مناسک حج

مناسک حج0%

مناسک حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

مناسک حج

مؤلف: آیۃ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 15369
ڈاؤنلوڈ: 2350

تبصرے:

مناسک حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15369 / ڈاؤنلوڈ: 2350
سائز سائز سائز
مناسک حج

مناسک حج

مؤلف:
اردو

احرام کاطریقہ

احرام میں تین چیزیں واجب ہیں ۔

نیت ۔

یعنی مکلف ارادہ کرے کہ عمرہ یا حج قربة الی اللہ انجام دوں گا ۔نیت میں معتبر نہیں کہ اعمل کوتفصیل سی جانتاہو۔ بلکہ اجمالی معرفت بھی کافی ہے ۔ لہذا اگرنیت کرتے وقت مثلاعمرہ میں جو کچھ واجب ہے تفصیلا نہ جانتاہوتو ایک ایک عمل کو رسالہ عملیہ یا قابل اعتماد شخص سے سیکھ کر انجام دینا کافی ہے۔

نیت میں چند چیزیں معتبر ہیں

۱ ۔ قصد قربت وقصد اخلاص ،جیساکہ ساری عبادتوں میں ضروری ہیں ۔

۲ ۔ خاص جگہ سے احرام کی نیت کرنا ،اس کی تفصیل میقاتوں میں بیان ہوچکی ہے ۔

۳ ۔ احرام کو معین کرنا کہ عمرہ کا ہے یاحج کا اورحج کی صورت میں معین کرنا کہ حج تمتع کاہے یا قران کااورکسی کی جانب سے حج کر رہا ہو تو نیابت کا قصد کرنااورکسی جانب سے قصد نہ کرنا ہی کافی ہو گا کہ عبادت خود اسکی جانب سے ہے ۔ اظہر یہ ہے کہ جو حج نذرکی وجہ سے واجب ہواہو اسکی ساقط ہونے کے لیے کافی ہے کہ نذر کردہ عمل اسکی انجامکردہ عمل پر منطبق ہوجائے اوراسکا صحیح ہونا حج نذر ہونے پر موقوف نہیں ہے ۔ جس طرح اس شخص کیلیے جو حج کرے تو اس حج کوحج اسلام سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو حج الاسلام اس پر واجب تھا وہ اس عمل پر جسے یہ بجالایا ہے منطبق ہوجائے اورمزید کسی قصد کی ضرورت نہیں ہے۔

( ۱۷۷) نیت کے صحیح ہونے کے لیے معتبر نہیں کہ زبان سے کہے اگرچہ مستحب ہے جس طرح قصد قربت میں دل سے گزارنا معتبر نہیں ہے بلکہ داعی کافی ہے (یعنی عبادت پرابھارنے والے چیز قربت خداہو)جیساکہ دوسری عبادات میں داعی کافی ہے ۔

( ۱۷۸) احرام کے صحیح ہونے میں محرامات احرام کو ترک کرنیکا عزم اول سے آخر تک ہونا معتبر نہیں ہے ۔ اس بناء پراس بناء پر محرمات کو انجام دینے کا عزم ہو پھر بھی احرام صحیح ہوگا۔لیکن عمرہ مفردہ کے احرام کے دوران اگرکوئی اپنی بیوی سے ،سعی سے فارغ ہونے سے پہلے ،جماع کا ارادہ رکھتاہو یاجماع کرنے میں متردد ہوتو طاہر یہ ہے کہ اس کا احرا م باطل ہے ۔ اور بناء بر احوط استمناء کا بھی یہی حکم ہے ۔ اگر احرام کے وقت جماع یا استمناء کو ترک کرنے اک عزم ہومگر بعد میں اس عزم پر باقی نہ رہے یعنی احرام کے بعد دونوں افعال میں سے کسی ایک کو انجام دینے کا قصد کرے تو اس کااحرام باطل نہیں ہو گا۔

تلبیہ ۔

تلبیہ اس طرح کہے ۔ لبیک اللھم لبیک ،لبیک لاشریک لک لبیک اوراحوط اولی ہے کہ اس جملے کا اضافہ کرے ۔ ان الحمد ونعمة لک والملک ،لاشریک لک ۔ اور جائز ہے کہ اس جملے کے آخر میں لبیک کا اضافہ کرے اوریوں کہے لاشریک لک لبیک ۔

( ۱۷۹) نامز میں تکبیرة الاحرام کی طرح تلبیہ کے الفاظ بھی سیکھنا اورصحیح اداکرنا ضروری ہے ۔ خواہ کسی دوسرے شخص کی مدد سے صحیح ادا کرسکے ۔ لیکن اگرکسی کو تلبیہ یاد نہ ہو اور کوئی پڑھانے والا بھی نہ ہو تو جسطرح سے ادا کرسکتاہو اد اکرے ۔ بشرطیکہ اتنا غلط نہ ہوکہ عمومی کطور پرتلبیہ ہی نہ سمجھا جائے ۔ اور اس صور ت میں احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی دوسری زبانکے حروف مگر عربی زبان میں تلبیہ پڑھے ،ترجمہ بھی پڑھے اور کسی کو تلبیہ پڑھنے کے لیے نائب بھی بنائے ۔

( ۱۸۰) اگر کسی حادثے میں گونگاہونے والا شخص اگر تلبیہ کے کچھ الفاط کی کچھ مقدر ادا کرسکتاہو تو جتنی مقدار تلبیہ کہہ سکتاہے کہے اور اگر بالکل ادانہ کرسکتاہو تو تلبیہ کودل سے گزارے اور دل سے گزارتے وقت اپنے ابان اور ہونٹوں کو حرکت دے اوراپنی انگلی سے اس طرح اشارہ کرے کہ گویاالفاظ تلبیہ کی تصویر پیش کر رہاہے ۔ لیکن وہ شخص جو پیدائشی گونگاہو یاپیدائشی گونگے کی طرح ہو تو وہ اپنی زبان اورہونٹوں کو اس طرح حرکت دے جس طرح تلبیہ کہنے والا شخص حرکت دیتاہے ۔ اور اس کے ساتھ انگلی سے بھی اشارہ کرے ۔

( ۱۸۱) عیر ممیز بچے کی طرف سے دوسرا شخص تلبیہ کہے ۔

( ۱۸۲) حج تمتع ،عمرہ تمتع ،حج افراداور عمرہ مفردہ کے حرام بغیرتلبیہ کے نہیں باندھے جاسکتے ۔لکین حج قران کا احرام نہ صرو تلبیہ بلکہ اشعار (جانور پر علامت لگانا )اورتقلید (جانور کے گلے میں کوئی چیز لٹکانا)سے بھی باند ھا جاسکتاہے ۔ اشعار اونٹ کی قربانی کے لیے مخصوص ہے جب جب کہ تقلید تمام جانوروں میں مشترک ہے ۔ اولی وبہتر یہ ہے کہ اون تکی قربانی میں اشعارو تقلید کو جمع کیا جائے اوراحج قران کرنے والااگر اپنے احرام کو شعاریا تقلید سے باندھے تو احوط اولی یہ ہے کہ تلبیہ بھی کہے ۔

تلیبہ یہ ہی کہ اونٹ کے کوہان کوایک طرف سے چیرکر خون الودہ کیاجائے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی ہے ۔ اور احوط یہ ہی کہ دائیں حصہ کو چیراجاے لیکن اگر قربانی کیلیے اونٹ زیادہ ہوں تو ایک شخص دو اونٹوں کے درمیان میں کھڑا ہوکر ایک اونٹ کے دائیں اوردوسرے ے بائیں جانب سے کوہان کو چیرناجائز ہے ۔

تقلید یہ ہے کہ حاجی رسی یا چمڑے کاپٹہ یانعلین یااسی طرح کی کویی چیز قربانی کی گردن میں لٹکائے تاکہ پتہ چلے کہ یہ قربانی ہے ۔ بعید نہیں ہے کہ تقلیدکی بجائے تجلیل کافی ہو اورتجلیل یہ ہے کہ حاجی کپڑے یااسی طرح کی کسی چیز سے قربانی کو ڈھانپدے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی ہے ۔

( ۱۸۳) احرم کے صحیح ہونے میں حدث اصغر یا اکبر سے پاک ہونا شرط نہیں چنانچہ وہ شخص جو حدث اصغر یااکبر کی وجہ سے محدث ہوا ہو مثلامجنب ،حائض اورنساء وغیرہ تواس کا احرام صحیح ہے ۔

( ۱۸۴) تلبیہ یاحج قران کرنے والے کے لیے اشعار یا تقلید کی منزلت سیدی ہے جیسے نماز پڑھنے والے کے لیے تکبیرة الاحرام کی ہے ۔ لہذا تلبیہ یا حج قران کی صورت میں اشعار و تقلیدکے بغیر احرام نہیں باندھا جاسکتا۔ چنانچہ اگر کوئی احرام کی نیت کرکے احرام باندھ لے اور تلبیہ کہنے سے پہَلے محرمات احرام میں سے سی کا مرتکب ہو تو نہ گنہگارہو اورنہ ہی اس پر افارہ واجب ہو گا ۔

( ۱۸۵) افضل یہ ہے کہ جو مسجد شجرہسے حرام باندھے وہ تلبیہ کو اول بیدا،جو ذی الحلفیہ کی آخرم یں ہے اورجہاں سے زمیں ہموار ہوتی ہے تک تاخیر کرے ۔ اگرچہ احوط یہہے کہ تلبیہ کہنے میں کہنے میں جلدی کرے (یعنی میقات میں کہے )اور بلند آواز یں کہنے میں بیدا ء تک تاخیر کرے یہ حک م مرد کی لیے ہے جب کہ عور ت کوکسی بھی مقام پر تلبیہ کنہے کے لیے اواز کو بلند نہیں کرنی چاہیے ۔

دیگر میقاتوں سے ہرام باندھنے والوں کے لیے اولی اوبہتر یہ ہے کہ چند قدم چلں ۴ ے تک تلبیہ کو تاخیر کریں اسی طرح مسجدالحرامسے اہرام باندھنے والوں کیلیے اولی وبہتر یہ ہے کہ تلبیہ کو رقطاتک تاخیرکریں ۔رقطاردم سے پہلے کا مقام ہے ۔ ردم مکہ میں ایک جگہ کانام ہے جسے آجکل مدعی کہتے ہیں ۔جومسجدراعیہ کے قریب کا مقام ہے ۔ اورمسجدجن سے پہلے کا مقام ہے ۔

( ۱۸۶) تلبیہ ایک دفعہ کہنا واجب ہے جب کہ زیادہ کہنا بلکہ جتنی مرتبہ کہہ سکتاہو اسکاتکرارکرنامستحبہے اورعمرہ تمتع اداکرنے والے کے لیے احوط یہ ہے کہ جب پرانے مکہ کے گھروں کے مقام پہنچے تو تلبیہ کہنابند کردے اورپرانے مکہ کے گھروں کا مقاماس شخص کیلیے جو مکہکی اوپری جانب سے مدینہ کے راتے آئے اسکی حد عقبہ مدینین ہے ۔ اورجو شخص مکہ کے نچلے حصہ سے آئے ۔اسکی حد عقبہ ذی طوی ہے ۔اسی طرح عمرہ مفردہ انجام دینے والے کے لیے اوحوط یہ ہے کہ اگر وہ حرم کے باہر سے داخل ہو تو حرم میں داخل ہوتے وقت تلبیہ کہنا بند کردے لیکن اگراس نے ادنی حل کے مقام سے احرام باندھ اہو تو پھر مکہ کے گھروں کو نظر آنیکی جگہسے تلبیہ کہنا بند نہ کرے اور کسی بھی حجکا ادااکرنے والاتلبیہ کوعرفہ کے دن زوال کے وقت بندکردے۔

( ۱۸۷) اگر کوئی احرام کے دو کپڑے پہننے کے بعداوراس جگہ سے گزرنے سے پہلے جس جگہ تلبیہ کہنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے شک کرے کہ تلبیہ کہی ہے یا نہیں تو سمجھے کہ نہیں کہی اور اگرتلبیہ کنہے کے بعد شک کرے کہ صحیح تلیبہ کہی ہے یا نہیں تو سمجھے کہ صحیح تلبیہ کہی ہے ۔

احرام کے دو کپڑوں (لنگ اورچادر )کا پہننا۔

۳ ۔احرام کے دو کپڑوں (لنگ اورچادر )کا پہننا۔مگر انہیں اس لباس کو اتارنے کے بعد پہناجائے جس کا پہننا احرام والے پر حرام ہے ۔ اس سی بچے مستثنی ہیں اوربجے لباس اتارنے میں مقام فخ تک تاخیر کرسکتے ہیں ۔جب کہ وہ اس راستے سے جارہے ہوں ۔

طاہر یہ ہے کہ ان دو کپڑوں کو پہننے کا کوئی طریقہ معتبر نہیں ہے چنانچہ ایک جس طرح چاہے لنگ کے طورپر استعمال کرے اوردوسرے کو چادر کے طور پربغل سے نکال کر کندھے پر ڈال لے یا کسی بھی طرح سے اوڑھے اگرچہ اوحوط یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر ان کپڑوں کو استعمال کیاجاتاہے اسی طرح استعمال کرے ۔

( ۱۸۸) اظہر یہ ہے کہ احرام کے دو کپڑوں کا پہننا واجب ہے اور احرام کے درست ثابت ہونے میں بطور شرط نہیں ہے ۔

احیتاط یہ ہے کہ لنگ اتناہو کہ ناف سے لے کر زانو ت ک چھپالے اورچادر اتنی ہو کہ دونوں کندھوں ،دونوں بازوں اورکمر کاکافی حصہ چھپالے ۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ احرام کونیت اورتلبیہ سے پہلے پہنے اوراگر نیت اورتلبیہ کواحرما سے پہلے انجام دے تو احوط اولی یہ ہے کہ احرامکے بعددوبارہ نیت اورتلبیہ کا اعادہ کرے ۔

( ۱۹۰) اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی بنا پر یابھول کر قمیص پر حرام باندھ لے تو قمیص اتار دے ،اسکا احرام صحیح ہو گا۔ بلکہ اظہر یہ ہے کہ اگرجان بوجھ ک ر قمیص کے اوپر احرام باندھ لے تب بھی اس کا احرم (قمیص اتارنے کی بعد )صحیح ہو گا۔

لیکن اگر احرام کے بعد قمیص پہن لے تو اسک احرام بغیر شک کے صحیح ہے ۔ تاہم لازم ہے کہ قمیص پھاڑ دے ۔ اورپاؤں کی طرف سے اتاردے ۔

( ۱۹۱) حالت احرام میں خواہ شروع میں یا بعد میں سردی یا گرمی سے بچنے کے لیے یا کسی دوسری وجہ سے دوکپڑوں سے زیادہ پہننے میں اشکا ل نہیں ہے ۔

( ۱۹۲) احرامکے کپڑے میں جو شرائط معتبر ہیں جو نمازی کی لباس میں معتبر ہیں ۔ چانچہ لازم ہے کہ حرام لے لباس میں خالص ریشم یا درندوں کی اجزاء نہ ہوں بلکہ احوط یہ ہے کہ کسی بھی حرامگوشت جانور کے اجزااورسونے کی تاروں کابناہوا نہ ہو اسی طرح ضروری ہے کہ پاک ہو تاسہم جو نجاست نماز میں معاف ہے وہ احرام میں بھی معاف ہے ۔

( ۱۹۳) احوط یہ ہے کہ لنگ ایسے کپڑے کا نہ ہو جس سے بد ن ظاہرہو بلکہ بدن کو چھپانے والا ہو مگر یہ شرط چادر میں معتربر نہیں ہے ۔

( ۱۹۴) لباس احرام میں احوط اولی یہ ہے کہ دونوں کپڑے بنے ہونے ہوں اور چمڑے کھال اور کمبل کی طرح نہ ہوں ۔

( ۱۹۵) مردوں کیلئے لنگ اور چادر پہننا واجب ہے جب کہ عورتوں کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے عام لباس پر احرام باندھ سکتی ہیں بشرطیکہ ان میں ذکر شدہ شرائط موجود ہوں ۔

( ۱۹۶) اگرچہ ریشم کا لباس پہننا صرف مردوں پر حرام ہے ۔ اور عورتوں پ رحرام نہیں ہے ۔ مگر احوط یہ ہے کہ عورتو ں کے احرام کا کپڑا بھی ریشم کا نہ ہو بلکہ احوط یہہے کہ عورتیں حالت احرام میں خالص ریشم کی کوئی بھی چیز نہ پہنیں ۔ مگر یہ کہ ضرورت ہو جسے گرمی یا سردی سے حفاظت کے لیے پہنناپڑے ۔

( ۱۹۷) اگر حرام باندھنے ے بعد ایک یادونوں کپڑے نجس ہوجائیں ۔ تو احوط یہ ے کہ اس کو پاک کرنے یا تبدیل کرنیمیں جلدی کرے ۔

( ۱۹۸) احرم کے کپڑوں کو ہر وقت پہنے رکھنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ چادر کو کندھے سے ہٹانے میں خواہ خواہ ضرورت کے تحت ہٹائے یا بلاضرورت کے ۔ کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اسی طرح جب دوسری چادر میں شرائط موجودہوں تو بدلابھی نہیں جاسکتاہے ۔

احرام میں ترک کی جانے والی چیزیں ۔

گذشتہ مسائل میں بیان ہو اکہ تلبیہ اور تلبیہ کاحکم رکھنے والی چیزوں (مثلا اشعار و تقلید حج قران میں ) کے بغیر احرام نہیں باندھا جاسکتا چاہے نیت بھی کر لی جائے

جب مکلف احرام باندھ لے تو ذیل میں درج پچیس چیزیں اس پر حرام ہو جاتی ہیں

( ۱) خشکی کے جانور کا شکار

( ۲ ) جماع کرنا

( ۳) عورت کا بوسہ لینا

( ۴) عورت کو مس کرنا

( ۵) عورت کو دیکھنا اور چھیڑچھاڑ کرنا

( ۶) استمناء

( ۷) عقد نکاح

( ۸) خوشبو لگانا

( ۹) مردوں کے لئے سلا ہو ا کپڑا یا ایسا کپڑا پہننا جو سلے ہوئے لباس کے حکم میں آتا ہو

( ۱۰) سرمہ لگانا

( ۱۱) آئینہ دیکھنا

( ۱۲) مردوں کے لئے بند جوتے یا موزے پہننا

( ۱۳) فسوق (جھوٹ بولنا ، مغلظات بکنا )

( ۱۴) بحث و جھگڑا کرنا ایسا طرز عمل اختیا ر کرنا جو کسی مومن کے لئے اہانت کا باعث ہو

( ۱۵) جسم کی جوئیں وغیرہ مارنا

( ۱۶) آرائش کرنا بننا سورنا

( ۱۷) بدن پر تیل ملنا

( ۱۸ ) بدن کے بال صاف کرنا

( ۱۹) مردوں کیلئے سر ڈھانپنا اسی طرح پانی میں سر ڈبونا اور یہ عورتوں پر بھی حرام ہے

( ۲۰ ) عورتوں کا اپنے چہرے کو چھپانا

( ۲۱) مردوں کا سائے میں رہنا

( ۲۲) جس سے خون نکالنا

( ۲۳) ناخن کاٹنا

( ۲۴) ایک قول کے مطابق دانت نکالنا

( ۲۵) ہتھیار لے کر چلنا

خشکی کے جانور کا شکا ر

( ۱۹۹) محرم کے لئے خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا ، ہلاک کرنا زخمی کرنا یا ان کے کسی عضو کو توڑنا بلکہ کسی قسم کی اذیت جائز نہیں اسی طرح محل ّ (جوحالت احرام میں نہ ہو ) کے لئے بھی حرم میں حیوانات کو اذیت پہنچانا جائز نہیں یہاں خشکی کے جانو ر سے مراد وہ جانور ہیں جو جنگلی ہو ں چاہے اس وقت کسی وجہ سے پالتو ہوگئے ہوں او ر ظاہر یہ ہے کہ اس حکم میں حلال و حرام گوشت جانور میں فرق نہیں

( ۲۰۰) محرم کے لئے خشکی کے جانور کو شکار کرنے میں کسی او رکی مدد کرنا بھی حرام ہے خواہ دوسرا شخص محرم ہو یا محل یہاں تک کہ اشارہ وغیرہ کے ذریعے بھی مدد کرنا حرام ہے بلکہ احوط یہ ہے کہ محرم شخص ہر اس کام میں جو خودمحرم پر حرام ہیں جو مسئلہ ( ۱۹۹ ) میں بیان ہوئے کسی دوسرے کی مد دنہ کرے

( ۲۰۱) محرم کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ شکار کو اپنے پاس محفو ظ رکھے چاہے احرام سے پہلے حود اس نے کیا ہویا کسی او رنے حرم میں کیا ہویا حرم سے باہر

( ۲۰۲) محرم کیلئے شکار کا کھانا جائز نہیں چاہے محل نے حرم سے باہر شکار کیا ہو اسی طرح محل کے لئے بھی اس حیوان کا گوشت کھانا جسے محرم (احرام والے شخص نے سے شکار کیا ہو، خواہ شکار کو مارا ہو یا شکا ر کر کے ذبح کیا ہو بنابر احوط حرام ہے نیز محل پر اس حیوان کا گوشت کھانا بھی حرام ہے جسے کسی محرم یا کسی اور شخص نے حرم میں شکار یا ذبح کیا ہو ۔

( ۲۰۳) بری جانوروں کا بھی وہی ہخم ہے جو خود جاانوروں کا حکم ہے ۔ چنانچہ بعید نہیں کہ اس حیوان کے انڈے کوکھانا ،توڑنا اوراٹھانا بھی محرم پر حرام ہے ۔ لہذا احوط یہ ہی کہ انڈوں کے اٹھانے کھانے اورتوڑے میں بھی کسی کی مدد بھی نہ کرے ۔

( ۲۰۴) جیسا کہ بیان ہو اہے کہ یہ مسائل خشکی کے مانوروں کی لیے مخصوص ہیں اورٹڈی بھی انہیں میں سے ہے ۔ لیکن دریائی جانوروں کے شکار میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دریائی حیونات سے مراد وہ جانورہیں جو صرف پامی میں زندگی گزارتے ہوں مثلامچھلی ،۔خشکی اورپانی دونوں میں زندگی گزرانے والے جانوروں کاشمار خشکی کے جانوروں ۴ میں ہوگ ا۔ اگرچہ اظہر یہ ہے ةکہ وہ حیوان جس کے خشکی کے ہونے میں شک ہو ،اسکا شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

( ۲۰۵) جس طرح خشکی کے جانورکا شکار حرام ہے اسی طرح ہلاک کرنا،خواہ شکار نہ بھی کرے حرام ہے اس حکم سے چدن چیزیں مستثنی ہیں ۔

۱ ۔پالتو جانورچاہے کسی وجہ سے وحشی بن گئے ہوں مثلابھیڑ گائے ۔اونٹ اور پرندے جو مستقل طور اڑ نہیں سکتے مثلامرغ ،چینی مرغ وغیرہ کو ذبح کرنا محرم کے لیے جائز ہے ۔ اسی طرح ان حیوانات کو بھی ذبح کر نا جائزہے جنکے پالتو ہونے کا احتمال ہو ۔

۲ ۔ درنوں او رسانپ وغیرہ جن سے محرم کواپنی جان کا خطرہ ہوتو انکومارنا جائز ہے ۔

۳ ۔ درندہ صفت پرندے جو حرم کے کبوتروں کو اذیت دیں انکو مارناجائز ہے ۔

۴ ۔زہریلا سیاہ سانپ بلکہ ہر خطرناک سانپ ،بچھواو ر چوہا،انکو ہر ہال میں مارنا جائزہے اور انکو مارنیمیں کوئی کدفارہ نہیں ہے ۔ مشہور قول کے بناپرشیر مستثنی ہے ۔ مزید

بر آں جن درندوں سے جان کا خوف نہ ہو ان کو مارنے سے کفارہ واجب ہو جاتا ہے ا ور ان کا کفارہ ان کی قیمت ہے ۔

( ۲۰۶) محرم کے لئے کوے او ر شکاری باز کو تیر مارنا جائز ہے اور اگر وہ تیر لگ جانے سے مر جائیں تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔

شکار کے کفارات

( ۲۰۷) اگر محرم شتر مرغ کو ہلاک کر دے تو ایک اونٹ کفارہ دینا ہو گا اگر جنگلی گائے کو مارے تو ایک گائے کا کفارہ دے بنابر احوط وحشی گا ئے کو بھی مارنے کا بھی یہی حکم ہے ہرن اورخرگوش کے مارنے پر ایک بکری دے بنابر احوط لومڑی کو مارنے کا بھی یہی حکم ہے

( ۲۰۸) جو شخص ایسے جانور کا شکار کرے جس کا کفارہ اونٹ ہواور اس کے پاس اتنا مال نہ ہوجس سے اونٹ خرید سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے اور ہر مسکین کوایک مدّ (تقریبا ۷۵۰ گرام )کھانا دے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو ( ۱۸ ) روزے رکھے اگر وہ ایسا جانور ہو کہ جس کا کفارہ گائے ہو او رگائے خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے او رکھانا نہ کھلا سکتا ہو ( ۹) روزے رکھے اگروہ ایسا جانور ہو جسکا کفارہ بکری ہو اور اگر بکری نہ خرید سکتا ہو تو( ۱۰) مسکینوں کو کھانا کھلائے او ریہ بھی نہ کر سکے تو ۳ دن روزے رکھے

( ۲۰۹) قطاة، چکور اورتیتر کو مارنے پر بھیڑکا ایسا بچہ جو دودھ چھوڑ کرگھاس چرناشروع کر دے بطور کفارہ دینا واجب ہے چڑیا ، چنڈول اور ممولا وغیرہ مارنے پر اظہر یہ ہے کہ ایک مد طعام دے او رمذکورہ پرندوں کے علاوہ کبوتر یا کوئی اور پرندہ مارنے پر ایک دنبہ کفارہ دے او ران کے بچے کو مارنے پر ایک بکری کا بچہ یا بھیڑ کا بچہ کفارہ دے اورانڈے کہ جس میں بچہ حرکت کر رہا ہو ،کا بھی یہی حکم ہے اور اگر انڈے میں بچہ ہو جو حرکت نہ کر رہا ہو توایک درھم کفارہ دے بلکہ بنابر احوط اگرانڈے میں بچہ نہ بھی ہو توبھی ایک درھم کفارہ دے ایک ٹڈی کے قتل پرایک کھجور یا مٹھی بھرطعام کفارہ دے اور مٹھی بھر طعام دینا افضل ہے اور اگر متعدد ٹڈیاں ہو ں توکفارہ بھی متعدد ہو جائے گا لیکن اگر عمومی طورپر وہ بہت زیادہ شمار ہوں تو کفارہ پھر ایک بکری دینا ہو گا

( ۲۱۰) جنگلی چوہے ، خار پشت او رسوسمار (گوہ) وغیرہ مارنے پر بکری کا بچہ او رصحرائی چھپکلی مارنے پر مٹھی بھر کفارہ دے

( ۲۱۱) زنبور (بھڑ) کو عمدا مارنے پر کچھ مقدارطعام کفارہ دے تاہم اذیت سے بچنے کے لئے مارنے پر کوئی کفارہ نہیں ہے

( ۲۱۲) اگر محرم حرم سے باہر شکار کرے تو اس کو ہر حیوان کے مطابق کفارہ دیناہوگااور جن حیوانات کے لئے کفارہ معیّن نہ ہو تو انکی بازار میں موجود ہ قیمت کفارہ کے طور پر دے اور اگر کسی حیوان کو محل (بغیر احرام والا ) شخص مار دے تو اس کی قیمت کفارہ دے سوائے شیر کے اظہر یہ ہے کہ اس کا کفارہ ایک میں ڈھا دینا ہوگا اور اگر محرم حرم میں شکار کرے تو اسے دونوں کو جمع کر کے دینا ہوگا

( ۲۱۳) محرم کے لئے ایسے راستے کو ترک کرنا جس پر ٹڈے زیادہ ہوں واجب ہے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو تو پھر ان کے مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے

( ۲۱۴) اگر کچھ لوگ جو کے حالت احرام میں ہوں مل کر شکار کریں تو ان میں سے ہر ایک کوعلیحدہ کفارہ دیناپڑے گا

( ۲۱۵) شکار کئے گئے جانور کا گوشت کھانے کا کفارہ او رشکار کرنے کا کفارہ برابرہے چنانچہ اگرکسی نے حالت احرام میں شکار کیا اور پھر اس کو کھا لیاتو دو کفارے واجب ہوں گے ایک شکار کا ، دوسرا کھانے کا

( ۲۱۶) محرم کے علاوہ اگر کوئی ارو شخص شکار کو لے کرحرم میں داخل ہو تو اس پر واجب ہے کہاسے چھوڑ دے ۔ چنانچہ اگر وہ نہ چھوڑے اور وہ مجائے تو اس پر کفارہ دیناواجب ہے مسئلہ نمبر ۲۰۱ میں بیان شدہ تمام صورتوں میں احرام باندھتے وقت شکار کو ساتھ رکھنا حرام ہے ۔ چنانچہ اگر اس نے آزاد نہ کیااوروہمرگیا تو کفارہ دے اوراحوط یہ ہے ہ خواہ حرم میں داخلہونے سے پہلے بھی مرجائے تب بھی کفارہدے ۔

( ۲۱۷) حیوان کا شکاریااس کا گوشت کھانے پر کفارہ واجب ہوجاتاہے ۔اوراس سے فرق نہیں پڑتاکہ یہ فعل جان بوجھ کر کرے یا بھول کریا لاعلمی کی وجہ سے سرزد ہو اہو ۔

( ۲۱۸) شکار کے تکرار سے کفارہ بھی مکر ر ہوجاتاہے ۔ چاہے اس کی وجہ غلطی ،یابھول یا لاعلمی ہو اسی طرح ابغیر احرامولاشخص عمدا حرم میں اور محرم شخص متعدد احراموں میں شکار کا تکرار کریں تو تو کفارہ بھی مکرر ہوجائے ۔ لیکن اگر محرم عمدا ایک ہی اہرام میں شکار کی تکرار کرے تو صرف ایک کفارہ واجب ہو جائے بلکہ یہ ن افراد میں سے ہوگا جن کے بارے میں خدانے کہاکہ ومن عادفینتقم اللہ منہ یعنی جو تکرار کرے گا اللہ اس سے انتقام لے گا۔

بقیہ محرمات احرام کے مسائل

جماع

( ۲۱۹) محرم پر عمرہ تمتع کے دوران ، عمرہ مفردہ کے دوران اور اثنائے حج نماز طواف النساء سے پہلے جماع کرنا حرام ہے

( ۲۲۰) اگر عمرہ تمتع کرنے والا عمدا اپنی بیوی سے جماع کرے توچاہے قبل (آگے )میں کرے یا دبر (پیچھے ) میں کرے اگر سعی کے بعد کیا ہوتو اس کا عمرہ باطل نہیں ہو گا تا ہم کفارہ واجب ہوگا اور بنابر احوط کفارے میں ایک اونٹ یا ایک گائے دیاور اگر سعی سے فارغ ہو نے سے پہلے جماع کرے تو اس کا کفارہ بھی وہی ہے جو بیان ہوچکا او راحوط یہ ہے کہ اپنا عمرہ تمام کرے پھر اس کے بعد حج کرے او رپھر آئندہ سال ان کودوبارہ انجام دے

( ۲۲۱) اگر حج کے لئے احرام باندھنے والا جان بوجھ کر اپنی بیوی کے ساتھ مزدلفہ کے وقوف سے پہلے جماع کرے خواہ قبل میں کرے یا دبر میں،تو اس پر کفارہ واجب ہے او ر واجب ہے کہ اس حج کو پورا کرے اور آئندہ سال اس کا اعادہ کرے خواہ حج واجب ہو یا مستحب ، عورت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر وہ احرام کی حالت میں ہو اور حکم کو جانتی ہو اوراس عمل پر راضی ہو تواس پر کفارہ واجب ہے او رضروریہے کہ حج کوپورا کر کے آئندہ سال اس کا اعادہ کرے لیکن اگر عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو تو اس پھر کچھ واجب نہیں ہے اورشوہر پر دو کفارے واجب ہیں جماع کا کفارہ ایک اونٹ ہے او راگر اونٹ نہ دے سکے تو ایک بکری کفارہ دیاور اس حج میں واجب ہے کہ شوہر و بیوی جدا جدا رہیں یعنی دونوں اس وقت تک ایک جگہ جمع نہ ہوں جب تک کوئی تیسرا موجودنہ ہویہاں تک کہ دونوں اعمال حج سے فارغ ہو جائیں حتی کہ منی کے اعمال سے بھی فارغ ہو کر اس جگہ جائیں جہاں جماع کیا تھا لیکن اگر کسی اور راستے سے آئیں( یعنی جماع کی جگہ اس راستے میں نہ ہو)توجائز ہے کہ اعمال تمام ہونے کے بعد وہ ایک ساتھ آئیں اسی طرح دوبارہ کیے جامے والے حج میں بھی جماع کرنے والی جگہ پر پہنچنے سے لے کر منی میں ذبح کرنے تک دونوں کا جدا رہنا واجب ہے بلکہ احوط یہ ہے کہ اس وقت تک جدارہیں جب تک کہ تمام اعمال حج سے فارغ ہو کر واپس اس جگہ آ جائیں جہا ں جماع ہوا تھا

( ۲۲۲) اگر محرم عمدا وقوف مشعرکے بعد اور طواف النساء سے پہلے اپنی بیوی سے جماع کرے تو سابقہ مسئلہ میں بیان شدہ کفارہ واجب ہے لیکن حج کااعادہکدنا واجب نہیں او ریہی حکم ہے اگر طواف النساء کا چوتھا چکر مکمل کرنے سے پہلے جما ع کرے لیکن اگرچوتھا چکر مکمل ہونے کے بعدہو تو کفارہ بھی واجب نہیں ہے

( ۲۲۳) اگر محرم عمرہ مفردہ میں عمدا اپنی بیوی سے جماع کرے تو سابقہ بیان شدہ کفارہ اس پر واجب ہے اور سعی کے بعد جماعکرنے پر اس کا عمرہ باطل نہیں ہوگا لیکن اگر سعی سے پہلے کر ے تو اس کا عمر ہ باطل ہوجائے گاچنانچہ واجب ہے کہ اگلے مہینے تک مکہ میں رہے اور مشہور پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے عمرہ کا اعادہ کرنے کے لئے احرام باندھے، بنابر احوط ادنی حل سے احرام باندھنا کافی نہیں ہے اور یہ بھی احوط ہے کہ باطل ہونے والے عمرہ کو بھی مکمل کریا۔

( ۲۲۴) اگر محل (بغیراحرام ولا)شخص اپنی حراموالی بیوی کے ساتھ جماع کرے تو اگر بیوی راضی ہوت وعورت پر وواجب ہے کہ ایک اونٹ کفارہ دے ۔ لیکن اگر راضی نہ ہو بلکہ مجبوری ہو تو کچھ واجب نہیں ہے ہے اور احوط ہے کہ شووہر اپنی بیوی پر واجب ہونے ولے کفارے کا نقصان ادا کرے یعنی کفارے کی قیمت ادا کرے ۔

( ۲۲۵) اگر محرم شخص لاعلمی کی وجہ سے یا بھول کی وجہ سے اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کا عمرہ اور حج صحیح ہے اور اس پعر کفارہ بھی واجب نہیں ہے ۔ یہ حکم کفارہ کا موجب بننے والے محرمات انجام دینے میں بھی جاری ہوگا ۔جن کی تفصیل آگے آئے گی ۔یعنی لاعلمیی یا بھول کی وجہ سے محرم ان محرمات کا مرتکب ہو تو اس پر کفارہ وجاب نہیں ہو گ ا۔ تاہم مندرجہذیل بعض موارد مستثنی ہیں ۔

۱ ۔ حج یا عمجرہ میں طواف کرنا بھول جائے ۔ یہاں تک کہ اپنے ۔شہر واپس آ کر اپنی بیوی سے مجامعت کرے ۔

۲ ۔عمرہ تمتمع میں سعی کی کچھ مقدار بھول جائے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ سعی مکمل ہوگئی ہے احرام سی فار غ ہو جائے ۔

۳ ۔ اگر بلاوجہ اپنے سر یا داڑھی پر ہاتھ پھیری جس کی وجہ سے ایک سی زیادہ بال گر جائیں ۔

۴ ۔ اگرکوئی لاعملی کی وجہ سے خوشبودار تیل یاجسمیں خوشبو ملائے گئی ہو اپنے بدن میں ملے ان سب کا حکم اپنی جگہ پر آئے گا۔

عورت کا بوسہ لینا۔

( ۲۲۶) محرم کا لذت کے ارادہ سے اپنی بیوی کا بوسہ لیناجائز نہیں ہے ۔ چنانچہ اگر اس نے لذت سی بوسہ لیا اور منی نکل گئی تو اونٹ کفارہ واجب ہوجائے گی اوراگر منی خارج نہ ہو ت وبعید نہیں کہ ایک گوسفند کا کفارہ واجب ہو اگر لذت سے بوسہ لیاہو احتیاط واجب یہ ہی ہ ایک بکری کفارہ دے ۔

( ۲۲۷) اگر محل (بغیر احرام والا)شخص اطنی بیوی کا بوسہ لے تو احتیاط یہ ہی ہ ایک بکری کفارہ د ے۔

۴ ۔ محرم کا شہوت کے ساتھاپنی بیوی کو مس کرنا ،اٹھانایااپنے بازؤں میں بھیچنا جائز نہیں ہے ۔ اور اگر کسی نے ایس اکیا تو لازمہے کہ ایک بکر ی کفارہ دے خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو ۔لیکن اگرایساکرنا لذت کے لیے ہو تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔

عورت کو دیکھنااورچھیڑ چھاڑ کرنا۔

( ۲۲۹) محرم کے لیے جائز نہیں کہ اپنی بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے چنانچہ اگر ایس اجنرے سے منی خارج ہو جائے ت وایک اونٹ کفارہ دے اوراگر اونٹ نہ دے سکتاہو تو ایک بکری دے اگر شوہر کو معلوم ہو کہ شہوت سے دیکھنے کی وجہ سے منی خارج ہو جائے گی تو واجب ہے کہ وہ نہ دیکھے بلکہ احوط اولی یہ ہے کہ جاہے منی خارج ہو یانہ ہو شہوت سے اپنی بیوی کی طرف نگاہ کرے ۔ چنانچہ شہوت کی نظر سے بیوی ک ودیکھنے پر اگرمنی خارج ہو تو اہوط یہ ہے کہ کفارہدے جو کہ ایک اونٹ ہے ۔ لیکن اگر منی خارج نہ ہو یا بغیر شہوت کے دیکھنے پر منی خارج ہو تو پھر کفارہواجب نہیں ہے ۔

( ۲۳۰) اگر محرم اجنبی عورت کوایسی نگاہ سے دیکھے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے اور منی نہ نکلے تو کفارہ واجب نہیں ہے ۔ اور اگر منی نکل آئے تو لازم ہے کہ کفارہ دے ۔ اور احوط یہ ہی کہ اگرمالدار ہوتو ایک اونٹ کفارہ دے اور اگر متوسط ہو تو ایک گائے اوراظہر یہ ہے کہ ایک فقیر کو ایک بکری کفارہ دے ۔

( ۲۳۱) محرم کا اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ نے یا باتیں کرنے سے لزت حاصل کرناجائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ محرم اپنی بیوی سے ہر قسم کی لذت حاصل کرنے کو تر ک کرے ۔