آسان مسائل (حصہ اول) جلد ۱

آسان مسائل (حصہ اول) 0%

آسان مسائل (حصہ اول) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

آسان مسائل (حصہ اول)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 9588
ڈاؤنلوڈ: 2376


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9588 / ڈاؤنلوڈ: 2376
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ اول)

آسان مسائل (حصہ اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

نام کتاب: آسان مسائل (حصہ اول)

فتاوی: حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی سیستانی مدظلہ العالی

ترتیب: عبد الہادی محمد تقی الحکیم

ترجمہ: سید نیاز حیدر حسینی

تصحیح: ریاض حسین جعفری فاضل قم

ناشر: مؤسسہ امام علی،قم القدسہ، ایران

کمپوزنگ: ابو محمد حیدری

توجہ

وہ احکام شریعہ کہ جو دو بریکٹوں () کے درمیان بیان ھوۓ ھیں، ان سے مراد احتیاط ھے، آپ کو اختیار ھے کہ احتیاط واجب کی صورت میں اسی پر عمل کریں یا پھر اس مسئلہ میں کسی دوسرے مجتھد کی تقلید کریں، لیکن اس میں بھی اعلم کی مراعات ھونی چاہئے۔

کتاب مستطاب "آسان مسا‌ ‎ ئل حصہ اول" کو سپرد قرطاس کرنے اور پھر اس کو مجتھد العصر حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی الحسینی سیستانی مدظلہ العالی کے فتاوی مطابق سر انجام دینے کا کام آنجناب کے دفتر نجف اشرف (عراق) میں ۴ ربیع الاول ۱۴۱۶ھ کو اختتام پہنچا۔

دفترمرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی الحسینی سیستانی مدظلہ العالی

قم المقدسہ، اسلامی حمھوری ایران

تعارف مؤسسہ

'ادارہ امام علی علیہ السلام' ایک ایسا ادارہ ھے جو ان خالص اسلامی علوم کے نشر کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ھے۔۔۔۔ جواہل بیت علیہم السلام سے منسوب ھے۔ اور ثقافتی سطح کے اغتبار سے ماہرین کے قلم کےذریعہ ایک ایسے نۓ انداز میں اسلامی علوم کو نشر کرتا ھے کہ جو موجودہ زمانے کے طالب علم کے لیے مناسب ھے۔

اس بنا پر اس ادارہ نے اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کے تشنہ حضرات تک ان علوم کو کثرت کے ساتھ پہنچانے میں اپنی انتہا ئی کوشش صرف کردی اور ان کتابوں کی اشاعت بہترادبی شرح وتفسیر سے مزین ھر عمر سے تعلق رکھنے والی ذھنیت سے قریب ھے۔

لہذا یہی وجہ ھے کہ ادارہ نے ھرملک اور شہر کی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ مقامی دانشوروں اوراہل قلم حضرات سے روابط پیدا کئے ہیں تاکہ مکتب علوم اہل بیت علیہم السلام کی ترویج وتبلیغ کے لئے شبا نہ روز کام کیا جا سکے۔۔۔ اور تشنگان علوم محمد وآل محمد علیہم السلام تک معتبر اور مستند کتب پہنچائی جاسکیں۔۔

اللہ تعالی سے ہماری دعا ھے کہ وہ عامل اور پیروکاران مذھب اہل بیت علیہم السلام کو اپنی رضایت حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔

[والحمد لله رب العالمین ]

مقدمہ

( رب اشر ح لی صدری و یسرلی امری و احلل عقدةمن لسانی یفقهوا قولی )

اے میرے رب ؛میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے تاکہ وہ میری بات کو سمجھ سکیں۔،،

الحمد لله رب العالمین والصلا ة والسلام علی سیدنا محمد وآله الطیبین الطاهرین

میں نے کوشش کی ھے کہ میری کتاب ،،الفتاوی المیسرہ،، کی روش سادہ، عام فہم، آسان، مکلفین ومولفین اور قارئین کے لئے جوروزمرہ اور عام بول چال کی زبان ھے، اس پرمبنی ہواور میں نے حتی الامکان کوشش کی ھے کہ فقہی پیچیدہ اور مشکل اصطلات کوآسان اسلوب میں بیان کروں۔ اس جدید اور عام فہم اسلوب سے پڑھنے والے کا شوق بتدریج بڑھےگا اور اس کا میلان اس کو اپنے احکام دینی پراحاطہ کرنے کی صلاحیت عطا کرے گا۔

میں نے صرف ان اہم احکام کو اختیار کیا ھے جن کی مکلفین کوضرورت ھے۔۔اگر مکلفین اس سے زیادہ جانناچاہتے ہیں تو وہ اپنی وسعت کے مطابق فقہ اسلامی کی بڑی کتابوں اور دوسرے رسائل عملیہ کی طرف رجوع کریں۔

دوسری بات یہ ھے کہ پڑھنےوالے کے دل میں علم فقہ اورعلم خلاق کی قربت کا احیاء اور اس کے عمل اور روح عمل کے درمیان ربط پیدا کرنا ہے۔

اس کتاب کوتین حصوں پر تقسیم کیاگیا ھے ۔

پہلا حصہ

ہم نے پہلے حصے کو عبادت سے مخصوص کیا ھے اور پھر عبادت کو نمازسے مخصوص قرار دیا ہے کیونکہ نمازاسلام کا وہ اہم رکن ھے کہ جس کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےارشاد فرمایا ھے:

الصلوة عمو د الد ین ان قبلت قبل ما سواها وان ردت ردما سواها

نمازدین کا ستون ھے اگر نماز قول ہوگی تو تمام اعمال قبول ہوجائیں گے اور اگرنماز ردکردی گی تو تمام اعمال ردکردیے جایں گے،،

نماز تمام عبادات کا محور اور ان کا قلب ،اس لیے کہ

لا صلوة الا بطهور

”نمازطہارت کے بغیر نہیں ہو سکتی“

پس بحث کا پیکر چاہتا ہے کہ نمازتک پہنچنے کے لئے تقلید کی گفتگو کے بعد ان نجاسات کا بیان شروع کروں کہ جو طہارت کو ختم کردیتے ہیں۔ پھران مطہرات کاذکر کروں کہ جو طہارت بدن کا سبب بنتے ہیں۔اور ان سب کو بیان کرنےکے بعد نماز تک جا ‎‎ ؤں،کیوںکہ نمازتک پہنچنے کے لیے یہی مناسب ھے کہ نمازجیسی اہم عبادات بھی طہارات و پاکیزگی چاہتی ہیں جیسےروزہ وحج وغیرہ۔

حصہ دوم

میں نے دوسرے حصے کو معاملات سے مخصوص کیا ہے جیسے بیع وشراء [خرید وفروخت] وکالت، اجارہ اور شرکت وغیرہ۔

حصہ سوم

تیسرے حصہ کوانسان کےاحوال سے مخصوص کیا ھے۔جیسے نکاح،طلاق، نذرو عہداور قسم وغیرہ۔

اس کے فورابعد امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں گفتگوکی ھے۔ بحث کا اختتام دو مختلف قسموں پر ختم ھوا ھے اور اس بیان کے مطابق موضوعات کو مندرجہ ذیل سلسلہ کے مطابق منظم کیا ھے =

تقلید سے متعلق گفتگو، نجاست کے متعلق گفتگو، طہارت سے متعق گفتگو، جنابت، حیض،نفاس، استحاضہ،میت،وضو، غسل، تیمم، جبیرہ، نماز،دوسری نمازیں، روزہ، حج، زکو ۃ،خمس، تجارت اور اس کے متعلقات، نکاح، طلاق، نذروعہد، وصیت، میراث،اور امربالمروف ونہی عن المنکر سےمتعلق الگ الگ گفتگو کی گی ھے۔

اس کتاب کا نسخہ نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی حسینی سیستانی مدظلہ العالی کے دفتر کی طرف سےخواہش مند حضرات کو اس تاکید کے ساتھہ دیا گیا ہے کہ یہ آ نحضرت کے فتوؤں کے مطابق ہے اور ان کے دفتر کی طرف سے اس نسخہ پر لازمی و ضروری اصلاح بھی ھوئی ہے تا کہ کتاب کا یہ نسخہ اس کے بعد آنحضرت کے فتوؤں کے مطابق کامل ھوجائے۔

امید ہے کہ اپنے مقصد و ہدف میں کا میاب ہو گیا ہوں اور میں ان لو گوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس کام میں میرے ساتھ تعاون کیا ہے ۔ خصوصی طور پر میں ان رفقاء کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ جو نجف اشرف میں معظم کے دفتر میں بر سر پیکار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھ کو بروز قیامت ان لو گوں کے سا تھ محشور فرما ئے جن کے متعلق قرآن میں ہے :

( اوتی کتابه بیمینه فیقول ها ؤ م اقروا کتا بیه ) جس کا نو شتہ اس کے دا ہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا لو آؤ میرے نو شتہ کو پڑھو اور میرا عمل خالص صرف اسی کے لئے قرار پائے ۔( یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم )

”اس روز نہ مال کام آئے گا اور نہ اولا د کام آئے گی مگر جس کو اللہ قلب سلیم عنایت کردے“

( ربنا لا تو اخذ نا ان نسینا او خطا نا )

”پا لنے والے ہماری خطا و نسیان کی باز پرس نہ فرما“

غفر انک ربنا و الیک المسیر

”اے ہمارے رب تو بخشنے والا ہے اور تیری ہی طر ف باز گشت ہے “

والحمد لله رب العالمین

ترتیب عبدالہادی محمد تقی الحکیم ۔

مکالمہ

میں نے اپنی عمر کے پندرہ سال مکمل کرلئے ہیں آج میں صبح سویرے نیند سے بیدار ہوا، تو میں نے محسوس تک نہ کیا کہ آج میرا دن دہشت، ناگہانی انتظار، فخر، جدوجہد، خوش وخرم، عشق ومحبت اور لذت جیسے احساسات وجذبات کو آشکار کرنے والا ہوجائے گا، اور آج کا دن مجھے پہلے مرحلہ سے نکال کر دوسرے مرحلہ میں داخل کردے گا۔

آج میں اپنی عادت کے مطابق ہر روز کی طرح صبح بیدار ہوا، اور جب بیداری اور ناشتہ کے درمیان معمول کی ضروریات سے فارغ ہوا، تو میں نے والد کے چہرے پر ایسے تاثرات کو دیکھا کہ جس سے مانوس نہ تھا میں اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ میری انہوں نے کون سی ایسی اہم بات دیکھی ہے کہ جس نے ان کو متاثر کیا ہے۔

کبھی آنکھیں عادت سے زیادہ کھل جاتی ہیں جیسا کہ فرصت کے وقت دونوں آنکھیں بند رہتی ہیں اور دونوں ملے ہوئے ہونٹ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی چیز سے بھرے ہوئے ہوں اور کسی بات کو کہنے کے لیے آمادہ ہوتے ہوئے لوگوں کو جوش وخروش میں لانے کے لیے کھلتے ہیں پھر بند ہوجاتے ہیں اور انگلیاں جو منظم طور پر حرکت میں آتی ہیں اور جلدی جلدی چلتی ہیں اور دسترخوان پر کھانے کے لیے انگلیوں کے پوریں کس طرح متحرک رہتے ہیں یہ چیزیں اس بات سے آگاہ کرتی ہیں کہ دل کسی بات سے مملو ہے اور قریب ہے کہ اپنی پر ظرفی کی بناپر پھٹ پڑے اور اپنی بات سے آگاہ کرے۔

میں صبح ناشتہ پر دسترخوان کے دوسری طرف اپنے والد کے سامنے بیٹھا تھا والد صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے،ان کے چہرے پر نشاط اور خوشی کی لہر ہویدا تھی اور خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔

سکوت توڑتے ہوئے بولے:بیٹا آج آپ اپنی عمر کے پہلے مرحلہ کو رخصت کرکے ایک نئے مرحلہ کا سامنا کررہے ہیں آج آپ شارع مقدس کی نظر میں ایک کامل شائستہ مرد ہوگئے ہیں کیونکہ آج آپ مکلف ہوگئے ہیں پروردگار عالم نے آپ پر ایک عظیم احسان کیا ہے کہ وہ فرائض کے ذریعہ آپ سے مخاطب ہے، اور آپ پر اس کی مہربانی ہے کہ اس نے امر کیا اور آپ کو منع کیا ہے۔

اے میرے نور چشم: آپ شارع مقدس کی نظر میں بچپن کے زمانہ میں مکلف نہ تھے اور سن بلوع کے بعد (جو احکامات وارد ہوتے ہیں ) وہ آپ تک نہ پہنچے تھے لیکن آج ہر چیز بدل گئی ہے آج آپ مردوں کی طرح ایک مرد ہیں خطاب کی بناپر آپ کی مرد انگی اور آپ کی کامل شائستگی کا اعتراف کیا گیا ہے لہٰذا اب آپ اس پختہ مرحلہ کو پہنچ چکے ہیں اور آپ نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا ہے تو اللہ نے آپ پراحسان کیا اور آپ سے اس نے اپنے اوامرو نواہی کے بارے میں خطاب کیا ہے۔

بیٹا!

میرے مہربان باپ!معاف کیجئے گا، میں آپ کے مقصد کو نہیں سمجھ سکا آپ وضاحت کریں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کرتے ہوئے مجھے اپنا حکم دیا، کیا امر(حکم) بھی احسان ہوتا ہے، یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟

باپ!

اے میرے بیٹے!دیکھئے میں آپ کو مثال سے واضح کرتا ہوں کہ آپ جان لیں کہ اس کا امر کا آپ کے اوپر کیوں احسان ہے مثلاًآپ ابھی) مدرسہ میں ایک طالب علم ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ان میں کچھ ذہین، کچھ ہوشیار، محنتی، فرض شناس اور متفکر ہیں آپ سب ایک ایسے نئے امر کے لیے آمادہ کھڑے ہیں جو آپ تک اچانک پہونچنے والاہے آپ کھڑے ہیں اور آپ کے پاس سے مدرسہ کا پرنسل گزررہا ہے جب آپ کی اور ان کی آنکھیں چار ہوں تو ان کی نگا ہیں آپ پر ٹھہر جائیں اور وہ آپ سے شروع ہی میں اپنی رضایت کا اعلان کردیں پھر آپ سے ملائمت ونرمی کے ساتھ پیش آئیں اور مسکرا کروہ آپ کے ایک ایسے وسیع مرحلہ کی خوشخبری دیں کہ جس میں آپ سن بلوغ کو پہونچے ہوں اور اس بات کے معترف ہوں کہ اس نئے مرحلہ کی آپ کامل اہلیت رکھتے ہیں لہٰذاآپ کو آپ کے دوستوں سے چن کر اپنے اس امرسے مخصوص کیا کہ جس کی لیاقت کا آپ کے لئے اعتراف کیا تھا۔

کیا آپ اس روز اس امر کی بناپر کسی خاص قسم کی عزت کا خیال نہیں کرتے؟ اور جس کا آپ کو امر کیا گیا ہے ؟ اس کی پسندید گی کا اظہار نہیں کرتے؟

کیا اس کا اعتبار مشکوک ہے، جب کہ نفس پر بھروسہ ہے کیونکہ اس امر کا خطاب آپ سے ہے نہ کہ آپ کے دوستوں سے وہ حکم کررہا ہے کہ اس امر کاا جراء جلد ہو جانا چاہیے کہ جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔

یہ تما م باتیں اس وقت ہیں جب کہ حاکم مدرسہ کا پرنسپل ہو، پس آپ کا شعور اس وقت کیسا ہوگا جب کہ سردارایک رئیس کل ہو؟ بلکہ اس وقت کیا حال ہوگا جس وقت حاکم اور تفتیش کرنے والا ایک بڑا سردار ہو؟ آپ کا شعور اس وقت کیسا ہوگا جب کہ آمرہو ۔۔ ؟

میرے والد حاکم مخاطب کو درجہ بدرجہ گناتے جاتے تھے، اور ہر درجہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجھ پر اس مطلب کو روشن کرتے جاتے تھے، کہ اس سے پہلے وہ مطالب ومفاہیم مجھ پر مخفی ومستور تھے تو ایسا لگا کہ جیسے میں گہری نیند سے جاگاہوں، اور جب میرے والد نے امر خدا اور اس کے خطاب کو اور اس کے فریضہ کو مجھ سے بیان فرمایا تو میں نے ایک آہ کھینچی اور کہا ا للہ مجھ سے مخاطب ہے مجھ حکم دیتا ہے مجھے ۔۔۔مجھے

ہاں فرزند اللہ آپ سے مخاطب ہے آپ پندرہ سال کے ہوگئے ہیں لہٰذا آپ پر فرض عائدہ کیا جارہاہے اس وقت آپ پندرہ سال کے ہوگئے ہیں لہٰذا آپ کو حکم دیا جارہاہے،اورآپ کو روکا جارہا ہے۔

کیا میں ان تمام کرامات کا مستحق ہوں؟کیا ان تمام چیزوں کا خالق مجھ کو شرف بخش رہا ہے؟ پس جبارارض وسماوات نے مجھے مکلف بنایا ہے، مجھ پر مہربانی کرکے مجھے حکم دے رہا ہے ، اور مجھے روک رہا ہے۔۔کتنا شیریں میرا یہ دن ہے اور کتنا اچھا یہ راستہ ہے اور کتنی بہترین زندگی ہے ۔

اے فرزند: آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے خالق کے اس امر کی اطاعت کریں کہ جو آپ کو دیا گیا ہے اور آپ کو اس سے مشرف کیا گیا ہے۔

بلکہ میں انتہائی کوشش کروں گا کہ اپنے حبیب کے احکام اور اس کے تمام فرائض کو ان کے حکم کے مطابق ایک چاہنے والے عاشق کی طرح انجام دوں۔لیکن ۔۔

لیکن کیا ؟

لیکن وہ فرائض کیا ہیں کہ جن کو مجھ پر فرض کیا گیا ہے اور وہ کون سے احکام ہیں کہ جو مجھ سے متعلق ہیں؟

وہ احکام شرعیہ پانچ ہیں

( ۱) واجبات

( ۲) محرمات

( ۳) مستحبات

( ۴) مکروہات

( ۵) مباحات

واجبات کیا ہیں؟ محرمات کیا ہیں ؟ مستحبات کیا ہیں؟مکروہات کیا ہیں؟ اور مباحات کیا ہیں؟

۱ ۔واجبات

ہر وہ چیزجس کا انجام دینا آپ پر لازم ہے وہ واجبات میں سے ہے مشلاًنماز ،روزہ ،حج،زکوۃ،خمس اور امر بالمعروف وغیرہ ۔

۲ ۔محرمات

جس چیزکا ترک کرنا آپ پر ضروی ہے، وہ محرمات میں سے ہے مثلاًشراب کا پینا، زنا، چوری، اسراف، جھوٹ وغیرہ۔

۳ ۔مستحبات

جس چیز کا انجام دینا بہتر ہو، واجب نہ ہو اور اس پر ثواب ہو اگر وہ فعل قصد قربت کی نیت پر انجام دیا ہو تو وہ مستحبات میں سے ہے، جیسے فقیر کو صدقہ دینا، صفائی، حسن خلق، مومن کی حاجت کو پورا کرنا، نماز جماعت، خوشبو لگانا وغیرہ۔

۴ ۔مکروہات

ہر وہ چیز جس کا ترک کرنا اور اس سے دوری اختیار کرنا بہتر ہو اور وہ حرام نہ ہوجائے اگر اس کو قصد قربت کی بناپر ترک کیا جائے تو اسی پر ثواب ہے اور وہ مکروہات میں سے ہے جیسے مرد عورت کی شادی میں تاخیر کرنا، مہر کا زیادہ ہونا، اگر مومن ضرورت کے وقت قرض مانگے اور یہ دینے کی طاقت رکھتا ہو تو اس کے سوال کا رد کرنا وغیرہ۔

۵ ۔مباحات

لیکن اگر کسی چیزمیں کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو تو وہ مباحات میں سے ہے جیسے کھانا پینا،سونا،بیٹھنا، سفر،تفریح وغیرہ۔

میں کس طرح واجبات کو محرمات سے اور محرمات کو مکروہات سے جدا کروں؟ کیسے معلوم کروں کہ یہ واجب ہے، اس کو انجام دینا میرے لیے لازمی ہے ا ور یہ حرام ہے، اس سے میں بچوں اور اس کو انجام نہ دوں اور اس سے دوری اختیار کروں؟ کس طرح پہچانوں کہ۔۔؟

میرے والد میری بات کو کاٹ کر مسکرائے پھر میرے والد نے مجھ پر شفقت ورحم کی نکاہ ڈالی، وہ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر کہتے کہتے رک گئے کیونکہ خاموش رہنے میں بہتری تھی، پھر رک کر ایک گہری فکر میں ڈوب گئے۔

ان کی گہری اور لمبی خاموشی کے متعلق میں اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ میرے والد کے ذہن میں کیا چیز گردش کررہی ہے؟صرف میں اس چیز کا منتظر تھا کہ ان کی بخشش کا ابرکب برسے؟ خاموشی وتاخیران کی پیشانی پر چھائی ہوئی تھی پھروہ دوحصوں میں تقسیم ہوگئی پھر اس نے پورے چہرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہونٹوں کی طرف پہنچ گئی جو کہ ایک نحیف آواز کے ساتھ کھلے تھے کہ جس میں رحم وشفقت بہت زیادہ تھا۔

آپ واجبات محرمات سے اور مستحبات کو مکروہات سے اس وقت تمیز کرسکتے ہیں جب کہ آپ علم فقہ اسلامی کی کتابوں کو پڑھیں اس وقت آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بعض ارکان ہیں اور بعض اجزاء وشرائط ہیں کہ جن کا ادا کرنا واجب ہے اور بعض ایسے اعمال ہیں کہ جن کا تنہا بجالانا ممکن نہیں بعض کو بعض کے لیے انجام دیا جاتاہے۔

آپ فقہی کتب کی طرف رجوع کریں آپ اپنے آپ کو ان میں کھویا ہوا پائیں گے پھر آپ پرآ شکار ہوگا کہ فقہ اسلامی ایک وسیع علم ہے اس علم میں سینکڑوں کتابیں لکھیں جاچکی ہیں اور علماء اعلام نے مسائل واحکام الٰہی پر سیر حاصل بحث کی ہے، اوردقیق تحقیق کی ہے کہ جس کی نظیر دوسرے علوم انسانی میں کم ملتی ہے۔

کیا میرے اوپر ان تمام کتابوں کا دیکھنا واجب ہے؟

نہیں بلکہ آپ کے لیے کافی ہے کہ ان کتابوں میں مختصر اور جو آپ کے لیے آسان ہو اختیار کریں۔

آپ ان کتابوں کو دوحصوں میں منقسم پائیں گے۔

ایک حصہ عبادات سے مخصوص ہے اور دوسرا معاملات سے مخصوص ہے۔

عبادت اورمعاملات کیا ہیں؟

آپ فقہ اسلامی کی کتابوں کو دیکھیں آپ پر ہر چیز واضح ہوجائے گی میں نے لائبریری جانے کا ارادہ کیا تاکہ فقہ اسلامی کی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کروں میں نے ارادہ کیا اور میرا شوق بڑھ گیا اور جس وقت میری نگاہیں ان کتابوں پر پڑیں تومیری خوشی کی انتہا نہ رہی میری طبیعت میں ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوا ۔ہاں یہ فقہ اسلامی کی کتابیں ہیں میں ان کتب کا مطالعہ کروںگا اور میں ان میں اپنے مسائل کے شافی جوابات پالوں گا۔

میں اپنے کمرہ کی طرف اپنی کامیابی پر فخر کرتا ہوا لوٹا اسی وقت مرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے اہداف اور حوائج تک پہنچ گیا میری اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہوگیا، اپنی کتاب کو جلدی سے کھولاہی تھا کہ میری ذہن میں چند نامانوس خطوط پہلے ہی مرحلہ میں مرتسم ہوگئے اور بہت جلد وہ ایک پوشیدہ خوف میں تبدیل ہوگئے

میں نے کافی پڑھا مگر کسی بامقصد چیز کو نہ سمجھ سکا ذرا آپ سوچئے میں نے اپنی اس حیرت کا (کہ جو ایک خاص قسم کی غیر مانونس حیرت تھی) کس طرح اعلان کیا ہوگا؟

میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ نہ پڑھنا چھوڑوں گا اور نہ غور وفکر کو بلکہ میں بار بار پڑھتا رہوں گا اور غور وفکر کرتا رہوں گا تاکہ میں بھر پور استفادہ کر سکوں۔

وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا میرا سینہ سخت دباؤ اور گھٹن کی وجہ سے خستگی محسوس کررہا تھا اور میں بار بار پڑھ رہا تھا مگر کسی چیز کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔

ناکامی کے بادل میرے گرد جمع ہونا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ حزن وملال میں تبدیل ہوگئے جو میری دونوں آ نکھوں سے عیاں تھے۔

میں نے کافی مطالعہ کیا اور میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں کسی بامقصد چیز کو نہ سمجھ سکا۔

میں نے ایسے کلمات پڑھے جن کو میرے کانوں نے اس سے پہلے سنا تک نہ تھا پس میں نہیں جانتا تھا کہ ان کلمات کے کیا معنی ہیں؟

”النصاب، والبینة،والمئونة، والارش،والمسافة الملفقة،والحول، ولدراهم البغلی،وآبق،والذمی پس میں العلم الا جمالی،والشبهة المحصورة،والاحکم التکلیفی،والحکم الوضعی،والشبهة الموضوعیة والاحوط لزوما، والتجزیی فی الاجتهاد والصدق العرفی،والمناط والمشقة والتجزیی فی الا جتهاد والصدق العرفی،وامناط والمشقة النوعیة“

ان اصطلاحات کو نہیں جانتا تھا کہ ان کا مقصد کیا ہے؟

پھر میں نے کچھ ایسے جملے پڑھے کہ اس سے پہلے میں ان سے ناآشناتھا اور کچھ ایسے جملے کہ جو کچھ قضیوں کا علاج ہیں، اور جن کا میری موجودہ معاشی زندگی میں وجود نہ تھا میں نہیں جانتا تھا کہ ان کا کیوں ذکر کیا گیاہے ان کتابوں میں کچھ جملے ایسے بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً”تشقیق وتفریع وعمق، تشطیر دقیق “ احتمالات کے لیے ہیں کہ جنہوں نے اپنے بارے میں مجھے حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔

پس میں نہیں سمجھا کہ اس جملہ سے کیا مراد ہے۔

اذاعلم البلوغ والتعلق والم یعلم السابق منهمالم تجب الزکاة سواء علم تاریخ التعلق وجهل تاریخ البلوغ ۔۔“

”یعنی اگر بلوغ اور تعلق زکوة کا علم ہے کہ بچہ بالغ بھی ہوگیا اور اس کا مال بھی اتنی مقدار تک پہنچ گیا کہ جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے مگر نہیں معلوم کہ بالغ پہلے ہوا یا مال کا نصاب پہلے ہوا، ایسی صورت میں زکوۃواجب نہیں ہے، چاہے تعلق زکوۃ کی تاریخ کو جانتا ہے اوربلوغ کی تاریخ سے جاہل ہویا تاریخ بلوغ کو جانتا ہے اور تعلق زکوٰۃ کی تاریخ کو نہیں جانتا یا دونوں کی تاریخوں سے جاہل ہو ،، اور اسی طرح مجنون کا بھی یہی حکم ہے کہ جنون عقل سے پہلے ہواور اگر عقل عارضہ جنوں سے پہلے ہو تو پس اگر تاریخ تعلق کو جانتا ہے تو زکوٰة واجب ہے بقیہ صورتوں میں واجب نہیں ہے۔

اور نہ جملہ ”الظن بالر کعات کالیقن

”یعنی رکعات کاظن مثل یقین کے ہے“لیکن ظن بالافعال کا اس طرح ہونامحل اشکال ہے پس اس میں احوط یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے بجالانے کا اس کے محل میں ظن ہو نماز کو پورا کرے،اور پھر اس کا اعادہ کرے اور اگر محل سے گزار گیا اور کسی فعل کے انجام نہ دینے کاظن ہوتو پلٹ کراس فعل کو انجام دے اور بعد میں نماز کا اعادہ بھی کرے) کے مطلب کو سمجھا اور نہ جملہ کو:

الاقوی ان التیمم رافع للحدث رفعاًناقصاً لایجزیی مع الاختیار لکن لاتجب فیة نیةالرفع ولا نیة الا ستباحة للصلاة مثلا

”اقوی یہ ہے کہ تیمم حدث کو دور کرنے والاہے، اور یہ رافع ناقص ہے اختیار کی صورت میں تیمم مجزی نہیں ہوسکتا، لیکن اس میں حدث کے رفع ہونے اور نماز کے مباح ہونے کی نیت واجب نہیں ہے“۔

اذا توضافی حال ضیق الوقت عن الوضوء

”یعنی اگر کسی نے نماز کے تنگ وقت میں وضو کیا“ اگر نماز ادا کرنے کے ارادہ سے وضو کیا ہے تو نماز باطل ہے اور اگر کسی دوسرے مقصد کے تحت وضو کیا ہے تو نماز صحیح ہے۔

اور اس جملہ کے مقصد کو نہ سمجھ سکا۔

یکفی استمرارالقصد بقاء قصدنوع السفر وان عدل عن الشخص الخاص

”استمرار قصد میں نوع سفر کا قصد کافی ہے اگرچہ کوئی شخص اس قصد سے عدول کرلے“

اور نہ اس جملہ کا مقصد سمجھ سکا۔

فلواحدث بالاصغر اثناء الغسل اتمه وتوضاء

اگر غسل کے دور ان حدث اصغر صادر جائے تو غسل کو پورا کرلے اور وضو بھی کرے،لیکن احتیاط ترک نہ ہو یعنی مافی الذمہ کی نیت کے ساتھ بقیہ غسل ”بقصد ماعلیه من التمام اوالاتمام “کرے اور وضو بھی کرلے ۔

اور نہ اس جملہ کے معنی سمجھ سکا۔

مناط ا لجهرو الاخفات الصدق العرفی

”نماز میں جہرو اخفات کا معیار عرف ہے“

اور بہت سے جملے جو میری نظروں سے گزرے مگر میں ان کے اصل معنی کو نہ سمجھ سکا ۔

میں حیران وسرگرداں ہوگیا،اور میں نے فقہ اسلامی کی ان اصطلاحات اور جملوں کو سمجھنے پر پوری توجہ مبذول کی ۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے کس طرح حلال خدا کو حاصل کیا کہ اس کو انجام دوں؟ اور کس طرح حرام کو حاصل کیا کہ جس سے میں اجتناب کروں میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا میری آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں، میں نے دعا کی :الہٰی: میں جانتا ہوں کہ تونے مجھے مکلف کیا ہے‘مگر نہیں جانتا کہ کیوں مجھے مکلف کیا ہے؟

الٰہی: مجھے اس چیز کی معرفت عنایت کر جیسے تو نے مجھ سے طلب کیا ہے، تاکہ میں اس کو انجام دے سکوں۔

اے میرے خدا!میری مدد کرکہ جومیں پڑھوں اس کو صحیح طور پر سمجھ سکوں ۔فقہ کی کتابوں کے روشن وآ شکار ہونے پر میری مدد کرکہ تو کیا چاہتا ہے؟

تاکہ میں اس پر عمل کروں جو تو چاہتا ہے؟اصل معنی کو نہیں سمجھ سکا۔

رات کی تاریکی چھا چکی تھی میں اپنے والد کا دستر خوان پر انتظار کرہا تھا۔

تھکاوٹ،خستگی، بیقراری میری آنکھوں اور پلکوں سے اول شام ہی سے آشکارونمایاں تھی پھر میں نے جو کچھ انجام دیا تھا وہ خوشی کے لئے تھا میری اس خوشی میں رنج وغم کی آمیزش ہوگئی یعنی میری خوشی میرے غم میں بدل گئی۔

جب ہمارے لیے دستر خوان بچھا اور میرے والد تشریف لائے تو اس وقت میرا دل دھڑک رہا تھا میرا سانس اکھڑا ہوا تھا اور میرے کان کادرجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ گویا ناگہانی بخار کی بناپر تپ رہاہو شرم وحیرت وپریشانی اور تردد نے میرے فکر وشعور پر غلبہ کرلیا تھا اور میں تمام ان پڑھے ہوئے جملوں اور کلمات کو تیزی کے ساتھ اپنے دل میں دہرارہا تھا۔

اور میں اپنے اس عزم وارادہ میں کسی سے مدد کا طالب تھا ساتھ ہی میرے اندر جو نقص۔( کمی ) تھا اس کا بھی معترف تھا لہٰذا میں نے اپنے والد سے عرض کیا :

میں نے فقہ اسلامی کی کتابوں کو دیکھا مگر انہوں نے مجھ پر غلبہ حاصل کرلیا،اور اپنا دل کھولنے سے میرے لیے انکار کردیا یعنی میں ان کے مطالب ومفاہم کو نہ سمجھ سکا) اور میں نے یہ دد آخری کلمے اتنے دہرائے کہ میرے باپ کی آنکھوں کی پتلیاں ایسی (حیرت سے) گھومنے لگیں کہ جیسے وہ بہت زمانہ سے کسی گہری فکر میں ڈوبی ہوئی ہوں پھر انہوں نے مجھے ایسے دیکھا جیسے تھکاماندہ ایک طویل سفر سے پلٹتا ہے وہ میری آنکھوں کی طرف دیکھنے لگے، معلوم ہوتا تھا کہ وہ بغیر ہونٹ کھولے پوشیدہ، گہرے رنج وغم کی آواز میں کچھ کہنا چاہتے ہیں؟مجھے بھی آپ کے تجربہ کی طرح تجربہ حاصل ہے، جب میں آپ کی عمر کا تھا، میں نے فقہ اسلامی کی کتابوں کو پڑھا مگر میں کسی مقصد کو آپ کی طرح نہ سمجھ سکا، مگر میں آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں اور فقہ اسلامی کی کتابوں کو سمجھنے سے اپنی عاجزی کا اعتراف کرتا ہوں۔

میری تربیت اور شدید شرم وحیا میرے اور والد کے سوال کے درمیان بعض بچپنے اور مرد ہونے کی خصوصیات کے بارے میں حائل تھی، میں نہیں جانتا تھا کہ بلوغ ایک معین عمر کے علاوہ بھی متحقق ہوتا ہے لہٰذا میں نے اپنے باپ کی بات کو کاٹتے ہوئے عرض کیا۔

سوال: کیا بلوغ اس کے علاوہ بھی( کسی چیز سے) ثابت ہوتا ہے؟

جواب: ہاں اے فرزند مرد میں اگر ان تین علامتوں میں سے کوئی ایک علامت پائی جائے تو بلوع ثابت ہو جاتاہے۔

علامت بلوع

۱ عمر کے پندرہ سال قمری (چاند) پورے ہوجائیں۔

۲ منی کا نکلنا، چاہے یہ جنسی وصال سے نکلے ، یا احتلام کی وجہ سے یا ان دو کے علاوہ کسی اور بناپر نکلے۔

۳ ناف پر سخت بالوں کا اگنا یہ سخت بال سر کے بالوں سے مشابہہ ہیں تاکہ ان بالوں سے وہ بال الگ ہوجائیں کہ جو نرم وملائم ہیں اور ا کثر جسم کے حصوں پرپائے جاتے ہیں مثلاً ہاتھوں کے بال (مولف )

سوال: ناف سے کیا مراد ہے؟

جواب: ناف، پیٹ کے نیچے کے حصے اور عضوتناسل سے ملے ہوئے اوپر والے حصہ کے درمیان واقع ہے۔

یہ مرد کے بالغ ہونے کی علامتیں ہیں۔لیکن عورت ۔۔؟

عورت جب اپنی عمر کے نوسال قمری حساب سے پورے کرلیتی ہےتووہ بالغ ہوجاتی ہے۔

میں نے آج اپنا قصور اور اپنی عاجزی کو تمام فقہ اسلامی کی کتابوں کے بارے میں آپ سے بیان کردیا لہٰذا آپ میری حاجت کے تحت میرے لئےکچھ جلسے منعقد کر یں کہ جس میں ہروہ چیز کہ جس کا سمجھنا میرے لئےدشوار ہے شرح وبسط کے ساتھ اس طرح بیان کریں کہ جس کو میں سمجھ سکوں اور اس کو بیان کرسکوں اور حکم شرعی کو اس طرح حاصل کرلوں جس طرح خداواند عالم نے میرے لیے معین کیا ہے اور جس کا مجھے حکم دیا ہے۔

شاباش اے فرز ند: اگر ہمارے جلسے گفتگو اور سوال وجواب کے طریقہ پر ہوں؟

جیسا آپ پسند فرمائیں۔

سوال: لیکن ہمارے ان جلسوں کی ابتداء پہلے کس گفتگو سے ہوگی؟

جواب: ہم تقلید سے اپنی گفتگو کا آغاز کریں گے کیونکہ یہی اس چیز کی بنیاد ہے جو ہمارے لیے مختلف مسائل کو ہماری فقہ کے مطابق بیان کرتی ہے ہم اس مئلہ پر متفق ہوگئے۔