علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر50%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53127 / ڈاؤنلوڈ: 6507
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پیغمبر ا سلام حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے گئے

جب خدا نے چاہا کہ اس کے دین کا عظیم ولی سردار انبیاء پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں پرورش پائے اور رسول اسلام کے زیر نظر اس کی تربیت ہو تو پیغمبر اسلام کو اس کی طرف متوجہ کیا ۔

اسلام کے مشہور مورخین لکھتے ہیں :مکہ میں سخت قحط پڑا ،پیغمبرکے چچا ابو طالب اپنے اہل و عیال کے ساتھ اخراجات کے متعلق بہت پریشان ہوئے،پیغمبر اکرم(ص) اپنے دوسرے چچا عباس جو ابو طالب سے زیادہ امیر اوردولتمندتھے، سے گفتگو کی اور دونوں کے درمیان یہ طے پا یا کہ ہر ایک حضرت ابو طالب کے لڑکوں میں سے ایک ایک کو اپنے گھر لے جائے تا کہ اس قحط کے زمانے میں ابو طالب کی پریشا نیوں میں کچھ کمی واقع ہوچنانچہ جناب عباس ، جعفر کو اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ـ کو اپنے گھر لے گئے ۔(۱)

اب جبکہ حضرت علی ـ مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار میں تھے حضرت علی ـنے انسانی اور اخلاقی فضیلتوں کے گلستان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا یا اور پیغمبر اسلام کی سر پرستی میں کمال کے بلندترین درجے پر فائز ہوئے، امام علیہ السلام نے اپنے خطبے میں اس زمانے اور پیغمبر کی تربیت کی طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں :

''وَلَقَدْکُنْتُ اتَّبِعُهُ الْفَصِیْلُ اُمِّهِ یِرْفَعُ لِیْ کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاٰقِهِ عَلَماً وَ یَأْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدائِ بِهِ'' (۲)

میں اونٹ کے اس بچہ کی طرح جو اپنی ماں کی طرف جاتاہے ، پیغمبر کی طرف گیا،آپ روزانہ مجھے اپنے اخلاق حسنہ کا ایک پہلو سکھاتے تھے اور حکم دیتے کہ ان کی پیروی کروں۔

حضرت علی علیہ السلام غار حرا میں

پیغمبر اسلام (ص)رسالت پرمبعوث ہونے سے پہلے تک سال میں ایک مہینہ غار حرا میں عبادت میں مصروف رہتے تھے اور جیسے ہی مہینہ ختم ہوتاتھا آپ پہاڑ سے نیچے اترتے تھے اور سیدھے

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام، ج۱ ص ۲۳۶ ۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، ج۲ ص ۱۸۲۔

۲۱

مسجدالحرام کی طرف جاتے تھے اور سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے پھراپنے گھرواپس آتے تھے ۔

یہاں پر سوال یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام حضرت علی ـ سے اس قدر محبت کر تے تھے تو کیا اس عجیب وغریب جگہ پر عبادت ودعا کے لئے حضرت علی ـ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے یا انھیں اتنی مدت تک چھوڑ کر جاتے تھے ؟

تمام قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ جس دن سے پیغمبراسلام حضرت علی ـ کو اپنے گھرلے گئے اس دن سے ایک دن کے لئے بھی انھیں اپنے سے جدا نہیں کیا۔

مورخین لکھتے ہیں :حضرت علی ـ ہمیشہ پیغمبر کے ساتھ رہتے تھے اور جب بھی پیغمبرشہر سے باہر جاتے اور بیابان اور پہاڑ کی طرف جاتے تو حضرت علی ـ کو اپنے ساتھ لے جاتے۔(۱)

ابن ابی الحد یدکہتے ہیں :

حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب جبرئیل پہلی مرتبہ پیغمبر اسلام پر نازل ہوئے اور انھیںرسالت کے عہدے پر فائز کیا اس وقت علی ـ پیغمبر (ص)کے ہمراہ تھے اوروہ دن انہی دنوں میں سے تھا جن دنوںپیغمبر اسلام غار حرا میں عبا دتوں کے لئے جایا کر تے تھے ۔

حضرت امیرالمٔومنین علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

وَلَقَدْکَانَ یُجَاوِزُ فِیْ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرائِ فَأرَاهُ وَ لاٰیُرَاهُ غَیْرِیْ ...(۲)

''پیغمبر ہر سال غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور میرے علاوہ کسی نے انھیں نہیں دیکھا'' اس جملے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مولائے کائنات غار حرا میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ ،رسالت کے بعدبھی تھے لیکن گذشتہ قرآئن سے مولائے کائنات کا پیغمبر اسلام کے ساتھ غار حرا میں ہونا غا لباً رسالت سے پہلے ہے اور خودیہ جملہ اس بات کی تائیدکرتا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت سے پہلے کا ہے ۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳ ص ۲۰۸

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۷ (قاصعہ)

۲۲

حضرت علی علیہ السلام کی طہارت وپاکیزگی اورپیغمبر اسلام کے ہاتھوں ان کی پرورش کاہونا اس بات کا سبب بنا کہ اسی بچپن کے زمانے میں حساس دل ا و ر چشم بصیرت اور اپنی بہترین سماعتوں کے ذریعے ایسی چیزیں دیکھیں اور ایسی آوازیں سنیں کہ جن کا سننا یا دیکھنا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے ۔چنانچہ ا مام علیہ السلام خوداس سلسلے میں فرماتے ہیں :

''أَرْیَ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الَّرَسٰالَةِ وَ أَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَةِ'' (۱)

ہم نے بچپن کے زمانے میں غار حرا میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ وحی اور رسالت کے نور کو دیکھا جو پیغمبر پر چمک رہا تھااور پاک وپاکیزہ نبوت کی خوشبو سے اپنے مشام کومعطر کیا ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :امیرالمو منین (ع)نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت سے پہلے نور رسالت اور وحی کے فرشتے کی آواز کو سنا تھا اس عظیم موقع پر جب کہ آپ پر وحی نا زل ہوئی. آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : اگر میں خاتم الانبیاء نہ ہوتا تو تم میں پیغمبری کی تمام چیزیں بدرجہ اتم موجودتھیں اورتم میرے بعد پیغمبرہوتے لیکن تم میرے بعد میرے وصی اور وارث اور تمام وصیوں کے سردار اور متقیوں کے پیشوا ہو۔(۲)

امیرالمومنین علیہ السلام اس غیبی آواز کے متعلق جس کو آپ نے بچپن میں سنا تھا ارشاد فرماتے ہیں : جس وقت پیغمبر پر وحی نازل ہوئی اسی وقت میرے کانوں سے کسی کے نالہ وفریاد کی آواز ٹکرائی میں نے رسول خدا سے پوچھا یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ نالہ و فریاد کیسا ہے ؟آپ نے فرما یا: یہ شیطان کی نالہ وفریاد ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ میری بعثت کے بعد زمین والوں کے درمیان جو اس کی اطا عت وپر ستش ہوتی اس سے یہ نا امید ہوگیا ہے پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی ـ کی طرف مخاطب ہوکر کہتے ہیں:

''اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اسْمَعُ وَتَریٰ مٰا اَرَیٰ ، أَلٰا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍ وَلٰکِنَّکَ وَزِیْر''

اے علی! جس چیز کو میں نے سنا اور دیکھا تم نے بھی اسے دیکھا اور سنا مگر یہ کہ تم پیغمبر نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر اور مدد گار ہو ۔

______________________

(۱) قبل اس کے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے رسالت کے منصب پر فائز ہوں وحی اور غیبی آوازوں کو سنا جیسا کہ روایات میں ذکر ہے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱۳ ص ۱۹۷

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳ ص ۳۱۰

۲۳

دوسرا باب

بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اور ہجرت سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

پہلی فصل :

پہلا مسلمان

حضرت علی ـ کی زندگی کا دوسرا دوربعثت کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا ہے اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال سے زیادہ نہیں تھی حضرت علی ـ اس پوری مدت میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ تھے اور تمام ذمہ داریوںکو تحمل کئے ہوئے تھے، ا س زما نے کی بہترین اور حساس ترین چیز ایک ایسی قابل افتخارشئی ہے جو امام کونصیب ہوئی اور پوری تاریخ میں یہ سعادت و افتخار مولائے کائنات کے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہوا ۔آپ کی زندگی کا پہلا افتخار اس عمرمیں سب سے پہلے اسلام کاقبول کرنا ہے ، بلکہ بہترین لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اپنی دیرینہ آرزویعنی اسلام کا اظہار اور اعلان کرنا تھا ۔(۱) اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کرنا اور قوانین توحید کا ماننا ان امور میں سے ہے جس پر قرآن نے بھروسہ کیا ہے، اور جن لوگوں نے اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کی ہے صریحاًان کا اعلان کیا ہے ''اور وہ لوگ خدا کی مرضی اور اس کی رحمت قبول کر نے میں بھی سبقت کرتے ہیں''۔(۲) قرآن کریم نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں پر اس حد تک خاص توجہ دی ہے کہ وہ لوگ جوفتح مکہ سے بھی پہلے ایمان لائے اور اپنے جان ومال کو خداکی راہ میںقربان کیا ہے ، ان لوگوں پر جو فتح مکہ کی کامیابی کے بعد ایمان لائے ہیںاورجہاد کیا برتری اور فضیلت دی ہے۔(۳)

یہ بات واضح ہے کہ آ ٹھویں ہجری میں مکہ فتح ہواہے ا ور پیغمبر نے بعثت کے اٹھارہ سال بعد بت پرستو ں کے مضبوط قلعے اور حصار کو بے نقاب کر دیا ،فتح مکہ سے پہلے مسلمانوںکے ایمان کی فضیلت وبرتری کی وجہ یہ تھی کہ وہ لو گ اس زمانے میں ایمان لائے جب کہ اسلام کی حکومت شبہ جزیرہ پر نہیں پہونچی

______________________

(۱) اس بات کی وضاحت آخر میں ہوگی۔

(۲) خدا فرماتا ہے:''والسابقون السابقون اولئک المقربون'' سورۂ واقعہ، آیت ۱۰ و ۱۱۔

(۳) ''لایستوی منکم ...'' سورۂ حدید، آیت ۱۰۔

۲۴

تھی ، اور ابھی بھی بت پرستوں کا مرکز ایک محکم قلعہ کی طرح باقی تھا اور مسلمانوں کی جان و مال کا بہت زیادہ خطرہ تھا، اگرچہ مسلمان، مکہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی وجہ سے، اور گروہ اوس و خزرج اور وہ قبیلے جو مدینے کے آس پاس تھے ایک طاقتور گروہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سی لڑائیوں میں کامیاب بھی ہوئے تھے لیکن خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔

اس وقت جب کہ اسلام کا قبول کرنا اور جان و مال کا خرچ کرنا اہمیت رکھتا ہو، قطعی طور پر ابتدائی زمانے میں ایمان کا ظاہر کرنا اور قبول اسلام کا اعلان کرنا جب صرف قریش اور دشمنوں کی ہی طاقت و قوت تھی ایسے مقام پر اس کی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اس بنا پر مکہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے درمیان اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرناایک ایسا افتخار ہے جس کے مقابلے میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن خباب، جس نے اوا ئل اسلام میںبہت زیادہ زحمتیں برداشت کی تھیں ،سے پوچھا کہ مشرکین مکہ کا برتائو تمہارے ساتھ کیسا تھا ؟اس نے اپنے بدن سے پیراہن کو جدا کرکے اپنی جلی ہوئی پشت اور زخموں کے نشان خلیفہ کو دکھایا اور کہا .اکثر وبیشتر مجھے لوہے کی زرہ پہناکر گھنٹوں مکہ کے تیزاورجلانے والے سورج کے سامنے ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی آگ جلاتے تھے اور مجھے آگ پر لے جاکر بیٹھاتے تھے یہاں تک کہ آگ بجھ جا تی تھی۔(۱)

جی ہاں ۔مسلّم و عظیم فضیلت اور معنوی برتری ان افراد سے مخصوص ہے جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت اور صمیم قلب کے سا تھ اسے قبول کیا۔

علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا

اکثر محدثین و مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام دوشنبہ کو منصب رسالت پرفائز ہوئے اور اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ )حضرت علی ـ ایمان لائے(۲) تمام لوگوں سے پہلے اسلام قبول کرنے میںحضرت علی ـ نے سبقت کی ،اور پیغمبرنے اس کی تصریح کرتے ہوئے صحابہ کے مجمع عام میں فرمایا:

______________________

(۱) اسد الغابہ، ج۲ ص ۹۹

(۲) ''بعث النبی یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثائ''، مستدرک حاکم، ج۲ ص۱۱۲، الاستیعاب، ج۳ ص ۳۲

۲۵

قیامت کے دن سب سے پہلے جو حوض کوثر پرمجھ سے ملاقات کرے گا جس نے اسلام لانے میں تم سب پرسبقت حاصل کی ہے وہ علی ابن ابی طالب ـ ہے ۔(۱) پیغمبر اسلام (ص)، حضرت امیر المو منین اور بزرگان دین سے منقول حدیثیں اور روایتیں مولائے کائنات کے اسلام قبول کرنے میں سبقت سے متعلق اس قدر زیادہ ہیں کہ سب کو اس کتاب میں نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔(۲)

اس سلسلے میں امام ـ کا صرف ایک قول اور ایک واقعہ پیش کررہے ہیں امیر المومنین ـ فرماتے ہیں :

اَنٰا عَبْدُاللّٰهِ وَاَخُورَسُوْلِ اللّٰهِ وَاَنٰا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر لاٰیَقُوْلُهٰابَعْدِیْ اِلَّاکَاذِب مُفْتَرِی وَلَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰه قَبْلَ النَّاسِ بِسْبَعِ سِنِیْنَ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَه ۔(۳)

میں خدا کا بندہ، پیغمبر کابھائی اور صدیق اکبر ہوں .میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ہی کرے گا ، تمام لوگوں سے سات سال پہلے میں نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑ ھی اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی

ا مام علی ـایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

اس وقت اسلام صرف پیغمبر اور خدیجہ کے گھر میں تھا اورمیں اس گھر کا تیسرا فرد تھا۔(۴)

ایک اور مقام پر امام ـ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

''اللُهَّم اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَنَابَ وَسَمِعَ وَأجاَبَ لَمْ یَسْبِقْنِیْ اِلاَّرَسُوْلُ اللّٰه ۖ بِالصَّلاَةِ'' (۵)

پر وردگارا ، میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر کی دعوت پر

لبیک کہا اور مجھ سے پہلے پیغمبر کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔

______________________

(۱) ''اولکم وارداً علی الحوض اولکم اسلاما علی بن ابیطالب'' ، مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۳۶

(۲) مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلے کی تمام روایتوں اور حدیثوں کے متون اور مورخین کے اقوال کو الغدیر کی تیسری جلد ص ۱۹۱ سے ۲۱۳ پر نقل کیا ہے۔

(۳) تاریخ طبری، ج۲، ص ۲۱۳، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص ۵۷ ۔

(۴) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۸۷۔

(۵) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۷

۲۶

عفیف کندی کا بیان :

عفیف کندی کہتے ہیں :ایک دن میں کپڑااور عطر خریدنے کے لئے مکہ گیا اور مسجدالحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا ،جب سورج اوج پر پہونچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنے طرف کھڑاہو گیا پھر ایک عورت آئی اور مسجد میں داخل ہوئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی پھر وہ تینوں نمازوعبادت میں مشغول ہوگئے ، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ہواکہ مکہ کے بت پرستوں سے ان لوگوں نے اپنے کو دور کر رکھا ہے اور مکہ کے خدائو ں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررہے ہیں. میں حیرت میں تھا ، میں عباس کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے کہا .''اَمرعَظِیم ''،عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا .کیا تم ان تینوں کوپہچانتے ہو؟

میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا سب سے پہلے جو مسجد میں داخل ہوا اور دونوں آدمیوں سے آگے کھڑا ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ہے اور د وسراشخص جو مسجد میں داخل ہوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اوروہ خاتون محمد کی بیوی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے تمام قوانیں خدا وند عالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں ، اور اس وقت کائنات میں ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین الہی کا پیرو نہیں ہے۔(۱) ممکن ہے یہاں پر سوال کیا جائے کہ اگر حضرت علی ـ پہلے وہ شخص ہیں جو بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان پر ایمان لائے تو بعثت سے پہلے حضرت علی ـ کی وضعیت کیا تھی؟.

اس سوال کا جواب بحث کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جس سے واضح اور روشن ہوتاہے کہ یہاں پر ایمان سے مراد، اپنے دیرینہ ایمان کا اظہار کر نا ہے جو بعثت سے پہلے حضرت علی کے دل میں موجزن تھا،اور ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی ـ سے دور نہ ہوا ، کیونکہ پیغمبر کی مسلسل تربیت ومراقبت کی وجہ سے حضرت علی ـ کے روح ودل کی گہرائیوں میں ایمان رچ بس گیا تھااور ان کا مکمل وجودایمان واخلاص سے مملو تھا ۔

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۲ص۲۱۲۔کامل ابن اثیر ج۲ ص۲۲. استیعاب ج۳۔ص۳۳۰و...

۲۷

ان دنوں جب کہ پیغمبر مقام رسالت پر فائز نہ ہوئے تھے ،حضرت علی ـ پر لازم تھا کہ رسول اسلام کے منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد پیغمبر سے اپنے رشتے کو اور مستحکم کرتے اور اپنے دیرینہ ایمان اور اقرار رسالت کو ظاہر اور اعلان کرتے، قرآن مجید میں ایمان و اسلام کا استعمال اپنے دیرینہ عقیدہ کے اظہار کے متعلق ہوا ہے .مثلاً خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو حکم دیا کہ ا سلام لائو جناب ا براہیم کہتے ہیں ،میں سارے جہان کے پروردگارپر ایمان لایا.

قرآن مجید نے پیغمبر کے جملے کو نقل کیا ہے، پیغمبر خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:( وَاُمِرْتُ اَنْ اَسْلَمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) (مومن۶۶)اور مجھے تو یہ حکم ہوچکا ہے کہ اپنے بارے میں سارے جہان کے پالنے والے کا فر ماںبر دار بنوں ،حقیقتاًان موا رد اور ان سے مشابہت رکھنے والے تمام موارد میں اسلام سے مراد ، خدا کے سامنے اپنی سپردگی کا اظہار کرنا اور اپنے ایمان کوظاہر کرناہے ، جو انسان کے دل میں موجود تھا،اور اصلاً اسلام کے اظہار کا مطلب ایمان کا حاصل کرنا یا ایمان لانا نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبر اسلام اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بلکہ بعثت سے پہلے موحد اور خدا کی بارگاہ میں اپنے کو تسلیم کرنے والے تھے اس بنا بر ثابت ہے کہ ایمان کے دو معنی ہیں ،

۱۔اپنے باطنی ایمان کا اظہار کرنا جو پہلے سے ہی انسان کے قلب وروح میں موجود تھا، حضرت علی کا بعثت کے دوسرے دن ایمان لانے کا مقصد اور ہدف بھی یہی تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا ۔

۲۔ایمان کا قبول کرنااور ابتدائی گروہ کااسلام لانا پیغمبر کے بہت سے صحابیوں اور دوستوں کا ایمان تھا (جو پہلے والے معنی کے بر عکس ہے )۔

اسحاق سے مامون کا مناظرہ :

مامون نے اپنی خلافت کے زمانے میں چاہے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقید ے کی بنیاد پر،مولائے کائنات کی برتری کا اقرار کیا اور اپنے کو شیعہ ظاہر کیا ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے( ۴۰)چالیس دانشمند اور خود اسحاق بھی انھیں کے ہمراہ تھے ، کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:

جس دن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟۱

اسحاق نے جواب دیا ، خدا اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لانا ۔

۲۸

مامون نے دوبا رہ پوچھا ، کیا اسلام قبول کرنے میں اپنے حریفوں کے درمیان سبقت حاصل کر نا بہترین عمل نہ تھا ؟

اسحاق نے کہا ، کیوںنہیں ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں .والسا بقون السا بقون اولیک المقربون،اور اس آیت میں سبقت سے مراد وہی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ہے

مامون نے پھرسوال کیا ، کیا علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ہے ؟یا علی ـ وہ پہلے شخص ہیںجو پیغمبر پر ایمان لائے ہیں ؟

اسحاق نے جواب دیا ،علی ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے ، بچے تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن ابو بکر اگر چہ وہ بعدمیں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ہوئے وہ بالغ وعاقل تھے لہٰذا اس عمرمیں ان کا ایمان اور عقیدہ قابل قبول ہے.

مامون نے پوچھا ، علی کس طرح ایمان لائے ؟کیا پیغمبر نے انھیں اسلام کی دعوت دی یا خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا کہ وہ آئیںاورتوحید اور اسلام کو قبول کریں؟

یہ بات کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ حضرت علی کا اسلام لانا خدا وند عالم کی طرف سے الہا م کی وجہ سے تھا، کیونکہ اگر ہم یہ فرض کر لیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علی کا ایمان پیغمبر کے ایمان سے زیادہ افضل ہو جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ علی کا پیغمبر سے وابستہ ہونا جبرئیل کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا تھا ۔

بہرحال اگر حضرت علی کا ایمان لانا پیغمبر کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبر نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خدا کا حکم تھا ؟۔یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہوگا کہ پیغمبر خدا نے حضرت علی کوبغیرخدا کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسلام کی دعوت ،خدا کے حکم سے دی تھی ۔

۲۹

کیا خدا وند عالم اپنے پیغمبر کو حکم دے گا کہ وہ غیر مستعد(آمادہ ) بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابرہو اسلام کی دعوت دے ؟(نہیں ) ۔بلکہ یہ ثابت ہے کہ امام ـ بچپن میں ہی شعوروادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔(۱)

یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا بھی جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جن کی معلومات بحث ولایت وامامت میں بہت زیادہ ہو اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اولیائے الہی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے اور نہ ان کے بچپن کے دورکو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے فہم وادراک کو عام بچوںکے فہم و ادراک کے برابرسمجھنا چاہیے ، پیغمبروں کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبرتھے جوبچپن میں ہی فہم وکمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پہونچے تھے ،اور اسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگار عالم نے حکمت آمیز سخن اور بلند معارف الہیہ ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے :

( یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنٰاه الْحُکْمَ صَبِیّاً ) (مریم۱۲) اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوتی کے ساتھ لو اور ہم نے انھیں بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکمت عطا کی جب کہ وہ بچے تھے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں حکمت سے مرادنبوت ہے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ہے کہ حکمت سے مراد معارف الہی ہے .بہر حال جو بھی مراد ہو لیکن آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ انبیاء اور اولیاء الہی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قا بلیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ،اور ان کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ہوتا ہے ،

حضرت عیسیٰ ـ اپنی ولادت کے دن ہی خدا کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور کہا : بے شک میں خدا کا بندہ ہوں ،مجھ کو اُسی نے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھ کونبی بنایا۔(۲)

معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ان لو گوںنے بچپن کے زمانے

______________________

(۱) عقد الفرید، ج۳، ص ۴۳. اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اشکال کیاہے اور ابوجعفر اسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیاہے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج۱۳ ص ۲۱۸ سے ص ۲۹۵ پر لکھا ہے۔

(۲) سورۂ مریم، آیت ۳۰

۳۰

میں عقلی ،فلسفی اور فقہی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ہے ۔(۱)

جی ہاں نیک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں سے قیاس نہ کریں اور اپنے بچوں کے فہم و ادراک کو پیغمبروں اوراولیاء الہی کے بچپن کے زمانے سے قیاس نہ کریں۔(۲)

______________________

(۱) بطور مثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم سے اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد ـ سے کیے تھے. اور جوجوابات ان لوگوںنے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوںمیں محفوظ ہیں۔

(۲) امیر المومنین ـ فرماتے ہیں:لَایُقٰاسُ بِآلِ مُحَمَدٍ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اَحَد . اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبر اسلام کے فرزندوں اور خاندان سے موازنہ نہ کرو۔ نہج البلاغہ، خطبہ دوم

۳۱

دوسری فصل

حضرت علی ـ کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی

تاریخ انسانیت میں بہت ہی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ہوںگی جن کے دوست اور دشمن دونوںنے مل کر ان کے فضائل وکمالات کو چھپائے ہوں گے اس کے باو جود ان کے فضائل وکمالات سے عالم پُر ہے۔

دشمن نے ان سے عداوت ودشمنی کو اپنے دل میں بٹھا رکھا ، اور حسد وکینہ کی وجہ سے ان کے بلند وبا فضیلت مقامات اور کمالات کو لوگوںسے چھپایا ،اور دوست نے جوانھیںدل وجان سے چاہتااور محبت کرتا ہے وہ دشمنوں کے شکنجے اورجان کے خوف کی وجہ سے ان کے فضائل وکمالات کو چھپایا، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنے لبوں کو جنبش نہ دیں اور ان سے محبت والفت کا اظہار نہ کریں اور ان کے متعلق اصلاً گفتگو نہ کریں۔

خاندان بنی امیہ کے افرادہمیشہ اس بات پر کوشاں رہتے تھے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو علی ـ اوران کے خاندان کے فضائل کو مٹادیا جائے

بس اتنا کہناہی کافی تھا کہ یہ علی ـ کا چاہنے والا ہے بنی امیہ کے حکومتی سپاہیوں میں سے دو آادمی گواہی دیتے تھے کہ یہ علی ـ کا چاہنے وا لا ہے اور فوراً ہی اس کا نام حکو مت میں کام کرنے والوں کی فہرست سے حذف کر دیاجاتا تھا، اور بیت المال سے اس کا وظیفہ بند کر دیا جاتا تھا ، معاویہ اپنے گورنروں اورحاکموںکو خطاب کرتے ہوئے کہتاہے: اگر کسی شخص کے لئے معلوم ہو جائے کہ وہ علی ـ اور ان کے خاندان سے محبت رکھنے والاہے تو اس کا نام کام کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دو، اور اس کا وظیفہ ختم کردو اور اسے تمام سہو لتوں سے محروم کر دو ۔(۱)

پھر معاویہ اپنے دوسرے حکم نامہ میں سختی اور تاکید سے حکم دیتا ہے کہ: جوبھی علی ـ اور ان کے

______________________

(۱)اُنظروا ا لی من قامت علیه البینته انه یحب علیاً واهل بیته فا محو ه من الد یوان واسقطو اعطائه ورزقه،

۳۲

خاندان سے دوستی کا دم بھرتا ہے اس کے ناک اور کان کو کاٹ ڈالو اور ان کے گھر کو ویران کردو۔(۱)

اس فرمان کے نتیجے میں،عراق کی عوام خصوصاً اہل کوفہ اس قدر ڈرے اور سہمے کہ شیعوں میں سے کوئی بھی ایک شخص معاویہ کے جاسوسوں کی وجہ سے اپنے راز کو اپنے دوستوں تک سے بیان نہیں کر سکتا تھا مگر یہ کہ پہلے قسم لے لیتا تھا کہ اس کے راز کو فاش نہ کرنا ۔(۲)

اسکافی اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں لکھتے ہیں :

بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت ،مولائے کائنات کے فضل وکمالات کے متعلق بہت زیادہ حساس تھی اور ان کے فضائل کو روکنے اورمشہورنہ ہونے کے لئے اس نے اپنے فقھا ء ومحدثین اور قاضیوں کو اپنے پاس بلایا اور بہت سختی سے منع کیا کہ اپنی اپنی کتابوں میں علی ـ کے فضائل و کمالات کو نقل نہ کریں ،اس وجہ سے بہت سے محدثین مجبور تھے کہ امام کے فضائل وکمالات کو اشارے اور کنایہ کے طور پر نقل کریں اور یہ کہیں کہ قریش کے فلاں آدمی نے ایسا کیا ہے۔

معاویہ نے تیسری مر تبہ سرزمین اسلامی پر پھیلے ہوئے اپنے سیاسی نمائندوںکو خط لکھا کہ علی کے شیعوں کی گواہی کسی بھی مسئلے میں قبول نہ کریں ۔لیکن اس کا یہ حکم بہت زیادہ مفید ثابت نہ ہوا جو علی و خاندان کے فضائل کو منتشر ہونے سے روک پاتا ، اس وجہ سے معاویہ نے چوتھی مرتبہ اپنے گورنر کو لکھاکہ جو لوگ عثمان کے فضائل ومناقب کو نقل کریں ان کا احترام کرو اور ان کا نام اور پتہ میرے پاس روانہ کرو تا کہ ان کی عظیم خدمات کا صلہ انھیںدیا جا سکے ۔یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو اس بات کاسبب بنی کہ تمام شہروں میں عثمان کے جعلی فضائل ومناقب گڑھے جانے لگے اور یہ فضائل نقل کرنے والے عثمان کے فضائل کے متعلق حدیثیں لکھ لکھ کر مالدار بننے لگے ،اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ خود معا ویہ اس بے اساس اور جھوٹے فضائل کے مشہور ہونے کی وجہ سے بہت ناراض ہوا اور اس مرتبہ حکم دیا کہ عثمان کے فضائل بیان نہ کیئے جائیں ۔ اور خلیفہ اول اور دوم اور دوسرے صحابہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور اگر کوئی محدث ابو تراب کی

______________________

(۱)من اتهمتموه بموالات هولاء فنکلوابه واهد مواداره

(۲)شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحد ید ج۱۱ ۔ص۴۵۔۴۴

۳۳

فضیلت میں کوئی حدیث نقل کرے تو فوراً اسی سے مشابہ ایک فضیلت پیغمبر کے دوسرے صحابیوں کے بارے میں گڑھ دیا جائے اور اسے لوگوں کے درمیان بیان کیا جائے کیونکہ یہ کام شیعوں کی دلیلوں کوبے اثر کرنے کیلئے بہت مؤثر ہے(۱)

مروان بن حکم ان لوگوں میں سے تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ علی نے عثمان کا جو د فاع کیا تھاایسا دفاع کسی نے نہیں کیا ۔اس کے باوجود ہمیشہ امام ـ پر لعنت و ملامت کرتا تھا جب اس پر اعتراض کیا گیاکہ تم علی کے بارے میں جب ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو پھر کیوں انھیں برا بھلا کہتے ہوتو اس نے جواب دیا : میری حکومت صرف علی کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کر نے کی وجہ سے ہی محکم اور مستحکم ہوگی ، اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی کی پاکیزگی اور طہارت اور عظمت و جلا لت کے کے قائل تھے لیکن اپنے مقام ومنصب کی بقا کے لئے حضرت علی اور ان کے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے ۔

عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں :

میرے باپ مدینہ کے حاکم اور مشہور خطیب اور بہت بہادر تھے، اور نما زجمعہ کا خطبہ بہت ہی فصیح وبلیغ انداز سے دیتے تھے، لیکن حکومت معاویہ کے فرمان کی وجہ سے مجبور تھے کہ خطبہء جمعہ کے درمیان علی ـ اور ان کے خاندان پر لعنت کریں ، لیکن جب گفتگو اس مرحلے تک پہونچی تو اچانک ان کی زبان لکنت کرنے لگتی اور ان کے چہرہ کارنگ تبدیل ہونے لگتا اور خطبہ سے فصاحت وبلاغت ختم ہو جاتی تھی. میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا جو کچھ میں علی ـ کے بارے میں جانتا ہوں اگر دوسرے بھی وہی جانتے تو کوئی بھی میری پیروی نہیں کرتا اور میں علی ـکے تمام فضائل وکمالات اور معرفت کے بعد بھی انھیںبرابھلا کہتا ہوں ،کیو نکہ آل مروان کی حکومت کو بچانے کیلئے میں مجبور ہوں کہ ایسا کروں(۲) بنی امیہ کی اولاد کادل علی کی دشمنی سے لبریز تھا، جب کچھ حقیقت پسند افراد نے معاویہ کو نصیحت کی کہ اس کام سے باز آجائے تو معاویہ نے کہا کہ میں اس مشن کو اس حد تک جاری رکھوں گا کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ فکر لئے ہوئے بڑے ہو جائیں او رہمارے بزرگ اسی حالت میں بوڑھے ہو جا ئیں۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳۔ص۱۵

(۲)شرح نہج البلاغہ ج۱۳۔ص۲۲۱۔

۳۴

حضرت علی ـ کو ساٹھ سال تک منبروں ، نشستوںمیں وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے،اور درس وتدریس کے ذریعے، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و مؤثر ہوا کہ کہتے ہیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلہ ''بنی ازد'' کا رہنے والا تھا،اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، ہم بافضیلت لوگوں میں سے ہیں. حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا اس نے جواب دیا کہ ہمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہم سے تعلقات بڑھائے تو سب سے پہلے ہم اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ہے یا نہیں ؟!اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ہوتا ہے تو ہرگز ہم اس سے تعلقات و رابطہ برقرار نہیں کرتے علی ـ اور ان کے خاندان سے ہماری دشمنی اس حد تک ہے کہ ہمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین ہو اور کوئی بھی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جس کا نام فاطمہ ہو. اگر ہمارے قبیلے کے کسی بھی شخص سے یہ کہا جائے کہ علی ـسے کنارہ کشی اختیار کرو تو فوراً اس کے بچوں سے بھی دوری اختیار کرلیتا ہے۔(۱)

خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی کے فضائل کو پوشیدہ رکھااور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں رسوخ کر گیااور لوگ حضرت علی کو براکہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے .اور بعض لوگوں نے اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا. جب عمر بن عبد العزیز نے چاہاکہاسلامی معاشرے کے دامن پر لگے اس بد نما داغ کو پاک کرے، تو بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوںنے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کردیاکہ خلیفہ ،اسلامی سنت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود اسلامی تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی دے رہے ہیں کہ بنی امیہ کے بد خصالوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ان کی آروزئیں خاک میں مل گئیں اوران کی مسلسل کوششوں نے توقع کے خلاف نتیجہ دیااور فضائل و مناقب امام (ع) اموی خطیبوں کے چھپانے کے باوجود سورج کی طرح چمکا، اور اس نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت علی کی محبت کو بیدار کیابلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ

______________________

(۱) فرحة الغری، مولف؛ مرحوم سیدابن طاؤوس طبع نجف، ص ۱۴۔ ۱۳ ۔

۳۵

حضرت علی ـ کے بارے میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کریں اور امام ـ کی شخصیت پر سیاست کی عینک اتار کر قضاوت کریں، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے کہ علی کو برا کہنے سے باز آجائے کیونکہ بنی امیہ نے ساٹھ سال تک منبروں سے علی پر سب و شتم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی کی شخصیت اور بھی اجاگر ہوتی گئی اور لوگوںکے دلوں میں ان کی محبت اور بھی بڑھتی گئی۔(۱)

پہلا مددگار

مولائے کائنات کے فضائل کا چھپانا اور ان کے مسلم حقائق کے بارے میں منصفانہ تحلیل تحلیل نہ کرنا صرف بنی امیہ کے زمانے سے مخصوص نہیں تھا بلکہ بشریت کے اس نمونہء کامل ہمیشہ ہتک کی متعصب مؤرخین نے مولائے کائنات حضرت علی کے خاندان اور ان کے حق پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا ہے ۔اور آج بھی جب کہ اسلام آئے ہوئے چودہ صدیاں گزر گئیں وہ لوگ جو اپنے کو نئی نسل کا رہبر اور روشنفکر تصور کرتے ہیں اپنے زہریلے قلم کے ذریعے اموی مقاصد کی مدد کرتے ہیں اور مولائے کائنات کے فضائل و مناقب پر پردہ ڈالتے ہیں جس کی ایک واضح مثال یہ ہے:

غار حرا میں پہلی مرتبہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قلب پر وحی الہی کا نزول ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منصب رسالت و نبوت پر فائز ہوئے، وحی کے فرشتے نے اگرچہ آپ کو مقام رسالت سے آگاہ کردیا لیکن اعلان رسالت کا وقت معین نہیں کیا ،لہٰذا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین سال تک عمومی اعلان سے گریز کیا اور جب بھی راستے میں شائستہ اور معتبر افراد سے ملاقات ہوتی یا خصوصی ملاقات ہوتی تو ان کو اس نئے قوانین الہی سے روشناس کراتے اور چند گروہ کو اس نئے قانون الہی کی دعوت دیتے، یہاں تک کہ وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور خداوند عالم کی طرف سے حکم دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروںاوردوستوں کے ذریعے شروع کریں۔:

( وَانذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فَانْ عَصَوْکَ فَقُل ا ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تَعْمَلُونَ ) (۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص ۳۲۱

(۲) سورۂ شعرائ، آیت ۲۱۶۔ ۲۱۴

۳۶

اور اے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراؤ اور جو مومنین تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ (تواضع کرو) پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ہوں۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عمومی دعوت کا اعلان رشتہ داروں سے شروع ہونے کی علت یہ ہے کہ جب تک نمائندئہ الہی کے قریبی اور نزدیکی رشتہ دار ایمان نہ لائیں اور اس کی پیروی نہ کریںاس وقت تک غیر افراد اس کی دعوت پر لبیک نہیں کہہ سکتے ،کیونکہ اس کے قریبی افراد اس کے تمام حالات و اسرار اور تمام کمالات و معایب سے آگاہ ہوتے ہیں، لہٰذا اعزہ و احباب کا ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کی صداقت کی نشانی شمار ہوگا اور رشتہ داروںکا پیروی و اطاعت سے اعراض کرنا ان کی صداقت سے منہ پھیرنا ہے۔

اسی لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے حضرت علی ـ کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے ۴۵ بزرگوں کو دعوت پر مدعو کریں اور ان کے کھانے کیلئے گوشت اور دودھ کا انتظام کریں،تمام مہمان اپنے معین وقت پرپیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگوں نے کھانا کھایا ،پیغمبر کے چچا ابولہب نے ایک حقیر اور پست جملہ سے، بنے ہوئے ماحول کو خراب کر دیا اور لوگ منتشر ہوگئے اور بغیر کسی نتیجہ کے دعوت ختم ہوگئی اور لوگ کھانا کھا کر پیغمبر کے گھر سے نکل گئے ۔

پیغمبر نے پھر دوسرے دن اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کرنے اور ابو لہب کے علاوہ تمام لوگوں کو دعوت دینے کا ارادہ کیا اور پھر حضرت علی ـنے پیغمبر کے حکم سے گوشت اور دودھ کھانے کے لئے آمادہ کیا اور بنی ہا شم کی مشہور ومعروف شخصیتوں کو کھانے اور پیغمبر کی گفتگوسننے کے لئے دعوت دی ،تمام مہمان اپنے معین وقت پر حاضر ہوئے اور کھانے وغیرہ کی فراغت کے بعد پیغمبر نے اپنی گفتگو کا آغازیوں کیا :

''خدا کی قسم میں لوگوںکو راہ راست پر لانے میں غلط بیانی سے کام نہ لو ںگا میں (بر فرض محال) اگر دوسروں سے غلط بیانی سے کام لوںتو بھی تم سے غلط نہیں کہوںگا اگر دوسروں کو دھوکہ دوں تو تمھیں دھوکا نہیں دوںگا ،خدا کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں میں تمہاری طرف اور تمام عالم کی ہدایت کے لئے اسی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ،ہاں ،آگاہ ہو جائو ،جس طرح تم سو جاتے ہو ویسے ہی مر جائو گے اور جس طرح سوکر اٹھتے ہو ویسے ہی زندہ کئے جائو گے، اچھے اعمال انجام دینے والوںکو ان کا اجر دیا جائے گا اور برے اعمال انجام دینے والے اپنے عمل کا نتیجہ پائیں گے ،اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے جنت ہمیشگی کاگھر ہے اور برے کام کرنے والوں کے لئے جہنم آمادہ ہے۔

۳۷

کوئی بھی شخص اپنے اہل وعیال کے لئے مجھ سے اچھی چیز نہیں لایا ہے میں تمہاری دنیا وآخرت کے لئے بھلائی لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف دعوت دوں تم میں سے کون ہے جو اس راہ میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرا نما ئندہ ہو؟''

آپ نے یہ جملہ کہا اور تھوڑی دیر خاموش رہے تاکہ دیکھیں کہ حاضرین میں سے کون ہمیشہ نصرت و مدد کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے مگر اس وقت خاموشی نے ان پر حکومت کررکھی تھی اور سب کے سب اپنے سروں کوجھکائے فکروں میں غرق تھے

یکایک حضرت علی ـجن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی ، اس خاموشی کے ماحول کو شکست دے کر اٹھے اور پیغمبر سے مخاطب ہوکر کہا: اے پیغمبر خدا ، میں آپ کی اس راہ میں نصرت و مددکروں گا پھراپنے ہاتھوں کو پیغمبر اسلام کی طرف بڑھایا تاکہ اپنے عہدوپیمان کی وفاداری کا ثبوت پیش کریں

پیغمبر نے حکم دیا کہ اے علی بیٹھ جائو اور پھر اپنے سوال کو ان لوگوں کے سامنے دہرایا ،پھر علی ـ اٹھے اورنصرت پیغمبر کا اعلان کیا ، اس مرتبہ بھی پیغمبر نے حکم دیا کہ علی بیٹھ جائو،تیسری مرتبہ پھر مثل سابق علی کے علاوہ کوئی دوسرا نہ اٹھا اور صرف علی ـنے اٹھ کر پیغمبر کی نصرت اور محافظت کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ہاتھ کو علی کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی کے بارے میں بزرگان بنی ہاشم کی بزم میں اپنے تاریخی کلام کا آغاز اس طرح سے کیا۔

''اے میرے رشتہ دارو اور دوستو ،جان لو کہ علی میرا بھائی میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین وخلیفہ ہے''

سیرہ حلبی کی نقل کی بنا پر ۔رسول اکرم نے اس جملے کے علاوہ دو اور باتیںاس کے ساتھ بیان کیںکہ :'' وہ میرا وزیر اور میرا بھائی ہے ''۔

اس طریقے سے پر خاتم النبیین کے توسط سے اسلام کے سب سے پہلے وصی کا تعیّن، اعلان رسالت کے آغاز پر اس وقت ہوا جب بہت ہی کم لوگ اس قانون الہی کے پیرو تھے،

پیغمبر اسلام نے ایک ہی موقع پر اپنی نبوت اور حضرت علی ـ کی امامت کا اعلان کرکے.یہ ثابت کر دیاکہ نبوت وامامت دو ایسے مقام ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور امامت تکمیل نبوت ورسالت ہے ۔

۳۸

اس تاریخی واقعہ کے مدارک:

شیعہ اور غیر شیعہ محدثین اور مفسرین نے اس تاریخی واقع کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے اپنی کتابوں میںنقل کیا ہے(۱) اور امام ـکے اہم فضائل ومناقب میں شمار کیا ہے اہلسنت کے صرف ایک مشہور مورخ ابن تیمیہ دمشقی نے جو اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں ہر حدیث سے انکار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اس سند کو رد کیا ہے اور اس سند کوجعلی قراردیا ہے ۔

انہوں نے نہ صرف اس حدیث کو جعلی اور بے اساس قرار دیاہے بلکہ امام کے خاندان کے سلسلے میں خاص نظریہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ان حدیثوں کو جو خاندان رسالت کے فضائل و مناقب میں بیان ہوئیں ہیں اگر چہ وہ حد تواتر تک پہونچ چکی ہوں جعلی اور بے اساس قراردیاہے

تاریخ ''الکامل'' پر حاشیہ لگانے والے نے اپنے استاد کہ جن کا نام پوشیدہ رکھاہے، سے نقل کیاہے کہ میرے استاد نے بھی اس حدیث کوجعلی قرار دیا ہے (شاید ان کا استادبھی ابن تیمیہ کی فکروں پر چلنے والا تھا، یا یہ کہ اس سند کو خلفاء ثلاثہ کی خدمت کے مخالف جانا ہے اس لئیجعلی قراردیاہے )،پھر وہ خود عجیب انداز سے اس حدیث کے مفہوم کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :اسلام میں امام ـ کا وصی ہونا ،بعد میں ابوبکر کی خلافت کے منافی نہیں ہے ،کیونکہ اس دن علی ـ کے علاوہ کوئی مسلمان نہ تھا جو پیغمبر کا وصی ہوتا۔

ایسے افرادسے بحث ومباحثہ کرنا فضول ہے. ہمارا اعتراض ان لوگوں ہے جنہوں نے اس حدیث کو اپنی بعض کتابوں میں تفصیل سے اور بعض کتابوں میںمختصر اور مجمل طریقے سے ذکر کیا ہے ،یعنی ایک طرح سے حقیقت بیان کرنے سے چشم پوشی کی ہے ،یا ہمارا اعتراض ان افراد پر ہے جن لوگوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب کے پہلے ایڈ یشن میںتو شامل کیا لیکن اسکے بعد کے ایڈیشن میں کسی دبائو اور خوف وہراس سے

______________________

(۱) تفسیر سورہ شعراء آیت نمبر ۲۱۴ کی طرف رجوع کریں

۳۹

حذف کردیا ہے. یہاں پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے بعد امام کے حقوق وفضائل کو پوشیدہ اور چھپا یا گیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔اب یہاں پرہم اس بات کی تشریح کررہے ہیں ۔

تاریخی حقایق کاکتمان:

محمد بن جریر طبری جوتاریخ اسلام کا ایک عظیم مؤرخ ہے ،اس نے اپنی تاریخ طبری میں اس تاریخی فضیلت کو معتبر سندوں کے ساتھ نقل کیاہے(۱) لیکن جب اپنی تفسیر(۲) میں اس آیت( وَانذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاقْرَبِینَ ) پر پہونچتا ہے تو اس سند کو توڑ مروڑ کر مجمل اور مبہم نقل کرتا ہے جس کی وجہ تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

اس کے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ختم ہونے کے بعد حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا:

''فأیکم یوازرنی علیٰ ان یکون أخی و وصیّی وخلیفتی''؟

لیکن طبری نے اس سوال کو اس طرح نقل کیا ہے۔

''فأیکم یوازرنی علی ان یکون أخی و کذا وکذا''؟!

تعجب کی بات نہیں ہے کہ دو کلمہ وصی و خلیفتی کو تبدیل کر کے مبہم اور مجمل الفاظ کو اس کی جگہ پر ذکر کرنا سوائے تعصب اور خلیفہ کے مقام و منزلت کو گھٹانے کے کچھ نہیں ہے۔

اس نے نہ صرف پیغمبر(ص) کے سوال میں تحریف کیا ہے، بلکہ حدیث کا دوسرا حصہ جو پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ''ان هذا اخی و وصیّی و خلیفتی'' بھی بدل ڈالا ہے، اور دو ایسے ا لفاظ جو مولائے کائنات امیر المومنین کی بلا فصل خلافت پر واضح دلیل تھے کو ایسے لفظوں یعنی

______________________

(۱) اس تاریخی فضیلت کو ان کتابوں نے نقل کیا ہے ، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۱۶، تفسیر طبری ج۱۹ ص ۷۴، کامل ابن اثیر ج۲ ص ۲۴، شرح شفای قاضی عیاض ج۳ ص ۳۷، سیرۂ حلبی ج۱ ص ۳۲۱ و اس حدیث کو تاریخ و تفسیر لکھنے والوں نے دوسرے طریقے سے بھی نقل کیا ہے جن کو ہم یہاں نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔

(۲) تفسیر طبری، ج۱۹، ص ۷۴

۴۰

نزول قرآن کی وضاحت:

نزول قرآن کے متعلق کئی آیات موجود ہیں،کبھی نزول کے متعلق انزلناہ، یا نزلناہ ،یا تنزیل، یا انزل، کے علاوہ بہت سارے الفاظ جو نزل سے مشتق ہوئے ہیں موجود ہیں ان الفاظ کی بازگشت اورمرجع دو مطلب بتایا جاتا ہے۔

۱۔ قرآن مجید کو اللہ نے ایک ہی دفعہ میں نازل کیا ۔

۲۔ اللہ نے قرآن کو آہستہ آہستہ ۲۳ سال کے عرصے میں نازل کیا۔

اورکچھ آیات سے نزول قرآن دفعی ہونے کا پتہ چلتا ہے جبکہ دوسرا دستہ آیات سے تدریجی ہونے کا پتہ چلتاہے ان دودستہ آیات کے درمیان بظاہر تعارض اور ٹکراو نظرآتاہے اسی لئے علوم قرآن کے ماہرین نے اس تعارض اورٹکڑاؤ کوبرطرف کرنے کی خاطر نزول قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:

الف: دفعی

ب:تدریجی

یعنی ماہ رمضان المبارک میں قرآن، قلب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر اتر آیا پھر ۲۳ سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ ایک ایک آیت یاسورۃ کی شکل میںحضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا ،لہذاقارئین محترم سے نزول قرآن کے متعلق مفصل کتابیں جومختلف زبانوںمیںلکھاجاچکاہے ان کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۱

نزول قرآن کا ہدف:

قرآن کی ترویج اور تبلیغ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یعنی ہمیںچایئے کہ ہم قرآن کے قیمتی اور نورانی فرامین کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔تاکہ قرآن اورپرچم اسلام کی سربلندی کفرونفاق کی نابودی ہرقسم کے انحرافات اورغلط تہذیب وتمدن سے معاشرتی زندگی کو نجات دے سکیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اورقرآن کو اللہ نے جس مقصد اورہدف کے لئے نازل کیا ہے اس کو سمجھیں تو یقینا ہم اس دور کے جابروں کے ناپاک سازشوں اورپالیسیوں سے نجات پاسکتے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے قرآن کی حکمت تمام مراحل زندگی میںضروری ہے چنانچہ خود اللہ نے فرمایا : واعتصموبحبل اللہ جمیعا ولاتفرقو ''اور سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میںجدائی نہ ڈالیں (۱)

یادوسری آیہ میں فرمایا : ولاتنازعو فتفشلوا وتذهبوا'' آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہاری قدرت اوراقدار نابود ہوجاؤگی ، (۲)

اگر مسلمان حضرات ایسی آیات کو اپنا سرنامہ عمل قرار دے تو یقینا اللہ کے ایسی فرامین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان حضرات اتحاد اور یکجہتی کو توڑ نے اور نقصان پہنچانے والی حرکات اوررفتار سے پرہیز کرینگے لہذا نزول قرآن کے اہداف کو فہر ست وار بیان کر کے اس موضوع سے اجازت چاہیں گے ۔

۱۔ قرآن دیگر کتابوں کی مانند ایک کتاب معمولی نہیں ہے کہ من گھڑت داستانوں او ر کہانیوں پر مشتمل ہو بلکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جسمیں انسان کو تکامل وترقی علم ومعرفت نیک اورعاقلانہ اورحکمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کی گئی ہے لہذا نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک ہدایت بشر ہے جسکی طرف

...........................

۱۔عمران ۔۱۰۳(۲)انفال ۴۷۔

۴۲

اللہ نے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا ہدہ للناس یا دیگر آیات میں ''هدی للمتقین'' یا ''اناهدینا ه السبیل '' کی نص موجود ہے۔ان آیات میں لفظ ہدایت کو کسی قید وشرط کے بغیر بیان کر کے یہ بتانا چاہتے ہیںکہ قرآن ہدایت تکوینی اورہدایت تشریعی کے لئے نازل کیا ہے جسمیںشک وتردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورہدایت اس وقت قابل تصور ہے اگر ہم قرآن فہمی کی کلاسوں میںشرکت کر کے قرآن کو سمجھے ورنہ قرآن دیگر موجودات کی مانند ہے جو ہماری فلاح وبہبود ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں لیکن ہماری نافہمی اورجہالت کی وجہ سے ان سے مستفیض ہونے سے محروم ہیں ۔

۲۔ نیز قرآن کے نزول کے اہداف میںسے دوسرا ہدف بشرکی تربیت ہے چاہے اجتماعی تربیت ہو یا انفرادی تربیت جس کی طرف ''ویتلو علیہم آیتنا ویزکیہم ''کے ذیرعے اشارہ فرمایا ہے تربیت کو معاشرتی اورانفرادی زندگی میں مرکزیت حاصل ہے جس کے حصول کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں اورمشقتیں اٹھانا پڑتا ہے قرآن واحد سرنامہ عمل ہے جومشیت ،تربیت کے اصول وضوابط کے بیان کرنے کے ساتھ اس کے نتائج اورعاقبت سے بھی بخوبی آگاہ کیا جارہا ہے ۔

۳۔ نزول قرآن کے اہداف میںسے تیسرا ہدف تدبر اور تفکر ہے یعنی فلاسفر اورقضایا عقل سے بحث کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ فکر اورتدبر سے انسان دیگر حیوانات سے جدا ہوسکتا ہے ۔جسکی طر ف قرآن میںشدت سے تاکید کی ہے چنانچہ فرمایا ''لعلکم تتفکرون ''یا تم لوگ کیوں قرآن کے بارئے میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں ایسی آیات تفکر وتدبر کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ تدبر وتفکر کے آثار سے بھی آگاہ کیا ہے ۔

۴۳

۴۔نزول قرآن کے اہداف میںسے چوتھا ہدف عبرت بتائی جاتی ہے چنانچہ قرآن میں آدم سے لیکر خاتم تک کے امتوں کی عبرت ناک منفی اورمثبت حالات کو بیان کرکے ہمیں ان سے عبرت لینے کا درس دیتا ہے کبھی قوم لوط کا تذکرہ ،کبھی قوم ہود کاتذکرہ کبھی آدم کے فرزندان کی حالات کبھی حضرت خاتم کی امت کا تذکرہ کر کے ہمیں عبرت لینے کا حکم دیا ہے ۔

۵۔نزول قرآن کے اہداف میںسے پانچواں ہدف اخلاق حسنہ سے بشر کو مزین اور رزیلہ واخلاق سیئہ سے نجات دینا ہے چنانچہ امام خمینی ؓکا فرمان ہے کہ قرآن کی تمام آیات سے چاہے اقتصادی مسائل سے مربوط ہو یا فقہی ہر ایک سے اخلاقی کوئی نہ کوئی نکتہ سمجھ میں آتا ہے ۔

۶۔نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک لوگوں کو بصیرت اور حکیمانہ وعالمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کرتا ہے تاکہ معاشرے میں وہ حرکتیں انجام نہ دے ،جو منفی اور لو گوں کو منفی اور تنزل کی طرف لے جاتا ہے ۔

۷۔ نزول قرآن کے اہداف میں سے ایک معاشرے میںعدالت اورانصاف کو رواج دینا ہے ،اور ظلم وبر بریت کو نابود کرنا ہے ، چنانچہ کئی آیات میں نظام اسلام کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : یقوم الناس با القسط ''

۸۔ قرآن کے آنے کے اہداف میں سے ایک اس دور کے ناپاک سیاسی اور منفی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد ہونے کی دعوت ہے تاکہ فرق مسلمین ''انما اللمؤمنون اخوۃ'' کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔

۴۴

۹۔ قرآن جامع ترین کتب آسمانی کی حیثیت سے دعوت دیتا ہے کہ ہر انسان کے مقررہ حقوق کی رعایت کریں حتی حیوانات اور درخت وشجر کے مقرر ہ حقوق کی رعایت کرنے کی شدت سے تاکید کرتا ہے چنانچہ کئی آیات میںصاف الفاظ میں بیان کیا ہے۔

۱۰۔ قرآن نازل ہونے کے اہداف میں سے ایک مادی اورمثالی اورابدی زندگی کو سعادت اورآباد کرنے کی گذارش کرتا ہے ، ان کے علاوہ اور بھی اہداف واضح الفاظ میںبیان کیا ہے ،ان کے پیش نظر قرآن کو فقط اموات کے ایصال ثواب کے فاتحہ خوانی یا شادی کے وقت ختم قرآن کے لئے یا دیگر معمول امور میںمنحصر کرنا ہماری جہالت کے علاوہ کچھ نہیں رب العزت سے اس ناچیز کاوش پر امام زمانہ (ع) کی تائید کے خواہاں ہوں۔

قرائت قرآن کی اجمالی وضاحت:

علوم قرآن کے مہمترین اور پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک قرائت قرآن سمجھا جاتا ہے، جس کے متعلق بہت سارے محققین نے مقالے کتابیں لکھی ہیں،لہذا شاید اس کے بارے میں مزید قلم اٹھانا تحصیل حاصل کے مترادف ہو لیکن ہماری اس ناچیز زحمت کے ہدف کے حصول کی خاطر قرائت قرآن کی طرف بھی اشارہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو ں کیونکہ ہمارے استاد محترم علوم قرآن کے ماہر آقای رجبی جو عرصہ دراز سے موسسہ امام خمینی کے علوم قرآن کے مدیر ہونے کے علاوہ حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کا سپیشلسٹ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے مؤسسۃ امام خمینی میںدیئے ہوئے اپنے لکچرز میں کئی مرتبہ فرمایا جب تک علوم قرآن کے تمام مسائل سے اجمالی بحث نہ کریں تب تک علوم قرآن کی ضرورت کا احساس نہ ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ، لہذا قرائت قرآن کا مختصر خاکہ قارئین کے گوشزد کرنے میں آسانی ہونے کے علاوہ قرآن کے افہام و تفہیم کے مرحلہ میں مشکل پیش نہیں آتی۔

۴۵

حقیقت قرائت قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے بہت سے علماء نے فرمایا قرائت یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو اس طرح پڑھنا جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تلاوت کی ہے۔

یا دوسرے الفاظ میں قرائت قرآن یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو ان کے مخارج اور لہجے کے ساتھ پڑھنا ۔

لیکن ہمارا مقصد قرائت قرآن کی طرف اجمالی اشارہ کرنا ہے لہذا قرائت کے معنی لغوی اور اصطلاحی سے ہٹ کر دیگر کچھ ایسے مطالب کی طرف اشارہ کردوں جو قرائت قرآن سے وابستہ ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور الفاظ میں سے بعض کی قرائت یقینا مختلف ہے اور مخارج کے ساتھ کتابوں میںنقل کیا گیا ہے، حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی بہت سے کتابوں میں قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ کے عنوان سے ان کے اسامی گرامی بھی نقل کیئے گئے ہیں، چنانچہ قراء سبعہ کانام صاحب حدایق نے اس طرح بیان کیا ہے:

(۱)عبداللہ بن عامر (۲) عبداللہ بن کثیر (۳) عاصم (۴) ابو عمرو بن العلاء (۵) حمزہ بن زیات (۶) نافع (۷) الکسائی۔

البتہ علم قرائت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد اصحاب کے دور میں افراد ذیل کی قرائت معروف اور مشہور تھی۔(۱) حضرت علیؑ (۲) عثمان (۳) ابن کعب (۴) زید بن ثابت (۵) عبداللہ بن مسعود (۶) ابو الدرداء (۷) ابو موسی ۔

اور اصحاب کا دور ختم ہونے کے بعد لفظ قراء ، قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ انہی افراد کے لئے لقب کے طور پر استعمال ہونے لگا یعنی کلمہ قراء سے ہمیشہ انہیں افراد کی طرف تبادر ہوتا تھا، لہذا مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے کہ ان قرائت میں سے کونسی قرائت صحیح ہے ، کونسی غلط ،کیا ان تمام قرات کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہ۔

۴۶

اس مسئلہ کے بارے میں اہل سنت کے محققین میں سے ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرائت سبعہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے حتیٰ جناب سبکی نے مناہل العرفان میں فرمایا ہے قرائت عشرہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔ (۱)

جناب مفتی البلاد الندلیسہ ابو سعید فرج ابن لب کا کہنا ہے کہ جو قرائت قراء سبعہ کو تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچے سے انکار کرے تو وہ کافر ہے، (۲)

نیز ہمارے مذہب کے علماء میں سے کچھ مجتہدین کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے جیسے شہید اول نے کتاب ذکری میں جناب محقق شیخ علی، مرحوم جندی وغیرہ نے فرمایا قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔ (۳) لیکن مذہب تشیع کی نظر میں معروف اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہونچی ہے بلکہ انہیں قرات میں سے بعض قرائت قاری کا خود ساختہ ہے بعض ان کا اجتہاد ہے بعض قرائت اگرچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے

............................

(۱)مناہل العرفان ص۴۳۳)

(۲)مناہل العرفان ص۴۲۸)

(۳)حدایق ج۸ص۹۵)

۴۷

لیکن نہ تواتر کے ساتھ، بلکہ باالاحاد منقول ہے ، اور اسی نظریہ کو اہل سنت کے محققین میں سے ایک گروہ نے بھی اختیار کیاہے۔

چنانچہ مرحوم فخررازی نے نظریہ اول کو اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کرنے کے بعد فرمایا: اتفق الاکثرون علی ان القرات المشہورۃ منقولۃ بالتواتر وفیہ اشکال لانّ..... یعنی اکثر علماء کا اجماع ہے کہ مشہور قرائت تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس میں اشکال ہے کیونکہ اس نظریہ کے قائل ہونے کی صورت میں ترجیح بلا مرجح لازم آتا ہے، جو عقلا ممکن نہیں ہے۔ (۱) اگرچہ ہمارے علما میں سے جیسے شہید ثانی وغیرہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کے طرفدار ہیں جناب فخر رازی کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : لیس المراد بتواترها ان کل ما ورد متواتر بل المراد الخصار المتواتر الان فی ما نقل ۔ (۲)

قرائت سبعہ تواتر سے منقول ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان قرائت میں سے ہر ایک تواتر سے ہم تک پہونچی ہو بلکہ اس کا مقصد ہے کہ اب تک جو قرائت نقل کی گئی ہے انہیں میں تواتر، منحصر ہے لیکن حقیقت میں اس طرح توجیہ کرکے جواب دینا ظہور کلام کے مخالف ہے ۔

............................

(۱)حدایق ج۸ ص۹۷) (۲)حدایق ج۸ص۹۷

۴۸

لہذا پہلا نظریہ اگرچہ اکثر اہل تسنن اور اہل تشیع کے برجستہ علماء میں سے ایک جماعت کا نظریہ ہے لیکن اسی کی حجیت پرکوئی ٹھوس دلیل نظر نہیں آتی ہے،کیونکہ تواتر کے دعویدار سنّی ہیں، جس پر ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بات قبول نہیں کرسکتے ۔

ثانیاً:خود اہل سنت کی پوری ایک جماعت نے اس نظریہ کو رد کیا ہے ۔

ثالثا: پہلے نظریہ کے طرفدار اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ''ان القرآن قد نزل علی سبعه احرف کلها شاف واف'' ۔ (۱) قرآن سات حروف پر نازل ہواہے جو تمام صحیح ہے اور کافی ہے۔اور اس طرح کی ایک اور روایت جناب صدوق نے نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ان الله یامرک ان تقراء القرآن علی حرف واحد فقلت یا ربّ وسع علی امتی فقل ان الله یأمرک ان تقراء القرآن علی سبعه احرف (۲)

''بتحقیق اللہ نے تجھے قرآن کو ایک حرف پر پڑھنے کا حکم دیاہے. اس وقت میں نے اللہ سے درخواست کی پالنے والے میری امت پر( رحم فرمایا) انکو تلاوت قرآن پر توسعہ فرما، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: آپ قرآن کوسات حرف پر تلاوت کرسکتے ہیں۔

..................................

(۱) تفسیر طبری، ج۱، ص۹) (۲)خصال ج۲،ص۱۱)

۴۹

ان روایات اور ان کی مانند دیگر تمام روایات کا جواب یہ ہے کہ یہ سند کے حوالے سے ضعیف ہونے کے علاوہ مجمل ہے ، ان تقراء القرآن علی سبعۃ احرف کا مختلف قرائت کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے، یا کیا ہے واضح نہیں ہے۔

اس کے علاوہ مرحوم ثقۃالاسلام کلینی نے روایت کی ہے حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: ان القرآن واحد منزل من عند الواحد و لکن الاختلاف من قبل الرواة. (۱) قرآن ایک ہے جو ایک ہی کی طرف سے نازل ہواہے لہذا اگر اختلاف اور متعدد نظر آئے تو یہ راویوں کی طرف سے ہے۔روایت مطلق ہے جسمیں ہر اختلاف اور تعدد شامل ہے ، حتی قرائت کا اختلاف اور تعدد بھی۔

نیز سند صحیح کے ساتھ کلینی نے روایت کی ہے فضیل بن یسار نے کہا : میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا: ان الناس یقولون نزل القرآن علی سبعة احرف فقال کذبوا اعداء الله و لکنه نزل علی حرف واحد من عند واحد. (۲) تحقیق لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے (کیا یہ صحیح ہے) آپ نے فرمایا: اللہ سے بغض رکھنے والے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ قرآن ایک ہی

ہستی کی طرف سے ایک ہی حرف پر نازل ہوا ہے۔ان دو، روایتوں کو

.............................

۱)الوافی، ج۵،باب اختلاف القراء ات)(۲)الوافی، ج۵)

۵۰

نقل کرنے کے بعد مرحوم محدث کاشانی نے فرمایا:نزل علی حرف کامعنی یہ ہے کہ قرات میں سے فقط ایک صحیح ہے ۔

صاحب وافی نے مذکورہ دوحدیثوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا :ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرائت فقط ایک صحیح ہے، جو بھی قرائت ہے وہ اہل بیت ؑ کی قرائت کے مطابق ہے، لیکن اس کی قرائت ہمارے دور میں مشخص نہیں ہے۔

لہذا ان مطالب کے پیش نظر حضرت آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا قرائت قرآن تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے اورمرحوم سیوطی اور قاضی کے نظریہ کو واضح الفساد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرا سبعۃ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کا نظریہ صحیح نہ ہونے پر دلیل قطعی ہے۔ (۱)

ان نکات کی بناء پر قرائت سبعہ با تواتر ہم تک پہونچنے کی بات قبول نہیں کر سکتے ہیں، لہذا ہم اپنی بات کی مزید استحکام کی خاطر اختلاف قرائت کے عوامل و اسباب کی طرف اشارہ کرینگے۔

۱۔ کچھ اسباب و عوامل کو غیر اختیاری اور قہری سمجھا جاتا ہے جس کی بازگشت حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی طرف ہوتی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے جو قرائت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں

...............................

(۱)البیان، ج۱ ص ۱۲۴ بیروت

۵۱

معمول تھی، اس دور میں قبیلے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا مخصوص لہجہ اور لحن ہوا کرتا تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا تم قرآن کو فصیح ترین لحن اور لہجے میں تلاوت کرو۔

اور فارابی کا کہنا ہے: کانت قریش اجود العرب اتقا لا فصیح من الالفاظ و اسهلها علی اللسان عند المنطق و احسنها مسموعا و (۱) قریش ،عرب قوموں میں سے رفتار میں نیکو ترین بولنے میں فصیح ترین الفاظ کی ادائیگی میں آسان ترین سنے میںبہترین سیرت کے عادی تھے۔

اور عرب اقوام میں قریش فصاحت کے حوالے سے بنی سعد زبان کی سلامتی کے اعتبار سے معروف اور مشہور تھا،لہذا شاید اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ''انا افصح العرب بید انی من قریش و انی نشأت فی بنی سعد بن بکر '' (۲)

''میں عرب میں فصیح ترین ہستی ہوں کیونکہ میرا تعلق قریش سے ہے اور میرا نشو و نما بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں ہوا ہے''

اور قرآن کی آیات اور الفاظ فصیح ترین اور بلیغ ترین ترکیبات کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جبکہ اقوام عرب ،مختلف لحن ولہجے کے مالک تھے جسکو ادبی کتابوں میں مختلف قبیلوں

...........................

(۱)کتاب الالفاظ والحروف)

(۲)بحار الانوار، ج۱۷،ص۱۵۸

۵۲

کا لحن یا لہجہ دلیل اور برہان کے طور پرنقل بھی کیا گیا ہے۔

لہذا فصیح ترین کلام کو جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اقوام عرب میں سے کم از کم مکہ و مدینہ کے عرب زبان والوں کی خدمت میں تلاوت کی اور یاد کرنے کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ تلاوت کرنے کی تاکید کی اس اختلاف لحن اور لہجے کی بنا پر قرآن کی قرائت میں بھی اختلاف لحن اور لہجہ عام ہو گیاہے۔

۲۔ اختلاف کی دوسری وجہ حفاّظ قرآن یا محافظین قرآن کی حفاظت اور ثبت و ضبط کی نارسائی بتایا جاتا ہے۔

یعنی بسا اوقات کوئی مسلمان مدینہ میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے کوئی آیہ سنتے تھے اسو قت معمول یہ تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنی ہوئی آیت کو دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں پیش کریں، اس وقت مسلمان عین وہ الفاظ جو مخصوص ہیات اور شکل و صورت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنا تھا وہ فراموش کرتے تھے اس کی مانند اور شبیہ دوسری ہیئت اور لحن پر پیش کرتے تھے. اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت بھی منقول ہے جو اسی مطلب کی عکاسی کرتی ہے: ''و کلها شاف کاف مالم یختم آیة عذاب برحمة و آیة رحمة بعذاب کقولک هلمّ و تعالی'' (۱)

...........................

(۱)شناخت قرآن ص۱۳۴

۵۳

وہ تمام قرااات صحیح اور کافی ہیں جب تک آیت رحمت آیت عذاب میں اور آیت عذاب آیت رحمت میں مختلف قرائت کی وجہ سے نہ بدل جائے،نیز رسم الخط اور علامت و اعراب گذاری کی وجہ سے بھی اختلاف واقع ہوا ہے جسکی مثالیں علوم قرآن کی کتابوں میں وافر مقدار میں موجود ہیںرجوع کیجیے۔

۳۔ اختلاف کی تیسری وجہ کاتبین اورنساّخ کافراموش اور سہو بتایا جاتا ہے۔

چنانچہ زبیر نے ابان بن عثمان سے پوچھا المتقین کے نون پر فتحہ کیوں آیا ہے؟ ابان نے جواب میں کہا یہ کاتبین کی فراموشی اور خطاء کا نتیجہ ہے، نیز عین اسی مطلب کو عروۃ بن زبیر نے عایشہ سے نقل کیاہے، ایسے اسباب اور عوامل کو غیر اختیاری اور قہری بتایا جاتا ہے جن کے نتیجے میں قرائت قرآن متعدد اور مختلف ہو چکی ہے۔

عمدی اور اختیاری اسباب:

قرائت قرآن کے مختلف ہونے کے اسباب میں سے ایک عمدی اور اختیاری بتایا جاتا ہے جس کے بارے میں علوم قرآن کے محققین نے تفصیلی گفتگو کی ہے پھر بھی کچھ اشارہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قارئین محترم کی تشنگی کو بجھا سکیں، عمدی اور اختیاری اسباب سے مراد لیا جاتا ہے کہ قرآن کے واضح اورروشن دستور کو اپنے مفادات اور اغراض کی خاطر تلاوت قرآن اور قرائت قرآن میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ فاعل کو مفعول یا مفعول کو فاعل یا دیگر وجوہ کی شکل میں پیش کرسکیں۔

۵۴

اسی وجہ سے ہر علم میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں جیسے ابوعبید نے کتاب فضائل میں ابن جریر نے تفسیر میں، ابو شیخ محمد بن کعب قرظی اور حاکم مستدرک نے اسامہ سے انہوںنے محمد بن ابراہیم التمیمی سے نقل کیا ہے کہ جناب عمر نے آیت ذیل کی قرائت اس طرح کی:

''السابقون الاولون من المهاجرین والانصار'' یعنی کلمۃ انصار کو مرفوع پڑھا تاکہ سابقون پر عطف کرسکیں نہ مہاجرین پر، اور والذین میں واو عاطفہ کو حذف کرکے والذین کو انصار اور مہاجرین پر عطف کرنے کی بجائے الذین پڑھکر انصار کیلئے صفت قرار دی ہے۔

جبکہ باقی قراء نے' ' والانصار والذین التّبعوا'' کی شکل میں قرائت کی ہے یعنی الانصار کو مکسور الذین کے اوپر واو عاطفہ کے ساتھ قرات کی ہے ،ایسی قرائت کا سبب عمدی اور اختیاری تھا چونکہ ذاتی مفادات کو فروغ دینے کی خاطر اس طرح تلاوت کی ہے تاکہ سابقون انصار پر عظمت حاصل نہ کرسکیں اور تابعین کے نام سے ایک گروہ کو انصار کی عظمت اور فضیلت میں شریک قرارنہ دے سکیں، اس داستان اور کہانی کے پس منظر کو جناب بلاغی نے مقدمہ تفسیر الاء الرحمن میں یوں نقل کیاہے۔

۵۵

جب زید بن ثابت نے عمر کی خدمت میں عرض کیا الانصار اور والذین دونوں المہاجرین پر عطف ہیں تو جناب عمر تعجب کے ساتھ زید بن ثابت سے کہنے لگے میں نے گمان کیا تھا کہ سابقیت مہاجرین کا مخصوص کوئی منصب ہے،زید بن ثابت نے کہا والذین واو عاطفہ کے ساتھ پڑھنا صحیح ہے. جناب عمر نے اس کی بات نہیں مانی بارہا بغیر واو عاطفہ قرائت کرتا رہا، اس وقت زید بن ثابت نے کہا جناب خلیفہ دانا تر ہیں، جناب عمر نے ابی بن کعب کو بلا بھیجا اس سے بغیر واو قرات کی تصدیق کروانا چاہیے مگر ابی نے بھی والذین واو عاطفہ کے ساتھ قرائت کی پھر بھی جناب عمر نے نہیں مانا اور جناب عمر نے قرائت کے وقت جناب ابی بن کعب سے اشارہ بھی کیا اور کہا میری قرائت کی تصدیق کرو اس وقت ابی نے کہا خدا کی قسم اللہ کے رسولؐ نے ہمیں والذین کی شکل میں تلاوت کرکے بتایا ہے لیکن آپ بہت بڑے اشتباہ کے شکار ہے اس وقت عمر نے کہا فنعم اذن۔ (۱)

لہذا کہا جا سکتا ہے کہ قرائت قرآن کی صورتحال مختلف ہونے کے اسباب عمدی میں سے قوی ترین اسباب سیاسی، کلامی اور حزبی اور عملی انگیزہ بتایا جاتا ہے،لہذا مصاحف عثمانی کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ مختلف قراء ات کو جائز التلاوت قرار دے سکیں (۲)

حتی اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مصاحف عثمانی کو عبدالملک بن مروان کے دور حکو مت تک بغیر نقطہ و اعراب کے رکھا گیا اس کے دور میں حجاج بن یوسف کو جو عراق

..................................

(۱)شناخت قرآن، ص۱۳۹) (۲)تاریخ عرب قبل الاسلام ج ۸ ص ۱۸۶)

۵۶

کا حکمران تھا مصاحف عثمانی کو نقطہ گذاری کرنے کا حکم ہوا اس نے دو ہستیوں کو بنام نصر بن عاصم اور یحیی بن یعمر کے ذمہ پر ڈالا یہ دونوں ابوالاسود ویلی کے شاگر دتھے۔

نیز لکھا گیا ہے کہ جس مصحف میں تحریف ہونے کا خوف پیدا ہوا تو عبدالملک کے دور میں ابوالاسود ویلی کے بعد خلیل بن احمد نے نقطہ گذاری ، علائم ہمزہ تشدید (اشمام) دیگر حرکات کے کاموں کو مکمل کیا۔ (۱)

لہذا قرااات مختلف ہونے کے وجوہات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین محترم مفصل کتابوں کی طرف رجوع کریں تاکہ حقیقت کی عکاسی ہو اور نماز جیسی عبادات میں ہر قرائت کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں نماز اور عبادات کی صحت یا عدم صحت کو بیان کرسکیں۔

اقسام قرات:

سیوطی مرحوم نے ابن الجزری سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ قرائت قرآن کے کئی اقسام ہیں، جیسے: متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع ،و مدرج (۲)

لیکن قرااات قرآن کواس طرح تقسیم کرنا تقسیمات منطقی کے اصول و ضوابط سے دور نظر آتا ہے کیونکہ علوم قرآن کے مباحث میں قرائت سبعہ یا قرائت عشرہ یا قرائت

.............................

(۱)وفیات الاعیان) (۲)اتقان

۵۷

اربعہ عشرہ متواترہ ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے بعض محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ متواتر ہے بعض کاعقیدہ یہ ہے قرات مشہورہ ہے متواترہ نہیں ہے لہذا دیگر اقسام کی طرف تقسیم کرکے ہر قرائت کواس مباحث میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے یعنی قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے یا قرائت سبعہ فقط مشہور ہے، تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔

اس مسئلہ کے بارے میں چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیاگیا کہ مرحوم آیۃاللہ خوئی کہ جس کے بارئے میں ہمارئے استاد محترم حضرت ایت اللہ العظمی وحید حفظہ اللہ کی تعبیر یہ ہے کہ ایت اللہ الخوی فحل الفوحل عصرہے، اور دیگر اکثر علماء تشیع اور بعض علماء اہل تسنن کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک با تواتر نہیں پہونچی ہے بلکہ فقط مشہور ہے جس کی دلیل کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے، لیکن اس نظریہ کے مقابل میں اہل تسنن کے اکثر علماء تواتر کے قائل ہیںجبکہ ہمارے مذہب کے برجستہ علماء میں سے مرحوم سید محمد طباطبائی صاحب مفاتیح الاصول نے اپنی کتاب میں فرمایا قرائت سبعہ کے بارے میں تین نظریے ہیں:

الف:قرائت سبعہ عین وہی قرائت ہے جو حضرت جبرئیل نے حضرت پیغمبر اکرؐم کو پیش کیا تھا یہ قرائت ہم تک با تواتر پہونچی ہے،جس کے قائلین افراد ذیل ہیں:

ابن مطہر، ابن فہد محقق ثانی، شہید ثانی، حر عاملی، نیز فخر رازی نے بھی کہا ہے کہ اکثر علماء و مجتہدین اسی نظریہ کے قائل ہیں،جس کو ہم نے پہلے مفصل طور پر بیان کئے ہیں۔

۵۸

ب: بعض محققین نے تفصیل دی ہے قرائت سبعہ میں سے کچھ متواترہ ہے جیسے ملک و مالک ، جبکہ مد اور تخفیف امالہ اور ہاات لفظ متواترہ نہیں ہے، اس نظریہ کو شیخ بہائی ، عضدی اور ابن حاجب وغیرہ نے بھی پسند کیا ہے۔

ج: قرائت سبعہ چاہے ہیات لفظ سے مربوط ہو یا جوہر لفظ، کوئی بھی قرائت متواترہ نہیں ہے. جس کے قائلین افراد ذیل ہیں:

شیخ طوسی، نجم الائمہ، جمال الدین خوانساری، سید نعمت اللہ جزائری، شیخ یوسف بحرانی، سید صدر الدین، ابن طاووس، حرفوشی، زمخشری، رازی، آیت اللہ خوئی، کے علاوہ بہت سارے دیگر علماء بھی اسی نظریہ کو پسند کئے ہیں۔ (۱)

لیکن چنانچہ ہم نے پہلے بھی مفصل بحث کر چکے ہیں کہ پہلے نظریے اور دوسرے نظریے کی صحت پر کوئی ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے تیسرے نظریے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں جسکی صحت پر پہلے کئی روایات نبویؐ اور معصومین ؑکی طرف اشارہ کرنے کے باوجود حضرت آیت اللہ العظمی خوئی و فخر رازی وغیرہ نے دلیل عقلی بھی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

البتہ قرائت سبعہ متواترہ نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز میں قرائت سبعہ کی

................................

(۱)تبیان ج۱، سعد السعود ص۱۸۱، شناخت قرآن ص ۱۷۴)

۵۹

تلاوت جائز نہیں ہے کیونکہ طرفین کے علماء اورمجتہدین نے فتوے دیے ہیں کہ قرائت سبعہ میں سے کوئی بھی ہو نماز میں مجزی اور جائز ہے،جس کی ٹھوس دلیل آئمہ اطہار کی تائید بتایا جاتا ہے یعنی معصومین کے زمان میں قرائت سبعہ میں سے ہر ایک قرائت کے ساتھ اصحاب پیغمبر اکرم (ص) اور تابعین نماز پڑھتے تھے، معصومین بھی بخوبی اس سلسلہ سے اگاہ تھے، لیکن منع نہیں کیا، لہذا ہمارے زمانے میں قرائت سبعہ میں سے جس کی قرائت نماز میں انجام دے تو نماز صحیح ہے اور جائزہے۔

شان نزول کی وضاحت:

قرآن کی آیات کو سبب نزول کے حوالے سے تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

الف: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کے بغیر اللہ ہی نے مصالح و مفاسد کی بنا پر نازل کیا ہے جیسے سورہ اقراء کہ سب سے پہلے نازل شدہ سورہ اور آیت بتایا جاتا ہے جس کے نزول کےلئے سوی مصالح اور مفاسد باطنی کوئی سبب خارجی نظر نہیں آتا ۔

ب: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کی وجہ سے نازل کی گئی ہےں جیسے سورہ براۃ سورہ منافقون اور وہ آیات جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147