آسان مسائل (حصہ چہارم) جلد ۴

آسان مسائل (حصہ چہارم) 0%

آسان مسائل (حصہ چہارم) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

آسان مسائل (حصہ چہارم)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید سیستانی حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 6434
ڈاؤنلوڈ: 2459


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6434 / ڈاؤنلوڈ: 2459
سائز سائز سائز
آسان مسائل (حصہ چہارم)

آسان مسائل (حصہ چہارم) جلد 4

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب: آسان مسائل (حصہ چہارم) )

فتاوی: حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی سیستانی مدظلہ العالی

ترتیب: عبد الہادی محمد تقی الحکیم

ترجمہ: سید نیاز حیدر حسینی

تصحیح: ریاض حسین جعفری فاضل قم

ناشر: مؤسسہ امام علی،قم القدسہ، ایران

کمپوزنگ: ابو محمد حیدری

توجہ

وہ احکام شریعہ کہ جو دو بریکٹوں () کے درمیان بیان ھوۓ ھیں، ان سے مراد احتیاط ھے، آپ کو اختیار ھے کہ احتیاط واجب کی صورت میں اسی پر عمل کریں یا پھر اس مسئلہ میں کسی دوسرے مجتھد کی تقلید کریں، لیکن اس میں بھی اعلم کی مراعات ھونی چاہئے۔

دفترمرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی الحسینی سیستانی مدظلہ العالی

قم المقدسہ، اسلامی حمھوری ایران

مقدمہ

( رب اشر ح لی صدری و یسرلی امری و احلل عقدةمن لسانی یفقهوا قولی )

اے میرے رب ؛میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے تاکہ وہ میری بات کو سمجھ سکیں۔،،

الحمد لله رب العالمین والصلا ة والسلام علی سیدنا محمد وآله الطیبین الطاهرین

میں نے کوشش کی ھے کہ میری کتاب ،،الفتاوی المیسرہ،، کی روش سادہ، عام فہم، آسان، مکلفین ومولفین اور قارئین کے لئے جوروزمرہ اور عام بول چال کی زبان ھے، اس پرمبنی ہواور میں نے حتی الامکان کوشش کی ھے کہ فقہی پیچیدہ اور مشکل اصطلات کوآسان اسلوب میں بیان کروں۔ اس جدید اور عام فہم اسلوب سے پڑھنے والے کا شوق بتدریج بڑھےگا اور اس کا میلان اس کو اپنے احکام دینی پراحاطہ کرنے کی صلاحیت عطا کرے گا۔

میں نے صرف ان اہم احکام کو اختیار کیا ھے جن کی مکلفین کوضرورت ھے۔۔اگر مکلفین اس سے زیادہ جانناچاہتے ہیں تو وہ اپنی وسعت کے مطابق فقہ اسلامی کی بڑی کتابوں اور دوسرے رسائل عملیہ کی طرف رجوع کریں۔

دوسری بات یہ ھے کہ پڑھنےوالے کے دل میں علم فقہ اورعلم خلاق کی قربت کا احیاء اور اس کے عمل اور روح عمل کے درمیان ربط پیدا کرنا ہے۔

اس کتاب کوتین حصوں پر تقسیم کیاگیا ھے ۔

پہلا حصہ

ہم نے پہلے حصے کو عبادت سے مخصوص کیا ھے اور پھر عبادت کو نمازسے مخصوص قرار دیا ہے کیونکہ نمازاسلام کا وہ اہم رکن ھے کہ جس کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےارشاد فرمایا ھے:

”الصلوة عمو د الد ین ان قبلت قبل ما سواها وان ردت ردما سواها “

نمازدین کا ستون ھے اگر نماز قول ہوگی تو تمام اعمال قبول ہوجائیں گے اور اگرنماز ردکردی گی تو تمام اعمال ردکردیے جایں گے،،

نماز تمام عبادات کا محور اور ان کا قلب ،اس لیے کہ

”لا صلوة الا بطهور“

”نمازطہارت کے بغیر نہیں ہو سکتی“

پس بحث کا پیکر چاہتا ہے کہ نمازتک پہنچنے کے لئے تقلید کی گفتگو کے بعد ان نجاسات کا بیان شروع کروں کہ جو طہارت کو ختم کردیتے ہیں۔ پھران مطہرات کاذکر کروں کہ جو طہارت بدن کا سبب بنتے ہیں۔اور ان سب کو بیان کرنےکے بعد نماز تک جا ‎‎ ؤں،کیوںکہ نمازتک پہنچنے کے لیے یہی مناسب ھے کہ نمازجیسی اہم عبادات بھی طہارات و پاکیزگی چاہتی ہیں جیسےروزہ وحج وغیرہ۔

حصہ دوم

میں نے دوسرے حصے کو معاملات سے مخصوص کیا ہے جیسے بیع وشراء [خرید وفروخت] وکالت، اجارہ اور شرکت وغیرہ۔

حصہ سوم

تیسرے حصہ کوانسان کےاحوال سے مخصوص کیا ھے۔جیسے نکاح،طلاق، نذرو عہداور قسم وغیرہ۔

اس کے فورابعد امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں گفتگوکی ھے۔ بحث کا اختتام دو مختلف قسموں پر ختم ھوا ھے اور اس بیان کے مطابق موضوعات کو مندرجہ ذیل سلسلہ کے مطابق منظم کیا ھے =

تقلید سے متعلق گفتگو، نجاست کے متعلق گفتگو، طہارت سے متعق گفتگو، جنابت، حیض،نفاس، استحاضہ،میت،وضو، غسل، تیمم، جبیرہ، نماز،دوسری نمازیں، روزہ، حج، زکو ۃ،خمس، تجارت اور اس کے متعلقات، نکاح، طلاق، نذروعہد، وصیت، میراث،اور امربالمروف ونہی عن المنکر سےمتعلق الگ الگ گفتگو کی گی ھے۔

اس کتاب کا نسخہ نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی حسینی سیستانی مدظلہ العالی کے دفتر کی طرف سےخواہش مند حضرات کو اس تاکید کے ساتھہ دیا گیا ہے کہ یہ آ نحضرت کے فتوؤں کے مطابق ہے اور ان کے دفتر کی طرف سے اس نسخہ پر لازمی و ضروری اصلاح بھی ھوئی ہے تا کہ کتاب کا یہ نسخہ اس کے بعد آنحضرت کے فتوؤں کے مطابق کامل ھوجائے۔

امید ہے کہ اپنے مقصد و ہدف میں کا میاب ہو گیا ہوں اور میں ان لو گوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس کام میں میرے ساتھ تعاون کیا ہے ۔ خصوصی طور پر میں ان رفقاء کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ جو نجف اشرف میں معظم کے دفتر میں بر سر پیکار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھ کو بروز قیامت ان لو گوں کے سا تھ محشور فرما ئے جن کے متعلق قرآن میں ہے :

”اوتی کتابہ بیمینہ فیقول ھا ؤ م اقروا کتا بیہ “جس کا نو شتہ اس کے دا ہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا لو آؤ میرے نو شتہ کو پڑھو اور میرا عمل خالص صرف اسی کے لئے قرار پائے( یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم )

”اس روز نہ مال کام آئے گا اور نہ اولا د کام آئے گی مگر جس کو اللہ قلب سلیم عنایت کردے“

( ربنا لا تو اخذ نا ان نسینا او خطا نا)

”پا لنے والے ہماری خطا و نسیان کی باز پرس نہ فرما“

( غفر انک ربنا و الیک المسیر)

”اے ہمارے رب تو بخشنے والا ہے اور تیری ہی طر ف باز گشت ہے “

والحمد لله رب العالمین

ترتیب عبدالہادی محمد تقی الحکیم ۔

وصیت کے بارے میں گفتگو

میرے والد بزرگوار نے وصیت کے جلسہ کو مندر جہ ذیل حدیث کی رو شنی میں شروع کیا:

جس میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

”الوصیةحق و قد اوصی رسول الله فینبغی للمسلم ان یو صی“

”وصیت حق ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم وصیت کی ہے پس مسلمان کے لئے سزاوار ہے کہ وہ وصیت کرے“۔

سوال: لیکن ابا جان بہت سے لوگ وصیت نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں کہ وصیت سے مراد یہ ہے کہ موت کا زمانہ قریب آچکا ہے پس وہ لوگ وصیت سے موت کا تصور کرتے ہیں؟

جواب: وصیت مستحب ہے حالانکہ اس کے بر خلاف تصور کیا جاتا ہے اور طول عمر کا باعث بنتی ہے پھر وصیت نہ کرنا مکروہ ہے اور اس کا نہ کرنا اچھا نہیں ہے اور تمام چیزوں کے با وجود موت برحق ہے کیا ایسا نہیں ہے؟ بیٹا !ہاں موت برحق ہے خدا وند عالم نے اپنی کتاب کریم میں ارشاد فر ما یا ہے ۔

( کل نفس ذائقةالموت)

” ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے “۔

اس آیہ کو میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے اور راستے میں واقع قبروں پر پڑھتا ہوں ۔موت برحق ہے اس سے ڈرنا اور خوف نہیں کھانا چاہیے ، والد صاحب اگر ایسا ہے تو پھر کیوں حقیقت سے فرار کیا جاتا ہے جو حتمی ہے ؟ کیا ہمارے لئے مناسب اورشائستہ نہیں ہے کہ ہم چاہیں حقیقت کو قبول کر نے والے ہوں یا اس پر کم عمل کرنے والے ہوں ہمیں ہر اس چیز کے لئے تیا ر رہنا چاہئے جو آنے والی ہے اور جس سے بچنے کا کوئی چا را کار نہیں اور نہ اس سے فرار ممکن ہے چاہے ہماری عمر طولانی ہو یا کم پس یوں وہ نصیحت و اعتبار کا محور بن جائے گی ۔

سوال: لیکن میں نہیں جانتا کہ انسان کو کس طرح وصیت کرنا چاہیے ؟

جواب: تم پر مستحب ہی کہ جب تم وصیت کرو تو اس کی ابتدا ء اس وصیت سے کرو جس کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام حضرت علی علیہ السلام اور مسلمین کو تعلیم کیا۔

سوال: اور وہ کیا ہے ؟

جواب: میرے والد صاحب اٹھے اور اپنی لائبریری کی طرف گئے اور جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی کہ جس کا نام الوسائل تھا انھوں نے اس میں سے اصل وصیت کو پڑھا جس کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام اور مسلمانوں کو تعلیم فرمایاتھا جو وہ پڑھ رہے تھے میں اس کو لکھ رہا تھا کہ جو انھوں نے پڑھا اور میں آپ کے لئے نقل کر رہا ہوں۔

الّلهم فاطر السمٰوٰت والارض عالم الغیب والشهاده الر حمٰن الرحیم الّلهم انیّ اعهد الیک فی دارالدنیا انی ّ اشهد ان ّلااله الاّانت وحدک لا شریک لک وان ّالجنة حق و انّ النار حق و انّ البعث حق و الحساب حق والقدر والمیزان حق و ان الدین کما وصفت والاسلام کما شرعت وان القول کما حدثت وان القرآن کما وصفت وانک انت الله الحق المبین جزی الله محمد اخیر الجزاء وحیا محمدا وآل محمد بالسلام

اللهم یا عدتی عند کربتی وصاحبی عند شدتی ویا ولی نعمتی الهی واله آبائی لا تکلنی الی ٰ نفسی اقرب من الشر وابعد من الخیر فانس فی القبر وحشتی واجعل لی عهد ا یوم القاک منشورا

پھر انسان اپنی ضرورت کے مطابق وصیت کرے جو چاہے لکھے ۔

سوال: کس کے متعلق وصیت کی جاتی ہے ؟

جواب: اپنی اولاد کے متعلق وصیت کرے ، جو ابھی کم سن ہے ان کی حفاظت کے بارے میں وصیت کرے صلہ رحمی کے متعلق وصیت کرے ، اپنی امانت اور قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں وصیت کرے نماز ، روزہ ، حج میں سے جو چیزیں قضاء ہوگئی ہوں ان کے سلسلہ میں وصیت کرے ۔

اگر اپنے اموال میں سے پہلے جوخمس اور زکوٰۃ نکالنا اس پر واجب تھا اور اس کو اس نے ادانہیں کیا تو ان کو اداکرنے کی وصیت کرے ۔

فقراء کو کھانا کھلانے کی وصیت کرے ، تا کہ اس کا ثواب اس کو پہنچے اپنے بعد اپنے لئے خاص اعمال بجا لانے کی وصیت کرے ۔ اپنی طرف سے صدقہ دینے کی وصیت کرے ، وصیت کرے ، وصیت کرے، وصیت کرے ،جوچاہے۔۔۔۔۔

میرے والد صاحب نے اس کے فورا بعد کہا کہ جو وصیت کرے اس کے لئے چند ایک شرائط ہیں بالغ ہو، عا قل ہو اور اختیار وتمیز رکھتا ہو ۔ پس سفیہ اور مجبور انسان کا اپنے مال میں وصیت کرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح بچہ اپنے مال میں وصیت نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ بچہ دس سال کا ہو گیا ہو ، اور اس کی وصیت اپنے عزیز وں اور رشتہ داروں کے بارے میں خیرونیکی پر مشتمل ہو، اور جس شخص نے جان بو جھ کر اپنی موت سے پہلے زہر کھا لیاہو یا گہرا زخم لگا لیا ہو یا اسی طرح کا کوئی اور کام کیا ہو کہ جس بنا پر اس کی موت واقع ہو جائے تو اس صورت میں اس کا اپنے اموال میں وصیت کرنا صحیح نہیں ہے البتہ مال کے علاوہ دوسری چیز یں مثلااپنی تجہیز و تکفین کے متعلق وصیت کرنا صحیح ہے جو اس کی کم عمر او لاد کے شایان شان ہو۔

میرے والد نے مزید فرمایا:

جس شخص کو صاحب وصیت نے اپنی وصیت کے اجراء کے لئے معین کیا ہے اسی کووصی کہتے ہیں۔ اور وصی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ وصیت کے امور کو کسی دوسرے شخص کے حوالہ کر کے خود اس سے الگ ہو جائے اور اس کو وصیت کے اجراء پر مقرر کرلے ۔ ہاں وہ شخص کسی ایسے شخص کو کہ جس پر اس کو پو را بھروسہ ہو اسے وصیت کے امور کی انجام دہی کے لیے وکیل مقرر کرسکتا ہے جب کہ وصیت کر نے والے کی غرض یہ نہ ہو کہ خود وصی وصیت کے امر کو انجام دے ۔

سوال: کیا وصیت میں یہ شرط ہے کے وہ لکھی جائے ؟

جواب: ہر گز نہیں بلکہ انسان زبا نی بھی وصیت کرسکتا ہے ، یا ایسا اشارہ کرسکتا ہے کہ جو اسکی مراد کو سمجھادے اسی طرح ایسی تحریر ہو یا اس پر اس کے دستخط ہوں کہ جس سے اس کی موت کے بعد اس پر عمل کرنا ظاہر ہو تو کافی ہے ۔ یعنی وہ تحریر وصیت کے عنوا ن سے ہو ۔

سوال: کیا انسان اپنی وصیت کو صرف مرض کی ہی حالت میں لکھ سکتا ہے ؟

جواب: ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ دونو ں حالتوں میں لکھ سکتا ہے بیماری کی حالت میں بھی اور صحت وسلامتی اور عافیت کی حالت میں بھی ۔

سوال: کیا انسان جس چیز کے بارے میں چاہے وصیت کرسکتاہے ؟

جواب: ہاں لیکن شرط یہ ہے کہ یہ وصیت گناہ اور معصیت کے متعلق نہ ہو ، جیسے کسی ظالم کی مدد کرنا وغیرہ ۔

سوال: اور کیا اموال یا دوسری با قی ماندہ چیزوں کےمتعلق جس طر ح وہ چاہے وصیت کرسکتاہے ؟

جواب: انسان کو حق ہے کہ وہ اپنے باقی ماندہ اموال اور اشیاء میں صرف ایک تہائی مال کے متعلق وصیت کر سکتا ہے یعنی اپنے مال کے صرف ایک تہا ئی حصہ میں وصیت جائز ہے۔

سوال: اور جب وصیت ایک تہائی مال سے زیادہ ہو تب کیا کرے ؟

جواب: ایک تہا ئی مال سے زیا دہ پر وصیت باطل ہے مگر یہ کہ ورثہ اگر اجازت دےدیں تو پھر اس وصیت پر عمل کیا جائے گا۔

سوال: اور جب وصیت پر عمل کرنا چاہیں تب کیا کریں ؟

جواب : جس چیز کو وصیت کرنے والے نے چھوڑا ہے پہلے اس میں سے اسکے مالی حقوق کو الگ کیا جائے گا کہ جو اس کے ذمہ ہیں مثلا اس کے مال سے اس کے قرض اور ضروری سامان کی قیمت کہ جس کو اس نے ادا نہیں کیا اور خمس یا زکوۃ یا رد مظالم وغیرہ جو اس کے ذمہ ہے اور واجب حج اصل مال سے اداکیا جائے گا چا ہے اس نے ان کے متعلق وصیت کی ہو یا نہ ۔ یہ اس وقت ہے جب کہ اس نے ان چیزوں کے ادا کرنے میں تہائی مال سے نکا لنے میں وصیت نہ کی ہو ، اور اگر وصیت کی ہو تو پھر تہائی مال سے ان کو ادا کیا جا ئے گا، پھر اس کے باقی تر کہ کے تین حصہ کئے جائیں گے اس میں سے ایک تہائی مال جس کے متعلق اس نے وصیت کی ہے ، اور دو تہائی مال اس کے ور ثہ کا ہو گا

سوال: جب وصیت کرنے والا کسی معین شخص کے لیے معین مبلغ یا گھر کی ملکیت یا گھر کا سامان دینے یا زمین کے ایک حصہ کو دینے کی وصیت کرتا ہے ، وہ اپنے دفن کی کسی خاص جگہ یا اپنی تجہیز و تکفین کی کسی خاص روشنی کےمطابق وصیت کرتا ہے یا اس کے علاوہ کسی اور مخصوص چیز کی ، اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

جواب: اسے ان تمام چیزوں کی وصیت کرنے کا حق ہے ، جب کہ اس کے اموال کی نسبت ان کی وصیت تہا ئی مال سے تجاوزنہ کرے۔

سوال: کبھی وصی کے پاس وصیت کر نے وا لے کی چیز گم ہو جا تی ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب: اگر اس میں افراط وتفریط نہ کی ہو، اور وصی نے اس کی حفاظت میں غفلت بھی نہ کی ہو ، تو جو چیز وصی کے ہاتھ سے تلف ہو گئی ہے وصی اس کا ذمہ دارنہیں ہے۔ میرے والد نے مزید فر مایا ، کہ جب تک انسان پر موت کے آ ثار طاری نہ ہوں اس وقت تک وصیت کر نا مستحب ہے۔ اور جب موت کے آ ثار اس پر طاری ہو جائیں تو پھر چند چیزیں اس پر واجب ہیں ؛۔

( ۱) اس کا وہ قرض کہ جس کے ادا کا وقت آ گیا ہے ، اور وہ اس کے ادا کرنے پر قدرت بھی رکھتا ہے تو اس کو ادا کردے ۔ لیکن جن قرضوں کے ادا کرنے کا وقت نہیں آیا ،یا آ گیا ہے۔ لیکن قرضدار وں نے اس سے مطالبہ نہیں کیا، یا ان کے مطالبہ کرنے پر وہ قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس پر واجب ہے کہ ان کے متعلق وصیت کرے۔

( ۲) تمام امانتو ں کو ان کے مالکو ں کو واپس کردے یا امانت رکھنے والوں کو خبر دے دے کہ ان کی امانتیں اس کے پاس ہیں یا ان کے واپس کر نے کی وصیت کر دے۔

( ۳) ا گر خمس وزکواۃ یا رد مظالم اس کے ذمہ ہیں تو اگر ان کے ادا کرنے پر قادر ہے تو ادا کرے۔

( ۴) اگر نماز اور روزے میں سے کوئی چیز اس کے ذمہ ہے تو ان کے ادا کر نے کے بارے میں وصیت کر ے کہ اس کی طرف سے اس کے مال میں سے کسی کو اجارہ دیکر نماز اور روزہ ادا کر وائیں بلکہ اگر اس کے پاس مال نہ ہو اور احتمال یہ ہو کہ کوئی شخص ثوابا-اس کی طرف سے اس کی قضا کر دے گا تو اس صورت میں بھی وصیت کرے۔

( ۵) اگر کسی کے پاس اس کا مال ہے تو اس کے ورثا کو خبر دے یا کسی ایسی جگہ مال ہے کہ جس کے متعلق کسی کو اس کے علاوہ خبر نہیں تو اس کے بارے میں بتا دے تاکہ اس کی وفات کے بعد ورثہ کا حق ضائع نہ ہو ۔

سوال: آپ نے اس گفتگو کے شروع میں بتایا کہ وصیت مستحب ہے پس اگر کوئی انسان وصیت نہ کرے تو کیا حکم ہے ؟

جواب: تو (اس مرنے والے) کا حق اس تہائی مال میں سے ختم ہو جائے گا کہ جو اس نے چھوڑا ہے اس کا تر کہ خاص ضابطہ کے مطا بق ورثہ پر تقسیم کر دیا جائے گا ۔

سوال: اور وہ کس طرح تقسیم ہوگا ؟

جواب: یہ آنے والی گفتگو میں انشاء اللہ بیان کیا جائے گا۔

وراثت کے متعلق گفتگو

میرے والد صاحب نے میراث کے با رے میں گفتگو کرتے ہو ئے فرما یا: ہم میراث کے باب میں اقرباء کی تقسیم تین طبقات پر کر سکتے ہیں

پہلا طبقہ :

ماں، باپ ، اولاد اور اولاد کی اولاداور اسی طرح جتنا نیچے سلسلہ چلا جائے اور اس کے علاوہ اگر صلبی بچہ موجود ہے تو پوتے اور نوا سے کو میراث نہیں ملے گی ۔

سوال: اباجان -؛ پوتا اور نوا سہ کون ہے؟

جواب: بیٹے کے فرزند کو پو تا اور بیٹی کے فر زند کو نواسہ کہتے ہیں؟

دوسرا طبقہ:

بھائی اور بہنیں ۔ ان کی عدم موجود گی میں ان کی اولاد، دادا، دادی، نانا ، نانی اور جتنا یہ سلسلہ اوپر چلا جائے اور جب بھائی کی اولاد ہو اور ان کی اولاد کی اولاد ہو تو پھر جو میت سے زیا دہ قریب ہے وہ میراث پائے گا ۔

سوال: مثلا بھائی کا فرزند مو جو د ہے تو کیا اس کے ہو تے ہوئے اس کے پوتے کو میراث نہیں ملے گی؟

جواب: نہیں۔

تیسرا طبقہ

چچا، مامو، پھوپھیاں اور خالائیں، اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر ان کی اولاد میراث پائے گی ۔ اور ان میں سے جو سب سے زیادہ قریب ہو گا وہ میراث پائے گا ، اس طرح کہ چچا یا ماموں یا پھوپھی، یا خا لہ کی موجود گی میں ان کی اولاد میراث نہیں پائے گی، مگر ایک حالت میں کہ جو فقہ کی کتا بوں میں موجود ہے۔

سوال: آپ نے اقرباء کی تقسیم اس طرح طبقات کے ذریعہ کیوں کی ان کو اس طرح تقسیم نہیں کیا کہ جس طرح پہلی تقسیمات میں آپ نے چیزوں کی تقسیم اقسام کے ذریعہ کی۔

میرا مقصد یہ ہے کہ آپ نے کیوں اقرباء کی تقسیم طبقات کے ذریعہ کی اور یہ نہیں کہا کہ ان کی تین قسمیں ہیں:

جواب: تمہارا سوال بہت اچھا ہے میراث کے باب میں جب تک پہلے طبقے والافرد موجود ہے تب تک دوسرے طبقے والے کو میراث نہیں ملے گی ۔لہٰذا فقہا ، نے ان کو ایک طبقہ کے بعد دوسرے طبقہ میں بیان کیا ہے۔

سوال: اگر متوفی کے قر ابتدا ر ان تینوں طبقو ں میں سے کوئی نہ ہو جن کو آپ نے بیان کیا ہے تو کیا حکم ہے؟

جواب: تو ایسی صورت میں متوفی کے ماں، باپ کے چچا، مامو ں اور متوفی کے ماں باپ کی پھو پھیاں اور خالا ئیں اور ان کی اولاد میراث پائی گی ۔

سوال: اگر وہ بھی نہ ہو ں تو کیا حکم ہے ؟

جواب: مرنے والے کے دادا، دادی ،نانا، نانی،کے چچا، ماموں، پھو پھیوں ، اور خالاؤں کو میراث ملے گی اگر وہ بھی نہ ہوں تو ان کی اولاد کی اولاد کو ملے گی ۔یہ سلسلہ جتنا نیچے تک چلا جائے شرط یہ ہے کہ عرف عام میں میت کی قرابت صدق کرتی ہو اور یہ جانتے ہو ئے کہ ان میں جو سب سے زیادہ قریب ہے وہ اس پر مقدم ہے جو میت سے زیا دہ دور ہے۔

سوال: آپ نے مجھ سے شوہر اور زوجہ کے متعلق تو کوئی ذکر ہی نہیں کیا کہ ان مذ کورہ تین طبقوں میں سے کون سے طبقہ میں شمار کیا جائے گا ؟

جواب: دو نوں خاص ضابطہ کے تحت وارث ہیں ان دونوں کو ان طبقات سے خارج نہیں کیا جائیگا بلکہ وہ دونوں تمام طبقات میں شریک ہیں ۔

سوال: پہلے میں آپ سے طبقہ اول کی میراث کے بارے میں سوال کرتا ہوں پھر دوسرے اور تیسرے طبقے کے بارے میں پوچھوں گا۔

جواب: پو چھو،جو پو چھنا چاہو ؟

سوال: جب پہلے طبقے میں سوائے میت کی اولاد کے کوئی اور نہ ہو تو کیا تمام مال کے وہی وارث ہوں گے ۔؟

جواب: تمام مال کے وہی وارث ہوں گے۔

سوال: اگر ایک ہی بیٹا یا ایک ہی بیٹی ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب: تمام مال کا وارث لڑکا یا لڑ کی ہو گی۔

سوال: لیکن اگر ان میں مرد اور عورت دو نوں موجود ہوں تو کیا حکم ہے؟

جواب: ”للذّ کرمثل حظّ الانثیین ،،۔

”مرد کے لیے عورتوں کا دو گنا حصہ ہے “۔

سوال: کیا لفظ ولد کا اطلاق لڑکے اور لڑکی دو نوں پر ایک ساتھ ہو تا ہے یا صرف لڑکے پر ہی ہو تا ہے جیسا کہ ہمارے یہاں مشہور ہے؟

جواب: ولد کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ خدا وندہ عالم نے قران مجید میں ارشاد فر ما یا :

( یو صیکم الله فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین ) ۔

اللہ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کر تا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔“

سوال: اگر ہم فرض کریں کہ متو فی نے ایک لڑکا اور ایک لڑکی چھوڑی ہے تو ان کے در میان کس طرح میراث تقسیم کی جائے گی؟

جواب: میت کے مال کے تین حصے کئے جائیں گے ان میں سے دو حصہ بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو دیا جائے گا۔

سوال: اور جب میت کے پہلے طبقہ میں والدین کے علاوہ اور کوئی نہ ہو اور ان میں سے ایک مرگیا ہو اور ایک زندہ ہو اور اس کا کوئی بھائی نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟

جواب: تو جوزندہ ہے وہ تمام مال کا وارث ہو گا ۔

سوال: ا گر میت کے ماں باپ دونوں زندہ ہو ں اور اس کا کوئی بھائی نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب: باپ مال کا دو تہائی حصہ لے گا اور ماں باقی کا ایک تہائی حصہ لے گی ۔

سوال: اگر میت کے ماں باپ دو نو ں زندہ ہو ں اور میت کی ایک بیٹی ہو اور کوئی بھائی نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب: مال کا ایک پانچوا ں حصہ باپ اور ایک پانچواں حصہ ما ں کو اور باقی کے پانچ تہائی حصے لڑکی کو دیئے جا یئں گے۔

سوال: اور اگر میت کے ماں باپ میں سے کوئی ایک لڑکیوںکے ساتھ ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب: مال کا چھٹا حصہ باپ کو یا ماں کو دیا جائے گا اور باقی مال اولاد کے درمیان : ” للذکر مثل حظ الانثیین “ کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔

سوال: اب ہم دوسرے طبقہ کی طرف چلتے ہیں آپ نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ بھائی دوسرے طبقہ میں ہیں؟

جواب: ہاں یہ صحیح ہے۔

سوال: جب کہ میت کا ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب: بھائی اور بہن کو تمام مال ملے گا۔

سوال: اور جب میت کے متعدد پدری اور مادری بہن بھائی ہوں تو کیا کیا جائے گا؟

جواب: اگر سب کے سب بھائی ہوں یا سب کی سب بہنیں ہوں تو مال ان کے در میان برابر تقسیم ہوگا ۔ اور اگر کچھ بھائی اور کچھ بہنیں ہوں تو ”للذکر مثل حظ الا نثیین

کے مطابق عمل کیا جائے گا ، یعنی مرد کو عورت کا دو گنا ملے گا۔ یہ اس وقت ہے جب کہ تمام بھائی ، بہنیں پدری و مادری ہوں یا صرف پدری ہوں لیکن اگر تمام مادری تو ان کے درمیان مال برابر کا تقسیم ہوگا۔

سوال : خوب، چچااور پھوپھی تیسرے طبقہ میں ہیں کیا ایسا نہیں ہے؟

جواب: ہاں ایسا ہی ہے اور ماموں اور خالہ بھی تیسرے طبقہ میں ہیں۔

سوال: فرض کیجئے کہ متوفی کا کوئی نہیں ہے سوائے ایک چچا یا ایک پھو پھی کے تو کیا حکم ہے؟

جواب: تمام مال چچا یا پھو پھی کا ہے۔

سوال: اور جبکہ متعددپھو پھیاں ہوں تو؟

جواب: سب کے درمیان مساوی تقسیم ہو گا۔

سوال: جب میت کے ایک چچااور ایک پھوپھی یا اس سے زیا دہ ہوں اور اسی کے ساتھ ایک مامو یا ایک خالہ یا اس سے زیادہ ہوں تو ؟

جواب: مال کے تین حصہ کئے جایئں گے دو حصے چچا اور پھوپھی اور ایک حصہ ماموں اور خالہ کو دیا جائےگا۔

سوال: شوہر اور زوجہ کی میراث کا کیا حکم ہے ؟

جواب: میراث میں زوجہ کے لئے مخصوص حکم ہے شوہر کے کچھ تر کہ میں اس کی زوجہ اصلا وارث نہ ہو گی نہ اس چیز میں کہ جو شوہر نے چھوڑی ہے اورنہ اس کی قیمت میں جیسے ہر قسم کی زمین چاہے گھر کی ہو یا کھیتی وغیرہ کی پس شوہر کی زمین میں زوجہ کا کو ئی حصہ نہیں ہے ۔ نہ اصل زمین میں اور نہ اس کی قیمت میں ، اور کچھ اموال ایسے ہیں کہ خاند ان میں زوجہ کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن ان کی قیمت میں زوجہ کا حصہ ہے ۔ اور ایسا درختوں اور کھیتی اور دوسری ان چیزوں میں ہے جو غیر منقولہ ہیں ۔ ان چیزوں میں سے وہ اپنے حصے کی قیمت لے سکتی ہے ۔ اور وہ قیمت زوجہ کو ادا کر تے وقت بازار کی قیمت کے مطا بق ہو، جس کو ماہر ین نے طے کیا ہو اور تمام ورثہ کو زوجہ کی میراث کے حصہ میں حتی اس کی قیمت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کر نا جائز نہیں ہے۔

سوال: زمیں ، درخت ، کھیت اور گھر کے علاوہ جوشوہرکا چھوڑا ہوا ترکہ ہے ان میں زوجہ میراث پائے گی؟

جواب: ہاں دوسرے ورثہ کی طرح زوجہ بھی باقی چیزوں میں میراث پائے گی۔

سوال: اور کیا شوہر اپنی زوجہ سے میراث پائے گا ؟

جواب: ہاں وہ مال جو زوجہ نے چھوڑا ہے اگر وہ منقولہ ہے تو اس میں وہ میراث پائے گا اور جو غیر منقولہ ہے مثل زمین ، درخت ، گھروغیرہ کے اس میں وہ میراث نہیں پائے گا ۔

سوال: اگر زوجہ مرجائے اور اس کا شوہر زندہ ہو اور اس کی کوئی اولاد اس شوہر سے نہ ہو اور نہ اس کے علاوہ اور کسی سے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب: جو مال زوجہ نے چھوڑاہے اس کا آدھا حصہ شوہر کا ہے اور دوسرا حصہ باقی تمام ورثہ کا ہے۔

سوال : اگر زوجہ کا کوئی فرزند ہو تو؟

جواب: چوتھائی حصہ شوہر کو اور باقی تمام ورثہ کو ملے گا۔

سوال: اب اس کے بر عکس سوال کریں اور کہیں کہ اگر شوہر مرجائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور ا س کی زوجہ زندہ ہوتو وہ اپنے شوہر کی میر اث میں کتنا حصہ پائے گی؟

جواب: زوجہ کو چوتھائی حصہ اور باقی حصہ ورثہ کو ملے گا۔

سوال: اگر شوہر کا اس سے یا کسی دوسری زوجہ سے فرزند ہو تو پھر کیا حکم ہے؟

جواب: زوجہ کوآٹھواں حصہ اور باقی مال دوسرے ورثاء کو ملے گا ۔میرے والد نے فرمایا میراث کے دو سرے بھی فرائض ومسا ئل ہیں جن پر فقہ کی کتا بوں میں سیر حاصل بحث ہوئی ہے، جب تم کو ضرورت پڑے تو ان کی طرف رجوع کرو۔ اس کے اختتام میں تمہارے لئے بعض امور کی طرف اشارہ کر تا ہوں ۔

( ۱) بڑے بیٹے کو باپ کے مال میں سے قرآن، انگوٹھی ، تلوار اور کپڑے (چاہے انہیں اس نے استعمال کیا ہو یا نہ کیا ہو) بغیر تقسیم کے دیئے جائیں گے اور اگر کئی قرآن اور کئی تلوار یں اور انگوٹھیاں ہیں تو بڑا لڑکا دوسرے ورثہ سے مصالحت کر لے اور یہی حکم رحل ، بندوق خنجر و غیر ہ کے متعلق بھی ہے۔

( ۲) قاتل مقتول کی میراث نہیں پائے گا جبکہ قتل جان بوجھ کر اور ناحق کیا گیا ہو لیکن اگر قتل غلطی سے ہو تو پھر مقتول کا قا تل وارث ہوگا ۔

( ۳) مسلمان کافر کا وارث ہو سکتا ہے اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔