صلح حدییبہ

صلح حدییبہ0%

صلح حدییبہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 8 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6094 / ڈاؤنلوڈ: 2444
سائز سائز سائز
صلح حدییبہ

صلح حدییبہ

مؤلف:
اردو

صلح حدییبہ حصہ دوئم

بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط

( لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُوْلَهُ الرُّئْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللهُ ٰامِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُوْسَکُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ )

سیرت پیغمبراسلام ایک سو پانچویں تقریرصلح حدیبیہ کے حالات بیان ہو رہے تھے اور جیسا کہ باربار یہ اعلان تو ہوتا ہی رہتا ہے کہ تقریر کا وقت نو بجے نہیں ہے بلکہ نو بج کر پانچ منٹ ہے تاکہ جلدی آجانے والوں کو یہ خیال رہے کہ پانچ منٹ کی تاخیر نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت ہی پانچ منٹ سے ہے ۔

صلح حدیبیہ جس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہی ہے کہ قرآن کریم نے پیغمبراسلام کے زمانے میں ہونے والی اسّی ( ۸۰) جنگوں اور اسّی ( ۸۰) لڑائیوں میں سے کسی کے ساتھ وہ لفظ استعمال نہیں کیا جو ہمیشہ جنگ کے بعد ہوتا ہے یعنی

( اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا )

لفظ ”فتح“ کامیابی جیت فتح حاصل کر لینا یہ ایسا لفظ کہ جس کو سنتے ہی جنگوں کا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن اللہ کے رسول کے زمانے میں تقریباً اسّی لرائیاں ہوئیں ، کچھ غزوے کچھ سریے ۔ عجیب بات ہے کہ ُان میں سے کسی کے لیے یہ لفظ نمایاں طور پر نہیں آیا تو آیا یہ لفظ تو ایسے واقعے کے بارے میں جسے شاید کوئی شخص بھی کامیابی اور جیت نہ سمجھے یعنی صلح اور اُن حالات میں صلح کہ لگ ایسا رہا ہے کہ ہم کو جُھکنا پڑا اور دشمن جو ہے وہ سر پہ چڑھا جا رہا ہے ۔

اب یہی قرآن کریم کا لفظ ، قرآن جو الفاظ کے استعمال میں بہت ہی محتاط ہے ایسا عظیم لفظ استعمال کر دینا

( فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا )

اللہ نے خالی کامیاب ہی نہیں کیا بلکہ فتح مبین عطا کی، کُھلی ہوئی کامیابی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ واقعہ تاریخِ اسلام کا کتنا اہم واقعہ ہو گا اور پھر ہمارے پاس اسی واقعے کے سلسلے میں معتبر ترین احادیث میں سے ایک ہے۔ صادقِ آلِ محمدعليه‌السلام امام جعفر صادق علیہ الصلوٰة والسلام (اللھم صلی علی محمد وآلِ محمد(ع)) یہ فرمان بھی آرہا ہے کہ

ماکان قضیة اعظم برکت منها

اسلام کی پوری تاریخ میں یا یہ کہ رسول کی پوری زندگی میں ۔

ماکان قضیة اعظم برکت منها

کہ کوئی واقعہ برکت میں واقعہ حدیبیہ سے بڑھ کر نہیں ہے ۔

ماکان قضیة

کوئی قضیہ اسلام میں پیش نہیں آیا ۔

اعظم برکت منها

جس میں برکت زیادہ ہو ، جو عظیم البرکت ہو منھی صلح حدیبیہ کے واقعہ کے ۔

جس واقعہ کو معصومعليه‌السلام یہ کہہ دیں کہ سیرت رسول کا عظیم ترین واقعہ، بابرکت ترین واقعہ، برکت کے اعتبار سے اس سے بڑھ کوئی واقعہ نہیں ہے ۔ خود ہی سوچا جا سکتا ہے کہ وہ کتنا اہم واقعہ ہو گا ۔البتہ معصومعليه‌السلام نے بعد میں اس برکت کی تھوڑی تشریح کی کہ برکت سے مُراد کیا ہے؟جس کا خلاصہ یہی ہے امام نے کہا کہ یہ وہ واقعہ ہے جس کے بعد اسلام سب سے تیزی سے پھیل سکا ۔

بدرواُحد خندق وحنین کی لڑائیوں میں اسلام کو بچایا لیکن تبلیغِ اسلام کے لئے اہم ترین سبب اور اہم ترین واقعہ یہی صلح حدیبیہ کا واقعہ ثابت ہوا ۔

توقرآن کا اس واقعہ کو فتح مبین کہنا اور امامِ معصومعليه‌السلام کا اس واقعہ کو برکت کے اعتبار سے عظیم ترین کہنا ہمارے ذہنوں کو اور زیادہ تیار وآمادہ کر دیتا ہے کہ دیکھیں تو سہی کہ یہ واقعات پیش کیا آئے اور پھر ان واقعات کے نتیجے میں اسلام کو کیا فائدہ ہوا؟

تو واقعات کی ترتیب یہ ہے کہ اللہ کا رسول تیرہ سو سے اٹھارہ سو تک صحابیوں کو لے کر، روایتیں مختلف ہیں لیکن زیادہ معتبر چودہ سو ( ۱۴۰۰) کی روایت ہے ۔ تیرہ سو سے اٹھارہ سو تک کسی بھی تعداد میں لیکن الغرض یہی ہے کہ چودہ سو اصحاب کو لے کر مدینے سے نکلا اور مسلمان اس حالت ہی میں چل رہے ہیں کہ دُور سے بھی اگر کوئی اس لشکر کو دیکھے تو سمجھ جائے کہ نہ یہ جنگ کرنے جا رہے ہیں، نہ حملہ کرنے جا رہے ہیں، نہ کسی پر ظلم کرنے جا رہے ہیں ، سفید احرام پہنے ہوئے ہیں اپنی قربانیوں کو ساتھ لئے ہوئے ہیں ، جن جانوروں کے گلے اور کوہان پر یہ نشانی لگی ہے جسے عرب کا رہنے والا تو دُور سے دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ یہ جانور جنگ میں استعمال نہیں ہو سکتے صرف خانہ کعبہ پر قربان کیے جائیں گے ۔

احرام پوش چودہ سو کی جماعت قربانی کے جانوروں کو لے کر چل رہی ہے اور اسلحہ اور ہتھیار کے نام سے ان کے پاس بجز تلوار کے ان کے پاس کچھ نہیں ہے اور تلوار بھی وہ جو نیام کے اندر رکھی ہے اور نیام والی تلوار عرب میں ہتھیار مانا ہی نہیں جاتا ہے یہ تو ایک طرح سے مرد کا زیور اور ضرورت کی چیز قرار دیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ پورا لشکرِ اسلام بالکل خالی ہاتھ ہے نہتا ہے اور جا رہے ہیں اس علاقے میں جہاں اُس وقت تک اسلام کے سب سے بڑے دشمن رہتے ہیں ۔

دشمنی اسلام کایہ نظارہ یہ منظر لشکر کی یہ جھلک یہ بتا رہی کہ دیکھو یہ لوگ صرف اور صرف عبادت اور قربانی کیلئے جا رہے ہیں ۔

چلتے چلتے یہ لشکر مکے سے تئیس ( ۲۳) کلومیٹر کے فاصلے پر ایک کنویں پر پہنچا ، کنویں کا نام حدیبیہ ہے اور اُس کنویں کی وجہ سے اُس پورے علاقے کا نام ہی حدیبیہ کہلانے لگا ۔ اب آجکل اسی جگہ کو سمیسی کہتے ہیں لیکن مزید آجکل یہ سمیسی کا لفظ تو سوسواسو سال تک چلا ، جب اسے آج سے گیارہ سال پہلے بالکل نئی سڑک بن گئی ہے جدے اور مکے کے درمیان ، اب یہ اس راستے سے بالکل نکل گیا ہے ورنہ پہلے جدہ سے مکّہ جانے والا ہر شخص حدیبیہ سے ہو کے گذرتا تھا اور دوسری بات اُسے معلوم نہیں ہوتا تھا کہ مَیں حدیبیہ سے جا رہا ہوں کیونکہ اس علاقہ کا نام تقریباً ڈیڑھ سو سال سے تبدیل شدہ نام اب نئی سڑک ایسی بنی کہ بالکل یہ علاقہ دب کے رہ گیا ، اس کی وجہ پچھلی تقریر میں بیان کی جا چکی ہے ویسے بھی حدیبیہ کا علاقہ عرب کے راستے میں نہیں آتا تھا پیغمبر نے صرف اس لیے کہ خالد ابن ولید کے اُس لشکر سے آمنا سامنا نہ ہو جسے قریشِ مکّہ نے مسلمانوں کو روکنے کیلئے بھیجا ہے جان بوجھ کر اپنے راستے کو بدل کے ایک طویل راستہ اختیار کیا ۔

چناچہ حدیبیہ جو ہر راستے سے ہٹا ہوا تھا وہاں لشکرِاسلام پہنچ گیا ۔ اب واقعات جن کا تعلق اس صلح سے اس سے پہلے دوتین چھوٹی چھوٹی باتوں کی وضاحت :۔

پیغمبراسلام نے جب تک مکّے میں قیام رہا یعنی رسالت کے پہلے تیرہ( ۱۳) سال خابہ کعبہ کی زیارت کی، طواف کیا ، عرفات اور منی کے اعمال انجام دئیے ، جب سے مدینہ مین آئے پانچ ایسے سال گذر گئے شروع والے کہ پیغمبر نہ مسجدالحرام جا سکے، نہ مکّے میں داخل ہو سکے ، نہ خانہ کعبہ کی زیارت کر سکے ۔ پہلے پانچ سال مدینے کے قیام میں پیغمبراسلام کا ظاہری طور پر خانہ کعبہ سے ہر قسم کا رشتہ کٹ گیا پھر چھ ہجری آئی، چھ ہجری پیغمبراسلام مکّے کی جانب چلے مگر جیسا کہ ہر ایک جانتا ہے کہ مکّے میں داخل ہوئے بغیرواپس آگئے یہ سال بھی اسی طرح سے گزر گیا اس کے بعد سات ہجری کا سال وہ آیا اسی صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کو مدینے سے مکّے آنے کی اجازت ملی تو سات ہجری یعنی اگلا سال وہ کہ جب پیغمبراسلام ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے۔

آٹھ ہجری فتح مکّہ ہوئی، رمضان کے مہینے میں لشکرِ اسلام پیغمبر کے ساتھ گیا ۔ نو ہجری پیغمبر خود تشریف نہیں لے گئے ، پہلے حضرت ابوبکر کو اور اس کے بعد امیرالمومنینعليه‌السلام کو حاجیوں کو یہ پیغام دے کے بھیجا گیا کہ یہ آخری سال ہے اس کے بعدکوئی مشرک حرم کی زمین میں داخل نہیں ہو سکتا ۔

دس ہجری پھر اللہ کے رسول نے پہلا واجب حج کیااسی کی واپسی پہ غدیرِخُم کے میدان میں خطبہ ایمان دے کے مدینے آئے اور گیارہ ہجری کے بالکل شروع میں انتقال کیا ۔

توچھ ہجری سے لے کے دس ہجری تک یا دوسرے الفاظ میں مدینے آنے کے بعد سے لے کر انتقال تک صرف تین مرتبہ مکّے کی جانب اور خانہ کعبہ کی جانب تشریف لے جا سکے ۔ دومرتبہ عمرہ کیا ایک سات ہجری جو صلح حدیبیہ کے اگلے سال اور ایک فتح مکّہ کے موقع پر اور صرف ایک مرتبہ پیغمبر نے حج کیا ۔ یہ اللہ کے رسول ہجرت کے بعد خانہ کعبہ عرفات اور منا کی زیارتوں کی مختصر تفصیل ۔

ابھی پیغمبراسلام حدیبیہ کے میدان میں پہنچے ہی، یہ چھ ہجری کا سن ہے اور ذیقعدہ کا مہینہ ہے ۔ ذیقعدہ کا مہینہ پھر یاد دلا دیا جائے اگرچہ یہ چیز کئی مرتبہ بیان ہو گئی ہے کہ عربوں نے اسلام کے اعلان سے پہلے ہی ایک قانون بنایا کہ چار مہینے ایسے ہیں کہ جب دو پابندیاں سب کو برداشت کرنا ہیں ۔ نمبر ایک جب پوری سرزمینِ حرم پر کوئی جنگ کوئی لڑائی کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں ہو گا حتیٰ یہ کہ تمہارا جانی دشمن بھی تمہارے سامنے سے گذرے تو اُسے چھوڑ دینا اور دوسرا یہ کہ اِن چار مہینوں میں جو شخص بھی مکّے میں آنا چاہے اُس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی چارمیں سے تین مہینوں کا تعلق حج سے ہے ذوالحجہ کے مہینے میں حج ہوتا ہے اُس سے ایک مہینہ پہلے سے عرب میں سیز فائر یا جنگ بندی ہو جاتی ہے اور حج سے ایک مہینہ بعد تک امن وامان کی یہ حالت چلتی رہتی ہے چنانچہ تین ماہ تک ذیقعدہ، ذوالحجہ اور محرم یہ تین مہینے ایک ترتیب کیساتھ حاجیوں کے، دُور دُور سے حاجی آ رہے ہیں کوئی تیس دن کا سفر کر رہا، کوئی پینیس دن کا سفر کر رہاتو سب سے دُور سے آنے والا جب اپنے قبیلے سے چلے گا اُس وقت سے جب مکّہ پہنچنا اور مکے سے پھر اتنا ہی سفر طے کر کے اپنے وطن واپس پہنچنا ہے ۔

اس دُوران سب کی جان مال اور عزّتیں محفوظ رہیں اس لیے یہ پابندی لگائی گئی اور ایک رجب کے عمرے کی خاطر ۔ تو یہ قانون جو عرب میں اسلام سے پہلے چلا آ رہا ہے یہ قانون وہ ہے کہ مسلمانوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

گوکہ اللہ کا رسول جو مکے کی جانب چلا صلح حدیبیہ کے موقع پر تو پیغمبر شعبان میں نہیں گئے ، رمضان میں نہیں گئے، شوال میں نہیں گئے ، صفرمیں نہیں گئے، ذیقعدہ کا مہینہ مختص کیا جس کے بارے میں عربوں کا شروع سے ہی یہ طریقہ کار رہا کہ یہ حرمت کے تین مہینے ہیں اس میں کسی سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا لیکن اس کے باوجود اسلام سے اتنا جلے بیٹھے تھے عرب کہ اپنے بزرگوں کا اور صدیوں پرانا طریقہ کار بدلنے کو بھی تیار ہو گئے کون عرب؟ وہ عرب جنہوں نے اسلام کی ساری دعوت کو صرف یہ کہہ کے رد کیا کہ اگر ہم اسلام کو مان لیں گے تو اپنے بزرگوں کو بُرا کہنا پڑا گا ان کے طریقے کو چھوڑنا پڑے گا ہم اُن کے طریقے کو چھوڑنے کو تیار نہیں، ہمارے بزرگ کبھی تیار نہیں ہو سکتے ۔

دیکھئے وہ کچھ سوچ اور گمراہی کا طریقہ کار یہی ہے اُن کے پاس کوئی دلیل کبھی پرماننٹ نہیں ہوتی ہے جس دن جو چیز اُن کو فائدہ دے رہی ہو اُس دن وہی چیز اُن کی دلیل بن جاتی ہے ، سیرت رسول میں آپ کو یاد ہو گا معراج کے واقعات میں بھی یہ جملہ آیا ہے کہ جب پیغمبر نے کہا کہ مَیں راتوں رات ساتوں آسمانوں کی سیر کر کے آ گیا ہوں تو قریش نے کہا کہ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو گا ، انسان راتوں رات اتنا سفر طے ہی نہیں کر سکتا اور پھر جب پیغمبر ہجرت کر کے مدینے تیرہ دن میں پہنچے کہ آج پتا چل گیا کہ رسول سچا رسول نہیں ہے اس لیے کہ اگر سچا رسول ہوتا تو پلک جھپکنے میں اُس کو مکے سے مدینے میں پہنچنا پڑتا اُس نے تیرہ دن کیوں لگا دئیے ۔

توخیر کفروشرک کی ہمیشہ سے یہ عادت ہے اُن کے پاس کوئی دلیل ہوتی نہیں ہوتی جس پر ہمیشہ جمے رہیں یہی وجہ ہے کہ جب پیغمبر نے دعوتِ اسلام دی تو کہا کہ ہمارے بزرگوں کے خلاف ہے یہ دین آج تک نہ ہمیں کسی نے بتائی اور نہ ہم نے سُنی اور ہم نے اپنے بزرگوں کو اس سے الگ طریقے پر پایا ہے ان کو مان لو تو اُس کو جھٹلانا پڑے گا اور جب صلح حدیبیہ کا موقع آیا اور پیغمبر اُن مہینوں میں مکے کی جانب جا رہے ہیں یہاں پہ یہی قریش اپنے بزرگوں کو ہمیشہ دیکھ چکے ہیں کہ مکے میں آنے والے کو کبھی نہیں روکا گیا چاہے اُن کے باپ کا قاتل ہی کیوں نہ ہو اور حرمت کے مہینوں میں کسی پہ ہاتھ نہیں اُٹھایا گیا ہے مگر آج جب اللہ کا رسول آ رہا ہے اُسی بزرگوں کے طریقہ کار کو بدلہ جا رہا ہے اپنی اُسی دلیل کو توڑا جا رہا ہے اپنی اُسی دلیل کو باطل کیا جا رہا ہے ۔

یہ جملہ میں نے خاص وجہ سے بھی کہا تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے اور حالات بھی ہمارے مُلک کے ایسے ہیں کہ دشمنانِ اسلام معمولی معمولی باتوں کو وجہ فسادبنا کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے دشمنی اور نفرت بھرتے جا رہے ہیں لیکن بہت ہی مختصر جو جمادی اولیٰ کے مہینے کی تاریخ ہے اور جمادی الثانی کے مہینے کا آغاز ہے یہی تو کہا جاتا ہے کہ ایک وجہ شہزادیعليه‌السلام کے خطبہ دینے کی یہ بھی ہے کہ کل یہ کہا گیا کہ ہمیں قرآن کے بعد کسی حدیث کی ضرورت نہیں لیکن آج جب شہزادیعليه‌السلام نے اپنا حق مانگا تو کہا گیا کہ قرآن میں تو کچھ نہیں لکھا مگر حدیث کہہ رہی ہے کہ یہ چیز آپ کا حق نہیں ہے یعنی موقع محل کے اعتبار سے جہاں جیسا جواب چاہا ویسا دے دیا ۔

خیر صلح حدیبیہ یہ بات بالکل واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر رہی ہے کہ وہی قریش جو تیرہ سال پیغمبر پہ پتھراؤ کرتے رہے ، راستے میں کانٹے بچھاتے رہے، کانوں میں انگلیاں ٹھونستے تھے یا روئی داخل کر لیتے تھے کہ اپنے بزرگوں کے طریقے سے ہٹنا ہمیں منظور نہیں ہے اور آج پیغمبر مکے میں داخل ہو رہے ہیں وہی قانون توڑا جا رہا ہے انہیں بزرگوں کے طریقے کی مخالفت کی جا رہی ہے نہ کسی کو غیرت آ رہی ہے نہ کسی مکے والے کو جوش آ رہا ہے نہ اُن میں سے کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط ہے بہرحال یہ صرف مشرک کا طریقہ ہے ۔

پیغمبراسلام حدیبیہ کے میدان میں پہنچ گئے اور یہاں پہنچنے کے بعد جو سب سے پہلا مسئلہ مسلمانوں کو پیش آ گیا وہ یہ تھا کہ مدینے سے نکلتے وقت وہ یہ سوچ کے نکلے تھے کہ رسول نے کہا کہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے خواب میں یہ دیکھا کہ ہم سب لوگ مکے میں داخل ہو کر مسجدالحرام میں پہنچ کر عمرہ کر رہے ہیں تو قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ

( لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللهُ )

دیکھا یہ گیا تھا کہ ہم مسجدالحرام میں داخل ہو رہے ہیں تو پیغمبر نے جو یہ خواب سنایا تو ہر ایک اس یقین کیساتھ چلا کہ ہمیں مکے جانا ہے مسجد میں پہنچنا ہے طواف کرنا ہے چنانچہ کھانے اور پانی کا معمولی سا انتظام کر کے چلے صرف اُتنا انتظام جو ایک شہر سے دوسرے شہر تک راستے کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔یہاں پہنچے تو معاملہ بدل گیا پتا چلا حدیبیہ کے میدان میں اتنی دیر بیٹھنا پڑا کہ نہ پانی باقی رہا اور نہ کھانا باقی رہا ۔

فاقوں کی حالت ہو رہی ہے پیاس کی حالت ہو رہی ہے اور پھر اسی دوران خُدا نے بھوک اور پیاس کو بڑھانے کیلئے پیاس کا مسئلہ کہ اگر انسان بھوک کے عالم میں ہو اور کھانے کی چیز اُس کے سامنے آ جائے بھوک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، پیاس کے عالم میں پینے کی چیز اُس کے سامنے رکھی جائے خودبخود پیاس بڑھ جاتی ہے، پروردگار نے ان کے امتحان کو اور زیادہ سخت کر دیا یہ آخری واقعہ تھا گذشتہ تقریر میں جو معصومعليه‌السلام کی حدیث

لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ

”اللہ شکار کے ذریعے تمہارا امتحان لے گا “

تو کہا یہ گیا کہ مجاہدین کا امتحان یہاں سے شروع ہو گیا ، کھانے اور پینے کی چیزوں کی کمی ہے اور عین اِس حالت میں جنگلی جانور جنکا گوشت عرب میں کھایا جاتا ہے وہ سارے کے سارے اِن مسلمانوں کے چاروں طرف پھیل رہے ہیں اتنا قریب ان کے آ گئے ان کے خیموں میں داخل ہو گئے کہ قرآن کو کہنا پڑا ”تَنَالُہ ٓ اَیْدِیْکُمْ“تم اپنے ہاتھوں سے اِن کو پکڑ سکتے ہو اتنے قریب آچکے ہیں وہ جانور لیکن وہ حکمِ اسلامی کہ احرام کی حالت میں شکار کرنا حرام ہے اور پیغمبر مدینے سے سب کو احرام پہنا کے لا رہے ہیں ۔

بھوک ہے فاقہ ہے خیموں کے اندر وہ جانور ٹہل رہے ہیں کہ جن کا گوشت اسلام میں عام حالت میں حلال بھی ہے لیکن اُن کے ہاتھ خبردار گناہ اور حرام نہیں کر سکتے ۔

بس اسی موقعے پر جو پچھلی تقریر کا آخری واقعہ ہے آج کا پہلا واقعہ اور وہ یہ کہ پروردگارِعالم کا ہمیشہ سے ایک وعدہ ہے ”انماالعسریسری“ ہمیشہ خدا زحمت اور پریشانی کے بعد راحت اور خوشی کا انتظام کرتا ، خدا کا کوئی امتحان اتنا طویل نہیں ہوتا کہ انسان ہمیشہ زحمت اور پریشانی میں رہے معصومینعليه‌السلام کے امتحان کی بات چھوڑیں وہ امتحان امتحان نہیں ہے اُس کا مقصد تو کچھ اور ہے ہمارے سامنے معصوم کی معرفت کرانا ہے لیکن جوعام مومن کا امتحان ہوتا ہے اُس میں خدا کا وعدہ ہے ”انما العسریسری“ ہر سختی کے بعد ہم تمہارے لیے نرمی کا انتظام کریں گے اور سورہ عنکبوت کی آخری آیت شبِ قدر میں پڑھا جانیوالا سورہ

( وَ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا )

جو ہمارے راستے پہ چلتا ہے ہم پھر اُس کی ہدایت کرتے ہیں ۔

ایک ہاتھ مومن بڑھتا ہے پھر خُدا دس ہاتھ آگے بڑھ کے اُس کا استقبال کرتا ہے ۔

تو صلح حدیبیہ میں بنیادی طور پر یہی پیغام دہرایا گیا ، شروع میں ایک مصیبت ڈالی گئی ایک آزمائش ایک امتحان فاقہ پانی کی کمی شکار سامنے یعنی مجبوری والا امتحان نہیں شکار سامنے ہے مگر دکھانا ہے خُدا کو کہ اگر تم ایک مرتبہ اس زحمت کا سامنا کر لیا تو خُدا کی برکتیں تمہارے ساتھ ہوں گی پھر رسول اور امامعليه‌السلام کے معجزے تمہارے ساتھ ہوں گے پھر اُس کے بعد تین چھوٹے چھوٹے واقعات حدیبیہ کے میدان میں پیش آئے اور پہلا یہ کہ ایک تو یہ بھوک اور پیاس کا سلسلہ ساتھ میں چل رہا ہے اسی دوران وہ وقت آ گیا کہ یہ خبر پھیل گئی کہ مکے کے دوران پیغمبر کے دوسرے قاصد کو شہید کر دیا گیا بلکہ یہ کہیے کہ تیسرے قاصد کو حضرت عثمان پیغمبر کے تیسرے قاصد تیسرے ایلچی وہ شہید کر دئیے گئے تو اللہ کے رسول نے تمام مسلمانوں کو جمع کر کے بیعت لینا شروع کر دی ۔

بعد کا واقعہ اس لیے پہلے پڑھ رہا ہوں کہ یہ سارے واقعات ایک جگہ جمع ہو جائیں۔ جب یہ خبر پھیل گئی تو پیغمبر نے مسلمانوں کو بُلایا اور کہا آؤ اور آ کے بیعت کرو کہ جنگ میں حصّہ لو گے اُس وقت بھوک اور پیاس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت تباہ ہو رہی تھی چلنا مشکل ہو رہا تھا اس لیے کہ کئی دن گذر چکے ہیں بھوک اور پیاس کی کیفیت میں ۔ پیغمبر نے یہ حالت دیکھی وہ قرآن کا وعدہ کہ خبردار کبھی مصیبت اور پریشانی سے گھبرا کے حرام کی جانب نہ جانا حرام کی جانب جانے کا مطلب ہے اپنے آپ کو خدا کی رحمت سے محروم کر دینا اپنے آپ کو رسول اور امامعليه‌السلام کے معجزوں سے محروم کر دینا اب جن لوگوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا بھوک اور پیاس کو برداشت کیا اُن کیلئے بشارت ہے۔

پیغمبر نے بیعت کیلئے بُلایا اُس وقت مسلمانوں کی وہ حالت دیکھی چنانچہ پانی کا ایک برتن منگوایا پانی کا برتن سامنے رکھا گیا ابوتین الراوندی اپنی معجزات کی مشہور ترین کتاب میں یہ واقعہ نقل کر رہے ہیں پانی کا برتن رکھا گیا اور پیغمبراسلام یعنی ایک برتن بھی نہیں بلکہ کہا کہ قافلے میں جتنے برتن ہیں لے کے آجاؤ ۔ پانی کا برتن ہر آدمی کے پاس اگر چودہ سو آدمی تو ہر ایک کے پاس دودو تین تین برتن اسلئے کہ یہ سب لوگ راستے کیلئے بھی پانی جمع کر کے چلے تھے ، سارے برتن آ گئے اب پیغمبراسلام نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلایا اور راوی کا یہ کہنا ہے کہ پیغمبر کی پانچوں انگلیوں میں پانی کے چشمے اس انداز سے پھوٹتے نکلتے دیکھا کہ ہر ہر برتن بھرا جا رہا ہے اور اس کثرت کیساتھ پانی جاری ہو رہا ہے کہ ہم تو چودہ سو آدمی تھے اگر ایک لاکھ کا لشکر بھی وہاں ہوتا تو آج اس کثرت کیساتھ پیغمبر کی مقدس انگلیوں سے پانی جاری ہو رہا ہے ہر ایک کو یہ پانی مل جاتا تو وہ ذخیرہ کر سکتا تھا ۔

خیر ابھی تو پانی کا مسئلہ پیغمبر نے حل کیا اُس کے بعد اللہ کا رسول دیکھ رہا ہے کہ پیاس بجھانے کے باوجود مسلمانوں کی وہ کمزوری مسلمان کی وہ تھکن مسلمانوں کے جسم کی ناطاقتی کا سلسلہ جاری ہے پیغمبراسلام نے حکم دیا کہ اگر کسی کے پاس کوئی سفرا یا دسترخوان موجود ہے تو اُسے لا کے بچھایا جائے چمڑے کا بنا ہوا دسترخوان سفر کیلئے چمڑے کا دسترخوان عرب لیجاتے تھے وہ مل گیا اُسے لا کے بچھا دیا گیا اللہ کے رسول نے حکم دیا کہ اگر کسی کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز بھی ہے خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو وہ لا کے اس دسترخوان پر رکھ دو مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو چکی تھیں لیکن کسی کسی کے پاس مثلاً کسی کے پاس ایک آدھ پھل نکل آیا یا کسی کے پاس آج کی زبان میں ایک آدھ بسکٹ نکل آیا ، پیغمبر نے سب چمڑے کے دسترخوان پہ جمع کیا اور اس کے بعد ایک مرتبہ اپنا ہاتھ ان چیزوں کے اوپر پھیرا دسترخوان بھی اتنا چھوٹا یہ سفر کیلئے دسترخوان اور وہ چیزیں بھی اتنی کم کہ سیکنڈوں میں پیغمبر کا ہاتھ ان چیزوں کیساتھ مَس ہو گیا اور اُس کے بعد اللہ کا رسول اعلان کر رہا ہے کہ آؤ اور اپنی ضروریات کے مطابق آئندہ کی مستقبل کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اپنی ضروریات کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں کو بھر کے لے جاؤ ۔

چنانچہ مسلمان دوڑتے آئے ہر آنیوالے نے دیکھا اتنا سا سامان اور اسی لیے پیغمبر ایک جملہ دہرا رہے ہیں اگر پیغمبر کہتے کہ آؤ اور آکر کھانا کھاؤ تو شاید جتنے بھی مسلمان تھے ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے کہ اگر ہم نے پیٹ بھر کے یہ کھانا کھا لیا اور اپنے ساتھ اسے اٹھا کر لے گئے تو ہمارے بعد والوں کو کوئی نقصان نہ ہو شاید مسلمان اس چیز کا خیال کرتے ہوئے دو دو چارچار لقمے کھاتے ، یہ ہمارا آپ کا ماحول تو ہے نہیں کہ ہرشخص یہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اُسے مل جائے اور باقی کسی کو کچھ بھی نہ ملے اس لشکرِ اسلام میں ایک بڑی تعداد مخلص ومقتدر صاحبانِ ایمان کی ہے چنانچہ پیغمبر کو یہ اعلان کرنا پڑا، الفاظ تو یہ نہیں ہیں مفہوم یہ ہے کہ غذا کی کمی کا خیال نہ کرنا جس وقت شرم اور مروت سے کام نہ لیں جتنا تمہیں چاہیئے اور جتنا تم آئندہ کیلئے جمع کر سکتے ہو پیغمبر نے یہ اعلان کیا۔

چنانچہ ہر ایک پیٹ بھر کے کھا بھی رہا ہے اور اچھے طریقے سے چیزیں اُٹھا کے آئندہ آنے والے دنوں کیلئے جمع کر رہا ہے چودہ سوکا چودہ لشکر یہاں سے سیراب اور شکم سیر ہو کے جاتا ہے اور ایک مرتبہ حیرت کے عالم میں واپس ہوئے کہ جب ہم آئے تھے اتنا کھایا اتنا جمع کیا اتنا اٹھا کے لے گئے مگر جاتے وقت بھی سامان اُتنا ہی نظر آرہا ہے جتنا سامان شروع میں نظر آرہا تھا یہاں تک کہ یہ کیفیت ہو گئی کہ جب پورے چودہ سو فارغ ہو گئے جب اللہ کے رسول نے کہا کہ جنہوں نے سب سے شروع میں آکے سامان جمع کرایا تھا وہ جتنا لے گئے وہ تو لے گئے ہیں اب وہ اپنا شروع والا سامان بھی واپس لے جائیں جو امانت تھی وہ واپس پہنچائی جا رہی ہے ۔

یہ واقعے اگر بہت ہی چھوٹا سا واقعہ ہو مگر اتنے سارے درس اور پیغام پوشیدہ ہیں اسی میں خمس ،صدقہ ، خیرات اور زکوٰة کی فضیلت سامنے آ رہی ہے ، جتنا دوگے شروع میں دیتے ہوئے بڑا بُرا لگتا ہے لیکن اگر حدیبیہ جیسی جگہ پر انسان پھنسا ہوا ہو جب دُور دُور تک کوئی دکان نہیں، خریدو فروخت کا کوئی ذریعہ نہیں کسی قبیلے سے آدمی کچھ خرید نہیں سکتا جو کچھ اپنے لیے چھپا کے بچایا تھا وہ بھی اللہ کا رسول مانگ رہا ہے لیکن پیغام کیا مِلا؟ جو کچھ تم سے مانگاجا رہا ہے وہ سارا کا سارا تم کو واپس کیا جائے گا اور ساتھ جو نفع، ساتھ میں جو پروفٹ ہے وہ تو مل کے رہے گا ۔

بس اتنی کا امتحان دیناپڑتا ہے اتنی دیر کا کہ جتنا حدیبیہ کے میدان میں ہم نے دیکھا کہ جب ایک آدھ بسکٹ یا ایک آدھ سیب لے کے آ رہے ہوں گے تو کتنا پریشان آرہے ہوں گے مگر دیکھتے ہی دیکھتے جو دیا تھا وہ بھی ملا اور اضافے کے ساتھ ملا ۔

پیغمبراسلام نے تمام صاحبانِ اسلام کے کھانے کاانتظام کیااور پھر تاریخوں میں ایک جملہ نہیں لیکن اس کے بعد پھر ایک واقعہ پیش آ رہا ہے اس کی وجہ سے ایک جملہ میں اپنے اندازے سے کہہ رہا ہوں کہ دیکھئے اللہ کے رسول نے پہلے پانی اپنی انگلیوں سے جاری کیا اور اس کے بعد کھانے کا انتظام، کھانے کیلئے خاص طور پر یہ کہا کہ خالی اس قوقت پیٹ نہ بھرو بلکہ آئندہ کیلئے بھی سوچ لو وہ بھی جمع کرو وہ شاید اس لیے کہ پانی پیتے وقت لوگوں سے یہی غلطی ہوئی ہوگی کہ آتے تھے تو اُس وقت تو سب نے پیٹ بھر کے پانی پیا مگر اتنا ہی جتنے کی اُس کو ضرورت تھی اور وہ مستقل پانی کا انتظام نہ ہو سکا اس لیے کھانے کے وقت پیغمبر نے الگ سے یہ اعلان کروایا کہ دیکھو صرف اس وقت کے لئے کھانا نہ کھاؤ بلکہ جتنا جمع کر سکتے ہو وہ بھی جمع کر لو ۔

خیر کھانے اورپانی کا مرحلہ ختم ہوگیا اب کھانے کیلئے تو اتناسامان ہے کہ مدینہ واپسی تک کسی کو مسئلہ پیش نہیں ہو گا، پانی کا مسئلہ پھر پیدا ہو گیا ، چودہ سو آدمی ایک ایسے میدان میں جہاں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ، حدیبیہ کا کنواں ہے مگر وہ چند دنوں کے استعمال میں ہی سوکھ گیا ، چنددنوں کے استعمال میں ہی خشک ہو گیا اب کوئی پانی کا انتظام نہیں تھا ، چنانچہ چنددنوں کے بعد اللہ کے رسول کو پھر اطلاع ملی کہ کھانے کا مسئلہ تو ہمارا حل شدہ ہے ذخیرہ کیا ہوا ہے ہم نے پانی کامسئلہ پھر پیش آ رہا ہے پھر پیاس کی شدت بڑھتی جا رہی ہے ۔

پیغمبراسلام نے شکایت کرنے والوں کو بلایا اور ایک مرتبہ اپنے ترکش میں سے تِیر نکالا، تِیر نکال کے دیا اور کہا جاؤ یہ جو حدیبیہ کا کنواں ہے جب ہم آئے تھے تو اس میں کچھ پانی تھا استعمال میں سوکھ چکا جاؤ اس کی تہہ میں اُترو اور اِس تِیر کو اس کی تہہ میں نصب کرو جب تک یہ تِیر اس کی تہہ میں رہے اُس وقت تک یہ کنواں خالی نہ ہونے پائے گا۔

چنانچہ سارا لشکرِ اسلام گواہ بنا کہ اس کے بعد واقعاً ہم نے اپنے آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھا کہ جتنے دِن ہم وہاں رہے پیغمبر کا عطا کیا ہوا تِیر کنویں کی تہہ میں نصب رہا اور خدامعلوم کہاں سے پانی آتا تھا اور ایسا پانی کہ جو وہاں رہنے والے ہیں اب جتنے دن مسلمان وہاں رہے اطراف کے قبیلے آ جاتے تھے وہ کھانے اور پانی کا کوئی انتظام نہیں کرتے تھے اُنہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کو ایک دن واپس جانا ہے ہمیں تو قریش کے ساتھ زندگی بھر وہیں رہنا ہے وہ کچھ سامان لے کے نہیں آ رہے ہیں لیکن خود حیران ہو کے کہہ رہے ہیں کہ ہماری اور ہمارے بزرگوں کی زندگیاں گذر گئیں اس کنویں کو استعمال کرتے ہوئے مگر اتنا ٹھنڈا اتنا میٹھا اتنا لذیذ اور اتنا خوشگوار پانی اس کنویں سے اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھا تھا۔

اور جب لشکر اسلام چلا گیا وہ پیغمبر کا عطا کیا ہوا تِیر واپس نکال کے پیغمبر کو دیا گیا تو پھر یہی حدیبیہ والے کہتے ہیں کہ پانی پُرانے انداز پر آ گیا جتنے دن رسول رہے اُتنے دن ہم نے خوشگوار پانی کونوش کیاہے ۔

تو یہ سارے واقعات ایک پیغام ہم کو دے رہے ہیں کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا بعض اوقات بڑا مشکل لگتا ہے شیطان ویسے ہی بہکاتا رہتا ہے اور باقی احکامات پہ آدمی پھر بھی عمل کرلیتا ہے لیکن جہاں بھوک اور پیاس کا مسئلہ آتا ہے جہاں بھوک اور پیاس کا مسئلہ آتا ہے وہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے آدمی آپ دیکھیں بے شمار متقی لوگ حرام نوکریاں نہیں چھوڑی جاتیں، رشوت کے پیسے کو نہیں ترک کیا جاتا ہے سود والے ادارے کی ملکیت اور نوکری اب آج کل تو کریڈٹ بینک جب سے بننے لگے ہیں ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا ہے ، دس بارہ سال تک اتنی بات تھی کہ بینک میں پیسہ رکھوائیں یا نہ رکھوائیں نوکری کریں یا نہ کریں اب تو ان بینکس کے شیئر مارکیٹ میں آرہے ہیں اور واقعاً یہ اسی سود کے نظام پہ چل رہے ہیں اب اس شیئر کا خریدنا حرام ہے اب ایک مسئلہ اور آ گیا جس طرح ایک سودی ادارے میں نوکری کرنے کی اجازت نہیں اسی طرح ایک سودی ادارے کا مالک بننے کی بھی اجازت نہیں ۔

شیئر خریدنے کا مقصد یہ کہ آپ مالک ، پیسے رکھوانا تو شاید پھربھی کسی طرح جائز ہو جائے وہ جو تفصیل آپ نے سُنی لیکن نوکری کا مسئلہ تو مسلسل ایک ہی چلا آ رہا ہے کہ کافر کے بینک میں پیسے رکھوا سکتے ہو اور جو پیسہ پروفٹ کے نام پہ ملے اُسے مالک کافر سمجھ کے رکھ لیں وہ پورے کا پورا حلال ہے ، مسلمان کے بینک میں پیسہ رکھوا سکتے ہیں اور چونکہ شرط آپ کی طرف سے نہیں وہ جتنا بھی آپ کو دیں بغیر شرط کے وہ آپ کے لیے حلال اور جائز ہے، گورنمنٹ کے بینک میں پیسہ رکھوا سکتے ہیں اور چونکہ گورنمنٹ کی اصلی ملکیت اگر حاکمِ شرع اور مجتہد کے پاس ہو تو وہاں سے جو نفع ملے آدھے کوحلال اور آدھے کو حرام کر کے یعنی حرام کا مقصد آدھا صدقہ کریں آدھا اپنے لیے استعمال کریں کسی نہ کسی طرح پیسے کا مسئلہ حل ہوگیا ۔

مگر اس سے بڑا مسئلہ نوکری کا ہے کہ نوکری تو چاہے گورنمنٹ کی ہو ، چاہے پرائیویٹ بینک کی ہو ، چاہے کافر کے بینک کی ہو ساری نوکریاں حرام اگر اُس کے اندر سود کا عمل دخل ہو ، سود کا عمل دخل کسے کہتے ہیں ؟ کہاکوئی بھی ایسا کام کرناجس کے اندر سود کا لین دین شامل ہو چاہے فقط بینک کی کرسی پہ آپ بیٹھیں اور آپ کو سود کسی کو دینا پڑے یالینا پڑے چاہے کسی ایسے ووچر یا ڈاکومنٹ پر دستخط کرنا پڑیں جس میں سود کا تذکرہ آ گیا چاہے کسی ایسے کمپیوٹر کو آپریٹ کرنا پڑے جس کے اندرسود کی بات شامل ہو یہ سب کے سب سود کے اندر آجائیں ۔

تو پوچھا گیا آغائے خوئی تو پھر تو بینک کا کوئی ایسا ڈیپارٹمنٹ بچا ہی نہیں تو آپ کے فتوےٰ کا کیا مقصد ہوا؟ تو جو سودی ڈیپارٹمنٹ نہیں ہیں تو ان میں نوکری جائز ہے۔

توجواب دیا مثلاً بینک میں جوآدمی جھاڑو دینے پہ ملازم ہے یا جو مثلاً گیلے کپڑے سے میز وغیرہ سے صفائی کرتا ہے یا جو چوکیداری یا پہرے داری کا کام کرتا ہے یہ تین چار نوکریاں ہیں جو جائز ہیں باقی سب کی سب حرام ہیں ۔ توسوال ہوا کہ کیا اس میں گورنمنٹ یاپرائیویٹ یا کافر بینک میں کوئی فرق ؟

تو جواب دیا کہ نفع کے اعتبار سے فرق ہے کہ کافر بینک کا سارا نفع لے سکتے ہیں پرائیویٹ بینک کا سارا نفع لے سکتے ہیں گورنمنٹ کا آدھا نفع حلال آدھا حرام اور لون ( Loan ) کے مسئلے میں فرق کافر بینک سے پورا لون لے سکتے ہیں پرائیویٹ بینک سے قطعاً لون لینا حرام ہے گورنمنٹ بینک سے میرے وکیل سے پوچھو اجازت دیں تو جائز منع کریں تو حرام ۔

لون کے اعتبار سے پیسے رکھ کے نفع لینے میں تو فرق ہے یہ گورنمنٹ ہے یہ پرائیویٹ ہے یہ کافر ہے لیکن نوکری کے اعتبار سے تینوں کے تینوں برابر کہ حرام ہے ہاں صرف تنخواہ میں ایک مسئلہ بن رہا ہے تنخواہ جائز ہو جاتی ہے گورنمنٹ بینک میں لیکن وہ نوکری کا، اب اُس سے بڑا مسئلہ سامنے آ گیا کہ پرائیویٹ بینک کے شیئر لائے جارہے ہیں مارکیٹ میں اور اُس کی خریدوفروخت شروع ہو رہی ہے شیئر کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ اُس کے اندر حصّے دار بن جائیں سودی کام کے اندر حصہ دار بننا یعنی اگر بینک کے اندر پانچ فیصدی بھی سودی تو پچانوے فیصد بھی غیر سودی کام تب بھی اُس کی ملکیت میں حصہ لیناحرام رہے گا البتہ یہ مَیں نہیں جانتا یہ جو پرائیویٹ بینک آ رہے ہیں یہ کس اصول پر کام کر رہے ہیں پرافٹ اینڈ لاس کی بیسز پر معرفت کے اصول پر یا جو وہی پُرانا نظام ہے صرف نام بدلا ہوا ہے یہ جو شیئرز خریدنے والے یا اِس قسم کے شیئرز کی بروکری کرنے والے کی ذمہ داری ہے لیکن جو شیئر خریدنا حرام اپس کا بیچنا بھی حرام اس کا بروکر بننا بھی حرام یہ تو اُن کی ذمہ داری ہے فقہی مسئلہ اپنی حد تک یہی ہے کہ ایسا بینک جس میں نفع اور نقصان حقیقی بنیاد پر نہیں ہوتا نظام وہی سود کا چل رہا ہے اُس کے شیئر خریدنا بھی حرام ۔

انسان باقی قربانیاں تو دے لیتا ہے لیکن جہاں کھانے اور پانی کا مسئلہ آجائے جہاں پیٹ کا مسئلہ آجائے تو پیغمبر کا جملہ

کہ بھوک اور پیاس اتنا بڑا امتحان ہے کہ یہ فاقہ انسان کو کافر بھی بنا سکتا ہے گوبڑا امتحان ہے لیکن اُس امتحان کیساتھ اُس کا انعام کامیاب ہونیوالوں کیلئے برکتیں وہ بھی اتنی ہی attractive اور پُرکشش ہیں حدیبیہ کا چھوٹا سا واقعہ یہ بتا رہا ہے کہ چند دنوں کا امتحان جنہوں نے دیا اُس کے بعد کیا نتیجہ نکلا پیغمبرِاسلام کے دستِ مبارک سے مَس ہوا پانی ، پیغمبراسلام کے معجزے سے پیدا شدہ کھانے وار پیغمبراسلام کی برکتوں سے عام نعمت نہیں اتنی لذیذ بن کر صاحبانِ ایمان کو مل رہی ہیں تو ایک مرتبہ امتحان دینا پڑتا ہے شروع میں بڑی جھجک ہوتی ہے شیطان پیروں سے چمٹ جاتا ہے آگے نہیں بڑھنے دیتا ہے ساتھ میں چمٹ جاتا ہے وہ جو

ہے اُس کو قائم نہیں کرنے دیتا نہ صرف یہ کہ برکتیں ملیں گی بلکہ وہی دنیا کی عام نعمتیں ایسی خوشگوار ایسی رحمت والی ایسی لذیذ بن کے ملیں گی جیسے حدیدبیہ کے کنویں کے باشندے کہہ رہے ہیں کہ جتنے دن پیغمبر رہے ہم نے کبھی اتنا لذیذ اور اتنا میٹھا پانی کنویں سے حاصل نہیں کیا جو ساری زندگی ہماری ملکیت میں رہا ہے ۔

تو حدیبیہ کے باقی پیغامات جو حدیبیہ کے واقعے کو عام طور پر کتابوں میں لکھا ہے اور مجلسوں میں پڑھا جاتا ہے وہ واقعہ تو ابھی آنے والا ہے اُس سے پہلے ہی اتنی ساری ہدایتیں اور ایک آخری بات اور غالباً یہاں پر جزوی پیغام پروردگار نے اور دے دئیے اور وہ یہ کہ وہ پہلے تو دو معجزے سمجھ میں آ رہے ہیں پیغمبر کی انگلیوں سے پانی کے چشمے کا جاری ہو جانا اور پیغمبر کے ہاتھوں سے جو غذا مس ہوئی اُس میں برکت ہوجانا مگر تیسرا معجزہ جو پیغمبر نے اس کنویں کے اندر ہاں جب پیغمبر آرہے تھے حدیبیہ تو راستے کے کنویں میں اپنا لعابِ دہن ڈالا تھا، اِس کنویں میں اپنا لعابِ دہن نہیں ڈالا نہ اپنے ہاتھ اور جسم سے اِس کو مَس کیا ہے اپنے ترکش سے تِیر نکال کے دیا تِیر وہی عام تِیر جو پیغمبر نے مدینے کی مارکیٹ سے خریدا ہے وہ عام تِیر وہ اتنا بابرکت بن رہا ہے تصور یہ اسلام دینا چاہتا ہے کہ پیغمبر کے مقامِ نبوت کو نہ سمجھنے والے اِس کو تو چھوڑو کہ رسول کی انگلیوں میں کتنی برکت ہے ، رسول کے لعابِ دہن میں کتنی برکت ہے عام سی چیزیں جو پیغمبر سے مَس ہو جاتی ہیں اور پیغمبر سے منسوب ہو جاتی ہیں وہ بھی بابرکت ہو جاتی ہیں ۔

پیغمبر کے جسم کے اجزاء کی بات چھوڑئیے اُس کا مقام کتنا بلند ہے ہم کیا سوچیں جو مارکیٹ سے خریدا ہوا عام تِیر چند دن پیغمبر کے ترکش میں رہا اور آج پیغمبر نے خالی اپنے ہاتھ سے نکال کے دیا اِس عام تِیر میں اتنی طاقت آ گئی اس عام تِیر میں جب اتنی برکتیں آگئیں تو پیغمبر کے جسم کے اجزاء میں کتنی برکتیں ہوں گی؟ اب جس کی رگوں میں پیغمبر کا خون گردش کر رہا ہو اب اگر اُس کی خاک خاکِ شفاء بن جائے تو انسان کو حیرت اور تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

درُود بھیجئے محمد وآلِ محمدعليه‌السلام پر

اللّٰهُمَّ صل علٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

اور مَیں پورے اطمینان کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حدیبیہ کے واقعہ کا یہ حصّہ عام طور پر مومنین کے دل میں نہیں ہوتا اُن واقعات کے علاوہ جن کا تعلق معاہدے سے ہے یہ سارے واقعات بھی جو ہماری معتبر ترین کتابوں میں لکھے ہیں ، شیخِ مفید(رح) نے ارشاد میں کچھ واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے ، شیخِ تبرکی(رح) نے اعلام الوریٰ میں تفصیل درج کی ہے اور جیسا کہ ابھی مَیں نے حوالہ دیا سید قطب الدین الراوندی (رح)نے غنوزالمعجزات میں ساری Detail اور علامہ مجلسی(رح) تو حیات القلوب میں نقل کر ہی رہے ہیں ۔

خیر یہ سارے واقعات جو پیش آ رہے ہیں یہ بتانے کیلئے کہ حدیبیہ کے میدان میں موجود مسلمان ایک امتحان دے رہے ہیں اور پروردگار اُس امتحان کے بدلے اُن کی کتنی برکتیں عطا کر رہا ہے۔ ضمنی طور پر اس حصہ میں کیونکہ موضوع ہے تو بڑا اہم حالات اور زمانے کا تقاضا ہے کہ اس پر کھل کر بات نہ کی جائے صرف ایک جملہ تو یہاں پریہ پتہ چلا کہ اللہ امتحان میں کامیاب ہونے والوں کو کتنی برکتیں دیتا ہے وہاں یہ بھی پتہ چلاکہ حدیبیہ کا مقام وہ ہے جہاں اتنے معجزات پیش آئیں یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے زیادہ رسول سے اختلاف کیا گیا ہے اور معجزات کے بعد اس طرح کیا گیا ہے۔دیکھیں پہلے جن لوگوں نے اختلاف کیا معجزے دیکھ لینے کے بعد خاموش ہو جاتے۔یہاں تو بالکل اُلٹی ترتیب ہے بھوک کا امتحان شروع میں تھا۔یہ آخری معجزے آپ نے سنے او ر پھر وہ دن جس دن پیغمبر نے بیعت لی اُس دن کوئی واقعہ پیش نہیں آیاتو جھگڑے والے واقعات مسلمان اتفاق نہیں کر رہے رسول سے مسلمان احتجاج کر رہے ہیں پیغمبر کی حفاظت کو تیار لیکن پریشانی اور بے چینی کی لہر دوڑ رہی ہے یہ سارے واقعات معجزات پیش آنے کے بعد پیش آگئے اِس کو شریعت کی زبان میں حجت کہا جاتا ہے۔وہ لوگ جو پہلے مدینہ میں ہیں پیغمبر کے معجزات دیکھے ہوئے ہیں اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے بارہ پندرہ دن ہو گئے ہیں شاید یہ چیزیں ذہن سے نکل گئی ہوں وہ غصے کے عالم میں احتجاج کر رہے ہوں نہیں اس میدان میں بھی پیغمبر کے سارے معجزات دکھائے گئے ایسے معجزے جن کے بعد بھوک بھی نہ تھی پیاس بھی نہ تھی جانیں بھی محفوظ اِس کے باوجود اِتنا اختلاف ہے تو یقینا ان معجزات میں خداکی مصلحت کی ایک لہر بھی ہو گی خیر واقعات کی ترتیب یہ ہوئی کہ پیغمبر صلح حدیبیہ کے مقام میں پہنچ چکے ہیں پیغمبر اسلام کی اونٹنی جس کا اپنا نام قصویٰ ہے وہ ایک دفعہ اس سرحد پر بیٹھی آگے بڑھنے کو تیا ر نہیں ہے سرحد کا مقام ہے جس کے ایک طرف حرم شروع ہوتا ہے اور ایک طرف حل ہے حل جہاں انسان پر کوئی پابندی نہیں ہیحرم جہاں سے عام آدمی نہ شکار کر سکتا ہے نہ گھاس کے پتے توڑ سکتا ہے۔ لشکر اسلام رُک گیا اس دوران قریش جو پہلے سے اطلاع پا چکے ہیں کہ مسلمان آرہے ہیں تبھی تو خالد ابن ولید کو راستہ روکنے کو بھیج دیا۔ خالد بن ولید رستہ روکنے کیلئے پہنچ چکے ہیں کہ مسلمان کہیں مجھے ایسا موقع نہ ملا کہ میں ان پر حملہ کرتا اور یہ راستہ بدل کر پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔ پندرہ سولہ میل کے فاصلہ پر حدیبیہ ہے دقریش کو اطلع تو مل گئی کہ لشکر اسلامی پہنچ چکا ہے۔ اسی دوران بنی خزاعہ کا ایک قبیلہ ہے ؛یہ قبیلہ بہت پہلے جب اسلام بھی نہیں آیا تھا جب پیغمبر کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی۔ پیغمبر کے دادا اور پردادا کے زمانہ میں جناب عبدالمطلب جناب ہاشم ان سے دوستی کے تعلقات تھے۔

ایک طریقہ تھا عرب میں مکہ میں چودہ قبیلے رہتے ہیں۔ مکہ سے باہر جتنے قبیلے ہیں وہ سب اُن میں سے کسی ایک قبیلے ؛سے دوستی کرتے تھے۔ تاکہ جب مکہ سے آئیں عمرہ کیلئے یا حج کیلئے یا زیارت کیلئے تاکہ وہاں پر ہمارا کوئی جاننے والا ہو جس کے ہاں جا کر قیام کریں۔ تو بنی خزاعہ بہت پہلے سے ہی بنو ہاشم کا عزیز ہے۔ پیغمبر کے دادا اور پردادا کے زمانے سے پرانے تعلقات ہیں اس لئے کفر کے باوجود دوستیاں تعلقات اور بزرگوں کے روابط کا پہچاننا اور بنی ہاشم کے جوانوں کے ساتھ بچپن میں کھیلنا وہ ساری چیزیں ابھی برقرار ہیں۔ یہ بالکل حدیبیہ کے قریب رہتے ہیں۔ ان کا سردار اس وقت مکہ میں تھا جب قریش یہ سوچ رہے تھے کہ اب لشکر اسلامی کا کیا کرنا ہے۔ قریش نے کہا کہ تم اپنے قبیلوں کی جانب تو جا ہی رہے ہو۔ جہاں تمہارے پرانے دوست بھی ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ذرا جاؤ دیکھ کر آؤ کہ ان کا ارادہ کیا ہے۔ اور ان کو بتاؤ کہ ہم میں سے ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچے نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ جب تک ہم زندہ رہیں گے مکہ کی سرزمین پر ان لوگوں کو قدم نہیں رکھنے دیں گے۔ اسی لئے کہ آج اگر یہ مکہ میں آگئے تو عرب میں یہ بات پھیل جائے گی کہ قریش اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی مکہ میں آنے سے نہ روک سکے اور اس کا نتیجہ یہ رہے گا کہ ہمارے پاس جو منصب ہے خانہ کعبہ قریش کی یہ بڑی فضیلت تھی کہ وہ خانہ کعبہ کے متولی تھے۔ اس کی وجہ سے انہیں جتنے فائدے تھے وہ تاریخوں میں آپ پڑھتے رہتے ہیں۔ فائدوں میں سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عرب کا ڈاکو ظالم سے ظالم، سرکش سے سرکش، سنگدل سے سنگدل بھی قریش کے کسی قافلہ پر حملہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے فائدے تھے۔ یہ خبر پھیل جائے گی یہاں بھی قریش کا بڑا مسئلہ ضد کا مسئلہ ہے۔ خبر پھیل جائے گی کہ قریش اپنے جانی دشمنوں کو نہیں روک سکے۔ یہ تو نکل جائیں گے اور وہ قبیلے لعنت کریں گے۔ ہمارے عہدے پر وہ حملہ کرکے ہم سے یہ منصب چھین بھی سکتے ہیں۔ اب اس کے اندر کچھ حقیقت بھی تھی کچھ بہانہ بھی تھا۔

یہ قمیر کے پاس آتے ہیں۔ جان پہچان تو پہلے سے ہی ہے پیغمبر کو مکہ چھوڑے چند ہی سال ہوئے ہیں اور ہجرت کئے چھٹا سال چل رہا ہے۔ ابھی پورا بھی نہیں ہوا۔ پہلے سے تعلقات ہیں مدین ہمیں بھی اس قبیلہ کے لوگ آتے رہتے ہیںَ اس نے پیغمبر کو سارا پیغام پہنچایا۔ اچھا یہ ساری چیزیں تاریخ میں بہت خشک ہیں۔ مذاکرہ کہاں سے کوئی رخد آیا۔ غدیر آیا اور قریش کا پیغام پہنچایا۔ اب پیغمبر نے کہا جاؤ میں تمہیں ذمہ داری سپرد کرتا ہوں کہ پہلے تم قریش کے قاصد بن کر آئے اب میرے تم پہلے قاصد بن کر جاؤ۔ قریش جا کر بتا دو دیکھو ہم لڑنے نہیں آئے جنگ کرنے نہیں آئے صرف خانہ کعبہ کا طواف کرنے کیلئے آئے ہیں۔ میں خود قریش میں سے ہوں کیوں تم غلطی کر رہے ہو۔ یہ سنتے ہی عزیز واپس چلا گیا۔ واپس جا کر قریش کو یہ پیغام دیا۔ دیکھو وہ آنے والا یہ جملے کہہ رہا ہے۔ یہ جملہ جو سردار لشکر جو بھی تک ابوسفیان تھا سب نے کہا ہم یہ بات برداشت نہیں کر سکتے کہ عزیز تم ہمارے قاصد بن کر گئے۔ اُس نے تم پر جادو تو نہیں کر دیا۔ ہم اس کیلئے تیار اور راضٰ نہیں۔ تم چلے جاؤ اس مسئلہ کو چھوڑ دو۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں قریش نے یہ کہہ دیا کہ تم ہمارے کام کے آدمی نہیں ہو۔ تمہیں اس لئے بھیجا تھا کہ تم انہیں ڈرا دھمکا کر واپس بھیج دو۔ تمہارے تعلقات ہیں جو تمہاری بات مان جائیں گے۔ تم ان کی حمایت کر رہے ہو۔ خدا حافظ یہ کہہ کر اسے بھگا دیا۔ یہ جملہ تاریخوں میں نہیں کہ ہمارے قاصد بن کر گئے ان کی حمایت کیوں کر رہے ہو۔ ہم نے تو اپنا پیغام بھجوایا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قریش نے ان کو نکال دیا۔ پھر قریش نے سوچا کہ یہ معاملہ ہوگیا ہے ذرا گڑبڑ۔ ہم مکہ سے اپنے کسی کو بھیجتے ہیں ہم تودہ تو پارٹی ہیں۔ اور کسی قبیلے کو ڈھونڈیں جو پہلے سے مسلمانوں کو جانتا ہو کو جا کر سمجھائے اسی دوران قریش نے عرب کے کچھ بہادر قبیلوں کو لینے ملایا تھا۔ جو حبشہ کے رہنے والے نہیں تھے۔ مگر حبشی کہلاتے تھے۔ اُس نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا یہ مکہ کے اتنے پرانے باشندے نہیں قریش نے اس گمنام قبیلے کو اپنے ساتھ ملایا۔ بدر سے خندق تک قریش کے لشکر میں ایک کمی ہمیشہ سے رہی۔

۱ ۔ یہ اس کی وجہ سے آجکل دنیا میں میزائل بنائے گئے ہیں۔ وہ یہ کہ جب قریش مسلمانوں سے آمنے سامنے مقابلہ کرتے تھے تو علی کی تلوار کا جواب قریش کے پاس نہیں تھا۔ اب انہوں نے نئی جنگی حکمت عملی یہ بنائی جب تک لشکر اسلام میں علی ہیں یہ والی جنگ تو ہو ہی نہیں سکتی کہ میدان میں جا کر لڑو۔ اب ہمیں تیر انداز چاہیں۔ دور بیٹھ کر وہ تیر پھینکیں۔ میدان میں ہی نہ جائیں تاکہ ہمارا مقصد حاصل ہو۔ ہم جیت بھی جائیں اور علی ہمارے جوانوں کو قتل بھی نہ کر سکے۔ آج مولیٰ کی تلوار کی وجہ سے قریش نے نئی پالیسی بنائی ہے کہ آمنے سامنے جا کر لڑنا ہی نہیں۔ قریش کے پاس تیراندازی کا ماہر کوئی نہیں۔ عرب میں ویسے ہی تیزاندازی ذرا برا فن سمجھا جاتا تھا۔ عرب بہادر اس کو سمجھتے تھے کہ آمنے سامنے جا کر مقابلہ کریں۔ چھپ کر دشمن کا تیر مار دیا یہ عرب میں غیرت کے تصور کے خلاف تھا۔ لیکن اب مجبور ہوگئے وہ تلوار کی جنگ تو اب لڑنے کی نہیں۔ اب دنیا میں یہی ہے کہ اپنے ملک سے میزائل چلایا جاتا ہے تاکہ دوسرا ملک تباہ ہو جائے۔ اب تیزانداز قریش کے پاس نہیں ہیں۔ اب ان کے نوجوانوں کو تیز تھما دیے۔ خندق کے بعد سے لیکر اب تک کوئی لڑائی نہیں لڑی لیکن تیاری پوری پوری تھی۔ اب ان کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اب جن کا اسلام کے ساتھ پہلے تعلق نہ ہو اس سے معاہدہ یہ کیا کہ خانہ کعبہ کی عزت و احترام خطرے میں ہے تاکہ کعبہ پر کوئی دشمن حملہ کرے تو تم اسے روکو۔

بات اتنی جذباتی تھی کہ سردار لینے ساتھیوں کی تعداد بڑھانے کیلئے طرح طرح کے جذباتی نعرے لگاتا تھا۔ تاکہ لوگ بغیر دیکھے ہمارے ساتھ آجائیں۔ کعبہ خطرے میں ہے جیسے ہمارے ہاں ایک زمانے میں اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ بہت چلتا تھا۔ اب یہ قریش کا ساتھ دینے لگے۔ قریش نے ان کے سردار کو جو بالکل نیا آدمی ہے۔ بھیجنے کا فیصلہ کیا جو سکھا پڑھا کے بھیجو گے وہاں جا کر کہہ کر آجائے گا۔ اور ایسا ہوگا ہی نہیں کہ پیغمبر کے پاس جا کر بیٹھے اورع پرانے تعلقات اثرانداز ہو جائیں۔

ادھر سردار گیا حبشی سردار لیکن یہ افریقہ والے نہیں تیراندازوں کا سردار بالکل نیا آدمی ادھر اللہ کے رسول نے دیکھا کہ سردار آرہا ہے۔ اللہ کے رسول تو بحرحال جانتے ہیں وہ آدمی جس کو ہمیں واپس بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بالکل نیا آدمی ہے۔ نہ ہم سے دشمنی نہ دوستی اس کا مسئلہ خانہ کعبہ سے ہے۔ خانہ کعبہ سے اتنی دور بیٹھے ہیں اس کو اگر یہ پیغام دے دیا جائے کہ ہم لوگ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے نہیں آئے۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنے آئے ہیں یہ گروہ کہ جسے دھوکہ دے کر ملایا گیا ہے کہ کعبہ خطرے میں ہے۔ اس پر اثر ہو جائے گا مگر اس وقت پیغمبر اس سے بات چیت کرنا مناسب نہیں سمجھ رہے ۔ پیغمبر نے اپنے ساتھوں سے کہا سب احرام پہنے ہوئے ہو اپنے خیموں سے نکل کر باہر آجائیں۔ ان کی قربانی کے جانوروں کو اپنے آگے چھوڑ دو اگر دور سے کوئی دیکھے تو سب سے پہلے اس کی نگاہ قربانی کے جانوروں پر پڑے۔ جن پر قربانی کا نشان اور ہار ڈالا ہو اہے۔ دور سے آنے والے کو پتہ چل جائے گا کہ کوئی لشکر ہے لگے عبادت کرنے والوں کا کوئی قافلہ اور کوئی ان سے بات نہ کرے پہلی دفعہ وہ مسلمانوں کو دیکھ رہا ہے قریب آیا۔ گھوڑے سے اُترا یہ منظر ہے اس کے سامنے ۱۴۰۰ احرام پوش اور عبادت کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تسبیح و تہلیل بھی کر رہے ہیںَ ساتھ ساتھ قربانی کے جانور بھی جانور بھی کمزور قربانی کیلئے ہوتا ہے۔ بہتر سے بہتر جانور ہو مگر یہاں جانور کمزور تھے۔ اس کی دو وجوہات ہیں پہلی وجہ اصل میں یہ کمزور نہیں کسی حدیبیہ میں جو فاقہ گذرا اس کی وجہ سے آدمیوں کے ساتھ جانوروں میں بھی فرق پڑا ہے۔

تاکہ آنے والا شک میں نہ پڑے کہ یہ جنگ کیلئے آئے ہیں۔ دھوکہ دینے کیلئے قربانی کی نشانی لگائی ہے وہ سمجھ جائے گا کہ یہ جانور میدان جنگ میں تو کام آنہیں سکتے۔ پیغمبر کا مقصد یہ ہے کہ آنے والے کو یہ تاثر دیا جائے کہ مسلمانوں کا مقصد کا پتہ چل جائے۔ بات چیت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ جذبات ابھرنے ہی نہ پائیں۔ اور پیغمبر کسی بہترین طریقہ سے مسلمانوں کا مقصد واضح کر دیا ہے۔ آج کے دور میں یہی طریقہ ٹیلی فون کے ذریعے ہے کہ وہ تعلیم بچوں کے ذہن تک چلی جاتی ہے۔

اب آنے والے دشمن نہیں کوئی غلط خیال لیکر نہیں آیا۔ جیسے ہی اس نے دیکھا گھبرا گیا احرام پہنے ہوئے مجاہد ہو مصروفِ عبادت اور جانور اتنے کمزور ہیں کہ ایک دوسرے کے بال کھا

رہے ہیںَ بھوک کی سجہ سے وہ سیدھا قریش واپس آیا۔ سردارانِ مکہ حیران ہوگئے کہ تم بھی گئے بھی نہیں اور واپس آگئے۔ کیا ہوا۔ اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مسلمانوں نے اسے ذلیل سمجھ کر نکال دیا ہو اب اس سے ہمارا آدھا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ سردار گھوڑے سے اتر کر احرام میں داخل ہوا اور کہنے لگا تم نے مجھے کن کے پاس بھیجا دیا ہے۔ اتنے نیک اور مقدس لوگ میں دیکھ کر آیا ہوں ان کے ساتھ جو جانور ہیں وہ اتنے بھوکے ہیں کہ چل مشکل سے رہے ہیں۔ میں یقین کر ہی نہیں سکتا کہ وہ مکہ پر حملہ کرنے آئے ہیں۔ یہ دشمنوں کا لشکر نہیں یہ حملہ کرنے والوں کا لشکر نہیں ہے۔

سردار قریش سوچ کر بیٹھا ہے نتیجہ کچھ آگیا فوراً جلال میں آگیا کہنے لگا ہاں ہاں تو عرب کے پست قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو قریش ہوتے تو کبھی یہ بات نہ کرتے۔ اے ذلیل و پست قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ان سے چھوکہ کھا کر آگئے۔ اب اس حبشی سردار کو غصہ آگیا کہنے لگا تم نے کیا سمجھ کر یہ بات کی ہے۔ ہم تمہارے نوکر نہیں تمہارے غلام نہیں ہم نے صرف وعدے پر تمہارے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ جب کعبہ خطرے میں ہوگا تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ لہٰذا ہمارا فریضہ نہیں کہ جو کعبہ کا طواف اور زیارت کرنے آئے ہم اس کی دشمنی کریں۔ خبردار پھر یہ بات کی ورنہ ہم ان کے ساتھ ملکر تم پر تیر برسائیں گے۔ ہم کعبہ کے زائر پر حملہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم کعبہ کے دشمنوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مکہ کا ماحول ہی بدل گیا۔ کسے ملکر آئے کس نیت کے ساتھ اسے استعمال کریں گے۔ میدان میں مسلمانوں کو شکست دیں گے۔ آج وہی مسلمانوں کی طرفداری کر رہے ہیں۔

اب ان کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔ خالی اُکسانے پر نہیں کہا۔ ہم معاہدہ توڑ کر چلے جائیں گے۔ بلکہ تم پر حملہ کریں گے۔ ابوسفیان جلدی سے گھڑا ہوا۔ صلح صفائی سے بات ہوئی اس کے غصلہ کو ٹھنڈا کرکے بٹھا دیا گیا۔ لیکن اب قریش پریشان کہ دو آدمی ہم نے بھیجے اب دونوں ایسے کہ ہمارے ہی ان سے اختلافات ہوگئے۔ اب کیا کیا جائے۔

عروہ بن مسعود ثقفی وہاں موجود تھے۔ قریش نے ان سے کہا کہ بس آپ جب ہی شخص آگے بڑھ سکتا ہے جن کا تذکرہ اگلی گفتگو میں تفصیل کیساتھ آئے گا۔