آسان مسائل (حصہ دوم) جلد ۲

آسان مسائل (حصہ دوم) 0%

آسان مسائل (حصہ دوم) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6392 / ڈاؤنلوڈ: 2227
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ دوم)

آسان مسائل (حصہ دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

روزے کے متعلق گفتگو

میرے والد نے ماہ رمضان کے متعلق گفتگو کو شروع کیا تو ان کی آواز بیٹھنے لگی۔ ان کی آنکھوں می آنسو تھے ان کی روح میں مہربانی کا چشمہ پھوٹ رہا تھا۔ رمضان کا نام ان کے نزدیک ہر خیرو برکت، رحمت ، مغفرت اور رضوان کے معانی ہم آہنگ ہے۔

لہٰذا ان کے چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ مجھے ایسی ہستی کے حضور میں منتقل کرہے ہیں جس کی عظمت و بزرگی کی خوشبو پھیل رہی ہو جیسے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت اور اصحاب کے بیچ میں کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان خطبہ پڑھ رہے ہیں آپ فرماتے ہیں۔

اے لوگو! تمہاری طرف اللہ کا مہینہ اپنی رحمت، برکت اور مغفرت کے ساتھ آرہا ہے۔ ایسامہینہ جو اللہ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ہے۔ جس کے دن تمام دنوں سے بہتر، جس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر جس کی گھڑی تمام گھڑیوں سے بہتر، وہ ایسا مہینہ ہے جس میں تم کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی جارہی ہے اور اس میں تم کرامت خدا کے اہل قرار پاؤ گے۔

تمہاری سانسیں اس میں تسبیح، تمہاری نیند اس میں عبادت، تمہارا عمل اس میں مقبول، اور تمہاری دعا اس میں مستجاب ہے۔ بس تم سچی نیتوں اور پاک دلوں سے خدا سے سوال کرو کہ وہ تم کو روزہ رکھنے کی اور اس میں قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، کیونکہ جو اس مہینہ میں اللہ کی بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت ہے۔

اے لوگوں اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دیئے گے ہیں۔ پس خدا سے دعا کرو کہ وہ تم پر بند نہ کردئیے جائیں۔اور اس مہینے میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں، خدا سے دعا کرو کہ وہ تم پر کھول ہن دیئے جائیں، شیاطین کو مقید کردیا گیا ہے پس تم سوال کرو کہ وہ تم پر دوبارہ مسلط نہ کردی دیئے جائیں۔

یہاں تک پڑھنے کے بعد انہوں نے مجھ کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ کے اس حصہ کی طرف متوجہ کیا، گویا اشارہ ہو اس طرف کہ اس مہینہ میں مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ پھر انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ اے لوگو ! تم میں سے جو کوئی بھی کسی مومن روزہ دار کو افطار کرائے اسے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب اور تمام گزشتہ گناہوں کی مغفرت خدا سے ملے گی کہا گیا کہ یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم کسی کو افطار کراسکیں۔ تو آپ نے فرمایا آ تش جہنم سے بچو، اگر چہ آدھے خرمے ہی سے افطار کراؤ۔

اللہ سے ڈرو اگر چہ پانی کے ایک ہی گھونٹ سے افطار کراؤ۔ اللہ تعالیٰ اس ثواب کو عطا کرے گا اس کو کہ جو اس ذراسے عمل کو انجام دے،اور اس سے زیادہ پر قدرت نہ رکھے۔اے لوگوں!جو بھی اس مہینہ میں اپنے اخلاق کو اچھارکھے قیامت کے دن جبکہ لوگوں کے قدم صراط پر ڈگمگائیں گے تو وہ آسانی سے اس پر گزر جائیگا اور جو اپنے غلام وکنیز سے اس ماہ میں خدمت کم لے تو خدا قیامت کے دن اس کے حساب کو آسان کردے گا اور جو کوئی اس مہینہ میں لوگوں کواپنے شرسےمحفوظ رکھے،خدا قیامت کے دن اس کو اپنے غضب سے مخفوظ رکھےگا،اور جو اس مہینہ میں کسی یتیم کو نوازے خدا قیامت کے دن اس کو نوازےگا،اور جو کوئی اس مہینہ میں اپنے عزیزوں کے ساتھ احسان کوقطع کرے خدا قیامت کے دن اپنی رحمت اس سے قطع کردے گا،اور جو کوئی اس مہینہ قرآن کی ایک آیت تلاوت کرےگا تو اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے دوسرے مہینوں قرآن ختم کرے۔

جب میرے والد صاحب نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ کی اس جگہ تک پہنچے تو انھوں نے بعض روزے داروں کے بارے میں نقدوتبصرہ شروع کیا خیال کرتے ہیں کہ روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام ہے،تو وہ امام علی علیہ السلام کے اس قول کی تصوریر ہیں کہ جس میں آپ نے فرمایا(کہ کتنے روزے دار ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے پیاس کے اور کچھ نہیں ملتاا ور کتنے عبادت گزار ایسے ہیں کہ ان کو اپنی عبادت سے سوائے رنج وتعب کے اور کچھ نہیں ملتا)پھر اس کے فورا بعد اًمام صادق علیہ السلام کی دوسری حدیث پڑھی کہ جس میں آپ نے فرمایا:(جب تم روزہ رکھو تو تمہارےکان‘آنکھ، بال،کھال اور تمام اعضا روزے دار ہوں ۔(اور یہ بھی فرمایا کہ روزہ صرف کھانے پینے سے ترک کا نہ ہونا چاہئے،پس جس وقت تم روزہ رکھو تو تمہاری زبان جھوٹ سےمحفوظ رہنی چاہئے،اور اپنی آنکھوں کو حرام کے دیکھنے سے محفوظ رکھو،باہم لڑائی جھگڑانہ کرو،حسدنہ کرو،غیبت نہ کرو،کسی کو برانہ کہو،گالی نہ بکوظلم نہ کرو،اور بری بات ،جھوٹ،خصومت ،سوئے ظن،غیبت،چغل خوری سے بچو اور آخرت کو اپنے پیش نظر رکھو ظہور امام زمان علیہ السلام کے منتظر رہو۔

اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا اس کے منتظر رہو۔ اعمال صالحہ کا تو شہ آخرت کے سفر کے واسطے اکٹھا کرلو،اورتم ہمیشہ سکون واطمینان کے ساتھ رہو اور خشوع وخضوع وانکساری ایسی ہو کہ جیسے کوئی غلام اپنے آقاسے خائف وترساں رہتا ہے خدا کے عذاب سے ڈرو،اور اس کی رحمت سے امید رکھو اس کے بعد پھر مجھ سے ایک قصہ بیان کیا جو رسول اللہ کے ساتھ پیش آیا تھا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک عورت کو گالیاں دیتے ہوئےسناکہ وہ اپنی کنیز کو گالیاں دے رہی ہے حالانکہ وہ روزے سے ہے۔

پس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو اپنے پاس بلایا اور کھانا منگوا کر اس سے فرمایا اس کو کھا،اس نے عرض کیا اے اللہ کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں روزے سے ہوں آپ نے فرمایا تو کس طرح روزے سے ہے حالانکہ تو نے اپنی کنیز کو گالیاں دی ہے روزہ فقط کھانے پینےسے ہاتھ اٹھالینے کا نام نہیں ہے بلکہ خدا نے کھانے پینے کے علاوہ اس کو قول وفعل کی برائیوں سے بھی حجاب قرار دیا ہے( ماقل الصوم واکثر الجوع) روزے دار کتنے کم ہیں اور بھوکے زیادہ کتنے ہیں۔

سوال: میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ آپ نے مجھ پر شدید رعب وہیبت طاری کردیا ہے اس سال مجھ پر واجب ہے کہ ما رمضان میں روزہ رکھوں لیکن مجھے کس طرح معلوم ہوکہ رمضان شروع ہوگیا تاکہ میں روزہ رکھوں؟

جواب: اس کو تم اپنے شہر میں ماہ رمضان کی رویت ہلال کے ثابت ہو جانے سےمعلوم کرسکتے ہو،یا پھر جو تمہارے شہر سے قریب شہر ہیں اور جو افق میں اس طرح شریک ہیں کہ اگر وہاں چاند کا دیکھا جانا ثابت ہوجائے تو وہ رویت تمہارے شہر میں بھی لازمی ہے،اگر کوئی چیز جیسے بادل یا غبار یا پہاڑوغیرہ مانع نہ ہوں (تو ان شہروں کی رویت ہلال سے ماہ رمضان کو معلوم کرسکتے ہو)

سوال: رویت حلال کس طرح ثابت ہوتی ہے ۔

جواب چند چیزوں کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں۔

۱ خود تم چاند دیکھو۔

۲ ایسے دوعادل گواہی دیں کہ جن کی غلطی کا تم کو علم نہ ہو،اور نہ ان کے خلاف کوئی شہادت ہو۔

۳ ماہ شعبان کے تیس ( ۳۰) دن پورے گزر جائیں تاکہ یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ ماہ شعبان گزر گیا اور ماہ رمضان شروع ہوگیا۔

۴ لوگوں کے درمیان رویت ماہ رمضان کی ایسی شہرت ہوجائے کہ تم کو اطمینان ہوجائے۔

سوال: اگر اول وقت کو میں نہ جان سکوں تو کیا میں کل روزہ رکھوں ‘اس سے ماہ رمضان کا چاند ثابت ہوگا یا ثابت نہ ہوگا،کیا میں ایسی حالت میں کل روزہ رکھوں جس کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہے کہ آخر ماہ شعبان ہے یا اول ماہ رمضان ہے؟

جواب: تم روزہ رکھو ماہ شعبان سمجھتے ہوئے اگر دن میں کسی بھی وقت معلوم ہوگیا کہ یہ ماہ رمضان ہے تو اپنی نیت کو بدل دو،وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا،اور پھر تمہارے اوپر کوئی چیز (قضا) نہ ہوگی،اور تمہارے لئے یہ بھی جائز ہے کہ تم یوم الشک (یعنی شک ہو کہ یہ دن آخرشعبان کا ہے یا اول رمضان کا) میں روزہ نہ رکھو

سوال: کیسے معلوم ہو کہ یہ ماہ رمضان کا آخری دن ہے اور شوال کی ابتداء ہے تاکہ میں روزہ نہ رکھوں ؟

جواب: جو طریقہ تم کو پہلے بتاچکا ہوں جس سے تم ماہ رمضان کی ابتداء معلوم کرسکتے ہو،اسی طرح ماہ شوال کا خود چاند دیکھ کریا۔۔۔ یا۔۔۔

سوال: ہاں ہاں اور جب میرے اوپر ماہ رمضان کا چاند ثابت ہوجائے تو ؟

جواب: تمہارے اوپر اور ہر اس مسلمان پر کہ جو بالغ ہو،عاقل ہو روزہ جس کو نقصان نہ پہونچاتا ہو مسافر نہ ہو اور نہ بے ہوش ہو روزہ رکھنا واجب ہے،اور عوتوں کی نسبت روزہ ہر اس عورت پر واجب ہے کہ جو حیض ونفاس سے پاک ہو پس حائض اور نفساء روزہ نہیں رکھ سکتیں،اور ماہ رمضان کے بعد ان روزوں کی قضا کریں گی ۔

سوال: اور جب انسان کو روزہ کی بنا پر اپنی جان کا خوف ہوتو؟

جواب: روزہ کی بناپر مرض کے پیدا ہوجانے کا خوف ہو یا اس میں شدت کا سبب ہو یا دیر سے بیماری کے اچھے ہونے کا ڈر ہویا تکلیف کے زیادہ ہونے کا سبب ہو اور یہ تمام چیزیں اتنی مقدار میں ہوں کہ جس کو عادتاً برداشت نہ کیا جاتاہو تو پھر روزہ نہ رکھے۔

سوال: اور مسافر کاکیا حکم ہے؟

جواب: جب روزہ دار زوال کے بعد سفر کرے گا تو وہ اپنے روزہ پر باقی رہے اور اگر صبح سے پہلے سفر کرے تو روزہ نہ رکھے۔

سوال: اور جب وہ صبح کے بعد سفر کرے تو؟

جواب: اگر وہ صبح کے بعد سفر کرے تو (اس کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے چاہے اس نے اپنے سفر کا ارادہ رات سے کیا ہو یا نہ کیا ہو) اس پر قضا کرنا واجب ہے۔

سوال: مجھے روزہ رکھنے کا ارادہ ہے تو میں کس طرح روزہ رکھوں؟

جواب: اول صبح سے سورج غروب ہونے تک قربۃًالی اللہ روزہ کی نیت کرو۔

سوال: کیا روزہ فقط امساک یعنی اپنے نفس کو روکنا نہیں ہے؟

جواب: ہاں روزہ امساک ہے۔

سوال: جب میں روزہ کی نیت کروں،تو اپنے کو کن چیزوں سے روکوں؟

جواب: چند چیزوں سے ان کو(مفطرات ) کہتے ہیں اور وہ نوہیں۔

۱۲ جان بوجھ کر کھاناپینا تھوڑا ہویا زیادہ۔

سوال: اگر میں جان بوجھ کر ایسا نہ کروں بلکہ بھولے سے حالت روزہ میں کھاپی لوں تو؟

جواب: جب تک تم کسی چیز کو عمداًانجام نہ دو تمہارا روزہ صحیح ہے۔

سوال: کیا میں اپنے دہن کو پانی سے دھو کر پھر پانی کو باہر نکال سکتا ہوں؟

کلی کرسکتا ہوں؟

جواب: ہاں تم کرسکتے ہو‘لیکن اگر اس عمل سے غرض ٹھنڈک (اور سکون) حاصل کرنا ہو،اور پانی حلق میں چلاجائے تو تمہارے اوپر قضا واجب ہے اور اگر تم نے بھول کر نگل لیا تو تم پر قضا واجب نہیں۔

سوال: کیا میں اپنا سرپانی میں ڈبو سکتا ہوں جب کہ پانی حلق میں نہ جانے کا اطمینان ہو؟

جواب: ہاں تم یہ کام کرسکتے ہو اگرچہ اس کام میں کراہت شدیدہ ہے ۔

۳ ( جان بوجھ کر خدا اور رسول وآئمہ معصومین علیہ السلام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا)

۴ عمداً جنسی فعل(یا مقاربت )آگے یا پیچھے کے حصہ میں انجام دینا فاعل ہویا مفعول ہو۔

سوال: اور روزہ دار شوہراور روزہ دار بیوی کو؟

جواب: ان دونوں کو جنسی فعل (جماع) کرنے کا حق صرف ماہ رمضان کی رات میں ہے دن میں نہیں ۔

۵ استمناء یعنی کسی بھی صورت سے منی کا نکالنا۔

۶ طلوع فجر تک عمداً حالت جنابت پر باقی رہنا پس اگر انسان کسی بھی سبب سے رات میں مجنب ہوجائے تو اس پرطلوع صبح سے پہلے غسل کرنا واجب ہے اور جب صبح طلوع کرے تو وہ پاک وصاف ہوکر روزہ رکھے۔

سوال: اگر رات میں مجنب ہوگیا اورغسل مرض کی بناپرنہیں کرسکتا تو؟

جواب: صبح سے پہلے تیمم کرلو۔

سوال: عورت کیا کرے؟

جواب: جب وہ حیض ونفاس سے رات میں پاک ہوجائے تو وہ صبح سے پہلےغسل کرکے پاک ہوجائے اور اس کے بعد روزہ رکھے۔

سوال: اور اگر میں دن میں محتلم ہوجاؤں اور روزہ سے رہوں اور جب میری آنکھ کھلے تو میں اپنے کو مجنب پاؤں؟

جواب: روزہ دار کا احتلام روزہ کو فاسد نہیں کرتا پس اگر تم دن کے کسی بھی حصہ میں بیدار ہو اور اپنے کو مجنب پاؤ تو اس سے تمہارے روزہ پرکوئی نقصان نہیں پہونچتا تم غسل جنابت نہ بھی کرو( تب بھی کوئی بات نہیں)

۷ ( عمداًغبار اور غلیظ دھویں کا حلق میں داخل کرنا)

۸ جان بوجھ کر قئے کرنا۔

سوال: اگر روزہ دار جان بوجھ کرقئے نہ کرے بلکہ بغیر اختیار کے قئے ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب: اس سے اس کا روزہ باطل ہے۔

۹ بہنے والی چیزوں یا بغیر بہنے والی چیزوں سے جان بوجھ کر حقنہ (استمناء) کرنا۔

سوال: اگر روزہ دار نے عمداٌ روزہ توڑنے والی چیزوں میں کسی چیز کو انجام دے لیا تو حکم کیا ہے؟۔

جواب: مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق امساک لازمی ہے۔

۱ لف: اگر کوئی عمداً طلوع صبح تک حالت جنابت پر باقی رہے یعنی امساک کرے (یعنی کوئی ایسی چیز جو روزے کو توڑنے والی ہو انجام نہ دے مثل کھانا پینا) اور وہ امساک قصد قربت مطلقہ ہونا چاہئے یعنی جو حکم اس کو دیا گیا ہے اس کو بجالائے بغیر معین کئے ہوئے کہ اس کا یہ امساک ماہ رمضان کے روزہ کے حکم کی بنا پر ہے یا ادب وتنبیہہ کے لئے ہے)

ب: جب کہ عمداً خدا اور رسول پر جھوٹ بولا جائے،یا غبار یا غلیظ دھویں کو ناک سے نیچے اتارا جائے (تویہ رجاء مطلوبیت یعنی اس احتمال کے ساتھ کہ یہ امساک،مطلوب شرعی یا حکم روزہ کی بناپر ہے یا یہ امساک احترام ماہ رمضان کی بناپر ہے۔

ج: اور جب دوسری روزہ تو ڑنے والی چیزوں میں سے کسی چیز کو انجام دے(تو باقی دن احترام ماہ رمضان کی بناپر بہ رجاء مطلوبیت امساک کرے) اور روزہ توڑنے والے پر اس کے علاوہ واجب ہے کہ وہ اپنے اس توڑے ہوئے روزے کی قضا کرے،اور کفارہ دے،یا ایک غلام آزاد کرے،یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے،یا پئے در پئے ساٹھ روزے رکھے،ہر روزہ کے بدلے کہ جس کو اس نے توڑا ہے (چاہے حلال چیز سے توڑا ہو) جیسے پانی پینا یا حرام چیز سے توڑا ہو جیسے شراب پینا یا منی کانکالنا۔

سوال: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کس طرح دیا جائے؟

جواب: کبھی ان کو براہ راست کھانا کھلایا جاتاہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ بالکل سیر ہوجائیں اور ان کو کھانے کی حاجت نہ رہے یاان کو کھانے کی چیزیں دے دی جاتی ہیں اس صورت میں واجب ہے کہ تقریباً(ساڑھے سات سو گرام فی کس ) کھجوریا گیہوں یا آٹا یا چاول یا ماش یااس کے علاوہ دوسری کھانے کی چیزیں دی جائیں۔

اور کھانے کے بدلے ان کو مال دینا جائز نہیں ہے بلکہ صرف کھانے کی چیز ہو،اس کے علاوہ نہ ہویا اس کو وکیل بنایا جائے کہ وہ تمہاری طرف سے خرید کراپنی ملکیت میں لے لے ۔

سوال: اور جب میں ماہ رمضان کا روزہ کسی عذر مثلاً مرض یا سفر کی بنا پر نہ رکھوں تو ؟

جواب: اس دن کی قضا تم پر واجب ہے،اور اس قضا میں تم کو اختیار ہے کہ عیدین کے علاوہ سال کے کسی دن میں بھی روزہ رکھو پس یہ تمہارا روزہ کا بدل ہوگا جس کو تم نے مرض یا سفر کی بناپر نہ رکھا تھا۔

سوال: جب مجھ کو کوئی ایسا مرض لاحق ہوجائے جو اس رمضان سے اس رمضان تک طول پکڑجائے؟

جواب: ایسی صورت میں قضا تم سے ساقط ہے اور فدیہ دینا تم پرواجب ہے اور ہر روزہ کے بدلے ساڑھے سات سو گرام تقریبا کھانا تصدق کرناہے۔

اور اس سے پہلے کہ ہم روزے کی گفتگو کو ختم کر یں میرے والد نے فرمایا چند چیزوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتاہوں۔

۱ دونوں عیدوں میں(عید الفطرو عید قربان) روزہ رکھنا جائز نہیں ہے نہ قضا اور نہ غیر قضا۔

۲ ( اگر کسی عذر کی بنا پر باپ کے روزے قضا ہوگئے ہوں تو اس کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے پر ان کی قضا واجب ہے،اور اگر اس کی موت کے وقت بڑا بیٹا نہ ہوتو اس کی قضا کسی پر واجب نہیں)

۳ ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی چند اشخاص کو اجازت ہے کیونکہ ان پر روزہ واجب نہیں ہے اور وہ یہ ہیں ۔

الف بوڑھے،بوڑھیاں جب کہ وہ دونوں روزہ رکھنے سے معذور ہوں،یا روزہ ان پر ہرج ومشقت کا سبب ہو،ایسی حالت میں یعنی مشقت کی صورت میں ان دونوں پر فدیہ دینا واجب ہےہر روزہ کے بدلے ،اور یہ دوسری چیزوں سے افضل ہے،اور ان دونوں پر قضا واجب نہیں ہے۔

ب وہ حاملہ عورت کہ جس کے حمل کو اور خود اس کو روزہ نقصان دیتا ہو تو بعد میں ان روزوں کی قضاکرے۔

جواب: وہ دودھ پلانے والی عورت جس کا دودھ کم ہو تو جب روزہ اس کو یا اس کے بچے کو نقصان پہونچائے اور (دودھ پلائی اس عورت پر منحصر ہو)اور اگر اس عورت پر منحصر نہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا جائز ہے اور جب روزہ رکھنا اس کے لئے جائز ہو تو اس پر اس کے بعد قضا واجب ہے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا کفارہ ہر روزہ کے بدلے تقریبا ساڑھے سات سو گرام غلہ ہے۔

۴ جس طرح نماز واجب اور مستحب ہے اسی طرح روزہ بھی واجب اور مستحب ہے،بلکہ روزہ کا شمارسنت موکدہ میں ہے اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ وھو جنة من النار جہنم کی سپرہے اور وھو زکواة الا بدان اور جسموں کی زکوةہے اور (بہ یدخل العبد الجنة)اسی کے ذریعہ بندہ جنت میں داخل کیا جائیگا۔

اور :نوم الصائم عبادة ونفسہ وصمتہ تسبیع وعملہ متقبل ودعاءة مستجاب۔

روزہ دار کی نیند عبادت اور اس کی سانس اوراس کی خاموشی تسبیح،اور اس کا عمل قبول اور اس کی دعا مستجاب ہے اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت ایک خوشی اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت اور کچھ روزوں کے استحباب(سنت) پر مخصوص روایات وارد ہوئی ہیں۔

۱ لف ہر مہینہ تین روزہ رکھنا،اور ہر مہینہ کی پہلی جمعرات،اور آخری جمعرات،اور ہر مہینہ کی دوسری دہائی کے پہلے بدھ کو روزہ رکھنا افضل ہے۔

ب ذی القعدہ کی ۲۵/ ویں تاریخ کو روزہ رکھنا۔

جواب: نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیدائش کے روز اور عید مبعث میں روزہ رکھنا۔

د عید غدیر کے دن

ھ ۲۴/ ذی الحجہ کو روزہ رکھنا۔

و ما ہ رجب میں کچھ دن روزہ رکھنا یا تمام مہینہ رکھنا ۔

ز ماہ شعبان میں کچھ دن روزہ رکھنا یا تمام مہینہ روزہ رکھنا۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سے روزے ہیں کہ جن کے ذکر کی گنجائش نہیں اور آخر میں میرے والد نے امام جعفر الصادق علیہ السلام کی یہ روایت مجھ سے بیان(کی ان من تمام الصوم اعطاء الزکاة)ماہ رمضان کے آخر میں زکوۃ دی جائیگی یعنی زکوۃ فطرہ پھر فوراًیہ فرمایا ہر بالغ وعاقل پر کہ جو ایک سال کاخرچ رکھتا ہے زکوة فطرہ کا نکالنا واجب ہے اپنی طرف سے اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے،چاہے چھوٹے ہوں یا بڑھے،یہاں تک کہ وہ مہمان جو عید فطر کے غروب سے پہلے وارد ہوا ہے(یا بعد غروب آیا ہے) اور عیال میں اس کو شامل کیا گیا ہے جو اس کے کھانے میں شامل ہوں۔

ہرشخص کی طرف سے (تین کلوگرام)گیہوں یا جو یا کھجوریا کشمش وغیرہ کہ جو سال میں کثرت کے ساتھ کھایا جاتاہو یا ان کی قیمت دی جائے،عید کی رات میں فطرہ نکال کر جدا کردے یا عید کے دن (نماز عید کے پڑھنے سے پہلے) یا جو نمازنہ پڑھے وہ زوال تک فطرہ دیدے۔

اور اس کو ان فقرا اور مساکین کو دیا جائے جن پر فطرہ کالینا حلال ہے،اس کو زکوٰۃ کی بحث میں دیکھئے)یہ جان لوکہ غیر ہاشمی کی زکوٰۃ (سید) ہاشمی نہیں لے سکتا اور جن کا نان ونفقہ فطرہ دینے والے پر واجب ہے اس کو یہ فطرہ نہیں دیا جائے گا مثلاًماں‘باپ‘بیوی،یا اولاد‘۔

حج کے سلسلہ میں گفتگو

میرے والد ایسے دیوانہ وار عاشق کی طرح جس کےعشق کا زخم ابھی مندمل نہ ہو،اورایک ایسے عبد کی طرح جو عشق کی آتش میں گرفتار اور معشوق کی ملاقات کی نعمت سے سرشار ہو،اپنے پہلے والے حج کا قصہ خوشی خوشی بیان کیا انکی آنکھوں میں تیزی،اور ان کی زبان میں ہلکی سی لکنت،اور ان کے ہونٹوں پر محبت بھرا تبسم تھا‘جس نے ان کو اس کے نفس سے رہائی دلاکر کسی دوسری حالت میں پہونچادیا تھا، وہ اپنی حالت کو پوشیدہ رکھ رہے تھے،ان کی حیا اور پروقار جلال سے یہ بات واضح تھی ۔

میں نے اپنے والد سے ان کی یہ جوش وخروش والی حالت دیکھتے ہوئے عرض کیا، میں آپ کو اپنے پہلے حج کا قصہ سنتے ہوئے ایسے دیکھ رہاہوں کہ جیسے کوئی عاشق اپنے پہلے وصال کی سعادت کو بیان کررہا ہو۔

تو انھوں نے اپنی لرزاں وشکستہ آواز میں مجھ سے بیان کیا کہ میں تمہارے ساتھ اس وقت ان خوشگواریادوں میں مشغول ہوں کہ جو مجھ سے دورہوگئیں،مگران کی خنکی اور خوشبو اس دلباختہ ودل سوزعاشق کے دل میں پیوستہ اور پوشیدہ ہے۔

کیا تم نے (قرآن مجید میں ) خدا کے قول کو نہیں پڑھا؟

بسم الله الرحمن الرحیم

( واذ جعلنا البیت مثابة اللناس وامنا )

جب کہ ہم نے اس گھر کو تمام لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ اور امن کی جگہ قرار دیا،اورخدا وندعالم کا یہ قول جو جناب ابراہیم علیہ السلام کی زبان پر جاری ہوا۔

بسم الله الرحمن الرحیم

( ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی ذرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلاة فاجعل افئدة امن الناس تهوی الیهم )

اے ہمارے پروردگار تیرے محترم گھر کے نزدیک ایسے جنگل میں جو کھیتی باڑی کے قابل نہیں ہے میں نے اپنی اولاد کو بسادیا ہے تاکہ اے پروردگار وہ نماز پڑھا کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑدے“۔

ہاں اسی طرح دوبارہ میرا دل دھڑک رہا ہے جس طرح پہلی مرتبہ اس خشک وادی میں اس طیب وطاہر گھر کے لئے دھڑک رہاتھا جو با عظمت وحی کی منزل پر نور پاک اور عشق وخلوص اور محبت وجمال کا مرکزہے میرے والد تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوئے اور پھر اپنے نفس سے مناجات کرتے ہوئے ہلکی آواز میں چند شعر گنگنانے لگے:

ایا مهجتیی وادی الحبیب محمد

خصیب الهوی والزرع غیر خصیب

اے میری پناہ گاہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حبیب کی وادی جو محبت سے۔

بھری اور زمین کے اعتبار سے خشک ہے۔

هنا الکعبة الزهراء والوحیی والشذا

هنا النور فافنیی فی هواه وذوبیی

یہ نورانی کعبہ وحی ورحمت کا مرکز ہے یہاں نورہے،جومحبت میں یہاں فنا ہوجاتاہے۔

ویا مهجتیی بین الحطیم وزمزم

ترکت دموعیی شافعا لذنوبیی

اے میری امید حطیم اور زمزم کے درمیان، میں نے تجھ کو روتے ہوئے اپنے گناہوں کی بخشش کی التجا کرتے ہوئے جدا کیا ہے۔

لثمت الثری سبعا وکحلت مقلیتی

بحسن کاسرار السماء مهیب

میں نے ساتوں زمینوں کا بوسہ لیا اور اپنی آنکھوں

میں خاک کا سرمہ اس خوبصورتی کے ساتھ لگایا کہ جس سے ہیبت ناک آسمانی اسرار نظر آنے لگے ۔

وفی الکعبة الزهرا ء زینت لوعتیی

وذهب ابواب السماء نحیبیی

اور نورانی کعبہ میں،میں نے اپنے عشق سےمز ین کیا اور اپنے نالہ وفغاں سے آسمان کے دروازوں کو طلائی دار کردیا ۔

پھر انھوں نے اپنے سر کو اٹھاکر فرمایا:پہلے حج سے میرا قلبی لگاؤ اسی طرح سے ہے،اور جب بھی حج کا سالانہ موسم آتا ہے تو میرے دل میں اس کی تمنا پیدا ہوتی ہے اور جس وقت میرے پروردگار نے وہاں کی مجھے دعوت دی تو مجھ کو دوسری مرتبہ تیسری مرتبہ اور چوتھی مرتبہ بھی حج کی سعادت نصیب ہوئی،میں نے اپنے والد کی بات کاٹ کر تعجب سے پوچھا۔

سوال: کیا پہلا پھر دو سرا،تیسرا اور چوتھا حج واجب ہے؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ پہلا ہی حج تم پر استطاعت کے بعد واجب ہے خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے:

( ولله علی الناس حج البیت من استطاع الیه سبیلا )

اور لوگوں کے ذمہ خدا کے لئے اس بیت اللہ کا حج کرنا واجب ہے،جس کو بھی اس گھر تک پہونچنے کی استطاعت میسر ہوجائے،لیکن دوسرا،تیسرا اور چوتھا حج مستحبات میں سے ہے۔

سوال: اچھا اپنے حج کا قصہ سنائیے جو آپ کو بہت پسند ہے؟

جواب: میرے (جحفہ)پہونچنے کے بعد اور یہ جحفہ ان مقامات میں ایک مقام ہے جس کو شریعت اسلامی نے احرام باندھنےکے لئے معین کیاہے اورجس کو(احرام باندھنے کی جگہ)کہا جاتاہے،وہاں پہونچنے کے بعد میں نے حج کا عمرہ تمتع کےلئے احرام باندھتے وقت قربتہً الی اللہ کی نیت کی اپنے کپڑوں اور لباس کو اتار کر احرام کے کپڑے پہنے اور وہ کپڑے صرف سفید قمیض یا جلے کے مانند ہوتے ہیں(یعنی دو کپڑے ہوتے ہیں جس میں ایک کو لنگی کی طرح باندھتے ہیں اور ایک کو چادر کی طرف لپیٹ لیتے ہیں) پھر میں نے صحیح عربی میں تلبیہ پڑھنا شروع کی۔

لبیک اللهم لبیک،لبیک لا شریک لک لبیک،ان الحمدوالنعمة لک و الملک لا شریک لک لبیک

اور جس وقت میں نے (لبیک) کہا تو میرا جوڑجوڑ کا پنے لگا اورمجھ پر ایسا خضوع وخشوع طاری ہوا کہ اس سے پہلے کبھی مجھ پر طاری نہ ہوا تھا اسی وقت مجھ کو تمہارے امام پرخوف خدا کی بناپر رعب ووحشت کا طاری ہونا اور آپ کے رنگ کا زرد پڑجانا لبیک کہتے وقت زبان میں لکنت پیدا ہوجانا یاد آ گیا جب میں محرم ہوا تو کچھ انواع واقسام کی چیزیں مجھ پر حرام ہوگئیں خوشبو کا استعمال،زینت کے لئے آئینہ میں نگاہ کرنا،اور سورج اور بارش سے بچنے کے لئے سایہ میں ٹھہرنا،سلا ہوا کپڑا پہننا،موزوں کا پہننا،اور سرکا ڈھا نکنا وغیرہ کہ جو فقہ کی کتابوں میں درج ہیں۔

سوال: اور آپ کےاحرام باندھنے کے بعد؟

جواب: احرام باندھنے کے بعد میں مکہ مکرمہ کی طرف طہارت کی حالت میں روانہ ہوا تا کہ خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کروں،طواف کی ابتدا حجرا سودسے اور اختتام بھی حجر اسودپر کروں طواف کے بعد دورکعت نمازطواف مثل نماز صبح مقام ابراہیم سے پیچھے پڑھی‘تمام حج وعمرہ کے اعمال قریۃً الی اللہ انجام دیئے اس کے بعد میں صفاومروہ کے درمیان سعی کے لئے روانہ ہوا،وہاں بھی طواف کی طرح سات چکر لگائے،صفا سے ابتداء اور مروہ پر اختتام کیا جب میں نے صفاومروہ کے ساتوں چکر کو تمام کرلیا تو اس کے بعد تقصیر کی‘یعنی اپنے سر کے بالوں میں سے کچھ بال کاٹ لئے ۔

اس تقصیر پر عمرہ حج کا اختتام ہوا اورمیں اپنے احرام سے محل ہوگیا( یعنی احرام باندھنے کے بعد انسان پر جو چیزیں حرام ہوگئی تھیں وہ حلال ہوجاتی ہیں ) اور یوم الترویہ ۸/ ذی الحجہ کا انتظار کرنے لگا تاکہ دوسری مرتبہ مکہ سے احرام باندھوں، لیکن یہ احرام اس مرتبہ حج کا تھا عمرہ کا نہیں ۸ ذی الحجہ کا دن نکلا، تو میں نے اپنی لنگ اور چادر دوسری مرتبہ پہن لی اور احرام حج کی نیت کی ،اور تلبیہ کہی‘پھرایک بغیر چھت کی گاڑی میں بیٹھ کر عرفات کے لئے روانہ ہوگیا تاکہ میں وہاں نویں ذی الحجہ کی ظہر سے غروب آفتاب تک ٹھہرا رہوں،اور جب سورج غروب ہوگیا تو میں عرفات سے (مزدلفہ) کی طرف روانہ ہوگیا،اور وہاں دسویں ذی الحجہ کی رات گزاری،اس طرح میرے اوپر واجب ہے تا کہ میں دسویں کی صبح کے نکلنے کے وقت مزدلفہ میں رہوں اور طلوع آفتاب تک وہاں رہوں،اور جس وقت دسویں کا سورج نکلامیں منی کی طرف روانہ ہوگیا میرے پاس کچھ کنکریاں تھیں جن کو میں نے مزدلفہ سے چنا تھا اور منی میں تین واجبات میرے منتظر تھے تاکہ میں وہاں ان کو انجام دوں اور وہ واجبات یہ تھے۔

۱ رمی جمرہ عقبہ بڑے ستون کو پے درپے سات کنکریاں مارنا۔

۲ قربانی منی میں جانور کی (اونٹ‘گائے،بکری ،یا بھیڑ‘)قربانی کرنا

۳ حلق سرکا منڈوانا۔

اورجب میں ان واجبات سے فارغ ہوگیا تو اپنی زوجہ سے لذت اٹھانے اور خوشبو کے استعمال (اور شکار) کے علاوہ تمام چیزیں مجھ پر حلال ہوگئیں۔

اب میں مکہ کی طرف روانہ ہوا تاکہ طواف حج انجام دوں،اور نماز طواف اور صفاو مروہ کے درمیان اسی طرح سعی کی جس طرح مکہ پہونچنے پر نماز پڑھی اورسعی کی تھی اور جب میں ان چیزوں سے فارغ ہوگیا تو طواف النساء کیا اور نماز طواف پڑھی پھر ان تمام چیزوں کے بعد منی کی طرف لوٹ گیا کیونکہ مجھ پر واجب تھا کہ گیار ہویں اور بارہویں کی رات منی میں گزاروں اورمنی میں بارہویں کی ظہر کے بعد تک رہوں،اس درمیان میں نے تینوں جمرات اولی وسطی اورعقبہ کو بالتر تیب گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں کنکریاں ماریں،اس کے بعد وہاں سے روانہ ہوا اور اپنے حج کے تمام واجبات کو اختتام تک پہونچایا۔

شدید ازدھام وآفتاب کی حدت اور ریت کی تپش کے باوجود میں نے اپنے نفس سے جہاد کیا،جیسا کہ میرے اوپر فریضہ تھا جب تک مجھے یقین نہ ہوگیا اس وقت تک میں نے نہ عرفات کو چھوڑا،نہ مزدلفہ سے باہر نکلا،نہ منی سے باہر آیا کیونکہ حج خداوند عالم سے توسل اور اسی سے تقرب اور اسی سے تعلق اور اسی کے سامنے کھڑے ہونا اور رات دن اسکی مناجات سے لطف اندوز ہونے کا ایک زر خیز موسم ہے۔

اس کے بعد میں مکہ معظمہ سے اس کے تمام شوق اور اسی کے ساتھ اس کے فراق پر افسوس کرتے ہوئے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوا تاکہ وہاں اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر،قبر فاطمہ صدیقہ طاہرہ اورقبور ائمہ بقیع علیہم السلام امام حسن علیہ السلام امام علی بن الحسین علیہ السلام ،امام محمد باقر علیہ السلام اورامام جعفر الصادق علیہ السلام کی زیارت میں پھر مساجد اور مقامات مقدسہ جو اطراف مدینہ میں ہیں ان کی زیارت اورنبی کے چچا جناب حمزہ کی زیارت سے مشرف ہوا ۔

یہ میرے پہلے حج کا مختصر قصہ ہے جسے میں نے تم سے بیان کیا،اور جس وقت تم اتنے مال کے مالک ہوجاؤ (کہ اگر اس پر خمس وزکٰوة کا تعلق پیدا ہوجائے تو ان کو نکالنے کے بعد)حج کرنے کے مستطیع ہو جاؤ گے تو تم پر حج واجب ہوجائے گا اس خمس وزکوٰۃ کی شرح تم سے ان کا موقعہ آنے پر بیاں کروں گا۔

خدا تم کو اپنے گھر کی زیارت کرنے کی توفیق عنایت کرے اور تم کو وہاں نفع عنایت کرے بیشک وہ قریب ہےاور محیب ہے۔

سوال: ابا جان اس گفتگو کے ختم ہونے سے پہلے چاہتا ہوں آپ سے (تطہیر اموال)خمس وزکٰواۃ کے بارے میں سوال کروں کہ جس کو آپ نے اپنی گفتگو میں بیان کیا ہے۔

جواب: ابھی نہیں زکوٰۃ وخمس کے بارے میں گفتگو طولانی ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے خاص طور پر گفتگو رکھی جائے گی ۔

انشاء اللہ۔

سوال: آنے والی گفتگو میں زکوٰة کا بیان ہوگا اس کے بعد خمس کے متعلق بیان کیجئے؟

جواب: جیسا تم چاہو انشاء اللہ۔