مناسک حج

مناسک حج0%

مناسک حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

مناسک حج

مؤلف: آیۃ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 15373
ڈاؤنلوڈ: 2351

تبصرے:

مناسک حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15373 / ڈاؤنلوڈ: 2351
سائز سائز سائز
مناسک حج

مناسک حج

مؤلف:
اردو

سعی

عمرہ تمتع کا چو تھا واجب سعی ہے ۔

سعی کو قصد قربت اور خلوص سے ادا کرن امعتبر ہے ۔ شرمگاہ کو چھپانا یا حدث و خبث سے پاک ہو نا شرط نہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ طہارت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

( ۳۳۳) سعی کو طواف افر نماز طواف کی بعد انجام دینا چاہے لہذا اگر کوئی طواف یا نماز طواف سے پہلے انجام دے تو طواف اور نماز کے بعد دوبارہ انجام دینا واجب ہے ۔ وہ شخص کو طواف بھول جائے اور اسے سعی کے بعد اسے یاد اسکا حکم بیان ہوچکا ہے ۔

( ۳۳۴) سعی کی نیت میں یہ معین کرنا معتبر ہے کہ یہج عمرہ کی سعی ہے یا حج کی ۔

( ۳۳۵) سعی میں سات چکرہیں ۔پہلاچکر صفا سے شروع ہو مروہ پر ہے جب کہ دوسر ا چکر مروہ سے شروع ہو کر صفاپر ختم ہوتاہے اورتیسراچکر پہلے چکر کی طرح ہوگااسی طرح چکروں کوشمار کیا جائے گا۔

یہا ں تک کہ ساتواں چکر مروہ کپر ختم ہو گا ہرچکر صفاومروہ کے درمیاں کا پوراراستہ طے کرنا معتبر ہے اور ان پہا ڑیوں پر چڑھنا واجب نہیں اگرچہ اولی اور حوط ہے ۔ اسی طرح احوط ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ حقیقت میں پورا راستہ طے کرتے ہوئے مروہ کے ابتدائی حصے تک جائے اور باقی چکر بھی اسطرح مکمل کرے ۔

( ۳۳۶) اگر کوئی مروہ سے سعی شروع کرے چاہے بھولے سے شروع کرے پھر بھی جو چکر اس نے لگایا ہے وہ بیکار ہوگا اور ضروری ہے کہ سعی کو پھر سے شروع کرے ۔

( ۳۳۷) سعی میں )یدل چلنا معتبر نہیں ہے بلکہ حیوان دیاکسی ور چیز پر سوار ہو کر بھی سعی کی جاسکتی ہے ۔لیکن افضل چلنا ہے ۔

( ۳۳۸) سعی سے متعارف راستے سے آنا اورجانامعتبر ہے ۔لہذااگر کوئی غیر مترارف راستے سے مسجدالحرام یا کسی اورراستے سے جائے یا آیے تویہ کافی نہیں ہے ۔تاہم بالکل سیدھا یا جانا یا آنامعتبر نہیں ہے ۔

( ۳۳۹) مروہ کی طرف جاتے ہوئے اورمروہ کی افر اور صفا کی طرف جاتے ہوئے صفا کی طرف رخ ہونا ضروری ہے ۔لہذااگر کوئی مروی کی طرف جاے ہوثئے پشت کرلے یا صفا طرف واپس آتے ہوئے صف اکی جانب پشت کرے تو یہ کافی نییں ہے لیکن آتے یا جاتے ہوئے دائیں بائیں یا طپیچھے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

( ۳۴۰) احوط یہ ہے کہ طو اف کی طرح سعری میں بنھی موالات عرفی کو ملحوظ رکھا جائے تاہم صفا یا مروہ یا انکے درمیانی راستے میں آرام کے لیے بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان تھکنے کے علاوہ نہ بیٹھا جائے ۔اسی طوح سعی کو روک کر نماز افضل وقت میں پڑھنا اور نماز کے برد سعی جو دوبارہ ویہں سے شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔سعی کو کسی ضرورت کے بغیر کسی ضرورت کے لیے توڑنا بھی جائز ہے ۔لیکن اگفگر تسلسل خرم ہوجائے تو احوط یہ ہے کہ اس سعی کو بھی مکمل کرے اور دوبارہ بھی انجام دے ۔

احکام سعی ۔

سعی ارکان حج میں سے ایک رکن ہے لہذا اگر کوئی مسلئلہ نہ جانتے ہوئے یا خود سعی کے بارے میں علم نہ رکھنے کی وجہ سے جان بوجھ کر سعی کواس وقت تک ترک کردے کہ اعمال عمرہ کو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے تک انجام دینا ممکن نہ ہو تو اسکا حج باطل ہے ۔اسکاحکم وہی ہے جو اس طرح طواف کو چھوڑ دینے والے کا حکمن ہے جوطواف کے باب میں بیان ہوچکاہے ۔

( ۳۴۱) اگر بھول کر سعی چھوٹ جائے تو جب بھی یاد آئے خواہ اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد یاد آئے سعی ادا کی جائے اگر خواد ادا کرنا ممکن نمہ ہو یا حرج و مشقت و زحت جو تو کسی دوسرے کو سعی کے لیے نائب بنایاجائے اور دونوں صورتوں میں حج صحیح ہوگا ۔

( ۳۴۲) جو شخص سعی کو اس کے وقت مقررہ پر انجام دینے پر قادر نہ ہو حعی ک کسی کی مدد سے بھی سعی نہ کر سکتاہو تو واجب ہے کہ کسی کی مدد طلب کرے تاکہ وہ دوسرت شخص اسے کندھوں پر اٹھاکر یایاکسی گاڑی وغریہ نیں بیٹھا کر سعی کرائے ۔اگر اسطرح سے بھی سعی نہ کر سکتاہو تو کسی کو سعی کے لیے نائب بنائے اور نائیب بنانے پر قادر نہ ہو مثلابیہوش ہو تو اسکا ولی یاکوئی ور شخص اسی جانب سے سعی انجام دے ،اس طرح اس کا حج صحیح ہو گا ۔

( ۳۴۳) طواف اور نماز طواف سے فارغ ہونے کے بعد احتیاط کی بناء پر سعی میں جلدی کی جائے ۔ اگرچہ طاہر یہ ہے کہ رات تک تاخیر کرناجائز ہے ۔تاکہ تھکن دورہوجائے یاگرمی کی شدت کم ہوجائے ۔بلکہ اقوی یہ ہے کہ بغیرسبب کے بھی رات تک تاخیر کرناجائز ہے لیکن حالت اختیار میں اگلے دن تک تاخیر کرناجائز نہیں ہے ۔

سعی میں چکروں کے زیادہ ہونے ک وہی ہے جو طواف میں چکروں زیادہ ہونے کا ہے لہذ ا طواف کے بابب میں مذکورہ بیان کی مطابق سعی میں بھی جان بوجھ کرزیادتی کی جائے توسعی باطل ہو گی ۔ لکین اگ رمسلئکہ نہ جانتا ہو تو اظہریہ ہے کہ زیادتی کی وجہ سے سعی باطل نہیں ہو گی اگرچہ احوط یہ ہے کہ سعی دوبارہ انجام دی جائے ۔

( ۳۴۵) اگر غلطی سے سعی میں اضافہ ہو جائے تو سعی صحیح ہوگی اور ایک چکر یا اس سے زیادہ اضافہ ہو تو مستحب یہ ہیکہ اس سعی کی بھی سات چکر پورے کیے جائیں تاکہ یہ پہلی سعی کے علاوہ مکمل سعی ہوجائے چنانچہ ا سکی سع کا اختتام صفاپر ہو گا۔

( ۳۴۶) اگر کوئی جان بو جھ کر سعی کے چکروں کو کم یا زیادہ انجام دے جاہے مسئلہ جانتے ہوئے یانہ جانتے ہوئے تو اسکا حکم اس شخص کی حکم کی طرح ہے جو جان بوجھ کر سعی کو چھو ڑدے جس کا بیان پہلے ہوچکا ہے ۔ لیکن اگر بھول کر کمی ہوجائے تو اطحر یہ ہے کہ جب یاد آجائے تو اس وقت اس کمی کو پورا کرے چاہے وہ ایک چکر ہو یا ایک سے زیادہ چکر ہوں اگر سعی کا وقت ختم ہونے کے بعد یاد آئے مثلا عمرہ تمتمع کی سعری میں کم ی عرفات میں یہاد ؤآئے کیا حک کی سع ی من کمی جکی طرف ۔ماہ ذالحجہ گزرنے کے بعد متوجہ ہو تو یہ کہ کمی کو پور اکرنے کے بعد سعی کو بھی دوبارہ انجام دی جائے ۔ اگر خود انجام نہ دے سکتاہو یا خود انجام دینے میں زحمت و مشقت ہو تو کسی نائب بنانے اور احتیاط یہ ہی کہ نائب بھولے ہوئے چکر کا جبران بھی کرے سعی بھی دوبارہ انجام دے ۔

( ۳۴۷) اگرکسی سے عمرہ تمتمع کی سعی میں بھول کر کمی ہوجاے اور یہ شخص یہ سمجھتے ہوئے کہ سع سے فارغ جوگیا ہے احرام کھو ل دے تو احوط یہ ہے کہ ایک گائے کفا رہ دے اوربیان شدہ تعرتیجب کے مطابق سعی کو مکمل کرے ۔

سعی میں شک

سعی کا موقع گزرنے کے بعد اگر رسعی کے چکروں کی تعداد یا انکے صحیح ہونے کی بارے میں شک ہوتو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے مثلاعمرہ تمتع میں تقصیر کے بعد سرعی کے چکروں کی تعداد یا صحیح ہونے کا شک یا حج میں طواف النساء شروع ہونے کے بعرد شک ہوتو اس شک ی پرواہ نہ کی جائے ۔ اگر سعی سے فارغ ہونے کے بعد ہی چکروں کے زیادہ ہونے کے بارے میں شک ہو تو سعی کو صحیحح سمجھاجائے ۔ اگر چکروں کے کم ہونے کا شک تسلسل ختم ہونے سے پہلے ہوتو سعی باطل ہو گی بلکہ احتیاط کی بناپر تسلسل ختم ہونے کے بعد شک ہو تب بھی سعی باطل ہو گی ۔

( ۳۴۸) اگر چکر کے اختتام پر زیادہ ہونے کا شک ہو مثلا مروہ پہنچ کر شک ہو کہ یہ ساتواں چکر تھا یا نواں تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے اور یہ سعی صحیح ہوگی ۔اگر چکرکے دوران یہ شک ہو تو سعی باطل ہے اور واجب ہے کہ سعی پھر سے شروع کی جائے ۔

( ۳۴۹) سعی کے دوران شک کا حکم وہی ہے جو طواف کے دوران چکروں کی تعداد میں شک کا حکم ہای چنانچہ سعی کے دوران چکرواں کی تعرداد کی شک سے ہر صورت میں سعی باطل ہے ۔

تقصیر

عمرہ تمتع میں پانچوان واجب تقصیر ہے ۔

تقصیر میں قصد قربت اور خلوص معتبر ہے تقصیر کا مطلب یہ ہے کہ حاکی اپنے سر، داڑھی یامونچھوں کے کچھ بال کاٹے ۔اظہر یہ ہے کہ کاٹنے کی بجائے نوچنا کافی نہیں ہے ۔ فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ ہگااتھ پاؤں کا کوہئیناخن کاٹنے سے بھی تقصیر وجود میں آجاتی ہے لیکن احؤط یہ ہے کہ ناخن کاتنے کو کافی نئہ سججھا جائے ورف اور بال کاٹنے تک اسکو کاٹنے میں تاخیرکی جائے ۔

( ۳۵۰) عمرہ تمتع کے احرام کو صرف تقصیر ہی کے ذریعے کھولاجاسکتاہے ۔ سر منڈوانا کافی نہیں ہے بلکہ سر منڈوانا حرام ہے لہذ اکوئی جان بثجھ کر سر مونڈھ لے تو ضوفر ی ہے کہ ایک بکری کفارہ دے بلکہ احوط اولی یہ ہے کہ چاہے جان بوجھ کر نہ بھی مونڈھے تب بھی کفارہ دے ۔

( ۳۵۱) اگر کوئی سعی کے بعد اور تقصیرسے پہلے اپنی بیوی ساتھ جان بوجھ کر ہمبستری کرے تو ایک اونٹ کفارہ دے جیسا کہ تروک احرام کی بحث میں بیان ہو ا۔لیکن حکم شرعی نہ جانتے ہوئے یہ فعل انجام دے تو اظہر یہ ہے کہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا ۔

( ۳۵۲) تقصیر کو سعی کے بعد انجام دینا چاہے لہذ اسعی ک ومکمل ہونے سے پہلی تقصیر اانجام دینا جائز ہے ۔

( ۳۵۳) سعی کے بعد تقصیر فوراانجام دیناواجب نہیں اور جائز ہے کہ تقصیر کو کسی بھی جگہ انجام دے خواہ سعی کی جگہ پر یا اپنے گھر میں یا کسی اور جگہ ۔

( ۳۵۴) اگر کوئی جان بوجھ کر تقصیر چھوڑ دے اور پھر حج کی لیے حرام باندھ لے تو ظاہر ہے کہ اسک اعمرہ باطل ہو جائے گا اور اس کا حج ،حج افراد میں تبدیل ہوجائے لہذ ا اگر حج کے بعد اگر ممکن ہو ت عمرہ مفردہ کرے اور احوط یہ ہے کہ اگلے سال دوبارہ حج انجام دے ۔

( ۳۵۵) جب عمرہ تمتع میں محرم شخص تقصیر انجام دے تو جو چیزیں احرم ی وجہ سے حرام ہوئے تھیں حلال ہوجائیں گی حتی کہ اظہر یہ ہے کہ سر منڈوانا بھی حلال ہوجائے گا اگرجہ احوط یہ ہے کہ عید الفطر سے تیس دن گزرنے تک سر مونڈنے سے اجتناب کرے ۔ اگر کوئی یہ جانتے ہوئے بھی عمد اسر مونڈھے تو احوط اولی یہ ہی خہ ایک قربانی کفارہ دے ۔

( ۳۵۷) عمرہ تمتع میں طو اف النساء واجب نہیں ہے کیکن رجا کیا جاسکتاہے ۔

احرام حج

پہلے بیان ہوچکا ہگے کہ حج کے واسجبات تیرہ ہیں جن کا اجمالا ذکر کیاگیا اور اب ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے ۔

احرام ۔

احرام ِ حج کا اول وقت ترویہ کی دن ( ۸ ذی الحجہ )زوال کا وقت ہے ۔ تاہم بوڑھے او ربیمارشخص کو جب ہجوم کاخوف ہو تو ان کے لیے جائز ہے کہ ترویہ کے دن سے پجلے دوسرے لوگوں کے نکلنے سے پہلے احرام باندھ کر مکہ سی نکل جائیں ۔اسی طرح وہ شخص جس کی لیے طواف حج ک ودو وقوف سے پہلے انجام دیناجائز ہے ۔ مثلاوہ عورت جسے حیض کا خوف ہوتو اس کے لیے بھی پہلے احرام باندھنا جائز ہے ۔ پہلے بیان ہو چکاہے ۔کہ عمرہ تمتع سے فارغ ہونے کے بعد کسی وقت بھی حج کے احرام میں مکہ سے کسی کام کے لیے باہرجانا جائز ہے مذکورہ موقعوں کے علاوہ بھی تین دن پہلے بلکہ اظہر یہ ہی کہ تین دن سے پہلے بھی احرام باندھنا جائز ہے ۔

( ۳۹۸) جسطرح عمرہ تمتع کرنے والے کے لیے تقصیر سے پہلے حج کے لیے ہرام بناندھنا جائز نہیں ہے اسی طرح حج رنے والے کی لیے ہبھی حج کے احرام کو اتارنے سے پہلے عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھناجائز بہیں ہے حاجی پر طواف النساء کی علاوہ کچھ باقی نہ رہا ہو تب بھی بنابر احوط احتیاط حجاک ہرام اتارنے سے پہلے عمرہ مفردہ کا حرام نہیں باندھ سکتا۔

( ۳۵۹) جو شخص اختیاری طور پر یوم عرفہ کی وقوف کا پوار وقت عرفہ میں حاصل کرسکتاہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام باندھنے مجین اتنی دیر کرے کہ پھر عرفہ کے وقوف کا وقت پورا حاصل نہ کرسکے ۔

( ۳۶۰) حج اور عمرہ کے اہرام کے طریقہ واجنبات اورمحرمات ایک ہی ہے صرف نیت کا فرق ہے ۔واجب ہے ۔

( ۳۶۱) واجب ہے کہ احرام مکہ سے باندھاجائے جیساکہ میقاتوں کی بحث میں بیان ہو ا۔ احرام باندھنے سب سے افضل جگہ مسجد الحرام ہے ۔اور مستحب ہے کہ مقام ابراہیم یا حجر اسمعیل میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد احران باندھا جائے ۔

( ۳۶۲) جو شخص بھول کر یاحکم شرعی نہ جاننے کی وجہ سے حرام کو چھو ڑدے یہاں تک کہ مکہ سے باہر چلاجائے پھر اسے یاد آئے یامسئلہ کا پتہ چلے تو اس پر مکہ واپس جانا واجب ہے خواہ عرفات سے واپس جانا پڑے اور پھر مکہ سے احرام باندھے ۔ اگر وقت تنگ ہونے یاکسی اور وجہ سے واپس نہ جاسکتاہوتو جہاں ہو وہیں سے احرام باندھ لے ۔یہی حکم ہے جب وقوف عرفات کے بعد یاد آئے یا مسئلہ پتہ چلے خواہ مکہ واپس جانااور وہاں سے احرام باندھا ممکن ہو اگر یادہی نہ آئے یامسئلہ ہی پتہ نہ چلے یہاں تک کہ حج سے فارغ ہو جائے تو حج صحیح ہو گا ۔

( ۳۶۲) اگر کوئی احرم کو واجب جانتے ہوئے جانب بوجھ کر چھوڑ دے یہاں رک ہ عرفات میں وقوف کا وقت نھی اسکی وجہ سے ختم ہو جائے تو اس کا حج باطل ہو گا ۔لیکن اگروقوف ۔۔جوکہ رکن ہے ۔۔کہ ختم ہونے سے پہلے احرام کا جبران کرلے تو اگرچہ گنہگار ہو گا تاہم اس کا حج باطل نہیں ہو گا۔

( ۳۶۴) احتیاط یہ ہے کہ حج تمتع کرنے وال اشخص حج کا حرام باندھنے کے بعد او عرفات سے نکلنے سے پہلے مستحب طواف نہ کرعے اور افگر کوئہے مستحب طواف کرے تو احو ط اولی یہ ہے کہ طواف کے بعد دوبارہ تلبیہ کہے ۔

وقوف عرفات

حج تمتع کے واجبات میں دوسرا واجب وقوف عرفات ہے ۔ جسے قربة الی اللہ اور خلوص نیت سے انجام دینا چاہیے ۔وقوف عرفات سے مراد یہ ہے کہ حاجی عرفات میں موجود ہواس سے فرق نہیں پڑتاسواری کی حالت میں ہو پیادہ ،متحرک ہو یاحالت سکون میں ۔

( ۳۶۵) میدان عرفات کی حدود عرنہ ،ثوبہ اور نمرہ کے میدان سے ذی المجاز تک اور مازین کے آخر موقف (وقوف کی جگہ )تک ہے ۔ البتہ یہ خود حدود عرفات ہیں اور وقوف کی جگہ سے خارج ہے ۔

( ۳۶۶) ظاہر یہ ہے کہ رحمت نامی پہاڑی وقوف کی جگہ میں شامل ہے لیکن پہاڑی کے دامن میں بائیں جانب قیام کرنا افضل ہے۔

( ۳۶۷) وقوف میں معتبر یہ ہے کہ وہاں سے رہنے کی نیت سے ٹھہرے پس اگر حاجی اول وقت میں وہاں ٹھہرنے کی نیت کرے مثلاآخر تک سوتا رہے یا بیہوش رہے تو یہ کافی ہے ۔لیکن اگر نیت سے پہلے سوتارہے یابہوش رہے تو وقو ف ثابت نہیں ہو گا۔اسی طرح اگر وقوف کی نیت کرکے وقوف کا پورا وقت سوتا رہے یابیہوش رہے تو اس وقوف کے کافی ہونے میں اشکا ل ہے ۔

( ۳۶۸) واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کوعرفات میں حاضر ہو اور بنا بر احتیاط زوالِ آفتاب کی ابتدا سے غروب تک وہاں رہے اظہر یہ ہے کہ زوال سے اتنی دیر تاخیر کرسکتاہے کہ غسل کرکے ظہر و عصر کی نماز ملا کر پڑھ لے ۔اگرچہ اس پوارے وقرت میں وہاں رہنا واجب ہے اور کوئی جان بوجھ کر چھوڑ ے تو گنہگار ہوگا مگر یہ کہ یہ رکن نہیں ہے ۔یعنی اگر وقوف کے وقت اگر کچھ مقدار چھوڑ دے تواسکاحج باطل نہیں ہو گا ۔تاہم اگرکوئی اختیار پورا وقوف چھوڑ دے تو اسکا حج باطل ہوجائے گا۔لہذا وقوف میں سے جو رکن ہے وہ فی الجملہ (یعنی کچھ مقدار قیام )رکن ہے (نہ کہ پوراوقوف)۔

( ۳۶۹) اگر کوئی شخص بھو ل کر یا لاعلمی کی وجہ سے کسی اور عذر کی وجہ سے عرفات کے اختیاری قیام (دن میں قیام )کو حاصل نہ کرسکے تو اسکے لیے وقوف اضطراری ہے ۔۔۔شب عید ضروری ہے اور اسک احج صحیحح ہوگااور اگر جان بوجھ کر وقوف اضطراری کو چھوڑ دے تو حج باطل ہو جائیگا ۔یہ حکم اس وقت ہے کہ جب اسکے لیے وقوف اضطراری کو اس طرح سے حاصل کرنا ممکن ہو کہ اس کی وجہ سے طلوع آفتاب سے پہلے وقوف معشر ختم نہ ہوتاہو ۔لیکن اگر عرفات میں وقوف اضطراری سے وقت مقررہ وقوف معشر کے ختم ہونے کا خوف ہو تو صرف وقوف معشر پر اکتفا کرناواجب ہے اور اسک احج صحیح ہو گا۔

( ۳۷۰) جاب بوجھ کر غروب آفتاب سے پہلے عرفات سے باہر جانا حرام ہے لیکن اس کی وجہ سے حج باطل نہیں ہوتاچنانچہ اگر کوئی جاکر واپس آجائے تو اسکا کفارہ واجب نہیں ہے ورنہ ایک اونٹ کفارہ واجب ہو گا ۔جسے عید دن قربان کے دن نحر کرے ۔ اہوط یہ ہے کہ اونٹ کو منی جین اربان کرے نہ کہ مکہ میں اگرقربانی کرناممکن نہ ہو تو مکہ میں یاراستے میں یاگھر واپس آکر اٹھارہ روزے رکھے ۔احوج اولی یہ ہے کہ روزے پے در پے رکھے یہی حکم اس شخص کیلیے ہے بھی ہے جہو بھول کرف یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے عرفات سے باہر نکلے ۔لہذ اجب بھی اسے یاد آئیے یا مسئلہ پتہ چلے اس پر عرفات میں واپس جابن اواجب ہے او اگر واپس نہ جائے تو احوط یہ ہے کہ کفارہ دے ۔

( ۳۷۱) چونکہ حج کے بعض اعمال مثلاوقوف عرفات و مشعر ،فمی جمرات اور منی میں رات گزارنے کے لیے دن او رات مخصوص ہیں تو مکلف کا وظیفہ یہہے کہ وہ اس مہینے کے چاندکے بارے میں تحقیق کرے تاکہ اعمال حج کو ان کے مخصوص دن یارات میں ادا کر سکے ۔جب ان مقدس مقامات کے قاضی کے نزدیک چاند ثابت ہوجائے اور وہ اسکے مطابق حکم کرے ،جب کہ چاند کا ثابت ہو ان قوقانین شرعیہ کے مطابق نہ ہو تو بعض فقہاء نی کہا ہے کہ قاضی خ ہکم اس شخص کی لیے حجت ہے افور قابل عمل ہے جسے احتما ل ہو کہ یہ حکم واقع کے مطابق ہے لہذ ااس مکلف کیلیے ضروری ہے کہ وہ اس حکم کی اتباع کرے اور چاند کے ثابت ہونے کی اثار سے مربوط حج کے اعمال مثلاوقوف عرفات و مشعراورمنی میں رات گزراناوغیرہ کو حکم کے مطابق انجام دے چنانچہ اگر اس نے حکم کے مطابق عمل کیا تو اسکا حج صحیح ہوگا ورنہ باطل ہو گا ۔ بعض فقہاء نے یہاں تک فرمایا ہے کہ تقیہ کے سبب اس وقت قاضی کی حکم کی اتباع کرنا کافی ہے جب حکم کے واقع کے مطابق ہونے کا احتمال نہ ہو لیکن چونکہ دونوں قول انتہائی مشکل ہیں لہذ ااگر مکلف کے لیے اعمال حج کو انکے شریعی طریقے سے ثابت شدہ وقت خاص میں انجام دینا ممکن ہو اوروہ انجام دے تو بنا بر اظہر اسکا حج مطلقا صحیح ہوگا ۔ لیکن اگر اعمال حج کو کسی بھی عذ ر کی وجہ سے اس طرح انجام نہ دے اور وقوفین میں قاضی کی حکم کی پیروی بھی نہ کرے تو اس کا حج باطل ہونے میں کوئے شک نہیں ہے ۔اگر قاضی کے حکم کی اتباع کرے تو اس کا حج صحیح ہونے میں اشکال ہے ۔

وقوفِ مزدلفہ (مشعر)

حج تمتع کے واجبات میں سے تیسرا واجب وقوف مزدلفہ ہے ۔ مزدلفہ اس جگہ کا نام ہے جسے مشعر الحرام کہتہے ہیں اس موقوف کی حدود مازمیں سے حیاض اوروادی مہسیرتک ہیں یہ مقامات موقوف کی حدود ہیں ۔ خود وقوف کی جگہ میں شا مل نہیں ہیں ۔سوائے اس وقت کے جب ہجوم زیادہ ہو او ر وقوف کی جگہ تنگ ہورہی ہو تو اس وقت جائز ہے کہ مازین کی طرف سے اوپر جائیں (مازمیں عرفات اور مشعر الحرام کی درمیان ایک گھاٹی کا نام ہے )۔

( ۳۷۲) حج کرنے والے پر عرفات سے نکلے کے بعد واجب ہے کہ شب عید سے صبح تک کچھ وقت مزدلفہ میں قیام کرے احوط یہ ہے کہ مزدلفہ میں طلوع آفتاب تک رہے ۔اگر چہ اظہر یہ ہے کہ مزدلفہ سے وادی مہسر جانے کے لیے طلوع سے کچھ پہلے نکلنا جائز ہے تاہم وادی مہسر سے منیٰ کی طرف طلو ع آفتاب سے پہلے جاناجائز نہیں ہے ۔

( ۳۷۳) مذکورہ تمام وقت اختیاریطو ر پر مزدلفہ میں رہنا واجب ہے ۔ مگر یہ کہ وقوف ومیں سے جو رکن ہے وہ کچھ مقدار میں ٹھہرناہے چنانچہ اگرکوئی شب عید کا کچھ حصہ مزدلفہ میں ررہے پھر وہاں سے طلوع آفتاب سے پہلے نکل جائے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا حج صحیح ہو گا۔لیکن اگر مسئلہ جانتے ہوئے نکلے تو اس پر ایک بکری کفارہ وہوگی ۔اور مسئلہ نہ جانتے ہوئے نکلے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے ۔ اس طرح اگرطلوع فجرو طلوع آفتابکے درمیان کچھ مقدار مزدلفہ میں رہے اور کچھ مقدار نہ رہے خواہ جان بوجھ کرنہ رہاہو اس کا حج صحیح ہے اور کفارہ بھی واجب نہیں ہے اگرچہ کہ گنہگار ہوگا۔

( ۳۷۴) مزدلفہ میں وقت مقررہ میں وقوف (قیام کرنا)واجب ہے اس حکم سے بعض افراد مثلاخائف عورتیں ،بچے ،بوڑھے اورمریض جیسے کمزورلوگ اور وہ لوگ جو ان افرادکے امور کی سرپرستی کرتے ہوں مستثنیٰ ہیں لہذ ا ان افراد کے لیے شب عید مزدلفہ میں رہنے کے بعد طلوع فجر سے پہلے منی کے لیے روانہ ہو نا جائز ہے۔

( ۳۷۵) وقوف مزدلفہ کے لیے قصد قربت اور خلوص نیت معتبرہیں یہ بھی معتبر ہے کہ ارادے و اختیارسے وہاں رہے جیسا کہ وقوف عرفات میں بیان ہو چکا ہے

۔( ۳۷۶) جو شخص مزدلفہ میں وقوف اختیاری (شب عید سے طلوع آفتاب تک رہنا )بھولنے یا کسی اور وجہ سے حاصل نہ کرسکے تو وقوف اضطراری عید کے دن طلوع آفتاب سے زوال کے درمیان کچھ دیروہاں رہنا کافی ہو گا۔اگر کوئی وقوف اضطراری کو جان بوچھ کردے تو اس کا حج باطل ہو گا

دونوں یا کسی ایک وقوف کو حا صل کر نا

پہلے بیان ہو چکا ہے لہ وقوف اور وقوف مزدلفہ میں سے ہر ایک کی دو قسیں ہیں وقوف اختیاری اور وقوف اضطراری اگر مکلف دونمو وقوف اختیاری حاصل کرے تب رو کوہی اشکال نہیں ہے اور اگر وقوف احتیاری کسی عزر کی وجاہ سے حاصل نہ کر دکے تو اس کی چند صورتیں ہیں

۱ ۔ دونوں وقوف کے اخریاری و اضطراری میں سے کوئی حاصل نہ ہو تو حج واطل یوگا اور واجب ہے لہ اس حج لے احرام سے عمرہ مفردہ انجام ،دیا جاہے اگر یہ حج حج الاسلام تھا رو واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو یاحج اس کے ذمہ ثابت و واجب ہو چکا ہو تو آہندہ سال دوبرہ حج کرے

۲ عرفات جا وقوف اختیاری اور مزدلفہ کا وقوف اضطراتی حاصل ہو

۳ ۔عت فات کا وقوف اضطراتی اور مزدلفہ لا ورف اختیاری حا صل ہو درج والا دونوں صورتوں میں بلا اشکال حج صحیح ہے

۴ عرفات کا وقوف اضطراری حاصل ہوں تو اظہر یہ ہے لہ حج صحیح ہے اگر چہ احوط طج ہے لہ اگلے سال دوبرہ حج لیا جاے جیسا کہ پہلی صورت میں ذلر ہوا

۵ ۔ صرف مزدلفہ دوونں کے وقوف اضطرارے حصال ہو تو حج صحیح ہے

۶ ۔ صرف مزدلفہ کا وقوف اضطراری حاصل تو اظہر ین ہے کہ حج باطل ہو جاے گا اور عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جاے گا

۷ ۔ صرف عتفات کا وقوف اختیاری حاصل ہر تو اظوہر یہ ہے کہ حج باطل ہو جاے گا اور عمرہ مفردہ میں تبودیل ہو جاے گا اس حکم سے یہ موتد مستثنی ہے لہ جب حاجی مزدلفہ کے وقت اختیاری میں منی جاتے ہوے مزدلفہ سے گزتے لیکن مسلہ نہ جانے کی وجہ سے وہاں قیام کی نیت نہ کرے تو اگر وہاں سے گزرتے ہوے یزلر خدا کیا ہو تو بعید نہیں ہء کہ اس کا حج صحیح ہو

۸ ۔ صرف عففات کا وقوف اصطراری حاصل ہو ا ہو تو اس کا حج بواطل ہو گا الور عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جاہے گا