توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)14%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67421 / ڈاؤنلوڈ: 7190
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

چند فِقہی اصطلاحات

(جو اس کتاب میں استعمال ہ وئ ی ہیں)

احتیاط وہ طر یقہ عمل جس سے "عمل" ک ے مطابق واقع ہ ہ ون ے کا یقین حاصل ہ وجائ ے۔

احتیاط لازم احتیاط واجب۔ د یکھ ئ ے لفظ "لازم"۔

احتیاط مستحب فتوے ک ے علاو ہ احت یاط ہے ، اس لئ ے اسکا لحاظ ضرور ی نہیں ہ وتا ۔

احتیاط واجب وہ حکم جو احت یاط کے مطابق ہ و اور فق یہ ے اس ک ے سات ھ فتو ی نہ د یا ہ و ا یسے مسائل میں مقلد اس مجتہ د ک ی تقلید کر سکتا ہے جو اعلم م یں سب سے ب ڑھ کر ہ و ۔

احتیاط ترک نہیں کرنا چاہیے جس مسئلے م یں یہ اصطلاح آئے اگر اس م یں مجتہ د کا فتو ی مذکور نہ (احت یاط کا خیال رہے ) ہ و اس کا مطلب احت یاط واجب ہ وگا ۔ اور اگر مجت ہ د کا فتو ی بھی مذکور ہ و تو اس س ے احت یاط کی تاکید مقصود ہ وت ی ہے۔

اَحوَط احتیاط کے مطابق ۔

اشکال ہے اس عمل ک ی وجہ س ے شرع ی تکلیف ساقط نہ ہ وگ ی۔ اس ے انجام ن ہ د ینا چاہ ئ ے۔ اس مسئل ے م یں کسی دوسرے مجت ہ د ک ی طرف رجوع کیا جاسکتاہے بشرط یکہ اس کے سات ھ فتو ی نہ ہ و ۔

اظہ رز یادہ ظاہ ر ۔ مسئل ے س ے متعلق دلائل س ے ز یادہ نزدیک دلیلوں کہ سات ھ منطبق ہ ون ے ک ے لحاظ س ے ز یادہ واضح ۔ یہ مجتہ د کا فتو ی ہے۔

اِفضاءکھ لنا ۔ پ یشاب اور حیض کے مقام کا ا یک ہ و جانا یا حیض اور پاخانے ک ے مقام کا ا یک ہ و جانا یا تینوں مقامات کا ایک ہ وجانا ۔

اَقویٰ قَوی نظریہ۔

اَولٰی بہ تر ۔ ز یادہ مناسب

ایقاع وہ معامل ہ جو یکطرفہ طور پر واقع ہ وجاتا ہے اور اس ے قبول کرنے وال ے ک ی ضرورت نہیں ہ وت ی جیسے طلاق میں صرف طلاق دینا کافی ہ وتا ہے ، قبول کرن ے ک ی ضرورت نہیں ہ وت ی۔

بعید ہے فتو یٰ اس کے مطابق ن ہیں ہے۔

جاہ لِ مُقَصِّروہ ناواقف شخص جس ک ے لئ ے مسائل کا س یکھ نا ممکن رہ ا ہ و ل یکن اسنے کوتا ہی کی ہ و اور جان بوج ھ کر مسائل معلوم ن ہ کئ ے ہ وں ۔

حاکم شرع وہ مجت ہ د جامع الشرائط جس کا حکم، شرع ی قوانین کی بنیاد پر نافذ ہ و ۔

حَدَثِ اصغرہ ر و ہ چ یز جس کی وجہ س ے نماز ک ے لئ ے وضو کرنا پ ڑے۔ یہ سات چیزیں ہیں: ۱ ۔ پ یشاب ۲ ۔ پاخان ہ ۳ ریاح ۴ ۔ ن یند ۵ ۔ عقل کو زائل کرن ے وال ی چیزیں مثلاً دیوانگی، مستی یا بے ہ وش ی ۶ ۔ اِستِحاض ہ ۷ ۔ جن چ یزوں کی وجہ س ے غسل واجب ہ وتا ہے۔

حَدَث اکبروہ چ یز جس کی وجہ س ے نماز ک ے لئ ے غسل کرنا پ ڑے ج یسے احتلام، جماع

حَدّ تَرخّص مسافت کی وہ حد ج ہ اں س ے اذان ک ی آواز سنائی نہ د ے اور آباد ی کی دیواریں دکھ ائ ی نہ د یں۔

حرام ہ ر و ہ عمل، جس کا ترک کرنا شر یعت کی نگاہ وں م یں ضروری ہ و ۔

درہ م ۱۰ ۔ ۶ ۔ ۱۲ چنوں کے برابر سک ہ دار چاند ی تقریباً ۵۰ ء ۲۱ گرام

ذِمّی کافریہ ود ی، عیسائی اور مجوسی جو اسلامی مملکت میں رہ ت ے ہ وں اور اسلام ک ے اجتماع ی قوانین کی پابندی کا وعدہ کرن ے ک ی وجہ س ے اس لامی حکومت ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرے۔

رَجَاءِ مَطُلوبَیّت کسی عمل کو مطلوب پرودگار ہ ون ے ک ی امید میں انجام دینا۔

رجوع کرنا پلٹ نا ۔ اس کا استعمال دو مقامات پر ہ وا ہے :

( ۱) ۔۔۔ اعلم جس مسئل ے م یں احتیاط واجب کا حکم دے اس مسئل ے م یں کسی دوسرے مجت ہ د ک ی تقلید کرنا۔

( ۲) ۔۔۔ ب یوی کو طلاق رجعی دینے کے بعد عدت ک ے دوران ا یسا کوئی عمل انجام دینا یا ایسی کوئی بات کہ نا جس س ے اس بات کا پتا چل ے ک ہ اس ے دوبار ہ ب یوی لینا ہے۔

شاخص ظہ ر کا وقت معلوم کرن ے ک ے لئ ے زم ین میں گاڑی جانے وال ی لکڑی

شارع خداوند عالم، رسول اکرم صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم

طلاق بائن وہ طلاق جس ک ے بعد مرد کو رجوع کرن ے حق ن ہیں ہ وتا ۔ تفص یلات طلاق کے باب م یں دیکھ ئ ے۔

طلاق خلع اس عورت کی طلاق جو شوہ ر کرنا پسند کرت ی ہ و اور طلاق ل ینے کے لئ ے شو ہ ر کو اپنا م ہ ر یا کوئی مال بخش دے۔ تفص یلات طلاق کے باب م یں دیکھ ئ ے۔

طلاق رجعی وہ طلاق جس م یں مرد عدت کے دوران عورت ک ی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ اس ک ے احکام طلاق ک ے باب م یں بیان ہ وئ ے ہیں۔

طواف نساء حج اور عمرہ مفرد ہ کا آخر ی طواف جسے انجام ن ہ د ینے سے حج یا عمرہ مفرد ہ کرن ے وال ے پر ہ م بستر ی حرام رہ ت ی ہے۔

ظاہ ر یہ ہے فتو ی یہ ہے (سوائ ے اس ک ے ک ہ عبارت م یں اس کے برخلاف کوئ ی قرینہ موجود ہ و) ۔

ظُہ ر شرعی ظہ ر شرع ی کا مطلب آدھ ا دن گزرنا ہے۔ مثلاً اگر دن بار ہ گ ھ ن ٹے کا ہ و تو طلوع آفتاب ک ے چ ھ گ ھ ن ٹے گزرن ے ک ے بعد اور اگر ت یرہ گھ ن ٹے کا ہ و توسا ڑھے چ ھ گ ھ ن ٹے گزرن ے ک ے بعد اور اگر گ یارہ گھ ن ٹے کا ہ و تو ساڑھے پانچ گ ھ ن ٹے گزرن ے ک ے بعد ظ ہ ر شرع ی کا وقت ہے۔ اور ظ ہر شرعی کا وقت جو کہ طلوع آفتاب ک ے بعد آد ھ ا دن گزرن ے س ے غروب آفتاب تک ہے بعض مواقع پر بار ہ بج ے س ے چند من ٹ پ ہ ل ے اور کب ھی بارہ بج ے س ے چند من ٹ بعد ہ وتا ہے۔

عدالت وہ معنو ی کیفیت جو تقوی کی وجہ س ے انسان م یں پیدا ہ وت ی ہے اور جس ک ی

وجہ سے و ہ واجبات کو انجام د یتا ہے اور محرمات کو ترک کرتا ہے

عقدمعاہ د ہ ، نکاح

فتوی شرعی مسائل میں مجتہ د کا نظر یہ۔

قرآن کے واجب سجد ے قرآن م یں پندرہ آ یتیں ایسی ہیں جن کے پ ڑھ ن ے یا سننے ک ے بعد خداوند عالم ک ی عظمت کے سامن ے سجد ہ کرنا چا ہ ئ ے ، ان م یں سے چار مقامات پرسجد ہ واجب اور گ یارہ مقامات پر مستحب (مندوب) ہے۔ آ یات سجدہ مندرج ہ ذ یل ہیں :

قرآن کے مستجب سجد ے ۱ ۔ پار ہ ۹ ۔۔۔ سور ہ اعراف ۔۔۔ آخر ی آیت

۲ ۔ پار ہ ۱۳ ۔۔۔ سور ہ رعد ۔۔۔ آ یت ۱۵

۳ ۔ پار ہ ۱۴ ۔۔۔ سور ہ نحل ۔۔۔ آ یت ۴۹

۴ ۔ پار ہ ۱۵ ۔۔۔ سور ہ بن ی اسرائیل۔۔۔ آ یت ۱۰۷

۵ ۔ پار ہ ۱۶ ۔۔۔ سور ہ مر یم ۔۔۔ آ یت ۵۸

۶ ۔ پار ہ ۱۷ ۔۔۔ سور ہ حج ۔۔۔ آ یت ۱۸

۷ ۔ پار ہ ۱۷ ۔۔۔ سور ہ حج ۔۔۔ آ یت ۷۷

۸ ۔ پار ہ ۱۹ ۔۔۔ سور ہ فرقان ۔۔۔ آ یت ۶۰

۹ ۔ پار ہ ۱۹ ۔۔۔ سور ہ نمل ۔۔۔ آ یت ۲۵

۱۰ ۔ پار ہ ۲۳ ۔۔۔ سور ہ صٓ ۔۔۔ آ یت ۲۴

۱۱ ۔ پارہ ۳۰ ۔۔۔ سور ہ انشقاق ۔۔۔ آ یت ۲۱

قرآن کے واجب سجد ے ۱ ۔ پار ہ ۲۱ ۔۔۔ سور ہ سجد ہ ۔۔۔ آ یت ۱۵

۲ ۔ پار ہ ۲۴ ۔۔۔ سور ہ الٓمّ تنز یل۔۔۔ آ یت ۳۷

۳ ۔ پار ہ ۲۷ ۔۔۔ سور ہ والنجم ۔۔۔ آخر ی آیت

۴ ۔ پار ہ ۳۰ ۔۔۔ سور ہ علق ۔۔۔۔ آخر ی آیت

قصد انشاءخرید و فروخت کے مانند کس ی اعتباری چیز کو اس سے مربوط الفاظ ک ے ذر یعے عالم وجود میں لانے کا اراد ہ۔

قصد قرُبت (قربت کی نیت)مرضی پروردگار سے قر یب ہ ون ے کا اراد ہ۔

قوت سے خال ی نہیں ہے فتو ی یہ ہے (سوائ ے اس ک ے ک ہ عبارت م یں اس کے برخلاف کوئ ی قرینہ موجود ہ و)

کفارہ جمع (مجموعاً کفارہ )ت ینوں کفارے ( ۱) ساٹھ روز ے رک ھ نا ( ۲) ساٹھ فق یروں کو پیٹ بھ ر ک ھ انا ک ھ لانا ( ۳) غلام آزاد کرنا۔

لازم واجب، اگر مجتہد کسی امر کے واجب و لازم ہونے کا استفادہ آیات اور روایات سے اس طرح کرے کہ اس کا شارع کی طرف منسوب کرنا ممکن ہو تو اس کی تعبیر لفظ "واجب" کے ذریعے کی جاتی ہے اور اگر اس واجب و لازم ہونے کو کسی اور ذریعے مثلاً عقلی دلائل سے سمجھا ہو اس طرح کہ اس کا شارع کی طرف منسوب کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی تعبیر لفظ "لازم" سے کی جاتی ہے۔ احتیاط واجب اور احتیاط لازم میں بھی اسی فرق کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ بہر حال مُقلد کے لئے مقام عمل میں "واجب" اور "لازم" کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

مباح وہ عمل جو شر یعت کی نگاہ وں م یں نہ قابل ستائش ہ و اور ن ہ قابل مذمت ( یہ لفظ واجب، حرام، مستحب اور مکروہ ک ے مقابل ے م یں ہے )

نجس ہ ر و ہ چ یز جو ذاتی طور پر پاک ہ و ل یکن کسی نجس چیز سے بالواسط ہ یا براہ راست مل جان ے ک ی وجہ س ے نجس ہ وگئ ی ہ و ۔

مجَہ ولُ المَالکوہ مال جس کا مالک معلوم ن ہ ہ و ۔

مَحرَم وہ قر یبی رشتے دار جن س ے کب ھی نکاح نہیں کیا جاسکتا۔

مُحرِم جو شخص حج یا عمرے ک ے احرام م یں ہ و ۔

محل اشکال ہے اس م یں اشکال ہے ، اس عمل کا صح یح اور مکمل ہ ونا مشکل ہے ( مقلد اس مسئلے م یں کسی دوسرے مج ہ تد ک ی طرف رجوع کرسکتا ہے بشرط یکہ اس کے سات ھ فتو ی نہ ہ و ۔ )

مُسَلَّمات دین وہ ضرور ی اور قطعی امور جو دین اسلام کا جزو لاینفک ہیں اور جنہیں سارے مسلمان د ین کا لازمی جرو مانتے ہیں جیسے نماز، روزے ک ی فرضیت اور ان کا وجوب۔ ان امور کو "ضروریات دین" اور "قطعیات دین" بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ وہ امور ہیں جن کا تسلیم کرنا دائرہ اسلام کے اندر رہنے کیلئے از بس ضروری ہے۔

مستحب پسندید۔ جو چیز شارع مقدس کو پسند ہو لیکن اسے واجب قرار نہ دے۔ ہر وہ حکم جس کو کرنے میں ثواب ہو لیکن ترک کرنے میں گناہ نہ ہو۔

مکروہ ناپسندیدہ، وہ کام جس کا انجام دینا حرام نہ ہو لیکن انجام نہ دینا بہتر ہو۔

نصاب معینہ مقدار یا معینہ حد۔

واجب ہروہ عمل جس کا انجام دینا شریعت کی نگاہوں میں فرض ہو۔

واجب تَخیِیری جب وجوب دو چیزوں میں کس ی ایک سے متعلق ہو تو ان میں سے ہر ایک کو واجب تخییری کہتے ہیں جیسے روزے کے کفارہ میں، تین چیزوں کے درمیان اختیار ہوتا ہے۔ ۱ ۔ غلام آزاد کرنا ۲ ۔ ساٹھ روزے رکھنا ۳ ۔ ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا۔

واجب عینی وہ واجب جو ہر شخص پر خود واجب ہو جیسے نماز روزہ۔

واجب کفائی ایسا واجب جسے اگر کچھ لوگ انجام دے دیں تو باقی لوگوں سے ساقط ہو جائے جسیے غسل میت سب پر واجب ہے لیکن اگر کچھ لوگ اسے انجام دے دیں تو باقی لوگوں سے ساقط ہوجائے گا۔

وقف اصل مال کو ذاتی ملکیت سے نکال کر اس کی منفعت کو مخصوص افراد یا امور خیریہ کے ساتھ مخصوص کر دینا۔

ولی سرپرست مثلاً باپ، دادا، شوہر یا حاکم شرع۔

شرعی اوزان اور اعشاری اوزان

۵ نخود (چنے ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ا یک گرام

۱۰ ۔ ۶ ۔ ۱۲ نخود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقر یباً ۵۰ ء ۳ گرام

۱۸ نخود (یا ایک مثقال شرعی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تق ریباً ۵۰ ء ۳ گرام

۱ دینار(یا ایک مثقال شرعی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقر یباً ۵۰ ء ۳ گرام

ایک مثقال صیرفی ( ۲۴ نخود)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقر یباً ۵۰ گرام

ایک مد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقر یباً ۷۵۰ گرام

ایک صاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقر یباً ۳ کلو گرام

ایک کر (پانی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقر یباً ۳۷۷ کلو گرام


فصل سوم :گروہ مفوضہ کا نظریہ

اشاعرہ کے مقابلے میں متکلمیں میں سے ایک گروہ معتزلہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ علل معدّہ اپنی علیّت میں مستقل ہیں اور علة العلل پر محتاج نہیں ہیں ۔ خدا نے اس کائنات کو خلق فرمایا اور فارغ ہوگیا ۔ اب یہ کائنات مستقل طور پر حرکت کر رہی ہے کسی محرک کی ضرورت نہیں ۔ جیسے آگ کالکڑی کو جلانے میں ، ہوا کا چلنے میںاور انسان اپنے اختیاری کاموں میں مستقل ہیں ۔ ارادۂ انسان کے علاوہ کوئی اور طاقت یا قدرت درکار نہیں کہ یہ جس کام کو چاہے انجام دیتا ہے اور جسے چاہے ترک کرتا ہے۔

دلیل مفوضہ

جب انہوں نے جبریہ کے اقوال کے مفاسد کو دیکھا تویہ گمان کرنے لگے کہ بندہ اپنے کاموں میں مستقل اور آزاد ہے ۔

جس طرح یہودیوں نے کہا: ید اللہ مغلولة کہ ان کا عقیدہ کہ خدا نے اس کائنات کو ایک ہفتے میں خلق کیا اور ہفتہ کے دن تعطیل کیا! اور خدا بالکل لا تعلق ہوا ۔ جس طرح گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد لا تعلق ہوتا ہے ۔ پھر بھی گھڑی کی سوئیاں چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح یہ کائنات بھی خود بخود چلتی رہتی ہے ۔

یہ خلاف عقل ہے کیونکہ ہر ایک کیساتھ یہ اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ بہت سے کاموں کو سارے انسان تمام تر کوششوں کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور تمام علل و اسباب بھی اسے فرہم ہوتا ہے لیکن کبھی کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا :عرفت اللہ بفسح العزائم الھمم۔ یعنی میں نے لوگوں کے عزم وارادہ کے خلاف نتیجہ نکلنے سے خدا کو پہچانا۔کیونکہ کبھی لوگ ثروت مند اور دولت مند ہونے کے خاطر بہت محنت کرتے ہیں لیکن اسے تنگدستی اور فقر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اور کبھی اس کے برعکس بھی نتیچہ نکلتا ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ خدا کی حیثیت گھڑی ساز کی ہے ،یہ سلطنت مطلقہ کی توہین ہے۔

ثانیا آیات اور روایات بھی اس بات کے خلاف ہیں ۔ مذکورہ مثال کی طرف توجہ کریں کہ :ایاک نعبد و لا حول ولا قوة الا بالله اور بحول لله و قوته اقوم و اقعد ۔ ۔۔ ۔ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا کی مخلوقات ہمیشہ اور ہر ہر سکینڈ کیلئے خدا کی ذات پر محتاج ہیں-(۱)

خدا نے امور دین کو پیامبراکرم(ص) کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ اور انہوں نے ائمہ اور اولیاء کو تفویض کیا ہے۔ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے سو رۂ نجم میں پیغمبر(ص)کے بارے میں فرمایا :( و ما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) -(۲) -۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے۔اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

یہ آیت صریح کیساتھ کہہ رہی ہے کہ پیامبر(ص) جو کچھ بھی بولے وہ خدا کی وحی کے مطابق ہوگا۔ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام (ص)جاتے ہوئے مجھے علم اور معفرت کے ہزار دروازے عطا کئے اور میں نے بھی ان ہزار دروازوں سے ہزار دروازے اور کھول دئے ۔امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں جو علوم اور معارف علی(ع)کو عطا ہوئے ہیں ، ارث میں ملا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اخبار تفویض کسی بھی صورت میں ادعای مفوضہ کے ساتھ مربوط نہیں ۔ کیونکہ مفوضہ کا ادعی یہ ہے کہ انسان کو تکوینیات میں اپنا نائب قرار دیا ہے ۔ لیکن ان روایا ت میں جو اختیار دیا گیا ہے وہ عالم تشریع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ) -(۳) - ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔

کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اور ائمہ(ع) کی اطاعت واجب ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا نے اپنے امور کو رسول اکرم(ص) اور اولی الامر کو تفویض کیا ہے ۔ یہاں ہم یہ جواب دینگے کہ اس تفویض کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کسی کو ایک ملک کا حاکم بنا دے اور تمام امور سلطنت کو اس کے ہاتھوں میں سونپا ہو اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ فلانی کی اطاعت کرو ۔ جو بھی اس حاکم کی نافرمانی کرے تو فلان سزا دونگا ۔ کیونکہ اس کا حکم میرا حکم ہے۔ –(۴) -

____________________

۱ ۔ بہشتی نژاد ، پرسش وپاسخ اعتقادی،ج ١ ،ص٩٧.

۲ ۔ نجم ۳،۴۔

۳ ۔ نساء ۵۹۔

۴ ۔ معاد و عدل ،ص٥٩۔

انسان کے مختار ہونے پر دلائل قرآنی

ارسال رسل وانزال کتب

اگر انسان مختار نہ ہو تو اصولاً پیامبروں کا آنا اور کتب آسمانی کا نازل ہونا بیہودہ ہوگا ۔ اور خدا وند بیہودہ کام نہیں کرتا ۔ پس ارسال رسل اور انزال کتب اس بات کی دلیل ہے کہ خدا وند اور انبیاء انسان کو مختار جانتے ہیں ۔

امتحان

اگر قرآن پر ایمان رکھنے والا ہو تو ماننا پڑے گا کہ امتحان کو ایک سنت الہی قرار دیا گیاہے ۔ جیسا کہ متعدد آیتوں میں ذکر کیا ہے :

١ ۔( إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ) -(۱) - یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے۔

٢۔( إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) -(۲) - بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ۔

۳ ۔( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ )(۳) -اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموالًنفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں ۔

پس امتحان ایسے افراد سے لیا جائے گا جو مجبور نہ ہو بلکہ آزاد ہو ۔ اور ہدف امتحان بھی معلوم ہے کہ انسان کو بلند وبالا مقام تک پہنچانا مقصود ہے ۔ لیکن اگر ہر ایک کو زیرو دینا مقصود تھا یا ہر ایک کو سو کے سو نمبر دینا ہوتا تو امتحان بے معنی ہوجائے گا ۔

وعدہ و وعید

یہ وہ صفات ہیں جنہیں خدا نے نبیوں کو عنایت کی ہے ، فرمایا( : كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )(۴) - (فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔ اگر انسان مختار نہ ہو تو کسی فعل پر بشارت دینا اور کسی فعل سے بھی ڈرانا اور اسی طرح درمیان میں اختلاف پیدا کرنا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنا بے معنی ہوجائے گا ۔

____________________

۱ ۔ دھر ٢۔

۲ ۔ کہف٧۔

۳ ۔ بقرہ ۱۵۵۔

۴ ۔ بقرہ ٢١٣۔

میثاق و معاہدہ

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) -(۱) - اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کِھلا ہوا دشمن ہے ۔اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے

خدا نے بنی نوع انسان کے ساتھ عہد لیا ہے کہ شیطان کی اطاعت نہ کرنا ۔ کیونکہ وہ تمھارا دشمن ہے۔ پس اگر انسان صاحب اختیار نہیں تھا تو اس کے ساتھ خدا کا معاہدہ کرنا بالکل بے معنی ہوجائے گا ۔

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً ) -(۲) -۔ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا )(۳) - اوراس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیائ علیھ السّلامسے اور بالخصوص آپ سے اور نوح ابراہیم(ع)موسیٰ(ع) اور عیسٰی ابن مریم(ع)سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ۔

یہ دو آیتیں میثاق خاص کی نشاندہی کرتی ہیں جو خدا نے بنی اسرائیل اور بعض انبیاء سے لیا ہے۔

اختیا ر انسان فطری ہے۔ انسان کا مختار ہونا علم حضور ی کے ذریعے سے بھی واضح ہے کہ زندگی میں بار بار اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ انسا ن دو کاموں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں متردد ہوتا ہے۔ لیکن آخر میں کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنی رضامندی سے ایک کام کو اختیار کر لیتا ہے یہی تردید دلیل ہے انسان کے مختار ہونے پر؛

این کہ گوئی این کنم یا آن کنم

خود دلیل اختیار است اے صنم

اس مطلب کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے : إ( ِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) -(۴) - یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ) -(۵) -۔ اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے۔

کافروں کو دعوت ایمان دینا اختیار کی علامت

خدا کا عدم وقوع فعل پر علم ہونا اس فعل کے محقق ہونے میں مانع بن جائے تو خدا کا کافروں کو دعوت ایمان دینا اپنے علم کو محو اور جٹھلانے کے مترادف ہے۔ اور چونکہ علم خدا کا اپنے بندوں کے ذریعے نابود ہونا محال ہے ۔اس پر حکم دینا عبث اور بیہودہ ہے اور خدا وند حکیم سے ایسا فعل سرزد ہونا ناممکن ہے۔

جواب فخر رازی

اگر فقط کافروں کو ایمان کی دعوت دینا علم خدا کی تکذیب اور جھل میں تبدیل ہونے کا باعث ہو تو یہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں اور ایسے امور کو ہم نا ممکنات میں شمار کرتے ہیں۔کیونکہ افعال انسان ذاتاً ممکن ہے۔ افعال انسان کے واجب یا ممتنع ہونے میں علم خدا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

____________________

۱ ۔ یس ٦٠۔۔۔٦۱۔

۲ ۔ بقرہ ٨٣ ۔

۳ ۔ احزاب ٧۔

۴ ۔ الانسان۳۔

۵ ۔ الکہف ۲۹۔

چوتھی فصل :جبر و اختیار کے متعلق صحیح نظریہ

گذشتہ بحثوں سے ہم پر واضح ہوا کہ نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں باطل عقیدہ تھا ۔ اس فصل میں نظریۂ معصومین(ع) جو صحیح نظریہ ہے مورد بحث قرار دینگے۔ چنانچہ یہ کائنات نظام علت و معلول پر قائم ہے ۔ بحث کی ابتداء بھی علیت سے کرتے ہیں ۔ پہلے گذر گیا کہ علت دو قسم کے ہیں :

١۔علت تامہ یا علت العلل ،جو خدا تعالی کی ذات سے مخصوص ہے۔

٢۔علت معدّہ یا علت ناقصہ ۔ جو خدا کے سوا تمام موجودات عالم پر صدق آتا ہے۔ علت معدہ ممکن ہے اپنے معلول سے نزدیک ہو یا بعید ۔ مثال کے طور پر ہم اگر ایک خط لکھنے لگے تو کئی علل اور اسباب بروی کار لاتے ہیں ۔ قلم ، ہاتھ ، فکر ، ارادۂ روح ، یہ ساری علتیں ایک دوسرے کے طول میں ہیں ۔ یعنی قلم کو ہاتھ حرکت دیتا ہے ہاتھ کو فکر اور فکر کو ارادہ اور ارادہ کو روح حکم کرتی ہے۔ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قلم نے خط کو لکھا ہاتھ نے لکھا فکر نے یا ارادہ نے لکھا۔ ۔ ۔ اوریہ سلسلہ ایک مستقل وجودپر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہ وجود مستقل ذات باری تعالی ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اس خط کو خدا نے لکھا ہے کیونکہ خدا کے ارادے کے بغیر ہمارا کوئی وجود نہیں ، جسے ایک نورانی جملے میں یوں بیان کیا ہے: بحول اللہ وقوتہ اقوم و اقعد۔

الامر بین الامرین قرآن کی نگاہ میں

قرآن مجید میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں جو الامر بین الامرین پر دلالت کرتی ہیں ۔ یعنی ایک انسانی فعل کو بغیر کسی تزاحم کے خدا کی طرف بھی نسبت دے سکتا ہے ۔

١ ۔ کبھی خدا وند ایک فعل کو آن واحد میں بندہ کی طرف نسبت دیتا ہے اور پھر اسی نسبت کو انسان سے سلب کرکے اپنی طرف دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) -(۱) - پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں تاکہ صاحبان ایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے۔

عارف رومی نے یوں اپنے شعر میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :

نیز اندر غالبی ہم خویش را

دید او مغلوب دام کبریا

مارمیت اذ رمیت آمد خطاب

گم شد او اللہ اعلم بالصواب

یعنی ایسا ممکن نہیں کہ صرف خدا کی طرف نسبت دے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ صرف بندہ کی طرف نسبت دے۔

٢۔ ایک دوسری آیت میں فعل کو بندے کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن تیسری آیت میں خدا وند اپنی طرف۔ اور یہ نسبت دینا صرف اسی وقت صحیح ہوتا ہے کہ دو نسبتوں کے قائل ہوجائے ۔ چنانچہ فرمایا :

( ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ) -(۲) - پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

( فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمُ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) ۔ پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہوگے علاوہ چند افراد کے لہذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یہ آخری دو آیتیں بنی اسرائیل کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں ۔ اگر قسوہ کے عارض ہونے میں کافروںکا کوئی ہاتھ نہ تھا تو ان کی مذمت کرنا صحیح نہیں تھا ۔ دوسری آیت میں ان کی مذمت کرنے کا اصل سبب کو بیان کیا ہے۔ کہ یہ لوگ وعدہ خلافی کرنے والے تھے۔ اس وعدہ خلافی کی وجہ سے خدا نے ان کے دلوں کو قاسیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے انبیاء الہی کے انذار وتبشیر اور وعظ ونصیحت بھی ان پر مؤثر ثابت نہیں ہوسکی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کے فعل کیلئے دو نسبتیں موجود ہیں۔

کیا قرآن کی آیات کے درمیان تناقض موجود ہے؟

٣۔ جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں بہت ساری آیتیں ذکر ہوئیں کہ ان میں سے کچھ اختیار انسان پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور کچھ آیات صراحت کیساتھ اس کائنات کامؤثر صرف اور صرف مشیت الہی کو سمجھتی ہیں ۔لا مؤثر فی الوجود الا الله ۔

ایک دستہ آیت جبر کی نفی کرتی ہے ، دوسرا دستہ تفویض کی نفی کرتی ہے۔ اب ان دونوں میں جمع کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن میں تناقض گوئی نہیں ہونی چاہئے ۔ اور جب تک الامر بین الامرین کے قائل نہ ہوجائے،اس ظاہری تناقض کوئی سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ کہ بندہ اپنے اختیار سے کسی فعل کو انجام دے یا ترک کردے۔ درعین حال خدا کی اجازت اور رضایت بھی ضروری ہے ۔لایقع فی سلطانه ما لا یرید ۔ یعنی خدا کی سلطنت میں اس چیز کا کوئی فائدہ نہیں جس میں اس کا ارادہ شامل نہ ہو۔

____________________

۱ انفال ١٧۔

۲ ۔ بقرہ٧٤۔

ارادہ خدا بھی ارادہ انسان کے ذریعے ۔

آیتوں کا پہلا دستہ جو اختیار انسان پر دلالت کرتاہے :

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ )(۱) -جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو اِرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

( لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ )(۲) - آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کو سناُ تھا تو مومنین و مومنات اپنے بارے میں خیر کا گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو کھلا ہوا بہتان ہے۔

( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ) (۳) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی ان ہی سے ملادیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے۔

( وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ) -(۴) - ۔ اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاء كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءتْ مُرْتَفَقًا ) -(۵) - اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے ہم نے یقینا کافرین کے لئے اس آگ کا انتظام کردیا ہے جس کے پردے چاروں طرف سے گھیرے ہوں گے اور وہ فریاد بھی کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو چہروں کو بھون ڈالے گا یہ بدترین مشروب ہے اور جہنم ّبدترین ٹھکانا ہے۔

( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ )(۶) - ۔ اس کے لئے سامنے اور پیچھے سے محافظ طاقتیں ہیں جو حکم هخدا سے اس کی حفاظت کرتی ہیں اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی کسی کا والی و سرپرست ہے۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا )(۷) - یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

( إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ ) -(۸) - اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے۔

____________________

۱ ۔ فصلت ٤٦

۲ ۔ نور١٢

۳ ۔ طور٢١ ۔

۴ ۔ نجم٣٩۔

۵ ۔ کہف ۔۲۹

۶ ۔ رعد ۱۱۔

۷ ۔ انسان۳۔

۸ ۔ رعد١١۔


دوسرا دستہ آیاتوں کا جو فقط ارادہ الہی کر مؤثر جانتا ہے :

( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) -(۱) - اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے۔

( وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ )(۲) -۔ اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے ۔

( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا )(۳) - اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

ان دو دستہ آیتوں کو اگر جمع کرے تو قول الامر بین الامرین محقق پائے گا ۔ اور ثابت ہوجائے گا کہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ۔

جمع کیسے کیا جائے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر مفسرین اور متکلمین کی نگاہ میں آیات قرآنی کے درمیان ظاہری تعارض ہے نہ حقیقی ۔ دوسری بات یہ کہ خود تعارض دو طرح کے ہیں:

الف: ایک بات دوسری بات کی صراحتا نفی کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص) ماہ سفر میں رحلت پاگئے ۔ دوسرا کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص)کی ماہ صفر میں رحلت نہیںہوئی ۔ یہاں پر دوسرا جملہ پہلا جملہ کی صراحتا نفی نہیں کرتا ۔ لیکن دوسرے جملے کی تصدیق اور سچائی اگر ثابت ہوجائے تو پہلے جملے کی مفاد کاملا باطل اور جھوٹ ثابت ہوتی ہے ۔ مثال وہی لیں : اگر ایک نے کہا پیامبر اسلام (ص) ماہ صفر میں رحلت کرگئے ۔ دوسرا کہے ماہ ربیع الاول میں رحلت کرگئے ہیں۔ اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کی رحلت ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے خود بخود پہلا قول باطل ہوجاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو اختیار انسان اور قضای الہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، کس نوع کا تعارض ہے ؟ کیا یہ آیتیں صراحتا ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں یا نہ؟ بلکہ ایک دستہ آیات کی سچائی اور مفاد کو قبول کرے تو دوسرے دستے کی نفی ہوتی ہے ؟

جواب: قرآنی آیتیں ایک دوسرے کہ مسلما اور صراتا نفی نہیں کرتی ۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ ایک دستہ آیات کہے کہ ساری چیزین مقدر ہوچکی ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی بھی چیز مقدر نہیں ہوتی ہیں ۔ ایک دستہ کہے کہ ساری چیزیں علم خدا میں موجود ہیں دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی خدا کے علم میں نہیں ۔ ایک دستہ آیت کہے کہ ساری چیزیں مشیت الہی سے مربوط ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی مشیت الہی سے مربوط نہیں ہیں ۔

بلکہ ان دو دستوں کا متعارض خیال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض متکلمین اور مفسرین جو کہتے ہیں کہ ساری چیزیں تقدیر الہی کے تابع ہیں جس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان آزاد نہیں؛ آزادی اور مقدر ہونا ایک دوسرے سے سازگار نہیں ۔ اگر ساری چیزیں خدا کے علم میں ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ جبرا ًوہ فعل انجام پائے و گرنہ علم خدا جہل میں تبدیل ہوجائے گا ۔

لیکن دوسری طرف سے اگر دیکھ لیں کہ یہ کہنا کہ انسان اپنی خوش بختی اور بدبختی میں خود ایک مؤثر عامل ہے ۔ اپنی تقدیر کو اپنے ہی اختیار سے بنا اور بگاڑ سکتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے پہلے تقدیر نامی کوئی چیز نہیں تھی ۔پس ان دو دستوں میں سے ایک دستہ آیات کی تأویل ہونا ضروری ہے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بہت ساری کتابیں تأویل اور توجیہ سے پر ہیں ، کہ گروہ معتزلہ نے آیات تقدیر کی تأویل کی ہے اور اشاعرہ نے آیات اختیار کی ۔

لیکن تیسرا گروہ جو ان تعارض ظاہری کو حل کرے اور ثابت کرے کی قضا و قدر الہی اور اختیار و آزادی کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی ۔

پس یہ تعارض بعض مفسرین اور متکلمین کی کج فہمی اور کم فکری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ وگرنہ اصولا ممکن نہیں کہ کتاب مبین الہی میں تعارض اور اختلاف موجود ہو کہ تأویل کرنے کی نوبت آجائے۔ –(۴) -

____________________

۱ .۔ تکویر ٢٩۔

۲ ۔ مدثر ۵۶۔

۳ .۔ ا نسان،۳۰.

۴ ۔ شہید مطہری ؛ انسان و سرنوشت ،ص ٤٢۔

الامر بین الامرین روایات کی روشنی میں

اس سلسلے میں بہت سی روایات ہمارے ائمہ معصومین(ع)سے نقل ہوئی ہیں نچانچہ بعض کتابوں مثلا بحار الانوار ، تحف العقول ، توحید صدوق، ۔ ۔ ۔ میں امام ہادی(ع) سے اس خط کو نقل کیا ہے جس میں جبر اور تفویض کے باطل ہونے کو ثابت کرچکے ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

فاما الجبر الذی یلزم من دان به الخطاء فهو قول من زعم ان الله تعالی اجبرالعباد علی المعاصی وعاقبهم علیها و من قال بهذا القول فقد ظلم الله فی حکمه و کذبه وردّ علیه قوله : ولا یظلم ربک احداً(۱) - اور جب نامئہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔

( ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ) -(۲) - یہ اس بات کی سزا ہے جو تم پہلے کرچکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔

( إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ) -(۳) - اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں ۔

پس جس نے بھی یہ گمان کیا کہ وہ مجبور ہے تو گویا اس نے گناہ کیا ۔ اور اس نے اپنی گناہوں کو خدا کے ذمہ ڈال دیا ۔ اور یہ ظلم ہے ۔ اور جس نے بھی خدا پر ظلم کیا گویا اس نے اس کی کتاب کو جٹھلایا ۔ اور امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ جو بھی کتاب خدا کو جٹھلائے وہ کافر ہے ۔

امیرالمؤمنین (ع) سے جب عبایہ بن ربعی الاسدی نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا کہ کس کی وجہ سے ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کاموں کو انجام دیتے ہیں ؟

فرمایا کیا تم نے استطاعت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے؟ اسے تو نے خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے یا خدا کی مدد کے بغیر ؟

عبابہ خاموش ہوا تو امام(ع)نے اصرار کیا ، کہو اے عبایہ! تو اس نے کہا یا امیر المؤمنین (ع)کیا کہوں؟

امام(ع)نے فریا یا : اگر تو کہے خدا کی مدد سے حاصل کی ہے تو تمہیں قتل کروں گا ۔ اور اگر کہے خدا کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے تو بھی قتل کروں گا ۔

عبایہ نے کہا: پس یا امیر المؤمنین کیا کہوں؟!

امام نے فرمایا : کہو کہ استطاعت کو تو اس خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے جو خود استطاعت کا مالک ہے اور اگر تمہیں عنایت کرے تو یہ اس کی عطا ہے اور اگر تجھ پر بند کرے تو بلا ہے ۔ اور وہی مالک ہے ان چیزوں کا جو ہمیں دی گئی ہیں ۔

اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ جس چیز کا بھی خدا تعالی ہمیں مالک بنا دے اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی ۔(۴) -

____________________

۱ ۔ سورہ کہف٤٩۔

۲ ۔ حج١٠۔

۳ یونس٤٤۔

۴ ۔ فی الجبر والقدر ، ص ٢٥٥۔


فصل سوم :گروہ مفوضہ کا نظریہ

اشاعرہ کے مقابلے میں متکلمیں میں سے ایک گروہ معتزلہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ علل معدّہ اپنی علیّت میں مستقل ہیں اور علة العلل پر محتاج نہیں ہیں ۔ خدا نے اس کائنات کو خلق فرمایا اور فارغ ہوگیا ۔ اب یہ کائنات مستقل طور پر حرکت کر رہی ہے کسی محرک کی ضرورت نہیں ۔ جیسے آگ کالکڑی کو جلانے میں ، ہوا کا چلنے میںاور انسان اپنے اختیاری کاموں میں مستقل ہیں ۔ ارادۂ انسان کے علاوہ کوئی اور طاقت یا قدرت درکار نہیں کہ یہ جس کام کو چاہے انجام دیتا ہے اور جسے چاہے ترک کرتا ہے۔

دلیل مفوضہ

جب انہوں نے جبریہ کے اقوال کے مفاسد کو دیکھا تویہ گمان کرنے لگے کہ بندہ اپنے کاموں میں مستقل اور آزاد ہے ۔

جس طرح یہودیوں نے کہا: ید اللہ مغلولة کہ ان کا عقیدہ کہ خدا نے اس کائنات کو ایک ہفتے میں خلق کیا اور ہفتہ کے دن تعطیل کیا! اور خدا بالکل لا تعلق ہوا ۔ جس طرح گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد لا تعلق ہوتا ہے ۔ پھر بھی گھڑی کی سوئیاں چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح یہ کائنات بھی خود بخود چلتی رہتی ہے ۔

یہ خلاف عقل ہے کیونکہ ہر ایک کیساتھ یہ اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ بہت سے کاموں کو سارے انسان تمام تر کوششوں کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور تمام علل و اسباب بھی اسے فرہم ہوتا ہے لیکن کبھی کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا :عرفت اللہ بفسح العزائم الھمم۔ یعنی میں نے لوگوں کے عزم وارادہ کے خلاف نتیجہ نکلنے سے خدا کو پہچانا۔کیونکہ کبھی لوگ ثروت مند اور دولت مند ہونے کے خاطر بہت محنت کرتے ہیں لیکن اسے تنگدستی اور فقر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اور کبھی اس کے برعکس بھی نتیچہ نکلتا ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ خدا کی حیثیت گھڑی ساز کی ہے ،یہ سلطنت مطلقہ کی توہین ہے۔

ثانیا آیات اور روایات بھی اس بات کے خلاف ہیں ۔ مذکورہ مثال کی طرف توجہ کریں کہ :ایاک نعبد و لا حول ولا قوة الا بالله اور بحول لله و قوته اقوم و اقعد ۔ ۔۔ ۔ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا کی مخلوقات ہمیشہ اور ہر ہر سکینڈ کیلئے خدا کی ذات پر محتاج ہیں-(۱)

خدا نے امور دین کو پیامبراکرم(ص) کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ اور انہوں نے ائمہ اور اولیاء کو تفویض کیا ہے۔ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے سو رۂ نجم میں پیغمبر(ص)کے بارے میں فرمایا :( و ما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) -(۲) -۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے۔اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

یہ آیت صریح کیساتھ کہہ رہی ہے کہ پیامبر(ص) جو کچھ بھی بولے وہ خدا کی وحی کے مطابق ہوگا۔ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام (ص)جاتے ہوئے مجھے علم اور معفرت کے ہزار دروازے عطا کئے اور میں نے بھی ان ہزار دروازوں سے ہزار دروازے اور کھول دئے ۔امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں جو علوم اور معارف علی(ع)کو عطا ہوئے ہیں ، ارث میں ملا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اخبار تفویض کسی بھی صورت میں ادعای مفوضہ کے ساتھ مربوط نہیں ۔ کیونکہ مفوضہ کا ادعی یہ ہے کہ انسان کو تکوینیات میں اپنا نائب قرار دیا ہے ۔ لیکن ان روایا ت میں جو اختیار دیا گیا ہے وہ عالم تشریع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ) -(۳) - ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔

کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اور ائمہ(ع) کی اطاعت واجب ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا نے اپنے امور کو رسول اکرم(ص) اور اولی الامر کو تفویض کیا ہے ۔ یہاں ہم یہ جواب دینگے کہ اس تفویض کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کسی کو ایک ملک کا حاکم بنا دے اور تمام امور سلطنت کو اس کے ہاتھوں میں سونپا ہو اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ فلانی کی اطاعت کرو ۔ جو بھی اس حاکم کی نافرمانی کرے تو فلان سزا دونگا ۔ کیونکہ اس کا حکم میرا حکم ہے۔ –(۴) -

____________________

۱ ۔ بہشتی نژاد ، پرسش وپاسخ اعتقادی،ج ١ ،ص٩٧.

۲ ۔ نجم ۳،۴۔

۳ ۔ نساء ۵۹۔

۴ ۔ معاد و عدل ،ص٥٩۔

انسان کے مختار ہونے پر دلائل قرآنی

ارسال رسل وانزال کتب

اگر انسان مختار نہ ہو تو اصولاً پیامبروں کا آنا اور کتب آسمانی کا نازل ہونا بیہودہ ہوگا ۔ اور خدا وند بیہودہ کام نہیں کرتا ۔ پس ارسال رسل اور انزال کتب اس بات کی دلیل ہے کہ خدا وند اور انبیاء انسان کو مختار جانتے ہیں ۔

امتحان

اگر قرآن پر ایمان رکھنے والا ہو تو ماننا پڑے گا کہ امتحان کو ایک سنت الہی قرار دیا گیاہے ۔ جیسا کہ متعدد آیتوں میں ذکر کیا ہے :

١ ۔( إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ) -(۱) - یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے۔

٢۔( إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) -(۲) - بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ۔

۳ ۔( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ )(۳) -اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموالًنفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں ۔

پس امتحان ایسے افراد سے لیا جائے گا جو مجبور نہ ہو بلکہ آزاد ہو ۔ اور ہدف امتحان بھی معلوم ہے کہ انسان کو بلند وبالا مقام تک پہنچانا مقصود ہے ۔ لیکن اگر ہر ایک کو زیرو دینا مقصود تھا یا ہر ایک کو سو کے سو نمبر دینا ہوتا تو امتحان بے معنی ہوجائے گا ۔

وعدہ و وعید

یہ وہ صفات ہیں جنہیں خدا نے نبیوں کو عنایت کی ہے ، فرمایا( : كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )(۴) - (فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔ اگر انسان مختار نہ ہو تو کسی فعل پر بشارت دینا اور کسی فعل سے بھی ڈرانا اور اسی طرح درمیان میں اختلاف پیدا کرنا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنا بے معنی ہوجائے گا ۔

____________________

۱ ۔ دھر ٢۔

۲ ۔ کہف٧۔

۳ ۔ بقرہ ۱۵۵۔

۴ ۔ بقرہ ٢١٣۔

میثاق و معاہدہ

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) -(۱) - اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کِھلا ہوا دشمن ہے ۔اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے

خدا نے بنی نوع انسان کے ساتھ عہد لیا ہے کہ شیطان کی اطاعت نہ کرنا ۔ کیونکہ وہ تمھارا دشمن ہے۔ پس اگر انسان صاحب اختیار نہیں تھا تو اس کے ساتھ خدا کا معاہدہ کرنا بالکل بے معنی ہوجائے گا ۔

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً ) -(۲) -۔ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا )(۳) - اوراس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیائ علیھ السّلامسے اور بالخصوص آپ سے اور نوح ابراہیم(ع)موسیٰ(ع) اور عیسٰی ابن مریم(ع)سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ۔

یہ دو آیتیں میثاق خاص کی نشاندہی کرتی ہیں جو خدا نے بنی اسرائیل اور بعض انبیاء سے لیا ہے۔

اختیا ر انسان فطری ہے۔ انسان کا مختار ہونا علم حضور ی کے ذریعے سے بھی واضح ہے کہ زندگی میں بار بار اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ انسا ن دو کاموں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں متردد ہوتا ہے۔ لیکن آخر میں کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنی رضامندی سے ایک کام کو اختیار کر لیتا ہے یہی تردید دلیل ہے انسان کے مختار ہونے پر؛

این کہ گوئی این کنم یا آن کنم

خود دلیل اختیار است اے صنم

اس مطلب کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے : إ( ِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) -(۴) - یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ) -(۵) -۔ اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے۔

کافروں کو دعوت ایمان دینا اختیار کی علامت

خدا کا عدم وقوع فعل پر علم ہونا اس فعل کے محقق ہونے میں مانع بن جائے تو خدا کا کافروں کو دعوت ایمان دینا اپنے علم کو محو اور جٹھلانے کے مترادف ہے۔ اور چونکہ علم خدا کا اپنے بندوں کے ذریعے نابود ہونا محال ہے ۔اس پر حکم دینا عبث اور بیہودہ ہے اور خدا وند حکیم سے ایسا فعل سرزد ہونا ناممکن ہے۔

جواب فخر رازی

اگر فقط کافروں کو ایمان کی دعوت دینا علم خدا کی تکذیب اور جھل میں تبدیل ہونے کا باعث ہو تو یہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں اور ایسے امور کو ہم نا ممکنات میں شمار کرتے ہیں۔کیونکہ افعال انسان ذاتاً ممکن ہے۔ افعال انسان کے واجب یا ممتنع ہونے میں علم خدا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

____________________

۱ ۔ یس ٦٠۔۔۔٦۱۔

۲ ۔ بقرہ ٨٣ ۔

۳ ۔ احزاب ٧۔

۴ ۔ الانسان۳۔

۵ ۔ الکہف ۲۹۔

چوتھی فصل :جبر و اختیار کے متعلق صحیح نظریہ

گذشتہ بحثوں سے ہم پر واضح ہوا کہ نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں باطل عقیدہ تھا ۔ اس فصل میں نظریۂ معصومین(ع) جو صحیح نظریہ ہے مورد بحث قرار دینگے۔ چنانچہ یہ کائنات نظام علت و معلول پر قائم ہے ۔ بحث کی ابتداء بھی علیت سے کرتے ہیں ۔ پہلے گذر گیا کہ علت دو قسم کے ہیں :

١۔علت تامہ یا علت العلل ،جو خدا تعالی کی ذات سے مخصوص ہے۔

٢۔علت معدّہ یا علت ناقصہ ۔ جو خدا کے سوا تمام موجودات عالم پر صدق آتا ہے۔ علت معدہ ممکن ہے اپنے معلول سے نزدیک ہو یا بعید ۔ مثال کے طور پر ہم اگر ایک خط لکھنے لگے تو کئی علل اور اسباب بروی کار لاتے ہیں ۔ قلم ، ہاتھ ، فکر ، ارادۂ روح ، یہ ساری علتیں ایک دوسرے کے طول میں ہیں ۔ یعنی قلم کو ہاتھ حرکت دیتا ہے ہاتھ کو فکر اور فکر کو ارادہ اور ارادہ کو روح حکم کرتی ہے۔ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قلم نے خط کو لکھا ہاتھ نے لکھا فکر نے یا ارادہ نے لکھا۔ ۔ ۔ اوریہ سلسلہ ایک مستقل وجودپر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہ وجود مستقل ذات باری تعالی ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اس خط کو خدا نے لکھا ہے کیونکہ خدا کے ارادے کے بغیر ہمارا کوئی وجود نہیں ، جسے ایک نورانی جملے میں یوں بیان کیا ہے: بحول اللہ وقوتہ اقوم و اقعد۔

الامر بین الامرین قرآن کی نگاہ میں

قرآن مجید میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں جو الامر بین الامرین پر دلالت کرتی ہیں ۔ یعنی ایک انسانی فعل کو بغیر کسی تزاحم کے خدا کی طرف بھی نسبت دے سکتا ہے ۔

١ ۔ کبھی خدا وند ایک فعل کو آن واحد میں بندہ کی طرف نسبت دیتا ہے اور پھر اسی نسبت کو انسان سے سلب کرکے اپنی طرف دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) -(۱) - پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں تاکہ صاحبان ایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے۔

عارف رومی نے یوں اپنے شعر میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :

نیز اندر غالبی ہم خویش را

دید او مغلوب دام کبریا

مارمیت اذ رمیت آمد خطاب

گم شد او اللہ اعلم بالصواب

یعنی ایسا ممکن نہیں کہ صرف خدا کی طرف نسبت دے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ صرف بندہ کی طرف نسبت دے۔

٢۔ ایک دوسری آیت میں فعل کو بندے کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن تیسری آیت میں خدا وند اپنی طرف۔ اور یہ نسبت دینا صرف اسی وقت صحیح ہوتا ہے کہ دو نسبتوں کے قائل ہوجائے ۔ چنانچہ فرمایا :

( ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ) -(۲) - پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

( فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمُ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) ۔ پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہوگے علاوہ چند افراد کے لہذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یہ آخری دو آیتیں بنی اسرائیل کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں ۔ اگر قسوہ کے عارض ہونے میں کافروںکا کوئی ہاتھ نہ تھا تو ان کی مذمت کرنا صحیح نہیں تھا ۔ دوسری آیت میں ان کی مذمت کرنے کا اصل سبب کو بیان کیا ہے۔ کہ یہ لوگ وعدہ خلافی کرنے والے تھے۔ اس وعدہ خلافی کی وجہ سے خدا نے ان کے دلوں کو قاسیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے انبیاء الہی کے انذار وتبشیر اور وعظ ونصیحت بھی ان پر مؤثر ثابت نہیں ہوسکی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کے فعل کیلئے دو نسبتیں موجود ہیں۔

کیا قرآن کی آیات کے درمیان تناقض موجود ہے؟

٣۔ جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں بہت ساری آیتیں ذکر ہوئیں کہ ان میں سے کچھ اختیار انسان پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور کچھ آیات صراحت کیساتھ اس کائنات کامؤثر صرف اور صرف مشیت الہی کو سمجھتی ہیں ۔لا مؤثر فی الوجود الا الله ۔

ایک دستہ آیت جبر کی نفی کرتی ہے ، دوسرا دستہ تفویض کی نفی کرتی ہے۔ اب ان دونوں میں جمع کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن میں تناقض گوئی نہیں ہونی چاہئے ۔ اور جب تک الامر بین الامرین کے قائل نہ ہوجائے،اس ظاہری تناقض کوئی سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ کہ بندہ اپنے اختیار سے کسی فعل کو انجام دے یا ترک کردے۔ درعین حال خدا کی اجازت اور رضایت بھی ضروری ہے ۔لایقع فی سلطانه ما لا یرید ۔ یعنی خدا کی سلطنت میں اس چیز کا کوئی فائدہ نہیں جس میں اس کا ارادہ شامل نہ ہو۔

____________________

۱ انفال ١٧۔

۲ ۔ بقرہ٧٤۔

ارادہ خدا بھی ارادہ انسان کے ذریعے ۔

آیتوں کا پہلا دستہ جو اختیار انسان پر دلالت کرتاہے :

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ )(۱) -جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو اِرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

( لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ )(۲) - آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کو سناُ تھا تو مومنین و مومنات اپنے بارے میں خیر کا گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو کھلا ہوا بہتان ہے۔

( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ) (۳) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی ان ہی سے ملادیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے۔

( وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ) -(۴) - ۔ اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاء كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءتْ مُرْتَفَقًا ) -(۵) - اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے ہم نے یقینا کافرین کے لئے اس آگ کا انتظام کردیا ہے جس کے پردے چاروں طرف سے گھیرے ہوں گے اور وہ فریاد بھی کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو چہروں کو بھون ڈالے گا یہ بدترین مشروب ہے اور جہنم ّبدترین ٹھکانا ہے۔

( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ )(۶) - ۔ اس کے لئے سامنے اور پیچھے سے محافظ طاقتیں ہیں جو حکم هخدا سے اس کی حفاظت کرتی ہیں اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی کسی کا والی و سرپرست ہے۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا )(۷) - یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

( إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ ) -(۸) - اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے۔

____________________

۱ ۔ فصلت ٤٦

۲ ۔ نور١٢

۳ ۔ طور٢١ ۔

۴ ۔ نجم٣٩۔

۵ ۔ کہف ۔۲۹

۶ ۔ رعد ۱۱۔

۷ ۔ انسان۳۔

۸ ۔ رعد١١۔


دوسرا دستہ آیاتوں کا جو فقط ارادہ الہی کر مؤثر جانتا ہے :

( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) -(۱) - اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے۔

( وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ )(۲) -۔ اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے ۔

( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا )(۳) - اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

ان دو دستہ آیتوں کو اگر جمع کرے تو قول الامر بین الامرین محقق پائے گا ۔ اور ثابت ہوجائے گا کہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ۔

جمع کیسے کیا جائے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر مفسرین اور متکلمین کی نگاہ میں آیات قرآنی کے درمیان ظاہری تعارض ہے نہ حقیقی ۔ دوسری بات یہ کہ خود تعارض دو طرح کے ہیں:

الف: ایک بات دوسری بات کی صراحتا نفی کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص) ماہ سفر میں رحلت پاگئے ۔ دوسرا کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص)کی ماہ صفر میں رحلت نہیںہوئی ۔ یہاں پر دوسرا جملہ پہلا جملہ کی صراحتا نفی نہیں کرتا ۔ لیکن دوسرے جملے کی تصدیق اور سچائی اگر ثابت ہوجائے تو پہلے جملے کی مفاد کاملا باطل اور جھوٹ ثابت ہوتی ہے ۔ مثال وہی لیں : اگر ایک نے کہا پیامبر اسلام (ص) ماہ صفر میں رحلت کرگئے ۔ دوسرا کہے ماہ ربیع الاول میں رحلت کرگئے ہیں۔ اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کی رحلت ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے خود بخود پہلا قول باطل ہوجاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو اختیار انسان اور قضای الہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، کس نوع کا تعارض ہے ؟ کیا یہ آیتیں صراحتا ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں یا نہ؟ بلکہ ایک دستہ آیات کی سچائی اور مفاد کو قبول کرے تو دوسرے دستے کی نفی ہوتی ہے ؟

جواب: قرآنی آیتیں ایک دوسرے کہ مسلما اور صراتا نفی نہیں کرتی ۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ ایک دستہ آیات کہے کہ ساری چیزین مقدر ہوچکی ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی بھی چیز مقدر نہیں ہوتی ہیں ۔ ایک دستہ کہے کہ ساری چیزیں علم خدا میں موجود ہیں دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی خدا کے علم میں نہیں ۔ ایک دستہ آیت کہے کہ ساری چیزیں مشیت الہی سے مربوط ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی مشیت الہی سے مربوط نہیں ہیں ۔

بلکہ ان دو دستوں کا متعارض خیال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض متکلمین اور مفسرین جو کہتے ہیں کہ ساری چیزیں تقدیر الہی کے تابع ہیں جس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان آزاد نہیں؛ آزادی اور مقدر ہونا ایک دوسرے سے سازگار نہیں ۔ اگر ساری چیزیں خدا کے علم میں ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ جبرا ًوہ فعل انجام پائے و گرنہ علم خدا جہل میں تبدیل ہوجائے گا ۔

لیکن دوسری طرف سے اگر دیکھ لیں کہ یہ کہنا کہ انسان اپنی خوش بختی اور بدبختی میں خود ایک مؤثر عامل ہے ۔ اپنی تقدیر کو اپنے ہی اختیار سے بنا اور بگاڑ سکتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے پہلے تقدیر نامی کوئی چیز نہیں تھی ۔پس ان دو دستوں میں سے ایک دستہ آیات کی تأویل ہونا ضروری ہے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بہت ساری کتابیں تأویل اور توجیہ سے پر ہیں ، کہ گروہ معتزلہ نے آیات تقدیر کی تأویل کی ہے اور اشاعرہ نے آیات اختیار کی ۔

لیکن تیسرا گروہ جو ان تعارض ظاہری کو حل کرے اور ثابت کرے کی قضا و قدر الہی اور اختیار و آزادی کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی ۔

پس یہ تعارض بعض مفسرین اور متکلمین کی کج فہمی اور کم فکری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ وگرنہ اصولا ممکن نہیں کہ کتاب مبین الہی میں تعارض اور اختلاف موجود ہو کہ تأویل کرنے کی نوبت آجائے۔ –(۴) -

____________________

۱ .۔ تکویر ٢٩۔

۲ ۔ مدثر ۵۶۔

۳ .۔ ا نسان،۳۰.

۴ ۔ شہید مطہری ؛ انسان و سرنوشت ،ص ٤٢۔

الامر بین الامرین روایات کی روشنی میں

اس سلسلے میں بہت سی روایات ہمارے ائمہ معصومین(ع)سے نقل ہوئی ہیں نچانچہ بعض کتابوں مثلا بحار الانوار ، تحف العقول ، توحید صدوق، ۔ ۔ ۔ میں امام ہادی(ع) سے اس خط کو نقل کیا ہے جس میں جبر اور تفویض کے باطل ہونے کو ثابت کرچکے ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

فاما الجبر الذی یلزم من دان به الخطاء فهو قول من زعم ان الله تعالی اجبرالعباد علی المعاصی وعاقبهم علیها و من قال بهذا القول فقد ظلم الله فی حکمه و کذبه وردّ علیه قوله : ولا یظلم ربک احداً(۱) - اور جب نامئہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔

( ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ) -(۲) - یہ اس بات کی سزا ہے جو تم پہلے کرچکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔

( إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ) -(۳) - اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں ۔

پس جس نے بھی یہ گمان کیا کہ وہ مجبور ہے تو گویا اس نے گناہ کیا ۔ اور اس نے اپنی گناہوں کو خدا کے ذمہ ڈال دیا ۔ اور یہ ظلم ہے ۔ اور جس نے بھی خدا پر ظلم کیا گویا اس نے اس کی کتاب کو جٹھلایا ۔ اور امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ جو بھی کتاب خدا کو جٹھلائے وہ کافر ہے ۔

امیرالمؤمنین (ع) سے جب عبایہ بن ربعی الاسدی نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا کہ کس کی وجہ سے ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کاموں کو انجام دیتے ہیں ؟

فرمایا کیا تم نے استطاعت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے؟ اسے تو نے خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے یا خدا کی مدد کے بغیر ؟

عبابہ خاموش ہوا تو امام(ع)نے اصرار کیا ، کہو اے عبایہ! تو اس نے کہا یا امیر المؤمنین (ع)کیا کہوں؟

امام(ع)نے فریا یا : اگر تو کہے خدا کی مدد سے حاصل کی ہے تو تمہیں قتل کروں گا ۔ اور اگر کہے خدا کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے تو بھی قتل کروں گا ۔

عبایہ نے کہا: پس یا امیر المؤمنین کیا کہوں؟!

امام نے فرمایا : کہو کہ استطاعت کو تو اس خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے جو خود استطاعت کا مالک ہے اور اگر تمہیں عنایت کرے تو یہ اس کی عطا ہے اور اگر تجھ پر بند کرے تو بلا ہے ۔ اور وہی مالک ہے ان چیزوں کا جو ہمیں دی گئی ہیں ۔

اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ جس چیز کا بھی خدا تعالی ہمیں مالک بنا دے اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی ۔(۴) -

____________________

۱ ۔ سورہ کہف٤٩۔

۲ ۔ حج١٠۔

۳ یونس٤٤۔

۴ ۔ فی الجبر والقدر ، ص ٢٥٥۔


فصل سوم :گروہ مفوضہ کا نظریہ

اشاعرہ کے مقابلے میں متکلمیں میں سے ایک گروہ معتزلہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ علل معدّہ اپنی علیّت میں مستقل ہیں اور علة العلل پر محتاج نہیں ہیں ۔ خدا نے اس کائنات کو خلق فرمایا اور فارغ ہوگیا ۔ اب یہ کائنات مستقل طور پر حرکت کر رہی ہے کسی محرک کی ضرورت نہیں ۔ جیسے آگ کالکڑی کو جلانے میں ، ہوا کا چلنے میںاور انسان اپنے اختیاری کاموں میں مستقل ہیں ۔ ارادۂ انسان کے علاوہ کوئی اور طاقت یا قدرت درکار نہیں کہ یہ جس کام کو چاہے انجام دیتا ہے اور جسے چاہے ترک کرتا ہے۔

دلیل مفوضہ

جب انہوں نے جبریہ کے اقوال کے مفاسد کو دیکھا تویہ گمان کرنے لگے کہ بندہ اپنے کاموں میں مستقل اور آزاد ہے ۔

جس طرح یہودیوں نے کہا: ید اللہ مغلولة کہ ان کا عقیدہ کہ خدا نے اس کائنات کو ایک ہفتے میں خلق کیا اور ہفتہ کے دن تعطیل کیا! اور خدا بالکل لا تعلق ہوا ۔ جس طرح گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد لا تعلق ہوتا ہے ۔ پھر بھی گھڑی کی سوئیاں چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح یہ کائنات بھی خود بخود چلتی رہتی ہے ۔

یہ خلاف عقل ہے کیونکہ ہر ایک کیساتھ یہ اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ بہت سے کاموں کو سارے انسان تمام تر کوششوں کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور تمام علل و اسباب بھی اسے فرہم ہوتا ہے لیکن کبھی کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا :عرفت اللہ بفسح العزائم الھمم۔ یعنی میں نے لوگوں کے عزم وارادہ کے خلاف نتیجہ نکلنے سے خدا کو پہچانا۔کیونکہ کبھی لوگ ثروت مند اور دولت مند ہونے کے خاطر بہت محنت کرتے ہیں لیکن اسے تنگدستی اور فقر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اور کبھی اس کے برعکس بھی نتیچہ نکلتا ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ خدا کی حیثیت گھڑی ساز کی ہے ،یہ سلطنت مطلقہ کی توہین ہے۔

ثانیا آیات اور روایات بھی اس بات کے خلاف ہیں ۔ مذکورہ مثال کی طرف توجہ کریں کہ :ایاک نعبد و لا حول ولا قوة الا بالله اور بحول لله و قوته اقوم و اقعد ۔ ۔۔ ۔ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا کی مخلوقات ہمیشہ اور ہر ہر سکینڈ کیلئے خدا کی ذات پر محتاج ہیں-(۱)

خدا نے امور دین کو پیامبراکرم(ص) کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ اور انہوں نے ائمہ اور اولیاء کو تفویض کیا ہے۔ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے سو رۂ نجم میں پیغمبر(ص)کے بارے میں فرمایا :( و ما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) -(۲) -۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے۔اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

یہ آیت صریح کیساتھ کہہ رہی ہے کہ پیامبر(ص) جو کچھ بھی بولے وہ خدا کی وحی کے مطابق ہوگا۔ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام (ص)جاتے ہوئے مجھے علم اور معفرت کے ہزار دروازے عطا کئے اور میں نے بھی ان ہزار دروازوں سے ہزار دروازے اور کھول دئے ۔امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں جو علوم اور معارف علی(ع)کو عطا ہوئے ہیں ، ارث میں ملا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اخبار تفویض کسی بھی صورت میں ادعای مفوضہ کے ساتھ مربوط نہیں ۔ کیونکہ مفوضہ کا ادعی یہ ہے کہ انسان کو تکوینیات میں اپنا نائب قرار دیا ہے ۔ لیکن ان روایا ت میں جو اختیار دیا گیا ہے وہ عالم تشریع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ) -(۳) - ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔

کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اور ائمہ(ع) کی اطاعت واجب ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا نے اپنے امور کو رسول اکرم(ص) اور اولی الامر کو تفویض کیا ہے ۔ یہاں ہم یہ جواب دینگے کہ اس تفویض کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کسی کو ایک ملک کا حاکم بنا دے اور تمام امور سلطنت کو اس کے ہاتھوں میں سونپا ہو اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ فلانی کی اطاعت کرو ۔ جو بھی اس حاکم کی نافرمانی کرے تو فلان سزا دونگا ۔ کیونکہ اس کا حکم میرا حکم ہے۔ –(۴) -

____________________

۱ ۔ بہشتی نژاد ، پرسش وپاسخ اعتقادی،ج ١ ،ص٩٧.

۲ ۔ نجم ۳،۴۔

۳ ۔ نساء ۵۹۔

۴ ۔ معاد و عدل ،ص٥٩۔

انسان کے مختار ہونے پر دلائل قرآنی

ارسال رسل وانزال کتب

اگر انسان مختار نہ ہو تو اصولاً پیامبروں کا آنا اور کتب آسمانی کا نازل ہونا بیہودہ ہوگا ۔ اور خدا وند بیہودہ کام نہیں کرتا ۔ پس ارسال رسل اور انزال کتب اس بات کی دلیل ہے کہ خدا وند اور انبیاء انسان کو مختار جانتے ہیں ۔

امتحان

اگر قرآن پر ایمان رکھنے والا ہو تو ماننا پڑے گا کہ امتحان کو ایک سنت الہی قرار دیا گیاہے ۔ جیسا کہ متعدد آیتوں میں ذکر کیا ہے :

١ ۔( إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ) -(۱) - یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے۔

٢۔( إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) -(۲) - بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ۔

۳ ۔( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ )(۳) -اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموالًنفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں ۔

پس امتحان ایسے افراد سے لیا جائے گا جو مجبور نہ ہو بلکہ آزاد ہو ۔ اور ہدف امتحان بھی معلوم ہے کہ انسان کو بلند وبالا مقام تک پہنچانا مقصود ہے ۔ لیکن اگر ہر ایک کو زیرو دینا مقصود تھا یا ہر ایک کو سو کے سو نمبر دینا ہوتا تو امتحان بے معنی ہوجائے گا ۔

وعدہ و وعید

یہ وہ صفات ہیں جنہیں خدا نے نبیوں کو عنایت کی ہے ، فرمایا( : كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )(۴) - (فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔ اگر انسان مختار نہ ہو تو کسی فعل پر بشارت دینا اور کسی فعل سے بھی ڈرانا اور اسی طرح درمیان میں اختلاف پیدا کرنا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنا بے معنی ہوجائے گا ۔

____________________

۱ ۔ دھر ٢۔

۲ ۔ کہف٧۔

۳ ۔ بقرہ ۱۵۵۔

۴ ۔ بقرہ ٢١٣۔

میثاق و معاہدہ

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) -(۱) - اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کِھلا ہوا دشمن ہے ۔اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے

خدا نے بنی نوع انسان کے ساتھ عہد لیا ہے کہ شیطان کی اطاعت نہ کرنا ۔ کیونکہ وہ تمھارا دشمن ہے۔ پس اگر انسان صاحب اختیار نہیں تھا تو اس کے ساتھ خدا کا معاہدہ کرنا بالکل بے معنی ہوجائے گا ۔

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً ) -(۲) -۔ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا )(۳) - اوراس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیائ علیھ السّلامسے اور بالخصوص آپ سے اور نوح ابراہیم(ع)موسیٰ(ع) اور عیسٰی ابن مریم(ع)سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ۔

یہ دو آیتیں میثاق خاص کی نشاندہی کرتی ہیں جو خدا نے بنی اسرائیل اور بعض انبیاء سے لیا ہے۔

اختیا ر انسان فطری ہے۔ انسان کا مختار ہونا علم حضور ی کے ذریعے سے بھی واضح ہے کہ زندگی میں بار بار اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ انسا ن دو کاموں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں متردد ہوتا ہے۔ لیکن آخر میں کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنی رضامندی سے ایک کام کو اختیار کر لیتا ہے یہی تردید دلیل ہے انسان کے مختار ہونے پر؛

این کہ گوئی این کنم یا آن کنم

خود دلیل اختیار است اے صنم

اس مطلب کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے : إ( ِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) -(۴) - یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ) -(۵) -۔ اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے۔

کافروں کو دعوت ایمان دینا اختیار کی علامت

خدا کا عدم وقوع فعل پر علم ہونا اس فعل کے محقق ہونے میں مانع بن جائے تو خدا کا کافروں کو دعوت ایمان دینا اپنے علم کو محو اور جٹھلانے کے مترادف ہے۔ اور چونکہ علم خدا کا اپنے بندوں کے ذریعے نابود ہونا محال ہے ۔اس پر حکم دینا عبث اور بیہودہ ہے اور خدا وند حکیم سے ایسا فعل سرزد ہونا ناممکن ہے۔

جواب فخر رازی

اگر فقط کافروں کو ایمان کی دعوت دینا علم خدا کی تکذیب اور جھل میں تبدیل ہونے کا باعث ہو تو یہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں اور ایسے امور کو ہم نا ممکنات میں شمار کرتے ہیں۔کیونکہ افعال انسان ذاتاً ممکن ہے۔ افعال انسان کے واجب یا ممتنع ہونے میں علم خدا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

____________________

۱ ۔ یس ٦٠۔۔۔٦۱۔

۲ ۔ بقرہ ٨٣ ۔

۳ ۔ احزاب ٧۔

۴ ۔ الانسان۳۔

۵ ۔ الکہف ۲۹۔

چوتھی فصل :جبر و اختیار کے متعلق صحیح نظریہ

گذشتہ بحثوں سے ہم پر واضح ہوا کہ نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں باطل عقیدہ تھا ۔ اس فصل میں نظریۂ معصومین(ع) جو صحیح نظریہ ہے مورد بحث قرار دینگے۔ چنانچہ یہ کائنات نظام علت و معلول پر قائم ہے ۔ بحث کی ابتداء بھی علیت سے کرتے ہیں ۔ پہلے گذر گیا کہ علت دو قسم کے ہیں :

١۔علت تامہ یا علت العلل ،جو خدا تعالی کی ذات سے مخصوص ہے۔

٢۔علت معدّہ یا علت ناقصہ ۔ جو خدا کے سوا تمام موجودات عالم پر صدق آتا ہے۔ علت معدہ ممکن ہے اپنے معلول سے نزدیک ہو یا بعید ۔ مثال کے طور پر ہم اگر ایک خط لکھنے لگے تو کئی علل اور اسباب بروی کار لاتے ہیں ۔ قلم ، ہاتھ ، فکر ، ارادۂ روح ، یہ ساری علتیں ایک دوسرے کے طول میں ہیں ۔ یعنی قلم کو ہاتھ حرکت دیتا ہے ہاتھ کو فکر اور فکر کو ارادہ اور ارادہ کو روح حکم کرتی ہے۔ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قلم نے خط کو لکھا ہاتھ نے لکھا فکر نے یا ارادہ نے لکھا۔ ۔ ۔ اوریہ سلسلہ ایک مستقل وجودپر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہ وجود مستقل ذات باری تعالی ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اس خط کو خدا نے لکھا ہے کیونکہ خدا کے ارادے کے بغیر ہمارا کوئی وجود نہیں ، جسے ایک نورانی جملے میں یوں بیان کیا ہے: بحول اللہ وقوتہ اقوم و اقعد۔

الامر بین الامرین قرآن کی نگاہ میں

قرآن مجید میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں جو الامر بین الامرین پر دلالت کرتی ہیں ۔ یعنی ایک انسانی فعل کو بغیر کسی تزاحم کے خدا کی طرف بھی نسبت دے سکتا ہے ۔

١ ۔ کبھی خدا وند ایک فعل کو آن واحد میں بندہ کی طرف نسبت دیتا ہے اور پھر اسی نسبت کو انسان سے سلب کرکے اپنی طرف دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) -(۱) - پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں تاکہ صاحبان ایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے۔

عارف رومی نے یوں اپنے شعر میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :

نیز اندر غالبی ہم خویش را

دید او مغلوب دام کبریا

مارمیت اذ رمیت آمد خطاب

گم شد او اللہ اعلم بالصواب

یعنی ایسا ممکن نہیں کہ صرف خدا کی طرف نسبت دے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ صرف بندہ کی طرف نسبت دے۔

٢۔ ایک دوسری آیت میں فعل کو بندے کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن تیسری آیت میں خدا وند اپنی طرف۔ اور یہ نسبت دینا صرف اسی وقت صحیح ہوتا ہے کہ دو نسبتوں کے قائل ہوجائے ۔ چنانچہ فرمایا :

( ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ) -(۲) - پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

( فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمُ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) ۔ پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہوگے علاوہ چند افراد کے لہذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یہ آخری دو آیتیں بنی اسرائیل کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں ۔ اگر قسوہ کے عارض ہونے میں کافروںکا کوئی ہاتھ نہ تھا تو ان کی مذمت کرنا صحیح نہیں تھا ۔ دوسری آیت میں ان کی مذمت کرنے کا اصل سبب کو بیان کیا ہے۔ کہ یہ لوگ وعدہ خلافی کرنے والے تھے۔ اس وعدہ خلافی کی وجہ سے خدا نے ان کے دلوں کو قاسیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے انبیاء الہی کے انذار وتبشیر اور وعظ ونصیحت بھی ان پر مؤثر ثابت نہیں ہوسکی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کے فعل کیلئے دو نسبتیں موجود ہیں۔

کیا قرآن کی آیات کے درمیان تناقض موجود ہے؟

٣۔ جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں بہت ساری آیتیں ذکر ہوئیں کہ ان میں سے کچھ اختیار انسان پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور کچھ آیات صراحت کیساتھ اس کائنات کامؤثر صرف اور صرف مشیت الہی کو سمجھتی ہیں ۔لا مؤثر فی الوجود الا الله ۔

ایک دستہ آیت جبر کی نفی کرتی ہے ، دوسرا دستہ تفویض کی نفی کرتی ہے۔ اب ان دونوں میں جمع کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن میں تناقض گوئی نہیں ہونی چاہئے ۔ اور جب تک الامر بین الامرین کے قائل نہ ہوجائے،اس ظاہری تناقض کوئی سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ کہ بندہ اپنے اختیار سے کسی فعل کو انجام دے یا ترک کردے۔ درعین حال خدا کی اجازت اور رضایت بھی ضروری ہے ۔لایقع فی سلطانه ما لا یرید ۔ یعنی خدا کی سلطنت میں اس چیز کا کوئی فائدہ نہیں جس میں اس کا ارادہ شامل نہ ہو۔

____________________

۱ انفال ١٧۔

۲ ۔ بقرہ٧٤۔

ارادہ خدا بھی ارادہ انسان کے ذریعے ۔

آیتوں کا پہلا دستہ جو اختیار انسان پر دلالت کرتاہے :

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ )(۱) -جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو اِرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

( لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ )(۲) - آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کو سناُ تھا تو مومنین و مومنات اپنے بارے میں خیر کا گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو کھلا ہوا بہتان ہے۔

( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ) (۳) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی ان ہی سے ملادیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے۔

( وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ) -(۴) - ۔ اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

( وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاء كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءتْ مُرْتَفَقًا ) -(۵) - اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے ہم نے یقینا کافرین کے لئے اس آگ کا انتظام کردیا ہے جس کے پردے چاروں طرف سے گھیرے ہوں گے اور وہ فریاد بھی کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو چہروں کو بھون ڈالے گا یہ بدترین مشروب ہے اور جہنم ّبدترین ٹھکانا ہے۔

( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ )(۶) - ۔ اس کے لئے سامنے اور پیچھے سے محافظ طاقتیں ہیں جو حکم هخدا سے اس کی حفاظت کرتی ہیں اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی کسی کا والی و سرپرست ہے۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا )(۷) - یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

( إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ ) -(۸) - اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے۔

____________________

۱ ۔ فصلت ٤٦

۲ ۔ نور١٢

۳ ۔ طور٢١ ۔

۴ ۔ نجم٣٩۔

۵ ۔ کہف ۔۲۹

۶ ۔ رعد ۱۱۔

۷ ۔ انسان۳۔

۸ ۔ رعد١١۔


دوسرا دستہ آیاتوں کا جو فقط ارادہ الہی کر مؤثر جانتا ہے :

( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) -(۱) - اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے۔

( وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ )(۲) -۔ اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے ۔

( وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا )(۳) - اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

ان دو دستہ آیتوں کو اگر جمع کرے تو قول الامر بین الامرین محقق پائے گا ۔ اور ثابت ہوجائے گا کہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ۔

جمع کیسے کیا جائے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر مفسرین اور متکلمین کی نگاہ میں آیات قرآنی کے درمیان ظاہری تعارض ہے نہ حقیقی ۔ دوسری بات یہ کہ خود تعارض دو طرح کے ہیں:

الف: ایک بات دوسری بات کی صراحتا نفی کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص) ماہ سفر میں رحلت پاگئے ۔ دوسرا کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص)کی ماہ صفر میں رحلت نہیںہوئی ۔ یہاں پر دوسرا جملہ پہلا جملہ کی صراحتا نفی نہیں کرتا ۔ لیکن دوسرے جملے کی تصدیق اور سچائی اگر ثابت ہوجائے تو پہلے جملے کی مفاد کاملا باطل اور جھوٹ ثابت ہوتی ہے ۔ مثال وہی لیں : اگر ایک نے کہا پیامبر اسلام (ص) ماہ صفر میں رحلت کرگئے ۔ دوسرا کہے ماہ ربیع الاول میں رحلت کرگئے ہیں۔ اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کی رحلت ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے خود بخود پہلا قول باطل ہوجاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو اختیار انسان اور قضای الہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، کس نوع کا تعارض ہے ؟ کیا یہ آیتیں صراحتا ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں یا نہ؟ بلکہ ایک دستہ آیات کی سچائی اور مفاد کو قبول کرے تو دوسرے دستے کی نفی ہوتی ہے ؟

جواب: قرآنی آیتیں ایک دوسرے کہ مسلما اور صراتا نفی نہیں کرتی ۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ ایک دستہ آیات کہے کہ ساری چیزین مقدر ہوچکی ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی بھی چیز مقدر نہیں ہوتی ہیں ۔ ایک دستہ کہے کہ ساری چیزیں علم خدا میں موجود ہیں دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی خدا کے علم میں نہیں ۔ ایک دستہ آیت کہے کہ ساری چیزیں مشیت الہی سے مربوط ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی مشیت الہی سے مربوط نہیں ہیں ۔

بلکہ ان دو دستوں کا متعارض خیال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض متکلمین اور مفسرین جو کہتے ہیں کہ ساری چیزیں تقدیر الہی کے تابع ہیں جس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان آزاد نہیں؛ آزادی اور مقدر ہونا ایک دوسرے سے سازگار نہیں ۔ اگر ساری چیزیں خدا کے علم میں ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ جبرا ًوہ فعل انجام پائے و گرنہ علم خدا جہل میں تبدیل ہوجائے گا ۔

لیکن دوسری طرف سے اگر دیکھ لیں کہ یہ کہنا کہ انسان اپنی خوش بختی اور بدبختی میں خود ایک مؤثر عامل ہے ۔ اپنی تقدیر کو اپنے ہی اختیار سے بنا اور بگاڑ سکتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے پہلے تقدیر نامی کوئی چیز نہیں تھی ۔پس ان دو دستوں میں سے ایک دستہ آیات کی تأویل ہونا ضروری ہے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بہت ساری کتابیں تأویل اور توجیہ سے پر ہیں ، کہ گروہ معتزلہ نے آیات تقدیر کی تأویل کی ہے اور اشاعرہ نے آیات اختیار کی ۔

لیکن تیسرا گروہ جو ان تعارض ظاہری کو حل کرے اور ثابت کرے کی قضا و قدر الہی اور اختیار و آزادی کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی ۔

پس یہ تعارض بعض مفسرین اور متکلمین کی کج فہمی اور کم فکری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ وگرنہ اصولا ممکن نہیں کہ کتاب مبین الہی میں تعارض اور اختلاف موجود ہو کہ تأویل کرنے کی نوبت آجائے۔ –(۴) -

____________________

۱ .۔ تکویر ٢٩۔

۲ ۔ مدثر ۵۶۔

۳ .۔ ا نسان،۳۰.

۴ ۔ شہید مطہری ؛ انسان و سرنوشت ،ص ٤٢۔

الامر بین الامرین روایات کی روشنی میں

اس سلسلے میں بہت سی روایات ہمارے ائمہ معصومین(ع)سے نقل ہوئی ہیں نچانچہ بعض کتابوں مثلا بحار الانوار ، تحف العقول ، توحید صدوق، ۔ ۔ ۔ میں امام ہادی(ع) سے اس خط کو نقل کیا ہے جس میں جبر اور تفویض کے باطل ہونے کو ثابت کرچکے ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

فاما الجبر الذی یلزم من دان به الخطاء فهو قول من زعم ان الله تعالی اجبرالعباد علی المعاصی وعاقبهم علیها و من قال بهذا القول فقد ظلم الله فی حکمه و کذبه وردّ علیه قوله : ولا یظلم ربک احداً(۱) - اور جب نامئہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔

( ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ) -(۲) - یہ اس بات کی سزا ہے جو تم پہلے کرچکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔

( إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ) -(۳) - اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں ۔

پس جس نے بھی یہ گمان کیا کہ وہ مجبور ہے تو گویا اس نے گناہ کیا ۔ اور اس نے اپنی گناہوں کو خدا کے ذمہ ڈال دیا ۔ اور یہ ظلم ہے ۔ اور جس نے بھی خدا پر ظلم کیا گویا اس نے اس کی کتاب کو جٹھلایا ۔ اور امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ جو بھی کتاب خدا کو جٹھلائے وہ کافر ہے ۔

امیرالمؤمنین (ع) سے جب عبایہ بن ربعی الاسدی نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا کہ کس کی وجہ سے ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کاموں کو انجام دیتے ہیں ؟

فرمایا کیا تم نے استطاعت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے؟ اسے تو نے خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے یا خدا کی مدد کے بغیر ؟

عبابہ خاموش ہوا تو امام(ع)نے اصرار کیا ، کہو اے عبایہ! تو اس نے کہا یا امیر المؤمنین (ع)کیا کہوں؟

امام(ع)نے فریا یا : اگر تو کہے خدا کی مدد سے حاصل کی ہے تو تمہیں قتل کروں گا ۔ اور اگر کہے خدا کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے تو بھی قتل کروں گا ۔

عبایہ نے کہا: پس یا امیر المؤمنین کیا کہوں؟!

امام نے فرمایا : کہو کہ استطاعت کو تو اس خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے جو خود استطاعت کا مالک ہے اور اگر تمہیں عنایت کرے تو یہ اس کی عطا ہے اور اگر تجھ پر بند کرے تو بلا ہے ۔ اور وہی مالک ہے ان چیزوں کا جو ہمیں دی گئی ہیں ۔

اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ جس چیز کا بھی خدا تعالی ہمیں مالک بنا دے اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی ۔(۴) -

____________________

۱ ۔ سورہ کہف٤٩۔

۲ ۔ حج١٠۔

۳ یونس٤٤۔

۴ ۔ فی الجبر والقدر ، ص ٢٥٥۔


25

26

27