مناسک حج

مناسک حج0%

مناسک حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

مناسک حج

مؤلف: آیۃ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 15392
ڈاؤنلوڈ: 2351

تبصرے:

مناسک حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15392 / ڈاؤنلوڈ: 2351
سائز سائز سائز
مناسک حج

مناسک حج

مؤلف:
اردو

طواف

عمرہ تمتع میں دوسراواجب عمل طواف ہے طواف کو عمدا چھوڑنے سے حج باطل ہوجاتاہے چاہے اس حکم کا علم ہو یانہ ہو اورحکم سے ناآشنا شخص پربنابر احوط ایک اونٹ کفارہ ہو گا۔

طواف ترک کرنے کا مطلب یہ ہی کہطواف انجام دینے میں اتنی تاخیر کی جائے کہ عرفہ کے دن زوال سے پہلے اعمال عمرہ ادانہ کیے جاسکیں ۔ اظہر یہ ہے کہ اگر عمرہ باطل ہوجائے تو احرام بھی باطل ہوجاتاہے چنانچہ عمرہ تمتع سے حج افراد ِمی طرف عدول و رجوع کرناکافی نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط ہے ۔ یعنی حج افردکے اعمال انجام دے جائیں بلکہ احوط یہ ہے کہ طواف ،نامز طواف ،سعی ،حلق یاتقصیر کوحج افرادوعمرہ تمتع کی عمومی نیت سے انجام دے کہ ان دو میں سے جو واجب ہے اسے انجام دے رہاہوں ۔

شرائط طواف۔

طواف میں چند چیزیں شرط ہیں ۔

۔ نیت ۔ طواف قربت کی نیت اور خضوع کے ساتھ خداکا حکم اوربندگی کی بچاآوری کے لیے انجام دے ۔ طواف میں عبادت کو معین کرنا ہبھی معتبر ہے جیساکہ حرام کی نیت کے مسئلہ میں بیان ہو چکاہے ۔

۔ طہارت ۔ حدث اکبر واصغرسے پاک ہو،چنانچہ عمدا یا لاعلمی یابھول کر حالت حدث میں کیا ہو ا طواف باطل ہے ۔

( ۲۸۵) اگر طواف کے دوران حدث صادر ہو جائے تو ااسکی چند صورتیں ہیں ۔

( ۱) چوتھا چکر مکمل کرنے سے پہلے ہوتو طواف باطل ہو جائیگا چنانچہ پاک ہونے کے بعد طوف دوبارہ انجام دینا ضروری ہے بلکہ اظہر یہ ہے کہ چوتھے چکر کے نصف تک پہنچنے کے بعد بھی اگر حدث صادر ہوتب بھی طواف باطل ہے اوردوبارہ انجام دینا ضروری ہے ۔

(ب) چوتھا چکر مکملہونے کے بعد غیراختیارة طور پر حدث صادر ہو تو اپنا طواف قطع کرکے طہارت کرے اوربعد از طہارت اپناطواف وہیں سے شروع کرکے مکمل کرے جہاں سے چھوڑاتھا۔

(ج) چوتھا چکر مکمل ہونے کے بعد اختیاری طور پر ہدث صادر ہو تو احوط یہ ہے کہ طہارت کے بعد اس طواف کو پوراکرے اوراسکا اعادہ بھی کرے ۔

( ۲۸۶ ) اگر طواف شروع کرنے سے پہلے طہارت میں شک ہو تو اگر جانتا ہو کہ پہلے طہارت پر تھا اور بعد میں حدث کے صادر ہونے میں شک ہو تو اس شک کی پروہ نہ کی جائے ورنہ طواف سے پہلے طوا ف کرنا واجب ہے

( ۲۸۷) طواف سے فارغ ہونے کے بعد طہارت میں شک ہو تو شک کی پروہ نہ کی جائے ،تاہم طواف کو دوبارہ انجام دینا احوط اور نماز طواف کے کئے طہارت کرنا واجب ہے

( ۲۸۸) اگر مکلف کسی عذر کی وجہ سے وضو نہ کر سکتا ہو اور عذر کے زائل ہونے کی امید بھی نہ ہو تو تیمم کر کے طواف انجام دے اور اگر تیمم بھی نہ کر سکتا ہو تو اس پر اس شخ کا حکم جاری ہو گا جو طواف کرنے پر قادر نہ ہو اگر امید نہ ہو کہ تیمم کر سکے گا تو طواف کے لئے نائب بنانا ضروری ہے اور احوط یہ ہے کہ خود بغیر طہارت کے طواف کرے

( ۲۸۹) حائض اور نفسائپر ایام ختم ہونے کے بعد اور مجنب شخص پر طواف کے لئے غسل کرنا واجب ہے اور اگر غسل نہ کر سکتے ہوں اور امید بھی نہ ہو کہ غسل کر سکیں گے تو پھر تیمم کر کے طواف انجام دیں نیز احوط ا ولی یہ ہے کہ کسی کو طواف کے لئے نائب بنا دیا جائے اگر تیمم بھی نہ کر سکتا ہواورامید بھی نہ ہو کہ بعد دمیں تیمم کر سکے گا تو کسی کو طواف کے لئے نائب بنانا ہی معین ہے ۔

( ۲۹۰) اگرکوئی عورت احرام کے دوران یا احرام سے پہلے یا بعد میں مگر طواف سے پہلے حائض ہو جائے اوور اتنا وقت ہو کہ ایام حیض گزرنے کے بعداورحج کا وقت آنے سے پہلے وہ اعمال عمرہ کوبجا لاسکے تو پاک ہونے کے بعد غسل کر کے اعمال عمرہ انجام دے اور اگر اتنا وقت نہ ہوتو اس کی دو صورتیں ہیں:

۱ احرام سے پہلے یا احرام کے باندھتے وقت حیض آئے تو اس کا حج ، حج افراد میں تبدیل ہوجائے گا چنانچہ حج افراد مکمل کرنے کے بعد اگر ممکن ہو تو عمرہ مفردہ انجام دے

۲ احرام حج کے بعد حیض آئیتو احوط یہ ہے کہ پہلی صورت کی طرح عمرہ تمتع حج افراد میں بدل دے اگرچہ ظاہر یہ ہے کہ عمرہ تمتع پربھی باقی رہناجائز ہے یعنی طواف اورنماز طواف کے بغیر عمرہ تمتع کے اعمال انجام دے اس کے بعد سعی کرے اور تقصیر کرے اور پھر حج کیلئے احرام باندھ کر منی میں اعمال انجام دینے کے بعد مکہ واپس آکر حج کے طواف سے پہلے عمرہ کا طواف اورنماز طواف کی قضا ء انجام دے اگر عورت کو یقین ہوکے اس کا حیض باقی رہے گا اوروہ طواف نہیں کر سکے گی یہاں تک کہ منی سے واپسآجائے اورسا کا سبب خواہ قافلے والوں کا عدم صبر ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ طواف او رنماز طواف کیلئے نائب بنائے اور پھر سعی کو خود انجام دے

( ۲۹۱) اگر عورت طواف کے دوران حائض ہو جائے تواگر چوتھا چکرمکمل ہونے سے پہلے حیض آئے تو طواف باطل ہوگا اور اسکا حکم وہی ہے جوگزشتہ مسئلہ میں بیان ہوا اگر چوتھا چکرمکمل ہونے کے بعد حیض آئے ت وجتنا طواف وہ کرر چکی ہے وہ صحیح ہوگا اور اس پر واجب ہے کہ حیض سے پاک ہونے اورغسل کرنے کے بعد اسے مکمل کرے نیز احوط اولی یہ ہے کہ اس طواف کومکمل کرنے کے بعد اس کا اعادہ بھی کرے یہ حکم وقت کے وسیع ہونے کی صورت میں ہے ، اگر وقت تنگ ہو توسعی اورتقصیر کر کے حج کے لئے احرام باندھے اور باقی طواف کی قضاء جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوامنی سے واپس آکر حج کے طواف سے پہلے انجام دے

( ۲۹۲) اگر عورت طواف کے انجام دینے کے بعد مگر نماز طواف سے پہلے حیض دیکھے تواس کا طواف صحیح ہوگا اور یہ عورت پاک ہونے اورغسل کرنے کے بعدنماز طواف انجام دے اگر وقت تنگ ہو تو پھر سعی اورتقصیر کرکے حج کے طواف سے پہلے نماز طواف کی قضا ء انجام دے ۔

( ۲۹۳) اگر عورت کو طواف اور نماز طواف کے بعدپتہ چلے کہ وہ حائضہ ہے اور یہ نہ جانتی ہو کہ حیض طواف سے پہلے یا دوران طواف یا نمازطواف سے پہلے یانماز طواف کے یا نماز طواف کے بعد آیا ہے تو طواف اور نماز طواف کو صحیح سمجھے اگر یقین ہو کہ حیض طواف سے پہلے یا دوران نماز آیا ہے تو اس کا وہی حکم ہے جو گزشتہ مسئلہ میں بیان ہوا

( ۲۹۴) اگر عورت عمرہ تمتع کیلئے احرام باندھے اوراعمال کو انجام دینا بھی ممکن ہو اوریہ جاننے کہ بعدمیں حائض ہونے اور وقت کی کمی کی وجہ سے اعمال انجام نہیں دے سکے گی اعمال کوانجام نہ دے اور حائض ہوجائے نیز حج سے پہلے اعمال عمرہ انجام دینے کا وقت بھی نہ بچے توظاہریہ کہ اس کا عمرہ بھی باطل ہوجائے گا اوراس کاحکم بھی وہی ہے جواحکام طواف کے شرو ع میں بیان ہوچکا ہے

( ۲۹۵) مستحب طواف میں حدث اصغر سے پاک ہونا معتبرنہیں ہے اسی طرح قول مشہور کی بناء پرحدث اکبر سے بھی پاک ہونا معتبر نہیں ہے لیکن نماز طواف طہارت کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔

( ۲۹۶) وہ شخص جو کسی عذر کے وجہ سے کسی خاص طریقے سے طہارت کرتا ہو وہ اپنی اسی طہارت پر اکتفا کرے مثلا جبیرہ والا شخص یا وہ شخص جو اپنا پیشاب یاپاخانہ نہ روک سکتا ہو ، اگرچہ مبطون (جوپاخانہ نہ روک سکے )کیلئے احوط یہ کہ اگرممکن ہو توجمع کرے یعنی خودبھی خاص طریقے سے طہارت کرکے طواف اور نماز انجام دے اور کسی کو نائب

بھی بنائے

وہ عورت جسے استحاضہ آئے تو اگر اس کا استحاضہ ,,قلیلہ ،، ہوتو طواف اور نماز طواف کے لئے ایک ایک وضو کرنا ,,متوسطہ،،ہوتودونوں کیلئے ایک ایک وضو علاوہ ایک غسل اور اگر ,,کثیرہ ،، ہوتو دونوں کیلئے ایک ایک غسل کرے اوراگرحدث اصغر سے پاک ہو تو وضوکی ضرورت نہیں ہے ورنہ احوط اولی یہ ہے کہ وضو بھی کرے

خبث سے طہارت

تیسری چیز جو طواف میں معتبرہے وہ ہے خبث سے پاک ہونا ہے چنانچہ نجس لباس یا بدن میں طواف صحیح نہیں ہے احوط یہ ہے کہ ایک درہم سے کم خون جو نماز میں معاف ہے وہ طواف میں معاف نہیں ہے اسی طرح چھوٹے لباس مثلا جراب وغیرہ کی نجاست جو کہ نماز کیلئے مضر نہیں لیکن طواف کیلئے مضر ہے وہ نجاست بھی طواف کیلئے مضر ہے جس کے ساتھ نمازمکمل نہیں ہو سکتی لیکن متنجس چیز کے کو طواف کی حالت میں اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے نجاست کم لگی ہو یا زیادہ

( ۲۹۷) اگر حالت طواف میں بدن یا لباس پر زخم یا پھوڑے کا خون لگا ہو جب کہ زخم یا پھوڑا ابھی صحیح نہ ہوا ہو اور پاک یا تبدیل کرنا بہت زیادہ تکلیف کا سبب ہو اسی طرح بحالت مجبوری بدن یا لباس نجس ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر پاک یا تبدیل کرنے میں بہت سی مشقت یا تکلیف نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ نجاست کو دور کرناوواجب ہے ۔

( ۲۹۸) اگر کسی کواپنے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا علم نہ وہ اورطواف کے بعد پتہ چلے تو اس کا طواف صحیح ہے اوراعادہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔ اسی طرح جب نجاست کا نماز طواف سے فارغ ہونے کے بعد پتہ چلے جب کہ نما ز سے پہلے اس نجاست کے موجود ہونے کا شک نہ ہو یا پہلے سے شک ہو مگر کتحقیق کر چکا ہو اور نجاست کا پتہ نہ چلا ہو تو نماز طواف بھی صحیح ہو گی لیکن اگرکسی کو پہلے سے نجاست کاشک ہو اوراس نے تحقیق بھی نہ کی ہو اور پھر نماز کے بعد اسے نجاست کا پتہ چلے تو احتیاط واجب کی بنا پرنماز دوبارہ پڑھے ۔

( ۲۹۹) اگر کوئی شخص بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اوراسے طواف کے بعد یادآئے تو اظہر یہ ہے کہاسکا طواف صحیح ہے اگرچہ اعادہ کرنااحواط ہے نماز طواف کے بعد یاد آئے تو اگر اسکا بھولنالاپرواہی کی وجہ سے ہو تو احوط یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے ۔ورنہ اظہر یہ ہے کہ اعادہ ضروری نہیں ہے ۔

( ۳۰۰) اگر دوران طواف بدن یا لباس کے نجس ہونے کا پتہ چلے یا طواف سے فارغ ہونے سے پہلے اس کا بدن یا لباس نجس ہو جائے تو اگر موالات عرفی منقطع کیے بغیرنجاست دورکرنا ممکن ہو چاہے اس کے لیے ستر پوشی کی معتبر مقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے نجس کپڑا اتارنا پڑے یا پاک کپڑامیسر ہونے کی صورت میں نجس کپڑااتار کر پاک کپڑاپہننے ہر دوصورتوں میں نجاست دور کر کے طواف پوراکرے اوراسکے بعد کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہ جاتی ورنہ احوط یہ ہے کہ طواف بھی پوارکرے اورنجاست دورکرنے کے بعد اسکا اعادہ بھی کرے اعادہ اس صورت میں کرے جب کہ نجاست کا علم یا نجاست کالگناچوتھاچکر مکمل کرنے سے پہلے ہو اگرچہ اعادہ کرنامطلقا ً واجب نہیں ہے ۔

مردوں کاختنہ شدہ ہونا ۔

طواف میں چوتھی شرط مردوں کا ختنہ شدہ ہونا ہے ۔ احوط بلکہ اظہر یہ ہے کہ ممیز بچے میں بھی یہ شرط معتبر ہے لیکن غیر ممیز بچہ میں جسے اسکا ولی طواف کرائے ۔ اس شرط کا معتبر ہونا ظاہرہے اگرچہ ا س صورت میں بھی احوط یہ ہے کہ اسے معتبر سمجھاجائے ۔

( ۳۰۱) محرم خواہ بالغ ہویاممیز بچہ اگرچہ ختنہ طواف نہ کرے تو طواف کافی نہیں ہوگا۔لہذا ختنہ کے بعد دوبارہ طواف نہ کرے تو احوط یہ ہے کہ طواف مطلقا ترک کرنے والے کے حکم میں ہوگااورطواف کے ترک کرنے والے کے احکام جو آئندہ بیان ہونے والے ہیں اس پر بھی جاری ہوں گے ۔

( ۳۰۲) ایساشخص جس کا اختنہ نہ ہو ہو اوروہ مساوروہ مستطیع ہوجائے تو اگر اسی سال ختنہ کرئے کے حج پر جاسکتاہوتو حج پر جائے ورنہ ختنہ کرنے تک حج میں تاخیر کرے ۔ اگر ختنہ کراناکسی نقصان ،رکاوٹ ،تکلیف یاکسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو تو حج ساقط نہ ہوگالیکن احوط یہ ہے کہ حج عمرہ میں خود بھی طواف کرے اورکسی کو نائب بھی بنائے اورنماز طواف نائب کے طواف کے بعدپڑھے ۔

شرمگاہ کو چھپانا۔

احوط یہ ہے کہ حالت طواف میں بھی اتنی ہی مقدار میں شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے جتنی مقدار کا نماز میں اولی بلکہ احوط یہ ہے کہ جو نمازی کے لباس کی شرائط معتبر ہیں ساتر (وہ چیزیں جن سے شرمگاہ کو چھپایاجائے )میں ،بلکہ طواف کرنے والے کے تمام لباس میں ان شرائط کا خیال رکھاجائے ۔

واجبات ِ طواف۔

طواف میں آٹھ چیزیں معتبر ہیں ۔

۱ ۔ ۲ ۔ہر چکر کو حجر اسودسے شروع کرکے اسی پر ختم کرنا ۔طاہر یہ ہے کہ یہ شرط اس وقت حاصل ہوگی جب حجر اسود کے جس حصے سے چکر شروع کیاجائے وہیں پر ختم کرے ۔اگرچہ احوط یہہے کہ ابتدا و انتہاء میں اپنے بدن کو تمام حجر اسودسے گزارے ۔اس احتیاط کے لیے کافی ہے کہ حجر اسود سے کچھ پہلے کھڑاہوجائے اورطواف کی نیت اس جگہ سے کی جائے جہاں سے حقیقت میں حجر اسود سے سامنا ہو رہاہو ۔پھر خانہ کعبہکی گرد سات مرتبہ چکر لگائے جائیں اورآخری چکر کے اختتام پر حجر اسود سے یہ نیت کرتے ہوئے تھوڑاآگے تک جائے کہ طواف کہ طواف معتبر مقام سے پرپوراہوجائے ۔ اس طرح یقین ہوجائیگا کہ حقیقت می حجر اسود جس جگہ سے شروع ہوناتھا اورجہاں ختم ہوناتھاوہ اس عمل سے حاصل ہوگیا ہے ۔

۳ ۔طواف کرتے وقت خانہ کعبہ کو اپنے بائیں طرف قرار دے چنانچہ اگر دوران طواف کسی رکن کو بوسہ دینے یارش کی وجہ سے کعبہ کی طرف رخ یا پشت ہوجائے یاکعبہ دائیں جانب قرار پائے تواتنی مقدار طواف میں شمار نہیں ہوگی ۔کعبہ کو بائیں طر ف قرار دنیے میں ظاہر ہے کہ اگر عرفایہ کہا جائے کہ کعبہ حاجیکے بائیں طرف ہے تو کافی ہے جیساکہ نبی کریم کاسواری پر طواف کرنے سے ظاہر ہے ہوتاہے ۔ لہذا جب جسم کعبہ کے چاروں ارکان اورحجر اسمعیل کے دووں سروں سے گزر رہاتو جسم کو بائیں جانب کعبہ کی طرف کرنے میں دقت اٹھانے بدن کو موڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

۴ ۔حجراسمعیل کو بھی طواف میں شامل کرنا یعنی حج اسمعیل کے باہر سے چکر لگایاجائے نہ ہی اس کے اوپر سے گزرے اور نہ ہی اندرسے ۔

۵ ۔طواف کرنے والادیوار کعبہ اوراسکے اطراف میں وجود چبوترے (شازروان )سے ہٹ کر چلے ۔

۶ ۔کعبہ کے گرد سات چکر لگانا سات سے کم کافی نہیں ہونگے اگر کوئی جان بوجھ کر سات سے زیادہ چکر لگائے تو اسکااطواف باطل ہو جائگا۔ جسکا بیان بعد میں آئے گا۔

۷ ۔ساتو ں چکر اس طرحسے کیے جائیں خہ عرفا اسے پیے در پے شمارہوں یعنی بأغیر زیادہ توقفکے ایک کے بعد ایک بجالایاجئے ۔ اس حکم سے کچھ موارد مستثنی ہیں ۔ ج سکا بیان بعد میں آئے گا ۔

۸ ۔ طوااف کرنے ولااپنے ارداے اور اختیار سے کعبہ گرد چکر لگائے اگر رش یا کسی ور وجہ سے کچھ مقدار بے اختیار ی کی وجہ سے بجالائے تو یہ کافی نہیں ہو گا اور اسکاجبران ور تدارک کرنا ضروری ہے ۔

( ۳۰۳) فقہا ء کے درمیاں مشہورہی کہ کعبہ اور مقام ابراہیم کی درمیان چکر لگایاجائے ۔ جس کا فاصلہ ساڑھے چھبیس ہاتھ ہے (۱۲/۲میٹر) چونکہ حجر اسمعیل کو طوافکے اندر رکھنے ے وجہ سے حجر اممعیل کی جانب سے زیادہ نہیں ہے ۔ لکین بیعد نہیں کہ طواف اس حصے سے زیادہ میں بھی جائز ہو مگر کراہتکے ساتھ خصوصا ً اس شخص کے لیے جو ا مقدار میں طواف نہ کر سکتاہو یا اس مقدار میں اس کیلیے طواف کرنا حر ج و مشتق کا باعث ہولیکن اگر اس مقدار میں طواف کرنا ممکن ہو تو احتیاط ملحوظ خاطر رکھنا بہترہے ۔

مطاف(وہ جگہ جہاں طواف کیاجائے )سے خارج ہو نا ۔

( ۳۰۴) اگرطواف کرنے والامطاف سے خارج ہو کرکعبہ میں داخل ہوجائے تو ااسکاطواف باطل ہوجائے گاجو دوبارہ کرباہوگا۔اگر آدھے طواف کے بعد مطاف سے باہر ہوتو بہتریہ ہے کہ پہلے اس طواف کو پورا کرے اورپھردوبارہ طواف کرے ۔

( ۳۰۵) اگر کوئی مطاف سے نکل کر چبوترے سے (شازروان )پر جلے تو اتنی مقدار میں طواف باطل ہو گا چنانچہ اتنی مقدار کا تدارک وجبران کرنا ضروری ہے ۔احوط اولی یہ ہے کہ اتنی مقدار تدارک اورطواف پوراکرنے کے بعد یہ طواف دوبارہ بھی کرے ۔اسی طرح احوط اولی یہ ہے طواف کرنے والادوران طواف اپنے ہاتھث کعبنہ کی دیوار تک ارکان وغیرہ کو چھونے کے لییے نہ پھلائے ۔

( ۳۰۶) اگرطواف کرنے ولا حج اسمعیل کے اندرچلا جائے چاہے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے یا بھول کر تو اس کا یہ چکرباطل ہوجائے گااورضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے ۔احوط یہ ہے کہ طواف پوراکرنے کے بعددوبارہ انجام دے ۔ حجر اسمعیل کے اوپرسے گزرنے کا بنابر احوط وہ حکم ہے جو حکم اندرجانے کا ہے نیزاحوط یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حجراسمعیل کی دیوار ہاتھ نہ رکھے ۔

طواف کوتوڑنااورطواف کے چکروں کا کم ہونا۔

( ۳۰۷) مستحب طواف کی طرح واجب طواف بھی کسی ضرورت و مجبوری سے بلکہ بنابر اظہر بلاضرورت و مجبری بھی توڑناجائز ہے ۔

( ۳۰۸) اگر واجب طواف چوتھاچکر پوراہونے سے پہلے بغیرکسی وجہ کے توڑاجائے تو طواف باطل ہوجائے کا وردوبارہ بجالانا ضروری ہے لیکن اگر چوتھا چکر پورا کرنے کے بعد توڑاجائے تو احوط یہ ہے کہ اس طواف کو بھی پوراکرے اوردوبارہ بھی انجام دے ۔ تاہم مستحب طواف میں کہ جہاں سے توڑا جائی وہیں سے شروع کر کے پوراکرے ۔چاہے چو تھے چکر سے پہلے توڑے یا بعد میں جب تک کہ عرفاموالات ختم نہ ہوجائے ۔

( ۳۰۹) اگر عورت کو دوران طواف حیض آجائے تو اواجب ہے کہ طواف توڑ کر فورامسجدالحرام سے باہر نکل جائے اوراس طواف کا حکم مسئلہ نمبر ۲۹۱ میں بیان ہو چکا ہے ۔اسی طرح اگر طواف کرنے ولایسے دوران طواف حدث سرزد ہوجائے یا دوران طواف اسے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا پتہ چل جائے اسکا حکم مسئلہ نمبر ۲۸۵ اورتین سومیں بیان ہوچکا ہے ۔

( ۳۱۰) اگر بیماری یا اپنی یا کسی مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی اپنا واجب طاف کر چوتھا چکر سے پہلے توڑے تو ظاہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے اور دوبارہ کرنا ضروری ہے ۔ لیکن اگر چوتھے چکر کے بعد توڑے تو اظہر یہ ہے کہ طواف صحیح ہوگالہذا واپس آکر جہاں سے توڑاتھا وہیں سے شروع کرے اور احوط یہ ہے کہ اسے پواراکرنے کے بعد دوبارہ بھی بجالائے تاہم مستحب طواف میں جائز ہے کہ جہاں سے چھوڑاتھا وہیں سے شروع کرے چاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑا ہو۔

( ۳۱۱) طواف کے دوران آڑام کرن ابیٹژنا یا لیٹنا جائزہے لیکن ضروری ہے کہ اتنی دیر بیٹھے یالیٹے کہ تسلسل کاتائثر ختم نہ ہو۔ چنانچہ اتنی دیرلیٹنے یا بیٹھنے سے تسلسل ٹوٹ جائے طواف باطل ہوجائے گالہذا پھر سے شروع کرنا ضروری ہے ۔

( ۳۱۲) اگرکوئی واجب نماز کو وقت پر پڑھنے کے لیے یا نماز کو جماعت سی پرنے کی لیے یا نافلہ نماز کو پڑھنے کے لیے جب کہ اسکا وقت تنگ ہو طواف توڑے تو جہاں سے طواف چھواڑ ہے نماز کے بعد وہیں سے شروع کرے چاہے طواف واجب ہویا مستحب اورچاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑاہو یا بعد میں اگرچہ احوط یہ ہے کہ جب طواف چوٹھے چک رسے پہلے چھوڑا ہو تواس طواف کو پورا کرکے دوبارہ طواف کرے ۔

( ۳۱۳) اگر طواف میں بھولے کمی ہوجائے اورتسلسل ختم ہونے سے پہلے یا د آجائے تو کمی کو پور اکرے اوراسکاطواف صحیح ہوگا۔اسی طرح اگر تسلسل ختم ہونے کے بعد یاد آئے اورایک یا دو یا تین چکر بھولاہوتو انہیں بجالائے اوراس کاطواف بھی صحیح ہوجائے گا۔اگر خود انجام دینے )ر قادر نہ ہو چاہیے اس لیے ک اپنے شہر واپس آکر یاد آیا ہو کسی کونائب بنائے ۔لیکن اگر تین سے زیادہ چکر بھول گیا ہوہو تو واپس جاجتنے چکر کم ہوں انہیں انجام دے ۔احوط یہ ہے کہ اس طوافر کو پوراکرنے کے بعد دوبارہ بھی انجام دے ۔

طواف میں زیادتی

طواف میں زیادتی کی پانچ صورتیں ہیں۔

۱ ۔طواف کرنے والا زیادتی کواس طواف یادوسرے طواف کا جز نہ سمجھے یعنی سات چکر پورے کرنے کے بعد مستحب کی نیت سے ایک اور چکر انجام دینے سے طواف باطل نہیں ہوگا۔

۲ ۔طوافشروع کرتے وقت ہی ایہ ارادہ ہوکہ زائد حصے کو اس طواف کے جزکی نیت سے انجامدی گ اتواس صورت جین اسک اطواف ولااشکال باطل ہے اورضرفوریہظہ طواف کو دوبارہ انجام دے ۔۔ اسی طرح اگرطواف کے دوران اس قسم کا اراداہ کرے اورکچھ حصہ زیادہ انجام دے توایہی حکم ہے ۔ لیکن اگر زیادہ حصہ انجام نہ دے تواگرزیادتی کے ارادے سے نیت کرنے سے پہلے والے چکر کے باطل ہونے میں اشکال ہے ۔

۳ ۔زائد چکر اس نیت سے کرے کہ جس طواف سے فارغ ہو اہے یہ اس کا جز ہے جب عرفا موالات ختم نہ ہوئی ہویعنی طواف سے طواف سے فارغ ہونے کے بعد زاید چکر کا جز ہونے کا قصد کرے تو اظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے ۔

۴ ۔زائد چکر اس نیت سے کرے کہ یہ دوسرے طواف کاجز ہے اورپھر دوسرے طواف کو کوئی بھی جخر بجانہ لائے تو اس صورت میں نہ ہی زیادتی وجود میں آیئگی اورنہ ہی قران ہو گا لیکن بعض صورتوں میں ممکن ہے کہ اس وجہسے طواف کرنے والے کو قصد قربت حاصل نہ ہو نے کی وجہ سے اس کا طواف باطل بھی ہو سکتاہے مثلاکوئی شخص قران کی نیت رکھتاہو جو کہ حرام ہے اورجانتابھی ہو کہ قران کی وجہ سے طواف باطل ہوجاتاہے تواس صورت میں قصد قربت ثابت نہیں اگرچہ اتفاقا عملی طورپر قران بھی واقع نہ ہو ۔

( ۳۱۴) اگر سہواطواف میں چکر زیادہ ہو جائے اوررکن عراقی تک پہنچنے کے بعدیاد آئے تو زائد چکر کو اباقی چکروں کے ساتھ ملاکر طواف کو پورا کرے ۔بنابر احوط یہ ہی ک طواف واجب یا مستحب کا تعین کیے بغیر یعنی مطلقا قصد قربت سے انجام سے دے اوراس کے بعد جار رکعت نماز پڑھے افضل بلکہ احوط یہ ہے کہ دونوں نمازوں کوجداجدا پڑھے یعنی دورکعت سعی سے پہلے و اجب طواف کی نیت سے اوردو رکعت سعی کے بعدمستحب طواف کی نیت سے اسی طرح اگر رکن عراقی تک پہنچنے سے پہلے یا دآئے تو بھی بنا بر احوط یہی حکم ہے ۔

چکروں کی تعدادمیں شک

( ۳۱۵) چکروں کی تعدادیا چکروں کے صحیح ہونے کے بارے میں شک طواف کے بعد یا موقع گزرجانے کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے ۔اسی طرح اگر تسلسل کے ختم ہونے یا نماز طواف شروع کرنے کے بع دشک ہو تو اسکی بھی پرواہ نہ کی جائے ۔

( ۳۱۶) اگر سات چکروں کا یقین ہو اورزیادہ کے بار ے میں شک ہو کہ یہ آٹھواں چکر تھاتو ایسے شک کی پرواہ نہ کی جائے اوریہ طواف صحیح ہو گالیکن اگر یہ شک آخری چکرپورا ہونے سے پہلے ہو تو ااظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے چنانچہ احوط یہ ہے کہ رجاء اسے بھی پوراکرے اوردوبارہ بھی انجام دے ۔

( ۳۱۷) اگر چکر کے اختتام یاچکر کے دوراں کہ تیسرا چکر ہے کہ چوتھا یاپانچوان یا چھٹا ،یاسات چکر وں سے کم کا اورشک ہو تو طواف باطل ہوجائے گا حتی کہ اگر چکر کے اختتام پر چھ اورسات کا شک ہوجائے تب بھی احوط یہ ہے کہ طواف باطل ہے اگر اسی طرح سات سے کم یا زیادہ کاشک ہو مثلاآخر ی چکر کا چھٹا کا ساتواں یا آٹھواں ہونے میں شک ہو تب بھی طواف باطل ہے ۔

( ۳۱۸) اگر کسی کو چھ اور سات میں شک ہو اور حکم نہ جاننے کی وجہ سے وہ چھٹا سمجھتے ہوئے اپناطواف تمام کرے اور اس کی جہالت ،جبران و تدارک کا وقت ختم ہونے تک برقرار رہے تو بعیدنہیں کہ اکس طواف صحیح ہو ۔

( ۳۱۹) طواف کرنے کے لیے جائز ہے کہ کہ اگر اس کے ساتھی کو اسکے چکر وں کی تعداد ک ایقین ہو تو اوہ اسکی بات پر اعتماد کر سکتاہے ۔

( ۳۲۰) اگر کوئی عمرہ تمتع میں جان بوجھ کرطواف چھوڑ دے تو چاہے حکم و مسئلہ جانتا ہو اورطواف ار عمرہ کے باقی اعمال ربز عرفہ کے زوال آفتاب تک انجام دینا ممکن نہ ہو تو اسکا عمرہ باطل ہو گا چنانچہ احوط یہ ہے کہ اگر مسئلہ نہ جانتاہو تو ایک اونٹ کفارہ بھی دے جیسا کہ اسک اذکرع طواف کے باب میں گزر چکا ہے ۔اگر حج میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دے تو اخواہ مسئلہ جانتاہو یا نہ جانتاہو اور اسکا طواف کا جنران کرنا بھی ممکن نہ ہو ،اسکا حج باطل اور۔اگر مسلئکہ نہ جاننے کی وجہ سے چھوڑا ہو تو ایک اونٹ کفارہ دینابھی ضروی ہے ۔

( ۳۲۲) اگر بھول کر طواف چھوڑ دے اوراسکا وقت ختم ہونے سے پہلے یاد آجائے تو اسکا تدارک و جبران کرے اور اظہر یہ ہے کہ سعی بھی طواف کے بعد دوبارہ انجام دے ۔ اگر وقت ختم ہونے کے بعدیاد آئے مثلا عمرہ تمتع کا طواف وقوف عرفات تک بھولارہے یا حج کا طواف ماہ ذی الحجہ تمام ہونے تک یا د نہ آئے تو طواف کی قضا واجب ہے اوراحوط یہ ہے کہ سعیء بھی طواف کے بعدددوبارہ انجام دے ۔

( ۳۲۳) اگر کوئی طواف بھول جائے یہاں تک کہ وطن واپس پہنچ کر اپنی بیوی سے مجامعت کرلے تو واجب ہے کہ اگر حج کا طواف بھولا ہو تو ایک قربانی منیٰ بھیجے اوراگرعمہ کا طپواف بھولاہوتو ایک قربانی مکہ بھیجے اوردنبہ کی قربانی کافی ہے ۔

( ۳۲۴) اگر بھولا ہوا طواف اس وقت یاد آے جب خو د طواف انجام دے سکتاہو تو طواف کی قضا بجا لائے چاہے احرام اتار چکا ہو تاہم دوبارہ احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگرمکہ سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو مکہ میں داخل ہونے کے لیے احرم باندھنا ضروی ہے ۔سوائے ان حالتوں کے جن کا بیان مسئلہ ۱۴۱ میں ہو چکا ہے ۔

( ۳۲۵) وہ چیزیں جو محرم پر حرام تھیں اور جن کا حلال ہونا طواف پر موقوف تھا وہ طو اف بھولنے والے پر ا سوقت تک حلال نہیں ہو نگی جب تک وہ خود یا اسک نائب طواف کی قضا نہ کرے ۔

( ۳۲۶) اگر مکلف کسی بیماری ،ہڈی ٹوٹنے یا کسی اور وجہ سے خود طواف نہ کر سکتاہو اور نہ ہی کسی کی مدد سے انجام دے سکتا ہو تو واجب ہے کہ اسے طواف کروایا جائے یعنی کوئی دوسرا شخص اسے کندھوں پر اٹھاکرطواف کرائے یا کسی گاڑی وغیرہ میں بیٹھاکر طواف کراے ،احوط اولی یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حاجی کے پاؤں زمیں کو چھو رہے ہوں ۔ اگر اس طرح سے بھی طواف کرنا ممکن نہ ہو تو واجب ہے کہ اگر نائب بنا سکتا ہوتو نائب بنائے جو اس کی جانب سے طواف کرے ۔ اگر نائب نہ بنا سکتاہو مثلا بیہوش ہو تو اسکاولی یا کوئی اور شخص اسکی جانب سے طواف کرے یہی حکم نماز طواف کا بھی ہے لہذ ااگر مکلف قدرت رکھتا ہو تو خود نماز پڑھے اور اگرخود نہ پڑھ سکتاہو تو کسی کو نائب بنائے (حائض اور نفساء کا حکم شرائط طواف میں بیان ہو چکا ہے )۔

نماز طواف

عمرہ تمتع میں تیسرا واجب نمازطواف ہے ۔

یہ دو رکعت نماز ہے جو طواف کے بعد پڑھی جاتی ہے ۔ یہ نماز نماز فجرکی طرح ہے لیکن اسکی قرائت میں بلند آواز یاآہستہ سے پڑھنے میں اختیار ہے واجب ہے کہ یہ نماز مقا م ابراہیم کے قریب پڑھی جائے اور اظہر یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھنا ضروری ہے ۔ اگر مقام ابراہیم کے قریب پیچھے کی طرف پڑھنا ممکن نہ تو احوط یہ کہ جمع کرے یعنی مقا م ابراہیم کے کسی ایک طرف بھی نما ز پڑھے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دور کھڑے ہوکر بھی نماز پڑھے ۔اگر جمع کرنا بھی ممکن نہ ہو تو ان دو جگہوں میں جہاں ممکن ہو وہاں پڑھے اور ان دو جگہوں پر بھی اگر ممکن نہ ہو تو احوط اولی یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے قریب نماز پڑھنا ممکن ہو جائے تو احو ط اولی یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے ۔ یہ واجب طواف کا حکم ہے جب کہ مستحب طو اف میں مکلف کو حق ہے حتی کہ اختیاری طو ر پر بھی کہ مسجدمیں جس جگہ چاہے نماز پڑھے ۔

( ۳۲۷) جو شخص جان بوجھ کر نماز طاف نہ پڑھے تو احوط یہ ہے کہ اس کاحج باطل ہے ۔

( ۳۲۸) احوط یہ ہے کہ طواف کے بعد فورا نماز طواف پڑھی جائے یعنی عرفا طواف اور نماز طواف میں فاصلہ نہ ہو۔

( ۳۲۹) اگر نماز طواف بھول جائے اور وہ اعمال جو ترتیب میں اسک ے بنعد ہیں مثلا سعی کے بعد اسے یاد آئے تو نماز طواف پڑھے اور جو اعمال انجام دے چکا ہو ان کا دوبارہ انجام دینا ضروری نہیں ہے اگر چہ تکرار کرنب احوط ہے ۔ لیکن اگر سعی کے دوران یاد آجائے تو سعی چھو ڑ کر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھے اور پھر سعی کو جہاں سے چھوڑ اتھا وہاں سے شروع کرکے تمام کرے ۔اگر مکہ سے نکل جانیکے بعد یاد آئے تو اگر مشقت وزحمت کا باعث نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ واپس جاکر نماز کو اس جگہ پر پڑھے ورنہ جہاں یاد آئے وہیں پڑھ لے ۔ حرم جاکرپڑھنا ضروری نہیں ہے خواہ لوٹنا ممکن ہو ۔ جو شخصمسلئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز طواف نہ پڑھے اسک احکم وہ ہے جو نماز بھول جانے والے کا ہے اور جاہل قاصر و مقصر کے حکم میں فرق نہیں ہے ۔

( ۳۳۰) اگر کوئی مر جائے اور اس پر نماز طواف واجب ہو اور قضا نمازو ں کے باب میں مذکورہ شرائط موجود ہوں تو اسکا بڑا بیٹا اسکی قضا انجام دے ۔

( ۳۳۱) اگر نماز کی قرائت میں اعراب کی غلطی ہو اور وہ اس کی درستگی نہیں کر سکتاتو اس غلطی کے ساتھ سورہ حمد کا پڑھنا کافی ہے بشرطیکہ زیادہ مقدار اچھی قرائت کے ساتھ پڑھ سکتاہو ۔

لیکن اگر زیادہ قرائت درست قرائت درست قرائت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتاتو احتیاط یہ ہے کہ اپنی اس قرائت کے ساتھ پورے قران میں جو درست قرائت کر سکتاہو قرا ئت کرے اورف اگر یہ ناممکن ہو تو تسبیحات پڑھے ۔

اگر وقت کی تنگی کی وجہ سے پوری قرائت درست نہیں کر سکتااسی زیادہ مقدار سدست کرسجتا ہو تو اسی کو پڑھے ۔ اگر اس کی بضع زیادہ مقدار بھی درست قرائت نہ کرسکے تو قرآن کی وہ آیات جن قرائت درست پڑھ سکتا ہے پڑھے مگر اتنا پڑھے کہ عرف می اسے قرآئت قرتآن کہ اجاسکے اور گر یہ بھی نہیں کرسکتا تو تسبیحا تکا پڑھنا کا فی ہے ۔ جو کچھ بیان ہو وہ سورہ حمد کے بارے میں اور سوررہ حمدکی بعد والی سورہ کے بارے میں ظاہر یہ ہے کہ جس شخص نے اسے یاد نہیں کیا یایاد نہیں کر سکتا اس پر واجب نہیں ہے اور مذکلورہ حکم اہر اس شخص کے لیے ہے جوصحیح قرآئت نہیں کر سکتا ہے ۔چاہے نہ سکیھنے میں ہی مقصر ہی کیوں نہ ہوں لیکن مقصر ہونے کی صورت میں احوط اولی یہ ہے کہ مذکورہ طریقاے سے نماز پڑھے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھے نیز اپنی طرف سے کسی کو نائب بنائے جو اسکی طرف سے نماز اداکرے ۔

( ۳۳۲) اگر قرائت میں اعراب کو صحیح اد ا نہ کر سکتا ہو اور نہ جانننے نمیں معذورہو تو اسکی نماز صحیح ہوگیاور دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور اس پر بھول کر نماز طواف چھوڑ دینے والے کے احکا م جاری گا۔