یا ہ و، قرض خوا ہ وں ک ی اجازت کے بغ یر اس مال میں تصرف نہیں کرسکتا اور اسی طرح سفیہ یعنی وہ شخص جو اپنا مال احم قانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرتا ہ و، سرپرست ک ی اجازت کے بغ یر اپنے مال م یں تصرف نہیں کرسکتا۔

2273 ۔ جو شخص کب ھی عاقل اور کبھی دیوانہ ہ وجائ ے اس کا د یوانگی کی حالت میں اپنے مال م یں تصرف کرنا صحیح نہیں ہے۔

2264 ۔ انسان کو اخت یار ہے مرض الموت ک ے عالم م یں اپنے آپ پر یا اپنے ا ہ ل و ع یال اور مہ مانوں پر اور ان کاموں پر جو فضول خرچ ی میں شمار نہ ہ وں جتنا چا ہے صرف کرے۔ اور اگر اپن ے مال کو اس ک ی (اصل) قیمت پر فروخت کرے یا کرائے پر د ے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے ل یکن اگر مثلاً اپنا مال کسی کو بخش دے یا رائج قیمت سے سستا فروخت کر ے تو جتن ی مقدار اس نے بخش د ی ہے یا جتنی سستی فروخت کی ہے اگر و ہ اس ک ے مال ک ی ایک تہ ائ ی کے برا بر یا اس سے کم ہ و تو اس کا تصرف کرنا صح یح ہے۔ اور اگر ا یک تہ ائ ی سے ز یادہ ہ و تو ورثاء ک ی اجازت دینے کی صورت میں اس کا تصرف کرنا صحیح ہے اور اگر ورثاء اجازت ن ہ د یں تو ایک تہ ائ ی سے ز یادہ میں اس کا تصرف باطل ہے۔

وکالت کے احکام

"وکالت" سے مراد یہ ہے ک ہ و ہ کام جس ے انسان خود کرن ے کا حق رک ھ تا ہ و، ج یسے کوئی معاملہ کرنا ۔ اس ے دوسر ے ک ے سپرد کر د ے تاک ہ و ہ اس ک ی طرف سے و ہ کام انجام د ے مثلاً کس ی کو اپنا وکیل بنائے تاک ہ و ہ اس کا مکان ب یچ دے یا کسی عورت سے اس کا عقد کرد ے۔ ل ہ ذا سف یہ چونکہ اپن ے مال م یں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھ تا اس لئ ے و ہ مکان ب یچنے کے لئ ے کس ی کو وکیل نہیں بنا سکتا۔

2265 ۔ وکالت م یں صیغہ پڑھ نا لازم ن ہیں بلکہ اگر انسان دوسر ے شخص کو سمج ھ اد ے ک ہ اس ن ے اس ے وک یل مقرر کیا ہے اور و ہ ب ھی سمجھ ا د ے ک ہ اس ن ے وک یل بننا قبول کرلیا ہے مثلاً ا یک شخص اپنا مال دوسرے کو د ے تاک ہ و ہ اس ے اس ک ی طرف سے ب یچ دے اور دوسرا شخص و ہ مال ل ے ل ے تو وکال ت صحیح ہے۔

2266 ۔ اگر انسان ا یک ایسے شخص کو وکیل مقرر کرے جس ک ی رہ ائش دوسر ے ش ہ ر م یں ہ و اور اس کو وکالت نام ہ ب ھیج دے اور و ہ وکالت نام ہ قبول کرل ے تو اگرچ ہ وکالت نام ہ ا سے کچ ھ عرص ے بعد ہی ملے پ ھ ر ب ھی وکالت صحیح ہے۔

2267 ۔ مُئَوکِّل یعنی وہ شخص جو دوسر ے کو وک یل بنائے اور و ہ شخص جو وک یل بنے ضرور ی ہے ک ہ دونوں عاقل ہ وں اور (وک یل بنانے اور وک یل بننے کا) اقدام قصد اور اخت یار سے کر یں اور مُئَوکّلِ کے معامل ے م یں بلوغ بھی معتبر ہے۔ مگر ان کاموں میں جن کو ممیز بچے کا انجام د ینا صحیح ہے۔ (ان م یں بلوغ شرط نہیں ہے ) ۔

2268 ۔ جو کام انسان انجام ن ہ د ے سکتا ہ و یا شرعاً انجام دینا ضروری نہ ہ و اس ے انجام د ینے کے لئ ے و ہ دوسر ے کا وک یل نہیں بن سکتا۔ مثلاً جو شخص حج کا احرام باند ھ چکا ہ و چونک ہ اس ے نکاح کا ص یغہ نہیں پڑھ نا چا ہ ئ ے اس لئ ے و ہ ص یغہ نکاح پڑھ ن ے ک ے لئ ے دوسر ے کا وک یل نہیں بن سکتا۔

2269 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنے تمام کام انجام د ینے کے لئ ے دوسر ے شخص کو وک یل بنائے تو صح یح ہے ل یکن اگر اپنے کاموں م یں سے ا یک کام کرنے ک ے لئ ے دوسر ے کو وک یل بنائے اور کام کا تع ین نہ کر ے تو وکالت صح یح نہیں ہے۔ ہ اں اگر وک یل کو چند کاموں میں سے ا یک کام جس کا وہ خود انتخ اب کرے انجام د ینے کے لئ ے وک یل بنائے مثلاً اس کو وک یل بنائے ک ہ یا اس کا گھ ر فروخت کر ے یا کرائے پر د ے تو وکال ت صحیح ہے۔

2270 ۔ اگر (مُئَوکّلِ) وک یل کو معزول کردے یعنی جو کام اس کے ذم ے لگا یا ہ و اس س ے برطرف کر د ے تو وک یل اپنی معزولی کی خبر مل جانے ک ے بعد اس کام کو (مُئَوکّلِ ک ی جانب سے ) انجام ن ہیں دے سکتا ل یکن معزولی کی خبر ملنے س ے پ ہ ل ے اس ن ے و ہ کام کر د یا ہ و تو صح یح ہے۔

2271 ۔ مُئَوکّلِ خوا ہ موجود ن ہ ہ و وک یل خود کو وکالت سے کنار ہ کش کر سکتا ہے۔

2272 ۔ جو کام وک یل کے سپرد ک یا گیا ہ و، اس کام ک ے لئ ے و ہ کس ی دوسرے شخص کو وک یل مقرر نہیں کرسکتا لیکن اگر مُئَوکّلِ نے اس ے اجازت د ی ہ و ک ہ کس ی کو وکیل مقرر کرے تو جس طرح اس ن ے حکم دیا ہے اس ی طرح وہ عمل کرسکتا ہے ل ہ ذا اگر اس ن ے ک ہ ا ہ و ک ہ م یرے لئے ا یک وکیل مقرر کرو تو ضروری ہے ک ہ اس ک ی طرف سے وک یل مقرر کرے ل یکن از خود کسی کو وکیل مقرر نہیں کرسکتا۔

2273 ۔ اگر وک یل مُئَوکّلِ کی اجازت سے کس ی کو اس کی طرف سے وک یل مقرر کرے تو پ ہ لا وک یل دوسرے وک یل کو معزول نہیں کرسکتا اور اگر پہ لا وک یل مرجائے یامُئَوکّلِ کی اسے معزول کر د ے تب ب ھی دوسرے وک یل کی وکالت باطل نہیں ہ وت ی۔

2274 ۔ اگر وک یل مَئَوکّلِ کی اجازت سے کس ی کو خود اپنی طرف سے وک یل مقرر کرے تو مُئَوکّلِ اور پ ہ لاوک یل اس وکیل کو معزول کر سکتے ہیں اور اگر پہ لا وک یل مرجائے یا معزول ہ وجائ ے تو دوسر ی وکالت باطل ہ وجات ی ہے۔

2275 ۔ اگر (مُئَوکّلِ) کس ی کام کے لئ ے چند اشخاص کو وک یل مقرر کرے اور ان س ے ک ہے ک ہ ان م یں سے ہ ر ا یک ذاتی طور پر اس کام کو کرے تو ان م یں سے ہ ر ا یک اس کام کو انجام دے سکتا ہے اور اگر ان م یں سے ا یک مرجائے تو دوسروں ک ی وکالت باطل نہیں ہ وت ی، لیکن اگر یہ کہ ا ہ و ک ہ سب مل کر انجام د یں تو ان میں سے کوئ ی تنہ ا اس کام کو انجام ن ہیں دے سکتا اور اگر ان م یں سے ا یک مرجائے تو باق ی اشخاص کی وکالت باطل ہ وجات ی ہے۔

2276 ۔ اگر وک یل یا مُئَوکّلِ مرجائے تو وکالت باطل ہ وجات ی ہے۔ ن یز جس چیز میں تصرف کے لئ ے کس ی شخص کو وکیل مقرر کیا جائے اگر و ہ چ یز تلف ہ وجائ ے مثلاً جس ب ھیڑ کو بیچنے کے لئ ے کس ی کو وکیل مقرر کیا گیا ہ و اگر و ہ ب ھیڑ مرجائے تو و ہ وکالت باطل ہ وجائ ے گ ی اور اس طرح اگر وکیل یا مُئَوکّلِ میں سے کوئ ی ایک ہ م یشہ کے لئ ے د یوانہ یا بے حواس ہ و جائ ے تو وکالت باطل ہ وجائ ے گ ی۔ ل یکن اگر کبھی کبھی دیوانگی یابے حواسی کا دورہ پ ڑ تا ہ و تو وکالت کا باطل ہ ونا د یوانگی اور بے ہ واس ی کی مدت میں حتی کہ د یوانگی اور بے حواس ی ختم ہ ون ے ک ے بعد ب ھی مُطلَقاً محلِّ اِشکال ہے۔

2277 ۔ اگر انسان کس ی کو اپنے کام ک ے لئ ے وک یل مقرر کرے اور اس ے کوئ ی چیز دینا طے کر ے تو کام ک ی تکمیل کے بعد ضرور ی ہے ک ہ جس چ یز کا دینا طے ک یا ہ و و ہ اس ے د یدے۔

2278 ۔ جو مال وک یل کے اخت یار میں ہ و اگر و ہ اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ کر ے اور جس تصرف ک ی اسے اجازت د ی گئی ہ و اس ک ے علاو ہ کوئ ی تصرف اس میں نہ کر ے اور اتفاقاً و ہ مال تلف ہ وجائ ے تو اس ک ے لئ ے اس کا عوض د ینا ضروری نہیں۔

2279 ۔ جو مال وک یل کے اخت یار میں ہ و اگر و ہ اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی برتے یا جس تصرف کی اسے اجازت د ی گئی ہ و ا س سے تجاوز کر ے اور و ہ مال تلف ہ وجائ ے تو و ہ (وک یل) ذمے دار ہے۔ ل ہ ذا جس لباس ک ے لئ ے اس ے ک ہ ا جائ ے ک ہ اس ے ب یچ دو اگر وہ اس ے پ ہ ن ل ے اور و ہ لباس تلف ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

2280 ۔ اگر وک یل کو مال میں جس تصرف کی اجازت دی گئی ہ و اس ک ے علاو ہ کوئ ی تصرف کے مثلاً اسے جس لباس ک ے ب یچنے کے لئ ے ک ہ ا جائ ے و ہ اس ے پ ہ ن ل ے اور بعد م یں وہ تصرف کر ے جس ک ی اسے اجازت د ی گئی ہ و تو و ہ تصرف صح یح ہے۔

قرض کے احکام

مومنین کو خصوصاً ضرورت مند مومنین کو قرض دینا ان مستحب کاموں میں سے ہے جن ک ے متعلق احاد یث میں کافی تاکید کی گئی ہے۔ رسول اکرم (صل ی اللہ عل یہ وآلہ ) س ے روا یت ہے : "جو شخص اپن ے مسلمان ب ھ ائ ی کو قرض دے اس ک ے مال م یں برکت ہ وت ی ہے اور ملائک ہ اس پر (خدا ک ی) رحمت برساتے ہیں اور اگر وہ مقروض س ے نرم ی برتے تو بغ یر حساب کے اور ت یزی سے پل صراط پر س ے گزر جائ ے گا اور اگر کس ی شخص سے اس کا مسلمان ب ھ ائ ی قرض مانگے اور و ہ ن ہ د ے تو ب ہ شت اس پر حرام ہ و جات ی ہے "

2281 ۔ قرض م یں صیغہ پڑھ نا لازم ن ہیں بلکہ اگر ا یک شخص دوسرے کو کوئ ی چیز قرض کی نیت سے د ے اور دوسرا ب ھی اسی نیت سے ل ے تو قرض صح یح ہے۔

2282 ۔ جب ب ھی مقروض اپنا قرض ادا کرے تو قرض خوا ہ کو چا ہ ئ ے ک ہ اس ے قبول کرل ے۔ ل یکن اگر قرض ادا کرنے ک ے لئ ے قرض خوا ہ ک ے ک ہ ن ے س ے یا دونوں کے ک ہ ن ے س ے ا یک مدت مقرر کی ہ و تو اس صورت م یں قرض خواہ اس مدت ک ے ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے اپنا قرض واپس ل ینے سے انکار کر سکتا ہے۔

2283 ۔ اگر قرض کے ص یغے میں قرض کی واپسی کی مدت معین کر دی جائے اور مدت کا تع ین مقروض کی درخواست پر ہ و یا جانبین کی درخواست پر، قرض خواہ اس مع ین مدت کے ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے قرض ک ی ادائیگی کا مطالبہ ن ہیں کرسکتا۔ ل یکن اگر مدت کا تعین قرض خواہ ک ی درخواست پر ہ وا ہ و یا قرضے ک ی واپسی کے لئ ے کوئ ی مدت معین نہ ک ی گئی ہ و تو قرض خوا ہ جب ب ھی چاہے اپن ے قرض ک ی ادائیگی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

2284 ۔ اگر قرض خوا ہ اپن ے قرض ک ی ادائیگی کا مطالبہ کر ے اور مقروض قرض ادا کر سکتا ہ و تو اس ے چا ہ ئ ے ک ہ فوراً ادا کر ے اور اگر ادائ یگی میں تاخیر کرے تو گن ہ گار ہے۔

2285 ۔ اگر مقروض ک ے پاس ا یک گھ ر ک ہ جس م یں وہ ر ہ تا ہ و اور گ ھ ر ک ے اسباب اور ان لوازمات ک ہ جن ک ی اسے ضرورت ہ و اور ان ک ے بغ یر اسے پر یشانی ہ و اور کوئ ی چیز نہ ہ و تو قرض خوا ہ اس س ے قرض ک ی ادائیگی کا مطالبہ ن ہیں کرسکتا بلکہ اس ے چا ہ ئ ے ک ہ صبر کر ے ح تی کہ مقروض قرض ادا کرن ے ک ے قابل ہ و جائ ے۔

2286 ۔ جو شخص مقروض ہ و اور اپنا قرض ادا ن ہ کرسکتا ہ و تو اگر و ہ کوئ ی ایسا کام کاج کر سکتا ہ و جو اس ک ی شایان شان ہ و تو احت یاط واجب ہے ک ہ کام کاج کر ے اور اپنا قرض ادا کر ے۔ بالخصوص ا یسے شخص کے لئ ے جس ک ے لئ ے کام کرنا آس ان ہ و یا اس کا پیشہ ہی کام کاج کرنا ہ و بلک ہ اس صورت میں کام کا واجب ہ ونا قوت س ے خال ی نہیں۔

2287 ۔ جس شخص کو اپنا قرض خوا ہ ن ہ مل سک ے۔ اور مستقبل م یں اس کے یا اس کے وارث ک ے ملن ے ک ی امید بھی نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ قرض ے کا مال قرض خوا ہ ک ی طرف سے فق یر کو دے د ے اور احت یاط کی بنا پر ایسا کرنے ک ی اجازت شرع سے ل ے ل ے اور اگر اس کا قرض خوا ہ س ید نہ ہ و تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ قرض ے کا مال س ید فقیر کو نہ د ے۔ ل یکن اگر مقروض کو قرض خواہ یا اس کے وارث ک ے ملن ے ک ی امید ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ انتظار کر ے اور اس کو تلاش کر ے اور اگر وہ ن ہ مل ے تو وص یت کرے ک ہ اگر و ہ مرجائ ے اور قرض خوا ہ یا اس کا وارث مل جائے تو اس کا قرض اس ک ے م ال سے ادا ک یا جائے۔

2288 ۔ اگر کس ی میت کا مال اس کے کفن دفن ک ے واجب اخراجات اور قرض س ے ز یادہ نہ ہ و تو اس کا مال ان ہی امور پر خرچ کرنا ضروری ہے اور اس ک ے وا رث کو کچھ ن ہیں ملے گا ۔

2289 ۔ اگر کوئ ی شخص سونے یا چاندی کے سک ے وغ یرہ قرض لے اور بعد م یں ان کی قیمت کم ہ و جائ ے تو اگر و ہ و ہی مقدار جو اس نے ل ی تھی واپس کر دے تو کاف ی ہے اور اگر ان ک ی قیمت بڑھ جائ ے تو لازم ہے ک ہ اتن ی ہی مقدار واپس کرے جو ل ی تھی لیکن دونوں صورتوں میں اگر مقروض اور قرض خواہ کس ی اور بات پر رضامند ہ وجائ یں تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔

2290 ۔ کس ی شخص نے جو مال قرض ل یا ہ و اگر و ہ تلف ن ہ ہ وا ہ و اور مال کا مالک اس کا مطالب ہ کر ے تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ مقروض و ہی مال مالک کو دے د ے۔

2291 ۔ اگر قرض د ینے والا شرط عائد کرے ک ہ و ہ جتن ی مقدار میں مال دے ر ہ ا ہے اس س ے ز یادہ واپس لے گا مثلاً ا یک من گیہ وں دے اور شرط عائد کر ے ک ہ ا یک من پانچ کیلو واپس لوں گا یا دس انڈے د ے اور ک ہے ک ہ گ یارہ انڈے واپس لوں گا تو یہ سود اور حرام ہے بلک ہ اگر ط ے کر ے ک ہ م قروض اس کے لئ ے کوئ ی کام کرے گا یا جو چیز لی ہ و و ہ کس ی دوسری جنس کی کچھ مقدار ک ے سات ھ واپس کر ے گا مثلاً ط ے کر ے ک ہ (مقروض ن ے ) جو ا یک روپیہ لیا ہے واپس کرت ے وقت اس ک ے سات ھ ماچس ک ی ایک ڈ ب یہ بھی دے تو یہ سود ہ وگا اور حرام ہے۔ ن یز اگر مقروض کے سات ھ شرط کر ے ک ہ جو چ یز وہ قرض ل ے ر ہ ا ہے اس ے ا یک مخصوص طریقے سے واپس کر ے گا مثلاً ان گ ھڑے سون ے ک ی کچھ مقدار اس ے د ے اور شرط کر ے ک ہ گ ھڑ ا ہ وا سونا واپس کر ے گا تب ب ھی یہ سود اور حرام ہ وگا البت ہ اگر قرض خوا ہ کوئ ی شرط نہ لگائ ے بلک ہ مقروض خود قرض ے ک ی مقدار سے کچ ھ ز یادہ واپس دے تو ک وئی اشکال نہیں بلکہ (ا یسا کرنا) مستحب ہے۔

2292 ۔ سود د ینا سود لینے کی طرح حرام ہے ل یکن جو شخص سود پر قرض لے ظا ہ ر یہ ہے ک ہ و ہ اس کا مالک ہ و جاتا ہے اگرچ ہ اول ی یہ ہے ک ہ اس م یں تصرف نہ کر ے اور اگر صورت یہ ہ و ک ہ طرف ین نے سود کا معا ہ د ہ ن ہ ب ھی کیا ہ وتا اور رقم کا مالک اس بات پر راض ی ہ وتا ک ہ قرض ل ینے والا اس رقم میں تصرف کرلے تو مقروض بغ یر کسی اشکال کے اس رقم م یں تصرف کرسکتا ہے۔

2293 ۔ اگرکوئ ی شخص گیہ وں یا اسی جیسی کوئی چیز سودی قرضے ک ے طور پر ل ے اور اس ک ے ذر یعے کاشت کرے تو ظا ہ ر یہ ہے ک ہ و ہ پ یداوار کا مالک ہ وجاتا ہے اگرچ ہ اولٰ ی یہ ہے ک ہ اس س ے جو پ یداوار حاصل ہ و اس م یں تصرف نہ کر ے۔

2294 ۔ اگر ا یک شخص کوئی لباس خریدے اور بعد میں اس کی قیمت کپڑے ک ے مالک کو سود ی رقم سے یا ایسی حلال رقم سے جو سود ی قرضے پر ل ی گئی رقم کے سات ھ مخلوط ہ وگئ ی ہ و ادا کر ے تو اس لباس ک ے پ ہ نن ے یا اس کے سات ھ نماز پ ڑھ ن ے م یں کوئی اشکال نہیں لیکن اگر بیچنے والے س ے ک ہے ک ہ م یں یہ لباس اس رقم سے خر ید رہ ا ہ وں تو اس لباس کو پ ہ ننا حرام ہے اور اس لباس ک ے سات ھ نماز پ ڑھ ن ے کا حکم نماز گزار ک ے لباس ک ے احکام م یں گزرچکا ہے۔

2295 ۔ ا گر کوئی شخص کسی تاجر کو کچھ رقم د ے اور دوسر ے ش ہ ر م یں اس تاجر سے کم رقم ل ے تو اس م یں کوئی اشکال نہیں اور اسے "صَرفِ براءت" ک ہ ت ے ہیں۔

2296 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی کو کچھ رقم اس شرط پر د ے ک ہ چند دن بعد دوسر ے ش ہ ر م یں اس سے ز یادہ لے گا مثلاً 990 روپے د ے اور دس دن بعد دوسرے ش ہ ر م یں اس کے بدل ے ا یک ہ زار روپ ے ل ے تو اگر یہ رقوم (یعنی 990 اور ہ زار روپ ے ) مثال ک ے طور پر سون ے یا چاندی کی بنی ہ وں تو یہ سود اور حرام ہے ل یکن جو شخص زیادہ لے ر ہ ا ہ و اگر و ہ اضاف ے ک ے مقابل ے م یں کوئی جنس دے یا کوئی کام کر دے تو پ ھ ر اشکال ن ہیں تاہ م و ہ عام رائج نو ٹ جن ہیں گن کر شمار کیا جاتا ہ و اگر ان ہیں زیادہ لیا جائے تو کوئ ی اشکال نہیں ماسوا اس صورت کے ک ہ قرض د یا ہ و اور ز یادہ کی ادائیگی کی شرط لگائی ہ و تو اس صورت م یں حرام ہے یا ادھ ار پر ب یچے اور جنس اور اس کا عوض ایک ہی جنس سے ہ وں تو اس صورت م یں معاملے کا صح یح ہ ونا اشکال س ے خال ی نہیں ہے۔

2297 ۔ اگر کس ی شخص نے کس ی سے کچ ھ قرض ل ینا ہ و اور و ہ چ یز سونا یا چاندی یا ناپی یا تولی جانے وال ی جنس نہ ہ و تو و ہ شخص اس چ یز کو مقروض یا کسی اور کے پاس کم ق یمت پر بیچ کر اس کی قیمت نقد وصول کر سکتا ہے۔ اس ی بنا پر موجودہ دور م یں جو چیک اور ہ ن ڈیاں قرض خواہ مقرو ض سے ل یتا ہے ان ہیں وہ بنک ک ے پاس یا کسی دوسرے شخص ک ے پاس اس س ے کم ق یمت پر ۔ جس ے عام طور پر ب ھ او گرنا ک ہ ت ے ہیں ۔ ب یچ سکتا ہے اور باق ی رقم نقد لے سکتا ہے ک یونکہ رائج الوقت نوٹ وں کا ل ین دین ناپ تول سے ن ہیں ہ وتا ۔

حوالہ دینے کے احکام

2298 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنے قرض خوا ہ کو حوال ہ د ے ک ہ و ہ اپنا قرض ا یک اور شخص سے ل ے ل ے اور قرض خوا ہ اس بات کو قبول کر ل ے تو جب " حوال ہ " ان شرائط ک ے سات ھ جن کا ذکر بعد م یں آئے گا مکمل ہ وجائ ے تو جس شخص ک ے نام حوال ہ د یا گیا ہے و ہ مقروض ہ وجائ ے گا اور اس ک ے بعد قرض خواہ پہ ل ے مقروض س ے اپن ے قرض کا مطالب ہ ن ہیں کرسکتا۔

2299 ۔ مقروض اور قرض خوا ہ اور جس شخص کا حوال ہ د یا جاسکتا ہ و ضرور ی ہے ک ہ سب بالغ اور عاقل ہ وں اور کس ی نے ان ہیں مجبور نہ ک یا ہ و ن یز ضروری ہے ک ہ سف یہ نہ ہ وں یعنی اپنا مال احمقانہ اور فضول کاموں م یں خرچ نہ کرت ے ہ وں اور یہ بھی معتبر ہے ک ہ مقروض اور قرض خوا ہ د یوالیہ نہ ہ وں ۔ ہ اں اگر حوال ہ ا یسے شخص کے نام ہ و جو پ ہ ل ے س ے حوال ہ د ینے والے کا مقروض ن ہ ہ و تو اگرچ ہ حوال ہ د ینے والا دیوالیہ بھی ہ و کوئ ی اشکال نہیں ہے۔

2300 ۔ ا یسے شخص کے نام حوالہ د ینا جو مقروض نہ ہ و اس صورت م یں صحیح نہیں ہے جب و ہ حوال ہ قبول ن ہ کر ے۔ ن یز اگر کوئی شخص چاہے ک ہ جو شخص ا یک جنس کے لئ ے اس کا مقروض ہے اس ک ے نام دوسر ی جنس کا حوالہ لک ھے۔ مثلاً جو شخص جَو کا مقروض ہ و اس ک ے نام گ یہ وں کا حوالہ لک ھے تو جب تک وہ شخص قبول ن ہ کر ے حوال ہ صح یح نہیں ہے۔ بلک ہ حوال ہ د ینے کی تمام صورتوں میں ضروری ہے ک ہ جس شخص ک ے نام حوال ہ ک یا جارہ ا ہے و ہ حوال ہ قبول کر ے اور اگر قبول ن ہ کر ے تو بنا بر اظ ہ ر (حوال ہ ) صح یح نہیں ہے۔

2301 ۔ انسان جب حوال ہ د ے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ اس وقت مقروض ہو لہ ذا اگر و ہ کس ی سے قرض ل ینا چاہ تا ہ و تو جب تک اس س ے قرض ن ہ ل ے ل ے اس ے کس ی کے نام کا حوال ہ ن ہیں دے سکتا تاک ہ جو قرض اس ے بعد م یں دینا ہ و و ہ پ ہ ل ے ہی اس شخص سے وصول کرل ے۔

2302 ۔ حوال ہ ک ی جنس اور مقدار فی الواقع معین ہ ونا ضرور ی ہے پس اگر حوال ہ د ینے والا کسی شخص کا دس من گیہ وں اور دس روپے کا مقروض ہ و اور قرض خوا ہ کو حوال ہ د ے ک ہ ان دونوں قرضوں م یں سے کوئ ی ایک فلاں شخص سے ل ے لو اور اس قرض ے کو مع ین نہ کر ے تو حوال ہ درست ن ہیں ہے۔

2303 ۔ اگر قرض واقع ی معین ہ و ل یکن حوالہ د ینے کے وقت مقروض اور قرض خوا ہ کو اس ک ی مقدار یا جنس کا علم نہ ہ و تو حوال ہ صح یح ہے مثلاً اگر کس ی شخص نے دوسر ے کا قرض ہ رجس ٹ ر م یں لکھ ا ہ و اور رجس ٹ ر د یکھ ن ے سے پ ہ ل ے حوال ہ د ے د ے اور بعد م یں رجسٹ ر د یکھے اور قرض خواہ کو قرض ے ک ی مقدار بتا دے تو حوال ہ صح یح ہ وگا ۔

2304 ۔ قرض خوا ہ کو اخت یاط ہے ک ہ حوال ہ قبول ن ہ کر ے اگ رچہ جس ک ے نام کا حوال ہ د یا جائے و ہ دولت مند ہ و اور حوال ہ ک ے ادا کرن ے م یں کوتاہی بھی نہ کر ے۔

2305 ۔ جو شخص حوال ہ د ینے والے کا مقروض ن ہ ہ و اگر حوال ہ قبول کر ے تو اظ ہ ر یہ ہے ک ہ حوال ہ ادا کرن ے س ے پ ہ ل ے حوال ہ د ینے والے س ے حوال ے ک ی مقدار کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ مگر یہ کہ جو قرض جس ک ے نام حوال ہ د یا گیا ہے اس ک ی مدت معین ہ و اور اب ھی وہ مدت ختم ن ہ ہ وئ ی ہ و تو اس صورت م یں وہ مدت ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے حوال ے د ینے والے س ے حوال ے ک ی مقدار کا مطالبہ ن ہیں کر سکتا اگرچہ اس ن ے ادائ یگی کر دی ہ و اور اس ی طرح اگر قرض خواہ اپن ے قرض س ے ت ھ و ڑی مقدار پر صلح کرے تو و ہ حوال ہ د ینے والے س ے فقط (ت ھ و ڑی) مقدار کا ہی مطالبہ کر سکتا ہے۔

2306 ۔ حوال ہ ک ی شرائط پوری ہ ون ے ک ے بعد حوال ہ د ینے والا اور جس کے نام حوال ہ د یا جائے حوال ہ منسوخ ن ہیں کر سکتے اور و ہ شخص جس ک ے نام کا حوال ہ د یا گیا ہے حوال ہ ک ے وقت فق یر نہ ہ و تو اگرچ ہ و ہ بعد م یں فقیر ہ و جائ ے تو قرض خوا ہ ب ھی حوالے کو منسوخ ن ہیں کرسکتا ہے۔ یہی حکم اس وقت ہے جب (و ہ شخص جس ک ے نام کا حوال ہ د یا گیا ہ و) حوال ہ د ینے کے وقت فق یر ہ و اور قرض خوا ہ جانتا ہ و ک ہ و ہ فق یر ہے ل یکن اگر قرض خواہ کو علم ن ہ ہ و ک ہ و ہ فق یر ہے اور بعد میں اسے پت ہ چل ے تو اگر اس وقت و ہ شخص مالدار ن ہ ہ وا ہ و قرض خوا ہ حوال ہ منسوخ کرک ے اپنا قرض حوالہ د ینے والے س ے ل ے سکتا ہے۔ ل یکن اگر وہ مالدار ہ وگ یا ہ و تو معلوم ن ہیں کہ معامل ے کو فسخ کرسکتا ہے ( یا نہیں)۔

2307 ۔ اگر مقروض اور قرض خوا ہ اور جس ک ے نام کا حوال ہ دیا گیا ہ و یا ان میں سے کس ی ایک نے اپن ے حق م یں حوالہ منسوخ کرن ے کا معا ہ د ہ ک یا ہ و تو جو معا ہ د ہ ان ہ وں ن ے ک یا ہ و اس ک ے مطابق و ہ حوال ہ منسوخ کر سکت ے ہیں۔

2308 ۔ اگر حوال ہ د ینے والا خود قرض خواہ کا قرض ہ ادا کر د ے یہ کام اس شخص کی خواہ ش پر ہ وا ہ و جس ک ے نام کا حوال ہ د یا گیا ہ و جبک ہ و ہ حوال ہ د ینے والے کا مقروض ب ھی ہ و تو و ہ جو کچ ھ د یا ہ و اس س ے ل ے سکتا ہے اور اگر اس ک ی خواہ ش ک ے بغ یر ادا کیا ہ و یا وہ حوال ہ د ہ ند ہ کا مقروض ن ہ ہ و تو پ ھ ر اس ن ے جو کچ ھ د یا ہے اس کا مطالب ہ اس س ے ن ہیں کرسکتا۔

رہ ن کے احکام

2309 ۔ ر ہ ن یہ ہے ک ہ انسان قرض ک ے بدل ے اپنا مال یا جس مال کے لئ ے ضامن بنا ہ و و ہ مال کس ی کے پاس گرو ی رکھ وائ ے ک ہ اگر ر ہ ن رک ھ وان ے والا قرض ہ ن ہ لو ٹ ا سک ے یا رہ ن ن ہ چ ھڑ ا سک ے تو ر ہ ن ل ینے والا شخص اس کو عوض اس مال سے ل ے سک ے۔

2310 ۔ ر ہ ن م یں صیغہ پڑھ نا لازم ن ہیں ہے بلک ہ اتنا کاف ی ہے ک ہ گرو ی دینے والا اپنا مال گروی رکھ ن ے ک ی نیت سے گرو ی لینے والے کو د ے د ے اور و ہ اس ی نیت سے ل ے ل ے تو ر ہ ن صح یح ہے۔

2311 ۔ ضرور ی ہے ک ہ گرو ی رکھ وان ے والا اور گرو ی رکھ ن ے والا بالغ اور عاقل ہ وں اور کس ی نے ان ہیں اس معاملے ک ے لئ ے مجبور ن ہ ک یا ہ و اور یہ بھی ضروری ہے ک ہ مال گرو ی رکھ وان ے والا د یوالیہ اور سفیہ نہ ہ و ۔ د یوالیہ اور سفیہ کے معن ی مسئلہ 2262 میں بتائے جاچک ے ہیں۔ اور اگ ر دیوالیہ ہ و ل یکن جو مال وہ گرو ی رکھ وا ر ہ ا ہے اس کا اپنا مال ن ہ ہ و یا ان اموال میں سے ن ہ ہ و جس ک ے تصرف کرن ے س ے منع ک یا گیا ہ و تو کوئ ی اشکال نہیں ہے۔

2312 ۔ انسان و ہ مال گرو ی رکھ سکتا ہے جس م یں وہ شرعاً تصرف کر سکتا ہ و اور اگر کس ی دوسرے کا مال اس ک ی اجازت سے گرو ی رکھ د ے تو ب ھی صحیح ہے۔

2313 ۔ جس چ یز کو گروی رکھ ا جا ر ہ ا ہ و ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی خرید و فروخت صحیح ہ و ۔ ل ہ ذا اگر شراب یا اس جیسی چیز گروی رکھی جائے تو درست ن ہیں ہے۔

2314 ۔ جس چ یز کو گروی رکھ ا جا ر ہ ا ہے اس س ے جو فائد ہ ہ وگا و ہ اس چ یز کے مالک ک ی ملکیت ہ وگا خوا ہ و ہ گرو ی رکھ وان ے والا ہ و یا کوئی دوسرا شخص ہ و ۔

2315 ۔ گرو ی رکھ ن ے وال ے ن ے جو مال بطور گرو ی لیا ہ و اس مال کو اس ک ے مالک ک ی اجازت کے بغ یر خواہ گرو ی رکھ وان ے والا ہ و یا کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے ک ی ملکیت میں نہیں دے سکتا ۔ مثلاً ن ہ و ہ کس ی دوسرے کو و ہ مال بخش سکتا ہے ن ہ کس ی کو بیچ سکتا ہے۔ ل یکن اگر وہ اس مال کو کسی کو بخش دے یا فروخت کر دے اور مالک بعد م یں اجازت دے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے۔

2316 ۔ اگر گرو ی رکھ ن ے والا اس مال کو جو اس ن ے بطور گرو ی لیا ہ و اس ک ے مالک ک ی اجازت سے ب یچ دے تو مال ک ی طرح اس کی قیمت گروی نہیں ہ وگ ی۔ اور یہی حکم ہے اگر مالک ک ی اجازت کے بغ یر بیچ دے اور مالک بعد م یں اجازت دے ( یعنی اس مال کی جو قیمت وصول کی جائے و ہ اس مال کی طرح گروی نہیں ہ وگ ی)۔ ل یکن اگر گروی رکھ وان ے والا اس چ یز کو گروی رکھ ن ے وال ے ک ی اجازت سے ب یچ دے تاک ہ اس ک ی قیمت کو گروی قرار دے تو ضرور ی ہے ک ہ مالک ک ی اجازت سے ب یچ دے اور اس ک ی مخالفت کرنے ک ی صورت میں معاملہ باطل ہے۔ مگر یہ کہ گرو ی رکھ ن ے وال ے ن ے اس ک ی اجازت دی ہ و (تو پ ھ ر معامل ہ صح یح ہے ) ۔

2317 ۔ جس وقت مقروض کو قرض ادا کر د ینا چاہ ئ ے اگر قرض خوا ہ اس وقت مطالب ہ کر ے اور مقروض ادائ یگی نہ کر ے تو اس صورت م یں جب کہ قرض خوا ہ مال کو فروخت کرک ے اپنا قرض ہ اس ک ے مال س ے وصول کرن ے کا احت یاط رکھ تا ہ و و ہ گرو ی لئے ہ وئ ے ما ل کو فروخت کرکے اپنا قرض ہ وصول کرسکتا ہے۔ اور اگر اخت یاط نہ رک ھ تا ہ و تو اس ک ے لئ ے لازم ہے ک ہ مقروض س ے اجازت ل ے اور اگر اس تک پ ہ نچ ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ حاکم شرع س ے اس مال کو ب یچ کر اس کی قیمت سے اپنا قرض ہ وصول کرن ے ک ی اجازت لے اور دونوں صورتوں م یں اگر قرضے سے ز یادہ قیمت وصول ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ز ائد مال مقروض کو دیدے۔

2318 ۔ اگر مقروض ک ے پاس اس مکان ک ے علاو ہ جس م یں وہ ر ہ تا ہ و اور اس سامان ک ے علاو ہ جس ک ی اسے ضرورت ہ و اور کوئ ی چیز نہ ہ و تو قرض خوا ہ اس س ے اپن ے قرض کا مطالب ہ ن ہیں کر سکتا لیکن مقروض نے جو مال بطور گرو ی دیا ہ و اگرچ ہ و ہ مکان اور سامان ہی کیوں نہ ہ و قرض خوا ہ اس ے ب یچ کر اپنا قرض وصول کر سکتا ہے۔

ضمانت کے احکام

2319 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی دوسرے کا قرض ہ ادا کرن ے ک ے لئ ے ضامن بننا چا ہے تو اس کا ضامن بننا اس وقت صح یح ہ وگا جب و ہ کس ی لفظ سے اگ رچہ و ہ عرب ی زبان میں نہ ہ و یا کسی عمل سے قرض خوا ہ کو سمج ھ ا د ے ک ہ م یں تمہ ار ے قرض ک ی ادائیگی کے لئ ے ضامن بن گ یا ہ وں اور قرض خوا ہ ب ھی اپنی رضامندی کا اظہ ار کر د ے اور (اس سلسل ے م یں) مقروض کا رضامند ہ ونا شرط ن ہیں ہے۔

2320 ۔ ضامن اور قرض خوا ہ دونوں ک ے لئ ے ضرور ی ہے بالغ اور عاقل ہ وں اور کس ی نے ان ہیں اس معاملے پر مجبور ن ہ ک یا ہ و ن یز ضروری ہے ک ہ و ہ سف یہ بھی نہ ہ وں اور اس ی طرح ضروری ہے ک ہ قرض خوا ہ د یوالیہ نہ ہ و، ل یکن یہ شرائط مقروض کے لئ ے ن ہیں ہیں مثلاً اگر کوئی شخص بچے ، د یوانے یا سفیہ کا قرض ادا کرنے ک ے لئ ے ضامن بن ے تو ضمانت صح یح ہے۔

2321 ۔ جب کوئ ی شخص ضامن بننے ک ے لئ ے کوئ ی شرط رکھے مثلاً یہ کہے ک ہ "اگر مقروض تم ہ ارا قرض ادا ن ہ کر ے تو م یں تمہ ارا قرض ادا کروں گا" تو اس ک ے ضامن ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

2322 ۔ انسان جس شخص ک ے قرض ک ی ضمانت دے ر ہ ا ہے ضروری ہے ک ہ و ہ مقروض ہ و ل ہ ذا اگر کوئ ی شخص کسی دوسرے شخص س ے قرض ل ینا چاہ تا ہ و تو جب تک و ہ قرض ن ہ ل ے ل ے اس وقت تک کوئ ی شخص اس کا ضامن نہیں بن سکتا۔

2323 ۔ انسان اس ی صورت میں ضامن بن سکتا ہے جب قرض، قرض خوا ہ اور مقروض ( یہ تینوں) فی والوقع معین ہ وں ل ہ ذا اگر دو اشخاص کسی ایک شخص کے قرض خوا ہ ہ وں اور انسان ک ہے ک ہ م یں تم میں سے ا یک کا قرض ادا کردوں گا تو چونکہ اس ن ے اس بات کو مع ین نہیں کیا کہ و ہ ان م یں سے کس کا قرض ادا کر ے گا اس لئ ے اس کا ضامن بننا باطل ہے۔ ن یز اگر کسی کو دو اشخاص سے قرض وصول کرنا ہ و اور کوئ ی شخص کہے ک ہ م یں ضامن ہ وں ک ہ ان دو م یں سے ا یک کا قرض تمہیں ادا کر دوں گا تو چونکہ اس ن ے بات کو مع ین نہیں کیا کہ دونوں م یں سے کس کا قرض ہ ادا کر ے گا اس لئ ے اس کا ضامن بننا باطل ہے۔ اور اس ی طرح اگر کسی نے ا یک دوسرے شخص س ے مثال ک ے طور پر دس من گ یہ وں اور دس روپے لینے ہ وں اور کوئ ی شخص کہے ک ہ م یں تمہ ار ے دونوں قرضوں م یں سے ا یک کی ادائیگی کا ضامن ہ وں اور اس چ یز کو معین نہ کر ے ک ہ و ہ گ یہ وں کے لئ ے ضامن ہے یا روپوں کے ل ئے تو یہ ضمانت صحیح نہیں ہے۔

2324 ۔ اگر قرض خوا ہ اپنا قرض ضامن کو بخش د ے تو ضامن مقروض س ے کوئ ی چیز نہیں لے سکتا اور اگر و ہ قرض ے ک ی کچھ مقدار اس ے بخش د ے تو و ہ (مقروض س ے ) اس مقدار کا مطالب ہ ن ہیں کرسکتا۔

2325 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی کا قرضہ ادا کرن ے ک ے لئ ے ضامن بن جائ ے تو پ ھ ر و ہ ضامن ہ ون ے س ے مکر ن ہیں سکتا۔

2326 ۔ احت یاط کی بنا پر ضامن اور قرض خواہ یہ شرط نہیں کرسکتے کہ جس وقت چا ہیں ضامن کی ضمانت منسوخ کر دیں۔

2327 ۔ اگر انسان ضامن بنن ے ک ے وقت قرض خوا ہ کا قرض ہ ادا کرن ے ک ے قابل ہ و تو خوا ہ و ہ (ضامن) بعد م یں دیوالیہ ہ و جائ ے قرض خوا ہ اس ک ی ضمانت منسوخ کرکے پ ہ ل ے مقروض س ے قرض ک ی ادائیگی کا مطالبہ ن ہیں کر سکتا۔ اور اس ی طرح اگر ضمانت دیتے وقت ضامن قرض ادا کرنے پر قادر ن ہ ہ و ل یکن قرض خواہ یہ بات جانتے ہ وئ ے اس ک ے ضامن بنن ے پر راض ی ہ وجائ ے تب ب ھی یہی حکم ہے۔

2328 ۔ اگر انسان ضامن بنن ے ک ے وقت قرض خوا ہ کا قرض ہ ادا کرن ے پر قادر ن ہ ہ و اور قرض خوا ہ صورت حال س ے لاعلم ہ ون ے ک ی بنا پر اس کی ضمانت منسوخ کرنا چاہے تو اس م یں اشکال ہے خصوصاً اس صورت م یں جب کہ قرض خوا ہ ک ے اس امر ک ی جانب متوجہ ہ ون ے س ے پ ہ ل ے ضامن قرض ے ک ی ادائیگی پر قادر ہ وجائ ے۔

2329 ۔ اگر کوئ ی شخص مقروض کی اجازت کے بغ یر اس کا قرضہ ادا کرن ے ک ے لئ ے ضامن بن جائ ے تو و ہ قرض ہ ادا کرن ے پر م قروض سے کچ ھ ن ہیں لے سکتا ۔

2330 ۔ اگر کوئ ی شخص مقروض کی اجازت سے اس ک ے قرض ے ک ی ادائیگی کا ضامن بن جائے تو جس مقدار ک ے لئ ے ضامن بنا ہ و ۔ اگرچ ہ اس ے ادا کرن ے س ے پ ہ ل ے ۔ مقروض س ے اس کا مطالب ہ کر سکتا ہے۔ ل یکن جس جنس کے لئ ے و ہ مقروض ت ھ ا اس ک ی بجائے کوئ ی اور جنس قرض خواہ کو د ے تو جو چ یز دی ہو اس کا مطالبہ مقروض س ے ن ہیں کر سکتا مثلاً اگر مقروض کو دس من گیہ وں دینی ہ و اور ضامن دس من چاول د ے د ے تو ضامن مقروض س ے دس من چاول کا مطالب ہ ن ہیں کرسکتا لیکن اگر مقروض خود چاول دینے پر رضامند ہ وجائ ے تو پ ھ ر کوئ ی اشکال نہیں۔

کَفالَت کے احکام

2331 ۔ " کَفالَت" س ے مراد یہ ہے ک ہ کوئ ی شخص ذمہ ل ے ک ہ جس وقت قرض خوا ہ چا ہے گا و ہ مقروض کر اس ک ے سپرد کرد ے گا ۔ اور جو شخص اس قسم ک ی ذمے دار ی قبول کرے اس ے کف یل کہ ت ے ہیں۔

2332 ۔ کَفالَت اس وقت صح یح ہے جب کف یل کوئی سے الفاظ م یں خواہ عرب ی زبان کے ن ہ ب ھی ہ وں یا کسی عمل سے قرض خوا ہ کو یہ بات سمجھ ا د ے ک ہ م یں ذمہ ل یتا ہ وں ک ہ جس وقت تم چا ہ و گ ے م یں مقروض کو تمہ ار ے حوال ے کردوں گا اور قرض خوا ہ ب ھی اس بات کو قبول کرلے۔ اور احت یاط کی بنا پر کَفالَت کے صح یح ہ ون ے ک ے لئ ے مقروض ک ی رضامندی بھی مُعتَبَر ہے۔ بلک ہ احت یاط یہ ہے ک ہ کَفاَلت ک ے معامل ے م یں اسے طرح مقروض کو ب ھی ایک فریق ہ ونا چا ہے یعنی مقروض اور قرض خواہ دونوں کَفالَت کو قبول کر یں۔

2333 ۔ کف یل کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ بالغ اور عاقل ہ و اور اس ے کف یل بننے پر مجبور ن ہ ک یا گیا ہ و اور و ہ اس بات پر قادر ہ و ک ہ جس کا کف یل بنے اس ے حاضر کر سکے اور اس ی طرح اس صورت میں جب مقروض کو حاضر کرنے ک ے لئ ے کف یل کو اپنا مال خرچ کرنا پڑے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ سف یہ اور دیوالیہ نہ ہ و ۔

2324 ۔ ان پانچ چ یزوں میں سے کوئ ی ایک کفالت کو کالعدم کر دیتی ہے :

1 ۔ کف یل مقروض کو قرض خواہ ک ے حوال ے کر د ے یا وہ خود اپن ے آپ کو قرض خوا ہ ک ے حوال ے کر د ے۔

2 ۔ قرض خوا ہ کا قرض ہ ادا کر د یا جائے۔

3 ۔ قرض خوا ہ اپن ے قرض ے س ے دستبردار ہ و جائ ے۔ یا اسے کس ی دوسرے ک ے حوال ے کر د ے۔

4 ۔ مقروض یا کفیل میں سے ا یک مرجائے۔

5 ۔ قرض خوا ہ کف یل کو کفالت سے بَرِ یُّالذِّمَّہ قرار دے د ے۔

2335 ۔ اگر کوئ ی شخص مقروض کو قرض خواہ س ے زبردست ی آزاد کرادے اور قرض خوا ہ ک ی پہ نچ مقروض تک ن ہ ہ وسک ے تو جس شخص ن ے مقروض کو آزاد کرا یا ہ و ضرور ی ہے ک ہ و ہ مقروض کو قرض خوا ہ ک ے حوال ے کر د ے یا اس کا قرض ادا کرے۔

امانت کے احکام

2336 ۔ اگر ا یک شخص کوئی مال کسی کو دے اور کہے ک ہ یہ تمہ ار ے پاس امانت ر ہے گا اور و ہ ب ھی قبول کرے یا کوئی لفظ کہے بغ یر مال کا مالک اس شخص کو سمجھ ا د ے ک ہ و ہ اس ے مال رک ھ وال ی کے لئ ے د ے ر ہ ا ہے اور و ہ ب ھی رکھ وال ی کے مقصد س ے ل ے ل ے تو ضرور ی ہے امانت دار ی کے ان احکام ک ے مطابق عمل کر ے جو بعد م یں بیان ہ وں گ ے۔

2337 ۔ ضرور ی ہے ک ہ امانت دار اور و ہ شخص جو مال بطور امانت د ے دونوں بالغ اور عاقل ہ وں اور کس ی نے ان ہیں مجبور نہ ک یا ہ و ل ہ ذا اگر کوئ ی شخص کسی مال کو دیوانے یا بچے ک ے پاس امانت ک ے طور پر رک ھے یا دیوانہ یا بچہ کوئ ی مال کسی کے پاس امانت ک ے طور پر رک ھے ت و صحیح نہیں ہے ہ ان سمج ھ دار بچ ہ کس ی دوسرے ک ے مال کو اس ک ی اجازت سے کس ی کے پاس امانت رک ھے تو جائز ہے۔ اس ی طرح ضروری ہے ک ہ ک ہ امانت رک ھ وان ے والا سف یہ اور دیوالیہ نہ ہ و ل یکن اگر دیوالیہ ہ و تا ہ م جو مال اس ن ے امانت ک ے طور پر رک ھ وا یا ہ و و ہ اس مال م یں سے ن ہ ہ و جس میں اسے تصرف کرنے س ے منع ک یا گیا ہے تو اس صورت م یں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ن یز اس صورت میں کہ جب مال ک ی حفاظت کرنے ک ے لئ ے امانت دار کو اپنا مال خرچ کرنا پ ڑے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ سف یہ اور دیوالیہ نہ ہ و ۔

2338 ۔ اگر کوئ ی شخص بچے س ے کوئ ی چیز اس کے مالک ک ی اجازت کے بغ یر بطور امانت قبول کرلے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ چ یز اس کے مالک کو د ے د ے اور اگر و ہ چ یز خود بچے کا مال ہ و تو لازم ہے ک ہ و ہ چ یز بچے ک ے سرپرست تک پ ہ نچا د ے اور اگر و ہ مال ان لوگوں ک ے پاس پ ہ نچان ے س ے پ ہ ل ے تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے مگر اس ڈ ر س ے ک ہ خدا نخو استہ تلف ہ وجائ ے اس مال کو اس ک ے مالک تک پ ہ نچان ے ک ی نیت سے ل یا ہ و تو اس صورت م یں اگر اس نے مال ک ی حفاظت کرنے اور اس ے مالک تک پ ہ نچان ے م یں کوتاہی نہ ک ی ہ و تو و ہ ضامن ن ہیں ہے اور اگر امانت ک ے طور پر م ال دینے والا دیوانہ ہ و تب ب ھی یہی حکم ہے۔

2339 ۔ جو شخص امانت کی حفاظت نہ کرسکتا ہ و اگر امانت رک ھ وان ے والا اس ک ی اس حالت سے باکبر ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ شخص امانت قبول ن ہ کر ے۔

2340 ۔ اگر انسان صاحب مال کو سمج ھ ائ ے ک ہ و ہ اس ک ے مال ک ی حفاظت کے لئ ے ت یار نہیں اور اس مال کو امانت کے طور پر قبول ن ہ کر ے اور صاحب مال پ ھ ر ب ھی مال چھ و ڑ کر چلا جائ ے اور و ہ مال تلف ہ و جائ ے تو جس شخص امانت قبول ن ہ ک ی ہ و و ہ ذم ے دارن ہیں ہے ل یکن احتیاط مستحب یہ ہے ک ہ اگر ممکن ہ و تو اس مال ک ی حفاظت کرے۔

2341 ۔ جو شخص کس ی کے پاس کوئ ی چیز بطور امانت رکھ وائ ے و ہ امانت کو جس وقت چا ہے منسوخ کرسکتا ہے اور اس ی طرح امین بھی جب چاہے اس ے منسوخ کرسکتا ہے۔

2342 ۔ اگر کوئ ی شخص امانت کی نگہ داشت ترک کرد ے اور امانت دار ی منسوخ کر دے تو ضرور ی ہے ک ہ جس قدر جلد ہ و سک ے مال اس ک ے مالک یا مالک کے وک یل یا سرپرست کو پہ نچا د ے یا انہیں اطلاع دے ک ہ و ہ مال ک ی (مزید) نگہ داشت ک ے لئ ے ت یار نہیں ہے اور اگر و ہ بغ یر عذر کے مال ان تک ن ہ پ ہ نچائ ے یا اطلاع نہ د ے اور مال تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

2343 ۔ جو شخص امانت قبول کر ے اگر اس ک ے پاس اس ے رک ھ ن ے ک ے لئ ے مناسب جگ ہ ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ے لئ ے مناسب جگ ہ حاصل کر ے اور امانت ک ی اس طرح نگہ داشت کر ے ک ہ یہ لوگ یہ نہ ک ہیں کہ اس ن ے نگ ہ داشت م یں کوتاہی کی ہے اور اگر و ہ اس کام م یں کوتاہی کرے اور امانت تلف ہ و جائے تو ضروری ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

2344 ۔ جو شخص امانت قبول کر ے اگر و ہ اس ک ی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ کر ے اورن ہ ہی تعدّی کرے اور اتفاقاً و ہ مال تلف ہ و جائ ے تو و ہ شخص ذم ہ دار ن ہیں ہے ل یکن اگر وہ اس مال ک ی حفاظت میں کوتاہی کرے اور مال کو ا یسی جگہ رک ھے ج ہ اں و ہ ا یسا غیر محفوظ ہ و ک ہ اگر کوئ ی ظالم خبر پائے تو ل ے جائ ے یا وہ اس مال م یں تَعَدِّی کرے یعنی مالک کی اجازت کے بغ یر اس مال میں تصرف کرے مثلاً لباس کو استعمال کر ے یا جانور پر سواری کرے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو ضرور یہے کہ اس کا عوض اس ک ے مالک کو د ے۔

2345 ۔ اگر مال کا مالک اپن ے مال ک ی نگہ داشت ک ے لئ ے کوئ ی جگہ مع ین کر دے اور جس شخص ن ے امانت قبول ک ی ہ و اس س ے ک ہہ ک ہ "تم ہیں چاہ ئ ے ک ہ یہیں مال کا خیال رکھ و اور اگر اس ک ے ضائع ہ و جان ے کا احتمال ہ و تب ب ھی تم اس کو کہیں اور نہ ل ے جانا ۔ تو امانت کرن ے والا اس ے کس ی اور جگہ ن ہیں لے جاسکتا اور اگر و ہ مال کو کس ی دوسری جگہ ل ے جائ ے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو ام ین ذمہ دار ہے۔

2346 ۔ اگر مال کا مالک اپن ے مال ک ی نگہ داشت ک ے لئ ے کوئ ی جگہ مع ین کرے ل یکن ظاہ راً و ہ یہ کہہ ر ہ ا ہ و ک ہ اس ک ی نظر میں وہ جگ ہ کوئ ی خصوصیت نہیں رکھ ت ی بلکہ و ہ جگ ہ مال ک ے لئ ے محفوظ جگ ہ وں م یں سے ا یک ہے تو و ہ شخص جس ن ے امانت قبول ک ی ہے اس مال کو کس ی ایسی جگہ جو ز یادہ محفوظ ہ و یا پہ ل ی جگہ جتن ی محفوظ ہ و ل ے جاسکتا ہے اور اگر مال و ہ اں تلف ہ و جائ ے تو و ہ ذم ے دار ن ہیں ہے۔

2347 ۔ اگر مال کا مالک مرجائ ے تو امانت کا معامل ہ باطل ہ وجاتا ہے۔ ل ہ ذا اگر اس مال م یں کسی دوسرے کا حق ن ہ ہ و تو و ہ مال اس ک ے وارث کو ملتا ہے اور ضرور ی ہے ک ہ امانت دار اس مال کو اس ک ے وارث تک پ ہ نچائ ے یا اسے اطلاع د ے۔ اور اگر و ہ شرع ی عذر کے بغ یر مال کو اس کے وار ث کے حوال ے ن ہ کر ے اور خبر د ینے میں بھی کوتاہی برتے اور مال ضائع ہ وجائ ے تو و ہ ذم ے دار ہے ل یکن اگر وہ مال اس وج ہ س ے وارث کو ن ہ د ے اور اس ے خبر د ینے میں بھی کوتاہی کرے ک ہ جاننا چا ہ تا ہ و ک ہ و ہ شخص جا ک ہ تا ہے ک ہ م یں میت کا وارث ہ وں واقعاً ٹھیک کہ تا ہے یا نہیں یا یہ جانتا چاہ تا ہ و ک ہ کوئ ی اور شخص میت کا وارث ہے یا نہیں اور اگر (اس تحقیق کے ب یچ) مال تلف ہ و جائ ے تو و ہ ذم ے دار ن ہیں ہے۔

2349 ۔ اگر مال کا مالک مر جائے اور مال ک ی ملکیت کا حق اس کے ورثاء کو مل جائ ے تو جس شخص ن ے امانت قبول ک ی ہ و ضرور ی ہے ک ہ مال تمام ورثاء کو د ے یا اس شخص کو دے جس ے مال د ینے پر سب ورثاء رضامند ہ وں ۔ ل ہ ذا اگر و ہ دوسر ے ورثاء ک ی اجازت کے بغ یر تمام مال فقط ایک وارث کو دے دے تو و ہ دوسروں ک ے حصوں کا ذم ے دار ہے۔

2350 ۔ جس شخص ن ے امانت قبول ک ی ہ و اگر و ہ مرجائ ے یا ہ م یشہ کے لئ ے د یوانہ یا بے حواس ہ و جائ ے تو امانت کا معامل ہ باطل ہ وجائ ے گا اور اس ک ے سرپرست یا وارث کو چاہ ئ ے ک ہ جس قدر جلد ہ و سک ے مال ک ے مالک کو اطلا ع د ے یا امانت اس تک پہ نچائ ے۔ ل یکن اگر کبھی کبھ ار ( یا تھ و ڑی مدت کے لئ ے )د یوانہ یا بے حواس ہ وتا ہ و تو اس صورت م یں امانت کا معاملہ باطل ہ ون ے م یں اشکال ہے۔

2351 ۔ اگر امانت دار اپن ے آپ م یں موت کی نشانیاں دیکھے تو اگر ممکن ہ و تو احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ امانت کو اس ک ے مالک، سرپر ست یا وکیل تک پہ نچاد ے یا اس کو اطلاع دے ، اور اگر یہ ممکن نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ا یسا بندوبست کرے ک ہ اس ے طم ینان ہ و جائ ے ک ہ اس ک ے مرن ے کے بعد مال اس کے مالک کو مل جائ ے گا مثلاً وص یت کرے اور اس وص یت پر گواہ مقرر کر ے اور مال ک ے مالک کا نام اور مال ک ی جنس اور خصوصیات اور محل وقوع وصی اور گواہ وں کو بتا د ے۔

2352 ۔ اگر امانت دار اپن ے آپ م یں موت کی نشانیاں دیکھے اور جو طریقہ اس سے پ ہ ل ے مسئل ے م یں بتایا گیا ہے اس ک ے مطابق عمل ن ہ کر ے تو و ہ اس امانت کا ضامن ہ وگا ل ہ ذا اگر امانت ضائع ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض دے۔ ل یکن اگر وہ جانبر ہ و جائ ے یا کچھ مدت گزرن ے ک ے بع د پشیمان ہ و جائ ے اور جو کچ ھ (سابق ہ مسئل ے م یں) بتایا گیاہے اس پر عمل کرے اور اظ ہ ر یہ ہے ک ہ و ہ ذم ے دار ن ہیں ہے۔

عاریہ کے احکام

2353 ۔ "عار یہ" سے مراد یہ ہے ک ہ انسان اپنا مال دوسر ے کو د ے تاک ہ و ہ اس مال س ے استفادہ کر ے اور اس ک ے عوض کوئ ی چیز اس سے ن ہ ل ے۔

2354 ۔ عار یہ میں صیغہ پڑھ نا لازم ن ہیں اور اگر مثال کے طور پر کوئ ی شخص کسی کو لباس عاریہ کے قصد س ے د ے اور و ہ ب ھی اسی قصد سے ل ے تو عار یہ صحیح ہے۔

2355 ۔ غصب ی چیز یا اس چیز کو بطور عاریہ دینا جو کہ عار یہ دینے والے کا مال ہ و ل یکن اس کی آمدنی اس نے کس ی دوسرے شخص ک ے سپرد کرد ی ہ و مثلاً اس ے کرائ ے پر د ے رک ھ ا ہ و، اس صورت م یں صحیح ہے جب غصب ی چیز کا مالک یا وہ شخص جس ن ے عار یہ دی جانے وال ی چیز کو بطور اجارہ ل ے رک ھ ا ہ و اس ک ے بطور عار یہ دینے پر راضی ہ و ۔

2356 ۔ جس چ یز کی منفعت کسی شخص کے سپرد ہ و مثلاً اس چ یز کو کرائے پر ل ے رک ھ ا ہ و تو اس ے بطور عار یہ دے سکتا ہے ل یکن احتیاط کی بنا پر مالک کی اجازت کے بغ یر اس شخص کے حوال ے ن ہیں کر سکتا جس نے اس ے بطور عار یہ لیا ہے۔

2357 ۔ اگر د یوانہ ، بچہ ، د یوالیہ اور سفیہ اپنا مال عاریتاً دیں تو صحیح نہیں ہے ل یکناگر (ان میں سے کس ی کا) سرپرست عاریہ دینے کی مصلحت سمجھ تا ہ و اور جس شخص کا و ہ سرپرست ہے اس کا مال عار یتاً دے د ے تو اس م یں کوئی اشکال نہیں اسی طرح جس شخص نے مال عر یتاً لیا ہ و اس تک مال پ ہ نچان ے ک ے لئ ے بچ ہ وس یلہ بنے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے۔

2358 ۔ عار یتاً ہ وئ ی چیز کی نگہ داشت م یں کوتاہی نہ کر ے اور اس س ے معمول س ے ز یادہ اِستِفادہ ب ھی نہ کر ے اور اتفاقاً و ہ چ یز تلف ہ و جائ ے تو و ہ شخص ذم ے دار ن ہیں ہے ل یکن اگر طرفین آپس میں یہ شرط کریں کہ اگر و ہ چ یز تلف ہ وجائ ے تو عار یتاً لینے والا ذمہ دار ہ وگا یا جو چیز عاریتاً لی وہ سونا یا چاندی ہ و تو اس ک ی عوض دینا ضروری ہے۔

2359 ۔ اگر کوئ ی شخص سونا یا چاندی عاریتاً لے اور یہ طے ک یا ہ و ک ہ اگر تلف ہ وگ یا تو ذمے دار ن ہیں ہ وگا پ ھ ر تلف ہ وجائ ے تو و ہ شخص ذم ے دار ن ہیں ہے۔

2360 ۔ اگر عار یہ پر دینے والا مرجائے تو عار یہ پر لینے والے ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ جو طر یقہ امانت کے مالک ک ے فوت ہ و جان ے ک ی صورت میں مسئلہ 2348 میں بتایا گیا ہے اس ی کے مطابق عمل کر ے۔

2361 ۔ اگر عار یہ دینے والے ک ی کیفیت یہ ہ و ک ہ و ہ شرعاً اپن ے مال م یں تصرف نہ کرسکتا ہ و مثلاً د یوانہ یا بے حواس ہ و جائ ے تو عار یہ لینے والے ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ اس ی طریقے کے مطابق عمل کر ے جو مسئل ہ 2347 میں امانت کے بار ے م یں اسی جیسی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

2362 ۔ جس شخص ن ے کوئ ی چیز عاریتاً دی ہ و و ہ جب ب ھی چاہے اس ے منسوخ کر سکتا ہے اور جس ن ے کوئ ی چیز عاریتاً لی ہ و و ہ ب ھی جب چاہے اس ے منسوخ کر سکتا ہے۔

2363 ۔ کس ی چیز کا عاریتاً دینا جس سے حلال استفاد ہ ن ہ ہ وسکتا ہ و مثلا ل ہ و و لعب اور قمار باز ی کے آلات اور ک ھ ان ے پ ینے کا استعمال کرنے ک ے لئ ے سون ے اور چاند ی کے برتن عار یتاً دینا۔ بلک ہ احت یاط لازم کی بنا پر ہ ر قسم ک ے استعمال ک ے لئ ے عاریتاً دینا باطل ہے اور تزئ ین و آرائش کے لئ ے عار یتاً دینا جائز ہے اگرچ ہ احت یاط نہ د ینے میں ہے۔

2364 ۔ ب ھیڑ (بکریوں) کو ان کے دود ھ اور اُون س ے استفاد ہ کرن ے ک ے لئ ے ن یز نر حیوان کو مادہ ح یوانات کے سات ھ ملاپ ک ے لئ ے عار یتاً دینا صحیح ہے۔

2365 ۔ اگر کس ی چیز کو عاریتاً لینے والا اسے اس ک ے مالک یا مالک کے وک یل یا سرپرست کو دے د ے اور اس ک ے بعد و ہ چ یز تلف ہ و جائ ے تو اس چ یز کو عاریتاً لینے والا ذمے دار ن ہیں ہے ل یکن اگر وہ مال ک ے مالک یا اس کے وک یل یا سرپرست کی اجازت کے بغ یر مال کو خواہ ا یسی جگہ ل ے جائے ج ہ اں مال ک ا مالک اسے عموماً ل ے جاتا ہ و مثلاً گ ھ و ڑے کو اس اصطبل م یں باندھ د ے جو اس ک ے مالک ن ے اس ک ے لئ ے ت یار کیا ہ و اور بعد م یں گھ و ڑ ا تلف ہ و جائ ے یا کوئی اسے تلف کر د ے تو عار یتاً لینے والا ذمے دار ہے۔

2366 ۔ اگر ا یک شخص کوئی نجس چیز عاریتاً دے تو اس صورت م یں اسے چا ہ ئ ے ک ہ ۔ ج یسا کہ مسئل ہ 2065 گزر چکا ہے۔ اس چ یز کے نجس ہ ون ے ک ے بار ے م یں عاریتاً لینے والے شخص کو بتا د ے۔

2367 ۔ جو چ یز کسی شخص نے عار یتاً لی ہ و اس ے اس ک ے مالک ک ی اجازت کے بغ یر کسی دوسرے کو کرائ ے پر یا عاریتاً نہیں دے سکتا ۔

2368 ۔ جو چ یز کسی شخص نے عار یتاً ہ و اگر و ہ اس ے مالک ک ی اجازت سے کس ی اور شخص کو عاریتاً دے د ے تو اگر جس شخص ن ے پ ہ ل ے و ہ چ یز عاریتاً لی ہ و مر جائ ے یا دیوانہ ہ و جائ ے تو دوسرا عار یہ باطل نہیں ہ وتا ۔

2369 ۔ اگر کوئ ی شخص جانتا ہ و ک ہ جو مال اس ن ے عار یتاً لیا ہے و ہ غصب ی ہے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ مال اس کے مالک کو پ ہ نچا د ے اور و ہ اس ے عار یتاً دینے والے کو ن ہیں دے سکتا ۔

2370 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسا مال عاریتاً لے جس ک ے متعلق جانتا ہ و ک ہ و ہ غصب ی ہے اور اس س ے فائد ہ ا ٹھ ائ ے اور اس ک ے ہ ات ھ س ے و ہ مال تلف ہ و جائ ے تو مالک اس مال کا عوض اور جو فائد ہ عار یتاً لینے والے ن ے ا ٹھ ا یا ہے اس کا عوض اس س ے یا جس نے مال غصب ک یا ہ و اس س ے طلب کر سکت ا ہے اور اگر مالک عار یتاً لینے والے س ے عوض ل ے ل ے تو عار یتاً لینے والا جو کچھ مالک کو د ے اس کا مطالب ہ عار یتاً دینے والے س ے ن ہیں کرسکتا۔

2371 ۔ اگر کس ی شخص کو یہ معلوم نہ ہ و ک ہ اس ن ے ج و مال عاریتاً لیا ہے و ہ غصب ی ہے اور اس ک ے پاس ہ وت ے ہ وئ ے و ہ مال تلف ہ و جائ ے تو اگر مال کا مالک اس کا عوض اس س ے ل ے ل ے تو و ہ ب ھی جو کچھ مال ک ے مالک کو د یا ہ و اس کا مطالب ہ عار یتاً دینے والے س ے کرسکتا ہے ل یکن اگر اس نے جو چ یز عاریتاً لی ہ و و ہ سونا یا چاندی ہ و یا بطور عاریہ دینے والے ن ے اس س ے شرط ک ی ہ و ک ہ اگر و ہ چ یز تلف ہ وجائ ے تو و ہ اس کا عوض د ے گا تو پ ھ ر اس ن ے مال کا جو عوض مال ک ے مالک کو د یا ہ و اس کا مطالب ہ عار یتاً دینے والے س ے ن ہیں کرسکتا۔