آسان مسائل (حصہ دوم) جلد ۲

آسان مسائل (حصہ دوم) 0%

آسان مسائل (حصہ دوم) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6416 / ڈاؤنلوڈ: 2278
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ دوم)

آسان مسائل (حصہ دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

زکوٰۃکے بارے میں گفتگو

زکوٰۃ ان پانچ رکنوں میں سے ایک رکن ہے کہ جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے میرے والد نے فرمایا:

زکوٰۃ ضروریات دین میں سے ہے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے حدیث میں اس کے متعلق وارد ہوا ہےکہ۔

”ان الصلوة لاتقبل من مانع الزکوٰة‘

جو زکوٰۃنہ دے اس کی نماز قبول نہیں۔

میرے والد نے اتنا بیان کرنے کے بعدمزید فرمایا جب زکوٰۃکے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

بسم الله الرحمن الرحیم

( خذ من اموالهم صدقه تطهر هم وتز کیهم بها )

ان کے اموال کا صدقہ لے کر اس کے ذریعہ ان کو پاک اور ان کا تزکیہ کرو۔

تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکرندا کرے کہ۔

”ان الله تبارک وتعالی قد فرض علیکم الزکوٰة کما فرض علیکم الصلوة“

اللہ تعالٰی نے تم پر زکوٰة کو اسی طرح واجب کیا ہے جس طرح نماز واجب کی ہے۔

اور جب سال کا پہلا دن آیا تو آپ نے منادی کو حکم دیا جاکر لوگوں میں منادی کروکہ:

ایها المسلمون زکوااموالکم تقبل صلاتکم

”اے مسلمانو:اپنے اموال کی زکوٰۃ دو،ناکہ تمہاری نماز قبول ہو“

پھر آپ نے صدقہ وصول کرنے والوں سے کہا کہ وہ لوگوں سے جاکر زکوٰۃ لیں۔

میری والد نے فرمایا: ایک روز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد میں پہونچ کر یہ فرمایا: اے فلاں! کھڑے ہوجاؤ،اے فلاں !کھڑے ہوجاؤ،اے فلاں! کھڑے ہو جاؤ،اے فلاں! کھڑے ہوجاؤ،یہاں تک کہ آپؐ نے پانچ آدمیوں کو مسجد سے نکالتےہوئے دیا اور فرمایا: تم ہماری مسجد سے نکل جاؤ ،جب تم زکوٰۃ نہیں دے سکتے تو اس میں نماز نہ پڑھو‘اسی کے ساتھ آپ نے امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک حدیث مجھ سے بیان کی اس وقت آپ کے چہرہ پر حزن ملال کے بادل چھاگئے تھے،اس حدیث میں ہے :

ان الله عزو جل یبعث یوم القیامةناسامن قبور هم مشدودة ایدیهم الی اعناقهم الخ

فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل روز قیامت کچھ لوگوں کو ان کی قبروں سے محشور کرے گا،ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے ایسے بندھے ہوں گے کہ وہ انگلی کے ایک پور کو بھی اس سے جدا نہیں کرسکتے‘اور فرشتے ان کو سختی کے ساتھ ہانک رہے ہونگے اور آواز دے رہے ہونگے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خیر قلیل کے ذریعہ خیر کثیر کو روکا،یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو اللہ نے(مال کثیر عنایت کیا اور انہوں نے اپنے اموال میں سے حق اللہ( زکوٰۃ) کو ادا نہیں کیا۔

میرے والد نے فرمایا: قرآن مجید میں بہت سی آیات کریمہ میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا تذکرہ ہے، جس سے شریعت اسلامی میں زکوٰة کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

سوال: میں نے اپنے والد سے زکوٰۃکے بارے میں معلوم کیا (کہ زکوٰۃ کیوں واجب ہے؟)

تو آپ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث کے ذریعہ اس کا جواب مجھے دیا، اس حدیث میں آپ نے فرمایا:

انما وصفت الزکاة اختباراً اللاغنیاء ومعونة للفقراء ولو ان الناس ادوازکاة اموالهم مابقی مسلم فقیر امحتاجا

زکوٰۃ اغنیاء( مالداورں)کے لئے آزمائش ہے اور فقراء (غربیوں)کے لئے ایک مدد ہے اگر لوگ اپنے اموال سے زکوٰۃادا کریں تو کوئی بھی مسلمان غریب محتاج نہ رہے اوراس سےمستغنی ہوجائے جو اللہ نے اس کے لئے فرض کیا ہے اور لوگ ضرور ت مند اور حاجب مندنہ رہیں اور نہ بھوکے وننگے رہیں لیکن اگر ایسا ہے تو یہ صرف مالدار کے گناہوں کی بناپر ہے اور اللہ تعالیٰ کو حق پہونچتا ہے کہ وہ ان کو رحمت سے دور رکھے کہ جنھوں نے اپنے مال سے حق خدا کو ادانہ کیا۔

میں نے سوال کیاکہ کیا ہر مال میں زکوٰۃواجب ہے؟

تو انھوں نے جواب میں فرمایا مندرجہ ذیل بیان کی ہوئی چیزوں میں زکوٰۃواجب ہے۔

پہلی

سونے/ چاندی کے سکوں میں چند شرطوں کے ساتھ۔

دوسرے

گہیوں /جو / کھجور/ کشمش ان میں بھی چند شرائط ہیں۔

تیسرے

اونٹ،گائے،بھینس،بھیڑ،بکری ،دنبہ،ان میں بھی کچھ شرطیں ہیں۔

چوتھے

تجارتی مال میں اس میں بھی کچھ شرائط ہیں۔

سوال: وہ کونسی واجب شرطیں ہیں جو سونے چاندی کے سکوں میں پائی جاتی ہیں کہ جن کی طر ف آپ نے اپنی گفتگو میں اشارہ کیا؟

جواب: چند شرائط ہیں۔

۱ سونے کی مقدار عرفاً ۱۵ / مثقال ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ، اس کا چالیسواں حصہ ہوگی،اور جس وقت اس پر تین مثقال کا اضافہ ہو تو اس کی زکوٰة چالیسواں حصہ ہوگی ۔

(یعنی پندرہ مثقال کے بعد جب بھی تین مثقال کا اضافہ ہوگا اس کے چالیسواں حصہ سے زکوٰۃ واجب ہے،تین سے کم اور زیادہ پر زکوٰۃنہیں ہے)لیکن چاندی کی مقدار عرفاً ایک سوپانچ ۱۰۵ مثقال ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہوگی اور جب بھی ۲۱/ مثقال کا اضافہ ہو تو اس پر چالیسواں حصہ نکالنا واجب ہوگا۔

سوال: میں نے کہا اگر سونے چاندی کے سکوں کی مقدار اس حد سے کم ہو تو؟

جواب: تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے ۔

۲ سونے چاندی کے ایسے سکے ہوں، جو اس زمانہ کے خریدو فروخت (معاملات ) میں عملاً رائج ہوں۔

۳ گیارہ مہینے پورے گزرنے کے بعد بارہو یں مہینے میں داخل ہوجائے اور وہ مالک کی ملکیت میں رہے۔

سوال: کیا سونے کے کڑے اور سونے چاندی کے زیورات اور سونے چاندی کے دوسرے ٹکڑوں پر زکوٰۃ واجب ہے؟

جواب: ان پر واجب ہے۔

۴ پورے سال مالک کے تصرف میں رہیں ہوں پس جو مال عرفاً کچھ مدّت کے لئے ضائع ہوجائے تو زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہے۔

۵ مالک بلوغ اور عقل کے اعتبار سے کامل ہو،لہٰذابچےاورمجنون کےاموال میں زکوٰۃواجب نہیں ہے۔

دوسرے

جس میں زکوٰۃ واجب ہے وہ گیہوں،جو، کھجور،کشمش ہے،اور جب ان کی مقدار ان کے سوکھنے کے بعد تین سوصاع کو پہونچ جائے تو اس وقت ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور یہ تقریباً( ۸۴۷) کلو گرام کے قریب ہے جیسا کہ منقول ہے،اوران میں زکوٰۃ کی واجب مقدار نیچے بیان کی جارہی ہے۔

۱ کھیتی اگر بارش کے پانی یا نہر کے پانی سے ان دونوں کے مشابہ کسی ایسی چیزسے سینچائی کی گئی ہو جس میں کھیتی کی سینچائی کے لئے محنت ومشقت کی ضرورت نہ پڑے تو ایسی صورت میں ان کی زکوٰۃ دسواں حصہ ہوگی ۔

ب اور اگر سینچائی ہاتھ یا کسی آلہ کے ذریعہ مثلا ٹیوب ویل وغیرہ سے ہو تو اس کی زکوٰۃ بیسواں حصہ ہوگی۔

جواب: اور جب سینچائی کبھی ہاتھ یا کسی دوسرے آلہ کے ذریعہ اور کبھی بارش کے ذریعہ ہو، توپھر اس کی زکوٰۃ آدھی کھیتی کی بیسواں حصہ اور آدھی کی دسواں حصہ (یعنی ۳/۴۰) حصہ دی جائے گی۔

مگر یہ کہ ان دونوں سینچائیوں میں سے ایک بہت کم ہو اور ایک بہت زیادہ ہو،تو پھر زیادہ والی سنچائی کی نسبت زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

سوال: جب مقررہ نصاب سے کم ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ؟

جواب: اور کیایہاں دوسرے بھی شرائط ہیں۔

سوال: ہاں زکوٰۃواجب ہونے کے وقت محصول مالک کی ملکیت میں ہو،اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد وہ مالک ہواہو تو پھر زکوة واجب نہیں ہے۔

سوال: زکوٰۃ کا تعلق ان چار محصول پر کب ہوگا؟

جواب: ان سے زکوٰۃ کا تعلق اس وقت ہوگا جب کہ گیہوں کا نام،جو کانام،یا کھجور(خرما)کا نام، یا کشمش کانام ان پر صادق آئے (یعنی جب ان چیزوں کو ان کے نام سےموسوم کیا جائے)

تیسرے

جن پر زکوٰۃ واجب ہے وہ بھیڑ/بکری / اونٹ گائے اور بھینس ہے ان کی زکوٰۃ میں چند چیزیں شرط ہیں:

ان کی تعداد کا حدنصاب تک پہونچنا،اور وہ ان کی معین تعداد ہےجس پر زکوٰۃ واجب ہے پس اونٹ جب پانچ تک پہنچ جائے تو ان پر ایک بکری کی زکوٰۃ دینا واجب ہے اور جب دس ہوجائے تو دوبکریاں اور جب پندرہ ہوجائے تو تین بکریاں اور جب بیس ہوجائے توچاربکریاں اور جب پچیس( ۲۵) تک پہونچ جائے تو زکوٰۃایک ایسی اونٹنی ہے کہ جو اپنی عمر کے دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو،اور جب چھتیس ( ۳۶) اونٹوں تک پہنچ جائے تو ان کی زکوٰۃ ایک ایسی اونٹنی ہےجو ا پنی عمر کے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو،اس کے علاوہ اونٹ کے اور بھی نصاب ہیں جن کے ذکر کرنے کی یہاں جگہ نہیں ہے۔

اور بھیڑ بکری میں جبکہ ان کی تعداد چالیس ( ۴۰) تک پہونچ جائے تو ان کی زکوٰۃ ایک بکری اور جب ایک سوا کیس ( ۱۲۱) تک ان کی تعداد پہونچ جائے تو دوبکریاں اور جب دوسوایک ( ۲۰۱) تک پہونچ جائے تو چار بکریاں اور جب ان کی تعداد چار سویا اس سے زیادہ ہو جائے تو ان میں سے ہر سوپر ایک بکری دی جائے گی،اسی طرح جیسے جیسے ان کا عدد بڑھتا جائے گا ویسے ہی ویسےہر سوپر ایک بکری دی جائے گی۔

گائے اور بھینس میں جب ان کی تعداد تیس تک پہونچ جائے تو ان کی زکوٰۃ ایک ایسا گا ئے کا بچہ ہے جو دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو ،اور اگر ان کی تعداد چالیس تک پہونچ جائے تو ان کی زکواۃ ایک ایسی گا ئے کابچہ مادہ ہے جو اپنی عمر کے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، اس اعتبارسے گائے ہویا بھینس کوئی فرق نہیں ہے۔

اوردو نصاب کے درمیان یا محدود مقدار میں اونٹ اور گائے اور بھیڑ بکری پر زکوٰة نہیں ہے اس بنا پر اگر نصاب سے زیادہ ان کی تعداد بڑھ جائے تو جب تک ان کی تعداد کسی نصاب تک نہ پہونچ جائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔

۲ حیوانات(پورےسال)ایسی زمین میں چریں جس کا خدا کے علاوہ کوئی مالک نہ ہو لیکن اگر اس کے مالک نے ان کو گھانس یا چارہ چاہے سال کے کچھ ہی دنوں میں دیاہوتوان پر زکوة واجب نہیں ہے۔

اور حیوانات میں ان سے کام لینا معتبر نہیں کہ جن حیوانات سے کام لیا جاتاہوان پر زکوٰۃ نہ ہو پس اگر ان سےسنیچائی جو تائی وغیرہ میں کام لیاجاتاہو تب بھی ان پرزکوٰةواجب ہے۔

۳ وہ تمام سال مالک کی یامالک کے ولی کی ملکیت میں رہے ہوں پس ا گر سال میں کچھ مدت کے لئے ان کی چوری ہوجائے تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔

۴ وہ حیوانات جوگیارہ مہینے گزار کربار ہویں مہینہ میں داخل ہوگئے ہوں اور وہ مالک کی ملکیت میں ہوں۔

چوتھے

جس پر زکوٰۃ واجب ہے،وہ مال و تجارت ہے اور یہ وہ مال ہے کہ کوئی شخص اس نیت سے کہ وہ اس کا فائدہ تجارت کے ذریعہ اس کے معاوضہ کامالک ہوگا اس کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہوگی جبکہ تمام نیچے بیان کئے ہوئے شرائط اس میں جمع ہوں۔

( ۱) مالک بالغ وعاقل ہو ۔

۲ مال (تجارت )حد نصاب کو پہنچ جائے اور اس کا نصاب و ہی ہے جو سونے یا چاندی کے سکوں سے کسی ایک کا نصاب ہوتا ہے لہٰذا اسے سونے اور چاندی کے بیان میں ملاحظ کیجئے۔

( ۳) فائدہ اور تجارت کی نیت پر ایک سال گزرجائے۔

۴ پورے سال فائدہ حاصل کرنے کی نیت کو بدل کر اس مال کو اپنی ضرورت زندگی پر صرف کرنے کا ارادہ کرلیا تو پھر اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔

۵ پورے سال مالک اوراس مال کے تصرف کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔

سوال: جب زکوٰۃ نکالی جائے تو وہ کس کو دی جائیگی؟

جواب: وہ زکوٰۃکے مستحقین کو دی جائے گی اور زکوٰۃ کےمستحقین کی چند شرطوں کے ساتھ آٹھ قسمیں ہیں خداوند متعال فرماتاہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)

صدقات صرف فقراء‘مساکین اور صدقات وصول کرنے والے اور جن کی تالیف قلب منظور ہے‘غلاموں کو آزاد کرنے میں ‘قرض داروں کا قرض ادا کرنے کے لئے ،اور راہ خدا میں کام کرنے کے لئے،اور مسافروں کی امداد کے لئے( صرف کی جائے) یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ صاحب علم و حکمت ہے(سورۂ توبہ)

سوال: فقیر اور مسکین میں کیا فرق ہے؟

جواب: فقیروہ ہے جو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سال بھر کا خرچ نہ رکھتا ہو،اور نہ اس کے پاس کوئی ایسی صنعت وحرفت ہو جس کے ذریعہ وہ اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ حاصل کرسکے اور مسکین وہ ہے جو فقیر سے زیادہ بد حال وتنگ دست ہو۔

سوال: زکوٰۃکے وصول کرنے والے کون ہیں؟

جواب: زکوٰۃ کے وصول کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا امامؑ یا حاکم شرع یا اس کا نائب زکوٰۃ کے وصول کرنے اور اس کا حساب وکتاب رکھنے اور اس کو بنی وامام وغیرہ یا مستحقین تک پہونچنے پرمقرر کریں۔

سوال: یہ مؤلفتہ القلوب کون لوگ ہیں؟

جواب: مولفتہ القلوب وہ مسلمان ہیں کہ جن کو اگر کچھ مال دیا جائے تو ان کی نظر میں اسلام کی قدر و قیمت بڑھے گی یا وہ کفار کہ جن کو اگر کچھ مال دیا جائے تو اسلام کی طرف راغب ہونگے،یا مسلمانوں کی جنگ میں مدد کریں گے اور ان کی طرف سے دفاع کریں گے۔

اور اس طرف اشارہ کرنا بہتر ہوگا کہ زکوٰة کا دینے والا ان دو آخری قسموں کو خود اپنی زکوٰة دینے پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ امام یا ان کے نائب کی نظر پر یہ بات موقوف ہے یعنی اگر وہ چاہیں تو ان دونوں کوزکوٰة دے سکتے ہیں( یعنی عاملین زکوٰۃ اور مولفتہ القلوب کو)

سوال: آیت میں وفی الر قاب آیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟

جواب: وفی الرقاب(سے مراد )وہ غلام جوخریدے اور آزادکئے جاتے ہیں۔

سوال: والغارمون سے کیا مرادہے؟

جواب: غارمون سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرض دار ہیں اور وہ اپنےشرعی قرضوں کو ادا کرنے سے عاجز ہیں۔

سوال: اور فی سبیل اللہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: فی سبیل اللہ سے تمام کار خیر مراد ہے مثلاً مسجدوں،پلوں وغیرہ کا بنوانا اور اس سلسلہ میں بھی حاکم شرع کی اجازت ضروری ہے۔

سوال: وابن السبیل سے کیا مراد ہے؟

جواب: ابن سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کا مال سفر میں ختم ہوگیا ہو،اور اس کے لئے سفر سے واپسی کے لئے قرض لینا بھی ممکن نہ ہو،یا اس کے لئے مشکل ہو(جیسے اس کے شہر میں اس کا مال ہو اور وہ اس کے بدلے میں یا اس کو کرایہ پر دینے سے معذور ہو) پس اس کو واپسی کا خرچ زکوٰۃ میں سے دیا جائے گا بشرطیکہ اس کا یہ سفر معصیت پر مبنی نہ ہو۔

یہ زکوٰة کے اورمستحقین ہیں اس کے علاوہ شرط ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ مومن ہو( اور تارک صلوة نہ ہویا شراب خوارنہ ہو،یا فسق وفجور کو کھلم کھلا انجام نہ دیتا ہو) اورجس کوزکوٰۃ دی جارہی ہو وہ اس کو گناہوں میں صرف نہ کرے (بلکہ اس کو کسی ایسے کو بھی نہ دے جس کے دینے پر گناہ کرنے پر اور برے کاموں کے ہونے پر مدد ہو،چاہے وہ خود اسے گناہوں پر خرچ نہ کرے،اور یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ ایسے کو نہ دی جائے کہ جس کا نان ونفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہو جیسے بیوی اورمستحق ہاشمی(سید) کیونکہ ہاشمی (سید)کو صرف ہاشمی کی زکوٰة لے سکتا ہے(غیرسید کی نہیں )

خمس کے سلسلہ گفتگو

یرے والد نے قرآن مجید کو اپنے سامنے رکھا اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک قسم کا رعب ودبدبہ طاری تھا جب وہ میرے سامنے بیٹھے تو انھوں نے جھک کر قرآن مجید کا بوسہ لیا اور اس کو بہت ہی تعظیم سے اٹھا کر میری طرف بڑھایا میرا پورا جسم کانپ گیا اور جب میرے ہاتھ میں قرآن مجید آ گیا تو میرے والد نے فرمایا:

کتاب خدا کو کھولو اور میرے سامنے دسویں پارے کا کچھ ابتدائی حصہ پڑھو،میں نے قرآن مجید کھول کر اور دسواں پارہ نکالا،اعوذباللہ کے بعد اللہ کے کلام سے اس آیت کی تلاوت کی۔

( واعلمو انما غنمتم من شیی فان لله خمسه وللرسول ولذیی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیلان کنتم آمنتم بالله وما انزلنا علی عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعان والله علی کل شیی قدیر )

”اور جان لو کہ جب کسی طرح کی غنیمت تمہارے ہاتھ لگے تو اس کا پانچواں حصہ خدا اوررسول اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں،مسکینوں اور مسافروں کا ہے اگر تم خدا اورجو کچھ اس نے اپنے بندہ پر فیصلہ والے دن کہ جس دن دو گروہ کی مڈبھیڑ ہوئی نازل کیا تھا،ایمان رکھتے ہو اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

میرے والد نے فرمایا ذرا دوبارہ پڑھوں میں نے۔

( واعلمو انما غنمتم من شیی فان لله خمسه وللرسول ولذیی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل )

تک پڑھا تو والد نے فرمایا بس کافی ہے پھر اپنے سر کو نیچے جھکا کر آہستہ پڑھنا شروع کیا کہ جیسے اپنے آپ سے بات کررہے ہیں ۔

( واعلموانما غنمتم من شیی فان لله خمسه)

پھر سراٹھا کر گلو گیر آواز میں فرمایا خدا وند عالم فرماتاہے” اعلموا‘کیا تم کو خمس کے واجب ہونے کے متعلق معلوم ہوا؟

میں نے کچھ اطمینان اور اعتماد اور کچھ ہچکچاتے ہوئے عرض کیا،ہاں مجھے معلوم ہوگیا پھروہ اپنی جگہ سے اٹھے اور دوبارہ ایک کتاب کی جلد اٹھا کر مجھے دی جس کا نام” الوسائل‘تھا اس کے پہلے صفحہ کو پڑھا اس کے مولف کانام ”محمد بن الحسن الحر العاملی“تھا اور مجھ سے فرمایا:اس کتاب سے باب خمس نکال کر میرے سامنے پڑھو۔

میں نے باب خمس کو نکالا اور ان کے سامنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امام علی علیہ السلام‘امام باقر علیہ السلام امام صادق علیہ السلام اور امام کاظم علیہ السلام کی خمس کے بارے میں احادیث کو پڑھا اور جب میں نے ان کے سامنے اس حدیث کو پڑھا کہ جس کو عمران بن موسی نامی شخص نے روایت کیا ہے اور کہاکہ جب میں نے امام علی رضا علیہ السلام کے سامنے آیت خمس کو پڑھا تو آپ نے فرمایا جو اللہ کے لئے ہے وہ رسول اللہ کے لئے ہے اور جو رسول کے لئے ہے وہ ہمارے لئے ہے پھر فرمایا خدا کی قسم اللہ نے مومنین پر کتنا آسان کردیا ہے کہ ان کے رزق میں سے پانچ درہموں میں سے ایک درہم ان کے رب نے خمس کا قراردیا اور باقی چار کا کھانا ان کے واسطے حلال قرار دیا اور یہ حدیث سماعہ نامی ایک راوی سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابا الحسن علیہ السلام سے خمس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر اس چیز میں خمس واجب ہے کہ جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں چاہے وہ چیز کم ہو یا زیادہ۔

اور یہ حدیث محمد بن حسن اشعری سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس تحریر کیا کہ ہم کو خمس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ ان تمام چیزوں میں ہے جن سے کوئی شخص استفادہ کرتا ہے وہ چیز چاہے کم ہوں یا زیادہ،اور تمام صنعتوں کی قسموں پر ،یہ کس طرح ہے؟تو آپ نے اس کا جواب اپنے قلم سے لکھا لا الخمس بعد المئونة خمس سال کے خرچ کے بعد ،اور جب میں اس حدیث کو آخر تک پڑھ چکا تو میں نے اپنے والد سے سوال کیا۔

سوال: آپ نے نماز کی گفتگو میں مجھ سے فرمایا تھا کہ جس لباس پر خمس واجب ہے اور ادا نہیں کیا گیا تو اس میں نماز نہ پڑھو“اور آپ نے حج کی بحث میں دوبارہ مجھ سے بیان کیا تھا کہ تم اپنے حج کرنے سے پہلے اپنے مال کا خمس وزکوٰۃ دے کرمال کو پاک کرلو اگر خمس وزکوٰة اس پر واجب ہے۔

سوال: تو کیا مجھ پر اپنے مال کا خمس نکالنا واجب ہے؟

جواب: میرے والدنے فرمایا نیچے بیان ہونے والی چیزوں میں خمس واجب ہے۔

۱ وہ مال غنیمت جس کومسلمان کفارسے جنگ میں حاصل کرتےہیں۔

۲ جو چیزیں معادن(کان)سے نکالی جاتی ہیں،مثلاًسونا،چاندی ،تانبا،پیتل،لوہا،گندھک،وغیرہ اوراسی طرح مٹی کا تیل،پتھر کا کوئلہ ان کی صفائی کے بعد بشرطیکہ انکی بازاری قیمت عام طور سے ۱۵ مشقال سکہ دار سونے کی قیمت کے برابر پہنچ جائے (تواس پر خمس واجب ہے)

۳ خزانے بشرطیکہ جو چیز خزانے سے نکلی ہے اس کی قیمت ۱۵/ مثقال سونے یا اس سے زیادہ یا ۱۰۵ مشقال چاندی یا اس سے زیادہ ہو ( اور اس کا حساب اس کے نکالنے کے اخراجات کم کرنے کے بعد کیا جائیگا)

۴ دریا یا بڑی نہروں میں غوط لگانے کے بعد جو موتی ومونگے وغیرہ نکالے جائیں اوراس کی قیمت ایک سونے کے دینار کے برابر(یعنی ایک مثقال سونے کے برابر ہو)

۵ جو حلال مال حرام مال میں مخلوط ہوجائے۔

۷ وہ سالانہ بچت جو کسی تجارت یا صنعت یا ھدیہ یا کھیتی یا کسی محنت ومزدوری وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔۔۔و ۔۔۔

سوال: میں نے بات کا ٹ کرپوچھا اس کے معنی ہوئے کہ تجارت کے نفع پرخمس دینا واجب ہے؟

جواب: فقط تجارت کے فائدہ میں ہی خمس دیناواجب نہیں ہے بلکہ ہر وہ منافع جومجھے اور تم کوحاصل ہوتا ہے اس میں بھی خمس واجب ہے۔

سوال: تاجر کس طرح اپنے منافع کا خمس کے لئے حساب کرے گا؟

جواب: وہ اپنی پونجی اور اپنی نقدی کا حساب تجارت شرع کرنے کے ایک سال بعد کرے گا اور اس میں سے پہلے اپنی پونجی جدا کرے گا ۔

دوسرے

اس خرچ کو جدا کرے گا کہ جومنافع کے حاصل کرنے میں صرف ہوا ہو مال لانے،لے جانے، مزدوری،بجلی ‘ٹیلی فون،دکان کاکرایہ وغیرہ۔

تیسرے

اپنا اور اپنے اہل عیال کا سال بھر کا خرچ یعنی جو کھانے پینے لباس ‘مکان،کرایہ،سامان کا خریدنا اور علاج اوردوسری مختلف ضروریات،اسی میں قرض کی ادائے گی،ہدیہ،واجبات کی ادائے گی،سفر کا خرچ اور دوسری مناسب چیزیں بھی ہیں جو طبعی ہوں اور ان میں اسراف نہ ہو پس ان مذکورہ امور کو جدا کرکے باقی سے بیس ( ۲۰) فیصدی نکال کر بطور خمس دیا جائے گا

سوال: مشلاًاگر تاجر سال کے تمام ہونے کا وقت دیکھے کہ اس کے پاس دس ہزار دینارنقد ہیں اور بیس ہزار دینار کا مال موجود ہے،جب کہ سال کے شروع میں اس کا اصل مال پندرہ ہزار دینار تھا اور تجارت کے سلسلہ میں کرایہ بھاڑا،بجلی ‘ٹیلی فون،دکان کا کرایہ وغیرہ میں مبلغ ایک ہزار دینار خرچ ہوا اور سال کے درمیان جو اپنے اور اپنے اہل وعیال پر خرچ ہوا وہ دس ہزار دینا رہے لہٰذا اصل مال اور تجارت کاخرچ اورسال کااپناخرچ نکالنےکے بعداس کودس ہزار دینارکی بچت ہوئی،اس طرح ۱۰۰۰۰/۲۰۰۰۰/ ۳۰۰۰۰ / اب کہ جس کا خمس واجب ہے،اس کی مقدار دس ہزار دینا رہے اور خمس کی مقدار دوہزار دینار ہوئی ہے کیونکہ دس ہزار کا پانچواں حصہ دوہزار دینار ہوتا ہے، پس اس مبلغ کا دیناواجب ہے ؟

سوال: کس تاریخ سے وہ اپنے اس فائدہ کا حساب کرے تاکہ جب بھی سال کا وہ دن آئے تو اس دن خمس دینا واجب ہوجائے؟

جواب: اگر زندگی گزارنے میں سختی نہ ہو تو خمس کا حساب اپنی تجار ت شروع کرنے کے پہلے دن سے ہی کرے کہ جب بھی سال میں وہ دن آئے تو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ جدا کیے بغیر جو کچھ سال میں منافع ہوا ہے اس کا خمس دیدے اور اگرزندگی گزارنے میں سختی وتنگی ہوتو پھراپنا سال کا خرچ جدا کرکے حساب کرے۔

سوال: میں نے نیا لباس خریدااور ایک سال تمام ہوگیا اور میں نے اس کو پہنا بھی نہیں( تواس کا کیا حکم ہے)؟

جواب: اس کا خمس دینا چاہئے اور اس طرح جو گھر کا بنیادی سامان ہے اس کا خمس دو،مثلاًہر وہ مال جو تم نے سال کے درمیان گھر کی ضرورت کے لئے خریدا اور وہ کام میں نہ لایا گیا جیسے چاول، آٹا، گیہوں،جو،چائے،ماش،مسور، تیل،روغن،حلوہ جات،یا مٹی کا تیل‘گیس،وغیرہ ۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر وہ مال جو ضرورت سے زیادہ ہے اور وہ کام میں نہ لایا گیا،یا نہ کھایا گیا،نہ پہناگیا،یا ۔۔۔یا اس کا خمس نہ دیا گیا ہو؟۔

جواب: ہاں پس اگر خمس نکالنے کا دن آجائے اور جو سامان سالانہ گھر کے خرچ سے باقی رہ گیا ہے تو اس کا خمس نکالے یا اسی چیز میں سے یا اس کی قیمت کا اندازہ کرکے اس کا خمس دے۔

سوال: اس کی قیمت کا اندازہ خمس نکالنے کے دن سے کیا جائے گا یا خرید والے دن سے؟

جواب: جب خمس کاحساب کیا جائے تو اس دن کی بازاری قیمت سے حساب کیا جائے نہ کہ جس دن وہ چیز خریدی گئی ہے اس کا حساب کرے ۔

سوال: اگر میں نے کسی چیز کا خمس نہ نکالا تو کیا مجھپر اس کا خمس نکالنا واجب ہے؟

جواب: اس چیز کا مصرف اس وقت تک جائز نہیں کہ جب تک تم اس کا خمس نہ نکال دو، اور جائز ہے کہ تم حاکم شرع سے اس کی اجازت لو وہ اگر اس میں مصلحت دیکھے گا تو( اجازت دے دے گا)

سوال: مرنے والے کے ذمہ خمس ہے اور اس نے اس کے نکالنے کی وصیت نہ کی تو وارثین کا کیا فریضہ ہے؟

جواب: لازم ہے کہ اسکے چھوڑے ہوئے اصل مال سے وصیت پر عمل کرنے سے پہلے اور وراثت کی تقسیم سے پہلے اس کا خمس نکالے اور اس بات سے یہ چیز مستثنیٰ ہے کہ مرنے والا گنہگارہے اور اس نے خمس نہیں نکالا تو پھر جو مومن وارث ہے کہ جس پر خمس کا نہ نکالنا جائز ہے اور اس پر اپنی اس وارثت سے کہ جس پر خمس کاتعلق ہے اس سے بری الذمہ ہونا لازم نہیں ہے،اور اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو کسی مومن کی طرف کسی معاملہ کے ذریعہ یا مفت کسی ایسے شخص کو منتقل ہوتی ہے کہ جو خمس نہ نکالتا ہو تو وہ مومن اس کا مالک ہے اور اس کے لئے اس چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔

اور اسی طرح کسی شخص نے جو خمس نہیں دیتا اپنی چیز کو کسی مومن کے واسطے بغیر ملکیت کے مباح کردے تو اس مومن کو اس میں تصرف کرنا جائز ہے،کیونکہ ایسی صور ت میں مومن پر سختی ہوگی اور اس کا جو کچھ بار اور بوجھ ہے خود خمس نہ دینے والے پر ہے اگر اس نے خمس کے دینے میں کوتاہی کی ہو تھوڑی دیر کے لئے میرے والد خاموش ہوگئے تو میں نے جلدی سے عرض کیا ۔

سوال: وہ تاجر،زمین کا مالک،کاشتکار،کار خانہ دار‘زمین دار،مزدورنوکری،کرنے والے،اور طالب علم وغیرہ کیا کریں کہ جنھوں نے نہ خمس دیا اور نہ ہی اپنے کئی سال کا خمس کا حساب کیا ؟ اور انھوں نے اپنے اموال سے کئی سال فائدہ حاصل کیا،گھروں کو بنوا یا اور ضروریات زندگی مثلاًکپڑے،فرش اور دوسرے سامان خریدے اس کے بعد وہ خمس نکالنے پر آگاہ ہوئے تو وہ کیا کریں؟

جواب: جوتم نے ذکر کیا اور جن چیزوں کوشمارکیا ان تمام چیزوں پر خمس نکالنا واجب ہے جب کہ وہ سال کا خرچ نہ ہوں،بلکہ وہ چیزیں سال کی ضروریات سے زیادہ ہوں ۔

سوال: جو آپ نے بیان فرمایا اس کی ذرامثال بیان کیجئے؟

جواب: کسی نے گھر خریدامگر اس میں سکونت اختیار نہ کی کیونکہ دوسرا گھر اس کے پاس تھااس میں اس نے سکونت اختیار کی لہٰذا اس گھر کا خمس دے۔

اور دوسرے ایسے سامان خریدے کہ جن کی اس کو ضرورت نہ تھی لہٰذاان پرخمس نکالنا واجب ہے۔

سوال: جن چیزوں کو سال کے خرچ کے واسطے خریدا مثلاًگھر خریدا تاکہ اس میں رہے،یا دوسرا سامان خریدا تاکہ اس سے اپنی ضرورت کو پورا کرے،اور اسی طرح دوسری چیز یں خرید یں؟

جواب: مثلاً گھر خریدا تاکہ اس میں رہے یا دوسرا سامان خریدا تاکہ اس کے منافع سے سال کا خرچ نکالے یا اس کو کام میں لائے تو ان چیزوں پرخمس واجب نہیں ہے۔

سوال: مثلاًکسی نے اپنے رہنے کے واسطے گزشتہ سالوں کا جو منافع جمع تھا اس سےگھر خریدا،اور ساتھ ہی ساتھ اس سال کا بھی منافع اس میں شامل ہوگیا ہو جیسا کہ میرے خیال میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ چند سالوں کا منافع جمع کرکے خمس کے حساب کو اپنے اوپر خلط ملط کرلیتے ہیں(تو وہ کیا کریں)؟

جواب: ان پر واجب ہے کہ وہ حاکم شرع یا اس کے نائب کی طرف رجوع کریں تاکہ اس مقدار مشکوک میں( جو کئی سال کے منافع یا گھرمیں رہنے والےسال کے منافع میں ہے) حاکم شرع کے ساتھ مصالحت ہوجائے لیکن جو گذشتہ سالوں کی بچت کی بات ہے تو وہ یہی ہے کہ فوراً اس کا خمس نکالے۔

سوال: اگر کوئی خمس کی ادائےگی پر ایک دم،فوراً قادر نہ ہو یا اس کے لئے خمس کی ادائےگی میں زحمت ومشقت ہوتو؟

جواب: اس فوریت کو حاکم شرع یا اس کا قائم مقام ساقط کرکے اس کے ذمہ قسط وار کردے گا تاکہ بغیر کسی سستی اور غفلت کے ادا کرسکے ۔

سوال: ابھی میں آپ کے ساتھ اس گھر میں رہتا ہوں،کیا مجھ پرخمس واجب ہے یا جو آپ خمس دیتے ہیں کافی ہے؟

جواب: ہاں تم پر خمس واجب ہے،اس چیز میں جو تم کو نفع حاصل ہوتا ہے حالانکہ تم میرے ساتھ اس گھر میں رہتے ہو اگر تم کو کوئی فائدہ حاصل ہو اور وہ فائدہ پورے ایک سال تمہارے پاس باقی رہے،اورتم نے اس کو اپنی ضرورت میں صرف نہیں کیا کیونکہ تم کو اس کی حاجت نہیں تھی تو اس کا خمس نکالو ۔

سوال: میں گرمیوں کی چھٹی میں تحصیل علوم دینی میں مشغول ہوتاہوں مجھے ہر مہینہ وظیفہ ملتا ہے آپ اس کو مجھ سے نہیں لیتے تاکہ میں اس کو اپنے اوپرصرف کروں مثلاً لباس اور دوسری ضروری چیزیں خریدوں تو کیا مجھ پر اس ماہانہ وظیفہ کا خمس دینا واجب ہے؟

جواب: جب کہ تم اپنے اوپر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتے ہو تو پھر تم پر خمس دینا واجب نہیں ہے اور اگر تم اس کو جمع کرتے ہو یا تھوڑا جمع رکھتے ہو اور اس پر پورا سال گزرجائے تو اس جمع شدہ رقم پر خمس دیناواجب ہے۔

سوال: کسی نے تجارت کی جگہ کو پگڑی پر لیا اس میں تجارت کرنے کا سامان تھا پہلے سال ان کا خمس نکال دیا گیا،کیا ہر سال پگڑی کی بناپر اس جگہ کی قیمت اور اس کے سامان کی قیمت کی زیادتی کی بناپر خمس نکالاجائے گا؟

جواب: ہرگز نہیں ،بلکہ اس کی اضافی قیمت پر جگہ بکنے کے بعد ،اور فائدہ حاصل ہونے کے بعد، جب کہ اس رقم کو سال کے اخراجات میں صرف نہ کیا گیا ہو،خمس واجب ہوگا۔

سوال: وہ برتن جو کھانے پینے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں اگر ان کو زینت کے طور پر استعمال کیا جائے تو کیا یہ استعمال خمس کو ساقط کردے گا؟

جواب: اگر عام لوگوں کے نزدیک ایسا استعمال سال کے اخراجات میں شمار ہوتا ہو تو پھر ان پر خمس واجب نہیں ہے ۔

سوال: ایک بنائی ہوئی چیز کااس کے مالک نے خمس دے دیا اب اس نے اس کو دوسری چیز میں تبدیل کردیا پہلی چیز کی بہ نسبت اس دوسری چیز کی قیمت زیادہ ہے پس اس کے مالک نے اس کو محفوظ کر کے اس کا ذخیرہ کرلیا اور ایک سال اس پر کزر گیا تو کیا اس کی قیمت کی زیادتی پر خمس دینا ہوگا؟

جواب: اس زیادتی قیمت پر اس وقت تک خمس واجب نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے مالک نے اس کومحفوظ کرنے کا اور اس کو ذخیرہ کرنے کا ارادہ نہ کیا ہو

سوال: بعض غذائی اجناس کو حکومت ذخیرہ کرلیتی ہے پھر اس کو بازار کی اونچی قیمت کے مقابلہ میں بہت کم قیمت پرفروخت کرتی ہے پس اگرایسی خریدی ہوئی چیز میں سے کچھ بھی کم نہ ہو اوراس پر اس طرح پورا سال گزرجائے تو اس کی قیمت کا حساب ذخیرہ کی قیمت کی بنیاد پریابازاری قیمت کی بنیاد پر کیا جائےگا؟

جواب: خمس دیتے وقت بازار کی قیمت کی بنیاد پر اس کا حساب کیا جائےگا۔

سوال: کسی نے زمین خریدی اور شرعی طور پر اس کا مالک ہوگیا اور اس کی قیمت بھی بڑھ گئی مگر وہ زمین قانونی طور پر اس کے نام نہیں ہے بلکہ دوسرے کے نام ہے اور وہ کسی بھی وقت مالک شرعی سے جب چاہے اس کو نکال کراپنے قبضہ میں کرسکتا ہے،تو کیا اس (مالک شرعی) پر اسی وقت خمس دینا واجب ہے یا جب قانونی طورپر (وہ زمین) اس کے نام ہوجائے اس وقت خمس دینا واجب ہے؟

جواب: اگرخمس کے بیان کئے ہوئے شرائط اس میں پائے جارہے ہوں تو اس پر اسی وقت خمس دینا واجب ہے۔

سوال: ریٹائرڈ شدہ لوگوں کوحکومت کی طرف سے جو پینشن ملتی ہے وہ پینشن لیتے وقت خمس واجب ہے یا سال تمام ہونے پر ؟

جواب: جب سال تمام ہوجائے تواس کی اضافی رقم پر خمس واجب ہے۔

سوال: جب میں خمس نکالوں تو کس کو خمس کی رقم دوں؟

جواب: خمس کے دو حصے ہوں گے ایک حصہ امام منتظر ( عجل اللہ تعالٰ فرجہ الشریف) کا ہے یہ رقم ان امور میں خرچ کی جائے گی جن میں امامؑ کی رضا ہوگی اور اس کی اجازت وہ مرجع (جواعلم ہو اور تمام جھات عامہ کی اطلاع رکھتا ہو)دے گا یا خود اس مرجع کو وہ رقم دی جائے گی اوردوسرا آدھا حصہ ہاشمی فقراء،مساکین مسافرین،مومنین کا ہے اور اسی طرح غریب مومنین،یتیم بچے اور دین کی خدمت کرنے والوں کا بھی حصہ ہے اور یہاں ہاشمیوں سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جن کا سلسلہ نسب باپ کے اعتبار سے جناب ہاشم جد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تمام پر ہوتاہو۔

یہ(خمس ان لوگوں کو دینا صحیح نہیں کہ جن کا نفقہ خود صاحب مال پر واجب ہو جیسے ماں، باپ، زوجہ اور اولاد،اسی طرح جو حرام میں خرچ کرتا ہو اس کو بھی خمس دینا جائزنہیں ہے (بلکہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ خمس کا دینا گناہ کرنے پر مدد کا باعث نہ ہو،ا گرچہ حرام میں خرچ نہ کرے،نیز تارک الصلوۃ یا شراب خوار یا کھل کر فسق وفجور کرنے والے کو خمس دینا جائز نہیں ہے۔

تمام شد