آسان مسائل (حصہ دوم) جلد ۲

آسان مسائل (حصہ دوم) 60%

آسان مسائل (حصہ دوم) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7204 / ڈاؤنلوڈ: 3927
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ دوم)

آسان مسائل (حصہ دوم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

زکوٰۃکے بارے میں گفتگو

زکوٰۃ ان پانچ رکنوں میں سے ایک رکن ہے کہ جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے میرے والد نے فرمایا:

زکوٰۃ ضروریات دین میں سے ہے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے حدیث میں اس کے متعلق وارد ہوا ہےکہ۔

”ان الصلوة لاتقبل من مانع الزکوٰة‘

جو زکوٰۃنہ دے اس کی نماز قبول نہیں۔

میرے والد نے اتنا بیان کرنے کے بعدمزید فرمایا جب زکوٰۃکے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

بسم الله الرحمن الرحیم

( خذ من اموالهم صدقه تطهر هم وتز کیهم بها )

ان کے اموال کا صدقہ لے کر اس کے ذریعہ ان کو پاک اور ان کا تزکیہ کرو۔

تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکرندا کرے کہ۔

”ان الله تبارک وتعالی قد فرض علیکم الزکوٰة کما فرض علیکم الصلوة“

اللہ تعالٰی نے تم پر زکوٰة کو اسی طرح واجب کیا ہے جس طرح نماز واجب کی ہے۔

اور جب سال کا پہلا دن آیا تو آپ نے منادی کو حکم دیا جاکر لوگوں میں منادی کروکہ:

ایها المسلمون زکوااموالکم تقبل صلاتکم

”اے مسلمانو:اپنے اموال کی زکوٰۃ دو،ناکہ تمہاری نماز قبول ہو“

پھر آپ نے صدقہ وصول کرنے والوں سے کہا کہ وہ لوگوں سے جاکر زکوٰۃ لیں۔

میری والد نے فرمایا: ایک روز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد میں پہونچ کر یہ فرمایا: اے فلاں! کھڑے ہوجاؤ،اے فلاں !کھڑے ہوجاؤ،اے فلاں! کھڑے ہو جاؤ،اے فلاں! کھڑے ہوجاؤ،یہاں تک کہ آپؐ نے پانچ آدمیوں کو مسجد سے نکالتےہوئے دیا اور فرمایا: تم ہماری مسجد سے نکل جاؤ ،جب تم زکوٰۃ نہیں دے سکتے تو اس میں نماز نہ پڑھو‘اسی کے ساتھ آپ نے امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک حدیث مجھ سے بیان کی اس وقت آپ کے چہرہ پر حزن ملال کے بادل چھاگئے تھے،اس حدیث میں ہے :

ان الله عزو جل یبعث یوم القیامةناسامن قبور هم مشدودة ایدیهم الی اعناقهم الخ

فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل روز قیامت کچھ لوگوں کو ان کی قبروں سے محشور کرے گا،ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے ایسے بندھے ہوں گے کہ وہ انگلی کے ایک پور کو بھی اس سے جدا نہیں کرسکتے‘اور فرشتے ان کو سختی کے ساتھ ہانک رہے ہونگے اور آواز دے رہے ہونگے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خیر قلیل کے ذریعہ خیر کثیر کو روکا،یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو اللہ نے(مال کثیر عنایت کیا اور انہوں نے اپنے اموال میں سے حق اللہ( زکوٰۃ) کو ادا نہیں کیا۔

میرے والد نے فرمایا: قرآن مجید میں بہت سی آیات کریمہ میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا تذکرہ ہے، جس سے شریعت اسلامی میں زکوٰة کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

سوال: میں نے اپنے والد سے زکوٰۃکے بارے میں معلوم کیا (کہ زکوٰۃ کیوں واجب ہے؟)

تو آپ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث کے ذریعہ اس کا جواب مجھے دیا، اس حدیث میں آپ نے فرمایا:

انما وصفت الزکاة اختباراً اللاغنیاء ومعونة للفقراء ولو ان الناس ادوازکاة اموالهم مابقی مسلم فقیر امحتاجا

زکوٰۃ اغنیاء( مالداورں)کے لئے آزمائش ہے اور فقراء (غربیوں)کے لئے ایک مدد ہے اگر لوگ اپنے اموال سے زکوٰۃادا کریں تو کوئی بھی مسلمان غریب محتاج نہ رہے اوراس سےمستغنی ہوجائے جو اللہ نے اس کے لئے فرض کیا ہے اور لوگ ضرور ت مند اور حاجب مندنہ رہیں اور نہ بھوکے وننگے رہیں لیکن اگر ایسا ہے تو یہ صرف مالدار کے گناہوں کی بناپر ہے اور اللہ تعالیٰ کو حق پہونچتا ہے کہ وہ ان کو رحمت سے دور رکھے کہ جنھوں نے اپنے مال سے حق خدا کو ادانہ کیا۔

میں نے سوال کیاکہ کیا ہر مال میں زکوٰۃواجب ہے؟

تو انھوں نے جواب میں فرمایا مندرجہ ذیل بیان کی ہوئی چیزوں میں زکوٰۃواجب ہے۔

پہلی

سونے/ چاندی کے سکوں میں چند شرطوں کے ساتھ۔

دوسرے

گہیوں /جو / کھجور/ کشمش ان میں بھی چند شرائط ہیں۔

تیسرے

اونٹ،گائے،بھینس،بھیڑ،بکری ،دنبہ،ان میں بھی کچھ شرطیں ہیں۔

چوتھے

تجارتی مال میں اس میں بھی کچھ شرائط ہیں۔

سوال: وہ کونسی واجب شرطیں ہیں جو سونے چاندی کے سکوں میں پائی جاتی ہیں کہ جن کی طر ف آپ نے اپنی گفتگو میں اشارہ کیا؟

جواب: چند شرائط ہیں۔

۱ سونے کی مقدار عرفاً ۱۵ / مثقال ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ، اس کا چالیسواں حصہ ہوگی،اور جس وقت اس پر تین مثقال کا اضافہ ہو تو اس کی زکوٰة چالیسواں حصہ ہوگی ۔

(یعنی پندرہ مثقال کے بعد جب بھی تین مثقال کا اضافہ ہوگا اس کے چالیسواں حصہ سے زکوٰۃ واجب ہے،تین سے کم اور زیادہ پر زکوٰۃنہیں ہے)لیکن چاندی کی مقدار عرفاً ایک سوپانچ ۱۰۵ مثقال ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہوگی اور جب بھی ۲۱/ مثقال کا اضافہ ہو تو اس پر چالیسواں حصہ نکالنا واجب ہوگا۔

سوال: میں نے کہا اگر سونے چاندی کے سکوں کی مقدار اس حد سے کم ہو تو؟

جواب: تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے ۔

۲ سونے چاندی کے ایسے سکے ہوں، جو اس زمانہ کے خریدو فروخت (معاملات ) میں عملاً رائج ہوں۔

۳ گیارہ مہینے پورے گزرنے کے بعد بارہو یں مہینے میں داخل ہوجائے اور وہ مالک کی ملکیت میں رہے۔

سوال: کیا سونے کے کڑے اور سونے چاندی کے زیورات اور سونے چاندی کے دوسرے ٹکڑوں پر زکوٰۃ واجب ہے؟

جواب: ان پر واجب ہے۔

۴ پورے سال مالک کے تصرف میں رہیں ہوں پس جو مال عرفاً کچھ مدّت کے لئے ضائع ہوجائے تو زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہے۔

۵ مالک بلوغ اور عقل کے اعتبار سے کامل ہو،لہٰذابچےاورمجنون کےاموال میں زکوٰۃواجب نہیں ہے۔

دوسرے

جس میں زکوٰۃ واجب ہے وہ گیہوں،جو، کھجور،کشمش ہے،اور جب ان کی مقدار ان کے سوکھنے کے بعد تین سوصاع کو پہونچ جائے تو اس وقت ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور یہ تقریباً( ۸۴۷) کلو گرام کے قریب ہے جیسا کہ منقول ہے،اوران میں زکوٰۃ کی واجب مقدار نیچے بیان کی جارہی ہے۔

۱ کھیتی اگر بارش کے پانی یا نہر کے پانی سے ان دونوں کے مشابہ کسی ایسی چیزسے سینچائی کی گئی ہو جس میں کھیتی کی سینچائی کے لئے محنت ومشقت کی ضرورت نہ پڑے تو ایسی صورت میں ان کی زکوٰۃ دسواں حصہ ہوگی ۔

ب اور اگر سینچائی ہاتھ یا کسی آلہ کے ذریعہ مثلا ٹیوب ویل وغیرہ سے ہو تو اس کی زکوٰۃ بیسواں حصہ ہوگی۔

جواب: اور جب سینچائی کبھی ہاتھ یا کسی دوسرے آلہ کے ذریعہ اور کبھی بارش کے ذریعہ ہو، توپھر اس کی زکوٰۃ آدھی کھیتی کی بیسواں حصہ اور آدھی کی دسواں حصہ (یعنی ۳/۴۰) حصہ دی جائے گی۔

مگر یہ کہ ان دونوں سینچائیوں میں سے ایک بہت کم ہو اور ایک بہت زیادہ ہو،تو پھر زیادہ والی سنچائی کی نسبت زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

سوال: جب مقررہ نصاب سے کم ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ؟

جواب: اور کیایہاں دوسرے بھی شرائط ہیں۔

سوال: ہاں زکوٰۃواجب ہونے کے وقت محصول مالک کی ملکیت میں ہو،اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد وہ مالک ہواہو تو پھر زکوة واجب نہیں ہے۔

سوال: زکوٰۃ کا تعلق ان چار محصول پر کب ہوگا؟

جواب: ان سے زکوٰۃ کا تعلق اس وقت ہوگا جب کہ گیہوں کا نام،جو کانام،یا کھجور(خرما)کا نام، یا کشمش کانام ان پر صادق آئے (یعنی جب ان چیزوں کو ان کے نام سےموسوم کیا جائے)

تیسرے

جن پر زکوٰۃ واجب ہے وہ بھیڑ/بکری / اونٹ گائے اور بھینس ہے ان کی زکوٰۃ میں چند چیزیں شرط ہیں:

ان کی تعداد کا حدنصاب تک پہونچنا،اور وہ ان کی معین تعداد ہےجس پر زکوٰۃ واجب ہے پس اونٹ جب پانچ تک پہنچ جائے تو ان پر ایک بکری کی زکوٰۃ دینا واجب ہے اور جب دس ہوجائے تو دوبکریاں اور جب پندرہ ہوجائے تو تین بکریاں اور جب بیس ہوجائے توچاربکریاں اور جب پچیس( ۲۵) تک پہونچ جائے تو زکوٰۃایک ایسی اونٹنی ہے کہ جو اپنی عمر کے دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو،اور جب چھتیس ( ۳۶) اونٹوں تک پہنچ جائے تو ان کی زکوٰۃ ایک ایسی اونٹنی ہےجو ا پنی عمر کے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو،اس کے علاوہ اونٹ کے اور بھی نصاب ہیں جن کے ذکر کرنے کی یہاں جگہ نہیں ہے۔

اور بھیڑ بکری میں جبکہ ان کی تعداد چالیس ( ۴۰) تک پہونچ جائے تو ان کی زکوٰۃ ایک بکری اور جب ایک سوا کیس ( ۱۲۱) تک ان کی تعداد پہونچ جائے تو دوبکریاں اور جب دوسوایک ( ۲۰۱) تک پہونچ جائے تو چار بکریاں اور جب ان کی تعداد چار سویا اس سے زیادہ ہو جائے تو ان میں سے ہر سوپر ایک بکری دی جائے گی،اسی طرح جیسے جیسے ان کا عدد بڑھتا جائے گا ویسے ہی ویسےہر سوپر ایک بکری دی جائے گی۔

گائے اور بھینس میں جب ان کی تعداد تیس تک پہونچ جائے تو ان کی زکوٰۃ ایک ایسا گا ئے کا بچہ ہے جو دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو ،اور اگر ان کی تعداد چالیس تک پہونچ جائے تو ان کی زکواۃ ایک ایسی گا ئے کابچہ مادہ ہے جو اپنی عمر کے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، اس اعتبارسے گائے ہویا بھینس کوئی فرق نہیں ہے۔

اوردو نصاب کے درمیان یا محدود مقدار میں اونٹ اور گائے اور بھیڑ بکری پر زکوٰة نہیں ہے اس بنا پر اگر نصاب سے زیادہ ان کی تعداد بڑھ جائے تو جب تک ان کی تعداد کسی نصاب تک نہ پہونچ جائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔

۲ حیوانات(پورےسال)ایسی زمین میں چریں جس کا خدا کے علاوہ کوئی مالک نہ ہو لیکن اگر اس کے مالک نے ان کو گھانس یا چارہ چاہے سال کے کچھ ہی دنوں میں دیاہوتوان پر زکوة واجب نہیں ہے۔

اور حیوانات میں ان سے کام لینا معتبر نہیں کہ جن حیوانات سے کام لیا جاتاہوان پر زکوٰۃ نہ ہو پس اگر ان سےسنیچائی جو تائی وغیرہ میں کام لیاجاتاہو تب بھی ان پرزکوٰةواجب ہے۔

۳ وہ تمام سال مالک کی یامالک کے ولی کی ملکیت میں رہے ہوں پس ا گر سال میں کچھ مدت کے لئے ان کی چوری ہوجائے تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔

۴ وہ حیوانات جوگیارہ مہینے گزار کربار ہویں مہینہ میں داخل ہوگئے ہوں اور وہ مالک کی ملکیت میں ہوں۔

چوتھے

جس پر زکوٰۃ واجب ہے،وہ مال و تجارت ہے اور یہ وہ مال ہے کہ کوئی شخص اس نیت سے کہ وہ اس کا فائدہ تجارت کے ذریعہ اس کے معاوضہ کامالک ہوگا اس کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہوگی جبکہ تمام نیچے بیان کئے ہوئے شرائط اس میں جمع ہوں۔

( ۱) مالک بالغ وعاقل ہو ۔

۲ مال (تجارت )حد نصاب کو پہنچ جائے اور اس کا نصاب و ہی ہے جو سونے یا چاندی کے سکوں سے کسی ایک کا نصاب ہوتا ہے لہٰذا اسے سونے اور چاندی کے بیان میں ملاحظ کیجئے۔

( ۳) فائدہ اور تجارت کی نیت پر ایک سال گزرجائے۔

۴ پورے سال فائدہ حاصل کرنے کی نیت کو بدل کر اس مال کو اپنی ضرورت زندگی پر صرف کرنے کا ارادہ کرلیا تو پھر اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔

۵ پورے سال مالک اوراس مال کے تصرف کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔

سوال: جب زکوٰۃ نکالی جائے تو وہ کس کو دی جائیگی؟

جواب: وہ زکوٰۃکے مستحقین کو دی جائے گی اور زکوٰۃ کےمستحقین کی چند شرطوں کے ساتھ آٹھ قسمیں ہیں خداوند متعال فرماتاہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)

صدقات صرف فقراء‘مساکین اور صدقات وصول کرنے والے اور جن کی تالیف قلب منظور ہے‘غلاموں کو آزاد کرنے میں ‘قرض داروں کا قرض ادا کرنے کے لئے ،اور راہ خدا میں کام کرنے کے لئے،اور مسافروں کی امداد کے لئے( صرف کی جائے) یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ صاحب علم و حکمت ہے(سورۂ توبہ)

سوال: فقیر اور مسکین میں کیا فرق ہے؟

جواب: فقیروہ ہے جو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سال بھر کا خرچ نہ رکھتا ہو،اور نہ اس کے پاس کوئی ایسی صنعت وحرفت ہو جس کے ذریعہ وہ اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ حاصل کرسکے اور مسکین وہ ہے جو فقیر سے زیادہ بد حال وتنگ دست ہو۔

سوال: زکوٰۃکے وصول کرنے والے کون ہیں؟

جواب: زکوٰۃ کے وصول کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا امامؑ یا حاکم شرع یا اس کا نائب زکوٰۃ کے وصول کرنے اور اس کا حساب وکتاب رکھنے اور اس کو بنی وامام وغیرہ یا مستحقین تک پہونچنے پرمقرر کریں۔

سوال: یہ مؤلفتہ القلوب کون لوگ ہیں؟

جواب: مولفتہ القلوب وہ مسلمان ہیں کہ جن کو اگر کچھ مال دیا جائے تو ان کی نظر میں اسلام کی قدر و قیمت بڑھے گی یا وہ کفار کہ جن کو اگر کچھ مال دیا جائے تو اسلام کی طرف راغب ہونگے،یا مسلمانوں کی جنگ میں مدد کریں گے اور ان کی طرف سے دفاع کریں گے۔

اور اس طرف اشارہ کرنا بہتر ہوگا کہ زکوٰة کا دینے والا ان دو آخری قسموں کو خود اپنی زکوٰة دینے پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ امام یا ان کے نائب کی نظر پر یہ بات موقوف ہے یعنی اگر وہ چاہیں تو ان دونوں کوزکوٰة دے سکتے ہیں( یعنی عاملین زکوٰۃ اور مولفتہ القلوب کو)

سوال: آیت میں وفی الر قاب آیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟

جواب: وفی الرقاب(سے مراد )وہ غلام جوخریدے اور آزادکئے جاتے ہیں۔

سوال: والغارمون سے کیا مرادہے؟

جواب: غارمون سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرض دار ہیں اور وہ اپنےشرعی قرضوں کو ادا کرنے سے عاجز ہیں۔

سوال: اور فی سبیل اللہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: فی سبیل اللہ سے تمام کار خیر مراد ہے مثلاً مسجدوں،پلوں وغیرہ کا بنوانا اور اس سلسلہ میں بھی حاکم شرع کی اجازت ضروری ہے۔

سوال: وابن السبیل سے کیا مراد ہے؟

جواب: ابن سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کا مال سفر میں ختم ہوگیا ہو،اور اس کے لئے سفر سے واپسی کے لئے قرض لینا بھی ممکن نہ ہو،یا اس کے لئے مشکل ہو(جیسے اس کے شہر میں اس کا مال ہو اور وہ اس کے بدلے میں یا اس کو کرایہ پر دینے سے معذور ہو) پس اس کو واپسی کا خرچ زکوٰۃ میں سے دیا جائے گا بشرطیکہ اس کا یہ سفر معصیت پر مبنی نہ ہو۔

یہ زکوٰة کے اورمستحقین ہیں اس کے علاوہ شرط ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ مومن ہو( اور تارک صلوة نہ ہویا شراب خوارنہ ہو،یا فسق وفجور کو کھلم کھلا انجام نہ دیتا ہو) اورجس کوزکوٰۃ دی جارہی ہو وہ اس کو گناہوں میں صرف نہ کرے (بلکہ اس کو کسی ایسے کو بھی نہ دے جس کے دینے پر گناہ کرنے پر اور برے کاموں کے ہونے پر مدد ہو،چاہے وہ خود اسے گناہوں پر خرچ نہ کرے،اور یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ ایسے کو نہ دی جائے کہ جس کا نان ونفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہو جیسے بیوی اورمستحق ہاشمی(سید) کیونکہ ہاشمی (سید)کو صرف ہاشمی کی زکوٰة لے سکتا ہے(غیرسید کی نہیں )

خمس کے سلسلہ گفتگو

یرے والد نے قرآن مجید کو اپنے سامنے رکھا اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک قسم کا رعب ودبدبہ طاری تھا جب وہ میرے سامنے بیٹھے تو انھوں نے جھک کر قرآن مجید کا بوسہ لیا اور اس کو بہت ہی تعظیم سے اٹھا کر میری طرف بڑھایا میرا پورا جسم کانپ گیا اور جب میرے ہاتھ میں قرآن مجید آ گیا تو میرے والد نے فرمایا:

کتاب خدا کو کھولو اور میرے سامنے دسویں پارے کا کچھ ابتدائی حصہ پڑھو،میں نے قرآن مجید کھول کر اور دسواں پارہ نکالا،اعوذباللہ کے بعد اللہ کے کلام سے اس آیت کی تلاوت کی۔

( واعلمو انما غنمتم من شیی فان لله خمسه وللرسول ولذیی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیلان کنتم آمنتم بالله وما انزلنا علی عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعان والله علی کل شیی قدیر )

”اور جان لو کہ جب کسی طرح کی غنیمت تمہارے ہاتھ لگے تو اس کا پانچواں حصہ خدا اوررسول اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں،مسکینوں اور مسافروں کا ہے اگر تم خدا اورجو کچھ اس نے اپنے بندہ پر فیصلہ والے دن کہ جس دن دو گروہ کی مڈبھیڑ ہوئی نازل کیا تھا،ایمان رکھتے ہو اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

میرے والد نے فرمایا ذرا دوبارہ پڑھوں میں نے۔

( واعلمو انما غنمتم من شیی فان لله خمسه وللرسول ولذیی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل )

تک پڑھا تو والد نے فرمایا بس کافی ہے پھر اپنے سر کو نیچے جھکا کر آہستہ پڑھنا شروع کیا کہ جیسے اپنے آپ سے بات کررہے ہیں ۔

( واعلموانما غنمتم من شیی فان لله خمسه)

پھر سراٹھا کر گلو گیر آواز میں فرمایا خدا وند عالم فرماتاہے” اعلموا‘کیا تم کو خمس کے واجب ہونے کے متعلق معلوم ہوا؟

میں نے کچھ اطمینان اور اعتماد اور کچھ ہچکچاتے ہوئے عرض کیا،ہاں مجھے معلوم ہوگیا پھروہ اپنی جگہ سے اٹھے اور دوبارہ ایک کتاب کی جلد اٹھا کر مجھے دی جس کا نام” الوسائل‘تھا اس کے پہلے صفحہ کو پڑھا اس کے مولف کانام ”محمد بن الحسن الحر العاملی“تھا اور مجھ سے فرمایا:اس کتاب سے باب خمس نکال کر میرے سامنے پڑھو۔

میں نے باب خمس کو نکالا اور ان کے سامنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امام علی علیہ السلام‘امام باقر علیہ السلام امام صادق علیہ السلام اور امام کاظم علیہ السلام کی خمس کے بارے میں احادیث کو پڑھا اور جب میں نے ان کے سامنے اس حدیث کو پڑھا کہ جس کو عمران بن موسی نامی شخص نے روایت کیا ہے اور کہاکہ جب میں نے امام علی رضا علیہ السلام کے سامنے آیت خمس کو پڑھا تو آپ نے فرمایا جو اللہ کے لئے ہے وہ رسول اللہ کے لئے ہے اور جو رسول کے لئے ہے وہ ہمارے لئے ہے پھر فرمایا خدا کی قسم اللہ نے مومنین پر کتنا آسان کردیا ہے کہ ان کے رزق میں سے پانچ درہموں میں سے ایک درہم ان کے رب نے خمس کا قراردیا اور باقی چار کا کھانا ان کے واسطے حلال قرار دیا اور یہ حدیث سماعہ نامی ایک راوی سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابا الحسن علیہ السلام سے خمس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر اس چیز میں خمس واجب ہے کہ جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں چاہے وہ چیز کم ہو یا زیادہ۔

اور یہ حدیث محمد بن حسن اشعری سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس تحریر کیا کہ ہم کو خمس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ ان تمام چیزوں میں ہے جن سے کوئی شخص استفادہ کرتا ہے وہ چیز چاہے کم ہوں یا زیادہ،اور تمام صنعتوں کی قسموں پر ،یہ کس طرح ہے؟تو آپ نے اس کا جواب اپنے قلم سے لکھا لا الخمس بعد المئونة خمس سال کے خرچ کے بعد ،اور جب میں اس حدیث کو آخر تک پڑھ چکا تو میں نے اپنے والد سے سوال کیا۔

سوال: آپ نے نماز کی گفتگو میں مجھ سے فرمایا تھا کہ جس لباس پر خمس واجب ہے اور ادا نہیں کیا گیا تو اس میں نماز نہ پڑھو“اور آپ نے حج کی بحث میں دوبارہ مجھ سے بیان کیا تھا کہ تم اپنے حج کرنے سے پہلے اپنے مال کا خمس وزکوٰۃ دے کرمال کو پاک کرلو اگر خمس وزکوٰة اس پر واجب ہے۔

سوال: تو کیا مجھ پر اپنے مال کا خمس نکالنا واجب ہے؟

جواب: میرے والدنے فرمایا نیچے بیان ہونے والی چیزوں میں خمس واجب ہے۔

۱ وہ مال غنیمت جس کومسلمان کفارسے جنگ میں حاصل کرتےہیں۔

۲ جو چیزیں معادن(کان)سے نکالی جاتی ہیں،مثلاًسونا،چاندی ،تانبا،پیتل،لوہا،گندھک،وغیرہ اوراسی طرح مٹی کا تیل،پتھر کا کوئلہ ان کی صفائی کے بعد بشرطیکہ انکی بازاری قیمت عام طور سے ۱۵ مشقال سکہ دار سونے کی قیمت کے برابر پہنچ جائے (تواس پر خمس واجب ہے)

۳ خزانے بشرطیکہ جو چیز خزانے سے نکلی ہے اس کی قیمت ۱۵/ مثقال سونے یا اس سے زیادہ یا ۱۰۵ مشقال چاندی یا اس سے زیادہ ہو ( اور اس کا حساب اس کے نکالنے کے اخراجات کم کرنے کے بعد کیا جائیگا)

۴ دریا یا بڑی نہروں میں غوط لگانے کے بعد جو موتی ومونگے وغیرہ نکالے جائیں اوراس کی قیمت ایک سونے کے دینار کے برابر(یعنی ایک مثقال سونے کے برابر ہو)

۵ جو حلال مال حرام مال میں مخلوط ہوجائے۔

۷ وہ سالانہ بچت جو کسی تجارت یا صنعت یا ھدیہ یا کھیتی یا کسی محنت ومزدوری وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔۔۔و ۔۔۔

سوال: میں نے بات کا ٹ کرپوچھا اس کے معنی ہوئے کہ تجارت کے نفع پرخمس دینا واجب ہے؟

جواب: فقط تجارت کے فائدہ میں ہی خمس دیناواجب نہیں ہے بلکہ ہر وہ منافع جومجھے اور تم کوحاصل ہوتا ہے اس میں بھی خمس واجب ہے۔

سوال: تاجر کس طرح اپنے منافع کا خمس کے لئے حساب کرے گا؟

جواب: وہ اپنی پونجی اور اپنی نقدی کا حساب تجارت شرع کرنے کے ایک سال بعد کرے گا اور اس میں سے پہلے اپنی پونجی جدا کرے گا ۔

دوسرے

اس خرچ کو جدا کرے گا کہ جومنافع کے حاصل کرنے میں صرف ہوا ہو مال لانے،لے جانے، مزدوری،بجلی ‘ٹیلی فون،دکان کاکرایہ وغیرہ۔

تیسرے

اپنا اور اپنے اہل عیال کا سال بھر کا خرچ یعنی جو کھانے پینے لباس ‘مکان،کرایہ،سامان کا خریدنا اور علاج اوردوسری مختلف ضروریات،اسی میں قرض کی ادائے گی،ہدیہ،واجبات کی ادائے گی،سفر کا خرچ اور دوسری مناسب چیزیں بھی ہیں جو طبعی ہوں اور ان میں اسراف نہ ہو پس ان مذکورہ امور کو جدا کرکے باقی سے بیس ( ۲۰) فیصدی نکال کر بطور خمس دیا جائے گا

سوال: مشلاًاگر تاجر سال کے تمام ہونے کا وقت دیکھے کہ اس کے پاس دس ہزار دینارنقد ہیں اور بیس ہزار دینار کا مال موجود ہے،جب کہ سال کے شروع میں اس کا اصل مال پندرہ ہزار دینار تھا اور تجارت کے سلسلہ میں کرایہ بھاڑا،بجلی ‘ٹیلی فون،دکان کا کرایہ وغیرہ میں مبلغ ایک ہزار دینار خرچ ہوا اور سال کے درمیان جو اپنے اور اپنے اہل وعیال پر خرچ ہوا وہ دس ہزار دینا رہے لہٰذا اصل مال اور تجارت کاخرچ اورسال کااپناخرچ نکالنےکے بعداس کودس ہزار دینارکی بچت ہوئی،اس طرح ۱۰۰۰۰/۲۰۰۰۰/ ۳۰۰۰۰ / اب کہ جس کا خمس واجب ہے،اس کی مقدار دس ہزار دینا رہے اور خمس کی مقدار دوہزار دینار ہوئی ہے کیونکہ دس ہزار کا پانچواں حصہ دوہزار دینار ہوتا ہے، پس اس مبلغ کا دیناواجب ہے ؟

سوال: کس تاریخ سے وہ اپنے اس فائدہ کا حساب کرے تاکہ جب بھی سال کا وہ دن آئے تو اس دن خمس دینا واجب ہوجائے؟

جواب: اگر زندگی گزارنے میں سختی نہ ہو تو خمس کا حساب اپنی تجار ت شروع کرنے کے پہلے دن سے ہی کرے کہ جب بھی سال میں وہ دن آئے تو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ جدا کیے بغیر جو کچھ سال میں منافع ہوا ہے اس کا خمس دیدے اور اگرزندگی گزارنے میں سختی وتنگی ہوتو پھراپنا سال کا خرچ جدا کرکے حساب کرے۔

سوال: میں نے نیا لباس خریدااور ایک سال تمام ہوگیا اور میں نے اس کو پہنا بھی نہیں( تواس کا کیا حکم ہے)؟

جواب: اس کا خمس دینا چاہئے اور اس طرح جو گھر کا بنیادی سامان ہے اس کا خمس دو،مثلاًہر وہ مال جو تم نے سال کے درمیان گھر کی ضرورت کے لئے خریدا اور وہ کام میں نہ لایا گیا جیسے چاول، آٹا، گیہوں،جو،چائے،ماش،مسور، تیل،روغن،حلوہ جات،یا مٹی کا تیل‘گیس،وغیرہ ۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر وہ مال جو ضرورت سے زیادہ ہے اور وہ کام میں نہ لایا گیا،یا نہ کھایا گیا،نہ پہناگیا،یا ۔۔۔یا اس کا خمس نہ دیا گیا ہو؟۔

جواب: ہاں پس اگر خمس نکالنے کا دن آجائے اور جو سامان سالانہ گھر کے خرچ سے باقی رہ گیا ہے تو اس کا خمس نکالے یا اسی چیز میں سے یا اس کی قیمت کا اندازہ کرکے اس کا خمس دے۔

سوال: اس کی قیمت کا اندازہ خمس نکالنے کے دن سے کیا جائے گا یا خرید والے دن سے؟

جواب: جب خمس کاحساب کیا جائے تو اس دن کی بازاری قیمت سے حساب کیا جائے نہ کہ جس دن وہ چیز خریدی گئی ہے اس کا حساب کرے ۔

سوال: اگر میں نے کسی چیز کا خمس نہ نکالا تو کیا مجھپر اس کا خمس نکالنا واجب ہے؟

جواب: اس چیز کا مصرف اس وقت تک جائز نہیں کہ جب تک تم اس کا خمس نہ نکال دو، اور جائز ہے کہ تم حاکم شرع سے اس کی اجازت لو وہ اگر اس میں مصلحت دیکھے گا تو( اجازت دے دے گا)

سوال: مرنے والے کے ذمہ خمس ہے اور اس نے اس کے نکالنے کی وصیت نہ کی تو وارثین کا کیا فریضہ ہے؟

جواب: لازم ہے کہ اسکے چھوڑے ہوئے اصل مال سے وصیت پر عمل کرنے سے پہلے اور وراثت کی تقسیم سے پہلے اس کا خمس نکالے اور اس بات سے یہ چیز مستثنیٰ ہے کہ مرنے والا گنہگارہے اور اس نے خمس نہیں نکالا تو پھر جو مومن وارث ہے کہ جس پر خمس کا نہ نکالنا جائز ہے اور اس پر اپنی اس وارثت سے کہ جس پر خمس کاتعلق ہے اس سے بری الذمہ ہونا لازم نہیں ہے،اور اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو کسی مومن کی طرف کسی معاملہ کے ذریعہ یا مفت کسی ایسے شخص کو منتقل ہوتی ہے کہ جو خمس نہ نکالتا ہو تو وہ مومن اس کا مالک ہے اور اس کے لئے اس چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔

اور اسی طرح کسی شخص نے جو خمس نہیں دیتا اپنی چیز کو کسی مومن کے واسطے بغیر ملکیت کے مباح کردے تو اس مومن کو اس میں تصرف کرنا جائز ہے،کیونکہ ایسی صور ت میں مومن پر سختی ہوگی اور اس کا جو کچھ بار اور بوجھ ہے خود خمس نہ دینے والے پر ہے اگر اس نے خمس کے دینے میں کوتاہی کی ہو تھوڑی دیر کے لئے میرے والد خاموش ہوگئے تو میں نے جلدی سے عرض کیا ۔

سوال: وہ تاجر،زمین کا مالک،کاشتکار،کار خانہ دار‘زمین دار،مزدورنوکری،کرنے والے،اور طالب علم وغیرہ کیا کریں کہ جنھوں نے نہ خمس دیا اور نہ ہی اپنے کئی سال کا خمس کا حساب کیا ؟ اور انھوں نے اپنے اموال سے کئی سال فائدہ حاصل کیا،گھروں کو بنوا یا اور ضروریات زندگی مثلاًکپڑے،فرش اور دوسرے سامان خریدے اس کے بعد وہ خمس نکالنے پر آگاہ ہوئے تو وہ کیا کریں؟

جواب: جوتم نے ذکر کیا اور جن چیزوں کوشمارکیا ان تمام چیزوں پر خمس نکالنا واجب ہے جب کہ وہ سال کا خرچ نہ ہوں،بلکہ وہ چیزیں سال کی ضروریات سے زیادہ ہوں ۔

سوال: جو آپ نے بیان فرمایا اس کی ذرامثال بیان کیجئے؟

جواب: کسی نے گھر خریدامگر اس میں سکونت اختیار نہ کی کیونکہ دوسرا گھر اس کے پاس تھااس میں اس نے سکونت اختیار کی لہٰذا اس گھر کا خمس دے۔

اور دوسرے ایسے سامان خریدے کہ جن کی اس کو ضرورت نہ تھی لہٰذاان پرخمس نکالنا واجب ہے۔

سوال: جن چیزوں کو سال کے خرچ کے واسطے خریدا مثلاًگھر خریدا تاکہ اس میں رہے،یا دوسرا سامان خریدا تاکہ اس سے اپنی ضرورت کو پورا کرے،اور اسی طرح دوسری چیز یں خرید یں؟

جواب: مثلاً گھر خریدا تاکہ اس میں رہے یا دوسرا سامان خریدا تاکہ اس کے منافع سے سال کا خرچ نکالے یا اس کو کام میں لائے تو ان چیزوں پرخمس واجب نہیں ہے۔

سوال: مثلاًکسی نے اپنے رہنے کے واسطے گزشتہ سالوں کا جو منافع جمع تھا اس سےگھر خریدا،اور ساتھ ہی ساتھ اس سال کا بھی منافع اس میں شامل ہوگیا ہو جیسا کہ میرے خیال میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ چند سالوں کا منافع جمع کرکے خمس کے حساب کو اپنے اوپر خلط ملط کرلیتے ہیں(تو وہ کیا کریں)؟

جواب: ان پر واجب ہے کہ وہ حاکم شرع یا اس کے نائب کی طرف رجوع کریں تاکہ اس مقدار مشکوک میں( جو کئی سال کے منافع یا گھرمیں رہنے والےسال کے منافع میں ہے) حاکم شرع کے ساتھ مصالحت ہوجائے لیکن جو گذشتہ سالوں کی بچت کی بات ہے تو وہ یہی ہے کہ فوراً اس کا خمس نکالے۔

سوال: اگر کوئی خمس کی ادائےگی پر ایک دم،فوراً قادر نہ ہو یا اس کے لئے خمس کی ادائےگی میں زحمت ومشقت ہوتو؟

جواب: اس فوریت کو حاکم شرع یا اس کا قائم مقام ساقط کرکے اس کے ذمہ قسط وار کردے گا تاکہ بغیر کسی سستی اور غفلت کے ادا کرسکے ۔

سوال: ابھی میں آپ کے ساتھ اس گھر میں رہتا ہوں،کیا مجھ پرخمس واجب ہے یا جو آپ خمس دیتے ہیں کافی ہے؟

جواب: ہاں تم پر خمس واجب ہے،اس چیز میں جو تم کو نفع حاصل ہوتا ہے حالانکہ تم میرے ساتھ اس گھر میں رہتے ہو اگر تم کو کوئی فائدہ حاصل ہو اور وہ فائدہ پورے ایک سال تمہارے پاس باقی رہے،اورتم نے اس کو اپنی ضرورت میں صرف نہیں کیا کیونکہ تم کو اس کی حاجت نہیں تھی تو اس کا خمس نکالو ۔

سوال: میں گرمیوں کی چھٹی میں تحصیل علوم دینی میں مشغول ہوتاہوں مجھے ہر مہینہ وظیفہ ملتا ہے آپ اس کو مجھ سے نہیں لیتے تاکہ میں اس کو اپنے اوپرصرف کروں مثلاً لباس اور دوسری ضروری چیزیں خریدوں تو کیا مجھ پر اس ماہانہ وظیفہ کا خمس دینا واجب ہے؟

جواب: جب کہ تم اپنے اوپر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتے ہو تو پھر تم پر خمس دینا واجب نہیں ہے اور اگر تم اس کو جمع کرتے ہو یا تھوڑا جمع رکھتے ہو اور اس پر پورا سال گزرجائے تو اس جمع شدہ رقم پر خمس دیناواجب ہے۔

سوال: کسی نے تجارت کی جگہ کو پگڑی پر لیا اس میں تجارت کرنے کا سامان تھا پہلے سال ان کا خمس نکال دیا گیا،کیا ہر سال پگڑی کی بناپر اس جگہ کی قیمت اور اس کے سامان کی قیمت کی زیادتی کی بناپر خمس نکالاجائے گا؟

جواب: ہرگز نہیں ،بلکہ اس کی اضافی قیمت پر جگہ بکنے کے بعد ،اور فائدہ حاصل ہونے کے بعد، جب کہ اس رقم کو سال کے اخراجات میں صرف نہ کیا گیا ہو،خمس واجب ہوگا۔

سوال: وہ برتن جو کھانے پینے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں اگر ان کو زینت کے طور پر استعمال کیا جائے تو کیا یہ استعمال خمس کو ساقط کردے گا؟

جواب: اگر عام لوگوں کے نزدیک ایسا استعمال سال کے اخراجات میں شمار ہوتا ہو تو پھر ان پر خمس واجب نہیں ہے ۔

سوال: ایک بنائی ہوئی چیز کااس کے مالک نے خمس دے دیا اب اس نے اس کو دوسری چیز میں تبدیل کردیا پہلی چیز کی بہ نسبت اس دوسری چیز کی قیمت زیادہ ہے پس اس کے مالک نے اس کو محفوظ کر کے اس کا ذخیرہ کرلیا اور ایک سال اس پر کزر گیا تو کیا اس کی قیمت کی زیادتی پر خمس دینا ہوگا؟

جواب: اس زیادتی قیمت پر اس وقت تک خمس واجب نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے مالک نے اس کومحفوظ کرنے کا اور اس کو ذخیرہ کرنے کا ارادہ نہ کیا ہو

سوال: بعض غذائی اجناس کو حکومت ذخیرہ کرلیتی ہے پھر اس کو بازار کی اونچی قیمت کے مقابلہ میں بہت کم قیمت پرفروخت کرتی ہے پس اگرایسی خریدی ہوئی چیز میں سے کچھ بھی کم نہ ہو اوراس پر اس طرح پورا سال گزرجائے تو اس کی قیمت کا حساب ذخیرہ کی قیمت کی بنیاد پریابازاری قیمت کی بنیاد پر کیا جائےگا؟

جواب: خمس دیتے وقت بازار کی قیمت کی بنیاد پر اس کا حساب کیا جائےگا۔

سوال: کسی نے زمین خریدی اور شرعی طور پر اس کا مالک ہوگیا اور اس کی قیمت بھی بڑھ گئی مگر وہ زمین قانونی طور پر اس کے نام نہیں ہے بلکہ دوسرے کے نام ہے اور وہ کسی بھی وقت مالک شرعی سے جب چاہے اس کو نکال کراپنے قبضہ میں کرسکتا ہے،تو کیا اس (مالک شرعی) پر اسی وقت خمس دینا واجب ہے یا جب قانونی طورپر (وہ زمین) اس کے نام ہوجائے اس وقت خمس دینا واجب ہے؟

جواب: اگرخمس کے بیان کئے ہوئے شرائط اس میں پائے جارہے ہوں تو اس پر اسی وقت خمس دینا واجب ہے۔

سوال: ریٹائرڈ شدہ لوگوں کوحکومت کی طرف سے جو پینشن ملتی ہے وہ پینشن لیتے وقت خمس واجب ہے یا سال تمام ہونے پر ؟

جواب: جب سال تمام ہوجائے تواس کی اضافی رقم پر خمس واجب ہے۔

سوال: جب میں خمس نکالوں تو کس کو خمس کی رقم دوں؟

جواب: خمس کے دو حصے ہوں گے ایک حصہ امام منتظر ( عجل اللہ تعالٰ فرجہ الشریف) کا ہے یہ رقم ان امور میں خرچ کی جائے گی جن میں امامؑ کی رضا ہوگی اور اس کی اجازت وہ مرجع (جواعلم ہو اور تمام جھات عامہ کی اطلاع رکھتا ہو)دے گا یا خود اس مرجع کو وہ رقم دی جائے گی اوردوسرا آدھا حصہ ہاشمی فقراء،مساکین مسافرین،مومنین کا ہے اور اسی طرح غریب مومنین،یتیم بچے اور دین کی خدمت کرنے والوں کا بھی حصہ ہے اور یہاں ہاشمیوں سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جن کا سلسلہ نسب باپ کے اعتبار سے جناب ہاشم جد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تمام پر ہوتاہو۔

یہ(خمس ان لوگوں کو دینا صحیح نہیں کہ جن کا نفقہ خود صاحب مال پر واجب ہو جیسے ماں، باپ، زوجہ اور اولاد،اسی طرح جو حرام میں خرچ کرتا ہو اس کو بھی خمس دینا جائزنہیں ہے (بلکہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ خمس کا دینا گناہ کرنے پر مدد کا باعث نہ ہو،ا گرچہ حرام میں خرچ نہ کرے،نیز تارک الصلوۃ یا شراب خوار یا کھل کر فسق وفجور کرنے والے کو خمس دینا جائز نہیں ہے۔

تمام شد

دوسرا جلسہ

اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اہمیت اور ضرورت

ہم نے پہلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سلسلے میں ہم کیا کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ، آج ہم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مہم اور ضروری ہے۔

۱۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں ،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ہمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ہیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ہوتی جارہی ہے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ہیں ، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پہونچ گئی ہیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ہیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں ۔

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ہے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نہیں ہوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجہا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے بہت تعجب ہوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ہے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ہوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بہت نمایاں فرق رکھتا ہے۔

بہر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ہوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم فقط اشارہ کرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ہے کہ یہ گروہوں کو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریں یھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاہتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

۲ ۔ جوانوں کی گمراہی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ہو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرہنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاہا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پہونچائی جائیں تاکہ اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رہی ہے ، اور مستقبل کی نبضوں کو جوانوں کے ھاتھو ں میں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب سے پہلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ہیں ، اور صرف وہ اپنی خواہشوں کے پیروں ہیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ہوتی ہیں اور کبھی خواہشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ہے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراہم ہو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بہت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ہیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررہے ہیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نہیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پہونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ہیں ۔

۳۔فرہنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اہل بیت علیہم السلام کے پیروں ہیں اور ائمہ علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ہیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاہے ،اور جب تک زندہ رہیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رہے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاہتا ہے ،اور دشمن کی تمنا یہ ہے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رہے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام ہمارا حاکم ہے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ہیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ہے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ہے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن کس طرح؟ ظاہر ہے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ہی ان تک پہونچائے جاسکتے ہیں ، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پہونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ہی ان کا مطلوب ہے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا تو پھر کوئی دوسرا ۱۳/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نہیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ہو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ہو،لیکن اگر شک پیدا ہوجائے تو کافی ہے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔

انہیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ہیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پہلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ہموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ہوچکا تھا بہت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ہوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ہے۔

اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ہموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ہے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بہت راستہ پہلے سے ہی ہموار تھا کیونکہ انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ہوئیں ،کتابیں بھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ہوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ہوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ہے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ہے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ہے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نہیں ہونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینی کی دل نشین آوازیں گونج رہی ہیں ، اور مرحوم مدرس کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ہماری دینداری اور ہماری سیاست ایک ہی ہے) کو اتنی آسانی سے نہیں بھلاسکتے تھے۔

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ہے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ہونے چاہئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ہونا چاہئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ہونا کافی ہے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ہونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ہوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ہے اور وہ اس بات کے قائل رہے کہ دین اور سیاست باہم ہیں تو ہم کھیں گے کہ دین اور سیاست باہم ہیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دینی احکام جاری ہوں ، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ہے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نہیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وہی حاکم ہے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ہو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ہیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ہو اس کو قبول نہیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ہو ، غیر قابل قبول ہے۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ہونے کے سلسہ میں ) بہت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، مختلف اخباروں ، ماہناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارہا ہے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رہتے ہیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ہے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاہے، اپنی تمام زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں یہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشہور ہے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ہیں ۔

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاہر ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ہیں ان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میں موجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ہے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاہئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ڈیموکراسی(جمہوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ہم اہنگ ہو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ہیں ان سے ولایت فقیہ متفق ہو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمہوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاہتاہے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔

اور اس فکری پروگرام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے دور ہونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نہیں ہے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ہیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ہے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ہے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ہونا چاہئے، خلاصہ دشمن ہر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ہے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ہوجائے، اوراگر ایسا ممکن ہوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ہوجائےگا۔

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ہوگئے چاہے وہ کسی بھی جگہ ہوں ، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ہوں گویا انھوں نے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پہونچنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

۴۔دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاہتے ہیں (اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاہتی ہے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاہرے ہوتے ہیں جو بعض موقع پر ہوتے رہتے ہیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں ) ان لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاہئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ہوجائے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ہوں تو ہوں ، لیکن اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیں کہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نہیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ہوں ، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پہچان رکھنے والے ہوں اور احکام الہی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں ، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ہی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذہب شیعہ نہیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متا ثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نہیں ہوتا تھا۔

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ہو تواس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررہا ہے وہ اسلام کا دلسوز نہ ہو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ہوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ، لھٰذا دوسری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں ، تاکہ ہمارے یقین میں بھی اضافہ ہو اور ہماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رہے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ہے۔

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً ۲ ۰ سال سے ہے یہ وہی شکل وصورت ہے جس کو اہل بیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ہونا چاہئے؟

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ہے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ہے لھٰذا پہلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ہے اور انہیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

۵۔دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بہت رینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی:

۱۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔

۲۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔

۳۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔

لھٰذا طبیعی طورپر ہمارا بھی تین گروہوں سے مقابلہ ہے پہلا گروہ وہ ہے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ہیں اور سیاست وحکومت جدا ہے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ہمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ہیں ، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ہونا چاہئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ہی کا قائل نہیں ہے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ہوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ہو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ہو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بہر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ کوئی خدا ہے اور اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ہے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاہئے اور جس سلسلہ میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ہے کہ بعض لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ہمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ہوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ہیں یعنی ممکن ہے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں ، ایسی صورت میں عقلی برہانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ہو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیہم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ہی نہیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ہے؟!

اس کو سمجہانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ہے وہ لوگ ایک قدم آگے ہیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ہیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کو مدرک قرار دینا ہوگا۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواہد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ ہماری بحث بھی مختلف پہلو رکھتی ہے لھٰذا ہماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ہوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ہوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ہوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ہم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ہے یا شرعی؟ اس وجہ سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب سمجہا کہ ہماری بحث کے مختلف طریقے ہوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔

۶۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مہم مسئلہ بھی ہے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ہوسکتی ہے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریں گے:

یھاں پر بحث یہ ہے کہ دین کے حدود کھاں تک ہیں ؟ جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ہے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ہے یا نھیں ۔

تو سب سے پہلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے کہ دین کیا ہے دین کی صحیح تعریف ہمارے پاس ہونا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر ہم اس کے حدودمعین کرسکیں ، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ہے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ہے یا نھیں ؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ہے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ہے یا نھیں ؟ بہر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں کی ہیں ، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ہیں ۔

”مثلاًدین سے ہماری امیدیں “ یعنی دین سے ہماری امیدیں حداقل درجہ پر ہیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ہوتا ہے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پہلوں کو شامل ہوتا ہے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتے ہیں )وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ہیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ہے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ہو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ہو،یعنی دین کا کام یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ہم اہنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ہے، اور سیاست دین سے الگ ہے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ہوں کہ جہاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے اور جہاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ہو تو پھر وہاں دین سے کوئی رابطہ نہیں کیونکہ دین کے حدود وہاں تک محدود ہیں کہ جہاں پر عقل کی رسائی اور پہنچ نہ ہو ۔

لھٰذا اگر ہم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ہوگئے کہ جن مسائل کو ہماری عقل حل کرسکتی ہے وہاں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم کو دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں ہماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے اور انسان ترقی کررہا ہے دین کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نہیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بہت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور اہستہ اہستہ اس کو دین کی ضرورت کم ہوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نہیں ہے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ہے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ ان کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ہے،(افسوس کہ یہ وہ لوگ ہیں جومسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ہیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ہوگئی ہے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نہیں ہے ) بہر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور جب ہم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ہیں ، تو پھر دین کیا ضرورت ہے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ہم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ہم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ہیں اور شروع ہی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ہیں ہماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ہے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ہیں ، یہ بھی بے بنیاد اور بے ہودہ گفتگو ہے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں ، یہ دین کی نامکمل تعریف ہے، بلکہ دین وہ طریقہ ہے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاہے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ہے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ہو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ہیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ہوں ، تو اس کا دین بھی ناقص ہوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ہے۔

۷۔دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ہم دین کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ہوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ہے؟ او راگر ہم خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے جیسا کہ دین کی ہم نے تعریف کی ہے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ہے ،پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں ۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نہیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ہونے پر جو دلیلیں قائم ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ہمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلیل موجود ہے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ہوں وہی دین ہے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ہیں او رجس کے مسلمان معتقد ہیں ، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ہونے کے بارے میں بحث کرے چاہے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پہچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ہے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پہچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کھا کہ دین کی پہچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں ، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ہمارے نزدیک غیر معتبر ہیں )کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں ۔

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے بیان کیا ہے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ہے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماہرعلوم) ،مولف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفہم پر ختم نہیں ہوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ہو (اورقرآن کی تفسیر سے چاہے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ہو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نہیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ہے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے۔

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ہیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ہیں ، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاہ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے، پس کون سی چیز ایسی ہے جو دین سے خارج ہے؟ معاملات،تجارت، اور رہن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں ، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ہوں ، اگر تجارت، رہن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں ، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ہے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے! ٹھیک ہے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی بہت سے لوگ دین کو نہیں مانتے، ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں تو آئیں او رہم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نہیں چاہتے تو جو راستہ چاہیں اپنائیں :

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۱)

”(اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“

لیکن اگر وہ کھیں کہ ہم اسلام کو قبول کر تے ہیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ہونے کا انکار کرتے ہیں ، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوں اعتراض کرتے ہیں ؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ہے اسلام نہیں ہے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ہے اور نہ ہی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نہیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ہے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ہو وہ کیا ہے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ہوسکتی ہیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ہیں ،بہر حال دین یعنی انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ہونا:

( صِبْغَةُ اللّٰه وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه صِبْغَةً ) (۲)

”(مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے ہوئےھو“

انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں بھی ہوسکتی ہے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں ہو تو پھرواقعاً اسلام کامل ہے ،اگر ہم چاہیں کہ الہی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پہلے ہمیں دینی منابع کوپہچاننا ضروری ہے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ہے۔

اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ہے تاکہ ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ہے او رقرآن دین کا اصل منبع ہے، ممکن نہیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ہو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ہو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ہو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نہیں ہے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ہے ہم اس اسلام کا دفاع کرتے ہیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ہے اور سیاست اسلام کے مہم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ہے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ہیں ۔

حوالے

۱ سورہ کھف آیت ۲۹

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۳۸

دوسرا جلسہ

اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اہمیت اور ضرورت

ہم نے پہلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سلسلے میں ہم کیا کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ، آج ہم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مہم اور ضروری ہے۔

۱۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں ،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ہمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ہیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ہوتی جارہی ہے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ہیں ، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پہونچ گئی ہیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ہیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں ۔

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ہے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نہیں ہوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجہا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے بہت تعجب ہوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ہے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ہوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بہت نمایاں فرق رکھتا ہے۔

بہر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ہوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم فقط اشارہ کرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ہے کہ یہ گروہوں کو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریں یھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاہتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

۲ ۔ جوانوں کی گمراہی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ہو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرہنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاہا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پہونچائی جائیں تاکہ اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رہی ہے ، اور مستقبل کی نبضوں کو جوانوں کے ھاتھو ں میں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب سے پہلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ہیں ، اور صرف وہ اپنی خواہشوں کے پیروں ہیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ہوتی ہیں اور کبھی خواہشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ہے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراہم ہو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بہت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ہیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررہے ہیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نہیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پہونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ہیں ۔

۳۔فرہنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اہل بیت علیہم السلام کے پیروں ہیں اور ائمہ علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ہیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاہے ،اور جب تک زندہ رہیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رہے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاہتا ہے ،اور دشمن کی تمنا یہ ہے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رہے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام ہمارا حاکم ہے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ہیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ہے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ہے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن کس طرح؟ ظاہر ہے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ہی ان تک پہونچائے جاسکتے ہیں ، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پہونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ہی ان کا مطلوب ہے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا تو پھر کوئی دوسرا ۱۳/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نہیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ہو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ہو،لیکن اگر شک پیدا ہوجائے تو کافی ہے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔

انہیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ہیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پہلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ہموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ہوچکا تھا بہت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ہوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ہے۔

اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ہموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ہے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بہت راستہ پہلے سے ہی ہموار تھا کیونکہ انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ہوئیں ،کتابیں بھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ہوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ہوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ہے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ہے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ہے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نہیں ہونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینی کی دل نشین آوازیں گونج رہی ہیں ، اور مرحوم مدرس کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ہماری دینداری اور ہماری سیاست ایک ہی ہے) کو اتنی آسانی سے نہیں بھلاسکتے تھے۔

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ہے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ہونے چاہئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ہونا چاہئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ہونا کافی ہے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ہونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ہوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ہے اور وہ اس بات کے قائل رہے کہ دین اور سیاست باہم ہیں تو ہم کھیں گے کہ دین اور سیاست باہم ہیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دینی احکام جاری ہوں ، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ہے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نہیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وہی حاکم ہے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ہو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ہیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ہو اس کو قبول نہیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ہو ، غیر قابل قبول ہے۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ہونے کے سلسہ میں ) بہت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، مختلف اخباروں ، ماہناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارہا ہے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رہتے ہیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ہے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاہے، اپنی تمام زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں یہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشہور ہے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ہیں ۔

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاہر ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ہیں ان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میں موجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ہے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاہئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ڈیموکراسی(جمہوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ہم اہنگ ہو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ہیں ان سے ولایت فقیہ متفق ہو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمہوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاہتاہے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔

اور اس فکری پروگرام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے دور ہونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نہیں ہے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ہیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ہے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ہے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ہونا چاہئے، خلاصہ دشمن ہر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ہے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ہوجائے، اوراگر ایسا ممکن ہوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ہوجائےگا۔

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ہوگئے چاہے وہ کسی بھی جگہ ہوں ، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ہوں گویا انھوں نے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پہونچنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

۴۔دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاہتے ہیں (اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاہتی ہے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاہرے ہوتے ہیں جو بعض موقع پر ہوتے رہتے ہیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں ) ان لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاہئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ہوجائے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ہوں تو ہوں ، لیکن اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیں کہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نہیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ہوں ، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پہچان رکھنے والے ہوں اور احکام الہی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں ، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ہی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذہب شیعہ نہیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متا ثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نہیں ہوتا تھا۔

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ہو تواس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررہا ہے وہ اسلام کا دلسوز نہ ہو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ہوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ، لھٰذا دوسری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں ، تاکہ ہمارے یقین میں بھی اضافہ ہو اور ہماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رہے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ہے۔

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً ۲ ۰ سال سے ہے یہ وہی شکل وصورت ہے جس کو اہل بیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ہونا چاہئے؟

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ہے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ہے لھٰذا پہلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ہے اور انہیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

۵۔دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بہت رینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی:

۱۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔

۲۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔

۳۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔

لھٰذا طبیعی طورپر ہمارا بھی تین گروہوں سے مقابلہ ہے پہلا گروہ وہ ہے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ہیں اور سیاست وحکومت جدا ہے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ہمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ہیں ، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ہونا چاہئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ہی کا قائل نہیں ہے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ہوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ہو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ہو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بہر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ کوئی خدا ہے اور اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ہے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاہئے اور جس سلسلہ میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ہے کہ بعض لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ہمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ہوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ہیں یعنی ممکن ہے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں ، ایسی صورت میں عقلی برہانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ہو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیہم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ہی نہیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ہے؟!

اس کو سمجہانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ہے وہ لوگ ایک قدم آگے ہیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ہیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کو مدرک قرار دینا ہوگا۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواہد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ ہماری بحث بھی مختلف پہلو رکھتی ہے لھٰذا ہماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ہوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ہوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ہوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ہم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ہے یا شرعی؟ اس وجہ سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب سمجہا کہ ہماری بحث کے مختلف طریقے ہوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔

۶۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مہم مسئلہ بھی ہے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ہوسکتی ہے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریں گے:

یھاں پر بحث یہ ہے کہ دین کے حدود کھاں تک ہیں ؟ جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ہے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ہے یا نھیں ۔

تو سب سے پہلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے کہ دین کیا ہے دین کی صحیح تعریف ہمارے پاس ہونا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر ہم اس کے حدودمعین کرسکیں ، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ہے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ہے یا نھیں ؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ہے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ہے یا نھیں ؟ بہر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں کی ہیں ، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ہیں ۔

”مثلاًدین سے ہماری امیدیں “ یعنی دین سے ہماری امیدیں حداقل درجہ پر ہیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ہوتا ہے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پہلوں کو شامل ہوتا ہے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتے ہیں )وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ہیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ہے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ہو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ہو،یعنی دین کا کام یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ہم اہنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ہے، اور سیاست دین سے الگ ہے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ہوں کہ جہاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے اور جہاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ہو تو پھر وہاں دین سے کوئی رابطہ نہیں کیونکہ دین کے حدود وہاں تک محدود ہیں کہ جہاں پر عقل کی رسائی اور پہنچ نہ ہو ۔

لھٰذا اگر ہم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ہوگئے کہ جن مسائل کو ہماری عقل حل کرسکتی ہے وہاں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم کو دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں ہماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے اور انسان ترقی کررہا ہے دین کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نہیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بہت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور اہستہ اہستہ اس کو دین کی ضرورت کم ہوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نہیں ہے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ہے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ ان کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ہے،(افسوس کہ یہ وہ لوگ ہیں جومسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ہیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ہوگئی ہے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نہیں ہے ) بہر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور جب ہم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ہیں ، تو پھر دین کیا ضرورت ہے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ہم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ہم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ہیں اور شروع ہی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ہیں ہماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ہے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ہیں ، یہ بھی بے بنیاد اور بے ہودہ گفتگو ہے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں ، یہ دین کی نامکمل تعریف ہے، بلکہ دین وہ طریقہ ہے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاہے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ہے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ہو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ہیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ہوں ، تو اس کا دین بھی ناقص ہوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ہے۔

۷۔دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ہم دین کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ہوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ہے؟ او راگر ہم خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے جیسا کہ دین کی ہم نے تعریف کی ہے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ہے ،پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں ۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نہیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ہونے پر جو دلیلیں قائم ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ہمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلیل موجود ہے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ہوں وہی دین ہے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ہیں او رجس کے مسلمان معتقد ہیں ، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ہونے کے بارے میں بحث کرے چاہے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پہچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ہے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پہچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کھا کہ دین کی پہچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں ، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ہمارے نزدیک غیر معتبر ہیں )کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں ۔

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے بیان کیا ہے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ہے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماہرعلوم) ،مولف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفہم پر ختم نہیں ہوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ہو (اورقرآن کی تفسیر سے چاہے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ہو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نہیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ہے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے۔

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ہیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ہیں ، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاہ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے، پس کون سی چیز ایسی ہے جو دین سے خارج ہے؟ معاملات،تجارت، اور رہن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں ، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ہوں ، اگر تجارت، رہن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں ، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ہے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے! ٹھیک ہے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی بہت سے لوگ دین کو نہیں مانتے، ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں تو آئیں او رہم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نہیں چاہتے تو جو راستہ چاہیں اپنائیں :

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۱)

”(اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“

لیکن اگر وہ کھیں کہ ہم اسلام کو قبول کر تے ہیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ہونے کا انکار کرتے ہیں ، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوں اعتراض کرتے ہیں ؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ہے اسلام نہیں ہے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ہے اور نہ ہی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نہیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ہے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ہو وہ کیا ہے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ہوسکتی ہیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ہیں ،بہر حال دین یعنی انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ہونا:

( صِبْغَةُ اللّٰه وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه صِبْغَةً ) (۲)

”(مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے ہوئےھو“

انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں بھی ہوسکتی ہے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں ہو تو پھرواقعاً اسلام کامل ہے ،اگر ہم چاہیں کہ الہی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پہلے ہمیں دینی منابع کوپہچاننا ضروری ہے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ہے۔

اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ہے تاکہ ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ہے او رقرآن دین کا اصل منبع ہے، ممکن نہیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ہو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ہو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ہو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نہیں ہے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ہے ہم اس اسلام کا دفاع کرتے ہیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ہے اور سیاست اسلام کے مہم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ہے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ہیں ۔

حوالے

۱ سورہ کھف آیت ۲۹

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۳۸


4

5