آسان مسائل (حصہ اول) جلد ۱

آسان مسائل (حصہ اول) 0%

آسان مسائل (حصہ اول) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

آسان مسائل (حصہ اول)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 9492
ڈاؤنلوڈ: 2268


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9492 / ڈاؤنلوڈ: 2268
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ اول)

آسان مسائل (حصہ اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

تقلیدپر گفتگو

میرے والد فرمانے لگے کہ اب ہم تقلید پر گفتگو شروع کرتے ہیں لیکن بحث شرو ع کرنے سے پہلے میں آپ کے لیے تقلید کے معنی بیان کرتا ہوں۔

تقلید

فکرو نظر کے بغیرکسی مسئلہ میں کسی مجہتد کی طرف رجوع کرنا تاکہ اگر وہ کسی چیز کو انجام دینے کی رائے دے تو اس کو کیا جائے، اورجس چیز سے بچنے کی رائے دے اس سے بچا جائے پس گویا کہ آپ کا عمل اس کی گردن میں مشل ہار کے ڈالاگیا ہے اعتبار سے کہ وہ خدا کے سامنےآ پ کے عمل کا جواب دہ ہوگا۔

سوال: ہم کیوں کر کسی کی تقلید کریں؟

جواب: گزشتہ بحث میں آپ کو معلوم ہوگیا کہ شارع مقدس نے آپ کو حکم دیا ہے اور منع کیا ہے واجبات کا انجام دینا آپ کے لیے لازمی ہے اور محرمات سے منع کیا ہے، جن سے بچنا آپ کے لیے ضروری ہے۔لیکن کس چیز کا آپ کو امر کیا اور کس چیز سے آپ کو روکا؟ بعض اوامر آپ کے لئے شریعت میں ایسے واضح ہیں کہ آپ ان کو اکثر اپنی ضروریات اوراجتماعی زندگی کے درمیان سےمشخص کرسکتے ہیں۔اور بعض نواہی بھی) اس طرح واضح ہیں کہ آپ ان کو زندگی اور اپنے ماحول کے درمیان تمیز دے سکتے ہیں اور اسی طرح زیادہ سے زیادہ واجبات ومحرمات آپ پر اور آپ جیسوں پر مجہول اور نامعلوم رہتے ہیں میرے والد نے مزید فرمایا :

آپ جانتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ نے آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو جمع کرلیا ہے ہر چیز کے لیے ایک حکم وضع کیا ہے پس آپ حکم شرعی کو کس طرح پہچانیں گے کیونکہ آپ اپنی زندگی کے مختلف دور سے گزررہے ہیں۔کس طرح معلوم ہوگا کہ یہ فعل شارع مقدس کے نزدیک حلال ہے۔۔ اس کو انجام دو اور یہ عمل شارع مقدس کے نزدیک حرام ہے اس سے دوری اختیار کرو۔

ذرا سوچیں؟ کیا آپ اپنی تمام ضروریات زندگی میں شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں تاکہ آپ ان سے اپنا شرعی حکم استنباط کرسکیں؟

ایسا کیوں نہیں ؟

اے فرزند: آپ کے زمانہ اور شریعت اسلامیہ کے آنے کے زمانہ میں بہت زیادہ فاصلہ ہے اور اس فاصلہ کی بناپر شریعت کی اکثر نصوص ضائع وبرباد ہو گئی ہیں۔

لغت اور تعبیر کے طریقہ وروش میں تبدیلی واقع ہوگئی ہے اور جھوٹی احادیث گڑھنے والوں نے اپنی بہت سی جعلی احادیث کو ہماری معتبر احادیث میں ملا دیا ہے جس کی بناپر حکم شرعی معلوم کرنے میں مشکل واقع ہوگئی ہے۔

پھر روایات کے نقل کرنے والوں کے لیے (اعتماد واطمینان ) احادیث کے جمع کرنے والوں کی راہ میں ایک بڑی مشکل تھی۔

فرض کریں کہ آپ راویوں کی ان احادیث کو جنہیں انہوں نے نقل کیا ہے اور محفوظ کیا ہے، ان کی صداقت ووثاقت سے آپ مطلع ہوسکتے ہیں اور پھر وہ مفردات احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔۔۔ان کی دلالت انہیں معنی پر ہے کہ جن کو آپ نے مراد لیا ہے اور آپ اس کو اچھی طرح ثابت کرسکتے ہیں لیکن کیا آپ ایسا وسیع، اور عمیق علم رکھتے ہیں کہ جو ایک طویل مقدمہ کو چاہتا ہے۔۔اور ایک گہرا فکر وتدبر چاہتا ہے، تاکہ اس کے بعد جس کو آپ جاننا چاہتے ہیں یا جس کے بارے میں بحث کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کو حاصل ہوجائے ۔

سوال: پھر میں کیسے عمل کروں؟

جواب: آپ اس عمل میں اس کے ماہرین (یعنی فقہاء) کی طرف رجوع کریں۔

اور ان سے اپنے احکام کو معلوم کریں، ان کی تقلید کریں، یہ چیز صرف فقہ ہی میں نہیں ہے بلکہ ہر علم میں یہ بات ہے، سائنس میں جو بھی نئے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے امتیاز کا سرچشمہ اس علم کا اسپیشلسٹ ہونا ہے ۔

اس حیثیت سے کہ ہر علم میں اس کا ایک ماہر اور استاد ہوتا ہے جب بھی کسی عمل میں اس کی حیثیت کے مطابق کو ئی حاجت درپیش ہو تو اس کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے۔

میرے والد نے بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

ہم اس سلسلہ میں علم طب کی مثال پیش کریں گے، جب بھی آپ مریض ہوں گے خدا صحیح وسالم رکھے، تو آپ کیا کریں گے؟

میں طبیب کے پاس جاؤں گا اور اس سے اپنی حالت کو بیان کروں گا تاکہ وہ مرض کی تشخیص کرنے کے بعد میرے لیے مناسب دوا تجویز کرے۔

میرا سوال یہ ہے کہ آپ خود کیوں نہیں اپنے مرض کی تشخیص کرتے؟

اور اپنے لیے دوا تجویز کرتے؟

میں کوئی طبیب تو نہیں ہوں۔

بس اسی طرح علم فقہ کا بھی یہی حال ہے آپ ایک ایسے فقیہ کی طرف رجوع کرنے کے متحاج ہیں کہ جو خدا کے اوا مرو نواہی پہچاننے میں ماہر ہے آپ کا اپنی مشکل شرعیہ کا اس کے سامنے بیان کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ کو اپنی بیماری کی حالت کو بیان کرنے کے لیے ایک ماہر طبیب کی ضرورت پیش ہوتی ہے۔بس جس طرح آپ طبیب کے مخصوص فن میں اس کی تقلید کے محتاج ہیں اسی طرح آپ فقیہ کےمخصوص فن میں اس کی نقلید کے محتاج ہیں ۔

جیسا کہ آپ ایک طبیب فاضل کے بارے میں جستجو کرتے ہیں کہ اپنے فن میں ماہر ہو، خصوصاً جب کہ مرض خطر ناک ہو پس آپ پر لازم ہے کہ ایک عظیم الشان فقیہ کے بارے میں جستجو کریں کہ جو اپنے فن میں ماہر ہو تاکہ اس کی تقلید کریں اور اس سے اپنا حکم شرعی حاصل کریں اور آپ زندگی کے ہر پہلو میں اس سے وابستہ ہیں تاکہ حکم شرعی آپ پر واضح ہوتارہے ۔

سوال: میں کیسے پہچانوں کہ یہ شخص فقیہ ہے؟یا فقہاء میں اعلم اور افضل ہے؟

جواب: میرے والد نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :

دیکھو: میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔آپ کیسے پہنچانیں گے کہ یہ طبیب فاضل ہے یا اطباء میں اپنے مخصوص فن میں افضل ہے؟ تاکہ آپ اس کی طرف رجوع کرسکیں؟ اور اپنا جسم اس کے سپرد کرسکیں اور وہ جیسا مناسب سمجھے ویسا علاج کرے؟

میں نے والد کی خدمت میں عرض کیا:

اس سلسلہ میں جو لوگ علم طب سے وابستہ ہیں یا جو اس کو جانتے ہیں، جواس میں تجربہ کار ہیں۔ ۔۔ ان سے معلوم کروں گا یا لوگوں میں جس کی شہرت زیادہ ہوگی اور اس علمی میدان میں جو بھی زیادہ شہرت رکھتا ہوگا اس کے ذریعہ اس کو پہچانوں گا۔

پس اس قاعدہ کے تحت آپ اس فقیہ اعلم کو بھی پہچان لیں گے۔

آپ کسی ایسے شخص سے سوال کریں جو واجبات کو لازمی طور پر انجام دیتا ہو اور محرمات کو ترک کرتا ہو جو قابل اطمینان ہوکہ جس میں علمی سطح پر اشخاص میں تمیز پیدا کرنے کی قدرت، معرفت اور عدالت زیادہ پائی جاتی ہو۔

یا جو لوگوں کے درمیان مشہور ہوکر یہ فقیہ ہے یا تمام فقہا ءمیں اس کی اعلمیت زیادہ مشہور ہو اس طرح جو چیز آپ کو اس کی شہرت، اس کی فقاہت اور اس کی اعلمیت کے بارے میں وثوق ویقین پیدا کرتی ہے۔

اور کیا جس کی تقلید ہم پر واجب ہے اس کی شخصیت کے معلوم ہو جانے کے بعد فقاہت کی شرط کے علاوہ کوئی اور شرط بھی ہے؟

آپ جس کے مقلد ہیں اس کو مرد، بالغ، عاقل، مومن ، عادل ،حی (زندہ) اور حلال زادہ ہونا چاہئے یعنی اس کی ولادت شرعی قانون وقواعد کے مطابق انجام پائی ہو اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس میں خطاء ونسیان اور غفلت زیادہ پائی جائے گی۔

بہت بہتر میں نے فقہاء اور تقلید کو اجمالی طور پر پہچان لیا ہے اب میرے اوپر کیا واجب ہے؟

آپ کے زمانہ کے فقہا میں جوا علم (سب سے زیادہ جاننے والا) ہو، اس کی تقلید کریں، اور مختلف چیزوں کے بارے میں جو بھی فتویٰ دے اس پر عمل کریں مشلاً آپ کے وضو کے احکام، غسل، تیمم، نماز روزہ، حج، خمس، زکوٰة وغیرہ ہیں جو بھی فتویٰ دے اس پر عمل کریں اسی طرح اپنے معالات مثلاً آپ کی خرید وفروخت،حوالہ،شادی بیاہ کھیتی باڑی اجارہ رہن،وصیت،ہبہ،وقف وغیرہ کے احکام میں اس کی تقلید کریں۔

میں اپنے والد کے ساتھ ان چیزوں میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور خدا، انبیاء کرام اور رسل پر ایمان وغیرہ کو بھی شامل کررہاتھا۔

ہرگز نہیں ۔۔۔اللہ پر اور اس کی توحید اور ہمارے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور بارہ اماموں کی امامت اور قیامت پر ایمان، ان امور میں تقلید جائز نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ ہر مسلمان کا عقیدہ اصول دین میں ایسا یقینی ہوکہ جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو، اللہ پر قطعی ایمان ہو اور اس پر اپنی جدوجہد، کوشش اور فکری طاقت کے ذریعہ بحث ہو کہ جو اللہ نے بخشی ہے اور جس سے مکمل قناعت اور محکم یقین حاصل ہوتا ہے۔

سوال: بہت خوب، کیا میرے لیے مناسب نہیں ہے کہ میں کسی فقیہ اعلم کی موجودگی میں کسی بھی فقیہ کی تقلید کروں؟

جواب: ہاں ممکن ہے کہ اس شرط کے ساتھ کہ ان مسائل میں جن کی آپ کو ضرورت پڑتی ہے آپ کے مجہتد کے فتوؤں اور اعلم کے فتوؤں کے درمیان اختلاف کو آپ نہ جانتے ہوں۔

سوال: اگر میں کسی اعلم کی تقلید کروں لیکن جس مسئلہ کی مجھے ضرورت ہے اس میں اس کافتوی نہیں ہے یا اس کا فتوی ہومگر میں نے اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو؟

جواب: آپ اس مسئلہ میں کسی ایسے اعلم کی تقلید کریں کہ جو اس آپ کے اعلم کے بعد اعلم ہو یعنی علم میں اس کے بعد اعلم ہو۔

سوال: اور جب باقی فقہاء علم میں برابر ہوں تو اس وقت میں کیا کروں؟

جواب: پھر آپ اس کی طرف رجوع کریں جو دوسروں سے زیادہ متقی ہو جس رائے کے مطابق وہ فتویٰ صادر کرتا ہو، اس کی وہ رائے محکم اور ٹھوس ہو۔

سوال: اور اگر ان میں بعض، بعض سے زیادہ متقی نہ ہوں تو؟

جواب: ممکن ہے کہ آپ کا عمل کسی کے بھی فتوی کے مطابق درست ہومگر بعض حالات میں آپ احتیاط پر عمل کریں اور کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ کو اس احتیاط کے بارے میں کچھ بتادوں۔

بہت بہتر ،جب کہ میں طبیب کی طرف رجوع کرتاہوں تو اس کی رائے کو میں اپنی صحت کے ذریعہ پہچان لیتا ہوں اگر میری صحت نے مجھے اجازت دی تو میں اس کی طرف رجوع کروں گا۔

سوال: آپ بتائیں کہ میں مسائل شریعت میں اپنے مجہتد کے فتوؤں کو کس طرح سمجھ سکتا ہوں؟ وہ کون سی اصل ہے کہ میں اس کے فتوؤں کو اس کے مطابق پرکھ سکوں؟ کیا میں ہر مسئلہ میں اسی مجتہد سے رجوع کرسکتاہوں ؟

جواب: ہاں اگر آپ خود اس کے فتوؤں کو اسی سے معلوم کرسکتے ہیں تو اسی سے معلوم کریں یا پھر کسی ایسے شخص سے معلوم کریں جو اس کے فتوؤں کو نقل کرنے میں موثق ہو، امین ہو اور پوری معرفت رکھتا ہویا پھر اس کی فقہی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے جیسے رسالہ عملیہ جب کہ اس کی صحت کا اطمینان بھی ہو، کہتے ہیں بہت اچھا ہے۔

اب میں اپنے مجہتد کے فتوے بیان کرنے میں آپ سے مدد چاہتا ہوں کیونکہ آپ ثقہ اور امین ہیں۔

میرے والد باوقار انداز میں مسکرائے اور انہوں نے اس جلسہ میں آنکھوں کے اشارہ سے سوال کیا۔

میں نے عرض کیا کہ اس بحث کو نماز سے شروع کریں۔

فرمانے لگے کہ ٹھیک ہے اس جلسہ کو نماز سے شروع کریں گے اور پھر فرمانے لگے کہ اگر انسان کی طہارت کسی بھی چیز سے ختم ہوجائے تو نماز طہارت چاہتی ہے۔

سوال: وہ کون سی چیز ہے کہ جن سے انسان کی طہارت ختم ہوجاتی ہے؟

جواب: انسان کی طہارت چند چیزوں سے ختم ہوجاتی ہے:

( ۱) وہ مادی امور کہ جو حو اس کے عمل انجام دینے کی بناپر واقع ہوتے ہیں، جیسے، نجاسات۔

( ۲) وہ معنوی امور کہ جن کو حو اس ادراک نہیں کرسکتے، اگر ان کے اسباب میں سے کوئی ایک سبب ( حدث)صادر ہوجائے جیسےغسل جنابت یا حیض یا نفاس، یا استحاضہ یا مس میت، یا نیند، یا پیشاب کا نکلنا، یا پاخانہ، تاریخ کا خارج ہونا، ان سے وضویا غسل یا ان دونوں کا بدل، تیمم ٹوٹ جاتاہے۔

اور بحث کا پیکر ہم سے چاہتا ہے کہ نماز تک پہنچنے کے لیے ہم اپنی گفتگو کا آغاز نجاسات سے کریں پس پہلے آپ کو وہ (نجاسات) معلوم ہوجائیں پھر اس کے بعد جو ان کے مطہرات ہیں وہ معلوم ہوں تاکہ ہمارے جسم کی طہارت ہر اس چیز سے کہ جس سے جسم کی طہارت وپاکیزگی مخدوش ہوجاتی ہے محفوظ ہوجائے۔

پھر ہم گقتگو کریں گے اس حدث کے بارے میں کہ جس کے صادر ہونے سے وضو واجب ہوتا ہے یا تیمم چاہے وہ حدث پیشاب یا پاخانہ، یاریح یا نیند یا استحاضہ قلیلہ ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور(حدث صادر) ہو۔

اور پھر حدث بمالو (حدث )کے اطراف وجوانب سے بحث کی جائے گی کہ اگر حدث صادر ہوجائے تو غسل کرنا واجب ہوگا یا اس کے بدلے تیمم واجب ہوگا،چاہے یہ حدث جنابت ہویا حیض یا استحاضہ یا نفاس یا مس میت ہو۔

ہر وہ چیز کہ جو نماز کے ذریعہ تقرب خدا کو روکتی ہے اور اس کے سامنے آتی ہے، اپنے راستہ سے اس کو رفع کرتے ہیں اس کے بعد خدا کے سامنے آتی ہے، اپنے راستہ سے اس کو رفع کرتے ہیں اس کے بعد خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی لذت کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے،کلمہ پڑتھے ہوئے حمد کرتے ہوئے اور اس کی واحدانیت اور نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے شوق وشغف سے اس کاذکر اور اس سے دعا کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ قراردے کہ جنہوں نے اس کی ملاقات کے شوق سے پودے اپنے سینوں کے چمن میں لگادیئے ہیں اور اس کی محبت کو اپنے دلوں میں پیوست کرلیا ہے۔

نماز کے بعد اپنی گفتگو میں ان چیزوں کو شامل کریں گے جو نماز کی طرح طہارت چاہتی ہیں مثلاً روزہ، حج وغیرہ۔

سوال: کیا ہم (اس کے بعد) پہلے نجاسات کو شروع کریں گے؟

جواب: ہاں ہم کل پہلے نجاسات کا ذکر کریں گے۔

نجاست پر گفتگو

میرے والدمحترم نے جب اس موضوع پر گفتگو کی تو ان کی آنکھوں میں عزم راسخ کی ایک جھلک نظر آرہی تھی۔

کہنے لگے کہ پہلے میں آپ کے سامنے ایک قاعدہ کلیہ بیان کرتاہوں، کہ جو تمہاری زندگی میں ایک خاص اثر رکھتا ہے۔اور وہ یہ ہے کل شئی طاہر پاک ہے۔ کل شئی ہر چیز یعنی دریا بارش درخت جنگل، راستے ،عمارتیں ، گھر سامان ، ہتھیار ، لباس اور آپ کے مسلمان بھائی وغیرہ وغیرہ ۔”کل شئی طاھرا الا ہر چیز پاک ہے مگر ۔

سوال: یہ مگر کیا ہے؟

جواب: مگروہ چیزیں جو طبیعتا، ذاتا اور فطرتا نجس ہوں۔

سوال: وہ کون سی چیزیں ہیں جو طبیعتاٌ وذاتا نجس ہیں؟

جواب: وہ ہیں دس چیزیں جن کی ترتیب درج ذیل ہے:

۱ ۔ ۲ ۔ انسان اور ہر اس جانور کا پیشاب وپاخانہ کہ جس کا گوشت کھانا حرام ہو،اور ہر وہ جانور جو خون جہندہ رکھتا ہو، جیسے بلی وخون ۔

سوال: خون جہندہ کیا ہے ؟

جواب: یہ ایک اصطلاح ہے آپ کو اس بحث میں اصطلاح سے باربار سابقہ پڑے گا، لہٰذا بہتر ہے کہ اس کی وضاحت کردی جائے۔

ہم جو کہتے ہیں کہ یہ حیوان خون جہندہ نہیں رکھتا یعنی ذبح کے وقت اس کا خون ست، آہستہ اور نیچے کی طرف بہتا ہے۔ کیونکہ اس میں رگ جہندہ کا وجود نہیں ہے جیسے مچھلی وغیرہ ۔

ہر اس حیوان کا مردار کہ جس کا خون اچھل کر نکلتا ہو اگرچہ اس کا گوشت حلال ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح اس کے وہ اجزا جو اس کی زندگی میں اس سے جدا ہوگئے ہوں ۔

سوال: مردار سے کیا مراد ہے؟

جواب: ہر وہ چیز جو اسلامی طریقہ کے بغیر ذبح کئے ہوئے مرجائے۔

مثلاً ایسا حیوان جو کسی بیماری کے سبب مرجائے، یا کسی حادثہ کی بناپر مر جائے یا ذبح تو کیا جائے مگر شرعی طریقہ سے نہ ہو، تو یہ سب مردار کہلاتے ہیں۔

سوال: اگر انسان مرجائے تو مگر کیا اس کا بدن نجس ہے ؟

جواب: ہاں اس کا بدن نجس ہے شہید اور جس کو زندگی ہی میں غسل دے دیا جائے، تاکہ اس کے اوپر حد کا اجراء ہو، یا اس سے قصاص لیا جائے ایسا بدن نجس نہیں ہے۔

سوال: کیا ان دونوں کے علاوہ انسان کا مردار نجس ہے؟

جواب: نہیں بلکہ مسلمان کی میت کو تین غسل دئیے جانے کے بعد وہ پاک ہے کہ جس کی شرح آنے والی گفتگو میں بیان کی جائے گی۔

۴ ۔منی

انسان اور ہر خون جہندہ رکھنے والے حیوان کی منی نجس ہے اگرچہ وہ حیوان حلال گوشت ہی کیوں نہ ہو۔

۵ ۔خون

انسان اور ہر خون جہندہ رکھنے والے حیوان کے جسم سے نکلنے والا خون نجس ہے اور اس حیوان کا خون پاک ہے جو خون جہندہ نہیں رکھتا، جیسے مچھلی کا خون ۔

۶ ۔کتا

خشکی میں رہنے والا کتا اس کے بدن کے تمام اجزاء چاہے زندہ ہوں یا مردہ ۔

۷ ۔سور

خشکی میں رہنے والا سور اس کے بدن کے تمام زندہ یا مردہ اجزاء نجس ہیں۔ وہ کتے اور سور جودریا میں رہتے ہیں۔یہ دونوں پاک ہیں۔

۸ ۔شراب

شراب(اور جو اس سے ملحق ہے) مثلاً فقاع وغیرہ نجس ہے۔

۹ ۔ کافر کافر زندہ ہویا مردہ نجس ہے عیسائی، یہودی اور مجوسی( آتش پرست)کے علاوہ۔

۱۰ ۔ نجاست کھانے والے حیوان کا پسینہ

یہی دس چیزیں ہیں جو ذاتاًاور طبیعتاً نجس ہیں۔ اور جو گیلی اور مرطوب چیز ان سے مس ہوتی ہے وہ نجس ہوجاتی ہے۔

سوال: اگر ان دونوں کے درمیان رطوبت ونمی نہ ہوتو؟

جواب: اگر رطوبت یا گیلاپن نہیں ہے تو پھرنجس نہیں ہوگی، اس لیے کہ سوکھے پن میں یا ہلکی سی ترواٹ میں نجاست میں کبھی منتقل نہیں ہوتی ۔

سوال: جن حیوانات کا گوشت حلال ہے جیسے، گائے، بھیڑ، مرغ، اور مختلف پرندے وغیرہ کیا یہ پاک ہیں یا نجس؟

جواب: پاک ہیں ۔

سوال: چمگادڑ کے فضلات (پیشاب وپاخانہ)؟

جواب: پاک ہیں۔

سوال: مردار کے بال، اون، ناخن، سینگ، ہڈیاں، دانت، چونچ اور پنچے وغیرہ پاک ہیں یا نجس؟

جواب: تمام پاک ہیں۔

سوال: ہم نے کھانے کے لیے گوشت خرایدا ہے۔لیکن اس پر خون ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ خون پاک ہے اور ہر وہ خون جو ذبیحہ میں باقی رہ جائے شرعی طریقہ سے ذبح کرنے کے بعد ، تو یہ پاک ہے، نجس نہیں ہے۔

سوال: جنگلی اور گھریلو چوہوں کا فضلہ کیا حکم رکھتا ہے ؟

جواب: نجس ہے۔ ان چوہوں میں ایسی شریاں(رگ جہندہ) موجود ہے کہ ذبح کے وقت جس کا خون اچھل کر نکلتا ہے۔

میرے والد محترم میری طرف بغور دیکھتے ہوئے فرمانے لگے:

میں نے اس بحث کو ایک ایسے قاعدہ کلیہ کے ساتھ شروع کیا کہ جوآپ کی زندگی میں ایک بڑا اثر رکھتا ہے اب میں کچھ دوسرے کلیات وقواعد کے ساتھ اس بحث کو ختم کرتا ہوں کہ جو زندگی میں بڑے موثرثابت ہوں گے ۔

پہلاقاعدہ

کل شئی کان طاهرا فیما مضی ثم تشک

سوال: ہر وہ چیز کہ جو پہلے پاک تھی لیکن پھر مشکوک ہوجائے کیا وہ نجس ہے یا اپنی سابقہ طہارت پر باقی ہے؟

جواب: وہ پاک ہے۔

والد محترم ۔ذرامثال دے کرواضح کریں؟

مثال کے طور پر آپ کے سونے کا بستر پہلے پاک تھا، اب شک ہوگیا کہ کیا یہ کسی نجاست سے نجس ہوگیا یا اپنی پہلی والی طہارت پر باقی ہے؟توکہاجائے گا تمہارا سونے کا بسترپاک ہے۔

دوسرا قاعدہ

کل شئی کان نجسا فیما مضی ثم تشک

سوال: ہر وہ چیز جو پہلے نجس تھی پھر مشکوک ہوگئی، کیا وہ اس کے بعد طاہر ہے یا اپنی پہلی والی نجاست پر باقی ہے۔کیا وہ نجس ہے؟

جواب: آپ کا ہاتھ نجس ہوا اس سے پہلے آپ کو یقین تھا کہ ہاتھ نجس ہے اور اس کے بعد آپ نے شک کیا کہ آیا یہ پچھلی نجاست سے پاک ہوا یا پاک نہیں ہوا تو آپ کہیں کہ میرا ہاتھ نجس ہے۔

تیسرا قاعدہ

کل شئی لا تعلم حالتهاالسابقه

سوال: ہر وہ شئے جس کے متعلق آپ اس کی پچھلی حالت کو نہیں جانتے کہ وہ نجس ہے یا پاک تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: ایک پیالہ میں ایک سیال چیز موجود ہے اس کی حالت سابقہ سے آپ جاہل ہیں آپ نہیں جانتے کہ وہ پہلے نجس تھی یا پاک تو کہا جائے گا۔

هذا السائل طاهر “ یہ سیال پاک ہے۔

چوتھا قاعدہ

”کل شیئی تشک اصابتہ نجاسۃ فتنجس بھااواخطاتۃ فلم تصبہ“

ہر وہ چیز جس کے متعلق شک کیا جائے کہ کیا نجاست اس تک پہنچی ہے یا خطا کرگئی ہے تو یہ پاک ہے‘ اس وقت آپ پر اس کے بارے میں تحقیق وتفتیش کرنا واجب نہیں ہے،تاکہ آپ کو اس کی طہارت کا یقین ہوجائے بلکہ کہا جائے گا”ھوطاھر“ وہ پاک ہے۔ تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں یہاں تک کہ اگر آپ کے لیے تحقیق کرنا آسان بھی ہو ،تب بھی تحقیق وجستجو کرنا لازم نہیں ہے۔

سوال: آپ ذرا مثال دے کر واضح کیجئے؟

جواب : آپ کا کپڑا پاک تھا اور آپ کو پہلے یقین تھا اب آپ کو شک ہوگیا کہ کیا پیشاب کی چھینٹ اس پر پڑی ہے یا نہیں یا اپنی گزشتہ طہارت پر باقی ہے؟ اب ایسے وقت میں آپ پر کپڑے کے بارے میں تحقیق کرنا واجب نہیں ، چاہے تحقیق وتفتیش کرنا آپ کے لیے آسان ہی کیوں نہ ہو، بلکہ ایسے وقت کہا جائے گا”ثوبی طاہر میرا کپڑا پاک ہے۔

طہارت پر گفتگو

قبل اس کے کہ میرے والد بزرگوار ہماری اس علمی وفقہی گفتگو کے جلسہ میں تشریف لاتے، میں ایک گہری سوچ میں ڈوبا ہواتھا اور ان معلومات کے بارے میں غور وفکر کررہاتھا کہ جو کل نجاست پر ہوئی تھیں ۔ اور اس بات کا منتظر تھا کہ آج کے جلسہ میں اشیاء کی پہلی طہارت اور ان کی پاکیزگی کس طرح واپس ہوگی۔؟ جب کہ نجاست ان کو لگی ہے‘جیسے ہی میرے والد تشریف لائے میں نے ان سے عرض کیا۔

سوال: آپ نے کل مجھ سے فرمایا تھا کہ جب پاک چیزیں نجاست سے ملتی ہیں تو ان کی طہارت ختم ہوجاتی ہے۔ آپ بتلائیے کہ ان کی طہارت دوبارہ کیسے ممکن ہے؟

جواب: نجس چیزوں کی طہارت پانی سے ممکن ہے، پانی کے ذریعہ نجس چیزوں کی کثافت وگندگی کو دور کیا جاتاہے۔لہٰذا ہماری آج کی گفتگو پانی سے شروع ہوگی۔

( ۱) ۔۔۔ پہلا مطہرپانی ہے۔

میرے والد نے مزید فرمایا:

پانی مطلق ہے اور مضاف ہے۔

سوال: مطلق پانی کون سا ہوتا ہے؟

جواب: مطلق( خالص) وہ پانی ہے جس کو انسان پیتے ہیں، اور حیوانات پیتے ہیں اور اس کے ذریعہ کھیتوں کو سینچاجاتاہے۔۔۔ سمندر کا پانی ’دریاؤں اور نہروں کا پانی ،کنوؤں، تالابوں اور بارشوں کا پانی۔۔۔ اور ان نلوں کا پانی جن کے پائیوں کو ہم پانی لانے کے لیے بڑے برے ٹینکوں سے جوڑکر شہروں اور دیہاتوں میں لاتے ہیں اگر پانی میں تھوڑی سی مٹی اور ریت بھی ملی ہو تو پھربھی وہ پانی مطلق یعنی خالص رہتا ہے، جیسے ندی اور نہروں کا پانی وغیرہ۔

سوال: مضاف پانی کسے کہتے ہیں؟

جواب: مضاف پانی بولتے وقت جب کسی دوسرے لفظ کا پانی کی طرف اضافہ کرتے ہیں تو آسانی سے سمجھ میں آجاتاہے جیسے کہا جائے۔گلاب کا پانی انار کا پانی، انگور کا پانی، گاجر اور تربوز کا پانی اور دوسری چیزوں سے نچوڑا ہوا پانی اور جیسا کہ آپ نے مثالوں کو ملاحظہ فرمایا کہ یہاں ہماری مراد پانی نہیں ہے، جس سے ہم رفع حدث کرتے ہیں اور اس کو پیتے ہیں جب کہ اس انار یا انگور وغیرہ کے پانی سے ہم رفع حدث نہیں کرسکتے ہیں۔

پھر مطلق پانی کی دوقسمیں ہیں:

( ۱) محفوظ ( ۲) غیر محفوظ

سوال: محفوظ پانی سے آپ کی مراد کیا ہے؟

جواب: محفوظ پانی وہ ہے جو نجاسات کے گرنے سے اس وقت تک نجس نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا رنگ، بویا مزہ بدلے۔۔۔ اور غیر محفوظ پانی وہ ہے کہ جو نجاست کے گرتے ہی نجس ہوجائے اگرچہ تینوں صفتوں (بو، رنگ یا مزہ) میں سے کوئی صفت بھی نہ بدلے ۔

سوال: ابا حضوریہ بتائیے پانی کون کون سے ہیں:

جواب محفوظ پانی کی چند اقسام ہیں جو بیان کی جاتی ہیں:

۱ ۔ کثیرپانی

کثیرپانی وہ ہے جو ایک کرکی مقدار کے برابر ہو یعنی جو ۳۶ بالشت مکعب مربع گڑھا ہو اور اس میں پانی بھرا ہو اس کو کرکہتے ہیں جیسے ان پائیوں کا پانی جو شہر کی بڑی بڑی ٹنکیوں سے ہمارے گھروں میں پہنچتا ہے یا وہ پانی جو موٹر وغیرہ سے کھینچاجاتاہے ان ٹینکوں کا پانی جو ہمارے گھروں کی چھتوں پر بنے ہوتے ہیں ۔جب کہ ان ٹنکیوں میں پانی پائپ کے ذریعہ آتارہے اور منقطع بھی نہ ہو ۔

۲ ۔کنویں کا پانی۔

۳ ۔جاری پانی ۔

جیسے نہروں ،ندیوں اور چشموں کا پانی وغیرہ

۴ ۔ بارش کا پانی

بارش جب کہ موسلادھار ہورہی ہو۔ یہ پانی محفوظ کہلاتے ہیں۔

سوال: غیر محفوظ پانی کو ن کون سے ہیں؟

جواب: وہ چھوٹے حوضوں، گڑھوں، یا برتنوں وغیرہ کا ٹھہرا ہوا پانی (کنویں کے علاوہ) کہ جس کی مقدار ایک کرسے کم ہو، اسے اصطلاح میں آپ قلیل کہتے ہیں یعنی کم پانی آپ پہلے جان چکے ہیں کہ یہ تمام پانی نجاست کے گرتے ہی نجس ہوجاتے ہیں۔

سوال: محترم والد صاحب یہ بتائیے کہ مضاف پانی کا کیا حکم ہے؟

جواب: مضاف پانی کا حکم قلیل پانی کے حکم میں ہے یعنی نجاست کے گرتے ہی وہ نجس ہوجاتاہے۔ چاہے مقدار میں وہ زیادہ ہو یا کم جیسے چائے کہ یہ دوسرے،مضاف پانی کی طرح ہے جیسے دوھ تیل دواؤں کا محلول وغیرہ یہ نجاست کے گرتے ہی نجس ہوجاتے ہیں۔

پھر والد صاحب نے یہ کہتے ہوئے اضافہ فرمایا:

ہر قلیل پانی جب وہ کثیر پانی سے متصل ہوجائےگا تو وہ کثیر ہوجائے گا اور اسی کے ساتھ محفوظ ہوجائے گا جب تک کہ کثیر سے جدانہ ہو، پس چھوٹی ٹنکیوں کا پانی آرہا ہوتو وہ کثیر کے حکم میں ہے،اور وہ دیگ کہ جو غسل خانہ میں رکھی ہو اور اس میں نلوں سے پانی آرہا ہو کثیر کے حکم میں ہے یہ تمام پانی اس وقت تک کثیر ہیں جب تک کہ کرسے متصل ہوں۔

سوال: خوب : اگر ٹنکی کے رکے ہوئے پانی میں خون کے چند قطرات گرجائیں اور ٹنکی کا پانی کر۔۔۔ بھرا ہوا ہوتو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: پانی نجس نہیں ہوگا۔ ہاں اگر کرپانی کارنگ خون کی وجہ سے بدل جائے تو پھر نجس ہوجائے گا۔

سوال: اگر چھوٹے برتن میں گرجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: برتن نجس ہوجائے گا۔

سوال: اگر ہم جاری پانی کو اس پر کھول دیں اور پانی اپنی صفات کی طرف پلٹ جائے تو اس کا کیا حکم ہے۔؟

جواب: برتن کا پانی پاک ہوجائے گا، لیکن اگر جاری پانی کوبند کردیا جائے اور دوسری مرتبہ اس کار نگ بدل جائے تو پھر وہ نجس ہوجائے گا جیسا کہ عنقریب آپ کو بتلایا جائے گا کہ برتن نجس ہوجائے تو جب تک اس کو تین مرتبہ نہ دھویا جائے پاک نہیں ہوگا۔

سوال: اگر لوٹے کا پانی کسی نجاست پر پڑے تو کیا لوٹے کا پانی نجس ہوجائے گا۔؟

جواب: ہرگز نہیں، اس لیے کہ نجاست اس پانی کو طول میں اثر نہیں کرتی ہے، جو لوٹے سے گررہا ہے پس نہ طول میں پانی نجس ہوتا ہے اور نہ لوٹے کا پانی نجس ہوتا ہے۔

سوال: بارش کا پانی کس طرح نجس چیزوں کو پاک کرتاہے؟

جواب: جب بارش ان پر قطرے قطرے گرے، چاہے زمین نجس ہو یا کپڑا اور فرش نجس ہو، ان چیزوں میں بارش جذب ہو جانے کے بعد ۔یا برتن نجس ہو یا اسکے مشابہ کوئی بھی چیز ہو، بشرطیکہ بارش کا ان پر برسنا عرف عام میں صادق آئے، نہ کہ بارش کے چند قطرے ان پر گرجائیں تو ایسی صورت میں ان پر برسنا صادق نہیں آئے گا۔

سوال: جن چیزوں پر فقط ایک مرتبہ بارش برسے تو کیا وہ چیزیں پاک ہوجائیں گی؟

جواب: ہاں پاک ہوجائیں گی البتہ پیشاب سے نجس ہونے والے بدن اور کپڑے کو دودفعہ دھونا شرط ہے۔

سوال : کیا بارش سے نجس پانی بھی پا ک ہو جانا ہے؟

جواب: ہاں جب وہ بارش کے پاک پانی میں مل جائے۔

سوال: نجس اشیاء کو قلیل ہو یا کثیر پانی سے کیسے پاک کیا جاتاہے؟

جواب: ہم ہر نجس چیز کو پاک کرتے ہیں، تو پانی سے ایک مرتبہ دھوتے ہیں چاہے وہ پانی قلیل ہو یا کثیر، لیکن قلیل پانی سے دھونے میں ضروری ہے کہ نجس چیز سے پاک کرنے والا پانی جدا ہوجائے یعنی اس کو نچوڑدیا جائے۔

سوال: کیا اس طریقہ سے تمام نجس اشیاء پاک ہوجاتی ہیں ؟

جواب: ہاں سوائے چند چیزوں کے جو بیان کی جائیں گی۔

۱ ۔ وہ برتن جو شراب سے نجس ہوگئے ہیں جیسے گلاس اور کٹورے وغیررہ تو ان کو ہم تین مرتبہ دھوئیں گے۔

۲ ۔ وہ برتن کہ جس میں چوہا گر کرمرجائے یا سور اس کو چاٹ لے تو ہم اس کو سات مرتبہ دھوئیں گے ۔

۳ ۔ وہ چیزیں جو دودھ پینے والے ایسے بچے کے پیشاب سے نجس ہوگئی ہوں کہ جو ابھی غذا نہیں کھاتا، اور اسی طرح دووھ پیتی بچی کے پیشاب سے نجس ہوگئی ہوں تو ان پر اتنا پانی ڈال دیا جائے گا کہ جس سے وہ تر ہوجائے۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔اور اگر کپڑا وغیرہ نجس ہوجائے تو نچوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

( ۴) وہ برتن کہ جن کو کتا اپنی زبان سے چاٹ لے، اس میں سے کچھ کھا لے یاپی لے، تو پہلے مٹی سے اس کو مانجھا جائے گا، پھر دو مرتبہ پانی سے دھویا جائے گا اور اگر ان میں اس کا تھوک گرجائے یا وہ خودان سے مس ہوجائے تو پہلے اس کو مٹی سے مانجھے پھر پانی سے تین مرتبہ دھویا جائے گا۔

سوال: کتے کے ولوغ سے کیا مراد ہے؟

جواب: کتے کا اپنی زبان سے برتن کو چاٹنا۔

۵ ۔ وہ لباس جو پیشاب سے نجس ہوجاتے ہیں، ان کو جاری پانی میں ایک مرتبہ دھویا جائے گا، یا ان کو کرپانی میں یا قلیل پانی میں دومرتبہ دھویا جائے گا اور درمیان میں نچوڑا جائے گا لیکن جو لباس پیشاب کے علاو ہ کسی اور چیز سے نجس ہوتے ہیں ان کو قلیل پانی میں ایک مرتبہ دھوکر نچوڑا جائے گا یا کثیر پانی میں بغیر نچوڑے ایک مرتبہ دھویا جائے گا۔

۶ ۔ وہ بدن جو پیشاب سے نجس ہوجائے ، اس کو اسی طرح پاک کیا جائے گا۔

جیسا کہ نجس لباس میں بتایا گیا ہے، اور اگر اس کو قلیل پانی سے دھویا جائے تو ضروری ہے کہ اس سے جدا ہونے والا پانی عمومی طور پر تمام انداز میں جدا ہوجائے۔

۷ ۔ اگر برتن کا اندرونی حصہ شراب کے علاوہ کسی اور چیز سے نجس ہوجائے یا کتا اس میں سے کچھ کھاپی لے، یا چاٹ لے، یا اپنا تھوک (یعنی منہ کا پانی)اس میں ڈال دے، یا اپنے بدن کا کوئی حصہ اس سے مس کر دے، یا چوہا اس میں گرکر مرجائے، یا سور اس میں سے کچھ کھاپی لے پس ہم اس کو قلیل پانی سے تین مرتبہ پاک کریں گے، یا کثیر پانی یا جاری پانی یا بارش کے پانی سے بھی تین مرتبہ پاک کریں گے،

سوال: اگر برتن کا ظاہری حصہ نجس ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: تو اسے قلیل پانی سے ایک مرتبہ دھویا جائے۔

سوال: اگر میرا ہاتھ نجس ہوجائے اور میرے پاس قلیل پانی ہو تو میں اپنے ہاتھ کو کس طرح پاک کروں؟

جواب: اگر آپ کا ہاتھ پیشاب سے نجس نہیں ہوا، تو اس پر ایک مرتبہ پانی اس طرح ڈالو کہ وہ پانی ہاتھ سے جدا ہوجائے تو آپ کا ہاتھ پاک ہوجائے گا۔

( ۲)( دوسرا مطہر) سورج

سوال: بتائیے سورج کس کس چیزکو پاک کرتاہے؟

جواب: زمین کو پاک کرتا ہے اور جو اس پر گھر اور چاردیواری بنی ہوتی ہیں اور اسی سے ملحق بورئیے اور چٹائیاں وغیرہ ان میں جوتا گے ہیں وہ اس حکم میں نہیں ہیں دروازے، لکڑیاں، میخیں، درخت اور اس کے پتے، گھاس، پھل (پکنے سے پہلے) اوران کے علاوہ جو بھی زمین میں لگے ہوئے ہیں اسی حکم سے ملحق ہیں۔

سوال: سورج کس طرح زمین اور گھر کو پاک کرتاہے۔؟

جواب: سورج ان پر اس طرح چمکے کہ اس کہ اس کی شعاعوں سے وہ خشک ہوجائیں اور اس کے ساتھ زمین ومکان کی عین نجاست بھی زائل ہوجائے۔

سوال: اگر زمین خشک ہو اور ہم اس کو سورج سے پاک کرنا چاہیں تو کس طرح پاک کریں گے؟

جواب: ہم اس پر پانی ڈال دیں گے، اور اس کے بعد سورج کی شعائیں اس کو خشک کردیں گی، تو وہ پاک ہوجائے گی۔

سوال: جب زمین پیشاب سے نجس ہوجائے اور سورج اس پر چمک کراس کو خشک کردے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: زمین پاک ہوجائے گی بشرطیکہ اس پر پیشاب کا رنگ باقی نہ رہے۔

سوال: کنکری۔ خاک ۔ کیچڑ اور پتھر وغیرہ جو زمین کے جزو شمار ہوتے ہیں،اگر پیشاب سے نجس ہوجائیں اور سورج ان کو خشک کردے پھر اس کا کیاحکم ہے؟

جواب: اگر اس طرح ہے تو پاک ہوجائیں گے۔

سوال: وہ بانس جو زمین اورگھروں میں گڑے ہوتے ہیں اگر وہ نجس ہوجائیںتو ان کا کیا حکم ہے؟

جواب: ان کا حکم زمین والا حکم نہیں ہے، پس سورج ان کو پاک نہیں کرے گا۔

( ۳) تیسرا مطہر

انسان کے جسم کے اندرونی حصہ سے اور حیوان کے جسم سےعین نجاست کا زائل ہوجانا۔

سوال: محترم ابا جان، اس بارے میں ذرا مجھے مشال دے کر سمجھائیے۔

جواب: منہ کے اندر سے خون کا ختم ہوجانا، یا ناک کے اندر سے یا کان کے اندر سے عین نجاست کازائل ہوجانا پس خون کے رک جانے کے بعد منہ، ناک کان اور آنکھ وغیرہ پاک ہوجاتی ہے، پانی سے پاک کرنے کی ضرورت نہیں ۔

حیوان کا جسم بھی پاک ہوجائے گا پس جیسے مرغی کی چونچ سے لگا ہوا خون ناپید ہوجائے تو اس کی چونچ پاک ہوجائے گی اور اسی طرح جیسے ہی بلی کے منہ سے خون صاف ہوجائے اس کامنہ پاک ہوجائےگا۔

سوال: اور اگر ٹیکے کی سوئی کو انسان یا کسی حیوان کے جسم میں داخل کیا جائے اور وہ جسم کے اندر خون سے بھرجائے تو کیا وہ نجس ہوجائے گی؟

جواب: ہرگز نہیں،جس سوئی کو جسم کے اندر سے نکالا جائے اور وہ خون کی نجاست سے لت پت نہ ہوتو نجس نہیں ہوگی کیونکہ جسم کے اندر نجاست سے ٹکرانا نجاست کو متحقق نہیں کرتا۔

( ۴) ( چوتھا مطہر) زمین

ہروہ چیز جس پر زمین کا اطلاق ہووہ مطہر (پاک کرنے والی) ہے جیسے پتھر، ریت، مٹی وغیرہ اور جو ایٹ یا سیمنٹ کا فرش ہو، یا تار کول وغیرہ یہ مطہرات میں نہیں ہیں اور زمین میں یہ شرط ہے کہ وہ خشک ہو اور پاک ہو۔

سوال: کس طرح سمجھا جائے کہ زمین پاک ہے؟

جواب: جب تک اس کے نجس ہونے کا علم نہ ہو وہ پاک ہے اور اس صورت میں وہ مطہر بھی ہے۔

سوال: زمین کن کن چیزوں کو پاک کرتی ہے؟

جواب: پاؤں کے تلوے، جوتے کے تلوے،، زمین پر چلنے یا اس پررگڑنے سے اس شرط کے ساتھ کہ چلنے یا رگڑنے کے سبب پاؤں یا جوتے کے تلوے سے نجاست زائل ہوجائے جب کہ یہ نجاست جوتے پاؤں کے تلوے میں نجس زمین سے لگی ہو یعنی زمین ہی سے ان پر نجاست لگی ہو، اگر اس کے علاوہ کسی اور چیزسے یہ دونوں نجس ہوئے ہوں تو پھر ایسی صورت میں زمین ان کو پاک نہیں کرے گی ۔

( ۵)( پانچواں مطہر) تبعیت

سوال: آپ تبیعت پر کوئی مشال بیان کیجئے؟

جواب: وہ کافر جو نجاست کے حکم میں ہے، یعنی نجس ہے، اگر وہ اسلام لے آئے تو وہ پاک ہوجائے گا اور اس کی تبعیت میں اس کا چھوٹا بچہ کہ جو اپنے باپ کی بناپر تبعاً نجس تھا پاک ہوجائے گا۔ اسی طرح کافر دادا، دادی، ماں اگر اسلام لے آئیں تو ان کی تبعیت میں ان کا وہ چھوٹا بچہ بھی پاک ہوجائے گاجو تبعاً ان کی نجاست کی بناپر نجس تھا یہ حکم اس وقت ہے جب یہ چھوٹا بچہ ان لوگوں کی کفالت میں ہوکہ جو اسلام لا رہے ہیں یہ حکم اس کافر کے لیے نہیں ہے کہ جو اسی کارشتہ دار ہو اور اسی طرح اگر شراب سرکہ ہوجائے اور اس کی تبعیت میں وہ برتن پاک ہوجائے گا جس میں شراب پڑی ہوئی تھی اور اگر میت کو تین غسل دے دیئے جائیں تو وہ پاک ہوجائے گی اور اس کی تبعیت میں غسل دینے والے کا ہاتھ اور وہ تختہ کہ جس پر اس کو غسل دیا گیا ہے اور وہ کپڑے کہ جس میں اس کو غسل دیا گیا ہے پاک ہوجائیںگے۔ اور نجس کپڑا جس کو قلیل پانی سے پاک کیا گیا ہے، پاک ہوجائے گا اور اس کی تبعیت میں دھونے والے کا ہاتھ بھی پاک ہوجائے۔

( ۶)( چھٹا مطہر) اسلام

سوال: اسلام کسی طرح پاک کرے گااور کس کو پاک کرے گا؟

جواب: اسلام نجس کافر کو پاک کردے گا، پس وہ پاک ہوجائے گا اور اس کی تبعیت میں اس کے بال، ناخن اور جسم کے اعضاء جو اس کے کفر کی بنا پر نجس تھے وہ بھی پاک ہوجائیں گے۔

( ۷)( ساتواں مطہر) بالغ مسلمان یا ممیز بچہ کا غائب ہونا۔

سوال: مسلمان کی غیبت سے کیا مراد ہے؟

جواب: وہ آپ سے جدا ہوجائے اور آپ اس کو نہ دیکھ سکیں ۔

سوال: اور جب وہ غائب ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب وہ غائب ہوجائے تو وہ پاک ہے اور اسکے ساتھ اس کی چیزیں اور اس کا ضروری سامان جیسے کپڑے، فرش، برتن، وغیرہ جن کی طہارت کااحتمال ہو وہ پاک ہیں۔

سوال: ابا جان وضاحت کے لیے مثال دیجئے؟

جواب: مثلاًآپ کے بھائی کا کپڑا نجس تھا اور وہ اس کو جانتا تھا یا وہ نہیں جانتا تھا مگر آپ جانتے تھے کہ اس کاکپڑا نجس ہے، چاہے وہ احکام شرعیہ کا پابند تھایا پابند نہ تھا پھر آپ کا بھائی غائب ہوگیا اور کچھ دیر بعد دوبارہ واپس آگیا اب آپ کو اس کے کپڑے کے پاک ہونے کا احتمال ہے تو کہا جائے گا کہ اس کا کپڑا پاک ہے۔

( ۸)( اٹھواں مطہر) انتقال

انسان کا خون جب مچھر، پسو اور جوں وغیرہ کی غذا ہوجائے، یہ ایسے حشرات میں سے ہیں جن کا عرف عام میں کوئی خو ن و غیرہ شمار نہیں کیا جاتا۔جب یہ حیوان خون کو پیتا ہے تو اس کے پیٹ میں چلاجاتاہے، پھر آپ نے اس کو مار دیا پس اس کا خون آپ کے کپڑوں یا آپ کے جسم کو رنگین کردیتا ہے، وہ خون طاہر ہے۔

( ۹)( نواں مطہر) استحالہ

سوال: استحالہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: کسی چیز کا کسی دوسری چیز میں بدل جانے کانام استحالہ ہے فقط اس کے نام یا صفت میں تبدیلی نہ ہو یا فقط اس کے اجزاء متفرق نہ ہوں بلکہ کامل طریقہ سے وہ وہ کسی دوسری چیز میں تبدیل ہوجائے اور اب اس پر دوسری چیز کانام صادق آئے تو اس استحالہ کہتے ہیں۔

سوال: مہربانی کر کے اس کی مثال بیان کریں؟

جواب: نجس لکڑی مثلاً جب جل جائے اور راکھ ہوجائے تو اب یہ رکھ پاک ہے اور اسی طرح حیوان کے فضلات جب آگ میں جلانے کے لیے استعمال کئے جائیں اور چولہے میں راکھ ہوجائیں تو اب یہ راکھ پاک ہے اور اس طرح بہت سی مثالیں ہیں۔

( ۱۰) دسواں مطہر

جو حیوان شرعی طریقہ سے ذبح کیا جائے اور اس کا خون طبعی مقدار کے مطابق نکل جائے، اب جو خون اس کے اندر باقی رہ گیا ہے اس پر ہم طہارت کا حکم لگائیں گے۔

( ۱۱)( گیارہواں مطہر) انقلاب

شراب کا سرکہ میں بدل جانا،سرکہ جب تک اپنی خلقت کے درمیان شراب تھا تو اس وقت تک نجس تھا لیکن جیسے ہی شراب سرکہ میں بدل گئی وہ پاک ہوگئی۔

( ۱۲)( بارہواں مطہر) نجاست کھانے والے حیوان کا استبراء۔

حلال گوشت حیوان کو انسان کے فضلہ کھانے کی عادت ہوجائے تو اس کاگوشت کھانا اور اس کا دودھ پینا حرام ہوجائے گا اور اسی طرح اس کا پیشاب،فضلہ، پسینہ اور اس کا جسم نجس ہوجائے گا۔

سوال: پس نجاست خوار حیوان کا استبرا کس طرح کیا جائے گا؟

جواب: اس کو نجاست کھانے سے اتنی مدت تک روکا جائے کہ پھر نجاست خور حیوان نہ کہا جائے بلکہ اس کو حیوان کہنا صحیح ہو۔

سوال: بتائیے ؟ اس وقت اس کا کیا حکم ہوگا؟

جواب: استبراء کے بعد اس کا گوشت، دودھ اور جو چیزیں اوپر بیان ہوئی ہیں یہ سب پاک سمجھی جائیں گی۔

جنابت پر گفتگو

میرے والد محترم آج کے اس جلسہ میں خلاف معمول جلدتشریف لائے، اور جب میں آیا تو میرے والد میری طر ف ذرا بھی متوجہ نہ ہوئے ، وہ خاموش اپنے سر کو زمین کی طرف جھکائے اپنی آنکھوں کو اپنے دل کی طرف موڑے ہوئے محو تھے، ان کی حالت سے ظاہر تھاکہ ان کے حواس کمرہ سے باہر کچھ سوالات کو سلجھانے اور کسی بچہ کے دل کو تسلی دینے میں مشغول ہیں۔

اور ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ان کی آنکھیں بہترین رہنمائی کرنے والی دور اندیشی کے ساتھ لوٹیں، اور مجھ پر انہوں نے ان کو جماتے ہوئے فرمایا:

میں نے آپ کو نجاست کی بحث میں نجاسات کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ ہمارے جسم اور تمام چیزوں کو اس پہلی طہارت کو ختم کردیتی ہیں، کہ جن پروہ تھے۔

پھر طہارت کی گفتگو میں بتایا تھا کہ مطہرات وہ ہیں کہ جو ہمارے اور دوسری اشیاء کے اجسام کی طہارت کو دوبارہ پلٹا دیتے ہیں حقیقتاًکچھ ایسے امور معنوی ہیں جو محسوس نہیں ہوتے اگر وہ حادث ہوجائیں تو انسان کی طہارت ختم ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس چیز کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ گئی ہوئی طہارت وپاکیزگی واپس لوٹ آئے۔

ان حدث کی دواقسام ہیں۔

( ۱) حدث اکبر ( ۲) حدث اصغر

حدث اکبر

جیسے جنابت، حیض، نفاس، استحاضہ کثیرہ، مس میت اور میت ہے۔

حدث اصغر

جیسے ، پیشاب، پاخانہ، ریح، نیند، اور استحاضہ قلیلہ وغیرہ۔

حدث اکبر میں غسل یا اس کے بادے تیمم ہے اور حدث اصغر میں وضو یا اس کے بدلے تیمم ہے۔

آئندہ گفتگو میں ان امور پر جدا جدا بحث ہوگی آج بحث ہوگی۔آج بحث کا آغاز جنابت سے ہوگا۔

میں نے اپنے والد سے عرض کی :

آپ وضاحت فرمائیں کہ جنابت کس چیز سے ثابت ہوتی ہے؟

تو انہوں نے فرمایا:

دوچیزوں میں سے کسی ایک چیز سے ثابت ہوتی ہے۔

اول:

مادہ منویہ کے نکلنے سے، چاہے وہ جنسی فعل کے ذریعہ نکلے، یا احتلام کی بناپر یا کسی پوشیدہ عادت وغیرہ کی بناپر نکلے۔

سوال: مادہ منویہ کی صفات وعلامات کیا ہیں؟

جواب: غلیظ، چپک دار مادہ ہوتاہے، اس کی بو، خمیر کے گندھے آٹے کی بوکی طرح ہوتی ہے، سفید رنگ کبھی اس کا رنگ زردیا سرخی مائل ہوتا ہے،اکثر بلوغ کے بعد شہوت جنسیہ کی بناپر اچھل کر اور جسم میں سستی پیدا کرنے کے ساتھ نکلتاہے۔

سوال: اور جب شک پیدا ہوجائے کہ یہ چپک دار مادہ آیا مادہ منویہ ہے یا دوسرے مادوں میں سے کوئی مادہ ہے تو اس وقت اس کا کیا حکم ہے۔؟

جواب: میں آپ کو تین علامتیں بتاتاہوں، جب یہ تین علامتیں جمع ہوجائیں تو اس وقت وہ مادہ منویہ ہوگا وہ علامات یہ ہیں:

۱ ۔شہوت کے ساتھ نکلنا

۲ ۔اچھل کر نکلنا

۳ ۔ جسم کاست پڑجانا

مریض میں صرف شہوت کافی ہے۔

سوال: اگر ان صفات میں سے ایک یا دوصفات پائی گئیں تو؟

جواب: تو پھر کہا جائے گا کہ یہ مادہ منویہ نہیں ہے، سوائے مریض کے کہ جس طرح اوپر میں نے بتایا ہے؟

سوال: کیا مرد کی طرح عورت کی بھی منی ہوتی ہے؟

جواب: ہاں جو مادہ اس کے مہبل سے شہوت کے وقت نکلتا ہے تو وہ مرد کے مادہ منویہ کے حکم میں سے ہے، چاہے سونے کی حالت میں نکلے، یا بیداری کی حالت میں نکلے،

دوم:

جنسی ملاپ سے اگرچہ مادہ منویہ نہ نکلے، اورجنسی ملاپ میں عضوتناسل کا اسرا(حشفہ) عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجاناہی کافی ہے۔

سوال: جب مادہ منویہ خارج ہویا جنسی ملاپ متحقق ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: بڑے اور چھوٹے کے فرق کے بغیر فاعل ومفعول پر جنابت متحقق ہو جائے گی، اور عاقل ومجنون، زندہ ومردہ میں بھی کوئی فرق نہ ہوگا۔

سوال: اورجب جنابت متحقق ہوجائے تو؟

جواب: تو نماز کے لیے آپ پر غسل واجب ہے مثلاً،اور حج میں طواف کے لیے غسل واجب ہے، اس لیے کہ نماز اور طواف موقوف ہیں غسل کے صحیح ہونے پر اس کی تشریح آپ سے غسل کی بحث میں بیان کروںگا جو عنقریب آئے گی کہ غسل کس طرح کیا جاتاہے۔

جب تک آپ جنابت کی حالت میں ہوں تو چند چیزیں آپ پر حرام ہیں:

قرآن مجید کے حروف کو چھونا ۔

لفظ جلال (اللہ) کو چھونا اور اللہ کے پاک ناموں اور اس کی خاص صفات کو چھونا جیسے خالق وغیرہ۔

سورہ عزائم کی چاورں سوروں میں سے کسی بھی سورے کی آیت کو پڑھنا:

اقراء، والنجم ،والسجدة وفصلت

مساجد میں داخل ہونا، یا ان سے میں ٹھہرنا یا وہاں سے کسی چیز کا اٹھانا یا کسی چیز کا ان میں رکھنااگر چہ ان سے خارج ہوتے ہوئے یا ان میں سے گزرتے ہوئے کسی چیز کو رکھے یا اٹھائے اور مجنب کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکل جائے سوائے دومسجدوں کے ایک مسجد الحرام جومکہ میں ہے دوسری مسجد النبی ؐ جو مدینہ میں ہے اور اءمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کو مسجدوں سے ملحق کیا گیا ہے۔

سوال: کیا مسجد کے صحن ورواق میں جب کہ وہ مسجد نہ ہوں داخل ہونا حرام ہے؟

جواب: ہرگز نہیں۔

سوال: اس سے پہلے کہ ہم جنابت کی بحث کو ختم کریں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں مگر شرم کررہا ہوں؟

جواب : جو بھی چاہو سوال کرو، کسی بھی قسم کی شرم نہ کرو، دین میں کوئی شرم نہیں ہے میں ہمیشہ کہتاہوں۔

سوال: اکثر جنسی تحریک کے بعد میں کبھی ایک چپک دار بالکل سفید دھبہ دیکھتا ہوں جو پیشاب کے مقام سے نکلتا ہے؟

جواب: ہاں یہ مادہ پاک ہے اس سے جسم اور لباس نجس نہیں ہوتا جب یہ مادہ نکلے، تو اس وقت تم پر غسل یا وضو کرنا واجب نہیں ہے۔

سوال: خود کاری کیسی ہے؟

جواب: خود کاری حرام ہے اس سے بچنا تم پر واجب ہے، امام صادق علیہ السلام سے بعض احادیث میں مروی ہے کہ وہ زناکی منزل میں ہے۔