علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 47382
ڈاؤنلوڈ: 4202

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47382 / ڈاؤنلوڈ: 4202
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حتی ابن عباس علوم قرآن اور مفسر قرآن کے ماہر ہونے کے باوجود زید بن ثابت کے دولت سرا جاتے تھے تاکہ مزید علم قرآن سے فیضیاب ہوسکیں۔

6۔میثم تمار :جبیر وغیرہ کو بھی اصحاب رسول (ص) کے مفسرین میں سے قرار دیا ہے لہذا اختصار کے پیش نظر انہی چند مفسرین کے نام لینے پر اکتفاء کروں گا ۔

تابعین کے دور میں معروف مفسرین :

1۔ سعید بن جبیر :تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو جناب ابن عباس سے لیا تھا ،ابن خلکان نے اس کی تفسیر کے اصول وضوابط ابن عباس سے لینے کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا وہ تابعین کے دور میں بہت ہی معروف اوربر جستہ مفسرشمار ہوتے تھے ۔ (1)

سبحان ثوری کے کہنے کے مطابق تفسیر قرآن کوچار ہستیوں سے لینا چاہیے ،سعید بن جبیر ، مجاہد ،مکرمہ ،ضحاک ۔ (2) جناب سعید بن جبیر حجاج بن یوسف کی اذیت اورسختی میںشہادت پر فائز ہوئے ۔

2۔مجاہد بن جبر مکی : آپکی کنیت ابو الجاج تھی ابن عباس کے شاگردوں میںسے ممتاز شاگرد تھے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو حضرت علی -اور ابن عباس سے لیتے تھے اہل سنت کے مفسرین بھی آپکی خاص اہمیت کے قائل ہیں ۔ (3)

-------------------------

(1)وقیات الاعیان ج 1ص363 (2)الاتقان ج 2ص 323(3)ذھبی التفسیرالتفسیر ج 1 ص106

۱۰۱

3۔عکرمہ:تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میںسے ایک عکرمہ کوبتایا جاتا ہے ،جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول اورنہج کو حضرت علی (ع) اورجناب ابن عباس سے لیا تھا مرحوم محدث قمی نے لکھا ہے کہ عکرمہ شیعہ امامیہ کے مفسرین میںسے نہیںہیں (1)

حتی بعض محققین کے نظریے کی بناء پر وہ خوارج میںسے تھے ، (2)

اس بات کی تائید کے طور پر امام محمدباقر سے یہ روایت ہے ،ایک دن آپکی خدمت میں عکرمہ کے احتضار اور موت کی حالت کاتذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا اس تک میری رسائی ہوتی تو میں اس کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ۔ (3)

4۔عطا بن ابی ربح مکی :آپ مکہ کے نامور ومشہور مفسرین میں سے ایک تھے چنانچہ خود نے کہا ہے کہ میں نے اصحاب میں سے ستر نفر کو درک کیا ہے ، قنادہ نے کہا کہ عطاء بن ابی رباح اپنے دور میں معارف اسلامی اوردینی معلومات کے حوالے سے بے مثال تھے چنانچہ ذھبی نے لکھا ہے کہ جب لوگ دینی مسائل اورمعارف اسلامی کے متعلق رجوع کرتے تھے

..................................

(1)سفینۃ البحار ج2،ص 216)

(2)مذاہب التفسیر الاسلامی ص96)

(3)سفینۃ البحار ج 2 ص 216

۱۰۲

تو ابن عباس نے کہا اہل مکہ عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے مجھ سے کیوںرجوع کرتے ہیں ؟ (1)

آپ کو تفسیر کے موضوع پر قدیم ترین مصنفین میںسے شمار کیاجاتا ہے ، اورانہوں نے اپنے تفسیر کے اصول اور قواعد کو ابن عباس سے لیا تھے ۔

5۔ طاووس بن کیسان یمانی :شیخ طوسی اورصاحب روضات نے اس کو اصحاب امام سجاد میںسے قراردیاہے ،اوربعض محققین اس کوشیعہ امامیہ مانتے ہیں جبکہ دیگر مفکرین اورمحققین نے انہیں اہل سنت کے مفسرین میںسے قرار دیا ہے، اور آپ نے اصحاب رسول (ص) میںسے پچاس نفر کو درک کیا تھا ،آپ کی سب سے زیادہ ابن عباس سے آمد ورفت تھی ، لہذا انہوں نے تفسیر کے طرزاورقواعد کو ابن عباس سے لیا ہے۔

صفحات کے دامن میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک دور کے مفسرین کی تفصیلی گفتگو سے پر ہیز کرتے ہوئے فقط فہرست وار خلاصہ کو بیان کریں گے تاکہ قارئین محترم کو آسانی ہو جائے۔

...................................

(1)ذھبی التفسیر التفسیر ج 1ص 113)

۱۰۳

اصحاب کے دورمیں مشہور مفسرین :

عبدا للہ ابن عباس

عبدا اللہ ابن مسعود

ابی بن کعب

زید بن ثابت

جابر بن عبد اللہ انصاری

جن کے بارئے میں اجمالی گفتگو ہوچکی ہے مزید معلومات اورآگاہی کی خاطر کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتے ہیں (1)

تابعین کے دور میںمعروف مفسرین :

الف : مکہ کے مفسرین :

سعید بن جبیر

مجاہد

عکرمہ

عطا بن ابی رباح ،طاووس بن کیسان

.............................

.. (1)التفسیر التفسیر ج1ذہبی)مذاہب التفسیر الاسلامی ،الاتقان ج2 ،طبقات ابن سعد )

۱۰۴

ب :مدینہ کے مفسرین :

ابو العالیہ رفیع بن مہران ریاحی

زید بن اسلم

محمد بن کعب

ج۔عراقی مفسرین :

ابو سعید حسن بصری

قتادہ بن دعامہ سدوسی

ابو صالح باذان بصری

مرۃ ہمدانی کوفی

علقمہ بن قیس کوفی

مسروق بن اجدع کوفی

عامر شعبی کوفی

جابربن یزید جعفی

اسماعیل بن عبد الرحمن

۱۰۵

متفرقہ مفسرین کے اسامی گرامی :

1۔ عطا بن ابی سلمہ خراسانی

2۔ محمد بن سائب کلبی

3۔ علی بن ابی طلحۃ

4۔ قیس بن مسلم

5۔ سلمان بن مہران

6۔مقاتل بن سلیمان اذدی خراسانی

7۔صحاک بن مزاحم ہلالی

8۔عطیہ بن سعید عوضی جدلی خراسانی

ان کے علاوہ دیگر مفسرین کا نام نہ لینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ مفسرین قرآن نہیں تھے بلکہ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے محققین سے درخواست ہے کہ بر جستہ محققین اور مؤلفین کے گرانبہا مفصل آثار کی طرف رجوع کیجیے ۔

لہذا ہم یہاںپر فقط چند تفاسیرکی معرفی کرینگے ۔

۱۰۶

الف : اہل سنت کی مشہور ومعروف تفاسیر :

جامع القرآن فی تفسیر القرآن -- ابن جرید طبری

تفسیر بحر العلوم -- ابن لیث سمر قندی

الکشف والبیان عن تفسیر القرآن -- ابی اسحاق تعلیمی

معالم التنزیل -- ابی محمد حسین بغوی

المحر ر فی تفسیر الکتاب العزیز -- ابن عطیہ اندلسی

تفسیر القرآن العظیم -- ابی القداالحافظ ابن کثیر

الجواہر الحسان فی التفسیر القرآن -- عبد الرحمن الثعالبی

الدرالمنثور فی تفسیر الماثور -- جلال الدین سیوطی

ان تمام تفاسیر میںآیات کی توضیح اورتفسیر روایات اورسنت نبوی کی روشنی میں کی گئی ہے ۔

۱۰۷

لہذا شیعہ امامیہ کی کچھ تفاسیر روائی کی طرف اشارہ کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں ۔

تفسیر قمی -- علی بن ابراہیم

تفسیر نور الثقلین -- عبد العلی حویزی

تفسیرالبرہان -- سید ہاشم بحرانی

تفسیر صافی -- ملا محسن فیض کاشانی

تفسیر الائمۃ لہدا یۃ الامۃ-- ،میرزا محمد رضا

تفسیر عیاشی -- محمد بن سعود

التفسیر با الماثور -- مولی علی اصغر قائنی

ان کے علاوہ دیگرتفاسیر قرآن ،قرآن کی روسے یا عقل اوردیگر ادبی روسے کی گئی ہیں ،فریقین کے محققین نے کافی زحمت کی ہے،جنکی تعداد بہت زیادہ ہے ۔

اعجاز قرآن کا اجمالی تعارف :

علوم قرآن کے مباحث میں سے کچھ بہت مشکل اورپیچیدہ ہیں جسکی بناء پر اسلامی مکاتب فکر اورمحققین نے ہزاروں زحمتیں اٹھا کر فہم قرآن کی خاطر شب وروز ان مسائل کی شرح اورتوضیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہی مسائل میںسے ایک اعجاز قرآن کا مسئلہ ہے جس کے بارئے میںعلماء اورعلوم قرآن کے ماہرین نے مفصل بہت بڑئے حجم کی کتابیں اور تحقیقی مقالات ہر دور میںپیش کئے ہیں تاکہ قرآن پر ہونے والے اشکالات اورشبہات کا ازالہ ہو سکے ۔

۱۰۸

لہذا اعجاز قرآن پر جتنے بھی اشکالات وارد ہوئے ہیں سب کا جواب ہر دور میں بہت ہی مستدل اور اچھے طریقے پر دیاگیاہے ،رجوع کے لئے بہترین کتاب استاد محترم حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ ،المد خل التفسیر،المیزان ج1۔البیان فی تفسیر القرآن کافی ہے۔

لیکن کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اتنے سارئے مقالات اورکتب کے باوجود اس موضوع پر قلم اٹھانا مفید نہیں ہے !کیونکہ ہمارا مقصد علوم قرآن کا اجمالی تعارف اردو زبان میں بیان کرنا ہے تاکہ اس وقت کے مفسرین جان لیں کہ تفسیر بالرای شریعت اسلام میںممنوع ہے اورتفسیر قرآن لکھنے کے لئے فقط پیسے اوراثر ورسوخ کا فی نہیں ہے بلکہ علوم قرآن کو سیکھنے کے بعد علوم قرآن کے نتائج کی حیثیت سے تفسیر قرآن پیش کریں لہذا اعجاز قرآن کا اجمالی تعارف کرانا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے جس کوذکر کررہے ہیں ۔

اعجاز قرآن کے بارے میں تین نظریے قابل تصور ہیں:

الف : قرآن معجزہ نہیں ہے یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا ناممکن نہیں ہے !

اس نظریے کو برسوں سال پہلے خود قرآن کریم نے ہی بہت ہی زیبا اورادبی الفاظ میں جواب دیاہے جیساکہ : فاتو ابمثلہ ،''اور کبھی یوں ارشاد فرمایا ''اس کی مانند دس سورئے لاسکتے ہو تو لاؤ!اور کبھی فرمایا ''جن وانس مل کر اس قرآن کی مانند پر اتفاق کریں تو بھی نہیں لاسکیں گے ''ان جیسی اور بھی بہت سی آیات موجود ہیں ، جیسے سورہ انعام ،نحل،بقرہ ،بنی اسرائل ،کی بعض آیات تحدی کا ضرور مطالعہ کیجیے ،مرحوم علامہ طباطبائی المیزان ج 1 میںمعجزہ کی حقیقت اورکمیت و کیفیت کو بہت ہی اچھے انداز میںبیان فرمایا ہے اورتمام شبہات واعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاہے ۔

۱۰۹

ب: جو لوگ قرآن کو معجزہ یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانے کو ناممکن نہیں سمجھتے ہیں ان میں سے کچھ نظریہ صرف کے قائل ہیں یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا عقل کی روسے ناممکن نہیں ہے لیکن جب بھی انسان قرآن کی مانند لانا چاہتا ہے تو اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ،لہذا عقلا اس کی مانند لانا ممکن سمجھتے ہیںلیکن عملا نہیں لاسکتے چونکہ اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ۔!

اس نظریے کے قائلین بھی اسلامی مکاتب فکر میںکم نہیں ہیں ،جناب استاد محترم ڈاکٹر رجبی دام عزہ اپنے لیکچر میںسات نفر کا نام لیا تھاکہ یہ لوگ اعجاز قرآن کے بارئے میں صرف کے قائل ہیں۔

ذراسا توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نظریہ آیات تحدی کے ظہور اوردلیل عقل کے ساتھ ساز گار نہیں ہے کیونکہ ایک طرف سے اس کی مانند لانے کوممکن سمجھنا تودوسری طرف سے عملا لاکر دکھانے میںقاصر کے قائل ہوجانا !یہ دو باتیں اعجاز قرآن کے بارئے میں آئی ہوئی ادلۃ کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔!

ج : قرآن معجزہ ہے ، جسکی حقیقت اورکمیت وکیفیت کو سمجھنے کے لئے رجوع کیجیے ۔ (ا)

اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن معجزہ ہے تاقیامت کوئی قرآن کی مانند اورمثل نہ اب تک لاسکا ہے اورنہ ہی لاسکے گا ، لہذا نزول قرآن کے دور میں ہی تمام فصحاوبلغا جمع ہوگئے ۔سب نے اعتراف کیا کہ اس سے فصیح اور بلیغ کوئی کلام نہیں ہوسکتا

جب یہودیوں کا دور شروع ہوا تو سورہ کوثر ،سورہ حمد ، سورہ عادیات ، سورہ انشقاق

.............................

(1)1لمیزان ج1بحث اعجاز قرآن بہت ہی مفصل اورمفیدہے ، مدخل التفسیر ابحاث حول اعجاز القرآن ، حضرت استاد محترم فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ )

۱۱۰

کی مانند سورتوں کو بنا کر قرآن میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ، خوش قسمتی سے نہ فقط خود ساختہ سورتوں کو قرآن میں شامل نہیں کیاجاسکا ،بلکہ اپنی نادانی اورجہالت کااعتراف بھی کرنا پڑا ،اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے جملات جو آج کاغذوں پر ثبت ہیں ان کی ملامت کرتے ہیں ۔

مرحوم علامہ طباطبائی نے المیزان جلد اول میں اعجاز قرآن کی بحث میںاعجاز قرآن کے مسئلہ کو بہت ہی مفصل اورعلمی،فلسفی اورعقلی اصول وقواعد کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔

لہذا قارئین محترم کو حقیقت اعجاز پر کئے ہوئے علمی اورعقلی اشکالات کا بہت ہی اچھے طریقے سے جواب دیا گیاہے مزید اس موضوع کے بارئے میں قارئین سے وقت لینا مناسب نہیںسمجھتا لہذا اختصار کے طور پر علامہ مرحوم طباطبائی کے تحقیقاتی اور علمی مطالب میںسے کچھ ذکرکرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن من جمیع الجہات جو قابل تصور اورتعقل ہے معجزہ ہے ، یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن فقط فصاحت وبلاغت کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا نظم وضبط اورترکیب وتحلیل کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا ادبی نکات اوراصول وضوابط کے حوالے سے معجزہ ہے ،بلکہ قرآن تمام جہات کے اعتبار سے معجزہ ہے ،علمی ،سیاسی ،ثقافتی ،اجتماعی ،انفرادی،اقتصادی ،تربیتی ،اخلاقی ،ادبی ،فقہی ،عقلی ،فصاحت وبلاغت ،نظم وضبط وغیرہ کے حوالے سے معجزہ ہے کوئی بھی مادی انسان مادی نظام کی روشنی میں اپنی گفتگو چاہے اقتصادی اورمعاشیات کے ماہر ہوں یا سیاسی اورعلمی ثقافتی اوراجتماعی اورادبی بلاغت وفصاحت نظم وضبط تحلیل وتفسیر کے جس مرحلے پر فائز ہوں قرآن کی مانند اورمثل نہیں لاسکتے

۱۱۱

لہذاوہ آیات جس میں اللہ نے بشر کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن کی مانند اورمثل انسان اورجن باہم مل کر لانا چاہیں تو بھی نہیں لاسکیں گے ایسی آیات ہر جہات سے چیلنج کرتی ہیں ،کہ تاقیامت کوئی اس کی مانند ایک سورہ ،یا ایک آیت کی بات تو دور کی بات ہے ،ایک جملہ بھی نہیںلاسکتے اور یہی قیامت تک کے لئے سب سے بڑا معجزہ ہے (1)

جسکو ثابت کر نے کے لئے مرحوم طباطبائی نے آیات کے علاوہ علمی وعقلی برہانوں سے استدلال کیاہے ،یعنی قرآن کریم میںجو علمی اوراخلاقی اورتربیتی یا دیگر مسائل کو جس انداز میں اللہ نے بیان کیاہے اس انداز میںکوئی انسان پیش نہیں کرسکتا اوریہ قرآن کی عظمت اوراعجاز کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

تبھی تواسلام کے ساتھ صدر اسلام سے اب تک اتنی عداوت اوربغض کے باوجود کبھی بھی قرآن کو نہیں مٹا سکے ، یہ اللہ کی بڑی منت ہے کہ جس نے قرآن کو ایسے مطالب اورالفاظ پر ناز ل فرمایا کہ جس کی دنیاکی کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی۔

.............................

(1)المیزان ج1بحث قرآن ،طباطبائی )

۱۱۲

لہذا شاید'' انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ''کا اشارہ ایسے مطالب کی طرف ہو تبھی تو سورہ کوثر کے مقابلہ میں '' انااعطینا ک الجواهر فصل لربک وجاهر ولا تعتمد قول ساحر !یا سورہ حمد کے مقابلے میں'' الحمد لرحمن رب الاکوان ملک الادیان لک العبادة وبک المستعان اهدنا صراط الایمان '' !!!

یا دیگر سورتوں کو بنانے والے کے جملات ہی ان کی ملامت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں جملات اورکلمات سے ہی ان کی علمی صلاحیت اورفہم ودرک اورقرآن کے ساتھ عداوت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں آپ غور کیجیے ایسے افراد کتنی جہالت اورتاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ سورہ کوثر میں'' انا ''''اوراعطیناک ''کو عین قرآن کے الفاظ میں تکرار کیا ہے جبکہ اسکا دعوی ہے کہ ہم اس کا مثل لائینگے ،اسی طرح ''کوثر ''کی جگہ ''جواہر'' کاکلمۃلایا ہے ''جواہر'' اور''کوثر ''کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کلمہ'' اعطا ''کے متعلق ''جواہر'' کو قرار دینے اور''کو ثر'' کو قرار دینے میں ادبی اورفصاحت وبلاغت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا فرق ہے ، پھر'' فصل لربک'' کی جگہ عین الفاظ قرآن کو تکرار کیا ہے جبکہ اس کی پوری کوشش اس کی مانند لانا ہی ہے ،''والنحر''کی جگہ ''جاہر'' ،''انا شانئک ہو الابتر'' کی جگہ ''ولاتعتمد قول ساحر ''لانے سے فقط اپنی ضمیر کی عکاسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،کیونکہ ان دوجملوں کے الفاظ اورمعانی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اور ادبی حوالے سے ان دونوں کے درمیان مقائسہ کرنا ہی غلط ہے ۔!

۱۱۳

نیز سورہ حمد کے مقابلے میں خود ساختہ سورہ کو سورہ حمد سے مقایسہ کیجیے کہ کلمہ'' الحمد'' عین وہی لفظ ہے جو قرآن میں آیاہے جبکہ اس کا ہدف اس کی مانند اور مثل لاکر اللہ کے عجز کوثابت کرنا ہے ،''للہ'' کی جگہ'' للرحمن'' لا یا جبکہ'' للرحمن'' اولا قرآن کے ہی الفاظ میں سے ایک ہے ،ثانیا اللہ کا لفظ علم ہے اور لفظ رحمن اس کی صفت ہے کلمہ الحمد کے ساتھ للرحمن لانے اورالحمد کے ساتھ للہ لانے میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اگرکسی کو معلوم نہ ہو تو اس صورت میں اس شخص کو عالم کہلانے کے بجائے اس کا علاج کروانا چاہیے۔

اسی طرح کلمہ'' رب ''کو عین قرآن ہی کا ایک لفظ ہے تکرار کیا ہے اوررب کے بعد عالمین کی جگہ'' اکوان'' کو لا یا ہے'' اکوان'' کلمۃ''کون ''کا جمع ہے ۔

جبکہ' ' عالمین ''کے بارئے میں اختلاف ہے ، یہ کسی مفرد کی جمع نہیں ہے کیونکہ عالم متعدد نہیں ہیں ،البتہ کچھ مفسرین نے فرمایا ہے کہ کلمہ ''عالمین'' ''عالم ''کی جمع ہے'' عالم'' اس کا مفرد ہے اس نظریے کی بناء پر بھی'' اکوان'' اور''عالمین ''کے معنی لغوی اوراصطلاحی میں فرق پایاجاتا ہے ''کون'' افعال عموم میں سے ایک ہے جبکہ ''عالم'' افعال مخصوص میں سے ان کے متعلقات اورقیودات کے اعتبار سے قابل جمع نہیں ہے کیونکہ یہ دو لفظ مترادف نہیںہیں۔

ثانیا'' اکوان'' جمع مکسر ہے جبکہ عالمین جمع سالم ہے ان کے معانی اور فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے بھی قابل جمع نہیں ہے ۔

قرآن کے مثل لانے کے دعویدار کو چاہیے کہ وہ وہی کمیت اور کیفیت کے ساتھ الفاظ کو لا ئیں جو سورۃ حمد میںموجود ہیں ،اگر کو ئی جمع سالم کی جگہ جمع مکسر کو استعمال کرے یا مفرد کے بدلے میں جمع استعمال کرے یا جمع کی جگہ تثنیہ کو استعمال کرے تو یہ اسکی جہالت کی علامت سمجھا جائےگا ۔

۱۱۴

مالک یوم الدین کی جگہ ملک الادیان کو لا یا گیا ہے اگر ان دوجملوں کو باہم معنی اورنظم وضبط اورفصاحت وبلاغت کے حوالے سے مقائیسہ کریں تو بخوبی ایسے افراد کی جہالت اور کم علمی کے ساتھ بے انتھا ئی پستی کا بھی انداز ہ کیا جاسکتا ہے۔

مزید ہمیںان باتوںکی تحلیل وتفسیر کرتے ہوئے اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرناچاہیے ۔

تلاوت کلام پاک کی عظمت :

تلاوت کلام پاک کا عنوان علوم قرآن کے مسائل میں نتیجہ اور ثمرہ کی حیثیت رکھتا ہے جب ہم علوم قرآن کے مسائل سے فارغ ہوئے تو ا ن کے نتائج کی طرف بھی اجمالی اشارہ کرتے ہیں تاکہ علوم قرآن کی اہمیت کا پتہ چلے ،اورقرآن کے متین مطالب کو صحیح معنوں میں درک کرنے میں دشواری نہ ہو اور معاشرے کو نورانیت قرآن کے ذریعے منور کرسکیں، لہذا خاتمہ کے طور پر علوم قرآن کے عناوین سے باخبر ہونے کے ساتھ کلام پاک کی تلاوت کرنے کی اہمیت سے بھی واقف ہوناضروری ہے کیونکہ ہر پڑھے لکھے مسلمان بہن بھائیوں کی سیرت اس طرح کی ہے کہ کم از کم 24گھنٹوں میں سے ایک وقت ضرور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور شریعت میں بھی کلام پاک کی تلاوت کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ،لیکن اگر ہم تلاوت کے طور و طریقے اور اصول وضوابط سے کما حقہ آشنائی نہ رکھتے ہوں تو یقینا تلاوت کلام پاک کا جو خاص اثر ہے اس سے محروم رہ جاینگے ،لہذا بہتر ہے کہ درجہ ذیل عناوین کی روسے تلاوت کلام پاک کے قواعد اور اہمیت کو اپنے محترم قارئین کے لئے پیش کریں :

۱۱۵

الف : تلاوت قرآن قرآن کی رو سے ۔

ب: سنت کی روسے ۔

ان عناوین کی وضاحت سے پہلے تلاوت کلام پاک کے فارمولوں کو بیا ن کروں تاکہ لوگ ثواب اور فوائد تلاوت کلام پاک سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوسکیں ۔

1۔ تلاوت کلام پاک ہمیشہ باوضو کرنا چاہیے ۔

2۔ ہر نماز کے بعد تلاوت کرنا چاہیے ۔

3۔پاک وپاکیزہ جگہ جیسے مساجد اماکن متبرکہ جیسے روضات آئیمہ معصومین (ع) وغیرہ میں کرنا چاہیے۔

4۔قرآن کے حروف کو بغیر وضو کے چھونا حرام ہے ،لہذا باوضو قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے

5۔تلاوت سے پہلے اور تلاوت کے بعد محمد وآل محمد (ص) پردرود بھیجنا چاہیے ۔

6۔تلاوت سے پہلے جو دعائیں آئمہ معصومین (ع) سے ہم تک پہنچی ہیں ان کی قرات کرنا چاہیے

7۔ تلاوت کے وقت روبہ قبلہ ہوناچاہیے ۔

8۔تلاوت کے دوران عام اور عادی حالت کی طرح گفتگو سے پر ہیز، دیگر کتب کی طرح ہاتھ میں قرآن رکھ کر مذاق یا کھیل وکود سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

۱۱۶

9۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تفکر اور تدبر کرنے کی سفارش کی گئی ہے لہذا اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

10۔ ترجمہ شدہ قرآن کی تلاوت کی صورت میں غور وخوص کے ساتھ ترجمہ کو درک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔

11۔تلاوت کے وقت قصد قربت اور تلاوت کے بعد والدین اور دیگر مومنین کے حق میں دعا کرنا چاہیے ۔

13۔تلاوت کے دوران جن آیات میںعذاب کا ذکر ہو ا ہے اللہ سے نجات کی درخواست اور آیات رحمت کی تلاوت کے وقت اضافۃ رحمت کی دعا مانگنا چاہیے ۔

14۔الفاظ قرآنی جو مخصوص مخارج کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں لہذا حسین آواز کے ساتھ صحیح مخارج سے ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔

15۔ آیات کو ترتیل (ٹھہر ،ٹھہر )کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔

16۔تلاوت سے پہلے شیطان کے شر سے محفوظ رکھنے کی خدا وند عالم سے دعا کرنا چاہیے (اعوذ بالله من الشیطان الرجیم )

17۔ قرآن ایک باعظمت اور نہایت درجہ کی حامل کتاب ہے لہذا ان تمام مکانات میں جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو وہاں اجتناب کرنا چاہیے ۔جیسے گلی کوچوں میں ۔

18۔غسل جنابت ،یاغسل حیض یا نفاس واستحاضہ کے ہوتے ہوئے تلاوت کرنا اگر چہ جائز ہے لیکن سات آیات سے زیادہ کی تلاوت کرنا مکروہ ہے واضح رہے کہ جن سورتوں میںواجب سجدے ہیں کہ جنہیں سورہ عزائم بھی کہا جاتا ہے مذکورہ غسلوں کے ساتھ ان کی تلاوت کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔

۱۱۷

19۔ قرآن کی تلاوت کے وقت وضو کے علاوہ بدن ولباس وغیرہ کا بھی پاک وپاکیزہ ہونا ،بہتر سمجھا جاتا ہے ۔

20۔ تلاوت کلام پاک کے وقت خشوع وخضوع کا ہونا زیادہ مناسب ہے ۔

21۔ ایسے حرکات اور سکنات کا انجام دینا جن سے قرآن کی بے حرمتی اور توہین کا باعث ہے ان سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔

22۔ قاری قرآن جیسے انداز میںتلاوت کرنا ادا ب تلاوت سمجھا جاتا ہے ، اچھی آوازمیںاور اوقاف وصل کے جگھوںسمیت تجوید قرآن کے قوانین کی روشنی میں تلاوت کرنا بہترہے ۔

23۔ یوںتوتلاوت کلام پاک کے لئے کوئی مخصوص وقت نہیںہے اور کسی بھی وقت میںتلاوت مستحب اورایک نیک عمل ہے لیکن کچھ احادیث میں تاکید کے ساتھ نماز فجر کے بعد تلاوت کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔

24۔ اصحاب رسول (ص) کی سیرت یہ تھی کہ ہر ہفتے میں مکمل قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔اور مہینے میں کم از کم پانچ یا چار مرتبہ پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اس بنا پر اگر ہم ہر ہفتے میںپورے قرآن کی ایک دفعہ تلاوت نہ کرسکیں تو ہر مہینے میں ایک دفعہ قرآن کی مکمل تلاوت کرنا چاہیے ۔

25۔ ماہ مبارک رمضان جس کو بہار قرآن سے تعبیر کیا ہے ،کم سے کم ہر روز ایک جز قرآن کی تلاوت کرنے کی تاکید کی گئی ہے اورماہ مبارک رمضان سب سے افضل اوربہتر عبادت اور قرآن کی تلاوت کا مہینا قرار دیاگیاہے ۔

26۔ تلاوت کے وقت قرآن کو ہر قسم کی گندہ گی اور بے احترامی سے محفوظ رکھنا چاہیے ۔

۱۱۸

27۔قرآن کے کچھ سوروں کو اپنی ذاتی خصوصیات کی بناپر ان سورتوں کو کچھ خاص اوقات میں تلاوت کرنے کی سفارش کی گئی ہے جیسے کہ شب جمعہ کے لئے مخصوص کچھ سورتوں کی تلاوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اسی طرح ہرروز سونے سے پہلے کچھ سورتوں کا نام لیاگیا ہے جن کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے، مفاتیح الجنان اورثواب الاعمال وعقابہا اورسنن ترمذی جیسی کتابوں کی طرف مراجعہ فرما سکتے ہیں ۔

28۔ اگر کوئی بچہ جو احترام قرآن سے نا آشنا ہو اور تلاوت قرآن کرنا چاہے تو اس کو پہلے سے ہی آداب اوراحترام قرآن سے آگاہ کرنا چاہیے۔

29۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن فقط مردوں کے ساتھ مخصوص ہے جیساکہ کسی زمانے میںخواتین کا قرآن سیکھنا عیب سمجھا جاتا تھا لیکن اس دور میں انقلاب جمہوری اسلامی ایران کی بر کت سے ایسے اوہام اورخام خیالی کا خاتمہ ہو چکا ہے اورالحمد للہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ قرآن سے فیضیاب ہورہی ہیں لہذا خواتین کوبھی تلاوت کے وقت صفائی اوروضواورطہارت کاخاص خیال رکھنا چاہیے ۔

31۔ اہل بیت ؑ اطہار ،اصحاب وتابعین سمیت علماء ومجتہدین کی سیرت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی موقع ملا توقرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔یہ عمل قرآن کی تلاوت کی اہمیت اورعظمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

32۔ اگر کسی بے حرمتی کی جگہ قرآن یا قرآن کا کوئی حصہ یا کوئی جملہ پڑا ہواہو تو اس کو فورا کسی پاک اورپاکیزہ جگہ پر رکھنا چاہیے ۔

۱۱۹

33۔ پورے عالم بشریت کاضابطہ حیات کا نام قرآن ہے لہذا زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت اور مفاہیم کو درک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ دنیا وآخرت کے حقائق سے قرآن کی روشنی میںآگاہی حاصل کرسکیں ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ضابطہ حیات انسانی کو اس دور میںہم فقط اموات کی فاتحہ خوانی تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔!

مذکورہ تمام نکات اورمطالب اصول کافی جیسی گرانبہا کتابوںمیںآئی ہوئی احادیث کا نچوڑ اورخلاصہ ہے ،مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں (1)

الف: تلاوت کلام پاک کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:

حضرت پیامبر گرامی کے مبعوث ہونے کا فلسفہ ہی قرآن کی تعبیر میں' 'یتلوعلیهم آیاتنا ویزکیھم ''ہے جس سے تلاوت کلام پاک کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔ (2)

نیز کچھ آیات کی تفسیر اس طرح کی ہے ''ان الذین یتلون کتاب الله ''

''یعنی جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں وہ اللہ کے فضل وکرم کے امید وار ہیں

''یا رسول من الله یتلو صحفا مطهرة ''خداکے رسول (ص) جو پاک اوراق پڑھتے ہیں '' (3)

قرآن کی تلاوت کے بارے میں قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں ان

.............................

(1)اصول کافی ج2 باب فضل القرآن ،بحارالانوار کتاب القرآن

(2)سورہ جمعہ (3)سورہ بینہ

۱۲۰