مناسک حج

مناسک حج0%

مناسک حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

مناسک حج

مؤلف: آیۃ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 15394
ڈاؤنلوڈ: 2352

تبصرے:

مناسک حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15394 / ڈاؤنلوڈ: 2352
سائز سائز سائز
مناسک حج

مناسک حج

مؤلف:
اردو

منی اور اس کے واجبات

حاجی پر واجب ہے لہ وقوف مزدلکہ کے وعد منی جانےء کے لیے نکلے تاکہ وہ اعمال جو منیٰ میں واجب ہیں انہیں انجام دے سکے اور یہ تین اعمال ہیں جنکی تفصیل درج ذیال ہے

رمی جمراہ عقبہ(جمرہ عقبہ کو کنکر مارنا)

واجبات حج میں سے چوتھاواجب عید قربان کے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مارن اہے اس میں چنبد چیزیں معتبرہیں ۔

۱ ۔قصدقربت اورخلوص نیت ۔

۲ ۔رمی سات کنکرں سے ہو ،اس سے کم کافی نہیں اسی طرح کنکروں کے علاوہ کسی ور چیز سے مارناکافی نہیں ہے ۔

۳ ۔ایک ایک کر کے سا ت کنکرمارے جائیں چنانچہ ایک ہی مرتبہ میں دویازیادہ کنکر مارناکافی نہیں ہے ۔

۴ ۔جو کنکر جمرہ تک پہنچے وہ ی شمار ہوگا چنانچہ جو کنکر جمرہ تج نہ پہنچے وہ شمار نہیں ہو گا۔

۵ ۔کنکر پھینکنے کی وجہ سے جمرہ تک پہنچے ،چنانچہ جمرہ پر رکھ دینا کافی نہیں ہے ۔

۶ ۔کنکر کو پھیکنا اور جمرہ تک پہنچنا ہاجی کے پھینکنے کی وجہ سے ہو چنانچہ اگر کنکر حاجی کے ہاتھ میں اور حیوان یا کسی ور انسان کے ٹکرانے کی وجہ سے کنکر جمرہ کو لگ جائیے تو یہکافی نہیں ہے اسی طرح اگر حاجی کنکر پھینکے اور وہ حیوان یا کسی انسانپر جاکرے اوراس کے حرکت کرنے کے وجہ سے جمرہ کو لگ جائے تو کافی نہیں ہے ۔ لیکن کنکر اپنے راستے میں کسی چیز کو لگ کر پھر جمرہ کو لگے مثلا کنکر سخت زمیں کو لگ کر پھر جمرہ کو لگے تو ظاہر یہ ہے کہ یہ کافی ہے ۔

۷ ۔رمی ہاتھ سے کرے پس اگر منہ سے یاپاؤں سے کرے تو کافی نہیں ہے اسی طرح ہوط یہ ہے جہ کسی آلے سے مثلا غلیل وغیرہ کے ذریعے سے رمی کرنا کافی نہیں ہے ۔

۸ ۔رمی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب ک درمیان ہو ،تاہم عورتیں او وہ تمام افراد جن کے لیے مشعر سے رات نکلنا جائیز ہے شب عید رمی کر سکتے ہیں ۔

( ۳۷۷) کنکروں میں دو چیزیں معتبر ہیں ۔

۱ ۔اگرکسی کو کنکر لگنے میں شک ہو تو وہ سمجھے کہ نہیچ لگا سوائے اس کے کہ شک موقع گزرنے ک بعد ہو مثلا قربانی کے بعد یا حلق کے بعد یا رات شروع ہونے کے بعد شک ہو ۔

( ۳۷۸) کنکروں میں دو چیزیں معتبر ہیں ۔

۱ ۔کنکروں کو حرم کی حدود سے سوائے مسجدالحرام اور مسجد الخیف کے اٹھائیں جائیں افضل یہ ہیں کہ مشعر سے اٹھا یا جائے ۔

۲ ۔ نابر احتیاط کنکر پہلے سے استعمال شدہ نہ ہوں یعنی کنکروں کو پہلے رمی کے لے یا استعمال نہ کیا گیاہومستحب ہے کہ کنکر رنگدار ،نقطہ دار اور نرم ہوں نیز حم کی لاحاظ سے انگی کے پور کے برابر ہوں جسے رمی کر نے والا کثڑا ہو کر اور ب اطہارت ہو کر م کرے

۳۷۹ ۔ اگر جمرہ کی لمبا ئی کو بڑھایا جائے اور اس زائد مقدار پر رمی کے کافی ہونے میں اشکال ہے احوط یہ ہے کہ جمرہ کی پہلے ہو مقدار تھی اسی پر رمی کی جائے اگر پرانی مقدار پر رمی کرنا ممکن نہ ہو تو خود زائد مقدار پر رمی کی جائے اور پرانی مقدپر پر لومی کرنے کے لئے کسی کو ن بھی بنانا جائے اس مسئلہ میں مسئلہ جاننے اور نہ جاننے والے اور بثول جانے والے مکیں فرق نہیں ہے

۳۸۰ ۔ اگر کوئی بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے یا کسی اور وجہ سذے عید کے دن رمی یہ کرے تو جب یاد آئے یا عذر دور ہو جائے تو رمی انجام دے اگر یہ عذر رات میں دور ہو تو ضروری ہے کہ دن تک تاخیر کرے جس جس کا بیجن جمروں کی رمی کی بحث میں آئے گا ظاہر یہ ہے کہ عذر دور ہونے کے بعد جبران کرنا اسوقت واجب ہے جب حا جی منی میں بلکہ مکہ میں ہو حتی کہ اگر عذر وسبب تیرہویں ذی الحجہ کے بعد دورہو اگر چہ احوط یہ ہے کہ اس صورت میں رمی جکو آئندہ سال خود یا نائب کے ذریعے دوبرہ انجام دے اگر مکہ دے نکلنے کے بعد عذر زائل ہو تو مکہ واپس جانا واجب نہیں ہے بلکہ احوط اولَی یہ ہے کہ آئندہ سال خود یا نا ئب کے ذریعے رمی انجام دے

۳۸۱ ۔اگر کوئی بھول جانے جا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے عید کے دن رمی نہ کرے پھر اسے طواف کے بعدیاد آئے یا مسلہ پتہ چلے اور وہ رمی انجام دے تو دوبرہ طواف کرنا واجب نہیں ہے تاہم احتیاط یہ ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر رمی کو بھولنے یا مسلہ نہ جاننے کے علاوہ کسی اور وجہ دے چھوڑا ہو تو ظاہر یہ ہے کہ اس کا طواف باطل ہو گا لہذا رمی لرنے کے بعد طواف کو دوبارہ انجام دینا واجب ہے

منی میں قربانی

قربانی کرنا حج تمتع کے واجبات میں سے پانچواں واجب ہے اس میں قصد قربت اور خلوص معتبرہے قربانی یوم عید سے پہلَے نہ لرے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو چنا چہ خائف شخص کیَلئے شب عید قربانی کرنا جائز ہے احتیاطی کی بانئگ رپ قربانی رمی کی بعد کرنا واجہب ہے لیکنا گر کوئی بھول کر ای مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے قربانی رمی سے پہلے کرے تو اس کی قربانی صحیح ہو گیا ور دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے واجہ ہے کہ قربانی منی میں ہو تاہما گر حاجیوں کے زایدہ ہونیا ور جگہ کم ہونے کی وجہ سے منی میں قربانی کرنا ممکن نہ ہو توبعید نہیں ہے کہ وادی محسر میں قربانی کرنا جائز ہو اگرچہ احوط یہ ہے کہ ایام تشریق ( ۱۱’۱۲‘۱۳ ذی الحجہ ) کے آخر تک منی میں قربانی نہ کر سکنے کا جب تک یقین نہ ہو اس وقت تک وادی محسر میں قربابی نہ کی جائے ۔

۳۸۲ ۔ احتیاط یہ ہہے کہ قربانی عید قربان کے دن ہو اگرچہا قوای یہ ہے کہ قربانی کو ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہر ات حتی کہ ایام تشریق کے آخر تک تاخیر کرنا جائز ہے احتیاط یہ ہے کہ رات حتی کہ ایام تشریق کی درماینی راتوں میں بھی قربانی نہ کی جائے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو ۔

۳۸۳ ۔ اگر مستقل طور پر قربانی کرنے رپ قدر ہو تو ایک قربانی ایک شخص سے کفایت کرے گی اور اگر اکیلا شخص قربانی پر قادر نہ ہو تو اس کا حکم مسئلہ ۳۹۶ میں آئے گا ۔

( ۳۸۴) ۔ واجب ہے کہ قربانی کا جانور اونٹ گائے یا بکری وغیرہ ہو اونٹ کا فی ہو گا جب وہ پانچ سال مکمل کرکے چھٹے سال داخل ہو چکاہو ،گاے اوربکری بنا بر احوط اس وقت کافی ہوں گے جب دو سال مکمل کرکے تیسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اوردنبہ اس وقت کافی ہوگا جب سات مہینے پورے کر کے آٹھویں مہینے میں ڈاخل ہو جائے ۔اگر قربانی ککرنے کے بعد پتہ چلے کہ جانور مقررہ عمر سے چھوٹاتھا تو کافی نییں ہوگا اور قرابنی دوبارہ کرنی پڑے گی قربانی کے جانور کا سالم الاعضا ہونا مرتتبر ہجیے چنانچہ کانا لنگڑ ا،کان کٹآ یا اند دسے سینگ ٹؤٹا ہواہو تو کافی نیں یے اپہجر جج ہظ ہخصجی جانوربھی کافی نہیں ہے ،سوائے اس کے کہ غیر خصی جانور نہ مل رہاہو معتبر ہے کہ جانور عرفا کمزور نہ ہو اور ا حوط اولی یہ ہہے کہ مریض یا ایسا جانور جسکے بیضتیں (انڈے )کی رگیں یا خو ر بیضتیں دبائے ہوئے نہہوں ۔اتنا بوڑھا بھی نہ ہو کہ اسکا بھیجا ہینہ ہو للیکن اگر اسکے کاب چیر ے ہوئے یئا سوراخ والے ہوں تو کوئے حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ یہ بھی سالم ہو ۔ احوط اوللی یہ ہے کہ قربانی کا جانور پیدائشی طور پر سینگ و بغیر دم والا نہو ۔

( ۳۸۵) اگر کوئی قربانی کا جانور صیح وسالم سمجھ کر خریدے اور قمیت دینے کے بعرد عیب دار ثابت ہو تو طاہر ہے کہ اس جانورکو کافی سمجھنا جائز ہے ۔

( ۳۸۶) اگر قربانی کے دنوں (عید کا دن اور ایام تشریق )میں شرائط ولاکوئیے جانور (مثلا اونٹ گائے و بکری وغیرہ )نہ ملے تو احوط یہ ہے کہ جمع کرے یعنی جانور مل رہاہو اسے ذبح کرے اور قربانی کی بدلے روزے بھی رکھے یہی حکم اس وقت بھی ہے جب اس کے پاس فاقد الشرائط جانور(جسمیں پور شرائط نہ پائی جائیں ) کے پیسے ہوں ۔اگر باقی ماہ ذی الحجہ میں شرائط والا جانور ممکن ہو تو احوط یہ ہے کہ دو چیزوں (فاقد الشرائط جانور کی قربانی کے بدلے روزے )کے ساتھ اس کو ملائے ۔

( ۳۸۷) اگر جانور کو موٹا سمجھ کر خرید اجائی اور بعدمیں وہ کمزور نکلے تو یہی جانور کافی ہے خواہ قربانی سے پہلے پتہ جَے یا بعدمیں لیکن اگر خود اسکے پاس مثلا دنبہ ہو اور اس گمان سے یہ موٹا ہے ذبح کری مگر بعد میں پتہ چلے کہ وہ کمزور تھا تو احوط یہ ہے یہ قربانی کافی نہیں ہوگی ۔

( ۳۸۸) اگر جانور ذبح کرنے کے بعد شک ہو کہ جانور شرائط والاتھا یا نہیں تو اسکا شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر ذبح کے بعد شک ہوکہ قربانی منی میں کی ہے یا کسی ارو جگہ تو اس جگہ تو اسکا بھی یہیحکم ہے لیکن اگرخود ذبح کرنے میں شک ہو کہ ذبح کیا بھی تھ اکہ نہیں تو اگر موقع گزرنے کے بعد حلق یاتقصیر کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے اگر موقع گزرنے سے پہلے ہی شک ہو تو قربانی کرنی ہو گی ۔اگرجانور کے کمزور ہونے کے بارے میں شک ہواورقصد قربت کے ساتھ ا س امید پر کہ جانور ذبح کی اجائے کہ کمزور نہیں ہے اور ذبح کرنے کے بعد پتہ چلے کہ واقعی کمزور نہیں تھا تو ایہ قربانی کافی ہوگی ۔

( ۳۸۹) اگر کوئی حج تمتع کی قربانی کی لیے صحیح جانور خریدے اور خریدنے کی بعد مریض یاعیب دار ہوجائے یا کوئے عض و ٹوٹ جائے تو اس جانور کا کا فی ہو نا مشکل ہے بلکہ اس پر اکتفا کرنا صحیح نہیں ہے احوط یہ ہے ہ جانور ک وبھی ذبح کرے ور اگر اسے بیچ دے تو اسکی قمیمت کو صدقہ کردے ۔

( ۳۹۰) اگر قربانی کے لیے خریداگیا جانور گم ہوجائے او رنہ ملے نیز اور پتہ نہ چلے کہ کسی نے اس جانب سے قربانی تو واجب ہے کہ دوسراجانور خریدے ۔اور دوسر جانورذبح کرنے سی پہلے ،پہلاجامور مل جائے تو پہلے جانور کو ذبح کیاجائے ور دوسرے میں اختیار ہے چاہے ذبح کری یا نہ کرے ار وہ اس کے دوسرے اموال کی طرح ہے ،تاہم احوط اولی یہ ہی کہ اسے بھی ذبح کرے ۔اگر پہلا جامور دوسرے کو ذبح کرنے کے بعد ملے تواحوط یہ ہے پہلے والے جانور کو بھی ذبح کرے ۔

( ۳۹۱) اگرکسی کو دبنہ ملے اور وہ جانتا ہو کہ یہ قربانی کے لیے ہے افر اسکی مالک سے گم ہو گی اہے رو اسکے لہایئزہ ہز کہ اسک ے مالک کی جانب سے اسے ذبح کردے اگری اسجانور کے مالک کو اس قربانی کا علم ہوجائے تو وہ اس کو کافی سمجھ سکتاہے ۔جس کوجانور ملا ہو اسکے لیے احوط یہ ہةے کہ وہ اسے ذبح کرنے سے پئہلے بارھیوں ذی الحجہ کی عصر تک اعلان کرے ۔

( ۳۹۲) وہ شخص جسے قربان ی کے ایام میں اجنور نہ ملے جبکہ اسکی قیمت موجود ہو تو احوط یہ ہے کہ قربانی کے بدلے میں روزے بھی رکھے اور اگر ممکن ہو تو ماہ ذی الحجہ میں قربانی بھی کرے ،چاہے اس کے لیے کسی قابل اطمیں ان شخص کو پیسے دینے پریں کہ وہ آخر ذی الحجہ تج جانور خریدکر اس کی جانب سے قربانی کردے ور اگر ذی الحجہ تمام ہوجائے اور جانور نہ ملے تو اگلے سال اس کی جانب سے قربانی کرے ۔تاہم بیعید نہیں ہے کہ کہ صرف روسزوں پر اکتفا کرنا جائز ہو اور ایام تشریق گزرنے کے بعد قربانی ساقط ہو جائے ۔

( ۳۹۳) اگر کوئی شخص قربانی کا جانور ہاصل نہ کس سکتاہو اور نہج ہی اسکی قیمت رکھتا ہو تو قربانی کی بدلے میں دس روزے رکھے انمیں سے تین ذی الحجہ میں بنابر احوط ۷،۸،۹ کو رکھے اور اس سے پہلے نہ رکھے اور باقی سات روزے اپنے وطن واپس جانے کے بعد رکھے ۔مکہ میں یا راتسے میں رکھناکافی نہیں اگر مکہ میں واپس نہ جائے مکج میں ہی قیاام کرے رف اسے جاہے کہ اتنا صبر کرے کہ سک ے ساتھی اپطنے شہر پہنچ جائیں یا ماہ ذی الحجہ تمام ہوجائے پھر یہ روزے رکھھے پہلے تین روزے پے در پے رکھن امعتبر ہے جبکہ باقی سات میں معتبر نہیں ہے اگرچہ احوط ہے کہ اسی طرح پہلے تین روزوں میں یہ مبھی مرعتبر ہے کہ عمرہ تمتع کا احرام باندھے کے نعد رکھے ،چنانچہ اگر احرام سے پہلے روزے رکھے تو کافی نہیں ہوہ ں گے ۔

( ۳۹۴) وہ مکلف جس پر دوران حج تین دن روزے رکھنا واجب ہو اگر تینوں روزی عید سے پہلے نہ رکھ سکی تو بنا بر احتیاط ۹ ۸ اور ۹ اور ایک دن منیس ے واپس آ کر روزہ رکھنا کافی نہیں ہو گا فضل یہ ہے کہ وہ ان روزوں کو ایام تشریق ختم ہونے کے بعد شروع کرے اگرچہ اس کیلئے اجئز ہے کہا گر وہ تیرھویں ذیل اہچہ سے پہلے منی سے واپس آ جائے تو تیرھویں ذی الحجہ سے شروع کرے بلکہ ا ظہر یہ ہے کہ اگر منی سے تیرھیوں ذی لاحجہ کو بھی آئے تب بھی شروع کر سکتا ہے

احوط اولی یہ ہے کہ ایام تشریق کے بعد فوراََ روزے رکھے اور بغیر عذر کے تاخیر نہ کرے اگر منی سے واپس آنے کے بعد روزے نہ رکھ سکتا ہو تو راستے میں ای اپنے وطن پہنچ کر روزے رھکے لین احوط اولی یہ ہے کہ ان تین روزوں اور سات روزوںٰ جو اس نے وطن واپس آ کر رکھنا ہے کو جمع نہ کرے اگر محرم کا چاند نظر آں ے تک یہ تین روزے نہ رکھ سکے تو پھر روزی ساقط ہو جائیں گے اور آئندہ سال قربانی کرنا معین ہو جائے گا

۳۹۵ ۔ جس کیلئے قربانی کرنا ممکن نہ ہو اور نہ ہیا س کے اپس قربانی کیلئے پیسے موجود ہوں اور حج میں تین روزے رکھے اور قیام قربانی گزرنے سے پہلے قربانی کرنے پر قادر ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قربانی کرے

۳۹۶ ۔ اگر اکیلے قربانی کرنے پر قادر نہ ہو لیکن کسی کے ساتھ مل کر قربانی کر سکتا ہو تو احوط یہ ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر قربانی بھی کریا ور مذکورہ تریب کے مطابق روزی بھی رکھے ۔

۳۹۷ ۔ اگر جانور ذبح کرنے کیلئے کسی کو نائب بنایا جائیا ور شک ہو کفہ نائب نے اس کی جانب سے قربانی کی ہے یا نہیں تو یہی سمجھاجائے کہ قربانی نہیں کی اور اگر نائب خبر دے کہ قربانی کر دے ہے لیکن اطمیں ان نہ آئے تو اکتفا کرنا مشکل ہے

۳۹۸ ۔ جو شرائط قربانی کے جانور میں معتبر ہیں وہ کفارے کے جانور میں معتبر ہوں

۳۹۹ ۔ ذبح یا نحرجو واجب ہے چاہے حج کی قربانی ہو یا کفار اس میں خود ذبح یا نحر کرنا معتبر نہیں ہے بلکہ اختیار حالت میں بھی کسی دوسرے کو نائب بنانا جائز ہے تاہم ضروری ہے کہ ذبح کی نیت نائب کرے اور قربانی کرنے والے پر نیت کرنا شرط نہیں ہیا گر چح احوط ہے کہ وہ بھی نیت کرے نائب کیلئے مسلمانوں ہونا ضروری ہے

حج تمتع کی قربانی کا مصرف

احوط اولی یہ ہے کہ نقصان دہ نہ ہونے کی صورت میں حج تمتع کرنے والا اپنی قربانی کی کچھ مقدار کھائے چاہے کم مقدار ہی کائے قربانی اک ایک تہائی حصہ اپنے یا اپنے گھر والون کیلئے مخصوص کرنا جائز ہے اسی طرح جائز ہے کہا س کے دوسرے ایک تہائی حصے کو جس مسلمان کو چاہے ہدیہ دے اور تسیرا تہائی حصہ احتیاط واج کی بناء پر مسلمان فقراء کو صدقہ دے اگر صدقہ دینا ممکن نہ ہو یا زیادہ زحمت و مشقت کا سبب ہو تو صدقہ دینا ساقط ہو جائے گا یہ واجب نہیں ہے کہ قربانی کا گوشت خود فقیر ہی کو دیا جائے بلکہ اس کے وکیل کو بھی دیا جا سکتا ہے چاہے قربانی کرنے والا فقیر کا وکیل ہی ہو وکیل اپنے موکل کی اجازت سے اس گوشت میں تصرف مژلاھبہ فروخت یا واپس کر سکتا ہے اگر منی میں موجود افراد میں سے کسی وک گوشت کی ضرورت نہ ہو تو گوشت کو منی سے باہر لے جانے جائز ہے

۴۰۰ ۔ وہ تہائی حصہ جو صدقہ دے رہا ہو اور وہ تہائی حصہ جو ھدیہ دے رہا ہو انہیں جدا کرنا شرط نہیں ہے بلکہ صرف وصول شرط ہے چنانچہ اگر تہائی مشاع کو صدقہ کرے اور فقیر وصول کر لے خواہ پورے جانور کو قبضے میں لینے کی وجہ سے تو یہ کافی ہے اور تہائی ھدیہ کی صورت بھی یہی ہے

۴۰۱ ۔ صدقہ و ھدیہ کو قبضے میں لینے والوں کیلئے جائز ہے کہ ہ اس حصے میں جس طرح سے جاہیں تصرف کریں لہذا وہ اسے کسی غیر مسلم کو بھی دے سکتے ہیں

۴۰۲ ۔ اگر کوئی جانور کی قربانی کرے اور بعد میں وہ چوری ہو جائے یا کوئی زبردستی اس سے چھین لے تو قربانی کرنے والا ضامن نہیں ہے لیکن اگر مالک خود اسے چھین لے تو قربانی کرنے والا ضامن نہیں ہے لیکن اگر مالک خود اسے ضائع کر دے چاہے غیر مستحق کو دینے کی وجہ سے تو احوط یہ ہے کہ فقراء کے حصے کا ضامن ہو گا۔

حلق یا تقصیر

حج کے واجبات میں سے چھٹا واجب حلق ٰ یعنی سر مونڈنا یا تقصیر ٰیعنی کچھ بال کاٹنا ہے اس میں قصد قربت اور اخلاص معتبر ہے اس عمل کی عید کے دن سے پہلے حتی کہ شب عی میں بھی انجام دینا جائز نہیں ہے سوائے اس شخص کے جسے خوف ہو لہذاس کے لئیے احوط یہ ہے کہ حمرہ عقبہ کی رمی اور قربانی کے جانور کے حصول کے بعد انجام دے احوط اولی یہ ہے کہ ذبح و نحر کے بعد انجام دے البتہ عید قربانی کے دن کے وقت سیآ گے تاخیر نہ کی جائیا گر رمی سے پہلے یا قربانی کا جانور حاصل کرنے سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حلق یا تقصیر انجام دے تو کافی ہو گا اور دوبار انجام دینا ضروری نہیں ہے

۴۰۳ ۔ مرد کو حلقو تقصیر میں اختیار ہے البتہ حلق افضل ہے سوائے اس شخص کے کہ جس نے جوؤں سے بچنے کی خاطر شہد یا گوند سے سر کے بالوں کو چپکا یا ہو یا جس نے سر کے بالوں کو جمع کرکے باندھ کر لپیٹا ہوا ہو یا ضرورہ ٰ پہلی مرتبہ حج پر جانے والا ہو تو ان کیلئے احتیاط واجہ یہ ہے کہ یہ حلق کو اختیار کریں

۴۰۵ ۔ جو شخص حلق کرنا چاہتا ہو اور جانتا ہو کہ حجام اس کا سر سے حلق کر ائے بلکہ انتہائی باریک مشین سے سر مونڈوانٰے یا اگر اسے ہقل و تقصیر میں اختیار ہو تو پہلے تقصیر کرائے اور پھر اگر چاہے تو استرے سے سر مونڈوائے اگر اس بیان شد حکم کی مخالفت کرے تو بھی کفایت کرے گا اگرچہ گنہگار ہو گا

۴۰۶ ۔ حنشی مشکلہ نے اگر نہ اپنے بالوں کو چپکایا ہو نہ الجھا کر باندھا ہو یا اس کا پہلا سال نہ ہو تو اس پر تقصیر واجب ہے ورنہ پہلے تقصیر کرے اور احوط یہ ہے کہا س کے بعد حلق بھی کرے

۴۰۷ ۔ جب محرم حلق یا تقصیر انجام دیتو وہ چیزیں جو احرام کیوجہ سے حرام ہوئی تھیں حلال ہو جائیں گی سوائے بیوی خوشبو اور بنا بر احوط شکار کے ظاہر یہ ہے کہ حلق و تقصیر کے بعد بیوی جو حرام ہے تو صرف جماع حرام نہیں ہے بلکہ باقی تمام لذتیں بھی حرام ہیں جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھیں البتہ اقوی یہ ہے کہ تقصیر یا حلق کے بعد کسی عورت سے عقد نکاح پڑھنا یا نکاح جپر گواہ بنا جائز ہے

۴۰۸ ۔ واجب ہے کہ حلق و تقصیر منی میں ہو اور اگر حاجی جان بوجھ کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے منی میں انجام نہ دے اور باہر چلا جائے تو اس پر واجب ہے کہ منی واپس جائے اور وہاں ہقل یا تقصیر انجام دے بنا بر احواط بھولنے والے کا بھی یہی حکم ہے اگر واپس جانا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو تو جہاں موجود ہو وہیں پر حلق یا تقصیر انجام دے اور اپنے بال ممکن ہو تو منی بھیجے جو شخض جان بوجھ کر منی کے علاوہ کسی اور جگہ حلق یا تقصیر انجام دے تو یہ کافی ہو گا لیکن اگر ممکن ہو تو واجہ ہے کہ اپنی بال منی بھیجے

۴۰۹ ۔ اگر کوئی بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حلق یا تقصیر انجام نہ دے اور اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد آئے یا مسئلہ پتہ چلے تو حلق یا تقصیر انجام دے اظہر یہ ہے کہ طواف و سعی کو دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے اگرچہ احوط ہے ۔

حج کا طوا ف نماز طواف اور سعی

واجبات حج میں سے ساتواں آٹھواں اور نواں واجب طواف نماز طواف اور سعی ہیں

۴۱۰ ۔ حج کے طواف نماز طواف اور سعی کو ہی طریقہ اور شرط ہیں جو عمرہ کے طواف نماز طواف اور سعی میں بیاں کی گئی ہیں

۴۱۱ ۔ مستحب ہے کہ طواف حج عید قربانی کے دن انجام دیا جائے اور بنا بر احوط گیارھیوں ذی الحجہ سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے اگرچہ ظاہر یہ ہے کہ تاخیر کرنا جائز ہے بلکہ ایام تشریق سے کچھ مقدار دیر کرنا بلکہ آخری ذی الحجہ تک تاخیر کا جائز ہونا قوت سے کالی نہیں ہے

۴۱۲ ۔ احوط یہ ہے کہ حج کے دووقوف عرفات و مزدلفہ سے پہلے حج کے طواف نماز طواف اور سعی کو انجام نہ دیا جائے اگر کوئی مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے پہلے انجام دے تو کافیہونے میں اشکال ہے اگرچہ وجہ سے خالی نہیں ہے ۔

درج بالا حکم سے بعض موارد مسثنی ہیں

۱ ۔ وہ عورتیں جنہیں حیض یا نفاس آنے کا خوف ہے

۲ ۔ بوڑھا شخص مریض زخمی اور وہ افراد جن کیلئے مکہ واپس آنا مشکل ہو یا وہ افراد جن کیلئے ہجوم وغیرہ کی وجہ سے واپس آ کر طواف کرنا مشکل ہے

۳ ۔ وہ شخص جو کسی ایسی چیز سے ڈرتا ہو جس کی وجہ سے وہ مکہ واپس نہیں آ سکے گا ۔ چنانچہ درج بالا افراد کیلئے طواف نماز طواف اور سعی کو احرام حج کے بعد دونوں وقوف سے پہلے انجام دینا جائز ہے احوط اولی یہ ہے کہا گر بعد میں آخری ذی الحجہ تک ممکن ہو تو دوبارہ بھی انجام دیں ۔

۴۱۳ ۔ طواف حج کو دونوں وقوف کے بعد انجام دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ طواف کو حلق و تقصیر کے بعد انجام دے تو طواف کو دوبارہ انجام دینا واجب ہے اور ضروریہے کہا یک بکری کفارہ دے ۔

۴۱۴ ۔ جو شخص حج میں طواف نماز طواف اور سعی خود انجام دینے سے عاجز ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو عمرہ میں یہ اعمال انجام نہ دے سکنے والے کا ہے جو مسئلہ ۳۲۶ اور ۳۴۲ میں بیاں ہو ا وہ عورت جسے حیض یا نفاس آ جائے اور اتنا ٹھہرنا کہ پاک ہو کر طواف بجا لائے ممکن نہ ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طواف اور نماز طواف کے لئے کسی کو نائب بنائے بنائے پھر نائب کے طواف کے بعد سعی کو خود انجام دے

۴۱۵ ۔ حج تمتع کرنے والے پر طواف نماز طواف اور سعی سے فارغ ہو جانے کے بعد خوشبو بھی حلال ہو جائے گی جبکہ بیوی مسئلہ ۴۰۷ میں موجود تفصیل کے مطابق اور احوط کی بناء پر شکار حرام رہیں گے ۔

۴۱۶ ۔ جس شخص کیلئے طواف اور سعی کی ادئیگی دونوں وقوف سے پہلے جائز ہو اور وہ طواف اور سعی دونوں وقوف سے پہلے انجام دے تو ایسے شخص کیلئے خوشبو اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ منی کے اعمال مژلا رمی و ذبح و حلق یا تقصیر انجام نہ دیدے

طواف النساء

واجبات حج میں سے دسواں اور گیارھواں واجب طواف النساء اور اس کی نماز ہے یہ دونوں اگرچہ واجب ہیں لیکن رکن نہیں ہیں اس لئے اگر انہیں جان بوجھ کر چھوڑ بھی دیا جائے تب بھی حج باطل نہیں ہوتا ۔

۴۱۷ ۔ طواف النساء مردوں اور عورتوں سب پر واجب بے چنانچہ اگر کوئی مرد اسے چھوڑ دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گیا ور اگر عورت اسے چھوڑ دے تو اس کا شوہر اس پر حرام ہو جائے گا نیابتی حج میں نائب طواف النساء کو منسوب عنہ ٰ جس کی جانب سے حج کر رہا ہے کی جانب سے انجام دینہ کہ اپنی جانب سے ۔

۴۱۸ ۔ طواف النساء اور اس کی نماز کی شرائط اور طریقہ وہی ہے جو حج کے طواف اور اس کی نماز کا ہے صرف نیت کا فرق ہے

۴۱۹ ۔ وہ شخص جو طواف النساء اور اس کی نماز خود انجام نہ دے سکتا ہو اس کا حکم وہی ہے جو عمرہ کو طواف اور اس کی نماز خود انجام نہ دے سکنے والے کا ہے جو کہ مسئلہ ۳۲۶ میں بیان ہو چکا ہے ۔

۴۲۰ ۔ جو شخص چاہے مسئلہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جان بوجھ کر یا بھولنے کی وجہ سے طواف النساء انجام نہ دے تو ا سکا جبران و تدارک کرنا واجب ہے اور جبران کرنے سے پہلے اس کی بیویا س پر حلال نہیں ہو گی لہذا اگر خود انجام دینا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو تو جائز ہے ہ کسی کو نائب بنانے نائب کا اس کی جانب سے وطاف انجام دینے پر اس کی بیوی اس پر حلال ہو جائے گیا گر یہ شخص طواف النساء کے جبران سے پہلے مر جائے اور اس کا ولی یا کوئی اور اس کی جانب سے طواف کی قضاء کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ احوط یہ ہے کہ اس کے بالغ ورثا کی اجازت سے ان کے مال سے قضاء کرائی جائے ۔

۴۲۱ ۔ طواف النساء کو سعی سے پہلے انجام دینا جائز نہیں ہے چنانچح اگر کوئی طواف النساء کو عمدا سعی سے پہلے انجامد ے تو ضروری ہے کہ سعی کے بعد دوبارہ انجام دے لیکن اگر حکم شرعی نہ جاننے یا بھول کر ایسا کیا ہو تو اظہر یہ ہے کہ کفایت کرے گا اگرچہ دوبارہا دائیگی احوط ہے ۔

۴۲۲ ۔ مسئلہ ۴۱۲ ۔ میں مذکور افراد کیلئے طواف النساء کو دونوں وقوف سے پہلے انجام دینا جائز ہے لیکن منی کے اعمال مژلا رمی ذبح اور حلق یا تقصیر سے پہلے ان کیلئے بیوی حلال نہیں ہو گی ۔

۴۲۳ ۔ اگر عورت حائض ہو جائے اور قافلہ اس کی طہارت کا انتظار نہ کرے نیز قافلے سے جدا ہونا بھی ممکن نہ ہو تو اس کیلئے جائز ہے کہ طواف النساء کو چھوڑ کر قافلے کے ساتھ وطن واپس آ جائے تاہم احوط یہ ہے کہ کسی کو طواف النساء اور اس کی نماز کیلئے نائب بنائے اگر طواف النساء کا چوتھا چکر پورا ہونے کے بعد حیص آئے تو اس کے لئے جائز ہے کہ باقی کو چھوڑ کر قافلے کے ساتھ واپس آ جائے اور احوط یہ ہے کہ ابقی طواف اور اس کی نماز کیلئے کسی کو نائب بنائے ۔

۴۲۴ ۔ طواف النساء کی نماز بھول جانے کا وہی حخم ہے جو عمرہ کے طواف کی نماز کو بھول جانے کا ہے جو مسئلہ ۴۲۹ ۔ میں بیان ہو چکا ہے

۴۲۵ ۔ مرد کا طواف النساء اور اس کی نماز انجام دینے پر اس کی بیویا ور اسی طرح عورت کا طواف النساء اور اس کی نماز انجام دینے پر کا شہور حلال ہو جائیں گے احوط یہ ہے کہ شکار تیرھویں ذی الحجہ زوال آفتاب تک حرام رہے گا اوراس کے بعد احرما کی وجہ سے حرام ہونے والی تمام چیزیں حلا ل ہو جائیں گی ۔

منی میں رات گزارنا

واجبات حج میں سے بارھویں واجب منی میں گیارہ اور بارہ کی رات گزارنا ہے اس میں قصد قربت اور خلوص نیت معتبر ہے اگر حاجی عید کے دن طواف اور سعی کرنے کیلئے مکہ جائے تو منی میں راگت گزارنے کیلئے واپس آنا واجب ہے حالت احرام میں شکار سیا جتناب نہ برتنے والے شخص پر تیرھویں ذی الحجہ کی شب بھی منی میں گزارنا واجہ ہے اسی طرح وہ شخص بھی کہ جس نے اپنی بیوی سے نزدیکی کی ہو بناء بر احوط تیرھویں ذی الحجہ کی شب منی میں گزارے مذکورہ اشخاص کے علاوہ باقی حجاج کیلئے جائز ہے کہ بارہ تاریخ کو ظہر کے بعد منی سے باہر چلے جائیں لیکن اگر وہاں رکیں یہاں تک کہ تیرھویں رات آ جائے تو ضروری ہے کہ تیرھویں کی رات بھی طولع فجر تک وہیں گزاریں ۔

۴۲۶ ۔ اگر منی سے نکلنے کیلئے اپنی جگہ سے سفر کا آغاز کیا جائے لیکن ہجوم وغیرہ کی وجہ سے غروب سے پہلے منی کی حدود سے باہر نہ جایا جا سکے تو اگر رات منی میں گزارنا ممکن ہو تو منی میں قیام کرے لیکنا گر ممکن نہ ہو یا حرج وشدید تکلیف کا باعژ ہو تو منی سے نکلنا جائز ہے تاہم بنا ور احتیاط ایک دنبہ کفار دے

۴۲۷ ۔ قبل ازیں ذکر شدہ سبب کے علاوہ یہ معتبر نہیں ہے کہ منی میں پوریر ات گزاری جائے چنانچح اول شب سے نصف شب تک قیام کے بعد منیس ے جایا جا سکتا ہے لیکن اگر اول شب یا اس سے پہلے کوئی نکلے تو ضروری ہے کہ طلوع فجر سے پہلے بلکہ بناء بر احتیاط نصف شب سے پہلے منی واپس آ جائے جو شخص اول شب سے نصف شب تک منی میں قیام کے بعد نکلے اس کیلئے احوط اولی یہ ہے کہ طلوع فجر سے پہلے مکہ میں داخل نہ ہو ۔

۴۲۸ ۔ منی میں رات گزارنا جن افراد پر واجہ ہے ان میں سے درج ذیل چند لوگ مستژنی ہیں

۱ ۔ وہ شخص جس کیلئے منی میں رات گزارنا زحمت اور تکلیف کا باعژ ہو یا سے اپنی جان مال یا عزت کا خطرہ ہو

۲ ۔ وہ شخص جو منی سے اول شب یا اس سے پہلے نکل جائے اور مکہ میں آدھی رات سے پہلے عبادت مفیں ۴ شغول ہو کر طولع فجر تک تمام وقت ضروری حاجات مژلا کھانے پینے کے علاوہ عبادت میں گزارنے کی وجہ سے واپس نہ آ سکے

۳ ۔ وہ جو مکہ سے منی جانے کیلئے نکلیا ور عقبہ مدینین سے گزر جائے تو اس کیلئے جائز ہے کہ راستے میں منی پہنچنے سے پہلے سو جائے

۴ ۔ وہ لوگ جو مکہ میں حاجیوں کو پانی پہنچاتے ہیں

۴۲۹ ۔ جو منی میں رات نہ گزارے اس پر ہر رات کے بدلے ایک دنبہ کفارہ واجب ہے مذکورہ چار گروہوں میں سے دوسرے تیسرے اور چوتھے رپ کفار واجب نہیں ہے لیکن پہلا گروہ بنابر احوط کفار دے اسی طرح وہ شخص بھی کفارہ دے جو بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے رات منی میں نہ گزارے ۔

۴۳۰ ۔ جو شخص منی سے جا چکا ہو اور پھر تیرھویں شب کسی کام سے منی واپس پہنچ جائے تو اس پر یہ رات منی میں گزارنا واجب نہیں ہے

رمی جمرات

واجبات حج میں سے تیرھواں واجب تین جمرات اولی وسطی اور جمرہ عقبہ کو رمی کرنا (کنکر مارنا ) ہے واجہ ہے کہ رمی گیارھیوں اور بارھیوں ذی الحجہ کو کی جائے اور تیرھویں شب منی میں گزارنے والوں پر بنی بر احوط تیرھیوں ذی الحجہ کے دن میں بھی رمی کرنا وجاہ ہے حالت اکتیار میں خود رمی کرنا واجہ ہے اور نیابت کافی نہیں ہو گی

۴۳۱ ۔ واجہ ہے کہ رمی جمرہ اولی سے شروع کرے پھر جمرہ وسطی کو اور پھر جمرہ عقبہ کو رمی کرے اگر بھول یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اس سے مختلف عمل کرے توا جہ ہے کہ پھر وہیں سے رمی شروع کرے جہاں سے ترتیب حاصل ہو جائے لیکن اگر پہلے جمرہ کوچار کنکنر مارنا شروع کر دے تو پہلے والے کو باقی تین کنکر مارنا کافی ہے اور دوسرے جمرہ کو دوبارہ کنکر مارنا ضروری نہیں ہے ۔

۴۳۲ ۔ واجہ واجب چیزیں جو واجبات حج کے چوتھے واجب جمرہ عقبہ کی رمی کی ذیل میں بیان ہو ئیں تینوں جمرات کی رمی میں بھی واجب ہے ۔

۴۳۳ ۔ واجب ہے کہ رمی جمرات دن کے وقت کی جائے اس حکم سے چروا ہے اور ہر وہ شخص جو خوف بیماری یا کسی اور وجہ سے دن کے وقت منی میں نہ رہ سکتا ہو مستژنی ہیں چنانچہ ان افراد کیلئے ہر دن کی رمی ازس دن کی رات میں کرنا جائز ہے لیکنا گر ہر شب میں بھی ممکن نہ ہو تو تمام راتوں کی رمی ایک شب میں کرنا جائز ہے

۴۳۴ ۔ جو شخص گیارہ تاریخ کو دن کے وقت بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے رمی نہ کرے تو واجہ ہے کہ ابرہ تاریخ کو اس کی قضا کرے اور جو بارہ تاریخ کی رمی کو بھول کریا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نہ کر سکے تو وہ تیرہ تاریخ کو اس کی قضاء کرے احوط یہ ہے کہ جان بوجھ کر رمی نہ کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے بناء بر احتیاط ادا اور قضا میں فرق رکھے اور قضا کو ادا سے پہلے انجام دے احوط اولی یہہے کہ قضا کو دن کے شروع میں اور ادا کو زوال کے وقت انجام دے ۔

( ۴۳۵) جو شخص جان بوجھ کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے رمی جمرات کو انجامنہ دے اورپھر مکہ میں ااسے جیا اء ۷ یا مسلہ پتہ چلے ت واجو ہے کہ منیواپس جائے اور وہاں رمی کرے ۔ اگر دو یا تین دن کی رمی چھوڑ تو اہوط یہ ہے کہ وجس دن کی رمیپہلے چھوڑ چھٹی ہو اسکی قضا پہلطے انجام دے اوثثر دونوں کی عمنی کے درمیاں کچھ فاصلہ رکھے ۔ اگر مکہ سے نکلنے کے بعد یاد ایئے یا مسلئکہ پتہ چلے تو رمی بجالانے کے لیے واپس جان الازن نہیں ہے تاہم احوط اولی یہ ہی کہ اگر اکلے سال خود حج پرجائے تو قض اکرے اثو راگر خود نہ جائے تو سکی کو قضاکے لیے نائب بنائے ۔

( ۴۳۶) وہ شخص جو خود رمی نہ کرسکے مثلا مریض ہو تو کسی کو نائب بنائے ارو بہتر یہ ہے کہ اگفر ممکن ہو تو رمی کے وقت وہاں موجود ہو اور نائب اسکے سامنے رمی انجامن دے ۔ اگر نایب اسک ی جانب سے رمی انجام دے ۔اور خودرمی کا وقت ختم ہونے سے پہلے عذر ختم ہونے سے مایو امہ ہو اور اتفاقا عذر ختم ہوجایئے تو احوط یہ ہے کہ خود بھی رمی کرے ۔ لیکن جو شخص نائیب نہ بنا سلتاہو مثلا بیہوش ہو تو تو اسکا ولی یا کوئے شخص اس کی جانب سے رمی کرے ۔

( ۴۳۷) جو شخص ایام تشریق ( ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ )میں جان بوجھ کر رمی چھوڑ دے تو اسکا حج باطل نہیں ہو گا ،احوط یہ ہے کہ اگر آئندہ ساخود حج کرے تو خود ورنہ بنایب کے ذریعے اسکی قضااکرے ۔