آسان مسائل (حصہ اول) جلد ۱

آسان مسائل (حصہ اول) 0%

آسان مسائل (حصہ اول) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

آسان مسائل (حصہ اول)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 9570
ڈاؤنلوڈ: 2351


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9570 / ڈاؤنلوڈ: 2351
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ اول)

آسان مسائل (حصہ اول) جلد 1

مؤلف:
اردو

وضو پر گفتگو

آج میرے والد نے کہا کہ میں آپ سے وضو کے بارے میں گفتگو کروں گا اس کے بعد غسل اور تیمم کے سلسلہ میں گفتگو کروں گا میں نے اپنے دل میں کہا کہ باب اول میں مجھ کو اس پہلے مطہر کے بارے میں بتایا جائےگا، جس سے جسم کی طہارت حدیث کے ذریعہ زائل ہوجاتی ہے۔

اورآپ کو مختصر طور پر اس حدث کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی بناپر جسم کی وہ طہارت ختم ہوجاتی ہے کہ جو اس کو پہلے حاصل تھی ۔

اور جب مجھے یہ یاد دھانی کرائی گئی تو اس وقت میں نے طے کیا کہ اس سوال کو اپنے والد کے سامنے بیان کروں وہ ابھی میرے سامنے تشریف فرما ہیں ۔

سوال: ہم وضو کیوں کریں؟

جواب: اس لئے کہ ہم نماز پڑھیں مثلاًیہ کہ ہم بیت اللہ الحرام کے حج اور عمرہ میں طواف کریں۔

کہ ہمارے لیے قرآن کے حروف اللہ کے ناموں اور اس کی خاص صفات مثلاً خالق ورحمن کا چھونا جائز ہوجائے۔

سوال: ہم طبعی طور پر پانی سے وضو کرتے ہیں۔لیکن کیا اس پانی کی بھی کچھ شرائط ہیں۔

جواب: ہاں: اس پانی کی بھی کچھ شرائط ہیں۔

( ۱) وہ پانی پاک ہو، اور آپ کے تمام اعضائے وضو بھی پاک ہوں، اور تطہیر کے لیے کافی ہے کہ پانی اس طرح ڈالا جائے کہ وہ تمام اعضائے وضوتک پہنچ جائے۔

( ۲) پانی مباح ہو(غصبی نہ ہو) اور اسی طرح وہ جگہ بھی جہاں بیٹھ کروضو ہورہا ہے مباح ہو اور ضروری ہے کہ وضو کی جگہ مباح ہونے کی شرط کو جان لیا جائے کہ جب وضو کی جگہ کا انحصار غصبی جگہ میں ہو یعنی غصبی جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ وضو ممکن نہیں )تو پھر وضو ساقط ہے۔

اور آپ پر تیمم کرنا واجب ہے، لیکن اگر آپ نے حکم کی مخالفت کی اور اس غصبی جگہ میں وضو کرلیا تو وضو صحیح ہے لیکن آپ گنہگار ہوں گے۔

( ۳) پانی مطلق ہو،مضاف نہ ہو جیسے جاری پانی، یا برتن کا پانی جس کو آپ پیتے ہیں، انار کا پانی نہ ہو،

سوال: میں کس طرح وضو کروں؟

جواب: قربۃًالی اللہ وضو کی نیت کے بعدشروع کریں۔

پہلے: اپنے چہرہ کو لمبائی میں پیشانی سے اوپر بالوں کے اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی تک اور چوڑائی میں جتنا حصہ انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کے درمیان آجائے دھولیں۔پس آپ اپنی پوری ہتھیلی کھولیں اور اس کو اپنے چہرہ پر رکھیں ، آپ چہرے کے جتنے حصہ کو آپ کی ہتھیلی انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کے درمیان لےلے اتنے حصہ کا دھونا چوڑائی میں واجب ہے۔

اس کا لحاظ کرتے ہوئے کہ چہرہ کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے گا، یاد رہے کہ گھنے اور زیادہ بالوں میں (بالوں کی جڑوں تک) پانی پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

دوسرے: آپ اپنے ہاتھوں کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے سرورں تک دھوئیں پہلے دایاں ہاتھ پھر بایاں ہاتھ،اوپر سے نیچے کی طرف انگلیوں کے سرے تک۔

سوال: کہنی کسے کہتے ہیں؟

جواب: ہاتھ اور بازو کی دونوں ہڈیوں کے جوڑکو کہنی کہتے ہیں۔

تیسرے: دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سرکے آگے والے حصے کا مسح کریں اور مسح اوپر سے نیچے کی طرف کیا جائے اور سر کے آگے کے بالوں پر مسح کرنا کافی ہے، کھال پر مسح کرنا واجب نہیں ہے۔

چوتھے:دونوں پاؤں کا مسح ہے کہ انگلیوں کے سرے سے پاؤں کے ابھرے ہوئے حصہ تک، پہلے داہنے پاؤں کا مسح داہنے ہاتھ کی تری سے، پھر بائیں پاؤں کا مسح بائیں ہاتھ کی تری سے کیا جائے گااور نئے پانی سے مسح کرنا جائز نہیں ہے، جس طرح کہ بائیں پاؤں کا مسح دائیں پاؤں سے پہلے کرنا جائز نہیں ہے۔

نیچے دئیے گئے بیان کی روشنی میں ملاحظہ کر یں:

الف ۔ترتیب

چہرے کے دائیں ہاتھ کے دھونے سے پہلے دھوئیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پہلے دھوئیں اور کا مسح سے پہلے کریں۔

ب۔ موالات

اس سے مرادافعال وضو کو ایک دوسرے کے بعد بجالانا ہے، اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ جس سے افعال وضو کے درمیان فاصلہ واقع ہوجائے، مثلاًپانی ختم ہوجائے،یا بھول جائے، تو ایسی صورت میں جس عضو کو دھورہا ہے، یا مسح کررہا ہے اس سے پہلے والے اعضاء کہ جن کو دھوچکا ہے، یا مسح کرچکا ہے خشک نہ ہوئے ہوں تو یہ کافی ہے(وضو ایسی صورت میں صحیح ہے) اور اگر تمام اعضا ء خشک ہوچکے ہوں تو وضو باطل ہے یہاں یہ اشارہ کرنا مناسب ہے کہ اگرہوا کی گرمی یا حرارت جسمانی کی بناپراعضاء خشک ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے جب کہ اعضاء وضو کو دھونے میں عرفاًفاصلہ نہ ہوا ہو تو وضو صحیح ہے۔

جواب: امکان کی صورت میں اپنا وضو خود کریں کسی سے مدد وغیرہ نہ لیں۔

سوال: اگر میں اپنا وضو خود نہ کرسکوں تو؟

جواب: اگر آپ وضو کرنے پر قدرت نہیں رکھتے توپھر آپ کسی دوسرے سے مددلے سکتے ہیں، اس طرح کہ وہ آپ کے ہاتھ کو بلند کرکے اس کے ذریعہ آپ کا چہرہ دھوئے، پھر آپ کے ہاتھوں کو دھوئے، پھر آپ کے دائیں ہاتھ سے آپ کے سر کا مسح کرائے، پھر دونوں پاؤں کا مسح، دونوں تری والے ہاتھوں سے کرائے۔

(د)۔وضو کا پانی جلدتک پہنچنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو، جیسے رنگ یا انگوٹھی وغیرہ ۔

(ھ)۔کوئی ایسا سبب پیش نہ آئے جو پانی کے استعمال کے لیے مانع ہو، جیسے کوئی مرض، اگر کوئی اور مانع درپیش ہوتو پھر آپ پر وضو کے بدلے تیمم واجب ہے۔

سوال: اگر میں نے پہلے وضو کیا اور اس کے بعد کسی نماز کا وقت آجائے تو کیا میں دوبارہ وضو کروں؟

جواب: جب تک آپ کا وضو ٹوٹ نہ جائے اس وقت تک آپ پر وضو کرنا واجب نہیں ہے۔

سوال: میرا وضو کیسے اور کس طرح ٹوٹے گا؟

جواب: وضو کو توڑنے والی سات چیزیں ہیں:

پیشاب، پاخانہ، نیند اور ہر وہ چیز جو عقل کو زائل کردیتی ہے۔مثلاً بیہوشی، نشہ، استحاضۂ قلیلہ، اور متوسطہ وغیرہ (استحاضہ وجنابت کی گفتگو میں ملاحظہ کیجئے)

پھر میرے والد کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوئی، میں نے محسوس کیا کہ ان کے ذہن میں کوئی قاعدہ یا چند قواعد جمع ہوگئے ہیں، پس جو میں نے محسوس کیا تھا وہ صحیح تھا۔

اس وقت میرے والد نے فرمایا کہ میں وضو کے بارے میں اپنی گفتگو کو چند عام قواعد پر ختم کروں گا جو آپ کے لیے مفید ہوںگے۔

پہلا قاعدہ

”کسی نے وضو کیا پھر اس کے بعد شک ہوا کہ کیا اس کا وضو (ان سات وضو توڑنے والی چیزوں میں سے) کسی چیز سے ٹوٹ گیا ہے یا وہ اپنے وضو (طہارت) پر باقی ہے پس وہ اپنے وضو اور اپنی طہارت پر باقی ہے“

سوال: مثلاً:

جواب: صبح کو آپ نے وضو کیا، آپ کو اس وقت یقین تھا اور پھر نماز ظہر کا وقت ہوا تو آپ نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا آپ کو شک ہوا کہ کیا کوئی ایسی چیز واقع ہوئی ہے جس سے آپ کا وضوٹوٹ گیا ہو یا کوئی چیز واقع نہیں ہوئی، پس آپ اپنی طہارت پر باقی ہیں اس وقت آپ یوں سمجھیں کہ میں باوضو ہوں اور آپ نماز پڑھ لیں ۔

دوسرا قاعدہ

کسی نے وضو کیا یا وضونہیں کیا اور نواقص وضو میں سے کوئی نقص عارض ہوجائے اور وضو ٹوٹ جائے اس کے بعد شک ہوکہ دوبارہ وضو کیا ہے یا نہیں ؟ تو وضو نہیں ہے اسے نماز کے لیے وضو کرنا چاہیے۔

سوال: مثال سے بتائیے؟

جواب: صبح کو آپ سو کراٹھے، اور جس وقت نماز ظہر کا وقت آیا، آپ نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا، فوراً آپ کو شک ہواکہ میں نے صبح نیند سے اٹھ کر وضو کیا تھا یا نہیں، اس وقت آپ سمجھیں کہ میں بے وضو ہوں پس آپ وضو کریں اور نماز پڑھیں۔

تیسرا قاعدہ

کسی نے وضو کیا اور وضو سے فارغ ہونے کے بعدصحت وضو میں شک کرتاہے کہ اس کا وضو صحیح ہوا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

سوال: مثال دیجئے؟

جواب: مثلاً آپ نے وضو کیا، پھر اس کے بعد شک کیا کہ میں اپنا چہرہ دھویا ہے یا نہیں، یا میں نے چہرہ کو صحیح دھویا یا نہیں، اس وقت آپ سمجھیں کہ آپ کا وضو صحیح ہے۔

سوال: اور اگر میں بائیں پاؤں کے مسح میں شک کروں تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: آپ مسح کو دوبارہ کریں لیکن اگر آپ کسی دوسرے عمل میں داخل ہوگئے ہیں مثلاً آپ نے نماز شروع کردی یا موالات کے بارے میں آپ کو شک ہوا، پس آپ اس صورت میں اپنے شک کی پرو انہ کریں۔

غسل پر گفتگو

میرے بابا نے کہا کہ ہم آج غسل کے سلسلہ میں گفتگو کریں گے اور میں نے اس گفتگو کے آخر میں جو کچھ سیکھا، اس پر میں بہت خوش ہوا جو کچھ میں نے حاصل کیا اس پر میں پھولے نہ سمایا تھا پس میں اس پانی کے ذریعہ اپنے جسم کی گندگی کو پاک وصاف کرتاہوں نیز یہ کہ میرا پانی سے محبت کرنا اور اس سے عشق ولگاؤ ایک علیحدہ مزے کی بات ہے کیونکہ پانی سے میرا عشق دائمی ہے اور میں بچپنے سے اسے عزیز رکھتا ہوں۔

میں اپنی مہربان ماں کے ساتھ پانی سے کھیلتا، اور جب مجھے موقع ملتا میں غوطہ خوری کرتا اور کبھی اسے اپنے چہرے پر چھڑک کرخوشی محسوس کرتا اور اس سے کھیل کر اپنے دل کو بہلاتا اور میں نے ارادہ کررکھا تھا کہ مجھے فرصت کی گھڑیاں نصیب ہوںگی تو میں تیرنا ضرور سیکھوں گا۔جیسا کہ میرے والد نے فرمایا کہ پیرا کی سیکھنا مستحب ہے، میں پانی کی چاہٹ کا بہت پیاسہ تھا جب بھی مجھے پانی کے ساتھ کھیلنے سے روکا جاتا تو پانی بن مچھلی کی طرح ہوجاتا اور اس کو اپنے سینے پر جھڑک کر اس سے حرارت قلبی محسوس کرتا۔

ہاں میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ پانی سے مجھے محبت ہے، اور میں اس کا عاشق ہوں، جب سے مجھ پریہ منکشف ہوا ہے کہ پانی پاک کرنے والا اور صاف کرنے والا ہے اور یہ پڑھا“

”النظا فة من الایمان“

”نظافت ایمان کا حصہ ہے“ تو میں اس وقت سے اپنے جسم کو اس سے دھوتا ہوں اور اس سے غسل کرتاہوں۔

آج میرے والد نے مجھے بتایا کہ میں کس طرح غسل کروں،

میرے والد نے فرمایا کہ غسل کی دوقسمیں ہیں:

”ارتماسی اور ترتیبی“

سوال: ارتماسی کسے کہتے ہیں؟

جواب: آپ کے جسم کا پانی میں ایک مرتبہ ڈوب جانا، یہ غسل ارتماسی کہلاتا ہے اس کے یہ ظاہری معنی ہیں اس کا مفہوم بعد میں وضاحت کے ساتھ بیان کروںگا۔

سوال: غسل ترتیبی کسے کہتے ہیں؟

جواب: پہلے آپ اپنے سر اور گردن اور جو چیز اس سروگردن سے متصل ہے اس کو دھوئیں، اور کان کے دھونے کو نہ بھولنا دونوں کا ظاہری حصہ دھونا ضروری ہے، اندرونی حصہ دھونا ضروری نہیں ہے۔

پھر آپ اپنے جسم کے دائیں حصہ کو دھوئیں اور کچھ اس حصہ کو بھی دھولیں جو گردن سے متصل ہے اور کچھ بائیں حصہ کو بھی دھولیں پھر آپ اپنے بائیں اور کچھ اس حصہ کو جو گردن سے ملا ہوا ہے اور کچھ دائیں حصہ کو د ھو لیں سراور گردن کے دھونے کے بعد بدن کا ایک ہی مرتبہ دھونا جائز ہے۔

سوال: کیا غسل کے لیے کچھ اور شرائط بھی ہیں؟

جواب: جو شرائط وضو میں ہیں وہ غسل میں بھی ہیں( ۱) نیت ( ۲) پانی کا پاک ہونا۔( ۳) پانی کا مباح ہونا ( ۴) پانی کا مطلق (خالص) ہونا( ۵) اور بدن کا نجاست سے پاک ہونا ( ۶) اعضائے غسل میں ترتیب کا ہونا اگر غسل کرنے والا اپنا غسل خود کرسکتا ہوتو غسل خود کرنا اور پانی کا استعمال شرعی طور پر مضر نہ ہو مثلاً مرض کا ہونا وضو کی گفتگو میں ملاحظہ کیجئے۔

لیکن غسل اوروضوسے دوچیزوں میں اختلاف فرق ہے، آپ ان دو چیزوں پر غور کریں؟

سوال: وہ دو چیزیں کیا ہیں؟

جواب: غسل میں یہ شرط نہیں ہے کہ ہر عضو کو وضو کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف دھویاجائے۔

وضو کی طرح غسل میں موالات شرط نہیں ہے پس آپ سر اور گردن دھونے کے بعد اپنے باقی جسم کو کچھ دیر بعددھوسکتے ہیں، چاہے آپ کا سر خشک ہی کیوں نہ ہوجائے،جیسا کہ آپ وضو میں اپنے چہرہ کو دھو ئیں گے تو جب تم بھنووں کے بالوں پر پہنچیں گے توصرف ان کا اوپر والا حصہ دھوئیں اور جب آپ اپنے سرکا مسح کریں تو صرف بالوں کے اوپر والے حصہ پر مسح کریں جلد تک پانی کا پہنچنا ضروری نہیں ہے لیکن غسل میں واجب ہے کہ پانی کو سرکی کھال تک پہنچایا جائے اسی طرح دونوں بھنوؤں،مونچھ اور ڈاڑھی کے بالوں میں بھی یہی حکم ہے۔

سوال: اس کے بعد کیا حکم ہے؟

جواب: غسل جنابت کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہیں کہ جب میں نماز کے لیے غسل کرو ں توپھر مجھے غسل کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے؟

جواب: ہاں غسل کے بعد فوراً بغیر وضو کے نماز پڑھ لو اسی طرح اگر آپ پر چندغسل واجب ہوگئے ہیں جیسے غسل جنابت اور غسل جمعہ تو جائز ہے کہ ایک غسل کو باقی غسلوں کے قصد سے کرلو اور اگر غسل جنابت کی خصوصاً نیت کرلی تو پھر دوسرے غسل کرنے کی ضروت نہیں ہے ہاں اگر آپ نے غسل جمعہ کی خصوصاًنیت کی ہے، تو یہ غسل آپ کو دوسرے غسل کرنے سے مستغنی نہیں کر سکتا۔

سوال: کسی عورت کو غسل جنابت، غسل حیض اور غسل جمعہ کی ضرورت پڑجائے تو وہ کیا کرے ؟

جواب: وہ تمام غسلوں کی نیت سے ایک غسل کرسکتی ہے، یا وہ غسل جنایت کی نیت کرے، تو پھر دوسرے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سوائے غسل جمعہ کے جیسا کہ آپ کو اس سے پہلے والے سوال وجواب میں بتا دیا گیا ہے۔

میرے والد نے مزید فرمایا : میں آپ کو کچھ چیزیں بتاتا ہوں کہ جن کا غسل کرنے میں لحاظ کرنا ضروی ہے:

آپ کو غسل سے پہلے یہ یقین ہوجانا چاہیے کہ جو جسم پر منی کا اثر تھا وہ ختم ہوگیا ہے یعنی جسم پر منی کی جو نجاست تھی پہلے اس کو دور کرکے جسم کو پاک کرنے کے بعد یقین ہوجائے کہ اب منی کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، پھر اس کے بعد غسل کی نیت کرکے غسل کو پورا کریں۔

( ۲) غسل کرنے سے پہلے پیشاب کیا جائے تاکہ پیشاب کے ساتھ باقی رہنے والی منی نکل جائے۔

( ۳) جو چیزیں بدن تک پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہیں، ان کو دور کیا جائے جیسے چکنائی اور اگر اس کے دور کرنے سے معذور ہویا اس کو دور کرنا آپ پر مشکل ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرلیں اور اگر وہ مانع، تیمم کے اعضا میں ہوتو پھر غسل اور تیمم دونوں کرلیں۔

( ۴) اگر غسل کے بعد کسی عضو کے صحیح دھونے میں آپ کو شک ہو جائے کہ فلاں عضو کو صحیح دھویا تھا یا نہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اور اگر آپ کو تمام سراور گردن کے دھونے میں شک ہو جائے اور آپ بھی بقیہ جسم کو دھونے میں مشغول ہیں تو آپ پر دوبارہ لوٹنا لازم ہے تاکہ جو مشکوک مقدار ہے اس کو دھوکر تدارک کرلیں۔

سوال: غسل جنابت، حیض، نفاس، استحاضہ، میت اور مس میت، یہ تمام کے تمام واجب غسل ہیں جیسا کہ اس سے پہلے آپ نے بیان فرمایا، لیکن میں نے غسل کی بحث میں ایک غسل کو سنا، جس کا آپ نے نام غسل جمعہ بتایا کیا اور بھی ایسے غسل ہیں کہ جن کا تذکرہ آپ نے مجھ سے نہ کیا ہو؟

جواب: ہاں اور بھی دوسرے بہت سے غسل ہیں، لیکن وہ سب مستحب ہیں، واجب نہیں ہیں ان میں سے کچھ کی تفصیل اس طرح ہے۔

(الف) غسل جمعہ جو کہ سنت موکدہ ہے اور اس کا وقت صبح سے لے کر مغرب تک ہے اور زوال سے پہلے انجام دینا افضل ہے۔

(ب) غسل احرام ہے۔

(ج ) غسل عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) اور ان دنوں کا وقت صبح سے لے کر مغرب تک ہے اور نماز عید سے پہلے ان کا بجالانا افضل ہے۔

(د) ۸ ۔ ۹/ ذی الحجہ اور ۹ ذی الحجہ کے دن غسل زوال کے وقت بجالانا افضل ہے۔

(ھ) ماہ رمضان کی پہلی، سترہویں، انیسویں، اکیسویں، اور چوبیسویں رات کا غسل افضل ہے

(و) استخارہ کا غسل ۔

(ز) نماز استقاء کا غسل۔

(ح) مکہ میں داخل ہونے کا غسل ۔

(ط) زیارت کعبہ شریف کا غسل۔

(ی) مسجد نبوی میں داخل ہونے کا غسل ۔

یہ وہ غسل ہیں کہ جن کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے غسل ہیں کہ جن کی اس مختصر کتاب میں گنجائش نہیں ہے بعض غسل ایسے ہیں کہ جن میں وضو کی ضرورت ہے اور یا وہ ہیں کہ جن کا استجاب کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں ہے اور ہم صرف ان کو رجاء مطلوبیت کی بجالاتے ہیں۔

سوال: میرا ایک آخری سوال باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر میں جنابت کے بعد پیشاب کا استبراء نہ کروں اور پیشاب ہی نہ کروں، اور غسل کرکے تمام چیزوں کو انجام دے لوں اس کے بعد منی خارج ہوجائے اگر چہ ایک ہی قطرہ کیوں نہ ہو اس کا کیا حکم ہے۔؟

جواب: آپ کے اوپر دوبارہ غسل واجب ہے چاہے وہ منی بغیر شہوت اور بغیر تحریک کے نکلے۔

اس طرح آپ کے اوپر دوبارہ غسل اس وقت واجب ہے جب کہ آپ کو معلوم ہو کہ یہ نکلنے والی چیز منی ہے اگرچہ وہ پہلی صورت (جو بیان ہوئی اس کے)بغیر نکلے۔

تیمم پر گفتگو

جب میرے والد محترم نے فرمایا کہ آج تیمم کے سلسلہ میں گفتگو ہوگی، تومیں نے محسوس کیا کہ یہ لفظ تیمم میرے لیے کوئی انوکھی چیز نہیں ہے بلکہ میں اس سے مانوس ہوں، مگر میں اس کا وقت اور سبب نہیں جانتا تھا کہ تیمم کب اور کس وقت واجب ہوتاہے اور اس کا وقت اور اس کا راز کیا ہے؟

آج جب اس سلسلہ میں گفتگو ہوئی، تو مجھے اس کی صحیح علت معلوم ہوئی میں نے تیمم کے لفظ کو پہلے سنااور پڑھا تھا اور قرآن مجید میں تلاوت بھی کیا تھا یا مشہور قاریوں میں سے کسی قاری کو تلاوت کرتے ہوئے بھی سنا تھا میرے والد نے پہلے سے مجھے قرآن مجید پڑھنے کی عادت ڈالی تھی کہ جتنا مجھ سے ہوسکے اس کی قرات کروں لہٰذامیری تقریباً ہر روز یہ عادت اور روش ہوگئی کہ میں اس کا تلاوت کرکے اپنے ذہن قلب جگراور حافظہ کو معطر کرتا رہوں۔

قرآن کو پڑھ کراس میں تدبر کرتا ہوں اور اپنی رغبت وچاہت کو اس کی ہدایت کے مطابق انجام دیتا ہوں اور اپنی انفرادی زندگی اور معاشرے میں اپنے خاندان والوں، اپنے دوستوں ، بھائیوں اور عزیزوں کے ساتھ اپنے روابط کو قرآن کی نہج کے مطابق انجام دیتا ہوں۔

لیکن میری رغبت اور الفت اس لفظ سے ظاہرہوجانے کے بعد بھی میں اس آیت کریمہ کو جس میں لفظ تیمم موجود ہے، نکال نہ سکا اور نہ اس سورہ کانام یاد آیا جس میں یہ آیت تیمم موجود ہے۔اس لئے میں نے آج کی بحث کے شروع میں اپنے والد سے یہ سوال کیا :

سوال: ابا جان :جس سورہ میں یہ آیت تیمم موجود ہے مجھے یاد نہیں آرہی ہے؟

جواب: وہ سورہ نساء ہے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

بسم الله الرحمن الرحیم

( وان کنتم مرضی اوعلی سفر او جاء احد منکم من الغائط اولا مستم النساء فلم تجدوا ماء فتیممو؟مموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوهکم وایدیکم ان الله کان عفوا غفورا )

”اور جب کوئی بیمار ہو، یا حالت سفر میں ہو، یا کوئی رفع حاجت کرکے آئے یا عورتوں سے مقاربت کی ہو،اور پھر پانی نہ ملے، تو پا ک مٹی سے تیمم کرکے اپنے چہرہ اور ہاتھوں کا مسح کرلو،بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور معاف کرنے والاہے“

میں نے آیت کریمہ کا ذکر کیا جیسا کہ آپ نے سنا، اب تیمم کب، کس پر، اور کس طرح کریں ان میں سے سب کو الگ الگ بیان کریںگے۔

سوال: ابا جان !تیمم کب کیا جاتاہے۔؟

جواب: تیمم غسل یا وضو کا بدل ہے اور جن جگہوں میں دونوں کا بدل ہے وہ جگہیں یہ ہیں۔

( ۱) اتنا پانی موجود نہ ہو جس سے غسل یا وضوکرسکو تو اگرغسل کی حاجت ہو اور پانی بھی اتنانہیں ہو تو آپ غسل کے بدلے تیمم کر لیں اوراگرآپ نے وضو کرناتھا لیکن پانی وضو کے لیے بھی کافی نہیں ہے تو وضو کے بدلے تیمم کرلیں۔

( ۲) پانی موجود ہے لیکن اس تک پہنچنا آپ کے لیے آسان نہیں، اس عاجزی کی بناپر جو آپ کے گردقدرتی طور پر جمع ہوگئی ہیں مثلاًاللہ نے اس کے حصول پر قدرت نہیں دی یعنی پانی کے حاصل کرنے کے لئے اتنی طاقت نہیں ہے جس سے پانی حاصل ہوسکے مثلاً پانی گہرے کنویں میں یا اتنی دور ہے کہ چلنے ،جانے اورآنے میں بہت مشقت ہوتی ہو، یا پانی کا حاصل کرناکسی حرام کام کے ارتکاب پر موقوف ہو، جیسے اس غصبی برتن کا استعمال کرنا کہ جس میں وہ مباح پانی موجودہویا پھرپانی حاصل کرنے پر جان ومال اور ناموس کا خطرہ ہو۔

( ۳) اپنی پیاس یا کسی ایسے شخص ” جس کی حفاطت اس سے مربوط ہو“ پیاس کا خطرہ ہو، بلکہ کسی اہم حیوان کاپیاس کی وجہ سے تلف ہو جانے کا خطرہ ہو اور آپ کے پاس اتنا پانی ہو کہ جو پیاس بجھانے اور وضوکرنے کے لئے کافی نہ ہو، تو پھر آپ تیمم کرلیں۔

( ۴) نماز کا وقت اتنا مختصر ہوکہ آپ وضویا غسل کے ساتھ نماز کو اس کے پورے وقت میں ادا نہیں کرسکتے تو پھر تیمم کرلیں۔

( ۵) جب وضو اور غسل کرنے کے لیے پانی کے حصول یا پانی کے استعمال میں ایسی مشقت وحرج ہو کہ جس کا تحمل کرنا مشکل ہو،جیسے پانی کا حاصل کرنا ذلت ورسوائی پر موقوف ہو، یا پانی اتنا متغیر ہو جس کی بنا پر آپ کی طبیعت اس سے کراہت کررہی ہو،تو آپ اس پانی کے استعمال میں دشواری محسوس کریں گے تو پھرایسی صورت حال میں تیمم کرلیں۔

( ۶) جب آپ کسی ایسے واجب فعل کے انجام دینے پر مکلف ہوں کہ جس میں پانی کا استعمال ہی ضروری ہو، جیسے مسجد سے نجاست کا دور کرنا اور پانی بھی کم ہوتو مسجد کو پاک کرنا ضروری ہے اور نماز کے لیے تیمم کرنا چاہیے۔

( ۷) جب غسل یا وضو میں پانی کے استعمال سے آپ کی جان کو ضرر پہنچنے کا خطرہ ہو یعنی پانی کے استعمال سے کوئی مرض پیدا ہوجائے یا آپ کی بیماری طولانی ، یا زیادہ ہوجائے یا آپ کا علاج مشکل ہو جائے اور بیماری ایسی بھی نہیں ہے کہ جس پر وضو جبیرہ یا غسل جبیرہ کیا جائے تو ایسی صور ت میں تیمم کرناضروری ہے۔

سوال: یہ جبیرہ کیا ہے ؟

جواب: آنے والی گفتگومیں اس کے بارے میں مفصل بات ہوگی ۔

سوال: مجھے معلو م ہوگیا کہ تیمم کا کرنا کب لازم ہوتاہے، لیکن آپ مجھے یہ بتائیے کہ تیمم کس چیز پر ہوتا ہے؟

جواب: تیمم زمین ، مٹی، ریت، پتھر، کنکری یا ان کے مشابہہ چیزوں پر ہوتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ یہ تمام چیزیں پاک ہوں اور غصی نہ ہوں۔

سوال: میں کس طرح تیمم کروں؟

جواب: میں آپ کے سامنے تیمم کرتا ہوں ، تاکہ آپ سیکھ لیں میرے والد نے میرے سامنے تیمم کرنا شروع کیا، پہلے ہاتھ سے انگوٹھی کو اتار کر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ زمین پر مارا،پھر دونوں ہاتھوں کو ملاکر پیشانی اوراس کے دونوں طرف جس جگہ سے سر کے بال اگتے ہیں ابرؤں اور ناک کے اوپر والے حصہ تک کھینچااس کے بعد اپنی ناک کے اوپر سے ہاتھوں کو ہٹا کر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک کھینچا۔

سوال: کیا اتنی جلدی اور اتنی آسانی کے ساتھ تیمم تمام ہوجاتاہے؟

جواب: ہاں، صرف تیمم ہی سہل اور آسان نہیں ہے بلکہ خداوند متعال کا ارشاد پاک ہے۔

( یرید الله بکم الیسرولایرید بکم العسر )

”یعنی خدا وند متعال آپ کے لیے آسانیاں چاہتا ہے نہ کہ سختیاں “

سوال: کیا تیمم کی کجھ اور بھی شرائط ہیں؟

جواب: ہاں، اور بھی شرائط ہیں۔

( ۱) ایسا کوئی عذر لاحق ہوکہ جس کی بناپر آپ غسل یا وضو نہیں کرسکتے،جیسا کہ گزشتہ بیان میں بتایا جاچکا ہے۔

( ۲) تیمم کی نیت قربتہ الی اللہ ہونی جاہیے۔

( ۳) جس چیز پر تیمم کیاجارہا ہے وہ پاک ہو،غصبی نہ ہو،کوئی ایسی چیز اس میں ملی ہوئی نہ ہوکہ جس پر تیمم کرنا صحیح نہ ہو۔

( ۴) لہٰذا جس چیز پر تیمم کیا جارہا ہے، اس کا کچھ اثر آپ کے ہاتھوں پر باقی رہے، الہٰذا ایسے پتھرپر کہ جس پر غبارنہ ہو تیمم کرنا صحیح نہیں ہے۔

( ۵) پیشانی پر ہاتھوں کواوپر سے نیچے کی طرف کھینچنا چا ہئے۔

( ۶) جب آپ تیمم ،نماز یا کسی ایسے دوسرے واجب کے لیے کررہے ہیں کہ جس کا وقت معین ہے، تویہ تیمم اسی وقت صحیح ہے، جب کہ وقت ختم ہونے سے پہلے عذر کے ختم ہوجانے کی امید نہ ہو۔

( ۷) آپ حتی الامکان تیمم خود کریں۔

( ۸) افعال تیمم پے درپے ہوں، ان کے درمیان عرفاًفاصلہ نہ ہو۔

( ۹) تیمم کرتے وقت آپ کے ہاتھوں اور پیشانی کے درمیان کوئی چیز حائل اور مانع نہ ہو مثلاًانگوٹھی وغیرہ۔

( ۱۰) تیمم میں پہلے پیشانی پر مسح کریں،پھربائیں ہاتھ کی پشت سے پہلے دائیں ہاتھ کی پشت پر مسح کریں۔

سوال: بیماری کی وجہ سے غسل یا وضو کے لیے پانی کے استعمال سے معذوری کی بناپر میں نے تیمم کرکے نمازپڑھ لی پھرمیں ڈاکڑکے پاس گیا اس نے پانی کے استعمال کی اجازت دے دی اور ابھی نماز کا وقت باقی تھا تو میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: آپ کی نماز صحیح ہے اس کا دوبارہ پڑھنا آپ پر واجب نہیں ہے جب کہ آپ کا تیمم شرعی طریقہ سے درست ہوکیونکہ آپ نے جو تیمم کیا وہ وقت کے اندر عذر کے ختم ہونے کی ناامیدی کی بناپرکیا تھا۔

سوال: ڈاکڑ نے بیماری کے دنوں میں مجھے پانی کے استعمال سے منع کیا میں نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی،پھر اس نے مجھ کو پانی کے استعمال کی صحیح وسالم ہونے کے بعد اجازت دے دی پس کیا میں اپنی ان نمازوں کا دوبارہ اعادہ کروںگا جن کو میں نے پچھلے دنوں تیمم سے پڑھا ہے۔

جواب: ہرگز نہیں،آپ پر ان کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔

سوال: نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد میں نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی،اب دوسری نماز کا وقت آ گیا، اور میرا عذر ختم نہیں ہوا، کیا میں دوسری مرتبہ اس نماز کے لیے تیمم کروں؟

جواب: نہیں جب تک عذر باقی ہے، دوسرے تیمم کی ضرورت نہیں ہے، اور آپ پر زوال عذر کا انتظار بھی لازم نہیں ہے، کیونکہ آپ تیمم کے بعد ان چیزوں سے محفوظ ہیں۔

سوال: میں نے غسل جنابت کے بدلے تیمم کرلیا کیا پھر نماز کے لیے وضو کروںگا؟

جواب: ہرگز نہیں،اس تیمم کے بعد آپ کو غسل اور وضو کی حاجت نہیں ہے۔

سوال: میں نے غسل کے بدلے تیمم کرلیا، پھر میں بیت الخلاء گیا، یا سوگیا،کیا اس صورت میں ،میں دوسری مرتبہ وضو کے بدلے یا غسل کے بدلے تیمم کروں گا۔؟

جواب: اگر آپ وضو کرسکتے ہیں تو وضو کرلیں ، ورنہ وضو کے بدلے تیمم کریں۔

سوال: جب میں بائیں ہاتھ کے تیمم میں مشغول ہوں، اس وقت پیشانی کے تیمم یا دائیں ہاتھ کے تیمم میں شک کروں تو اس کا کیا حکم ہے۔؟

جواب: اس صورت میں اپنے شک کی پروانہ کریں۔

سوال: اور اگر ان دونوں پیشانی یا اپنے ہاتھ کے تیمم کے سلسلہ میں تیمم کرنے کے بعد شک کروں تو پھر؟

جواب: اسی طرح اپنے شک کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔

جبیرہ پر گفتگو

جب گفتگو کا موقعہ آیا تو میں نے اپنے والد محترم سے عرض کی کہ آپ نے کل مجھ سے جبیرہ کے بارے میں تذکرہ کیا تھا لہٰذا آج کی بات چیت جبیرہ کے بارے میں ہونا چاہیے۔

والد: بالکل صحیح ہے جب آپ زخم یا پھوڑے یا ٹوٹے ہوئے عضوپرکوئی چیزباندھیں تو اس کو فقہی اصطلاح میں جبیرہ کہتے ہیں ۔

سوال: میں زخم ، اورٹوٹے ہوئے عضو کو سمجھ گیا لیکن قرح کیا چیز ہے؟

جواب: قروح وہ پھوڑے اورپھنسیاں ہیں کہ جو بدن میں نکلتی ہیں ۔

سوال: جبیرہ کی موجود گی میں کس طرح غسل یا وضو یا تیمم کروں گا؟

جواب: اگر آپ جبیرہ کو بغیر کسی ضررونقصان کے ہٹا سکتے ہوں تو ہٹالیں اور غسل کرلیں،یا اس کے نیچے سے مسح کرلیں،اس جہت سے کہ جو آپ پر واجب ہے اس کے اعتبار سے انجام دیں یعنی غسل واجب ہے تو غسل کرلیں،وضویا تیمم واجب ہے تو اس پر ہاتھ پھیر لیں۔

سوال: اگر اس جبیرہ کا ہٹانا ضرروحرج کی بناپر ممکن نہ ہوتو ؟

جواب: جبیرہ کے اطراف کا حصہ جتناآپ دھوسکتےہیں دھولیں اور پھر جبیرہ پر ہاتھ پھیرلیں، کیونکہ یہ عوض ہے اس چیز کا جو جبیرہ نے ڈھانپ رکھاہے۔

( ۱) جبیرہ کا وہ ظاہری حصہ جس پر آپ نے اپنا تری والا ہاتھ پھیراوہ پاک ہو، اورجو نجاست جبیرہ کے اندر زخم کی بناپر لگی ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

( ۲) جبیرہ غصبی نہ ہو۔

( ۳) جبیرہ کے زخم کا حجم ٹوٹے ہوئے عضو کی مقدار کے مطابق (جو عام طریقہ سے ہوتا ہے) ہونا چاہیے ۔

سوال: اگر جبیرہ کا حجم زخم کے حجم سے بڑا ہوتو؟

جواب: اس زیادہ مقدار کو ہٹا کر اس کے نیچے والے حصہ کو دھولیں یا اس پر ہاتھ پھیرلیں جیسا کہ اس کا موردہو ویسا ہی انجام دیں۔

سوال: اگر جبیرہ ہٹانا ممکن نہ ہویا پھر زخم والی جگہ سے اس کا ہٹانا نقصان دہ ہوتو اس وقت کیا کیا جائے ؟

جواب: آپ نہ ہٹائیں اور جبیرہ پر ہاتھ پھیرتے وقت وضو کرلیں۔

سوال: اگر اس جبیرہ کا ہٹانا (کہ جس کی مقدارزائد ہے)سالم جگہ کے لیے نقصان دہ ہو اور زخم والی جگہ کو ضرر ہوتو اس وقت کیا کیا جائے؟

جواب: اگرجبیرہ تیمم والے اعضاء پر نہ ہوتو تیمم کے بدلے وضو کرلیںاوراگر اعضائے تیمم پر جبیرہ ہو تو وضو اورتیمم دونوں کرلیں ۔

سوال: اگر جبیرہ میرے تمام چہرے یا پورے ہاتھ یا پیر پر ہو تو میں کس طرح وضو کروں؟

جواب: جبیرہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وضو کرلیں۔

سوال: اور اگر جبیرہ تمام اعضا یا اکثر اعضا پر ہوتو؟

جواب: آپ جبیرہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وضو اور تیمم دونوں کو جمع کرلیں یعنی دونوں کو انجام دیں۔

سوال: اگر میرے چہرے یا ہاتھ پر ایسا زخم یا پھوڑا، جو کھلا ہوا، باندھا نہ گیا ہو اور ڈاکڑ نے اس پر پانی کا استعمال منع کردیا ہوتو پھر میں کس طرح وضو کروں؟

جواب: اس کے اطراف کو دھوئیں اور زخم والی جگہ کو نہ دھوئیں۔

سوال: مثلاً میرے چہرے یا ہاتھ کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا اور وہ کھلا ہوا ہو اور پانی کا استعمال اس کو ضرر بھی دیتا ہو، اور اس جگہ زخم بھی نہیں ہے تو میں کس طرح وضو کروں؟

جواب: آپ و ضو کے بدلے تیمم کریں۔

سوال: اورا گرکھلا ہوا زخم مسح کرنے کی جگہ مثلاً سریا پاؤں میں ہو، اور پانی بھی ا س کو ضرر پہنچاتا ہو میں کس طرح وضو میں مسح کروں۔؟

جواب: آپ تیمم کریں۔

سوال: اگر میں غسل کرنا چاہوں اور میرے جسم کے کسی حصہ میں زخم یا پھوڑا ہو اور وہ زخم یا پھوڑا کھلا ہوا ہو تو کیا کروں؟

جواب: پھوڑے پھنسی کی جگہ کو چھوڑ کر باقی حصہ کو دھوئیں یا پھر تیمم کرلیں اس بارے میں آپ کو اختیار ہے۔

سوال: اور اگر میرے جسم کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو میں غسل کس طرح کروں؟

جواب: غسل کے بدلے تیمم کریں۔

تمام شد جلد اول

فہرست

توجہ ۳

تعارف مؤسسہ ۴

مقدمہ ۵

پہلا حصہ ۵

حصہ دوم ۶

حصہ سوم ۶

مکالمہ ۸

۱ ۔واجبات ۱۰

۲ ۔محرمات ۱۰

۳ ۔مستحبات ۱۱

۴ ۔مکروہات ۱۱

۵ ۔مباحات ۱۱

عبادت اورمعاملات کیا ہیں؟ ۱۲

ان اصطلاحات کو نہیں جانتا تھا کہ ان کا مقصد کیا ہے؟ ۱۳

علامت بلوع ۱۶

تقلیدپر گفتگو ۱۷

تقلید ۱۷

ایسا کیوں نہیں ؟ ۱۷

نجاست پر گفتگو ۲۲