علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر0%

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 147

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 147
مشاہدے: 47361
ڈاؤنلوڈ: 4201

تبصرے:

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 147 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47361 / ڈاؤنلوڈ: 4201
سائز سائز سائز
علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

علوم قرآن کا اجمالی پس منظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ج: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی سوال و جواب کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں۔

اسباب نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا علوم قرآن کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن کے مہم مسائل میں سے ایک شان نزول کی معرفت بتائی جاتی ہے ، لہذا بہت سے محققین نے اسباب نزول کی معرفت کی اہمیت کے بارے میں تاکید کی ہے جیسے:واحدی نے کہا آیت کی تفسیر، شان نزول کی معرفت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

جناب ابن دقیق العبد نے کہا، شان نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا فہم قرآن اور افہام و تفہیم قرآن کیلئے بہت ضروری ہے۔

ابن تیمیہ نے کہا: شان نزول کی معرفت اور شناخت فہم معانی قرآن کےلئے سبب ہے اس کے بغیر فہم معانی قرآن ناممکن ہے ،کیونکہ سبب کے بغیر مسبب کا حاصل ہونا محال ہے۔

لہذا شان نزول کی شناخت حاصل کرنے میں در جہ ذیل افادیت پوشیدہ ہے :

الف: فہم معانی قرآن کا سبب بنتا ہے۔

ب: جن افراد کی شان میں آیات نازل ہوئی ہیں چاہے ان کی مذمت اور عقاب کے بارے میں ہو ںیا مدح و ثناء کے بارے میں ان کی شناخت اور معرفت حاصل ہوتی ہے، جو نئی نسلوں کےلئے بہترین عبرت ہے۔

۶۱

ج: نیز آیات اور سورے جن افراد اور اسباب کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں وہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ جن افراد میں وہ مزیت اور اسباب موجو ہیںچاہے زمان حال میں ہو یا زمان آیندہ یا گذشتہ ہر ایک ان آیات کا مصداق بن سکتا ہے،یعنی علم اصول میںمکمل ایک بحث ہے ،کیا سبب نزول آیت اورحکم کی تخصیص کا سبب بن سکتا ہے یا نہ ،جس میںاکثر علماء اصولین کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تخصیصی حکم او رآیت کا سبب نہیں بن سکتا ۔

چنانچہ شیخ طوسی نے سورہ آل عمران، آیت نمبر 199 کی شان نزول کو نجاشی ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اگرچہ اس آیت کا سبب نزول نجاشی ہی ہے لیکن آیت اس کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل کتاب میں سے جو بھی ایمان لایا وہ آیت کا مصداق ہے، کیونکہ شان نزول مخصوص ایک فرد یاایک طبقہ ہونے سے ،آیت کو اس کے ساتھ مخصوص کرنا لازم نہیں ہوسکتا ۔ (1) نیز ابو القاسم ، ابو مسلم اور قاضی نے کہا آیت کا کسی خاص سبب کی وجہ نازل ہونا اس کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بن سکتا بلکہ آیت کو عام پر حمل کرکے ہر وہ افراد مراد لے سکتے ہیں کہ جن میں اس کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ (2)

حضرت آیت اللہ بجنوردی نے قاعدہ احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جب جنگ تبوک میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے مقرن کے تین فرزندوں نے جوتے مانگے توآنحضرتؐ کے پاس جوتے نہیں تھے اس وقت یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی: '' قل لااجدما احملکم علیه' 'آیت انہیں تین بندوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک

...............................

(1)تبیان ج2)

(2)شناخت قرآن ص190

۶۲

کے لئے ہر زمانے میں عبرت ہے، کیونکہ بہت ساری آیات کسی خاص مورد، اور فرد میں نازل ہوئی ہیں ، لیکن ہمارے مجتہدین اور فقہانے اس سے عموم اور شمول پر استدلال کئے ہیں۔ (1)

سیوطی نے کتاب اتقان میں ابن تیمیہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو بھی آیات کسی خاص دور اور شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیںوہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں کرسکتے ہیں (2)

ابن تیمیہ اور اس جیسے دیگر افراد کا نام لینے کا مقصدیہ نہیں ہے کہ ان کا عقیدہ مذہب حقہ کے نزدیک بھی صحیح ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ علوم قرآن کے مسائل میں سے بعض ،کسی خاص مذہب کے عقید ہ، اور اصول و ضوابط میں سے امامیہ، یا اہل حدیث ہونے کی حیثیت سے کوئی دخالت نہیں ہے بلکہ بحیثیت مسلمان ان سے بحث کی ہے۔

لہذا آیت کی شان نزول، طرفین کی نظر میں آیت کی تخصیص اور حکم کو اسی مورد کے ساتھ مخصوص کرنے کے لئے سبب نہیں بن سکتا ۔

.............................

(1)قواعد الفقہیہ ،ج4،،ص70)

(2)اتقان،ج1،ص11

۶۳

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہو سکتے :

تحریف قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے علماء اور محققین اور مکاتب فکر حضرات نے کہاہے کہ تحریف قرآن کے مسئلہ کو علوم قرآن کے مسائل میں مرکزیت حاصل ہے، لہذا تحریف قرآن کے موضوع پر ہی مکمل کتابیں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ،لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریف قرآن کے اقسام اور اس کے بارے میں مکاتب فکر کے نظریات کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاء کروں گا۔

تحریف قرآن کو علماء اورمکاتب فکر نے تین قسمون میں تقسیم کیاہے :

1۔ تحریف زیادی۔

2۔ تحریف کمی۔

3۔ تحریف تبدیلی۔

الف: تحریف اضافی و زیادی: یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کریم میں سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیاہے، ایسی تحریف کے مسلمانوں میں سے فقط دو گروہ قائل ہوئے ہیں۔

۶۴

1۔عجاردہ: یعنی وہ لوگ جو عبدالکریم عجرد کی پیروکار ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کا جزء نہ تھا بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔

2۔ابن مسعود کی طرف بھی اس تحریف کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ معتقد ہے کہ سورہ معوذتین کو قرآن کا جزء نہیں سمجھتے ہیں۔

ایسے نظریے کو تمام مسلمان باالاتفاق باطل سمجھتے ہیں اور صحیح نہ ہونے کو ضروریات دین اسلام میں سے قرار دیتے ہیں۔

ب: تحریف کمی: یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں کچھ آیات یا کچھ الفاظ اس قرآن سے حذف اورکم کئے گئے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کی گئی تھی۔

ایسی تحریف کے اہل تسنن کے کچھ علما ء قائل ہوئے ہیں جبکہ ہمارئے علماء کاموقف من البدوی الی الان یہ رہا ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں واقع نہیں ہوئی ہے۔

چنانچہ فضل بن شاذان کو امامیہ کے قرن سوم کے مصنفین اور علماء میں سے شمار کیا جاتاہے فرمایا قرآن کی کسی ایات اور الفاظ مین کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ موجودہ قرآن عین وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا گیا ہے۔

استاد محترم الحاج دکتر محمدی کی دو جلد کتابیں تحریف قرآن کے بارے میں اور الحاج حضرت آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا ایک تحقیقی مقالہ جس کا ترجمہ راقم الحروف کے ہاتھوں اردو میں ہو چکا ہے اور شناخت قرآن ص 77 جیسی گرانبہا کتابیں مزید معلوما ت کیلئے بہت زیادہ مناسب ہیں رجوع کیجیے۔

۶۵

ج: تحریف جابجائی:یعنی کسی کلمہ اور لفظ میں یا ترکیبات اور اعراب میں تبدیل کا لانا ،ایسی تبدیلی واقع ہونے کے قائلین بہت ہیں، اور جن روایات سے بظاہر ایسی تحریف واقع ہونا سمجھ میں آتا ہے ان کو امامیہ کے مخالف دیگر فرق مسلمین سے منسوب کئے ہےں۔

3۔محمد بن علی بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں اور جہان تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اورنامور عالم سمجھے جاتے ہیں، اپنی رسالہ الاعتقادات میں فرمایاہے۔

قرآن کے بارے میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو قر آن آج ہمارے پاس موجود ہے ، یہ ہو بہو وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پرنازل کیا گیا تھا ، جس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوا ہے،لہذاجو لوگ قرآن میں کمی اور پیشی واقع ہونے کا نظریہ ،امامیہ مذہب سے منسوب کرتے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔

4۔ مرحوم علی بن الحسین موسوی جو سید مرتضی علم الہدی کے لقب سے معروف ہیں ،شیعہ امامیہ کے عظیم علماء و مجتہدین میں ایک ہیں ،انہوں نے فرمایا: جس طرح کائنات میں موجودات اورواقعات و حوادث کا رونما ہونا یقینی ہے اسی طرح قرآن مجید بھی ہم تک کسی قسم کی کمی اور بیشی کے بغیر پہونچنے پر یقینی ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کی حفاظت کے لئے مسلمانوں اور اصحاب کیلئے شدت کے ساتھ تاکید کے علاوہ بہت بڑا اہتمام بھی کیا تھا

۶۶

اور سید مرتضی نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں اور جولوگ مذہب اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں ان میںسے فقط حشویہ ایسی تحریف کے قائل ہوئے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ جتنی روایات سے ایسی تحریف کے ہونے پر استدلال کیا گیا ہے وہ تمام ضعیف السند ہیں۔ (1)

5۔ مرحوم شیخ الطائفہ نے فرمایا: قرآن میں ایسی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، اور جتنی روایات ایسی تحریف واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے و ہ تمام ضعیف السند ہے جس سے تحریف قرآن کو ثابت کرنا لا علمی کا نتیجہ ہے لہذا ہل تشیع کی نظر میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کمی اور پیشی واقع نہیں ہے۔ (2)

6۔ مرحوم الحاج طبرسی عظیم مفسر قرآن نے فرمایا: قرآ ن میں اضافہ نہ ہونے پر امامیہ کا اجماع ہے لیکن کمی واقع ہونے پر اجماع تو نہیں ہے مگر صحیح نظریہ یہ ہے کہ جس طرح قرآ ن میں اضافہ نہیں ہوا ہے اسی طرح کمی بھی نہیں ہوئی ہے۔ (3)

7۔ ابن طاووس نے کہا : شیعہ امامیہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں لہذا ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ہی جمع آوری کا حکم دیا ہے اس کے باوجود آیات کی بارے میں اہل مکہ و بصرہ و کوفہ و مدینہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کریں اورکہتے ہیںکہ کچھ کی نظر میں بسم اللہ آیات میں سے ایک آیت نہیں ہے کسی کی نظر میں آیات میں سے ایک ہے جبکہ دوسری

.......................................

(1)مجمع لبیان ج1 ص15

(2)مقدمہ تفسیر تبیان

(3)مجمع البیان ج1 ص15

۶۷

طرف سے تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں، یہ دو باتیں تضاد ہیں قابل جمع نہیں ہیں! (1)

8۔ مرحوم ملا محسن فیض کاشانی نے کہا جو روایات اور احادیث تحریف پر دلالت کرتی ہیں وہ در حقیقت کتاب الہی کے مخالف ہے ۔ (2)

9۔ مرحوم شیخ بہائی نے کہا کہ ہمارے نزدیک صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، لہذا جو لوگ آیت مبلّغ وغیرہ میں کچھ کلمات حذف ہونے کے قائل ہے و ہ نظریہ ہمارئے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ (3)

10۔ مرحوم شیخ محمد بن حسن صاحب و سایل الشیعہ نے کہا جو لوگ آئمہ معصومین (ع) سے منقول روایات اور احادیث کی تحقیق کرینگے تو اس کو علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچا ہے جس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال دینا غلط ہے۔ ( 4)

11۔ کاشف الغطاء کتاب اصل الشیعہ میں فرمایا قرآن میں کسی قسم کی تحریف اور کمی و بیشی واقع نہیں ہوئی ہے لہذا ایسا نظریہ جو تحریف واقع ہونے پر مشتمل ہے، اہل تشیع سے نسبت دینا بہتان اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ (5)

....................................

(1)سعد السعود ص 144

(2)تفسیر صافی،ج1 ص51

(3)الاء الرحمن ص26

(4)اظہار الحق،ج2،ص129(5)کشف الغطائ،ص299

۶۸

مرحوم علامہ طباطبائی نے سورہ حجر کے آیہ 9 کی تفسیر میں فرمایا:(قرآن زندہ و حیات جاویدانی کا حامل ہے اس میں موت او ر فراموشی اضافہ اور کمی یا کسی قسم کی تبدیلی کی راہ ہی نہیں ہے)

ان کے علاوہ شیخ مفید کوجو قرن سوم ہجری کے علماء میں سے شمار کئے جاتے ہیں قاضی نوراللہ شوشتری، شہشہانی بلاغی ، شیخ انصاری دیگر اکثر علماء امامیہ ایسی تحریف نہ ہونے کے قائل ہو ئے ہیں کیونکہ شیعہ امامیہ کے عقیدے کی بنا پر ہرگز ایسی تحریف کے قائل نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اور عترت اہلبیت دو ایسے مرجع اور ماوی ہیں جو اللہ کی طرف سے بشر کی نجات کا ذریعہ ہیں اگر قرآن جیسے مرجع و ماوی میں کمی اور اضافے ہونے کے قائل ہو جائیں تو'' انی تارک فی الثقلین کتاب الله و عتری ' 'کا عقیدہ غلط ہو جاتا ہے،و ہ قرآن انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ جس میں کمی اور اضافے کا احتمال دیا جاسکتاہے۔

لہذا سورہ حجر آیت 9 سورہ فصلت آیہ 41،12 سورہ بقرہ آیت 2 ،سورہ سجدہ ایت 32 ، حدیث ثقلین اور دیگر روایات متواترہ کے علاوہ عقل کی رو سے تحریف کمی و زیادی کے قائل نہیں ہو سکتے رجوع کیجئے۔ (1)

.......................................

(1)شناخت قرآن ص78، حریم قرآن کا دفاع ص19، سعد السعود ص193، سلامت القرآن من التحریف،ج1 ص28، الذخیرہ فی علم الکتاب ص361)

۶۹

البتہ ہم نے گذشتہ مباحث میں علماء اور محققین کے کلام کو نقل کرتے ہوئے تحریف کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:

1۔ تحریف کمی

2۔ تحریف زیادی

3۔ تحریف تبدیلی

جبکہ یہ تینوں قسمیں تحریف لفظی کے اقسام ہیں لہذا تحریف کو ابتدائی مرحلہ میں اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ ایک تحریف معنوی دوسری تحریف لفظی اس کے اقسام کمی ،زیادتی ،تبدیلی ہیں۔

تحریف لفظی میں سے تحریف کمی و زیادی کے بارئے میں دلیل عقلی اور نقلی کی روشنی میں واضح ہواکہ اس کے قائل نہیں ہو سکتے ، لیکن تحریف تبدیلی یعنی آیات کے الفاظ اورسورے جابجا قرار دینا یا مختلف اعراب سے اس کی قرائت کرنا یہ یقینا واقع ہو ئی ہے ،لیکن یہ حقیقت میں تحریف نہیں ہے کیونکہ آئمہ معصومین نے ایسی قرائت کی تائید کی ہے اور ایسی تبدیلی میں فلسفہ نزول قرآن کے ساتھ کوئی ٹکراو بھی نہیں ہے۔

لہذا تحریف قرآن سے فقط تحریف کمی اور زیادی سمجھ میں آتی ہے کچھ علماء اور محققین نے تحقیق کے بغیر ایسی تحریف کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنا سوای بہتان اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہمارے تمام علماء کا( چاہے متقدمین میں سے ہوں، یا متاخرین میں سے) عقیدہ یہ ہے کہ ایسی تحریف کے ہرگز قائل نہیں ہو سکتے ۔

۷۰

چنانچہ بہت سے علماء کانام پہلے ذکر کیاگیا ان کے علاوہ افراد ذیل نے صاف لفظوں میں تحریف کے نظریہ کو باطل قرار دیاہے ، ابن ادریس ،کما ل الدین ،الکاشفی ،شیخ ابو الفیض، شیخ الاسلام ،محمد بن الحسین ، صدر الدین ، محمد بن ابراہیم الشیرازی، علامہ ، نورالدین محمد بن مرتضی ، محمد بن محمد رضا مشہدی، شیخ عبداللہ شبر، سیدحسین الکوہ کمری، محقق تبریزی، سید محمد مہدی میر محمدی، شیخ حسن زین الدین، حضرت امام خمینی رحمۃاللہ کے علاوہ اس دور کے علوم قرآن کے تمام محققین قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں رجوع کیجئے۔ (1)

لیکن جو لوگ قرآ ن میں کمی واقع ہونے کے قائل ہیں ان کے کچھ استدلال ہیں جس کا خاکہ درجہ ذیل ہے:

1۔ اگر قرآن میں تحریف نہ ہوتی تو ابن مسعود اور ابی بن کعب کے مصحف میں اختلاف نہیں ہوناچاہیے تھا جبکہ ان کے مصاحف کے ساٹھ موارد میں اختلاف ہے۔

2۔ اگر کسی چیز کے اجزاء متفرق اورمختلف ہوں اور اس کی جمع آوری ابو بکر کے زمان میں وقع ہوئی تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی جزء اور حصے میں کمی اور تبدیلی آچکی ہوگی۔

3۔ حضرت علی (ع) کا قوم سے بایکاٹ کرکے قرآن کی جمع آوری کیلئے سینہ بہ تن ہونا اس بات

..........................................

(1) سلامت القران من التحریف ج1 ص30، تہذیب الاصول ج2 ص1562، معالم الاصول ص 147، الفصول المہمہ ، ص166)

۷۱

کی دلیل ہے کہ قرآ ن میں تحریف ہوئی ہے۔

4۔ بہت ساری روایات کامضمون ایسا ہے کہ گذشتہ امتوں کے ہو بہو وقائع اور حوادث اس امت میں بھی رونماہوگئے ، یہ تحریف واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

5۔ احادیث اور روایات اہل سنت او رشیعہ امامیہ کے اسناد سے کثیر تعداد میں نقل کیا گیا ہے،جن سے تحریف قرآن سمجھ میںآتا ہے ۔

حتی بعض محدثین نے ایک ہزار ایک سو بائیس احادیث بتائی ہیں، جس کا مضمون قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے بعض علماء ،تحریف پر دلالت کرنے والی احادیث میں تواتر اجمالی کے قائل ہوئے ہیں۔

لیکن تواتر اجمالی کا دعوی ایسا دعوی ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے شاید تواتر اجمالی کا دعوی احادیث کی تعداد زیادہ نظر آنے کی وجہ سے کی ہو جبکہ ان روایات کے سند سے چشم پوشی کرکے مضمون کو کڑی نظر سے غور کریں تو ان کا مضمون مطالب ذیل پر مشتمل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔

۷۲

الف: کچھ روایات قرآن میں لحن اور دیگر لہجے کے حوالے سے مختلف اور متعدد ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

ب: کچھ دستہ روایات قرآن میں کوئی کلمہ اضافہ یا حذف یاتبدیل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

ج: بعضی روایات موجودہ قرآن میں کچھ سورتیں اور آیات اضافہ ہونے کی خبر دیتی ہیں۔

د: کچھ روایات قرآن کی بعض آیات شیطان(نعوذ باللہ) کے القااات میں ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ر: کچھ روایات قرآن میں تحریف اورکمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

ھ: کچھ روایات بعض کلمات اور الفاظ قرآن میں، زمانے کے حکمرانوں نے تبدیل لانے کی خبر دیتی ہے ۔

جبکہ محققین نے تواتر کو فقط دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:

1۔ لفظی۔

2۔معنوی۔

صرف مرحوم آخوند خراسانی اور ان کے بعد والے محققین نے تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: (1) تواتر لفظی

(2) تواتر معنوی

(3) تواتر اجمالی

اور مرحوم آقای نائینی نے مرحوم آخوند خراسانی کو جواب دیتے ہوئے فرمایا:

....................................

(1)فضائل قرآن،ص161، تذکرہ الحفاظ ص417

۷۳

تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ تواتر اجمالی وہی تواتر معنوی ہے اس کے مقابل کوئی تیسری قسم نہیں ہے، لہذا پہلا جواب یہ ہے کہ تواتر اجمالی کا نظریہ علماء متاخرین کے ایک گروہ کا نظریہ ہے ۔

ثانیا: اگر تواتر اجمالی کا نظریہ قبول بھی کریںتو روایات کے مضامین ایک مطلب کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہیں بلکہ روایات کچھ مختلف ومتباین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں جبکہ تواتر اجمالی اس کو کہا جاتاہے جو بہت ساری رویات الفاظ اور تعابیر کے حوالے سے مختلف ہوں، لیکن تمام کے تمام ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ کریں۔

لہذا ایسی روایات میں تواتر کا دعوی کرنا نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ہے، جب ہم نے تواتر کے دعوے کو باطل قرار دیا تو ایسی روایات خبر احاد بن جاتی ہیں جس کو کسی مسئلہ پر دلیل قرار دینے میں شرایط ذیل لازم ہیں:

1 ۔ سند کے حوالے سے تمام روات موثق ہوں۔

2۔ صدور کے حوالے سے تقیہ وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔

3۔ مضمون کے حوالے سے کوئی اشکال اورخلاف عقل وقرآن نہ ہو۔

جبکہ مذکورہ روایات میں سے کسی ایک کی سند علم رجال کے اصول و ضوابط کے مطابق معتبر نہ ہونے کے باوجود مضمون کے حوالے سے روایات صحیح السند اور نص قرآن کریم اور عقل کے مخالف ہے۔

۷۴

لہذا ایسی روایات کو معصومین کے دستور کے مطابق دور پھینکنا چاہیے اور ایسی روایات کی بنا پر تحریف قرآن کے قائلین کو چاہیے علم اصول علم الرجال ،فقہ الحدیث، فقہ اللغۃ، اور دیگر بنیادی تعلیمات اسلامی کو بخوبی یاد کریں، فقط ایک دو اصطلاح یاد کرکے پورے مسلمانوں کے ضمیر کو مجروح کرنا دور حاضر کی تحقیقات کے منافی ہونے کے علاوہ بہت ہی نا انصافی ہے،اور انکے باقی ادلے قابل جواب نہیں ہے لہذا ہزاروں شیعہ امامیہ اور اہل سنت کے محققین عربی ، فارسی ، انگلش، اردو ،اور دیگر زبانوں پر قرآن میں تحریف نہ ہونے کے موضوع پر تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیںرجوع کریں۔ (1)

تحریف معنوی کا اجمالی خاکہ:

چنانچہ ذکر کیاگیا کہ تحریف کو محققین نے دو قسموں میں تقسیم کیاہے:

الف۔ تحریف لفظی :کہ اس کی وضاحت سے ہم فارغ ہوگئے۔

ب۔ تحریف معنوی:

یعنی کسی لفظ اور آیت سے ایسا معنی ارادہ کرنا جو اہل زبان اور عربی دان کی نظر میں معمول اور رائج نہیں ہے،چاہے اس کا سبب کمی ہو، یا اضافی ، یا مخصوص جگے کا

تبادلہ اور دیگر عوامل اور اسباب ہوں۔

.........................................

(1)فضائل القرآن ص161، سلامت القرآن من التحریف،ج1ص103، تذکرۃ الحفاظ،ص417، محاضرات الادباء ،ج2،ص435، البیان فی تفسیر القرآن،ج1،ص211)

۷۵

تحریف معنوی کی ایسی تعریف میں ہر وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جو بظاہر کلام کے ظہور سے ہماہنگ نہیں ہے۔

لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے تفاسیر قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیاہے:

الف: تفسیر بالرّای ب: تفسیر غیر بالراّی

تفسیر بالرای

یعنی آیات کو مفسر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق تفسیر کرنا چاہے تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ اور موافق ہو یا مخالف جیسے اس دور میں بہت سے لوگ کسی اصول و ضوابط کے بغیر سامعین کو قائل کرنے کی خاطریا مقالہ نویسی مقالے کی تزین کے واسطے آیات کا ایک ٹکڑا یاایک جملہ جو آیت کے ابتدا اور انتہا سے ہٹ کر فقط ایسے جملے کو بیان کرتا ہے جوبظاہر خطیب اور مقالہ نویس کے اہداف کے مطابق نظر آتا ہے ،جبکہ اس جملے کے آغاز اورانتہاء کو لایاجائے توآیت کا معنی اور مفہوم کچھ اورنظر آتاہے لہذا آیات قرآنی کو تفسیر کرنے کیلئے پوری آیات پر احاطہ علمی ہونے کے علاوہ شان نزول اور اس کی تفسیر کے بارے میں آئمہ سے منقول روایات اور صاحب نظر حضرات کی تفسیر کامطالعہ کرنے کے بعد تفسیرکرنا چاہیے۔

۷۶

تفسیر بالرای کو حکم شرعی کی رو سے دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

(1)تفسیر بالراّی جایز

(2) تفسیر بالراّی غیر جائز

اگر کوئی شخص برسوں سال آیات عظام کے سامنے زانو ے ادب تہہ کرتے ہوئے حوزہ میں تعلیمات اسلامی کے حصول کیلئے پوری ایک عمر تلمذ کرتے ہوئے تفسیر کے ماہرین سے تفسیر کے اصول و ضوابط لے چکے ہو ںتو اس کی روشنی میں آیات کی تفسیر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق بیان کریں، تو ایسی تفسیر بلا اشکال جائز ہے،جیسے علامہ طباطبائی، طبرسی، آیت اللہ خوئی، صدر المتالہین، حضرت استاد محترم عارف زمان زہد و تقوی کا مجسم مفسر قرآن آیۃاللہ جوادی آملی ،فیض کاشانی،عبد اللہ شبر،حضرت استاد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، حضرت حجۃالاسلام قرائتی صاحب تفسیر الفرقان کہ انہیں حضرات نے سالوں سال حضرات آیات عظام کی شاگردی اور تلمذ کرنے کے بعد اپنے آرای حدسیہ اور اجتہاد کے مطابق تفسیر کرنے کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے، لیکن ایسی تفسیر ان روایات اور احادیث کے دائرہ سے خارج ہے جو تفسیر بالرای کی حرمت اور مذمت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ لوگ صاحب نظر ہیں تمام تعلیمات اسلامی کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں، فقہ اللغہ، فقہ الحدیث ، فلسفہ اور منطق علم اصول اور فقہ کے قواعد و ضوابط روایات اور آیات کی روشنی میں اپنا نظریہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسے مفسرین کی نہ فقط مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی اخلاقی اور دینی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے کہ قرآن کریم جو اللہ کی طرف سے بشر کی ہدایت کے لئے آیا ہے، اس کی اس طرح تفسیر کریں تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور ہدایت پائیں، کیونکہ قرآن ہدایت کی خاطر آیا ہے، اس کا افہام اور تفہیم کرنا ہر دور میں فرض ہے،جو تفسیر کے بغیر ناممکن ہے ۔

۷۷

تفسیر بالرّای غیر مجاز: یعنی قرآن کے الفاظ اور آیات کی اس طرح تفسیر کرنا جو اپنے خیالات اور گما ن کے مطابق ہے، جس پر کوئی دلیل عقلی اور نقلی موجود نہیں ہے خود اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے صاحب نظر بھی نہیں ہے، ایسی تفسیر کے جواز اور حرمت کے بارے میں دو نظریے ہیں۔

1۔ ایسی تفسیر حرام ہے کیونکہ سورہ اعراف آیت 23 اور سورہ بقرہ آیت 169 اور سورہ اسراء آیت 36 کی روشنی میں کسی بات اور نظریہ کو علم و یقین اور دلیل کے بغیر فقط خیالات اور گمانوں کی بناء پر پیش کرناحرام ہے کہ جس کی مذمت اور حرمت آیات قرآنی کے علاوہ روایات صحیح السند اور معتبرہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے رجوع کیجئے۔ (1) ''لہذا من فسر القرآن برایہ فلیتبواء مقعدہ فی النار'' سے مراد ایسی تفسیر ہے۔

اور ہمارے دور میں بغیر پڑھے اور دینی مراکز میں تربیت علمی اور اخلاقی پائے بغیر فقط اسکولز اور کالج یا یونیورسٹی یا بغیر پڑھے لکھے مقررین کی کیسٹوں سے یاد کرکے تفسیر کرنے والے مقررین اور مقالہ نویس حضرات کی تفسیر جو معمولا بغیر اصول وضوابط کی تفسیرہوتی ہے، اس تفسیر کے زمرے میں داخل ہے ایسی تفسیرنہ فقط مذہب تشیع کی توہین کا

.......................................

(1)اصول کافی ،باب الاالرّی والمقاییس ، اصول کی مفصل کتابیں جیسے رسائل شیخ بحث ظواہر وغیرہ۔

۷۸

باعث اور شریعت میں حرام ہے بلکہ سیدھا سادہ ایمان رکھنے والے مسلمانوں کو لوٹنے کا ذریعہ بھی ہے، تاریخ اسلام میں ایسے مفسرین کا نام بھرا ہوا ہے۔

چنانچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے مفسرین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

''من فسّر القرآن برایه ان اصاب لم یؤجر و ان اخطاء فلیتبوا مقعده من النار ''

''اگر کوئی شخص اپنے خیال کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے اگرچہ واقع کے مطابق بھی ہو پھر بھی کوئی ثواب نہیں دیا جاتا ہے لیکن اگر واقع کے خلاف آئے تو اس کو جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ (1)

کیونکہ شیعہ امامیہ کے مفسرین نے ہر دور میں تفسیر قرآن کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت امام صادق کے علاوہ دیگر آئمہ کے کلام کی رو سے کیاہے ،نہ اپنا خیال اور گمان چونکہ آئمہ نے بارہا فرمایا:'' نحن مفسروا القرآن'''' ہم سے ہی قرآن کے بارے میں سوال کرو،ہم ہی قرآن کے مفسر ہیں،نیز دور حاضر میں کچھ لوگ خطیب زمان مثالی مقرر کی حیثیت سے یاپروفیسرز یا ڈاکٹر ز یا ماسٹرز اور ٹیچرز کی سند لیکر دینی مراکز اور حوزہ علمیہ میں تربیت پائے بغیر اور تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط یاد کئے بغیر قرآن کی تفسیر میں سرگرم

...........................................

(1)بحار الانوار،ج92،ص11)

۷۹

ہیں ایسے لوگوں کی دو قسمیں ہیں:

1۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریے کو نقل کرتے ہیں نہ اپنا خیال اور گمان ، اس میں نہ کوئی مذمت ہے اور نہ حرام ، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ تربیت یافتہ مفسرین اور مجتہدین کے نظریہ کو نقل کرنا تفسیر بالرّای نہیں ہے۔

2۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طر ح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریہ سے ہٹ کر اپنے خیال کے مطابق آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایسے لوگ نہ فقط مفسر نہیں ہیں بلکہ مذہب اورکتاب و سنت کی توہین کے مترادف ہے، بیشک وہ پڑھے لکھے ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہیں،لیکن تفسیر قرآن کرنا ان کا کام نہیں ہے ، لہذا جو لوگ تعلیمات اسلامی کے بنیادی اصول و ضوابط کو سکھائے بغیرفقط پڑھے اور لکھے ہونے کی حیثیت سے قرآن کی تفسیر کریں تو کتاب و سنت کی توہین کا باعث ہے ، جسکی سزا ہماری فقہی کتابوں میں بحث حدود و التعزیرات میں مجتہدین نے مفصل بیان کی ہے، رجوع کیجئے۔ (1)

نیز ایسی تفسیر کی مذمت اور حرمت پر اہل السنت کے محدثین اور محققین نے اپنی کتابوں میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے متعدد روایات کو نقل کی ہے، رجوع کیجئے. (2)

..........................................

(1)شرایع الاسلام ج2کتاب حدود و التعزیرات، مسالک ج7 کتاب حدود و التعزیرات، وسائل الشیعہ ج18، مراجع وقت کے رسالہ عملیہ وغیرہ )

(2)سنن ترمذی، سنن بیہقی، صحیح بخاری، صحیح مسلم)

۸۰