علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 47059
ڈاؤنلوڈ: 4105

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47059 / ڈاؤنلوڈ: 4105
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر(مقدمہ تفسیرقرآن)

مؤلف: محمد باقرمقدسی

نظرثانی: سیدضیغم عباس نقوی (ہند)

کمپوزنگ وترتیب: محمد حسن جوہری

۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب

اپنے شفیق والدین کے نام

۲

حرف آغاز

عالم امکان کی سعادتمندی، آبادی، اور ترقی و تکامل کی خاطر اللہ نے کائنات کو تمام وسائل اور لوازمات سے مالا مال فرمایا وہ ذات یکتا ایسی ذات ہے کہ جس نے اپنی ذات کی تعریف اسطرح کی ہے والله هو الغنی الحمید جبکہ عالم امکان کی تعریف میں فرمایا' ' و انتم الفقرائ'' ایسی ذات کے بارے میں تمام اسلامی مکاتب فکر او رفلاسفر کا بالاتفاق یہ نظریہ ہے کہ وہ ذات تمام کمالات کا مجموعہ ہے جس میں کمی اور نقص کا تصور ناممکن ہے لہذا تمام کائناتی کمالات کا مجموعہ اورسرچشمہ ذات باری تعالی نظر آتا ہے، اس ذات سے ہٹ کر تصور کیا جائے تو یقینا احتیاج اور نیاز مندی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تب بھی تو اللہ نے قرآن مجید میں گذشتہ امتوں کے عبرت ناک حالات کو صاف لفظوں میں بیان کیا تاکہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ ہم جو کچھ کرنا چاہیںتو کرسکتے ہیں،اگر کوئی شخص اس خیال کی بنیاد پر قوم لوط ا ور قوم ثمود یا دیگر اقوام کی سیرت کو مشعل راہ قرار دے تو یقینا اللہ اس کو اسطرح کیفر کردار تک پہنچائے گا کہ جس طرح لوط اور ثمود وغیرہ کی قوم کو پہونچایا تھا، نیز اللہ نے فرعون اور قارون کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا تاکہ بشر جس طرح فرعون نے قدرت کو قارون علم کو اپنی ذاتی کمال سمجھتے تھے۔ اسطرح دیگر انسان بھی کمالات کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھیں لہذا اگر کوئی عاقل اس طرح کا تصور کرے کہ تمام کمالات چاہے مادی ہوں یا معنوی ہماری زحمت اور ذاتی تربیت کا نتیجہ ہے اور اللہ تبارک وتعالی سے کوئی ربط نہیں ہے، تو اسکا حشر بھی وہی ہوگا جو فرعون اور قارون کوہواتھا۔

۳

نیزاللہ نے شیطان کی ہر حرکات و سکنات کو مفصل طور پرکلام مجید میں ذکر فرمایا، تاکہ لوگ تکبر و غرور کی بیماری کا شکار نہ ہوں، اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہوا تو اسکا علاج بھی وہی ہوگا جو شیطان کا علاج تھا۔

لہذا اللہ نے اس باطل نظریے (یعنی کمالات اپنی زحمات کا نتیجہ ہیں اور اللہ سے کوئی ربط نہیں ہے )کو رد کرتے ہوئے بشر کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کی خاطر گذشتہ امتوں اورفرعون و قارون اور شیطان کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان کیا تا کہ بشر تمام کمالات کا سرچشمہ ذات باری تعالی سمجھے ، اسی حقیقت کو درک کرنے کی خاطر اللہ نے قیامت تک کے انسانوں کی طبیعت اور فطرت کے ہماہنگ گفتگو کی ہے یعنی کچھ لوگوں کی طبیعت ،عشق و محبت سے متاثر اور منفعل ہو جاتی تھی جس کو اپنی طرف مبذول کر نے کے لئے یوسف اور ذلیخا کی کہانی کو صاف الفاظ میں بیان کیا، جبکہ کچھ لوگوں کی طبیعت عبادات اور زہد و تقوی اور دعاؤں سے متاثر ہو جاتی تھی جسکی آبیاری کیلئے انبیاؑ اور اوصیاء ؑکی نمایاں سیرت کو زہد و تقوی راز و نیاز کامجموعہ ہونے کی خبر دی ہے اور کچھ لوگوں کی طبیعت جنگجو اور شجاعانہ طبیعت تھی جن کی پیاس کو بجھانے کی خاطر اللہ نے گذشتہ انبیاء اور ہمارے آخری نبی ؐکی سیاسی پالیسیوں کو جنگ احزاب، جنگ بدر، جنگ احد، جنگ تبوک او ردیگر جنگوں کے نام سے یاد کیا ہے تاکہ کوئی مسلمان جنگجو کفار و مشرکین بالاخص یہودیوں کی غلط پالیسیوں کو میدان جنگ میںاپنا اصول و ضوابط قرار نہ دے ،حالانکہ خوبصورتی اور لذت روحی سے ،طبیعت متاثر ہونے والے افراد کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنےکی خاطر حور العین کی تمام خصوصیات کو ''لم یطمثهن انس قبلهم ولا جان کانهن الیاقوت والمرجان ''یا کواکب اترابا وجعلناهن ابکارا'' کے الفاظ میں روشن فرمایا۔نیز کچھ انسانوں کی طبیعت ہنر اور فنون کی طبیعت ہوتی تھی جن کی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر طرح طرح کے فنون و ہنروں کا تذکرہ کیا۔اورہنروںاورفنون کوعلم کادرجہ دیا ۔

۴

اس طرح کچھ انسانوں کی طبیعت اس طرح کی ہے جو اخلاق حسنہ کو پسند کرتی ہے جنکی چاہت او رخواہشات کو پورا کرنے کی خاطر اخلاق کے تمام اصول و ضوابط منفی و مثبت نکات اور مطالب کو واضح الفاظ میں بیان کیا اورنمونہ کے طور پر حضرت ابراہیم کی سیرت کو ''لقد کان فی رسول الله اسوة حسنه '' یا ہمارے آخری نبی کی نمایاںسیرت کو'' لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنه ''کے عنوان کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ اخلاق حسنہ سے طبیعت بیدار ہونے والے افراد اخلاق حسنہ کے اصول و ضوابط انہی ہستیوں کو نمونہ عمل قرار دے دیے ، نیز اللہ نے کبھی جنت کے اوصاف اور خصوصیات کو ''خالدین فیها تجری من تحت الانهار ،لا تسمع فیها لاغیة'' وغیرہ واضح الفاظ میں بیان کیا ہے تاکہ جنت کی لذت اور آرامش کی لالچ میں طبیعت اور ضمیر اللہ کی طرف مبذول ہو۔

اور اللہ نے کبھی تاریخ اور ضرب المثل کو بیان کرکے شعر و شاعری کی طبیعت والے افراد کی طبیعت کو اپنی طرف مرکوز کیا جبکہ قرآن کے تمام الفاظ کو فصاحت اور بلاغت سے اسطرح مالا مال کیا حتی نزول قرآن کے وقت جتنے فصحا اور بلغا تھے بالاتفاق کہنے لگے قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد بن عبداللہ سحر اور جادو کر رہا ہے لہذا فصاحت و بلاغت سے طبیعت اور ضمیر بیدار ہونے والے افراد کے لئے ایسی فصاحت و بلاغت کے نکات کو بیان کیا تا کہ قیامت تک اس کلام سے فصیح تر کلام نہ ہوسکے۔

لہذا قرآن کے آغاز سے خاتمہ تک کی آیات پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اللہ نے ہر انسان کو چاہے موجود بالفعل ہو یا با القوۃ اس کی طبیعت اور زمان و مکان کے مطابق دستور دیاہے تاکہ انسان ضروریہ خیال کرے کہ تمام کمالات کا سر چشمہ ذات باری تعالی ہے ، ایسا گمان اور خیال غلط ہے کہ ہماری کوششوں او رزحمات کا نتیجہ قدرت اور علم اور کمالات ہے بیشک زحمات اور کوشش کا لازمہ قدرت اور علم او رکمالات ہے لیکن کوشش اور زحمات کے باوجود تمام کمالات کی بازگشت اور سرچشمہ ذات باری تعالی ہی نظر آتا ہے۔

۵

نیز قرآن تمام علوم کا ایسا بحر بیکراں اور اقیانوس ہے جس سے ہر غواص فیضیاب اور سیراب ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے ، اگر چہ اس دور میں ٹیکنالوجی ،سائنس ،فیالوجی ، فیزیک ،کیماوی، ریاضی یا دیگر علوم عروج پر فائز ہیں تو یہ خیال نہ کیجیے کہ قرآن میں ایسے علوم اور مضامین کا تذکرہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ قرآن تمام کتب آسمانی کے ترجمان کی حیثیت سے ''من البدوی الی الختم ''کے ان تمام علوم کامجموعہ ہے جن کو بشر کے لئے قیامت تک کیلئے ضروری ہے مگر ہم نے قرآن کو صحیح معنی میں درک نہیں کئے ہیں ورنہ خود قرآن نے صاف لفظوں میں بیان کیا ہے '' لا رطب و لا یابس الا فی کتاب مبین'' بیشک قرآن میں جس طرح ریاضی کی کتاب میں تمام فارمولوں کا ذکر ہے اسطرح تمام علوم کا مفصل اور ہر فارمولے کو ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن جس علوم کا انسان محتاج ہے جو اس کی زند گی کی سعادتمندی کا باعث ہے اس کا یقینا قرآن میں اجمالی طور پر تذکرہ ہو چکا ہے اور ان تمام علوم کو قرآن کی آیات سے حاصل کرنے کیلئے تفکر اور تدبر کے علاوہ برسوں سال تعلیمات اسلامی کے گہوارے میں تربیت اور تلمذ کر نے کی ضرورت ہے ہاں آپ یقینا کہہ سکتے ہیںکہ برسوںسال تعلیمات اسلامی کے گہوارے میں تربیت یافتہ علماء اورمحققین میں سے کتنوں نے کہکشانوں اور ٹکنالوجیوں اور ایجادات و انکشافات کے فارمولے پیش کئے ہیں ؟

اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب بشر پر مادہ پرستی اور مادیات کی حکومت حاکم ہو جاتی ہے تو ہر چیز کومادہ او رمادیات ہی سے مقایسہ کرتے ہیں کیا ایسے فارمولے کو پیش کرنا مشکل ہے یا طے الارض کرنا؟ کیا ایٹم بم بنانا مشکل ہے یا ایک ہی نظر سے سوپر طاقتوں کو خاک میں ملانا مشکل ہے ؟

۶

علم رمل ، علم جفر، فیازلوجی سائنس کے تمام فارمولے اورریاضی کے تمام مسائل اور تمام قضایا عقلیہ سے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے واے علماء اورمجتہدین اس دور کے ماہرپروفیسر اورڈاکٹر سے کئی گنا زیادہ آگاہ ہیں لیکن اسلام انسانوں کو مارنے کیلئے یا ان پر ظلم و ستم کرنے کیلئے ملحدین کی طرح ان چیزوںکی بنانے کی اجازت نہیں دیتا ، لہذا آ ج ملحدین یا ضعیف الایمان افراد ایک مضمون یاکسی ایک فیلڈ میں چند ایک فرمولوں کی روشنی میں کوئی چیز پیش کریںتو اس کو کوئی بڑی چیز نہ سمجھیں اگر یہ لوگ کسی علم کے چند ایک اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں تو ہمارے مجتہدین اس جیسے ہزاروں علوم کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں لیکن نظام اسلامی ان کی طرح بنانے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ ملحدین اور ضعیف الایمان کسی عہد اور پیمان کے پابند نہیں رہتے بلکہ ان کا مقصد اور ہدف فقط یاد کردہ فارمولوں کی رو سے کوئی چیز انکشاف کرنا اور ایجاد کرنا ہے ، جبکہ علماء اسلامی کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ ان اصول و ضوابط کی رو سے انسان کی سعادتمندی مادی اور معنوی زندگی کے مرا حل کو بیان کریں،تاکہ حضرت حق کی شناخت کرسکیں۔

لہذا علم طب ،فیازلوجی ،فلاسفہ ،فزیک وغیرہ کے کتنے محققین آئے ہیںاور گذرے ہیں لیکن مثبت نتائج کے ساتھ منفی نتائج سے خالی نہیںرہے ہیں جبکہ قرآن واحدکتاب ہے جو انسان کے مادی اور معنوی تمام اصول و ضوابط پر مشتمل ہے. باقی تمام علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ تمام مسائل کو عام عادی انسان کی طرح تفصیلی بیان کرے، بلکہ اشارے اور اجمالی تذکرہ کرکے عقل وتفکر و تدبر کو بروی کار لانا اس کا مقصدتھا۔

۷

لہذا پیغمبر اکرم (ص) اور اہلبیت(ع) نے قرآن کے حقیقی مفسر کی حیثیت سے تمام کنایات اور انکشافات و اختراعات کی تشریح کی ہے اور مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکار حضرات بھی تمام علوم کا سرچشمہ قرآن اور اہل بیت (ع) کوقرار دیتے رہے ہیں،لیکن مسلمان حضرات کا قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود قرآن کے فیوضات سے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اورہمارا معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود ہمارے مراکز وتربیت گاہوں میںقرآنی تعلیم اوردرس قرآن سے ہمیں محروم رکھاگیا ہے اسی لیے آج قرآن کے کرامات اور فیوضات سے محروم ہیں جبکہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ تمام کمالات کاسرچشمہ ذات باری تعالی ہے قرآن اس کا کلام ہے جو ہرنقص اورعیب سے پاک ہونے کے علاوہ صرف ہماری سعادت اورکامیابی ہی کے لئے بھیجاگیا ہے جسمیںقیامت تک کے لئے بشر کے تمام مسائل اورقضایااورتمام علوم کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو ثابت کر نے کے لئے اہل بیت (ع) کی سیرت نمایاں دلیل ہے یعنی اہل بیت (ع)واحد ہستیاںہیںکہ جنہوںنے قرآن کوصحیح معنوںمیںسمجھا اورتعلیم قرآن کے ذریعے پوری دنیاکے مفکرین اورمحققین کے نظریات اورتحقیقات پرفوقیت حاصل کی ،لہذاان کے جانی دشمن اوراس زمانے کے متعصب ترین محققین بھی اہل بیت (ع) کے کمالات اورعلمی نظریات کا اعتراف کرچکے ہیں، جبکہ اسو قت نہ کوئی پیشرفتہ تربیت گاہ تھا اورنہ ہی کوئی ماہر استاد ،اگرچہ شیعہ امامیہ کاعقیدہ علم امام کے بارئے میںبہت ہی مفصل اورعمیق ہے جسکا خاکہ ذہن میںڈالنے کے لئے مستقل ایک تحقیقی کتاب کی ضرورت ہے لیکن اس دور میںعلم کے دعویدار ہونے والے حضرات کی توجہ کو سیرت اہل بیت (ع) اورتعلیم قرآن کی طرف مبذول کرنا چاہتاہوں

۸

تاکہ ریاضی اورفزیک یاکسی دیگر مضامین کے چند ایک فرمولے یاد کر کے خود کو یاد خدا اورتعلیم قرآن سے بالاتر نہ سمجھیںبلکہ تمام تعلیمات سے بالاتر تعلیم قرآن، تمام موجودات سے بالاتر اللہ تبارک وتعالی اوربہترین مشعل راہ اہل بیت (ع) کی سیرت سمجھیں، آپ بغیر کسی تردید کے فہم قرآن اورتعلیم قرآن سے بہرہ مند حضرات کی تعلیمی طاقت واستعداد کواس دور کے چند ایک فرمولے یاد کرنے والے پڑھے لکھے افراد کی طاقت سے مقائسہ کر کے اندازہ کرسکتے ہیںکہ ہرعاقل جانتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت علم ہے ۔

لہذاامام سجاد(ع)اور اس دور کے پڑھے لکھے افراد یا امام جعفرصادق (ع) اوراس دور کے پڑھے لکھے افراد یاپیامبر گرامی (ص)اور اس دورکے پڑھے لکھے افراد ی حضرت علی (ع) اور دیگر افراد کی علمی طاقت کو موازنہ کرسکتے ہیںاور مسلمان حضرات اس دور میںفقط قرآن کو سمجھیںتو پوری دنیا کی طاقت اورسوپر طاقت کے دعویداروںکو باآسانی جواب دے سکتے ہیں۔

لیکن ہم نے قرآن مجید سے نہ فقط استفادہ نہیں کیا بلکہ اس کو مہجور ومہموز قرار دیا ورنہ ہماری سیرت یہ نہ ہوتی کہ ہم مسلمان کہ شیعہ امامیہ ہونے کے باوجود مسائل سیاسی ،ثقافتی ،اقتصادی،اخلاقی ،فکری ،علمی ،اور ان جیسے تمام میدانوں میں قرآ ن سے مدد لینے کے بجائے عصر حاضر کے ملحدین کی تقلید کرتے ہوئے قرآن کو مسائل فقہی،اور اموات کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ،یا زیادہ سے زیادہ سر سری تلاوت تک محدود رکھا ہوا ہے فاتحہ خوانی ،تلاوت کلام پاک ،جیسے امور میں ثواب حاصل ہونے پرکسی کو انکار نہیںلیکن قرآن مجید کاہدف اصلی ، بشرکو دنیاوآخرت میںسعادت وخوشبختی سے ہمکنار کرنا ہے اور یہ سعادت وخوشبختی فھم اوردرک معانی قرآن اور اس پر عمل پیرا ہونے میںمضمر ہے ۔

والسلام

المذنب محمد باقرمقدسی

ایران قم

۹

اسامی قرآن کا تصور:

قرآن پاک کے اسامی اور ناموں کے بارے میں کتاب اور سنت کے پیروکاروں اور بہت سارے محققین نے مفصل کتاب ، تحقیقی مقالات او رجریدے نشر و اشاعت کئے ہیں، لہذا شاید قارئین محترم یہ تصور کریں کہ اس موضوع پر اتنی ساری کتابیں اور مقالات ہونے کے باوجود مزید اس موضوع پر قلم اٹھانا چندیں افادیت کا حامل نہ ہو ، لیکن مرحوم علامہ طباطبائی عارف زمان علم و عمل ، زہد و تقوی کے بینظیر ہستی کا فرمان ہے کہ فہم قرآن کی خاطر ہر سال جدید تفسیر اور تحریر کی ضرورت ہے لہذا جتنے مقالات اور کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں پھر بھی ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس جدید دور کے تقاضے کے مطابق علوم قرآن کے موضوع پر جو فہم قرآن کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے مقالات ، جریدے اور کتابوں کی شکل میں تحریر کریں تاکہ ہر ایک طالبعلم اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے لہذا دانشمند حضرات میں سے نامور علوم قرآن کے ماہر مرحوم علی بن احمد جوحرّالی کے لقب اور ابوالحسن کی کنیت سے معروف ہیں۔

اسامی قرآن کے عنوان پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے فرمایاہے کہ اللہ نے کلام پاک میں قرآن کو90 ناموںاور عناوین سے یاد کیا ہے۔ جسکی حقیقت درک کرنے کی خاطر ماہرین علماء اور مفسرین کی ضرورت ہے۔ (1)

..................................

(1)البرھان

۱۰

شافعی مذہب کے معروف فقیہ جو ابولمعالی کی کنیت سے معروف ہیں ، انکی معروف کتاب کا نام البرہان فی مشکلات القرآن ہے جس میں انہوں نے فرمایا :کلام پاک میں قرآن مجید کو 55 عناوین اورناموں سے یاد فرمایا ہے۔ (1)

جناب حسین بن علی رازی امامیہ کے برجستہ اور نامور و مشہور علماء میں سے ایک ہیں جن کی کنیت ابو الفتوح تھی ، آپ مرحوم طبرسی صاحب مجمع البیان اور آقای زمخشری کے ہم عصر تھے آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید کو قرآن مجید میں 43 ناموں اور عناوین سے یاد کیاہے۔

مرحوم طبرسی جو ابو علی کی کنیت امین الدین یا امین الاسلام کے لقب سے معروف اور مشہور ہیں فرمایا قرآن کریم کے چارنام ہیں:1۔ قرآن 2۔ کتاب 3۔ فرقان 4۔ذکر (2)

اور بہت سارے مفسرین او رعلوم قرآن کے محققین نے انہیں چار عناوین اور ناموں کی تفسیر اور وضاحت فرمائی ہے لہذا ہمارے دور کے بہت سارے محققین نے اسامی قرآن کو فقط پانچ عناوین قرار دیے ہیں.1۔ قرآن 2۔کتاب 3۔ذکر 4۔تنزیل،5۔فرقان، دیگر تمام عناوین کو قرآن مجید کے اوصاف قرار دیے ہیں، لیکن دقت کے دامن میں تمام محققین کے

............................

(1)البرہان فی مشکلات القرآن،ج3،ص401)

(2)مجمع البیان، ج1،ص14۔

۱۱

کلام او رتحقیقات کو بیان کرکے نقد و بررسی کرنے کی گنجایش نہیں ہے، فقط بیشتر مفسرین او رعلوم قرآن کے ماہرین کے نظریہ کو اجمالی طور پر نقل کرنے پر اکتفا کرو نگا جس پر ہمارے استاد محترم حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج رجبی نے بھی اپنے لکچر میں اشارہ کیا تھا آپ اس دور میں حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کے ماہر ترین استاد ، موسسہ امام خمینیؓ کے شعبہ علوم قرآن کے ڈائریکٹر ہیں ، آپ نے فرمایا قرآں مجید کے اسامی معروف مفسرین او رعلوم قرآن کے محققین کی نظر میں درج ذیل ہیں:

1۔ قرآن 2۔کتاب 3۔فرقان 4۔ذکر 5۔تنزیل 6۔مبین 7۔کریم 8۔نور 9۔ہدی 10۔ موعظہ 11۔شفاء 12۔مبارک 13۔علیّ 14۔حکمۃ 15۔حکیم 16۔مصدّق 17۔مہیمن18۔حبل 19۔صراط المستقیم 20۔قیّم 21۔قول فصل 22۔ نباء العظیم 23۔احسن الحدیث 24۔متشابہ 25۔مثانی 26۔روح 27۔وحی 28۔عربیّ 29۔بصائر 30۔بیان 31۔علم 32۔حق 33۔ہادی 34۔عجب 35۔تذکرہ 36۔العروۃ الوثقی 37۔عدل 38۔صدق 39 امر 40۔منادی 41۔بشری 42۔مجید 43۔زبور 44۔بشیر 45۔نذیر 46۔عزیز 47۔بلاغ 48۔قصص 49۔صحف 50۔مکرّمہ 51۔مرفوعہ 52۔مطہرۃ 53۔کلام اللہ 54۔رزق الرّب 55۔تبیان 56۔نجوم 57۔سراج المنیر 58۔نعمۃ 59۔مصحف ۔

اگرچہ دیگر کچھ محققین نے اس سے زیادہ ذکر کئے ہیں، لیکن اکثر علوم قرآن کے ماہرین نے انہیں مذکورہ عناوین پر اکتفا کئے ہیں، لہذا یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے متعدد نام او راسامی ہیں جس پر سارے مسلمانوں کااتفاق ہے ، لیکن ان کی کمیت او رتفسیر کے بارے میںمسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے۔

مگر اختصار اور فرصت کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئین محترم کو اس موضوع کے متعلق دیگر مفصل کتابوں کی طرف محوّل کرتا ہوں رجوع کیجئے۔

۱۲

آیات قرآن کی وضاحت:

الف: معنی آیہ. آیات کے دو معانی ہیں. 1۔لغوی 2۔اصطلاحی

1۔ لغت میں آیہ چار معانی میں استعمال ہوا ہے :

1۔معجزہ ،چنانچہ اللہ نے فرمایا: سَلْ بَنِی اِسْرَائِیلَ کَمْ آتَیْنَاهُمْ مِنْ آیَةٍ بَیِّنَةٍ (1) (اے رسول) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنے روشن معجزہ پیش کئے۔

یہاں بہت سارے مفسرین اور محققین نے آیۃ بینۃ کا معنی معجزہ واضحہ کیاہے، اس بات کی بنیاد پر آیہ معجزہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس آیہ میں بہت سارے مترجمین نے کلمہ آیت کا ترجمہ نشانی اور علامت کیا ہے، جسکی بناء پر کلمہ آیہ کا معنی معجزہ نہیں ہے، بلکہ

............................

(1)البقرہ/211

۱۳

علامت اور نشانی ہے جو آنے والے معانی میں سے ایک ہے۔

2۔ علامت: چنانچہ اللہ نے فرمایا:ان آیہ ملکہ ان یاتیکم التابوت (1)

اس کے بادشاہ ہونے کی علامت اور پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صدوق آجائے .اس آیت کر یمہ میں لفظ آیت علامت اور نشانی کے معنی میں استعمال ہوا ہے.

3۔عبرت: چنانچہ اللہ نے فرمایا: انّ فی ذالک لایة . اس میں یقینا (تمہارے لئے) عبرت ہے.

4۔ عجیب و غریب: چنانچہ اللہ نے حضرت عیسی او رحضرت مریم کے بارے مےں فرمایا: و جعلنا ابن مریم و امّہ آیۃ'' اور ہم نے حضرت عیسی اور انکی والدہ گرامی عجیب و غریب قرار دی''۔ (2)

5۔جماعت: چنانچہ لغت عرب میں کہا جاتا ہے ''خرج القوم بآیتهم''

''قوم اپنی وفد اور گروپ کے ساتھ نکلی''

6۔ برہان اور دلیل: چنانچہ اللہ نے فرمایا :'' و من آیاتہ خلق السموات و الارض اور اس کی قدرت پر قائم کردہ برھانوں میںسے آسمانوںو زمین کی تخلیق ہے۔ (3)

.................................

(1)بقرہ/248،

(2). مومنون/50)

(3)روم/22)

۱۴

بہت سارے محققین نے اس طرح آیات مذکورہ کو کلمہ آیہ کے لغوی معنی متعدد ہونے پر دلیل قرار دیاہے، حالانکہ اگر ہم غور کریں تو ان معانی میں سے صرف دو معنی صحیح ہیں:1۔علامت 2۔جماعت ، لہذا مذکورہ آیات میں سے اکثر وہی علامت اور نشانی کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔

2۔ اصطلاحی معنی:

کلام الہی کے و ہ حصّے جس کے آغاز اور انجام معین ہونے کے علاوہ ہر آیت اپنی مخصوص جگہ میںگامزن ہے، اس کو اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے، اور آیۃ اور جملے کے مابین عام و خاص من وجہ کا فرق قابل تصور ہے یعنی کبھی جملہ ہے آیت نہیں ہے کبھی آیت ہے جملہ نہیں ہے ، کبھی جملہ او رآیت دونوں ہیں یعنی قرآن کریم میں مفردات، جملات او رکلمات ہوا کرتے ہیں جس کے ایک خاص مجموعہ کو آیت کہا جاتا ہے جو ہر حوالے سے فصاحت و بلاغت کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ ہونے کے علاوہ مکمل ایک معقول مطلب کو اداکریں نیزتمام آیات کی حد بندی ،جگہ کا تعین بھی پیغمبر اکرم (ص) نے ہی کیا ہے، لہذا آیات او رسورے کی حد بندی، جگہ کا تعین توقیفی ہے، جسمیں عقل اور اجتہاد و قیاس وغیرہ کرنے کی گنجایش نہیں ہے یعنی جس جملہ اور ترکیب کو آیت کہا گیاہے یا جس سورہ کی جگہ معین ہے ، اس میں اجتہاد اورنظر دینے اور قیاس کرنے کا حق نہیں ہے ، جس پر تمام مسلمین کا اتفاق ہے۔

۱۵

لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے المص کو ایک آیت قرار دیاہے،جبکہ المرا کو ایک آیت شمار نہیں کیا ہے، یا سین کو ایک آیت قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے ہموزن طس کو ایک آیت نہیں کہا گیا ، اسطرح حمعس کو دو آیات قرار دیتے ہیں،لیکن کہٰیعٰس کو حروف کے حوالے سے زیادہ ہونے کے باوجود ایک آیت قرار دیتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کا تعین امر توقیفی ہے جس میں اجتہاد اور قیاس یا دیگر راہوںکو بروی کار لانے کی گنجایش نہیں ہے اگرچہ علوم قرآن اور تفاسیر کی کچھ کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ کبھی کبھار کلمہ آیہ ایک حصہ اور بعض آیۃ پراستعمال کیاگیا ہے چنانچہ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ کلمہ ارجی ایک آیت یا سورہ زلزال کے آخری دو جملوں کو ابن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ دو آیات ہیں، لیکن ایسے موارد میں کلمہ آیت کا استعمال کرنا بظاہر مجازی ہے، کیونکہ اس کے معنی اصطلاحی اور لغوی کے موضوع لہ سے ایسے موارد یقینا خارج ہیں۔

نیز قرآن کی آیات کی تعداد اور گنتی میں بھی تھوڑا بہت علوم قرآن کے ماہرین کے درمیان اختلاف ہے،لیکن ایسا اختلاف آیات قرآنی کی حد بندی، اور جگہ کا تعیّن توقیفی ہونے کے ساتھ کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں ہے،کیونکہ ایسے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) اصحاب او رکاتبین کی خدمت میں نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے تھے تو جس سے اصحاب خیال کرتے تھے کہ جہان پیغمبر اکرم (ص) وقف اوررک جا تے تھے وہاں تک ایک آیت ہے لیکن کچھ دوسرے اصحاب اور کاتبین ان کے خلاف خیال کرتے تھے، کہ مزید وضاحت کیلئے علوم قرآن کی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کی ضرورت ہے لہذا آیات کی تعداد کے بارے میں مختلف نظریے موجود ہیں ۔

۱۶

1۔ بصریین کے عقیدے کی بنا پر کلام پاک کی آیات کی تعداد 6204 یا بعض بصریین کے نزدیک 6205 یا دیگر کچھ بصریین کی نظر میں 6219 ہے۔

2۔ مدنیین کے عقیدے کی بنا پر آیات کی تعداد 6214 یا دیگر کچھ مدنیین کی نظر میں 6217 ہے۔

3۔ مکیوّن کی نظر میں کلام مجید میں 6220 ہے ۔

4۔ شامیوں کے نزدیک قرآن مجید میں 6226آیات ہیں۔

5۔ کوفیوں کی نظر میں ایات قرآنی کی تعداد 6236 ہے۔ (1)

6۔ لیکن جب ہم اپنے شفیق استاد محترم رجبی صاحب کے لیکچر سن رہے تھے اور ان کے اسی موضوع پر دیے ہوئے لیکچر کو کتابچہ کی شکل میں طلاب کو عطا بھی کئے تھے اس میں آیات کی تعداد کو 6666 بتائی ہے اور ہم نے علوم قرآن کے اصول و ضوابط کے مطابق کئی دفعہ قرآن کے آغاز سے آخر تک آیات کو گنا تھا لیکن 6666 آیات کی تعداد بہت بعید نظر آتی ہے ۔

.............................

.(1)مناہل العرفان،ج1،ص337

۱۷

آیات کی ترتیب اور نظم و ضبط:

آیات کی موجودہ ترتیب اور نظم و ضبط تمام امت مسلمہ کے نزدیگ اجماعی اور اتفاقی ہے یعنی جسمیں کوئی تبدیلی اور جابجائی یا قیاس و اجتہاد کرنے اور نظر دینے کی گنجایش نہیں ہے کیونکہ جب حضرت جبرئیل آیات لیکر حضرت پیغمبر (ص) کی خدمت میں تشریف لائے تھے تو جبرئیل ان

آیات کی جگہ او رترتیب بھی معین کرتے تھے اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہو بہو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ اصحاب اور کاتبین وحی کی خدمت میں پیش کرتے تھے. اور ہر ایک آیت کی جگہ بھی معین کرتے تھے، اور عین اسی ترتیب اورنظم و ضبط کے ساتھ نماز اور خطبوں اور موعظوں کے اوقات تلاوت فرماتے تھے ، حتی علو م قرآن کے ماہرین اور محققین اپنی گرانبہا کتابوں میں تحریر کر چکے ہیںکہ حضرت جبرئیل ہرسال ایک دفعہ پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میںتشریف لاتے تھے او رعین اسی نظم و ضبط کے ساتھ آیات کو تکرار کرتے تھے او رپیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے سال میں جبرئیل دو دفعہ ائے اور پوری آیات کو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ تکرار کیا تھا جسکو علوم قرآن کی اصطلاح میں عرضہ اخیر کہا جاتا ہے، اور اصحاب و کاتبین وحی اور حافظین قرآن بھی اسی ترتیب اور نظم و ضبط کی ہمیشہ رعایت کرتے تھے،لہذا کہا جا سکتاہے کہ آیات کی ترتیب اور نظم نسق اور آیات کی جگہ جس طرح موجود ہیں اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے رکھی گئی ہے،

۱۸

جس میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کی گنجایش نہیں ہے ، جس کی تائید احادیث بھی کرتی ہیں، چنانچہ ابی العاص نے کہا کہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں آنحضرت(ص) نے آسمان اور زمین کی طرف نظر کی اور فرمایا ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے تھے اور مجھ سے کہا اس آیت کو اپنے سورہ کے مخصوص معین جگہ رکھیے۔ ''ان الله یامر بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی '' (1)

نیز بخاری نے زبیر سے روایت کی ہے کہ زبیر نے کہا کہ میں نے عثمان سے پوچھا اللہ کا یہ قول کہ والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا (2)

نسخ شدہ آیہ تھی. کیوں لکھی گئی ہے؟ تو عثمان نے کہا میرے بھائی میں کسی آیہ کو اس کی معین جگہ سے تبدیل یا اس کو حذف نہیں کر سکتا (3)

ان روایتوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ نسخ شدہ آیہ کی جگہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے جس میں کسی قسم کی تبدیل اور جابجائی کی گنجایش نہیں ہے۔

نیز جناب سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب میں فرمایا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کئی سورتوں کو نماز جمعہ کے خطبے اور اصحاب کے حضور میں آیات کی موجودہ ترتیب او رنظم و نسق کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے یہ چیزیں آیات قرآن کی ترتیب اورنظم وضبط توقیفی ہونے کی

.........................

(1)النحل/(اتقان ج1ص104

(2)بقرہ/24)

(3)صحیح بخاری۔

۱۹

بہترین دلیل ہیں او راصحاب بھی اسی ترتیب کے پایبندرہتے تھے کبھی کسی کو اس ترتیب کے خلاف تلاوت کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ،یہ بات تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے۔ (1)

اسی طرح جناب زرکشی نے کتاب برہان میں جعفر بن زبیر اور دیگر کچھ محققین آیات قرآن کی ترتیب جو اس وقت بین الدفتین موجود ہے توقیفی ہونے پر اجماع کے دعویدار ہوئے ہیں۔

سوال و جواب:

آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کے تقرر معلوم ہونے کا کیا فائدہ اورنتیجہ ہے؟

اس بحث اور گفتگو کا نتیجہ اور افادیت وہاں ظاہر ہو جاتی ہے جہاں کسی نے نماز میں یا عام عادی حالت میں کچھ آیات کی تلاوت کرنے کی نذر کی ہے وہاں آیت کی حد بندی کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے،لہذا اس بحث کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ بھی ہوسکتاہے کہ جس طرح دیگر مباحث میں علمی نتائج کے علاوہ عملی نتائج او رافادیت سے مالا مال ہے، اس طرح یہ بحث بھی افادیت اور نتائج سے خالی نہیں ہے۔

...................................

(1)اتقان ج 1ص105

۲۰